تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22118
ڈاؤنلوڈ: 2016


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22118 / ڈاؤنلوڈ: 2016
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۶۱،۶۲،۶۳،۶۴،۶۵،۶۶،۶۷،۶۸،۶۹،۷۰،۷۱،۷۲،۷۳،۷۴،۷۵،۷۶،۷۷

۶۱ ۔( فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ ) ۔

۶۲ ۔( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ مُنْکَرُونَ ) ۔

۶۳ ۔( قَالُوا بَلْ جِئْنَاکَ بِمَا کَانُوا فِیهِ یَمْتَرُونَ ) ۔

۶۴ ۔( وَاٴَتَیْنَاکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ) ۔

۶۵( فَاٴَسْرِ بِاٴَهْلِکَ بِقِطْعٍ مِنْ اللَّیْلِ وَاتَّبِعْ اٴَدْبَارَهُمْ وَلاَیَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ وَامْضُوا حَیْثُ تُؤْمَرُونَ ) ۔

۶۶ ۔( وَقَضَیْنَا إِلَیْهِ ذَلِکَ الْاٴَمْرَ اٴَنَّ دَابِرَ هَؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِینَ ) ۔

۶۷ ۔( وَجَاءَ اٴَهْلُ الْمَدِینَةِ یَسْتَبْشِرُونَ ) ۔

۶۸ ۔( قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَیْفِی فَلاَتَفْضَحُونِی ) ۔

۶۹ ۔( وَاتَّقُوا اللهَ وَلاَتُخْزُونِی ) ۔

۷۰ ۔( قَالُوا اٴَوَلَمْ نَنْهَکَ عَنْ الْعَالَمِینَ ) ۔

۷۱ ۔( قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِی إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِینَ ) ۔

۷۲ ۔( لَعَمْرُکَ إِنَّهُمْ لَفِی سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ ) ۔

۷۳ ۔( فَاٴَخَذَتْهُمْ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِینَ ) ۔

۷۴ ۔( فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّیل ) ۔

۷۵ ۔( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِین ) ۔

۷۶ ۔( وَإِنّهَا لَبِسَبِیلٍ مُقِیمٍ ) ۔

۷۷ ۔( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً لِلْمُؤْمِنِینَ ) ۔

ترجمہ

۶۱ ۔جس وقت (خدا کے) بھیجے ہوئے خاندان لوط کے پاس آئے ۔

۶۲ ۔(لوط نے) کہاتم انجانے افراد ہو ۔

۶۳ ۔انھوں نے کہا : ہم تیرے پاس وہی چیز لائے جس کے بارے میں وہ ( کافر) شک و تردد کرتے تھے ( ہم عذاب پر مامور ہیں ) ۔

۶۴ ۔ہم تیرے پاس حقیقت مسلمہ لائے ہیں اور ہم سچ کہتے ہیں ۔

۶۵ ۔لہٰذا رات کے آخرپہر اپنے گھر والوں کو ساتھ لے اور یہاں سے نکل پڑ۔تو ان کے پیچھے پیچھے چل تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اورجہاں کے لئے تمہیں کہا گیا ہے وہ وہاں چلے جاؤ۔

۶۶ ۔اورہم نے لوط کو وحی کی کہ صبح کے وقت ان سب کی جڑ اکھاڑ پھینکی جائے گی ۔

۶۷ ۔(دوسری طرف)اہل شہر کو ان کے آنے کا پتہ چل گیا اور وہ لوط کے گھر کی طرف آئے جبکہ وہ ایک دوسرے کوخوشخبری دے رہے تھے ۔

۶۸ ۔(لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں میری آبرو نہ گنواؤ۔

۶۹ ۔ خدا سے ڈو اور مجھے شرمندہ نہ کرو ۔

۷۰ ۔وہ کہنے لگے: کہ کیا ہم نے تجھے دنیا والوں ( کے ادھر آنے ) سے روکا نہ تھا ۔

۷۱ ۔اس نے کہا : اگر تم صحیح کا انجام دینا چاہتے ہو تو میری بیٹیاں حاضر ہیں ان سے شادی کرلو اور گناہ کی قباحت سے بچو ) ۔

۷۲ ۔ تیری جان کی قسم ! وہ اپنی مستی میں سر گرداں ہیں او ر اپنی عقل و شعور گنوا بیٹھے ہیں ۔

۷۳ ۔آخر کار طلوع آفتاب کے وقت (صاعقہ یا زمین کے زلزلے کی صورت میں ایک ہولناک چنگھاڑنے انھیں گھیرلیا ۔

۷۴ ۔اس کے بعد ( ان کے شہرر اور آبادی کو ہم نے زیر وزبر کردیا )وہ تہہ و با لا ہوگئے اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش فرمائی ۔

۷۵ ۔اس ( عبرت انگیز سر گذشت) میں سمجھداروں کے لئے نشانیاں ہیں ۔

۷۶ ۔اور ( قافلوں کے ) راستوں میں ان کے ویرانے ہمیشہ کے لئے بر قرار ہیں ۔

۷۷ ۔ ان میں ایمانداروں کے واسطے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر

قوم لوط کے گنہ گاروں کا انجام

گذشتہ آیات میں ہم نے ان فرشتوں کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کا حال پڑھا جو قوم ِ لوط پر عذاب کے لئے مامور تھے زیر نظر آیات میں ہم ان کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے چلے آنے اورحضرت لوط کے پاس آنے کا حال پوچھیں گے۔

پہلے فرمایا گیا ہے :جس وقت فرستادگان الہٰی خاندان لوط کے پاس آئے( فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ ) ۔

تو لوط نے ان سے فر مایا ”تم اجنبی لوگ ہو “۔( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ مُنْکَرُونَ ) ۔

مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان سے یہ بات اس لئے کہی کہ وہ بہت خوبصورت نوجوانوں کی صورت میں ان کے پاس آئے تھے اور ہوسکتا کہ ان کا آنا آپ کے لئے ایک مشکل کا باعث بن جاتا ۔ایک طرف وہ مہمان تھے محترم تھے اور ان کا آنا مبارک تھا اور دوسری ماحول انتہائی شرمناک اور مشکلات سے پر تھا اور اسی لئے سورہ ہود کی آیات میں یہی واقعہ جو کسی اور مناسبت سے آیا ہے وہاں ”سیء بھم “ کے الفاظ آئے ہیں یعنی یہ امر خدا کی طرف سے اس پیغمبر کے لئے سخت ناگوار تھا اور وہ ان کے آنے سے پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بہت ہی سخت ہے ۔

لیکن فرشتوں نے انھیں زیادہ دیر انتظار میں نہ رکھا اورصراحت کے ساتھ کہا کہ ہم تیرے پاس ایسی چیز لے کر آئے ہیں جس میں وہ شک رکھتے تھے ۔( قَالُوا بَلْ جِئْنَاکَ بِمَا کَانُوا فِیهِ یَمْتَرُونَ ) ۔یعنی ہم اس دردناک عذاب کے لئے مامور ہیں جس کے بارے میں تو انھیں تنبیہ کر چکا ہے لیکن انھوں نے اسے کبھی بھی سنجید گی سے نہیں لیا ۔

اس کے بعد انھوں نے بطور تاکید کہا : ہم تیرے لئے مسلم اور ناقابل تردید حقیقت لائے ہیں “ یعنی ہم اس بے ایمان اور منحرف قوم کے لئے حتمی عذاب اور قطعی سزا لے کر آئے ہیں( وَاٴَتَیْنَاکَ بِالْحَقّ ) ۔

پھر انھوں نے مزید تاکید کے لئے کہا : ہم یقینا سچ کہہ رہے ہیں “( وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ) ۔

یعنی یہ قوم اپنے لوٹنے کے تمام راستے تباہ کر چکی ہے اور ان کی شفاعت کا موقع اب باقی نہیں رہا یہ اس لئے کہ کہیں لوط ان کی سفارش کے لئے نہ سوچنے لگےں کہ یہ لوگ اب ہر گز شفاعت کی اہلیت نہیں رکھتے۔

نیز ضروری تھا کہ مومنین کا چھوٹا سا گروہ ( کہ جو ان کی بیوی کے سوااہل خاندان پر مشتمل تھا) اس ہلاکت انگیزی سے بچ جائے لہٰذا انھوں نے حضرت لوط کو ضروری احکامات دئیے ، کہنے لگے : رات کے وقت جب یہ گنہ گار لوگ سو جائیں یا شراب و شہوت میں مست ہو جائیں تم اپنے خاندان کو لے کر شہر کے باہر نکل جاؤ( فَاٴَسْرِ بِاٴَهْلِکَ بِقِطْعٍ مِنْ اللَّیْل ) ۔”لیکن تم ان کے پیچھے پیچھے رہنا“تاکہ ان کی نگرانی کرسکو ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہ جائے( وَاتَّبِعْ اٴَدْبَارَهُمْ وَلاَیَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ ) ۔”اور اسی مقام ( شام یا کوئی دوسرا علاقہ جہاں کے لوگ اس آلود گی سے پاک ہیں ) کی طرف چلے جاؤ“( وَامْضُوا حَیْثُ تُؤْمَرُونَ ) ۔

اس کے بعد گفتگوکا لب و لہجہ بدل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے”ہم نے لوط کو اس امر کی وحی کی کہ دمِ صبح سب کی ریشہ کنی ہو جائے گی “۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک فرد بھی نہیں بچے گا ۔( وَقَضَیْنَا إِلَیْهِ ذَلِکَ الْاٴَمْرَ اٴَنَّ دَابِرَ هَؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِینَ ) ۔

غور کیجئے گا ۔

قرآن اس واقعے کو یہیں چھوڑ کر ابتداء کی طرف لوٹتا ہے اور واقعے کا وہ حصہ جو ایک مناسبت کیو جہ سے وہاں رہ گیا تھا کہ جس کا ہم بعد میں ذکرکریں گے ، اسے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : شہر والوں کو جب لوط کے پاس آنے والے نئے مہمانوں کا پتہ چلا تو وہ ان کے گھر کی طرف چل پڑے ،راستے میں وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے تھے( وَجَاءَ اٴَهْلُ الْمَدِینَةِ یَسْتَبْشِرُونَ ) ۔گمراہی کی شرمناک وادی میں بھٹکنے والے ان افرادکا خیال تھا کہ گویا نرمال ان کے ہاتھ آگیا ہے خوبصورت اور خوش رنگ نوجوان اور وہ بھی لوط کے گھر میں ۔

”اہل مدینہ “ کی تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ کم از کم شہر کے بہت سے لوگ ٹولیوں میں حضرت لوط (علیہ السلام)کے گھر کی طرف چل پڑے۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک بے شرم ، ذلیل اور جسور تھے ۔ خصوصاً لفظ ”یستبشرون “ ( ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے)ان کی آلوگیوں کے گہرائی کی حکایت کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا شرمناک عمل ہے کہ شاید کسی نے ان کی نظیر جانوروں میں بھی بہت کم دیکھی ہو گی اور یہ عمل اگرکوئی انجام دیتا بھی ہے تو کم از چھپ چھپاکر اور احساس شرمندگی کے ساتھ ایسا کرتا ہے ، لیکن یہ بدکا ر کمینہ صفت قو،م کھلم کھلاایکدوسرے کو مبارک باد دیتی تھی ۔

حضرت لوط علیہ السلام نے جب ان کا شور غل سنا تو بہت گھبرائے اور مضطرب ہوئے انھیں اپنے مہمانوں کے بارے میں بہت خوف ہوا کیونکہ ابھی تک وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ مہمان مامورین عذاب ہیں قادر وقاہر خدا کے فرشتے ہیں لہٰذا وہ ان کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے : یہ میرے مہمان ہیں ،میری آبرو نہ گنواؤ“ قَالَ إِنَّ ھَؤُلَاءِ ضَیْفِی فَلاَتَفْضَحُونِی) ۔یعنی اگر تم خدا، پیغمبر اور جزاء اور سزا کے مسئلہ سے صرف نظر کرلو تو بھی کم از کم یہ انسانی مسئلہ ہے اور یہ بات تو سب انسانوں میں چاہے مومن ہوں یا کافر ،موجود ہے کہ وہ مہمانوں کااحترام کرتے ہیں تم کیسے انسان ہو کہ اتنی سی بات بھی نہیں مانتے ہو ۔ اگر تمہارا کوئی دین نہیں تو کم ازکم آزاد انسان توبنو ۔

اس کے بعد آپ نے مزید کہا:آؤ خدا سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے شرمسار نہ کرو( وَاتَّقُوا اللهَ وَلاَتُخْزُونِی ) ۔(۱)

لیکن ”خزی“ در اصل دور کرنے کے معنی میں ہے بعد ازاں شرمندگی کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ گویا لوط چاہتے تھے کہ ان مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرو اور انھیں مجھ سے دور نہ کرو ۔

لیکن وہ ، وہ بہت جسور اور منہ پھٹ تھے بجائے اس کے وہ شرمندہ ہوتے کہ انھوں نے اللہ کے پیغمبر لوط (علیہ السلام) سے کیسا مطالبہ کیا ہے الٹا اس طرح سے پیش آئے جیسا لوط سے کوئی جرم سر زد ہو اہے انھوں نے زبان اعتراض دراز کی اورکہنے لگے : کیا ہم نے تجھ سے نہ کہا تھا کہ دنیاوالوں کو اپنے ہاں مہمان نہ ٹھہرانا اورکسی کو اپنے ہاں نہ آنے دینا( قَالُوا اٴَوَلَمْ نَنْهَکَ عَنْ الْعَالَمِینَ ) ۔

تم نے اس کی خلاف ورزی کیوں کی اور ہمارے کہنے پر عمل کیوں نہ کیا ۔

یہ اس بناء پرتھا کہ یہ قوم انتہائی کم ظرف اور کنجوس تھی یہ لوگ ہر گز کسی کو اپنے ہاں مہمان نہیں ٹھہراتے تھے او ر اتفاق سے ان کے شہر قافلوں کے راستے میں پڑ جاتے تھے کہتے تھے کہ انھوں نے یہ کام بعض آنے والوں کے ساتھ اس لئے کیا کہ کوئی ان کے ہاں ٹھہرے نہ ۔ آہستہ آہستہ ان کی عادت بن گیا لہٰذا جب حضرت لو ط کو شہر میں کسی مسافر کے آنے کی خبر ہوتی تو اسے اپنے گھر میں دعوت دیتے تاکہ وہ کہیں ان کے چنگل میں نہ پھنس جائے ان لوگوں کو جب اس کا پتا چلتا تو بہت سیخ پا ہوئے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے کھل کر کہنے لگے تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اب تم کسی مہمان کو اپنے گھر لے جاؤ۔

لہٰذا یوں لگتا کہ زیر نظر آیت میں لفظ ”عالمین “ مسافروں اور ایسے افراد کی طرف اشارہ ہے جو اس شہر اور علاقے کے رہنے والے نہ تھے اور ان کا صرف وہاں سے گذر ہوتا تھا ۔

بہرحال حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کی یہ جسارت اور کمینگی دیکھی تو انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا تاکہ انھیں خواب غفلت اور انحراف و بے حیائی کی مستی سے بیدار کرسکیں ۔آپ نے کہا : تم کیوں انحراف کے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسی تقاضوں کو پورا کرنا ہے تو جائز اور صحیح طریقے سے شادی کرکے انھیں پورا کیوں نہیں کرتے ،یہ میری بیٹیاں ہیں (میں تیار ہو ں کہ انھیں تمہاری زوجیت میں دے دوں )اگر تم صحیح کام انجام دینا چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے( قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِی إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِینَ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ حضرت لوط(علیہ السلام) کی تو چند بیٹیاں تھیں اور ان افراد کی تعداد زیادہ تھی لیکن مقصد یہ تھا کہ ان پر اتمام حجت کیا جائے اور کہاجائے کہ میں اپنے مہمانوں کے احترام اور حفاظت اور تمہیں برائی کی دلدل سے نکالنے کے لئے اس حد تک ایثار کے لئے تیار ہوں ۔

بعض نے یہ بھی کہا کہ ’ھوء لاء بناتی “سے مراد شہر کی بیٹیاں ہیں اور روحانی باپ کے اعتبار سے انھوں نے سب کو اپنی بیٹیاں کہاں ہے لیکن پہلی تفسیر اایت کے معنی کے زیادہ نزدیک ہے ۔

بغیر کہے واضح ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) یہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی بیٹیاں گمراہ مشرکین کی زوجیت میں دے دیں بلکہ ان کا مقصد تھا کہ آؤ ! ایمان لے آؤاور اس کے بعد میں اپنی بیٹیاں تمہارے عقد میں دے دوں گا ۔

لیکن فسوس شہوت ،انحراف اور ہٹ دھرمی کے اس عالم میں ان میں ذرہ بھر بھی انسانی اخلاق اور جذبہ باقی ہوتا تو کم از کم اس امر کے لئے کافی تھا کہ وہ شرمندہ ہوتے اورپلٹ جاتے مگر نہ صرف یہ کہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلکہ اپنے جسارت میں اوربڑھ گئے اور چاہا کے حضرت لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں کی طرف ہاتھ بڑھائیں ۔

اس مقام پر اللہ تعالیٰ روئے سخن رسول اسلام کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے :تیری جان اور زندگی کی قسم !وہ اپنی مستی میں سخت سر گرداں تھے( لَعَمْرُکَ إِنَّهُمْ لَفِی سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ ) ۔

سورہ ہود میں اسی قسم کی بحث کے بعد ہے کہ فرشتوں نے اپنی مامویت سے پر دہ اٹھایا اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر کہنے لگے :ڈرئیے نہیں یہ لوگ آپ کو ئی تکلیف نہیں پہنچاسکتے ۔

سورہ قمر آیہ ۳۷ میں ہے کہ جب ان کی جسارت اور بڑھ گئی اور انھوں نے مہمانوں پر تجاوز کا مصمم ارادہ کرلیا تو ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ قرآن کے الفاظ میں ۔( ولقد راو دوه عن ضیفه فطمسنااعینهم )

(انھوں نے ان کے مہمانوں کے بارے میں ناجائز خواہش کی تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں )

بعض روایت میں آیا ہے کہ ایک فرشتے نے مٹھی بھر مٹی ان کے چہرے پر پھینک دی تو وہ سب اندھے ہو گئے ( اور چیختے چلاتے پلٹ گئے ) ۔

اس مقام پر اس قوم کے بارے میں اللہ کی گفتگوانتہاء کو پہنچ جاتی ہے وہ دو جچی تلی اور مختصر آیات میں ان کا منحوس انجام پڑ ے قاطع تباہ کن اور عبرت انگیز صورت میں بیان کرتا ہے اور کہتا ہے : آخر کار طلوع آفتاب کے وقت وحشت ناک چنگھاڑ نے ان سب کو گھیر لیا( فَاٴَخَذَتْهُمْ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِینَ ) ۔

یہ”صیحہ“ہوسکتا ہے کہ ایک عظیم صاعقہ یا وحشت ناک زلزلہ کی آواز ہو ۔ بہر حال ایک بہت بڑی چنگھاڑ تھی ۔ اس کی وحشت سے سب کے سب بے ہو ش ہو گئے یا مر گئے ۔ہم جاتے ہیں کہ آواز کی لہریں جب ایک معین حد سے بڑھ جائیں تو تکلیف دہ اور وحشت ناک ہوتی ہیں اور اس سے بھی بڑھ جائیں تو انسان کو بیہوش کردیتی ہیں یا پھر موت کا سبب بن جاتی ہیں یہاں تک کہ ہوسکتا ہے کہ وہ عمارتوں کو تباہ کردیں ۔

لیکن ہم نے اسی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ ان کے شہر کو ہم نے بالکل زیر و زبر کردیا اور عماتوں کے اوپر والے حصے نیچے اور نیچے والے اوپر کردئے( فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا ) ۔

ان کے لئے یہ عذاب بھی کافی نہ تھا ۔ اس پر ہم نے ان پر پتھریلے کنکروں کی بارش برسائی( وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّی ) ۔

پتھروں کی یہ بارش ہو سکتا ہے ان لوگوں کے لئے ہو جو اس وقت وحشت ناک چنگھاڑ سے نابود نہیں ہوئے تھے یا جو اسی گر می و عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے تھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ناپاک اجساد اور ناپاک آثار کو محو کرنے کے لئے ہو شہر کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ پتھروں کی بارش کے بعد کوئی شخص اس علاقے سے گذرتا تو آسانی سے باور نہیں کرسکتا تھا کہ کبھی اس علاقے میں ایک شہر آباد تھا ۔

یہ تین عذاب ( وحشت ناک چنگھاڑ، شہر کا تہہ و بالا ہونا اور پتھروں کی بارش ) کیوں تھے جبکہ ان میں سے ہر ایک اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے کافی تھا ۔

ایسا یا تو ان کے گناہ کی شدت اور بے حیائی میں ان کے جسور ہونے کی بناء تھا یا دوسروں کے لئے عبرت کی خا طر اللہ نے ان پر عذاب کو کئی گنا کردیا ۔؟

یہ وہ مقام ہے جہاں قرآن تربیتی اور اخلاقی نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کہتا ہے : اس واقعہ میں باہوش لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِین ) ۔

جو اپنی خاص فراست و دانائی کی وجہ سے ہو ، علامت سے واقعہ ہر اشارے سے حقیقت اور ہر نکتے سےاہم تربیتی مطلب اخذ کرلیتے ہیں ۔(۱)

لیکن یہ تصور نہ کریں کہ ان کے آثار بالکل ختم ہو گئے ہیں ۔ نہیں ”قافلوں اور راہ گیروں کے لئے ہمیشہ برقرار ہیں “( وَإِنّهَا لَبِسَبِیلٍ مُقِیمٍ ) ۔

اگر تم باور نہیں کرتے تو اٹھ کھڑے ہواور ان تباہ حال شہروں کے ویرانوں کو جاکر دیکھو کہ جو شامکے ایک راستے مدینہ جانے والوں مسافروں کے لئے موجود ہیں ، دیکھو اور ان میں غور کرو، عبرت حاصل کرو، خدا کی طرف پلٹ آؤ راہ توبہ اختیار کرواور اپنے قلب و روح کو غلاظتوں سے پاک کرلو ۔

تاکید مزید کے لئے اور اہل ایمان کو اس عبرت انگیز داستان میں غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے : اس واقعہ میں اہل ایمان کی نشانیاں ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً لِلْمُؤْمِنِینَ ) ۔

کیسے ممکن ہے کہ کوئی صاحبِ ایمان یہ ہلادینے والا واقعہ پڑھے اور اس سے عبرت حاصل نہ کرے ۔

”سجیل “ سے کیا مراد ہے ، اس گناہ گار قوم پر پتھروں کی بارش کیوں برسی؟ان کے شہر تہ و بالا کیوں ہوئے ،نزول عذاب صبح کے وقت کیوں ہوا ؟ خاندان لوط سے کیوں کہا گیا کہ پلٹ کر نہ دیکھیں اور قوم لوط کا اخلاق ان سب امور کے لئے سورہ ہود کی تفسیر میں ہم کافی بحث کرچکے ہیں ۔

(تفسیر نمونہ جلد ۹ ص تا ص ( اردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے )

چند اہم نکات

۱ ۔ ”قطع من اللیل “ سے کیا مراد ہے ؟

”قطع“رات کی تاریکی کے معنی میں ہے ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں :

گویا ”قطع“”قطعة“ کی جمع ہے لہٰذا مذکورہ بالا آیت میں اس سے مراد رات کا زیادہ حصہ ہے ۔

لیکن مفردات میں راغب کے بقول معلو م ہوتا ہے کہ ” قطع“ ” قطعة“ معنی میں ہے او ر مفرد ہے ۔

البتہ بہت سے مفسرین کے بقول یہ لفظ رات کے آخری حصہ اور وقت سحر کے معنی میں ہے ، شاید یہ تفسیر قرآن کی بعض دوسری آیات کی بناء پرہے کہ جو صراحت سے آلِ لوط کے بارے میں کہتی ہیں ۔( نجینا هم بسحر )

ہم نے انھیں وقت سحر نجات دی (قمر ۳۴)

یعنی اس وقت کہ جب شہوت پرست آلودہ دامن لوگ خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے تھے ، شراب ، غرور اور شہتی کی مستی ان کے وجود میں چھائی ہوئی تھی اور آل لوط کے شہر سے نکلنے کے لئے فضا بالکل ساز گار تھی پس وہ نکل کھڑے ہوئے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ انھی تباہ کرنے والی سزا اور عذاب کی ابتداء بھی دم ِصبح طلوع آفتاب کے وقت ہوئی شاید یہ وقت اس لئے منتخب کیا گیا کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر یورش کرنے والے سب اندھے ہوگئے اور گھروں کے لوٹ گئے تو ممکن تھا وہ کچھ نہ کچھ سوچ میں پڑ جائیں ،لہٰذا رات انھیں مہلت کے طور پر دی گئی کہ شاید وہ تو بہ کرلیں اور تلافی کا راستہ اختیار کریں ۔

بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جب گھرو ں کو لوٹ گئے تو ان میں سے بعض نے قسم کھائی کہ ہم صبح خاندان ِلوط (علیہ السلام)کے کسی فرد کو زندہ نہیں چھوڑیں گئے ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی اقدام کرتے ، عذاب ِ الٰہی نے انھیں کاٹ کردکھ دیا ۔( نور الثقلین جلد ۲ صفحہ ۳۸۵)

۲ ۔”( وامضواحیث تؤمرون ) “کی تفسیر

ہم بتا چکے ہیں کہ فرشتوں نے خاندان لوط کو نصیحت کی کہ آخر شب اس علاقے کی طرف چلے جائیں جہاں کا تمہیں حکم دیا گیاہے ۔

اس جگہ کے بارے میں آیات قرآن اس سے زیادہ وضاحت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں مفسرین نے بہت سی مختلف باتیں کی ہیں ۔

بعض نے کہا ہے کہ ان سے کہا گیا کہ سر زمین شام کی طرف چلے جائیں کہ جہاں کاماحول نسبتاً پا ک تھا ۔

بعض نے کہا کہ فرشتوں نے ایک خاص بستی کا ذکر اور انھیں نصیحت کی کہ وہاں چلے جائیں ۔

تفسیر المیزان میں اس جملے سے یہ استفادہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے راستے کے لئے ایک طرح کی الہٰی ہدایت او ر حقیقی راہنمائی رکھتے تھے اور وہ اس کے مطابق چلے ۔

۳ ۔” متوسم “ اورر”مومن “ کے درمیان واسطہ

مندرجہ بالا آیات میں ہم دیکھا ہے کہ کبھی فرمایاگیا ہے کہ قوم لوط کے عبرت انگیز انجام میں ”متوسمین “ کے لئے نشانیاں ہیں اور کبھی ارشاد ہوتا ہے ” مؤمنین “ کے لئے ۔ ان دونوں تعبیروں کے درمیان ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ حقیقی ”مومنین “” متوسم“ یعنی صاحب فراست ، فوراً بات کی تہہ تک پہنچ جانے والے اور بہت سمجھدار ہوتے ہیں ۔

ایک ر وایت میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیہ السلام) سے ”” ان فی ٰلک لٰا یٰة للمتوسمین “ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا :

اس سے مراد امت اسلامی ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا:قال رسول الله : اتقوا فراسة المؤمن ، فانه ینظر بنور الله عز وجل

رسول اللہ نے فرمایا: مومن کی فرست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الہٰی سے دیکھتا ہے ۔(۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:متوسمین آئمه هیں ۔( نور الثقلین جلد ۳ صفحہ ۲۳ ۔)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے :

رسول اکرم متوسم تھے ، ان کے بعد میں ہوں اور میرے بعد میری اولاد اور ذریت سے امام ہیں ۔ (نور الثقلین جلد ۳ صفحہ ۲۳) ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین جلد ۳ صفحہ ۲۳۔

۴ ۔ شہوت و غرور کی مستی

اگر چہ شراب کی مستی مشہور ہے لیکن شراب سے بالات مستیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان میں سے مقام و منصب ، شہرت اور خواہش نفسانی کی مستی ہے ۔ مذکورہ بالاآیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی جان کی قسم کھاکر کہتا ہے کہ یہ لوگ اپنی مستی میں سر گرداں اور انتہائی واضح راہ نجات بھی انھیں سجھائی نہیں دیتی ۔ معاملہ یہاں تک جاپہنچا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) جیسے اپنی بیٹیاں ان کے نکاح میں دینے کو تیار ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اپنی نفسانی خواہشات حلا ل و مشرو ع طر یقے سے پو را کر سکیں اور آلودگی گناہ اور شرمناک زندگی سے نجات پا سکیں لیکن وہ پھر بھی ان کی بات کو ٹھکرادیتے ہیں ۔

ضمنی طور یہ پیغمبر بزرگوار ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ مفاسد کو روکنے کے لئے صرف نفی پر بس نہ کی جائے بلکہ اثبات کا بھی سہارا لیا جائے یعنی انسان کے فطری تقاضے صحیح طور پر پورے ہونے چاہئیں تاکہ وہ خرابی کی طرف مائل نہ ہو ں اگر قوم لوط کے فاسد افراد ایسے تھے جن پر یہ مثبت طریقہ اثر انداز نہ ہوا لیکن عام طور پر یہ طریقہ بہت موثر ہوتا ہے ۔

جب ہم غلط اور غیر صحیح سرگرمیوں کو روکنا چاہیں تو پہلے ہمیں لوگوں کے لئے صحیح اور درست سر گرمیاں فراہم کرنا چاہئیں ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) جیسے بااستقامت پیغمبر تقریباًتیس سال اس پست اور کمینہ خصلت قوم میں پیدا کرتے رہے لیکن ان کے گھر والوں کے کوئی ان پر ایمان نہ لایا (اور اس میں بھی ان کی بیوی مستثنیٰ ہے )(۱)

یہ تمام استقامت کس قدر پر شکوہ ہے وہ بھی ایسے کمینہ خصلت لوگوں میں جن میں انسان ایک گھنٹہ بھی زندگی گذارے تو عاجز آجائے اور کس قدر تکلیف دہ ہے وہ ایسی بیوی کے ساتھ زندگی گذارنا ۔

سورہ ذاریات کی آیہ ۳۵،۳۶ میں ہے :( فاخرجنا من کان فیها من المؤمنین فماوجدنا فیها غیر بیت من المسلمین )

ہم نزول بلا سے پہلے اس زمین سے ان تمام افراد کو نکال لے گئے جو ایمان لائے تھے لیکن وہاں ایک اہل ایمان خاندان کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا ۔یہاں بھی واضح ہو جاتا ہے کہ خدائی عذاب کبھی بھی خشک اور تر دونوں کو نہیں جلاتا یہاں تک کہ اگر ایک سچا مومن اور احساس ذمہ داری رکھنا والا مومن ہوتو اسے بھی نجات بخشتا ہے ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین جلد ۳ صفحہ ۳۸۲۔

آیات ۷۸،۷۹،۸۰،۸۱،۸۲،۸۳

۷۸( وَإِنْ کَانَ اٴَصْحَابُ الْاٴَیْکَةِ لَظَالِمِینَ ) ۔

۷۹ ۔( فَانْتَقَمْنَا مِنْهمْ وَإِنَّهمَا لَبِإِمَامٍ مُبِینٍ ) ۔

۸۰ ۔( وَلَقَدْ کَذَّبَ اٴَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِینَ ) ۔

۸۱ ۔( وَآتَیْنَاهُمْ آیَاتِنَا فَکَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِینَ ) ۔

۸۲) ۔( وَکَانُوا یَنْحِتُونَ مِنْ الْجِبَالِ بُیُوتًا آمِنِینَ ) ۔

۸۳ ۔( فَاٴَخَذَتْهُمْ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِینَ ) ۔

ترجمہ

۷۸ ۔اصحاب ایکہ (سرسبز مین والے شعیب کی قوم)یقینا ستمگر قوم تھی ۔

۷۹ ۔ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان دونوں قوم (ثمود اور اصحاب ایکہ) کے تباہ شدہ شہر سر را ہ آشکار ہیں ۔

۸۰ ۔اصحاب الحجر(قوم ثمود)نے مرسلین کی تکذیب کی ۔

۸۱ ۔ہم نے ان کے لئے اپنی آیات بھیجیں لیکن انھوں نے اس سے روگردانی کی ۔

۸۲ ۔ وہ پہاڑوں کے اندر اپنے امن و امان والے گھر تراشتے تھے ۔

۸۳ ۔لیکن آخر کا(ہلاکت آفرین )چنگھاڑ نے صبح کے وقت انھیں آگھیرا ۔

۸۴ ۔اور جو کچھ وہ حاصل کرچکے تھے عذاب الہٰی سے نجات کے لئے ان کے کام نہ آیا ۔

تفسیر

دو ظالم قوموں کا انجام

ان آیات میں قرآن دو گذشتہ اقوام کی سر گذشت کی طرف اشارہ کرتا ہے ایک کو” اصحاب الایکہ “ کہ اگیا ہے اور دوسری” اصحاب الحجر“ ان میں گذشتہ آیات قوم لوط کے بارے میں جو عبرت انگیز مباحث آئی ہیں انکی تکمیل کی گئی ہے پہلےارشاد ہوتا ہے :یقینا اصحاب ایکہ ظالم اور ستمگر لوگ تھے( وَإِنْ کَانَ اٴَصْحَابُ الْاٴَیْکَةِ لَظَالِمِینَ ) ۔(۱)

اور ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کی ستم گریوں اور سرکشیوں پر انھیں عذاب دیا( فَانْتَقَمْنَا مِنْهمْ ) ۔

ان لوگوں کا علاقہ اور قوم لوط کہ جس کی داستان گزرچکی ہے ، کی سر زمین تمہارے راستے میں واضح طورپر موجود ہے( وَإِنَّهمَا لَبِإِمَامٍ مُبِینٍ ) ۔

پس آنکھیں کھولو ان کا انجام دیکھو اور ان سے عبرت حاصل کرو ۔

____________________

۱۔لفظ ”ان “ اس آیت میں شرطیہ نہیں ہے بلکہ ”مثقلہ “سے ”مخففہ“ ہے اور تقدیر میں اس طرح ہے (انہ کان اصحاب الایکة لظالمین )