الاحادیث النبویۃ
۱. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے: سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حاکم نے بھی فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔
وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: بُعِثَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الإِثْنَيْنِ وَصَلّٰي عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّ.لَاثَاءِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔
۲. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم غَدَاة وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَه، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ رضي اﷲ عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَه، ثُمَّ قَالَ: ﴿إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا﴾.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
۳. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : ﴿إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا﴾ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا رضی الله عنهم فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَائٍ، وَعَلِيٌّ رضی الله عنه خَلْفَ ظَهرِه فَجَلَّلَه بِکِسَائٍ، ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ، هٰؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ نَحْوَهُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰي شَرْطِ الْبُخَارِيِّ.
’’پروردئہ نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسینث کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا: اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ اور حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے۔
۴.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الآيَةُ: ﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى﴾ قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَائِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: ’’اے محبوب! فرما دیجیے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے یہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور ان کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
۵.عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ وَ قَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَه عَلِيٌّ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰي إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي. وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ يَوْمَ خَيْبَرَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُوْلُه قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: ادْعُوْا لِي عَلِيًّا فَأُتِيَ بِه أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ. فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. وَلَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ: ﴿
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُوْ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَ کُمْ
﴾ [آل عمران، ۳ : ۶۱]، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، هٰؤُلَآءِ أًهْلِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض غزوات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) چھوڑ دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا کہ کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، سو ہم سب اس سعادت کے حصول کے انتظار میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کو میرے پاس لاؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، اس وقت وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور انہیں جھنڈا عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا اور جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’آپ فرما دیجیے آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور کہا: اے اللہ! یہ میرا کنبہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۶. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ عَلِيًّا رضی الله عنه حَمَلَ الْبَابَ يَوْمَ خَيْبَرَ حَتّٰی صَعِدَ الْمُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا. وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُوْنَ رَجُلاً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْخَطِيْبُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْعَسْقَ.لَانِيُّ: قُلْتُ: لَهُ شَاهِدٌ مِنْ حَدِيْثِ أَبِي رَافِعٍ رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي مُسْنَدِه لٰکِنْ لَمْ يَقُلْ أَرْبَعُوْنَ رَجُلًا. وَقَالَ الْهِنْدِيُّ: حَسَنٌ.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ (اُکھاڑ کر) اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کر لیا اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ اس دروازے کو چالیس آدمی مل کر اُٹھاتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، خطیب بغدادی، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی مثال حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے لیکن اس میں چالیس آدمیوں کا ذکر نہیں کیا۔ امام متقی ہندی نے اسے حسن کہا ہے۔
۷.عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه، قَالَ: خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَتُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ: أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰي؟ إِلَّا أَنَّه لَا نَبِيَّ بَعْدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں (اپنا نائب بنا کر)چھوڑا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
۸.عَنْ زِرٍّ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسْمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
’’حضرت زِر (بن حبیش) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا! حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔۔
۹. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان کیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا: (اے علی!) مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
’’حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابویعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۱۱. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم انصار لوگ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
۱۲. عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَرِيْحَةَ . أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَدْ رَوَي شُعْبَةُ هٰذَا الْحَدِيْثَ عَنْ مَيْمُوْنٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم
وَقَدْ رُوِيَ هٰذَا الْحَدِيْثُ عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةَ في الْکُتُبِ الْآتِيَةِ:
وَقَد رُوِيَ هٰذَا الْحَدِيْثُ أيضًا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه في الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.
وَقَدْ رُوِيَ هٰذَا الْحَدِيْثُ عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ:
وَقَدْ رُوِيَ هٰذَا الْحَدِيْثُ عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ:
وَقَدْ رُوِيَ هٰذَا الْحَدِيْثُ عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ:
’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابو سریحہ ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اﷲ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
۱۳. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، في رواية طويلة: إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِي: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
۱۴. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ، وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، إِلاَّ أَنَّه لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ فِي الْخَصَائِصِ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوہ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا:میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور امام نسائی نے خصائص علی بن ابی طالب میں روایت کیا ہے۔
۱۵.عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَة، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَکَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُه، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَغَيَرُ، فَقَالَ: يَا بُرَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِْن أَنْفُسِهِمْ؟ قُلْتُ: بَلٰی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تنقیص کی تو میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ تو میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
۱۶. عَنْ عَمَرٍو ذِي مُرٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي اﷲ عنهما قَالَا: خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَقَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اَللّٰهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَأَعِنْ مَنْ أَعَانَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالنَّسَائِيُّ فِي الْخَصَائِصِ.
’’عمرو ذی مر اور زید بن ارقم رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔‘‘
اس حدیث کوامام طبرانی اور نسائی نے خصائص میں روایت کیا ہے۔
۱۷.عَنْ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلٰی سَهلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه فَقَالَ: هٰذَا فُ. لَانٌ لِأَمِيْرِ الْمَدِيْنَةِ يَدْعُوْ عَلِيًّا رضی الله عنه عِنْدَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ: يَقُوْلُ لَه: أَبُوْ تُرَابٍ. فَضَحِکَ. قَالَ: وَاﷲِ، مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَا کَانَ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوحازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ فلاں شخص امیر مدینہ حضرت علی کو منبر پر بیٹھ کر برا بھلا کہتا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا: آخر وہ کہتا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ انہیں ابو تراب کہتا ہے۔ آپ یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمایا: خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا ہے اور خود انہیں کوئی نام اس نام سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
۱۸. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ: إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں۔
وفي رواية: قَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ (عبد اﷲ بن أحمد بن محمد بن حنبل): وَجَدْتُ فِي کِتَابِ أَبِي (أحمد بن محمد بن حنبل) بِخَطِّ يَدِه، فِي هٰذَا الْحَدِيْثِ، قَالَ: أَوَ مَا تَرْضَيْنَ أَنْ زَوَّجْتُکِ أَقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَأَکْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَأَعْظَمَهُمْ حِلْمًا؟
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
’’ایک روایت میں حضرت ابو عبد الرحمن (عبد اﷲ بن احمد بن محمد بن حنبل) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (امام احمد بن محمد بن حنبل) کی کتاب میں ان کے ہاتھ کی لکھی تحریر میں یہ (الفاظ) پائے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں نے تمہارا نکاح اپنی امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ، سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ بردبار شخص سے کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں۔
۱۹. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاه، فَقَالَ النَّاسُ: لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّه، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُه وَلٰکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے نہیں کی، بلکہ خود اﷲ نے اس سے سرگوشی کی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ابی عاصم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۲۰. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ: يَا عَلِيُّ، لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يُجْنَبُ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ: قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ: مَا مَعْنٰی هٰذَا الْحَدِيْثِ؟ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِي وَغَيْرُکَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ امام علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کا معنی پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرناہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، بزار اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۲۱. عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ قَالَتْ: بَعَثَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ، لَا تُمِتْنِي حَتّٰی تُرِيَنِي عَلِيًّا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعاکررہے تھے: یااﷲ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک تو مجھے علی کو(خیرو عافیت سے) نہ دکھا دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۲۲. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کر سکتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۳. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما، قَالَ: آخٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ أَصْحَابِه فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِکَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ. فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: (اے علی!) تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔‘‘
اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۲۴. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه: کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِي، وَإِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن ہند جملی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی مجھ سے ہی ابتداء فرماتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
۲۵. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هٰذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَکَلَ مَعَه.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
۲۶. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلٰی عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَسَءَلْتُ: أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَتْ: فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ: زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے پوچھا: لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ آپ نے فرمایا: حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا۔ پھر کہا گیا: اور مردوں میں سے (کون سب سے زیادہ محبوب تھا)؟ آپ نے فرمایا: ان کے شوہر اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
۲۷. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَحَبَّ النِّسَائِ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاطِمَةُ وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
۲۸.عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعَليٌّ بَابُهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
۲۹. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِيْنَةَ فَلْيَأتِ الْبَابَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔‘‘
اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
وفي رواية: عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: وَاﷲِ، مَا نَزَلَتْ آيَة إِلَّا وَقَدْ عَلِمْتُ فِيْمَا نَزَلَتْ وَأَيْنَ نَزَلَتْ وَعَلٰی مَنْ نَزَلَتْ، إِنَّ رَبِّي وَهَبَ لِي قَلْبًا عَقُوْلًا وَلِسَانًا طَلْقًا. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ سَعْدٍ.
’’ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کس جگہ اور کس پر نازل ہوئی۔ بے شک میرے رب نے مجھے بہت زیادہ سمجھ والا دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے۔‘‘
اسے امام ابونعیم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
۳۰. عَنْ حَنَشٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رضی الله عنه يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَه: مَا هٰذَا؟ فَقَالَ: أَوْصَانِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ. وزاد أحمد: فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ أَبَدًا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰي. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں، لہذا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔‘‘ امام احمد نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: لہذا میں ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
۳۱. عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ لِي: أَ يُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْکُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اﷲِ، أَوْ سُبْحَانَ اﷲِ أَوْ کَلِمَة نَحْوَهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
’’حضرت عبد اﷲ جدلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے فرمایا: کیا تم لوگوں میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا: اﷲ کی پناہ یا اﷲ کی ذات پاک ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا تو انہوں نے فرمایا: میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوے سنا ہے کہ جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
۳۲. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: اشْتَکٰی عَلِيًّا النَّاسُ. قَالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُه يَقُوْلُ: أَيُهَا النَّاسُ، لَا تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ، إِنَّه لَأَخْشَنُ فِي ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ سو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میںبہت سخت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابو نعیم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
۳۳. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: أَنَّ النبي صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِيْ أَحَدٌ مِنَّا يُکَلِّمَه غَيْرَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمکلام ہونے کی جرات نہ ہوتی تھی سوائے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
۳۴. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، أَنْتَ سَيدٌ فِي الدُّنْيَا سَيدٌ فِي الْآخِرَةِ، حَبِيْبُکَ حَبِيْبِي، وَحَبِيْبِي، حَبِيْبُ اﷲِ، وَعَدُوُّکَ عَدُوِّي، وَعَدُوِّي، عَدُوُّ اﷲِ، وَالْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا: اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے۔ اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے۔ اور اس کے لیے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔
۳۵. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ: طُوْبٰی لِمَنْ أَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِيْکَ، وَوَيْلٌ لِمَنْ أَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِيْکَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے فرماتے ہوئے سنا: (اے علی!) مبارکباد ہو اسے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے۔ اور ہلاکت ہو اس کے لیے جو تجھ سے بغض رکھتاہے اور تجھے جھٹلاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، ابویعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اور حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
۳۶.عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَنَا سَيدُ وَلَدِ آدَمَ، وَعَلِيٌّ سَيدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں (تمام) اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی (تمام) عرب کا سردار ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وفي رواية: عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اُدْعُوْا لِي سَيدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَلَسْتَ سَيدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ: أَنَا سَيدُ وَلَدِ آدَمَ، وَعَلِيٌّ سَيدُ الْعَرَبِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں( تمام) اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی (تمام) عرب کا سردار ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
۳۷. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقاَلَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَشَوَاهِدُه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه صَحِيْحَةٌ.
وفي رواية عنه: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، وَأَيضًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس کے شواہد صحیح ہیں۔
ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہی روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية: عَنْ طَلِيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: رَأَيْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رضی الله عنه يُحِدُّ النَّظَرَ إِلٰی عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقِيْلَ لَه، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’ایک روایت میں حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا (کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟) انہوں نے فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما دونوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية: عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: رَأَيْتُ أَبَا بَکْرٍ يُکْثِرُ النَّظَرَ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لَه: يَا أَبَتِ، أَرَاکَ تُکْثِرُ النَّظَرَ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ فَقَالَ: يَا بُنَيَةُ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية: عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ الصِّدِّيْقَةِ ابْنَةِ الصِّدِّيْقِ، حَبِيْبَةِ حَبِيْبِ اﷲِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قُلْتُ لِأَبِي: إِنِّي أَرَاکَ تُطِيْلُ النَّظَرَ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالَ لِي: يَا بُنَيَةُ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلنَّظَرُ فِي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية: عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ سو میں نے ان سے پوچھا: اے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے بیان کیا ہے۔
ایک روایت میں حضرت عروہ رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ بنت صدیق، حبیبہ، حبیب اﷲ رضی اﷲ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے والد (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) سے عرض کیا: بے شک میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے)؟ تو انہوں نے فرمایا: اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: علی کے چہرے کی تکنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے بیان کیا ہے۔
ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ آپ نے بیان کیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنها يَقُوْلُ: رَجَعَ عُثْمَانُ إِلٰی عَلِيٍّ فَسَأَلَهُ الْمَصِيْرَ إِلَيْهِ فَصَارَ إِلَيْهِ فَجَعَلَ يُحِدُّ النَّظَرَ إِلَيْهِ. فَقَالَ لَه عَلِيٌّ: مَا لَکَ يَا عُثْمَانُ، مَا لَکَ تُحِدُّ النَّظَرَ إِلَيَّ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، کی طرف آئے اور انہیں اپنے پاس آنے کے لیے کہا، سو (جب) حضرت علی رضی اللہ عنہ، ان کے پاس آئے تو وہ انہیں لگاتار (بغیر نظر ہٹائے) دیکھنے لگے۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عثمان! کیا ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ آپ مجھے اس طرح مسلسل نگاہ جمائے دیکھ رہے ہیں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔۔
وفي رواية: عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ عَلِيٍّ فِيْکُمْ أَوْ قَالَ فِي هٰذِةِ الأُمَّةِ کَمَثَلِ الْکَعْبَةِ الْمَسْتُوْرَةِ النَّظَرُ إِلَيْهَا عِبَادَةٌ، وَالْحَجُّ إِلَيْهَا فَرِيْضَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’ایک روایت میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کی مثال تمہارے درمیان یا فرمایا: اس امت میں غلاف والے کعبہ کی سی ہے۔ اس کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور اس کی طرف حج کرنا فرض ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية: عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ذِکْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی کا ذکر کرنا عبادت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
۳۸. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتّٰی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرماتے: علی اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر (اکھٹے) آئیں گے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
۳۹. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ: يَا عَلِيُّ، اَلنَّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّٰی، وَأَنَا وَأَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ وَاحِدَةٍ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ﴿وَجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ
﴾ (الرعد، ۱۳: ۴).
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا: اے علی! لوگ جدا جدا نسب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں اور تم ایک ہی نسب سے ہیں۔ پھر آپ نے (سورہ رعد کی اس آیہ مبارکہ کی) تلاوت فرمائی: ’’اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جھنڈدار اور بغیر جھنڈ کے، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔۔
۴۰. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أُوْحِيَ إِلَيَّ فِي عَلِيٍّ ثَلَاثٌ: أَنَّهُ سَيدُ الْمُسْلِمِيْنَ، وَإِمَامُ الْمُتَّقِيْنَ، وَقَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِيْنَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ اس نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری طرف علی کے بارے میں تین باتوں کی وحی کی گئی: بے شک وہ (علی) مسلمانوں کا سردار ہے۔ اور متقین کا امام ہے اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کا قائد ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
۴۱. عَنْ هُبَيْرَةَ خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ: لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُه بَالرَّايَةِ، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِه، وَمِيْکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِه، لَا يَنْصَرِفُ حَتّٰی يُفْتَحَ لَه.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ بِاخْتِصَارٍ کَثِيْرٍ وَإِسْنَادُ أَحْمَدَ وَبَعْضُ طُرُقِ الْبَزَّارِ وَالطَّبَرَانِيِّ فِي الْکَبِيْرِ حِسَانٌ.
’’حضرت ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی رضی اﷲ عنھما نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا ن کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجا کرتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام آپ کی دائیں طرف اور میکائیل علیہ السلام آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو احمد، نسائی، ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا: اس حدیث کو امام احمد نے بہت مختصراً بیان کیا اور امام احمد کی اسناد، اور بزار کے بعض طرق اور طبرانی کی الکبیر کی اسناد حسن ہیں۔