اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان 0%

اسلام اور آج کا انسان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف: علامہ طبا طبائی (صاحب تفسیر المیزان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 27192
ڈاؤنلوڈ: 2461

تبصرے:

اسلام اور آج کا انسان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27192 / ڈاؤنلوڈ: 2461
سائز سائز سائز
اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف:
اردو

چوتھاحصہ:

کچھ سوالات اورجوابات(١)

مرداورعورت کے مساوی ہونے کی کیفیت اور عورتوں کی سیاست میں مداخلت:

سوال:کیا اسلام کے قانون میں مرداورعورت مساوی ہیں ؟اور کیا عورت سیاست اور ملکی معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے اور مرد کے ساتھ مساوی ہو سکتی ہے؟

جواب:اسلام کے آغاز پر ،انسانی معاشرہ عورت کے بارے میں درج ذیل دو عقیدوں میں سے ایک عقیدہ رکھتاتھا:ایک گروہ عورتوں کے ساتھ پالتو جانوروں جیسا سلوک کرتاتھا، اس کی نظر میں عورت معاشرہ کار کن نہیں تھی لیکن اس سے تسلّط اور معاشرہ کی نفع میں خدمت، جیسے استفادے کئے جاسکتے تھے ۔دوسرے گروہ سے تعلق رکھنے والے افرادمہذّب ترتھے اورعورت کے ساتھ ایک ناقص رکن جیسا سلوک کرتے تھے ۔ان کے سامنے عورت ایک بچہ یا اسیر کے مانند معاشرہ کی طفیلی تھی اور اپنی حالت کے مطابق کچھ حقوق رکھتی تھی اور مردوں کے ذریعہ ادارہ ہو تی تھی ۔یہ دین اسلام تھا جس نے عالم بشریت میںپہلی بارمعاشرہ میں عورت کی مکمل رکنیت کا اعلا ن کیااور اس کے کام کو محترم جانا:''میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کو ضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مردہو یا عورت،تم سب ایک خلقت رکھتے ہو ۔''(۲)

اجتماعی موضوعات میں سے صرف تین موضوعات میں عورت کو،اسلام نے مداخلت کی اجازت نہیں دی ہے :حکومت،فیصلہ دینا اور جنگ ،قتل کے معنی، میں نہ جنگ سے مربوط دیگر حصوں کے معنی میں ـ اس کا فلسفہ ۔جیسادینی محور سے معلوم ہو تا ہے ـ یہ ہے کہ عورت ذات ایک جذباتی اور احساساتی مخلوق ہے، مرد کے بر خلاف کہ ایک استدلالی مخلوق ہے اور یہ تین مو ضوع استدلال سے مربوط ہیں نہ جذبات سے اور بدیہی ہے کہ ایک جذباتی مخلوق کو سو فیصدی استدلی امور میں کسی قسم کا دخل نہیں دینا چاہئے اور فطری طور پر وہ اس میں نشو ونما نہیں پا سکتی ہے ۔

اس نظریہ کے لئے بہترین گواہ وہ مشترک کوشش ہے جس سے مغربی دنیا نے مرداور عورت کی مشترک تعلیم وتر بیت میں استفادہ کیا ہے ،لیکن اس کے باوجود آج تک معاشرہ کے ان تین شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ میں بھی عورتوں کی کوئی قابل توجہ تعداد کو پیش نہیں کر سکے ہیں عدلیہ ،سیاست یا جنگی سرداروں کے نا بغوں کی فہرست میں ( مثلاً،نرسوں ،رقاص ،فلمی ستاروں،نقاشی اور موسیقی کے برخلاف)مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کا تناسب بہت ناچیز ہے ،مساوی کی بات ہی نہیں ۔

مرداورعورت کی وراثت کی کیفیت

سوال:عورت کو مرد کی نسبت کیوں وراثت کم ملتی ہے ؟

جواب:اسلام میں عورت،میراث میں سے مجموعی طورپر ایک حصہ اور مرددوحصے لیتا ہے ( جیسا کہ روایت میں ہے)اس کا سبب یہ ہے کہ عورت کی زندگی کا خرچہ مرد(شوہر) کے ذمہ ہے اور اس حکم کا سر چشمہ بھی عورت کا جذباتی ہو اور مرد کا استدلالی ہونا ہے ۔

وضاحت:ہر زمانہ میں زمین پر موجود سرمایہ ایک نسل سے متعلق ہو تا ہے جو اس زمانہ میں زندگی کرتی ہے اور بعد والی نسل پہلی نسل کی جا نشین بن کر اس سرمایہ کو میراث کے طورپر حاصل کرتی ہے اور چونکہ مجموعی طور پر عورتوں اورمردوں کی آبادی ہمیشہ متفاوت رہی ہے اور اسلام کی نظر میں عمومی ثروت کا ٤٣حصہ مرد کا اور١٣حصہ عورت کا ہوتا ہے اوردوسری طرف سے مردکے عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے عورت اپنے خرچ میں مرد کے حصہ میں شریک ہوتی ہے جبکہ ١٣حصہ اپناحصہ رکھتی ہے اور نتیجہ کے طورپر سرمایہ کا ٢٣ حصہ خرچ کے طور پر عورت کے اختیار میں اور١٣حصہ مرد کے اختیار میں قرار پاتا ہے ،نتیجہ کے طورپر خرچ کے لحاظ سے سرمایہ کا ٢٣ حصہ جذبات کا اور ١٣حصہ استدلال کا ہوگا اور یہ بذات خود ایک بہترین اور عادلانہ تقسیم ہے ،اس کے علاوہ یہ ترتیب خاندان کی تشکیل میں گہرے اور نفع بخش اثرات رکھتی ہے ،چنانچہ بندئ١١کے جواب میں اشارہ کیا جائے گا(۳)

مرد اور طلاق کا حق

سوال:طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں ہے ؟

جواب:دینی بیانات کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ مسئلہ بھی مرد کے استدلالی اور عورت کے جذباتی ہونے سے مربوط ہے ۔اس کے علاوہ اسلام کی شرع میں ایسے راستے بھی موجود ہیں ،جن کے ذریعہ عورت ازدواج کے وقت مرد کے اختیارات کو کسی حد تک محدود کرسکتی ہے یا اپنے لئے طلاق کے کچھ اختیارات حاصل کرسکتی ہے

اقتصادی امور میں عورت کی آزادی

سوال : کیا عورت اقتصادی اور مالی امور میں آزاد ہو سکتی ہے ؟

جواب : اسلام میں عورت اپنے بارے میں اقتصادی اور مالی امور میں مکمل او ہرقسم کی آزادی رکھتی ہے ۔

مرداور تعدّدازدواج

سوال :مرد کیوں کئی بیویاں رکھ سکتا ہے ؟

جواب :البتہ معلوم ہے کہ اسلام نے تعدّدازدواج کو واجب قرارنہیں دیا ہے بلکہ صرف اجازت دی ہے کہ مرد ایک سے زیادہ چار عورتوں تک ازدواج کر سکتا ہے وہ بھی صرف اس شرط پر کہ ان کے درمیان مساوات اور عدالت سے پیش آسکے ۔اور اس کا حکم صرف ماحول کے مطابق ہے ،یعنی یہ اس طرح ہونا چاہئے کہ عورتوں کی کمی اور مردوں کی فراوانی کی وجہ سے معاشرہ کا نظم ونسق اس عمل (تعدّدازدواج ) سے درہم برہم ہو کر ہرج ومرج سے دوچار نہ ہو جا ئے ۔لیکن مردوں کی طرف سے واضح ہے ،کیو نکہ عورت اور اولاد کی رہائش اور زندگی کا خرچہ مرد کے ذمہ ہے اور عدالت کی بھی شرط ہے ،لہذا اس کے نتیجہ میں ایسا اقدام کرنا معدودمردوں کے لئے ممکن ہے نہ ہر ممکن کے لئے ۔دوسری طرف سے فطرت اور خارجی حوادث ہمیشہ قابل ازدواج عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ مہیا کر تے ہیں ۔

اگرہم ایک معیّن سا ل کو ابتداء قرار د ے کر ،زن ومرد کی مسا وی پیدائش کا موازنہ کریں تو سولھویں سال قابل ازدواج عورتوں کی تعدادسے سات گناہ زیادہ ہوگی اوربیسویں سال عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت گیارہ اور پانچ(١ا۔٥)ہوگی اور پچیسویں سال ، جو تقریباًعام طور پر ازدواج کا سال ہو تا ہے یہ نسبت ''١٦۔١٠''ہو گی اور اگر اس صورت میں تعدد ازدواج والے مردوں کو ١٥فرض کریں تو آٹھ فیصد مرد ایک بیوی والے ہو ں گے اور بیس فیصد مرد چار بیویوں والے ہوں گے اور تیسویں سال بیس فیصد مرد تین بیویوں والے ہوں گے ۔

اس کے علاوہ ،عورت کی عمر مرد سے زیادہ ہو تی ہے اور معاشرہ میں ہمیشہ بیوہ عورتوںکی تعداد بیوہ سے مردوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ مردوں میں جانی نقصان قابل توجہ حد تک عورتوں سے زیادہ ہو تا ہے اور خاص کر اہم اورعام جنگیں اس مطلب کے بہترین گواہ ہیں ۔ہم نے ،حالیہ چند برسوں کے دوران روزناموں اور مجلات میں مکرر پڑھا ہے کہ جر منی کی عورتوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اسلام کے تعدّدازدواج کے قانون کو جرمنی میں رائج کریں اور اس طرح بے شوہر عورتوں کی ضرورت کو پورا کریں ، لیکن حکومت نے کلیسائی مخالفت کی وجہ سے اس درخواست کو منظور نہیں کیا ۔

دوسری طرف سے تعدّد ازدواج سے عورتوں کی مخالفت فطری جبلّت کے احساس پر مستند نہیں ہے ،کیونکہ دوسری ،تیسری اور چوتھی بیوی رکھنے والے مرد زبردستی یہ کام انجام نہیں دیتے اور جو عورتیں کسی مردکی دوسری ،تیسری یا چوتھی بیوی بن جاتی ہیں ،وہ آسمان سے نہیں اتری ہیں اور نہ زمین سے اگی ہیں بلکہ ان ہی عام عورتوں میں سے ہیں اور یہی رسم بہت سے اقوام اورملتوں میں سیکڑوں اور ہزاروں سال سے رائج تھی۔ نہ کوئی جبلّتی برائی رونما ہوئی اور نہ عورت ذات کی میں کوئی کمی محسوس کی گئی ہے

دین اسلام کا بے عیب ہو نا

سوال: کیاآپ ا سے قبول کرتے ہیں کہ دین اسلام زمانہ کے گزرنے کو درک نہیں کرسکا ہے تاکہ دین زمان ومکان کے مطابق ہو تا ؟

جواب :یہ ''اسلام زمانہ کے گزرنے کو درک نہیں کرسکا ہے تا کہ زمان ومکان کے مطابق ایک دین ہوتا ''ایک ایسی بات ہے جو فلسفی تفکر کے بجائے شعری تفکّر کے مشابہ ہے ۔زمان ومکان نے تغیر نہیں کیا ہے تاکہ انسان کے اجتماعی قوانین میں تبدیلی کا موجب بنیں ،دن اوررات وہی دن اور رات ہیں اور زمین اور ہوا وغیرہ ہزاروں سال قبل کے مانند ہیں ،صرف انسان کی طرز زندگی اپنی روزافزوں ترقی کے پیش نظر تبدیل ہوئی ہے اور دن بدن انسان کے توقعات اور مطالبات بڑھتے یا تبدیل ہوتے رہتے ہیں انسان کی فعاّل توانائی اپنی حیرت انگیز افزائش کے نتیجہ میں اسے یہ جرئت بخشتی ہے کہ عیش وعشرت کے جن انواع واقسام کے بارے میں کل کے پادشاہ تصور نہیں کرتے تھے آج کے فقیران کی فکر میں پڑ کر ان کا مطالبہ کریں ۔

معاشرہ میں یہ فکری تبدیلی بالکل ایک فرد میں فکری تبدیلی کے مانند ہے جو اسے زندگی کے مختلف حالات کی وجہ سے پیش آتی ہے ۔ایک مفلس خالی ہاتھ والاشخص صرف اپنے شکم کی فکر میں ہو تا ہے اور ہر چیز کو فراموش کر ڈالتا ہے ،جوں ہی اس کی روزمرہ کی روٹی مہیا ہو تی ہے ،لباس کی فکر میں پڑتا ہے ،اس کے بعد اولاد ،اور سرمایہ کو وسعت دینے، فخر ومباہات ،تکلفات اور گوناگوں عیاشیوں کو بڑھاوادینے کی فکر میں پڑتا ہے اور اسی طرح

آج کے اجتماعی قوانین معاشرہ کے اکثرلوگوں کے مطالبات کو اپنے لئے تحفظ قرار دیتے ہیں ،اگر چہ معاشرہ کی حقیقی مصلحت کے مطابق بھی نہ ہوں ،لیکن اسلامی طرز تفکر اس کے علاوہ ہے ،اسلام اپنی تشریعیات میں طبیعی انسان کا (قرآن مجیدکی اصطلاح میں انسانی فطرت کو ) تحفّظ قراردیتا ہے ،یعنی انسان کی وجودی عمارت کو اسلحوںسے مسلح صورت میں مد نظر رکھتا ہے اور جن ضروریات کی یہ مسلح عمارت نشان دہی کرتی ہے ان کے برابر مربوط قوانین وضع کرتی ہے ۔نتیجہ کے طور پر ،اسلام کا نظریہ اپنے وضع کئے گئے قوانین سے معاشرہ کی حقیقی مصلحت کو پورا کرتا ہے ،خواہ اکثریت کی مرضی کے مطابق ہو یا نہ ۔اور یہی قوانین ہیں کہ اسلام نے انھیں شریعت کانام رکھاہے اور انھیں قابل تغیر و تبدیلی نہیں جانتا ہے ،کیونکہ ان کا محافظ انسان کی فطری خلقت ہے جو قابل تغیر نہیں ہے ،اور جب تک انسان ،انسان ہے اس کی فطری ضرورتیں ثابت اور پائیدار ہوں گی ۔اسلام اپنے ثابت قوانین (شریعت) کے علاوہ قابل تغیر ضوابط بھی رکھتا ہے اور وہ ایسے قوانین ہیں جو زندگی کی تبدیلیوں سے مربوط ہیں ،تہذیب وتمدن کی پیشرفت کے اثر میں اور ان قابل تغیر قوانین کی شریعت کے قوانین سے نسبت ،پارلیمنٹ کے قابل تنسیخ قوانین کی ناقابل تغیر آئین سے نسبت کے مانند ہے ۔

اسلام نے دینی حکومت کے حاکم کو اختیار دیا ہے کہ شریعت کے قوانین کے سایہ میں ،ضرورت کے وقت زمان اور شوریٰ کی مصلحت کے تحت ضروری فیصلے لے کر انھیں نافذ کرے اور یہ قوانین مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اعتبار رکھتے ہیں اور مصلحت کے رفع ہو نے پر منسوخ ہو تے ہیں ۔اس کے برخلاف شریعت کے قوانین قابل تنسیخ نہیں ہو تے ۔

اس بناء پر مذکورہ بیان کے مطابق اسلام دو قسم کے قوانین رکھتا ہے :پہلے ثابت اور پائدارقوانین ہیں ،جن کاضا من انسان کی ثابت فطرت ہے اور انھیں شریعت کہا جاتا ہے ۔

اوردوسرے وہ قوانین ہیں جو قابل تغیر ہو تے ہیں اور وقت کی مصلحت ان کی ضامن ہے ۔یہ قوانین مصلحت کے بدلنے کے ساتھ قابل تغیر ہو تے ہیں ،اس کے مانند کہ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو نے سے بے نیاز نہیں ہے ،لیکن قدیم زمانے میں مسافرت کے لئے یاپیدل چلتے تھے یا گھوڑے اور گدھے پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے ،ان کے لئے زیادہ قوانین اورضوابط وضع کر نے کی ضرورت نہیں تھی لیکن آج وسائل میں ترقی پیدا ہو نے کی وجہ سے صحرائی ،سمندری ،زمین دوز اور ہوائی راستے نکلے ہیں اور بہت دقیق قوانین وضع کر نے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے ،یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ یہ کہنا :''اسلام نے زمانہ کے گزر نے کو درک نہیں کیا ہے ''انتہائی بے بنیادبات ہے ۔

جن بات کو صاحب اعتراض کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے ان احکام کی نشاندہی کر کے ثابت کرے جو اس زمانہ کی حقیقی مصلحت کے موافق نہ ہوں یاحکم کی مصلحت کے بارے میں سوال کرے ۔یہ ایک وسیع بحث ہے ہم نے گنجائش کے مطابق اس کی وضاحت کی ، اگر اس کے باوجود اس بحث کے بارے میں مزید کوئی ابہام باقی ہو یا کوئی اعتراض ہوتو تذکر دینا تا کہ بحث کو جاری رکھیں ۔

دین اسلام کا فطری ہو نا

سوال: کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کے بہت سے قوانین جو زمان ومکان کے مطابق آج سے ١٤٠٠سال پہلے وجود میں آئے ہیں ،انھیں بدلنا چاہئے ؟

جواب : اس سوال کا جواب گزشتہ جواب میں واضح ہو اہے ۔ شریعت اسلام کے قوانین کی بنیاد انسان کی مخصوص فطرت و خلقت ہے نہ اکثریت( نصف اور ایک) کی رائے اور پسند۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( فأقّم وجهک للدّین حنیفافطرت اللّٰه الّتى فطرالنّاس علیها لا تبدیل لخلق اللّٰه ) (روم ٣٠)

''آپ اپنے رخ کو دین (اسلام) کی طرف رکھیں اور باطل سے کنار کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے جس پر اس نے انسان کو پید اکیا ہے اور خلقت الہٰی میں کو ئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ...''

کیا حضرت زینب (س)ولایت عہدی کے مقام پرفائز تھیں ؟

سوال:کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ولی عہدی کا مقام رکھتی تھیں ؟اور اگر رکھتی تھیں ،تو کیا ان کے ذمہ دوسرے کاموں کے علاوہ اس کام کی ذمہ داری اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اسلام میں عورت صلاحیت رکھنے کی صورت میں مرد کے قدم بہ قدم بڑھ سکتی ہے ؟

جواب:اس مسئلہ کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور بنیادی طور پر اسلام میں ولی عہدی کے نام پر کوئی عنوان موجود نہیں ہے ۔اگر ولی عہد کا مقصود جانشینی ہو تو مستند مدارک کے مطابق تیسرے امام کے جا نشین چوتھے امام ہیں نہ آپ کی خواہر گرامی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۔

جی ہاں !روایتوں سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ یزید اور بنی امیہ کی ظالمانہ او ر استبدادی حکومت کے خلاف امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں حضرت سیدالشہداء کی وصیت کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے دوش مبارک پر بھاری ذمہ داریاں تھیں اور ان ذمہ داریوں کو نبھا نے میں آپ نے علمی ا ور عملی لیاقت اور غیر معمولی دینی شخصیت کا مظاہرہ کیا ۔اصولی طور پر جاننا چاہئے کہ اسلام کی نظر میں ،معاشرہ میں انسان کی قدر وقیمت علم وتقویٰ (دین کے انفرادی اور اجتماعی خدمات) پر ہے ۔اور معاشر ہ میںدوسرے امور جو امتیاز اور نفوذ کا وسیلہ ہو تے ہیں ،جیسے سرمایہ اورعظمت ،خاندان اورخاندانی شرافت ،حکومت اورعدلیہ کے عہدے اور فوجی عہدے کسی قسم کی قدر ومنزلت اور امتیاز نہیں رکھتے ہیں، جو ان کے لئے فخر ومباہات کا سبب بن کر ان کو دوسروں پر افضل قرار دیں ۔اسلام میں طاقت کا نفوذ جتلا نے کو کسی امتیاز کا معیار قرار نہیں دیا جانا چاہئے ،اس بناء پر ایک مسلمان خاتون اپنے دینی امتیازات میں مرد کے قدم بہ قدم بڑھ سکتی ہے اور اگر لیاقت رکھتی ہو تو تمام مردوں سے آگے بڑھ سکتی ہے اور تین مسائل ـ حکومت ،عدلیہ اور جنگ ـکے علاوہ تمام اجتماعی مشاغل میں مردوں کے دوش بدوش شرکت کرسکتی ہے ۔خدائے تعا لٰی فرماتا ہے :

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار رہے(۴) '' اورفرماتا ہے :

''کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں؟(۵)

____________________

١۔١٣٨٣ھ(١٩٦٢ئ)نیو یارک (امریکہ)میں ایرانی مقیم دانشوروں میں سے ہر ایک نے استاد علامہ طباطبائی سے اسلام کے مختلف موضوعات پر گوناگوں سوالات کئے تھے کہ علامہ نے تمام سوالات کے جوابات لکھ کر ایک ساتھ انھیں روانہ کئے تھے ۔

ہم اس کتاب میں ان سوالات اور ان کے جوابات کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تا کہ ان موضوعات سے دلچسپی رکھنے والے محققین ان سے استفادہ کریں (ادارہ)

۲۔(...انیّ لا اضیع عمل عامل منکم من ذکراو انثی بعضکم من بعض ...)(آل عمران ١٩٥)

۳۔ص١٤٣۔ص١٤٥ کی طرف رجوع کیا جائے۔

۴۔(...انّ اکرمکم عنداللّه اتقکم ...)(حجرات١٣)

۵۔(...هل یستوی الّذین یعلمون والّذین لا یعلمون )(زمر٩)

ازدواج اور خاندان کی تشکیل

سوال :ازدواج اور خاندان کی تشکیل کے بارے میں اسلام کا کیا نظریہ ہے؟

جواب : ازدواج اور خاندان کی تشکیل اور اس کی بارے میں قوانین کے کلیات کو مدارک کے ساتھ بیان کرنے کی تفصیل وضاحت ، اس مقالہ کی گنجائش سے باہر جو کچھ یہاں پر اس سلسلہ میں اختصار اوراجمال کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام ازدواج اور خاندان کی تشکیل کو انسانی معاشرہ کی پیدائش اور اس کی بقاء کا اصلی عامل جانتا ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ تخلیق نے انسان کے افراد کے در میان اجتماع بر قرار کرنے کے لئے ،انسان کو مردانہ اور زنانہ آلہ تناسل اور اس کے بعد جبلّی خواہشات سے مسلح کیا

ہے تا کہ یہ دونوں آپس میں نزدیکی پیدا کر کے دونوں کے مادہ میں موجود بچہ کو جنم دیں ۔اور اپنے لخت جگر کے بارے میں رکھنے والے جذبات اور ہمدردیوں کے پیش نظر حمل کے دوران اور پیدائش کے بعد اس نو مولود بچہ کی پرورش کرتے ہیں اور ان کے رنج وغم اورجذبات سے بھرے یہ احساسات اور ہمدردیاں روزبروزبڑھتی ہیں ۔اس نومولودکی تر بیت کر کے اسے بلوغ کے مرحلہ تک پہنچاتے ہیں ۔ماں باپ کے ان جذبات اور ہمدردیوں کے ردعمل کے طور پر بچہ بھی جذبات کا مظاہرہ کر کے اپنے ماں باپ سے رجحان دکھاتا ہے ۔اس طرح پہلے خاندانی اجتماع، پھر قومی اجتماع اور اس کے بعد شہری اور ملکی اجتماعات اور معاشرہ وجود میں آتے ہیں ۔بدیہی ہے کہ اس صورت میں معاشرہ کی بقاء اور اس کو نابود ہو نے سے بچانے کے لئے جبلّی خواہشات محدود ہو نی چاہئیں اور مرد کو اپنی قانونی بیوی اور عورت کو اپنے قانونی شوہر کے حدود سے تجاوز نہیں کر نا چاہئے تا کہ نو مولود بچے کا باپ مشخص ہو (چونکہ عورت ماں ہونے کا فطری ضامن ،رکھتی ہے اور وہ وضع حمل ہے )اگر یہ صورت نہ ہو تو ہرجوان اپنی مرضی سے اپنی جنسی خواہشات سے غیر قانونی طور پر استفادہ کر کے تشکیل خاندان کی محنت اور تکلیف سے پہلوتہی کریں گے اور اس طرح باپ اور فرزند اپنے نسبی روابط کے اطمینان کو کھودیں گے،نتیجہ کے طور پر خاندانی ہمدردیاں کمزورپڑیں گی ۔آخرکارزنارائج ہو نے کے نتیجہ میں قہری طور پر حفظان صحت ،اجتماعی ،اخلاقی ،قطع نسل اور دوسری بے شمارخیانتوں جیسی برائیوں ـ جو اس فحاشی کی پیداوار ہیں ـسے خاندانی ہمدردیاں بالکل نابود ہو کر رہیں گی۔ جیسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جن ملکوں میں جنسی آزادی ہے ، وہاں پر خاندانی ہمدردیاں روز بروزنابود ہوتی جارہی ہیں اور یہ حالت انسان کے مستقبل کے لئے ایک خطرہ کی الارم ہے ۔

چندسال پہلے ہم نے روز ناموں اور مجلات میں پڑھاہے کہ امریکہ میں مرد اور عورتوں کے ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں سالانہ تین لاکھ بے باپ بچے متولد ہوئے ہیں،اس حالت کے پیش نظرایک سوسال کے بعد معلوم نہیں انسا نی معاشرہ کہاں پہنچ جائے گا!اسی لئے ،اسلام نے زن ومرد کے جنسی تعلقات کو ازدواج کے علاوہ کسی اور راہ سے قطعی طور پر ممنوع کیا ہے اور بچہ کے اخراجات کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی ہے اوراسے بچہ کی زندگی کا ذمہ داراور مسئول جانا ہے ۔اسلام میں قریبی رشتہ داروں کے درمیان ازدواج ممنوع ہے :جیسے ماں ،پھپھی ،خالہ ،بہن ،بیٹی اور بھائی اوربہن کی بیٹی مرد پر حرام ہے۔اسی طرح بہو ،ساس ،بیوی کی بیٹی (ماں کے ساتھ آمیزش کرنے کی شرط پر)بیوی کی بہن (بہن کے عقد میں ہونے کی صورت میں )مرد پر حرام ہیں ۔اسی طرح ہر شوہردارعورت اور رضاعی رشتہ دار بھی نسبی رشتہ داروں کے مانند حرام ہوتے ہیں ۔عورت کے لئے بھی اسی نسبت سے مرد حرام ہوتے ہیں ۔مذکورہ بیان کے مدارک قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جو سورہ نساء میں ذکر ہوئی ہیں اور اسی طرح وہ روایتیں بھی ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کی کتابوں میں درج ہیں ۔

اسلام اور مسئلہ طلاق

سوال: اسلام کی نظر میں طلاق کیسی ہے ؟

جواب:طلاق،اسلام کی مجلس قانون ساز کے فخر ومباہات میں سے ہے اور یہ ابدی بدبختی کو خاتمہ بخشنے والی چیزہے کہ میاں بیوی کے درمیان عدم توافق کے نتیجہ میں رونما ہوتی ہے ۔اس قانون کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ غیر اسلامی حکومتیں بھی تدریجاًیکے بعد دیگرے اسے قبول کر رہی ہیں ۔اس کا ایک خلاصہ سوالات کے چوتھے حصہ کے جواب میں بیان کیا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو ص۔١٧٥

طلاق ،ضروریات اسلام میں سے ایک ہے اوراس کا مصدر بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔طلاق کے قوانین کی تفصیل اور ان کے مصادربیان کر نے کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے۔

عورت اورہمسر کے انتخاب کا حق

سوال: کیا اسلام میں عورت،مرد کی طرح اپنے شریک حیات کو انتخاب کرنے کا حق رکھتی ہے یا نہیں ؟

جواب: اسلام میں عورت اپنے شریک حیات کاانتخاب کرنے میں آزاد ہے ۔

فرزند کا مردسے متعلق ہو نا

سوال:میاں بیوی کے درمیان طلاق کی صورت میں فرزند کس کا ہو تا ہے ؟

جواب:مطلّقہ عورت حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے بچہ کو سات سال تک خودپرورش کرے اور اس مدت کے دوران بچہ کی زندگی کا خرچ مرد کے ذمہ ہے ۔اس حکم کے مصدرکے بارے میں فقہ اسلام کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔

حضرت علی علیہ السلام کی ایک فرمائش

سوال: کیا اسے مانتے ہو کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے : اپنے فرزندوں کو مستقبل کے لئے تر بیت کرنا ؟اس صورت میں کیا اس فرمائش کا یہ معنی نہیں ہے کہ قوانین اسلام زمان ومکان کے مطابق بدلنے چاہئیں ؟

جواب: یہ ایک مرسل حدیث ہے ،کتاب نہج البلاغہ میں حضرت سے منسوب کی گئی ہے ،اس کا مقصود یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کو آداب ورسوم کی بنیاد پر انجام نہیں دینا چاہئے ،کیونکہ روزمرہ کے آداب ورسوم کا جمود انسان کو زندگی کی ترقی سے روکتا ہے ،جیسے کوئی شخص گھوڑے گدھے یاپیدل سفر کرنے کا عادی ہو اوراسی پر اکتفا کرے وہ کبھی گاڑی کو ایجاد کرنے اورسڑک کے اتار چڑھائو کو ہموار کرنے کی فکر میں نہیں پڑے گا۔

اس کا مقصود یہ نہیں ہے کہ اپنے فرزندوں کو شرعی قوانین (جونص کے مطابق قابل تغیرنہیں ہیں ) کا پابند نہ کریں اور اگر حقیقت میں یہی مقصود ہوتا توہم حدیث کو مسترد کر نے کے لئے ناگزیرتھے ۔ کیونکہ ہمارے پاس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام ائمہ اطہارعلیہم السلام کا واضح اور قطعی حکم موجود ہے کہ جو بھی حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو اسے مسترد کر کے قبول نہ کریں اور اس لحاظ سے ہر حدیث کا پہلے قرآن مجید سے موازنہ کر نا چاہئے اور اس کے بعد اسے قبول کرنا چاہئے ۔

شریعت کے احکام و قوانین میں خدا کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے

سوال:قوانین اسلام میںزمان ومکان کے مطابق تبدیلی لانے میں کیوں ہمیشہ کوتاہی کی ہے؟

جواب: دینی امور کے اولیاء خدائی قوانین (شریعت) میں تبدیلی لانے کا کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور ان کا فرض صرف دینی مسائل کے بارے میں کتاب وسنت سے استنباط کرنا ہے ،ایک وکیل کے مانند جو قانونی مسائل کو ملک کے آئین سے استنباط کرتا ہے نہ یہ کہ آئین کے کسی دفعہ میں تبدیلی لائے ۔

شرعی قوانین کے بارے میں علمائے دین کی بات ہی نہیں ،خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـجو شریعت کے لانے والے ہیں ـاورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ۔جو امام اور شریعت کے محافظ اور معلم ہیں ۔بھی تبدیلی لانے کا اختیار نہیں رکھتے ۔اس قسم کے سوالات اور اعتراضات کا سرچشمہ مغربی عمرانیات کے ماہروں کا طرز تفکر ہے ، جو یہ کہتے ہیں : صاحب شریعت انبیاء چند نوابغ اور اجتماعی مفکرین تھے ،جنہوںنے معاشرہ کے حق میں انقلاب برپا کرکے لو گوں کی سیدھے راستہ کی طرف دعوت کی ہے اور اقتضائے زمان کے مطابق اپنی فکر سے کچھ قوانین کو وضع کر کے لوگوں کو سکھایا ہے اور خود کو خدا کے رسول، اپنے مقدس افکار کوآسمانی وحی اور خدا کا کلام اور شریعت وخدا کا دین اور اپنے بے لاگ افکار کے سرچشمہ کو فرشتہ وحی ،جبرئیل بیان کیا ہے ۔

بدیہی ہے کہ اس قسم کے نظریہ کے مطابق،ادیان آسمانی کے قوانین من جملہ شریعت اسلام اقتضائے زمان کے مطابق مرتب ہونے چاہئیں اور ان چالیس سوالات ١کے دوران پیداہونے والے اعتراضات بجا ہونے چاہئیں ۔

لیکن یہ صاحبان نظر اپنے نظریہ میں خطا کے مر تکب ہوئے ہیں ۔اوربجائے اس کے بغیر کہ پیغمبروں کے دعویٰ کی تحقیق کریں ،بے بنیاد فرض پر فیصلہ سنادیا ہے ۔اگر چہ دوسری آسمانی کتابوں کی سند اورگزشتہ پیغمبروں کی زندگی کی تاریخ ابہام اور تاریکی

سے مبرّا نہیں ہے ،لیکن قرآن مجید کا متن،جو اسلام کی آسمانی کتاب ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی تاریخ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

١۔ جدید طبع میں سوالات کو مرتب کرنے کے بعد ان کی تعدادکم ہو کر ٣٣رہ جاتی ہے ۔

جانشینوں کے موجودہ قطعی الصدور بیانات اس نظریہ کو جھٹلاکر مسترد کرتے ہیں ۔

ہم اس وقت اسلام کی طرفداری یا اس کی حقانیت کا دفاع کرنا نہیں چاہتے ،لیکن جو شخص اس دین کے مصادرکے بارے میں تھوڑی سی آشنائی بھی رکھتا ہو ،قرآن مجید اور اولیائے دین خاص کر اس کتا ب کو لانے والے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیانات پر سر سر ی نگاہ ڈالے تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس نظریہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ۔

قرآن مجید واضح الفاظ میں فرماتا ہے :

'' پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین خدا میں کسی قسم کا اختیار اور عمل کی آزادی نہیں رکھتے ہیں اور وہ صرف خداکا پیغام پہنچانے والے ہیں۔''(مائدہ ٩٢،٩٩)

واضح طور پر فرماتا ہے :

''دین خدا بشر ی فکر کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ ایسے احکام وقوانین ہیں جنھیں پروردگار عالم نے اسے پیغمبروں کے توسط سے اپنے بندوں پر نازل فرمایا ہے'' (حاقہ٤٠۔٤٣)

جو لوگ یہ کہتے تھے کہ قرآن مجید پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام ہے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے خداسے نسبت دیتے ہیں ،ان کے جواب میں قرآن مجید واضح طور پر فرماتا ہے :

'' بیشک قرآن خدا کا کلام ہے اور انسان کا کلام نہیںہے اور نہ اس کے مضامین انسانی فکر کی پیداوار ہیں ۔(۱) ''

مزید فرماتا ہے :

''پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آسمانی وحی اورنبوت نے خاتمہ پایا ہے

اور قرآ ن کے احکام قیامت تک معتبر اور ناقابل تنسیخ ہیں(۲) ''

گزشتہ مطالب کے پیش نظر جو شخص اسلام کے قوانین کے ایک حصہ کو روزمرہ زندگی سے ناقابل تطبیق تشخیص قراردے ،اسے اسلام کی حقانیت کی بنیاد ـجو ابدی احکام اور قوانین کوبیان کر تا ہے ـ پر اعتراض کرنا چاہئے اور ان میں تبدیلی لانے کی چارہ جوئی کر نی چاہئے ۔

اسلام اور ترقی یافتہ قوانین

سوال: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ تعلیم یافتہ مسلمان نو جوانوں کے دین سے منہ موڑ نے کی ذمہ داری ان پس ماندہ قوانین پر ہے جو موجودہ زمانہ میں دنیا کی صنعت وعلم کے مطابق نہیں ؟

جواب: بہتر تھا اگر آپ ان بے بنیادد عاوی کے بجائے اسلام کے پس ماندہ قوانین کے چند نمونے پیش کرتے تاکہ اس پر مدلّل بحث کی جاتی ۔اسلام میں پس

ماندے قوانین نہیں ہیں لیکن قوانین سے پیچھے رہ جانے والے مسلمان بہت ہیں !

آسمانی ادیان،خاص کر دین اسلام انسان کی ایک ابدی ازلی زندگی اور انسانی زندگی کے ماورائے طبیعت سے رابطہ کی بحث کرتے ہیں اور اس طرز کی بحث کا آج کے علم وصنعت سے کیا رابطہ ہے ؟ آج کل کے علم کی بحث کا موضوع مادّہ اور مادّہ کی خصوصیات ہے اور آج کی صنعت بھی مادہ کے بارے میں سر گرم ہے ۔اس لحاظ سے ماوراء کے بارے میں اسے مسترد یا قبول کرنے کے سلسلہ میں اظہار نظر کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے ۔

ہمارے تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے دین سے منہ موڑ نے کا گناہ دینی قوانین پر نہیں ہے اور اس مطلب کا گواہ کہ انسان نے نہ صرف دین سے رو گردانی کی ہے بلکہ واضح ہے کہ ضمیر اور انسانیت کے قوانین کو بھی پائمال کر رہا ہے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں جھوٹ،خیانت ،چاپلوسی ،بے حیائی اور بے راہ روی کاس ہو ناہے کہ وہ ہر قسم کی پاکی ،سچائی اور حق کے دشمن ہیں ،نہ صرف دین کے ۔

دوسری طرف سے ،تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد (اگر چہ دوسروں کی نسبت کم ہے ) پسندیدہ اخلاق سے آراستہ اور معارف سے آشنا اور ان ہی (بقول آپ کے) پسماندہ قوانین ! کے پابند اوران پر عمل کرتے ہیں اور چونکہ اسلام ہر گز علم وصنعت کے منا فی نہیں ہے ،اس لئے یہ لوگ اپنی زندگی میں رنج وناراحتی کا ہر گزاحساس نہیں کرتے ۔لہذا حقیقت میں ہمارے نوجوانوں کی دین سے روگردانی کی ذمہ داری ہمارے فریضہ ناشناس ثقافتی مسئو لین کی ثقافتی تعلیم وتر بیت کے طریقہ کار پر ہے نہ دینی قوانین پر اورنہ انسانی فضائل اور اخلاقی قوانین پر ۔

فحاشی اورمنکرات کا قبیح ہونا

سوال: فحاشی ـجس میں مرد اور عورتیں برابر شریک ہیں ـ کے بارے میں عورتوں کی کیوں زیادہ ملامت کی جاتی ہے ؟ اور اگر آپ قبول کرتے ہیں کہ مرد، ایک بہتر اور طاقتورترمخلوق ہے ،اس صورت میں وہ اپنے اعمال کو بہتر کنٹرول کرسکتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کی زیادہ سر زنش کی جانی چاہئے ؟

جواب:اسلام میں ایسے کسی حکم کا وجود ہی نہیں ہے ۔

ایک ناشائستہ بات

سوال: کہا جاتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے : اگر کسی کو اپنامنہ بولا بیٹابنادوگے تواس کے ساتھ اپنے حقیقی بیٹے کا جیسا برتائو کرناچاہئے کیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں ؟صحیح ہونے کی صورت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق دی گئی بیوی سے شادی کرنے پر کیوں آمادہ ہوئے ؟

جواب:آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہرگز ایسی کوئی تاکید نہیں کی گئی ہے ،بلکہ یہ ایک تہمت ہے جو اسلام کے دشمن خاص کر مغربی عیسائی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لگاتے ہیں ۔اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق دی گئی بیوی سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی اسی اصول پر تھی کہ اس ناپسند رسم کو باطل کر کے اس کا اعلان فرمائیں ،کیو نکہ اس زمانہ میں اکثر ممالک میں ایک خاندان کے کسی فرزند کو دوسرے خاندان سے ملحق کر کے اس کے ساتھ حقیقی رشتہ کا برتائو کیا جاتا تھا ۔اس سلسلہ میں قرآن مجید کے سورہ احزاب میں کئی آیتیں موجود ہیں ۔

ازدواج میں عمر معیار نہیں ہے

سوال: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،بشر کی تربیت کے لئے ایک عظیم مقام پر فائز تھے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعمال دوسروں کے لئے نمونے ہونے چاہئیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیوں تقریباًبوڑھاپے میں ایک نوسالہ لڑکی (عائشہ )سے شادی کی؟

جواب:اگر جوان عورت کی ایک بوڑھے مرد سے شادی کر نے میں کوئی عیب ہو تو ،یہی ہو گا کہ ایک جوان عورت کے لئے ایک بوڑھے مردسے مباشرت کرنی لذت بخش نہیں ہو تی یا یہ کہ عمر کے عدم تعادل اور تقارب کی وجہ سے عام طور پر شوہر عورت سے پہلے مرجاتا ہے اور عورت جوانی میں بیوہ ہوتی ہے ۔لیکن واضح ہے کہ ازدواج کے مقاصد صرف ان دو مقاصد تک محدود نہیں ہیں اس لئے ہمارے پاس اس رویہ کے ممنوع ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ممکن ہے مذکورہ مقاصد سے بہت اہم دوسرے مقاصدبھی ہوں جو اس قسم کی شادی کے لئے ترجیح کا سبب بنیں ۔

جیسا کہ ہم نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ چند سال پہلے ،امریکہ کے صدرجمہوریہ مسٹرآئزن ہاور نے امریکہ کے کثیرالاشاعت اخباروں میں یہ ایک سوال پیش کیاتھا اور ملک کی دوشیزگان سے پو چھاتھا کہ تم کس سے شادی کرنا پسند کرتی ہو ؟امریکہ کی اکثر دوشیزگان نے اپنے جواب میں خود مسٹر آئزن ہاورکا نام لیا تھا ،جبکہ نہ وہ جوان تھا اور نہ خوبصورت ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی کے بارے میں ،جوشخص آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کم وبیش اطلاع رکھتا ہے ، بخوبی جانتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شہوت پرست اور عیّاش مرد نہیں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہر کام استدلال کی بنیاد پر ہوا کرتے تھے نہ جذبات کی بنا پر ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس قسم کاکام جواز کے بیان کے لئے انجام پایا ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت اسلام کی پیشرفت میں اس کے نمایاں اثرات رونما ہوئے ہیں ۔

__________________

١۔ (مدثر٢٥)

۲۔(احزاب ٤٠)