ازدواج اور خاندان کی تشکیل
سوال :ازدواج اور خاندان کی تشکیل کے بارے میں اسلام کا کیا نظریہ ہے؟
جواب : ازدواج اور خاندان کی تشکیل اور اس کی بارے میں قوانین کے کلیات کو مدارک کے ساتھ بیان کرنے کی تفصیل وضاحت ، اس مقالہ کی گنجائش سے باہر جو کچھ یہاں پر اس سلسلہ میں اختصار اوراجمال کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام ازدواج اور خاندان کی تشکیل کو انسانی معاشرہ کی پیدائش اور اس کی بقاء کا اصلی عامل جانتا ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ تخلیق نے انسان کے افراد کے در میان اجتماع بر قرار کرنے کے لئے ،انسان کو مردانہ اور زنانہ آلہ تناسل اور اس کے بعد جبلّی خواہشات سے مسلح کیا
ہے تا کہ یہ دونوں آپس میں نزدیکی پیدا کر کے دونوں کے مادہ میں موجود بچہ کو جنم دیں ۔اور اپنے لخت جگر کے بارے میں رکھنے والے جذبات اور ہمدردیوں کے پیش نظر حمل کے دوران اور پیدائش کے بعد اس نو مولود بچہ کی پرورش کرتے ہیں اور ان کے رنج وغم اورجذبات سے بھرے یہ احساسات اور ہمدردیاں روزبروزبڑھتی ہیں ۔اس نومولودکی تر بیت کر کے اسے بلوغ کے مرحلہ تک پہنچاتے ہیں ۔ماں باپ کے ان جذبات اور ہمدردیوں کے ردعمل کے طور پر بچہ بھی جذبات کا مظاہرہ کر کے اپنے ماں باپ سے رجحان دکھاتا ہے ۔اس طرح پہلے خاندانی اجتماع، پھر قومی اجتماع اور اس کے بعد شہری اور ملکی اجتماعات اور معاشرہ وجود میں آتے ہیں ۔بدیہی ہے کہ اس صورت میں معاشرہ کی بقاء اور اس کو نابود ہو نے سے بچانے کے لئے جبلّی خواہشات محدود ہو نی چاہئیں اور مرد کو اپنی قانونی بیوی اور عورت کو اپنے قانونی شوہر کے حدود سے تجاوز نہیں کر نا چاہئے تا کہ نو مولود بچے کا باپ مشخص ہو (چونکہ عورت ماں ہونے کا فطری ضامن ،رکھتی ہے اور وہ وضع حمل ہے )اگر یہ صورت نہ ہو تو ہرجوان اپنی مرضی سے اپنی جنسی خواہشات سے غیر قانونی طور پر استفادہ کر کے تشکیل خاندان کی محنت اور تکلیف سے پہلوتہی کریں گے اور اس طرح باپ اور فرزند اپنے نسبی روابط کے اطمینان کو کھودیں گے،نتیجہ کے طور پر خاندانی ہمدردیاں کمزورپڑیں گی ۔آخرکارزنارائج ہو نے کے نتیجہ میں قہری طور پر حفظان صحت ،اجتماعی ،اخلاقی ،قطع نسل اور دوسری بے شمارخیانتوں جیسی برائیوں ـ جو اس فحاشی کی پیداوار ہیں ـسے خاندانی ہمدردیاں بالکل نابود ہو کر رہیں گی۔ جیسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جن ملکوں میں جنسی آزادی ہے ، وہاں پر خاندانی ہمدردیاں روز بروزنابود ہوتی جارہی ہیں اور یہ حالت انسان کے مستقبل کے لئے ایک خطرہ کی الارم ہے ۔
چندسال پہلے ہم نے روز ناموں اور مجلات میں پڑھاہے کہ امریکہ میں مرد اور عورتوں کے ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں سالانہ تین لاکھ بے باپ بچے متولد ہوئے ہیں،اس حالت کے پیش نظرایک سوسال کے بعد معلوم نہیں انسا نی معاشرہ کہاں پہنچ جائے گا!اسی لئے ،اسلام نے زن ومرد کے جنسی تعلقات کو ازدواج کے علاوہ کسی اور راہ سے قطعی طور پر ممنوع کیا ہے اور بچہ کے اخراجات کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی ہے اوراسے بچہ کی زندگی کا ذمہ داراور مسئول جانا ہے ۔اسلام میں قریبی رشتہ داروں کے درمیان ازدواج ممنوع ہے :جیسے ماں ،پھپھی ،خالہ ،بہن ،بیٹی اور بھائی اوربہن کی بیٹی مرد پر حرام ہے۔اسی طرح بہو ،ساس ،بیوی کی بیٹی (ماں کے ساتھ آمیزش کرنے کی شرط پر)بیوی کی بہن (بہن کے عقد میں ہونے کی صورت میں )مرد پر حرام ہیں ۔اسی طرح ہر شوہردارعورت اور رضاعی رشتہ دار بھی نسبی رشتہ داروں کے مانند حرام ہوتے ہیں ۔عورت کے لئے بھی اسی نسبت سے مرد حرام ہوتے ہیں ۔مذکورہ بیان کے مدارک قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جو سورہ نساء میں ذکر ہوئی ہیں اور اسی طرح وہ روایتیں بھی ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کی کتابوں میں درج ہیں ۔
اسلام اور مسئلہ طلاق
سوال: اسلام کی نظر میں طلاق کیسی ہے ؟
جواب:طلاق،اسلام کی مجلس قانون ساز کے فخر ومباہات میں سے ہے اور یہ ابدی بدبختی کو خاتمہ بخشنے والی چیزہے کہ میاں بیوی کے درمیان عدم توافق کے نتیجہ میں رونما ہوتی ہے ۔اس قانون کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ غیر اسلامی حکومتیں بھی تدریجاًیکے بعد دیگرے اسے قبول کر رہی ہیں ۔اس کا ایک خلاصہ سوالات کے چوتھے حصہ کے جواب میں بیان کیا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو ص۔١٧٥
طلاق ،ضروریات اسلام میں سے ایک ہے اوراس کا مصدر بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔طلاق کے قوانین کی تفصیل اور ان کے مصادربیان کر نے کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے۔
عورت اورہمسر کے انتخاب کا حق
سوال: کیا اسلام میں عورت،مرد کی طرح اپنے شریک حیات کو انتخاب کرنے کا حق رکھتی ہے یا نہیں ؟
جواب: اسلام میں عورت اپنے شریک حیات کاانتخاب کرنے میں آزاد ہے ۔
فرزند کا مردسے متعلق ہو نا
سوال:میاں بیوی کے درمیان طلاق کی صورت میں فرزند کس کا ہو تا ہے ؟
جواب:مطلّقہ عورت حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے بچہ کو سات سال تک خودپرورش کرے اور اس مدت کے دوران بچہ کی زندگی کا خرچ مرد کے ذمہ ہے ۔اس حکم کے مصدرکے بارے میں فقہ اسلام کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی ایک فرمائش
سوال: کیا اسے مانتے ہو کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے : اپنے فرزندوں کو مستقبل کے لئے تر بیت کرنا ؟اس صورت میں کیا اس فرمائش کا یہ معنی نہیں ہے کہ قوانین اسلام زمان ومکان کے مطابق بدلنے چاہئیں ؟
جواب: یہ ایک مرسل حدیث ہے ،کتاب نہج البلاغہ میں حضرت سے منسوب کی گئی ہے ،اس کا مقصود یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کو آداب ورسوم کی بنیاد پر انجام نہیں دینا چاہئے ،کیونکہ روزمرہ کے آداب ورسوم کا جمود انسان کو زندگی کی ترقی سے روکتا ہے ،جیسے کوئی شخص گھوڑے گدھے یاپیدل سفر کرنے کا عادی ہو اوراسی پر اکتفا کرے وہ کبھی گاڑی کو ایجاد کرنے اورسڑک کے اتار چڑھائو کو ہموار کرنے کی فکر میں نہیں پڑے گا۔
اس کا مقصود یہ نہیں ہے کہ اپنے فرزندوں کو شرعی قوانین (جونص کے مطابق قابل تغیرنہیں ہیں ) کا پابند نہ کریں اور اگر حقیقت میں یہی مقصود ہوتا توہم حدیث کو مسترد کر نے کے لئے ناگزیرتھے ۔ کیونکہ ہمارے پاس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام ائمہ اطہارعلیہم السلام کا واضح اور قطعی حکم موجود ہے کہ جو بھی حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو اسے مسترد کر کے قبول نہ کریں اور اس لحاظ سے ہر حدیث کا پہلے قرآن مجید سے موازنہ کر نا چاہئے اور اس کے بعد اسے قبول کرنا چاہئے ۔
شریعت کے احکام و قوانین میں خدا کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے
سوال:قوانین اسلام میںزمان ومکان کے مطابق تبدیلی لانے میں کیوں ہمیشہ کوتاہی کی ہے؟
جواب: دینی امور کے اولیاء خدائی قوانین (شریعت) میں تبدیلی لانے کا کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور ان کا فرض صرف دینی مسائل کے بارے میں کتاب وسنت سے استنباط کرنا ہے ،ایک وکیل کے مانند جو قانونی مسائل کو ملک کے آئین سے استنباط کرتا ہے نہ یہ کہ آئین کے کسی دفعہ میں تبدیلی لائے ۔
شرعی قوانین کے بارے میں علمائے دین کی بات ہی نہیں ،خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـجو شریعت کے لانے والے ہیں ـاورآپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جانشین ۔جو امام اور شریعت کے محافظ اور معلم ہیں ۔بھی تبدیلی لانے کا اختیار نہیں رکھتے ۔اس قسم کے سوالات اور اعتراضات کا سرچشمہ مغربی عمرانیات کے ماہروں کا طرز تفکر ہے ، جو یہ کہتے ہیں : صاحب شریعت انبیاء چند نوابغ اور اجتماعی مفکرین تھے ،جنہوںنے معاشرہ کے حق میں انقلاب برپا کرکے لو گوں کی سیدھے راستہ کی طرف دعوت کی ہے اور اقتضائے زمان کے مطابق اپنی فکر سے کچھ قوانین کو وضع کر کے لوگوں کو سکھایا ہے اور خود کو خدا کے رسول، اپنے مقدس افکار کوآسمانی وحی اور خدا کا کلام اور شریعت وخدا کا دین اور اپنے بے لاگ افکار کے سرچشمہ کو فرشتہ وحی ،جبرئیل بیان کیا ہے ۔
بدیہی ہے کہ اس قسم کے نظریہ کے مطابق،ادیان آسمانی کے قوانین من جملہ شریعت اسلام اقتضائے زمان کے مطابق مرتب ہونے چاہئیں اور ان چالیس سوالات ١کے دوران پیداہونے والے اعتراضات بجا ہونے چاہئیں ۔
لیکن یہ صاحبان نظر اپنے نظریہ میں خطا کے مر تکب ہوئے ہیں ۔اوربجائے اس کے بغیر کہ پیغمبروں کے دعویٰ کی تحقیق کریں ،بے بنیاد فرض پر فیصلہ سنادیا ہے ۔اگر چہ دوسری آسمانی کتابوں کی سند اورگزشتہ پیغمبروں کی زندگی کی تاریخ ابہام اور تاریکی
سے مبرّا نہیں ہے ،لیکن قرآن مجید کا متن،جو اسلام کی آسمانی کتاب ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی تاریخ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے
١۔ جدید طبع میں سوالات کو مرتب کرنے کے بعد ان کی تعدادکم ہو کر ٣٣رہ جاتی ہے ۔
جانشینوں کے موجودہ قطعی الصدور بیانات اس نظریہ کو جھٹلاکر مسترد کرتے ہیں ۔
ہم اس وقت اسلام کی طرفداری یا اس کی حقانیت کا دفاع کرنا نہیں چاہتے ،لیکن جو شخص اس دین کے مصادرکے بارے میں تھوڑی سی آشنائی بھی رکھتا ہو ،قرآن مجید اور اولیائے دین خاص کر اس کتا ب کو لانے والے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بیانات پر سر سر ی نگاہ ڈالے تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس نظریہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ۔
قرآن مجید واضح الفاظ میں فرماتا ہے :
'' پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین خدا میں کسی قسم کا اختیار اور عمل کی آزادی نہیں رکھتے ہیں اور وہ صرف خداکا پیغام پہنچانے والے ہیں۔''(مائدہ ٩٢،٩٩)
واضح طور پر فرماتا ہے :
''دین خدا بشر ی فکر کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ ایسے احکام وقوانین ہیں جنھیں پروردگار عالم نے اسے پیغمبروں کے توسط سے اپنے بندوں پر نازل فرمایا ہے'' (حاقہ٤٠۔٤٣)
جو لوگ یہ کہتے تھے کہ قرآن مجید پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کلام ہے اورآپصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسے خداسے نسبت دیتے ہیں ،ان کے جواب میں قرآن مجید واضح طور پر فرماتا ہے :
'' بیشک قرآن خدا کا کلام ہے اور انسان کا کلام نہیںہے اور نہ اس کے مضامین انسانی فکر کی پیداوار ہیں ۔
''
مزید فرماتا ہے :
''پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آسمانی وحی اورنبوت نے خاتمہ پایا ہے
اور قرآ ن کے احکام قیامت تک معتبر اور ناقابل تنسیخ ہیں
''
گزشتہ مطالب کے پیش نظر جو شخص اسلام کے قوانین کے ایک حصہ کو روزمرہ زندگی سے ناقابل تطبیق تشخیص قراردے ،اسے اسلام کی حقانیت کی بنیاد ـجو ابدی احکام اور قوانین کوبیان کر تا ہے ـ پر اعتراض کرنا چاہئے اور ان میں تبدیلی لانے کی چارہ جوئی کر نی چاہئے ۔
اسلام اور ترقی یافتہ قوانین
سوال: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ تعلیم یافتہ مسلمان نو جوانوں کے دین سے منہ موڑ نے کی ذمہ داری ان پس ماندہ قوانین پر ہے جو موجودہ زمانہ میں دنیا کی صنعت وعلم کے مطابق نہیں ؟
جواب: بہتر تھا اگر آپ ان بے بنیادد عاوی کے بجائے اسلام کے پس ماندہ قوانین کے چند نمونے پیش کرتے تاکہ اس پر مدلّل بحث کی جاتی ۔اسلام میں پس
ماندے قوانین نہیں ہیں لیکن قوانین سے پیچھے رہ جانے والے مسلمان بہت ہیں !
آسمانی ادیان،خاص کر دین اسلام انسان کی ایک ابدی ازلی زندگی اور انسانی زندگی کے ماورائے طبیعت سے رابطہ کی بحث کرتے ہیں اور اس طرز کی بحث کا آج کے علم وصنعت سے کیا رابطہ ہے ؟ آج کل کے علم کی بحث کا موضوع مادّہ اور مادّہ کی خصوصیات ہے اور آج کی صنعت بھی مادہ کے بارے میں سر گرم ہے ۔اس لحاظ سے ماوراء کے بارے میں اسے مسترد یا قبول کرنے کے سلسلہ میں اظہار نظر کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے ۔
ہمارے تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے دین سے منہ موڑ نے کا گناہ دینی قوانین پر نہیں ہے اور اس مطلب کا گواہ کہ انسان نے نہ صرف دین سے رو گردانی کی ہے بلکہ واضح ہے کہ ضمیر اور انسانیت کے قوانین کو بھی پائمال کر رہا ہے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں جھوٹ،خیانت ،چاپلوسی ،بے حیائی اور بے راہ روی کاس ہو ناہے کہ وہ ہر قسم کی پاکی ،سچائی اور حق کے دشمن ہیں ،نہ صرف دین کے ۔
دوسری طرف سے ،تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد (اگر چہ دوسروں کی نسبت کم ہے ) پسندیدہ اخلاق سے آراستہ اور معارف سے آشنا اور ان ہی (بقول آپ کے) پسماندہ قوانین ! کے پابند اوران پر عمل کرتے ہیں اور چونکہ اسلام ہر گز علم وصنعت کے منا فی نہیں ہے ،اس لئے یہ لوگ اپنی زندگی میں رنج وناراحتی کا ہر گزاحساس نہیں کرتے ۔لہذا حقیقت میں ہمارے نوجوانوں کی دین سے روگردانی کی ذمہ داری ہمارے فریضہ ناشناس ثقافتی مسئو لین کی ثقافتی تعلیم وتر بیت کے طریقہ کار پر ہے نہ دینی قوانین پر اورنہ انسانی فضائل اور اخلاقی قوانین پر ۔
فحاشی اورمنکرات کا قبیح ہونا
سوال: فحاشی ـجس میں مرد اور عورتیں برابر شریک ہیں ـ کے بارے میں عورتوں کی کیوں زیادہ ملامت کی جاتی ہے ؟ اور اگر آپ قبول کرتے ہیں کہ مرد، ایک بہتر اور طاقتورترمخلوق ہے ،اس صورت میں وہ اپنے اعمال کو بہتر کنٹرول کرسکتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کی زیادہ سر زنش کی جانی چاہئے ؟
جواب:اسلام میں ایسے کسی حکم کا وجود ہی نہیں ہے ۔
ایک ناشائستہ بات
سوال: کہا جاتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے : اگر کسی کو اپنامنہ بولا بیٹابنادوگے تواس کے ساتھ اپنے حقیقی بیٹے کا جیسا برتائو کرناچاہئے کیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں ؟صحیح ہونے کی صورت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق دی گئی بیوی سے شادی کرنے پر کیوں آمادہ ہوئے ؟
جواب:آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہرگز ایسی کوئی تاکید نہیں کی گئی ہے ،بلکہ یہ ایک تہمت ہے جو اسلام کے دشمن خاص کر مغربی عیسائی آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر لگاتے ہیں ۔اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق دی گئی بیوی سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی شادی اسی اصول پر تھی کہ اس ناپسند رسم کو باطل کر کے اس کا اعلان فرمائیں ،کیو نکہ اس زمانہ میں اکثر ممالک میں ایک خاندان کے کسی فرزند کو دوسرے خاندان سے ملحق کر کے اس کے ساتھ حقیقی رشتہ کا برتائو کیا جاتا تھا ۔اس سلسلہ میں قرآن مجید کے سورہ احزاب میں کئی آیتیں موجود ہیں ۔
ازدواج میں عمر معیار نہیں ہے
سوال: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،بشر کی تربیت کے لئے ایک عظیم مقام پر فائز تھے اورآپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اعمال دوسروں کے لئے نمونے ہونے چاہئیں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے کیوں تقریباًبوڑھاپے میں ایک نوسالہ لڑکی (عائشہ )سے شادی کی؟
جواب:اگر جوان عورت کی ایک بوڑھے مرد سے شادی کر نے میں کوئی عیب ہو تو ،یہی ہو گا کہ ایک جوان عورت کے لئے ایک بوڑھے مردسے مباشرت کرنی لذت بخش نہیں ہو تی یا یہ کہ عمر کے عدم تعادل اور تقارب کی وجہ سے عام طور پر شوہر عورت سے پہلے مرجاتا ہے اور عورت جوانی میں بیوہ ہوتی ہے ۔لیکن واضح ہے کہ ازدواج کے مقاصد صرف ان دو مقاصد تک محدود نہیں ہیں اس لئے ہمارے پاس اس رویہ کے ممنوع ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ممکن ہے مذکورہ مقاصد سے بہت اہم دوسرے مقاصدبھی ہوں جو اس قسم کی شادی کے لئے ترجیح کا سبب بنیں ۔
جیسا کہ ہم نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ چند سال پہلے ،امریکہ کے صدرجمہوریہ مسٹرآئزن ہاور نے امریکہ کے کثیرالاشاعت اخباروں میں یہ ایک سوال پیش کیاتھا اور ملک کی دوشیزگان سے پو چھاتھا کہ تم کس سے شادی کرنا پسند کرتی ہو ؟امریکہ کی اکثر دوشیزگان نے اپنے جواب میں خود مسٹر آئزن ہاورکا نام لیا تھا ،جبکہ نہ وہ جوان تھا اور نہ خوبصورت ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی کے بارے میں ،جوشخص آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کم وبیش اطلاع رکھتا ہے ، بخوبی جانتا ہے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
ایک شہوت پرست اور عیّاش مرد نہیں تھے اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ہر کام استدلال کی بنیاد پر ہوا کرتے تھے نہ جذبات کی بنا پر ،آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اس قسم کاکام جواز کے بیان کے لئے انجام پایا ہے اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی دعوت اسلام کی پیشرفت میں اس کے نمایاں اثرات رونما ہوئے ہیں ۔
__________________