اسلام میں متعہ کا مشروع وجائزہونا
سوال:''متعہ '' کے حکم کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ،جبکہ اہل سنت اس کے مخالف ہیں اور اس عمل کا مقصود کیاہے ؟ کیاآپ نہیں سمجھتے کہ یہ امرانسانی قوانین کے خلاف ہے اور عورت کو (اگرانسان کی حیثیت سے قبول کرتے ہو )ایک ایسی چیز بناتا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ اس کا ناجائز فائدہ اٹھایاجائے ؟
جواب: نکاح متعہ کی مشروعیت و شرعی جواز قرآن مجید کے سورئہ نساء کی آیت نمبر ٢٤ میں ثابت ہو چکاہے اور شیعہ اس کے بارے میں اہل سنّت کی مخالفت پر اعتنا نہیں کرتے ، کیونکہ یہ عمل قرآن مجید میں ثابت ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پو ری زندگی میں ،خلیفہ اول کی خلافت کے دوران اور خلیفہ دوم کی خلافت میں بھی ایک مدت تک معمول کے مطابق رائج تھا اور اس کے بعد خلیفئہ دوم نے اس کو منع کیا اور واضح ہے کہ قرآن مجید کے حکم کو صرف قرآن مجید ہی تنسیخ کر سکتا ہے اور اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ موزون (شریعت کے)قوانین کے بارے میں اظہار نظر کرے ۔
نکاح متعہ کا مقصود ،موقت ازدواج ہے اور اسلام کی نظر میں اس کی مشروعیت وشرعی جواز مذکورہ بیانات کے مطابق ناقابل انکار ہے ۔فلسفہ احکام کے نقطہ نظر کے مطابق طلاق کی مشروعیت وشرعی جوازاس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ازدواج،موقت بھی انجام دیا جاسکتا ہے ،اس صورت میں کہ موقّت ازدواج آثار کے لحاظ سے اس طرح مرتب ہو جائے کہ نقصانات اور مضر نتائج کا سبب نہ بنے ،تو اس کو ممنوع کر نے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور یہ جو کہا گیا ہے کہ''یہ عمل عورت کو ایک ایسی چیزبنا دیتی ہے جس سے مردآسانی کے ساتھ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے '' ایک زبردستی اور ظلم ہے ،کیو نکہ عورت اس عمل کو اپنے اختیار سے قبول کرتی ہے نہ جبر واکراہ سے اور اس عمل میں جو مقاصد مرد کے لئے فرض کئے جا سکتے ہیں اور وہ مقاصد اگر مصاحبت ،لذت ،اولاد پید اکرنا اور زندگی کے دوسرے فوائد ہیں تو یہ دونوں طرف موجود ہیں ،اس لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ دو میں سے کسی ایک کو دوسرے کا کھلو نا شمار کیا جائے ۔
اس کے علاوہ اگر آپ عالم بشریت پر عام اور وسیع نظر ڈال کر سنجیدگی سے غور کریں گے تو واضح طور پر مشاہدہ کریں گے کہ انسانی معاشرہ کی جنسی آمیزش کو نکاح اور دائمی ازدواج تک محدود کر کے ہر قسم کی دوسری آمیزش کو غیر قانونی شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور ازدواج دائمی کا رواج ہر گز اس جنسی جبلّت کو پورا کر کے مناسب جو اب نہیں دے سکتا ہے ۔
مہذب دنیا کے کسی بھی ملک میں قانونی حکومتیں کسی بھی ذریعہ سے مو قت آمیزشوں کے پھیلائو پر کنٹرول نہیں کر سکی ہیں اور تمام بڑے اور مرکزی شہروں میں آشکار یا مخفیانہ صورت میں یہ عمل انجام پاتا ہے ۔اس صورت میں جو مذہب جنسی آمیزش کو ازدواج تک محدود کر کے مکمل طور پر زنا کو روکنا چاہے ،تو اس کے لئے ناگزیر ہے کہ موقت ازدواج کو زنا کے مفاسد کو رفع کر نے کے خاص شرائط سے قانون میں جگہ دے تاکہ اس عمومی جبلّت کا خاطر خواہ طریقہ سے کنٹرول کر سکے ۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ''اگر خلیفہ دوم اس نکاح متعہ(موقعت ازدواج) کو ممنوع نہ کرتے تو صرف وہ لوگ زنا میںگرفتار ہو تے جو گمراہی سے ہلا کت تک پہنچ گئے ہوں )اور یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ اس امر کو انسانی قوانین کے خلاف شمار کرنا کس قدر حقیقت سے دوری ہے ۔
البتہ انسانی قوانین کا مقصود قبل از اسلام قدیم قوانین ،جیسے قدیم رومی اور حمورابی کے قوانین نہیں ہیں،کیو نکہ ان قوانین میں عورت سے حیوانوں یا اسیروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا ،بلکہ ان سے مراد مغربی قوانین ہیںاسی عالم غرب کو انسانی دنیا، مغربی معاشرے کو انسانی معاشرہ اور غریبوں کو انسان جانتے ہیں اور ہر قسم کے اوامر سے متاثر ہو کر (حقیقت ذہنی ،تلقین ،تقلید ،تبلیغ،خطا)فی الحال یہی فکر کسی قید وشرط کے بغیر ہمارے ذہنوں پر حکمراں ہے ۔لیکن دیکھنا چاہئے کہ ان فخر کر نے والے انسانوں نے ازدواج کے ماحول سے باہر ،عمومی اور مخلوط معاشرتوں میں اس (انسانی قوانین کے خلاف )کی جگہ پر کیا رکھا ہے اور مہذّب ممالک خاص کر سب سے مہذب ممالک میں مردوں اوعورتوں ،لڑکوں اور کنواری لڑکیوں اور خود مردوں اور جوانوں کے درمیان کیا گزر رہی ہے ؟اور دائمی ازدواج کی راہ سے جو کمی واقع ہو رہی ہے اسے کس طریقہ سے پو را کرتے ہیں ؟اور اس سلسلہ میں شائع ہو نے والے حیرت انگیز اعداد وشمار کس بات کی غماّزی کرتے ہیں ؟
مسلمانوں کی کمزوری کا اسلام سے کوئی ربط نہیں ہے
سوال: غریبوں کا اعتقاد ہے کہ اسلام صرف سادہ لوگوں جیسے کسان ،صحرانشین اور آج کل کی مشینی تمدن سے پیچھے رہ جانے والوں کادین ہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں سے ایک ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہیں ہے اور اسلام نے صنعتی اور متمدن ممالک میں اصلاً کسی قسم کی پیشرفت نہیںکی ہے ۔اس کا سبب کیا ہے ؟کیا آپ سوچتے ہیں کہ اسلامی قوانین کو اس طرح تبدیل کیا جائے یاترجمہ کیا جائے جو تعلیم یافتہ افراد کے لئے قابل قبول ہوں اور علم کے موافق ہوں؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی ممالک ترقی یافتہ اور پیشرفتہ ممالک کی فہرست میں نہیں ہیں ۔لیکن دیکھنا چاہئے اسلامی ملک کا نام رکھنے والے ممالک میں سے کس ملک میں اسلامی قوانین نافذہیں ؟اس کے علاوہ یہ کہ ان پر دین اسلام کا نام لگایاگیا ہے اور اس نام کا انہیں کیا فائدہ مل رہا ہے ؟بجز اس کے ان ممالک میں کچھ لوگ بعض اسلامی عبادتوں ،جیسے نماز،روزہ اورحج کو دیرینہ عادت کے طور پر بجا لاتے ہیں ،یہ لوگ اسلام کے انفرادی ،اجتماعی، تغیراتی اور عدلیہ کے کن قوانین پر عمل کرتے ہیں ؟اس صورت میں کیا یہ مذاق نہیں ہے کہ اسلامی ممالک کے تنزّل کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرایا جائے؟
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اگر اسلام ایک ترقی یافتہ دین ہو تا اور اس کے قوانین معاشرے کی اصلاح اور ادارہ کر نے کی لیاقت رکھتے ،تو اس نے معاشرے میں اپنے لئے کوئی جگہ بنالی ہو تی اور اس طرح متروک نہ ہو چکا ہو تا!
لیکن یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر معاشرہ میں عدم ترقی اور تنزل کا سبب اسلامی قوانین ہیں تو، مغربی ترقی یافتہ ڈیمو کریسی کی روش،جو نصف صدی سے ان ممالک میں رائج ہے ،نے اپنے لئے کیوںکوئی جگہ نہیں بنائی ہے اور اپنی پیشرفت میں کسی قسم کا اثر نہیں دکھایا ہے اور ظاہر نمائی کے علاوہ کوئی اثر نہیں رکھتی ؟اور مشرقی لوگ غریبوں کے مانند اس ترقی یافتہ روش سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاسکتے ہیں ؟اور کیوں یہی انسانی نظام ''ڈیمو کریسی ''جو برسوں سے انسانیت کے گہوارہ ''مغرب'' میں اپنے لئے جگہ بنا سکا تھا اور معاشرہ کی رگوں میں خون کی جگہ جاری تھا ،کمیو نزم کی آوازکو خاموش نہ کر ساکا ہے ،یہاں تک نصف صدی سے کم عرصہ میں کمیو نسٹ نظام نے کرئہ ارض کی تقریباًنصف آبادی پر اپنا تسلط جمایا اور حتی یورپ اور امریکا کے مرکز میںبھی نفوذ کیا اور ہر روز ایک نئے مورچہ کو ان ہی تر قی یافتہ انسانوں (غریبوں) سے فتح کر تا جارہا ہے کیا اسی دستاویز کی بناپر یہ نظریہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ کیمو نزم کے ترقی یافتہ قوانین اور اس کا نظام یا ڈیمو کریسی کے قوانین اور اس کا نظام ،بدبختو ں اور صحرا نشینوں کی روش ہے ؟
اس کے علاوہ ،زوال اور پس ماند گی سے صرف مسلمان ممالک دوچار نہیں ہیں تاکہ اسے اسلام کی گردن پر ڈال دیا جائے بلکہ ایشیاء اور افریقہ کے تمام ممالک، من جملہ بر ہمن اوربدھ مذہب سے لے کر مسحیت اور اسلام سے تعلق رہنے والے لوگ رہتے ہیں، اسی بد قسمتی سے دوچار ہیں ۔یقینا ایشیا اور افریقہ کے قدرتی دولت سے مالامال ان دو بر اعظموں کا گناہ یہ ہے کہ مغربی دنیا اور ان کے بے حد طمع ولالچ کے شکار ہوئے ہیں تا کہ یہ دو بے نیاز بر اعظم اپنے منابع سے مغربی صنعتوں اور ان کے بازار کے لئے خام مال کا ذخیرہ مہیا کر سکیں اور غلاموں کی یہ دنیابدون چون وچرا مغرب کی محتاج رہے ۔ان حالات کے پیش نظر یہ ممالک کبھی ترقی یافتہ ممالک (یعنی مغربی ممالک) کا جز نہیں بن سکتے ہیں اور ان ممالک کے باشندے ،خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان ،کبھی اپنے آقائوں سے ملحق نہیں ہوں گے جیسا کہ آج تک ہم نے دیکھا ہے ،یہ لوگ ''غربی'' کبھی ''استعمار''کبھی ''استملاک '' کبھی ''اشتراک منافع''اور کبھی ''اقتصادی امداد''کے نام پر ہم پر سوار ہوتے رہیں گے ۔
سوال کے ذیل میں جو یہ کہا گیا ہے کہ کیا اسلام کو اس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے یا توجیہ کی جاسکتی ہے تاکہ تعلیم یافتہ لو گوں کے لئے قابل قبول ہو اور علم کے موافق ہو ؟چنانچہ بیان ہوا ،معارف اسلامی ـ جن کی ضمانت کتاب وسنت دیتی ہے ـ واضح طور پرہر گز قابل تغیر نہیں ہے چنانچہ اسلام دین حق ہے اس لئے اسے ضرورت ہی نہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ اسے قبول کرے ،بلکہ مذکو رہ طبقہ ہی حق اور حقیقت پسندی کا محتاج ہے ،
خدائے متعال فرماتا ہے :
''دین میں کسی قسم کا جبر واکراہ نہیں ہے اور سیدھا راستہ واضح ہے
''
ہم پھر یہی بات کہتے ہیں کہ ''اسلام کی علم سے مخالفت ''کو ثابت کرنے کے لئے چند نمو نے پیش کئے جاتے تاکہ ''اسلام علم کا مخالف ہے ''کے صرف دعویٰ کی دلیل بھی پیش کی جاتی اور اسی خالی دعویٰ پر اکتفانہ کرتے ۔
قانون اور عدالت کے سامنے سب مساوی ہیں
سوال: کیا آپ یہ بات مانتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے : ایک انسان کی قدر ومنزلت اس کے اعمال اور کردارپر منحصر ہے نہ اس پر کہ وہ کس کا فرزند ہے یا کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے یاکس رنگ کا ہے ؟اس بنا ء پر شیعہ حضرات کیوں حضرت علی علیہ السلام یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کو نسل در نسل دوسروں سے بہتر و پاک تر جانتے ہیں ؟
جواب: اسلام کی نظر میں قانون اور عدالت کے سا منے سب برابر ہیں اور اس جہت سے شاہ وگدا ،امیر وغریب ،طاقت وراورکمزور ،مرداورعورت،سیاہ فام اورسفیدفام ،حتی پیغمبر وامام ـ کہ معصوم ہیں ـ اور تمام لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور کسی بھی استثناء اور امتیاز سے کسی پر دبائو ڈال کر اس کی قانونی آزادی سلب نہیں کی جاسکتی ہے ۔سادات کے احترام کی بنیاد قرآن مجید کی ایک آیہ شریفہ ہے جس کے موجب خدائے متعال اپنے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
حکم فرماتا ہے کہ لوگوں سے تقاضا کریں کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے رشتہ داروں سے دوستی اور مودّت کا معاملہ کریں
اس تقاضا کا راز پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد واضح ہوا اور لوگوں نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اولاد سے ایک ایسا برتاؤکیا کہ تاریخ میں کسی رہبر اور پیشوا کی نسل کے ساتھ نہیں کیا گیا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد صدیوں تک سلسلئہ سادات کسی صورت میں محفوظ نہیں تھا ،وہ قتل کئے جاتے تھے ،ان کے تن سے جدا کئے گئے اوران سروں کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں تحفہ کے طور پربھیجا جا تا تھا ،انھیں زندہ زمین میں دفناتے تھے ،گروہ گروہ کی صورت میں عمارتوں اوردیواروں میں چنے جاتے تھے ،سالہا سال تک زندان کی کالی کو ٹھہریوں میں انھیں جسمانی اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں ،اور انھیں زہر دیا جاتا تھا ۔ہجرت کے بعد صدیاں گزر کر شیعوں نے تھوڑی سی آزادی حاصل کی اور اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے دوستوں پر ہو نے والے مظالم کے مقابلہ میں ردعمل دکھا کر سادات کا احترام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسلام میں سور کے گوشت کے حرام ہونے کا فلسفہ
سوال :سور کا گوشت کھانا اسلام میں کیوں حرام ہے ؟
جواب: سور کا گوشت صرف اسلام میں ہی حرام نہیں ہے بلکہ جیسا کہ انجیل اور تورات سے معلوم ہو تا ہے کہ سور کا گوشت اسلام سے پہلے آسمانی ادیان میں بھی حرام تھا ۔اس کے گوشت کے حرام ہونے کے بارے میں جو فلسفہ بیان کیا گیا ہے وہ حفظان صحت کے لئے نقصانات اور اس کا نجاست خوار ہونا ہے ۔
اسلام میں مست کرنیوالی چیزوں کے حرام ہونے کافلسفہ
سوال: اسلام میں شراب کیوں حرام ہے؟
جواب: اسلام نے اپنی تعلیم وتربیت کی بنیاد استدلال پر رکھی ہے جو تمام حیوانات پر انسان کا امتیاز ہے اور واضح ہے کہ شراب اور دوسری مست کرنے والی چیزیں انسان کی زندگی کے اس بنیاد ی امتیاز کو ضائع کر دیتی ہیں اور استثنا کے بغیر دینی تعلیم وتربیت کے مقاصد کو نابود کر کے رکھتی ہیں ۔
مختلف قسم کے ظلم وتعدّی ،قانون کی خلاف ورزیوں اور بے راہ رویوں کا، شراب تنہا عامل یا ان میں شریک ہے اور اسی طرح حفظان صحت ،روح اور جسم کوپہنچنے والے نقصانات اور موروثی برے اثرات جو روز مرہ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں ، شراب کے سبب سے ہیں ،ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے ١
مرد اور عورت کے درمیان جائز اور ناجائز تعلقات
سوال: اسلام عشق اور زن و مرد کے درمیان جنسی تعلقات کے بارے میں کیا نظریہ رکھتا ہے ؟
١۔(
یاایّها الّذین امنوا انّما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوه لعلکم تفلحون٭انّما یرید الشیطان ان یو قع بینکم العداوةوالبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکراللّه وعن الصلوة فهل انتم منتهون
)
(مائدہ ٩٠۔٩١)
ایمان والو !شراب ،جوا ،بت ،پانسہ ،یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو ۔شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جو ے کے بارے میں تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرے اور تمھیں یاد خدا اور نماز سے روک دے توکیا تم واقعاًرک جائو گے؟
جواب:ازدواج کے ماحول سے باہر ،(جیسا کہ بیان ہوا) عاشقانہ تعلقات، خواہ آمیزش کے لئے ہوں یا اس کے مقدمات کے طور پر ، اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں ۔اور بنیادی طور پر جاننا چاہئے کہ اسلام میں حرام کا فلسفہ طبقات کی آزادی کو سلب کر نے کا مسئلہ یا دوسروں کا حق چھیننا اور ظلم کر نا نہیں ہے ۔البتہ اگر زن ومردکو اپنی مر ضی سے کسی کے حقوق میں رکاوٹ اور ظلم کئے بغیر بھی آزادی کے ساتھ ہر کام انجام دینے کی اجازت ہو تو اس میں اور زنا کے اقسام میں کوئی فرق نہیں ہے، ایسے اعمال ممنوع ہیں اور اس حساب سے لواط بھی زنا کے مانند ہے ۔
اسلامی احکام کا نا قابل تغیر ہو نا
سوال: کیا کلّی طور پر آپ اس بات کے معتقد ہیں کہ قوانین اسلام قابل تغیر و تبدیل ہیں یا نہیں ؟ اور کیا ان تغیرات کے بارے میں آپ معتقدہیں کہ اس سلسلہ میں دینی قائدین کو پیش قدم ہو نا چاہئے یا تغیرات رونما ہو نے کی صورت میں ان کے ساتھ ہم آہنگی کریں ؟
جواب: چنانچہ پہلے بیان ہو اکہ شریعت کے قوانین (خدا کے ثابت احکام) کسی صورت میں قابل تغیر نہیں ہیں اور دین کے قائدین کو پیش قدم ہونے یا پیچھے ہٹنے یا کسی مورد میں موقت یا غیر موقت سازش کرنے کے لئے کسی قسم کا اختیار نہیں دیا گیا ہے ۔خدائے متعال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :
''اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہو تا توآپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف ضرورمائل ہو جاتے ۔اور پھر ہم زندگا نی دنیا اور موت دونوں مر حلوں پر دہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مدد گاراورکمک کرنے والا بھی نہ پاتے١ ۔''
دین کے احکام کا قرآن وسنّت کی بنیاد پر قابل قبول ہونا
سوال:کیاآپ ذاتی طورپراسلام کے تمام قوانین اوررسومات پرکسی قسم کے چون وچراکے بغیراعتقاد رکھتے ہیں؟
جواب:مسلمانوںمیںپیداہوئے آداب ورسوم اگرکتاب وسنت سے کوئی ماخذنہ رکھتے ہوںتوان کی کوئی قدروقیمت نہیںہے۔لیکن شریعت کے قوانین جوکتاب وسنت میںقطعی مدرک رکھتے ہیں،انھیں قبول کرناواجب ہے اور ان کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔
مولا علی علیہ السلام کے کلام کی وضاحت
سوال : حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :''اپنے ماں باپ کے لئے مسلمان نہ ہو جائو ،بلکہ اس لئے مسلمان ہو جائو کہ تم خود اس کا ایمان پیدا کر کے اسے قبول کرو گے جتنا ہو سکے اپنی عقل سے قبول کرو ۔''اس صورت میں کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہر مسلمان اس حق کی آزادی رکھتا ہے کہ قوانین اسلام میں سے جسے پسند کرے اسے قبول کرے اور باقی قوانین کو اگر عقل سے قبول نہیں کر سکتا ہو تو انھیں چھوڑ دے ؟
جواب :حضرت علی علیہ السلام کا یہ کلام اسلام کے اعتقادی معارف کے بارے میں ہے
١۔(
ولولاان ثبتناک لقد کدتّ ترکن الیهم شیئاً قلیلا ٭اذاً لذ قناک ضعف الحیاة وضعف الممات ثم لا تجد لک علینا نصیرا
)
(اسراء ٧٤۔٧٥)
کہ ان پر عقل کی راہ سے ایمان لا نا چاہئے ،نہ عملی قوانین کے بارے میںکہ ان پر عمل کر نا ضروری ہے قوانین پر عمل کرنے میں امتیاز بر تنا بے معنیٰ ہے ۔
صرف قوانین اسلام میں ہی امتیاز بر تنا جائز نہیں ہے بلکہ دوسرے اجتماعی قوانین کی بھی یہی حالت ہے ان میں امتیاز بر تنا ایک تشکیل یافتہ معاشرہ کو نابود کر نے کے علاوہ کو ئی نتیجہ نہیں دیتا ۔مثلاً جس ملک میں ڈیمو کریسی کانظام حکم فر ما ہو تو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ اعلیٰ طبقہ کے لو گوں کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ قوانین کے ان دفعات کو قبول نہ کریں جو ان کی عقل کے ساتھ ساز گار نہ ہوں اور نتیجہ کے طور پر لو گوں کا ایک گروہ مالیات سے مربوط قوانین کے دفعات پرعمل نہیںکرے گااورکچھ لوگ تجارت سے مربوط قوانین کو،کچھ لوگ تعزیراتی قوانین کواورکچھ لوگ انتظامات سے مربوط قوانین کوچھوڑ دیںگے تو بدیہی ہے اس قسم کے حالات معاشرہ میں ہرج ومرج پیدا کر کے اسے نابود کر نے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔اس کے برعکس ، ہرفرد ڈیمو کریسی کا نظام کو قبول کر تا ہے اورمجلس قانون ساز کے نمائندہ کو انتخاب کر کے قانون کے تمام دفعات کو قبول کر تا ہے اور قانون کے ہر دفعہ کو ناقابل تردید جانتا ہے ۔
اسی طرح اسلام میں جس شخص نے عقل کی راہ سے اسلام کے اعتقادی معارف کو قبول کیا، اس نے اس کے ضمن میں نبوت کی حقانیت کی تصدیق کر کے ایمان لایا ہے کہ جو قوانین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں اور ان کی خداسے نسبت دی ہے ،وہ ایسے قوانین ہیں جن کو وضع کر نے والا حقیقت میں خدائے متعال ہے اور خدائے متعال ہر گز اپنے قوانین میں غلطی اور خطا نہیں کرتا ہے اوراپنے بندوں کے منافع کے تحفظ اور ان کی مصلحت کی رعایت کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا ہے، البتہ جو شخص اس قسم کا اجمالی ایمان پید اکرتا ہے وہ اسلام کے تمام قوانین کے صحیح اور معتبر ہو نے کی اجمالاًتصدیق کرتا ہے اور انھیں ناقابل تردید جانتا ہے اگر چہ ان سب قوانین کے بارے میں اور ان کی مصلحتوں کے بارے میں تفصیلی علم پیدا نہ کرسکے ۔اس بنا پر بعض قوانین کو قبول کرنے اوربعض کو مسترد کر نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ہے ۔
دین اسلام ،خدائے متعال کا دین ہے
سوال: گزشتہ سوا ل کے پیش نظر ،کیا آپ نہیں سوچتے کہ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ ہرانسان آزادی رکھتا ہے تاکہ جس دین کو پسند کرے اسے قبول کرے اور ایک مسلمان کو تمام ادیان کا احترام کرنا چاہئے ؟
جواب: دین کی حقیقت سے مرادیہ ہے: عبارت ہے کائنات اور انسان کی خلقت کے بارے میں اعتقادات اور عملی فرائض کا ایک سلسلہ، جوانسان کو ان اعتقادات سے تطبیق کرے۔اس بناپر یہ انسان کے اختیار میں ایک تکلفاتی امر نہیں ہے کہ انسان جس دین کو پسند کرے اسے قبول کرے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جس کے تابع انسان اور اس کا اختیار ہے اور اسے اس کی پیروی کر نی چاہئے ۔چنانچہ مثلاًیہ مسئلہ''ہم سورج کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں ''ایک حقیقت و واقعیت ہے کہ آزاد انسان ہر گز اس کے مقابلہ میں مختار نہیں ہے کہ ہر روز ایک نظریہ پیش کرے بلکہ اس کے ثبوت کو قبول کرنے اوراپنی زندگی کے مسائل کو اس پر استوار کرنے پر مجبور ہے ۔حقیقت میں اگر کوئی دین یہ نظریہ پیش کرے :''ہر انسان یہ آزادی رکھتا ہے کہ مختلف ادیان میں سے کسی ایک کو اپنی پسند کے مطابق قبول کرے''تو اس دین نے اس نظریہ سے اپنے تکلفاتی اور غیر واقعی ہونے کا اعتراف کیا ہے اور اپنے کو باطل ثابت کیا ہے ۔
خدائے متعال فرماتا ہے :
''خداکے پاس دین، اسلام ہے ''
مزیدفرماتا ہے:
''جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی اوردین کا انتخاب کرے اسے قبول نہیں کیا جائے گا
''
اسلام نے ادیان میں سے تین ادیان کو محترم جاناہے :نصرانیت ،یہودیت اور مجوسیّت اوراس احترام کا معنی یہ ہے کہ(جیساکہ قرآن مجید کی آیات سے واضح ہوا)ان تین ادیان کے ماننے والے اپنے دین پر باقی رہ سکتے ہیں نہ یہ کہ وہ حق پر ہیں ۔
ہلال ،اسلام کی علامت نہیں ہے
سوال: ہلال کیوں اسلام کی علامت ہے ؟
جواب: اسلام ''ہلال'' کے نام پر کوئی علامت نہیں رکھتا ہے ۔لیکن ''چاند اورستار ہ ''صلیبی جنگوں کے بعد عیسائیوں کے صلیب کے مقابلہ میں ،اسلامی ملکوں میں مسلمانوں کی مشخص علامت کے طورپر رائج ہو اہے اوراس وقت بھی اکثر اسلامی ممالک کے پرچم پریہ علامت موجود ہے ۔
چاند، آیات الہیٰ سے ایک آیت ہے
سوال:چاند پر سفرکے بارے میں (یہ سفرانسان کے لئے جلدی ہی ممکن ہو گا)آپ کا کیا نظریہ ہے ؟
جواب: اسلام کے مطابق چاند وغیرہ پر سفر کے بارے میں کوئی نظریہ موجود نہیں ہے صرف قرآن مجید نے ان آسمانی کرّات کے بارے میںبیان کیاہے کہ یہ آیات الہٰی ہیں اوراپنے حیرت انگیز نظم سے توحید کے گواہ اوردلائل ہیں اور انسان کے لئے مسخر کئے گئے ہیں ۔
اسلام میں عربی زبان کا مقام
سوال: عربی زبان کو کیوں اسلامی ایمان اور اعتقاد کے جز اورضرورت کے طور پر قرار دیا گیا ہے اورکہا گیاہے :''قرآن اورنماز و غیرہ عربی زبان میں ہونا چاہئے؟ ''
جواب: چونکہ قرآن مجید لغت کے لحاظ سے معجزہ ہے (چنانچہ معنی کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے ) اس لئے اس کا عربی لغت محفوظ رہنا چاہئے اور نماز کا عربی میں ہونا اسی جہت سے ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصہ کی (سورئہ حمداورایک سورہ )ہررکعت میں قرائت کی جانی چاہئے اور دوسری طرف سے آیات وروایات جو دین کے اصلی مصادر ہیں عربی لغت میں ہیں ،مسلمانوں کی عربی زبان کی نسبت عنایت اورتوجہ کا سبب یہی ہے ۔
دنیا میں یہودیوں کی ذلت وپستی
سوال: بعض مسلمان معتقد تھے کہ یہودی کبھی اپنا ایک آزاد ملک نہیں رکھ سکتے ہیں ،البتہ اسرائیل جواس مختصرمدت میں ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ملک کی صورت میں ابھرا ہے ،اس عقیدہ کے غلط ہونے کی علامت ہے ،کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بہت ساری دوسری احادیث اور روایتیں بھی اسی غلط اعتقاد کے مانند ممکن ہے سیاسی نفوذ کے اثر میں وجودآئی میں ہوں کہ گزشتہ زمانے میں دنیا کے اس علاقہ کے لوگوں کو جہل ونفاق اور دشمنی کی حالت میں رکھنا چاہتے تھے ؟
جواب :جی ہاں !ایک بندر گاہ اور ایک فوجی چھاونی پرمشتمل فلسطین کاایک چھوٹاحصہ انگلستان ، فرانس اور امریکہ کے لئے ہے ۔اور اسرائیل کے نام پر ایک کٹھ پتلی اورآلہ کار حکو مت وہاں پر حکم رانی کر رہی ہے اور اس مختصر مدت کے دوران اس حکومت کی پشت پناہی اور اسے مسلح کر نے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے اور پوری توانائی کے ساتھ اسلامی ممالک کو اس حکومت کے خلاف متحد ہونے نہیں دیاگیا ہے (چنانچہ ان تمام حقائق کو گزشتہ چند سالوں کے واقعات نے واضح کر دیا ہے )
یہ غلط تصور (کہ یہودیوں کی حکومت ایک آزاد اور ترقی یافتہ ہے اور اسلام میں نقل کی گئی روایتوں کے باوجود ،کہ یہود کبھی ایک آزاد ملک کے مالک نہیں بن سکتے ،اس حکومت نے نشو ونما پائی ہے ) سیاسی نفوذ کا اثر ہے کہ گزشتہ زمانے میں اور آج بھی دنیا کے اس حصہ کے لوگوں کو جہل ،نفاق ،دشمنی اور دین مقدس اسلام کی نسبت بدظنی کے عالم میں رکھنا چاہتے ہیں ،کیو نکہ یہ فکر روایت سے مربوط نہیں ہے تا کہ ہم کہیں کہ یہ جعلی ہے ،بلکہ یہ قرآن مجید سے متعلق ہے اور جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ اس صورت میں نہیں ہے کہ بیان ہوا بلکہ اس صورت میں ہے کہ اسے قرآن مجید کی پیشین گوئیوں میں سے ایک شمار کیا جائے ۔
خدائے متعال یہودیوں کے مسلمانوں کے خلاف کئے گئے مظالم ،جرائم خیانتوں، مہم جوئیوں اور عہد شکنیوں کو گننے کے بعد مسلمانوں کو اتحاد واتفاق ،دینی قوانین کے تحفّظ ،اجنبیوں سے دوستی نہ کرنے اور ان کی اطاعت نہ کرنے کی نصیحت کرتا ہے اور فرماتا ہے :
''ان (یہودیوں )پرذلّت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یالوگوں کے معاہدہ کی پناہ مل جائے ۔یہ غضب الٰہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی ۔یہ اس لئے ہے کہ یہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق ،انبیاء کو قتل کرتے تھے ۔یہ اس لئے ہے کہ یہ نافرمان تھے اورزیادتیاں کیا کرتے تھے
''
ایک دوسری آیت میں یہ سبب لوگوں اور خداسے مربوط بیان ہوا ہے ۔
فرماتا ہے :
''ایمان والو !یہودیوں اورعیسائیوں کو اپنادوست اورسر پرست نہ بنائو کہ یہ خودآپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انھیں دوست بنائے گا توانھیں میں شمار ہو جائے گا ۔بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
''
اورمزید فرماتا ہے :
''آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ہیں ،لہذا تم ان سے نہ ڈرو اورمجھ سے ڈرو..
''
چنانچہ ملاحظہ ہوا کہ خدائے متعال اسلام کی پیش رفت اوریہودیوں کو کچلنے کا ان مسلمانوں کوو عدہ دیتا ہے جو قوانین اسلام اور اتفاق کلمہ کا تحفظ کرتے ہیں ،نہ ان ممالک کو جو اسلام کے نام کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے ہیں اوراسی طرح آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اسلام اس حالت میں قرار پایا ہے کہ ایک دن مسلمان اجنبیوں کے ساتھ دوستی کا منصوبہ بنائیں گے اور ان کے آلہ کار بن جائیں گے ،اس صورت میں خدا کامعاملہ ان کے ساتھ بر عکس ہو گا اور وہ سلطہ وغلبہ کو ہاتھ سے دے دیں گے اور ان کی عزت وسیادت دوسروں کو نصیب ہو گی ۔
لیکن یہ کہ احادیث اور روایتوں میں ممکن ہے جعلی اوربناوٹی روایتیں موجود ہوں اس مسئلہ کو علمائے اسلام بخوبی جانتے ہیں اور اس کے ثبوت کے لئے اس قسم کے بے بنیاد مصادرکی ضرورت نہیں ہے بلکہ مسلّم ہے کہ صدراسلام میں کچھ منافقین اوریہودی مسلمانوں کے لباس میں آکر جھوٹی روایتیں جعل اورنقل کرتے تھے ۔اسجہت سے علمائے اسلام پرروایت کو جس صورت میں بھی ہو نقل نہیں کرتے بلکہ ماہرانہ جانچ پڑتال کے بعدموثق روایت کو تشخیص دے کر قبول کرتے ہیں ان حالات کے پیش نظر(چنانچہ روایتوں میں زیادہ ہے )رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
'' میرے بعد مجھ سے بہت سی چیزیں نقل کی جائیں گی ،ان میں سے جو قرآن مجید سے مطابقت رکھتی ہوں ،انھیں قبول کرنا اورجو قرآن مجید کے مخالف ہوں ،انھیں مسترد کریں
_________________