پانچواں حصہ :
آواگون اورارواح کا پلٹنا
حق کیا ہے ؟
سوال: بیس سال قبل ،تبریز میں ایک ادبی محفل میں ایک دوست نے جبر وتفویض اورانسان کی تقدیر کی تعیین کی کیفیت پرکرتے ہوئے کہا :''انسان اسّی سے سوباراس دنیا میں آتا ہے اور چلاجاتا ہے ،البتہ اجمادات اورحیوانات کی صورت میں نہیں بلکہ انسان کی صورت میں،تاکہ اس کا مقدّراس کے سابقہ اعمال نامہ کے مطابق معیّن ہو جائے ورنہ یہ صحیح نہیں تھا انسان کو ایک مرتبہ اس کرّئہ خاکی پر لاتے اوریہ سب رنج ومصیبت برداشت کرتا ۔انسان ایک بار (قضیہ آدم میں ) گناہ کامرتکب ہوا اورزمین پر بھیجا گیا ، دنیاسے چلاگیا ،پھرپلٹادیا گیا تاکہ اپنے گزشتہ اعمال کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائے اوراسی طرح یہ حالت جاری رہتی ہے یہاں تک اسّی یاسو مرتبہ اس کی تکرار ہو تی ہے اور یہ انسان ہر بارایک نوع میں ہوگا :جاہل ،عالم ،حاکم،محکوم ،مریض ،صحت مند ،بدصورت ،خوبصورت...اور مختلف مراحل ا ورامتحانات کو طے کرنے کے بعد جس چیزکا مستحق ہے، مکمل طور پر وہ حق حاصل نہیں کرتا ہے اوراسی بنیاد پر ،جس طرح قرآن مجید فرماتاہے :قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال نامہ پر اعتراض نہیں کرے گا۔اصولاًاگراس کے علاوہ اور کچھ ہوتا ،تو وہ عین ظلم ہو تا کہ ایک پیغمبر ہو اوردوسراشمر،ایک صالح ہو اوردوسراقاتل'' وغیرہ ۔یہ تھا ہمارے دوست کے موضوع''حق'' کے بارے میں بیان کا خلاصہ ۔
دوسراموضوع جو ہمارے دوست نے پیش کیا یہ تھا :آدم ،ہمارے اورتمھارے مانند صرف ایک انسان نہیں تھے،بلکہ ایک کلّی مخلوق اورتمام انسانوں پر مشتمل تھے،یعنی تمام افراد ،اول سے آخرتک فرد بشری ،آدم کے ساتھ تھے ،انگور کے گچھّے کے مانند کہ اس میں بہت سے دانے ہوتے ہیں ،لیکن چونکہ ہم نے نافرمانی کی ،اس لئے ہم سب کو بہشت سے نکال باہر کیا گیا ۔اوراگرآدم صرف ایک فرد تھے ،تو دوسروں کا کیا گناہ ہے کہ وہ زمین پر ہوتے ؟اس کے علاوہ، خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :''ہم نے تمام افراد بشراورتمام پیغمبروں سے عہدوپیمان لیا ہے'' پس،سب لوگ آدم کی خلقت کے وقت خلق ہوئے ہیں ۔''
تیسراموضوع جو دوبارہ پہلے موضوع کی طرف پلٹتا ہے ،کے بارے میں وہ دوبارہ کہتا ہے :اگرموت اورزندگی ایک مرتبہ ہو ،تو لوگوں کی اکثریت بہشت کی حق دار نہیں ہو گی اور اغلب لوگ درمیان میں قرارپائیں گے اورعملی طور پر نہ اہل بہشت ہوں گے اور نہ اہل جہنّم ،جبکہ قرآن مجید لوگوں کو صرف دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے :بہشتی اورجہنّمی ۔لیکن اگر انسان اسّی یاسومرتبہ دنیا میں آئے اور اعمال کا مرتکب ہو جائے ،تو اعمال انجام دینے کے لئے مساوی شرائط اور کافی وقت رکھنے کے سبب یک طرفہ ہوں گے اوراس وقت بہشت اورجہنّم کا یہ حق عادلانہ ہو گا ۔''استدعاہے کہ اس موضوع کے بارے میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔
جواب : سلام علیکم ۔آپ کا خط ملا ۔تفصیلی جواب چاہتے ہیں ،لیکن افسوس! اس کے علاوہ کہ بالکل فرصت نہیں تھی ،میں بیمار بھی تھا جو فطری طور پر کام میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے ،لہذامطلب کے سلسلہ میں مختصر جواب ارسال کیا جاتا ہے ۔اگراتفاق سے پھر بھی کوئی اشکال پید اہوا ،تو لکھئے تاکہ انشاء اللہ تدریجی طور پر تمام اشکالات حل ہو جائیں گے ۔
روح کا بدن سے جدا ہونے کے بعد دوبارہ دنیا میں پلٹنے کا مسئلہ ،''تناسخ'' کے نام سے معروف ہے اور اس کے اصلی معتقد بت پرست ہیں ۔وہ کہتے ہیں :انسان اگر دنیوی زندگی میں دنیوی تعلقات سے پاک ہو جائے توخدا کے اندرفانی ہو جاتا ہے اور خدائوں کی صف میں قرار پاتاہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی شخص صالح ہو ،تو اس کی روح بدن سے جدا ہونے کے بعد ،دوسرے بدن سے متعلق ہوتی ہے جو کامیاب اور نعمتوںسے بھری زندگی کا مالک ہو تا ہے اور اس کے صالح اعمال کا ثواب وہی نعمتوں کے اقسام ہیں کہ دوسرے بدن میں پائے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے بدن سے تیسرے اور تیسرے سے چوتھے ....اورہربدن میں روح کی زندگی کے حالات ،اس کے گزشتہ بدن میں انجام پائے گئے اعمال کی پاداش ہے''۔
اگر کوئی شخص سرکش اورگناہ کار ہو تو، اس کی روح بدن سے جدا ہونے کے بعد دوسرے بدن سے متعلق ہوتی ہے اور اپنے برے اعمال کی سزا کو دوسرے بدن میں پاتی ہے اوراسی طرح دوسرے بدن سے جدا ہونے کے بعد تیسرے اورپھر چوتھے...اور یہ حالت (ہربدن کے بعد دوسرے بدن سے روح کا تعلق اورگزشتہ بدن کی اعمال کا جزا اگلے بدن میں چکھنے کی حالت)روح کے لئے لامتناہی صورت میں جاری رہتی ہے ...اس لحاظ سے وہ روز قیامت اوراخروی جزا وسزاکے منکر ہیں اور اس قول کی بنیاد پر منکر ہونا چاہئے ،کیونکہ تناسخ کی بنیاد پر روح کا ذاتی اقتضایہ ہے کہ ہر بدن کے اعمال کے جزااسے دوسرے بدن میں ملے ،اس لئے قیا مت کے دن جزا کے لئے کوئی زمینہ ہی باقی نہیں رہتا ہے ۔ اس قول کا دوسرالازمہ یہ ہے کہ وہ انسان کی دنیا کو ''دائمی ''جانتے ہیں اور اس عالم موجود کے لئے لامتناہی عمر کے قائل ہیں ۔اس کے علاوہ یہ کہ ان کے نظریہ کے مطابق انسان کی روح کبھی تنزّل کرکے حیوانی بدن میں اور اس کے بعد نباتی بدن میں اورپھر جمادی بدن سے تعلق پیدا کرتی ہے ۔لیکن آپ کا یہ دوست تناسخی بدنوں کو اسّی سے سو بدن تک محدود کرتا ہے اور قیامت و حشرکا بھی قائل ہے اور روح کا دوسرے بدن سے تعلق پیدا کرنے کو ''حق '' جانتا ہے ،نہ گزشتہ اعمال کی پاداش وجزا۔ اس کے باوجود انسان کی نوع کے لئے ابتدائے تاریخ ،یعنی مشخص باپ کا قائل نہیں ہے اور قرآن کابھی معتقد ہے ۔اپنے قول کی جو اس نے توجیہ کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعداسّی سے سو مرتبہ دوبارہ دنیا میں آکر زندگی کرنی چاہئے تاکہ ہر مرتبہ نئی زندگی کے حالات نئے شرائط کے ساتھ اس کے لئے پیدا ہو جائیں اور ان کے مطابق اطاعت یا معصیت کرے ،جب اس کے لئے تمام شرائط پیش آئیں گے تو ثواب وعقاب کے لحاظ سے اس کی تقدیرات معیّن ہوتی ہیں تاکہ قیامت کے دن''حق'' کے مطابق اپنے عمل کی جزا پائے ورنہ صرف جبر وتفویض سے ہاتھ نہیں آتاہے اوربشرکی اخروی تقدیر ات معیّن نہیں ہوتی ہیں ،کیونکہ :
سب سے پہلے:لازم ہو تا ہے کہ خدائے متعال ظالم ہو کہ ایک کو( پیغمبر ) اور دوسرے کو ''شمر'' خلق کیا ہے ،ایک کو ''خوشبخت '' اوردوسرے کو ''بدبخت''..خلق کیا ہے اورخدا ظلم سے منزّہ وپاک ہے ۔
دوسرے یہ کہ:افراد بشرکی نوع دنیا میں اپنی زندگی سے شاکی اور ناراض ہیں ،لیکن قیامت کے دن جب ہر ایک کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیں گے ،تو کسی کے منہ سے شکا یت کی آوازنہیں نکلے گی ،یہ خدا کے خوف سے نہیں ہے ،کیونکہ اگر خدائے متعال قہر سے انسان کو خاموش کردے اور بات کرنے کی اجازت نہ دے تو یہ ظلم ہو گا ،بلکہ یہ اس جہت سے ہے کہ جب انسان اپنے نامہ اعمال کو دیکھتا ہے تو اپنے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہے کہ جب ہر دفعہ ہر شرائط میں آیا ہے ،دوبارہ نا فرمانی کی ہے ،اس لئے خاموش رہتا ہے اور قرآن مجید بھی اس موضوع کا گواہ ہے کہ کسی سے کوئی آواز نہیں نکلتی ہے ۔
تیسرے یہ کہ:قیامت کے دن انسان دو حصوں میں تقسیم ہوں گے ،اہل بہشت اور اہل جہنّم کااگر دنیا میں ایک مرتبہ آنا ہو تاتو اکثرلوگ بہشت وجہنّم کے حق کو نہیں پا سکیں گے ،کیونکہ ایک مرتبہ آنے میں تمام لوگوں کے لئے شرائط مساوی نہیں ہیں فقیر چورکہہ سکتاہے ،اگر میں دولتمند ہو تا تو چوری نہیں کرتا اورزناکار مردکہے گا: اگر میری بیوی ہو تی تومیں زنا نہیں کرتا ،صرف سو سے اسّی مرتبہ رفت وآمدکرنا اور تمام شرائط کو دیکھنا ہے جس سے ''حق''تمام ہو تا ہے ،اس کے باوجود لوگوں کا دوگروہ سے زیادہ ہو نا قرآن مجید کے روسے دوگروہ ہونے کے واضح خلاف ہے ۔
یہ تھا اس شخص کے قول کا خلاصہ جسے آپ نے نقل فرمایا ہے ،لیکن یہ ہر جہت سے باطل قول ہے :
سب سے پہلے:اسّی سے سو مرتبہ تک دنیا میں آنے کی عدد ایک ایسا قول ہے جس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔اس کے علاوہ قرآن مجید میں ـ دنیا کی زندگی ،اور انسان کے عمل اور اس کی جزا کے بارے میں بے شمار آیتیں موجود ہیں ـ تناسخ اور اس کے اسّی مرتبہ ہونے کی خبر نہیں ہے ،بلکہ قرآن مجید دنیاکی زندگی کو ایک بارشمار کرتا ہے ،چنانچہ فرماتا ہے :
(
وکنتم امواتاً )
(جماد)( فاحیاکم )
(دنیامیں )( ثمّ یمیتکم )
(دنیاسے)( ثمّ یحییکم )
(برزخ میں )( ثمّ الیه ترجعون )
(قیامت))(بقرہ٢٨)
''...جب کہ تم بے جان تھے (جماد) اورخدا نے تمھیں زندگی دی ہے (دنیامیں) اور پھرموت بھی دے گا (دنیاسے )اورپھر زندہ بھی کرے گا (برزخ میں ) اورپھر اس کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جائو گے(قیامت)''
دوسری آیت میں:
(
قالوا ربنّا امتّنا اثنتین واحییتنا اثنتین فاعترفنا بذنوبنا فهل الی خروج من سبیل
)
(مو من ١١)
اہل جہنّم کی زبان سے نقل ہوا ہے کہ ایک مرتبہ دنیا کے لئے مارنے اوردوسری مرتبہ برزخ کے لئے ثابت کرتا ہے ۔
اس کے علاوہ ،آپ کے دوست کے بیان کے برعکس ،اگر مسئلہ جبر واختیارحل نہ ہو جائے ،تو اسّی سے سو مرتبہ دنیا میں آنے سے ،انسان کی تقدیر معیّن نہیں ہوتی اور فرض کریں انسان سو مرتبہ دنیا میں لوٹ کر آیا ہے اور تمام شرائط قتل نفس جیسے گناہ کا مرتکب ہوا ہے تو ،اگر ہم جبر کے قائل ہوں تو کوئی جرم ثابت نہیں ہو تا ہے ،سو مرتبہ لوٹنا جرم کے ثبوت میں کوئی اثر نہیں رکھتا ،پھر بھی اس شخص کا کیفر اور عذاب ظلم ہے ،لیکن اگر ہم اختیار کے قائل ہوں گے ،تو اپنے استدلالی ذوق سے سمجھتے ہیں کہ جو عقل وبالغ اگر اپنے اختیار سے کوئی ناشائستہ کام انجام دے تومجرم اورمسئول رہے اور اس کے لئے ایک مرتبہ معصیت کا تحقق ہو نا جرم کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور مختلف شرائط میں سو یا اسّی مرتبہ اس کا تحقق ہونا ضروری نہیں ہے ،اسی طرح معصیت کا تحقق بھی پہلی زندگی میں کافی ہے اور اس کے ساتھ بعدوالی زندگیوں کا ضمیمہ ہونا ضروری نہیں ہے ۔
اور یہ جو کہا ہے :خدا نے ایک کو ''پیغمبر''اور دوسرے کو ''شمر''خلق کیا ہے ،شمر کو عذاب کرنا ظلم ہے ۔ایک اشتباہ ہے ۔خدا نے شمر کو ایک عام انسان خلق کیاہے لیکن وہ اپنے اختیار سے خود ''شمرظالم ''بنا ہے ۔اس کی خلقت میں ظلم نہیں ہے ،لیکن اس کا ظالم بننا خود اس سے مربوط ہے نہ خدا سے ۔
اور یہ کہنا :اگر زندگی ایک مرتبہ ہوتی ،توانسان،اس کے پیش نظر زندگی سے ناراض ہوتا اور قیامت کے دن اعتراض کرے گا ۔بھی ایک اشتباہ ہے ،کیونکہ زندگی سے ناراض ہونا ،خود ایک اور جرم ہے ،البتہ کوئی انسان نہیں چاہتا ہے کہ قیا مت کے دن اس کے جرائم سے پردہ اٹھا یا جائے ،جو کچھ خدا نے انسان کو اپنی نعمت سے دیا ہے ،وہ فضل ورحمت ہے اور جو کچھ نہیں دیا ہے ،صاحب اختیار ہے ،ہم خالق کائنات سے نہ متقاضی ہیں نہ قانونی سندحاصل کی ہے کہ جو ہمارا دل چاہے ،ہمیں دے دیا جائے ۔
اور جو یہ کہا ہے :اگر زندگی ایک مرتبہ ہو تی ،تو لوگ قیامت کے دن دوقسم سے بیشتر ہو تے ،کیو نکہ اکثرلوگوں کے خیر وشر کے اعمال مساوی ہیں اور اس وقت نہ اہل بہشت ہو تے اور نہ اہل جہنّم اور یہ واضح طور پر قرآن مجید کے خلاف ہے ۔یہ ایک اور غلطی ہے گویا اس کی مراد یہ ہے کہ چونکہ اکثر لوگ مساوی شرائط میں قرار نہیں پاتے ہیں ،اس لئے جرم انجام دینے والے کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اطاعت کر نے والے کو نیک انسان محسوب نہیں کیا جاسکتا ہے ،نتیجہ کے طور پر اکثر لوگ نیک ہیں نہ بد کار اور یہ نہیں کہا جاسکتا ہے وہ بہشتی ہیں یا جہنّمی ،ناگزیر وہ تیسری قسم ہیں ،جبکہ تیسری قسم کا وجود ہی نہیں ہے ۔
اس امر کا اعتقاد رکھنے والے نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ عقل کے واضح حکم سے ،یہ شرائط کہ فعل، اطاعت یا معصیت محسوب ہوتا ہے اوراچھے اوربرے کی پاداش ہو نی چاہئے ۔بلوغ،عقل ، عمد اور اختیار ہے ،جوں ہی فعل معصیت ،مثلاًان شرائط کے ساتھ انجام پائے تو پہلی بار جرم کی پاداش شمار کی جاتی ہے، اس میں زندگی کی دوسری شرطیں ہرگز مداخلت نہیں کرتی ہیں ،یہ عقل کا حکم ہے اور عقلمند انسان بھی اپنی زندگی کے محیط میں اس کی تبعیت کرتے ہیں ۔اسلام کی مقدس شریعت میں ہی شرائط معتبر ہیں اور قرآن مجید میں بھی ہر اطاعت اورمعصیت کے تحقق کو میزان قراردیا گیا ہے اور مختلف شرائط میں سو مرتبہ یااسّی مرتبہ کی قید نہیں ہوئی ہے معصیت سے توبہ کی آیات بھی پہلی مرتبہ معصیت انجام پانے سے مربوط ہیں اور اسی طرح احکام کی آیات بدون اس کے کہ تمام شرائط سے مفید ہوں اور ان سب سے واضح تر حدود سے متعلق آیات ہیں ۔اسلام میں کچھ معصیتیں جو قتل وقصاص اورتازیانہ جیسے حدود رکھتے ہیں ،اگر پہلی بار جرم نہ ہو تے ،تو حدود کا اجرا معنی نہیں رکھتا۔کیا یہ ممکن ہے کہ فعل پہلی بار جرم ہو اور اس کے لئے خدا کی حجت قائم ہو جائے لیکن آخرت میں جرم ثابت نہ ہوکر حجت گر جائے ؟
ان تمہیدات سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو پہلی زندگی میں تیسری قسم کے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ـنہ بہشتی اور نہ جہنمی ـ اور اگر فرض کریں کچھ لوگ ایسے پیدا ہو جائیں جن کے گناہ وثواب مساوی ہوں اور ان کا بہشتی یا جہنمی ہو نا ثابت نہ ہو جائے ،پھر بھی وہ مومن ہیں اور ان کا اعتقاد پسندیدہ ہے ، ورنہ اہل جہنم ہو تے ،قطعاً(قرآن مجید کی بہت سی آیات کے مطابق جو کفار کو ہمیشہ کے لئے آگ میںرہنے کاتعارف کراتی ہیں )یہ لوگ آیہ کریمہ :(
ولایشفعون الا لمن ارتضی
)
کے مطابق شفاعت کرنے والوں سے شفاعت پائیں گے۔
لیکن قرآن مجید کی تقسیم بندی :قرآن کریم انسانوں کو عاقبت امر کے نقطہ نظر سے،دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے ،اہل سعادت وبہشت اوراہل شقاوت وجہنّم ّ(
فاماالذین شقوا...واماالذین سعدوا
)
حساب اور روزقیامت کے تمام حالات کے پیش نظرانسانوں کی تین قسم بیان فرمائی ہے:اہل عمل صالح وپسندیدہ اعتقادات والے ،ان کے بر عکس اور '' مستضعفین'' کی جماعت جن پر دنیا میں حجّت تمام نہیں ہوئی ہے ،یہ اہل حساب وسوال ہیں ان کا کام خدا کے ہاتھ میں ہے تا کہ ان کے حق میں کیا حکم فرمائے:
(
وآخرون مرجون لمراللّٰه اما یعذّبهم واما یتوب علیهم
)
(توبہ ١٠٦)
''اورکچھ ایسے بھی ہیںجنھیں حکم خدا کی امید پر چھوڑدیا گیا ہے کہ یا خدا ان پرعذاب کرے گا یا ان کی توبہ قبول کر لے گا ...''
دوسری نظر میں اہل سعادت کو اصحاب میمنہ اورسابقین میں تقسیم فرمایا ہے اور اقسام کو تین قسموں میں معرفی فرمایا ہے :
(
وکنتم ازواجا ثلٰثة٭فاصحب المیمنة ما اصحب المیمنة٭والسّابقون السّابقون ٭اولئک المقرّبون
)
(واقعہ٧۔١١)
''اورتم تین گروہ ہو جائو گے ۔پھرداہنے ہاتھ والے اورکیا کہنا داہنے ہاتھ والوں کا ۔اوربائیں ہاتھ والے اورکیا پوچھنا ہے بائیں ہاتھ والوں کا ۔ اور سبقت کرنے والے توسبقت کرنے والے ہی ہیں ۔وہی اللہ کی بارگاہ کے مقرب ہیں ۔''
اورجو یہ کہا ہے :'' آدم علیہ السلام سے قرآن مجید کا مقصود کلّی آدم ہے نہ ا یک نفر اورجزئی ،کیونکہ سب سے پہلے:خداآدم سے فرماتاہے: بہشت سے تم سب نیچے چلے جانا جب کہ تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کے دشمن ہیں '' معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان آدم کی خلقت کے ساتھ ہی پیدا ہوئے ہیں ،بہشت میں تھے ،ہر ایک نے گناہ کیا حتی پیغمبروں نے بھی ،اگر آدم ایک بشر ہو تے اور انھوں نے گناہ کیا ہو تا تو دوسروں کو بہشت سے نکال باہر کرنا ظلم ہو تا اورخدا ظلم سے منزّہ وپاک ہے ۔
دوسرے یہ کہ:خدافرماتا ہے :ہم نے تمام انسانوں سے عہد وپیمان لیاہے، پس سب آدم علیہ السلام کے ساتھ خلق ہوئے تھے ،گناہ کر چکے تھے کہ بعد میں ان سب سے پیمان لیا گیا ہے ۔
تیسرے یہ کہ:اگر سب پیغمبروں نے آدم کی خلقت کے ساتھ خلق ہو کر گناہ نہ کیا ہو تا تو انھیں اس دنیا میں بھیج کر اس رنج وغم میں گرفتار کرنا بھی ظلم تھا ۔
یہ بیان ایک اور مغالطہ ہے ،کیونکہ سب سے پہلے:ہم نے آدم کے قصہ کو تورات،انجیل یا قدیم افسانوں سے نہیں لیا ہے ،یہ امر قرآن مجید سے لیا گیا ہے اور قرآن مجیدانتہائی واضح صورت میں آدم کو ایک بشری فرد ـکہ بعد کے انسانوں کے باپ ہیں ـ بیان کرتا ہے اورفرماتا ہے:
(
یا ایّها النّاس اتّقوا ربّکم الّذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبثّ منهمارجالاکثیراونسائ
)
(نسائ١)
''انسانو!اس پر وردگارسے ڈرو جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کا جوڑا بھی اس کی جنس سے پیدا کیا اورپھردونوں سے بکثرت مردوعورت دنیامیں پھیلادئے ہیں ...''
قرآن مجید ''عربی مبین'' ـ یعنی آشکار ـ عربی میں ہے ،لہذاعربی جاننے والوں سے پوچھنا چاہئے کہ ''رجالا کثیراونسائ''کے مقابلہ میں ''نفس واحدة''کامعنی ،ایک فرد بشر ہے کہ سب انسانوں کاباپ اوراس کی بیوی تمام انسانوںکی ماں ہے ،یا ایک کلّی معنی ہے ۔یہ وہ کلمات ہیں جنھیں قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے اورآدم کی خلقت سے مربوط دوسری آیتوں کا بھی یہی حال ہے ۔
دوسرے یہ کہ:یہ جو کہتاہے کہ''تمام انسان آدم کے ساتھ تھے اور ہر ایک نے گناہ کیا ہے ''اصل قصہ(زمین پر خلیفہ ہونے)میں آدم کے ساتھ شریک ہونا صحیح ہے لیکن اس ترتیب سے نہیں کہ سب آدم کے ساتھ الگ سے خلق ہوئے ہوں ،بلکہ حضرت آدم ،بشر کا نمونہ اور نمائندہ تھے کہ تمام بشر فطری طور پر آدم کے حکم میں تھے ۔
لیکن یہ دوست ،جس گناہ کو مکرّرآدم اورتمام پیغمبروں بلکہ تمام بشر سے نسبت دیتا ہے ،ایک اشتباہ ہے ،کیونکہ:
سب سے پہلے نص قرآن کے مطابق:
(
قلنا اهبطوا منها جمیعا فاما یاتینّکم من هدی
)
(بقرہ٣٨)
''اور ہم نے یہ بھی کہا کہ یہاں سے اتر پڑو پھراگر ہماری طرف سے ہدایت آجائے...''
تشریع دین سقوط آدم کے بعد ہو اہے اور دین سے قبل معصیت کا معنی نہیں ہے پس جب تک آدم اور اس کی اولادگناہ کریں معصیت اورگناہ کا وجود نہیں تھا بلکہ درخت سے نہ کھانے کی نہی ایک خیرخواہی اور راہنمائی تھی کہ اگر اس پر کان دھرتے تو نتیجہ حاصل کرتے ،یہ نہی ہر گزحکم دین والی نہیں تھی کہ جس کی مخالفت کرنے میں عذاب ضروری ہے ۔
دوسرے یہ کہ:کہا ہے:''تمام انسانوں سے پیمان لیا گیا ہے ،پس سب آدم کے ساتھ موجود تھے اورگناہ میں شریک تھے کہ اس کے بعد ان سے پیمان لیاگیاہے'' یہ ایک اور اشتباہ ہے اور ہرگز پیمان لینے میں گزشتہ خلاف ورزی اورگناہ کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔
تیسرے:یہ کہ اس نے کہاہے :''اگر پیغمبروں نے گناہ نہیں کیا ہوتا توان کو اس دنیا میں بھیجنااورزندگی کے رنج وزحمت میں مبتلا کرنا ظلم تھا ''۔ایک اور مغالطہ ہے ،کیونکہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق :
(
واذ قال ر بّک للملائکة انّجاعل فی الارض خلیفة
)
(بقرہ٣٠)
''اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ''
آدم کو زمین میں زندگی کرنے اورنسل کو جاری رکھنے کے لئے خلق کیا گیا تھا اور ملائکہ نے اس معنی کو سمجھ کر عرض کی :
(
اتجعل فیها مَن یفسد فیها ویسفک الدّمائ
)
(بقرہ ٣٠)
''...اور انہوں نے کہا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اورخونریزی کرے''
حتی شیطان نے بھی سمجھ لیا اور سجدہ سے نافرمانی کرتے ہوئے کہا:
(رایتک هذاالّذی کرّمت عل لئن اخّرتن الی یوم القیٰمة لا حتنکنّ ذریته الاقلیلا)(اسرائ٦٢)
''کیا تو نے دیکھا کہ یہ کیا شے ہے جسے میرے اوپر فضیلت دے دی ہے اب اگر تو نے مجھے قیامت تک کی مہلت دے دی تو میں ان کی ذریت میں چند افراد کے علاوہ سب کا گلا گھونٹتا رہوں گا''
اورحتی آدم اور ان کی زوجہ کو نکال باہر کر انے کے لئے ان کی شرم گاہیں دکھاتا تھا چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید فرماتا ہے :
(
فوسوس لهما الشیطٰن لیُبد لهماماوَری عنهما من سُوئَ لااتهما
)
(اعراف٢٠)
''پھر شیطان نے ان دونوں میں وسوسہ پیدا کرایا کہ جن شرم کے مقامات کو چھپا رکھا ہے وہ نمایاں ہو جائیں ...''
پس بہشت میں داخل ہونا زمین پر تنزّل،دین کی تشریع اور دینی تر بیت کے طریقہ کا مقدمہ تھا ۔انسان اس دنیوی زندگی میں دین کے سایہ میں مقام قرب پاتا ہے اورکمال میں عروج پیدا کرتا ہے ۔دینی تربیت کے بغیراس کے لئے بہشتی حالت پید اہونا ممکن نہیں ہے ۔دنیوی زندگی اگر چہ رنج و محنت سے بھری ہوتی ہے ،چنانچہ خدائے متعال نے آدم سے فرمایا :
(
فلا یخر جنکما من الجنة فتشقی
)
(طہ١١٧)
''...کہیں تمھیں جنت سے نکال نہ دے کہ تم زحمت میں پڑجائو''
اورفرمایا:
(
لقد خلقنا الانسٰن فى کبد
)
(بلد٤)
''ہم نے انسان کو مشقّت میں رہنے والا بنایا ہے ''
لیکن آخرت کی ابدی زندگی اورانسان کے سرمایہ کا مقدمہ بالآخر ایک امتحان زندگی ہے ،چنانچہ فرماتا ہے :
(
کلّ نفس ذائقة الموت ونبلوکم بالشر والخیر فتنة
)
(انبیائ٣٥)
''ہرنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اورہم تو اچھائی اوربرائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے ...''
اورانسان اس امتحانی زندگی کے دورہ میں ،دین کے سایہ میں قرب وکمال کے ایک ایسے مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ ہرگز اس وسیلہ کے بغیر یہ مقام حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔
__________________