چھٹا حصہ:
علم امام علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام کا اپنی شہادت کے بارے میں آگاہ ہونا
سوال :کیا حضرت سید الشہداء علیہ السلام مکہ سے کوفہ کی طرف اپنے سفر میں آگاہ تھے کہ وہ شہید ہو جائیں گے؟دوسرے الفاظ میں ،کیا حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کی غرض سے عراق کی طرف روانہ ہوئے تھے یاسو فیصدی ایک عادلانہ اسلامی حکومت تشکیل دینے کی غرض سے؟
جواب: شیعہ امامیہ کے عقیدے کے مطابق حضرت سید الشہداء ،واجب الاطاعت امام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے جانشین ،ولایت کلیہّ کے مالک تھے ۔دلائل نقلیہ اور عقلی استدلال کے مطابق خارجی حقایق،حوادث اور واقعات کے بارے میں علم امام کے مندرجہ ذیل دوقسم اور دوراہیں ہیں :
امام علیہ السلام عالم ہستی کے حقائق کے بارے میں ہر قسم کے شرائط میں اذن الہٰی سے آگاہ ہیں ،خواہ یہ حقائق اورحوادث حسی ہوں یا غیر حسی ،جیسے :آسمانی مخلو قات ،گزرے ہو ئے حوادث اور مستقبل کے واقعا ت ،اس مطلب کی دلیل روایات کے مطابق متواترہے کہ شیعوں کی حدیث کی کتابوں جیسے کافی ،بصائر ،صدوق کی کتابوں اور کتاب بحار وغیرہ میں درج ہیں ۔ان روایات کے مطابق، جن کی کوئی حد نہیں،امام علیہ السلام خدا کی عنایت سے سب چیزوں کے بارے میں آگاہ ہیں نہ اکتساب سے ۔اور جس چیز کو چاہیں اسے خدا کے اذن سے تھوڑی سی توجہ کے نتیجہ میں جانتے ہیں ۔
البتہ قرآن مجید میں چند آیتیں ہیں ،جو علم غیب کو خدائے متعال سے مخصوص اور اس کی مقدس ذات میں منحصر قرار دیتی ہیں ،لیکن جو استثناء آیہ کریمہ :
(
عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احداً ٭الّا مَن ارتضی من رسول
)
(جن٢٦۔٢٧)
''وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ،مگر جس رسول کو پسند کر لے ۔''
میں موجود ہے ،اس سے معلوم ہو تا ہے کہ علم غیب کا خدائے متعال سے مخصوص ہونا اس معنی میں ہے کہ غیب کو آزادی کے ساتھ بذات خود ،خدا کے علاوہ کو ئی نہیں جانتا ہے ۔لیکن ممکن ہے پسندیدہ پیغمبر خدائے متعال کی تعلیم سے اسے جان لیں اورممکن ہے دوسرے پسندیدہ اشخاص بھی پیغمبروں کی تعلیم سے اسے جان لیں ۔چنانچہ بہت ساری ان روایتوں میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نیز ہر امام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں علم امامت کو اپنے بعد والے امام کے حوالہ کرتے تھے ۔
اور عقلی بعض استدلال موجود ہیں جن کے مطابق امام علیہ السلام اپنے نورانی مقام کے توسط سے اپنے زمانہ کے کامل ترین انسان اور خد اکے اسماء وصفات کے مکمل مظہر اور دنیا کی تمام چیزوں اورہر شخصی واقعہ کے بارے میں واقف ہیں اور اپنے وجود عنصری کے مطابق ہر جہت میں توجّہ کریں ،توان کے لئے حقائق روشن ہو تے ہیں ۔(ہم ان استدلالوں کی تفسیر کو اپنی خاص جگہ پر چھوڑتے ہیں ،کیونکہ یہ پیچیدہ استدلالی مسائل کا ایک سلسلہ ہے اور ان کی سطح اس مقالہ سے بلند تر ہے )
جس نقطہ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،وہ یہ ہے کہ اس قسم کا علم عطیہ الٰہی ہے اور عقلی ونقلی دلائل کے موجب ،جو اسے ثابت کرتے ہیں ،ہر قسم کی خلاف ورزی سے منزّہ اور نا قابل تغیر ہے اور اس میں ایک ذرّہ بھی خطا نہیں ہو تی اور اصطلاح میں جو کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہے اس کا علم ہے ،اور جو کچھ خدائے متعال کی حتمی قضا ہے اس کی آگاہی ہے ۔
اور اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ اس قسم کے علم سے کسی طرح کی تکلیف اور فریضہ تعلق نہیں رکھتا (اس جہت سے کہ اس قسم کے علم سے متعلّق ہے اور قطعی واقع ہونے والا ہے ) اور اسی طرح انسان کا قصد اور تقاضا اس کے ساتھ رابطہ پید انہیں کرتا کیونکہ تکلیف ہمیشہ امکان کی راہ سے فعل سے متعلق ہے اور اس جہت سے کہ فعل اور اس کا ترک دونوں مکلف کے اختیار میں ہیں ،فعل یاترک مطلوب ہوتا ہے ،لیکن ضروری الوقوع اور حتمی قضاء کی جہت سے اس کا حتمی ہو نا مورد تکلیف قرار پانا کمال ہے ،مثلاًیہ صحیح ہے کہ خدا اپنے بندہ سے فرمائے فلاں کام ،جس کا انجام دینا یا ترک کر نا تیرے لئے ممکن ہے اور تیرے اختیار میں ہے ،اسے انجام دیدو لیکن محال ہے کہ خدا یہ فرمائے کہ فلاں کام جو میری مشیت تکوینی اور حتمی قضا ہے ،بیشک تحقق پائے گا اور اس میں کسی قسم کا پس وپیش نہیں ہو گا ،اسے انجام دو یا نہ دو ،کیونکہ اس قسم کا امرونہی ،لغو اور بے معنی ہے ۔
اسی طرح انسان ایک ایسے امر کے بارے میں ارادہ کرکے اپنے لئے مقصد اور ہدف قرار دے سکتا ہے اور اس کے تحقق کے لئے جستجو کر سکتا ہے جس میں ہونے یا نہ ہو نے کا امکان موجود ہو ،لیکن ہر گزایک ایسے امر کے بارے میں ارادہ کر کے اسے اپنا مقصد قرار نہیں دے سکتا ہے ،جو یقین (ناقابل تغیروخلاف ورزی )اور حتمی قضا کے طور پر ہونے والاہو ،کیونکہ جو امر بہر حال ہونے والا ہو اس میں انسان کا ارادہ وعدم ارادہ اور قصدوعدم قصدکسی قسم کا اثر نہیں رکھتا ہے کیونکہ یہ ہونے والا ہوتا ہے (توجہ کی جائے!)
اس بیان سے واضح ہوتا ہے :
١۔امام علیہ السلام کو عطیہ کے طور پر عطاکیا گیا یہ علم ان کے اعمال میں کوئی اثر نہیں رکھتا ہے اور ان کی خاص تکلیف سے اس کا کوئی ربط نہیں ہو تا ہے ۔اوراصولی طورپر ہر فرض کیا گیا امر جو قضائے حتمی اور حتمی الوقوع سے متعلق ہو ،وہ انسان کے امرونہی یا قصدوارادہ سے متعلق نہیں ہو تا ہے ۔
جی ہاں !قضائے حتمی اور خدائے متعال کی قطعی مشیت سے متعلق اموررضابہ قضا سے مربوط ہیں ،چنانچہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ،خاک وخون میں لت پت ہو کر فرماتے تھے :
''رضا بقضائک و تسلیما لمرک لا معبود سواک''
اسی طرح مکہ سے خارج ہوتے ہوئے اپنے خطبہ میں فرمایا :
''رضا اللّٰه رضانا اهل البیت''
ہم اہل بیت کی رضایت اللہ تعالی کی رضایت ہے
٢۔انسان کے فعل کا قضائے الٰہی سے متعلق ہونے کے لحاظ سے حتمی ہونا اس کے اختیاری فعالیت کی نظر میں اس کے صاحب اختیار ہونے سے منافی نہیں ہے ،کیونکہ قضائے الٰہی فعل کی تمام کیفیتوں کے باوجود ا س سے تعلق پیدا کر چکی ہے نہ مطلق فعل سے ،مثلاًخدائے متعال نے چاہا ہے کہ انسان فلاں اختیاری فعل کو اپنے اختیار سے انجام دے اور اس صورت میں اس فعل اختیاری کا خارج میں واقع ہو نا ،اس جہت سے کہ خدا کی مرضی سے متعلق ہے ،حتمی اور ناقابل اجتناب ہے اور اسی حالت میں اختیاری بھی ہے اور انسان سے نسبت امکانی صفت رکھتا ہے ۔(قابل توجہ!)
٣۔ یہ کہ امام علیہ السلام کے ظاہری علل واسباب سے قابل تطبیق ظاہری اعمال کو اس عطا شدہ علم کے فقدان کی دلیل اور واقعات کے بارے میں جہل کا گواہ قرار نہیں دینا چاہئے ،جیسے کہ کہا جائے :اگر سیدالشہداء علیہ السلام حادثہ کے بارے میں آگاہ تھے توآپ نے کیوں حضرت مسلم کو کو فہ بھیجا ؟صیداوی کے توسط سے اہل کوفہ کو کیوں خط لکھا ؟کیوں خود مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے ؟آپ نے کیوں اپنے آ پ کو ہلاکت میں ڈال دیا ؟جبکہ خدا فرماتا ہے :
(
ولاتلقوا بیدیکم الی التهلکة
)
(بقرہ١٩٥)
''...اپنے نفس کو ہلا کت میں نہ ڈالو ...''
کیوں ؟کیوں ؟..
ان تمام سوالات کا جواب ہمارے بیان کئے گئے مذکورہ نکتہ کے پیش نظر واضح ہے اوراس کی تکرار کی ضرورت نہیں ہے ۔
قرآن مجید کی نص کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسی طرح (آپ کی پاک عترت سے)امام علیہ السلام دیگر افرادبشر کے مانند بشر ہیں اور اپنی زندگی کی راہ میں جو اعمال انجام دیتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی طرح اختیاری اورعادی علم کی بنیاد پر ہو تے ہیں ۔امام علیہ السلام بھی دوسروں کی طرح کام کے خیر وشر سے اور نفع ونقصان کو عادی علم سے تشخیص دے کر ،جس کام کو انجام دینے کے لائق اورشائستہ جانتے ہیں ،اس کا ارادہ کر کے اس پر عمل کرنے کی جستجو کرتے ہیں جہاں پر علل و عوامل اورخارجی حالا ت موافق ہوں مقصد تک پہنچتے ہیں اور جہاں پر اسباب اورشرائط موافق نہ ہوں آگے نہیں بڑھتے ۔(یہ کہ امام علیہ السلام خدا کے اذن سے تمام حوادث کے جزئیات ،گزشتہ اورآئندہ ،کے بارے میں واقف ہیں ان کے اختیاری اعمال پر کسی قسم کا اثرنہیں ڈالتے ،جیسا کہ بیان ہوا)
امام علیہ السلام بھی دوسرے تمام انسانوں کی طرح بندئہ خدا ہیں اوردینی تکالیف و قوانین کے پابند ہیں اورخد اکی طرف سے رکھنے والی سرپرستی اور پیشوائی کے لحاظ سے عام انسانی معیاروں کے مطابق انھیں اعمال کو انجام دینا چاہئے اور کلمئہ حق اوردین کو احیاء کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرناچاہیے ۔
اس ظمانہ کی اجمالی حالت کا ایک سرسری جائزہ لینے کے بعد حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کے مقصد کے بارے میں فیصلہ کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
تاریخ اسلام میں خاندان رسالت اور ان کے شیعوں پر جو تاریک ترین ایام گزرے وہ معاویہ کی بیس سالہ حکومت کا دور تھا ۔
معاویہ نے خلافت اسلامیہ کو ہر نیرنگ سے اپنے قبضہ میں لے لیا اور وسیع اسلامی مملکت کا بے قید وشرط فرماں روابن گیا ۔اس نے اپنی تمام حیرت انگیز توانائیوں کو اپنی حکومت کو استحکام بخشنے اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کو نابود کرنے میں صرف کیا ،نہ صرف یہ کہ انھیں نابود کرے بلکہ وہ چاہتا تھا لوگوں کی زبانوںاوردلوں سے ان کے نام ونشان تک کو محوکردے ۔
اس نے لوگوں کی نظروں میں محترم اورقابل اعتماد چند اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر قیمت پر اپنا حامی بنا کر ان کے ذریعہ صحابیوں کے حق میں اور اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت میں احادیث جعل کرائیں ۔اس کے حکم سے اسلامی مملکت کے تما م شہروں کے منبروں سے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پر (ایک دینی فریضہ کے مانند )لعنت بھیجی جاتی تھی ۔
وہ اپنے آلہ کار اورجاسوسوں ،جیسے زیادبن ابیہ ،سمرةا بن جندب ،بسربن ارطاةوغیرہ کے ذریعہ محبان اہل بیت کا ہر جگہ سراغ لگا کر انھیں نابود کرتا تھا اور اس راہ میں زر،زور،لالچ ،ترغیب اور ڈرانے دھمکانے کی توانائیوں سے آخری حدتک استفادہ کرتا تھا ۔
ایسے ماحول میں قدرتی طور پریہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عام لوگ حضرت علی علیہ السلام اور ان کی اولاد کازبان پر نام لینے سے نفرت کریں ،اور جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی دوستی کا شائبہ تک دل میں رکھتے ہوں اپنی جان ،مال اور آبرو پر آنچ آنے کے خوف سے اہل بیت علیہم السلام سے اپنا رابطہ منقطع کریں ۔
حقیقت حال کو یہاں سے پایا جاسکتا ہے کہ سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی امامت کی مدت تقریباًدس سال جاری رہی اور یہ پوری مدت (آخری کے چند ماہ کے علاوہ )معاویہ کی معاصر تھی ۔باوجود اس کے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام وقت کے امام اور تمام فقہ اسلامی میں معارف واحکام دین بیان کرنے والے تھے ۔لیکن اس پوری مدت میں آپ سے ایک حدیث بھی نقل نہیں کی گئی ہے ۔ (اس کا مقصودوہ روایت ہے جسے لوگوں نے حضرت سے نقل کی ہو ،نہ وہ روایت جو حضرت کے خاندان کے اندر حضرت سے بعد والے ائمہ تک پہنچی ہو )اور یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے گھر کا دروازہ بالکل بند کیا گیا تھا اور اس گھرانے سے لوگوں کی رفت وآمدنہ ہونے کی حدتک پہنچی تھی ۔روز افزون گھٹن اور دبائو کے بادل اسلامی ماحول پر ایسے چھائے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھنے یا اس کے خلاف انقلاب کر نے کی اجازت نہیں دی ،اور اس کا کم ترین فائدہ بھی نہیں تھا ،کیونکہ:سب سے پہلے:معاویہ نے آپ سے بیعت لے لی تھی ،بیعت کے باوجودکوئی آپ کاساتھ نہیں دیتا تھا ۔
دوسرے یہ کہ:معاویہ نے اپنے آپ کو لوگوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک بڑے صحابی ،کاتب وحی اور خلفائے راشدین میں سے تین افراد کے مورداعتماد اور دست راست کے عنوان سے پہچنوایا تھا اور''خال المومنین ''جیسے مقدس لقب کو اپنے آپ سے منسوب کر چکاتھا ۔
تیسرے یہ کہ:اپنے مخصوص نیرنگ سے آسانی کے ساتھ اپنے کسی کارندہ کے ہاتھوںامام حسن علیہ السلام کو قتل کرا سکتا تھا اور اس کے بعد آپ کی خونخواہی کا پر چم بلند کر کے آپ کے قاتلوں سے انتقام لے کر آپ کے لئے مجلس عزا بھی منعقد کر سکتا تھا اورآپ کا عزادار بھی بن سکتا تھا !
معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کی زندگی کے حالات یہاں تک پہنچائے تھے کہ آپ کسی صورت میں ،حتی اپنے گھر کے اندر محفوظ نہیں تھے ،بالآخر(جب لوگوں سے یزید کے لئے بیعت لینا چاہتا تھا )حضرت کو آپ کی بیوی کے ہاتھوں زہر دلاکر شہید کرایا ۔
وہی امام حسین علیہ السلام ،جس نے معاویہ کے مرنے کے بعد فوری طور پر یزید کے خلاف انقلاب کیابرپا اورخود اور اپنے ساتھیوں ،حتی اپنے شیر خوارفرزند کو بھی اس راہ میں قربان کیا ،معاویہ کے زمانہ میں اپنی امامت کی پوری مدت کے دوران یہ قربانی پیش کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے ،کیونکہ معاویہ کے ظاہر اًحق بجا نب نیرنگوں کے مقابلہ میں آپ کی شہادت کسی قسم کا اثر نہیں رکھتی ۔
یہ تھا ان ناخوشگوار حالات کا ایک خلاصہ جسے معاویہ نے اسلامی ماحول میں پیدا کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا دروازہ بالکل بند کردیاتھا اور اس طرح اہل بیت اطہار علیہم السلام کو ہر قسم کے اثر ورسوخ سے محروم کرکے رکھ دیا تھا ۔
آخری،کاری ضرب جو اس نے اسلام ومسلمین کے پیکر پر لگائی،وہ یہ تھی کہ اس نے خلافت اسلامیہ کو ظالمانہ اور موروثی سلطنت میں تبدیل کیا اور اپنے بیٹے یزید کو اپناجانشین مقرر کیا ،جبکہ یزید کسی قسم کی د ینی شخصیت (حتی ظاہر میںبھی )کا مالک نہیں تھا اورہمیشہ علنی طور پر موسیقی ،شراب نوشی اور بندر کے ساتھ کھیلنے میں وقت گزارتا تھا اوردینی قوانین کا کسی قسم کا احترام نہیں کرتا تھا ،اور ان سب کے علاوہ دین پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا ،چنانچہ جب اہل بیت علیہم السلام کے اسیروں اور کربلا کے شہیدوں کے سروں کو دمشق میں داخل کر رہے تھے ،یزید ان کے تماشا کے لئے باہر آیا تھا ،ایک کوّے کی آواز اس کے کان میں پہنچی اور اس نے کہا :
نعب الغراب قل اولاتقل
فقد اقتضیت من الرسول دیونی
کوے نے آوازدی تم کہو یانہ کہویقییناًمیں نے(آل )رسول سے اپنے قرضے پورے کرلئے۔
اوراسی طرح جب اہل بیت علیہم السلام کے اسیروں اور حضرت سید الشہداء کے سر اقدس کو اس کے سامنے لایاگیا تو اس نے کچھ اشعار کہے اور ان اشعارمیں سے ایک یہ تھا:
لعبت هاشم بالملک فلا
خبرجاء ولاوح نزل
بنی ہاشم نے ملک حاصل کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلاتھانہ کوئی فرشتہ ان کے پاس آیاتھانہ وحی نازل ہوئی تھی۔
یزید کی حکمرانی ،جو معاویہ کی سیاست کو جاری رکھنے کی پالیسی پر مبنی تھی ،اسلام اور مسلمین کی تکلیف کو واضح کرتی تھی اور اہل بیت رسول علیہم السلام کے مسلمانوں اور شیعوں سے رابطہ کی حالت (جسے مکمل طور پر فراموش کرانا تھا )کو عیاں کرتی تھی ۔
ایسے شرائط میں اہل بیت علیہم السلام کی نابودی قطعی بنانے اور حق و حقیقت کی بنیادوں کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کاتنہا وسیلہ اور موثرترین عامل یہ تھا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام یزید کی بیعت کریں اور اسے خلیفہ اورپیغمبراسلام کا واجب الاطاعت جانشین مان لیں ۔
حضرت سید الشہداء علیہ السلام حقیقی پیشوا اور قیادت کے مالک ہونے کے پیش نظر ہر گز یزید کی بیعت نہیں کر سکتے تھے اور دین اسلام کو پائمال کر نے کے لئے ایسا موثر قدم نہیں اٹھا سکتے تھے ،لہذا امام علیہ السلام کے لئے بیعت سے انکار کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا اور خدائے متعال بھی اس کے علاوہ کوئی چیز آپ سے نہیں چاہتا تھا ۔
دوسری طرف سے بیعت کاا نکار تلخ اور ناخوشگوار نتائج رکھتا تھا ،کیونکہ وقت کی خطرناک اور مخالفت کو برداشت نہ کرنے والی حکومت اپنی پوری طاقت اور ھستی سے بیعت کا مطالبہ کرتی تھی (بیعت سرچاہتی تھی )اور اس کے علاوہ کسی بھی چیز پر تیار نہیں تھی اس لحاظ سے ،بیعت سے انکار کرنے کی صورت میں امام علیہ السلام کا قتل ہو نا قطعی اور انکار بیعت کا اٹوٹ لازمہ تھا ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسلام ومسلمین کی مصلحت کے پیش نظر بیعت سے انکار کرنے اور قتل ہونے کا قطعی فیصلہ کیا اور کسی خوف کے بغیر موت کو زندگی پر ترجیح دی اورمشیت الہٰی بھی آپ کا بیعت سے انکار اور شہید ہوناتھا۔(اور یہ ہے اس امر کا معنی جو بعض روایتوں میں نقل ہوا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں آپ سے فرمایا تھا :''خدا تجھے قتل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے ''اورحضرت نے بھی اس تحریک سے منع کرنے والے بعض افراد کو فرمایاتھا :''خدامجھے قتل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے ''اور بہر صورت اس کا مقصود،مشیت تشریعی ہے نہ مشیت تکوینی ،کیونکہ ہم نے اس سے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ خدا کی تکوینی مشیت ارادہ ا ورفعل میں کوئی اثر نہیں کرتی )
جی ہاں !امام حسین علیہ السلام نے بیعت کا انکار اور (نتیجہ کے طور پر) اپنے قتل ہونے کا فیصلہ کیا اور موت کو زندگی پر ترجیح دی اورحوادث کے رونما ہو نے سے حضرت کا صحیح نظریہ ثابت ہو گیا ،کیونکہ اس دل خراش حالت میں آپ کی شہادت نے اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت اورحقانیت کو ثابت کردیا ۔آپ کی شہادت کے بعد بارہ سال تک تحریکوں اور خونریزیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد وہی گھر،جس کے دروازہ کو حضرت کے زمانہ میں کوئی نہیں پہچانتا تھا ،پانچویں امام کے زمانہ میں رونما ہو ئے مختصرآرام کے نتیجہ میں اطراف واکناف سے شیعہ سیلاب کے مانند اسی حقانیت ونورانیت کے دروازہ کی طرف دوڑپڑے اور اس حقانیت اور نورانیت کی چمک دمک کو دنیاکے کونے کونے میں پھیلانے کا سبب بنے۔ اس حقانیت کی مستحکم بنیاد اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت ہے اوراس میدان کے پیش رو سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام تھے ۔آج،امام حسین علیہ السلام کے زمانہ میں خاندان رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حالت اورلوگوں کی ان کی طرف توجہ کا،آپ کی شہادت کے بعد چودہ صدیوں کے دوران رونما ہوئے حالات کا موازنہ ،جو روزبروزتازہ اورعمیق ترہورہے ہیں ،کرنے پر حضرت کا صحیح نظریہ اظہرمن الشمس ہو رہا ہے اوراس سلسلہ میں حضرت نے بعض روایات کے مطابق جو شعر انشا ء فرمایا ہے وہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے :
وماان طبنا جبن ولکن
منایا نا و دولت آخرینا
بزدلی اورخوف ہماری طبیعت میںشامل نہیںبلکہ ایساہے کہ ہمیںاس دنیاسے جاناچاہیے تاکہ دوسروں کی حکومت پا برجا ہو۔
اسی لئے معاویہ نے یزید کو تاکید کی تھی کہ اگرحسین ابن علی علیہ السلام اس کی بیعت کرنے سے اجتناب کریں توانھیں اپنے حال پر چھوڑنا اور کسی قسم کی مداخلت نہ کرنا معاویہ یہ وصیت اخلاص اور محبت کی بناپر نہیں کررہا تھا ،بلکہ وہ جانتا تھا کہ حسین ابن علی علیہ السلام بیعت کرنے والے نہیں ہیں اوراگروہ یزیدکے ہاتھوں قتل ہو جائیں تو اہل بیت علیہم السلام پر مظلومیت کا نشان لگ جائے گا اوریہ اموی سلطنت کے لئے خطر ناک اوراہل بیت علیہم السلام کے لئے تبلیغ اور پیش رفت کا بہترین وسیلہ ہو گا ۔
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام ،بیعت سے انکار کر نے کے لئے اپنے الہٰی فریضہ سے آگاہ تھے اوربنی امیہ کی بے حد اور نا قابل مزاحمت قدرت اوریزید کی ذہنیت کے بارے میں سب سے بہتر آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ بیعت سے انکارکا اٹوٹ لازمہ ،ان کا قتل ہونا ہے اور فریضہ الہٰی کی انجام دہی کا نتیجہ شہادت ہے ۔اس معنی کے بارے میں مختلف مقامات پر گوناگوں تعبیرات سے انکشاف فرماتے تھے ۔
مدینہ کے گورنر کی مجلس میں جب آپ سے بیعت کا مطالبہ کیاگیا توآپ نے ''فرمایا :''مجھ جیسا''یزیدجیسے کی بیعت نہیں کرتا ۔''
مدینہ منورہ سے رات کی تاریکی میں نکلتے وقت اپنے نانا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کہ خواب میں آپ سے فرمایا ''خدا نے چاہا ہے (یعنی تکلیف کے عنوان سے )قتل ہو جائو گے ''
مکہ سے عزیمت کے وقت کی گئی اپنی تقریر کے دوران کچھ لوگوں کی طرف سے آپ کو عراق کی طرف عزیمت سے منصرف ہونے کی تجویز کے جواب میں بھی مکرّریہی مطلب بیان فرمایا ۔
راستہ میں ایک عرب شخصیت نے حضرت کو کوفہ جانے کے اپنے ارادہ سے منصرف ہونے پر اصرارکیا اورکہا کہ منصرف نہ ہونے کی صورت میں حتماًقتل کئے جائو گے ،آپ نے جواب میں فرمایا :''یہ حقیقت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن یہ لوگ مجھ کو چھوڑنے والے نہیں ہیں اور جہاں بھی جائوں اورجہاں پر رہوں مجھے مار ڈالیں گے''
(اگر چہ ان میں سے بعض روایتیں قابل تردید یاسند کے لحاظ سے ضعیفف ہیں لیکن وقت کے حالات اور قضایا کا تجزیہ وتحلیل ان کی مکمل طورپر تائید کرتے ہیں )
البتہ ہم جو کہتے ہیں کہ ''اپنے انقلاب سے امام علیہ السلام کا مقصد شہادت تھا اورخدائے متعال آپ کی شہادت چاہتا تھا ''اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدانے آپ سے چاہا تھا کہ یزید کی بیعت سے انکارکریں اور اس کے بعدہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر یزید کے کارندوں کو اطلاع دے کہ آکر انھیں قتل کر ڈالیں اوراس مضحکہ خیز طریقہ سے اپنافریضہ انجام دیں اور اسے انقلاب کا نام رکھیں ،بلکہ امام کا فریضہ یہ تھا کہ یزید کی منحوس خلافت کے خلا ف انقلاب قائم کریں ،اس کی بیعت سے انکار کریں اور اپنے اس انکار کوہر ممکن راہ سے آخر تک پہنچائیں جو شہادت پر منتہی ہو گی ۔
یہاں پر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اپنے قیام کے دوران بدلتے حالات کے مطابق امام کی روش مختلف تھی ۔ابتدائی مرحلہ میں جب مدینہ کے گور نر کے دبائو میں قرار پائے تو رات کو مدینہ سے حرکت کی اورمکہ،حرم خدا اور جائے امن ،میں پناہ لے لی اور مکہ میں کئی مہینے تک پناہ گزینی کی زندگی گزاری ،آپ مکہ میں خلافت کے ماموروںاورجاسوسوں کے تحت نظرتھے یہاں تک فیصلہ لیا گیا کہ موسم حج میں ایک گروہ کے ذریعہ قتل کئے جائیں یا پکڑ کر شام بھیج دئے جائیں اور دوسری طرف عراق سے حضرت کے نام خطوط کا ایک بڑا سلسلہ آنے لگا اورسیکڑوں اورہزاروں خطوط میں آپ سے حمایت کا وعدہ دے کر عراق آنے کی دعوت دی گئی ۔جب اہل کوفہ کی طرف سے آخری خط بعنوان اتمام حجت (جیساکہ بعض مورخین نے لکھا ہے پہنچا ،توحضرت نے روانہ ہو نے اور خونین انقلاب کا فیصلہ لیا ۔اوّل اتمام حجت کے طورپر اپنے نمائندہ حضرت مسلم ابن عقیل کو بھیجا۔ کچھ مدت کے بعد حضرت مسلم کی طرف سے انقلاب کے لئے حالات مناسب ہو نے کا خط ملا ۔
امام علیہ السلام نے مذکورہ دوعوامل ،یعنی شام کے جاسوسوں کے آپ کو قتل کرنے یاپکڑ نے کے لئے مکہ میں داخل ہونے کے پیش نظر ،خانہ خدا کے احترام کے تحفظ اور عراقیوں کے انقلاب کے لئے آمادہ ہو نے کی وجہ سے کوفہ کی طرف عزیمت فرمائی ۔اس کے بعد جب راستہ میں مسلم اورہانی کے بے دردی سے قتل کئے جانے کی خبر ملی توحضرت نے اپنے انقلاب اور جنگ کو دفاعی انقلاب میں تبدیل فرمایا اور اپنے ساتھیوں کی چھان بین کرنے لگے اورصرف ان افراد کو اپنے ساتھ رکھا جو اپنے خون کے آخری قطرہ تک وفا کرنے اورپیچھے نہ ہٹنے پر آمادہ تھے ۔
محمدحسین طباطبائی
قم ۔ر بیع الاول١٣٩١ھ
__________________