نواں حصہ:
اسلام کی ایک پہچان
مباہلہ کا عمومی ہونا
سوال:مسئلہ ''مباہلہ '' کے بارے میں آپ نے تفسیر'' المیزان'' میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہمارے زمانہ میں بھی ہر مو من مسلمان یہ کام انجام دے سکتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے ؟کیا ہر مسلمان جو ظاہر میں مومن ہو ایسا خطر ناک کام انجام دے سکتا ہے؟
جواب:آیہ مباہلہ کے بارے میں ،کہ مباہلہ عمومی حق رکھتا ہے اور مباہلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نجران کے نصاریٰ سے مخصوص نہیںہے ،واضح ہے اور جو روایتیں اس سلسلہ میں اہل بیت اطہار علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ،وہ مباہلہ کے عمومی ہونے کی وضاحت کرتی ہیں ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے متعہ کی مشروعیت و شرعی جواز کے بارے میں ''عبداللہ بن عمیرلیثی '' کے ساتھ اپنے مناظرہ میں عبداللہ بن عمیر کو مباہلہ کی دعوت دیتے ہیں ۔اور اسی طرح ایک اور روایت میں امام علیہ السلام بعض اہل سنت کے مذہبی مناظرہ کرنے والے ایک شیعہ کواپنے مد مقابل سے مباہلہ کرنے کا حکم فرماتے ہیں، اس بناء پر ،مباہلہ ایک عمومی آیت ہے جسے خدائے متعال نے حق کا محافظ قراردیاہے ۔
قرآن مجید کا تحریف سے پاک ہونا
سوال: قرآن مجید کی عدم تحریف کے بارے میں جناب عالی کا نظریہ کیا ہے ؟
چونکہ ایک شیعہ عالم دین نے ماضی میں تحریف قرآن کے بارے میں ایک کتا ب بھی لکھی ہے جونجف اشرف میں منتشر بھی ہوئی ہے ۔مہربانی کرکے فرمائیے :
سب سے پہلے:ہم مخالفین کو کیاجواب دیں گے ؟
دوسرے یہ کہ:مذکورہ کتاب میں موجودہ روایتوں کو ہم کیسے جھٹلائیں گے ؟
جواب:تحریف قرآن کے بارے میں بہت سی روایتیں سنّی اورشیعہ راویوں سے نقل ہوئی ہیں اور بعض روایوں نے ان پر اعتماد بھی کیا ہے لیکن خودان روایتوں کی حجیّت ان کی عدم حجیّت اور مسترد ہو نے کا لازمہ ہے ۔ کیونکہ ان روایتوں کی حجیتّ، امامت اور ان کے قول کی حجیّت پر منتہی ہوتی ہے کہ یہ روایتیں ان سے منقول ہیں اورامامت ان کے قول کی حجیّت، نبوت اورقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہی ہو تی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نصوص سے امامت اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے قول کی حجیتّ ثابت ہوتی ہے اورنبوت ونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی حجیتّ ،قرآن مجید کی آیا ت کے ظواہرپر منتہی ہوتی ہے ،جو نبوت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی حجیّت کی دلیل ہے ۔اوربدیہی ہے کہ تحریف قرآن کے فرض کے پیش نظر،کم یا زیادہ یا تغیر لفظ یا ایک جملہ اور حتی پورے قرآن میں ایک حرف کی کمی کے معنی میں ،قرآن مجید کا ظہور حجیّت سے گر جاتا ہے اورنتیجہ کے طورپر نبوت اور قول نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجیّت کی بھی کوئی دلیل نہیں ہوگی۔اور اس کا لازمہ قول امام کی حجیّت کا سقوط ہو گا اور اس کا لازمہ تحریف کے بارے میں روایتوں کی حجیّت کا سقوط ہوگا۔لہذاتحریف کے بارے میںروایتوںکی حجّیت لازمہ ان کی عدم حجیّت ہوگی ۔
نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے فعل اور قول میں سہو کا نہ ہو نا
سوال: علمائے معاصر میں سے ایک شخص نے ''سہوالنبی''کے عنوان سے ایک مقالہ لکھ کر بالآخروہ کام انجام دیا ہے ،جسے مرحوم ''صدوق'' انجام دینا چاہتے تھے افسوس ہے کہ اس کی تئالیفات میں سے ایک کے آخر میں اس کے اپنے دستخط سے یہ مقالہ منتشر بھی ہوا ہے !اصولی طور پر اس موضوع کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟ اس کے علاو ہ اس قسم کے مسائل پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
جواب:بدیہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل آپ کے قول کے مانند تبلیغ کے مصادیق میں سے ہے اور سہو بھی خطا کے مصادیق میں سے ہے ،لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اقوال یا افعال اور اعمال میں سہو تبلیغ میں خطا ہے اور معارف واحکام الہٰی کی تبلیغ میں خطا خدائی حجّت کے نا مکمل ہونے کا امکان پید اکرتا ہے اور اس کا لازمہ کتاب وسنّت کا حجیّت سے سقوط ہے ،کیونکہ اس فرض کی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جاری ہونے والے ہر بیان میں سہو اوراس کے حقیقت کے مطابق نہ ہو نے کا امکان موجود ہے ۔
قرآن مجید اور تسبیح سے استخارہ کرنے کی سند
سوال: کیا قرآن مجید اور تسبیح سے استخارہ کرنے کی کوئی سند ہے ؟کیا قرآن مجید فال دیکھنے کی کتا ب ہے ؟یاتسبیح کے دانے انسان کی تقدیر کو بدل سکتے ہیں ؟بعض مومنین ہر کام کے لئے، صلاح ومشورہ سے پہلے کیوں استخارہ کا سہارا لیتے ہیں ؟کیا یہ امر لوگوں کی مذہبی تعلیم وتر بیت میں خامی کا نتیجہ نہیں ہے ؟
جواب: قرآن مجید اور تسبیح سے استخارہ کرنے کے بارے میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے چند روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان روایتوں کو مسترد کرنے کا کوئی عقلی یا نقلی مانع موجود نہیں ہے ۔ ان روایات سے قطع نظر استخارہ کا شیوہ یہ ہے کہ جب انسان ایک کام کے بارے میں اسے انجام دینے یا ترک کرنے کا فیصلہ کر نا چاہتا ہے ،تو اس کام کے اطراف میں اس کو انجام دینے اور ترک کرنے کی تر جیحات پر غور کرتا ہے اور کام کو انجام دینے یاترک کرنے کی ترجیحات میں سے ایک کو پسند کرکے اس پر عمل کرتا ہے ۔اگرغور وفکر کی راہ سے ترجیح نہ دے سکا تو اس سلسلہ میں دوسروں سے صلاح و مشورہ کر کے تر جیحات میں سے جس کے بارے میں مشورہ ملا ہو اس پر عمل کرتا ہے ۔اوراگر صلاح ومشورہ کی راہ سے بھی ترجیح نہ دے سکا اور کام کے دونوں طرف یعنی انجام اور ترک مساوی رہے اورحیرت میں پڑگیا ،تو قرآن مجید کو اٹھاکر خدا کی طرف توجہ کر کے اسے کھول کر پہلی آیت کے مضمون کو اپنے لئے ترجیح جان کر اس پر عمل کرے ،یعنی کلام اللہ کو سند قرار دے کر خد اپر توکل کرکے دومساوی ترجیحات جو دونوں اس کے لئے جائز تھے ،میں سے ایک کو تر جیح دیتا ہے ۔اور یہ کام جو توکّل کے مصادیق میں سے ہے ،نہ اس میں کسی قسم کا شرک ہے اور نہ دینی احکام میں سے کسی کو ضررپہنچاتا ہے اور نہ کسی حلال کو حرام یاحرام کو حلال کرتا ہے ۔یہ استخارہ قرآن مجید سے ہو یا تسبیح سے ،خد اکی یاد کے وسائل میں سے ایک ہے اورحقیقت میں خداپر توکّل ہے نہ قرآن یا تسبیح کو خدا کا شریک قرار دیاجاتا ہے ۔
مصحف حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے بارے میں ایک بات
سوال: حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکے مصحف کے بارے میں ،شیعوں سے منسوب بعض افراد نے کچھ مطالب لکھ کر ''کویت'' میں منتشر کیا ہے ،جو مسلمانوں کی نفرت کا سبب بنے ہیں ،کیونکہ کتا ب کے مولف نے،مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا کو قرآن مجید کے کئی گنا بیان کیا ہے اور یوںاظہار کیا ہے کہ یہ مصحف قرآن مجید کے درجہ کاہے !اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے ؟
جواب:''مصحف فاطمہ '''کے نام کی کتاب ،جسے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے املا ء فرمایا اور امیرالمو منین علی علیہ السلام نے اسے لکھا ہے ،اہل بیت علیہم السلام کی روایتوں میں اس کا ذکر ہوا ہے ۔اس قسم کی کتاب کا وجود (اس کے وجود کا اعتقاد)نہ مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے اور نہ خودیہ کتا ب دینی منابع ومصادرکی حیثیت سے بیان ہوئی ہے اورنہ ائمہ معصومین یاعلمائے امامیہ میں سے کسی نے اصول دین یامذہب یادینی احکام کے بارے میں کوئی چیز اس سے نقل کرکے اسے دینی اسناد میں سے ایک سند کے طورپر کتاب وسنت کی سطح پر قرار دیاہے ۔مذکورہ کتاب میں،جیسا کہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ۔ خلقت کے اسراراورمستقبل کے حوادث کے بارے میںبحث ہے اورایسی کتاب کے وجود پر اعتقاد رکھنا ،خواہ قرآن مجید سے چھوٹی ہو یا بڑی ،کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ہے ۔البتہ مصحف فاطمہ سے ،نعوذبا اللہ،ایک دوسرے قرآن کا وجود ہر گز مقصود نہیں ہے اور کوئی شیعہ اس قسم کا اعتقاد نہیں رکھتا ہے ۔
ائمہ اطہار کے بارے میں غلو کرنا جائز نہیں ہے
سوال:شیعہ فقہ میں ،ائمہ اطہار علیہ السلام کے حق میں غلوکر نا جائز نہیں ہے اور تمام فقہا کے مطابق غلو کر نے والے دین سے خارج ،کافر اور نجس ہیں،اس مضمون کا کیا معنی ہے ؟اور ہم غلو کرنے والوں کو کیسے پہچان لیں ؟کیا آپ کی نظر میں زمانہ کے گزر نے کے ساتھ ''غالی''کا مفہوم دوسرے عناوین کے تحت ظاہر نہیں ہو اہے ؟
جواب: اصطلاح میں'' غالی'' اس کو کہتے ہیں ،جو اہل بیت اطہار علیہم السلام میں سے کسی ایک کو ،مثلاً بندگی کی حد سے اوپر لے جاکر ربو بیت کی بعض خصوصیت جیسے خلقت ،تد بیر عالم اورتکوین میں بلا واسطہ تصّرف کو ان سے نسبت دے اور زمانہ گزر نے کے ساتھ یہ معنی کسی بھی صورت تحقق پید ا کرے ،تو کو ئی فرق نہیں ہے اور یہ کفر کا سبب ہے ۔جس چیز کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جو کفر کاسبب بنتا ہے وہ خدا کی خصوصیات میں بلاواسطہ اورآزادانہ طور پر اعتقاد رکھنا ہے ،جیسے اشیاء کو بلا واسطہ پیدا کر نا ،بندوں کو بلا واسطہ رزق دینا وغیرہ ۔اماّ ولایت تکوینی کے سبب سے تکو ینیات کے بعض ممکنات کے لئے فیض کا واسطہ ہونا ،جیسے میکائیل کا رزق پہنچانے میں اور جبرئیل کا وحی پہنچانے میں اورملک الموت کا ارواح کو قبض کرنے میں وغیرواسطہ قرار پانا غلو سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے ۔
''للّہ درّ فلان'' اور''کان للّہ رضاً'' کے معانی
سوال: نہج البلاغہ میں بعض مواقع پر بعض خلفاء کے بارے میں ''للّہ درفلان'' یا''للّہ بلاء فلان''جیسے جملات درج ہیں ۔اور معاویہ کے نام ایک خط میں خلفاء کے ساتھ بیعت کی کیفیت کو ''کان اللہ رضا''کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور بعض دوسرے مواقع پر ،من جملہ خطبہ''شقشقیہ'' میں انہی افراد کی مخالفت میں بعض مطالب بیان ہوئے ہیں ،جناب عالی کی نظر میں ظاہراًان دو متنا قض امور میں جمع کی صورت کیا ہے ؟
جواب:جملہ ''وکان للّٰہ رضا''کا سیاق ''وللّٰہ درفلان ''اور''للّٰہ بلاء فلان''والے جملوں سے مختلف ہے ،اوراس کامعنی اس چیز کی دشمنی کالازمہ ہے جس کا ظاہراًپابند ہو تا ہے اورامت کے اجماع کو خدا کی رضا مندی جانتا ہے اوراگر یہ جملہ خودحضرت کے بارے میں ہو،تو اس کا معنی یہ ہے کہ میں نے اسلام کی مصلحت کے پیش نظر مجبور ہوکر بیعت کی ہے اوراس بیعت سے خدائے متعال راضی تھا، کیونکہ بیعت سے انکار کی صورت میں اسلام کی بنیاد نابود ہونے والی تھی ۔
لیکن،''للّہ درفلان''اور''للّہ بلاء فلان ''کے جملے بعض خلفاء اور مختلف شہروں میں مامورین کے بعض حاکم اور کارندوں پر اطلاق رکھتے ہیں ۔اوردوسرے معنی کی بناء پر کوئی مشکل نہیں ہے اورپہلے معنی کی بناء پر اس کے پیش نظرکہ شیعہ طریقہ سے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام اور تمام ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہوئی سیکڑوں اورہزاروں روایتوں (جن میں سے ایک خطبہ شقشقیہ ہے) کے مطابق خلافت بلافصل امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا قطعی حق تھا ،اس لئے حضرت علیہ السلام جو خلافت کو اپناخاص حق جانتے تھے ،سے دوسروں کی روش کی تمجید میں اس قسم کے جملوں کا بیان ہونا ،صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی بلند مصلحتوں کا لحاظ رکھنے کے لئے ہو گا ،یہ وہی مصلحتیں تھیں جن کے پیش نظر امام علیہ السلام کو٢٥سال تک صبر کرنا پڑا۔
اتحاد اورمحبت کی دعوت
سوال:تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے مسلمانوں کی مصلحتوں کے تحفظ کے لئے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی ہے ،اس صورت میں صدراسلام میں مقام ومنزلت پانے والے افراد پر سب اور لعن کرنے کا کیا حکم ہے ؟
کیا ہم حضرت علی علیہ السلام سے بھی دین دارتر بن کر ،علی علیہ السلام کی راہ کے برخلاف اسلام کی مصلحتوں کو نظر انداز کر کے غیرعلمی اورغیرمذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوادیں ؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ـعالی سطح پر ـ علمی بحث کے حامی ہیں ،لیکن کینہ رکھنا اورمسلمان بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں کیا فائدہ ہے اورمذہبی نقطہ نظرسے اس کی کیا صورت ہے؟
ہم نے عملی طورپر مشاہدہ کیا ہے کہ قاہرہ میں (''دارالتقریب بین المذاہب الاسلا میہ '' کی تاسیس اور مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی اورآیت اللہ العظمی کاشف الغطاء اوردیگر شیعہ علماء کی تائید کے درخشاں نتائج نکلے جن میں الازہراسلامی یونیورسٹی کے چانسلر''شیخ محمودشلتوت''کامذہب شیعہ پر عمل کرنے کو جائز قرار دینے کا فتویٰ قابل ذکر ہے کیا بہتر نہیں کہ ہم اسی راستہ پر آگے بڑھتے اورعلمی مباحث کو بلند سطح پر جاری رکھیں ،سنّیوںا ورشیعوں کے خودغرض اورشر پسند گروہوں کو سرگرمیوں کی اجازت نہ دیں تاکہ اسلام کے دشمن ان اختلاف سے ناجائزفائدہ نہ اٹھاسکیں ؟
جواب:اگراتحاد یااسلامی تقریب دینی معارف کی فراموشی اورمذہبی احکام کے متروک ہونے کا سبب نہ بنے اور اس میں دین کے لئے بھلائی ہو تو عقل ومنطق کے لحاظ سے اس کی ترجیح میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے صدر اسلام میں قرآن مجید کی تعلیمات کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں جو توانائی حاصل کی تھی اورجس کے سبب ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں ایک بڑے علاقہ پر حکومت بر قرار کی تھی ،اختلاف کلمہ اوراجتماعی فکر کو چھوڑنے کے نتیجہ میں یہ حیرت انگیز توانائی مکمل طور پر منحل ہوکر مسلمانوں کا حقیقی سرمایہ اورموجودیت نیست و نابود ہوئی ۔
البتہ اسلام کے ان دو بڑے فرقوںکو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے عوامل کے بارے میں جانناچاہئے کہ ان دوگرہوں کا اختلاف فروعات میں ہے اوراصول دین میں آپس میں کسی قسم کااختلاف نہیںرکھتے ہیںاورحتی دین کے ضروری فروعات،مانند:نماز،روزہ، حج،جہاد وغیرہ میں بھی یہ دونوں گروہ آپس میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور ایک ہی قرآن اورکعبہ پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔
اسی اصول پر صدراسلام کے شیعوں نے ہر گز اپنے آپ کو اکثریت سے جدا نہ کیا اور اسلام کے عمومی امور کی پیش رفت کے لئے عام مسلمانوں کے ساتھ شر کت کرنے کی کوشش اورکشادہ دلی کی نصیحت کرتے تھے ۔اس وقت بھی تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ دین مقدس اسلام کے اصولوں پر اتفاق کو مدنظر رکھتے ہوئے ،اس طولانی مدت کے دوران اجنبیوں اوراسلام دشمن عوامل کی طرف سے برداشت کئے جانے والے دبائو اور تکالیف کے پیش نظرہوش میں آئیں اور باہمی اختلاف کو چھوڑ کر ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور اس سے قبل کہ دوسرے اس مسئلہ کو ایک تاریخی حقیقت کے عنوان سے کشف کرکے اپنی کتا بوں میں درج کریں ،خودمسلمان اس حقیقت کو عملی طور پر ثابت کریں ۔
خوش قسمتی سے دنیائے اسلام آہستہ آہستہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتی جارہی ہے ۔تقریب مذاہب کی فکر کی اسی غرض سے شیعہ مراجع نے تائید کی ہے اور''الازہر''کے بزرگوار شیخ شلتوت نے بھی اس حقیقت کو بالکل واضح طور پر بیان کر کے،شیعہ ا ورسنی کے مکمل دینی اتفاق کاتمام دنیا والوں کے لئے اعلان کیا ہے اور شیعوں کو اس بزر گوار شخصیت کا شکر گزار رہنا چاہئے اوراس کے اس بے لوث کام کی قدر کرنی چاہئے ۔
جیسا کہ سوال میں اشارہ ہواہے کہ یہ امرعقیدتی مسائل میں علمی ا ورتاریخی بحث سے منافات نہیں رکھتا ہے اور عالی سطح پر شیعہ وسنی علمی مباحثہ جاری رہناچاہئے تاکہ لوگوں کے لئے تاریکیاں روشن اورحقائق واضح ہو جائیں اور اس امر کا ،تعصب ،حملہ اورجھوٹ پھیلانے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔
ہم خدائے متعال سے دعاکرتے ہیں کہ خودغرض اورشرپسند عناصر کی ہدایت اوراصلاح فرمائے اورمسلمانوں کو یہ توفیق عطاکرے کہ وہ عملی طورپر اتحاد واتفاق سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کریں ۔انہ سمیع مجیب ۔