گیارہواں حصّہ:
چنداعتراضات اور ان کے جواب
سلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط ملا اورکتاب ''شیعہ دراسلام''اور''تفسیرالمیزان ''کے مطالب کے بارے میں کئے گئے اعتراضات کا بھی مطالعہ کیا ۔ان کتا بوں کے مطالب کے بارے میں عمیق توجہ عنایت فرمانے پر بہت بہت شکریہ۔جزاکم اللہ تعالی ٰعن الحق والحقیقة خیرالجزائ۔
ذیل میں اعتراضات کا خلاصہ اور ان کے جواب ملا حظہ فرمائیں :
اسلام میں شبہ کے معنی
پہلا اعتراض:
کتاب ''شیعہ دراسلام ''کے چوتھے صفحہ پر کہا گیا ہے :''اسلام تسلیم کے معنی میں ہے ''یہ معنی لغوی طور پر صحیح ہے ،لیکن اسلامی اصطلاح میں یہ کلمہ ایک ایسے دین کا نام ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں ''ماجاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ''لیکن آپ کی تفسیرکے مطابق :
سب سے پہلے:ہم آیہ کریمہ :(
ومن یبتغ غیر الاسلمٰ دینا فلن یقبل منه
)
١سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت کو ثابت نہیں کرسکتے۔
دوسرے یہ کہ:آپ کی تفسیر،اسلام کے معنی کی تفسیر میں بیان کی گئی اوراصطلاحی معنی کی تائید کرنے والی بہت ساری روایتوں کے منافی ہے ،جیسا کہ اصول کافی کی دوسری جلد میں آیا ہے ۔
١۔اورجو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تووہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ...آل عمران٨٥
تیسرے یہ کہ:دنیا کی مختلف امتوں کے اجماع کے مطابق لفظ''اسلام''ایک ایسے دین کانام ہے جسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے لاتے ہیں ۔
جواب:کتاب''شیعہ دراسلام'' کی عبارت یوں ہے :
''لغت میں''اسلام تسلیم کرنے اورگردن جھکانے کے معنی میں ہے ۔قرآن مجید جس دین کی طرف دعوت کرتا ہے اس کا نام اس لئے اسلام رکھا گیا ہے کہ اس کا کلی پروگرام انسان کا خالق کائنات کے سامنے تسلیم ہو نا ہے اور دنیا کے لوگ خدائے واحدکے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں اور اس کے فرمان کے علاوہ کسی کی اطاعت نہ کریں ۔''
مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ اس عبارت سے کہاں یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اسلام کا ایک سے زیادہ معنی نہیں ہے اور وہ صرف لغوی معنی ہے ،اور قرآن مجید اورحدیث میں جہاں بھی اسلام کا لفظ آیا ہے اسے صرف لغوی معنی میں لینا چاہئے ؟اور کیا یہ عبارت وجہ تسمیّہ کے علاوہ کسی اورچیز پر مشتمل ہے ؟اور جناب عالی نے خود بھی عبارت کے ضمن میں اعتراف فرمایا ہے :''اسلام، خدائے متعال کے سامنے تسلیم محض ہے ،لیکن یہ تب تک محقق اور ظاہرنہیں ہو سکتا ہے جب تک نہ شہادتین اورکچھ ضروری اعمال کو انجام دیا جائے ۔''یعنی یہ دین اسم مصدرکے معنی میں تسلیم کا مصداق ہے ۔
بہر حال،لفظ''اسلام ''اس مقدس دین کا نام ہے اور لغت کے مطابق تسلیم اور اطاعت کے معنی میں ہے اور کتاب وسنت کے بہت سارے مواقع پر ہردو معنی میں استعمال ہوا ہے ،اس آ یہ کریمہ کے مانند :
(
ومن احسن دینا ممن اسلم وجهه لله وهومحسن واتبع ملته ابراهیم حنیفا
)
جواس پر دلالت کرتی ہے کہ ملت ابراھیم ،اسلام کے لغوی معنی کا مصداق ہے ۔ اسی طرح یعقوب کے فرزندوں اوراس امت کے مومنین سے یہ جملہ نقل کرتا ہے(
ونحن له مسلمون
)
یہاں پر مسلمون کی تعبیرکی دلیل لغوی معنی مراد ہے ۔
لیکن جو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ :''اگراسلام اصطلاحی کے معنی میں نہ ہو تو ہم خاتمیت کو اس آیت:(ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ...)٣سے ثابت نہیں کرسکتے ہیں ''یہ اس وقت ممکن ہے جب خاتمیت کے لئے اس آیت کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہواور اس کا قبلی دشمن بھی مسلم ہو تو اسلام اس آیت میں اصطلاح کے معنی میں ہے اور دونوں مطلب ممنوع ہیں ۔
لیکن آپ نے جو یہ فرمایا :''روایتیں اصطلاحی معنی کی تائید کرتی ہیں '' اصطلاحی معنی کے وجود کا کوئی منکر نہیں ہے ،لیکن اصطلاحی معنی کا وجود لغوی معنی اور اس کا مقصودہونے کی نفی نہیں کرتا ہے ،اور روایتیں کبھی اصطلاحی معنی اور اس کے وصف کو بیان کرتی ہیں اور کبھی تسلیم کے معنی میں اسلام کے درجات اور مراتب بیان کرتی ہیں ۔
لیکن آپ نے جویہ فرمایا ہے :''اسلام دنیا کی تمام مختلف امتوں کے اجماع کے مطابق، ایک ایسے دین کا نام ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم لائے ہیں ''اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اسلام واقعاًاس دین مقدس کا نام ہے اور قرآن مجید کے
بیان کے مطابق یہ نام گزاری پہلے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے ۔
(
اذقال له ربه اسلم قال اسلمت لربّ العٰلمین
)
(
هو سمّٰکم المسلمین من قبل )
...''
قرآن مجید اسلام سے آراستہ ہونے کو ابراھیم علیہ السلام اور اس کی امت کے بعد والے انبیاء سے نقل کرتا ہے ،جیسے :اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام ،سلیمان علیہ السلام ،یوسف علیہ السلام ،فرزندان یعقوب علیہ السلام ،فرعون کے ساحر،ملکئہ سبائ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری۔
خدا کے دین کا نام ''اسلام''رکھاجانا،اس کے پیش نظرکہ مصداق تسلیم تھا،پہلے توصیف کے عنوان سے تھانہ علم نہو کی اصطلاح میں علم تھا ،جیسے کہ اسمائے حسنیٰ سب کے سب صفات ہیں ،لیکن انھیں اسماء اللہ کہتے ہیں اور بعد میں استعمال کی کثرت کی وجہ سے غلبہ کے طور پر علم ہوئے ہیں پھر بھی اس میں ''الاسلام '' کے ''الف لام''کے لغوی معنی کا اشارہ ختم نہیں ہواہے ۔
''شیخیہ'' اور''کریم خانیہ''فرقے جسمانی معاد کے منکر ہیں :
دوسرااعتراض:
''شیخیہ''اور'' کریم خانیہ''کے دوفرقے دوسرے شیعوں سے اختلاف رکھنے کی وجوہات کی بنا پر،اس عنوان سے کہ ان کے اختلافات بعض نظریاتی مسائل کی تو جیہ میں ہیں نہ اصل مسائل کے اثبات ونفی میں ،آپ نے ان کے اختلاف کو فرقہ قرارنہیں دیا ہے ،جبکہ وہ معاد اورمعراج جسمانی کے منکر ہیں اور حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں بھی کچھ باتیں کرتے ہیں
جواب:کسی دین یا مذہب سے خارج ہونے کامعیار،اس دین یا مذہب کی بعض ضروریات سے انکار کرنا ہے ،اس معنی میں کہ کوئی شخص کسی ایسے مسئلہ سے انکار کرے ،جس کا اس دین یا مذہب میں ہو نا ضروری اوربدیہی ہو اوران مسائل میں بنیادی مسئلہ ہونا ضروری ہے اوراس کی خصو صیات نظری ہیں ۔جو شخص کتاب وسنت کے ظواہر سے ایک غیر جسمانی معاد کے وجود کو سمجھے ،باوجود اس کے کہ مذکورہ ظواہر عادی افہام کے مطابق اس کے جسمانی ہونے کی دلالت کرتے ہیں ،اس شخص کے لئے جسمانی معاد کا وجودضروری نہیں ہے تاکہ اس کا انکار،ضروریات کا انکار ہو اور دوسروں کی نظر میں اس کا ضروری ہونا اس سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے اوراگر اس سلسلہ میں کسی اجماع کو بھی فرض کیا جائے ،تو وہ اجماع غیر احکام فر عیہ میں ہوگا ،اس لئے وہ اس کے لئے حجّت نہیں ہے ۔
کیا عرفان اور تصّوف موردتائید ہے ؟
تیسرا اعتراض:
کتاب ''شیعہ دراسلام''میں جو آپ نے عرفان وتصوف کے بارے میں بیان فرمایا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عرفان وتصوف کو صحیح جانتے ہیں ،جہاں پرآپ اس گروہ کی پیدائش اورنشوونماکی تاریخ اور ان کی اپنی روش کی حفاظت میں جد وجہد کا ذکر کرتے ہیں ،جبکہ ائمہ اطہار علیہم السلام اور فقہا نے انھیں کافرٹھہرایا ہے اوران کے اقوال کو کسی صورت میں صحیح اور معتبرنہیں جانتے ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں :''عارف وہ ہے جو خدا کو محبت کی راہ سے پرستش کرے نہ ثواب کی امید یا عذاب کے ڈرسے''اس کے بعد فرماتے ہیں :''خدا کی پرستش کرنے والے تمام ادیان میں کچھ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو عرفان کا مسلک رکھتے ہیں حتی بت پرستی میں ،بت پرستی،یہودیت ،مسیحیت ،مجوسیت اوراسلام میں بھی عارف اورغیر عارف ہیں'' ۔کیا اس بیان کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ بت پرستی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کی محبت کی وجہ سے پرستش کرتے ہیں کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: ہم نے کتاب ''شیعہ دراسلام ''کی ابتدا میں عہد کیا تھا کہ مذہب شیعہ کا تعارف کرکے ان کی پیدائش اورنشوونما کی تاریخ اوران کے مختلف گروہوں میں تقسیم ہونے اوران کے افکار کو بیان کریں گے ۔یہاں پر ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق کسی طرفداری کے بغیرعرفان کی پیدائش اوراس کے بقاء کی تاریخ کو خلاصہ کے طورپر بیان کیا ہے اور ان کے لئے کسی عظمت کو ثابت نہیں کیاہے ۔ہم نے اجمالی طورپر ان کی عقلی ا ورنقلی دلیل (آپ کی فرمائش کے برخلاف کوئی معقول ومنقول دلیل ذکر نہیں کی ہے )کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
البتہ یہ کتاب ایک تعارفی کتاب تھی نہ فیصلہ دینے اورمذاہب کے حق وباطل کو تشخٰیص دینے والی کتاب ،اس لئے مخالفین کے نظریہ پر بحث نہ کرتے ہوئے ہم نے فقہاکے حکم کفر کو نقل نہیں کیا ہے (البتہ ان کی تاریخ پیدائش میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے)
لیکن جس بات کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ بت پرستوں میں بعض لوگ محبت کی راہ سے خدا کی پرستش کرتے ہیں ،یہ برہمن اور ارباب ریاضت ہیںجو ''خدائوں ''کی عبادت کرتے ہیں نہ خدائے واحد کی ،اور ان کے عقیدہ کے مطابق منفی ریاضتوں کے نتیجہ میں ،وہ پہلے خود کو خدائوں میں اورپھر خدائے متعال میں فانی کردیتے ہیں ۔چونکہ اس مسئلہ کی وضاحت بہت تفصیلی ہے ایک دوخطوط میں اس کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ،اس لئے بہتر ہے اس سلسلہ میں کتاب ''سراکبر''جو ''ویدا''کے ایک حصہ کا ترجمہ ہے ،خاص کر ''اوپنشو''،کتاب ''فروغ خاور''کتاب ''تحقیق ماللھند ''اورابوریحان کی کتاب''آثارالباقیہ''کی طرف رجوع کیا جائے ،تاکہ معلوم ہوجائے کہ ھندی بت پرست بودھ اورصائبی کس قسم کا عرفان رکھتے ہیں ۔
لیکن جو آپ نے فرمایا ہے :آپ کا کلام عرفان وتصوف کے صحیح ہونے اور ان کی توصیف کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔میں عرفانی کو صحیح جانتا ہوں لیکن نہ اس عرفان کو جو اہل سنت درویشوں کے سلسلہ میں رائج اور عام ہے اورشریعت کے مقا بلہ میں ایک ایسے طریقت کے قائل ہیں جو سازوسنطور،غنارقص اور وجد کا حکم کرتا ہے اور''تکلیف ساقط''ہونے کا دم بھرتے ہیں ۔چنانچہ ہم نے اپنے کلام کے ضمن میں کہا ہے کہ اسی روش نے شیعوں میں بھی سرایت کی ہے ۔جو عرفان کتاب وسنت سے حاصل ہوتا ہے ،وہ عبودیت کے اخلاص پر مبنی ایک روش ہے اور اسلام کے شرع مقدس کے قوانین سے ذرّہ برابر جدانہیں ہے ۔چنانچہ ہم نے اسے'' تفسیرالمیزان'' میں بھی بیان کیا ہے ۔
ملائکہ کے ارادہ کی کیفیت
چوتھا اعتراض:
آپ نے تفسیرالمیزان کی ساتویں جلد کے صفحہ نمبر٩پرلکھاہے :دوسرے یہ کہ،یعنی خدائے متعال کے ملائکہ ،جس چیز کا انھیں خدائے متعال امرفرماتا ہے وہ معصیت نہیں کرتے ہیں ،پس وہ ایک مستقل ارادہ والامستقل نفس نہیں رکھتے ہیں عدم معصیت اور عدم نفس مستقل کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے ،چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور معصومین علیہم السلام معصوم ہیں اورمستقل نفس اورارادہ بھی رکھتے ہیں ۔اگر مستقل ارادہ نہ رکھنے کی مراد یہ ہے کہ وہ ارادہ نہیں کرتے ہیں مگر جس چیز کا خدا ارادہ فرمائے(
وماتشائون الا ان یشاء الله
)
تو یہ معنی ملائکہ سے مخصوص نہیں ہے اورسب لوگ بلکہ خدائے متعال کے علاوہ تمام مخلوقات کی یہی حالت ہے ۔
پھر اس کے بعد والے صفحہ پر کہا ہے :''ملائکہ تدریجاًکمال حاصل کرتے ہیں اوراس طرح اپنے وجودی عنایتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں ''جب یہ نفوس ہی نہیں رکھتے تو کس چیز میں کمال حاصل کرتے ہیں ؟
جواب :کلام کے ذیل میں مستقل نفس کی وضاحت کی گئی ہے کہ استقلال سے مراد ایک وہم ہے جسے شخص اپنے اندر مشاہدہ کرتا ہے اور اس استقلال کے متفی ہونے سے ہواوہوس کی پیروی کلی طور پر متفی ہوتی ہے:
(
لایسبقو نه بالقول وهم بمره یعملون
)
اوراس کا مرجع نفس امّارہ ہے اور اعتراض میں بیان کئے گئے مطلب کے برعکس ،ملائکہ کے مانند انبیاء وائمہ علیہم السلام میں یہ نفس نہیں پایا جاتا ہے ۔
اور اس کے ذیل میں جو اعتراض کیاگیا ہے :''جب ملائکہ نفس نہیں رکھتے ہیں تو ان کا تدریجاًکمال حاصل کرنا معنی نہیں رکھتا ہے ''یہ ایک مغالطہ ہے اور اس جملہ کا مقصد کمال کی نفی ہے نہ کمال کا اثبات اور جملہ ''من شانھا'' جملہ ''ھی فی معرض...''پر عطف ہے اور''من شانھا ''کاضمیرمادئہ جسمانی کے بارے میں ہے نہ نفس کے بارے میں ۔
حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت
پانچواں اعتراض :
''تفسیر المیزان '' کی سترہویں جلد کے صفحہ نمبر١٦٧پرالیاس علیہ السلام کے بارے میں جوروایت نقل کی گئی ہے ،اسے آپ نے تضعیف کردیا ہے ۔
آپ نے کافی کی روایت کو،جسے علامہ مجلسی نے بھی ''حیات القلوب''میں نقل کیا ہے ،نقل نہیں کیا ہے ۔اس کامضمون حضرت الیاس کی وہ گفتگوہے جو انہوں نے حضرت امام باقر علیہ السلام کے ساتھ انجام دی ہے ۔ممکن ہے مذکورہ روایت اعلیٰ درجہ پر صحیح نہ ہو لیکن ایک متین روایت ہے جو ظاہر قرآن مجید سے تضاد نہیں رکھتی ہے اورضروری حقائق سے بھی ٹکرائونہیں رکھتی ہے ۔یہ روایت تفسیرمیں آپ کی ذکر کی گئی دوسری روایتوں کے مانند ہے جو الیاس علیہ السلام کی حیات کوثابت کرتی ہے۔
جواب:فی الحال میرے ذہن میں نہیں ہے کہ ہم نے کیوں مذکورہ روایت کو نقل نہیں کیا ہے ،شاید روایت کے طولانی ہونے کے سبب ہو یا غفلت ہوئی ہو اور اگر ہم نے اسے نقل بھی کیا ہوتا اس کاکوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا چنانچہ اس کی تفصیل بعد والے سوال کے جواب میں بیان ہو گی ،اس کے علاوہ مثا ل کا احتمال بھی ہے ۔
فرعون اورمجرمین
چھٹااعتراض
آپ نے ''تفسیر المیزان''کی سترھویں جلد کے صفحہ نمبر ١٩٤پر لکھا ہے :''بعض لوگوں نے کہا ہے کہ فرعون کو ''ذوالا وتاد''کہتے تھے اس لئے کہ وہ مجرموں کو میخوں سے زمین میں ٹھوک کر عذاب کرتا تھا...''
اس کے بعد آپ نے لکھا ہے :''ان باتوں کی کوئی قابل اعتماددلیل نہیں ہے ''جبکہ مرحوم فیض نے اپنی تفسیر''صافی''میں کتاب''علل''سے''اوتاد''کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے ۔
جواب:مذکورہ روایت مستدرکات میں سے ہے ،کسی صورت میں تفسیر میں آنی چاہئے ،لیکن قابل غورنکتہ یہ ہے کہ اصول میں ثابت ہو چکا ہے کہ روایات آحاد اگر چہ بہتر صورت میں صحیح بھی ہوں احکام کے علاوہ،موضوعات،حجت نہیں ہیں مگر یہ کی قطعی قرینہ کے ہمراہ ہوں ،مثلاًوہ حدیث جو بلاواسطہ خود امام علیہ السلام سے سنی جائے ،اس لحاظ سے ایسی حدیثوں سے قرآن مجید کی تفسیر نہیں کی جاسکتی ہے ۔اس کے علاوہ جبکہ قرآن مجید کے سلسلہ میں کثیر روایتیں موجود ہیں ،اس قسم کی روایتوں سے قرآن مجید کی تفسیر کرنا بعید ہے ۔
اس بناء پر ،غیر قطعی الصدور روایتوں کا تفسیر میں نقل کرنا قرآن مجید کے سلسلہ میں صرف روایت بیان کرنا ہے نہ قرآن مجید کی تفسیر اور معنی حاصل کرنے کا مقصود ہے ۔
قرآن مجید میں اصطلاح''حسنہ'' کے معنی
ساتواںاعتراض:
کہ یہ آیہ شریفہ:(
للذین احسنوا ف هذه الدنیا حسنة
)
ایک تعبیر کے ساتھ سورہ نحل اورسورہ زمر میں واقع ہوئی ہے جبکہ تفسیر میں ''حسنہ''کو سورئہ نحل میں اخروی ''حسنہ''اورسورہ زمر میں دنیوی اوراخروی دونوں کہا ہے اس کا سبب کیا ہے ؟
جواب:لفظی اتحاد کے باوجود ،آیہ شریفہ دوجگہوں پر سیاق میں اختلاف رکھتی ہے ۔سورہ نحل میں خدائے متعال کی طرف سے ایک خطاب ہے اور اس کے پیچھے اجر اخروی کی صفت ذکر ہوئی ہے اور سورہ زمر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے خطاب ہے اور اس کے پیچھے اجر صابرین کی صفت اور قرآن مجید کی زبانی صفت اخروی اور دنیوی دونوں پر اطلاق ہوئی ہے ۔
ربّیکی تعبیر میں اختلاف کی وجہ
آٹھواں اعتراض :
''المیزان ''کی سترھویں جلد کے صفحہ نمبر ٢٢٠پر آیہ شریفہ(
واذکر عبدنا ایوب اذنادی ربه
)
کے ذیل میں آپ نے لکھا ہے ''ایوب علیہ السلام کا خدا سے کلمئہ ربّی''سے پکارنا یہ بیان کرتا ہے کہ اس کی ایک حاجت تھی جبکہ آیت میں کلمہ ''ربہ''ہے نہ''ربیّ''۔
جواب :کلمہ (ربی)آیت کے مضمون سے اخذ کیا گیا ہے ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا قصّہ اوراختلافی روایتیں
نواںاعتراض:
''تفسیرالمیزان''کی سترھویں جلد کے صفحہ نمبر ٢٢٤پر حضرت ایوب علیہ السلام کی داستان میں اسرائیلی روایتیں نقل کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟ترجمہ اورہمارے بندہ ایوپ کوپارکروجب انھوں نے اپنے پروردگار کو پکارا
آپ نے روایتوں کو نقل کرنے کے بعد دوسری روایتوں سے ان کو تضعیف کردیا ہے،باوجود اس کے کہ وہ سب کتا ب ایوب کے مطابق ''عہد عتیق''میں ہیں اور روایتوں کے ٹکرائو کی صورت میں ان کی عامّہ کی موافقت توہین کا سبب ہے ،یہودیوں کی موافقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔
جواب:چنانچہ ہم نے قبلاً بیان کیا کہ اس قسم کی احادیث کو نقل کرنے کا مقصد احترام ہے نہ تفسیر۔اوریہ جو آپ نے فرمایا ہے :''جب دومتضاد خبروں میں سے ایک عامّہ کے موافق ہو توتوہین ہے اس روایت کی بات ہی نہیں جو یہود کے موافق ہو''یہ صحیح نہیں ہے ،کیونکہ متضاد روایتوں میں حکم کا موضوع ،وہ روایتیں ہیں جو شرعی احکام میں بیان ہوئی ہیں نہ وہ روایتیں جو احکام سے خارج ہوں وہ اصلاًحجت نہیں رکھتی ہیں اور عامّہ کی موافقت عامّہ کے فتویٰ کے مطابق ہے روایت اوراسرائیلیات کے مطابق جو بھی ہوں احکام سے خارج ہیں اور وہ فتویٰ نہیں ہیں ۔
( قل هونباء عظیم )
کے بارے میں ایک بحث
دسواںاعتراض:
آپ نے تفسیر''المیزان''کی سترھویں جلد کے صفحہ نمبر٢٣٧میں لکھا ہے :''کہاگیا ہے:'' ''قل ھو نباء عظیم''کی ضمیر قیامت سے مربوط ہے اوریہ بعید ترین معنی کا قول ہے جوکہاگیا ہے اس بعید کی دلیل کیا ہے؟جبکہ صرف دوآیتوں کے فاصلہ پر اس سے پہلے پندرہ آیتیں قیامت کے دن اورلوگوں کے حساب کے بارے میں واقع ہوئی ہیں اورآپ نے خودسورہ''نبائ''میں ''نباء عظیم ''کو قیامت کے دن سے تعبیر کیا ہے ۔
جواب:ان ہی دو آیتوں :(
قل انّما انا منذر
)
نے گزشتہ پندرہ آیتوں کو نئے سیاق میں تبدیل کیا ہے اوران آیات کے ضمن میںفرماتاہے:(
قل ما اسئلکم علیه من اجر وماانامن المتکلّفین٭ان هو الاذکرللعٰلمین٭ولتعلمنّ نبه بعدحین
)
سے مراد قرآن مجید ہے ،البتہ کوئی حرج نہیں ہے کہ قرآن بھی قیامت کے مانند ''نباء عظیم ''ہو ۔
والسلام علیکم
محمد حسین طباطبائی
٥اا٣٩٧ا
__________________