اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان 0%

اسلام اور آج کا انسان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف: علامہ طبا طبائی (صاحب تفسیر المیزان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 29223
ڈاؤنلوڈ: 3393

تبصرے:

اسلام اور آج کا انسان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29223 / ڈاؤنلوڈ: 3393
سائز سائز سائز
اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف:
اردو

اسلام اورہر زمانہ کی حقیقی ضرورتیں

بحث وتحقیق کے بارے میںپیش آنے والے اور نفی واثبات قرار پانے والے علمی مسائل میں سے ہر مسئلہ کی اہمیت اور اس کی حقیقی قدر وقیمت ایک حقیقت کی اہمیت اورقدروقیمت کے تابع ہے جو ان میں پائی جاتی ہے اور یہ ایسے آثار و نتائج کے تابع ہوتے ہیں جو عمل و نفاذ کے مقام پر ان کی تطبیق اور زندگی کے نشیب و فراز میں ان سے استفادہ کرتے وقت وجود میں آتے ہیں ۔

انسان کو کھانا پینا سکھانے والا ایک انتہائی ابتدائی تصور،قدر وقیمت کے لحاظ سے انسان کی زندگی کے برابر ہے ۔یعنی اس کی قدر وقیمت وہی زندگی کی قدر وقیمت ہے جو انسان کی نظر میں ایک گراں بہا سرمایہ ہے ،اور ایک تصورجو ظاہرًا انتہائی معمو لی اور مختصر ہے ـجوانسان کے دماغ میں اجتماعی زندگی کی ضرورت کو ایجاد کرتا ہے ـاس کی قیمت وہی ہے جو انسان کے حیرت انگیز نظام کی قیمت ہے جو ہر لمحہ انسان کے لاکھوں عمل وحرکات سکنات کو ایک دوسرے سے ربط دے کرہر روز کروڑوںمطلوب او رنامطلوب اثرات کو پیدا کر کے گونا گوںبرُے اور اچھے نتائج کو وجود میں لاتا ہے ۔

البتہ اس بات سے ہر گز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایک مقدس دین ـجیسے دین اسلام ـکا انسان کی ضرورتوں کو ہر زمانہ میں پورا کرنا،اہمیت کے لحاظ سے اول درجہ رکھتا ہے اور یہ انسان کی زندگی کی اہمیت کے برابر ہے کہ ہم اس سے قیمتی تر سرمایہ کا تصور نہیں کر سکتے ہیں۔

البتہ دین اسلام کے بنیادی اصو لوں سے کم ازکم آگاہی اور دلچسپی رکھنے والا ہر مسلمان اس مسئلہ کو اسلام سے یاد کئے گئے مسا ئل کی فہرست میں درج کرتا ہے ۔

حقیقت میں یہ فکری مادّہ بھی اسلام کے وجود میں لائے گئے دوسرے دینی فکری مادّوں کے مانند صدیوں سے ہم ،اسلام کے پیروکاروں کے ذہنوں میں موجود ہے اور وراثت کے طور پر ایک فکر سے دوسری فکرمیں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اپنی خاموش زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور ہمیشہ دیگر مذہبی مقدسات کے مانند بحث و تمحیص سے دامن بچاتے ہوئے انسانوں کی سرشت میں منتقل ہوا ہے اور اس سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔

ہم مشرقی ہیں اور جہاں تک ہمیں اپنے اسلاف اور آباواجداد کی تاریخ کے بارے میں یاد ہے،شایدہزاروں سال گزر چکے ہوں گے،گزشتہ اجتماعی ماحول میں ـہم پر حکومت کی گئی ـ ہر گز ہمیں فکری ،خاص کر سماجی مسائل سے مربوط علمی مسائل میں آزادی نہیں دی گئی اور صدراسلام میں ایک مختصرمدت میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ جو ایک کرن نمودار ہوئی تھی اور طلوع فجر کے مانند ایک نورانی دن کی نوید دیتی تھی چند خود پرستوں اور منافع خوروں کے تاریک حوادث طبیعی اورمصنوعی طوفان کے نتیجہ میں دوبارہ تاریکی کے پردہ میں چلی گئی اور اس کے بعد ہم رہے اور اسیری و غلامی ،ہم رہے اورتازیانے ،تلواریں،پھانسی کے پھندے ،زندانوں کی کالی کو ٹھریاں ،اذیت خانے اور مرگ آورماحول، ہم رہے اورقدیمی فریضہ''ہاںہاں ''''لبیک ''و''سعدیک''!

جو بہت چالاک تھا وہ اسی حدتک اپنے مذہبی مقدسات کے مادّوں کو محفوظ کر سکتا تھا اور اتفاق سے وقت کی حکومتیں اور معاشرہ کا نظم و انتظام چلانے والے بھی اس رویّہ کے بارے میں آزاد بحث کرنے میں رکاوٹ ڈالنے میں زیادہ بے غرض نہیں تھے ۔وہ یہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنے کام میں مشغول رہیںاوردوسرے امور میںدخل نہ دیں،یعنی وہ صرف اپنے کام میںلگے رہیں،حکومتی اورعمومی امورمیں مداخلت نہ کریں کیونکہ ان کی نظر میںیہ امورصرف حکومتوںاورمعاشرہ کا نظم وانتظام چلانے والوں کاحق تھا !

وہ لوگوں کے اغلب دینی امور اورنسبتًا سادہ دینی امور کے پابند ہونے میں اپنے لئے کسی قسم کا نقصان نہیں دیکھتے تھے اس لئے اس حالت سے نہیں ڈرتے تھے،وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ لوگ تجسّس اور تنقیدپر نہ اتر آئیں اور وہ خود لوگوں کے مفکّربن کے رہیں ۔کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سے درک کیا تھا کہ زندگی میں طاقتور ترین وسائل افراد کے ارادہ کی طاقت ہے اور افراد کا ارادہ قیدوشرط کے بغیران کے مفکرانہ مغز کے تابع رہے اورمفکروںکے مغز پرتسلّط جماکر ان کے ارادوں پرتسلط جماسکیں ،اس لئے وہ لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے تھے تاکہ ہماری اصطلاح میں خود لوگوں کے مفکر بن کے رہیں۔

یہ حقائق کا ایک ایسا سلسلہ ہے جیسے اپنے اسلاف کی تاریخ کامطالعہ کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہے گا ۔

حال ہی میں یورپ کی آزادی مغرب کوسیراب کرنے کے بعدہم مشرق زمین کے باسیوں کے ہاں آئی ہے ،اس نے ابتداء میں ایک محترم مہمان کی حیثیت سے اور اس کے بعد ایک طاقتور گھر کے مالک کی حیثیت سے ہمارے براعظم میں قدم جمائے ہے ۔اگر چہ اس آزادی نے افکار کے گھٹن کا بوریا بسترہ گول کر دیا اور آزادی کا نعرہ بلند کیا،یہ ایک بہترین وسیلہ اور مناسب ترین فرصت تھی جو ہمیں اپنی کھوئی ہوئی نعمت کودوبارہ حاصل کرکے ایک نئی زندگی کی داغ بیل ڈال کر علم وعمل کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ،لیکن افسوس یورپ کی یہی آزادی، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلائی ،ان ہی ظالموں کی جانشین بن کر ہمارے دل ودماغ پر سوار ہوگئی!

ہم نہ سمجھ سکے کہ کیا ہوا؟جب ہم ہوش میں آئے تو دیکھا کہ وہ دن گزر گئے تھے جب ہم اپنی حیثیت کے مالک تھے اب خدا اور گزشتہ آسمانی طاقتوں کی باتوں پر توجہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں صرف اسی طرح عمل کرنا چاہئے جو کچھ یورپی انجام دیتے ہیں اور جس راہ پروہ چلتے ہیں ،اسی راہ پر ہمیں بھی چلنا چاہئے !

ایک ہزار سال سے سرزمین ایران ''بو علی سینا''کو اپنی آغوش میں لئے ہوئی تھی اور اس کی فلسفی اورطبّی تالیفات ہماری لائبریریوں میں موجود تھیں اور اس کے علمی نظریات ورد زبان تھے اور کوئی خاص خبر نہیں تھی ۔

سات سو سال سے ''خواجہ نصیرالدین طوسی ''کی ریاضی کی کتابیں اور ان کے ثقافتی خدمات ہمارا نصب العین تھا اور کہیں اس کی خبر تک نہیں تھی ،لیکن ہم نے یورپیوں کے ان کے دانشوروں کے سلسلے میں یاد گار منانے کی تقلید کرتے ہوئے ''بوعلی سینا''کے لئے ہزار سالہ یادگار اور'' خواجہ نصیرالدین طوسی ''کے لئے سات سو سالہ یاد گاری تقریبیں منعقدکیں۔

تین صدیوں سے زیادہ عرصہ سے ''صدرالمتالہین ''کافلسفی نظریہ ایران میں رائج تھا اور انھیںکے فلسفی نظریہ سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔ایک طرف سے برسوں پہلے تہران یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی ہے اور اس میں قابل توجہ صورت میں فلسفہ پڑھایا جاتا ہے ،لیکن جب چند برس پہلے ایک مستشرق نے اس یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں ''ملاصدر''کی تمجید وتعظیم کی اور اس کے فلسفی نظریہ کی تعریفیں کیں تو یونیورسٹی میں اس کی شخصیت اور اس کے فلسفی نظریہ کے بارے میں ایک بے مثال ہلچل مچ گئی۔

یہ اوران جیسے دوسرے واقعات ایسے نمونے ہیں جو عالمی سطح پر ہماری اجتماعی حیثیت اور ہماری فکری شخصیت کی ہویت کوواضح کرکے بتاتے ہیں کہ ہماری فکری شخصیت طفیلی ہے اور ہمارے فکری سرمایہ میں سے جو کچھ چوروں سے بچا ہے وہ جوتشیوں کے حصہ میں آیا ہے۔

ہم میں سے اکثرلو گوں کے فہم وادراک کا یہی حال ہے ۔اور لوگوں کی جو اقلیت کسی حدتک اپنی فکری آزادی کو محفوظ کرسکی ہے اور اپنے دماغ کے سرمایہ کو مکمل طور پر اغیار کے ہاتھوں لوٹنے سے محفوظ رکھا ہے وہ بھی تعدّد شخصیت کے شکار ہوئے ہیں ۔یہ لوگ ایک طرف سے مغربی افکار کے دلدادہ اور دوسری طرف سے اپنے مشرقی اورموروثی افکار کے غلام بن گئے ہیں اور کھلم کھلا کوشش کر رہے ہیں کہ ان دو متضادشخصیتوں کوآپس میں ملادیں ۔

ہمارا ایک دانشور مؤلف ''اسلامی ڈیمو کریسی ''کے عنوان سے اسلام کی روش کو ڈیمو کریسی کی روش سے تطبیق کرتا ہے تودوسرا''اسلامی کمیونزم ''کے عنوان سے کمیونزم کی روش اور طبقاتی اختلافات کو دور کرنے کے طریقہ کار کودین سے نکال کرپیش کرتا ہے۔

ایک عجیب داستان ہے !اگر حقیقت میں اسلام کی فطانت اور حقیقت پسندی صرف اسی میں ہے کہ واضح اور روشن ترین ظاہرداری کے ساتھ ہمارے پاس آئی ہوئی ڈیمو کریسی اورکمیونزم کی زندہ روح اس میں ہونی چاہئے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم چودہ سو سال پرانے چند افکار کو انتہائی رنج ومحنت کے ساتھ ان سے تطبیق کرکے اپنے سینہ پر لٹکادیں !

اگر اسلام ایک مستقل حقیقت رکھتا ہے اور یہ حقیقت ایک جدا،زندہ اور گراں بہا حقیقت ہے توکیا ضرورت ہے ہم اس کے خداداد حسن کو بناوٹی سجاوٹ سے پردہ پوشی کریں اورمصنوعی صورت میں اسے خریداروں کے سامنے پیش کریں !

حالیہ چند برسوں کے دوراں ،یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی دانشوروں نے ادیان ومذاہب کے بارے میں ایک خاص جوش و جذبہ کے ساتھ بحث وتحقیق کرنی شروع کی ہے اور اپنی تحقیق کے نتائج کو ہر روز منتشر کرتے ہیں اور بے شک ہم بھی ،مذکورہ تقلید و تبعیت کے پیش نظر،کم وبیش اسی راہ پر چلتے ہوئے دین مقدس اسلام کے بارے میں چند سوالات کو اپنی گفتگو کا موضوع قراردیتے ہیں :

کیادین ومذہب سب حق ہے ؟کیا آسمانی ادیان اجتماعی اصطلا حات کی ایک کڑی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟کیادین روح کی پاکی اور اخلاقی اصلاح کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد رکھتا ہے ؟کیا مذہبی احکام اسی شکل وصورت میں ہمیشہ باقی رہیں گے؟کیا دین کا عملی احکام کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی ہے؟کیا اسلام ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے ؟کیا اورکیا...

البتہ جب ایک محقق دانشورایک مسئلہ سے نمٹتا ہے تو وہ سب سے پہلے مسئلہ کو مسلّم علمی معیاروں سے تطبیق دے کر اس کی تفسیر کرتا ہے پھر اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے ۔

مغربی دانشور ،دین کو ایک اجتماعی مظہر جانتے ہیں ،جو خود معاشرہ کے مانند بعض فطری عوامل کا ایک معلول ہے ۔

مغربی دانشوروں کی نظر میں تمام ادیان من جملہ اسلام ـاگر دین کے موضوع کے بارے میں خوش فہم ہوں تو ـچند غیر معمولی ذہانت رکھنے والے افراد کے آثارہیں ،جنہوں نے اپنے نفس کی پاکی، انتہائی ذہانت اور ناقابل شکست ارادہ کے نتیجہ میں اپنے معاشرہ کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لئے کچھ قوانین وضع کرکے لوگوں کی زندگی کی سعادت کی راہ پرراہنمائی کرتے تھے۔ یہ قوانین انسانی معا شروں کے تدریجی ارتقائ کے ساتھ ساتھ تغیر پیدا کر کے ارتقاء کی آخری منزل تک پہنچتے ہیں ۔

حس،تجربہ اور یہی تاریخ ثابت کرتی ہے کی انسانی معاشرہ تدریجی طور پر ارتقاء کی طرف بڑھتا ہے اور عالم بشریت تہذیب و تمدن کے میدان میں ہر روز ایک نیا قدم اٹھاتی ہے اور نفسیاتی ،قانونی اور اجتماعی ،حتی فلسفی ،خاص کر''ڈیالٹیک میٹریالزم ''فلسفہ کے نتائج کے پیش نظر چونکہ معاشرے ایک ثابت حالت میں نہیں رہتے ہیں اس لئے معاشروں میں قابل نفاذ قوانین بھی ایک حالت میں باقی نہیں رہ سکتے۔

جنگلی میوے کھاکر غاروں میں زندگی بسر کرنے والے ابتدائی انسانوں کی سعاد ت مند زندگی کی ضرورتوں کوپورا کرنے والے قوانین،ہرگز آج کی تکلفاتی زندگی کے لئے کافی نہیں ہوسکتے۔

ڈنڈوںاور کلہاڑیوںسے جنگ کرنے والے زمانہ سے مر بوط قوانین،آج کل کے ایٹمی دور کے لئے کسی صورت میں فائدہ مند نہیںہو سکتے۔

گھوڑوںاورگدھوںپر سفر کرنے والے زمانے سے مربوط قوانین،آج کل کے جٹ ہوائی جہاز اور آب دوز کشتیوں سے سفر کرنے کے زمانے کے کس دردکا علاج کر سکتے ہیں ؟

مختصر یہ کی آج کی دنیا نہ اپنے اسلاف کے قوانین کو قبول کرتی ہے اور نہ اس سے ان کو قبول کر نے کی تو قع کی جاسکتی ہے ۔ نتیجہ کے طور پر انسانی معاشروں میں نافذ ہونے والے قوا نین مسلسل قابل تغیر ہیں اور عالم بشریت کے گونا گوں تحّولات کے مطابق مکمل ہوتے ہیں اور اعمال کے قوانین میں تبدیلیوں کے پیش نظر اخلاق بھی قابل تغیر ہے ،کیونکہ اخلاق وہی ثابت نفسانی صورتیں اور ملکہ ہے جو عمل کے تکرار سے وجود میں آتا ہے ۔

دوہزار یا تین ہزار سال قبل خاموش اور سادہ زندگی کو آج کی باریک اور پیچیدہ زندگی کی سیاست قبول نہیں کرتی ،آج کے معاشرہ کی خواتین دو ہزار سال پرانی خواتین کی عفت پر عمل نہیں کر سکتی ہیں !

عصر حاضر کے مزدور،کسان اور دوسرے محنت کش طبقے قدیم زمانے کے مظلوم طبقات جیسا صبرو تحمل نہیں رکھ سکتے ہیں ۔فضا کو تسخیر کرنے والے زمانہ سے مربوط انقلابی مغز والے انسان کو سورج گہن ،چاندگہن اور سیاہ طوفان سے نہیں ڈرایاجا سکتا اور انھیں توکّل اورقضاپر تسلیم ورضا سے قانع نہیں کیا جا سکتا ۔

مختصر یہ کہ ہر زمانہ کا انسانی معاشرہ اسی زمانہ کے مطابق و مناسب قوانین اور اخلاق چاہتاہے۔

دوسری جانب سے اسلام کی دعوت نے ایک روش اور قوانین کے ایک سلسلہ کو مد نظر رکھا ہے ،جو انسانی معاشرہ کی سعادت کی بہترین صورت میں ضمانت دیتے ہوئے انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور ''اسلام '' اسی واضح ،روشن اورمقدس قوانین کا نام ہے ۔جیسا کہ ''اسلامی تحقیقات'' کے عنوان سے ہمارے پہلے مجموعہ میں ''قرآن کی نظر میں دین ''کے موضوع میں مفصل بحث ہوئی ہے ۔

بدیہی ہے کہ اس قسم کی روش اور قوانین ہر زمانہ میں مختلف مظاہر رکھتے ہیں ان میں خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روش اور قوانین بھی ہیں جنھیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے زمانہ میں نافذ فرماتے تھے ۔دوسرے زمانوں میں بھی اسلام کے مظاہر بہترین اور مقدس ترین روش اور قوانین ہوں گے جواس زمانے کے انسانی معاشرہ کی ضرورتوںکو پورا کرسکیں ۔

اس بیان سے واضح ہوا کہ اس بحث میں مسلّم علمی معیاروں پر تکیہ کرنے کے ضمن میں مغربی دانشورکا جواب مثبت ہوگا ،لیکن مذکورہ تفسیر کے ضمن میں اس کی نظر میں اسلام ایک ابدی دین الہی ہے جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کے معاشرہ کی سعادت کوضمانت بخشنے کے لئے بعض قوانین کی صورت میں رونما ہوتا ہے ۔

لیکن دیکھنا چاہئے کہ کیا اسلام کی آسمانی کتاب اور اس مقدس دین کے مقاصد کا بہترین ترجمان قرآن مجید بھی ،نبوت کو مذ کورہ معنی میں اور آسمانی دین کو اسی ترتیب سے ـجیسے اجتماعی،نفسیاتی ،فلسفی اور مادی بنیادوں پر تکیہ کر کے تعبیر کی گئی ہے ـتفسیر کرتا ہے کہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے مطابق اس سے مخصوص کچھ جدا قوانین کو قبول کرتا ہے اور اگر اس کے بر عکس کچھ ثابت اور نا قابل تغیر عقائد اخلاق اور قوانین کو وضع کرکے انسانی معاشرہ کو ان پر عمل کر نے کے لئے مکلف کرتا ہے ،تو انھیں کیسے مختلف زمانوں کے لوگوں کی ضرورتوں سے تطبیق کیا جاسکتا ہے؟

کیا قرآن مجید یہ چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ثابت حالت میں رہے اور تہذیب وتمدن پر ترقی کے راستے مکمل طور پر بندرہیں اور انسان کی روز مرہ فعالیت مکمل طور پر سر بستہ رہے ؟یہ رواں فطرت اور عالم بشریت کے فطری نظام ،سے مقابلہ کے مقام پر ،جو اس کی حکومت کے قلمرو سے خارج نہیں ہے ،کیسے نکلا ہے؟

یہ امر مسلّم ہے کہ قرآن مجید اپنے بنیادی بیان سے آسمانی دین کے موضوع اور عالم غیب سے سر چشمہ حاصل کر نے ،نظام خلقت اور اس مشہوردنیا سے رابطہ دینی احکام کے دائمی اور ثابت ہونے،انسانی اخلاق،ایک فرد یا انسانی معاشرہ کی خوشبختی وبدبختی کے بارے میں اس طرح وضاحت کرتا ہے جو ایک مغربی دانشور کی مذکورہ وضاحت سے مختلف ہے ،ان مطالب کو قرآن مجید کی نظر سے دوسری صورت میں دیکھا جاتا ہے جبکہ بصری وسائل ،مادی بحثوں کو دکھا تے ہیں ۔

قرآن مجید دین اسلام کے طریقہ کار اورقوانین کو مسائل و احکام کا ایک ایسا سلسلہ جانتا ہے جو نظام خلقت،خاص کر انسان کی خلقت کواسی اپنی متحول فطرت سےـجو عالم فطرت کا جز تھا اور لمحہ بہ لمحہ اپنے وجود میں تغیر پیدا کرتا ہے ـاپنی طرف راہنمائی کرتاہے ۔

دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ،اسلام کو قوانین کا ایک ایسا سلسلہ جانتا ہے کہ نظام خلقت کا تقا ضا اس کے مطابق ہے اور اپنی بنیاد کی طرح نا قا بل تغیر ہے اور کسی کی نفسانی خواہشات کے تابع نہیں ہے ، اسلام کے یہ قوانین ،حق کو مجسّم جاننے والے قوانین ،جیسے استبدادی اور مطلق العنان ممالک کے قواعد وضوابط ، جو ایک ڈیکٹیڑ اور حاکم کی مرضی یا اکثریت کے مرضی کے مطابق اشتراکی ممالک کے قوانین کی طرح متغیر نہیں ہوئے ہیں ،اور صرف ان کے وضع اور تشریع کی زمام نظام خلقت کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے الفاظ میں ،خالق کائنات کے ارادہ کے تابع ہے ۔ہم اس مطلب کی تفصیلی وضاحت اس بحث کے دوسرے حصہ میں پیش کریں گے ۔

اسلام،ہر زمانہ کی ضرورتوں کوکیسے پورا کرسکتا ہے ؟

اجتماعی بحثوں کے دوران اس نکتہ کا کافی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ انسان اپنے اردگرد مو جودہ حیاتی ضرورتوں کے پیش نظر ان کو تنہا پورا نہیں کر سکا ہے اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کو یکہ وتنہاپورا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا ،اس لئے اس نے مجبو رًا اجتماعی اور معا شرتی زندگی کا انتخاب کیا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک شہر یا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اسی طرح ہم نے قانو نی بحثوں میں بھی بہت سنا ہے کہ معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کی ضرورتوں کو حقیقت میں اسی وقت پورا کرسکتا ہے جب ان کی ضرورتوں کے متناسب کچھ قوانین وجود میں آکر حکمرانی کریں تاکہ ان کے سایہ میں معاشرہ کا ہر فرد اپنے حقوق کو حاصل کر سکے اور زندگی کی سہو لتوں اور امکانات سے استفادہ کرسکے اورافراد کی اجتماعی کار کردگی کے نتائج سے معاشرہ کے منعقدہونے اور قوانین کی پیدائش کے سبب اپنا حصہ حاصل کرے۔

چنانچہ ان ہی دو نکتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے کہ،اجتماعی قوانین کے اصلی عامل وہی انسان کی حیاتی ضرورتیں ہیں کہ انسان ان کو پورا کئے بغیرایک لمحہ کے لئے زندگی گزانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔معاشرہ کی تشکیل اور قانون کی پیدائش اور اس کے بر وقت نفاذکا براہ راست نتیجہ انہی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے ۔بدیہی ہے کہ جو معاشرہ اجتماعی طور پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اقدام نہ کرے ،یعنی اس معاشرہ میں انفرادی کام دوسرے افراد سے کوئی ربط نہ رکھتے ہوں ،تو اسے معاشرہ کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔

اسی طرح جن قوانین کا وجود میں آنا یا ان کا نفاذ ،لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کی خوشبختی اور سعادت کا سبب بننے میں کوئی اثر نہ رکھتے ہوں ،وہ حقیقی قوانین یعنی لوگوں کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والے قوانین نہیں کہلاتے ۔ایسے قوانین وضوابط کا وجود ضروری ہے جو کم وبیش ،مکمل طور پر یاناقص صورت میں معاشرہ کی ضرورتوں کو پوراکر سکیں اور لوگوں کے لئے قابل قبول ہوں۔ان قوانین کی ہر انسانی معاشرہ میں حتی وحشی اور پسماندہ معاشروں میں بھی ضرورت ہوتی ہے ۔منتہی پسماندہ معاشروںکے قوانین اورقومی ضوابط عادات اور رسوم کی صورت میں غیر منظم تصادم کے نتیجہ میں تدریجًا وجود میں آتے ہیں ،یا ایک آدمی کے بیہودہ ارادوں کے ذریعہ یا چند طاقتور لوگوں کی طرف سے لوگوں پر ٹھونسے جاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر اجتماعی زندگی کا اغلب حصہ تمام یا اکثرلو گوں کے لئے ایک واضح اور قابل قبول اصول پر مستحکم ہوتا ہے ۔اس وقت دنیا کے گوشہ وکنار میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو قومی آداب ورسوم پر زندگی بسر کرتے ہیں بدون اس کے کہ ان کی اجتماعی زندگی کاشیرازہ بکھرجائے۔

ترقی یافتہ معاشرے میں ،اگر معاشرہ دینی ہو تو آسمانی شریعت حکومت کرتی ہے اور اگر معاشرہ غیر دینی ہو تو ان قوانین پر عمل در آمد ہوتا ہے جنھیں معاشرہ کے اکثر لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ وجود میں لاتے ہیں ۔بہر حال ایک ایسے معاشرہ کا سراغ نہیں مل سکتا ہے جس کے افراد کسی نہ کسی قسم کے قوانین وضوابط کے پا بند نہ ہوں اور ایسا معاشرہ پیدا کرنا مشکل ہے ۔

اجتماعی اورانسانی ضرورتوں کی تشخیص کا وسیلہ

چنا نچہ معلوم ہوا کہ قوانین اور ضوابط کا اصلی عامل زندگی کی ضرورتیں ہیں۔ لیکن دیکھنا چاہئے ان ضرورتوں ـجو در حقیقت وہی اجتماعی اور انسانی ضرورتیں ہیں ـکو کس طرح تشخیص دی جائے ۔

البتہ یہ ضرورتیں انسان کے لئے بالواسطہ یابلاواسطہ قابل تشخیص ہونی چاہئیں اگر چہ اجمالی اور کلّی طور پر ضمنًا یہ سوال پید ہوتا ہے کی کیا انسان اپنی زندگی اور اجتماع کی تکا لیف کی تشخیص میں بھی کبھی خطا سے دوچار ہوتا ہے یا جس چیز کو بھی تشخیص دیدے اسی میں اس کی سعادت وخوشبختی ہوتی ہے اور اسے چون چرا کے بغیر قبول اور نافذ کرنا چاہئے ؟یعنی انسان کی وہی چاہت ،اس کے حقیقی ہو نے کی صورت میں ،اسے ضروری طور پر قبول اور نافذ کرنے کی لیبل لگا دے گی ۔

لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا کی اصطلاح میں دنیا کے اکثر لوگ انسان کی چاہت کو قانون کی تشخیص دینے والی چیز بتاتے ہیں ،لیکن اس کے پیش نظرکہ ایک ملت کے تمام افراد کی چاہت یا باکل یکساں نہیں ہوتی یا اگر کہیں توافق پیدا ہو جائے تو وہ بہت کم اور اختلافی موارد کے مقا بلہ میں نا چیز ہوتا ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ،لہذا مجبورًا لوگوں کی اکثریت(نصف بعلاوہ ایک) کو قابل اعتبار جان کر اقلیت (نصف منہای ایک)کو مسترد کرکے اقلیت کی آزادی کو پائمال کیا جاتا ہے ۔

البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے ارادہ اور چاہت کا اس کی زندگی کے حالات سے براہ راست ربط ہوتا ہے ۔ایک امیرآدمی ،جو اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے ،اپنے دماغ میں ہزاروں آرزوئیں رکھتا ہے کہ ایک مفلس و حاجتمند کے ذہن میں یہ آرزوئیں پیدا بھی نہیں ہو سکتی ہیں ۔یا بھوک کی وجہ سے جس شخص نے اپنا تاب وتحمل کھو دیا ہو ،وہ ہر لذیذ اور غیر لذیذ کھانے کو کھا لیتا ہے ،اگر چہ وہ کسی اور کا مال بھی ہو ۔جب کہ امیر آدمی ناز ونخروں سے صرف لذٰیذ کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھا تا ہے ۔انسان آرام و آسائش کی حالت میں اپنے ذہن میںبہت سے خیا لات کو پاتا ہے جن کا سختی اور مشکلات میں تصور تک نہیں کرتا !

اس لحاظ سے اجتماعی زندگی کی ترقی کے پیش نظر انسان کی ضرورتیں تدریجاًبدل جاتی ہیں اور ان کی جگہ پر دوسری ضرورتیں جانشین ہو تی ہیں اور انسان قوانین کے ایک سلسلہ کے اعتبار اور نفاذ سے بے نیاز ہو کر نئے اور دوسرے قوانین وضع اورنا فذ کرنے یا پرانے قوانین میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوتا ہے ۔اس لئے زندہ قو موں میں پرانے قوانین مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے قوانین لیتے ہیں ۔یہ بات واضح ہوئی کہ اس کی حقیقی علت یہ ہے کہ قوانین کو وجود میں لانے والااوراس کی حمایت کرنے والا سبب ملت کے افراد کی اکثریت کی چاہت ہے اور یہی اکثریت کی مرضی قوم کے قواعدو ضوابط کو قانونی شکل دے کر ان پر حقیقت کی مہر لگا دیتی ہے ، حتی اگر ان کے معاشرہ کی حقیقی مصلحت ان قوانین میں نہ ہو،کیونکہ مثال کے طور پر فرانس کا ایک شخص فرانسیسی معاشرہ میں اس معاشرہ کا رکن اورجز اور اکثریت کے موافق ہونے کے ناطے محترم ہے اور مثال کے طور پر فرانس کا قانون جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک فرانسیسی فرد کو تحفظ بخشے اور وہ بھی بیسویں صدی میں نہ یہ کہ ایک برطانوی فرد کی یا ایک فرانسیسی فرد کی دسویں صدی میں (قابل غوربات ہے!) اس سلسلہ میں بیشترغور وخوض کر نے کی ضرورت ہے کہ کیا مذکورہ عامل انسان کی خواہشات میں مؤثر ہے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میں ہر لحاظ سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔؟

اور یا پوری تاریخ بشریت میں انسانی معاشروں کے درمیان کوئی مشترک پہلو باقی نہیں رہتا ہے ؟

یا اصل انسانیت ـجبکہ فطر تًازندگی کی چند ضرورتیں اس سے مربوط ہیں (چنانچہ کچھ دوسری ضرورتیں مختلف علا قوں اور زندگی کے مراکز کے حالات اور ماحول کے مختلف ہونے سے مر بوط ہوتی ہیں ) ـتدریجاًبدل گئی ہے ؟اور پہلا انسان مثلاًآنکھ، کان ،ہاتھ پائوں ،دماغ ،دل ،گردے ،پھیپھڑے ،جگر اور نظام ہاضمہ کے اعضا ء ـو ہم میں پائے جاتے ہیں ـنہیں رکھتا تھا یا ان اعضاء کی سر گرمی ایک دن ایسی نہیں تھی جیسی آج پائی جاتی ہے ؟

کیا گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آنے والے حالات ،جیسے جنگ و خون ریزی اور صلح وآشتی کے معنی انسان کو نابود کرنے یا اسے محفوظ رکھنے کے علاوہ کچھ اور تھے ؟

کیا شراب پینے کی صورت میں پیدا ہونے والی مستی ،مثلاً(شراب کے افسانہ کے موجد)''جمشید'' کے زمانہ میں آج کے زمانہ میں رکھنے والے مفہوم کے علاوہ کچھ اور مفہوم رکھتی تھی ؟اور اسی طرح کیا،''نکسیا''اور ''باربد ''جیسے موسیقی کاروں کی مو سیقی کی لذت آج کی موسیقی کی لذتوں کے علاوہ کچھ اور تھی ؟

مختصر یہ کہ کیا گزشتہ انسان کے وجود کی پوری بناوٹ آج کے انسان کی بناوٹ سے بالکل مختلف تھی ؟یا قدیم انسان کے اندرونی اور بیرونی حالات آثار،عمل اور ردعمل ،آج کے انسان کے علاوہ کچھ اور تھے ؟

البتہ ان تمام سوالات کے جوابات منفی ہیں ۔کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت تدریجاًنابود ہو گئی ہے اور کوئی اورچیز اس کی جانشین بن گئی ہے یا جانشین ہوگی ،یا یہ کہ اصل انسانیت جو سیاہ فام وسفیدفام، بوڑھے جوان، عقلمند اوربیوقوف ،قطب میں رہنے والے اور خط استواپر رہنے والے اور پرانے زمانے کے انسان اور آج کے انسان میں مشترک ہے ،مشترک ضروریات نہیں رکھتی ۔یا اگریہ ضروریات مشترک بھی ہوں تو انسان کی خواہش اورارادہ ان کو پورا کرنے سے مربوط نہیں ہے۔

جی ہاں ،حقیقت میں یہ ضرورتیں موجود ہیں اورکچھ ثابت اور دائمی قوانین کی متقاضی بھی ہیں جن کا بدلنے والے قوانین سے کوئی ربط نہیں ہے ،کوئی بھی قوم کسی بھی زمانہ میں اس کی زندگی کے لئے قطعی طور پر خطرہ بننے والے دشمن سے ممکن صورت میں جنگ کرنے سے گریز نہیں کرتی اور اگر ایسے دشمن سے نجات پانے کے لئے اسے قتل کرنے کے علاوہ کوئی اورچارہ نظر نہ آئے تو خوں ریزی برپا کرنے سے پیچھے نہیں رہتی ۔

مثلاً کوئی معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کے لئے ضروری تغذیہ کو نہیں روک سکتا ہے ،یا ان کے جنسی تمایلات پر پابندی نہیں لگا سکتا ہے ۔اس قسم کے بہت سے نمونے موجود ہیں جو نا قابل تغیراحکام کی نشاندہی کرتے ہیں اور قابل تغیراحکام سے ان کا کوئی ربط نہیں ہوتا ۔

مذکورہ بیانات سے چند موضوع واضح ہو جاتے ہیں :

١۔معاشرہ اور اجتماعی قوانین و ضوابط کی پیدائش کااصلی عامل زندگی کی ضروریات ہیں ۔

٢۔تمام اقوام حتی وحشی قومیں بھی اپنے لئے کچھ قوانین اورضوابط رکھتی ہیں ۔

٣۔موجودہ دنیا کی نظر میں زندگی کی ضرورتوں کو تشخیص دینے والا وسیلہ معاشرہ کے لوگوں کی اکثریت کی مر ضی ہے ۔

٤۔ اکثریت کی رائے ہمیشہ حقیقت کے مطابق نہیں ہوتی ۔

٥۔زمانہ کے گزر نے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ کچھ قوانین بدلتے رہتے ہیں اور یہ قوانین خاص حالات سے مر بوط ہوتے ہیں ،لیکن قوانین کا ایک اور سلسلہ جو ''انسانیت''کی بنیاد سے مربوط اور تمام ادوار کے انسانوں اور تمام شرائط اور ماحول میں مشترک ہیں ،ناقابل تغیر ہیں ۔اب جبکہ یہ مو ضو عات واضح ہوگئے،ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا نظریہ کیا ہے ؟

تربیت کے بارے میں اسلام کا نظریہ

اسلام ،چونکہ ایک عالمی دین ہے اور ایک خاص جماعت اورایک معین زمان ومکان کو مد نظرنہیں رکھتا ہے ،اس لئے اس نے اپنی تعلیم وتر بیت میں ''فطری انسان'' کو مد نظر رکھا ہے ،یعنی اس نے اپنی نظر کو صرف انسانیت کی مخصوص بناوٹ پر متوجہ کیا ہے ،جس میں ایک عادی اور عمومی انسان کے شرائط جمع ہو کرانسان کا مصداق بنتا ہے ،اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عرب ہو یا عجم ،سیاہ فام ہو یاسفید فام ،فقیر ہو یاامیر،طاقتور ہو یا کمزور،عورت ہو یا مرد،بوڑھا ہو یا جوان اور دانا ہو یانادان ۔

''فطری انسان ''یعنی جو انسان خداداد فطرت کا مالک ہو اور اس کا شعوروارادہ پاک ہوو توہمات اور خرافات سے آلودہ نہ ہواہو،اسے ہم ''فطری انسان کہتے ہیں ''

اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کا دوسرے حیوانوں سے صرف یہ امتیاز ہے کہ انسان اپنی طاقت سے مسلح ہے اورزندگی کی راہ طے کرنے میں ''عقل وشعور''سے کام لیتا ہے ،جبکہ دوسرے حیوانات اس خداداد نعمت سے محروم ہیں ۔

ہر جاندار کی سر گرمی ـبجز انسان کے ـیک ایسے شعور ارادہ پر منحصر ہے کہ جس کا عامل صرف اس حیوان کے جذبات ہیں جو اپنے ظہور اور جوش سے اسے اس کے مقاصد کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور اسے فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس ارادہ کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی کی سر گرمیوں کو بروئے کار لا کر آب و غذااور زندگی کی دوسری ضروریات کے پیچھے جاتا ہے ۔

یہ صرف انسان ہے ،جو مہر ومحبت ،کینہ وعداوت دوستی ودشمنی اور خوف وامید کے شدید جوش وجذبہ اورجذب ودفع کے بارے میں ہر قسم کے دوسرے جذبات کے علاوہ ایک عدالتی نظام سے بھی مسلح ہے ،جو مختلف جذ بات اور طاقتوں اور حقیقی مصلحتوں کے درمیان دعوی کی تحقیق کرکے عمل کی تشخیص دے کر اس کے مطابق فیصلہ دیتا ہے ۔کبھی جذبات کی شدید خواہش کے باوجود اس کے بر خلاف فیصلہ سناتا ہے اور کبھی قدرت اور جذبات کی کراہت کے باوجود حق میں فیصلہ سناتا ہے اور انسان کو سر گرمی پر مجبور کرتا ہے اور کبھی ان جذبات اور طاقت کی مصلحتوں پر توا فق اور ان کی خواہش سے موافقت کا اعلان کرتا ہے ۔