اسلام میں ثابت اور متغیّر قوانین
''اسلام ہر زمانہ کی واقعی ضرورت کو پورا کرتا ہے '' کے عنوان سے گزشتہ بحث میں ہم نے اجمالی طور پر جان لیا کہ اسلام اپنے قوانین کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرتا ہے :ثابت اور متغیّرقوانین ۔
ثابت قوانین
ثابت قوانین ،وہ قواعد وضوابط ہیں ،جن کو وضع کرنے میں مادی انسان کی حقیقت کو مدنظررکھا گیا ہے ،یعنی انسانی فطرت خواہ شہری ہو یا بیابانی ،سیاہ فام ہو یا سفید فام،طاقتورہو یاکمزور،ہر علاقہ اور ہر زمانہ میں اپنی زندگی کی بساط کو پھیلاتی ہے ۔چونکہ انسانی فطرت انسانی بناوٹ سے بنی ہوئی ہے اور انسان کی اندرونی اور بیرونی قو ّتوں اورآلات سے مسلّح ہے ،اس لئے جب دو افراد یا اس سے زیادہ آپس میں جمع ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے اجتماعی زندگی شروع کرتے ہیں ،تو خواہ نخواہ ضرورتوں کے ایک سلسلہ سے دوچار ہوتے ہیں کہ جنھیں پوراکر نے کے لئے انھیں اقدام کرنا چاہئے ،چونکہ ان کے وجود کی عمارت یکساںہے اور وہ انسانیت کی خصوصیت میں بھی یکساں ہیں ، بیشک ان کی ضرورتیں بھی مشترک اور یکساں فطرت رکھتی ہیں ،اس لئے انھیں یکساں قوانین کی ضرورت ہوتی ہے ۔
انسان کے استدلالی ادراک تمام افراد میں (جیسا کہ ہم جانتے ہیں ) یکساں ہیں اور ان کا عقلی فیصلہ ـ ان کے افکار میں توہمات اور خرافات داخل نہ ہونے کی صورت میں ـیکساں ہوتا ہے ،اور تمام افراد میں ادراک کی طاقت کو تصدیق و اعتقاد سے مطمئن کر نا چاہئے ۔
اسی طرح ،محبت وکینہ ،ترس وامید،روٹی اور پانی کی ضرورت ،جنسی خواہشات اور لباس ومسکن جیسے گوناگوں جذبات تمام لوگوں میں موجود ہیں ،جس صورت میں ایک شخص کے لئے ان ضرورتوں کو پورا کیا جاناچاہئے ،اسی صورت میں دوسرے لوگوں کی ان ضرورتوں کو بھی پوراکیا جانا چاہئے
انسان کی مشترک فطرت کے پیش نظریہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کی بھوک کو دور کرنا جائز ہے اور دوسرے کی بھوک کو دور کرنا منع ہے ۔یا یہ کہ ایک شخص کو اپنی عقل کے اضطراری فیصلہ کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے لیکن دوسرے فرد کو اپنے ضمیر کے فیصلہ پر توجہ نہیں کرنی چاہئے ؟ یایہ کہ انسانی فطرت کو اپنی خصوصیت اور مخصوص آثار ـکہ ہزاروں برسوں سے قو توں ، جذبات اورشعور کے لحاظ سے ایک مشابہ روش پر چلتے ہیں ـ کو ایک زمانہ میں اپنے ضروری ادراک وضمیر پر اعتماد کرنا چاہئے اور دوسرے زمانہ میں انھیں باطل قراردینا چاہئے۔
انسان ایک دن اجتماعی زندگی بسر کرے اور دوسرے دن انفرادی زندگی اختیار کرے ،ایک وقت اپنے مقدسات کادفاع کرے اور دوسرے وقت اپنی پوری ہستی کو دشمن کے حوالے کردے ،ایک زمانہ میں اپنی زندگی کی سر گرمیوں میں لگ جائے اور دوسرے وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنا رہے اور اسی طرح...اس سے ظاہر ہے کہ فطری انسان کو ہمیشہ ایک قسم کے ثابت اور یکساں قوانین اور قواعدو ضوابط کی ضرورت ہے ۔
اسلام نے بھی اپنی مقدس دعوت میں لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہاہے ۔اسلام کہتا ہے :انسان کی زندگی کو انسان کی خلقت کے عام ا ورخاص سسٹم سے قابل تطبیق کچھ قوانین اور قواعد وضوابط کے علاوہ کوئی اور چیز تحفظ نہیں بخش سکتی ہے ۔
اور کہتا ہے: ہمیں اپنی خداداد ادراک اور ضمیر کے شعورکی طرف رجوع کرناچاہئے اور ہر قسم کی ہوس رانی اور بے راہ روی سے دوری اختیارکرنی چاہئے اور جس چیز کو حق تشخیص دے دیںاس کی پیروی کریں، ہمیں چند حقائق کی پیروی کرنے کو تقلید کا نام نہیں دینا چاہئے اور ہمیں'' قومی غرور''اور اپنے اسلاف کے ''قدیمی رسومات''کی تقلید نہیں کرنی چاہئے ہمیں خداشناسی کو کہنہ پرستی کا نام دے کر کچھ طاقتور ہوس رانوں کے پیرو بن کر ان کے آلہ کار نہیں بننا چاہئے ، جس کے نتیجہ میں ہر گوشہ وکنار میں سیکڑوں پتھر کے خدا بنا کران کی تعظیم کریں ۔بنیادی طور پر اسلام نے ''اسلام ''کے لفظ کا اس لئے انتخاب کیا ہے تاکہ اپنی دعوت میں اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرے کہ وہ صرف خدائے یکتااور خالق کائنات کی پرستش اور دوسرے الفاظ میں حق کی پیروی کی دعوت کرتے ہوئے اس کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔اسلام نے اس نظریہ کی تفصیلی تشخیص کے مرحلہ میں اعتقادات ،اخلاق اور قوانین کا ایک سلسلہ عالم بشریت کے سا منے پیش کیا ہے اور انھیں واجب الاطاعت حق کے طور پر معرفی کیا ہے اور اس کا نام نا قابل تغیر دین آسمانی رکھا ہے ۔
البتہ ،ان تین مرحلوں ۔اعتقاد ،اخلاق اوراحکام۔ میں سے ہر ایک کے اجزا دوسرے اجزا اور دوسرے مرحلوں کے ساتھ مکمل طور پر رابطہ رکھتے ہیں اور کائنات کی خلقت کے ساتھ بھی مکمل مطا بقت رکھتے ہیں ۔ اس مقالہ میں ان کے بارے میں تفصیلی بحث نہیں کی جاسکتی ہے ،اس لئے ہم ان کی تفصیل کے پیش نظران کے بارے میں اجمالی بحث پر اکتفا کرتے ہیں ۔اور ہمارا مقصد بھی اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اسلام میں موجود نا قابل تغیر قوانین کے ایک سلسلہ کو ثابت کریں ۔
متغیّر قوانین
جس طرح انسان کو ثابت اور مستقل احکام و قوانین کے ایک سلسلہ ـ جو ثابت اور یکساں فطری ضرورتوں کے تقاضوں کے مطابق وضع ہوں ـ کی ضرورت ہے ،اسی طرح وہ قابل تغیر قوانین کے ایک سلسلہ کا بھی محتا ج ہے اور انسا نی معاشروں میں سے کوئی معاشرہ ہر گز اس قسم کے قوانین کے بغیر استحکام اور بقاء کی حالت حاصل نہیں کر سکتا ہے، کیو نکہ واضح ہے کہ اسی فطری انسان کی زندگی جو اپنی خصوصی بناوٹ کے پیش نظرثابت اور یکساں ہے ،زمان ومکان کے تقاضوںکے مطابق مسلسل تغیر و ارتقا سے بھی روبرو ہے اور انقلابی عوامل اور زمان ومکان کے گوناگوں شرائط سے بھی مکمل طور پر دوچار ہے اور اپنی صورت کو تدریجاًبدلتے ہوئے اسے نئے ماحول کے ساتھ مطابق بنا تا رہتا ہے ،ان حالات کا بدلنا قوانین میں تغیر وتبدیل کا تقاضا کرتے ہیں ۔
اسلام کے اس قسم کے قوانین و احکام میں ،ایک اصول ہے ،اس بحث میں ہم ''حاکم اختیارات ''کے طورپر وضاحت کریں گے ۔یہ اسلام میں وہ اصول ہے ہر زمان و مکان میں لوگوں کے قابل تغیر ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلام کے ثابت قوانین کو منسوخ اور باطل کئے بغیر انسا نی معاشرہ کی ضرورتوں کا بھی جواب دہ ہے ۔
مطالب کی وضاحت
اسلامی معاشرہ کا ایک فرد دینی قوانین کی رو سے حاصل کئے گئے اختیارات کے مطابق اپنی خصوصی زندگی کے محیط میں (تقویٰ کے سائے میں قانون کی رعایت کرتے ہوئے) ہر قسم کا اقدام کر سکتا ہے ،جیسے، اپنے مال سے مصلحت کے پیش نظر اور اپنی مر ضی کے مطابق اپنی زندگی کے حالات کو بہتر بناتے ہوئے بہترین خوراک ،لباس،گھر اور سرمایہ سے استفادہ کر سکتا ہے ،یا ان میں سے بعض چیزوں سے صرف نظر کرسکتا ہے ۔اور اسی طرح اپنے بر حق حقوق کا ہر ظلم اور حملہ کے مقا بلہ میں دفاع کر کے اپنی زندگی کے وجود کا تحفظ کر سکتا ہے ،یا وقت کی مصلحت کے پیش نظر دفاع سے پر ہیز کرکے اپنے بعض حقوق سے چشم پو شی کرسکتا ہے ۔اور اس کے علاوہ اپنے شخصی کسب وکار میں سر گرمی انجام دے سکتا ہے ،حتی رات دن کام کر سکتا ہے یا اپنی صواب دید کے مطابق کسی دن ایک کام کو تعطیل کر کے کسی دوسرے اہم کام کو انجام دے سکتا ہے ۔
اسی طرح ولی امر مسلمین ـجو اسلامی نظریہ کے مطابق معیّن ہو چکا ہو گا ـاپنی حکمرانی کے علاقہ میں رکھنے والی عمومی ولایت کے مطابق،حقیقت میں اسلامی معاشرہ کے افکار کا ہدایت کار اور عام لوگوں کے ارادہ و شعور کا مر کز ہو تا ہے ،جس تصرف کا حق ایک فرد کواپنی زندگی کے محیط میں ہو تا ہے ،ولی امر کوبھی اسی تصرف کا حق معاشرہ کی عام زندگی میں ہوتا ہے ۔
وہ تقویٰ کے سایہ میں ،اور دین کے ثابت احکام کی رعایت کرتے ہوئے مثال کے طور پر سڑکوں ،گزرگاہوں،مکانات ،بازار،کسب وکاراور لوگوں کے مختلف طبقات کے بارے میں ضروری قوانین وضع کر سکتا ہے ،وہ کسی دن دفاع کا حکم صادر کرکے فوج کو مسلح کرنے کے سلسلہ میں ہر قسم کے ضروری اقدامات کا فیصلہ کر کے بر وقت ان کو نافذ کر سکتا ہے ،یا کبھی مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر دفاع سے پرہیز کرکے مناسب معاہدے منعقد کرسکتا ہے ۔
وہ دین سے مربوط ثقافتی ترقی یا لوگوں کی خوشحال زندگی کے بارے میں فیصلہ کر کے وسیع پیمانہ پر کارروائی کرسکتا ہے یا کسی وقت معلومات کے چند سلسلوں کو منسوخ کرکے دوسری معلومات کو رائج کرسکتا ہے ۔
مختصر یہ کہ معاشرہ کی اجتماعی زندگی کی تر قی کے لئے ہر قسم کے مفید قوانین کو وضع کرنا ۔جو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں ہوں ۔ولی امر مسلمین کے اختیارات سے مر بوط ہیں اور ان کے وضع اور نفاذ کے بارے میں اس کے لئے کسی قسم کی ممنو عیت نہیں ہے ۔ البتہ اسلام میں اس قسم کے قوانین کا نفاذ اگر چہ لازم ہے اور ان قوا نین کو نافذ کرنے کا پابند ''ولی امر مسلمین ''واجب الاطاعت ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ قوانین شریعت اور حکم خدا شمار نہیں ہو تے ۔اس قسم کے قوانین کا اعتبار قدرتی طور پر ایک ایسی مصلحتوں کے تابع ہوتا ہے ،جواس کی متقاضی ہوتی ہیں اور اسے وجود میں لاتی ہیں اور مصلحت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ قانون ختم ہو تا ہے ،اس صورت میں گزشتہ ولی امر یا جدید ولی امر گزشتہ حکم کے ختم ہونے اور نئے حکم کے وجود میں آنے کا لوگوں میں اعلان کرتے ہوئے گزشتہ حکم کو منسوخ کرتا ہے ۔
لیکن احکام الٰہی ،جو شریعت کے متن ہیں ہمیشہ کے لئے ثابت اور پائیدار ہیں اور کسی کو ،حتی ولی امر کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ ان میں وقت کی مصلحتوں کے پیش نظر تبدیلی لاکر ،ان کے ایک حصہ کے ختم ہونے کے پیش نظر انھیں منسوخ کرے ۔
ایک غلطی کا ازالہ
اسلام کے ثابت اور متغیّر احکام اور قوانین کے بارے میں مذکورہ بیان سے ،اسلام پر ہو نے والے اعتراضات کا بے بنیا د ہو نا واضح اور ثابت ہو جاتا ہے ۔
جو یہ کہتے ہیں : انسان کی اجتماعی زندگی کا دامن ایسا وسیع ہو چکا ہے کہ اس کا چودہ سو سال پہلی زندگی سے کسی قسم کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے ،جو قواعد وضوابط صرف آج کل کے نقل و حمل کے سسٹم کے لئے ضروری ہیں ،قطعاً،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں لازم تمام قوانین اور قواعدو ضوابط سے وسیع تر ہیں اسی طرح آج کی انسانی زندگی کے تمام ابعاد میں اتنے بے شمار قواعد وضوابط موجود ہیں ،جن کی گزشتہ زمانہ میں وضع اور نافذ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ، چونکہ اسلام کے قوانین میںاس قسم کے احکام کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے ،اس لئے اسلام آج کل کی دنیا کے لئے کار آمد نہیں ہے
البتہ یہ حضرات اسلام کے مقدس دین کے بارے میں کافی معلومات نہیں رکھتے ہیں اور اس کے متغیّر قوانین سے بے خبر ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ آسمانی دین چند ثابت اور یکساں احکام کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے متغیّراور پیشرفت دنیا کا نظم ونسق چلانا چاہتا ہے یا خلقت کے اس غیرقابل مقابلہ سسٹم سے تلوار کے ذریعہ جنگ کر کے انسانی تمدن کی جبری ترقی کو روکنا چاہتا ہے ...جہالت کی حد ہے ! کچھ دوسرے لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں : انسان کی اجتماعی زندگی میں جبری تبدیلی اور ارتقا،معاشرہ میں موجود ہ ثابت قوانین میں تدریجی تغیر وتبدل کے متقاضی ہیں ،اسی لئے اسلام کے ثابت قوانین کے صحیح اور سنجیدہ ہونے کی صورت میں یہ قوانین صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے شرائط اور عوامل کے مطابق قابل نفاذ ہوں گے ،نہ ہمیشہ۔
ان حضرات نے قانونی مباحث میں بھی کافی توجہ نہیں کی ہے اور اس نکتہ سے غافل رہے ہیں کہ دنیا میں موجود ہ تمام شہری قوانین میں کچھ ایسے دفعات موجود ہیں جو اجمالی طور پر قابل تغیر نہیں ہیں ۔اس میں شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عصر جدید کے قوانین اور ضوابط قدیم زمانے کے قوانین کے ساتھ سو فیصدی اختلاف نہیں رکھتے اور آنے والے زمانوں کے قوانین سے بھی کلی طور پر اختلاف نہیں رکھیں گے ،بلکہ ان میں کچھ مشترک ابعاد موجود ہیں جو کبھی پرانے اور نابود نہیں ہو تے ـ جیسا کہ گزشتہ بحث کے بعض حصوں میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ـاگر چہ اسلام ، قوانین الہٰی کے وضع کرنے میں منبع وحی سے سر چشمہ حاصل کرتا ہے ،اور اسی طرح متغیر قوانین کے وضع اورنفاذ میں ولی امر کے اختیارات سے سر چشمہ حا صل کرتا ہے ۔جو شوریٰ کے ذریعہ وضع ہو کر ولایت کے ذریعہ نافذ ہو تے ہیں ـبہر حال اسلا م کا یہ طریقہ کار عقل کی بناء پر استوار ہے نہ اکثریت کے جذباتی خواہشات پر ،لیکن اس کے باوجود بھی اشتراکی اجتماعی حکومتوں سے عدم شباہت نہیں رکھتا،اسلام ''آسمانی شریعت'' کے نام پر کچھ ثابت احکام رکھتا ہے جن میں تبدیلی لانا اولیائے امور اور مسلمان کے بس میں نہیں ہے ۔یہ احکام ہمیشہ کے لئے تمام حالات اور شرائط میں واجب العمل ہیں ۔اس کے علاوہ اسلام میں کچھ قابل تغیر احکام بھی ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی کے تحول اور ارتقاء کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور معاشرہ کے تدریجی سعادت کے ضامن ہیں ۔
اجتماعی حکومتوں میں بھی ''آئین '' کے نام سے ایک قانون موجود ہے جس میں تبدیلی ایجاد کرنا حکومتوں ،پارلیمنٹ کے اراکین اور سینٹ کے اختیارات میں نہیں ہو تا ۔اس کے علاوہ ان حکومتوں میں کچھ اور قوانین و ضوابط ہوتے ہیں جو پارلیمنٹ یاکیبنٹ کے پاس کئے ہوئے قوانین ہوتے ہیں ،یہ وہی قوانین ہیں جو ملک اور معاشرے میں تغیرات اورتحولات کے نتیجہ میں وضع ہوتے ہیں اور قابل تغیر ہیں ۔جس طرح ایک ملک کے '' آئین ''سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ مثلا دارالخلافہ میں گاڑی چلانے اور ٹریفک کے قوانین کی تفصیلات کو فوری طور پر بیان کرے اورہرسال یا ہر مہینے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلی لائے ،اسی طرح بنیادی احکام کے ضامن آسمانی شریعت سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ ولایت کے قابل تغیر جزئیات کی حامل ہو
(پہلے اعتراض کاجواب)
اسی طرح کسی ملک کے آئین سے بھی تو قع نہیں کی جاسکتی کہ وہ تمام متغیرّدفعات کا حاصل ہو کر متغیرّ بن جائے ،حتیٰ ملک کی آزادی اور اس کے لئے صدارت کے عہدہ کی ضرورت جیسے مسائل بھی متزلزل اور ناپائدارہوں ۔اسی طرح شریعت ـجو آئین کے ناقابل تغیر احکام کے مانند ہے ـسے بھی متغیرّہونے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے
(دوسرے اعتراض کا جواب )
لہذا پہلا اعتراض (اسلام کا قانون ناقص ہے اور اس میں آج کے زمانہ کے مطابق قوانین کا ایک سلسلہ موجود نہیں ہے ) بے بنیا دہے اور اسی طرح دوسرا اعتراض (اسلام کے احکام ثابت اور جامد ہیں جبکہ قوانین قابل تغیرہونے چاہئے )بھی بے بنیاد ہے ۔ جی ہاں ،اس باب میں دوسرے اعتراض سے متعلق ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے:
یہ بات صحیح ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں رائج قوانین میں ایسے دفعات بھی پائے جاتے ہیں جو اجمالی طور پر قابل تغیر نہیں ہیں،لیکن کیا شریعت اسلام میں وضع ہوئے تمام قوانین اور ضوابط ،جن سے اسلامی فقہ تشکیل پاتی ہے ،ہمیشہ کے لئے انسانی معاشرہ کی سعادت کی ضمانت دے سکتے ہیں ؟
کیا آج کے تمدن کا قافلہ ،نماز ،روزہ حج اور زکوٰةغیرہ کے ذریعہ اپنی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ؟کیا اسلام کے ،غلامی ،عورت ،ازدواج ،بیع ،سودجیسے مسائل کے بارے میں وضع کئے گئے احکام آج کی دنیا میں اسی صورت میں باقی رہ سکتے ہیں ؟
اس قسم کے مسائل طولانی ہیں جن کے بارے میں طویل بحث کی ضرورت ہے ،اس لئے ان کے بارے میں مناسب جگہ پر بحث وتحقیق کی جانی چاہئے۔
خاتمیت کا مسئلہ
کیاانسان عصر جدید میں وحی کا محتاج ہے؟
سوال :اگر کوئی شخص اس سوال کے جواب میںکہے کہ ہر مخلوق کے لئے ارتقاء ضروری ہے ،پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیوں یہ فرمایا :''میں آخری پیغمبر ہوں؟''یہ کہہ کر گو یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :''خاتم انبیاء میں ہوں''،آپ یہ کہنا نہیں چاہتے ہیں :جو کچھ میں نے کہا ہے وہ انسان کے لئے ابدی طور پر کافی ہے ،بلکہ خاتمیت یہ کہنا چاہتی ہے کہ انسان اب تک اس کا محتاج تھا کہ اس کی زندگی کے لئے ماورائے عقل وتربیت بشری راہنمائی کی جائے ،اب اس زمانہ (ساتویں صدی عیسوی ) میں ،یونانی ،رومی اور اسلامی تمدن اور قرآن ،انجیل وتوریت کے آنے کے بعدانسان کی مذہبی تربیت ضرورت کی حدتک انجام پائی ہے اور اس کے بعد انسان اس طرز تربیت کی بنیاد پر وحی اور نئی نبوت کے بغیر اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنی زندگی کو جاری رکھتے ہوئے اسے پائے تکمیل تک پہنچا سکتا ہے ،اس لئے اب نبوت ختم ہوئی ہے !انسان راستہ کو خود طے کرسکتا ہے ۔پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسلام فرماتے ہیں : اس کے بعد تم لوگ تر بیت یافتہ ہو اور تم لوگوں کا شعور مصلحت ،سعادت ،ارتقاء اور آرام وآسائش کو برقرار کرنے کی حد تک پہنچ گیاہے ،تم میںتوانائی ہے اور سمجھتے ہو یعنی تمہارا شعوراور تفکر، ارتقاء کے ایک ایسے مر حلہ تک پہنچ گیا ہے کہ اب تمہیں وحی کی دستگیری کی ضرورت نہیں ہے جو تمھیں قدم قدم پر راہنمائی کرے ،اس کے بعد عقل وحی کی جانشین ہو گی!...
کیا اس قسم کی تعبیر ،''خاتمیت''کے منافی ہے یا نہیں ؟
جواب :مذکورہ استدلال کا خلاصہ یہ ہے :انسان دوسری مخلوقات کے مانند ارتقاء کی گزر گاہ پر قرار پایا ہے ،اس راہ سے انسانی معاشرہ زمانہ ا ور وقت کے گزر نے کے ساتھ ساتھ اپنی خلقت میں خاص حالات پیدا کر کے نئے شرائط میں قرار پاتا ہے ،جس کے لئے مزید اور تازہ تر بیت کی ضرورت ہو تی ہے اس بنا پر ا نسان اپنی زندگی کی روش کے مراحل میں سے ہر مر حلہ پر ،دوسرے الفاظ میں اس مر حلہ سے مر بوط ضرورتوں کے مطابق تازہ اور مناسب دینی احکام اور قوانین کا محتاج ہو تا ہے ،اس لئے وہ ہر گز دین یا زندگی کی ایک روش کو ابدی اور ہمیشہ کے لئے فرض نہیں کر سکتا ہے ۔من جملہ شریعت مقدس اسلام بھی ایک واقعی دین اور بشر کا حقیقی راہنما ہے ، یہ ابدی دین نہیں ہو سکتا ہے ! اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم النّبیّین ہو نے کا مطلب ،کہ آپ فرماتے ہیں :''میں خاتم النبیین ہوں ''یہ ہے کہ عقل کی کمزوری کی وجہ سے اب تک انسا ن اپنی زندگی کے لئے تعقل او ربشریٰ تربیت سے ماورٰ راہنمائی کا محتا ج تھا ،لیکن اس زمانہ(ساتویں صدی ہجری) میں یونانی ، رومی اور اسلامی تمدن کے آنے اور آسمانی کتابوں جیسے توریت،انجیل اور قرآن مجید کے نزول کے بعد انسان کی مافوق بشری تر بیت ضرورت کی حد تک پوری ہو چکی ہے ،اب وہ وحی کی راہنمائی کا محتاج نہیں ہے خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی طاقت رکھتا ہے ،اس لئے نبوت اور وحی کا خاتمہ ہو اہے ،انسان کو اب اپنی عقل سے زندگی کو جاری رکھنا چاہئے اور وہ اس کے بعد وحی ونبوت سے بے نیاز ہے ۔یہ استد لال کا خلاصہ ہے ،لیکن قابل ذکر بات ہے کہ یہ بیان مختلف جہات سے مخدوش ہے :
پہلااعتراض : اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ انسان (فرد ہو یا اجتماع ) ارتقاء کی گزرگاہ پر قرار پایا ہے ،اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ انسان ایک محدود حقیقت ہے اور اس کا ارتقاء بھی کیفیت اورکمیّت کے لحاظ سے محدود ہے نہ لا محدود اور اس کا ارتقاء جس قدر وسیع تر فرض کیا جائے بالآخر ایک مر حلہ پر رک جائے گا اور نتیجہ کے طور پر اس وقت عالم بشریت پر حکو مت کرنے والی روش اور قوانین ثابت اور غیر متغیرّ ہوں گے ،لہذا انسان کے ارتقاء کی گزرگاہ پر ہو نا بذات خود ایک ثابت او رابدی دین کے تحقق کی دلیل ہے نہ اس کی نفی ۔
دوسرا اعتراض :یونانی اور رومی تمدن ـجو بت پرستی اور اس کے وضع کردہ قوانین کی پیدا وار تھے ـ کو انسانی عقل کے ماوریٰ سمجھنا قرآن مجید کے واضح نص کے خلاف ہے کہ بہت سی آیتوں میں ان کے رسم و رسوم کو گمراہی اور ہلاکت کی راہ شمار کیا گیا ہے اور ان کے اعمال کو ـاگر چہ نیک اعمال کی صورت میں بھی ہوں ـبرباد،باطل اور مکمل طور پر بے اثراور بے اعتبار شمار کرتا ہے اور جو راستہ گمراہ،بے اثراور بے اعتبار ہو ،ہر گز راہنمائی کرنے والااور سعادت تک پہنچانے والا راستہ نہیں ہوگا (اس سلسلہ میں آیات اس حد تک زیادہ ہیں کہ ان کو نقل کر نے کی ضرورت نہیں ہے )
تیسرا اعتراض :اس بات کا اعلان کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے زمانہ،یعنی ساتویں صدی عیسوی کے بعد لوگوں کی عقلیں چونکہ مکمل ہوئی ہیںاور شریعت آسمانی کی اب ضرودرت نہیں ہے اور انسان وحی کی راہنمائی سے بے نیاز ہے ،کیا یہ نظریہ نئی آسمانی شریعت کے لانے اور لوگوں کواس کی طرف دعوت دینے کے ساتھ واضح تضاد نہیں رکھتا ؟اور وہ بھی ایک ایسی شریعت کے بارے میں جو قرآن مجید کی نص کے مطابق تمام گزشتہ شریعتوں کی جامع ہے ،چنانچہ فرماتا ہے :
(
شرع لکم من الدّین ماوصّی به نوحاً والّذ اوحینا الیک وما وصّینا به ابراهیم و موسیٰ وعیسیٰ...
)
(شوریٰ١٣)
''اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبر !تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراھیم ،موسی ٰ اورعیسیٰ کو بھی کی ہے ...''
ایک ایسا دین ، جیسے خداوندمتعال نے اپنے کلام میں واضح طور پر اسلام کہا ہے اور اس کی شریعت ابراھیم علیہ السلام کے طور پر تفسیر کی ہے اور فرمایا : لوگوں سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے :
(
إنّ الدّین عند اللّه الاسلام
)
(آل عمران ١٩)
''دین،اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے ''
(
ومَن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یُقبلَ منه...
)
(آل عمران ٨٥)
''اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا ...''
(
ملّة ابیکم ابراهیم هو سمّیٰکم المسلمین
)
(حج٧٨)
''یہی تمہارے بابا ابراھیم کادین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی مسلم اور اطاعت گزار رکھا ہے''
(
وما کان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضیٰ اللّه ورسوله مراً ان یکون لهم الخیرة من مرهم...
)
(احزاب ٣٦)
''اور کسی مومن مرد یامومنہ عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خداورسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کریں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے...''
یا ہم یہ کہیں کہ تمام آسمانی تکالیف خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے متعلق تھیں اور دوسرے لوگ وحی اورآسمانی احکام کے بارے میں آزاد تھے ،اس صورت میں قرآن مجید کے یہ سب خطاب : ( یا یھا الناس) (یا یھاالذین آمنوا) وغیرہ کا معنی کیا ہے ؟وحی کے پیروکاروں کو یہ سب بشارتیں کیا معنی رکھتی ہیں ؟اور مخالفت کرنے والوں کو یہ سب انتباہ کس لئے ؟ یا ہم یہ کہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی طرف آپ کی دعوت،دین اسلام کو پہنچانے کے بعد خودبخود تجویزی صورت اختیار کر گئی ،اس طرح(
ولکن رسول اللّه وخاتم النبیین
....)
(احزاب ٤٠) کا لازمی معنی یہ ہے کہ تم انسان اس تاریخ کے بعد ہدایت ،وحی اور آسمانی شریعت سے آزاد ہو اور اب تم اپنی ـکامل ہوئی ـعقلوں کے مطابق اپنی زندگی کی راہ وروش کو تشخیص دے کر قدم بڑھاؤاور میں قوانین کے ان دفعات کو مرتب کرکے تمہارے لئے لایا ہوں،تمہیں تجویز کرتا ہوں کہ انھیں اپنی عقل سے مواز نہ کرو ،اگر عقل نے ان کی تصدیق کی تو انھیں قبول کر نا اور ان پر عمل کر نا ۔حقیقت میں یہی جمہو ریت کے تمدن کا معنی ہے ،جس کے مطابق اس تمدن میں اجتماعی قوانین لوگوں کی اکثریت کی مر ضی کے مطابق ہوتے ہیں ،لیکن دیکھنا چاہئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز،روزہ ،زکواة وحج و جہاد وغیرہ جیسے ان احکام اور قوانین میں سے کس قانون کو نزول کے بعد شوریٰ میں قراردیا ہے اور اکثریت کی رائے اور مرضی حا صل کرنے کے بعد اسے نافذ کیا ہے ؟یہ ایک ایسا مطلب ہے جس کا تاریخ اور سیرت میں ایک نمونہ تک پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
جی ہاں ،بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اصلی حکم کو عملی جامہ پہنانے کی کیفیت اور حکم الہیٰ کی اطاعت کے لئے اجتماعی کاموں کے بارے میں صلاح ومشورہ فرماتے تھے ،جیسا کہ ''جنگ احد ''میں شہر کے اندر دفاع کیا جائے یا شہر کے باہر جیسے مسائل میں صلاح ومشورہ فرمایا ۔البتہ اصلی حکم پر عمل کر نے اور حکم کے طریقہ کار پر عمل کرنے میں فرق ہے ۔
یاہم یہ کہیں کہ اس آیہ کریمہ :(
ولکن رسول الله وخاتم النبیین
)
(احزاب ٤٠)کامعنی یہ ہے کہ اس کے پیش نظر کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول ہیں جو دین لائے وہ سنجیدہ اور متین دین ہے ،لیکن چونکہ نبوت آپ کے ساتھ ختم ہو گئی ،اگر اس زمانہ کے بعد دینی احکام میں سے کوئی حکم وقت کی مصلحت کے مطابق نہ ہو بلکہ مخالف ہو تو اسے عقل کی کسوٹی پرپرکھنے کے بعدبدل کر مصلحت کے مطابق اس کی جگہ پر ایک نیا حکم جانشین کرنا چاہئے ۔
اس بحث کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شریعت اسلام بھی زمانوں کے اختلاف اور تقاضوں میں تبدیلی کے پیش نظر دوسرے اجتماعی قوانین کی طرح متغیرّ ہے ۔صدراسلام کے خلفائ نے بھی اسی ذوق کے پیش نظراسلامی احکام کے بعض حصوں ـجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نافذ تھے ـپر پابندی لگادی یا ان میں تبدیلی لائی ۔اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کرنے والی احادیث کو نقل کر نے اور ان کی نسخہ برداری کو، قرآن مجید کی حرمت کے تحفظ کے نام پر،پہلی صدی ہجری میں شدیداً ممنوع قرار دیاگیا اور صرف قرآن مجید کی نسخہ برداری کی اجازت تھی ۔
یہ طریقہ کار،یعنی زمانوں کے بدلنے کے ساتھ دینی احکام اور قوانین کا بدلنا۔۔اگرچہ بعض دانشوروں خاص کر اہل سنت والجماعت کے مصنفوں کے رجحان کا سبب بنا،لیکن یہ طریقہ کارواضح طور پر قرآن مجید کے منافی ہے اور اسلام کا مقدس دین اس قسم کی تبدیلی کو ہر گز قبول نہیں کرتا ہے ۔قرآن مجید اپنے بیانات میں اس بات پر تاکید فرماتا ہے اور انسان کی بے داغ فطرت اور ضمیر کا بھی یہی حکم ہے ،کہ حق کی اطاعت و پیروی کی جانی چاہئے اور حق کی مخالفت گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
(
فماذا بعد الحق الا الضلٰل
)
(یونس ٣٢)
''...اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے ...''
قرآن مجید حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور باطل کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے اور نہیں ہو گی :
(
وانه لکتاب عزیز٭لایا تیه الباطل من بین یدیه ولا من خلفه تنزیل من حکیم حمید
)
(فصلت٤١۔٤٢)
''...بیشک یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ۔جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم وحمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔''
قرآن مجید ناقابل بطلان اور منسوخ کتا ب ہے ،اس کے بعض مطالب میں تبدیلی پیدا ہونابے معنیٰ ہے ۔
بلکہ قرآن مجید واضح الفاظ میں شریعت کے حکم اور تشریع کو خدائے متعال کا خصوصی امر جانتا ہے اور حکم جاری کرنے میں کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہراتا ،جیسا کہ فرماتا ہے :
(
إن الحکم إلّا للّه أمرَ لاّ تعبدوا إلاّ ایّاه
)
(یوسف٤٠)
''...حکم کرنے کاحق صرف خد ا کو ہے اور اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے ...''
مزید فرماتا ہے :
(
وما اختلفتم فیه من شيء فحکمه الی اللّٰه
)
(شوریٰ١٠)
''اور تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو گے اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھوں میں ہے ..''
جب خدائے متعال کے علاوہ کسی کو حکم جاری کرنے کا حق نہیں ہے ،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنی عقل پر بھروسہ کرکے حکم جاری کرے اور آسمانی حکم سے بے نیاز ہو ؟
جی ہاں ،اسلام میں کچھ ایسے قوانین اور ضوابط ضروری ہیں جو قا بل تنسیخ و تغیر ہیں اور وہ ایسے قوانین ہیں جنھیں ولی امر (اسلامی حکومت ) مختلف حالات میں وقت کی مصلحتوں کے پیش نظرشرع کے سایہ میں وضع کرتا ہے ۔
اس کی وضاحت یوں ہے کہ ولی امر کی معاشرہ سے نسبت ایک چھوٹے گھرانے سے اس کے مالک اور سر براہ کی نسبت کے مانند ہے ۔گھر کا مالک مصلحت کے پیش نظر اپنے گھر میں ہر قسم کا اقدام کرسکتا ہے اور گھر کے افراد کو ان کی مصلحتوں کے مطابق ان کے نفع میں ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور اگر ان کے گھریلو حقوق پر ظلم و ستم ہو جائے تودفاع کر سکتا ہے ،یا اگر مصلحت نہ سمجھے تو خاموش بیٹھ سکتا ہے !لیکن وہ جس قسم کے بھی اقدام کرے یا کوئی قانون جاری کرے تو وہ دین کے مطابق ہو نا چاہئے ،وہ کسی ایسے اقدام یاحکم کو انجام نہیںدے سکتاجو دین کے مخالف ہو ۔ولی امر بھی ،مصلحت کے تقاضوں کے مطابق ،اسلامی سر حدوں کی حفاظت کے لئے دفاع اور جہاد کا حکم دے سکتا ہے یا کسی حکومت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر سکتا ہے یاجنگ یا صلح کی ضرورتوں کے مطابق نئے ٹیکس لگا سکتا ہے اور اسی طرح ...یہ قوانین دین اور وقت کی مصلحتوں کے مطابق ہو نے چاہئے اور ضرورت پوری ہوتے ہی یہ قوانین خودبخود ختم ہو جاتے ہیں ۔
نتیجہ کے طور پر،اسلام کے پاس دوقسم کے قوانین ہیں :ثابت اور غیر متغیرّقوانین اور یہ آسمان شریعت ہے ،جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :
(
ولقد آ تینا بنی اسرائیل الکتاب والحکم والنبوة...٭ثم جعلنک علی شریعة من الامرفتبعها و لا تتّبع اهواء الّذین لا یعلمون٭ انّهم لن یغنواعنک من اللّٰه شیاوانّ الظٰلمین بعضهم اولیاء بعض واللّٰه ولّ الّمتقین
)
(جاثیہ١٦۔١٩)
''اور یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب ،حکومت اور نبوت عطا کی ہے ...پھر ہم نے آپ کو اپنے حکم کے واضح راستہ پر لگا دیا لہذا آپ اسی کا اتباع کریں اور خبردارجاہلوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں ۔یہ لوگ خدا کے مقا بلہ میں ذرہ برابر کام آنے والے نہیں ہیں اور ظالمین آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں تو اللہ صاحبان تقویٰ کا سر پرست ہے ''
اس قسم کے قوانین کو شریعت کہا جاتا ہے ۔اور قابل تغیر قوانین ،جنھیں اقتضائے مصلحت و زمان کے مطابق ولی امر وضع کرکے نافذ کرتا ہے ،ضرورت پوری ہونے پر خودبخود ختم ہو جاتے ہیں ۔