اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان 0%

اسلام اور آج کا انسان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف: علامہ طبا طبائی (صاحب تفسیر المیزان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 27254
ڈاؤنلوڈ: 2491

تبصرے:

اسلام اور آج کا انسان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27254 / ڈاؤنلوڈ: 2491
سائز سائز سائز
اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف:
اردو

دوسرا حصہ:

علمی ،فلسفی مسائل

حدوث عالم پر برہان

سوال :امام علیہ السلام سے سوال کیاگیا کہ آپ کے پاس حدوث عالم کے بارے میں کونسی دلیل ہے ؟

امام فرماتے ہیں :انڈے پر توجہ کیجئے کہ دو مختلف رقیق چیزوں سے بنا ہے اور اس سے نر ومادہ کی صورت میں مختلف چوزے پیدا ہو تے ہیں اور حدوث عالم پریہی دلیل ہے ۔سائل خاموش ہوتا ہے ۔امام کا یہ بیان حدوث عالم پر کونسی دلیل رکھتا ہے؟(۱)

جواب: انڈا دومختلف رقیق چیزوں کا مرکب ہے اور اس سے نرو مادہ اور مختلف چوزوں کی پیدائش کائنات کے حادث ،یعنی مخلوق ہونے اوراس کے کسی مافوق علت کی طرف مستند ہونے پردلیل ہے کیو نکہ ان مختلف (چیزوں کی) صورتوں اورشکلوں میں گونا گوں آثارکے ظاہر ہو نے کو وہم وگمان اور جھوٹا فرض کر کے غلط نہیں بتایا جاسکتا ہے یاکہا جائے یہ سب سفسطہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقتیں ہیں جوہرایک اپنے طور پر مختلف انفرادیتوں ،آثاراور خصو صیتوں پر مشتمل ہیں اور ان کے درمیان موجود جو انتہائی منظم رابطہ اور حیرت انگیز نظام کے پیش نظر ان کی پیدائش کو اتفاقی حادثہ اور بدون سبب وعلّت فرض نہیں کیا جاسکتا ہے ،بلکہ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جو سبب کے موجودہونے کے لئے استناد رکھتی ہیں اور ان میںاختلاف کے حقیقی ہونے کے سبب انھیں کسی یکساں اور کسی قسم کا اختلاف نہ رکھنے والے مادّہ کا معلول نہیں جاننا چاہئے ۔اور اگر مادہ میں اختلاف ترکیب یا اختلاف حرکت فرض کریں،تواب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ اختلاف ترکیب یا اختلاف حرکت کہاں سے پیدا ہوئی ہیں ؟

لہذا ناچار ،ان شکل و صورتوں اورآثار کے ذاتی اختلاف کو مادہ اور مادی دنیا سے بلند تر علّت وسبب سے نسبت دینی چاہئے اور نتیجہ کے طور پر انڈے کواور اس پر مرتب ہونے والے تمام آثار اوراس کی مختلف ترکیبوں کو حادث اورکسی دوسری علّت کا نتیجہ جاننا چاہئے ۔اور یہی خصوصیت جو ہم انڈے میں پاتے ہیں کائنات کی دوسری تمام مخلو قات میں پائی جاتی ہے اورحتیٰ کہ،مادّہ جو وجودمیںآنے کے لئے شکل و صورت کا محتاج ہے اورنتیجةً وسیع تر نظام کے ساتھ حادث ہے اور علت کی محتاج ہے ۔

دوسرے انبیاء علیہم السلام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت

سوال :کیا قرآن مجید میں آیہ خاتم کے علاوہ کوئی دوسری آیت موجود ہے جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت اور دوسرے پیغمبروں پر آپ کی فضلیت ثابت ہوتی ہو ؟

جواب :جس طرح آیہ شریفہ :

( ولکن رسول اللّٰه وخاتم النبیین ) (احزاب ٤٠)

خاتمیت پر دلالت کرتی ہے ،اسی طرح کچھ آیتیں دین اسلام کے عام اور ابدی ہونے پردلالت کرتی ہیں ،جیسے :

( وُوحی الیِّ هذاالقرآن لنذرکم به ومن بَلغ ) (انعام ١٩)

''اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جس شخص تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈرائوں ...''

اور آیہ شریفہ :

( وانه لکتاب عزیزلیتیه الباطل من بین یدیه ولامن خلفه ) (فصلّت٤١۔٤٢)

''...اوریہ ایک عالی مرتبہ کتا ب ہے ،جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آنہیں سکتا ہے ۔''

کیونکہ کسی دین کی عمر اور دوام ،مذکورہ دین کو لانے والے کی خاتمیت کے بغیر قابل تصور نہیں ہے ۔

اسی طرح جو آیتیں دوسری آسمانی کتا بوں کی نسبت قرآن مجید کی افضیلت کی دلالت پیش کرتی ہیں ،حسب ذیل ہیں :

( ونزّلنا علیک الکتب تبیاناًلکل شئ ) (نحل٨٩)

''...اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے ...''

اورآیہ شریفہ :

( ونزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه من الکتاب ومهیمناً علیه ) (مائدہ٤٨)

''اور اے پیغمبر!ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی مصدق اورمحافظ ہے لہذا آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں ...''

اورآیہ شریفہ :

( شرع لکم من الدّین ماوصّی به نوحاًوالّذی اوحینا الیک وما وصّینا به ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ) (شوریٰ١٣)

''اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اورجس کی وحی پیغمبر!تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراھیم ،موسی اور عیسی کو بھی کی ہے ...''

مذکورہ آیتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضلیت پر بھی دلالت کرتی ہیں ،کیونکہ قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا حصہ ہو نے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ،اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر ومنزلت کا توازن آپ کی دعوت کی قدر وقیمت ہے ۔

اہل توحید کی شفاعت

سوال:علاّمہ مجلسی کی کتاب ''توحید''میں ،مو حدین کے حالات کے ضمن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے:( وان اهل التوحید لیشفعون فیشفعون ) (زخرف٨٦)

بیان فرمایئے کہ اہل توحیدکن لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں ،غیر موحدین کی شفاعت کرنا تو ممکن نہیں ہے اور خود موحدین کی شفاعت کرنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ موحدین خود شفاعت کرنے والے ہیں ،پس یہ کن کی شفاعت کرتے ہیں ؟

جواب روایت (وان اهل التوحید لیشفعون فیشفعون )(۲)

کے مند رجہ ذیل دو معنی میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے :

یا اہل توحید سے مقصودموحدّین میںسے سب سے کامل اور سب سے بڑے علماء ہیں ،اس کی دلالت مندرجہ ذیل دوآیات کریمہ پیش کرتی ہیں :

( ولا یملک الّذین یدعون من دونه الشفاعة الّامن شهد بالحق وهم یعلمون ) (زخرف٨٦)

''اور اس کے علاوہ جنھیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سفارش کابھی اختیار نہیں رکھتے ہیں مگر وہ جو سمجھ بوجھ کر حق کی گواہی دینے والے ہیں ۔''

اور آیہ شریفہ :

( لّا من ذن له الرّحمٰن وقال صوابا ) (نباء ٣٨)

''...علاوہ اس کے جسے رحمان اجازت دیدے اور ٹھیک ٹھیک بات کرے ۔''

یا اس کا معنی یہ ہے کہ، موحدین، مستضف لوگوں کی شفاعت کرین گے، موحدین،جن کے حق میں خدائے متعال فرماتا ہے :

( وآخرون مرجون لمراللّه امّا یعذّبهم و امّا یتوب علیهم )

(توبہ ١٠٦)

''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں حکم خداکی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کر لے گا ...''

اور بظاہروکمزورطبقہ لوگوںکی اکثریت کو تشکیل دیتا ہے۔

اسلام میں غلامی کی توجیہ

سوال:گزشتہ سوالات میں اسلام میں غلامی وبندگی کے جاری رہنے کے بارے میں سوال ہوا تھا جس کا آپ نے مختصر اور اجمالی جوا ب دے دیا اور مکمل جواب کے لئے تفسیرالمیزان کی چھٹی جلد کی طرف رجوع کر نے کو فرمایا تھا ،جبکہ تفسیر المیزان میں حقیر کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے ۔

میں نے سوال کیاہے کہ اگر اسلام کے اوائل میں کچھ مصلحتوں کی بناپر غلامی کو جائز قرار دیا گیا ہے ،لیکن یہ جانتے ہو ئے کہ انسان کی فکر ترقی اور ارتقاء کی طرف بڑھ رہی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب بشریت غلامی کو قبیح سمجھ لے گی اور عقل کی روسے بھی قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ لوگ کچھ دوسرے لو گوں کو اپنا استعمار بنا کران کی ہر قسم کی آزادی کوچھین لیں اور بعض عبادی مسا ئل یا دوسرے جوانب سے کیوں غلام کو پست اور حقیرقرار دیا گیا ہے ؟اسی طرح اگر کفار کو اس لئے غلام بناتے تھے تاکہ اسلام کے ماحول میں تربیت حا صل کریں ،تو ان کی اولاد کیوں ان کے والدین کی تبعیت میں غلام بن گئیں ،اگر چہ وہ مسلمان بھی ہو تے ؟

اگر آپ فرمائیں گے کہ اسلام نے ان کی آزادی کے لئے بہت سے راستے بتائے ہیں ،تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ یہ موضوع غلامی کے اصل جواز کے بارے میں اعتراض کو دور نہیں کرتا؟

جواب :آپ نے لکھا ہے کہ اسلام میں غلامی کے اعتراض کے جواب کے بارے میں المیزان کی چٹھی جلد کی طرف رجوع کرنے کو کہا تھا جبکہ مذکورہ تفسیر میں اس اعتراض کا جواب نہیں دیا گیا ہے ،مختصر یہ کہ انسان کو مکمل ہونے والی عقل کسی کو غلا م بنانے اور اس کی مطلق آزادی کو سلب کرنے کو قبیح جانتی ہے اور عقل کی روسے بھی یہ قابل قبول نہیں ہے ،اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کفار کو اس لئے غلام بناتاتھا تاکہ اسلام کے ماحول میں ان کی تربیت کی جائے تو ہم یہ کہیں گے :ان کی اولاد کا کیا قصور اور گناہ ہے کہ اسلام قبول کر نے کے بعد بھی غلامی کی حالت میں باقی رہیں ؟اور اگر یہ کہا جائے کہ اسلام نے ان کی آزادی کے لئے ایک طریقہ کار معین کیا ہے تو ہم کہیں گے :اعتراض اس کے غلام بننے کے بعداس کی اصلی غلامی کے جاری رہنے میں ہے

لگتا ہے کہ تفسیر میں درج کی گئی بحث پر مکمل توجہ نہیں کی گئی ہے ،لہذا ناچار ہم پھر سے اس کی وضاحت کرتے ہیں :

سب سے پہلے اصولاً جانناچاہئے کہ : اگر چہ انسا ن اختیار کی صفت کے مطابق آزادخلق کیا گیا ہے ،لیکن اس کے لئے مطلق آزادی کا ہر گز تصور نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جو انسان فطری طور پر سماج میں ، معاشرہ کے تحفظ کے قوانین وضوابط کی قہراًرعایت کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہو ،وہ مطلق العنان اور ہر خواہش کے سلسلہ میں سر گرم عمل نہیں ہو سکتا ہے ۔لہذا انسان کی آزادی بہر حال قوانین اور ضوابط کے دائرہ میں محدود ہوتی ہے

دوسرے الفاظ میں انسان فی الجملہ آزاد ہے نہ بالجملہ یعنی مکمل طور پر آزادنہیں ہے ۔معاشرہ کے عام اور متوسط افراد بعض مواقع اور قوانین کے مطابق ہر قسم کا کام انجام دینے کی آزادی نہیں رکھتے ہیں اور کچھ افراد کی آزادی بعض شرائط کے تحت سلب کی جاتی ہے ۔

دیوانہ ،بیوقوف اور بچوں کو ہر کام انجام دینے کی آزادی نہیں دی جا سکتی ہے ،جانی دشمن اور لاابالی مجرم کو ہر قسم کی آزادی نہیں دی جا سکتی ہے ۔

دوسرے یہ:حقیقت میں غلامی ،بندگی اور ان کے مانند مسائل پر جھگڑا نہیں ہے بلکہ ان کے معنی میں نزاع ہے ،خواہ ان کے ساتھ غلامی کا نام ہو یا نہ ہو ۔

غلامی کی حقیقت کا مطلب ارادہ وعمل کی آزادی کا سلب کرنا ہے اور واضح ہے کہ جسے ارادہ و عمل میں آزادی نہ ہو ،اس کا ارادہ و عمل کسی دوسرے کے اختیار میں ہو گا ،اسی لئے غلاموں کو خرید و فروخت کیا جاتا تھا ۔

گزشتہ اقوام میں غلامی مندرجہ ذیل چار صورتوں میں رائج تھی:

١۔خاندان کا سر پرست اپنے ماتحت لڑکی اور لڑکے کو بیچ سکتا تھا ۔

٢۔مرد،کبھی اپنی بیوی کو بیچتا تھا،اور کبھی کرایہ یا ادھار دیتا تھا یا اسے کسی کو بخش دیتا تھا۔

٣۔ایک قبیلہ کا سردار ،اپنی قدرت کے بل بوتے اور استناد پر جسے بھی چاہتا اسے اپنا غلام وبندہ بنا سکتا تھا ،چنانچہ پادشاہوں کو ''مالک الرقاب''(غلاموں کے مالک)کہا جاتا تھا ۔

٤۔ دومتخاصم گروہوں میں سے جنگ میں فتح حاصل کر نے والا گروہ اگر اپنے جانی دشمن کو زندہ پکڑتا تھا ،وہ اسے اپنا غلام بنا سکتا تھا اور اسے مار سکتا تھا یا بیچ سکتا تھا ۔

اسلام نے غلام کی مذکورہ چار قسموں میں سے پہلے تین قسموں کو منسوخ کر دیا ہے اور اولاد کی نسبت والدین کے حقوق کو محدود کر کے اور اسی طرح شوہر کے حقوق کو بیوی کی نسبت محدود کر کے یا عادل اسلامی حکومت کی طاقت سے اس قسم کی غلامی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ،لیکن غلامی کی چوتھی قسم کی تصدیق کی ہے اور اس کی تائید نہ کر نا ممکن نہیں تھا ،کیو نکہ اسلام ایک فطری دین ہے اور یہ عین فطرت کے حکم کے مطابق ہے ۔کسی ایسے فردیا معاشرہ کو نہیں پایا جاسکتا ہے ،جو اس کی ہستی اور وجودیا اس کے مقدسات کو نیست و نا بود کر نے والے دشمن کے مقا بلہ میں خاموش تما شائی بن کر بیٹھے اور اپنی ہستی کا دفاع نہ کرے جو اس کے دشمن کی نابودی پر منحصر ہے یا دشمن پر فتح پانے کے بعدصرف اسی فتحیابی کے نام پر اکتفا کر کے اپنے دشمن کو دوبارہ اس کے ارادہ وعمل پر آزاد رکھے اور اس کے ارادہ و عمل کو سلب نہ کر ے (جو وہی غلامی ہے )،مگر یہ کہ عفو و بخشش کے لئے کچھ تقاضے اور عوامل پیدا ہو ں ،جہاں تک انسان ہے اور ہو گا اس کی خداداد فطرت یہی حکم کرے گی ۔

لیکن جو آپ نے لکھا ہے کہ عقل کے مطابق یہ قابل قبول نہیں ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کو استعمار کر کے اس کی ہر قسم کی آزادی کو سلب کرے ۔یہ بیان صرف غلامی کی پہلی تین قسموں پر لاگو ہے اور مذکورہ وضاحت کے پیش نظر چوتھی قسم پر لا گو نہیں ہو سکتا ہے ۔

لیکن جو آپ نے لکھا ہے کہ آج کی ترقی یافتہ فکر ،غلامی کو قبیح جانتی ہے ،اس بیان کا معنی (اگر چہ جنا ب عالی نے ارادہ بھی نہ کیا ہوگا )یہ ہے کہ متمدن دنیا یعنی مغربی دنیا سلب آزادی کو قبیح جانتی ہے ،چنانچہ تقریباًاسی سال پہلے بڑی کوششوں اور جدو جہد کے بعد انہوں نے عام غلامی کو منسوخ کر نے کا اعلان کیا ہے اور اس طرح ان کے بقول: عالم بشریت کو ایک ننگ سے نجات دے کر دنیا کے لوگوں ،حتی مسلمانوں پر ـجن کا دین اس کی اجازت دیتا تھا ـمنت رکھی ہے ،لیکن دقّت اور صحیح طور پر توجہ کر نی چاہئے کہ ان انسان دوست مترقی حکومتوں نے غلامی کو منسوخ کر نے کے اس قانون کو کس قدر نافذ کیا ہے ؟!

جی ہاں ! انہوں نے غلامی کی پہلی قسم (فرزند فروشی اور عورت فروشی ) کو منسوخ کیا ہے ،جو افریقہ اور اس کے بعض اطراف میں رائج تھی جبکہ اسلام نے بارہ سو سال پہلے اسے منسوخ کیا تھا ،لیکن کیا غلامی کی تیسری قسم کو بھی ان ترقی یافتہ حکومتوں نے منسوخ کیا ہے ،جسے اسلام نے منسوخ کیا تھا ؟اور کیا ایشیا اور افریقہ وغیرہ میں رہنے والے کروڑوں اقوام ا ور ملتیں جو صدیوں سے ان کے استعمار اور تسلط میں ہیں ان کے غلام (ارادہ وعمل کے احساس سے محروم )نہیں ہیں ؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ غلامی کا نام نہیں لیا جاتا ہے ،بلکہ جو برتائو گزشتہ زما نے میں ایک فرد سے کیا جاتا تھا وہ آج مجموعی طور پر ایک سماج سے کیا جا تا ہے !جی ہاں! حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ حکومتیں ،دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی بعض نو آبادیوں کو تدریجاً۔۔ان کے اپنے بقول :سیاسی شعور پیدا کرتے ہیں ۔۔آزادی دے رہے ہیں ۔لیکن کیا یہی آزادی اور استقلال بخشنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ متمدن انسان آزادی کو اپنی ملکیت جانتے ہیں ؟اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ، جو قومیں ان کے بقول وحشی اور پسماندہ ہیں ارادہ وعمل کی آزادی کا حق نہیں رکھتی ہیں ،یعنی جب تک زندہ ہیں اپنے آقائوں اورتہذیب کے قافلہ سالاروں کے غلام اور بندے ہیں ۔

اس کے علاوہ کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس استقلال وآزادی کا کیا معنی ہے اور یہ نام اور شکل وصورت کے بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،ان ترقی یافتہ انسانوں کی غلامی کو سات سمندر کے پانی سے بھی دھویا نہیں جاسکتا ۔

اسی طرح غلامی کی چوتھی قسم (جنگی قیدیوں اور جنگ میں شکست کھانے والوں کی آزادی کو سلب کر نے) کے بارے میں ان لوگوں نے کیا رویّے اختیارکئے ہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد پیش آنے والے حالات پر تھوڑی سی تحقیق اور غور کر نے سے یہ عقدہ حل ہو تا ہے ۔

حریف کے شکست کھانے اور بلاشرط ہتھیار ڈالنے کے بعد، اتحادی ،دشمن کے ملک میں داخل ہو ئے اور ان کی بھاری صنعتوں سے لے کر ہر کار آمد چیز کو لوٹ لیا اوردشمن کے معروف افراد اور شخصیات میں سے جسے چاہا پکڑ کر اسے قتل کر ڈالا اوردشمن کے ملک کو جس طرح چاہا اپنے تسلط میں قراردیا اور اب تک کہ اس جنگ کے خاتمہ کو بیس سال گزر چکے ہیں ،ابھی تک ان کی مکمل آزادی کے بارے میں کو ئی خبر تک نہیں ہے اور ابھی تک مشرقی جر منی کی مشکل اپنی جگہ پر باقی ہے ،اور ابھی بھی (سننے کے مطابق )جرمنی کے دانشوروں کی ایک بڑی تعدادسویت یو نین کے زندانوں میں پڑی ہے ۔اتحادیوں نے یہ سب محرو میتیں اور سختیاں صرف جنگ میں شرکت کرنے والے اپنے طاقتور دشمنوں سے روا نہیں رکھیں :بلکہ دشمن کے بچوں اوراس جنگ کے بعد پیدا ہونے والے اطفال جوتدریجاً اب تک نشوونما پارہے ہیں کو بھی پنا غلام قراردیا ہے اور ابھی بھی یہی حالت جاری ہے اورہر گز یہ نہیں کہہ رہے ہیںکہ بڑوں کا گناہ تھا اور بچے اس سلسلہ میں کوئی قصور نہیں رکھتے ہیں ۔

اتحادیوں کا اس سلسلہ میں صرف یہ استدلال ہے کہ،اس رویہ سے وہ اپنی ہستی اور بقاء کی حفاظت کرتے ہیں اورصرف استثنائی شرائط کے پیش نظر دشمن کے بلا شرط ہتھیار ڈالنے پر اس سے صرف نظر کرکے اسے اپنے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے !اور ان کے فرزندوں کو اپنے والدین سے اور ان کی آنے والی نسل کو ان کے اسلاف سے جدا فرض نہیں کیا جاسکتا ہے ،مگر استثنائی شرائط کے پیش نظر۔

یہ ایک ایسا استدلال ہے جو ہمیشہ عالم بشریت میں رائج تھا اور اس کے استناد سے فاتح اپنے شکست خوردہ دشمن سے ارادہ وعمل کی آزادی کو سلب کرتا تھا اور اب بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے اور قطعاًآئندہ بھی ایسا ہی ہو تا رہے گا ،کیو نکہ جانی دشمن کو آزاد نہیں رکھا جا سکتا ،دشمن کو حقیر اوربے چارہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے ۔اب اگر اسلامی قوانین پر توجہ مر کوز کر کے غور کروگے تو دیکھ پائو گے کہ انہی انسانی قوانین اور فطری معاملوں کو اسلام نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں استعمال کیا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ اس کام کو سیاسی زوروزبردستی اور انتہائی بے رحمی اور بز دلانہ صورت میں انجام دیتے ہیں جبکہ اسلام اسے انتہائی صاف گوئی ،صداقت،ہمدردی اور بہادری سے نافذ کرتا ہے ۔

اگراسلام کافرحربی کو قیدی بنانے کے بعدغلام بناتا ہے ،اگر اسلام قیدی بنانے کے بعد غلامی کو منسوخ کر نے کا سبب نہیں جا نتا ہے اور اگر غلاموں کے فرزندوں کو (یہی فرزند کہ آج بیسویں صدی میں بھی اپنے آبء واجداداور ان کے قومی رسو مات کا دم بھر تے ہیں )ان کے والدین کے تابع جانتا ہے ،تو یہ انصاف کے خلاف نہیں ہے ۔اس کے باوجود کہ اسلام نے ان کی آرام وآسائش اور جلدی آزاد کر نے کے لئے ہر ممکن وسائل مہیا کئے ہیں ۔

____________________

١۔تفسیرابوالفتوح رازی ج ٢ص٣٠١

۲۔صدوق توحید : ٢٩ح٣١

انسان کا آدم و ہواسے پیدا ہو نا

سوال :مہم ترین سوالات میں سے ایک مسئلہ یہ ہے جس کے بارے میں تعلیم یافتہ طبقہ سخت اعتراض کرتا ہے اور یہ مسئلہ متدیّن طبقہ کے لئے سب سے بڑی مشکل بنا ہوا ہے اور وہ اصل خلقت کا قضیہ ہے ۔

قرآن مجید واضح طور پر انسان کے جد کو حضرت آدم اور ان کی خلقت کو مٹی سے جانتا ہے ،جبکہ بعض انسان شناس دانشوروں نے ،برسوں کی تحقیق وتجر بہ کے بعداس مسئلہ میںمختلف نظریہ پیش کیا ہے جو کلی طور پرقرآن مجید کے نظریہ سے متفاوت ہے ۔چونکہ ان دانشوروں نے انسانوں اور حیوانوں کے مختلف انواع پر مدتوں آزمائش اور تجربہ کے بعد اپنا یہ نظریہ پیش کیا ہے ،بہر حال امید ہے کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے ۔

جواب :موجودہ انسان کی نسل کے شجرئہ نسب کی ابتداء کے بارے میں دوافرادآدم اور ان کی بیوی کے بارے میں قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے اور قرآن مجید کی آیتیں اس مطلب کے بارے میں صراحت کے نزدیک قوی ظہور رکھتی ہیں ،ایسے کہ قطعی برہان کے بغیرمذکورہ ظہور سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ہم نے اس کے بارے میں تفسیرالمیزان میں سورئہ نساء کی ابتداء میں بحث کی ہے ۔

خلاصہ یہ کہ مربوط علوم سے متعلق دانشوروں نے نوع انسان کی پیدائش کے سلسلہ میں جو اپنا نظریہ پیش کیا ہے کہ،جس سے انسان کی اصل بندر یامچھلی تک پہنچتی ہے ایک علمی فرضیہ (علمی مسائل کی تو جیہ کے لئے فرض کیا جاتا ہے )کے علاوہ کچھ نہیں انہوں نے جن دلائل کو پیش کیا ہے وہ اس سے زیادہ استدلال نہیں کرتی ہیں کہ انسان اور اس کی فرض کی گئی اصل دو طبیعی مخلو قات ہیں ،جو وجوداور وجود کے آثار کی جہت سے آپس میں کامل و ناقص نسبت رکھتے ہیں اور یہ ایک کے دوسرے سے استخراج یا ایک کے دوسرے میں تبدیل ہو نے کے علاوہ ہے ،جس کا دعویٰ تبدّل انواع کے مدعی کرتے ہیں ۔

خاص کر اس لحاظ سے کہ اسلام میں دین کے بیانات فطری منطق کے مطابق ہیں اور علوم مادی کے دانشوراپنے بیانات میں غالباً''آلگوریزم'' ریاضی منطق کی پیروی کرتے ہیں ،چنانچہ وہ کہتے ہیں :بجلی خاص شرائط میں حرکت یا حرارت یامقناطیس میں تبدیل ہوتی ہے اور پانی جب ایک سودرجہ پر ابلتا ہے تو اپنی کمیت کو کیفیت میں تبدیل کرکے بخار بن جاتا ہے مثلاًمساوات کے ایک طرف قرار پایا ہوامثبت عدد دوسری طرف منتقل ہو جانے پرمنفی عدد بن جاتا ہے ۔جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ دانشورانسان کے لئے لاکھوں سال عمر فرض کرتے ہیں ،یہ کسی بھی دین کے منافی نہیں ہے ۔اس کے علاوہ لاکھوں سال پرانے فُسیل اور زمین کے آثار،پیدا ہو نا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتے ہیں کہ اس زمانہ کے انسان اورآج کے انسان ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ،کیو نکہ ممکن ہے اسی زمین پر مختلف ادوارگزرچکے ہوں اور ان میں سے ہر دور میں انسان کی ایک جدانسل وجود میں آئی ہو گی اور ایک عمر گزار نے کے بعدوہ نوع نیست و نابودہوئی ہو گی اور کچھ مدت کے بعدانسان کی ایک اور نسل وجود میں آئی ہوگی ۔چنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ زمین پر انسان کی موجودہ نسل انسا نیت کے ادوار کا آٹھواں دور ہے ۔

علم نفس اور معرفت نفس میں فرق

سوال:علم نفس اور معرفت نفس میں فرق بیان فرمائیے ؟

جواب : عام طور پرعلم نفس اس فن کو کہتے ہیں جس میں نفس اور اس سے مر بو ط مسائل اور اس کی خصوصیتوں کی بحث ہو تی ہے اور معرفت نفس،مشاہدہ کے ذریعہ نفس کی حقیقت کی پہچان کر نے کو کہتے ہیں ۔علم نفس کے ذریعہ نفس کی پہچان ''فکری پہچان ''ہے اور معرفت نفس کے ذریعہ ''شہودی پہچان ''ہے...

معرفت نفس کا مطلب

سوال:کیا معرفت نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس''روح''کومادّہ اور عینی صورت سے ''مجرّد ''مشاہدہ کرے یایہ کہ اس کے علاوہ کوئی اور مطلب ہے ؟بہرحال استدعا ہے کہ شناخت نفس کے بارے میں آیات و روایا ت میں بیان ہو ئے مطلب کی وضاحت فرمائیے ؟

جواب: ''معرفت نفس''کا مطلب وہی پہلا معنی ہے ،یعنی مادّہ سے مجرد نفس کی شہودی شناخت ۔اور جو یہ لکھا گیا ہے کہ ''مادّہ وصورت سے مجردنفس''غلط ہے کیونکہ انسان کا نفس اس کی اپنی صورت ہے اور معرفت نفس کا مطلب وہی ''رب ّ''ہے جو روایتوں میں آیا ہے ۔

عرفان نفس اور معرفت پر وردگارکا رابطہ

سوال :معروف حدیث:''من عرف نفسه فقد عرف ربه'' (۱)

''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیایقینا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔''کے معنی میں (مرحو م سیدعبداللہ شبّرکی کتاب مصابیح الانوار میں )بارہ قول بیان ہوئے ہیں ،عرفان نفس اورربّ کی شناسائی کے درمیان کو ن سا رابطہ ہے ،رابطہ کا سبب بیان فرمائیے؟

جواب:اصل روایت اس طرح ہے :(من عرف نفسه عرف ربه ) اس روایت کے بارے میںجو بارہ معنی بیان ہوئے ہیں ،جیسا کہ مجھے یاد ہے ،ان میں سے کوئی بھی معنی روایت کا دقیق معنی نہیں ہے ،صرف جس صورت کی ''فقد''کی راہ سے توجیہ کی گئی ہے اسے روایت کے ظاہری معنی قرار دیا جا سکتا ہے اور عرفان نفس اور رب کی شناسائی کا رابطہ اس راہ میں ہے کہ نفس مخلوق اور معلول حق تعالےٰ ہے اور حق تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی قسم کی آزادی نہیں رکھتا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے خدا کی طرف سے ہے ،اور اس قسم کی مخلوق کا مشاہدہ حق تعالےٰ کے مشاہدہ کے بغیرممکن نہیں ہے ۔

معرفت اور لقاء ا للہ کا مطلب

سوال: ''اصول کافی ''اور''بصائرالدرجات ''میں ائمہ اطہار علیہم السلام اور ان کے نورانی مقام کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہو ئی ہیں ،ان میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ پر وردگار کی پہلی مخلوقات وہی ہیں ۔اسی طرح دوسری روایتوں اور زیارت جامعہ سے یوں استفادہ ہو تا ہے کہ وہ حضرات علیہم السلام اسما ء اللہ ،وجہ اللہ، یدا للہ،جنب اللہ ہیں ،ان احادیث کے پیش نظرکیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معرفت اور لقاء اللہ کا مطلب وہی معصومین علیہم السلام کی معرفت ہے ؟ جیسا کہ فرمایا ہے :(معرفتی بالنورانیة معرفة اللّه (۲) استدعا ہے کہ ان احادیث اور معرفت پروردگار کے بارے میں واضح احادیث کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟

جواب :معصومین علیہم السلام کی نورایت کا مقام ان کا کمال ہے اور یہ بلند ترین ممکن کمال ہے اور یہ جو بیان ہوا ہے کہ وہ حضرات علیہم السلام اسماء اللہ،وجہ اللہ ،یداللہ جنب اللہ ہیں یہ توحید کی عمیق ترین بحثوں میں سے ایک بحث ہے اور اس کا تفصیلی بیان یہاں پر ممکن نہیں ہے ۔جو کچھ خلاصہ کے طور پر علمی اصطلاح میں پیش کیا جا سکتا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ حضرات علیہم السلام اسماء اور صفات خداوند ی کے مکمل مظہر ہیں، وہ صاحب ولایت کلیہّ اور فیض الہیٰ کے چشمے ہیں ،ان کی شناخت خدائے متعال کی شناخت ہے ۔

نفس کی معرفت خدا کی معرفت کی کنجی ہے

سوال:چنانچہ مرحوم مرزا جواد آقا ملکی کے ''رسالئہ لقائیہّ''میں درج ہے کہ معرفت نفس میں فکر،معرفت خدا کی کلید ہے ۔اس کے پیش نظر کہ نفس مجردات میں سے ہے کیا فکر مجرّدات تک پہنچ سکتی ہے یا نہیں ؟اس کے امکان کی صورت میں ،استدعا ہے کہ فکر کی راہ کے بارے میں اس رسالہ میں جو کچھ درج ہوا ہے ،اس سے واضح تربیان فرمائیے ؟

جواب :فکر مجرّدات تک پہنچ سکتی ہے جیسے مادیات میں پہنچتی ہے ۔فلسفہ مجرّدات کے بارے میں بہت سے مسائل حل ہوئے ہیں ،لیکن یہاں پر فکر کا مطلب اس کے معروف معنی کے علاوہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خلوت اور شوروشر سے دور جگہ پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے اپنی صورت پر توجہ کیا جائے ،اس شخص کے مانند جو شیشہ میں اپنی صورت کو دیکھتا ہے اور وہ اس کے ذہن میں پیداہو نے والی ہر شکل وصورت سے ہٹ کرصرف اپنی صورت کو دیکھتا ہے ۔

دومطالب کی وضاحت

سوال :''رسالہ لقائیہ'' میں دو مطالب ذکر ہوئے ہیں پہلامطلب:''معرفت نفس''میں فکر کے بارے میں فرماتا ہے :

''اشتغل المتفکر تارة لتجزیة نفسه،واخریٰ لتجزیة العالم حتی یتحقق له ان ما یعلمه من العالم لیس الا نفسه وعالمه لا العالم الخارجی وان هذه العوالم المعلومة له انمّا هو مر تبة من نفس''

اس عبارت کے کیا معنی ہیں اور اس کا مقصود کیا ہے ؟

دوسرامطلب:بعد میں فرماتے ہیں :''ہر صورت و خیال کو جب اس کادل نفی کرے توپھر عدم میں فکر کرے ''نفی اور عدم میں فکر کا مقصود کیا ہے ؟استدعا ہے کہ ان دونوں عبارتوں کے مقصود کو واضح تر بیان فرمائیے ؟

جواب:عربی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قائم ہوئے برہان کے مطابق انسان ہمیشہ اپنے آپ کو تلقین کرے اور جان لے جو کچھ اپنے اور اپنے بیرونی عالم کے بارے میں درک کرتا ہے ،اسے اپنے اندر درک کر کے پاتا ہے ،نہ یہ کہ بیرونی عالم نے خود پایا ہو۔خیالی صورتوں کی نفی کا مطلب ،ان سے اجتناب کر کے صرف اپنی صورت پر اپنے دل کی نظر ڈالتا ہے اور عدم میں فکر کا مطلب اپنی صورت کی طرف فکر کرنا ہے کہ جس کا وجود مجازی ہے اور حقیقت میں عدم ہے ۔

خود شناسی کے مقام پر فائز ہونا

سوال : کیا غیر شیعہ اور غیر مسلم ،اپنے مذہب سے مربوط عبادتوں اور ریاضتوں کے نتیجہ میں ''خودشناسی'' کے مقام تک پہنچ سکتے ہیں ؟ممکن ہو نے کی صورت میں مسلّم ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا ،اس نے خدا کو پہچانا اور نتیجہ کے طور پر دین مقدس اسلام کے مقصد یعنی توحید تک پہنچا ہے اور اس طرح اسلام کے علاوہ دوسرے راستہ سے مقصد تک پہنچاہے ،کیا یہ فرض ممکن ہے یا نہیں ؟

جواب:بعض دانشوراس فرض کو ممکن جانتے ہیں ،لیکن کتاب وسنت کے اصلی مدارک و اسناد کے ظواہر ،اس فرض کے بارے میں موافق نہیں ہیں ،مگر یہ کہ مقدمات میں جیسا کمزورفرضی مجاہد فرض کریں ۔

خداکی یاد کا مقصود کیا ہے ؟

سوال: قرآن مجید کی آیات میں امر کئے گئے ''خدا کی یادمیں ہونے''کا مقصود کیاہ ہے ؟کیا خداکی یاد ،اولیائے خدا کی یاد اور خدا کی نعمتوں کی یاد ہے یا نہیں ؟''ذکراللہ'' کے مقصود کو بیان فرمائیے؟

جواب: یاد کرنے کا معنی واضح ہے اور خدا کو یاد کر نے کا مقصودہر کام کے انجا م دینے اور اسے ترک کر نے کی ابتداء میں خداکی مرضی کے مطابق اسے یاد کر نا ہے ،اس سے بڑھ کر ہمیشہ خدا کے حضورمیں اپنے آپ کو دیکھناہے اور اس سے بلند تراپنے سامنے خدا کو اس طرح دیکھنا ہے جو ذات اقدس خدا کو دیکھنے کا حق ہے

____________________

١۔مصباح١لشریعہ١٣

۲۔(بحارالانوار١٢٦)