دوسرا حصہ:
علمی ،فلسفی مسائل
حدوث عالم پر برہان
سوال :امام علیہ السلام سے سوال کیاگیا کہ آپ کے پاس حدوث عالم کے بارے میں کونسی دلیل ہے ؟
امام فرماتے ہیں :انڈے پر توجہ کیجئے کہ دو مختلف رقیق چیزوں سے بنا ہے اور اس سے نر ومادہ کی صورت میں مختلف چوزے پیدا ہو تے ہیں اور حدوث عالم پریہی دلیل ہے ۔سائل خاموش ہوتا ہے ۔امام کا یہ بیان حدوث عالم پر کونسی دلیل رکھتا ہے؟
جواب: انڈا دومختلف رقیق چیزوں کا مرکب ہے اور اس سے نرو مادہ اور مختلف چوزوں کی پیدائش کائنات کے حادث ،یعنی مخلوق ہونے اوراس کے کسی مافوق علت کی طرف مستند ہونے پردلیل ہے کیو نکہ ان مختلف (چیزوں کی) صورتوں اورشکلوں میں گونا گوں آثارکے ظاہر ہو نے کو وہم وگمان اور جھوٹا فرض کر کے غلط نہیں بتایا جاسکتا ہے یاکہا جائے یہ سب سفسطہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقتیں ہیں جوہرایک اپنے طور پر مختلف انفرادیتوں ،آثاراور خصو صیتوں پر مشتمل ہیں اور ان کے درمیان موجود جو انتہائی منظم رابطہ اور حیرت انگیز نظام کے پیش نظر ان کی پیدائش کو اتفاقی حادثہ اور بدون سبب وعلّت فرض نہیں کیا جاسکتا ہے ،بلکہ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جو سبب کے موجودہونے کے لئے استناد رکھتی ہیں اور ان میںاختلاف کے حقیقی ہونے کے سبب انھیں کسی یکساں اور کسی قسم کا اختلاف نہ رکھنے والے مادّہ کا معلول نہیں جاننا چاہئے ۔اور اگر مادہ میں اختلاف ترکیب یا اختلاف حرکت فرض کریں،تواب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ اختلاف ترکیب یا اختلاف حرکت کہاں سے پیدا ہوئی ہیں ؟
لہذا ناچار ،ان شکل و صورتوں اورآثار کے ذاتی اختلاف کو مادہ اور مادی دنیا سے بلند تر علّت وسبب سے نسبت دینی چاہئے اور نتیجہ کے طور پر انڈے کواور اس پر مرتب ہونے والے تمام آثار اوراس کی مختلف ترکیبوں کو حادث اورکسی دوسری علّت کا نتیجہ جاننا چاہئے ۔اور یہی خصوصیت جو ہم انڈے میں پاتے ہیں کائنات کی دوسری تمام مخلو قات میں پائی جاتی ہے اورحتیٰ کہ،مادّہ جو وجودمیںآنے کے لئے شکل و صورت کا محتاج ہے اورنتیجةً وسیع تر نظام کے ساتھ حادث ہے اور علت کی محتاج ہے ۔
دوسرے انبیاء علیہم السلام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت
سوال :کیا قرآن مجید میں آیہ خاتم کے علاوہ کوئی دوسری آیت موجود ہے جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت اور دوسرے پیغمبروں پر آپ کی فضلیت ثابت ہوتی ہو ؟
جواب :جس طرح آیہ شریفہ :
(
ولکن رسول اللّٰه وخاتم النبیین
)
(احزاب ٤٠)
خاتمیت پر دلالت کرتی ہے ،اسی طرح کچھ آیتیں دین اسلام کے عام اور ابدی ہونے پردلالت کرتی ہیں ،جیسے :
(
وُوحی الیِّ هذاالقرآن لنذرکم به ومن بَلغ
)
(انعام ١٩)
''اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جس شخص تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈرائوں ...''
اور آیہ شریفہ :
(
وانه لکتاب عزیزلیتیه الباطل من بین یدیه ولامن خلفه
)
(فصلّت٤١۔٤٢)
''...اوریہ ایک عالی مرتبہ کتا ب ہے ،جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آنہیں سکتا ہے ۔''
کیونکہ کسی دین کی عمر اور دوام ،مذکورہ دین کو لانے والے کی خاتمیت کے بغیر قابل تصور نہیں ہے ۔
اسی طرح جو آیتیں دوسری آسمانی کتا بوں کی نسبت قرآن مجید کی افضیلت کی دلالت پیش کرتی ہیں ،حسب ذیل ہیں :
(
ونزّلنا علیک الکتب تبیاناًلکل شئ
)
(نحل٨٩)
''...اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے ...''
اورآیہ شریفہ :
(
ونزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه من الکتاب ومهیمناً علیه
)
(مائدہ٤٨)
''اور اے پیغمبر!ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی مصدق اورمحافظ ہے لہذا آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں ...''
اورآیہ شریفہ :
(
شرع لکم من الدّین ماوصّی به نوحاًوالّذی اوحینا الیک وما وصّینا به ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ
)
(شوریٰ١٣)
''اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اورجس کی وحی پیغمبر!تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراھیم ،موسی اور عیسی کو بھی کی ہے ...''
مذکورہ آیتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضلیت پر بھی دلالت کرتی ہیں ،کیونکہ قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا حصہ ہو نے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ،اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر ومنزلت کا توازن آپ کی دعوت کی قدر وقیمت ہے ۔
اہل توحید کی شفاعت
سوال:علاّمہ مجلسی کی کتاب ''توحید''میں ،مو حدین کے حالات کے ضمن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے:(
وان اهل التوحید لیشفعون فیشفعون
)
(زخرف٨٦)
بیان فرمایئے کہ اہل توحیدکن لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں ،غیر موحدین کی شفاعت کرنا تو ممکن نہیں ہے اور خود موحدین کی شفاعت کرنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ موحدین خود شفاعت کرنے والے ہیں ،پس یہ کن کی شفاعت کرتے ہیں ؟
جواب روایت (وان اهل التوحید لیشفعون فیشفعون
)
کے مند رجہ ذیل دو معنی میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے :
یا اہل توحید سے مقصودموحدّین میںسے سب سے کامل اور سب سے بڑے علماء ہیں ،اس کی دلالت مندرجہ ذیل دوآیات کریمہ پیش کرتی ہیں :
(
ولا یملک الّذین یدعون من دونه الشفاعة الّامن شهد بالحق وهم یعلمون
)
(زخرف٨٦)
''اور اس کے علاوہ جنھیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سفارش کابھی اختیار نہیں رکھتے ہیں مگر وہ جو سمجھ بوجھ کر حق کی گواہی دینے والے ہیں ۔''
اور آیہ شریفہ :
(
لّا من ذن له الرّحمٰن وقال صوابا
)
(نباء ٣٨)
''...علاوہ اس کے جسے رحمان اجازت دیدے اور ٹھیک ٹھیک بات کرے ۔''
یا اس کا معنی یہ ہے کہ، موحدین، مستضف لوگوں کی شفاعت کرین گے، موحدین،جن کے حق میں خدائے متعال فرماتا ہے :
(
وآخرون مرجون لمراللّه امّا یعذّبهم و امّا یتوب علیهم
)
(توبہ ١٠٦)
''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں حکم خداکی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کر لے گا ...''
اور بظاہروکمزورطبقہ لوگوںکی اکثریت کو تشکیل دیتا ہے۔
اسلام میں غلامی کی توجیہ
سوال:گزشتہ سوالات میں اسلام میں غلامی وبندگی کے جاری رہنے کے بارے میں سوال ہوا تھا جس کا آپ نے مختصر اور اجمالی جوا ب دے دیا اور مکمل جواب کے لئے تفسیرالمیزان کی چھٹی جلد کی طرف رجوع کر نے کو فرمایا تھا ،جبکہ تفسیر المیزان میں حقیر کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے ۔
میں نے سوال کیاہے کہ اگر اسلام کے اوائل میں کچھ مصلحتوں کی بناپر غلامی کو جائز قرار دیا گیا ہے ،لیکن یہ جانتے ہو ئے کہ انسان کی فکر ترقی اور ارتقاء کی طرف بڑھ رہی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب بشریت غلامی کو قبیح سمجھ لے گی اور عقل کی روسے بھی قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ لوگ کچھ دوسرے لو گوں کو اپنا استعمار بنا کران کی ہر قسم کی آزادی کوچھین لیں اور بعض عبادی مسا ئل یا دوسرے جوانب سے کیوں غلام کو پست اور حقیرقرار دیا گیا ہے ؟اسی طرح اگر کفار کو اس لئے غلام بناتے تھے تاکہ اسلام کے ماحول میں تربیت حا صل کریں ،تو ان کی اولاد کیوں ان کے والدین کی تبعیت میں غلام بن گئیں ،اگر چہ وہ مسلمان بھی ہو تے ؟
اگر آپ فرمائیں گے کہ اسلام نے ان کی آزادی کے لئے بہت سے راستے بتائے ہیں ،تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ یہ موضوع غلامی کے اصل جواز کے بارے میں اعتراض کو دور نہیں کرتا؟
جواب :آپ نے لکھا ہے کہ اسلام میں غلامی کے اعتراض کے جواب کے بارے میں المیزان کی چٹھی جلد کی طرف رجوع کرنے کو کہا تھا جبکہ مذکورہ تفسیر میں اس اعتراض کا جواب نہیں دیا گیا ہے ،مختصر یہ کہ انسان کو مکمل ہونے والی عقل کسی کو غلا م بنانے اور اس کی مطلق آزادی کو سلب کرنے کو قبیح جانتی ہے اور عقل کی روسے بھی یہ قابل قبول نہیں ہے ،اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کفار کو اس لئے غلام بناتاتھا تاکہ اسلام کے ماحول میں ان کی تربیت کی جائے تو ہم یہ کہیں گے :ان کی اولاد کا کیا قصور اور گناہ ہے کہ اسلام قبول کر نے کے بعد بھی غلامی کی حالت میں باقی رہیں ؟اور اگر یہ کہا جائے کہ اسلام نے ان کی آزادی کے لئے ایک طریقہ کار معین کیا ہے تو ہم کہیں گے :اعتراض اس کے غلام بننے کے بعداس کی اصلی غلامی کے جاری رہنے میں ہے
لگتا ہے کہ تفسیر میں درج کی گئی بحث پر مکمل توجہ نہیں کی گئی ہے ،لہذا ناچار ہم پھر سے اس کی وضاحت کرتے ہیں :
سب سے پہلے اصولاً جانناچاہئے کہ : اگر چہ انسا ن اختیار کی صفت کے مطابق آزادخلق کیا گیا ہے ،لیکن اس کے لئے مطلق آزادی کا ہر گز تصور نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جو انسان فطری طور پر سماج میں ، معاشرہ کے تحفظ کے قوانین وضوابط کی قہراًرعایت کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہو ،وہ مطلق العنان اور ہر خواہش کے سلسلہ میں سر گرم عمل نہیں ہو سکتا ہے ۔لہذا انسان کی آزادی بہر حال قوانین اور ضوابط کے دائرہ میں محدود ہوتی ہے
دوسرے الفاظ میں انسان فی الجملہ آزاد ہے نہ بالجملہ یعنی مکمل طور پر آزادنہیں ہے ۔معاشرہ کے عام اور متوسط افراد بعض مواقع اور قوانین کے مطابق ہر قسم کا کام انجام دینے کی آزادی نہیں رکھتے ہیں اور کچھ افراد کی آزادی بعض شرائط کے تحت سلب کی جاتی ہے ۔
دیوانہ ،بیوقوف اور بچوں کو ہر کام انجام دینے کی آزادی نہیں دی جا سکتی ہے ،جانی دشمن اور لاابالی مجرم کو ہر قسم کی آزادی نہیں دی جا سکتی ہے ۔
دوسرے یہ:حقیقت میں غلامی ،بندگی اور ان کے مانند مسائل پر جھگڑا نہیں ہے بلکہ ان کے معنی میں نزاع ہے ،خواہ ان کے ساتھ غلامی کا نام ہو یا نہ ہو ۔
غلامی کی حقیقت کا مطلب ارادہ وعمل کی آزادی کا سلب کرنا ہے اور واضح ہے کہ جسے ارادہ و عمل میں آزادی نہ ہو ،اس کا ارادہ و عمل کسی دوسرے کے اختیار میں ہو گا ،اسی لئے غلاموں کو خرید و فروخت کیا جاتا تھا ۔
گزشتہ اقوام میں غلامی مندرجہ ذیل چار صورتوں میں رائج تھی:
١۔خاندان کا سر پرست اپنے ماتحت لڑکی اور لڑکے کو بیچ سکتا تھا ۔
٢۔مرد،کبھی اپنی بیوی کو بیچتا تھا،اور کبھی کرایہ یا ادھار دیتا تھا یا اسے کسی کو بخش دیتا تھا۔
٣۔ایک قبیلہ کا سردار ،اپنی قدرت کے بل بوتے اور استناد پر جسے بھی چاہتا اسے اپنا غلام وبندہ بنا سکتا تھا ،چنانچہ پادشاہوں کو ''مالک الرقاب''(غلاموں کے مالک)کہا جاتا تھا ۔
٤۔ دومتخاصم گروہوں میں سے جنگ میں فتح حاصل کر نے والا گروہ اگر اپنے جانی دشمن کو زندہ پکڑتا تھا ،وہ اسے اپنا غلام بنا سکتا تھا اور اسے مار سکتا تھا یا بیچ سکتا تھا ۔
اسلام نے غلام کی مذکورہ چار قسموں میں سے پہلے تین قسموں کو منسوخ کر دیا ہے اور اولاد کی نسبت والدین کے حقوق کو محدود کر کے اور اسی طرح شوہر کے حقوق کو بیوی کی نسبت محدود کر کے یا عادل اسلامی حکومت کی طاقت سے اس قسم کی غلامی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ،لیکن غلامی کی چوتھی قسم کی تصدیق کی ہے اور اس کی تائید نہ کر نا ممکن نہیں تھا ،کیو نکہ اسلام ایک فطری دین ہے اور یہ عین فطرت کے حکم کے مطابق ہے ۔کسی ایسے فردیا معاشرہ کو نہیں پایا جاسکتا ہے ،جو اس کی ہستی اور وجودیا اس کے مقدسات کو نیست و نا بود کر نے والے دشمن کے مقا بلہ میں خاموش تما شائی بن کر بیٹھے اور اپنی ہستی کا دفاع نہ کرے جو اس کے دشمن کی نابودی پر منحصر ہے یا دشمن پر فتح پانے کے بعدصرف اسی فتحیابی کے نام پر اکتفا کر کے اپنے دشمن کو دوبارہ اس کے ارادہ وعمل پر آزاد رکھے اور اس کے ارادہ و عمل کو سلب نہ کر ے (جو وہی غلامی ہے )،مگر یہ کہ عفو و بخشش کے لئے کچھ تقاضے اور عوامل پیدا ہو ں ،جہاں تک انسان ہے اور ہو گا اس کی خداداد فطرت یہی حکم کرے گی ۔
لیکن جو آپ نے لکھا ہے کہ عقل کے مطابق یہ قابل قبول نہیں ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کو استعمار کر کے اس کی ہر قسم کی آزادی کو سلب کرے ۔یہ بیان صرف غلامی کی پہلی تین قسموں پر لاگو ہے اور مذکورہ وضاحت کے پیش نظر چوتھی قسم پر لا گو نہیں ہو سکتا ہے ۔
لیکن جو آپ نے لکھا ہے کہ آج کی ترقی یافتہ فکر ،غلامی کو قبیح جانتی ہے ،اس بیان کا معنی (اگر چہ جنا ب عالی نے ارادہ بھی نہ کیا ہوگا )یہ ہے کہ متمدن دنیا یعنی مغربی دنیا سلب آزادی کو قبیح جانتی ہے ،چنانچہ تقریباًاسی سال پہلے بڑی کوششوں اور جدو جہد کے بعد انہوں نے عام غلامی کو منسوخ کر نے کا اعلان کیا ہے اور اس طرح ان کے بقول: عالم بشریت کو ایک ننگ سے نجات دے کر دنیا کے لوگوں ،حتی مسلمانوں پر ـجن کا دین اس کی اجازت دیتا تھا ـمنت رکھی ہے ،لیکن دقّت اور صحیح طور پر توجہ کر نی چاہئے کہ ان انسان دوست مترقی حکومتوں نے غلامی کو منسوخ کر نے کے اس قانون کو کس قدر نافذ کیا ہے ؟!
جی ہاں ! انہوں نے غلامی کی پہلی قسم (فرزند فروشی اور عورت فروشی ) کو منسوخ کیا ہے ،جو افریقہ اور اس کے بعض اطراف میں رائج تھی جبکہ اسلام نے بارہ سو سال پہلے اسے منسوخ کیا تھا ،لیکن کیا غلامی کی تیسری قسم کو بھی ان ترقی یافتہ حکومتوں نے منسوخ کیا ہے ،جسے اسلام نے منسوخ کیا تھا ؟اور کیا ایشیا اور افریقہ وغیرہ میں رہنے والے کروڑوں اقوام ا ور ملتیں جو صدیوں سے ان کے استعمار اور تسلط میں ہیں ان کے غلام (ارادہ وعمل کے احساس سے محروم )نہیں ہیں ؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ غلامی کا نام نہیں لیا جاتا ہے ،بلکہ جو برتائو گزشتہ زما نے میں ایک فرد سے کیا جاتا تھا وہ آج مجموعی طور پر ایک سماج سے کیا جا تا ہے !جی ہاں! حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ حکومتیں ،دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی بعض نو آبادیوں کو تدریجاً۔۔ان کے اپنے بقول :سیاسی شعور پیدا کرتے ہیں ۔۔آزادی دے رہے ہیں ۔لیکن کیا یہی آزادی اور استقلال بخشنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ متمدن انسان آزادی کو اپنی ملکیت جانتے ہیں ؟اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ، جو قومیں ان کے بقول وحشی اور پسماندہ ہیں ارادہ وعمل کی آزادی کا حق نہیں رکھتی ہیں ،یعنی جب تک زندہ ہیں اپنے آقائوں اورتہذیب کے قافلہ سالاروں کے غلام اور بندے ہیں ۔
اس کے علاوہ کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس استقلال وآزادی کا کیا معنی ہے اور یہ نام اور شکل وصورت کے بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،ان ترقی یافتہ انسانوں کی غلامی کو سات سمندر کے پانی سے بھی دھویا نہیں جاسکتا ۔
اسی طرح غلامی کی چوتھی قسم (جنگی قیدیوں اور جنگ میں شکست کھانے والوں کی آزادی کو سلب کر نے) کے بارے میں ان لوگوں نے کیا رویّے اختیارکئے ہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد پیش آنے والے حالات پر تھوڑی سی تحقیق اور غور کر نے سے یہ عقدہ حل ہو تا ہے ۔
حریف کے شکست کھانے اور بلاشرط ہتھیار ڈالنے کے بعد، اتحادی ،دشمن کے ملک میں داخل ہو ئے اور ان کی بھاری صنعتوں سے لے کر ہر کار آمد چیز کو لوٹ لیا اوردشمن کے معروف افراد اور شخصیات میں سے جسے چاہا پکڑ کر اسے قتل کر ڈالا اوردشمن کے ملک کو جس طرح چاہا اپنے تسلط میں قراردیا اور اب تک کہ اس جنگ کے خاتمہ کو بیس سال گزر چکے ہیں ،ابھی تک ان کی مکمل آزادی کے بارے میں کو ئی خبر تک نہیں ہے اور ابھی تک مشرقی جر منی کی مشکل اپنی جگہ پر باقی ہے ،اور ابھی بھی (سننے کے مطابق )جرمنی کے دانشوروں کی ایک بڑی تعدادسویت یو نین کے زندانوں میں پڑی ہے ۔اتحادیوں نے یہ سب محرو میتیں اور سختیاں صرف جنگ میں شرکت کرنے والے اپنے طاقتور دشمنوں سے روا نہیں رکھیں :بلکہ دشمن کے بچوں اوراس جنگ کے بعد پیدا ہونے والے اطفال جوتدریجاً اب تک نشوونما پارہے ہیں کو بھی پنا غلام قراردیا ہے اور ابھی بھی یہی حالت جاری ہے اورہر گز یہ نہیں کہہ رہے ہیںکہ بڑوں کا گناہ تھا اور بچے اس سلسلہ میں کوئی قصور نہیں رکھتے ہیں ۔
اتحادیوں کا اس سلسلہ میں صرف یہ استدلال ہے کہ،اس رویہ سے وہ اپنی ہستی اور بقاء کی حفاظت کرتے ہیں اورصرف استثنائی شرائط کے پیش نظر دشمن کے بلا شرط ہتھیار ڈالنے پر اس سے صرف نظر کرکے اسے اپنے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے !اور ان کے فرزندوں کو اپنے والدین سے اور ان کی آنے والی نسل کو ان کے اسلاف سے جدا فرض نہیں کیا جاسکتا ہے ،مگر استثنائی شرائط کے پیش نظر۔
یہ ایک ایسا استدلال ہے جو ہمیشہ عالم بشریت میں رائج تھا اور اس کے استناد سے فاتح اپنے شکست خوردہ دشمن سے ارادہ وعمل کی آزادی کو سلب کرتا تھا اور اب بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے اور قطعاًآئندہ بھی ایسا ہی ہو تا رہے گا ،کیو نکہ جانی دشمن کو آزاد نہیں رکھا جا سکتا ،دشمن کو حقیر اوربے چارہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے ۔اب اگر اسلامی قوانین پر توجہ مر کوز کر کے غور کروگے تو دیکھ پائو گے کہ انہی انسانی قوانین اور فطری معاملوں کو اسلام نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں استعمال کیا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ اس کام کو سیاسی زوروزبردستی اور انتہائی بے رحمی اور بز دلانہ صورت میں انجام دیتے ہیں جبکہ اسلام اسے انتہائی صاف گوئی ،صداقت،ہمدردی اور بہادری سے نافذ کرتا ہے ۔
اگراسلام کافرحربی کو قیدی بنانے کے بعدغلام بناتا ہے ،اگر اسلام قیدی بنانے کے بعد غلامی کو منسوخ کر نے کا سبب نہیں جا نتا ہے اور اگر غلاموں کے فرزندوں کو (یہی فرزند کہ آج بیسویں صدی میں بھی اپنے آبء واجداداور ان کے قومی رسو مات کا دم بھر تے ہیں )ان کے والدین کے تابع جانتا ہے ،تو یہ انصاف کے خلاف نہیں ہے ۔اس کے باوجود کہ اسلام نے ان کی آرام وآسائش اور جلدی آزاد کر نے کے لئے ہر ممکن وسائل مہیا کئے ہیں ۔
____________________