یونانی فلسفہ کے ترجمہ کا مقصد
سوال:کیا یونانی فلسفہ ''الٰھیات''جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی چند صدیاں گزرنے کے بعد یونانی کتا بوں کے عربی میں ترجمہ کئے جانے کے نتیجہ میں مسلمانوں کے معاشرہ میں داخل ہوا ،صرف اس لئے تھا کہ مسلمان بیرونی ممالک کے علوم سے آشنا ہو جائیں یایہ کہ لوگوں کو اہل بیت رسولکی طرف رجوع کرنے سے روکنے کا ایک بہانہ تھا ؟
جواب:دوسری اورتیسری صدی ہجری میں نہ صرف یونانی الٰہیات کا عربی میں تر جمہ ہوا ہے بلکہ بہت سے علوم ،جیسے :منطق، علوم طبیعی ،علوم ریاضی اور طب وغیرہ بھی یونانی ،سر یانی اور دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے ہیں ،لہذا جبکہ پہلی صدی ہجری میں خلفائے وقت کے حکم سے قرآن مجید کے لکھے جانے کے علاوہ ہر چیز،حتی حدیث اورتفسیر لکھنے پر بھی زبردست ممانعت تھی ،تاریخ شاہد ہے کہ،بہت سی کتابیں (اطلاع کے مطابق تقریباًدوسو کتابیں )ا س وقت کی دنیا میں مختلف علوم کے بارے میں رائج تھیں ،تر جمہ ہوئی ہیں ۔ظاہراً یہ کام ملت اسلامیہ کی بنیادوں کو مستحکم بنانے اور دینی مقاصد کو عملی صورت دینے کی غرض سے انجام پایا ہے ،چنانچہ قرآن مجید خلقت کے تمام ابعاد،آسمانی اورزمینی مخلوقات اور انسان و حیوان کے بارے میں تعقل وتفکرکرنے کی تاکید کرتا ہے اور اس کے مطابق مسلمانوں کو مختلف علوم کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئے ۔
اسی دوران ،وقت کی حکومتیں ائمہ ھدیٰ کو ـ جن سے وہ دوری اختیارکر چکے تھے ـ ہر طریقے سے سر کوب کرنے اور لوگوں کو ان کے علوم سے استفادہ نہ کرنے اور ان کی طرف رجوع کرنے سے روکنے کے لئے کوئی کسر باقی نہ رکھی ہے اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ الٰہیات کا ترجمہ اہل بیت علیہم السلام کے گھر کو بند کر نے کے لئے انجام دیا گیا تھا ۔
لیکن کیا وقت کی حکومتوں کے الٰہیات کے ترجمہ اور ترویج سے نا جائز فائدہ اٹھانے کا یہ مقصود،ہمیں ان بحثوں سے بے نیاز کر کے اس امر کا سبب بن سکتا ہے کہ ہم اس کام سے پرہیز کریں ؟
خودالٰہیات ،محض عقلی بحثوں کا ایک مجمو عہ ہے جن کا نتیجہ صانع ،اس کا واجب الوجود ،وحدانیت اور اس کے دیگر صفات کمال کو ثابت کرنا اور نبوت ومعادسے اس کے وجود کی ضرورت کو ثابت کرنا ہے ۔اور یہ ایسے مسائل ہیں جو ''اصول دین '' کے نام پر ابتدا ء میں عقل کی راہ سے ثابت ہونے چاہئیں جب تک کتاب وسنت کی تفصیلی دلیل حاصل ہو جائے ،ورنہ کتاب وسنت کی حجت کا کتاب وسنت سے ہی استدلال کرنا گردشی اور باطل ہے ۔حتی جو مسائل اصول دین کے بارے میں ،جیسے وجود خدا ،وحدانیت اور اس کی ربوبیت کے سلسلہ میں کتاب وسنت میں بیان ہوئے ہیں ،ان سب کاعقل سے استدلال کیاگیا ہے ۔
یونانی فلسفہ سے اسلامی معارف کی بے نیازی
سوال: کیا یونانی فلسفہ (الٰہیات)جو کچھ اپنے ہمراہ لایا ہے ،اسلام کے متن اورمعصومین علیہم السلام کی فرمائشات میں موجودہے یانہیں ؟چنانچہ اگر وہ مطالب موجودہیں توفلسفہ کی کیا ضرورت ہے اور اگر موجود نہیں ہیں تو معلوم ہواکہ یونانی فلسفہ معارف اسلامی کے مکمل ہونے کا سبب بناہے ؟!
جواب:دینی بیانات اور کتاب وسنت کے مشتملات میں تمام ا عتقادی و عملی معارف اجمالاًیا تفصیلاًموجود ہیں ،لیکن اس کے پیش نظر کہ دین کے مخاطب دنیا کے تمام لوگ ،مشمول عالم وجاہل ،ذہین اور کندذہن ،شہری اور دیہاتی اور مردو زن ہیں اس لئے دین ایک ایسی زبان سے گفتگو کرتا ہے تاکہ ہر ذہن ـان کے درمیان موجوداختلاف کے باوجود ـاپنی ظرفیت کے مطابق اس سے استفادہ کرسکے ۔اس صورت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ان ہی معارف کے بارے میں بلند سطح میں بحث کر کے ،ان کے عالی افہام سے مخصوص مطالب کو حاصل کر کے انھیں استخراج کر سکتے ہیں اور مطالب کو تر تیب دینے اور مسائل کو منظم کر کے اصطلاحات کے ایک سلسلہ کو وضع کر نے کے علاوہ کوئی چارہ اور گریز نہیں ہے ۔
لہذاکتاب وسنت کے متن میں الٰہیات کے مسائل اور معارف کا موجودہو نا، ان مسائل کے بارے میں عالی سطح پر ایک خاص علم کو وضع کر نے سے بے نیاز نہیں بن سکتا ہے ،کیونکہ دوسرے علوم میں بھی یہی حالت ہے ،مثلاًعلم کلام ایک ایسا علم ہے کہ اس کے مسائل کتاب وسنت میں موجود ہیں ،جبکہ مستقل طور پر اور الگ سے بھی منظم کئے گئے ہیں اور ان مسائل کا کتاب وسنت میں موجود ہونا انھیں الگ سے منظم کئے جانے سے بے نیاز نہیں کرتا ۔
اوریہ کہ سوال میں کہا گیا ہے :''اگر الٰہیات کے بعض مسائل کتاب وسنت کے متن میں موجود نہ ہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفہ معارف اسلامی کو مکمل کرتا ہے !''یعنی اسلام ناقص ہے اور اس کے نواقص کو فلسفہ دور کرتا ہے ،یہ ایک اشتباہ ہے ،اس دلیل سے کہ ہم اسلام کے حقیقی معارف میں سے حتی ایک مسئلہ کو بھی منطق کی مدد کے بغیر ثابت نہیں کرسکتے ہیں ،جب کہ کتاب وسنت کے متن میں منطقی مسائل ذکر نہیں ہوئے ہیں اور اسی طرح دین کے فرعی مسائل (احکام) میں سے حتی ایک مسئلہ کو بھی علم اصول سے استفادہ کئے بغیر استنباط نہیں کرسکتے ہیں ،جبکہ کتاب وسنت کے متن میں اس وسیع علم کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہے ،معارف اسلامی کے سلسلہ میں منطق اور فقہی مسائل کے بارے میں علم اصول کاطریقہ ہے اور طریقہ ،مکمل اورتکمیل میں فرق ہے ۔
عصر ملاصدرا میں فلسفہ کا عروج
سوال:صدیوں بعد شیعوں کی پائدار کوششوںکے نتیجہ میں فلسفہ(ملاصدراشیرازی کے زمانہ میں)عروج تک پہنچا ،کیا جوکچھ مرحوم ملاصدرا نے اپنی کتاب ''اسفار''میں لکھا ہے ،اسے آیات وروایات کے متون سے ثابت کیا جا سکتا ہے یایہ کہ آیات وروایات کو صرف اس پر منطبق کیا جاسکتا ہے ؟
جواب :یہ جو ہم کہتے ہیں :فلسفہ اپنے عروج تک پہنچا ہے ،اس کا یہ معنی ہے کہ حا لیہ فلسفی مباحث گزشتہ بحثوں کے مقابلہ میں حقیقت کے معارف کے مناسب ایک عالی سطح پرقرار پائے ہیں ،نہ یہ کہ فلسفی کتابوں کے مضامین جیسے ''اسفار''''منظومہ'' وغیرہ حقیقی متن ،وحی منزل اور ہر خطا اور اشتباہ سے پاک ہوں ،ایسا نہیں ہے بلکہ مذکورہ کتابیں چونکہ صحیح ہیں ممکن ہے ان میں غلطی بھی ہو ۔بہر حال محقّق برہان ہے نہ صاحبان سخن کی شخصیت۔
قرآن مجیداورکلام معصومین (ع)سے حکماء اورفلاسفہ کے بیان کارابطہ
سوال: اگرفلسفہ،(الٰہیات)کاآیات اورروایات سے تعبیر میں اختلاف کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے تو پروردگاراورائمہ اطہارعلیہم السلام نے جو کچھ تعبیر کے طور پرفرمایا ہے وہ کامل واکمل ہے ،پھرحکماء اورفلا سفہ کی تعبیرات کی کیاضرورت ہے؟
جواب:اگرہم یہ کہیں کہ فلسفہ اورآیات وروایات میں تعبیر میں اختلاف کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے ،تومطلب (جیسا کہ دوسرے سوال کے جواب میںکہا گیا )یہ ہے کہ کتاب وسنت میں پائے جانے والے حقیقی معارف فنّی اور علمی اصطلاحات کی زبان میں عقلی بحثوں کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں اور ان دومرحلوں کے درمیان فرق وہی عمومی اور سادہ زبان اور فنّی اور خصوصی زبان کا فرق ہے ،نہ یہ کہ دینی بیانات فصیح وبلیغ ترہیں ۔
فلاسفہ کی مذمت میں موجودہ روایتوں کی توجیہ
سوال: جوروایتیں اہل فلسفہ کی مذمت میں خاص کر آخرالزمان کے دورہ کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ،چنانچہ احادیث کی کتابوں،جیسے ''بحارالانوار''،اور''حدیقة الشیعہ'' میں لکھاگیا ہے ،کن لوگوںکے بارے میں ہیںاور ان روایتوں کا مقصودکیا ہے؟
جواب:دو تین روایتیں جو بعض کتابوں میں آخری الزمان میں اہل فلسفہ کی مذ مت میں نقل ہوئی ہیں،صحیح ہو نے کی صورت میں اہل فلسفہ کی مذمت میں ہیں نہ خودفلسفہ کی مذمت میں ۔چنانچہ بعض روایتیں آخر الزمان کے فقہا کی مذمت میں بھی نقل ہوئی ہیں وہ فقہا کی مذمت میں ہیں نہ فقہ اسلامی کی مذمت میں ۔اسی طرح بعض روایتیں آخر الزمان کے اہل اسلام اور اہل قرآن کی مذمت میں نقل ہوئی ہیں:
''لایبقیٰ من الاسلام الا اسمه ولا من القرآن الا اسمه''
یہ روایت خود اسلام اور قرآن کی مذمت میں نہیں ہے ۔
اگر یہ روایتیں خبر واحدظنّی ہو تیں تو خود فلسفہ کے بارے میں ہو تیں ،اور فلسفی مسائل (جیسا کہ دوسرے سوال کے جواب میں بیان ہوا)مضمون کے لحاظ سے وہی مسائل ہیں جو کتاب وسنت میں درج ہیں ،یہ مذمت بالکل کتاب وسنت کی مذمت کے مانند تھی ،اس لئے ان مسا ئل کو جبری طور پرتسلیم کئے بغیر آزاد استدلال میں شامل کیاگیا ہے ۔اصولاً کیسے ممکن ہے کہ ایک خبر ظنّی ایک قطعی و یقینی بر ہان کے مقا بلہ میں آکر اسے باطل کرے ؟!
تہذیب اخلاق کا شیوہ
سوال :امیرلمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں اجتماعی ردعمل کی بنا پر حضرت کے شیعہ دوگرہوں میں تقسیم ہوئے ہیں:
پہلاگروہ ،وہ لوگ ہیں جواجتماعی شور وغوغا اور کشمکشوں سے دور رہ کرصرف اپنی
اصلاح اور تہذیب نفس میں لگ گئے (اویس قرنی اور کمیل وغیرہ کے مانند)یہاں تک حضرت کے رکاب میں شہید ہوئے یاکسی دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوئے اور بالآخراس دنیا سے رخصت ہوئے ۔
دوسراگروہ،وہ لوگ تھے جو پہلے گروہ کے بر خلاف ،اجتماعی پکڑ دھکڑ اور کشمکشوں میں داخل ہوئے اور ہر جگہ سر گرم تھے،جیسے: مالک اشتر وغیرہ۔
حالیہ صدیوں کے دوران بھی یہ دو گروہ موجود تھے ۔پہلے گروہ سے مرحوم حاج ملا حسین علی ہمدانی اور اس کے خاص شاگرد وں اور دوسرے گروہ سے مرحوم آقاشیخ محمدحسین کاشف الغطا اور سید شرف الدین جبلی عاملی کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا تہذیب اخلاق معاشرہ کے اندر ممکن ہے یااس کے لئے گوشہ نشینی اور تنہائی اختیار کرنا ضروری ہے ؟ان دو روشوں میں سے کس روش کی اسلام اور اس کے پیشوا تائید کرتے ہیں اور اسلام کے بلند مقاصد کی ترقی کے لئے موثرہے؟
جواب:جو کچھ کتاب وسنت سے حاصل ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلام مکمل خداشناسی اور مخلصانہ بندگی چاہتا ہے ،اس طرح کہ انسان خدائے متعال کے علاوہ کسی سے تعلق نہ رکھتا ہو۔اس کمال اور ارتقاء سے جو کچھ ممکن ہے وہ مطلوب ہے ،کم ہو یا زیاد:
(
اتّقوّااللّه حق تقاته
)
(آل عمران ١٠٢)
''...اس طرح ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے...''
اور:
(
ففرّوا الی اللّٰه انى لکم منه نذیر مبین
)
(ذاریات٥٠)
'' لہذااب خدا کی طرف دوڑ پڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں ۔''
اسلام ایک اجتماعی دین ہے جس نے رہبانیت اور گوشہ نشینی کو منسوخ کردیا ہے جو لوگ تہذیب نفس ،ایمان کی تکمیل اور خداشناسی میں مشغول ہیں ،انھیں کمال کو اجتماع کے متن میں دوسروں کی مشارکت سے حاصل کرنا چاہئے ۔ائمہ ھدی ٰعلیہم السلام کی تر بیت یافتہ لوگ بھی صدر اسلام میں اسی رویہ پر کار بند تھے ۔سلمان ،جو ایمان کے دسویں درجہ پر فائز تھے ،مدائن میں حکومت کرتے تھے اور اویس قر نی ،جو کمال وتقویٰ کی ضرب المثل بن چکے تھے ،نے جنگ صفین میں شرکت کی اور امیرالمومنین کے رکاب میں شہید ہوئے۔
خلقت عالم کی کیفیت
سوال:چونکہ خدائے متعال کا وجودلامحدود ہے اور عالم محدود کو خلق کر نے سے پہلے ہر جگہ موجود تھا ،پس کائنات کو کیسے پیدا کیا ؟کیا اپنے وجود کے اندر کہ نا ممکن ہے؟اور اگر اپنے وجوداقدس سے باہر تھا تو اس صورت میں لازم ہوتا ہے کہ خود اس کائنات کے ساتھ نہ ہو یا یہ کہ خود ـ نعوذ باللہ ـ ععین مخلو قات ہے ، یہ وہی فاسد عقیدہ (وحدت وجود)ہے ،پس خدائے متعال نے کائنات کو کیسے پیدا کیا تا کہ اس کے مقدس وجود کے ساتھ تضاد نہ ہو ؟
جواب :بنیادی طور پر سوال کو غلط صورت میں پیش کیاگیا ہے ۔مثلاً سوال کے مقدمہ میں کہا گیا ہے :''خدائے متعا ل کا وجود لامحدود ہے اور ہر جگہ پر تھا''،جبکہ سب سے پہلے:خلق کر نے سے پہلے نہ''جگہ''کا کوئی معنی ہے اور نہ ''ہر جگہ'' کا دوسرے یہ کہ خدا کا ہر جگہ پر ہو نا ،اس کے وجودکے لامحدودہو نے سے ماخوذ ہوا ہے ،یعنی خداکا وجودایک لامتناہی جسم فرض کیاگیا ہے جو مطلق مکان میں پھیل گیا ہے اور دوسروں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رکھی ہے ،جبکہ خدائے متعال کا وجود مادّہ ،جسم اور حجم سے منّزہ و پاک ہے ۔
لہذا ،اس کے لئے نہ کسی مکان کا فرض کیا جاسکتا ہے اور نہ زمان کا ۔اس کاوجود داخل اور خارج سے بھی منّزہ ہے ...نہ کسی چیز میں داخل ہو تا ہے اور نہ کسی چیز سے خارج ،کیونکہ یہ سب چیزیں جسمانی عوارض سے مر بوط ہیں اس لحاظ سے مخلو قات نہ خدا کے داخل اور نہ خارج ہیں اور نہ خدا عین مخلوقات ہے ،کیونکہ وہ پروردگار ہے اورمخلوقات اس کی پیدا کی گئی ہیں اور پروردگارغیر از مخلوق ہے اور خدا کے وجود کا لامحددودہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ کسی بھی قید وشرط کے بغیر اور ہر فرض وقدرت میں موجودہے ۔خد ا کا مخلوق کے ساتھ ہو نے کا معنی اس کے علم ،قدرت اور مشیت کا مخلوق پر احاطہ ہے ،نہ قرب مکانی
نبوت پرامامت کی برتری کا معیار
سوال: مقام امامت کو رسالت اور نبوت پر کیا فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابرھیم علیہ السلام پر منت رکھتا ہے کہ امتحان کے ختم ہونے پر انھیں امام قرار دیا؟اور اگر مقام امامت نبوت سے برتر ہے تو حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام ،مسلمانوں کے اتفاق نظر کے مطابق کیسے مفضول اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاضل ہیں؟مختصر یہ کہ ''امامت''کی ''نبوت''پر برتری کو بیان فرمایئے؟
جواب:خدائے متعال نے یہ جملہ :(
انى جاعلک للناس اماماً
)
(بقرہ ١٢٤)
''ہم تم کو لوگوں کاامام اور قائد بنا رہے ہیں ''
اس وقت حضرت ابراھیم علیہ السلام کو فرمایا جبکہ وہ مسلّم نبی ، رسول اور اولوالعزم نبیوں میں سے صاحب شریعت ا ورصاحب کتاب تھے مزید قدرتی طور پر نبوّت ورسالت کے ہمراہ ہدایت و دعوت کی ذمہ داری بھی رکھتے تھے اور خدائے متعال نے چند جگہوں پر اپنے کلام میں امام کی توصیف میں فرمایا:(
ائمة یهدون بامرنا
)
(انبیاء ٧٣)
''...پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں ''
اور ہدایت کی صفت کو ''امام''کا معرّف قرار دیاہے ۔
یہاں پر معلوم ہوتاہے کہ امام کی ہدایت،نبی کی ہدایت کے علاوہ ہے اور مسلّم طور پر نبی کی ہدایت دعوت اور تبلیغ ہے اور ہدایت کی اصطلاح راستہ دکھانے اور راہنمائی کر نے کا معنی ہے ۔اس لئے ہدایت کو امام میں مطلوب تک پہنچانے کے معنی میں لینا چاہئے۔پس امام،چونکہ معارف اور احکام کو بیان کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے اور اعمال کو ادارہ کرنے کی مسئولیت بھی رکھتا ہے ،اور اشخاص کی باطنی نشو ونما ،اعمال کو خدا کی طرف ہدایت کرنا اور انھیں مقاصد تک پہنچانا بھی امام کا کام ہے ۔چنانچہ لوگوں کے اعمال امام کے سامنے پیش کرنے،ہر شخص کے موت کے وقت امام کے پہنچنے،قیامت کے دن لوگوں کو اپنے امام کے ساتھ بلانے،نامہ اعمال کی تقسیم اور حساب کا امام کی طر ف رجوع سے متعلق روایتیں اس مطلب کی دلالت کرتی ہیں ۔
شیعوں کے عقیدہ کے مطابق،زمین کسی بھی وقت امام سے خالی نہیں ہوتی ہے اور اس لحاظ سے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی اور رسول ہو نے کے علاوہ اپنے زمانہ میں امام بھی تھے اور نبوت،رسالت اور امامت کے نتیجہ میں حضرت علی علیہ السلام سے افضل ہیں ،چنانچہ امت کا اجماع و اتفاق بھی اسی کی دلالت کرتا ہے ۔
__________________