اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان 10%

اسلام اور آج کا انسان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور آج کا انسان
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30189 / ڈاؤنلوڈ: 3697
سائز سائز سائز
اسلام اور آج کا انسان

اسلام اور آج کا انسان

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : اسلام اور آج کا انسان

مؤلف: علامہ طبا طبائی (صاحب تفسیر المیزان)

متر جم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح: سید حمید الحسن زیدی

نظر ثانی: فیروزحیدرفیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ ء

تعداد : ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

عرض ناشر

بسم الله الرحمن الرحیم

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ اور موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھی، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صہ میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذاہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانہ میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھیں او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر اور معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلہ کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام (عالمی اہل بیت کونسل )نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود ہ دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین او رمترجمین کا ادنٰی خدمت گار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، فاضل علامہ سید محمدحسین طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''اسلام اور آج کا انسان'' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونین کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پہلا حصہ

فطرت کی راہ

سوال:کیا موجودہ دنیا کے حالات اور روز مرہ حیرت انگیز ترقی کے پیش نظرباور کیا جاسکتا ہے کہ اسلام عالم بشریت کا نظم ونسق چلا کر موجودہ ضرورتوں کو پورا کر سکے گا؟کیا حقیقت میں وہ وقت نہیں پہنچا ہے کہ جب انسان علم کی قدرت سے آسمانوں پر کمند ڈال رہا ہے اور ستاروں کو تسخیرکرنے جا رہا ہے ،اب اسے ان کہنہ مذہبی افکار کوبالائے طاق رکھ کراپنی قابل فخرزندگی کے لئے ایک نئے اور تازہ طریقہ کارکا انتخاب کر کے اپنی فکروارادہ کی طاقت کواپنی شاندارکا میا بیوںپر متمرکزکرنا چاہئے؟

جواب:اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کراناضروری ہے اور وہ یہ ہے :صحیح ہے کہ ہم فطری طور پر ہر نئی چیز کوپرانی چیز کی نسبت پسند کرتے ہیں اور ہر چیز کے نئے پن کو اس کے پرانے پن پر ترجیح دیتے ہیں لیکن بہر حال یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے اور اس طریقہ کار کو ہر جگہ پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہ ۔مثال کے طور پردو اوردوچار جو لاکھوں اورہزاروں سال سے انسان میں رائج ہے اور اس سے استفادہ کیا جاتا ہے ،اسے کہنہ سمجھ کر دور نہیں پھینکا جاسکتاہے!

یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ عالم بشریت میںرائج اجتماعی اور معاشرتی زندگی اب کہنہ ہو چکی ہے،اس سلسلہ میں ایک نیا منصوبہ مرتب کر کے انفرادی زندگی کاآغاز کیا جانا چاہئے۔یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ملکی قوانین جو کافی حد تک انسان کی انفرادی آزادی پر پابندیاںعائد کرتے ہیں ،اب کہنہ ہو چکے ہیں اور لوگ ان سے تنگ آچکے ہیں ،اس وقت جب کہ انسان فضا کو تسخیرکرنے میں لگا ہے اورستاروں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کے مدار میں سٹلا ئٹ بھیج رہا ہے اس لئے ایک نئی راہ کا انتخاب کرناچاہے اور قانون ،قانون سازاور قانون لاگوکرنے والوں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہے۔

واضح اور روشن ہے کہ یہ باتیں کس حد تک بے بنیاد اور مذاق پر مبنی ہیں ۔اصولاًکہنہ اور نئے پن کامسئلہ ایسے مواقع پر بیان کیا جاسکتا ہے کہ جو تغیر وتبدّل کے دائرہ میں آتے ہوں،جس کے نتیجہ میں کبھی بہتر اور شاداب اور کبھی نا مناسب عوامل کی وجہ سے فرسودہ اورافسردہ ہوجاتے ہیں۔

اس لئے ،حققت شناسی سے مر بوط بحثوںکے سلسلہ میں ،جو فطری تقاضوں سے متعلق ہیں اور خلقت و کائنات کے حقیقی قوانین کی تحقیق کرتے ہیں (جن میں سے ایک یہی ہمارازیر بحث مسئلہ ہے : کیا اسلام مو جودہ حالات کے پیش نظرعالم بشریت کا نظم و نسق چلا جا سکتا ہے ؟)اس کے بارے میں کہنہ اور نئے پن کا مسئلہ نہیں چھیڑ نا چاہے ۔ہر بات کی ایک خاص جگہ اور ہر نکتہ کا ایک مخصوص مکان ہوتا ہے۔

لیکن یہ کہ ''کیا اسلام موجودہ حالات میں عالم بشریت کا نظم ونسق چلاسکتا ہے؟''یہ سوال بھی اپنی جگہ پر عجیب و غریب ہے اور اسلام کے حقیقی معنی کے مطابق بھی جو قرآن مجیدکی دعوت پر مبنی ہے یہ سوال انتہائی تعجب آور ہے ۔کیونکہ ''اسلام''وہ راستہ ہے جس کی انسان اور کائنات کی خلقت کی مشینری نشاندہی کرتی ہے ۔''اسلام''یعنی وہ قواعد وضوابط جو بشریت کی خاص فطرت کے مطابق ہیں اور انسان کی فطرت کے ساتھ رکھنے والی مکمل ہم آھنگی کے پیش نظرانسان کی حقیقی ضرورتوں کو ۔۔نہ فرضی اور جذباتی ضرورتوں کو۔۔پورا کرتے ہیں۔

بدیہی بات ہے کہ انسان کے انسان ہو نے تک اس کی انسانی فطرت نہیں بدلتی اور انسان جس زمان و مکان میں ہو اور جس حالت میں بھی زندگی بسر کرتا ہووہ اپنی انسانی فطرت پر گامزن ہوگا اور فطرت نے اس کے سامنے ایک راستہ معین کیا ہے،خواہ وہ اس پرچلے یا نہ چلے۔

اس بناء پر حقیقت میں مذکورہ سوال کا معنی یہ ہے کہ اگر انسان فطرت کی معین کردہ راہ پر چلے تو کیاوہ اپنی فطری خو شحالی کو پاسکتا ہے اور اپنی فطری آرزوئوںتک پہنچ سکتا ہے ؟یامثال کے طور پر اگر کوئی درخت اپنی فطری راہ ۔۔جو مناسب وسائل سے مجہز ہے ۔۔پر چلے توکیا وہ اپنی فطری منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ؟واضح ہے کہ بدیہیات کے بارے میں اس قسم کے سوالات مسلّمات میں شک وشبہ ایجاد کرنے کے مترادف ہیں ۔

اسلام، یعنی فطرت کی راہ،ہمیشہ انسان کی حقیقی راہ ہے جواس کی زندگی کے مختلف حالات کے پیش نظرنہیں بدلتی ہے۔اسکے فطری مطالبات ۔۔نہ جذباتی اورتوہماتی خواہشات۔۔اس کے حقیقی مطالبات اور فطری منزل مقصود اور سعادت وخوشبختی تک پہنچنے کے مطالبات ہیں۔خدائے تعالی اپنے کلام میں فرماتا ہے:

( فأقم وجهک للدّین حنیفا فطرت اللَه الَتی فطر النَاس علیها لاتبدیل لخلق اللَه ذلک الدَین القیّم... ) (روم٣٠ )

''آپ اپنے رخ کودین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔ یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے ۔''

اس مطلب کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ ہمارے لئے واضح اورمشہور ہے کہ عالم خلقت میں مختلف مخلو قات مو جود ہیں ،ان مخلوقات میں سے ہر ایک کی اپنی زندگی اور بقاء کے لئے ایک مخصوص طریقہ کاراور خاص راستہ معین ہے اور وہ اپنی زندگی کی راہ میں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک معین راستہ پر گامزن ہیں اور ان کی سعادت و خوش قسمتی اس میں ہے کہ اپنی زندگی کی اس راہ میں کسی رکاوٹ سے دو چارہوئے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں ۔

دوسرے الفاظ میں اپنی زندگی اور بقاء کے راستے کواپنے وجود میں پائے جانے والے وسائل اور اسلحوں سے استفادہ کرتے ہوئے کسی رکا وٹ کے بغیرطے کرکے سر انجام تک پہنچ جائیں۔

گیہوں کا دانہ پنے نباتی سفر میں ایک خاص راستہ طے کرتا ہے ۔اس کے داخلی ساخت وساز کے مطابق موجودہ خاص نظم واسلحوں'مخصوص حالات وشرائط میںروبہ عمل آتے ہیں اور گندم کے پودے کی نشوونما کے لئے ضروری عنا صر کو معین مقدار اور نسبت میں جذب کر کے گندم کے پودے کی مخصوص راہ پر راہنمائی کرکے اسے منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔

گندم کا پودااپنی نشو ونما کی راہ میںاندرونی اوربیرونی ماحول اورعوامل کے سلسلہ میںجس خاص روش کو اپناتا ہے ،وہ کسی صورت میں قابل تغیر نہیں ہے۔مثال کے طور پر کبھی ایسا نہیں ہوتاہے کہ گندم کااپنی نشوو نما کاتھوڑاسا راستہ طے کرنے کے بعد ہی اچانک ایک سیب کے درخت میںتبدیل ہو جائے اور اس کی شاخیں،کونپلیں اور پتے نکل آئیںیا اپنی زندگی کی راہ میںایک پرندہ میں تبدیل ہوکر پرواز کرے۔یہ قاعدہ خلقت کی تمام انواع میں موجود ہے اورانسان بھی اس کلّی قاعدہ سے مستثنی نہیں ہے ۔

انسان بھی اپنی زندگی میں،ایک فطری راہ اور ایک منزل مقصود رکھتا ہے جو اس کا کمال،سعادت اورخوشبختی ہے۔اس کی بناوٹ کچھ ایسے اسلحوں سے مجہّز ہے جواس کی فطری راہ کو مشخص کرتے ہیں اور اسے حقیقی منافع کی طرف راہنمائی کرتے ہیں ۔

خدائے متعال تمام مخلوقات میں مو جود اس عمو می راہنمائی کی تعریف میں فرماتا ہے :

( ...الّذی ا عطیٰ کلّ شیٍ خلقه ثم هدی ) (طہ۔٥٠)

''...خدا وہ ہے جس نے ہر شے کواس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے ۔(یعنی نفع کی طرف)''

انسان میں موجود خصوصی راہنمائی کے بارے میں فرماتا ہے:

( ونفس وما سوٰها٭فلهمها فجورها و تقوٰها٭قد افلح مَن زکٰها٭وقد خاب مَن دسٰها ) (شمس۔٧۔١٠)

''اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا ہے ۔پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے ۔بیشک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا۔اور وہ نامراد ہو گیاجس نے اسے آلودہ کر دیاہے۔''

مذکورہ بیان سے واضح ہوتا ہے انسان کی زندگی کا حقیقی راستہ ـکہ جس میں اس کی حقیقی سعادت وخو شبختی ہے ـوہ راستہ ہے جس کی طر ف فطرت اس کی راہنمائی کرتی ہے اور یہ انسان اور کائنات کی خلقت کے تقاضوں کے مطابق حقیقی مصلحتوںاور منفعتوں کی بنیاد پر استوار ہے ،چاہے یہ اس کے جذباتی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو ۔کیونکہ جذبات کو فطرت کی راہنمائی کی پیروی کرنی چاہئے اور اسی کے تابع ہو نا چا ہئے نہ کہ فطرت انسان کے نفسانی خواہشات اور جذ بات کے تابع ہو۔

انسانی معاشرہ کو بھی اپنی زندگی کو حقیقت پسندی پر استوار کرنا چاہئے نہ متزلزل توہّمات اور دھوکہ دینے والے جذبات کی بنیادوں پر۔اسلام کے قوانین اوردوسرے ملکی قوانین میں یہی فرق ہے۔کیونکہ عام اجتماعی قوانین معاشرہ کے افراد کی اکثریت (نصف ۔١)کی خواہشات کے مطابق ہو تے ہیں۔لیکن اسلام کے قوانین فطرت کی ہدایت کے موافق ہوتے ہیںجوارادئہ الٰہی کی علامت ہے اوراسی لئے قرآن مجیدتشریعی حکم کو خدائے متعال سے مخصوص جانتا ہے ،جیسا کہ فرماتا ہے:

( ان الحکم الّا للّٰه ) (یوسف٤٠)

''...حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے۔''

( ومن حسن من اللّٰه حکما لقوم یوقنون ) (مائدہ٥٠)

''... صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے؟''

اسی طرح جو کچھ ایک عام معاشرہ میں حکم فرماہوتا ہے وہ یا لوگوں کی اکثریت کی خواہش اور مرضی یاایک طاقتور مطلق العنان شخص کی خواہش کے مطابق ہو تا ہے ، چاہے یہ حکمرانی حق و حقیقت کے مطابق ہو اور معا شرہ کی حقیقی مصلحتوںکو پورا کرتی ہویا اس کے بر خلاف ہو ۔لیکن حقیقی اسلامی معاشرہ میں حق و حقیقت کی حکو مت ہو تی ہے اور لوگوں کو ا س کی اطاعت وپیروی کر نی چاہئے۔

یہاں پرایک اور شبہ کاجواب بھی واضح ہو تا ہے اور وہ یہ کی ''اسلام انسانی معاشرہ کے مزاج کے مطابق نہیں ہے ۔جو انسا نی معاشرے ا ج کل مکمل آزاد ی سے مالا مال اور ہر قسم کی کامیابی وکامرانی سے بہرہ مند ہیں ،ہر گز تیار نہیں ہیں کہ اسلام کی اتنی پابند یوں کے تحت ر ہیں۔''

البتہ اگر ہم بشریت کو موجودہ حالات میں' جبکہ اخلاقی زوال نے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر اثر کیا ہے اور ہر قسم کی بے راہ روی اور ظلم واستبداد نے اپنا سایہ ڈالا ہے اور ہر لمحہ فنا وزوال کے بادل منڈلا رہے ہیں ،فرض کریں اور پھر اسلام کا اس کے ساتھ مواز نہ کریں تو ہم واضح اورروشن اسلام اورتاریکی میں ڈوبی بشریت کے درمیان کسی بھی قسم کی مطا بقت کو نہیں پائیں گے اور ہمیں توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے کہ اسلام کی موجودہ حالت کو جاری رکھتے ہوئے ،یعنی جزئی طور پراسلامی احکام کی ظاہری صورت عالم بشریت کی مکمل سعادت کو پورا کرے گی یہ تو قع بالکل اس امر کے مانند ہے کہ ہم جمہوریت کا صرف دم بھر نے والی ایک استبدادی اور مطلق العنان حکومت سے حقیقی جمہوریت کے نتائج اور فوائد کی تو قع رکھیں یا یہ کہ بیمار ڈاکڑ کے نسخہ لکھنے پر ہی اکتفا کرکے صحت یاب ہونے کی امید میں بیٹھے رہیں ۔

لیکن اگر ہم صرف لوگوں کی خدا داد فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام ـ جودین فطرت ہے ـسے مواز نہ کریں تو ہم اس میں مکمل موافقت اور ہم آہنگی پائیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ فطرت نے جس راستہ کو خود تشخیص دے کر معین کیا ہے اور اس کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کے علاوہ کسی اور راستہ کو قبول نہیں کرتی ہے ،اس کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو؟

البتہ لوگوں کی لا ابالی اوربے راہ روی کی وجہ سے پیدا ہوئی گمراہیوںاور کج فہمیوںسے جو آج کل فطرت دو چار ہے اس کی وجہ سے کسی حدتک فطرت اور اس کی معین کردہ طریقہ کار کی شناسائی میں شگاف پیدا ہوا ہے ۔لیکن ان ناگفتہ بہ حالات میں عاقلانہ روش یہ ہے کہ ان ناموافق حالات سے مقا بلہ کیا جائے تاکہ زمینہ ہموار ہو جائے نہ یہ کہ منحرف کی گئی فطرت پر خط بطلان کھینچ کر انسانی سعادت وخوشبختی سے ناامید ہو کرچشم پو شی کریں ۔تاریخ گواہ ہے کہ تمام نئی روشیں اور نظام اپنے قیام کی ابتداء میں گزشتہ روشوں اور پرانے حالات سے سختی کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں اور بہت سی کشمکشوں ـجو اکثر خوںریزی پر مشتمل ہوتی ہیں ـکے بعد معاشرہ میں اپنے قدم جماکر اپنے سابقہ دشمنوں کی یاد کولوگوں کے ذہنوں سے محو کر سکتے ہیں ۔

جمہوریت کے تمام نظام جو ان کے طرفداروںکے عقیدہ کے مطابق لوگوں کی مر ضی پر مبنی کامیاب ترین نظام ہیں،نے اپنے استحکام کے لئے فرانس اور دنیا کے دوسرے ممالک میں کئی خونیں انقلاب بر پا کرنے کے بعداستحکام پایا ہے۔اسی طرح کمیونسٹ نظام ـجو اپنے طرفداروں کی نظر میں بشر کی ترقی یافتہ تحریک اورتاریخ کا عظیم تحفہ ہے ـنے بھی اپنی پیدائش کی ابتداء میں سویت یونین میں پھرایشیا،یورپ اور لاطینی امریکہ میں لاکھوںاور کروڑوں انسانوںکو خاک وخون میں غلطاںکرنے کے بعد استحکام پایا ہے۔

مجموعی طور پرایک معاشرہ کی ابتدائی مرحلہ میںناراضگی اور مزاحمت ایک روش کے نا مناسب یا بے بنیادہو نے کی دلیل نہیں ہوسکتی ہے۔لہذا اسلام ہر حالت میں زندہ ہے اور معاشرے میں رائج ہونے کی قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے ۔

ہم اس موضوع پر آنے والی بحثوںمیں وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔

اسلام اورہر زمانہ کی حقیقی ضرورتیں

بحث وتحقیق کے بارے میںپیش آنے والے اور نفی واثبات قرار پانے والے علمی مسائل میں سے ہر مسئلہ کی اہمیت اور اس کی حقیقی قدر وقیمت ایک حقیقت کی اہمیت اورقدروقیمت کے تابع ہے جو ان میں پائی جاتی ہے اور یہ ایسے آثار و نتائج کے تابع ہوتے ہیں جو عمل و نفاذ کے مقام پر ان کی تطبیق اور زندگی کے نشیب و فراز میں ان سے استفادہ کرتے وقت وجود میں آتے ہیں ۔

انسان کو کھانا پینا سکھانے والا ایک انتہائی ابتدائی تصور،قدر وقیمت کے لحاظ سے انسان کی زندگی کے برابر ہے ۔یعنی اس کی قدر وقیمت وہی زندگی کی قدر وقیمت ہے جو انسان کی نظر میں ایک گراں بہا سرمایہ ہے ،اور ایک تصورجو ظاہرًا انتہائی معمو لی اور مختصر ہے ـجوانسان کے دماغ میں اجتماعی زندگی کی ضرورت کو ایجاد کرتا ہے ـاس کی قیمت وہی ہے جو انسان کے حیرت انگیز نظام کی قیمت ہے جو ہر لمحہ انسان کے لاکھوں عمل وحرکات سکنات کو ایک دوسرے سے ربط دے کرہر روز کروڑوںمطلوب او رنامطلوب اثرات کو پیدا کر کے گونا گوںبرُے اور اچھے نتائج کو وجود میں لاتا ہے ۔

البتہ اس بات سے ہر گز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایک مقدس دین ـجیسے دین اسلام ـکا انسان کی ضرورتوں کو ہر زمانہ میں پورا کرنا،اہمیت کے لحاظ سے اول درجہ رکھتا ہے اور یہ انسان کی زندگی کی اہمیت کے برابر ہے کہ ہم اس سے قیمتی تر سرمایہ کا تصور نہیں کر سکتے ہیں۔

البتہ دین اسلام کے بنیادی اصو لوں سے کم ازکم آگاہی اور دلچسپی رکھنے والا ہر مسلمان اس مسئلہ کو اسلام سے یاد کئے گئے مسا ئل کی فہرست میں درج کرتا ہے ۔

حقیقت میں یہ فکری مادّہ بھی اسلام کے وجود میں لائے گئے دوسرے دینی فکری مادّوں کے مانند صدیوں سے ہم ،اسلام کے پیروکاروں کے ذہنوں میں موجود ہے اور وراثت کے طور پر ایک فکر سے دوسری فکرمیں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اپنی خاموش زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور ہمیشہ دیگر مذہبی مقدسات کے مانند بحث و تمحیص سے دامن بچاتے ہوئے انسانوں کی سرشت میں منتقل ہوا ہے اور اس سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔

ہم مشرقی ہیں اور جہاں تک ہمیں اپنے اسلاف اور آباواجداد کی تاریخ کے بارے میں یاد ہے،شایدہزاروں سال گزر چکے ہوں گے،گزشتہ اجتماعی ماحول میں ـہم پر حکومت کی گئی ـ ہر گز ہمیں فکری ،خاص کر سماجی مسائل سے مربوط علمی مسائل میں آزادی نہیں دی گئی اور صدراسلام میں ایک مختصرمدت میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ جو ایک کرن نمودار ہوئی تھی اور طلوع فجر کے مانند ایک نورانی دن کی نوید دیتی تھی چند خود پرستوں اور منافع خوروں کے تاریک حوادث طبیعی اورمصنوعی طوفان کے نتیجہ میں دوبارہ تاریکی کے پردہ میں چلی گئی اور اس کے بعد ہم رہے اور اسیری و غلامی ،ہم رہے اورتازیانے ،تلواریں،پھانسی کے پھندے ،زندانوں کی کالی کو ٹھریاں ،اذیت خانے اور مرگ آورماحول، ہم رہے اورقدیمی فریضہ''ہاںہاں ''''لبیک ''و''سعدیک''!

جو بہت چالاک تھا وہ اسی حدتک اپنے مذہبی مقدسات کے مادّوں کو محفوظ کر سکتا تھا اور اتفاق سے وقت کی حکومتیں اور معاشرہ کا نظم و انتظام چلانے والے بھی اس رویّہ کے بارے میں آزاد بحث کرنے میں رکاوٹ ڈالنے میں زیادہ بے غرض نہیں تھے ۔وہ یہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنے کام میں مشغول رہیںاوردوسرے امور میںدخل نہ دیں،یعنی وہ صرف اپنے کام میںلگے رہیں،حکومتی اورعمومی امورمیں مداخلت نہ کریں کیونکہ ان کی نظر میںیہ امورصرف حکومتوںاورمعاشرہ کا نظم وانتظام چلانے والوں کاحق تھا !

وہ لوگوں کے اغلب دینی امور اورنسبتًا سادہ دینی امور کے پابند ہونے میں اپنے لئے کسی قسم کا نقصان نہیں دیکھتے تھے اس لئے اس حالت سے نہیں ڈرتے تھے،وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ لوگ تجسّس اور تنقیدپر نہ اتر آئیں اور وہ خود لوگوں کے مفکّربن کے رہیں ۔کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سے درک کیا تھا کہ زندگی میں طاقتور ترین وسائل افراد کے ارادہ کی طاقت ہے اور افراد کا ارادہ قیدوشرط کے بغیران کے مفکرانہ مغز کے تابع رہے اورمفکروںکے مغز پرتسلّط جماکر ان کے ارادوں پرتسلط جماسکیں ،اس لئے وہ لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے تھے تاکہ ہماری اصطلاح میں خود لوگوں کے مفکر بن کے رہیں۔

یہ حقائق کا ایک ایسا سلسلہ ہے جیسے اپنے اسلاف کی تاریخ کامطالعہ کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہے گا ۔

حال ہی میں یورپ کی آزادی مغرب کوسیراب کرنے کے بعدہم مشرق زمین کے باسیوں کے ہاں آئی ہے ،اس نے ابتداء میں ایک محترم مہمان کی حیثیت سے اور اس کے بعد ایک طاقتور گھر کے مالک کی حیثیت سے ہمارے براعظم میں قدم جمائے ہے ۔اگر چہ اس آزادی نے افکار کے گھٹن کا بوریا بسترہ گول کر دیا اور آزادی کا نعرہ بلند کیا،یہ ایک بہترین وسیلہ اور مناسب ترین فرصت تھی جو ہمیں اپنی کھوئی ہوئی نعمت کودوبارہ حاصل کرکے ایک نئی زندگی کی داغ بیل ڈال کر علم وعمل کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ،لیکن افسوس یورپ کی یہی آزادی، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلائی ،ان ہی ظالموں کی جانشین بن کر ہمارے دل ودماغ پر سوار ہوگئی!

ہم نہ سمجھ سکے کہ کیا ہوا؟جب ہم ہوش میں آئے تو دیکھا کہ وہ دن گزر گئے تھے جب ہم اپنی حیثیت کے مالک تھے اب خدا اور گزشتہ آسمانی طاقتوں کی باتوں پر توجہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں صرف اسی طرح عمل کرنا چاہئے جو کچھ یورپی انجام دیتے ہیں اور جس راہ پروہ چلتے ہیں ،اسی راہ پر ہمیں بھی چلنا چاہئے !

ایک ہزار سال سے سرزمین ایران ''بو علی سینا''کو اپنی آغوش میں لئے ہوئی تھی اور اس کی فلسفی اورطبّی تالیفات ہماری لائبریریوں میں موجود تھیں اور اس کے علمی نظریات ورد زبان تھے اور کوئی خاص خبر نہیں تھی ۔

سات سو سال سے ''خواجہ نصیرالدین طوسی ''کی ریاضی کی کتابیں اور ان کے ثقافتی خدمات ہمارا نصب العین تھا اور کہیں اس کی خبر تک نہیں تھی ،لیکن ہم نے یورپیوں کے ان کے دانشوروں کے سلسلے میں یاد گار منانے کی تقلید کرتے ہوئے ''بوعلی سینا''کے لئے ہزار سالہ یادگار اور'' خواجہ نصیرالدین طوسی ''کے لئے سات سو سالہ یاد گاری تقریبیں منعقدکیں۔

تین صدیوں سے زیادہ عرصہ سے ''صدرالمتالہین ''کافلسفی نظریہ ایران میں رائج تھا اور انھیںکے فلسفی نظریہ سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔ایک طرف سے برسوں پہلے تہران یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی ہے اور اس میں قابل توجہ صورت میں فلسفہ پڑھایا جاتا ہے ،لیکن جب چند برس پہلے ایک مستشرق نے اس یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں ''ملاصدر''کی تمجید وتعظیم کی اور اس کے فلسفی نظریہ کی تعریفیں کیں تو یونیورسٹی میں اس کی شخصیت اور اس کے فلسفی نظریہ کے بارے میں ایک بے مثال ہلچل مچ گئی۔

یہ اوران جیسے دوسرے واقعات ایسے نمونے ہیں جو عالمی سطح پر ہماری اجتماعی حیثیت اور ہماری فکری شخصیت کی ہویت کوواضح کرکے بتاتے ہیں کہ ہماری فکری شخصیت طفیلی ہے اور ہمارے فکری سرمایہ میں سے جو کچھ چوروں سے بچا ہے وہ جوتشیوں کے حصہ میں آیا ہے۔

ہم میں سے اکثرلو گوں کے فہم وادراک کا یہی حال ہے ۔اور لوگوں کی جو اقلیت کسی حدتک اپنی فکری آزادی کو محفوظ کرسکی ہے اور اپنے دماغ کے سرمایہ کو مکمل طور پر اغیار کے ہاتھوں لوٹنے سے محفوظ رکھا ہے وہ بھی تعدّد شخصیت کے شکار ہوئے ہیں ۔یہ لوگ ایک طرف سے مغربی افکار کے دلدادہ اور دوسری طرف سے اپنے مشرقی اورموروثی افکار کے غلام بن گئے ہیں اور کھلم کھلا کوشش کر رہے ہیں کہ ان دو متضادشخصیتوں کوآپس میں ملادیں ۔

ہمارا ایک دانشور مؤلف ''اسلامی ڈیمو کریسی ''کے عنوان سے اسلام کی روش کو ڈیمو کریسی کی روش سے تطبیق کرتا ہے تودوسرا''اسلامی کمیونزم ''کے عنوان سے کمیونزم کی روش اور طبقاتی اختلافات کو دور کرنے کے طریقہ کار کودین سے نکال کرپیش کرتا ہے۔

ایک عجیب داستان ہے !اگر حقیقت میں اسلام کی فطانت اور حقیقت پسندی صرف اسی میں ہے کہ واضح اور روشن ترین ظاہرداری کے ساتھ ہمارے پاس آئی ہوئی ڈیمو کریسی اورکمیونزم کی زندہ روح اس میں ہونی چاہئے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم چودہ سو سال پرانے چند افکار کو انتہائی رنج ومحنت کے ساتھ ان سے تطبیق کرکے اپنے سینہ پر لٹکادیں !

اگر اسلام ایک مستقل حقیقت رکھتا ہے اور یہ حقیقت ایک جدا،زندہ اور گراں بہا حقیقت ہے توکیا ضرورت ہے ہم اس کے خداداد حسن کو بناوٹی سجاوٹ سے پردہ پوشی کریں اورمصنوعی صورت میں اسے خریداروں کے سامنے پیش کریں !

حالیہ چند برسوں کے دوراں ،یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی دانشوروں نے ادیان ومذاہب کے بارے میں ایک خاص جوش و جذبہ کے ساتھ بحث وتحقیق کرنی شروع کی ہے اور اپنی تحقیق کے نتائج کو ہر روز منتشر کرتے ہیں اور بے شک ہم بھی ،مذکورہ تقلید و تبعیت کے پیش نظر،کم وبیش اسی راہ پر چلتے ہوئے دین مقدس اسلام کے بارے میں چند سوالات کو اپنی گفتگو کا موضوع قراردیتے ہیں :

کیادین ومذہب سب حق ہے ؟کیا آسمانی ادیان اجتماعی اصطلا حات کی ایک کڑی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟کیادین روح کی پاکی اور اخلاقی اصلاح کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد رکھتا ہے ؟کیا مذہبی احکام اسی شکل وصورت میں ہمیشہ باقی رہیں گے؟کیا دین کا عملی احکام کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی ہے؟کیا اسلام ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے ؟کیا اورکیا...

البتہ جب ایک محقق دانشورایک مسئلہ سے نمٹتا ہے تو وہ سب سے پہلے مسئلہ کو مسلّم علمی معیاروں سے تطبیق دے کر اس کی تفسیر کرتا ہے پھر اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے ۔

مغربی دانشور ،دین کو ایک اجتماعی مظہر جانتے ہیں ،جو خود معاشرہ کے مانند بعض فطری عوامل کا ایک معلول ہے ۔

مغربی دانشوروں کی نظر میں تمام ادیان من جملہ اسلام ـاگر دین کے موضوع کے بارے میں خوش فہم ہوں تو ـچند غیر معمولی ذہانت رکھنے والے افراد کے آثارہیں ،جنہوں نے اپنے نفس کی پاکی، انتہائی ذہانت اور ناقابل شکست ارادہ کے نتیجہ میں اپنے معاشرہ کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لئے کچھ قوانین وضع کرکے لوگوں کی زندگی کی سعادت کی راہ پرراہنمائی کرتے تھے۔ یہ قوانین انسانی معا شروں کے تدریجی ارتقائ کے ساتھ ساتھ تغیر پیدا کر کے ارتقاء کی آخری منزل تک پہنچتے ہیں ۔

حس،تجربہ اور یہی تاریخ ثابت کرتی ہے کی انسانی معاشرہ تدریجی طور پر ارتقاء کی طرف بڑھتا ہے اور عالم بشریت تہذیب و تمدن کے میدان میں ہر روز ایک نیا قدم اٹھاتی ہے اور نفسیاتی ،قانونی اور اجتماعی ،حتی فلسفی ،خاص کر''ڈیالٹیک میٹریالزم ''فلسفہ کے نتائج کے پیش نظر چونکہ معاشرے ایک ثابت حالت میں نہیں رہتے ہیں اس لئے معاشروں میں قابل نفاذ قوانین بھی ایک حالت میں باقی نہیں رہ سکتے۔

جنگلی میوے کھاکر غاروں میں زندگی بسر کرنے والے ابتدائی انسانوں کی سعاد ت مند زندگی کی ضرورتوں کوپورا کرنے والے قوانین،ہرگز آج کی تکلفاتی زندگی کے لئے کافی نہیں ہوسکتے۔

ڈنڈوںاور کلہاڑیوںسے جنگ کرنے والے زمانہ سے مر بوط قوانین،آج کل کے ایٹمی دور کے لئے کسی صورت میں فائدہ مند نہیںہو سکتے۔

گھوڑوںاورگدھوںپر سفر کرنے والے زمانے سے مربوط قوانین،آج کل کے جٹ ہوائی جہاز اور آب دوز کشتیوں سے سفر کرنے کے زمانے کے کس دردکا علاج کر سکتے ہیں ؟

مختصر یہ کی آج کی دنیا نہ اپنے اسلاف کے قوانین کو قبول کرتی ہے اور نہ اس سے ان کو قبول کر نے کی تو قع کی جاسکتی ہے ۔ نتیجہ کے طور پر انسانی معاشروں میں نافذ ہونے والے قوا نین مسلسل قابل تغیر ہیں اور عالم بشریت کے گونا گوں تحّولات کے مطابق مکمل ہوتے ہیں اور اعمال کے قوانین میں تبدیلیوں کے پیش نظر اخلاق بھی قابل تغیر ہے ،کیونکہ اخلاق وہی ثابت نفسانی صورتیں اور ملکہ ہے جو عمل کے تکرار سے وجود میں آتا ہے ۔

دوہزار یا تین ہزار سال قبل خاموش اور سادہ زندگی کو آج کی باریک اور پیچیدہ زندگی کی سیاست قبول نہیں کرتی ،آج کے معاشرہ کی خواتین دو ہزار سال پرانی خواتین کی عفت پر عمل نہیں کر سکتی ہیں !

عصر حاضر کے مزدور،کسان اور دوسرے محنت کش طبقے قدیم زمانے کے مظلوم طبقات جیسا صبرو تحمل نہیں رکھ سکتے ہیں ۔فضا کو تسخیر کرنے والے زمانہ سے مربوط انقلابی مغز والے انسان کو سورج گہن ،چاندگہن اور سیاہ طوفان سے نہیں ڈرایاجا سکتا اور انھیں توکّل اورقضاپر تسلیم ورضا سے قانع نہیں کیا جا سکتا ۔

مختصر یہ کہ ہر زمانہ کا انسانی معاشرہ اسی زمانہ کے مطابق و مناسب قوانین اور اخلاق چاہتاہے۔

دوسری جانب سے اسلام کی دعوت نے ایک روش اور قوانین کے ایک سلسلہ کو مد نظر رکھا ہے ،جو انسانی معاشرہ کی سعادت کی بہترین صورت میں ضمانت دیتے ہوئے انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور ''اسلام '' اسی واضح ،روشن اورمقدس قوانین کا نام ہے ۔جیسا کہ ''اسلامی تحقیقات'' کے عنوان سے ہمارے پہلے مجموعہ میں ''قرآن کی نظر میں دین ''کے موضوع میں مفصل بحث ہوئی ہے ۔

بدیہی ہے کہ اس قسم کی روش اور قوانین ہر زمانہ میں مختلف مظاہر رکھتے ہیں ان میں خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روش اور قوانین بھی ہیں جنھیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے زمانہ میں نافذ فرماتے تھے ۔دوسرے زمانوں میں بھی اسلام کے مظاہر بہترین اور مقدس ترین روش اور قوانین ہوں گے جواس زمانے کے انسانی معاشرہ کی ضرورتوںکو پورا کرسکیں ۔

اس بیان سے واضح ہوا کہ اس بحث میں مسلّم علمی معیاروں پر تکیہ کرنے کے ضمن میں مغربی دانشورکا جواب مثبت ہوگا ،لیکن مذکورہ تفسیر کے ضمن میں اس کی نظر میں اسلام ایک ابدی دین الہی ہے جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کے معاشرہ کی سعادت کوضمانت بخشنے کے لئے بعض قوانین کی صورت میں رونما ہوتا ہے ۔

لیکن دیکھنا چاہئے کہ کیا اسلام کی آسمانی کتاب اور اس مقدس دین کے مقاصد کا بہترین ترجمان قرآن مجید بھی ،نبوت کو مذ کورہ معنی میں اور آسمانی دین کو اسی ترتیب سے ـجیسے اجتماعی،نفسیاتی ،فلسفی اور مادی بنیادوں پر تکیہ کر کے تعبیر کی گئی ہے ـتفسیر کرتا ہے کہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے مطابق اس سے مخصوص کچھ جدا قوانین کو قبول کرتا ہے اور اگر اس کے بر عکس کچھ ثابت اور نا قابل تغیر عقائد اخلاق اور قوانین کو وضع کرکے انسانی معاشرہ کو ان پر عمل کر نے کے لئے مکلف کرتا ہے ،تو انھیں کیسے مختلف زمانوں کے لوگوں کی ضرورتوں سے تطبیق کیا جاسکتا ہے؟

کیا قرآن مجید یہ چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ثابت حالت میں رہے اور تہذیب وتمدن پر ترقی کے راستے مکمل طور پر بندرہیں اور انسان کی روز مرہ فعالیت مکمل طور پر سر بستہ رہے ؟یہ رواں فطرت اور عالم بشریت کے فطری نظام ،سے مقابلہ کے مقام پر ،جو اس کی حکومت کے قلمرو سے خارج نہیں ہے ،کیسے نکلا ہے؟

یہ امر مسلّم ہے کہ قرآن مجید اپنے بنیادی بیان سے آسمانی دین کے موضوع اور عالم غیب سے سر چشمہ حاصل کر نے ،نظام خلقت اور اس مشہوردنیا سے رابطہ دینی احکام کے دائمی اور ثابت ہونے،انسانی اخلاق،ایک فرد یا انسانی معاشرہ کی خوشبختی وبدبختی کے بارے میں اس طرح وضاحت کرتا ہے جو ایک مغربی دانشور کی مذکورہ وضاحت سے مختلف ہے ،ان مطالب کو قرآن مجید کی نظر سے دوسری صورت میں دیکھا جاتا ہے جبکہ بصری وسائل ،مادی بحثوں کو دکھا تے ہیں ۔

قرآن مجید دین اسلام کے طریقہ کار اورقوانین کو مسائل و احکام کا ایک ایسا سلسلہ جانتا ہے جو نظام خلقت،خاص کر انسان کی خلقت کواسی اپنی متحول فطرت سےـجو عالم فطرت کا جز تھا اور لمحہ بہ لمحہ اپنے وجود میں تغیر پیدا کرتا ہے ـاپنی طرف راہنمائی کرتاہے ۔

دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ،اسلام کو قوانین کا ایک ایسا سلسلہ جانتا ہے کہ نظام خلقت کا تقا ضا اس کے مطابق ہے اور اپنی بنیاد کی طرح نا قا بل تغیر ہے اور کسی کی نفسانی خواہشات کے تابع نہیں ہے ، اسلام کے یہ قوانین ،حق کو مجسّم جاننے والے قوانین ،جیسے استبدادی اور مطلق العنان ممالک کے قواعد وضوابط ، جو ایک ڈیکٹیڑ اور حاکم کی مرضی یا اکثریت کے مرضی کے مطابق اشتراکی ممالک کے قوانین کی طرح متغیر نہیں ہوئے ہیں ،اور صرف ان کے وضع اور تشریع کی زمام نظام خلقت کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے الفاظ میں ،خالق کائنات کے ارادہ کے تابع ہے ۔ہم اس مطلب کی تفصیلی وضاحت اس بحث کے دوسرے حصہ میں پیش کریں گے ۔

اسلام،ہر زمانہ کی ضرورتوں کوکیسے پورا کرسکتا ہے ؟

اجتماعی بحثوں کے دوران اس نکتہ کا کافی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ انسان اپنے اردگرد مو جودہ حیاتی ضرورتوں کے پیش نظر ان کو تنہا پورا نہیں کر سکا ہے اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کو یکہ وتنہاپورا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا ،اس لئے اس نے مجبو رًا اجتماعی اور معا شرتی زندگی کا انتخاب کیا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک شہر یا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اسی طرح ہم نے قانو نی بحثوں میں بھی بہت سنا ہے کہ معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کی ضرورتوں کو حقیقت میں اسی وقت پورا کرسکتا ہے جب ان کی ضرورتوں کے متناسب کچھ قوانین وجود میں آکر حکمرانی کریں تاکہ ان کے سایہ میں معاشرہ کا ہر فرد اپنے حقوق کو حاصل کر سکے اور زندگی کی سہو لتوں اور امکانات سے استفادہ کرسکے اورافراد کی اجتماعی کار کردگی کے نتائج سے معاشرہ کے منعقدہونے اور قوانین کی پیدائش کے سبب اپنا حصہ حاصل کرے۔

چنانچہ ان ہی دو نکتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے کہ،اجتماعی قوانین کے اصلی عامل وہی انسان کی حیاتی ضرورتیں ہیں کہ انسان ان کو پورا کئے بغیرایک لمحہ کے لئے زندگی گزانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔معاشرہ کی تشکیل اور قانون کی پیدائش اور اس کے بر وقت نفاذکا براہ راست نتیجہ انہی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے ۔بدیہی ہے کہ جو معاشرہ اجتماعی طور پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اقدام نہ کرے ،یعنی اس معاشرہ میں انفرادی کام دوسرے افراد سے کوئی ربط نہ رکھتے ہوں ،تو اسے معاشرہ کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔

اسی طرح جن قوانین کا وجود میں آنا یا ان کا نفاذ ،لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کی خوشبختی اور سعادت کا سبب بننے میں کوئی اثر نہ رکھتے ہوں ،وہ حقیقی قوانین یعنی لوگوں کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والے قوانین نہیں کہلاتے ۔ایسے قوانین وضوابط کا وجود ضروری ہے جو کم وبیش ،مکمل طور پر یاناقص صورت میں معاشرہ کی ضرورتوں کو پوراکر سکیں اور لوگوں کے لئے قابل قبول ہوں۔ان قوانین کی ہر انسانی معاشرہ میں حتی وحشی اور پسماندہ معاشروں میں بھی ضرورت ہوتی ہے ۔منتہی پسماندہ معاشروںکے قوانین اورقومی ضوابط عادات اور رسوم کی صورت میں غیر منظم تصادم کے نتیجہ میں تدریجًا وجود میں آتے ہیں ،یا ایک آدمی کے بیہودہ ارادوں کے ذریعہ یا چند طاقتور لوگوں کی طرف سے لوگوں پر ٹھونسے جاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر اجتماعی زندگی کا اغلب حصہ تمام یا اکثرلو گوں کے لئے ایک واضح اور قابل قبول اصول پر مستحکم ہوتا ہے ۔اس وقت دنیا کے گوشہ وکنار میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو قومی آداب ورسوم پر زندگی بسر کرتے ہیں بدون اس کے کہ ان کی اجتماعی زندگی کاشیرازہ بکھرجائے۔

ترقی یافتہ معاشرے میں ،اگر معاشرہ دینی ہو تو آسمانی شریعت حکومت کرتی ہے اور اگر معاشرہ غیر دینی ہو تو ان قوانین پر عمل در آمد ہوتا ہے جنھیں معاشرہ کے اکثر لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ وجود میں لاتے ہیں ۔بہر حال ایک ایسے معاشرہ کا سراغ نہیں مل سکتا ہے جس کے افراد کسی نہ کسی قسم کے قوانین وضوابط کے پا بند نہ ہوں اور ایسا معاشرہ پیدا کرنا مشکل ہے ۔

اجتماعی اورانسانی ضرورتوں کی تشخیص کا وسیلہ

چنا نچہ معلوم ہوا کہ قوانین اور ضوابط کا اصلی عامل زندگی کی ضرورتیں ہیں۔ لیکن دیکھنا چاہئے ان ضرورتوں ـجو در حقیقت وہی اجتماعی اور انسانی ضرورتیں ہیں ـکو کس طرح تشخیص دی جائے ۔

البتہ یہ ضرورتیں انسان کے لئے بالواسطہ یابلاواسطہ قابل تشخیص ہونی چاہئیں اگر چہ اجمالی اور کلّی طور پر ضمنًا یہ سوال پید ہوتا ہے کی کیا انسان اپنی زندگی اور اجتماع کی تکا لیف کی تشخیص میں بھی کبھی خطا سے دوچار ہوتا ہے یا جس چیز کو بھی تشخیص دیدے اسی میں اس کی سعادت وخوشبختی ہوتی ہے اور اسے چون چرا کے بغیر قبول اور نافذ کرنا چاہئے ؟یعنی انسان کی وہی چاہت ،اس کے حقیقی ہو نے کی صورت میں ،اسے ضروری طور پر قبول اور نافذ کرنے کی لیبل لگا دے گی ۔

لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا کی اصطلاح میں دنیا کے اکثر لوگ انسان کی چاہت کو قانون کی تشخیص دینے والی چیز بتاتے ہیں ،لیکن اس کے پیش نظرکہ ایک ملت کے تمام افراد کی چاہت یا باکل یکساں نہیں ہوتی یا اگر کہیں توافق پیدا ہو جائے تو وہ بہت کم اور اختلافی موارد کے مقا بلہ میں نا چیز ہوتا ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ،لہذا مجبورًا لوگوں کی اکثریت(نصف بعلاوہ ایک) کو قابل اعتبار جان کر اقلیت (نصف منہای ایک)کو مسترد کرکے اقلیت کی آزادی کو پائمال کیا جاتا ہے ۔

البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے ارادہ اور چاہت کا اس کی زندگی کے حالات سے براہ راست ربط ہوتا ہے ۔ایک امیرآدمی ،جو اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے ،اپنے دماغ میں ہزاروں آرزوئیں رکھتا ہے کہ ایک مفلس و حاجتمند کے ذہن میں یہ آرزوئیں پیدا بھی نہیں ہو سکتی ہیں ۔یا بھوک کی وجہ سے جس شخص نے اپنا تاب وتحمل کھو دیا ہو ،وہ ہر لذیذ اور غیر لذیذ کھانے کو کھا لیتا ہے ،اگر چہ وہ کسی اور کا مال بھی ہو ۔جب کہ امیر آدمی ناز ونخروں سے صرف لذٰیذ کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھا تا ہے ۔انسان آرام و آسائش کی حالت میں اپنے ذہن میںبہت سے خیا لات کو پاتا ہے جن کا سختی اور مشکلات میں تصور تک نہیں کرتا !

اس لحاظ سے اجتماعی زندگی کی ترقی کے پیش نظر انسان کی ضرورتیں تدریجاًبدل جاتی ہیں اور ان کی جگہ پر دوسری ضرورتیں جانشین ہو تی ہیں اور انسان قوانین کے ایک سلسلہ کے اعتبار اور نفاذ سے بے نیاز ہو کر نئے اور دوسرے قوانین وضع اورنا فذ کرنے یا پرانے قوانین میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوتا ہے ۔اس لئے زندہ قو موں میں پرانے قوانین مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے قوانین لیتے ہیں ۔یہ بات واضح ہوئی کہ اس کی حقیقی علت یہ ہے کہ قوانین کو وجود میں لانے والااوراس کی حمایت کرنے والا سبب ملت کے افراد کی اکثریت کی چاہت ہے اور یہی اکثریت کی مرضی قوم کے قواعدو ضوابط کو قانونی شکل دے کر ان پر حقیقت کی مہر لگا دیتی ہے ، حتی اگر ان کے معاشرہ کی حقیقی مصلحت ان قوانین میں نہ ہو،کیونکہ مثال کے طور پر فرانس کا ایک شخص فرانسیسی معاشرہ میں اس معاشرہ کا رکن اورجز اور اکثریت کے موافق ہونے کے ناطے محترم ہے اور مثال کے طور پر فرانس کا قانون جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک فرانسیسی فرد کو تحفظ بخشے اور وہ بھی بیسویں صدی میں نہ یہ کہ ایک برطانوی فرد کی یا ایک فرانسیسی فرد کی دسویں صدی میں (قابل غوربات ہے!) اس سلسلہ میں بیشترغور وخوض کر نے کی ضرورت ہے کہ کیا مذکورہ عامل انسان کی خواہشات میں مؤثر ہے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میں ہر لحاظ سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔؟

اور یا پوری تاریخ بشریت میں انسانی معاشروں کے درمیان کوئی مشترک پہلو باقی نہیں رہتا ہے ؟

یا اصل انسانیت ـجبکہ فطر تًازندگی کی چند ضرورتیں اس سے مربوط ہیں (چنانچہ کچھ دوسری ضرورتیں مختلف علا قوں اور زندگی کے مراکز کے حالات اور ماحول کے مختلف ہونے سے مر بوط ہوتی ہیں ) ـتدریجاًبدل گئی ہے ؟اور پہلا انسان مثلاًآنکھ، کان ،ہاتھ پائوں ،دماغ ،دل ،گردے ،پھیپھڑے ،جگر اور نظام ہاضمہ کے اعضا ء ـو ہم میں پائے جاتے ہیں ـنہیں رکھتا تھا یا ان اعضاء کی سر گرمی ایک دن ایسی نہیں تھی جیسی آج پائی جاتی ہے ؟

کیا گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آنے والے حالات ،جیسے جنگ و خون ریزی اور صلح وآشتی کے معنی انسان کو نابود کرنے یا اسے محفوظ رکھنے کے علاوہ کچھ اور تھے ؟

کیا شراب پینے کی صورت میں پیدا ہونے والی مستی ،مثلاً(شراب کے افسانہ کے موجد)''جمشید'' کے زمانہ میں آج کے زمانہ میں رکھنے والے مفہوم کے علاوہ کچھ اور مفہوم رکھتی تھی ؟اور اسی طرح کیا،''نکسیا''اور ''باربد ''جیسے موسیقی کاروں کی مو سیقی کی لذت آج کی موسیقی کی لذتوں کے علاوہ کچھ اور تھی ؟

مختصر یہ کہ کیا گزشتہ انسان کے وجود کی پوری بناوٹ آج کے انسان کی بناوٹ سے بالکل مختلف تھی ؟یا قدیم انسان کے اندرونی اور بیرونی حالات آثار،عمل اور ردعمل ،آج کے انسان کے علاوہ کچھ اور تھے ؟

البتہ ان تمام سوالات کے جوابات منفی ہیں ۔کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت تدریجاًنابود ہو گئی ہے اور کوئی اورچیز اس کی جانشین بن گئی ہے یا جانشین ہوگی ،یا یہ کہ اصل انسانیت جو سیاہ فام وسفیدفام، بوڑھے جوان، عقلمند اوربیوقوف ،قطب میں رہنے والے اور خط استواپر رہنے والے اور پرانے زمانے کے انسان اور آج کے انسان میں مشترک ہے ،مشترک ضروریات نہیں رکھتی ۔یا اگریہ ضروریات مشترک بھی ہوں تو انسان کی خواہش اورارادہ ان کو پورا کرنے سے مربوط نہیں ہے۔

جی ہاں ،حقیقت میں یہ ضرورتیں موجود ہیں اورکچھ ثابت اور دائمی قوانین کی متقاضی بھی ہیں جن کا بدلنے والے قوانین سے کوئی ربط نہیں ہے ،کوئی بھی قوم کسی بھی زمانہ میں اس کی زندگی کے لئے قطعی طور پر خطرہ بننے والے دشمن سے ممکن صورت میں جنگ کرنے سے گریز نہیں کرتی اور اگر ایسے دشمن سے نجات پانے کے لئے اسے قتل کرنے کے علاوہ کوئی اورچارہ نظر نہ آئے تو خوں ریزی برپا کرنے سے پیچھے نہیں رہتی ۔

مثلاً کوئی معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کے لئے ضروری تغذیہ کو نہیں روک سکتا ہے ،یا ان کے جنسی تمایلات پر پابندی نہیں لگا سکتا ہے ۔اس قسم کے بہت سے نمونے موجود ہیں جو نا قابل تغیراحکام کی نشاندہی کرتے ہیں اور قابل تغیراحکام سے ان کا کوئی ربط نہیں ہوتا ۔

مذکورہ بیانات سے چند موضوع واضح ہو جاتے ہیں :

١۔معاشرہ اور اجتماعی قوانین و ضوابط کی پیدائش کااصلی عامل زندگی کی ضروریات ہیں ۔

٢۔تمام اقوام حتی وحشی قومیں بھی اپنے لئے کچھ قوانین اورضوابط رکھتی ہیں ۔

٣۔موجودہ دنیا کی نظر میں زندگی کی ضرورتوں کو تشخیص دینے والا وسیلہ معاشرہ کے لوگوں کی اکثریت کی مر ضی ہے ۔

٤۔ اکثریت کی رائے ہمیشہ حقیقت کے مطابق نہیں ہوتی ۔

٥۔زمانہ کے گزر نے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ کچھ قوانین بدلتے رہتے ہیں اور یہ قوانین خاص حالات سے مر بوط ہوتے ہیں ،لیکن قوانین کا ایک اور سلسلہ جو ''انسانیت''کی بنیاد سے مربوط اور تمام ادوار کے انسانوں اور تمام شرائط اور ماحول میں مشترک ہیں ،ناقابل تغیر ہیں ۔اب جبکہ یہ مو ضو عات واضح ہوگئے،ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا نظریہ کیا ہے ؟

تربیت کے بارے میں اسلام کا نظریہ

اسلام ،چونکہ ایک عالمی دین ہے اور ایک خاص جماعت اورایک معین زمان ومکان کو مد نظرنہیں رکھتا ہے ،اس لئے اس نے اپنی تعلیم وتر بیت میں ''فطری انسان'' کو مد نظر رکھا ہے ،یعنی اس نے اپنی نظر کو صرف انسانیت کی مخصوص بناوٹ پر متوجہ کیا ہے ،جس میں ایک عادی اور عمومی انسان کے شرائط جمع ہو کرانسان کا مصداق بنتا ہے ،اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عرب ہو یا عجم ،سیاہ فام ہو یاسفید فام ،فقیر ہو یاامیر،طاقتور ہو یا کمزور،عورت ہو یا مرد،بوڑھا ہو یا جوان اور دانا ہو یانادان ۔

''فطری انسان ''یعنی جو انسان خداداد فطرت کا مالک ہو اور اس کا شعوروارادہ پاک ہوو توہمات اور خرافات سے آلودہ نہ ہواہو،اسے ہم ''فطری انسان کہتے ہیں ''

اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کا دوسرے حیوانوں سے صرف یہ امتیاز ہے کہ انسان اپنی طاقت سے مسلح ہے اورزندگی کی راہ طے کرنے میں ''عقل وشعور''سے کام لیتا ہے ،جبکہ دوسرے حیوانات اس خداداد نعمت سے محروم ہیں ۔

ہر جاندار کی سر گرمی ـبجز انسان کے ـیک ایسے شعور ارادہ پر منحصر ہے کہ جس کا عامل صرف اس حیوان کے جذبات ہیں جو اپنے ظہور اور جوش سے اسے اس کے مقاصد کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور اسے فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس ارادہ کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی کی سر گرمیوں کو بروئے کار لا کر آب و غذااور زندگی کی دوسری ضروریات کے پیچھے جاتا ہے ۔

یہ صرف انسان ہے ،جو مہر ومحبت ،کینہ وعداوت دوستی ودشمنی اور خوف وامید کے شدید جوش وجذبہ اورجذب ودفع کے بارے میں ہر قسم کے دوسرے جذبات کے علاوہ ایک عدالتی نظام سے بھی مسلح ہے ،جو مختلف جذ بات اور طاقتوں اور حقیقی مصلحتوں کے درمیان دعوی کی تحقیق کرکے عمل کی تشخیص دے کر اس کے مطابق فیصلہ دیتا ہے ۔کبھی جذبات کی شدید خواہش کے باوجود اس کے بر خلاف فیصلہ سناتا ہے اور کبھی قدرت اور جذبات کی کراہت کے باوجود حق میں فیصلہ سناتا ہے اور انسان کو سر گرمی پر مجبور کرتا ہے اور کبھی ان جذبات اور طاقت کی مصلحتوں پر توا فق اور ان کی خواہش سے موافقت کا اعلان کرتا ہے ۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19