انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145849 / ڈاؤنلوڈ: 4851
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نتیجتاً اپنی حالت کی تبدیلی پر قدرت نہیں رکھتا ہے ،چونکہ یہ سب اس کی دانستہ اختیار و انتخاب کی وجہ سے ہے لہٰذا ملامت کے لائق ہے ،بہت سی آیات جو کافروں اور منافقوں کی ملامت کرتے ہوئے ان کی راہ ہدایت کو مسدود اور ان کی دائمی گمراہی کو حتمی بتاتے ہیں مثال کے طور پر( وَ مَن یُضلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهُ مِن هَادٍ ) (۱) ''جس کو خدا گمراہ کردے اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہے ''یہی واقعیت ہے کہ جس کی بنا پریہ لوگ پیغمبروں کی روشن اور قاطع دلیلوں کے مقابلہ میں اپنے تھوڑے سے علم پر خوش ہیں :

( فَلَمَّا جَائَ تهُم رُسُلُهُم بِالبَیِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِنَ العِلمِ )

پھر جب پیغمبر (الٰہی)ان کے پاس واضح و روشن( ان کی طرف) معجزہ لے کر آئے تو جو (تھوڑا سا )علم ان کے پاس تھا اس پر نازا ںہوگئے ۔(۲)

اور دوسری جگہ فرماتا ہے :

( وَ مَن أَظلَمُ مِمَّن ذُکِّرَ بِأیَاتِ رَبِّهِ فَأَعرَضَ عَنهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَت یَدَاهُ نَّا جَعَلنَا عَلیٰ قُلُوبِهِم أَکِنَّةً أن یَفقَهُوهُ وَ فِی ئَ اذَانِهِم وَقراً وَ ن تَدعُهُم لیٰ الهُدَیٰ فَلن یَهتَدُوا ِذاً أَبَداً ) (۳)

اوراس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس کو خدا کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے رو گردانی کرے اور اپنے پہلے کرتوتوں کو جو اس کے ہاتھوں نے کئے ہیں بھول بیٹھے ہم نے خود ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ (قرآن)کو نہ سمجھ سکیں اور

ان کے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ( تاکہ اس کو نہ سن سکیں )اور اگر تم ان کو راہ راست کی طرف بلاؤ بھی تو یہ ہرگز کبھی روبراہ ہونے والے نہیں ہیں۔

آئندہ ہم کہیں گے کہ گذشتہ اعمال کو فراموش کرنا اور ان سے استفادہ نہ کرنا ، خود فراموشی کااہم سبب ہے ، اس آیت میں بھی حالات کی اصلاح اور تبدیلی پر قادر نہ ہوناخود فراموشی کی نشانی کے عنوان سے بیان ہوا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ رعد ،۳۳۔زمر، ۲۳و ۳۶۔غافر،۳۳۔

(۲)غافر، ۸۳

(۳)سورۂ کہف ، ۵۷

۸۱

مادہ اور مادیات کی حقیقت

جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ انسان کے حقیقی وجود کو اس کا روحانی اور معنوی پہلو مرتب کرتا ہے، لیکن اگر انسان خود کوغیر سمجھے گا تو ظاہر ہے کہ اس نے دوسرے فرد کے وجود کو اپنا وجود سمجھا ہے ۔ قرآن کے اعتبار سے بعض خود فراموش افراد ہمیشہ اپنی حقیقی جگہ ،حیوانیت کو بٹھاتے ہیں اور جب حیوانیت انسانیت کی جگہ قرارپاجائے تو یہی سمجھا جائے گا کہ جو بھی ہے یہی جسم اور مادی نعمتیں ہیں، تو ایسی صورت میں انسان مادی جسم اور حیوانی خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کی دنیا بھی مادی دنیا کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،ایسے حالات میں خود فراموش انسان کہے گا( و َمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً ) (۱) ''میں گمان نہیں کرتا تھا کہ قیامت بھی ہے ''اور کہے گا کہ :( مَا هِیَ لاّ حَیَاتُنَا الدُّنیَا نَمُوتُ وَ نَحیَا وَ مَا یُهلِکُنَا لاّ الدَّهرُ ) (۲) ''ہماری زندگی تو بس دنیا ہی ہے ،مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو تو بس زمانہ ہی مارتا ہے ''

اس فکر کے اعتبار سے اس انسان کی ضرورتیں بھی حیوانی ضرورتوں کی طرح ہو جائیں گی جیسے کھانا ،پینا،اوڑھنا، پہننا اور دوسرے دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونا( وَ الَّذِینَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الأَنعَامُ ) (۳) اورجو لوگ کافر ہوگئے ہیں جانوروں کی طرح کھاتے ہیں اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں جیسے کہ ان کا کمال اسی مادی بہرمندی و دنیاوی کمالات اور اسی مسرت بخش لذتوں کا حصول ہے ۔( وَ فَرِحُوا بِالحَیَاةِ الدُّنیَا ) (۴) ایسے انسان کے لئے ذرا سی جسمانی بیماری بہت ہی اہم اور بے تابی کا سبب بن جاتی ہے( إذَا مَسَّهُ الشَرُّ جَزُوعاً ) (۵) ''جب اسے تکلیف چھو بھی گئی تو گھبرا گیا''لیکن معنوی تنزل کی کثرت

____________________

(۱)کہف، ۳۶

(۲)جاثیہ ،۲۴

(۳)محمد ، ۱۲

(۴)رعد ،۲۶

(۵)معارج ، ۲۰۔

۸۲

جس سے وہ دوچار ہوا ہے اور روحی و جسمانی بیماری کا پہاڑ جس سے وہ جاں بلب ہے درک نہیں کرتا ہے بلکہ وہ اعمال جو بیماری اور سقوط کا ذریعہ ہیں انہیں اچھا سمجھتا ہے اس لئے کہ اگر حیوان ہے تو یقینا یہ چیزیں اس کے لئے بہتر ہیں اور ہم کہہ چکے ہیں کہ وہ خود کو حیوان سمجھتا ہے ۔

( قُل هَل نُنَبِّئُکُم بِالأَخسَرِینَ أعمَالاً ٭ الَّذینَ ضَلَّ سَعیُهُم فِیالحَیاةِ الدُّنیَا وَ هُم یَحسَبُونَ أَنَّهُم یُحسِنُونَ صُنعاً ) (۱)

تم کہدو کہ کیا ہم ان لوگوں کا پتہ بتا دیں جو لوگ اعمال کی حیثیت سے بہت گھاٹے میں ہیں ،وہ لوگ جن کی دنیاوی زندگی کی سعی و کوشش سب اکارت ہوگئی اوروہ اس خام خیال میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں ۔

ایساانسان اگر کسی درد کو حیوان کا درد سمجھے ، تو علاج کو بھی حیوانی علاج سمجھتا ہے اور سبھی چیزوں کو مادی زاویہ سے دیکھتاہے ، حتی اگر خدا اس کو سزا دے توعبرت و بازگشت کے بجائے اس سزا کی بھی مادی تجزیہ و تحلیل کرتا ہے ۔

( وَ مَا أَرسَلنَا فِی قَریَةٍ مِن نَبِیٍّ لاّ أَخَذنَا أهلَهَا بِالبَأسَائِ وَ الضَّرَّائِ لَعَلَّهُم یَضَّرَّعُونَ ٭ ثُمَّ بَدَّلنَا مَکَانَ السَّیِّئَةِ الحَسَنَةَ حَتَّیٰ عَفَوا وَّ قَالُوا قَد مَسَّ ئَ ابَائَ نَا الضَّرَّائُ وَ السَّرَّائُ فَأَخَذنَاهُم بَغتَةً وَ هُم لا یَشعُرُونَ ) (۲)

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور مصیبت میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوگ گڑ گڑائیں، پھر ہم نے تکلیف کی جگہ آرام کو بدل دیا یہاں تک کہ وہ لوگ بڑھ نکلے اور کہنے لگے کہ اس طرح کی تکلیف و آرام تو ہمارے آباء و اجداد کو پہونچ چکی ہے تب ہم نے بڑی بولی بولنے کی سزا میں گرفتار کیا اور وہ بالکل بے خبر تھے ۔

____________________

(۱)کہف ، ۱۰۳و ۱۰۴۔

(۲)اعراف ، ۹۴و ۹۵۔

۸۳

عقل و دل سے استفادہ نہ کرنا

جو بھی خود فراموشی کا شکار ہوتا ہے وہ شیطان ، حیوان یا کسی دوسرے وجود کو اپنی ذات سمجھتا ہے اور اس کے زیر اثر ہو جاتا ہے اور خود کو اسی دنیا اور اس کی لذتوں میں منحصر کر لیتا ہے ،آخر کار اپنے انسانی عقل و قلب کی شناخت کے اسباب پر مہر لگا کر حقیقت کی راہوں کو اپنے لئے بند کرلیتا ہے ۔

( ذٰلکَ بِأنَّهُمُ استَحَبُّوا الحَیَاةَ الدُّنیَا عَلیٰ الآخِرَةِ وَ أنَّ اللّٰهَ لا یَهدِی القَومَ الکَافِرِینَ ٭ أولٰئِکَ الَّذِینَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلیٰ قُلُوبِهِم وَسَمعِهِم وَ أبصَارِهِم وَ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلُونَ ) (۱)

اس لئے کہ ان لوگوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اوروہ اس وجہ سے کہ خدا کافروں کو ہرگز منزل مقصود تک نہیں پونچایا کرتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں،کانوں اور ان کی آنکھوں پر خدا نے علامت مقرر کردی ہے جب کہ وہ لوگ بے خبر ہیں۔

قلب و سماعت اور ان کی آنکھوں پر مہر لگانا حیوانی زندگی کے انتخاب اور اسی راہ پر گامزن ہونے سے حاصل ہوتا ہے ،اور یہ سب حیوانی زندگی کے انتخاب کا نتیجہ ہے اسی بنا پر ایسا انسان حیوان سے بہت پست ہے( أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلُونَ ) (۲) اس لئے کہ حیوانات نے حیوانیت کا انتخاب نہیں کیا ہے بلکہ حیوان خلق ہوئے ہیں اور ان کی حیوانیت کی راہ میں خود فراموشی نہیں ہے لیکن انسان جوانسان بنایا گیا ہے اگر حیوانیت کو انتخاب کرے تویہ اس کے خود فراموش ہونے کی وجہ ہے ۔

____________________

(۱) نحل، ۱۰۷و ۱۰۸

(۲)اعراف ، ۱۷۹

۸۴

خود فراموشی اور حقیقی توحید

ممکن ہے کہ کہا جائے کہ مومن انسان بھی خدا کو اپنے آپ پر حاکم قرار دیتا ہے ،اس کی خواہش کو اپنی خواہش سمجھتا ہے اور جو بھی وہ کہتا ہے عمل کرتا ہے اور توحید و ایمان کا نقطہ اوج بھی سراپا اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کرنا اور خود کو فراموش کرنا ہے، اس طرح سے تو موحد انسان بھی خود فراموش ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ انسان کے لئے ایک الٰہی واقعیت و حقیقت ہے جس سے وہ وجود میں آیا ہے اور اسی کی طرف پلٹایا جائے گا ، تو اس کی حقیقت و شخصیت ، خود خدا سے مربوط اور اسی کے لئے تسلیم ہونا ہی اپنے آپ کو پالینا ہے ،خدا ہی ہماری حقیقت ہے اور ہم خدا کے سامنے تسلیم ہو کے اپنی حقیقت کو پالیں گے ۔

ع: ہر کس کہ دور ماند از اصل خویش

باز جوید روزگار وصل خویش

جو بھی اپنی حقیقت سے دور ہوگیا وہ ایک دن اپنی حقیقت کو ضرور پالے گا ۔

( إنَّا لِلّٰهِ وَ نَّا لَیهِ رَاجِعُونَ ) (۱) '' ہم خدا کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے'' اگر خود کو درک کر لیا تو خدا کوبھی درک کرلیں گے ،اگر اس کے مطیع ہوگئے اور خدا کو درک کرلیا تو خود کو گویاپالیاہے ۔ ''در دوچشم من نشستی کہ از من من تری ''اگر تم میری آنکھوں میں سما گئے ہو تو گویا تم میں مجھ سے زیادہ منیت ہے۔اس اعتبار سے حدیث ''مَن عَرفَ نَفسَہ فَقَد عَرفَ رَبَّہ''''جس نے خود کو پہچانا یقیناً اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ''اور آیت( وَ لا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰهَ فَأنسَاهُم أَنفُسَهُم ) (۲) کے لئے ایک نیا مفہوم اور معنی ظاہر ہوتا ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ بعض آیات میں خود کو اہمیت دینے کی ملامت سے مراد اپنے نفس کو اہمیت دینا اور آخرت سے غافل ہونا اور خدا کے وعدوں پر شک کرنا ہے جیسے یہ آیت :

____________________

(۱)سورۂ بقرہ ۱۵۶

(۲)حشر، ۱۹

۸۵

( وَ طَائِفَة قَد أهَمَّتهُم أَنفُسُهُم یَظُنُّونَ بِاللّٰهِ غَیرَ الحَقِّ ظَنَّ الجَاهِلِیَّةِ )

اور ایک گروہ جن کو (دنیاوی زندگی )اور اپنی جان کی فکر تھی خدا کے ساتھ زمانہ جاہلیت جیسی بد گمانیاں کرنے لگے ۔(۱)

اجتماعی اور سماجی بے توجہی (اجتماعیحقیقت کا فقدان )

خود فراموشی کبھی فردی ہے اور کبھی اجتماعی ہوتی ہے، جو کچھ بیان ہو چکاہے فردی خود فراموشی سے مربوط تھا ۔ لیکن کبھی کوئی معاشرہ یاسماج خود فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے اور دوسرے معاشرہ کو اپنا سمجھتا ہے، یہاں بھی دوسرے معاشرہ کی حقیقت کو اپنی حقیقت سمجھتا ہے اور دوسرے معاشرہ کو اصل قرار دیتا ہے ۔

تقی زادہ جیسے افراد کہتے ہیں :ہمارے ایرانی معاشرہ کی راہ ترقی یہ ہے کہ سراپا انگریز ہوجائیں،ایسے ہی افراد ہمارے معاشرہ کو خود فراموش بنا دیتے ہیں ،اور اسی طرح کے لوگ مغربی معاشرہ کو اپنے لئے اصل قرار دیتے ہیں اورمغرب کی مشکلات کو اپنے سماج و معاشرہ کی مشکل اور مغرب کے راہ حل کو اپنے معاشرہ کے لئے راہ حل سمجھتے ہیںلیکن جب مغربی لوگ آپ کی مشکل کا حل پیش نہ کرسکے تو یہ کہدیا کہ یہ مہم نہیں ہے کیوں کہ مغرب میں بھی ایسا ہی ہے بلکہ ایسا ہونا بھی چاہیئے اور ایک ترقی یافتہ معاشرہ کا یہی تقاضا ہے اور ایسے مسائل تو ترقی کی علامت شمار ہوتے ہیں !۔

جب اجتماعی و سماجی مسائل و مشکلات کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے تو وہ چیزیں جومغرب میں اجتماعی مشکل کے عنوان سے بیان ہوئی ہیںانہیں اپنے معاشرہ کی مشکل سمجھتے ہیں اور جب کسی مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تومغرب کے راہ حل کو تلاش کرتے ہیں اور اس کو کاملاً قبول کرتے ہوئے اس کی نمائش کرتے ہیں حتی اگر یہ کہا جائے کہ شاید ہمارا معاشرہ مغربی معاشرہ سے جدا ہے تو کہتے ہیں پرانی تاریخ نہ دہراؤ، وہ لوگ تجربہ اور خطا

____________________

(۱)آل عمران ، ۱۵۴۔

۸۶

کے مرحلہ کو انجام دے چکے ہیں، ایسے افراداعتبارات ، خود اعتمادی ، دینی تعلیمات حتی کہ قومی اقدار کو معاشرہ کی شناخت میں اور اجتماعی مسائل اوراس کے بحران سے نکلنے کی راہ میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ۔

جو معاشرے دوسرے معاشرہ کو اپنی جگہ قرار دیتے ہیں وہ دوسرے کے آداب و رسوم میں گم ہو جاتے ہیں، انتخاب و اقتباس نہیں کرتے ، کاپی کرتے ہیں، فعال نہیں ہوتے بلکہ فقط اثر قبول کرتے ہیں۔اقتباس وہاں ہوتا ہے جہاں اپنائیت ہو،اپنے رسم و رواج کو پیش کر کے موازنہ کیا گیا ہو اور اس میں بہترین کاانتخاب کیا گیا ہو، لیکن اگر کوئی معاشرہ خود فراموش ہو جائے تو اپنے ہی آداب و رسوم کو نقصان پہونچاتا ہے ، تمام چیزوں سے چشم پوشی کرتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے ۔

استکباری معاشروں کا ایک کام یہی ہے کہ ایک معاشرہ کو خود فراموشی کا شکار بنا دیں ،جب کوئی معاشرہ خود فراموشی کاشکار ہوجائے تو اس کے آداب و رسوم پریلغار کی ضرورت نہیں ہے ۔ثقافتی تفاہم کی صورت میں بھی دوسروں کے آداب و رسوم اپنائے جاتے ہیں۔ وہ چیزیں جو آداب و رسوم پہ حملہ کا سبب واقع ہوتی ہیں وہ معاشرہ کے افراد ہی کے ذریعہ انجام پاتی ہیں ۔ چہ جائیکہ شرائط ایسے ہوں کہ دشمن فتح و غلبہ کے لئے یعنی آداب و رسوم کو منتقل کرنے کے لئے نہ سبھی عناصر بلکہ اپنے پست عناصر کے لئے منظم پروگرام اور پلان رکھتے ہوں توایسی صورت میں اس معاشرہ کی تباہی و نابودی کے دن قریب آچکے ہیں اور آداب و رسوم و اقتدارمیں سے کچھ بھی نہیں بچا ہے جب کہ اس کے افراد موجود ہیںاور وہ معاشرہ اپنی ساری شخصیت کھو چکا ہے اور مسخ ہو گیا ہے ۔(۱)

ابنای روزگار بہ اخلاق زندہ اند

قومی کہ گشت فاقد اخلاق مردنی است

دنیا کے لوگ اپنے اخلاق کی وجہ سے زندہ ہیں ، جو قوم اخلاق سے عاری ہووہ نابود ہونے والی ہے ۔

____________________

(۱)اقبال لاہوری ؛امام خمینی اور مقام معظم رہبری کی دینی اور اجتماعی دانشور کی حیثیت سے استقلال و پائداری کی تقویت کے حوالے سے بہت زیادہ تاکید نیز اپنی تہذیب و ثقافت کو باقی رکھنا بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔

۸۷

اپنے نئے انداز کے ساتھ علم پرستی(۱) انسان پرستی(۲) مادہ پرستی(۳) نیز ترقی اور پیشرفت کو صرف صنعت اور ٹکنالوجی میں منحصر کرنا آج کی دنیا اور معاشرے میں خود فراموشی کی ایک جدید شکل ہے ۔(۴)

خود فراموشی کا علاج

خود فراموشی کے گرداب میں گرنے سے بچنے اوراس سے نجات کے لئے تنبیہ اور غفلت سے خارج ہونے کے بعد تقوی کے ساتھ ماضی کے بارے میں تنقیدی جستجو سود مند ہے، اگر فرد یا کوئی معاشرہ اپنے انجام دیئے گئے اعمال میں دوبارہ غور و فکر نہ کرے اور فردی محاسبہ نفس نہ رکھتا ہواور معاشرہ کے اعتبار سے اپنے اور غیر کے آداب و رسوم میں کافی معلومات نہ رکھتاہونیز اپنے آداب و رسوم میں غیروں کے آداب و رسوم کے نفوذ کر جانے کے خطرے سے آگاہ اور فکرمند نہ ہو تو حقیقت سے دور ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور یہ دوری اتنی زیادہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان خود کو نیز اپنی تہذیب کو فراموش کردے اور خود فراموشی کا شکار ہو جائے ایسے حالات میں اس کیلئے خود فراموشیسے کوئی راہ نجات ممکن نہیں ہے، قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتا ہے :

( یَأ أیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلتَنظُر نَفس مَا قَدَّمَت لِغَدٍ وَ اتَّقُوااللّٰهَ نَّ اللّٰهَ خَبِیر بِمَا تَعمَلُونَ ٭ وَ لا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰهَ فَأنسَاهُم أَنفُسَهُم أولٰئِکَ هُمُ الفَاسِقُونَ ) (۵)

اے ایماندارو! خدا سے ڈرو ، اور ہر شخص کو غور کرنا چاہیئے کہ کل کے واسطے اس نے

____________________

(۱) Scientism

(۲) Humanism

(۳) Materialism

(۴)اگرچہ معاشرتی تہذیب سے بیگانگی ، انسانی اقدار کے منافی ہے لیکن توجہ رکھنا چاہیئے کہ قومی اورمعاشرتی تہذیب خود بہ خود قابل اعتبار نہیں ہوتی بلکہ اسی وقت قابل اعتبار ہے جب اس کے اعتبارات اور راہ و روش انسان کی حقیقی سعادت اور عقلی و منطقی حمایت سے استوار ہوں۔

(۵)سورۂ حشر ، ۱۸و ۱۹۔

۸۸

پہلے سے کیا بھیجا ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سےباخبر ہے، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے، یہی لوگ تو بدکردار ہیں۔

خود فراموشی کی مشکل سے انسان کی نجات کے لئے اجتماعی علوم کے مفکرین نے کہا ہے کہ : جب انسان متوجہ ہوجائے کہ خود فراموشی کا شکار ہوگیا ہے تو اپنے ماضی میں دوبارہ غور و فکر اور اس کی اصلاح کرے کیونکہ وہ اپنے ماضی پر نظر ثانی کئے بغیر اپنی مشکل کے حل کرنے کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ہے ،اور آیت میں یہ سلسلہ بہت ہی دقیق اور منظم بیان ہوا ہے جس میں تقوی کو نقطۂ آغاز مانا ہے( یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ) اگر زندگی کا محور تقوی الٰہی ہو تو خدا کے علاوہ انسان پر کوئی دوسرا حاکم نہیں ہوگا اور انسان خود فراموشی کے حوالے سے ضروری تحفظ سے برخوردار ہے ۔ دوسرا مرحلہ : ان اعمال میں دوبارہ غور فکر ہے جسے اپنی سعادت کے لئے انجام دیا ہے ۔ انسان اس وقت جب وہ کوئی کام خدا کے لئے انجام دیتا ہے ہوسکتا ہے کہ کوئی پوشیدہ طور پر اس پر حاکم ہوجائے لہٰذا ان اعمال میں بھی جس کو خیر سمجھتا ہے دوبارہ غور و فکر کرے اور کبھی اس غور و فکر میں بھی انسان غفلت اور خود فریبی سے دوچار ہو جاتا ہے، اسی بنا پر قرآن دوبارہ فرماتا ہے کہ : (و اتَّقُوا اللّٰہَ)''اللہ سے ڈرو '' قرآن مجیدکے مایۂ ناز مفسرین اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ : آیت میں دوسرے تقوی سے مراد ، اعمال میں دوبارہ غور و فکر ہے، اگر انسان اس مرحلہ میں بھی صاحب تقوی نہ تو خود فریبی سے دوچار اور خود فراموشی کی طرف گامزن ہوجائے گا ،قرآن مجید فرماتا ہے کہ اے مومنو! ایسا عمل انجام نہ دو جس کی وجہ سے خود فراموشی سے دوچار ہوکر خدا کو بھول جاؤ، اس لئے فقط اعمال میں دوبارہ غور وفکر کافی نہیں ہے ،قرآن کی روشنی میں گذشتہ اعمال کا محاسبہ تقوی ٰ الٰہی کے ہمراہ ہونا چاہیئے تاکہ مطلوب نتیجہ حاصل ہوسکے ۔

۸۹

آخری اور اہم نکتہ یہ ہے کہ شاید ماضی میں افراد یا معاشرے خود اپنے لئے پروگرام بنایا کرتے تھے اور اپنے آپ کو خود فراموشی کی دشواریوں سے نجات دیتے تھے یا اپنے آپ کو فراموش کر دیتے تھے ،لیکن آج جب کہ انسانوں کا آزادانہ انتخاب اپنی جگہ محفوظ ہے تو معمولاً دوسرے لوگ انسانی معاشرے کے لئے پرو گرام بناتے ہیں، اور یہ وہی (اسلامی)تہذیب پر حملہ ہے جو ہمارے دور کا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ،یہ تصور نہ ہو کہ جب ہم اپنے آپ سے غافل و بے خبر ہیں تو ہمارے خلاف سازشیں نہیں ہورہی ہیں ہمیشہ اس عالمی ممالک کے اجتماعی گروہ ، سیاسی پارٹیاں ، استعماری عوامل اور جاہ طلب قدرتیں اپنے مادی اہداف کی وجہ سے اپنے مقاصد کے حصول اور اس میں مختلف معاشروں اور افراد سے سوء استفادہ کے لئے سازشیںرچتے ہیں ۔ یہ سمجھنا بھولے پن کا ثبوت ہے کہ وہ لوگ انسان کی آرزوؤں ، حقوق بشر اور انسان دوستانہ اہداف کے لئے دوسرے انسانوں اور معاشروں سے جنگ یا صلح کرتے ہیں ،ایسے ماحول میں ان سازشوں اور غیروں کے پروگرام اور پلان سے غفلت ، خطرہ کا باعث ہے اور اگر ہم اس ہلاکت سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ہمیں امیر المومنین علی کے طریقہ عمل کومشعل راہ بنانا چاہیئے آپ فرماتے ہیں :

فَما خَلقتُ لیشغلنِی أکل الطیّبات کَالبَهیمةِ المربُوطة همّهاعلفهَا ...وَ تلهو عمّا یراد بِها (۱)

''میں اس لئے خلق نہیں ہوا ہوں کہ مادی نعمتوں کی بہرہ مندی مجھ کو مشغول رکھےاس گھریلوجانور کی طرح، جس کا اہم سرمایہ اس کی گھاس ہے... اور جوکچھ اس کےلئے مرتب کیا گیا ہے اس سے غافل ہے ۔''

اسی بنا پرکبھی انسان خودبے توجہ ہوتا ہے اور کبھی یہ غفلت دوسروں کے پروگرام اوران کی حکمت عملی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔انسان کبھی خود کسی دوسرے کو اپنی جگہ قرار دیتا ہے اور خود سے بے توجہ اور غافل ہوجاتا ہے اور کبھی دوسرے افراد اس کی سرنوشت طے کرتے ہیں ، اور اس سے سوء استفادہ کی فکر

____________________

(۱)نہج البلاغہ ، کلام ۴۵۔

۹۰

میں لگے رہتے ہیں اور اپنے اہداف کی مناسبت سے خودی کا رول ادا کرتے ہیں ۔ اجتماعی امور میں بھی جو معاشرہ خود سے غافل ہو جاتاہے، استعمار اس کے آداب و رسوم کی اہمیت کو بیان کرتا ہے اور اس کے لئے نمونہ عمل مہیا کرتا ہے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جتنی مقدار میں فردی خود فراموشی ضرر پہونچاتی ہے اتنی ہی مقدار میں انسان کا اپنی تہذیبی اور معاشرتی روایات سے بے توجہ ہونابھی نقصان دہ ہے ان دو بڑے نقصان سے نجات پانے کے لئے اپنی فردی اور اجتماعی اہمیت و حقیقت کا پہچاننا اوراس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

( یَا أیُّهَا الَّذِینَ ئَ امَنُوا عَلَیکُم أَنفُسَکُم لا یَضُرُّکُم مَن ضَلَّ ذا اهتَدَیتُم )

اے ایمان والو! تم اپنی خبر لو جب تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ ہوا کرے تم کو نقصان نہیں پہونچا سکتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)سورۂ مائدہ ، ۱۰۵۔

۹۱

خلاصہ فصل

۱۔انسان کی خود فراموشی انسان شناسی کے مہم ترین مسائل میں سے ہے جو انسانی علوم کے مختلف موضوعات میں مورد توجہ رہی ہے ۔

۲۔انسانی اور اجتماعی علوم کے مباحث میں علمی اور فنی طریقہ سے خود فراموشی کی توضیح وتحلیل کو ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعض مفکرین مخصوصاً ہگل ، فیور بیچ اور مارکس کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔

۳۔دین اور خود سے بے توجہی کے رابطہ میں ان تین مفکروں کا وجہ اشتراک یہ ہے کہ دین، بشر کی بے توجہی کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ،یہ گفتگو خود فراموشی کے مسئلہ میں ادیان آسمانی مخصوصا اسلام اور قرآن کے تفکر کا نقطۂ مقابل ہے ۔

۴۔ قرآن کی روشنی میں انسان کی حقیقت کو اس کی دائمی روح ترتیب دیتی ہے جو خدا سے وجود میں آئی ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جائے گی ۔انسان کی حقیقی زندگی عالم آخرت میں ہے جسے اس دنیا میں اپنے ایمان اور سچی تلاش سے تعمیر کرتا ہے ۔ لہٰذا انسان کاخدا شناسی سے غفلت در حقیقت واقعیت سے غفلت ہے اور وہ انسان جو خدا کو فراموش کردے گویااس نے اپنے وجود کو فراموش کیا ہے اور اپنے آپ سے بے توجہ ہے ۔

۵۔قرآن کی نظر میں دوسرے کو اپنا نفس تسلیم کرتے ہوئے اسے اصل قرار دینا ، روحی تعادل کا درہم برہم ہونا ،بے ہدفی ، بے معیاری ، بیہودہ حالات کی تغییر ،پر قدرت اور آمادگی کا نہ ہونا ، مادہ اور مادیات کو اصل قرار دینا اور عقل و دل سے استفادہ نہ کرنا وغیرہ خود فراموشی کے اسباب ہیں ۔

۶۔ خود فراموش معاشرہ ؛ وہ معاشرہ ہے جو اپنے اجتماعی حقیقت کو فراموش کردے اور زندگی کے مختلف گوشوں میں اپنے سے پست معاشرہ کو یا اپنے غیر کو اپنے لئے نمونہ عمل بناتا ہے ۔

۷۔ خود فراموشی کے بحران سے بچنے کی راہ، اپنی حقیقت کو سمجھنا اور خود کو درک کرنا ہے ،اور خود فراموشی کا علاج ؛ ماضی کی تحلیل و تحقیق اور خود کو درک کرنے سے وابستہ ہے ۔

۹۲

تمرین

۱۔وہ مختلف مفاہیم جو ہمارے دینی آداب و رسوم میں فردی اور اجتماعی خود فراموشی پر نظارت رکھتے ہیں ، کون کون سے ہیں اور ان کے درمیان کیا نسبت ہے ؟

۲۔بکواس، خرافات ، شکست خوردگی، دوسروں کے رنگ میں ڈھل جانا ، سیاسی بے توجہی ، بد نظمی غرب پرستی ، علمی نشر ، ٹکنالوجی ، اندھی تقلید وغیرہ کا فردی اور اجتماعی خود فراموشی سے کیا نسبت ہے ؟

۳۔فردی اور اجتماعی خود فراموشی سے بچنے کے لئے دین اور اس کی تعلیمات کا کیا کردار ہے ؟

۴۔چند ایسے دینی تعلیمات کا نام بتائیں جو خود فراموشی کے گرداب میں گرنے سے روکتی ہیں ؟

۵۔اعتبارات کے سلسلہ میں تعصب ، عقیدتی اصول سے نئے انداز میں دفاع ، خدا پر بھروسہ اور غیر خدا سے نہ ڈرنے وغیرہ کاخود فراموشی کے مسئلہ میں کیا کردار ہے اور کس طرح یہ کردار انجام پانا چاہیئے ؟

۶۔خود فراموشی کے مسئلہ میں خواص (برگزیدہ حضرات ) جوانوں ، یونیورسٹیوں اور مدارس کا کیارول ہے ؟

۷۔ ہمارے معاشرے میں اجتماعی و فردی خود فراموشی کو دور کرنے اور دفاع کے لئےآپ کا مور د نظر طریقۂ عمل کیا ہے ؟

۸۔ اگر یہ کہا جائے کہ : انسان مومن بھی خدا کو اپنے آپ پر حاکم قرار دیتا ہے لہٰذاخود فراموش ہے، اس نظریہ کے لئے آپ کی وضاحت کیا ہوگی ؟

۹۳

مزید مطالعہ کے لئے

.آرن ریمن (۱۳۷۰) مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی ؛ ترجمہ باقر پرہام ، تہران : انتشارات آموزش انقلاب اسلامی ۔

. ابراہیمی ، پریچہر( پاییز ۱۳۶۹) نگاہی بہ مفہوم از خود بیگانگی ؛ رشد آموزش علوم اجتماعی ، سال دوم ۔

. اقبال لاہوری ، محمد (۱۳۷۵) نوای شاعر فردا یا اسرار خودی و رموز بی خودی ؛ تہران : موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ۔

. پاپنہام ، فریتز( ۱۳۷۲ ) عصر جدید : بیگانگی انسان ؛ ترجمہ مجید صدری ، تہران : فرہنگ ، کتاب پانزدہم ، موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ۔

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶)تفسیر موضوعی قرآن ؛ ج۵ تہران : رجاء

. دریابندی ، نجف ( ۱۳۶۹) درد بی خویشتنی ؛ تہران ، نشر پرواز ۔

. روزنٹال و ( ۱۳۷۸) الموسوعة الفلسفیة ؛ ترجمہ سمیر کرم ؛ بیروت : دار الطبیعہ ۔

. زیادہ معن ( ۱۹۸۶) الموسوعة الفسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی

.سوادگر ، محمد رضا ( ۱۳۵۷) انسان و از خود بیگانگی (بی نا )( بی جا)

. طہ فرج عبد القادر ( ۱۹۹۳) موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ؛ کویت : دار سعادة الصباح

. قائم مقامی ، عباس ؛ ( خرداد و تیر ۱۳۷۰ ) از خود آگاہی تا خدا آگاہی ؛ کیہان اندیشہ

.کوزر ، لویس (۱۳۶۸ ) زندگی و اندیشہ بزرگان جامعہ شناسی ؛ ترجمہ محسن ثلاثی ، تہران : انتشارات علمی

. مان ، ( ۱۴۱۴) موسوعة العلوم الاجتماعیہ ؛ ترجمہ عادل مختار الہواری و ...؛ مکتبة الفلاح ، الامارات العربیة المتحدة ۔

. محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

. مطہری ، مرتضی ( ۱۳۵۴) سیری در نہج البلاغہ ؛ قم : دار التبلیغ اسلامی

. نقوی ، علی محمد ( ۱۳۶۱) جامعہ شناسی غرب گرایی ، تہران : امیر کبیر ۔

۹۴

ملحقات

خود فراموشی کے موجدین کے نظریات خود فراموشی کے مسئلہ کو ایجاد کرنے والوں کے نظریات سے آشنائی کے لئے ہم ہگل ، فیور بیچ اور مارکس کے نظریات کو مختصراً بیان کریں گے ۔

فرڈریچ ویلیم ہگل(۱) ( ۱۸۳۱۔۱۷۷۰ )

ہگل معتقد ہے کہ یونانی شہر میں شہری (فرد )اور حکومت (معاشرہ ) کا جورابطہ ہے وہ افراد کی حقیقی شخصیت ہے، یہ وہ برابری اور مساوات کا رابطہ ہے جو خود فراموشی کے مسئلہ سے عاری ہے ۔ لیکن یونانی شہر و معاشرہ کے زوال کے ساتھ ہی اپنے اور دوسرے شہری رابطہ کا عقل سے رابطہ ختم ہوگیاہے، اس مساوات اور برابری کو دوبارہ متحقق کرنے کے لئے فردی و ذاتی آزادی سے چشم پوشی کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں ہے اور یہ وہی خود فراموشی ہے ۔ہگل خود فراموشی کی حقیقت کو اس نکتہ میں پوشیدہ مانتا ہے کہ انسان احساس کرتا ہے کہ اس کی شخصی زندگی اس کی ذات سے خارج بھی ہے یعنی معاشرہ اور حکومت میں ہے۔وہ خود فراموشی کے خاتمہ کو زمانہ روشن فکری میں دیکھتا ہے کہ جس میں خود فراموشی کو تقویت دینے والے حقائق کی کمی ہو جاتی ہے ،خارجی انگیزہ ایک حقیقی چیز ہے جو سو فیصدی مادی، محسوس اور ملموس ہے ۔ دینی مراکز اور حکومت خوف و اضطراب پیدا کرنے والی چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ مادی دنیا کا بعض حصہ ہیں

____________________

(۱) Georg Wilhilm Friedrich

۹۵

جس میں تحلیل اور علمی تحقیقہوتی ہے ۔ اس طرح وجود مطلق (خدا) صرف ایک بے فائدہ مفہوم ہوگا اس لئے کہ مادی امور میں علمی تحقیق کے باوجود کوئی وصف اس (خدا)کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی کشف کیا جاسکتا ہے اور خدائے آفرینش ، خدائے پدر ، اورخدائے فعال کا مرحلہ یہیں پرختم ہوجاتا ہے اور ایسی عظیم موجود میں تبدیل ہوجاتا ہے جس کو کسی وصف سے متصف ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح انسان کی ذات ایک اہم حقیقت اور امور کا مرکز ہو جائے گی ۔ ہگل معتقد تھا کہ بادشاہی اور کلیسا ( حکومت و دین ) کو اپنے صحیح مقام پر لانے کے لئے اصلاحی افکار نے انسان کو حاکم بنایا کہ جس نے صحیح راستہ انتخاب کیاہے۔ لیکن انسان کی حقیقت سے برتر نفس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے غلطی اور خطا میں گرفتار ہوگئے ہیں ۔ لیکن اس بات کا یقین ہے کہ خود فراموشی اس وقت پوری طرح سے ختم ہوگی جب قدیم آداب و اخلاق نابود ہو جائیں گے ۔ ایسی انسانی شخصیت کو ہم نہ مانیں جو مسیحیت میں بیان ہوئی ہیں بلکہ ایسے سرمایہ داری والے معاشرہ کو ایجاد کریں جو انسانی حقوق کاعلمبردارہیں ۔(۱)

فیور بیچ(۲) (۱۸۳۲۔۱۷۷۵)

فیور بیچ معتقد تھا کہ انسان ،حق ،محبت اور خیر چاہتا ہے چونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا لہٰذا اس کی نسبت ایک بلند و برتر ذات کی طرف دیتا ہے کہ جس کو انسان خدا کہتا ہے،اوراس میں ان صفات کو مجسم کرتا ہے اور اس طرح خود فراموشی سے دوچار ہو جاتا ہے، اسی بنا پر دین انسان کی اجتماعی ، معنوی ، مادی

____________________

(۱)میدان اقتصاد میں بھی ہگل نے خود فراموشی کو مد نظر رکھاوہ معتقد تھا کہ عمل کی تقسیم اور اس کااختلاف ،اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے اوراس چیز کا وہ محتاج ہوتا ہے جس کو وہ ایجاد کرتا ہے اور اپنے غیر پر اعتماد کا سبب (غیروں کی صنعت و ٹکنیک)اور اس پر مسلط اور انسان سے بہترایسی قوت کے ایجاد کا سبب ہے جو اس کے حیز امکان سے خارج ہے اور اس طرح غیراس پر مسلط ہو جاتا ہے ۔مارکس نے اس تحلیل کو ہگل سے لیا ہے اور اس میں کسی چیز کا اضافہ کئے بغیر اپنی طولانی گفتگو سے واضح کیا ہے اور اس تحلیل سے فقط بعض اقتصادی نتائج کو اخذ کیا ہے .ملاحظہ ہو: زیاد معن ؛ الموسوعةالفلسفیة العربیة۔

(۲) Anselm Von FeuerBach

۹۶

ترقی کی راہ میں حائل سمجھا جاتا ہے ،وہ معتقد ہے کہ انسان اپنی ترقی کی راہ میں دین اور خود فراموشی کی تعبیر سے بچنے کے لئے تین مرحلوں کو طے کرتا ہے یا طے کرنا چاہیئے ۔پہلے مرحلہ میں : خدا اور انسان دین کیحوالے سے باہم ملے ہوئے ہیں ۔ دوسرے مرحلہ میں : انسان خدا سے جدا ہونا جاتا ہے تاکہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے مرحلہ میں : کہ جس کے حصول کے لئے فیور بیچ سبھی کو دعوت دیتا ہے وہ انسانی علم کا مرحلہ ہے جس میں انسان اپنی حقیقت کو پا لیتا ہے اور اپنی ذات کا مالک ہو جاتا ہے ایک اعتبار سے انسان ، انسان کا خداہوتا ہے اور خدا و انسان کے رابطہ کے بجائے ایک اعتبار سے انسان کا انسان سے رابطہ بیان ہوتا ہے ۔(۱)

کارل مارکس(۲) (۱۸۱۸۔ ۳ ۱۸۸ )

کارل مارکس جو کسی بھی فعالیت کے لئے بلند و بالا مقام کا قائل ہے وہ کہتا ہے کہ انسان خدائی طریقہ سے یا عقل کے ذریعہ اپنی حقیقت کو نہیں پاتا ہے بلکہ نایاب فعل کے ذریعہ دنیا سے اتحاد برقرار رکھتے ہوئے ، کردار ساز افعال نیزہماہنگی و حقیقی اجتماعی روابط سے اپنی ذات کو درک کرتاہے، لیکن سرمایہ داری کے نظام میں مزدوروں کا کام ہر طرح کے انسانی احترام سے خالی ہے ۔ مزدور اپنے عمل کو بیچ کر فائدہ حاصل کرنے والے اسباب میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ نہ تو وہ اپنے فعل میں خود کو پاتا ہے اور نہ ہی دوسرے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس فعل کا موجد ہے ۔ اس طرح اس کے کام سے اس کی زندگی کے افعال اور اس کی انسانی حقیقت جدا ہے غرض یہ کہ خود فراموش ہو جاتا ہے ۔

____________________

(۱)فیوربیچ نے انسان کا ہدف معرفت، محبت اور ارادہ بیان کیا ہے اور بعض تحریف شدہ تعلیمات ِدین سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تحلیل میں کہتا ہے کہ کس طرح دین، انسان کے ارادہ ، محبت اور عقل کو صحیح راہ سے منحرف اور فاسد کردیتا ہے اور اس کو انسان کے مادی منافع کی تامین میں بے اثر بنادیتا ہے ،مارکس کے نظریہ میں دینی تعلیمات کے حوالے سے تحریف شدہ مطالب سے استفادہ کاایک اہم کردار ہے ۔

Karl marx.(۲ )

۹۷

''فیور بیچ'' کی طرح مارکس کا یہ نظریہ ہے کہ انسان کی ساری ترقی و پیشرفت کی راہ میں دین بھی حائل ہے نیز انسان کی ناکامی کے علاوہ اس کی بے توجہی کا سبب بھی ہے، دین وہ نشہ ہے جو لوگوں کو عالم آخرت کے وعدوں سے منقلب اور ظالم حکومتوں کی نافرمانی سے روکتا ہے اور انسان کی حقیقی ذات کے بجائے ایک خیالی انسان کو پیش کرتا ہے اوراس طرح خود فراموش بنا دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ انسان پرمنحصر ہے کہ دین کو نابود کرکے خود فراموشی سے نجات اور حقیقی سعادت کے متحقق ہونے کے بنیادی شرط کو فراہم کرے!(۱)

مذکورہ نظریوں کی تحقیق و تحلیل کے لئے جدا گانہ فرصت و محل کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نظریہ اپنے اصولوں کے لحاظ سے اور مذکورہ مسائل کی جو تحلیل پیش کی گئی ہے اس کے اعتبار سے اور ان نظریات میں پوشیدہ انسان شناسی کا تفکربھی اپنے اسباب و نتائج کے اعتبار سے سخت قابل تنقید ہے لیکن اس تھوڑی سی فرصت میں ان گوشوں کی تحقیق ممکن نہیں ہے البتہ یہاں صرف ایک نکتہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ یہ تینوں نظریے اور اس سے مشابہ نظریہ ایک طرف تو انسان کو فقط اس مادی دنیا کی زندگی میں محدود کرتے ہیں اور دوسری طرف خدا کو دانستہ یا نا دانستہ بشر کے ذہن کی پیداوار سمجھتے ہیں جب کہ یہ دونوں مسئلے کسی بھی استدلال و برہان سے خالی ہیں اور ان دونوں بنیادی مسائل کیختم ہونے کے بعد ان پر مبنی تحلیلیں بھی ختم ہو جاتی ہیں ۔

____________________

(۱)ملاحظہ ہو:

.بدوی ، عبد الرحمٰن ، موسوعة الفلسفة

.آرن ، ریمن ؛ مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی ،ترجمہ باقر پرہام ، ج۱ ص ۱۵۱،۲۳۲۔

.زیادہ معن ،موسوعة الفلسفة العربیة

.ان ، مائکل ، موسوعة العلوم الاجتماعیة.

.کوزر ، لوئیس ؛ زندگی و اندیشہ بزرگان جامعہ شناسی ؛ ترجمہ محسن ٹلاثی ؛ ص ۷۵،۱۳۱۔

۹۸

چوتھی فصل :

انسان کی خلقت

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

۱ ۔ قرآن مجید کی تین آیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے خلقت انسان کی وضاحت کریں ؟

۲۔انسان کے دو بعدی ہونے پر دلیلیں ذکر کریں ؟

۳۔روح و جسم کے درمیان اقسام رابطہ کے اسماء ذکر کرتے ہوئے ہر ایک کے لئے ایک

مثال پیش کریں ؟

۴۔وہ آیات جو روح کے وجود و استقلال پر دلالت کرتی ہیں بیان کریں ؟

۵۔انسان کی واقعی حقیقت کو ( جس سے انسانیت وابستہ ہے ) واضح کریں ؟

۹۹

ہم میں سے کوئی بھی یہ شک نہیں کرتا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں نہ تھا اور اس کے بعد وجود میں آیا جس طرح انسانوں کی خلقت کا سلسلہزاد و ولدکے ذریعہ ہم پر آشکار ہے اور دوسری طرف تھوڑے سے تامل و تفکر سے معلوم ہو جاتاہے کہ اس جسم و جسمانیات کے ماسواء کچھ حالات اور کیفیات مثلاًغور و فکر کرنا ، حفظ کرنا ، یاد کرنا وغیرہ جو ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں پوری طرح جسمانی اعضاء سے متفاوت ہیں، یہ عمومی و مشترک معلومات انسان کے لئے متعدد و متنوع سوالات فراہم کرتی ہیں جس میں سے بعض سوالات مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔موجودہ انسانوں کی نسل کا نکتہ آخر کہاں ہے اور سب سے پہلا انسان کس طرح وجود میں آیا ہے؟

۲۔ہم میں سے ہر ایک کی آفرینشکے مراحل کس طرح تھے ؟

۳۔ہمارے مادی حصہ کے علاوہ جو کہ سبھی دیکھ رہے ہیں کیا کوئی دوسرا حصہ بنام روح بھی موجود ہے ؟

۴۔اگر انسانوں میں کئی جہتیں ہیں تو انسان کی واقعی حقیقت کو ان میں سے کون سی جہت ترتیب دیتی ہے ؟

اس فصل کے مطالب اور تحلیلیں مذکورہ سوالات کے جوابات کی ذمہ دار ہیں:

انسان ،دوبعدی مخلوق

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جاندار انسان بے جان موجود سے متفاوت ہوتا ہے اس طرح کہ زندہ موجود میں کوئی نہ کوئی چیز بے جان موجود سے زیادہ ہے ۔ آدمی جب مرجاتا ہے تو مرگ کے بعد کا وہ لمحہ موت سے پہلے والے لمحہ سے مختلف ہو تا ہے، اس مطلب کو روح کے انکار کرنے والے بھی قبول کرتے ہیں ،لیکن اس کی بھی مادی لحاظ سے توجیہ کرتے ہیں۔ہم آئندہ بحث میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کریں گے کہ روح اور روحی چیزیں مادی توجیہ قبول نہیں کرتیں ہیں ۔ بہر حال روح کا انکار کرنے والوں کے مقابلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ زمانہ سے ادیان الٰہی کی تعلیمات اور دانشوروں کے آثار میں انسان کا دوپہلو ہونا اور اس کا روح و بدن سے مرکب ہونا نیز روح نامی عنصر کا اعتقاد جو کہ بدن سے جداا ورایک مستقل حیثیت کا حامل ہے بیان کئے گئے ہیں۔ اس عنصر کے اثبات میں بہت سی عقلی و نقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ،قرآن مجید بھی وجود انسانی کے دو پہلو ہونے کی تائید کرتا ہے اور جسمانی جہت کے علاوہ جس کے بارے میں گذشتہ آیات میں گفتگو ہو چکی ہے، بہت سی آیات میں انسان کے لئے نفس و روح کا پہلومورد توجہ واقع ہوا ہے ۔

اس فصل میں سب سے پہلے جسمانی پہلو اور اس کے بعد روحانی پہلو کی تحقیق کریں گے ۔

۱۰۰

اولین انسان کی خلقت

ان آیات کی تحلیل جو انسان کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ان نتائج کو ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہیں کہ موجودہ انسانوں کی نسل، حضرت آدم نامی ذات سے شروع ہوئی ہے ۔ حضرت آدم کی خلقت خصوصاً خاک سے ہوئی ہے۔ اور روئے زمین پر انسانوں کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات کے درمیان مندرجہ ذیل آیات بہت ہی واضح اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موجودہ نسل حضرت آدم اور ان کی زوجہ سے شروع ہوئی ہے ۔

( یَا أیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَ نِسَائً ) (۱)

اے لوگو! اپنے پالنے والے سے ڈرو (وہ پروردگار)جس نے تم سب کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کی ہمسر (بیوی) کو پیدا کیا اور انھیں دو سے بہت سے مرد و عورت (زمین میں )پھیل گئے۔

اس آیت میں ایک ہی انسان سے سبھی لوگوں کی خلقت کو بہت ہی صراحت سے بیان کیاگیا ہے ۔(۲)

( وَ بَدَأَ خَلقَ الِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَهِینٍ ) اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی پھر اس کی نسل گندے پانی سے بنائی۔(۳)

اس آیت میں بھی انسان کا نکتہ آغاز مٹی ہے اور اس کی نسل کو مٹی سے خلق ہوئے انسان کے نجس قطرہ سے بتایا ہے یہ آیت ان آیات کے ہمراہ جو حضرت آدم کی خلقت کو (سب سے پہلے انسان کے عنوان سے) خاک و مٹی سے بیان کرتی ہے موجودہ نسل کے ایک فرد ( حضرت آدم ) تک منتہی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

( یَا بَنِی آدَمَ لا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا أَخرَجَ أَبوَیکُم مِنَ الجَنَّةِ ) (۴)

اے اولاد آدم! کہیں تمہیں شیطان بہکا نہ دے جس طرح اس نے تمہارے ماں،

____________________

(۱)سورۂ نساء ۱ (۲)یہی مفاد آیت دوسری آیات میں بھی مذکور ہے جیسے اعراف ۱۸۹۔ انعام ، ۹۸۔زمر،۶

(۳)سورۂ سجدہ ۷ و ۸۔ (۴)سورۂ اعراف ۲۷

۱۰۱

باپ کو بہشت سے نکلوا دیا۔(۱)

یہ آیت بھی صراحت کے ساتھ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو نسل انسانی کا ماں ، باپ بتاتی ہے ۔خاک سے حضرت آدم کی استثنائی خلقت بھی قرآن کی بعض آیات میں ذکر ہے جن میں سے تین موارد کی طرف نمونہ کے طور پر اشارہ کیا جارہاہے ۔

ا۔( إنَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُن فَیَکُونُ )

خدا کے نزدیک جیسے حضرت عیسی کاواقعہ ہے(حیرت انگیز خلقت) ویسے ہی آدم کاواقعہ بھی ہے ان کو مٹی سے پیدا کیا پھر کہا ہوجا پس وہ ہوگئے ۔(۲)

حدیث ، تفسیر اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں نصاری نجران نے اپنے نمائندوں کو مدینہ بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام سے گفتگو اور مناظرہ کریں ،وہ لوگ مدینہ کی مسجد میں آئے پہلے تو اپنی عبادت بجا لائے اور اس کے بعد پیغمبر سے بحث کرنے لگے :

۔جناب موسی کے والد کون تھے ؟

۔ عمران

آپ کے والد کون ہیں ؟

۔ عبد اللہ

۔ جناب یوسف کے والد کون تھے ؟

۔ یعقوب

۔ جناب عیسی کے والد کون تھے ؟

____________________

(۱)بعض لوگوںنے آیت''ذر''نیز ان تمام آیات سے جس میں انسانوں کو ''یابنی آدم ''کی عبارت سے خطاب کیا گیا ہے اس سے انسانی نسل کا نکتہ آغاز حضرت آدم کا ہونا استفادہ کیا ہے۔

(۲)سورۂ آل عمران ۵۹۔

۱۰۲

پیغمبر تھوڑا ٹھہرے ، اس وقت یہ آیت( إنَّ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ ) نازل ہوئی۔(۱)

مسیحی کہتے تھے چونکہ عیسی کا کوئی انسانی باپ نہیں ہے لہٰذا ان کا باپ خدا ہے ،آیت اس شبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم معتقد نہیں ہو کہ آدم بغیر باپ کے تھے ؟ عیسی بھی انہیں کی طرح ہیں ،جس طرح آدم کا کوئی باپ نہیں تھا اور تم قبول بھی کرتے ہو کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اسی طرح عیسی بھی بغیر باپ کے ہیں اور حکم خدا سے پیدا ہوئے ہیں ۔

مذکورہ نکات پر توجہ کرتے ہوئے اگر ہم فرض کریں کہ حضرت آدم ، انسان و خاک کے ما بین ایک درمیانی نسل سے وجود میں آئے مثال کے طور پر ایسے انسانوں سے جو بے عقل تھے تو یہ استدلال تام نہیں ہوسکتا ہے اس لئے کہ نصاری نجران کہہ سکتے تھے کہ حضرت آدم ایک اعتبار سے نطفہ سے وجود میں آئے جب کہ عیسی اس طرح وجود میں نہیں آئے ،اگر اس استدلال کو تام سمجھیں جیسا کہ ہے، تب ہم یہ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ حضرت آدم کسی دوسرے موجود کی نسل سے وجود میں نہیں آئے ہیں ۔

۲۔( وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ ٭ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَائٍ مَهِینٍ )

ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت حضرت آدم کی خاک سے خلقت کو بیان کرتی ہے اور دوسری آیت ان کی نسل کی خلقت کو نجس پانی کے ذریعہ بیان کرتی ہے ،حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل کی خلقت کا جدا ہونا اور ان کی نسل کا آب نجس کے ذریعہ خلق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جناب آدم کی خلقت استثنائی تھی ورنہ تفکیک و جدائی بے فائدہ ہوگی ۔(۲)

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۲۱ص ۳۴۴۔ (۲) منطق کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ تقسیم میں ہمیشہ فائدہ کا ہونا ضروری ہے یعنی اقسام کاخصوصیات اور احکام میں ایک دوسرے سے متفاوت ہونا چاہیئے ورنہ تقسیم بے فائدہ ہوگی ، آیہ شریفہ میں بھی تمام انسانوں کوسب سے پہلے انسان اور اس کی نسل میں تقسیم کیا ہے ، لہٰذا اگر ان دو قسموں کا حکم خلقت کے اعتبار سے ایک ہی ہے تو تقسیم بے فائدہ اور غلط ہوگی ۔

۱۰۳

۳۔بہت سی آیات جو خاک سے حضرت آدم کی خلقت کا واقعہ اور ان پر گذشتہ مراحل؛یعنی روح پھونکنا ، خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ سے انکار کو بیان کرتی ہیں جیسے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِكَةِ إنِّی خَالِق بَشَراً مِن صَلصَالٍ مِن حَمَأٍ مَّسنُونٍ ٭ فَإِذَا سَوَّیتُهُ وَ نَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ )

اور (یاد کروکہ )جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کوخمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کرچلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا۔(۱)

یہ بات واضح ہے کہ تمام انسان ان مراحل کو طے کرتے ہوئے جو آیات میں مذکور ہیں (خاک ، بدبودار مٹی ، چپکنے والی مٹی ، ٹھکرے کی طرح خشک مٹی ) صرف خشک مٹی سیخلق نہیں ہوئے ہیں اور فرشتوں نے ان پر سجدہ نہیں کیا ہے بلکہ مذکورہ امور فقط پہلے انسان سے مخصوص ہے یعنی حضرت آدم جو استثنائی طور پر خاک ( مذکورہ مراحل ) سے خلق ہوئے ہیں ۔(۲)

قرآن کے بیانات اور ڈارون کا نظریہ

نظریہ تکامل اور اس کے ترکیبی عناصر کے ضمن میں بہت پہلے یہ نظریہ بعض دوسرے متفکرین کی طرف سے بیان ہوچکا تھا لیکن ۱۸۵۹ میں ڈاروین نے ایک عام نظریہ کے عنوان سے اسے پیش کیا

____________________

(۱)سورۂ حجر، ۲۸و ۲۹ ۔

(۲)اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ حضرت آدم کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں اور چونکہ ان کی خلقت کے بہت سے مراحل تھے ، لہٰذا بعض آیات میں جیسے آل عمران کی ۵۹ویں آیت اس کی خلقت کے ابتدائی مرحلہ کو خاک ،اور دوسری آیات جیسے سورۂ انعام کی دوسری آیت ؛ ۱۱صافات؛ ۲۶حجراور ۱۴الرحمن کی آیتوں میں ایک ایک یا چند مرحلوں کے نام بتائے گئے ہیں ، جیسے کہ سورۂ سجدہ کی ۷و ۸ ویں آیت کی طرح آیات میں خاک سے حضرت آدم کی خلقت بیان کرتے ہوئے آدم کی نسل اور ذریت کی خلقت کو بھی بیان کیا گیاہے ۔

۱۰۴

چارلزڈارون(۱) نے انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کویوں پیش کیاہے کہ انسان اپنے سے پست حیوانوں سے ترقی کرکے موجودہ صورت میں خلق ہوا ہے اور انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اس کے نظریہ نے مسیحیت اور جدید علم کے نظریات کے درمیان بہت ہی پیچیدہ مباحث کو جنم دیا اور بعض نے اس غلط نظریہ کی بناپر علم اور دین کے درمیان اختلاف سمجھا ہے۔(۲) ڈارون کا دعویٰ تھا کہ مختلف نباتات و حیوانات کے اقسام اتفاقی اور دھیرے دھیرے تبدیلی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ ایک نوع کے بعض افراد میں فطری عوامل کی بنیاد پرپایاجاتا ہے، جو تبدیلیاں ان افراد میں پیدا ہوئی ہیں وہ وراثت کے ذریعہ بعد والی نسل میں منتقل ہوگئی ہیں اور بہتر وجود ، فطری انتخاب اور بقا کے تنازع میں محیط کے مطابق حالات ایک جدید نوعیت کی خلقت کے اسباب مہیا کرتے ہیں ۔ وہ اسی نظریہ کی بنیاد پر معتقد تھا کہ انسان کی خلقت بھی تمام ا قسام کے حیوانات کی طرح سب سے پست حیوان سے وجود میں آئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان گذشتہ حیوانوں کے اقسام میں سب سے بہتر ہے ۔

ڈارون کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی یہ نظریہ سخت متنازع اور تنقید کا شکار رہا اور ''اڈوار مک کریڈی ''(۳) اور'' ریون ''(۴) جیسے افراد نے اس نظریہ کو بالکل غلط مانا ہے ۔(۵) اور ''الفریڈ رسل ویلیس ''(۶) جیسے بعض افراد نے اس نظریہ کو خصوصاً انسان کی خلقت میں نا درست سمجھا

____________________

(۱) Charles Robert Darwin

(۳) E.Mc Crady

(۴) Raven

(۶) Alfred Russel Wallace

(۲)ڈارون نے خود صراحتاً اعلان کیاہے کہ ''میں اپنے فکری تحولات میں وجود خدا کاانکار نہ کرسکا''،زندگی و نامہ ای چارلزڈارون؛ ج۱ ص ۳۵۴( پیرس ، ۱۸۸۸) بدوی عبد الرحمن سے نقل کرتے ہوئے ؛ موسوعة الفلسفة. ڈارون نے فطری قوانین کو ایسے اسباب و علل اور ثانوی ضرورت کے عنوان سے گفتگو کی ہے کہ جس کے ذریعہ خداوند عالم تخلیق کرتا ہے ۔گرچہ انسان کے ذہن نے اس باعظمت استنباط کو مشکو ک کردیا ہے ۔( ایان باربور ، علم و دین ؛ ص ۱۱۲)۔

(۵) ایان باربور ، علم و دین ؛ ص۴۱۸ و ۴۲۲۔

۱۰۵

ہے(۱) یہ نظریہ ایک خاص جرح و تعدیل کے باوجود بھی علمی اعتبار سے نیز صفات شناسی اور ژنٹیک کے لحاظ سے ایک ایسے نظریہ میں تبدیل نہیں ہوسکا کہ جس کی بے چوں چرا تثبیت ہو جائے اور متفکرین نے تصریح کی ہے کہ آثار اورموجودات شناسی کے ذریعہ انسان کے حسب و نسب کی دریافت کسی بھی طریقہ سے صحیح وواضح نہیں ہے اور انسانوں جیسے ڈھانچوں کے نمونے اور ایک دوسرے سے ان کی وابستگی، نظریہ تکامل کے طرفداروں کے مورد استناد ہونے کے با وجود ان کے نظریات میں قابل توجہ اختلاف ہے ۔

''ایان باربور'' کی تعبیر یہ ہے کہ ایک نسل پہلے یہ رسم تھی کہ وہ تنہا نکتہ جو جدید انسانوں کے نسب کو گذشتہ بندروں سے ملاتا تھا ،احتمال قوی یہ ہے کہ انسان اور بندر کی شباہت ایک دوسرے سے ان کے اشتقاق پر دلالت کرتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ نئا ندرتال انسان سے ایسی نسل کی حکایت ہو جو اپنے ابتدائی دور میں بغیر نسل کے رہ گئی ہونیزمنقطع ہو گئی ہو ۔(۲) اوصاف شناسی کے اعتبا رسے معمولی تبدیلیوں میں بھی اختلاف نظر موجود ہے بعض دانشمندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگرچہ معمولی تحرک قابل تکرارہے لیکن وہ وسیع پیمانہ پر تحرک و فعالیت جو نظریہ تکامل کے لئے ضروری

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ: ص ۱۱۱۔۱۱۴،اگرچہ نظریہ ڈارویس پر وارد تنقیدوں کے مقابلہ میں اس کے مدافعین کی طرف سے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں لیکن آج بھی بعض تنقیدیں قانع جوابات کی محتاج ہیں مثال کے طور پر'' والٹر'' جو ''ڈارون'' سے بالکل جدا، فطری طور پر سب سے پہلے انتخاب کو نظام سمجھتا ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اور بندر کی عقل کے درمیان موجودہ فاصلہ کو جیسا کہ ڈارون نے اس سے پہلے ادعا کیا تھا ، بدوی قبائل پر حمل نہیں کرسکتے ہیں اس لئے کہ ان کی دماغی قوت ترقی یافتہ متمدن قوموں کی دماغی قوت کے مطابق تھی لہٰذا فطری انتخاب انسان کی بہترین دماغی توانائی کی توجیہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ بدوی قوموں کی عقلی توانائیاں ان کی سادہ زندگی کی ضرورتوں سے زیادہ تھی ، لہٰذا ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس سے چھوٹا مغز بھی کافی تھا ۔ فطری انتخاب کے اعتبار سے بندر وں سے زیادہ انسان کو دماغ دینا چاہیئے جب کہ ایسے انسانوں کا دماغ ایک فلسفی کے دماغ سے چھوٹا ہے ۔ ( ایان باربور ؛ علم و دین ؛ ص ۱۴۴و ۱۱۵)

(۲)ایان باربور؛ گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۲و ۴۰۳۔

۱۰۶

ہیں بہت کم ہے۔ اور مردم شماری کے قوانین کے اعتبار سے قابل پیش بینی نہیں ہے، اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہتجربہ گاہوں کے مطالعات ایک طرح کی اندرونی تبدیلیوں کی تائید کریں، لیکن تدریجی تبدیلیوں کے زیر اثر جدید اقسام کے وسیع حلقوںکی تشکیل کے اثبات سے ناتواں ہیں،اور ایک متحرک فرد کا کسی اجتماعی حلقہ اور بڑے گروہ میں تبدیل ہو جانا، ایک سوالیہ نشان ہے اور اس وسیع افعال پر کسی بھی جہت سے واضح دلائل موجود نہیں ہیں ۔(۱) دوسری مشکل صفات کا میراثی ہونا ہے جب کہ ان کا اثبات معلومات و اطلاعات کے فراہم ہونے سے وابستہ ہے جس کو آئندہ محققین بھی حاصل نہیں کرسکیں گے یا موجودہ معلومات واطلاعات کی وضاحتوں اور تفاسیر سے مربوط ہے جس کو اکثر ماہرین موجودات شناسی نے قبول نہیں کیا ہے ۔(۲) بہر حال ان نظریات کی تفصیلی تحقیق و تنقید اہم نہ ہو نے کی وجہ سے ہم متعرض نہیں ہوںگے، مختصر یہ کہ انسان کے بارے میں ڈارون کا نظریہ تنقیدوں ، مناقشوں اور اس میں تناقض کے علاوہ صرف ایک ظنی اور تھیوری سے زیادہ ،کچھ نہیں ہے(۳) مزید یہ کہ اگر اس نظریہ کو قبول بھی کرلیا جائے تو کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں خدا کے ارادہ کے باوجود کسی ایک شی ٔمیں بھی فطری حرکت غیر عادی طریقہ سے نقض نہ ہوئی ہو، اور حضرت آدم فقط خاک سے خلق نہ ہوئے ہوں ،اس کے باوجود یہ نظریہ ڈاروین کی تھیوری کے مطابق فقط انسانوں کی خلقت کے امکان کو ثابت کرتا ہے، اس راہ سے موجودہ نسل کی خلقت کی ضرورت و التزام کو ثابت نہیں کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے انسان اس راہ سے وجود میں آئے ہوں اور نسل منقطع ہوگئی ہو ، لیکن موجودہ نسل جس طرح قرآن بیان کرتا ہے اسی طرح روئے زمین پر خلق ہوئی ہے ،قابل ذکر ہے کہ قرآن

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۳۔

(۲)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۴۔

(۳)کارل پاپر( Karl Raimond Popper ) '' جستجوی ناتمام '' کتاب میں لکھتا ہے : نئے نظریہ تکامل کے ماننے والوں نے زندگی کے دوام کو انطباق یا ماحول کی سازش کا نتیجہ بتایا ہے ، ایسے ضعیف نظریہ کے تجربہ کا امکان تقریباً صفر ہے ( ص ۲۱۱)

۱۰۷

ایسے انسانوں کے خلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جن کی موجودہ نسل ان تک نہیں پہونچتی ہے نیز ان کی خلقت کی کیفیت کے بارے میں ،خاموش ہے ۔

جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے انسان کی خلقت سے مربوط آیات کے مفاہیم، انسان کے سلسلہ میں ڈاروین کی تھیوری کے مطابق نہیں ہے لہٰذا جن افراد نے قرآن کریم کے بیانات سے دفاع کے لئے مذکورہ آیات کی توجیہ کی ہے انہیں توجہ رکھنا چاہیئے کہ ایسی توجیہیں صحیح نہیں ہیں بلکہ'' تفسیر بالرای''ہے، اس لئے کہ ایسے نظریات جو ضروری اور صحیح دلیلوں نیزتائیدوں سے خالی ہوں وہ مذکورہ آیات کی توجیہ پر دلیل نہیں بن سکتے ہیں ،چہ جائے کہ توجیہ اور ظاہر آیات کے مفہوم سے استفادہ نہ کرنا فقط ایک قطعی اور مذکورہ آیات کے مخالف فلسفی یا غیر قابل تردید علمی نظریہ کی صورت میں ممکن ہے جب کہ ڈاروین کا نظریہ ان امتیازات سے خالی ہے ۔

تمام انسانوں کی تخلیق

نسل انسان کی آفرینش زاد و ولد کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں گذشتہ ادوار سے آج تک پانچ نظریات بیان ہوئے ہیں ۔

ارسطونے بچہ کی خلقت کو خون حیض کے ذریعہ تسلیم کیا ہے اور اس سے ماسبق فلاسفہ نے مرد کی منی سے متولد جنین کی رشد کے لئے شکم مادر کوفقط مزرعہ سمجھا ہے ۔

تیسرا نظریہ جو ۱۸ویں صدی عیسوی کے نصف تک رائج تھا ،خود بخود خلقت کا نظریہ تھا(۱) جس کے ویلیم حاروے جیسے ماہرینِ وظائف اعضائ، مدافع تھے ۔(۲) چوتھا نظریہ جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں بیان ہوا وہ نظریہ تکامل تھا(۳) جس کے لائب نیٹز ، ہالر اور بونہ جیسے افراد سر سخت طرفدار تھے ،یہ لوگ معتقد تھے کہ انسان کی اولاد بہت ہی چھوٹی موجود کی صورت میں انڈے یا

____________________

(۱) Spontaneous Generation. (۲)William Harvey. (۳)Evolution

۱۰۸

نطفہ میں موجود رہتی ہے، ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ان چھوٹے اور متداخل موجودات کی کروروں تعداد اولین مرد یا عورت کے تناسلی اعضاء میں موجود تھی اور جب ان میں سے سب سے باریک اور آخری حصہ خارج ہو جائے گا تب نسل بشر ختم ہوجائے گی، اس نظریہ کے مطابق تناسل و تولد میں نئے اور جدید موجود کی خلقت و پیدائش بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ ایسے موجود کے لئے رشد و نمو،آغاز وجود ہی سے موجود ہے ۔

پانچواں نظریہ ۱۷ویں صدی میں ذرہ بین کے اختراع اور انسانی حیات شناسی کی آزمائشوں اور تحقیقوں کے انجام کے بعد خصوصاً ۱۸ ویں صدی میں نطفہ شناسی کے عنوان سے بیان ہوا جس کی وجہ سے مفکرین اس نکتہ پہ پہونچے ہیں کہ نطفہ کی خلقت میں مرد و عورت دونوں کا کردار ہے اور نطفہ کامل طور پر مرد کی منی اور عورت کے مادہ میں نہیں ہوتا ہے، مرد و عورت کے نطفہ کے ملنے کی کیفیت ۱۸۷۵صدی میں مشاہدہ سے واضح ہو چکی ہے کہ بچہ کے ابتدائی نطفہ کی تخلیق میں مرد و عورت دونوں موثرہیں۔ اور ۱۸۸۳ صدی میں نطفہ کی تخلیق میں دونوں کا مساوی کردار ثابت ہوچکا ہے ،مختلف تبدیلیوں کے مراحل سے مرتبط اور مختلف شکلوںمیں رحم کی دیواروں سے نطفہ کا معلق ہونااور اس کا رشد نیز نطفہ کا مخلوط ہونااور دوسری مختلف شکلیںجو نطفہ اختیار کرتاہے یہ وہ چیزیں ہیں جس کی تحقیق ہوچکی ہے ۔(۱)

قرآن مجید نے بہت سی آیات میں تمام انسانوں ( نسل آدم ) کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ان کی خلقت کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں اس حصہ میں ہم ان مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ابتدائی دو مراحل کی تحقیق کریں گے ۔

بعض آیات میں خدا فرماتا ہے کہ : خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا جب کہ اس سے پہلے وہ

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: شاکرین ، حمید رضا ، قرآن و روان شناسی ؛ ص ۲۲۔ ۲۵۔ طبارہ ، عبد الفتاح ، خلق الانسان دراسة علمیة قرآنیة ؛ ج۲ ، ص ۶۶۔ ۷۴۔

۱۰۹

کچھ نہ تھا( أَوَ لا یَذکُرُ الإنسَانُ أَنَّا خَلَقنَاهُ مِن قَبلُ وَ لَم یَکُ شَیئاً ) (۱) کیا انسان بھولگیا کہ ہم نے اس وقت اسے خلق کیا جب وہ کچھ نہ تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ آیت میں قبل سے مراد ابتدائی ( فلسفی اصطلاح میں خلقت جدید) مادہ کے بغیر انسان کی خلقت نہیں ہے اس لئے کہ بہت سی آیات میں ابتدائی مادہ کی بنا پر انسان کی خلقت کی تاکید ہوئی ہے ،اس آیت میں یہ نکتہ مورد توجہ ہے کہ انسان کا مادہ و خاکہ، انسانی وجود میں تبدیل ہونے کے لئے ایک دوسرے ( روح یا انسانی نفس و جان ) کے اضافہ کا محتاج ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ابتدائی مادہ انسان کے مقابلہ میں روح کے بغیر قابل ذکر و قابل اہمیت نہیں ہے، اسی بنا پر ہم سورہ'' انسان'' کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں کہ (( هَل أَتَیٰ عَلیٰ النسَانِ حِین مِّنَ الدَّهرِ لَم یَکُن شَیئاً مَذکُوراً ) کیا انسان پر وہ زمانہ نہیں گذرا جس میں وہ قابل ذکر شی بھی نہ تھا ۔ دوسرے گروہ کی آیات میں انسان کی خلقت کے ابتدائی مادہ کو زمین(۲) خاک(۳) مٹی(۴) چپکنے والی مٹی(۵) بدبو دار مٹی ( کیچڑ )خمیر(۶) اور ٹھکرے کی طرح خشک مٹی بتایا گیا ہے ۔(۷)

وہ آیات جو انسان کے جسمانی خلقت کے مختلف مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اگرچہ اکثر مقامات پر انسان کو عام ذکر کیا ہے لیکن ان آیتوں کی روشنی میں جو اس کی ابتدائی خلقت میں گذر چکی ہیں اور موجودہ انسانوں کی خلقت کے عینی واقعات جو ان آیات میں بیان کئے گئے مذکورہ مراحل طے نہیں کرتے ہیں، خلاصہ یہ کہ ابتدائی انسان کی جسمانی خلقت کے یہی مراحل اس کی خلقت کے اختتام میں بھیپائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)سورۂ مریم ۶۷

(۲)(هُو أنشَأَکُم مِنَ الأَرضِ )(ہود ۶۱)

(۳)(فنَّا خَلَقنَاکُم مِّن تُرَابٍ )(حج۵)

(۴)(وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ )( سجدہ ۷)

(۵)(نَّا خَلَقنَاهُم مِن طِینٍ لازِبٍ )(صافات۱۱)

(۶)(وَ لَقَد خَلَقنَا النسَانَ مِن حَمَأٍ مَسنُونٍ )( حجر ۲۶)

(۷)(خَلَقَ الِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ )( الرحمن ۱۴)

۱۱۰

آیات کا تیسرا گروہ ؛ انسان کے تخلیقی مادہ کو پانی بتاتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَائِ بَشَراً فَجَعَلهُ نَسَباً وَ صِهراً ) (۱) وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنایا۔

گرچہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت مصداق اور ان آیات کے موارد کو بیان کرنے والی ہو جو ہر متحرک یا ذی حیات کی خلقت کو پانی سے تسلیم کرتی ہیں(۲) اور پانی سے مراد وہی پانی ہے جو عرف عام کی اصطلاح میں ہے لیکن ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو انسان یا نسل آدم کی خلقت کونجس(۳) یاآب جہندہ(۴) سے بیان کرتی ہیں ان سے اس احتمال کو قوت ملتی ہے کہ اس آیت میں پانی سے مراد انسانی نطفہ ہے، اور آیت شریفہ نسل آدم کی ابتدائی خلقت کے نطفہ کو بیان کر رہی ہے ۔ لیکن ہر مقام پر اس کی خصوصیات میں سے ایک ہی خصوصیت کی طرف اشارہ کیاہے منجملہ خصوصیات میں سے جو قرآن میں اس نطفہ کو انسانی نسل کی خلقت کے نقطہ ٔ آغاز کے عنوان سے ذکر کیاہے وہ مخلوط ہونا ہے جسے علم بشر کم از کم ۱۸ ویں صدی سے پہلے نہیں جانتا تھا ۔

سورۂ دہر کی دوسری آیت میں خدا فرماتا ہے :

( إنَّا خَلَقنَاالنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَبتَلِیهِ فَجَعَلنَاهُ سَمِیعاً بَصِیراً )

ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں (اسی لئے )تو ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والابنایا۔

اس آیت میں کلمہ ''امشاج ''کے ذریعہ بچہ آمادہ کرنے والے مخلوط نطفہ سے گفتگو ہوئی ہے یا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امشاج ، مشیج کی جمع ہے جو مخلوط کے معنی میں ہے آیت اس بات

____________________

(۱)سورۂ فرقان ۵۴.

(۲) سورۂ نور ۴۵۔ سورۂ انبیاء ۳۰۔

(۳)(أ لَم نَخلُقکُم مِن مَائٍ مَّهِینٍ )(مرسلات ۲۰)(ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَّهِینٍ )( سجدہ ۸)

(۴)(خُلِقَ مِن مَّائٍ دَافِقٍ )( طارق ۶)

۱۱۱

پردلالت کرتی ہے کہ بچہ کو تشکیل دینے والا نطفہ مخلوط ہونے کے اعتبار سے مختلف اقسام کا حامل ہے، اور یہ مفہوم، موجودہ رشد شناسی میں ثابت ہوچکے مطالب سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ قرآن مجید کے غیبی خبروں میں سے شمار ہوتا ہے ۔(۱) اور انجام پاچکی تحقیقوں کے مطابق انسانی نطفہ ایک طرف تو مرد و عورت کے نطفہ سے مخلوط ہوتا ہے اور دوسری طرف خود نطفہ مختلف غدود کے ترشحات سے مخلوط و مرکب ہوتا ہے ۔

علقہ ہونا بچہ کی خلقت کا دوسرا مرحلہ ہے جو قرآن کی آیتوں میں مذکور ہے ،سورۂ حج ۵ ؛ مومنون ۶۷؛ غافر ۳۸ کی آیات میں کلمہ ''علقہ ''اور سورۂ علق کی دوسری آیت میں کلمہ ''علق''بچہ کے رشد و نمو کے مراحل میں استعمال ہوا ہے، علق؛ علقہ کی جمع ہے اور علقہ ، علق سے لیا گیا ہے جس کا معنی چپکنااور پیوستہ ہوناہے چاہے وہ پیوستگی مادی ہو یا معنوی یا کسی اورچیز سے پیوستگی ہومثلا خون جامد (جاری خون کے مد مقابل ) کے اجزاء میں بھی چپکنے کی صلاحیت ہوتی ہے خلاصہ یہ کہ ہر وہ چیزجواس سے ملحق ہو اور چپک جائے اسے علقہ کہتے ہیں ۔(۲) جونک چونکہ خون یاخونی اجزاء کو چوسنے کے لئے بدن یا کسی دوسری چیز سے چپکتا ہے اس لئے اس کو بھی علقہ کہتے ہیں ،بہر حال یہ دیوار رحم سے نطفہ کی چسپیدگی کے مراحل اور مخلوط نطفہ کے مختلف اجزاء کے ایک دوسرے سے چسپیدگی کی حکایت

____________________

(۱)موریس بوکا لکھتا ہے : مادہ ٔ منویہ مندرجہ ذیل غدود کے ترشحات سے وجود میں آتا ہے :

۱۔ مرد کے تناسلی غدود کی ترشحات اسپرموٹزوید کے حامل ہوتے ہیں ۔ ۲۔انڈوں کی تھیلیوں کی ترشحات، حاملہ کرنے کے عناصر سے خالی ہیں ۔

۳۔پروسٹٹ ترشحات ، ظاہراً خمیر کی طرح ہوتے ہیں اور اس میں منی کی مخصوص بو ہوتی ہے ۔

۴۔ دوسرے غدود کی مخلوط و سیال ترشحات ،پیشاب کی رگوں میں موجود ہوتا ہے ۔( بوکائی ، موریس ؛ انجیل ، قرآن و علم ؛ ص ۲۷۱ و ۲۷۲)

(۲)طبرسی ؛ مجمع البیان ؛ ( سورہ علق کی دوسری آیت کے ذیل میں ) لغت کی کتابیں ۔

۱۱۲

کرتی ہے، اور یہ حقیقت بھی قرآن کے غیبی اخبار اور نئی چیزوں میں سے ہے جسے آخری صدیوں تک علم بشر نے حل نہیں کیا تھا ۔(۱) مضغہ(۲) ہڈیوں کی خلقت(۳) ہڈیوں پر گوشت کا آنا(۴) اور دوسری چیزوں کی خلقت(۵) (روح پھونکنا )(۶) یہ وہ مراحل ہیں جو قرآن کی آیتوں میں نطفہ کے رشد کے لئے بیان ہوئے ہیں.

روح کا وجود اوراستقلال

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی روح کے سلسلہ میں متعدد و متفاوت نظریات بیان ہوچکے تھے بعض لوگ ایک سرے سے روح کے منکر تھے اور انسان کو مادی جسم میں منحصر سمجھتے تھے ۔بعض دوسرے لوگوں نے روح کو ایک مادی اور جسم سے وابستہ شئی اور انسان کے جسمانی خصوصیات اور آثار والی ذات شمار کیا ہے اور بعض لوگ روح کو غیر مادی لیکن جسم سے غیر مستقل وجود سمجھتے ہیں(۷) ان نظریات کو بیان کرنے اور ان کی دلیلوں پر تنقید و تحقیق کے لئے مزید فرصت درکار ہے

____________________

(۱)دوسرے اور تیسرے ہفتوں میں جنین کے پیوند ، ملاپ اور چپکنے کے مراحل کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: البار ؛ محمد علی ، خلق الانسان بین الطب و القرآن ؛ ص ۳۶۸و ۳۶۹۔ سلطانی ، رضا ؛ و فرہاد گرمی ، جنین شناسی انسان ، فصل ہفتم ۔ (۲)(فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً )مومنون۱۴ (۳)(فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظَاماً )مومنون۱۴

(۴)(فَکَسَونَا العِظَامَ لَحماً )مومنون۱۴ (۵)(ثُمَّ أَنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ )مومنون ۱۴۔

(۶)رحم میں نطفہ کے استقرار کی خصوصیت اور اس کے شرائط نیز تولد کے بعد رشد انسان کے مراحل کو بعض آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے سورہ حج ۵۔ نوح ۱۴ ۔زمر ۶۔ مومن ۶۷ کی آیتیں ۔ (۷)روح کے بارے میں بیان کئے گئے نظریات کو چار عمومی دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :الف) وہ نظریات جو جسم کے مقابلہ میں ایک عنصر کے اعتبار سے روح اور روحانی حوادث کے بالکل منکر ہیں اور تمام روحانی حوادث میں مادی توجیہ پیش کرتے ہیں ،اس نظریہ کو '' ڈمکراٹیس ، رنو ، تھامس ہابز ، علاف ، اشعری ، باقلانی ، ابوبکر اصم اور عقیدہ رفتار و کردار رکھنے والوں کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ ب)وہ نظریات ہیں جس میں روحی حوادث کو قبول کیا گیاہے ، لیکن روح مجرد کا انکار کیا گیاہے ۔ عقیدہ تجلیات ( Epiphenomenalism )روحی حوادث کو مادی حوادث سے بالکل جدا سمجھنے کے باوجود مادی اور جسمانی اعضاء کا نتیجہ سمجھتے ہیں نیز نظریہ فردی ( Parson Theory )روح کو ایسا حوادث روحی سمجھتا ہے جو ہمیشہ انسان کی راہ میں ایجاد اور ختم ہوتا رہتاہے ۔( T.H.Huxly )پی.اف.سراسن نے ( P.F.Srawson )مذکورہ بالادونوں نظریات کو ترتیب سے بیان کیا ہے ۔ج) وہ نظریات جو روح و جسم کو دو مستقل اور جدا عنصر بتانے کے باوجود ان دونوںکو ایک جنسی اور مادی خمیر سے تعبیر کیا ہے ۔ اس نظریہ کو ولیم جیمز اور راسل کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ د)بعض نظریات روح و جسم کے تاثرات کو قبول کرتے ہیں لیکن جسم کے علاوہ ایک دوسری شی بنام روح یعنی مجرد شی کا اعتقاد رکھتے ہیں جس سے تمام روحی حودث مربوط ہیں اور اسی سے حادث ہوتے ہیں ،مفکرین و فلاسفہ کی قریب بہ اتفاق تعداد اس نظریہ کی طرفدار ہے ۔رجوع کریں: ابوزید منی احمد ؛ الانسان فی الفلسفة الاسلامیة ؛ موسسہ الجامعیة للدراسات، ، بیروت ، ۱۴۱۴، ص ۸۸۔۱۰۰

۱۱۳

لہٰذا ہم اس سلسلہ میں فقط قرآن کے نظریہ کو ذکر کریں گے نیز بعض عقلی اور تجربی دلیلوں اور قرآن کے نظریہ سے ان کی ہماہنگی کو بیان کریں گے ۔

وہ آیات جو قرآن مجیدمیں روح مجرد کے استقلال اوروجود کے بارے میں آئی ہیں دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں: پہلے گروہ میں وہ آیات ہیں جو روح کی حقیقت کو بیان کرتی ہیں اور دوسرے گروہ میں وہ آیات ہیں جو حقیقت روح کے علاوہ استقلال اور موت کے بعد روح کی بقا کو بیان کرتی ہیں۔

من جملہ آیات میں سے جو روح کے وجود پر دلالت کرتی ہیں وہ سورہ مومنون کی بارہویں تا چودہویں آیت ہے جو انسان کی جسمانی خلقت کے مراحل کو ذکر کرنے کے بعد بیان کرتی ہیں کہ( ثُمَّ أنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ ) یہ واضح رہے کہ انسان کے جسمانی تکامل کے بعد دوسری خلقت سے مراد کوئی جسمانی مرحلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسانی روح پھونکے جانے کے مرحلہ کی طرف اشارہ ہے اسی بنا پراس جگہ آ یت کی عبارت ان عبارتوں سے جدا ہے جو جسمانی مراحل کو ذکر کرتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱)مجرد و مادی شی کی خصوصیات اور تعریف کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے ۔ملاحظہ ہو: عبودیت ، عبد الرسول ؛ ہستی شناسی ؛ ج۱ ص ۲۵۶ تا ۲۸۷۔ (۲)ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ج۱۵، ص ۱۹. روایات میں بھی آیہ کریمہ کی اسی طرح تفسیر ہوئی ہے ۔ملاحظہ ہو: الحر العاملی محمد بن الحسن ؛ وسائل الشیعہ ج۱۹ ص ۳۲۴۔

۱۱۴

سورہ سجدہ کی نویں آیت میں بھی انسان کے اندر روح کے حقیقی وجود کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور خاک سے حضرت آدم اور پانی سے ان کی نسل کی خلقت کے مسئلہ کوبیان کیا ہے کہ :

( ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِهِ ) (۱) پھر خدا نے اس کو آمادہ کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی ۔

اس آیہ شریفہ کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ جسمانی تکامل کے مراحل سے آمادگی و تسویہ کے مرحلہ کو طے کرنے کے بعد خدا کی طرف سے روح پھونکی جائے گی ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ سجدہ ؛ ۹، یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیات و روایات سے روح انسان کے استقلال اور وجود کا استفادہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے کلمہ روح کو استعمال کرکے روح انسان کے استقلال و وجودکے مسئلہ کو بیان کیا ہے، قرآن کریم میں تقریباً ۲۰ مقامات میں کلمہ روح استعمال ہوا ہے ،اور اس کے معنی و مراد کے اعتبار سے بعض آیات میں اختلاف پایا جاتا ہے جیسے آیہ شریفہ (قُلِّ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّی ) لیکن کلمہ روح کے دو قطعی اور مورد اتفاق استعمالات ہیں :

پہلا یہ کہ خدا کے ایک برگزیدہ فرشتہ کے سلسلہ میں ''روح ، روح القدس ، روح الامین''کی تعبیریں مذکور ہیں جیسے (تَنَزَّلُ المَلائِکةُوَالرُّوحُ فِیهَابِأذنِ رَبِّهِم مِن کُلّ أَمرٍ )قدر۴۔

دوسرا مقام یہ ہے کہ اس انسانی روح کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو اس کے جسم میں پھونکی جاتی ہے ؛ جیسے وہ موارد جس میں حضرت آدم اور عیسی کی خلقت کے سلسلہ میں روح پھونکے جانے کی گفتگو ہوئی ہے،مثال کے طورپر(فَذَا سَوَّیتُهُ وَنَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ) (حجر۲۹)حضرت آدم کی خلقت کو بیان کیا ہے اور جیسے (وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمرَانَ الَّتِی أحصَنَت فَرجَهَا فَنَفَخنَا فِیهِ مِن رُّوحِنَا ) (تحریم۱۲)

(۲)بعض مفسرین نے مذکورہ آیت میں روح پھونکے کے عمل کو حضرت آدم کی خلقت بیان کیا ہے، لیکن جو چیزیں متن کتاب میں مذکور ہے وہ ظاہر آیت سے سازگار نہیں ہے ۔

۱۱۵

وہ آیات جو وجود روح کے علاوہ موت کے بعد اس کی بقا کوثابت کرتی ہیں بہت زیادہ ہیں۔(۱) اور ان آیات کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ وہ آیات جو موت کو ''توفّی '' کے عنوان سے یاد کرتی ہیں خصوصاً سورہ سجدہ کی دسویں اور گیارہویں آیتں:

(( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نَّا لَفِی خَلقٍ جَدِیدٍ بَل هُم بِلِقَائِ رَبِّهِم کَافِِرُونَ قُل یَتَوَفَّاکُم مَّلَکُ المَوتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ ِلَیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ )

اور ان لوگوں(کافرین)نے کہا کہ جب ہم (مرگئے بوسیدہ اورجسم کے ذرات) زمین میں ناپید ہوگئے تو کیا ہم پھر نیا جنم لیں گے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے حضور ہی سے انکار رکھتے ہیں ، تم کہدو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔

کلمہ ''توفی'' پر توجہ کرتے ہوئے کہ جس کا معنی کسی شی کو پوری طرح اور کامل طریقہ سے دریافت کرنا ہے، مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موت کے وقت وہ چیزجو مشاہدہ ہوتی ہے اس کے علاوہ ( بے حرکت اور احساس و فہم سے عاری جسم )وہ چیز جو انسان کی اصل اور حقیقت ہے اور پوری طرح فرشتوں کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے وہی روح ہے اس لئے کہ مرنے کے بعد اور

____________________

(۱)بدن سے روح کے استقلال کے مختلف تاثرات کی نفی اور بالکل بے نیازی کے معنی میں سمجھنا چاہیئے ،بلکہ روح اپنی تمام فعالیت میں تقریبا جسم کی محتاج ہے اور ان افعال کو جسم کی مدد سے انجام دیتی ہے ،مثال کے طور پر مادی دنیا کے حوادث کی معرفت بھی روح کی فعالیت میں سے ہے جو حسی اعضا سے انجام پاتے ہیں ، اسی طرح انسان کی روح اور اس کا جسم ایک دوسرے میں اثر انداز ہوتے ہیں ، مثال کے طور پرروح کی شدید تاثرات آنکھ کے غدود سے اشک جاری ہونے کے ہمراہ ہے اور معدہ کا خالی ہونا بھوک کے احساس کو انسان کے اندر ایجاد کرتا ہے ۔

۱۱۶

مرنے سے پہلے جسم ہمارے درمیان اور اختیار میں ہے جسے فرشتہ وحی دریافت نہیں کرتا ہے اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ منکرین معاد جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انسان در حقیقت وہی جسم ہے جو موت کی وجہ سے منتشرہوجاتا ہے اور اس کے ذرات زمین میں نابود ہو جاتے ہیں ، خداوند قدوس اس فکر کو نادرست مانتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہاری حقیقی اور واقعی حقیقت ایک دوسری شیٔ ہے جو کامل طور پر ملک الموت کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے موت اور جسم کے پراکندہ ہو جانے سے نابود ہونے والی نہیں ہے بلکہ وہ جسم سے الگ اپنی حیات کو جاری رکھتی ہے ۔

۲.آیہ کریمہ :

( وَ لَو تَرَیٰ ِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ وَ المَلائِکَةُ بَاسِطُوا أَیدِیهِم أَخرِجُوا أَنفُسَکُمُ الیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ بِمَا کُنتُم تَقُولُونَ عَلَیٰ اللّٰهِ غَیرَ الحَقِّ وَ کُنتُم عَن آیَاتِهِ تَستَکبِرُونَ ) (۱)

اور کاش تم دیکھتے کہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ لپکا رہے ہیں(اور ان کے سروں کے اوپر کھڑے ہوئے ان سے کہیں گے ) خوداپنی جانیں نکالو آج ہی تو تم کو رسوائی کے عذاب کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم خدا پر ناحق جھوٹ جوڑا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے اکڑا کرتے تھے ۔

''اپنے آپ کو خارج کریں''کی تعبیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان جسم کے علاوہ ایک عنصر اور رکھتا ہے جو انسان کی حقیقت کو تشکیل دیتا ہے اور موت کے وقت جسم سے خارج ہوجاتا ہے اوریہ ملک الموت کے ذریعہ روح انسان کے قبض ہونے کی دوسری تعبیر ہے ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ انعام ۹۳۔

(۲)یہ مسئلہ اپنی جگہ ثابت ہوچکا ہے کہ جس طرح روح کا بدن کے ساتھ اتحاد، مادی نہیں ہے اسی طرح بدن سے روح کا خارج ہونابھی مادی خروج نہیں ہے ،وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی کی المیزان ج۷، ص ۲۸۵۔

۱۱۷

۳. عالم برزخ کی حیات کو بیان کرنے والی آیت :

( حَتَّیٰ إِذَا جَائَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قَالَ رَبِّ ارجِعُونَ٭ لَعَلِّی أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرَکتُ کَلاّ ِنَّهَا کَلِمَة هوَ قَائِلُهَا وَ مِن وَرَائِهِم بَرزَخ إِلَیٰ یَومِ یُبعَثُونَ ) (۱)

یہاں تک کہ جب ان( کافروں )میں سے کسی کی موت آئی تو کہنے لگے پروردگارا! تو مجھے (دنیامیں ) پھر واپس کردے تاکہ میں اچھے اچھے کام کروں ہرگزنہیں(وہ اسی خواہش میں رہے ہیں ) یہ ایک لغو بات ہے جسے وہ بک رہا اور ان کے بعد (حیات) برزخ ہے دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ۔

عالم برزح پر روشنی ڈالنے والی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرنے کے بعد اور قیامت برپا ہونے سے پہلے روح ایک دنیا میں باحیات ہوتی ہے اور پروردگار کی نعمت و عذاب میں مبتلا رہتی ہے ، اس کی آرزو و خواہش ہوتی ہے ، سرزنش ، عذاب ، نیکی اور بشارت سے مرنے والا دوچار ہوتاہے اورمرتے ہی وہ ان خصوصیات کے ساتھ اس عالم میں وارد ہوتا ہے یہ تمام چیزیں اس جسم کے علاوہ ہیں جسے ہم نے مشاہدہ کیا ہے یا نابودجاتاہے، اسی بنا پر موت کے بعد روح کا وجودا ور اس کی بقا واضح و روشن ہے ۔(۲)

____________________

(۱)مومنون ۹۹،۱۰۰۔

(۲)استقلال روح اور وجود کو بیان کرنے والی تمام آیات کی معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ، معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۴۵۰۔ ۴۵۶۔

۱۱۸

روح کے اثبات میں بشری معرفت اور دینی نظریہ کی ہماہنگی

گذشتہ بحث میں قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جسم اور جسمانی حوادث کے علاوہ انسان کے لئے روح نام کی ایک دوسرے مستقل پہلو کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے ، اب ہم

روح کی خصوصیات اور روحی حوادث سے مختصر آشنائی اور عقلی مباحث اور تجربی شواہد کے تقاضوں سے دینی نظریہ کی ہماہنگی کی مقدار معلوم کرنے کے لئے انسان کی مجرد روح کے وجود پر مبنی بعض تجربی شواہد اور عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

الف) عقلی دلائل

شخصیت کی حقیقت

ہم میں سے کوئی بھی کسی چیز میں مشکوک ہوسکتا ہے لیکن اپنے وجود میں کوئی شک نہیںکرتا ہے ۔ ہر انسان اپنے وجود کو محسوس کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے یہ اپنے وجود کا علم اس کی واضح ترین معلومات ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف اس مطلب کو بھی جانتے ہیں کہ جس چیز کو ''خود ''یا ''میں '' سے تعبیر کرتے ہیں وہ آغاز خلقت سے عمر کے اواخر تک ایک چیز تھی اور ہے ، جب کہ آپ اپنی پوری زندگی میں بعض خصوصیات اور صفات کے مالک رہتے ہیںیا اسے کھو بیٹھتے ہیں لیکن وہ چیز جس کو ''خود ''یا ''میں '' کہتے ہیں اسی طرح ثابت و پایدار ہے، ہم مذکورہ امور کو علم حضوری سے حاصل کرتے ہیں ۔

اب ہم دیکھیں گے کہ وہ تنہا ثابت و پایدار شی ٔکیا ہے ؟ وہ تنہا ،بغیر کسی شک کے ، اعضاء یا اجرام یا بدن کا دوسرا مادی جزء یارابطوں کے تاثرات اور ان کے مادی آثار نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کو ہم علم حضوری کے ذریعہ حاصل نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ ظاہری حواس سے درک کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ متحول و متغیر ہوتے رہتے ہیں ، لہٰذا ''میں ''یا ''خود''ہمارے جسم اور اس کے آثار و عوارض کے علاوہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اس کی پایداری و استحکام، مجرد اور غیر مادی ہونے پر دلالت کرتی ہے ،یہ بات قابل توجہ ہے کہ طریقۂ معرفت اور فلسفہ علم سے بعض ناآشنا حضرات کہتے ہیں کہ علم ؛روح مجرد کے وجود سے انکار کرتا ہے اور اس پر اعتقاد کو غلط تسلیم کرتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)مارکس کے ماننے والے اپنے فلسفہ کو فلسفہ علمی کہتے ہیں اور روح کے منکرو معتقد بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو: مجموعہ آثار ج۶ص۱۱۵

۱۱۹

جب کہ علم کا کوئی ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ علم اس سے کہیں زیادہ متواضع ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر مجرد امور میں قضاوت کرے ،یہ بات گذر چکی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسی شعبہ میں علم کا دعویٰ، انکاراور نہ ہونا نہیں ہے بلکہ عدم حصول ہے ۔

روح کا ناقابل تقسیم ہونا اور اس کے حوادث

مادی و جسمانی موجودات ، کمیت و مقدار سے سروکار رکھنے کی وجہ سے قابل تجزیہ وتقسیم ہیں مثال کے طور پر ۲۰ سینٹی میٹر پتھرکا ایک ٹکڑا یا ایک میڑ لکڑی چونکہ کمیت و مقدار رکھتے ہیں لہٰذا قابل تقسیم ہیں اسی طرح ۱۰ سینٹی میڑ پتھر کے دو ٹکڑے یا آدھے میڑ لکڑی کے دو ٹکڑے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک ورق کاغذ کی سفیدی جو کہ جو ہر کاغذ کی وجہ سے باقی اور اس میں داخل ہے ،کاغذ کو دوحصہ میں کر کے اس کی سفیدی کو بھی ( کاغذ کے دو ٹکڑے میں تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ) تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن ہم سے ہر ایک جس وقت اپنے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو اس حقیقت کو پاتا ہے کہ نفس، مادی حقیقتوں میں سے نہیں ہے اور وہ چیز جس کو ''میں ''کہتا ہے وہ ایک بسیط اور ناقابل تقسیم شی ٔہے یہ تقسیم نہ ہونااس بات کی علامت ہے کہ ''میں ''کی حقیقت مادہ اور جسم نہیں ہے، مزید یہ کہ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ نفس ،مادی چیزوں میں سے نہیں ہے ''میں ''اور روحی حوادث ، ہمارے جسم کے ہمراہ ، تقسیم پذیر نہیں ہیں یعنی اس طرح نہیں ہے کہ اگر ہمارے جسم کو دو نیم کریں تو ''میں ''یاہماری فکر یا وہ مطالب جن کو محفوظ کیا ہے دو نیم ہو جائیگی، اس حقیقت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ'' میں '' اور'' روحی حوادث'' مادہ پر حمل ہونے والی اشیاء و آثارمیں سے نہیں ہیں۔

مکان سے بے نیاز ہونا

مادی چیزیں بے واسطہ یا باواسطہ طور پر مختلف جہت رکھنے کے باوجود مکان کی محتاج ہیں اور فضا کو پُر کئے ہوئے ہیں لیکن روح اور روحی حوادث جس میں بالکل جہت ہی نہیں ہے لہٰذااس کے لئے کوئی مکان بھی نہیں ہے مثال کے طور پر ہم اپنی روح کے لئے جس کو لفظ ''میں '' کے ذریعہ یادکرتے ہیں اس کے لئے اپنے جسم یا جسم کے علاوہ کسی چیزمیں کوئی مکان معین نہیں کرسکتے ہیں، اس لئے کہ وہ نہ تو جسم کا حصہ ہے کہ جہت رکھتا ہو اور نہ ہی جسم میں حلول کرتا ہے اور نہ جسم کی خصوصیات کا مالک ہے جس کی وجہ سے جہت ہو اور نتیجتاً مکان رکھتا ہو ،روحی حوادث مثلاً غم ، خوشی ، فکر و نتیجہ گیری ، ارادہ اور تصمیم گیری بھی اسی طرح ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307