انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145836 / ڈاؤنلوڈ: 4848
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کبیر کا صغیر پر انطباق

ہم میں سے ہر ایک یہ تجربہ رکھتا ہے کہ بارہا وہ جنگل و صحرا کے طبیعی مناظر اوروسیع آسمان سے لطف اندوز ہواہے ،ہم ان وسیع مناظر کو ان کی وسعت و پھیلاؤ کے ساتھ درک کرتے ہیں ،کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ وسیع و عریض مناظر اور دوسرے سینکڑوں نمونے جن کو پہلے دیکھا ہے اور اس وقت بھی حافظہ میں ہیں ، کہاں موجود رہتے ہیں ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ وسیع مناظر جو کئی کیلو میڑ وسیع مکان کے محتاج ہیں وہ مغز کے بہت ہی چھوٹے اجرام میں سما جائیں ؟ !اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مناظر ہمارے اندر محفوظ ہیں اور ہم ان کو اسی وسعت و کشادگی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں لیکن ہمارے مادی اعضاء میں سے کوئی بھی مخصوصاً ہمارا دماغ جس کو مادہ پرست حضرات مرکز فہم کہتے ہیں ؛ ایسے مناظر کی گنجائش نہیں رکھتا ہے اور ایسے مناظر کا اس قلیل جگہ میں قرار پانا ممکن بھی نہیں ہے ،اور علماء کی اصطلاح میں '' صغیرپر کبیر کا انطباق'' لازم آئے گا جس کا بطلان واضح ہے ۔(۱)

ب) تجربی شواہد

بشر کے تجربیات میں ایسے مواقع بھی پیش آتے ہیں جو روح کے مجرد و مستقل وجود کی تائید کرتے ہیں ''روحوں سے رابطہ ''جس میں انسان ان لوگوں سے جو سیکڑوں سال پہلے مر چکے ہیں اور

____________________

(۱) ٹیلی ویژن یا مانیٹر کے صفحہ پر جس طرح ایک بہت ہی چھوٹی تصویر کودیکھتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ چھوٹی تصویر اس وسیع و عریض منظر کی تصویر ہے ،ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان مناظر اور وسیع و عریض مقامات کو ان کی بزرگی کے ساتھ درک کرتے ہیں۔

۱۲۱

شاید ان کے اسماء کو بھی نہ سنا ہو ، ارتباط قائم کرتا ہے اور معلومات دریافت کرتا ہے ۔(۱) '' آتوسکپی''(تخلیہ روح ) میں جسم سے روح کی موقت جدائی کے وقت ان لوگوں سے معلومات کا مشاہدہ کیا گیاہے جو دماغی سکتہ یا شدید حادثہ کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور اچھے ہونے کے بعد بے ہوشی کے وقت کے تمام حالات کو یاد رکھتے ہیں،(۲) سچے خواب میں افراد نیند ہی کی حالت میں گذشتہ یا آئندہ زمانے میں

____________________

(۱)ایسے مفکرین کے سامنے جن کی باریک بینی،صداقت اور تقویٰ میں کوئی شبہہ نہیں کیا جاسکتاہے ایسے موارد بھی پیش آئے ہیں کہ انہوں نے کئی سال پہلے مرچکے افراد سے ارتباط برقرار کرکے گذشتہ آئندہ کے بارے میں معلومات دریافت کی ہیں ۔ اگر روح مجرد کا وجود نہ ہوتا تو ایسے جسم سے رابطہ بھی ممکن نہ ہوتا جو سالوں پہلے پراکندہ ہوچکا تھااور ان مفکرین سے کوئی معرفت و رابطہ بھی نہ تھا،مثال کے طور پر مرحوم علامہ طباطبائی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: طالب علمی کے زمانہ میں جب میں نجف اشرف میں دینی علوم کی تعلیم میں مشغول تھا ، ایک بار میری اقتصادی حالت بہت نازک ہوگئی تھی، گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور زندگی کے اقتصاد یات نے میرے ذہن کو پریشان کررکھا تھا ؛ میں نے اپنے آپ سے کہا تم کب تک اس اقتصادی حالت میں زندگی گذار سکتے ہو؟ ناگاہ میں نے احساس کیا کہ کوئی دق الباب کر رہا ہے ،میں اٹھا اور جاکر دروازہ کھولا ، ایسے شخص کو دیکھا جس کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، ایک مخصوص لباس زیب تن کئے ہوئے تھا ، مجھے سلام کیا اور میں نے جواب سلام دیا ، اس نے کہا : میں سلطان حسین ہوں ۔ خداوند عالم فرماتا ہے : میں نے ان اٹھارہ سالوں میں کب تم کو بھوکا رکھا ہے جو تم درس و مطالعہ چھوڑ کر روزی کی تامین کے بارے میں سوچ رہے ہو ؟علامہ فرماتے ہیں کہ : اس شخص نے خدا حافظی کیا اور چلا گیا ، میں نے دروازہ بند کیا اور واپس آگیا اچانک میں نے دیکھا ، میں تو پہلے والے ہی انداز میں کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں اور میں نے کوئی حرکت بھی نہیں کی ہے میں نے اپنے دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ اٹھارہ سال کس وقت سے شروع ہوتا ہے؟میری طالب علمی کے آغاز کا دور تو اٹھارہ سالوں سے زیادہ ہے اور وقت ازدواج بھی، اٹھارہ سال سے مطابق نہیں رکھتا ہے میں نے غور کیا تو یاد آیا کہ جب سے میں نے روحانی لباس زیب تن کیا ہے ، ٹھیک اٹھارہ سال گذر چکے ہیں۔ چندسال بعد میں ایران آیا اور تبریز میں رہنے لگا ۔ ایک دن میں قبرستان گیا اچانک میری نظر ایک قبر پر پڑی دیکھا اسی شخص کا نام قبر کی تختی پر کندہ ہے، میں نے اس کی تاریخ وفات پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس واقعہ سے تین سو سال پہلے وہ اس دنیا سے جا چکا تھا اور میرا رابطہ اس کی روح سے تھا ۔ملاحظہ ہو: قاسم لو ، یعقوب؛ طبیب عاشقان ؛ ص ۴۵ و ۴۶۔ اسی مطلب کی طرح ، بیداری کی حالت میں اپنے اور دوسروں کے آئندہ کا مشاہدہ کرنا ہے جیسے وہ چیزیں جو حضرت آیة اللہ خوئی طاب ثراہ کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کہ : آپ نے اپنی جوانی اور طالب علمی کے ابتدائی دور میں اپنی زندگی کے تمام مراحل کوحتی ہنگام موت اور اپنے تشییع جنازہ کے مراسم کو بھی عالم بیداری میں مکاشفہ کی شکل میں دیکھا تھا اور اپنی پوری زندگی کواسی انداز میں تجربہ بھی کیا تھا ۔ ملاحظہ ہو: حسن زادہ ، صادق ؛ اسوہ عارفان ؛ ص ۶۱۔

(۲)آٹوسکپی ( Autoscopy ) مغرب میں عالم تجربہ کا یہ نسبتاً جدید انکشاف ہے اور ایسے افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے جو تصادف یاشدید سکتہ مغزی کی وجہ سے ان کی روح ان سے دور ہوجاتی ہے ان کے حالات کے صحیح اورمعمول پر واپس آنے کے بعد اپنے بے ہوشی کے دوران کے سبھی حالات کو جانتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ : ہم اپنے جسم کونیز ان افراد کو جو ہمارے اردگرد تھے اورجو کام وہ ہمارے جسم پر انجام دیتے تھے اور اسی طرح مکان اورآواز کو ان مدت میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے، ریمنڈمودی نام کے ایک مفکرنے اپنی کتاب Life after life ( زندگی، زندگی کے بعد )میں ان مشاہدات کے نمونوں کو ذکر کیا ہے مائکل سابون نام کے ایک دوسرے مفکر نے پانچ سال کے اندر ۱۱۶ افراد سے اس طرح کا بیان لیاہے جس میں سے تین چوتھائی افراد، سکتہ قلبی کے شکار ہوئے ہیں، ان میں سے ایک سوم افراد آٹوسکپی میں گرفتارتھے ۔ملاحظہ ہو: ہوپر ، جودیث و دیک ٹرسی ،جہان شگفت انگیز مغز ؛ ص ۵۵۷، ۵۶۹۔ انسان در اسلام ؛ کے ص ۸۸پر واعظی نے نقل کیا ہے۔توجہ ہونا چاہیئے کہ ایسے افراد کا جسم درک نہیں کرتا ہے اور حواس بھی تقریباًکام نہیں کرتا ہے لہٰذا ان حالات کی بہترین توجیہ ، مستقل اور مجرد روح کا وجود ہے ۔

۱۲۲

نہ دیکھی نہ سنی جگہوں میں سفر کرتے ہیں، اور بیداری کے بعد خواب کے مطابق معلومات کو صحیح پاتے ہیں۔(۱) اور ٹیلی پیتھی میں دو یا چند آدمی بہت ہی زیادہ فاصلہ سے مثال کے طور پر دو شہروں میں ایک دوسرے سے مرتبط ہوتے ہیں

____________________

(۱)سچے خواب بھی بہت زیادہ ہیں جو روح کے وجود پر دلیل ہیں ۔ ان خوابوں میں انسان آئندہ یا گذشتہ زمانہ میں یا ایسی جگہوں میں سفر کرتا ہے جسے کبھی دیکھا نہ تھا حتی ان کے اوصاف کے بارے میں نہ پڑھا اور نہ ہی سنا تھا اور جووہ معلومات حاصل کرتا ہے واقعیت سے مطابقت رکھتا ہے اور مرور زمان کے بعد ان چیزوں کااسی طرح مشاہدہ کرتا ہے جیسا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا،چونکہ خواب کے وقت انسان کا بدن ساکت اور مخصوص مکان میں ہوتا ہے،لہٰذا یہ حرکت اور کسب اطلاعات ،روح مجرد کو قبول کئے بغیر قابل توجیہ ، اور منطقی نہیں ہے ۔

۱۲۳

اور بغیر کسی مادی ارتباط کے ایک دوسرے سے معلومات منتقل کرتے ہیں ۔(۱)

یہ منجملہ تجربی شواہد کے موارد ہیں جو روح مجرد کے وجود کی تائید کرتی ہیں ۔ گذشتہ چیزوں پر توجہ کرتے ہوئے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ روحی حوادث کو شیمیائی ، مادی ، مقناطیسی لہروں یا شیمیائی الکٹرک کے فعل و انفعال سے توجیہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور انسانی خواہشات جیسے حوادث ، درد و احساسات خصوصاً ادراک ، تجربہ و تحلیل ، نتیجہ گیری اور استنباط ان میں سے کوئی بھی شی ٔقابل توجیہ نہیں ہے ۔

____________________

(۱)روح مجرد کے وجود کی دوسری دلیل ٹیلی پیتھی ( Telepathy ) اور راہ دور سے رابطہ ہے، بعض اوقات انسان ایسے افراد سے رابطہ کا احساس کرتا ہے جو دوسرے شہر میں رہتا ہے اور اس رابطہ میں ایک دوسرے سے معلومات منتقل کرتے ہیں ، حالانکہ اس سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے تھے ، یہ رابطہ ارواح سے رابطہ کی طرح ہے لیکن یہ زندہ لوگوں کی روحیں ہیں ۔

۱۲۴

روح مجرداور انسان کی واقعی حقیقت

انسانی روح کے سلسلہ میں مجرد ہونے کے علاوہ دودوسرے مہم مسائل بھی ہیں جن کے سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کوا ختصار اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔ پہلی بات یہ کہ انسان کی روح ایک مجرد وجود ہے اور دوسرے یہ کہ انسان کی واقعی حقیقت ( وہ چیزیں جو انسان کی انسانیت سے مربوط ہیں)کو اس کی روح تشکیل دیتی ہے، یہ دو مطالب گذشتہ آیات کے مفہوم و توضیحات سے حاصل ہوئی ہیں ۔ اس لئے کہ انسان کی خلقت سے مربوط آیات میں اس کے جسمانی خلقت کے مراحل کے بیان کے بعد ایک دوسری تخلیق یا روح پھونکنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور یہ نکتہ روح کے غیر مادی ہونے کی علامت ہے ،جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد انسان کی بقا اور عالم برزخ میں زندگی کا دوام نیز اس کا کامل اور پوری طرح دریافت ہونا بھی روح کے مادی و جسمانی نہ ہونے کی علامت ہے ۔ دوسری طرف اگر انسان کی واقعی حقیقت اس کے مادی جسم میں ہے تو مرنے اور جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد نابود ہوجانا چاہیئے تھا جب کہ آیات قرآنی جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد بھی انسان کی بقا کی تائید کرتی ہیں ،خداوند عالم نے انسان کی فرد اول کے عنوان سے حضرت آدم کی خلقت کے بارے میں فرمایا : '' روح پھونکے جانے کے بعد ؛سجدہ کرو '' یہ حکم بتا تا ہے کہ اس مرحلہ میں پہلے وہ خلیفة اللہ انسان جس کی خلقت کا خدا وند عالم نے وعدہ کیا تھا ابھی وجود میں نہیں آیا ہے انسان کی خلقت میں یہ کہنے کے بعد کہ( ثُمَّ أَنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ ) ''پھرہم نے اس کو ایک دوسریشکلمیں پیدا کیا''اس جملہ کو بیان کیا( فَتَبارَکَ اللّٰهُ أحسَنُ الخَالِقِینَ ) (۱) ''پس مبارک ہے وہ اللہ جوبنانے والوں میں سب سے بہترہے''، یہ نکتہ بھی دلالت کرتا ہے کہ انسان کا وجود روح پھو نکنے کے بعد متحقق ہوتا ہے ،وہ آیات جو بیان کرتی ہیں کہ ہم تم کو تام اور کامل دریافت کرتے ہیں وہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی روح اس کی واقعی حقیقت کو تشکیل دیتی ہے ورنہ اگر جسم بھی انسان کے حقیقی وجود کا حصہ ہوتا تو موت کے وقت انسان ،تام اور کامل دریافت نہیں ہوتا اور جسم کے پراگندہ ہو تے ہی انسان کی واقعی حقیقت کا وہ حصہ بھی نابود ہو جاتا ۔

____________________

(۱)سورۂ مومنون ۱۴

۱۲۵

خلاصہ فصل

۱.انسان دو پہلو رکھنے والا اور جسم و روح سے مرکب وجود ہے ۔

۲.اگرچہ نسل آدم علیہ السلام کے جسم کی بناوٹ کی کیفیت کے بارے میں کوئی خاص بحث نہیں ہے لیکن مفکرین، ابوا لبشرحضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں اختلاف نظررکھتے ہیں ۔

۳.جب ڈارون نے اپنے فر ضیہ کو بیان کیا اور مختلف مخلوقات کی بناوٹ کو (بہترین انتخاب اصل ہے )کی بنیاد پر پیش کیا تو بعض غربی مفکرین نے نسل آدم کے ماضی کو بھی اسی فرضیہ کی روشنی میں تمام حقیر حیوانات کے درمیان جستجو کرتے ہوئے بندروں کے گمشدہ واسطہ کے ساتھ پیش کیا ۔

۴.بعض مسلمان مفکرین نے کوشش کی ہے کہ خلقت آدم کو بیان کرنے والی آیات کوبھی

اسی فرضیہ کے مطابق تفسیر کریں لیکن اس طرح کی آیات (نَّ مَثَل عِیسیٰ عِندَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ) گذشتہ درس کی عبارتوں میں دی گئی توضیحات کی بنا پر ایسے نظریہ سے سازگار نہیں ہے ۔

۵. آیات قرآن نہ صرف روح کے وجود پر دلالت کرتی ہیں بلکہ انسان کی موت کے بعد بقاء و استقلال کی بھی وضاحت کرتی ہیں ۔

۶. روح کا وجود و استقلال بھی آیات قرآن کے علاوہ عقلی دلیلوں اور تجربی شواہد سے بھی ثابت ہے ۔

۱۲۶

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں، اگر ان کے جوابات میں مشکلات سے دوچار ہوں تو دوبارہ مطالب کو دہرائیں :

۱. ''انسان کی خلقت'' کو قرآن کی تین آیتوں سے واضح کیجئے؟

۲. انسان کے دو پہلو ہونے سے مراد کیا ہے ؟

۳. مندرجہ ذیل موارد میں سے کون سا مورد ، ڈارون کے نظریہ ''اقسام کی علت ''انسان کے ضروری تکامل کے مطابق ہے ؟

الف) حضرت آدم کی مخصوص خلقت کو بیان کرنے والی آیات کی توجیہ کریں ۔

ب)انسان کے اندر، ذاتی کرامت و شرافت نہیں ہے ۔

ج)جس جنت میں حضرت آدم خلق ہوئے وہ زمین ہی کا کوئی باغ ہے ۔

د)جناب آدم کا نازل ہونا اور ان کے سامنے فرشتوں کا سجدہ کرنا ایک عقیدتی مسئلہ ہے ۔

۴.جو حضرات بالکل روح انسان کے منکر ہیںمن جملہ حوادث میں تفکر کی قدرت ، حافظہ اور تصورات وغیرہ کی کس طرح توجیہ کرتے ہیں اور انہیں کیاجواب دیا جاسکتا ہے ؟

۵. روح و جسم کے درمیان پانچ قسم کے رابطہ کو ذکر کریں اور ہر ایک کے لئے مثال پیش کریں ؟

۶. آپ کے اعتبار سے کون سی آیت بہت ہی واضح روح کے وجود و استقلال کو بیان کرتی ہے ؟ اور کس طرح ؟

۷. روح انسانی سے انکار کے غلط اثرات کیا ہیں ؟

۸.انسان و حیوان کے درمیان مقام و مرتبہ کا فرق ہے یا نوع و ماہیت کا فرق ہے ؟

۹.لیزری ڈیسکیںاورمانیٹر پر ان کی اطلاعات کی نمائش ، آیا صغیر پر کبیر کے انطباقی مصادیق و موارد میں سے ہے ؟

۱۰. ہم میں سے ہر ایک مخصوص زمان و مکان میں خلق ہوا ہے اور مطالب کو بھی مخصوص زمان و مکان میں درک کرتا ہے ،تو کیا یہ بات روح اور روحی حوادث کے زمان ومکان سے محدود ہونے کی علامت نہیں ہے ؟

۱۱.جسم و جسمانی حوادث اور روح و روحانی حوادث کی خصوصیات کیا ہیں ؟

۱۲۷

مزید مطالعہ کے لئے

۱۔انسان کی خلقت میں علم و دین کے نظریات کے لئے ،ملاحظہ ہو:

۔البار ، محمد علی ،خلق الانسان بین الطب و القرآن ، بیروت ،

۔بوکای ، موریس ( ۱۳۶۸) مقایسہ ای تطبیقی میان تورات ، انجیل ، قرآن و علم ، ترجمہ ، ذبیح اللہ دبیر ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی ۔

۔سبحانی ، جعفر ( ۱۳۵۲) بررسی علمی ڈاروینزم ، تہران : کتابخانہ بزرگ اسلامی ،

۔سلطانی نسب ، رضا ، و فرہاد گرجی ( ۱۳۶۸) جنین شناشی انسان ( بررسی تکامل طبیعی و غیر طبیعی انسان ) تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔شاکرین ، حمید رضا قرآن و رویان شناسی ، حوزہ و دانشگاہ کے مجلہ سے منقول ، سال دوم ، شمارہ ۸۔

۔شکرکن ، حسین ، و دیگران (۱۳۷۲) مکتبھای روان شناسی و نقد آن ج۲ ، تہران : سمت ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۔محمد حسین طباطبائی (۱۳۶۹) انسان از آغاز تا انجام ، ترجمہ و تعلیقات : صادق لاریجانی آملی ، تہران : الزہرا۔

۔ ( ۱۳۵۹) فرازھایی از اسلام تہران : جہان آرا.

۔ ( ۱۳۶۱) آغاز پیدایش انسان ؛ تہران : بنیاد فرہنگی امام رضا

۔قراملکی ، فرامرز ( ۱۳۷۳) موضع علم و دین در خلقت انسان تہران : موسسہ فرہنگی آرایہ

۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۸) مجموعہ آثار ج۱ ، تہران : صدرا

۔مکارم شیرازی ، ناصر، ڈاروینزم کے بارے میں بحث وتحقیق و تحلیل اور تکامل کے بارے میں جدید نظریات. قم : نسل جوان ۔

۔مہاجری ، مسیح ( ۱۳۶۳) تکامل از دیدگاہ قرآن تہران : دفتر نشر فرہنگی اسلامی واعظی ، احمد (۱۳۷۷) انسان در اسلام تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( سمت )

۱۲۸

اس فصل میں مذکورہ تفسیری کتابیں ۔

۲۔ کلمہ نفس و روح کے سلسلہ میں ، اس کے اصطلاحی معانی و استعمالات اور خدا وند عالم سے منسوب روح سے مراد کے لئے .ملاحظہ ہو:

۔حسن زادہ آملی ، حسن، معرفت نفس ، دفتر سوم ، ص ۴۳۷. ۴۳۸.

۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیہان شناسی ، انسان شناسی ) قم : موسسہ ۔آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۳۵۶.۳۵۷ و اخلاق در قرآن ج۲ ص ۲۰۰سے ۲۰۸ تک ۔

۳ ۔روح انسان اور نفس و بدن یا روح و جسم کے رابطہ میں مختلف نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ بہشتی ، محمد (۱۳۷۵) ''کیفیت ارتباط ساحتھای وجود انسان ''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ نہم ، ص ۲۹۔ ۳۷.

۔دیونای ، امیر ( ۱۳۷۶) حیات جاودانہ .پژوہشی در قلمرو و معاد شناسی ، قم ؛ معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

۔رئوف ، عبید ( ۱۳۶۳) انسان روح است نہ جسد ، ترجمہ زین العابدین کاظمی خلخالی ، تہران : دنیای کتاب

۔شکر کن ، حسین و دیگران ( ۱۳۷۲) مکتبہای رواان شناسی و نقد آن تہران دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( سمت ) ص ۲۰۶،۲۰۷و ۳۶۹،۳۸۶).

۔غروی ، سید محمد ( ۱۳۷۵ ) ''رابطہ نفس و بدن ''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ نہم ص ۸۴تا ۸۸.

۔واعظی ، احمد( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( سمت )

۱۲۹

پانچویں فصل :

انسان کی فطرت

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱. انسانی مشترکہ طبیعت سے مراد کیا ہے وضاحت کریں ؟

۲. دینی اعتبار سے انسان کے مشترکہ عناصر کا بنیادی نقطہ بیان کریں ؟

۳. انسانی مشترکہ طبیعت کے وجود پر دلیلیں پیشکریں ؟

۴.انسانی تین مشترکہ طبیعت کی خصوصیات کے نام بتائیں اور ہر ایک کے بارے میں مختصر وضاحت پیش کریں ؟

۵. ان آیات و روایات کے مضامین جو انسان کی مشترکہ طبیعت کے وجود کی بہت ہی واضح طور پرتائید کرتی ہیں بیان کیجیئے ؟

۶. توحید کے فطری ہونے کے باب میں مذکورہ تین احتمال بیان کریں ؟

۷. سورۂ روم کی آیت نمبر ۳۰ کو ذکر کریں اور اس آیت کی روشنی میں فطرت کے زوال نا پذیر ہونے کی وضاحت کریں ؟

۱۳۰

اپنے اور دوسروں کے بارے میں تھوڑی سی توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے اور ہم جیسے دوسرے افراد کے عادات و اطوار نیزظاہری شکل و شمائل کے درمیان اختلاف کے باوجود ایک دوسرے میں جسم و روح کے لحاظ سے بہت زیادہ اشتراک ہے ،اپنے اور دوسروں کے درمیان موجودہ مشترک چیزوں میں غور و فکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشترک علت کبھی تو ہمارے اور بعض لوگوں کے درمیان یا انسانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان ہے مثال کے طور پر زبان ، رنگ ، قومیت ، آداب و رسوم ، افعال،قد کا زیادہ اور کم ہونے وغیرہ میں اشتراک ہے۔اور کبھی یہ امور سبھی افراد میں نظر آتے ہیں جیسے حواس پنجگانہ رکھنا ،قد کا سیدھا ہونا ، خدا کا محتاج ہونا ، جستجو کی حس ، حقیقت کی خواہش اور آزاد خیال ہونا وغیرہ ۔

مشترک کی پہلی قسم، بعض افراد انسان میں نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی فطری اور ذاتی چیزوں میں شمار نہیں ہوسکتی ہے لیکن مشترک کی دوسری قسم میں غور و فکر سے مندرجہ ذیل مہم اور بنیادی سوالات ظاہر ہوتے ہیں ۔

۱. گذشتہ فصل کے مباحث کی روشنی میں ان مشترکہ امور کا انسان کی واقعی حقیقت اور ذات سے کیا رابطہ ہے ؟ کیا یہ سبھی مشترکہ چیزیں انسان کی ذات سے وجود میں آتی ہیں ؟

۲. ذاتی مشترک چیزوں کی خصوصیات کیا ہیں اور غیر ذاتی چیزوں سے ذاتی مشترک چیزوں ( انسان کی مشترکہ فطرت )کی شناخت کا ذریعہ کیا ہے ؟

۳.انسان کے یہ مشترکہ اسباب اس کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں ؟

۴.ان ذاتی مشترک چیزوں کی قسمیں یا مصادیق و موارد کیا ہیں ؟

۱۳۱

۵.انسان کی شخصیت اور بناوٹ اور الٰہی فطرت سے ذاتی مشترکہ چیزیں کیا رابطہ رکھتی ہیں ؟

۶.کیا انسان ان ذاتی مشترکہ چیزوں کی بنا پر خیر خواہ اور نیک مخلوق ہے یا پست و ذلیل مخلوق ہے یا ان دونوں کا مجموعہ ہے ؟

ان سوالات کے جوابات کا معلوم کرنا وہ ہدف ہے جس کے مطابق یہ فصل (انسان کی فطرت کے عنوان سے )مرتب ہوئی ہے ۔(۱)

انسانی مشترکہ طبیعت

انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگوکو انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک سمجھا جاسکتا ہے ، جو جاری چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف معطوف کئے ہوئے ہے ۔

یہ مسئلہ متعدد و مختلف تعریفوں کو پیش کرنے کے باوجود ایک معتبر ومتیقن طریقۂ معرفت کے نہ ہونے اور ذات انسان کے پر اسرار و مخفی ہونے کی وجہ سے بہت سے دانشمندوں کی حیرت و پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ان میں سے بعض جیسے ''پاسکال '' کو مجبور ہونا پڑا کہ انسان کی فطرت اور ذات کی معرفت کو غیر ممکن سمجھے(۲) اور بعض لوگوں کی اس گمان کی طرف رہنمائی کی ہے کہ انسانوں

____________________

(۱)اس بحث کو حجة الاسلام احمد واعظی زید عزہ نے آمادہ کیا ہے جو تھوڑی اصلاح اور اضافہ کے ساتھ معزز قارئین کی خدمت میں پیش ہو رہی ہے ۔

(۲)پاسکال منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جو معتقد تھا کہ انسان کی معرفت کی عام راہیں کسی وقت بھی انسان کے سلسلہ میں صحیح معلومات فراہم نہیں کرسکتی ہیں ۔ اور دین جو انسان کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے وہ بھی انسان کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے اور اس کو خدا وند عالم کی طرح پوشیدہ اور مرموز کردیتا ہے ۔ ملاحظہ ہو: کیسیرر ، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ ؛ ص ۳۴و ۳۶۔

۱۳۲

کے درمیان مشترکہ فطرت و ذات کے وجود کے منکر ہوں(۱) مثال کے طور پر ''جوزارٹگا''(۲) اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ'' فطری علوم، حیات انسانی کی حیرت انگیز حقیقت کے مقابلہ میں متحیر ہیں ۔انسان سے پردۂ اسرار کے نہ ہٹنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ انسان کوئی شیٔ نہیں ہے اور انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو کرنا کذب محض ہے ۔ فطرت و طینت نامی کوئی بھی شیٔ انسان میں نہیں ہے ''۔(۳)

بہتر یہ ہوگا کہ انسان کی مشترکہ فطرت کی نفی یا اثبات کی دلیلوں کو پیش کرنے سے پہلے مشترکہ فطرت و طینت کے مقصود کو واضح کیا جائے ۔

مشترکہ فطرت سے مراد(۴)

حیوان کے مختلف اقسام میں مشترکہ جہتیں اور خصوصیات ہوتی ہیں ۔ فطری چیزوں کا وجود

____________________

(۱)ڈور کیم کی طرح جامعہ کو اصل سمجھنے میں افراط کرنے والے اور ژان پل سارٹر کی طرح عقیدۂ وجود رکھنے والے اور فرڈریچ ہگل ( Georg Wilhelm Friedrich Hegel )کی طرح عقیدہ ٔ تاریخ رکھنے والے نیزریچارڈ پالمر( Richard Palmer ) منجملہ ان لوگوں میں سے ہیں جومورد نظر معانی میں انسان کی مشترکہ فطرت کے منکر ہیں .ملاحظہ ہو: اسٹیونسن ، لسلی ؛ ہفت نظریہ در باب انسان ؛ ص ۱۳۶۔ ۱۳۸۔ محمد تقی مصباح ؛ جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن ؛ سازمان تبلیغیات اسلامی ، تہران ؛ ۱۳۶۸، ص ۴۷و ۴۸۔ (۳)کیسیرر ، ارنسٹ ،گذشتہ حوالہ؛ ص۲۴۲۔

Cjose Ortega Y Gasset .(۲)

(۴)کلمہ'' فطرت انسان''کے مختلف و متنوع استعمالات ہیں : مالینوفسکی کی طرح مفکرین اس کو مادی ضرورتوںمیں منحصر کردیتے ہیں کولی کی طرح بعض دوسرے مفکرین'' اجتماعی فطرت''خصوصاً اجتماعی زندگی میں جو احساسات اور انگیزے ابتدائی معاشرے میں ہوتے ہیں بیان کرتے ہوئے متعدد فطرت و سماج پر یقین رکھتے ہیں، بعض نے اجتماعی فطرت کوابتدائی گروہ( جیسے خاندان) اور سماجی طبیعت و اجتماعی کمیٹیوں سے وجود میں آنے کے بارے میں گفتگو کی ہے ،وہ چیز جو ان نظریات میں معمولاً مورد غفلت واقع ہوتی ہے وہ انسان کی مخصوص اور بلند و بالا فطرت ہے جو انسان و حیوان کی مشترکہ اور اس کی مادی و دنیاوی ضرورتوں سے بلند و بالا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو اس بحث میں شدید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

۱۳۳

جیسے نفس کو بچانا اور حفاظت کرنا اور تولید نسل کرنا وغیرہ ان کی مشترکہ فطرت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ فطری چیزیں سبھی حیوانوں کے درمیان مشترک ہیں لیکن حیوان کی ہر فرد ان مشترکہ فطرت کے علاوہ اپنے مطابق صفات وکردار کی بھی مالک ہوتی ہے ،چونکہ حیوانوں کے اندر نفوذ کرکے ان کی ذاتیات کو کشف کرنا انسان کے لئے خیال و گمان کی حد سے زیادہ میسر نہیں ہے، لہٰذا بیرونی افعال جیسے گھر بنانے کا طریقہ ، غذا حاصل کرنا ، نومولود کی حفاظت ، اجتماعی یا فردی زندگی گذارنے کی کیفیت اور اجتماعی زندگی میں تقسیم کار کی کیفیت کے عکس العمل کی بنیاد پر حیوان کی ایک فرد کو دوسری فرد سے جدا کیا جاسکتاہے ،مذکورہ خصوصیات کو حیوانوں کی فطرت و طینت کے فرق و تبدیلی کی وجہ سمجھنا چاہیئے ۔

انسان کا اپنی مخصوص فطرت و طینت والا ہونے سے مراد یہ بات ثابت کرنا نہیں ہے کہ انسان سبھی حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے اور حیوانوں کی ہی قسموں میں سے ہر ایک کی طرح یہ نوع بھی اپنی مخصوص امتیاز رکھتی ہے ،بلکہ مقصود اس نکتہ کا ثابت کرنا ہے کہ انسان حیوانی فطرت کے علاوہ بعض مشترکہ خصوصیات کا مالک ہے ۔حیوانی وکسبی چیزوں کے بجائے مشترکہ خصوصیات کامقام جستجو ،فہم خواہشات اور انسان کی توانائی ہے،اگر ہم یہ ثابت کرسکے کہ انسان ،مخصوص فہم و معرفت یا خواہشات و توانائی کا مالک ہے جس سے سبھی حیوانات محروم ہیں تو ایسی صورت میں انسان کی خصوصیت اور حیوانیت سے بالاتر مشترکہ فطرت ثابت ہوجائے گی ۔(۱)

____________________

(۱)فصل اول میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ انسان اور اس کی خصوصیات کی معرفت کے لئے چار طریقوں ؛ عقل ، تجربہ ، شہود اور وحی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اور ان کے درمیان طریقہ وحی ،کو مذکورہ خصوصیات کی روشنی میں دوسری راہوں پر ترجیح حاصل ہے اگرچہ ہر راہ و روش اپنے مخصوص مقام میں نتیجہ بخش ہے، فطرت انسان کی شناخت میں بھی یہ مسئلہ منکرین کے لئے مورد توجہ رہا ہے اورانھوں نے اس سلسلہ میں بحث و تحقیق بھی کی ہے۔ جو کچھ پہلی فصل میں بیان ہوچکا ہے وہ ہمیں مزید اس مسئلہ میں گفتگو کرنے سے بے نیاز کردیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے :ملاحظہ ہو؛ ازرائل شفلر ؛ در باب استعدادھای آدمی ، گفتاری در فلسفہ تعلیم و تربیت ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ، ۱۳۷۷ تہران : ص ۱۶۳

۱۳۴

مشترکہ فطرت کی خصوصیات

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی مشترکہ فطرت کی پہلی خصوصیت اس کا حیوانیت سے بالاتر ہونا ہے اس لئے کہتمایل و رجحانات تفکرو بینش حیوانوں میں پائی ہی نہیں جاتی ہے مثال کے طور پر نتیجہ اور استدلال کی قدرت اور جاہ طلبی یا کم از کم انسان کے اندر و سعت کے مطابق ہی یہ چیزیںپائی جاتی ہیں جو باقی حیوانوں میں نہیں ہوتی ہیں مثال کے طور پر گرچہ حیوانات بھی معلومات رکھتے ہیں لیکن حیوانوں کی معلومات انسانوں کی معلومات کے مقابلہ میں نہ ہی اس میں وسعت ہے اور نہ ہی ظرافت و تعمق جیسے صفات کی حامل ہے ،اسی وجہ سے انسان اور حیوان میں معلومات کے نتائج و آثار بھی قابل قیاس نہیں ہیں ، علم و ٹیکنالوجی انسان سے مخصوص ہے ۔مشترکہ فطرت کی دوسری خصوصیت ، حضوری فطرت ہے ۔ تعلیم و تعلّم اور دوسرے اجتماعی عوامل اور مشترکہ فطرت کے عناصر کی پیدائش میں ماحول کا کوئی کردار نہیں ہے اسی بنا پر یہ عناصر انسان کی تمام افراد میں ہر ماحول و اجتماع اور تعلیم تعلّم میں (چاہے شدت و ضعف اور درجات متفاوت ہوں )وجود رکھتا ہے ۔

انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کی تیسری خصوصیت ،لازوال ہونا ہے ،انسان کی مشترکہ فطرت چونکہ اس کی انسانیت کی ابتدائی حقیقت و شخصیت کو تشکیل دیتی ہے لہٰذا انسان سے جدا اور الگ نہیں ہوسکتی اور فرض کے طور پر اگر ایسے افراد ہوں جو ان عناصر سے بے بہرہ ہوں یا بالکل کھو چکے ہوں ان کی حیثیت حیوان سے زیادہ نہیں ہے اور ان کا شمارانسان کی صفوں میں نہیں ہوتابلکہ کبھی تو بعض عناصر کے نابود ہو جانے سے اس کی دائمی زندگی مورد سوال واقع ہوجاتی ہے مثال کے طور پر جو قدرت عقل و دانائی سے دور ہو یا عقل ہی نہ رکھتا ہو وہ گرچہ ظاہری شکل و صورت ، رفتار و کردار میں دوسرے انسانوں کی طرح ہے لیکن در حقیقت وہ حیوانیجہت سے اپنی زندگی گذار رہا ہے اور اس سے انسانی سعادت سلب ہوچکی ہے، مذکورہ خصوصیات میں سے ہر ایک انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کی معرفت کے لئے معیار ہیں ۔ اور ان خصوصیات کا انسان کے ارادے اور تمایل ، فکری توانائی اور بینش کا ہونااس بات کی علامت ہے کہ یہ ارادے ،فکری توانائی اور بینش ،انسانی فطرت کا حصہ ہیں ۔

۱۳۵

ماحول اور اجتماعی اسباب کا کردار

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر روز خلقت ہی سے تمام انسانوں کے اندرودیعت کر دیئے گئے ہیں جس کو ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی مہیا کرسکتے ہیں اور نہ ہی نابود کرسکتے ہیں ۔ مذکورہ عوامل انسان کی فطرت میں قدرت و ضعف یا رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں مثال کے طور پر حقیقت کی طلب اورمقام ومنزلت کی خواہش فطری طور پر تمام انسانوں میں موجود ہے البتہ بعض افراد میں تعلیم و تعلم اور ماحول و اجتماعی اسباب کے زیر اثر پستی پائی جاسکتی ہے یا بعض افراد میں قوت و شدت پائی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں فطری خواہش کسی خاص اہداف کے تحت مورد استفادہ واقع ہوں جو تعلیم و تربیت اور فردی و اجتماعی ماحول کی وجہ سے وجود میں آئے ہوں۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مشترکہ فطرت کے ذاتی اور حقیقی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے سبھی عناصر فعلیت اور تکامل سے برخوردار ہیں بلکہ انسانوں کی مشترکہ فطرت کو ایسی قابلیت اور توانائی پر مشتمل سمجھنا چاہیئے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بیرونی شرائط کے فراہم ہوتے ہی استعمال اور انجام پاتے ہیں، یہ نکتہ ایک دوسرے زاویہ سے بعض مشترکہ فطری عناصر پر ماحول اور اجتماعی توانائی کے اسباب کے تاثرات کو بیان و واضح کرتا ہے ۔

انسانی مشترکہ فطرت پر دلائل

یہ ہم بتا چکے ہیں کہ انسان کی مخصوص خلقت اور حیوانیت سے بالا ترگوشوں کو اس کی فہم ، خواہش اور توانائی؛ تین پہلوؤں میں تلاش کرنا چاہیئے اور یہ جستجو دینی متون اور عقل و تجربہ ہی کی مدد سے ممکن ہے پہلے تو ہم غیر دینی طریقوں اوربغیر آیات و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسانوں کی مشترکہ فطرت کو مورد تحلیل و تحقیق قرار دیں گے اور آخر میں دینی نظریہ سے یعنی دین کی نگاہ میں انسانوں کی مشترکہ فطرت (الٰہی فطرت)کے مرکزی عنصر کو آیات و روایات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔

۱۳۶

انسانوں کی مشترکہ فطرت کے وجود پر پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان ایک مخصوص فہم و معرفت کا مالک ہے ،انسان اس فہم و ادراک کی مدد سے قیاس اور نتیجہ اخذ کرتاہے اور اپنی گذشتہ معلومات کے ذریعہ نئی معلومات تک پہونچتاہے ۔ انسان کا نتیجہ حاصل کرنا، عقلی ادراک اور قواعد و اصول پر استوار ہے ،مثال کے طورپر ''نقیضین کا جمع ہونا محال ہے ، نقیضین کارفع بھی محال ہے ،سلب الشیٔ عن نفسہ ممکن نہیں ہے، کسی شیٔ کا اپنے آپ پر مقدم ہونا محال ہے '' یہ ایسے قضایا ہیں جن کو اصول و قواعد کا نمونہ سمجھا جاناچاہیئے،یہ قضایا فوراً فہم و حواس کے ادراک میں نہیں آتے ہیں بلکہ بشر کی اس طرح خلقت ہوئی ہے کہ اس کے ذہن کے آمادہ ہونے کے بعد یعنی جب اس کے حواس فعال ہوں اور اس کے لئے تصورات کے اسباب فراہم ہوں تو دھیرے دھیرے اس کی ذہنی قابلیت رونما ہوگی اور اس طرح سے بدیہی قضایا حاصل ہوں گے ۔ ان بدیہی قضایا کی مدد سے انسان کا ذہن اپنی تصدیقات اور مقدمات کو مختلف شکل و صورت میں مرتب کرتا ہے اور اقسام قیاس کو ترتیب دیتے ہوئے اپنی معلومات حاصل کرلیتا ہے ،ایسی بدیہی معلومات کو ''ادراکات فطری ''کہتے ہیں ،اس معنی میں کہ انسان فطری اور ذاتی طور پر اس طرح خلق ہوا ہے کہ حواس کے بے کار ہونے کے بعد بھی خود بخود ان ادراک کو حاصل کرلیتا ہے، اس طرح نہیں جیسا کہ مغرب میں عقل کو اصل ماننے والے ''ڈکارٹ''اور اس کے ماننے والوں کا نظریہ ہے کہ ادراکات بغیر کسی حواس ظاہری اور باطنی فعالیت کے انسان کی طبیعی فطرت میں ہمیشہ موجود ہیں ۔

انسان کے اخلاق و کردار کی معرفت بھی مشترکہ فطرت کی اثبات کے لئے موافق ماحول فراہم کرتی ہے ،فردی تجربہ و شواہد اور بعض مشترکہ اخلاقی عقائد کا گذشتہ افراد کے اعمال میں تاریخی جستجو،مثال کے طور پر عدالت اوروفاداری کا اچھا ہونا، ظلم اور

۱۳۷

امانت میں خیانت کا برا ہوناوغیرہ کوبعض مفکرین مثال کے طور پر'' ایمانول کانٹ '' فقط عقل عملی کے احکام کی حیثیت سے مانتے ہیں اور کبھی اس کو'' حِسِّ اخلاقی '' یا ''وجدان اخلاقی ''سے تعبیر کرتے ہیں اس نظریہ کے مطابق تمام انسان ایک مخصوص اخلاقی استعداد کی صلاحیت رکھتے ہیں جو نکھرنے کے بعد بدیہی اور قطعی احکام بن جاتے ہیں ۔

البتہ ان اخلاقی احکام کا صرف'' عقل عملی ''نامی جدید قوت ، نیز'' وجدان یا حس اخلاقی'' سے منسوب ہونا ضروری نہیں ہے ۔بلکہ یہ اسی عقل کا کام ہوسکتا ہے جو نظری امور کو حاصل کرتی ہے بہر حال جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان ذاتی اور نظری طور سے ان اہم قضایا اور احکام کا مالک ہے ۔

مشترکہ فطرت کے وجود کی دوسری دلیل ، انسانوں کے درمیان حیوانیت سے بالا تمنا اور آرزوؤں کا وجود ہے ۔ علم طلبی اور حقیقت کی تلاش ، فضیلت کی خواہش ، بلندی کی تمنا ، خوبصورتی کی آرزو ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش اور عبادت کا جذبہ یہ ساری چیزیں حقیقی اور فطری خواہشات کے نمونے ہیں اوران کے حقیقی اور فطری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان کی روح ان خواہشات کے ہمراہ ہے اور یہ ہمراہی بیرونی اسباب اور تربیت ، معاشرہ اور ماحول کے تصادم سے وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ انسانی روح کی خاصیت ہے اور ہر انسان فطری طور پر (خواہ بہت زیادہ ضعیف اور پوشیدہ طور پر ہو)ان خواہشات سے بہرہ مند ہے ۔

۱۳۸

اور جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ ان کے استعمال اور ان کی نشو و نمامیں بیرونی عوامل ، اسباب و علل بھی ان خواہشات کی کمی اور زیادتی میں دخیل ہیں لیکن ان کی تخلیق اور حقیقی خلقت میں موثر نہیں ہیں مثال کے طور پر انسان کی فطری خواہش کاجاننا ، آگاہ ہونا اور دنیا کے حقائق کو معلوم کرنا صغر سنی ہی کے زمانے سے عیاں ہوتی ہے اور یہ چیزانسان سے آخری لمحات تک سلب نہیں ہوتی ہے، ذہن انسانی کی مختلف قوتیں اور طاقتیں اس فطری خواہش کی تسکین کے لئے ایک مفید وسیلہ ہیں ۔

فطری خواہشات کا ایک اور نمونہ خوبصورتی کی خواہش ہے جو انسان کی فطرت و ذات سے تعلق رکھتی ہے پوری تاریخ بشر میں انسان کی تمام نقاشی کی تخلیقات اسی خوبصورت شناسی کے حس کی وجہ سے ہے البتہ خوبصورت چیزوں کی تشخیص یا خوبصورتی کی تعریف میں نظریاتی اختلاف ہونا اس کی طرف تمایل کی حقیقت سے منافات نہیں رکھتاہے ۔

مشترکہ فطرت کی تیسری جستجو خودانسان کی ذاتی توانائی ہے، معتبر علامتوں کے ذریعہ سمجھنا اور سمجھانا ، زبان سیکھنے کی توانائی، عروج و بلندی کے عالی مدارج تک رسائی اور تہذیب نفس وغیرہ جیسی چیزیں انسان کی منجملہ قوتیں ہیں جو مشترکہ فطری عناصر میں شمار ہوتی ہیں اور روز تولد ہی سے انسان کے ہمراہ ہیں ،اور دوسرے عوامل فقط قوت و ضعف میں ان کی ترقی و رشد کا کردار ادا کرتے ہیں ،یہ قوتیں بھی انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود کی دلیل ہیں ۔(۱) معارف اور خواہشات کے پائے جانے کے سلسلہ میں انسان کی آئندہ مشترکہ توانائی کے وجود کی آیات و روایات میں بھی تائید و تاکید ہوئی ہے مثال کے طور پر آیہ فطرت جس کے بارے میں آئندہ بحث کریں گے اور وہ آیات جو انسانوں کی مشترکہ فطری شناخت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اور آیہ شریفہ (وَ نَفسٍ وَ مَا سَوّیٰھَا فَألھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوَیٰھَا)(۲) (قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی کہ جس نے اسے درست کیا پھر اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کوالہام کے ذریعہ اس تک پہونچایا )مشترکہ اخلاقی اور اعتباری فطرت کی تائید کرتی ہے اور بہت سی آیات انسان کو انسانیت کے بلند ترین مرتبہ تک پہونچنے میں تلاش اور ختم نہ ہونے والے

____________________

(۱)گذشتہ فصل میں ہم انسان شناسی کی ضرورت و اہمیت کے عنوان سے انسانی علوم میں انسانوں کی مشترکہ عقیدہ کو بیان کرچکے ہیں ،لہٰذا یہاں انسان کی مشترکہ فطرت کے آثارو عقائد پر بحث کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس نکتہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں کہ انسانی اور بین الاقوامی اقتصادی ،حقوقی ، تربیتی اور اخلاقی ہر قسم کا نظام، انسان کی مشترکہ فطرت کی قبولیت سے وابستہ ہے اور انسانی مشترکہ فطرت کے انکار کی صورت میں یہ نظام بے اہمیت ہو جائیں گے ۔

(۲)سورۂ شمس ۷و ۸۔

۱۳۹

کمال کے حصول کی دعوت دیتی ہیں اور ضمنی طور پر اس راہ میں گامزن ہونے کے لئے انسان کی ذاتی قدرت کو مورد توجہ قرار دیتی ہیں ۔

فطرت(۱)

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ آیات و روایات میں وہ مطالب بھی مذکور ہیں جو وضاحت کے ساتھ یا ضمنی طور پر انسان کی مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت اور معرفت کی راہ میں اس کے خصوصی عناصرنیز خواہشات اور قدرت کے وجود پر دلالت کرتے ہیں لیکن وہ چیز جس کی آیات و روایات میں بہت زیادہ تاکید و تائید ہوئی ہے وہ فطرت الٰہی ہے اور اس حقیقت پر بہت ہی واضح دلالت کرنے والی، سورۂ روم کی تیسویں آیہ ہے ۔

( فأَقِم وَجهَکَ لِلدِّینِ حَنِیفاً فِطرَتَ اللّٰهِ الّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیهَا لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّٰهِ )

تو تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو، یہی خدا کی فطرت ہےجس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی فطرت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔

یہ آیہ انسان میں فطرت الٰہی کے وجود پر دلالت کرتی ہے یعنی انسان ایک ایسی فطرت ، سرشت اور طبیعت کے ہمراہ خلق ہوا ہے کہ جس میں دین قبول کرنے کی صلاحیت ہے لہٰذاانبیاء علیھم السلام خداوند عالم کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف انسانوں کو دعوت دینے کے سلسلہ میں کسی بے توجہ مخلوق سے مخاطب نہیں تھے بلکہ انسان کی فطرت اور ذات میں توحید کی طرف میلان اور کشش پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان ذاتی طور پر خدا سے آشنا ہے ،اس آیت کے علاوہ بعض روایات میں بھی انسان کے اندر الٰہی فطرت کے وجودکی وضاحت ہوئی ہے ۔

____________________

(۱)کلمہ فطرت ؛لغت میں کسی شیٔ کے خلقت کی کیفیت کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح کے اعتبار سے مفکرین کے درمیان متعدد استعمالات ہیں جن کو ضمیمہ میں اشارہ کیا جائے گا ۔

۱۴۰

امام محمد باقر نے پیغمبر سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(۱) ''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا:''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰه عَزّو جلّ خَالقُه'' مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:''کَلمةُ الخلاص هِی الفِطرَة'' (۲) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا

معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (۳)

اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کوسماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۱۳۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۰

(۳)سورہ نحل ۷۸۔

۱۴۱

ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔

تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(۱)

____________________

(۱)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔

۱۴۲

انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا

گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(۱) جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(۲) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟

''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(۳) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(۴) اور'' ابراہیم مزلو''(۵) کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(۶) کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(۷)

____________________

(۱) Watson

(۲) John Loke

(۳) Thomas Hobbes

(۴) Kart Rogers

(۵) Abraham Maslow

(۶) Jean Jacques Rousseau

(۷)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱۴۳

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔

۱۴۴

اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔

سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(۱) خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔

توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا

____________________

(۱)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج۲ ،ص ۱۲۔

۱۴۵

سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میں ا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیں ہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد

توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔

تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔

پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:

۱۴۶

بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(۱)

حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میں ذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(۲)

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔

سورہ نحل کی ۵۳ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ۶۵ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی

____________________

(۱)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج۶ ص ۹۳۴۔

(۲)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج۲ ص ۳۳۰ و ۳۳۱۔

۱۴۷

بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰهُم لَیٰ البَرِّ ِذَا هُم یُشرِکُونَ ) (۱)

پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔

( وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیهِ تَجئَرُونَ ) (۲)

اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔

اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔

تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ۳۰ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔

انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔

____________________

(۱)عنکبوت ۶۵۔

(۲)نحل ۵۳

۱۴۸

اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا

سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ( لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :

۱۴۹

( قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰهَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (۱)

یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت

اس واقعیت سے انکار نہیں ہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیں ہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا هُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً ) (۲)

''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اوررحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔

____________________

(۱)سورۂ شمس ۹ تا ۱۰۔

(۲)اسراء ۸۲۔

۱۵۰

اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے( قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِهِ ) (۱)

تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں '' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے

____________________

(۱)سورۂ اسراء ۸۴۔

۱۵۱

اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(۱)

____________________

(۱)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میں مختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔

۱۵۲

خلاصہ فصل

۱.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔

۲.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔

۳.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔

۴.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔

۵.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔

۶.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔

۷.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

۱۵۳

تمرین

۱.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟

۲.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟

۳.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟

۴.سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۵.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟

۶.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟

۷.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟

۸.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟

۹.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟

عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

۱۵۴

مزید مطالعہ کے لئے :

۱. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:

.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت

۲. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :

. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ۱۳۶۸) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

. نجاتی ، محمد عثمان ( ۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

۳. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ۳۶۹.۵۱۴.

۴. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:

. اسٹیونسن ، لسلی ( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد

. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۶۳) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ۱۳۷۲) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج۲ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

۱۵۵

۵. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد تہران : الزہراء ۔

(۱۳۶۳)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق

(۱۳۶۳)تفسیرموضوعی قرآن ، ج۵ ، تہران ، رجاء

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ج۳ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔

(۱۳۷۱)مجموعہ آثار ج۵ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔

.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ۱۳۶۸) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

۶. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :

.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ۱۱۰. ۱۱۸.

۷. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶) تفسیر موضوعی ، ج۵، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

.محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.(۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۹) مجموعۂ آثار ، ج۲ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۱۵۶

ملحقات

لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات

لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :

۱.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔

۲.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔

۳.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔

۴.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔

۵.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔

۱۵۷

۶.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔

۷.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(۱) معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔

۸.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میں حس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔

۹.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔

۱۰.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔

____________________

(۱) Imanuel Kant

۱۵۸

۲ ہدایت کے اسباب اور موانع

قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

۱. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔

۲. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔

۳. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔

قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔

۱۵۹

انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میں بالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(۱)

مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت

''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج۱ ص ۱۹۳۔۲۳۶۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307