انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146119 / ڈاؤنلوڈ: 4873
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

امام محمد باقر نے پیغمبر سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(۱) ''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا:''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰه عَزّو جلّ خَالقُه'' مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:''کَلمةُ الخلاص هِی الفِطرَة'' (۲) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا

معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (۳)

اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کوسماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۱۳۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۰

(۳)سورہ نحل ۷۸۔

۱۴۱

ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔

تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(۱)

____________________

(۱)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔

۱۴۲

انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا

گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(۱) جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(۲) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟

''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(۳) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(۴) اور'' ابراہیم مزلو''(۵) کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(۶) کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(۷)

____________________

(۱) Watson

(۲) John Loke

(۳) Thomas Hobbes

(۴) Kart Rogers

(۵) Abraham Maslow

(۶) Jean Jacques Rousseau

(۷)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱۴۳

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔

۱۴۴

اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔

سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(۱) خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔

توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا

____________________

(۱)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج۲ ،ص ۱۲۔

۱۴۵

سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میں ا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیں ہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد

توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔

تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔

پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:

۱۴۶

بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(۱)

حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میں ذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(۲)

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔

سورہ نحل کی ۵۳ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ۶۵ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی

____________________

(۱)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج۶ ص ۹۳۴۔

(۲)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج۲ ص ۳۳۰ و ۳۳۱۔

۱۴۷

بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰهُم لَیٰ البَرِّ ِذَا هُم یُشرِکُونَ ) (۱)

پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔

( وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیهِ تَجئَرُونَ ) (۲)

اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔

اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔

تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ۳۰ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔

انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔

____________________

(۱)عنکبوت ۶۵۔

(۲)نحل ۵۳

۱۴۸

اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا

سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ( لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :

۱۴۹

( قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰهَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (۱)

یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت

اس واقعیت سے انکار نہیں ہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیں ہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا هُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً ) (۲)

''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اوررحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔

____________________

(۱)سورۂ شمس ۹ تا ۱۰۔

(۲)اسراء ۸۲۔

۱۵۰

اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے( قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِهِ ) (۱)

تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں '' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے

____________________

(۱)سورۂ اسراء ۸۴۔

۱۵۱

اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(۱)

____________________

(۱)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میں مختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔

۱۵۲

خلاصہ فصل

۱.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔

۲.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔

۳.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔

۴.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔

۵.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔

۶.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔

۷.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

۱۵۳

تمرین

۱.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟

۲.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟

۳.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟

۴.سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۵.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟

۶.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟

۷.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟

۸.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟

۹.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟

عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

۱۵۴

مزید مطالعہ کے لئے :

۱. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:

.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت

۲. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :

. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ۱۳۶۸) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

. نجاتی ، محمد عثمان ( ۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

۳. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ۳۶۹.۵۱۴.

۴. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:

. اسٹیونسن ، لسلی ( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد

. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۶۳) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ۱۳۷۲) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج۲ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

۱۵۵

۵. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد تہران : الزہراء ۔

(۱۳۶۳)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق

(۱۳۶۳)تفسیرموضوعی قرآن ، ج۵ ، تہران ، رجاء

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ج۳ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔

(۱۳۷۱)مجموعہ آثار ج۵ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔

.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ۱۳۶۸) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

۶. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :

.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ۱۱۰. ۱۱۸.

۷. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶) تفسیر موضوعی ، ج۵، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

.محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.(۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۹) مجموعۂ آثار ، ج۲ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۱۵۶

ملحقات

لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات

لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :

۱.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔

۲.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔

۳.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔

۴.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔

۵.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔

۱۵۷

۶.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔

۷.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(۱) معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔

۸.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میں حس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔

۹.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔

۱۰.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔

____________________

(۱) Imanuel Kant

۱۵۸

۲ ہدایت کے اسباب اور موانع

قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

۱. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔

۲. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔

۳. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔

قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔

۱۵۹

انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میں بالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(۱)

مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت

''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج۱ ص ۱۹۳۔۲۳۶۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

زيادہ محبت كرنے والے ہوتے ہيں _

اصولى طور پر بيٹى كى پيدائشے ميں آخر بيوى كا كيا قصور ہے جو شوہر اس پر اعتراض كرتے ہيں اس ميں مياں بيوى دونوں ہى شريك ہيں _

ممكن ہے بيوى شوہر پر اعتراض كرے كہ لڑكى كيوں پيدا كى _ در حقيقت اس ميں قصور وار كوئي بھى نہيں ہے بلكہ يہ چيز تو خدا كى مرضى و مصلحت پر منحصر ہوتى ہے _ وہ جس كو چاہتا ہے لڑكى ديتا ہے اور جس كو چاہتا ہے لڑكا عطا كرتا ہے _ البتہ كچھ دانشوروں كا خيال ہے كہ لڑكے يا لڑكى كى پيدائشے حمل كے شروع كے دومہينوں ميں ماں كى غذاكى نوعيت پر منحصر ہے ان كا كہنا ہے كہ غذا كے مخصوص پروگرام كے تحت حسب ودلخواہ اولاد پيدا كى جا سكتى ہے _

لہذا جن لوگوں كى شديد خواہش ہے كہ بيٹا پيد اہو بہتر ہے كہ اس سلسلے ميں اس فن كے ماہر ين سے مشورہ كريں اور بلا سبب اپنى اور اپنى بيوى كى پريشانى اور ناراضگى كے اسباب فراہم نہ كريں _ ايك عقلمند اور روشن خيال انسان بيٹى كى پيدائشے كى خبر سن كر نہ صرف يہ كہ رنجيدہ نہيں ہوتا بلكہ خوشى و شادمانى كا اظہار كرتاہے _ اس خيال سے كہ دوسرے اور اس كى بيوى يہ نہ سوچيں كہ بيٹى كى پيدائشے پر اسے افسوس ہے ، معمول سے كچھ زيادہ ہى خوشى ظاہر كرتا ہے _ بيوى كى نسبت زيادہ نوازش ومحبت سے پيش آتا ہے اور امكان ميں ہوتو اس كوتحفہ پيش كرتا ہے _ اپنى نومولود بچى كى ولادت پر جشن مناتا ہے _ اگر بيوى بيٹى كى پيدائشے سے رنجيدہ ہے تو اس كو تسلى ديتا ہے اور دليل و ثبوت كے ذريعہ واضح كرتا ہے كہ بيٹے اور بيٹى ميں كوئي فرق نہيں _ خود بھى كبھى بيٹوں كو بيٹيوں پر ترجيح نہيں ديتا او راس طرح عہد جاہليت كے فرسودہ اور فضول خيالات سے مقابلہ كرتا ہے _

ايک شخص رسول خدا (ص) کے پاس بيئها تها که اس کوبيئي کي پيداکش کي خبر ملي - يه خبر سن کر اس کے چهرهے کارنگ متغير هوگيا - پيغمبر اکرم (ص) نے پوچها - تمهارے چهرے کي رنگت کيوں بدل بدل گئي ؟ عرض کيا جب ميں گهر سے چلاتها اس دقت سيري بيوئي و ضع خمل کمي حالت بس تهي اب مجھے اطلاع ملى ہے كہ لڑكى پيدا ہوئي ہے _ رسول خدا (ص) نے فرمايا : زمين اس كو جگہ دے گى اور آسمان اس كے سرپر سايہ كرے گا _ اور خداوند عالم اس كو روزى عطاكرے گا _ وہ پھول كى مانند ہے كہ جس كے وجود سے تم كو فائدہ ہوگا _(۲۸۳)

۲۶۱

زمانہ حمل اورزچگي

زمانہ حمل بہت حساس اورسرنوشت ساز دور ہوتا ہے _ ماں كى غذا اور اس كى جسمانى حركات و نفسياتى حالات خود اس كے مستقبل پر اور اس كے رحم ميں پرورش پانے والے بچے ، دونوں پر بہت زيادہ اثر ڈالتے ہيں _

بچے كى سلامتى يابيمارى ، طاقت ياكمزوري، خوبصورتى يا بد صورتى ، خوش اخلاقى يا بداخلاقى اور كسى حد تك ذہانت و عقلمندى اسى زمانے ميں جبلكہ وہ رحم مادر ميں ہوتا ہے تشكيل پاتى ہے _

ايك دانشور لكھتا ہے : بچے كے والدين كے ہاتھ ميں ہے كہ اس كى اچھى طرح نشو و نما كريں يا خراب اور غمگين گوشہ ميں اس كى پرورش كريں _ يہ امر مسلم ہے كہ مذكورہ دوسرى جگہ انسانى روح كے رہنے كے لائق نہيں ہوتى اس لئے انسانيت كے مقابلہ ميں ماں باپ كے كندھوں پر بہت بھارى ذمہ دارى ركھى گئي ہے _(۲۸۴)

لہذا زمانہ حمل كو ايك عام زمانہ نہيں سمجھنا چاہئے _ اور اس كى طرف سے بے توجہى برتنى چاہئے بلكہ دوران حمل كى ابتدا سے ہى ماں باپ پر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوجاتى ہے كہ اگر ذرا بھى غفلت برتى تو شديد ا ً اور ناقابل تلافى مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے _ يہاں پر چند باتوں كا تذكرہ ضرورى معلوم ہوتا ہے _

۱_ غذائي پروگرام : جو بچہ ماں كے رحم ميں پرورش پاتا ہے وہ ماں كے خون سے غذا حاصلہ كرتا ہے اور نشو ونما پاتا ہے _ اس بناء پر ماں كى غذا ، اتنى مكمل اور بھر پور ہونى چاہئے كہ خود اپنى غذائي ضروريات كو پورا كرے اور صحيح و سالم زندگى گزارے اور دوسرى طرف بچے كے جسم و جان

۲۶۲

كى پرورش كے لئے جن غذائي مواد كى ضرورت ہوتى ہے وہ اسے فراہم ہوسكے تا كہ اچھى طرح صحت و سلامتى كى ساتھ نشو و نما پا سكے ، لہذا ايك حاملہ عورت كا غذائي پروگرام بہت مناسب اور ممكن ہونا چاہئے _ كيونكہ بعض غذائي مواد مثلاً مختلف وٹامن ، معدنى مواد، پروٹين ، چربى ، شكر اور نشاستہ و غيرہ كى كمى يا فقدان سے ماں اور بچے (جو كہ ماں كے خون سے غذا حاصل كرتا ہے ) دونوں ہى كى صحت و سلامتى كو خطرہ لاحق ہوتا ہے _

امام صادق (ع) سے ايك حديث منقول ہے كہ ''مال جو كچھ كھاتى ہے اور پيتى ہے ، ماں كے رحم ميں موجود بچے كى غذا اسى سے بنتى ہے _(۲۸۵)

يہاں پر ايك اور مشكل بھى پيش آتى ہے _ بعض خواتين كا حمل كے پورے زمانے ميں يا كچھ مدت تك عام مزاج نہيں رہتا بلكہ بعض كھانوں سے انھيں نفرت ہوجاتى ہے يا كم خوراك ہوجاتى ہيں جبكہ اس زمانے ميں انھيں زيادہ غذا كى ضرورت ہوتى ہے اس لئے جن غذائي چيزوں سے انھيں رغبت ہواور وہ مختلف غذائي مواد سے بھرپور بھى ہوں اور ان كا حجم بھى ہو ان كے لئے مہيا كى جائيں _ اس قسم كے غذائي پروگرام كى تنظيم كرنا دشوار كام ہے بالخصوص ان افراد ك ےلئے جن كى آمدنى كم ہو اور حفظان صحت او رغذاؤں كى خاصيت سے پورى طرح آگاہ نہ ہوں _ يہاں پر بچے كے باپ كے اوپر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے _ اس كو چاہئے اپنے امكان بھر كوشش كرے اوراپنى حاملہ بيوى اور بچے كے لئے جو كہ ابھى رحم مادر ميں پرورش پارہا ہے ، مناسب اور طاقت و توانائي سے بھر پور غذائيں مہيا كرے _ اگر اس نے عظيم ذمہ دارى سے كوتاہى كى تو اس كى بيوى اور بچے دونوں كى صحت و سلامتى كو نقصان پہونچے گا _ اس دنيا ميں بھى اس كا خميازہ بھگتنا پڑے گا اور آخرت ميں بھى خدا كے عتاب كا نشانہ بننا پڑے گا _

۲_ ذہنى سكون : ايام حمل كے دوران عورت كو مكمل ذہنى سكون و آرام كى ضرورت ہوتى ہے اور اسے زندگى سے بھر پور اور خوش و خرم رہنا چاہئے _ كيونكہ جسمانى آرام اور ذہني

۲۶۳

سكون اور خوشى ومسرت خو د اس كى صحت و سلامتى پر بھى اثر انداز ہوتى ہے اور اس كے شكم ميں پرورش پانے والے بچے كے جسم اورنفسيات پر بھى اس كا بہت اثر پڑتا ہے _ خوشى و سكون كا ماحول فراہم كرنا بھى شوہر كى ذمہ دارى ہے شوہر كو چاہئے ہميشہ اپنى محبتوں اور نوازشوں اور دلجوئيوں سے اپنى بيوى كے دل كو گرم اورخوش ومطمئن ركھے ليكن حمل كے زمانے ميں اس ميں اور اضافہ كردينا چاہئے _ شوہر كا سلوك ايسا ہونا چاہئے كہ اس كى بيوى اپنے وجود ميں پيدا ہونے والے اس تغير پر غرور و شادمانى محسوس كرے اور اپنے آپ پر فخر كرے كہ اس كى سرشت ميں ايك اچھے اور سالم انسان كى پرورش كى ذمہ دارى ركھى گئي ہے _ اور اسے اطمينان ہو كہ اس كا شوہر اپنے پورے وجود سے اسے چاہتا ہے اور اپنے ہونے والے بچے سے بھى دلچسى ركھتا ہے _

۳_ شديد حركات سے پرہيز كرنا چاہئے : حمل كے زمانے ميں عورت كو آرام كى ضرورت ہوتى ہے اور اسے دشوار اور بھارى كاموں سے پرہيز كرنا چاہئے _ بھارى چيزيں اٹھانا، تيزتيز چلنا ، اچھلنا ، كودنا خود اس كے اور بچے كے لئے نہايت مضر اور نقصان دہ ثابت ہوسكتا ہے _ حاملہ عورتوں كو اس بات كو پورا دھيان ركھنا چاہئے _ شوہروں كا بھى فرض ہے كہ اپنے بيويوں كو بھارى چيزيں نہ اٹھانے ديں اور بھارى كام نہ كرنے ديں بلكہ بھارى كام خود انجام ديں _

۴_ زمانہ حمل ميں بعض خواتين وضع حمل كے مراحل سے بہت زيادہ خوفزدہ رہتى ہيں _ خصوصاً جن خواتين كا پہلا بچہ ہو يا جن كے بچے غير فطرى طريقے سے پيدا ہوتے ہوں _اس سلسلے ميں بھى شوہر كو اپنى بيوى كى مدد كرنى چاہئے اسے تسلى دے ہمت بندھائے _ _اور بتائے كہ اگر اپنى صحت و تندرسى كا خيال ركھا تو بچے كى پيدائشے ميں كوئي مشكل نہ ہوگى يہ ايك فطرى عمل ہے جس سے تمام عورتوں كو گزرنا پڑتا ہے اور اس كو برداشت كرنا بہت مشكل نہيں ہے اس تكليف بصورت بچہ عطا فرمائے گا جو ہمارے لئے افتخار كا باعث ہوگا _ اور اپني

۲۶۴

ہر طرح كى مدد كا وعد كرے _ و غيرہ

۵_ بچے كى پيدائشے كا مرحلہ سخت ہوتا ہے _ حاملہ عورتيں احتمالى خطرات و نتائج سے خوفزدہ ہوتى ہيں _ وضع حمل كے بعد بھى ضعف و كمزورى باقى رہتى ہے _ بچے كى پيدائشے كے سلسلے ميں عورت كو نو ماہ حمل كى زحمت ، پھر بچے كو جنم دينے كے سخت اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اوردودھ پلانا ہوتا ہے _ ليكن بچے كو وجود ميں لانے ميں شوہر پورى طرح دخيل رہتا ہے _ در حقيقت بچہ ماں باپ دونوں كے اشتراك سے وجود ميں آتا ہے _ اگر چہ اس نئے وجود كا مركز ماں كا رحم ہوتا ہے _ لہذا شوہر كا اخلاقى ، انسانى اور اسلامى لحاظ سے يہ فريضہ ہے كہ زچگى كے سخت مراحل سے گزرنے ميں اپنى بيوى كى دلجوئي كرے _ اور پورى كوشش كرے كہ يہ مرحلہ آسانى سے انجام پاجائے _ اگر ڈاكٹر ، دوا اور اسپتال لے جانے كى ضرورت ہو تو اس سے دريغ نہ كرے _ اظہار محبت كے ذريعہ بيوى كى ہمت بنڈھائے _ جب بيوى اسپتال ميں ہو تو برابر اس كى احوال پرسى كرتا رہے _ برابر اس كے پاس جائے بچے كى پيدائشے كے بعد ممكن ہو تو فوراً اس كے پاس جائے _ جب بيوى و بچہ اسپتال سے گھر آئيں تو بہتر ہے كہ خود ساتھ رہے _ اور گھر ميں اس كے آرام كے سامان مہيا كرے _ كمزورى كے زمانے ميں اسے بھارى كام نہ كرنے دے _ كوشش كرے كہ اس كے لئے مقوى غذاؤں كا انتظام رہے تا كہ وہ اپنى كھوئي ہوئي طاقت كو پھر سے محال كرلے اور صحت و سلامتى كے ساتھ اپنے كاموں او رنوزاد كى پرورش ميں مشغول ہوجائے _

مرد اگر اس طرح سے اپنے اخلاقى و اسلامى فريضہ كو پورا كرے گا تو خدا اسے اجر عطا فرمائيگا حضرت رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں كہ تم ميں بہترين مرد وہ ہے جو اپنى بيوى كے ساتھ اچھا سلوك كرے _ اور ميں تم سب كى بہ نسبت اپنى بيويوں سے سب سے اچھا سلوك كرنيوالا ہوں _(۲۸۶)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : خدا اس شخص پر رحمت نازل كرتا ہے جو

۲۶۵

اپنے اور اپنى بيوى كے درميان اچھا رابط قائم ركھتا ہے كيونكہ خداوند عالم نے مرد كو اختيار ديا ہے اور اس كو سرپرست بنايا ہے _(۲۸۷)

مرد اپنے اچھے طرز سلوك سے اپنے خاندان كے مركز كو اور زيادہ پر خلوص اور گرم بنا كر ازدواجى زندگى كو مزيد مستحكم و پائيدار بنا سكتا ہے _ ايسے مرد كى بيوى بھى اپنے مہربان شوہر كى نوازش محبتوں اور زحمتوں كا جواب بھى محبت سے دے گى اور نہايت ذوق و شوق اور دلچسپى كے ساتھ زندگى كے كاموں ميں مشغول رہے گى _

بچہ كى پرورش ميں بيوى كى مدد كيجئے

بچے ، مياں بيوى كى مشتركہ ازدواجى زندگى كا ثمرہ ہوتے ہيں _ بچے كى پيدائشے ميں دونوں برابر كے حصہ دار ہوتے ہيں ان كے نفع و نقصان ميں دنوں شريك ہوتے ہيں _ لہذا بچے كى پرورش و نگہداشت بھى مياں بيوى كا مشرتكہ فريضہ ہے نہ كہ فقط بيوى كا يہ صحيح ہے كہ مائيں نہايت محبت و رغبيت كے ساتھ اپنے بچے كى پرورش كرتى ہيں اور بچے كے تمام كام نہلانا دھلانا ، دودھ پلانا و غيرہ نہايت دلچسپى اور توجہ كے ساتھ انجام ديتى ہيں _ بچے كى ديكھ بھال اور پرورش ميںہر قسم كى تكليف و زحمت برداشت كرتى ہيں _ بچہ بيمار يا بے چين ہو تو سارى رات جاگ كر گزارديتى ہيں اس كے رونے چيخنے چلاّنے كو برداشت كرتى ہيں ليكن شوہروں كو بھى چاہئے كہ اپنى بيوى كے ايثار اور زحمات كو معمولى نہ سمجھيں اور يہ نہ كہيں كہ بچہ كى پرورش كرنا عورت كا كام ہے ميرى اس سلسلے ميں كوئي ذمہ دارى نہيں _ يا جب بچہ بے چين ہو اور رورہا ہو تو بچہ كو ماں كے پاس چھوڑ كر خود دوسرے كمرے ميںجا كر سوجائے _

برادر عزيز يہ بات بالكل درست نہيں _ يہ بچہ آپ دونوں كا ہے_ اس كى ديكھ بھال بھى آپ دونوں كا مشتركہ فريضہ ہے _ كيا آپ محبت و جذبات سے عارى ہيں ؟ كيا انصاف ہے كہ آپ خود تو ايك كونے ميں جاكر آرام كريں اور بيچارى بيوى كو تنہا اس شور اور پريشانى سے

۲۶۶

نپٹنے كے لئے چھوڑديں؟ كيا زن دارى اور خاندان سے محبت اسى كا نام ہے ؟ اگر آپ دن بھر كے كاموں سے تھك گئے ہيں تو آپ كى بيوى بھى تو سارے دن گھر كے كاموں ميںمشغول رہى ہے اور تھكى ہارى ہے _ اگر آپ كو نيند آرہى ہے تو اس كو بھى نيند آرہى ہوگى _ اگر بچہ كے رونے اور چيخنے چلاّنے سے آپ كے اعصاب خستہ ہوجاتے ہيں تو بيچارى ماں بھى تو پريشان ہوجاتى ہے ليكن اس كے لئے سوائے برداشت كرنے كے اور كوئي چارہ ہى نہيں ہے _

برادر محترم انصاف ، ضمير ، اسلامى اخلاق اور رفيق زندگى كا ساتھ نبھانے كا تقاضہ يہ ہے كہ ايسے حساس موقعوں پربچے كى نگہداشت ميں اپنى بيوى كى مدد كريں يا تو دونوں مل كر بچے كو چى كرائيں اس كے بعد سوئيں _يا كچھ ويربچے كو آپ ديكھيں اور آپ كى بيوى سوجائے _ اور كچھ دير بيوى بچے كو ديكھے اور آپ سوجائيں _ اگر آپ كى بيوى رات كو جاگنے كے سبب صبح كى نماز كے بعد آرام كرنا چاہے تو آپ اس سے اس بات كى توقع نہ كريں كہ ہرروز كى مانند وہ آپ كے لئے ناشتہ تيار كرے _ كيا ہرج ہے اگر آپ خود چائے اور ناشتہ تيار كركے كھاليں اور بيوى كے لئے بھى تيار كركے باہر جائيں _ جب سفر يا دعوت ميں جائيں تو ضرورى نہيں ہے كہ بيوى ہى سارے وقت بچے كو گود ميں لئے رہے _ بلكہ آپ اس كام ميں بھى اس سے تعاون كريں _ بطور مجموعى بچے كى ديكھ بھال اور پرورش ميں آپ پورى طرح مدد كريں _ زن دارى اوراسلامى اخلاقى اسى كانام ہے _ اور يہ چيز آپ كى زندگى كو خوشى و مسرت سے ہمكناركرے گى _

البتہ بہنوں سے بھى اس سلسلے ميں عرض ہے كہ شوہر بہت زيادہ توقعات نہ ركھيں كيونكہ كسب معاش اور ضروريات زندگى كو مہيا كرنے ميں اسے گوناگون مشكلات اورزحمتوں كا سامنا پڑتا ہے اورانھيں يہ بات ذہن ميں ركھنى چاہئے كہ مرد كو گھر سے باہر طرح طرح كى مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا ہے اور تھكاہارا آرام وسكون حاصل كرنے كى غرض سے گھر آتاہے لہذا يہ توقع نہ كريں كہ جب وہ گھر آئے تو كپڑے اتاركرفوراً بچے اور گھر كے كاموں ميں مشغول ہوجائے _ اس سلسلے

۲۶۷

ميں ضرورت سے زيادہ اور عام حالات ميں اسے سے مدد كى اميد نہيں ركھنى چاہئے _

اختلافات كو حل كرنے ميں سب سے بڑى ركاوٹ

خاندانى اختلافات كو دوركرنے ميں جو چيز سب سے بڑى ركاوٹ بنتى ہے وہ خود بينى اور خودپسندى كى بيمارى ہے_ افسوس بہت سے لوگ اس مہلك بيمارى ميں مبتلا ہوتے ہيں _ اس مرض ميں مبتلا انسان كى عقل پر پردے پڑجاتے ہيں _

ايسا انسان صرف اپنى خوبيوں كو ديكھتا ہے اورانھيں بہت بڑا تصور كرتا ہے ليكن اسے اپنے آپ ميں كوئي بھى خامى يابرائي نظر نہيںآتى _ اس وقت اور بھى بدتر ہوتا ہے جب اس مرض ميں مبتلا دو سرا شخص بھى مل جائے اور ايك دوسرے كى عيب جوئي كريں _

كہيں مياں بيوى دونوں اس مرض كا شكار ہوتے ہيں او ركہيں ان ميں سے صرف ايك اس مرض ميں مبتلا ہوتا ہے _ جہاں دونوں ہى اس بيمارى گرفتار ہوں وہاں رات دن لڑائي جھگڑے اور تنقيد كا سلسلہ جارى رہتا ہے _ دونوں ايك دوسرے كے عيبوں پر نظر ركھتے ہيں اور اسے بڑا كر كے پيش كرتے ہيں او رتنقيد كرتے رہتے ہيں ليكن اپنے آپ كو ہر قسم كے عيوب ونقائص سے مبرا سمجھتے ہيں _ اگر مياں بيوى ميں سے كوئي ايك اس مرض ميں مبتلا ہوتا ہے تو وہ دوسرے پر نكتہ چينى كرتا ہے ليكن خود كو بالكل پاك و بے عيب سمجھتا ہے _ جہاں پر مياں بيوى دونوں ہى اس مرض كا شكار ہوتے ہيں وہاں ان كى اصلاح بيحد دشوار كام ہے چونكہ خود كو بے عيب سمجھتے ہيں اور پند و نصيحت سننے كے روا دار نہيں ہوتے _ جب ريڈيو يا ٹيلى وين(۱) سے خاندان سے متعلق نشر ہونے والے

۱_ اسلامى جمہوريہ ايران كے ريڈيو اور ٹيلى وين سے خاندانوں كى اصلاح كے متعلق بے حد مفيد اور كار آمد پرو گرام د لچسپ انداز ميں نشر ہوتے ہيں _ سلسلہ وار ڈراموں ، تقريروں اور انٹر و يو و غيرہ كى شكل ميں خاندانى مسائل اور ان كے حل پر روشنى ڈالى جاتى ہے _ كئي سال سے ايك مشہورعالم دين حجة الا سلام حسينى اخلاق در خانوادہ نامى پرو گرام ٹيلى وين سے بے حد دلچسپ اور دلنشين اور انداز ميں پيش كرر ہے ہيں _ ( مترجم )

۲۶۸

پروگراموں كو سنتے ہيں اگر كسى ايسے عيب كے بارے ميں بتايا جاتا ہے جو ان ميں سے كسى ايك ميں موجود ہوتا ہے تو اس كو نہايت توجہ سے سنتے ہيں اور فوراً دوسرے فريق كى طرف رخ كركے بولنا شروع كرديتے ہيں ليكن اگر كسى ايسے عيب كا ذكر كيا جارہا ہو جو خود ان ميں موجود ہو تو اس پر ذرا بھى غورنہيں كرتے اور اپنے آپ كو اس سے پاك و مبرا سمجھتے ہيں _ اخلاقى كتابيں خريد كرلاتے ہيں اور بيوى كوديتے ہيں كو لواسے پڑھواوراپنے فرائض پر عمل كروليكن خود ان كتابوں كو پڑھنے كى ضرورت محسوس نہيں كرتے كيونكہ خود كو سو فيصد بے عيب سمجھتے ہيں _ بعض افراد ميں خودپسندى اتنى زيادہ اوراتنى عميق ہوتى ہے كہ انھيں اپنے اس مرض كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ظاہر ہے ايسے خاندانوں كى اصلاح اور ان كى مشكلات كو حل كرنا نہايت دشوار بلكہ ناممكن ہوتا ہے _ وہ مجبور ہيں كہ ياتو سارى عمر اختلافات لڑائي جھگڑے اور رنج و مصيبت كے ساتھ زندگى گزاريں يا طلاق و عليحدگى اختياركريں اور اس سے پيدا ہونے والے خراب نتائج كو برداشت كريں _ لہذا ان تمام خاندانوں سے جو كہ اس طرح كے اختلافات كا شكار ہيں استدعا كى جاتى ہے كہ خود بينى اور خودغرضى سے دستبردار ہوجائيں اور كم سے كم اس بات پر غور كريں كہ ممكن ہے ان كے اندر بھى كوئي عيب موجود ہو اوران كا بھى قصور ہو _ اور كسى مناسب موقع پر بغير كسى تعصب اور خودخواہى كے ، دوامين اورعادل قاضيوں كى مانند مل كربيٹھيں اور اپنے اختلافات كے موضوع پر بات چيت كريں _ بغير كسى تعصب كے اوراپنا دفاع كئے بغير خوب غور سے ايك دوسرے كى بات سنيں _ ہر ايك اپنى اصلاح كى غرض سے ، كوئي بات چھپائے بغير اپنے قصور اور غلطيوں كو نوٹ كرے _ اس كے بعد دونوں ارادہ كريں كہ اپنے عيوب كى اصلاح كرنے كى كوشش كريں گے _ اگر واقعى اپنے اختلافات كو حل كرے اور آپس ميں مفاہمت پيدا كرنے كى ضرورت محسوس كرتے ہيں تو اس طريقے سے اپنى مشكلات كا حل بخوبى تلاش كرسكتے ہيں اور اپنى گم گشتہ محبت اور صلح و صفائي كو پھر سے حاصل كرسكتے ہيں _

۲۶۹

اگر اپنے مسائل باہمى تبادلہ خيالات كے ذريعہ حل كرنے ميں دشوارى محسوس كريں تو ثالث كے طور پر كسى تجربہ كار، خيرخواہ، مومن اور قابل اعتماد شخص سے مدد لے سكتے ہيں _ يہ شخص اگر اپنے عزيزوں ميں سے ہو تو زيادہ اچھا ہے _ اس موقع پر اپنے حالات ميں اصلاح كى غرض سے كوئي بات چھپائے بغير، اختلافات پيدا كرنے والى تمام باتيں بے كم و كاست كو بتاديں _ اور اس سے كہيں كہ ان كے مسائل كا فيصلہ كرے _ اس ثالث كى باتوں كو خوب غور سے سنيں اگر كسى بات ميں كوئي شك و شبہ ہو تو اس سے وضاحت سے پوچھيں _ اور اس كى بتائي ہوئي باتوں پر عمل كرنے كے ارادے سے انھيں نوٹ كرليں _ اور تمام باتوں پر نہايت ايماندارى كے ساتھ عمل كريں اوراپنے خاندان كے كھوئے ہوئے سكون و چين كو پھر سے بحال كرليں _ اگر چہ خودخواہى اور ضد كو چھوڑدينا اور اپنے خاندان كے كھوئے ہوئے سكون و چين كو پھر سے بحال كرليں _ اگرچہ خودخواہى اور ضد كو چھوڑدينا اور كسى ثالت كى باتوں كو مان ليناآسان كام نہيں ہے _ ليكن ايك دانشمند انسان ، جو اپنے خاندان كے ثبات و بقا او رسكون و آرام كا خواہان ہوتا ہے ، اس كے لئے يہ كام چندان مشكل نہيں ، اس كے نتيجہ ميں اس كے حاصلہ مفيد نتائج سے بہرہ مند ہوسكتا ہے _

مياں بيوى كے ماں باپ يا قريبى رشتہ دار اگران كے اختلافات سے واقف ہوں تو انھيں چاہئے كسى كى بيجا حمايت كئے بغير انھيں سلجھانے كى كوشش كريں _ بہتر ہے كہ خاموشى كے ساتھ اختلافات كومزيد ہوا ديئےغير نہايت غير جانبدارى كے ساتھ ، اختلافات كے موضوع كو ايك ايماندار، خيرخواہ اور تجربہ كارشخص كے سامنے پيش كريں اور اس سلسلے ميں اس سے مدد ليں تا كہ خدا كى مدد سے ان كے اختلافات رفع ہوجائيں _

خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے : اگر مياں بيوى ميں جدائي اور جھگڑا پيدا ہونے كا انديشہ ہو تو ايك شخص كو مرد كے رشتہ داروں ميں سے اور ايك شخص كو بيوى كے رشتہ داروں ميں

۲۷۰

سے منتخب كرو اگر يہ دونوں ثالث آپس ميں ميل كرادينا چاہيں گے تو خداوند عالم ان كے درميان توافق پيدا كرے گا _ خدا بيشك تمام چيزوں سے واقف اور تما م رموز سے باخبر ہے _(۲۸۸)

طلاق

اگر چہ اسلام كى نظر ميں طلاق ايك جائز اور شرعى امر ہے ليكن اسى كے ساتھ اسے بدترين اور نہايت ناپسنديدہ فعل قرارديا گيا ہے _ امام جعفرصادق (ع) فرماتے ہيں : شادى كيجئے ليكن طلاق نہ ديجئے كيونكہ طلاق واقع ہونے سے عرش خدا لرز جاتا ہے _(۲۸۹)

حضرت امام جعفر صادق (ع) يہ بھى فرماتے ہيں : خداوند عالم اس گھر كو دوست ركھتا ہے جہاں شادى انجام پائے اور اسے وہ گھر ناپسند ہے جہاں طلاق دى جائے _ خدا كے نزديك سب سے زيادہ قابل نفرت اور ناپسنديدہ چيز طلاق ہے _(۲۹۰)

شادى كرنا ، جوتا اور موزہ خردينا نہيں ہے كہ جب دل بھرگيا اٹھاكے پھينك ديا اوردوسرا جوتا خريدليا _ شادى ايك مقدس انسانى عہد و پيمان اور معنوى ملن ہے _ دو اانسان باہم عہد و پيمان كرتے ہيں كہ آخر عمر تك ايك دوسرے كے يارومددگار اور مونس و غمخوار رہيں گے _ اسى مقدس عہد پر بھروسہ كركے لڑكى اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں كو چھوڑ كر سينكڑوں آرزؤں كے ساتھ شوہر كے گھر ميں قدم ركھتى ہے اور اپنى عفت و عصمت كو اس كے حوالے كرديتى ہے ، اسى ملكوتى عہد پر اعتماد كركے مرد عقد و شادى اور ضروريات زندگى كو فراہم كرنے كے لئے بہت زيادہ خرچہ كرتا ہے _ اور شب و روز اپنے خاندان كے آرام و آسائشے كے لئے زحمت اٹھاتا ہے شادى كوئي ہوس بازى يا كھيل تماشہ نہيں ہے كہ مرد يا عورت كوئي معمولى بہانہ كركے اس كو توڑ ڈاليں _ يہ درست ہے كہ طلاق كو جائز قرارديا گيا ہے ليكن اسلام كى مقدس شرع ميں اسكى سختى سے ممانعت كى گئي ہے _ افسوس كہ اسلامى ممالك ميں يہ گھناؤنى چيز اس قدر رائج ہوگئي ہے كہ اس نے خاندانوں كى بنيادوں كو متزلزل كركے ازدواجى زندگى كے اعتماد كو سلب كرليا ہے

۲۷۱

طلاق جائز ہے ليكن بے حد ناگزير مواقع كے علاوہ اس سے استفادہ نہيں كرنا چاہئے پيغمبر اسلام (ص) كا فرمان ہے كہ مجھ سے جبريل امين نے عورتوں كے بارے ميں اس قدر تاكيد كى ہے كہ ميں سمجھتا ہوں سواے اس موقع كہ وہ زنا كى مرتكب ہوئي ہوں انھيں ہرگز طلاق نہيں دينى چاہئے _(۲۹۱)

ہمارے معاشرے ميں جو طلاقيں انجام پاتى ہيں ان ميں سے اكثر كے اسباب و علل بے بنياد اور ناقابل توجہ ہوتے ہيں بلكہ اكثر بچگانہ بہانوں اور مياں بيوى كے ضد كے نتيجہ ميں انجام پاتى ہيں _ اور نہايت چھوٹى چھوٹى اور غير اہم باتوں كى خاطر شادى شدہ زندگى كا شيرازہ بكھر جاتاہے _ ليكن مياں يا بيوى اپنى نادانى اور خود غرضى سے ايك نہايت معمولى بات كو اس قدر بڑا بناديتے ہيں كہ مفاہمت اور سمجھوتہ ناممكن بن جاتا ہے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك ۲۴ سالہ خاتون اپنے شوہر سے فرمائشے كرتى ہے كہ اس كے ماں باپ كوشاندار دعوت دے _ چونكہ شوہر اس كى يہ فرمائشے پورى نہيں كرتا اس لئے طلاق كا مطالبہ كرتى ہے _(۲۹۲)

ايك مرد اس سبب سے كہ اس كى بيوى كے يہاں لڑكياں پيدا ہوتى ہيں ، پانچ بچوں كے ہوتے ہوئے اس كو طلاق دے ديتا ہے _(۲۹۳)

ايك عورت اس بناء پر طلاق كاتقاضہ كرتى ہے كہ اس كا شوہر عارف قسم كا ہے اورزندگى ميں دلچسپى نہيں ليتا _(۲۹۴)

ايك مرد ، ايك دولتمند خاتون سے شادى كرنا چاہتا ہے اس لئے اپنى بيوى كو طلاق دينے كى درخواست كرتا ہے _(۲۹۵)

ايك عورت اس وجہ سے كہ ا س كے شوہر نے اپنے كوٹ كى آستين ميں روپيہ چھپا ركھا تھا ، عليحدگى كا مطالبہ كرتى ہے _(۲۹۶)

ايك شخص اپنى بيوى كو منحوس كہہ كر طلاق ديتا ہے كيونكہ شادى كے بعد اس كے باپ كا انتقال ہوگيا اور اس كے ماموں كا ديواليہ نكل گيا _(۲۹۷)

۲۷۲

اكثر طلاقيں اسى قسم كى معمولى اور غير اہم باتوں كى بنياد پر انجام پاتى ہيں _ اگر مياں بيوى انجام كار كے متعلق غور كريں تو اس منحوس چيز سے پرہيز كريں _

جو مياں بيوى عليحدہ ہونا چاہتے ہيں انھيں چاہئے جلد بازى سے ہرگز كام نہ ليں بہتر ہے كہ پہلے اس كے نتائج اور اپنے مستقبل كے بارے ميں خوب غور و فكر كريں _ اس كے بعد فيصلہ كريں خاص طور پر ان دو باتوں كے متعلق اچھى طرح غور و فكر كرنا چاہئے _

۱_ جو مياں بيوى عليحدہ ہونا چاہتے ہيں يقينا بعد ميں دوسرى شادى كرنے كا ارادہ ركھتے ہوں گے مرد سوچتا ہے كہ اس بيوى كو طلاق دے كر اپنى پسند كے مطابق دوسرى عورت سے شادى كرلوں گا عورت بھى يہى سوچتى ہے كہ اس شوہر سے طلاق حاصل كركے ايك آئيڈيل مرد سے شادى كرلوں گى ليكن ان مياں بيوى كو يہ بات ذہن نشين كرلينى چاہئے كہ عليحدہ ہونے كى صورت ميں و ہ بدنامى كا شكار ہوجائيں گے _ ہوس باز، خود غرض اور بے وفا مشہور ہوجائيں گے _ مرد جس لڑكى كو شادى كا پيغام بھجواتے گا تحقيق كے بعد اس كے گھروالوں كو معلوم ہوجائے گا كہ اس نے اپنى بيوى كو طلاق دى ہے اور اس سبب سے اس كا كردار مشكوك ہوجائے گا _ وہ لوگ سوچيں گے كہ يا تو يہ آدمى اچھا نہيں ہے جس كے سبب اس كى بيوى نے طلاق لے لى يا اس نے اپنى بيوى كو طلاق دے دى جس سے معلوم ہوتا ہے كہ وفادار نہيں ہے _

جو عورت اپنے شوہر سے طلاق ليتى ہے اس كو جاننا چاہئے كہ دوسرى شادى ميں اس كو بہت سى مشكلات پيش آئيں گى _ كيونكہ لوگ سوچتے ہيں كہ اگر يہ عورت وفادار اور نيك ہوتى تو اپنے شوہر سے طلاق نہ ليتى _

اس لئے مرد عورت دونوں كو دوسرى شادى كرنے ميں بہت سى ركاوٹوں كا سامنا كرنا پڑتا ہے اور اكثر ديكھنے ميں آيا ہے كہ مرد ناچار بقيہ سارى عمرتنہا اور پريشان زندگي

۲۷۳

گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے _اور عورت بھى مجبوراً سارى عمر ماں باپ يا دوسرے رشتہ داروں كے سرپر پڑى رہتى ہے _ يا بغير كسى ہمدرد كے تنہا زندگى گزارتى ہے _ تنہا زندگى بہت دشوار اور تھكادينے والى ہوتى ہے كبھى كبھى تو يہ تنہائي انسان كو ڈس ليتى ہے اور انسان ايسى زندگى پر موت كو ترجيح ديتا ہے اور اكتا كر خودكشى كرڈالتا ہے _

ايك ۲۲ سالہ جوان عورت نے جو ايك بچہ ہوجانے كے باوجود طلاق لے كر اپنے باپ كے گھر چلى آئي تھى ، اپنى بہن كى شادى كى رات خودكشى كرڈالتى ہے _(۲۹۸)

فرض كيجئے مرد بہت زيادہ مالى نقصانات برداشت كركے اور سعى بسيار كے بعد دوسرى شادى كرنے ميں كامياب ہوجاتاہے ليكن كيا معلوم دوسرى بيوى پہلى سے بہتر ہوگى يا نہيں بلكہ اكثر انجام كا ربدتر ہى ہوتاہے _ اكثر ديكھنے ميں آتا ہے دوسرى شادى بھى ناكام ہوتى ہے او راگر امكانى صورت پيدا ہوگئي تو د وسرى بيوى كو طلاق دے كر پہلى بيوى سے صلح كرليتا ہے _

ايك اسّى سالہ مرد نے عدالت ميں بتايا: تقريباً ساٹھ سال قبل ميں نے ايك عورت سے شادى كى تھى _ ميرى زندگى بہت پرسكون تھى ليكن كچھ مدت كے بعد اپنى بيوى كے ناروا سلوك سے ناراض ہوكر ميں نے اس كو طلاق دے دى _ اس دوران ميں ، ميں ۹۷ مختلف عورتوں سے نكاح او رمتعہ كئے اور طلاقيں ديں _ كافى عرصہ بعد ميں نے محسوس كيا كہ ميرى پہلى بيوى ان سب سے زيادہ وفادار تھى ، بہت كوشش كے بعد ميں نے اسے ڈھونڈ نكالا ، چونكہ وہ بھى ميرى طرح تنہائي سے تھك چكى تھى اس لئے ہم دونوں پھر سے شادى كرنے پر رضامندہوگئے _(۲۹۹)

ايك شخص نے اپنى دوسرى بيوى كو طلا قدے دے دى كيونكہ دوسرى بيوى اس كى پہلى بيوى سے ہونيوالے اس كے دو بچوں كى نگہداشت نہيں كرسكتى تھى _ اور اپنى پہلى بيوى سے ، جسے اس نے پانچ سال قبل طلاق دے دى تھى پھر سے شادى كرلى _(۳۰۰)

۲_ جو مياں بيوى عليحدہ ہونے كى فكر ميں ہيں اگر بال بچوں والے ہيں تو انھيں اس اہم اور

۲۷۴

حساس مسئلہ پر بھى غوركرنا چاہئے _ بچوں كى خوشى اور بھلائي اسى ميں ہوتى ہے كہ ماں باپ دونوں ساتھ رہيں تا كہ وہ باپ كے سائے اور ماں كى شفيق آغوش ميں پرورش پائيں _

اگر اس مشترك زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں تو بچوں كى اميدوں كے محل چكنا چور ہوجاتے ہيں _ اور ان كى خوشى و مسرت كا خاتمہ ہوجاتاہے _ اگرباپ ان كى پرورش كى ذمہ دارى لے تو ماں كى بے لوث محبت ومامتا سے محروم ہوجاتے ہيں اور اكثر اوقات سوتيلى ماں سے سابقہ پڑتا ہے _ سوتيلى ماؤوں كا سلوك عام طور پر اچھا نہيں ہوتا _ وہ اپنى سوت كے بچے كو اپنے اوپر ايك بوجھ سمجھتى ہے لہذا اكثر سوتيلى مائيں بچوں كو بہت اذيت و آزار پہونچاتى ہيں _ باپ كے پاس بھى سوائے صبرو خاموشى كے اور كوئي چارہ نہيں ہوتا _

ايك چودہ سالہ دلہن جس نے خودكشى كا اقدام كيا تھا اسپتال ميں بتايا : ميں ايك سال كى تھى جب ميرے ماں باپ عليحدہ ہوگئے اور جيسا كہ ميں نے سنا ہے ميرے باپ نے ڈيڑھ سال بعد دوسرى شادى كرلى اور اب بھى دونوں باہم زندگى گزاررہے ہيں _ ميرى سوتيلى ماں مجھ كو بہت مارتى پٹيتى تھى _ يہاں تك كہ اس نے كئي بار كباب بنانے والى لوہے كى سيخ سے ميرے جسم كو جلا ديا _ اگر چہ ميرے باپ كى ماں حالت اچھى ہے ليكن انھوں نے مجھے اسكول نہ جانے ديا _ ميں ہميشہ اسكول اور كتابوں كى حسرت ميں كڑھتى رہى _ ايك ماہ قبل ميرے باپ نے زبردستى ميرا نكاح ايك ۴۵ سالہ مرد سے كرديا _(۳۰۱)

ايك تيرہ سالہ لڑكى نے گلى ميں رسى ڈال كر خودكشى كرلى _ يہ لڑكى اپنے دو بھائيوں كے ساتھ رہتى تھى _ اس كے بھائي نے بتايا كہ ميرے ماں باپ تين سال قبل عليحدہ ہوگئے تھے _ ميرى ماں نے ايك اور مرد سے شادى كرلى اور دو مہينے قبل ميرے باپ كا بھى انتقال ہوگيا _ ميں كل شام ساڑھے چھ بجے جب گھر واپس آيا تو مجھے معلوم ہوا كہ ميرى بہن نے گلے ميں رستى ڈال كر خودكشى كرلى _(۳۰۲)

۲۷۵

اگر بچہ كى سرپرستى ماں كے ذمہ ہوتى ہے تو معصوم بچے باپ كى سرپرستى اور محبت سے محروم ہوجاتے ہيں اكثر اوقات سوتيلے باپ كے ظلم و ستم كا نشانہ بنتے ہيں _

ايك ماں نے اپنے نئے شوہر كى مدد سے اپنے آٹھ سالہ بچے كے ہاتھ پاؤں پلنگ ميں باندھ ديئےور كمرے كا دروازہ بند كركے باہر گھومنے چلى گئي _ جب وہ لوگ واپس لوٹے تو ديكھا كمرے ميں آگ لگ گئي تھى اور بچہ جل كر ختم ہوچكا تھا _(۳۰۳)

طلاق ، خاندان كے محبت بھرے مركز كو درہم برہم كرديتى ہے _ اس خاندان كے بچے لاوارث اور خانماں برباد ہوجاتے ہيں _ كبھى كبھى ماں باپ اپنى خود غرضى اور ضد ميں آكر ان بے گناہ معصوم بچوں كويونہى لا وارث چھوڑديتے ہيں _

۴_۶_۹_اور ۱۲ سال كى عمر كے چار بچے آوارہ اور سرگردان و پريشان ايك پوليس چوكى ميں گئے _ بڑے بچے نے بتايا كہ ہمارے ماں باپ ميں مسلسل لڑائي جھگڑا ہوتا رہتا تھا _ كچھ دن قبل دونوں عليحدہ ہوگئے اور ان ميں سے كوئي بھى ہم لوگوں كى سرپرستى قبول كرنے كے لئے تيارنہيں ہے _(۳۰۴)

جن معصوم بچوں كا كوئي سرپرست نہ رہے اور ان كى كوئي جائے پناہ نہ ہو تو ايسے بچے زيادہ تر آوارہ اور بد معاش بن جاتے ہيں _ ان كى نفسياتى الجھنيں انھيں بچپن سے ہى يا بڑے ہونے كے بعدچوري، ڈكيٹى ، مارپيٹ اور قتل و غارت جيسے جرائم ميں مبتلا كرديتى ہيں ، اخبار ورسائل ميں ہميں ايسے مجرموں كى خبريں برابر پڑھنے كو ملتى ہيں _ اخبار اطلاعات لكھتا ہے :_

بچوں كى اصلاح و تربيت كے مركز ميں تحقيق كرنے سے معلوم ہوا كہ اس مركز كے ايك سوسولہ مجرم جوانوں ميں سے اسّى افراد كى مائيں سوتيلى تھيں اور ان كے كہنے كے مطابق ان كى گمراہى اور بے راہروى كا سبب ان كى سوتيلى ماؤوں كا ظلم و ستم ، سختياں اور برا سلوك تھا _(۳۰۵)

برادر عزيز اور خواہر گرامى خدا كى خوشنودى اور اپنے معصوم بچوں كى خاطر ايثار و فداكاري

۲۷۶

سے كام ليجئے ، جو كچھ اب تك ہوا اسے بھول جايئے بہانے نہ تلاش كيجئے _ ہوس بازى سے دستبردار ہوجايئے ايك دوسرے كے معمولى عيوب اور خاميوں كو نظر انداز كيجئے _ باہمى كشمكش اور ہٹ دھرمى چھوڑديجئے _ اپنے اور اپنے معصوم بچوں كے انجام كے بارے ميں خواب اچھى طرح غور و فكر كيجئے يہ بيچارے تو بے قصور ہيں _

ان كى مسكين و افسردہ صورتوں اور حسرت بھرى نگاہوں پر ترس كھايئےہ معصوم آپ سے اس بات كى توقع ركھتے ہيں كہ آپ ان كے اشيانے يعنى خاندان كے پر خلوص مركز كو درہم برہم نہ ہونے ديں گے اور ان بے بال و پر كے چوزوں كو سرگرداں اور بے خانماں نہ كريں گے _

اگر آپ نے ان كى دلى خواہشات و جذبات كو نظر انداز كرديا تو ان كے ننّھے ننّھے دل ٹوٹ جائيں گے اور ان كے نالہ و فغاں بے اثر نہ ہوں گے اور آپ كبھى بھى خوشى و اطمينان محسوس نہ كر سكيں گے !!

۲۷۷

فہرست ماخذ

(حواشى )

۱_ سورہ روم آيت ۲۱

۲_ مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، مصنف : على بن ابى بكر ابوالحسن نور الدين الہيثمى مصري(م سنہ ۸۰۷ ھ ،سنہ ۱۴۰۵ئ)

۳_بحار الانوار ، مصنف ، علامہ محمد باقر مجلسى (رہ) (م سنہ ۱۱۱۱ھ) جلد ۱۰۳ ص ۲۱۷

۴_ بحارالانوار ، جلد ۱۰۳ ص ۲۲۲

۵_ سورہ روم آيت ۲۱

۶_ وسائل الشيعہ : تاليف : شيخ محمد بن الحسن الحر العاملى (م سنہ) جلد ۱۴ ص ۳

۷_ وسائل الشيعہ جلد ۱۴ ص ۱۳

۸_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۲۳

۹_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۵

۱۰_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۶

۱۱_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۶

۱۲_ وسائل الشيعہ ج ۱۴ ص ۲۳

۱۳_ بحارالانوار ج ۴۳ ص ۱۱۷

۱۴_ كتاب'' در آغوش خوش بختي'' ص ۱۴۲

۱۵_ بحار الانوارج ۱۰۳ ص ۲۵۴

۱۶_ محجة البيضائ: تاليف : محمد بن المرتضى معروف بہ ملا محسن فيض كاشانى ( م سنہ ۱۰۰۰ ھ) ج ۲ ص ۷۰

۱۷_ مستدرك الوسائل ، تاليف : ميرزا حسين النورى الطّبرسى _ ج ۲ ص ۵۵۲_

۱۸_ روزنامہ اطلاعات تہران _ الامار چ سنہ ۱۹ ۷۰ شمارہ ص ۱۳۴۰

۲۷۸

۱۹_ سورہ روم ، آيت ۲۱

۲۰_مستدرك ، ج ۲ ص ۵۳۲

۲۱_ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۳۵

۲۲_بحارالانوار ج ۷۴ ص ۱۸۱

۲۳ _مستدرك ج ۳ ص ۵۵۱

۲۴ _ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۵۳

۲۵_ مستدرك ج ۲ ص ۵۵۱

۲۶ _روزنامہ اطلاعات تہران _ ۴ مئي سنہ ۱۹۷۲ ء شمارہ ۱۳۷۸۷

۲۷ _روزنامہ اطلاعات تہران ، ۲۲ نوامبر سنہ ۱۹۷۱ شمارہ ۱۳۶۵۲

۲۸_ بحار الانوار ج ۷۶ ص ۳۶۳بہ ملا محسن فيض كاشانى ، ج ۲ ص ۹۳۱

۲۹_ محجة البيضاء ج ۲ ص ۷۲

۳۰_ روزنامہ اطلاعات ، ۱۸ نوامبر سنہ ۱۹۷۱ شمارہ ۱۳۶۵۱

۳۱_ روزنامہ اطلاعات ، ۳جنورى سنہ ۱۹۷۲ شمارہ سنہ ۱۳۶۸۹

۳۲_ بحارالانوار ج ۷۱ ص ۳۸۹

۳۳_ بحارالانوار ج ۷۳ ص ۲۹۸

۳۴_ رونامہ اطلاعات ۲۳ جنورى سنہ ۱۹۷۲ئ

۳۵_ روزنامہ اطلاعت ۲۵ آگست سنہ ۱۹۷۱

۳۶_ بحارالانوار ج ۷۱ ص ۳۷۷

۳۷_ بحار الانوار ج ۱۰۳ص ۲۵۳

۳۸_ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۵۳

۳۹_ بحار الانوار ج ۱۰۳ ص ۲۴۲

۲۷۹

۴۰_ بحارالانوار ج ۷۶ص ۳۶۷

۴۱ _ مستدرك ج ۲ ص ۵۳۲

۴۲ _ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۱۷

۴۳_ مستدرك ج ۲ ص ۵۳۴

۴۴_ سورہ ابراہيم آيت ۷

۴۵_ بحارالانوار ج ۱۰۳ ص ۲۳۹

۴۶_ شافى _تاليف : محمدبن المرتضى معروف

۴۷_ وسائل الشيعہ ج ۱۱ ص ۵۴۲

۴۸_ روزنامہ اطلاعات ۲۴ دسمبر سنہ ۱۹۶۹

۴۹_ روزنامہ اطلاعات ۲۸ ، نوامبر سنہ ۱۹۷۱ئ

۵۰_ روزنامہ اطلاعات ۶ فرورى سنہ ۱۹۷۲ئ

۵۱_ روزنامہ اطلاعات يكم مارچ سنہ ۱۹۷۲ئ

۵۲_ روزنامہ اطلاعات ۲۷ فرورى سنہ ۱۹۷۲ئ

۵۳_ بحار الانوار ج ۷۳ ص ۳۸۵_

۵۴_ بحارالانوار ج ۱۰۴ ص ۳۸

۵۵_ روزنامہ اطلاعات ۲۲فرورى سنہ ۱۹۷۲

۵۶_ بحارالانوار ج ۱۰۴ ص ۳۹

۵۷_ سورہ نور آيت ۳۱

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307