انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145850 / ڈاؤنلوڈ: 4851
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

امام محمد باقر نے پیغمبر سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(۱) ''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا:''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰه عَزّو جلّ خَالقُه'' مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:''کَلمةُ الخلاص هِی الفِطرَة'' (۲) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا

معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (۳)

اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کوسماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۱۳۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۰

(۳)سورہ نحل ۷۸۔

۱۴۱

ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔

تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(۱)

____________________

(۱)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔

۱۴۲

انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا

گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(۱) جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(۲) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟

''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(۳) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(۴) اور'' ابراہیم مزلو''(۵) کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(۶) کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(۷)

____________________

(۱) Watson

(۲) John Loke

(۳) Thomas Hobbes

(۴) Kart Rogers

(۵) Abraham Maslow

(۶) Jean Jacques Rousseau

(۷)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱۴۳

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔

۱۴۴

اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔

سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(۱) خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔

توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا

____________________

(۱)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج۲ ،ص ۱۲۔

۱۴۵

سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میں ا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیں ہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد

توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔

تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔

پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:

۱۴۶

بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(۱)

حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میں ذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(۲)

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔

سورہ نحل کی ۵۳ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ۶۵ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی

____________________

(۱)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج۶ ص ۹۳۴۔

(۲)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج۲ ص ۳۳۰ و ۳۳۱۔

۱۴۷

بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰهُم لَیٰ البَرِّ ِذَا هُم یُشرِکُونَ ) (۱)

پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔

( وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیهِ تَجئَرُونَ ) (۲)

اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔

اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔

تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ۳۰ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔

انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔

____________________

(۱)عنکبوت ۶۵۔

(۲)نحل ۵۳

۱۴۸

اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا

سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ( لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :

۱۴۹

( قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰهَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (۱)

یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت

اس واقعیت سے انکار نہیں ہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیں ہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا هُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً ) (۲)

''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اوررحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔

____________________

(۱)سورۂ شمس ۹ تا ۱۰۔

(۲)اسراء ۸۲۔

۱۵۰

اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے( قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِهِ ) (۱)

تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں '' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے

____________________

(۱)سورۂ اسراء ۸۴۔

۱۵۱

اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(۱)

____________________

(۱)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میں مختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔

۱۵۲

خلاصہ فصل

۱.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔

۲.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔

۳.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔

۴.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔

۵.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔

۶.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔

۷.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

۱۵۳

تمرین

۱.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟

۲.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟

۳.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟

۴.سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۵.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟

۶.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟

۷.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟

۸.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟

۹.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟

عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

۱۵۴

مزید مطالعہ کے لئے :

۱. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:

.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت

۲. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :

. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ۱۳۶۸) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

. نجاتی ، محمد عثمان ( ۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

۳. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ۳۶۹.۵۱۴.

۴. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:

. اسٹیونسن ، لسلی ( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد

. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۶۳) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ۱۳۷۲) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج۲ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

۱۵۵

۵. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد تہران : الزہراء ۔

(۱۳۶۳)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق

(۱۳۶۳)تفسیرموضوعی قرآن ، ج۵ ، تہران ، رجاء

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ج۳ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔

(۱۳۷۱)مجموعہ آثار ج۵ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔

.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ۱۳۶۸) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

۶. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :

.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ۱۱۰. ۱۱۸.

۷. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶) تفسیر موضوعی ، ج۵، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

.محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.(۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۹) مجموعۂ آثار ، ج۲ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۱۵۶

ملحقات

لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات

لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :

۱.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔

۲.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔

۳.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔

۴.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔

۵.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔

۱۵۷

۶.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔

۷.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(۱) معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔

۸.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میں حس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔

۹.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔

۱۰.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔

____________________

(۱) Imanuel Kant

۱۵۸

۲ ہدایت کے اسباب اور موانع

قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

۱. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔

۲. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔

۳. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔

قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔

۱۵۹

انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میں بالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(۱)

مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت

''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج۱ ص ۱۹۳۔۲۳۶۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ابن خلکان نے بھی اپنی کتاب '' وفیات الاعیان '' میں مالک نویرہ کے بارے میں لکھا ہے:(١٥)

جب مالک نویرہ کو پکڑ کر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ خالد کے پاس لایا گیا تو خالد کی سپاہ کے دو افراد ابو قتاد انصاری اور عبد اللہ بن عمر نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی اور اس کی شفاعت کی لیکن خالد نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان دو صحابیوں کی باتیں بھی اسے پسند نہ آئیں ۔

مالک نویرہ نے جب حالت کو اس طرح بگڑ تے اور خطر ناک ہوتے دیکھا اور احساس کیا کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو خالد سے مخاطب ہوکر کہا:

اے خالد ! ہمیں ابوبکر کی خدمت میں بھیج دوکہ وہ ذاتی طور پر ہمارے بارے میں فیصلہ کریں ،کیوں کہ تم نے ایسے افراد کے بارے میں ایسا اقدام کیا ہے جن کا گناہ ہم سے سنگین تر تھا۔

خالد نے جواب میں کہا:

خدا مجھے موت دے ، اگر تجھے قتل نہ کروں !!

اسی وقت مالک کو خالد کے اشارہ پر ضرار کے پاس لے گئے تاکہ وہ اس کا سر تن سے جدا کردے ۔ اس حالت میں مالک کی نظر اپنی بیوی ام تمیم پر پڑی ، جو اپنے زمانے کی خوبصورت ترین عورت تھی ۔ مالک نے خالد کی طرف رخ کرکے کہا: اس عورت نے مجھے مروا دیا ؟!

خالد نے جواب میں کہا:

خدا نے تجھے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے جرم میں مارا ہے ۔

مالک نے کہا:

میں مسلمان ہوں ۔

۲۲۱

خالد نے بلندآواز میں کہا:

ضرار !کیوں دیرکررہاہے؟ اس کا سر تن سے جدا کردے !!

ابن خلکان مالک کی داستان کو جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتا ہے :

ابوزہرہ سعدی نے مالک کے سوگ میں چند درد ناک اشعار کے ضمن یوں کہا ہے :(۱)

جن سواروں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہماری سر زمین کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ، ان سے کہہ دو کہ مالک کی شہادت کے بعد مصیبت کی شام ہمارے لئے ختم ہونے والی نہیں ہے۔

خالد نے بڑی بے شرمی سے مالک کی بیوی کی عصمت لوٹ لی ،کیوں کہ وہ بہت پہلے سے اسے للچائی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔

خالد نے عقل کی زمام نفسانی خواہشات کے حوالے کی تھی اور اس میں اتنی مردانگی نہیں تھی کہ اپنے دل کو اس سے کھینچ کر اپنے آپ کو کنٹرول کر سکتا ۔مالک کے قتل ہونے کے بعد خالد اپنی دیرینہ آرزو کو پاسکا۔ لیکن مالک نے اس دن اپنی بیوی کی وجہ سے جان دی اور اس کا سب کچھ لٹ گیا۔

____________________

۱ )۔الاقل لحی اوطأوا بالسنابک

تطاول هذا اللیل من بعد مالک

قضی خالد بغیاً علیه لعرسه

و کان له فیها هوی قبل ذالک

فأمضی هواه خالد غیر عاطف

عنان الهوی عنها ولا متمالک

و اصبح ذا اهل، و اصبح مالک

الیٰ غیر شیء هالکاً فی هو الک

فمن للیتامی والارامل بعده

و من للرجال المعدمین الصعالک

اصیبت تمیم غثها و سمینها

بفارسها المرجو سحب الحوالک

۲۲۲

مالک کے بعد اب اس کے یتیموں ، بیوہ ، بوڑھوں اور بے چاروں کا سہارا اور امید کون بن سکتا ہے؟!

قبائل تمیم کے لوگوں نے مالک جیسے شہسوار کو جو ہر بلا کو ان سے دور کرتا تھا ہاتھ سے دینے کے بعد اپنی قیمتی اور معمولی سبھی چیزوں کوکھودیا۔

دو نر و مادہ پیغمبروں کی حقیقت

طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو شخص ''سجاح'' اور ''مسیلمہ'' کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:(١٦)

(سیف کے علاوہ ) دوسروں نے لکھا ہے کہ ''سجاح'' اس علاقے میں پہنچی جو پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ''مسیلمہ '' کے تسلّط میں تھا۔ مسیلمہ نے ڈر کے مارے قلعہ کے اندر پناہ لے کر قلعہ کے در وازے اندر سے محکم طور پر بند کر دئے ۔

''سجاح'' جب قلعہ کے سامنے آپہنچی تو قلعہ کی چھت پر بیٹھے مسیلمہ سے یوں مخاطب ہوئی:

قلعہ سے نیچے اتر آؤ!

(گویا''مسیلمہ'' ،''سجاح'' کی باتوں اور اس کی حرکات و سکنات سے سمجھ گیا تھا کہ اس سنف نازک پر غلبہ پایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے) جواب میں بولا:

تم پہلے حکم دوکہ تیرے مرید اور حامی تم سے دور ہو جائیں !

'' سجاح'' نے اس تجویز سے موافقت کی اور حکم دیاکہ اس کے مرید اپنے خیموں میں چلے جائیں ۔

مسیلمہ بھی قعلہ سے باہر آیا اور اپنے مریدوں کو حکم دیتے ہوئے کہا:

ہمارے لئے ایک الگ خیمہ نصب کرو اور اس کے اندر عود و عنبر جلا کر معطر کرو تاکہ اس معطر فضا اور حالات سے متأثر ہوکر '' سجاح'' کی نفسانی اور جنسی خواہشات بھڑ ک اٹھیں ۔

مسیلمہ کے حکم کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔ جب '' سجاح '' نے اس خیمہ کے اندر قدم رکھا تا آخر !

۲۲۳

یہاں پر طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو نر و مادہ کے درمیان انجام پائی فتگو کو سجعی سے نقل کرکے درج کیا ہے ، درحقیقت پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو شخصیتوں کے درمیان گفتگو مسیلمہ کی توقع کے عین مطابق انجام پائی اور یہ گفتگو ایک ایسے حساس مرحلے میں داخل ہوئی کہ سر انجام یہ دونوں ہیجان اور جذبات کے عالم میں انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ عقد کر لیا ۔

طبری ان دونوں کی داستان کو اس طرح خاتمہ بخشتا ہے :

سجاح نے مذکورہ خیمہ میں مسیلمہ کے ساتھ تین دن رات گزارے ۔ اس کے بعد جب خیمہ سے نکل کر اپنے مریدوں کے درمیان پہنچی تو اس کے مریدوں نے اس سے سوال کیا :

اچھابتاؤ !مسیلمہ سے ملاقات کرکے تمھیں کیا ملا ؟

سجاح نے جواب میں کہا:

وہ حق پر تھا ! میں بھی اس پر ایمان لائی ۔ حتیٰ اسے اپنا شوہر بنایا ۔

اس سے پوچھا گیا:

اچھابتاؤ !کیا اس نے کسی چیز کو تیرے لئے مہر قرار دیا ؟

( یہ سوال سن کر جیسے سجاح خواب سے بیدار ہوگئی ہو اور تعجب سے کہتی ہے ) کہا :

نہیں !

انھوں نے اس سے کہا:

تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا ہے ، لوٹ کر اس کے پاس جاؤ !تم جیسی خاتون کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مہر لئے بغیر شوہر سے جدا ہو جائے !!

۲۲۴

سجاح دوبارہ خیمہ کی طرف گئی اور مسیلمہ جو ابھی خیمہ میں ہی تھا سے جاملی ۔ مسیلمہ اس خیال میں تھا کہ اس کا حریف چلا گیا ہے لیکن جب اس نے اسے واپس لوٹتے دیکھا تو فکر مند ہوا اور اس سے پوچھا :

تم تو چلی گئی تھی ! ماجرا کیا ہے ؟

سجاح نے کہا:

میرا مہر، میرے مہر کا کیا ہوگا ؟! تمھیں مہر کے عنوان سے مجھے کچھ دینا چاہئے مسیلمہ نے سجاح کی مانگ کو سن کر اطمینان کا سانس لیا اور سجاح کے مؤذن سے کہا :

اپنے دوستوں میں جاکر اعلان کرو کہ مسیلمہ بن حبیب نے شام اور صبح کی دو نمازیں ، جنھیں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں پر واجب قرار دیا تھا ، کو سجاح کے مہر کے طور پر تمھیں بخش دیا ہے اور اب انھیں انجام دینے کی تکلیف تم لوگوں سے اٹھا دی جاتی ہے !!

اب ہم دیکھتے ہیں کہ مناذر اور تیری کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں کے علاوہ دوسروں نے کیا کہا ہے ؟

ابن حزم اپنی کتاب '' جوامع السیر '' میں لکھتا ہے :

ابو موسیٰ اشعر ی نے عمر کی خلافت کے دوران صوبہ خوزستان کے بعض علاقوں پر زبردستی اور بعض دیگر علاقوں پر صلح ،معاہدوں اور محبت سے قبضہ جما یا تھا ۔(١٧)

ذہبی کتاب '' تاریخ الاسلام '' میں لکھتا ہے :

١٧ھ میں عمر نے ایک فرمان کے تحت بصرہ کی حکومت ابو موسیٰ اشعری کو سونپی اسے حکم دیا کہ اہواز پرلشکر کشی کرکے اس صوبہ پر قبضہ کرلے ۔ (١٨)

بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

ابو موسیٰ اشعری نے سوق اہواز اور نہر تیری پر قہر و غلبہ سے قبضہ کرلیا ( یہاں تک لکھتا ہے:) ربیع بن زیاد حارثی کو مناذر میں نمائندہ کی حیثیت سے مقرر کیا اور خود تستر ( شوشتر) کی طرف لشکر کشی کی اور اسے اسی سال موسم بہار میں فتح کیا (١٩)

مناذر اور تیری کے بارے میں فتح کی داستان یہی تھی جو ہم نے بیان کی لیکن دلوث نام کی کسی جگہ کا نام ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملاکہ اس کے بارے میں سیف کی باتوں کا موازنہ کریں کیوں کہ یہ جگہ سیف بن عمر کی خیالی پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

۲۲۵

گزشتہ بحث کا خلاصہ اور موازنہ کا نتیجہ

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں میں چھ افراد کا اضافہ کیا ہے ۔ اسی کی برکت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی زندگی کے حالات لکھنے والے علماء نے بھی سیف کے ان چھ جعلی اصحاب اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر سیف سے نقل کر کے ان کی زندگی کے حالات لکھے ہیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن علماء نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ہے ان کی کتابوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے کارندوں اور گماشتوں کا کہیں نام تک نہیں ملتا ۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر نے اپنی احادیث ،ایسے راویوں سے نقل کی ہیں کہ حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے اور ہم انھیں سیف کے جعلی راوی محسوب کرتے ہیں ۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سیف تنہا فرد ہے جو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایک ہر اول دستے کے کمانڈر کی حیثیت سے حصین نامی ایک صحابی کا نام لیتا ہے ۔اور حموی جیسا دانشور اور جغرافیہ کی کتاب ''معجم البلدان '' کا مؤلف اس فرضی حصین کی فتح مناذر کے بعد سیف کے دو جعلی صحابیوں اور سورما حرملہ اور سلمی کے ذریعہ اسے فتح کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی دلاوریوں کو اپنی کتاب میں درج کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں مناذر کو ''ربیع حارثی قحطانی'' اور دیگر لوگوں نے فتح کیا ہے۔ چونکہ حموی نے ''دلوث'' کا نام بھی اسی حصین کے اشعار میں دیکھا ہے اس لئے اسے بھی ایک حقیقی جگہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے!

سیف نے اپنے قبیلہ مضرو تمیم کی حمایت و طرفداری میں تعصبات پر مبنی اپنے اندرونی جذبات اور احساسات کو جواب دینے اور اپنے دشمنوں ، جیسے قبیلہ ٔیمانی قحطانی کی طعنہ زنی کرنے کے لئے مناذر اور تیری کی حدیث کو گھڑ لیا ہے اور ابو موسیٰ اشعری یمانی قحطانی کو خلیفہ عمر کی طرف سے دئے گئے عہدے و منصب سے محروم کر کے اس عہدے پر ایک عدنانی و مضری جعلی فرد '' عتبہ بن غزوان'' کو فائز کیا ہے ۔

۲۲۶

سیف بن عمر اپنے قبیلہ تمیم کے خیالی اور جعلی پہلوانوں حرملہ اور سلمی کو یمانی قحطانی ''ربیع حارثی'' کی جگہ پر بٹھا تا ہے اور اپنے جعلی و خیالی صحابی و شاعر حصین بن نیار حنظلی سے ان کی مداح اور تعریفیں کراتا ہے تا کہ اپنے خاندان تمیم کے افتخارات کی شہرت کودنیا میں چار چاند لگائے !!

مگر، ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کے ان تاریخی واقعات کے سال کو بدل کر ١٧ھ کو ١٨ ھ لکھنے کا کو نسی چیز سبب بنی ہے؟ جبکہ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ'' عتبہ بن غزوان'' جسے سیف بن عمر نے ابو موسیٰ اشعری کی جگہ پر بٹھادیا ہے ١٨ ھ سے پہلے فوت ہوچکا تھا اور زندہ نہیں تھا تو کہاں سے خلیفہ ٔعمر سے اپنے لئے حکومت اور سپہ سالاری کا فرمان حاصل کرتا!! مگر یہ کہ ہم یہ بات قبول کریں کہ ایک کہ زندیقی نے جس کا سیف پر الزام تھا اپنے خاص مقاصد کے پیش نظر تاریخ اسلام کی روئداد کی تاریخوں میں تصرّف کر کے ایک امت کی تاریخ کو مشکوک بنا کر اسے بے اعتبار اور نا قابل اعتماد بنانے کی کوشش کی ہے !!

ہم نے دیکھا کہ سیف ، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو افراد سجاح و مسیلمہ کے بارے میں کہتا ہے کہ جب سجاح تمیمی نے مسیلمہ سے جنگ نہ کرنے کے معاہدہ پر دستخط کئے تو پہلے مسیلمہ سے یہ طے پایا کہ یمامہ کی پیدا وار کا نصف ہر سال سجاح کو ادا کرے گا۔ دوسرے اگلے سال کے خراج کا نصف بھی اسی سال ادا کرے گا اور اس طرح مسیلمہ اس قسم کے سنگین شرائط کو قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔سجاح نے قرار کے مطابق جو کچھ وصول کرنا تھا کرلیا اور باقی خراج کو وصول کرنے کے لئے نمائندہ مقرر کر کے مسیلمہ سے مرخص ہوتی ہے!!

سیف اس قسم کا افسانہ گھڑ کر صرف اس فکر میں ہے کہ قبیلۂ تمیم کو فخر و مباہات بخشے ، اس لئے لکھتا ہے کہ سجاح نے اس فوج کشی کے نتیجہ میں یمامہ کی پیدا وار کا نصف حصہ حاصل کیا ! جب کہ دوسروں نے لکھا ہے کہ پیغمبر ی کا دعویٰ کرنے والی اس خاتون کو،اس فوج کشی کے نتیجہ میں جو کچھ میسر ہوا، وہ مسیلمہ جیسا شوہر تھا نہ یمامہ کی پیدا وار ۔ اور جو کچھ اس کے مریدوں نے پایا وہ صبح اور مغرب کی نماز وں کا ساقط ہوناتھا ، اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

۲۲۷

ہاں ، قبیلہ تمیم کے بعض افراد کے مرتد ہونے کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے باوجود کہ بنیا دی طور پر کفر و ارتداد ایک شرم آور امر ہے ۔ لیکن سیف وہ شخص نہیں ہے جسے اسلام کی فکر ہو اور اپنے خاندان کے دامن سے ارتداد کے بد نما داغ کو پاک کرنے کی کوشش کرے، بلکہ وہ صرف اس فکر میں ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے قبیلۂ تمیم کے لئے افتخارات میں اضافہ کرے ۔ اسی لئے قبیلۂ تمیم کے مرتد اور مسلمان افراد کو آپس میں لڑاتا ہے اور کسی بھی اجنبی کو قبیلہ تمیم کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا، اسی لئے سیف کی حدیث میں ملتا ہے کہ صرف تمیمی مسلمان ہی اس قبیلہ کے مرتدوں کی تنبیہ کرتے ہیں ،کسی او رکو اس امر کی اجازت نہیں دی جاتی ہے !!

لیکن، مالک نویرہ کی داستان، اگر چہ مالک ایک تمیمی فرد ہے اور قاعدے کے مطابق قبیلہ کے تعصبات کے پیش نظر سیف کی ہمدردیاں اس سے مربوط ہونی چاہئے ، لیکن خالد بن ولید جیسے خاندان مضر کے سپہ سالار، شمشیر باز اور تجربہ کار جنگجو کے مقابلے میں مالک کی حیثیت انتہائی پست و حقیر ہے۔ یہاں پر سیف ضعیف کو طاقتور پر قربان کرنے کے قاعدے کے تحت مالک کو مرتد اور سجاح کے شریک کار اور ساتھی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور ایک افسانہ کے ذریعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خالد بن ولید کے ایک حکم کے سلسلے میں سرزمین بطاح میں کنانہ کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کی وجہ سے مالک نویرہ کو قتل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیف یہ کوشش کرتا ہے کہ خالد مضری کے دامن کو مالک کے ناحق خون سے پاک و مبرّا ثابت کرے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے اور دوسرے مورخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے:

مالک نویرہ اپنے اسلام اور ایمان کے سلسلے میں دفاع کرنے کے لئے خالد سے گفتگو کرتا ہے، لیکن جب اپنے قتل کئے جانے پر خالد کی ہٹ دھرمی کا احساس کرتا ہے تو اپنی عقل و فراست سے سمجھ لیتا ہے کہ یہ اس کی بیوی کی خوبصورتی اور دلفریب حسن و جمال ہے جس کی وجہ سے خالد اسے قتل کرنے پر تُلا ہوا ہے تا کہ اپنی دیرینہ آرزو اور تمنا کو پہنچ سکے۔

۲۲۸

اسی طرح کہا گیا ہے کہ مالک کے مسلمان ہونے اور نماز گزار ہونے کے سلسلے میں ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر کی گواہی بھی نہ فقط کارگر اور مؤثر ثابت نہیں ہوئی بلکہ خالد کو ان کی باتیں ہرگز پسند نہ آئیں اور یہی امر خالد کے لئے مالک کے قتل میں تعجیل کرنے کا سبب بنا۔بالآخر خالد کے اشارہ پر ضرارنے مالک کے سر تن سے جدا کیا ۔اس کے بعد خالد نے اس کے دیگر ساتھیوں کو قتل کرانے کے بعد حکم دیا کہ ان کے سروں کودیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کی مانند) آگ لگا دیں ۔

لکھا گیا ہے کہ عمر نے جب مالک کے قتل کئے جانے کی خبر سنی تو غضبناک ہوئے اور اس سلسلے میں ابوبکر سے گفتگو کی ۔جب عمر خالد کو جنگی اسلحہ کا کثرت سے استفادہ کرنے کی وجہ سے اس کے لباس پر زنگ کے دھبے لگے خاص حالت میں دیکھتے ہے تو غصہ میں آکر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے عمامہ کو پھاڑکر بلند آواز میں کہتے ہیں :مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کرڈالتے ہو پھر ایک حیوان کی طرح اس کی بیوی سے اپنا منہ کالا کرتے ہو!! خدا کی قسم میں تجھے سنگسارکروں گا!!

اس کے باوجود سیف بن عمر کو خاندانی اور زندیقی تعصب ،اسلام دشمنی پر مجبور کرتاہے۔اسی لئے وہ مالک کے بارے میں پھوہڑپن سے جھوٹ کے پلندے گھڑ لیتاہے تا کہ ''قائد اعظم'' اور '' اسلام کے سپہ سالار'' ،خالد بن ولید مضری کے دامن کو مالک کے نا حق خون سے پاک کرسکے!!

اگر ہم اس کے باوجود بھی فرضاً یہ مان لیں کہ خالد کا یہ قصد و ارادہ نہ تھا کہ مالک کو قتل کرے بلکہ اتفاق سے یہ حادثہ پیش آیاہے اور کنانہ کے لوگوں نے (جو اصلاً خالد کی سپاہ میں موجود نہ تھے ) غلط فہمی سے اسیروں کو گرم کپڑے دینے کے بجائے تلوار سے ان کے سر تن سے جدا کرکے انھیں راحت کردیاہے اور اس میں خالد کا کوئی قصور نہ تھا پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے مقتولین کے سروں کو دیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کے مانند) کر آگ لگانے کا حکم کیوں دیا اور اس طرح ان کی بے احترامی کی؟!!

۲۲۹

سجاح کے افسانہ کا نتیجہ

سیف بن عمر،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں ،قبیلہ ٔ تمیم کے افراد کے ارتداد ،خاندان تمیم سے پیغمبری کا دعوی کرنے والی ''سجاح'' اور مالک نویرہ و کے بارے میں داستانیں خلق کرکے اپنے خاندان یعنی قبیلہ تمیم کے لئے حسب ذیل فخرومباہات حاصل کرتاہے:

١۔ خاندان تمیم کی خاتون ''سجاح'' پیغمبری کا دعوی کرتی ہے۔قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے دوسرے شریک اور پیغمبری کے مدعی یعنی مسیلمہ سے یمامہ کی پیداوار کا نصف حصہ بعنوان خراج حاصل کرتی ہے تا کہ اسے آزاد چھوڑدے ۔یہ قبیلہ تمیم کے لئے بذات خود ایک عظیم افتخار ہے کہ اس قبیلہ کے پیغمبری کا دعوی کرنے والے مکار اور دھوکہ باز دوسرے جھوٹے پیغمبروں سے برتری رکھتے ہیں اور ان سے باج حاصل کرتے ہیں !!

قبیلہ تمیم کے افراد کے مرتد ہونے کے موضوع کے بارے میں افسانہ میں ایسا دکھاتا ہے کہ اس قبیلہ کے مسلمانوں نے اس قبیلہ کے مرتد ہوئے افراد کی گوشمالی کرنے کے لئے اٹھ کر ان کی سخت تنبیہ کی ہے اور اس طرح تمیمیوں کے اندرونی مسائل میں کسی اجنبی کو دخل دینے کی اجازت نہیں دی ہے اور یہ خود قبیلہ تمیم کے لئے ایک افتخار ہے کہ اپنے قبیلہ کے ارتداد کے مسئلہ کو خود حل کریں اور کسی اجنبی کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہ دیں ۔

٢۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جزیرہ میں ارتداد کی خبر کو جعل کرکے اس کی اشاعت کرتاہے تا کہ اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک سند مہیا ہوجائے جس کے بناء پر وہ آسانی کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے اور خوف و وحشت کے سائے میں پائیدار ہوا ہے نہ کسی اور کی وجہ سے!؟

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے قبیلہ تمیم سے کارندے اور گماشتے خلق کرتاہے تا کہ وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار پائیں اور ان کے نام طبقات اور رجال کے موضوع پر لکھی گئی دانشوروں کی کتابوں میں درج ہوجائیں !!

۲۳۰

٤۔ علاقہ اہواز میں ایک جگہ کو خلق کرتاہے تا کہ وہ جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی جائے۔

٥۔ چند اشعار لکھ کر انھیں اپنے جعلی اور خیالی دلاوروں کی زبان پر جاری کرتاہے تا کہ عربی ادبیات کے خزانوں کی زینت بن جائیں ۔

٦۔ تاریخ اسلام کے اہم واقعات کے سالوں میں تغیر ایجاد کرتاہے ۔ ہماری نظر میں اس سلسلے میں خاص طور پر اس کا اصل محرک سیف کا زندیقی ہونا ہے کہ جس کا اس پر الزام ہے!

سیف نے جو حدیث'' صعب بن عطیہ'' سے روایت کی ہے اس پر علماء نے بہر صورت اعتماد کیاہے اور اس کے چھ جعلی اصحاب کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیاہے۔ پھر انھیں اپنی کتابوں میں درج کرکے سیف کی حدیث سے ان کی زندگی کے حالات پر

۲۳۱

روشنی ڈالی ہے۔

اس کے علاوہ ان علماء نے ''صفوان بن صفوان '' کو سیف کی احادیث سے صحابی جان کر علیحدہ طور پر اس کی سوانح عمری لکھی ہے ۔چونکہ ہم نے ''صفوان'' کے بارے میں سیف کے خیالات کی مخلوق ہونے پر یقین نہیں کیا ہے اس لئے اس پر بحث نہیں کی۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما

ان تمام افسانوں کو سیف نے انفرادی طور پر خلق کیاہے اور حسب ذیل دانشوروں نے ان افسانوں کی اشاعت کی ہے :

١۔طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں سند کے ساتھ ۔

٢۔ یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں سند کے ساتھ ۔

٣۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٤۔ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٥۔ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٦۔ ابن فتحون نے اپنی کتاب ''التذییل '' میں اپنے پیش رؤں سے۔

٧۔ کتاب '' اسد الغابہ '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔

٨۔ کتاب '' تجرید '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔

٩۔ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں سیف بن عمر اور طبری سے نقل کرکے ۔

١٠۔''مراصد الاطلاع'' کے مولف نے یاقوت حموی سے نقل کرکے۔

۲۳۲

انیسواں جعلی صحابی زر بن عبد اللہ الفقیمی

دو مہاجر صحابی

زر بن عبد اللہ الفقیمی کا کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس طرح تعارفی کیا گیا ہے:

طبری نے لکھا ہے کہ''زر'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور مہاجرین میں سے تھا۔زر خوزستان کی فتح میں مسلمان فوجیوں کے کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر تھا ۔وہ اس لشکر کا کمانڈر تھا جس نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں قرار دیا اور سر انجام جندی شاپور صلح ومذا کرہ کے نتیجہ میں فتح ہوا ۔

اسی مطلب کو ذہبی نے خلاصہ کے طور پر ''اسدالغابہ ''سے نقل کرکے اپنی کتاب ''تجرید '' میں درج کیا ہے ۔

زبیدی نے بھی لفظ ''زر''کے بارے میں اپنی کتاب ''تاج العروس ''میں لکھا ہے :

طبری نے کہا ہے کہ ''زربن عبداللہ الفقیمی ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور فوج کا کمانڈر تھا۔

چونکہ ان تمام کے تمام دانشوروں نے ''زربن عبداللہ''کو طبری سے نقل کرکے اس کی تشریح کی ہے ، اس لئے ہم بھی زر کی روایت کے بارے میں طبری کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ یہ دیکھ لیں کہ طبری نے اس خبر کو کہاں سے حاصل کیا ہے ۔

زرّ کا نام و نسب

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :

زرّ بن عبد اللہ ، کلیب فقیمی کا نواسہ اور خاندان تمیم و عدنان سے تعلق رکھتا ہے ۔

طبری نے رامہر مزکی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :''اسود ''و'' زر'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب اور مہاجر ین میں سے ہیں جنھوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ،

زر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچا اور آپ کی خدمت میں عرض کی : خاندان '' فقیم '' کے افراد دن بدن گھٹ رہے ہیں اور اس طرح یہ خاندان نابود ہو رہا ہے جب کہ تمیم کے دوسرے قبیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔ کیا کیا جائے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ہاں ہمارے لئے دعا فرمائیں ؟!

۲۳۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا: خدا وند ا !خاندان '' زر'' کو کثرت دے اوران کی تعداد میں ا !!

یہی سبب بنا کہ خاندان زر کی نسل بڑھی اور ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ۔ دوسروں نے بھی سیف کی اسی روایت کو طبری سے استناد کرکے لکھا ہے :

زران افراد میں سے ہے جنھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں شرف یاب ہوکر آپ سے گفتگو کرنے کا فخر حاصل کیاہے ۔ اس کے علاوہ وہ مہاجر ین میں سے تھا ۔

طبری فتح '' ابلہ '' کے سلسلے میں ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :

خالد بن ولید نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کئے گئے ہاتھی اور دیگر غنائم کے پانچویں حصے کو زر کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجا ۔ہاتھی کی مدینہ کی گلی کوچوں میں نمائش کی گئی تاکہ لوگ اس کا مشاہدہ کریں ۔عورتیں عظیم الجثہ ہاتھی کو دیکھ کر تعجب میں پڑگئیں اور حیرت کے عالم میں ایک دوسرے سے کہتی تھیں :کیا یہ عظیم الجثہ حیوان خدا کی مخلوق ہے ؟!کیوں کہ وہ ہاتھی کو انسان کی مخلوق تصور کرتی تھیں ۔ابوبکر نے حکم دیا کہ ہاتھی کو ''زر ''کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے ۔

طبری اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

''ابلہ ''کی فتح کے بارے میں سیف کی یہ داستان تاریخ نویسوں اور واقعہ نگاروں کے بیان کے بر خلاف ہے ۔ کیوں کہ صحیح اخبار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں فتح ہوا ہے نہ خلافت ابوبکر کے زمانہ میں اور یہ فتح و کامرانی عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں ١٤ھ میں حاصل ہو ئی ہے نہ ١٢ھ میں ۔ جب ہم اس زمانہ کی بحث پر پہنچے گیں تو اس جگہ کی فتح کی کیفیت پر بحث کریں گے ۔ ( طبری کی بات کا خاتمہ)

۲۳۴

ایک مختصر موازنہ

١۔ طبری وضاحت کرتا ہے کہ شہر '' ابلہ '' ١٤ھ میں خلافت عمر کے زمانہ میں فتح ہوا ہے نہ کہ ١٢ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانہ میں !

٢۔ اس جنگ کی کمانڈ''عتبہ بن غزوان ''کے ہاتھ میں تھی نہ کہ ''خالد بن ولید ''کے ہاتھ میں ۔ اس فتح وپیروزی کی نوید ''نافع ''نے خلیفہ کو پہنچائی تھی نہ کہ''زر بن عبداللہ فقیمی ''نے!

اس کے علاوہ جوکچھ طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ١٤ھکے حوادث کے ضمن میں بیان کیا ہے ۔جیسے ''زر''کاموضوع اور جنگی غنائم کاپانچواں حصہ اور مذکورہ ہاتھی وغیرہ ۔سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں کسی صورت میں نہیں ملتا ۔خاص کر مدینہ کی عورتوں نے اس زمانے میں قرآن مجید کے سورۂ فیل کوکئی بار پڑھاتھا اور ہاتھی و ابرہہ کی لشکرکشی کی داستان اس زمانے میں زبان زد خاص وعام تھی ،کیونکہ یہ حادثہ تاریخ کی ابتدا ء قرار پایا تھا۔ لہٰذا عظیم الجثہ ہاتھی کاوجود ان کے لئے تعجب کا سبب نہیں بن سکتا ۔

سیف نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا اور اس کادعویٰ کیا ہے وہ سب تاریخی حقائق کے بر خلاف ہے ۔ہم نے گزشتہ بحث میں خاص کر''زیاد''کے افسانہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیاہے۔

جندی شاپور کی صلح کاافسانہ

طبری نے سیف سے نقل کرکے ١٧ھکے حوادث کے ضمن میں ''شوش''کی فتح کے بارے میں لکھاہے :

''زر''نے اس سال نہاوند کامحاصرہ کیا اور

اس کے بعد ایک دوسری حدیث میں سیف سے نقل کرکے لکھتاہے :

عمر نے ایک تحریری فرمان کے ذریعہ ''زر''کو حکم دیا کہ ''جندی شاپور ''کی طرف لشکرکشی کرے۔''زر''نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جندی شاپور پرچڑھائی کی اور اسے اپنے محاصرہ

۲۳۵

میں لے لیا.....

ایک دوسری حدیث میں ذکر کیا ہے :

صحابی ''ابوسبرہ'' ( ۱) نے حکم دیا کہ '' زر و مقترب ''جندی شاپور پرلشکر کشی کریں اور خود بھی شوش کو فتح کرنے کے بعد اپنا لشکر لے کران کی طرف بڑھااور اس وقت وہاں پہنچا جب زر نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا ۔

اسی حالت میں کہ جندی شاپور اسلام کے سپاہیوں کے محاصرہ میں تھا اور مسلمان وہاں کے لوگوں سے جنگ میں مصروف تھے ، انھوں نے ایک دن دیکھا کہ اچانک قلعہ کے دروازے کھل گئے

____________________

v ۱)۔ ابو سبرہ بن ابی رہم عامری قرشی نے اسلام کی تمام ابتدائی جنگوں میں شرکت کی ہے '' ابو سبرہ'' نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مکہ میں رہائش اختیار کی اور عثمان کی خلافت کے دوران وہیں پر وفات پائی ۔ '' استیعاب ٨٢٤، اسد الغابہ ٢٠٧٥ اور اصابہ ٨٤٤۔

۲۳۶

اور لوگ خوشی خوشی اور کھلے دل سے عرب جنگجوئوں کا استقبال کرنے لگے اور بازار کے دروازے بھی ان کے لئے کھول دیئے ۔

مسلمانوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا ، تو ایرانیوں نے جواب دیا :

تم لوگوں نے قلعہ کے اندر ایک ایسا تیرے پھینکا جس کے ساتھ امان نامہ تھا ہم نے آپ کے امان نامہ کو قبول کیا ۔

مسلمانوں نے کہا:

ہم نے ایسا کوئی امان نامہ تمھارے پاس نہیں بھیجا ہے !

اس کے بعد تحقیق کرنے لگے تومعلوم ہوا کہ مکنف نامی ایک غلام نے یہ کام کیا تھا ، وہ خود بھی جندی شاپو ر کا باشندہ تھا۔ اس کے بعد ایرانیوں سے کہا: یہ مرد ایک غلام تھا ، اس کے امان نامہ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ ایرانیوں نے جواب میں کہا :

ہم تمھارے غلام اور آزاد کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دی ہم نے اسے قبول کیا اور ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے اب یہ آپ کا کام ہے ، اگر چاہیں ہو تو خیانت کر سکتے ہیں ؟!

ایرانیوں کے اس قطعی جواب کی وجہ سے مسلمان مجبور ہوئے اوروظیفہ واضح ہونے کے لئے اس سلسلے میں خلیفہ عمر کو خبر دی تاکہ وہ اس سلسلہ میں حکم فرمائیں ، اس دوران ایرنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ عمر نے مکنف کے امان نامہ کو قبول کیا اور اس طرح جندی شاپور کے لوگ مکنف کی پناہ میں آگیا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ نہیں کیا !

جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، اس داستان کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے جندی شاپور کی صلح کے بارے میں اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے ۔ اور ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں روایت کے منبع کا ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب عبد اللہ ابن سبا کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان دانشوروں نے وہ روایات اور واقعات جو بہر صورت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے مربوط ہیں ، بلا واسطہ اور براہ راست طبری سے نقل کئے ہیں اور انھوں نے اس مطلب کی اپنی کتابوں کی ابتدا ء میں وضاحت کی ہے ۔

۲۳۷

حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں جندی شاپور کے سلسلے میں لکھی گئی ایک تشریح کے ضمن میں اسی روایت کو لکھ کر اس کے آخر میں یوں رقم طراز ہے :

عاصم بن عمرو نے ( وہی سورما جس کے حالات اسی کتاب کی پہلی جلد میں لکھے گئے ) مکنف کے اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم !مکنف کی رشتہ داری صحیح تھی اس نے ہرگز اپنے شہریوں کے ساتھ قطع رحم نہیں کیا !!

اشعار کو اپنی جگہ پر ہم نے آخر تک درج کیا ہے ۔ حموی اپنی بات کی انتہا پر کہتا ہے کہ اس مطلب کو سیف بن عمر نے کہا ہے ۔

اسی داستان کو حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض لمعطار '' میں درج کیا ہے۔

جندی شاپور کی داستان کے حقائق

جندی شاپور کی صلح کے بارے میں جو داستان سیف بن عمر نے گڑھی ہے اور دوسرے مؤلفین نے بھی اسے نقل کیا ہے ، اس پر بحث ہوئی ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دوسروں نے کیا کہا ہے:

بلاذری کہتا ہے :

شوشتر کو فتح کرنے کے بعد ابو موسیٰ اشعری نے جندی شاپور کی طرف فوج کشی کی ۔چونکہ جندی شاپور کے باشندے مسلمانوں کے حملے کے بارے میں سخت پریشان اور مضطرب تھے ۔اس لئے انہوں نے قبل ازوقت امان کی در خواست کی اور اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔ ابوموسیٰ اشعری نے بھی جندی شاپور کے باشندوں سے معاہدہ کیا کہ جنگ کے بغیرہتھیار ڈالنے کی صورت میں ان کی جان، مال اور آزادی اسلام کی پناہ میں محفوظ ہوں گے ۔

یہ وہ روایت ہے جسے بلاذری نے جندی شاپور کی فتح کے بارے میں اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔خلیفہ بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)اور ذہبی (وفات ٧٤٨ھ )نے بھی خلاصہ کے طور پر اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے بھی دونوں روایتوں کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیا ہے۔

۲۳۸

ان دو کی روایتوں کا مختصر موازنہ

مورخین نے لکھا ہے کہ جندی شاپور کی صلح کا سبب مسلمانوں کے حملہ سے ایرانیوں کا خوف وحشت تھا ، ئہ یہ مطلب جو سیف کہتا ہے کہ : یہ امان ایک ایر انی الاصل غلام مکنف کی وجہ سے ملا ہے ، اور ا س ا ما ن نامہ کو قبول یا ر د کرنے کے سلسلے میں ا ختلا ف پید ا ہونے پر خلیفہ عمر نے اس کی تائید کی ہے

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ جندی شاپور کی جنگ میں سپہ سالار اعظم '' ابو موسیٰ اشعری'' یمانی قحطانی تھا نہ جیسا کہ سبرہ قرشی عدنانی ،جسے سیف بن عمر تمیی نے معین کرکے زر اور اسود نامی دو جعلی اصحاب بھی اس کی مدد کے لئے خلق کئے ہیں :

سیف کہتا ہے :

زر بن کلیب اور مقترب کو خلیفہ عمر نے اپنے ایلچی کے طور پر بصرہ کے گورنر نعمان کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعہ نعمان کو یہ پیغام دیا :

میں نے تجھے ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے انتخاب و مامور کیا ہے اس سلسلے میں اقدام کرنا ۔

لیکن بلاذری اس سلسلے میں لکھتا ہے:

۲۳۹

خلیفہ عمر نے سائب بن اقرع ثقفی(۱) کے ہاتھ نعمان کے نام ایک خط بھیجا اور اسے ایرانیوں سے جنگ کرنے کی ماموریت دی ۔ اس کے علاوہ حکم دیا کہ جنگی غنائم کی ذمہ داری سائب بن اقرع کو سونپی جائے ۔

زر ،فوجی کمانڈر کی حیثیت سے

سیف نے نہاوند کی جنگ کی روایت کے ضمن میں لکھا ہے:

خلیفہ عمر نے اہواز و فارس میں معین کمانڈرروں سلمی ، حرملہ ، زر بن کلیب اور متقرب وغیرہ کو لکھا کہ ایرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کو روک لیں اور انھیں مسلمانوں اور امت اسلامیہ کی سر زمین پر نفوذ کرنے کی اجازت نہ دیں ، اور میرے دوسرے فرمان کے پہنچنے تک ایرانیوں کو نہاوند کی جنگ میں مدد پہنچانے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے فارس اور اہواز کی سر حدوں پر چوکس رہیں ۔

خلیفہ کے فرمان کو اس وقت عملی جامہ پہنایا گیا جب مذکورہ چار صحابی اور پہلوان اصفہان اور فارس کی سرحدوں کے نزدیک پہنچ چکے تھے اور اس کے نتیجہ میں وہ نہاوند میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کو رسد اور امداد پہنچانے میں رکاوٹ بنے !!

____________________

الف )۔ سائب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا ، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھیرکر اس کے حق میں دعا کی تھی ۔ سائب نے عمر کا خط نعمان مقرن کو پہنچادیا اور خود نہاوند کی جنگ میں شرکت کی سائب عمر کی طرف سے اصفہان اور مدائن کا گونر بھی رہا ہے ۔ '' اسد الغابہ ٢٤٩٢''

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307