انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146066 / ڈاؤنلوڈ: 4865
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

امام صادق ں سے ملاقات کی ۔حضرت نے اس سے پوچھا:''کون سی چیز تمھارے یہاں آنے کاسبب بنی ہے؟''

اس نے جواب میں کہا:''عادت اور ہم وطنوں کی پیروی ،تاکہ لوگوں کی دیوانگی،سر منڈوانے اور پتھر مارنے سے عبرت حاصل کروں ''۔

حضرت نے فرمایا:''کیا ابھی تک گمراہی اور بغاوت پر باقی ہو؟!''

ابن ابی العوجا امام سے کچھ کہنے کے لئے آگے بڑھا ،حضرت نے اپنی ردا کو اس کے ہاتھ سے کھینچتے ہوئے فرمایا:''لاٰجِدٰالَ فِی الْحَجِّ ''(۱) (حج میں جھگڑا ممنوع ہے)۔

اس کے بعد فرمایا:''اگر وہ بات صحیح ہو جوتم کہتے ہو جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے تو ہم دونوں آخرت میں یکساں ہوں گے ۔لیکن اگر وہ صحیح ہو جو ہم کہتے ہیں جب کہ بیشک یہی صحیح ہے تو ہم آخرت میں کامیاب ہوں گے اور تم ہلاک ونابود ہوگے''۔ ٢٥

ایک اور روایت میں یوں آیا ہے:ایک دفعہ ابن ابی العوجا اور اس کے تین ساتھیوں نے مکہ میں آپس میں ایک منصوبہ بنایا کہ قرآن مجید کی مخالفت کریں ۔ہر ایک نے قرآن مجید کے ایک حصہ کی ذمہ داری لے لی کہ اس کے مثل عبارت بنائیں گے۔

دوسرے سال چاروں آدمی مقام ابراہیم کے پاس جمع ہوئے۔ان میں سے ایک نے کہاکہ''جب میں قرآن مجید کی اس آیت پر پہنچا ،جہاں کہاگیاہے: ی( ٰا أَرْضُ ابْلِعِی مٰائَکِ وَیٰا سَمٰائُ أَقْلِعِی وَغِیضَ الْمٰائُ وَقَضَی الْاَمْرُ ) (۲) ''اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پانی زمین میں

____________________

۱)۔ بقرہ ١٩٧

۲)۔ ہود٤٤

۶۱

جذب ہو گیااور خدا کا حکم انجام پاگیا''تومیں نے دیکھا کہ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس سے مقابلہ کیا جاسکے ، لہٰذا میں نے قرآن سے مقابلہ کرنے کاارادہ ترک کردیا''

دوسرے نے کہا:جب میں اس آیت پر پہنچا: ''( فَلَمّٰا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیّٰاً'' ) (۱) ''پس جب وہ لوگ اس سے مایوس ہوگئے تو اسے چھوڑکر چلے گئے '' تو میں قرآن سے مقابلہ کرنے سے ناامید ہوا۔

وہ یہ باتیں اسرار کے طور پر چپکے چپکے ایک دوسرے سے کررہے تھے کہ اسی اثناء میں حضرت امام صادق ں نے ان کے نزدیک سے گزرتے ہوئے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

( ''قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِ هٰذٰا الْقُرْآنِ لاٰیَأْتُونَ بِمِثْلِهِ ) ''(۲) ''آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے''

انہوں نے سر اٹھاکے حضرت کو دیکھا اور قرآن مجید کی آیت میں حضرت کی زبانی اپنے اسرار فاش ہوتے دیکھ کر انتہائی تعجب وحیرت میں پڑگئے۔ ٢٦

مفضل بن عمر کہتاہے :''میں نے مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ایک شخص کو ابن ابی العوجا سے یہ کہتے ہوئے سنا :''عقلمندوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے ان کی دعوت قبول کی،اور اذان میں ان کا نام خدا کے نام کے ساتھ قرار پایاہے''۔ابن ابی العوجاء نے جواب میں کہا:''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں بات کو مختصر کرو،میری عقل ان کے بارے میں پریشان ہے ۔اور ایسی کسی اصل کو بیان کرو جسے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے ہوں '' ٢٧

____________________

۱)۔یوسف ٨٠

۲)۔بنی اسرائیل٨٨

۶۲

ابن ابی العوجاء کی گفتگو اور مناظروں کے یہ چند نمونے تھے ۔

اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں کتاب ''لسان المیزان''میں آیاہے: ٢٨

''وہ بصرہ کارہنے والاتھا۔دوگانہ پرستی کے عقیدہ سے دوچار ہوا۔بوڑھوں اور جوانوں کو دھوکہ دے کر گمراہ کرتاتھا۔اس لئے عمرو بن عبید نے اسے دھمکایا وہ ان دھمکیوں کی وجہ سے کوفہ کی طرف بھاگ گیا۔کوفہ کے گورنر محمد سلیمان نے اسے پکڑکر قتل کرڈالا اور اس کے جسد کو سولی پر لٹکادیا''۔

اس کی گرفتاری اور قتل کے واقعہ کو طبری نے ١٥٥ہجری کے حوادث کے طور پر یوں بیان کیاہے:

''کوفہ کے گورنر محمد بن سلیمان نے عبد الکریم بن ابی العوجاء کو زندیقی ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا ۔بہت سے لوگوں نے منصور کے پاس جا کر اس کی شفاعت کی ،جس نے بھی اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا اور بات کی وہ خود زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرا ۔منصور نے مجبور ہوکر کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ خلیفہ کا قطعی حکم صادر ہونے تک ابن ابی العوجاء کے ساتھ کچھ نہ کرے اور اس کے معاملہ میں دخل نہ دے ،ایسا لگتا ہے کہ ابن ابی العوجاء اپنے طرفداروں کے اقدامات سے با خبر تھا لہٰذا اس نے خلیفہ کے خط کے پہنچنے سے پہلے گورنر سے تین دن کی مہلت مانگی اور ایک لاکھ دینار بطور رشوت دینے کا وعدہ بھی کیا ۔ جب یہ درخواست اور تجویز گورنر کو ملی تو اس نے خلیفہ کا خط پہچنے سے پہلے ہی اس کے قتل کا حکم دے دیا جب ابن ابی العوجاء کو اپنی موت کے بارے میں یقین ہو گیا تو اس نے کہا : خدا کی قسم تم مجھے قتل کر رہے ہو لیکن جان لو کہ میں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں تمھارے درمیان منتشر کر دیا ہے اور ان کے ذریعہ حلال کو حرام ،اور حرام کو حلال کر دیا ہے ۔خدا کی قسم میں نے تم لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ جس دن روزہ رکھتے تھے افطار کرو اور جس دن افطار کرتے تھے روزہ رکھو''٢٩

۶۳

کاش !مجھے معلوم ہوتا کہ جن احادیث کو اس زندیق نے جعل کیا ہے ،کون سی احادیث ہیں ، ان کی روئیداد کیا ہے اور وہ کن کتابوں میں درج کی گئی ہیں ۔اگر اس زندیق نے اپنی زندگی سے نا امید ہوتے وقت اعتراف کیا ہے ،کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ،تو دیگر غیر معروف زندیقیوں کے ذریعہ جعل اور مکتب خلفاء کی مورد اعتماد کتابوں میں درج ہونے والی احادیث کی تعداد کتنی ہوگی؟

٣۔مطیع ابن ایاس

ابو سلمی مطیع ابن ایاس(۱) اموی اور عباسی دور کے شعراء میں سے تھا ۔وہ کوفہ میں پیدا ہوا تھا اور وہیں پرورش پائی تھی۔مطیع ایک ظریف طبع، بد فطرت اور بے حیا شاعرتھا۔ وہ اپنے اشعار میں اپنے باپ کو بے حیائی کے ساتھ بر ابھلا کہہ کر اس کا مضحکہ اڑاتا تھا ، اس لئے اس کے باپ نے اسے ملعون اور عاق کر دیا تھا۔٣٠

مطیع نے اپنی شہرت کے آغاز میں اموی خلیفہ عمر ابن یزید ابن عبد الملک کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی مدح سرائی کی اور اپنے آپ کو اس کے ہاں معزز بناکر دس ہزار درہم کا انعام حاصل کیا.عمر نے اس کا تعارف اپنے بھائی ولید بن عبد الملک سے کرایا۔مطیع نے ولید کے حضوراس کی مدح میں تین شعر پڑھ کر سنائے اور ولید وجد میں آگیا اور اس کی پاداش میں اس نے مطیع کو ایک ہفتہ تک

____________________

۱)۔اس کا باپ ابو قراعہ ،ایاس بن سلمی کنانی ،فلسطین کا رہنے والاتھا ،عبدالملک ابن مروان نے ابو قراعہ کو چند لوگوں کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی مدد کے لئے کوفہ بھیجا ۔ابو قراعہ نے کوفہ میں ہی رہائش اختیار کی اور وہاں پر ام مطیع سے شادی کی ( ملاحظہ ہو '' اغانی'' ج١٢ص٨٦ ؛اور تاریخ بغداد تالیف خطیب ج٣ص٢٢٣و٢٢٤)

۶۴

اپنی می نوشی کی محفل میں اپنا ہم نشین بنایا.اس کے بعد اس کے لئے بیت المال سے ایک دائمی وظیفہ مقرر کیا. اس طرح اموی خلافت کے دربار میں مطیع نے راہ پائی اور حکومت کے ارکان اور اہل کاروں کا ہمدم بن گیا۔

مطیع،یحییٰ بن زیاد حارثی،(۱) ابن مقفّع اور والبہ آپس میں جگری دوست تھے اور دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے حتیٰ وہ ایک دوسرے کی ہر قسم کی خواہش کو پوری کرنے میں کسی قسم کی دریغ نہیں کرتے تھے۔اور ان سب پر مانوی مذہب کے پیرو کار اور زندیقی ہونے کا الزام تھا۔ ٣١

بنی امیہ کے خاتمہ اور عباسی خلافت کے آغاز میں مطیع، عبد اللہ ابن معاویہ(۲) سے جاملا۔ اس وقت عبد اللہ ایران کے مغربی علاقوں کا حاکم تھا، مطیع اس کا ہمدم اور ہم نشین بن گیا۔عبد اللہ اور اس کی پولیس کے افسر جو ایک دہریہ اور منکر خدا تھا کے ساتھ مطیع کی اس ہم نشینی اور دوستی کے بہت سے قصے موجود ہیں ۔

عباسیوں کی حکومت میں مطیع ، پہلے منصور کے بیٹے جعفر کا ہم نشین بنا. چونکہ منصور نے اپنے بھائی مہدی کی جانشینی کے لئے لوگوں سے بیعت لے لی تھے. اس لئے جعفر اپنے باپ سے ناراض تھا. جشن بیعت کے دن بہت سے مقررین اور شعرا نے اپنے بیانات اور اشعار پڑھ کے داد سخن حاصل کی. مطیع بھی اس محفل میں حاضر تھا، اس نے بھی اس مناسبت سے شعر پڑھے، اپنے اشعار کے اختتام پر مطیع نے منصور کی طرف رخ کرکے کہا: اے امیر المومنین ! فلاں نے فلاں سے ....ہمارے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''مہدی موعود، محمد ابن عبد اللہ ہے کہ اس کی والدہ ہم میں نہیں ہے، وہ روی زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھری

____________________

۱): کہا جاتا ہے کہ یحییٰ ، عباسیوں کے پہلے خلیفہ ابو العباس سفاح کا ماموں زاد بھائی تھا۔ یحییٰ ایک بد کار اور بیہودہ شاعر تھا۔

۲): عبد اللہ بن معاویہ ، جعفر ابن ابیطالب کا بیٹا تھا جو اصفہان ، قم، نہاوند اور ایران کے دیگر مغربی شہروں کا حاکم تھا۔ وہ اور اس کی پولیس کا افسر ، قیس بن عیلان ،لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے (اغانی،ج١٢،ص٧٥۔٨٥)

۶۵

ہوگی، اور یہ آپ کا بھائی عباس بن محمد بھی اس بات کا گواہ ہے''.(۱) اس کے فورا بعد عباس کی طرف رخ کرکے کہا: ''میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم نے بھی یہ بات نہیں سنی ہے؟'' عباس نے منصور کے ڈر سے ہاں کہہ دی اس تقریر کے بعد منصور نے لوگوں کو حکم دیا کہ مہدی کی بیعت کریں ۔ جب محفل بر خواست ہوئی تو عباس نے کہا: ''دیکھا تم لوگوں نے کہ اس زندیق نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ اور تہمت باندھی اور صرف اسی پر اکتفا نہین کی بلکہ مجھے بھی گواہی دینے پر مجبور کیا، میں نے ڈرکے مارے گواہی دیدی اور جانتا ہوں جس کسی نے میری گواہی سنی ہوگی ، وہ مجھے جھوٹا سمجھے گا''۔ جب یہ خبر جعفر کو پہنچی تو وہ آگ بگولا ہوگیا. جعفر ایک بے شرم اور شراب خوار شخص تھا۔ ٣٢

چونکہ مطیع کا زندیقی ہونا زبان زد خاص و عام تھا، اس لئے عباسی خلیفہ منصوریہ پسند نہیں کرتاکہ اس کا بیٹاجعفر ، مطیع کا ہمدم اور ہم نشین بنے.لہٰذا ایک دن منصور نے مطیع کو اپنے پاس بلاکر اس سے کہا : کیا تم اس پر تلے ہو کہ اپنی ہم نشینی سے جعفر کو فاسد اور بد کار بناؤاور اسے اپنے مذہب ، یعنی زندیقیت کی تعلیم دو؟! ''

مطیع نے جواب میں کہا: ''نہیں ، خلیفہ !ایسا نہیں ہے.آپ کا فرزند ، جعفر اپنے زعم میں جنیوں کی بیٹی کا عاشق ہوگیا ہے۔ اس لئے اس سے شادی کرنے کے لئے اصرار کر رہا ہے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے تعویض نویسوں اور رمّالوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے اور وہ بھی اس اہم مسئلہ کے لئے سخت کوشش میں ہیں ، اس حساب سے جعفر کے ذہن میں کفر و دین، مذاق و سنجیدگی جیسی چیزوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں رہ گئی ہے کہ میں اسے فاسد بناؤں ''

منصور چند لمحوں کے لئے سوچ میں ڈوب گیا، اس کے بعد بولا:'' اگر یہ بات سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو تو جتنی جلد ہو سکے اس کے پاس واپس جائو اور اپنی ہو شیاری ،نگرانی ،اور ہم نشینی سے جعفر کو

____________________

۲):اس طرح مطیع نے ایک حدیث جعل کی تا کہ ثابت کرے کہ منصور عباسی کا بیٹا محمد ، وہی اسلام کا مہدی موعود ہے.

۶۶

اس سے روکو''٣٣

حماد عجرد اور اس کی معشوقہ نیز یحیٰ بن زیاد اور اس کی معشوقہ کے ساتھ مطیع کی بہت سی داستانیں مشہور ہیں اس کے اکثر اشعار گانے والی عورتوں کے بارے میں ہیں ٣٤ ان میں سے وہ ''جوہر'' نام کی ایک مغنیہ کے بارے میں کہتا ہے:

''نہیں !خدا کی قسم مھدی کو ن ہے وہ تو تیرے ہوتے ہوئے مسند خلافت پر بیٹھے ؟ اگر تو چاہے تو منصور کے بیٹے کو خلافت سے اتار نا تیرے لئے آسان ہے ''

جب مطیع کا یہ شعر خلیفہ عباسی مھدی کو سنایا گیا ،تو اس نے ہنس کر کہا: ''خدا اس پر لعنت کرے ! جتنی جلد ممکن ہو سکے ان دونوں کو آپس میں ملا دو ،اس سے پہلے کہ یہ فاحشہ مجھے تخت خلافت سے اتاردے ''٣٥

کتاب ''اغانی'' کے مؤلف نے مطیع کی بیہودگیوں اور بے حیائیوں کی بہت ساری داستانیں نقل کی ہیں من جملہ یہ کہ :

'' ایک دفعہ یحیٰ،(۱) مطیع اور ان کے دوسرے دوست ایک جگہ جمع ہو کر مسلسل چند روز تک شراب نوشی میں مشغول رہے ۔ایک رات یحیٰ نے اپنے دوستوں سے کہا: افسوس ہو تم پر !ہم نے تین دن سے نماز نہیں پڑھی ہے اٹھو تماز پڑھیں ،مطیع نے محفل میں حاضر مغنیہ سے کہا تو سامنے کھڑی ہو جااور ہماری امامت کر ،یہ عورت صرف ایک نازک باریک اور خوشبو دار اندرونی لباس پہنے ہوئے تھی اور نیچے شلوار بھی نہیں پہنے تھی ان کے سامنے امامت کے لئے کھڑی ہو گئی اور جب وہ سجدے میں گئی ...مطیع نے نماز کو توڑ کر بے حیائی سے بھر پور چند شعر پڑھے ،جن کو سن کر سبوں نے اپنی نماز

____________________

۱)۔یحیٰ بن زیاد حارثی منصور کا ماموں تھا اور بنی الحرث بن کعب میں سے تھا ،اغانی ١٤٥١١۔اور مھدی کی سفارش پر منصور نے اسے اہواز کے علاقوں کا گورنر منصوب کیا تھا۔اغانی ٨٨١٣

۶۷

توڑ دی اور ہنستے ہوئے پھر سے شراب پینے میں مشغول ہو گئے'' ٣٦

مطیع نے ایک تاجر جو کوفہ میں اس کا دوست بن گیا تھا کو فاسد اور گمراہ بنا دیا تھا ۔ ایک دن یہ تاجر مطیع سے ملا اور مطیع نے اس سے کہا : اس کا دستر خوان شراب اور مختلف کھانوں سے پر اور آمادہ ہے اس کے بعد اسے دعوت دی کہ ان کی محفل میں شرکت کرے اس شرط پر کہ خدا کے فرشتوں کو پرا بھلا کہے !چوں کہ اس تاجر کے دل میں تھو.ڑی سی دینداری موجود تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا : خدا تم لوگوں کو اس عیش و عشرت سے محروم کرے !تم نے مجھے ذلت و رسوائی میں پھنسا دیا ہے ۔یہ کہہ کر یہ تاجر مطیع سے دور ہو گیا راستے میں حماد سے اس کی ملاقات ہوئی تاجر نے مطیع کی داستان اسے سنادی ۔حماد نے جواب میں کہا: مطیع نے اچھا کام نہیں کیا ہے جس کا مطیع نے تجھ سے وعدہ کیا تھا میں اس سے دوبرابر نعمتوں سے مالا مال دسترخوان سجا کر تجھے دعوت دیتا ہوں لیکن اس شرط

پر کہ خدا کے پیغمبروں کو دشنام دو کیوں کہ فرشتوں کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ہم انھیں دشنام دیں بلکہ یہ پیغمبر ہیں جنھوں نے ہمیں مشکل اور سخت کام پر مجبور کیا ہے !تاجر اس پر بھی برہم ہوا اور اس پر نفرین کر

۶۸

کے چلا گیا اور یحیٰ بن زیاد کے پاس پہنچا اس سے بھی وہی کچھ سناجو مطیع اور حماد سے سنا تھا اس لئے تاجر نے اس پر بھی لعنت بھیجی ۔

بالآخر تینوں افراد نے اس تاجر کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنی شراب نوشی کی بزم میں کھینچ لیا سب ایک ساتھ بیٹھے ۔شراب پینے میں مشغول ہوئے ۔تاجر نے ظہر وعصر کی نماز پڑھی جب تاجر پر شراب نے پورا اثر کرلیا تو مطیع نے اس سے کہا :فرشتوں کو گالیاں دو ورنہ ہماری بزم سے چلے جاؤ تاجر نے قبول کیا اور فرشتوں کو گالیا دیں ،پھر یحیٰ نے اس سے کہا: پیغمبروں کو گالیاں دو ورنہ یہاں سے چلے جائو اس نے اطاعت کرتے ہوئے پیغمبروں کو بھی گالیاں دیں ۔اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ:اب تمھیں نماز بھی چھوڑنا پڑے گی ورنہ یہاں سے چلے جانا پڑے گا ۔تاجر نے جواب میں کہا : اے حرام زادو !اب میں نماز بھی نہیں پڑھوں گا اور یہاں سے بھی نہیں جائوں گا اس کے بعد جو کچھ اس سے کہا گیا اس نے اسے انجام دیا۔٣٧

ایک دن مطیع نے یحیٰ کو خط لکھا اور اسے دعوت دی کہ اس کی بزم شراب نوشی میں شرکت کرے ۔کہتے ہیں کہ اس روز عرفہ تھا وہ لوگ روز عرفہ اور شب عید صبح ہونے تک شراب پینے میں مشغول رہے ،اور عید قربان کے دن مطیع نے حسب ذیل (مضمون )اشعار پڑھے :

۶۹

'' ہم نے عید قربان کی شب مئے نوشی میں گزاری جب کہ ہمارا ساقی یزید تھا ۔ہم نشینوں اور ہم پیالوں نے آپس میں جنسی فعل انجام دیا اور ایک دوسرے پر اکتفا کی اور...وہ ایک دوسرے کے لئے مشک وعود جیسی خوشبو تھے ''(۱)

بے شرمی اور بے حیائی کے یہ اشعار لوگوں میں منتشر ہوئے اور آخر کار سینہ بہ سینہ عباسی خلیفہ مہدی تک پہنچے ،لیکن اس نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دکھایا۔

اسی طرح اس نے درج ذیل اشعار (مضمون ) کے ذریعہ عوف بن زیاد کو اپنی مئے گساری کی بزم میں دعوت دی ہے : اگر فساد و بد کاری چاہتے ہو تو ہمای بزم میں موجود ہے ...''٣٨

ایک سال مطیع اور یحیٰ نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور کاروان کے ساتھ نکلے راستہ میں زرارہ کے کلیسا کے پاس پہنچے تو اپنا ساز و سامان کا روان کے ساتھ آگے بھیج دیا اور خود شراب نوشی کے لئے کلیسا میں داخل ہو گئے تاکہ دوسرے دن کاروان اوراپنے سازوسامان سے جا ملیں گے لیکن وہ مئے

نوشی میں اتنے مست ہوئے کہ ہوش آنے پر پتا چلا کہ حجاج مکہ سے واپس آرہے ہیں !اس لئے حاجیوں کی طرح اپنے سرمنڈواکر اونٹوں پر سوار ہو کر کاروان کے ہمراہ اپنے شہر کی طرف لوٹے۔

اس قضیہ سے متعلق مطیع نے یہ اشعار کہے ہیں :

''تم نے نہیں دیکھا : میں اور یحییٰ حج پر گئے ،وہ حج جس کی انجام دہی بہترین تجارت

____________________

۱)۔ہم نے مطیع سے انتہائی نفرت کے باوجود ان مطالب کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں کو واضح کئے بغیر سیف کے ماحول اور اس کی سرگرمیوں کو پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔

۷۰

ہے ہم خیر و نیکی کے لئے گھر سے نکلے ،راستہ میں زرارہ کے کلیسا کی طرف سے ہمارا گزر ہوا ۔لوگ حج سے مستفید ہوکر لوٹے اور ہم گناہ و زیان سے لدے ہوئے پلٹے''٣٩

اس کے علاوہ کتاب ''دیرہا'' تالیف الشابشتی ،میں مطیع سے مربوط چند اشعار حسب ذیل (مضمون کے) نقل کئے گئے ہیں :

'' ہم اس میخانے میں پادریوں کے ہم نشین اورمئے خواروں کے رقیب تھے اور زُنار میں بندھا ہوا آہو کا بچہ (کسی نوخیز لڑکے یا لڑکی سے متعلق استعارہ ہے ) ....میں نے اس بزم کے کچھ حالات تم سے کھل کر بیان کئے اور کچھ پردے میں بیان کئے!''

کہتے ہیں کہ مطیع قوم لوط کی بیماری میں مبتلا تھا ،ایک دفعہ اس کے چند رشتہ دار اس کے پاس آئے اور اسے اس نا شائشتہ اور غیر انسانی حرکت پر ملامت کرتے ہوئے کہا: حیف ہو تم پر !کہ قبیلہ میں اس قدر مقام و منزلت اور ادبی میدان میں اس قدر کمال کے حامل ہونے کے باوجود خود کو اس شرمناک اور ناپاک کام میں آلودہ کر رکھا ہے؟! اس نے ان کے جواب میں کہا: تم لوگ بھی ایک بار امتحان کرکے دیکھ لو!پھر اگر تمھارا کہنا صحیح ہو تو خود اس کام سے اجتناب کرکے ثابت کرو!! انھوں نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اس کے بعد اس سے منہ موڑ تے ہوئے کہا: لعنت ہو تیرے اس کام، عذر و بہانہ اور ناپاک پیش کش پر ۔(۱) ٤٠

مطیع ،بستر مرگ پر

ہادی عباسی کی خلافت کے تیسرے مہینے میں مطیع فوت ہوگیا اس کے معالج نے بستر مرگ

____________________

۱)۔مطیع کی ان بدکاریوں کے بارے میں اگر مزید تفصیلات معلوم کرنا ہو تو کتاب اغانی ٨٥١٢ ملاحظہ فرمائیں ۔اظہار نفرت کے باوجود ہم ان مطالب کا اس لئے ذکر کرتے ہیں کہ اس قسم کی بدکاریوں سے پردہ اٹھائے بغیر سیف کے زمانہ اورحالات کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۷۱

پر اس سے سوال کیا کہ تمھیں کس چیز کی آرزو ہے ؟ اس نے جواب میں کہا : چاہتا ہوں کہ نہ مروں ۔٤١

مطیع کے پسماندگان میں ایک بیٹی باقی تھی ۔چند زندیقیوں کے ہمراہ اسے ہارون رشید کے پاس لایا گیا ، اس نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا : یہی وہ دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے اور میں نے اس سے منھ موڑ لیا ہے ۔اس کی توبہ قبول کر لی گئی اور اسے گھر بھیج دیا گیا۔٤٢

یہ شاعر اس قدر بے شرمی ،بے حیائی اور بدکاری کے باوجود اموی اورعباسی خلفاء اور ان کے جانشینوں کے مصاحبین اور ہم نشینوں میں شمار ہوتا تھا !خطیب بغدادی اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے : مطیع خلیفۂ عباسی منصور اور اس کے بعد مھدی کے مصاحبین میں سے تھا۔٤٣

کتاب اغانی میں درج ہے کہ مھدی ،مطیع سے اس بات پر بہت راضی اور شکر گزار تھا کہ اس زمانے کے تمام خطیبوں اور شعراء میں وہ تنہا شخص تھا جس نے اس کے بھائی منصور کے سامنے ایک جھوٹی اور جعلی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مھدی وہی مھدی موعود ہے ۔

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ منصور کی پولیس کے افسر نے اسے رپورٹ دی کہ مطیع پر زندیقی ہونے کا الزام ہے اور خلیفہ کے بیٹے جعفر اور خاندان خلافت کے چند دیگر افراد کے ساتھ اس کی رفت و آمد ہے اور بعید نہیں ہے کہ وہ انھیں گمراہ کر دے ۔منصور کے ولی عہد مھدی نے خلیفہ کے پاس مطیع کی شفاعت کی اور کہا : وہ زندیقی نہیں ہے بلکہ بدکردار ہے ،منصور نے کہا: پس اسے بلا کر حکم دو کہ ان ناشائستہ حرکتوں اور بدکاریوں سے باز آجائے۔

۷۲

جب مطیع مھدی کے پاس حاضر ہوا ،مھدی نے اس سے کہا: اگر میں نہ ہوتا اور تمھارے حق میں گواہی نہ دیتا کہ تم زندیقی نہیں ہو تو تمھاری گردن جلاد کی تلوار کے نیچے ہوتی اس جلسہ کے اختتام پر مھدی کے حکم سے انعام کے طور پر سونے کے دو سو دینار مطیع کو دئے گئے ۔اس کے علاوہ مھدی نے بصرہ کے گورنر کو لکھا کہ مطیع کو کسی عہدہ پر مقرر کرے گورنر نے بصرہ کے زکوٰة کے مسئول کو بر طرف کرکے اس جگہ پر مطیع کو مامور کیا۔٤٤

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی کام یا کسی چیز کے سلسلے میں مھدی مطیع سے ناراض ہوا اور اس کی سر زنش کی ۔مطیع نے جواب میں کہا : جو کچھ میرے بارے میں تمھیں معلوم ہوا ہے اگر وہ صحیح ہو تو میرا عذر ،میری مدد نہیں کرے گا اور اگر جھوٹ اور حقیقت کے خلاف ہو تو یہ بیہودہ گوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ بات مھدی کے ذوق کو بہت پسند آئی اور اس نے کہا: اس طرز سے بات کرنے پر میں نے تجھے بخش دیا اور تیرے اسرار کو فاش نہیں کروں گا۔٤٥

زندیقیوں کے مطابق ضبط نفس اور ترک دنیا اور مطیع کی بے شرمی اور بے حیائی پر مبنی رفتار و کردار کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ،بلکہ مطیع کو عصر منصور کے مانویوں کے فرقۂ مقلاصیان سے جاننا مناسب اور بجا ہوگا ،کہ ابن ندیم اس فرقہ کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :وہ اس مذہب کے پیرئوں اور دین مانی کی طرف تازہ مائل ہونے والوں کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ ہر وہ کام انجام دیں جس کی مذہب ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسی گروہ کے لوگ سرمایہ داروں اور حکام وقت کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔٤٦

شائد مطیع زندیق اور اس جیسے دیگر بے شرم و بے حیا افراد مانی کی مقرر کردہ شریعت کی حد سے تجاوز کر گئے ہوں ،کیوں کہ اس نے معین کیا ہے کہ : جو بھی مانی کے دین میں آنا چاہتا ہو ،اسے شہوت ،گوشت ،شراب اور ازدواج سے پرہیز کرکے اپنے آپ کو آزمانا چاہئے ...اگر اس دین کو قبول کرنے کے اس امتحان میں پاس ہو سکا تو ٹھیک ،ورنہ اگر صرف مانی کے دین کو پسند کرتا ہو اور تمام مذکورہ چیزوں کو ترک نہ کر سکے ،تو مانی کی مقرر کردہ عبادت کی طرف مائل ہو اور صدیقین سے محبت کرکے مانی کے دین میں داخل ہونے کی آمادگی کا موقع اپنے لئے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔٤٧

۷۳

شائد یہ لوگ ،مانی کی طرف سے دی گئی اس دینی اجازت یا چھوٹ کی حد سے گزر کر انسانیت سے گر گئے اور بے شرمی و بے حیائی کے گڑھے میں جا گرے ہیں ۔

مطیع کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کے دوران ایک ایسی بات ہمارے سامنے آئی جو اس کے زندیقی ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور وہ داستان حسب ذیل ہے :

''مطیع کے پسماندگان میں صرف ایک بیٹی بچی تھی ۔ اسے چند زندیقیوں کے ہمراہ ہارون رشید کے پاس لایا گیا ۔مطیع کی بیٹی نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اپنے زندیقہ ہونے کا اعتراف کیا اور کہا: یہ وہی دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے ''

خلاصہ

مذکورہ بالاتین افراد اور ان کی رفتاروکردار ،زندیقیوں اور مانی کے پیرؤں کانمونہ تھا،جو سیف بن عمر کے زمانے میں مانویوں کی سرگرمیوں اور ان کے پھلنے پھولنے کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے ۔

ان میں کا پہلا شخص (عبداللہ بن مقفع )مانو یو ں کی کتابو ں کا ترجمہ کرکے مسلمانوں میں شائع کرتا ہے۔

دوسرا آد می (ابن ابی العوجائ)جو مستعد اور تیز طرار ہے.ہر جگہ حاضر نظر آتا ہے ،کبھی مکہ میں امام جعفر صادق کے ساتھ فلسفہ حج پر مناظرہ کرتا ہوا اور حاجیوں کے عقل وشعورپر مذاق اڑاتا نظر آتاہے اور کبھی مدینہ منورہ میں مسجد النبی میںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خداکی توہین کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی بصرہ میں نوجوانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تاکہ انھیں گمراہ کرے ۔اس طرح وہ ہر جگہ مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے اور تفرقہ اندازی اور ان کے افکار میں شک وشبہہ پیدا کرنے کی انتھک کوششوں میں مصروف دیکھائی دیتا ہے ۔

۷۴

تیسرا شخص (مطیع بن ایاس ) انتہائی کوشش کرتاہے کہ لاابالی ،بے شرمی وبے حیائی ،فسق و فجور اور بد کاری کواسلامی معاشرہ میں پھیلا کر لوگوں کوتمام اخلاقی وانسانی قوانین پائمال کرنے کی ترغیب دے ۔ان تمام حیوانی صفات کے باوجود عباسی خلیفہ مہدی اس بدکردار کی صرف اس لئے ستائش ،حمایت اور مدد کرتا ہے کہ اس نے اس کی بیعت کے سلسلے میں ایک حدیث جعل کی تھی۔

اس نے اور اس کے دیگر دوساتھیوں نے علم و آگاہی کے ساتھ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی بنیادوں میں جان بوجھ کر دراڑ اور تزلزل پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھا۔بالآخر وہ بصرہ میں اپنے لئے قافیہ تنگ ہوتے دیکھ کر کوفہ کی طرف بھاگ جاتا ہے اور وہاں پر بھی بد کرداریوں کے وجہ سے گرفتار ہوکر زندان میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے بعد سزائے موت سے دوچار ہوتا ہے ۔

ان حالات میں وہ تمام لوگ جو اس کی شفاعت کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں زندیقی عقیدہ رکھنے کے متہم تھے اور انہو ں نے خلیفہ کو مجبور کیا تا کہ وہ کوفہ کے گورنر کے نام اس کو قتل کرنے سے ہاتھ روکنے کا حکم جاری کرے ،اور خلیفہ نے مجبور ہوکر ایسا ہی کیا۔لیکن خلیفہ کے اس حکم کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی اسے کیفر کردار تک پہنچادیا جاتاہے ۔جب وہ اپنے سر پر موت کی تلوار منڈ لاتے ہوے دیکھتا ہے اور اسے یقین ہو جا تا ہے کہ اب مرنا ہی ہے تو اس وقت اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے چار ہزار ایسی احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے رکھدیا ہے اور اس طرح لوگوں کو روزہ رکھنے کے دن افطار کرنے اور افطار کرنے کے دن روزہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے

۷۵

٤۔سیف بن عمر سب سے خطرناک زندیق

حدیث جعل کرنے والے زندیقیوں کی تعداد صرف اتنی ہی نہیں ہے ، جن کا ہم نے ذکر کیا بلکہ جو زندیقی اس کام میں سرگرم عمل تھے ،وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں ۔ابن جوزی اپنی کتاب ''الموضوعا ت ''میں لکھتا ہے :

''زندیقی دین اسلام کو خراب اور مسخ کرنے کے در پے تھے اور کوشش میں تھے کہ خدا کے بندوں کے دلوں مین شک و شبہہ پیدا کریں ۔لہٰذا انہوں نے دین کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنالیا تھا۔''

اس کے بعد ابن ابی العوجاکی داستان بیان کرتے ہوے آخر میں عباسی خلیفہ مہدی کی زبانی یوں نقل کرتا ہے کہ:

''ایک زندیق نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جو لوگوں میں ہاتھوں ہاتھ پھیل گئی ہیں ۔''

ان ہی زندیقیوں میں سے ایک ،شیخ کی کتاب کواٹھا کے چوری چھپے اس میں موجود احادیث میں تصرف کرکے قلمی خیانت کرتا تھا۔شیخ ان تصرف شدہ احادیث کو۔اس خیال سے کہ صحیح اور درست ہیں شاگردوں میں بیان کرتا تھا ۔اس کے علاوہ حماد ابن زید سے بھی روایت ہے کہ : زندیقیوں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں ۔

یہ قلمی خیانت سرکاری اور دربار خلافت کی مورد اعتبار کتابوں میں انجام پائی ہے ۔ہم آج تک نہیں جانتے کہ یہ احادیث کیا تھیں اور ان کا کیا ہو ا یہ دربار خلافت کی سرکاری کتابوں میں جو قلمی خیانت ہوئی ہے وہ کس قسم کی ہے !!البتہ سیف جس پر زندیق ہونے کا الزام تھا صرف اس کے بارے میں معلوم ہو سکا کہ اس نے بھی ہزاروں احادیث جعل کی ہیں ،ان پر کسی حد تک دست رس ہونے کے باوجود ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی کل تعداد کتنی ہے جب کہ سیکڑوں برس سے یہ احادیث تاریخ اسلام کے مؤثق مصادر و ماخذ کا حصہ شمار ہوتی آئی ہیں ۔

۷۶

سیف نے ان احادیث کو جعل کرکے تاریخ اسلام کو اپنے راستے سے منحرف کرنے اور جھوٹ کو حقیقت کے طور پرپیش کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔

اگر ابن ابی العوجاء نے صرف چار ہزار احادیث جعل کرکے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے ،تو سیف بھی اس سلسلے میں اس سے پیچھے نہیں ہے بلکہ اس نے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں جن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مومن ترین صحابیوں کو ذلیل ،کمینہ اور بے شرم و بے حیا بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں ظاہری طور پر اسلام لانے والوں اور بد ترین کذابوں کا تعارف متقی، پرہیز گار اور دیندار کے طورپر کرایا گیا ہے وہ اسلام کی تاریخ میں توہمات سے بھرے افسانے درج کرنے میں کامیاب رہا ہے تاکہ ان کے ذریعہ حقائق کو الٹا پیش کرکے مسلمانوں کے عقائد اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کے بارے میں منفی اثرات ڈالے ۔

اسلامی عقائد کو مخدوش کرنے کے سلسلے میں سیف اپنے مذکورہ زندیقی دوستوں کے قدم بقدم چلتا نظر آتا ہے جہاں مطیع نے حدیث جعل کرکے عباسی خلیفہ مھدی کی حمایت حاصل کی ،وہاں سیف نے بھی خلفاء اور وقت کے خود سر حکام کی حمایت اور پشت پناہی حاصل کرنے کے لئے ان کی تائید میں اور ان کے مخالفین کو کچلنے کے لئے احادیث جعل کیں ،تاکہ ان کی حمایت و حفا ظت کے تحت اپنی جھوٹی اور جعلی حدیث رائج کرسکے اور ان کے رواج کا سلسلہ آج تک جاری ہے !

سیف کے افکار و کردار پر زندقہ کا خاص اثر ہونے کے علاوہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تلا ہوا تھا ،خاندانی اور قبیلہ ای تعصبات بھی اس کے احادیث جعل کرنے میں مؤثر تھے یہ آئندہ کے صفحات میں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر شدید طور پر ان خاندانی تعصبات اور طرفداریوں کے اثر میں تھا ایک ایسے قبیلہ کا تعصب کہ خلفاء راشدین سے لے کر بنی امیہ اور بنی عباس تک تمام حکام وقت اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سیف نے اپنی جعل کردہ روایتوں کو رواج دینے کے لئے اسی تعصب کی طاقت سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔

سیف اور اس کے ہمعصر لوگوں پر اس قبیلہ ای تعصب کے اثرات کو بخوبی جاننے کے لئے ہم اگلے صفحات میں اس موضوع پر الگ سے ایک فصل میں قدرے تفصیل سے بحث و تحقیق کرنے پر مجبور ہیں ۔

۷۷

یمانی اور نزاری قبیلوں کے درمیان شدیدخاندانی تعصبات

واهج نزارا ًو افرجلد تها واکشف الستر عن مثالبها

اٹھو!اور نزاریوں کو دشنام دو ان کی چمڑی اتار لو اور ان کے عیب فاش کردو!

(یمانی شاعر)

وهتک الستر عن ذو ی یمن اولا د قحطان غیر ها ئبها

اٹھو !اور یمانیوں کی آبرو لوٹ لو اور قحطان کی اولاد سے ہرگز نہ ڈرو!

(نزاری شاعر)

تعصب کی بنیاد اور اس کی علامتیں

یمنی ،یعنی عربستان کے جنوب میں رہنے والے قبیلے ،قحطان ،وازد اور سبا کے نام سے مشہور تھے اور جزیرہ ٔ نمائے عرب کے شمال میں آباد قبیلے ،مضر ،نزاد ،معد اور قیس(۱) کے نام سے معروف تھے اور قریش ان ہی میں سے ایک قبیلہ تھا۔ آغاز اسلام سے اور خاص کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت اور یمانی اور نزار ی خاندانوں کے وہاں جمع ہونے کے بعد سے ہی ان کے افراد کے درمیان فخر و بر تری کے تصادم اور ٹکرائو نظر آتے ہیں ۔

اس تاریخ سے پہلے ، مدینہ میں اوس وخزرج نام کے دو قبیلے سکونت کرتے تھے۔یہ دونوں قبیلے ثعلبہ ابن کہلان سبائی یمانی قحطانی کی نسل سے تھے ۔ان دو خاندان کے درمیان سالہا سال جنگ وجدل ،قتل وغارت،خون ریزی اور برادر کشی کاسلسلہ جاری تھا اور وہ ایک لمحہ بھی ایک دوسرے کی دشمنی سے غافل نہیں رہتے تھے ۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ان دونوں قبیلوں کے درمیان صلح وصفائی کرائی اور چونکہ یہ سب لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور مدد کرتے تھے،اس لئے انہوں نے انصار کالقب پایا۔

____________________

۱)۔ان قبائل کے شجرۂ نسب کے بارے میں کتاب '' جمھرہ نساب العرب''٣١٠۔٣١١،اورکتاب اللباب سمعانی ملاحظہ فرمائیں

۷۸

شمالی علاقوں کے نزاری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے کئی گروہ جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مدینہ ہجرت کر کے آئے تھے وہ مہاجر کہلائے ۔اسلام نے مہاجر وانصار کو آپس میں ملایا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی ان دو قبیلوں کے افراد کے درمیان عقد اخوت اور بھائی چارے کے بندھن باندھے۔

تعصب کی پہلی علامت

دونوں قبیلے ایک مدت تک اطمینان وآرام کے ساتھ ایک دوسرے کااحترام کرتے ہوئے آپس میں زندگی بسر کررہے تھے۔یہاں تک کہ بنی المصطلق کی جنگ پیش آئی اور اس کے ساتھ ہی نزاریوں اور یمانیوں کے درمیان خاندانی تعصبات ،خود پرستی اور خود ستائی کا آغاز ہوا۔

مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگ میں جب پانی لانے پر معین افراد ،مریسیع(۱) کے پانی کے منبع پر پہنچے، تو جھجاہ بن مسعور(۲) ،جو عمر کے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھا،پانی پر پہنچنے میں سبقت لینے کی غرض سے دھکّم دھکاّ کرتے ہوئے سنان بن وبر جہنی جو قبیلہ خزرج کا طرفدار تھا سے جھگڑپڑے اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی ۔جھجاہ نے چیختے پکارتے بلند آواز میں مہاجرین کے حق میں نعرے لگائے اور ان سے مدد طلب کی ۔سنان نے بھی انصار کے حق میں نعرے بلند کئے اور ان سے امداد کی درخواست کی۔منافقین کا سردار وسرغنہ،عبد اللہ بن ابی سلول خزرجی،یہ ماجرا دیکھ کر مشتعل ہوا موقع کوغنیمت جان کر وہاں پر موجود اپنے قبیلے کے چند افرادکی طرف رخ کرکے کہنے لگا :''آخر کار انہوں نے اپنا کام کرہی دیا وہ ہم پر دھونس بھی جماتے ہوئے ہم پر اپنے ہی وطن میں بالادستی دکھاتے ہیں ۔خدا کی قسم !ان بے سہارا قریش کے ساتھ ہماری داستان آستین کا سانپ پالنے کے مانند ہے خدا کی قسم !اگر ہم مدینہ لوٹے تو شریف وباعزت لوگ کمینوں اور ذلیل افراد کو اپنے شہر سے باہر نکال دیں گے''۔پھر اپنے طرفداروں کی طرف رخ کرکے کہا:''یہ مصیبت تم لوگوں نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔اپنے شہر کو ان کے اختیار میں دیدیاہے اور اپنے مال ومنال کو ان کے درمیان برادرانہ طور پر تقسیم کیاہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے!خدا کی قسم !اگر تم اپنا مال ومنال انھیں بخشنے سے گریز

____________________

۱)۔مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر ایک پانی کا سرچشمہ تھا جس کے گرد قبیلہ خزاعہ کے کچھ لوگ زندگی بسر کرتے تھے وہ بنی مصطلق کے نام سے مشہور تھے۔غزوہ بنی مصطلق سنہ ٥یا ٦ ہجری میں واقع ہواہے ۔کتاب ''امتاع الاسماع''ص١٩٥ ملاحظہ ہو۔

۲)۔جھجاہ قبیلہ غفار سے تھا اور اس دن عمر کے پاس بعنوان مزدور کام کررہاتھا ،اسی لئے اس نے مہاجرین سے مدد طلب کی ہے۔ جھجاہ عثمان کے قتل کے بعد فوت ہواہے ۔کتاب ''اسدالغابہ '' ٣٠٩١ ملاحظہ ہو۔

۷۹

کروگے تو یہ لوگ خود بخود تمھارے وطن سے کہیں اور جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ان باتوں کے بارے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطلاع دی گئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت طلب کی گئی تاکہ عبد اللہ کو قتل کرڈالاجائے۔لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موافقت نہیں کی بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نرمی ،مہربانی اوحکمت عملی سے مسئلہ کو بخوبی حل کیا۔تدبیر کے طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوراً لشکر کو کوچ کرنے کاحکم دیا۔اس دن سپاہی دن رات مسلسل ومتواتر چلتے رہے ۔دوسرے دن جب صبح ہوئی اور سورج چڑھا تو گرمی کی شدت بڑھنے لگی اور سپاہیوں کا گرمی سے دم گھٹنے لگا،قریب تھا کہ سب کے سب تلف ہوجائیں ۔اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رُکنے اور آرام کرنے کاحکم دیا۔ سپاہی اتنے تھک چکے تھے کہ سواری سے اترتے ہی لیٹے اور بے حال ہو کر سوگئے ،اس طرح کسی میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ غرور وتکبر سے بیہودہ گوئی کرے ،اسی وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سورۂ منافقون نازل ہوا جس کی آٹھویں آیت میں فرماتاہے :

( ''یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَا اِلٰی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِه وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ'' ) (منافقون٨)

''یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ،ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے،حالانکہ ساری عزت اللہ ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان ایمان

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

امام محمد باقر نے پیغمبر سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(۱) ''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا:''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰه عَزّو جلّ خَالقُه'' مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:''کَلمةُ الخلاص هِی الفِطرَة'' (۲) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا

معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (۳)

اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کوسماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۱۳۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۰

(۳)سورہ نحل ۷۸۔

۱۴۱

ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔

تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(۱)

____________________

(۱)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔

۱۴۲

انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا

گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(۱) جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(۲) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟

''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(۳) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(۴) اور'' ابراہیم مزلو''(۵) کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(۶) کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(۷)

____________________

(۱) Watson

(۲) John Loke

(۳) Thomas Hobbes

(۴) Kart Rogers

(۵) Abraham Maslow

(۶) Jean Jacques Rousseau

(۷)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱۴۳

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔

۱۴۴

اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔

سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(۱) خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔

توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا

____________________

(۱)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج۲ ،ص ۱۲۔

۱۴۵

سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میں ا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیں ہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد

توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔

تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔

پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:

۱۴۶

بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(۱)

حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میں ذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(۲)

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔

سورہ نحل کی ۵۳ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ۶۵ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی

____________________

(۱)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج۶ ص ۹۳۴۔

(۲)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج۲ ص ۳۳۰ و ۳۳۱۔

۱۴۷

بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰهُم لَیٰ البَرِّ ِذَا هُم یُشرِکُونَ ) (۱)

پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔

( وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیهِ تَجئَرُونَ ) (۲)

اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔

اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔

تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ۳۰ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔

انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔

____________________

(۱)عنکبوت ۶۵۔

(۲)نحل ۵۳

۱۴۸

اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا

سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ( لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :

۱۴۹

( قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰهَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (۱)

یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت

اس واقعیت سے انکار نہیں ہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیں ہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا هُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً ) (۲)

''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اوررحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔

____________________

(۱)سورۂ شمس ۹ تا ۱۰۔

(۲)اسراء ۸۲۔

۱۵۰

اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے( قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِهِ ) (۱)

تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں '' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے

____________________

(۱)سورۂ اسراء ۸۴۔

۱۵۱

اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(۱)

____________________

(۱)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میں مختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔

۱۵۲

خلاصہ فصل

۱.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔

۲.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔

۳.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔

۴.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔

۵.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔

۶.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔

۷.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

۱۵۳

تمرین

۱.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟

۲.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟

۳.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟

۴.سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۵.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟

۶.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟

۷.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟

۸.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟

۹.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟

عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

۱۵۴

مزید مطالعہ کے لئے :

۱. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:

.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت

۲. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :

. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ۱۳۶۸) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

. نجاتی ، محمد عثمان ( ۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

۳. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ۳۶۹.۵۱۴.

۴. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:

. اسٹیونسن ، لسلی ( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد

. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۶۳) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ۱۳۷۲) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج۲ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

۱۵۵

۵. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد تہران : الزہراء ۔

(۱۳۶۳)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق

(۱۳۶۳)تفسیرموضوعی قرآن ، ج۵ ، تہران ، رجاء

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ج۳ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔

(۱۳۷۱)مجموعہ آثار ج۵ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔

.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ۱۳۶۸) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

۶. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :

.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ۱۱۰. ۱۱۸.

۷. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶) تفسیر موضوعی ، ج۵، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

.محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.(۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۹) مجموعۂ آثار ، ج۲ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۱۵۶

ملحقات

لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات

لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :

۱.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔

۲.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔

۳.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔

۴.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔

۵.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔

۱۵۷

۶.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔

۷.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(۱) معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔

۸.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میں حس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔

۹.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔

۱۰.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔

____________________

(۱) Imanuel Kant

۱۵۸

۲ ہدایت کے اسباب اور موانع

قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

۱. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔

۲. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔

۳. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔

قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔

۱۵۹

انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میں بالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(۱)

مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت

''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج۱ ص ۱۹۳۔۲۳۶۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307