انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145916 / ڈاؤنلوڈ: 4865
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ان کے جوابات کو فلسفی اور تجربی انسان شناسوں کی نگاہ سے ترتیب دیا ہے جس کو پروفیسر ''ونس پاکرڈ''نے ''عناصر انسان ''نامی کتاب میں پیش کیا ہے ،ہم ان سوالات میں سے دو مہم سوالوں کو جو انسان کی فطرت سے مربوط ہیںیہاں نقل کر رہے ہیں ۔(۱)

پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کی فطرت کیا ذاتاً اچھی ہے یا بری ہے یا نہ ہی اچھی ہے اور نہ ہی بری ؟

منفی نظریات

فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان ایک منفی اور مخالف سرشت کا مالک ہے اور وہ ایسے غرائزسے برانگیختہ ہوتا ہے جس کی جڑیں زیست شناسی سے تعلق رکھتی ہیں ۔ خاص طور سے جنسی خواہشات(۲) اور پر خاش گری کو(۳) فقط اجتماعی معاملات سے قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔

نظریہ تجربہ گرا کے حامی(۴) : (ہابز )کے لحاظ سے انسان فقط اپنی منفعت کی راہ میں حرکت کرتا ہے ۔

نظریہ سود خوری(۵) : (بنٹام ہیل) کے مطابق انسان کے تمام اعمال اس کی تلاش منفعت کا نتیجہ ہیں ۔

نظریہ لذت گرا کے نمائندے کہتے ہیں کہ(۶) : انسان لذت کے ذریعہ اپنی ضرورت حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور رنج سے دوچار ہونے سے فرار کرتا ہے ۔

____________________

(۱) Vance Pakard,The People Shapers,PP.۳۶۱,Biston,Toronto,۱۹۷۷

اس کتاب کو جناب حسن افشار نے ''آدم سازان '' کے عنوان سے ترجمہ اور انتشارات بہبہانی نے ۱۳۷۰میں منتشر کیا ہے اور ہم نے جناب حسن افشار کے ترجمہ کو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

(۲) sex

(۳) aggression

(۴) empiricists

(۵) utillitarians

(۶) hedonists

۱۶۱

نظریہ افعال گرایان کے حامی(۱) : (لورنز ) کا کہنا ہے انسان ذاتی طور پر برا ہے یعنی اپنے ہی ہم شکلوں کے خلاف ناراضگی کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے ۔

آرتھونلک کا ماہر نفسیات(۳) : (نیوبلڈ(۴) ): انسان کی ناراضگی کے سلسلہ میں اس گروہ کا نظریہ بھی عقیدہ افعال گرایان کے مشابہ ہے ۔

دوسرا سوال اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کا حیوانات سے جدا ہونا ماہیت کے اعتبار سے ہے یا مرتبہ حیوانیت کے اعتبار سے ہے ؟اس سلسلہ میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں جن میں سے بعض نظریات کو ''ناٹالی ٹربوویک '' نے سوال و جواب کی صورت میں یوں پیش کیا ہے :

انسان و حیوان ایک مخصوص طرز عمل کی پیروی کرتے ہیں یا انسان میں ایسے نظری ارادے ہیں جو حیوانی ضرورتوں سے بہت بالا ہیں ؟

صلح پسندی کے مدعی (ہیوم ، ہارٹلی)کا کہنا ہے:انسان کے طریقہ عمل میں دوسرے تمام حیوانات کے طریقہ عمل کی طرح کچھ ضدی چیزیں ہیں جو خود بخود حساس ہوجاتی ہیں ۔

عقیدہ ٔ تجربہ گرائی کے ہمنوا( ہابز)کے مطابق:انسان کی فطرت بالکل مشینی انداز میں ہے جو قوانین حرکت کی پیروی کرتا ہے ،انسان کے اندر روح کے عنوان سے کوئی برتری کی کیفیت نہیں ہے ۔

____________________

(۱)" ethologists "کردار شناسی ( ethology )ایسا کردار و رفتاری مطالعہ ہے جو جانور شناسی کی ایک شاخ کے عنوان سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی انواع و اقسام کی توصیفِ رفتار اور مشاہدہ کی مزید ضرورت کی تاکید کرتا ہے ۔ تفسیر رفتار بہ عنوان نتیجہ، تکامل انسان کے طبیعی انتخاب کا سرچشمہ ہے ، لیکن بعد میں اس کا اطلاق انسان و حیوان کے انتخابی پہلو پر ہونے لگا اور اس وقت حضوری گوشوں پر اطلاق ہوتا تھا اور آج کل علم حیات کی طرف متمائل ہوگیا ہے

(۲) Lorenz

(۳) orthonoleculer Psychiatrists

(۴) Newbold

۱۶۲

فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان تمام حیوانوں کی طرح فقط غریزی خواہشوں کے فشار(۱) کو کنٹرول کر سکتا ہے ۔ اس خواہش کو شرمندۂ تعبیر حیاتی ضرورتیں وجود میں لاتی ہیں ۔ انسان کا طریقۂ عمل، لذت کی طرف میلان اور رنج و الم سے دوری کی پیروی کرنا ہے حتی وہ طریقۂ عمل جو ایسا لگتا ہے کہ بلند و بالا اہداف کی بنیاد پر ہے حقیقت میں وہ بہت ہی پست مقاصد کو بیان کرتا ہے ۔

عقیدہ کردار و افعال کے علمبردار(ا سکینر)کے مطابق : طریقۂ عمل چاہے انسان کاہو، چاہے حیوان کاسبھی شرائط کے پابند ہیں کبھی انسان کے طریقۂ عمل پر نگاہ ہوتی ہے لیکن اس چیز پر نگاہ نہیں ہوتی جو انسان کے طریقۂ عمل کو حیوان کے طریقہ عمل سے جدا کردے جیسے ''آزادنہ ارادہ ، اندرونی خواہش اور خود مختار ہونا''اس طرح کے غلط مفاہیم ،بے فائدہ اور خطرناک ہیں چونکہ انسان کی اس غلط فکر کی طرف رہنمائی ہوتیہے کہ وہ ایک خاص مخلوق ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔

عقیدہ عقل ( ڈکارٹ ) : پست حیوانات مشین کی طرح ہیں یعنی ان کا طریقۂ عمل بعض مادی قوانین کے تحت ہے اور انسان حیوانی فطرت کے علاوہ عقلی فطرت بھی رکھتا ہے جو اسے قضاوت ، انتخاب اور اپنے آزاد ارادہ کے انجام دینے کی اجازت دیتی ہے ۔

فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن) کے مطابق: انسان ایسی توانائی رکھتا ہے جو زندگی کی سادہ ضرورتوں پر راضی ہونے سے بالا تر ہے اور وہ اچھائیاں تلاش کرنے کے لئے فطری توانائی رکھتا ہے ۔ لیکن یہ بات کہ وہ انہیں کسب کرسکے گا یا نہیں ، اجتماعی اسباب پر منحصر ہے، انسان کے اچھے کام ہوسکتے ہیں کہ بلند و بالا ارادے سے آغاز ہو ںلہٰذا وہ فقط پست اہداف سے منحرف نہیں ہوتے ہیں ۔

انسان محوری کے شیدائی( مازلو، روجرز ) کے مطابق: انسان کی فطرت حیوان کی فطرت سے بعض جہتوں میں برتر ہے، ہر انسان یہ قابلیت رکھتا ہے کہ کمال کی طرف حرکت کرے اور خود کو نمایاں

____________________

(۱) Tensions

۱۶۳

کرے، نامناسب ماحول کے شرائط وغیرہ مثال کے طور پر فقیر آدمی کا اجتماعی ماحول، جو اپنے تہذیب نفس کی ہدایت کو غلط راستہ کی طرف لے جاکر نابود کردیتاہے یہ ایسی ضرورتیںہیں جو انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن حیوان کے لئے باعث اہمیت نہیں ہیں مثال کے طور پر محبت کی ضرورت ، عزت اعتبار ، صحت ، احترام کی ضرورت اور اپنی فہم کی ضرورت وغیرہ ۔

عقیدۂ وجود کے پرستار( سارٹر) کے بہ قول : انسان اس پہلو سے تمام حیوانوں سے جدا ہے کہ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کے اعمال کی ذمہ داری فقط اسی پر ہے ،یہی معرفت انسان کو تنہائی اور ناامیدی سے باہر لاتی ہے اور یہ چیزانسان ہی سے مخصوص ہے ۔

مبہم نظریات

نظریہ افعال گرائی کے حامی(۱) (واٹسن(۲) ، ا سکینر(۳) )کے مطابق : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ ماحول اس کو اچھا یا برا بناتا ہے ۔

معاشرہ اور سماج گرائی نظریہ (بانڈورا(۴) ، مائکل(۵) )کے مطابق :اچھائی یا برائی انسان کو ایسی چیز کی تعلیم دیتے ہیں جو اس کے لئے اجر کی سوغات پیش کرتے ہیںاور اس کو سزا سے بچاتے ہیں ۔

وجود گرائی کا نظریہ (سارٹر)کے بہ قول : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ وہ جس عمل کو انجام دیتا ہے اس کی ذاتی فطرت پر اثر انداز ہوتا ہے ،لہٰذا اگر تمام لوگ اچھے ہوں تو انسان کی فطرت بھی اچھی ہے اور اسی طرح بر عکس۔

____________________

(۱) Behaviorists

(۲) Watson

(۳) Skinner

(۴) Bandura

(۵) Mischel

۱۶۴

مثبت نظریات

فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن ) :

انسان کے اچھے ہونے کے لئے اس کے اندر مخصوص توانائی موجود ہے لیکن یہ کہ وہ اچھا ہے یا نہیں ، اس معاشرہ سے مربوط ہے جس میں وہ زندگی گذاررہا ہے اور ان دوستوں سے مربوط ہے جس کے ساتھ خاص طور سے بچپنے میں رابطہ رکھتا تھا فرایڈ کے نظریہ کے برخلاف اچھے اعمال فطری زندگی کی ضرورتوں سے وجود میں نہیں آتے ہیں ۔

انسان محوری(۲) ( مازلو(۳) ، روجرز(۴) ):

انسان کے اندرنیک ہونے اور رہنے کی قابلیت موجود ہے اور اگر اجتماعی ضرورتیں یا اس کے غلط ارادہ کی دخالت نہ ہو تو اس کی اچھائی ظاہر ہو جائے گی ۔

رومینٹکس افراد(۵) ( روسو) انسان اپنی خلقت کے وقت سے ایک اچھی طبیعت کا مالک ہے اور جو وہ براعمل انجام دیتا ہے وہ اس کی ذات میں کسی چیز کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ برے معاشرہ کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) Erikson.(۲)humanists.(۳)Maslow.(۴)Rogers

(۵) romanticists رومانی انداز، فنون اور بین الاقوامی عقیدہ فلسفہ میں غالباً (نئے کہن پرستی کے مقابلہ میں اور مکانیزم و عقل پرستی سے پہلے)مغربی یورپ اور روس میں ۱۸ویں صدی کے آخراور ۱۹ویں صدی کے آغاز تک چھا گیا تھا ۔رومانیزم فطرت کی طرف سادہ انداز میں بازگشت کے علاوہ غفلت یعنی میدان تخیل اور احساس تھا ،نفسیات شناسی کے مفاہیم اور موضوعات سے مرتبط، بیان ، سادہ لوحی ، انقلابی اور بے پرواہی اور حقیقی لذت ان کے جدید تفکر میں بنیادی اعتبار رکھتا ہے۔ رومانیزم ،ظاہر بینی ،ہنر و افکاراور انسان کے مفاہیم میں محدودیت کے خلاف ایک خاص طغیان تھا اوراپنے فعل میں تاکید بھی کرتے تھے کہ جہان کو درک کرنے والا اس پر مقدم ہے ، یہیں سے نظریۂ تخیل محور و مرکز قرار پاتا ہے ۔

۱۶۵

چھٹی فصل :

نظام خلقت میں انسان کا مقام

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات

۱.خلافت ، کرامت اور انسان کے امانت دار ہونے کے مفاہیم کی وضاحت کریں ؟

۲.آیات قرآن کی روشنی میں انسان کے خلیفة اللہ ہونے کی وضاحت کریں؟

۳.خلافت کے لئے ،حضرت آدم کے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیار بیان کریں ؟

۴.کرامت انسان سے کیا مراد ہے اس کو واضح کریں نیزقرآن کی روشنی میں اس کے اقسام

کو ذکرفرمائیں ؟

۵.ذاتی اور کسبی کرامت کی وضاحت کریں ؟

۱۶۶

دو فصل پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ قرآن مجید انسان کی موجودہ نسل کی تخلیق کو حضرت آدم کی خلقت سے مخصوص جانتا ہے اور انسانوں کے تفکر ، خواہشات اور غیر حیوانی توانائی سے استوار ہونے کی تاکید کرتا ہے ،حضرت آدم اور ان کی نسل کی آفرینش سے مربوط آیات گذشتہ دو فصلوں میں بیان کی گئی آیات سے زیادہ ہیںجس میں حضرت آدم کی خلافت و جانشینی نیزدوسرے موجودات پر انسان کی برتری و کرامت اور دوسری طرف انسان کی پستی ، تنزلی دوسری مخلوقات سے بھی گر جانے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ،انسان کی خلافت کے مسئلہ اور اس کی کرامت کے بارے میں قرآن مجید نے دو اعتبار سے لوگوںکے سامنے متعدد سوالات اٹھائے ہیں ،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱.حضرت آدم کی جانشینی سے مراد کیا ہے اور وہ کس کے جانشین تھے ؟

۲.آیا خلافت اور جانشینی حضرت آدم سے مخصوص ہے یا ان کی نسل بھی اس سے بہر مند ہو سکتی ہے ؟

۳.حضرت آدم کا خلافت کے لئے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیارکیا ہے اور کیوں دوسری مخلوقات خلافت کے لائق نہیں ہیں ؟

۴. انسان کی برتری اور کرامت کے سلسلہ میں قرآن میں دو طرح کے بیانات کا کیا راز ہے؟ کیا یہ بیانات ، قرآن کے بیان میں تناقض کی طرف اشارہ نہیں ہیں ؟ اسی فصل میں ہم خلافت الٰہی اور کرامت انسان کے عنوان کے تحت مذکورہ سوالات کا جائزہ و تحلیل اور ان کے جوابات پیش کریں گے ۔

۱۶۷

خلافت الٰہی

اولین انسان کی خلقت کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات میں ذکر کئے گئے مسائل میں سے ایک انسان کا خلیفہ ہونا ہے ،سورۂ بقرہ کی ۳۰ ویں آیہ میں خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِکَةِ إِنِّی جَاعِل فِی الأرضِ خَلِیفَةً قَالُوا أ تَجعَلُ فِیهَا مَن یُفسِدُ فِیهَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ وَ نَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعلَمُ مَا لا تَعلَمُونَ )

اور( یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں تو کہنے لگے: کیا تو زمین میں ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو زمین میں فساد اور خونریزیاں کرتا پھرے حالانکہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی ثابت کرتے ہیں، تب خدا نے فرمایا :اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔

خلیفہ اور خلافت ، ''خلف''سے ماخوذہے جس کے معنی پیچھے اور جانشین کے ہیں ،جانشین کا استعمال کبھی تو حسی امور کے لئے ہوتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیلَ وَ النَّهَارَ خِلفَةً... ) (۱) ''اور وہی تو وہ(خدا) ہے جس نے رات اور دن کو جانشین بنایا ...''اور کبھی اعتباری امور کے لئے جیسے( یَا دَاودُ إِنَّا جَعَلنَاکَ خَلِیفَةً فِی الأرضِ فَأحکُم بَینَ النَّاسِ بِالحَقِّ ) اے داوود !ہم نے تم کو زمین میں نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو،(۲) اور کبھی غیر طبیعی حقیقی امور میں استعمال ہوتا ہے جیسے حضرت آدم کی خلافت جو سورہ

____________________

(۱)فرقان ۶۲۔

(۲)ص۲۶۔

۱۶۸

بقرہ کی ۳۰ ویں آیہ میں مذکور ہے ۔

حضرت آدم کی خلافت سے مراد انسانوں کی خلافت یا ان سے پہلے دوسری مخلوقات کی خلافت نہیں ہے بلکہ مراد ، خدا کی خلافت و جانشینی ہے ،اس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ : '' میں جانشین قرار دوںگا'' یہ نہیں فرمایا کہ '' کس کا جانشین '' مزید یہ کہ فرشتوں کے لئے جانشینی کا مسئلہ پیش کرنا ، ان میں آدم کا سجدہ بجالانے کے لئے آمادگی ایجاد کرنا مطلوب تھا اور اس آمادگی میں غیر خدا کی طرف سے جانشینی کا کوئی کردار نہیں ہے،اس کے علاوہ جیسا کہ فرشتوں نے کہا : کیا اس کو خلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے جب کہ ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں، اصل میں یہ ایک مؤدبانہ درخواست تھی کہ ہم کو خلیفہ بنادے کیوں کہ ہم سب سے بہتر و سزاوار ہیں اور اگر جانشینی خدا کی طرف سے مد نظر نہ تھی تو یہ درخواست بھی بے وجہ تھی ،اس لئے کہ غیر خدا کی طرف سے جانشینی اتنی اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ فرشتے اس کی درخواست کرتے ،نیز غیرخدا سے جانشینی حاصل کرنے کے لئے تمام اسماء کا علم یا ان کو حفظ کرنے کی توانائی لازم نہیں ہے ،پس خلافت سے مراد خداوند عالم کی جانشینی ہے ۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ خداوند عالم کی جانشینی صرف ایک اعتباری جانشینی نہیں ہے بلکہ تکوینی جانشینی ہے جیسا کہ آیہ کے سیاق و سباق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوجاتا ہے، خداوند عالم فرماتا ہے:( وَ عَلّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّهَا ) ''اور خدا وند عالم نے حضرت آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی''فرشتوں کو خدوند عالم کی طرف سے جناب آدم کے سجدہ کرنے کا حکم ہونااس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ خلافت ،خلافت تکوینی (عینی حقائق میں تصرف)کو بھی شامل ہے۔(۱) خلافت تکوینی کاعالی رتبہ ، خلیفة اللہ کو قوی بناتا ہے تاکہ خدائی افعال انجام دے سکے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ولایت تکوینی کا مالک ہو جائے ۔

____________________

(۱)تشریعی خلافت سے مراد ، لوگوں کی ہدایت اور قضاوت کے منصب کا عہدہ دار ہونا ہے ۔اور خلافت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص خدا کے ایک یا چندیا تمام اسماء کا مظہر بن جائے اور صفات باری تعالی اس کے ذریعہ مرحلۂ عمل یا ظہور میں واقع ہوں۔

۱۶۹

خلافت کے لئے حضرت آدم کے شائستہ ہونے کا معیار

آیت کریمہ کے ذریعہ( وَ عَلَّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُم عَلَیٰ المَلائِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسمَآئِ هٰؤُلآئِ إن کُنتُم صَادِقِینَ ) (۱) ''اور حضرت آدم کو تمام اسماء کا علم دے دیا پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اسماء کے نام بتاؤ ''یہ اچھی طرح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خلافت خدا کے لئے حضرت آدم کی معیار قابلیت ،تمام اسماء کا علم تھا۔ اس مطلب کو سورۂ بقرہ کی ۳۳ ویں آیہ بھی تائید کرتی ہے ۔

لیکن یہ کہ اسماء سے مراد کیا ہے اور خدا وند عالم نے کس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی تعلیم دی اور فرشتے ان اسماء سے کیونکر بے خبر تھے اس سلسلہ میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے جس کو ہم پیش نہیں کریں گے فقط ان میں سے پہلے مطلب کو بطور اختصار ذکر کریں گے ،آیات قرآن میں وضاحت کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ ان اسماء سے مراد کن موجودات کے نام ہیں اور روایات میں ہم دو طرح کی روایات سے رو برو ہیں، جس میں سے ایک قسم نے تمام موجودات کے نام اور دوسری قسم نے چہاردہ معصومین کے نام کو ذکر کیا ہے ۔(۲) لیکن حضرت آدم کی خلافت تکوینی کی وجہ اور اس بات پر قرآن کی تائید کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کا علم دیا سے مراد یہ ہے کہ موجودات، فیض خدا کا وسیلہ بھی ہوں اور خدا وند عالم کے اسماء بھی ہوںاور کسی چیز سے چشم پوشی نہ ہوئی ہو ۔

مخلوقات کے اسماء سے حضرت آدم کا آگاہ ہونا اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی طرف سے خلافت اور جانشینی کے حدود کو ان کے اختیار میں قرار دیاجائے ۔اور اسماء خداوند عالم کے جاننے کا مطلب ، مظہر اسماء الہٰی ہونے کی قدرت ہے یعنی ولایت تکوینی کا ملنا ہے اور اسماء کا جاننا ، فیض الہی کا ذریعہ ہے ،یہ ان کو خلافت کے حدود میں تصرف کے طریقے بتاتا ہے اور اس وضاحت سے ان دو

____________________

(۱)بقرہ ۳۱۔

(۲)ملاحظہ ہو: مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۱۱ ص ۱۴۵۔ ۱۴۷، ج ۲۶، ص ۲۸۳۔

۱۷۰

طرح کی روایات کے درمیان ظاہری اختلاف اور ناہماہنگی بر طرف ہو جاتی ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسماء سے مراد اس کا ظاہری مفہوم نہیں ہے جس کو ایک انسان فرض ، اعتبار اور وضع کرتا ہے، اسی طرح ان اسماء کی تعلیم کے معنی بھی ان الفاظ و کلمات کا ذہن میں ذخیرہ کرنا نہیں ہے ،اس لئے کہ مذکورہ طریقہ سے ان اسماء کا جاننا کسی بھی صورت میں خلافت الٰہی کے لئے معیار قابلیت اور خلافت تکوینی کے حصول کے لئے کوئی اہم رول نہیں ادا کرسکتا ہے ،اس لئے کہ اگر علم حصولی کے ذریعہ اسماء وضعی اور اعتباری حفظ کرنا اور یاد کرنا مراد ہوتا توحضرت آدم کے خبر دینے کے بعد چونکہ فرشتہ بھی ان اسماء سے آگاہ ہوگئے تھے لہٰذا انھیں بھی خلافت کے لائق ہونا چاہیئے تھا بلکہ اس سے مراد چیزوں کی حقیقت جاننا ان کے اور اسماء خداوند عالم کے بارے میں حضوری معرفت رکھنا ہے جو تکوینی تصرف پر قدرت کے ساتھ ساتھ حضرت آدم کے وجود کی برتری بھی ہے ۔(۱)

حضرت آدم کے فرزندوں کی خلافت

حضرت آدم کے تخلیق کی گفتگو میں خداوند عالم کی طرف سے خلافت اور جانشینی کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے ۔ اور سورۂ بقرہ کی ۳۰ ویں آیت نے بہت ہی واضح خلافت کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ اب یہ سوال در پیش ہے کہ کیا یہ خلافت حضرت آدم سے مخصوص ہے یا دوسرے افراد میں بھی پائی جاسکتی ہے ؟

____________________

(۱)بعض مفسرین نے احتمال دیا ہے کہ ''اسمائ''کا علم مافوقِ عالم و ملائکہ ہے ؛ یعنی اس کی حقیقت ملائکہ کی سطح سے بالاترہے کہ جس عالم میں معرفت وجودمیں ترقی اور وجود ملائکہ کے رتبہ و کمال سے بالاتر کمال رکھنا ہے اور وہ عالم ، عالم خزائن ہے جس میں تمام اشیاء کی اصل و حقیقت ہے اور اس دنیا کی مخلوقات اسی حقیقت اور خزائن سے نزول کرتے ہیں (وَ إِن مِّن شَییٍٔ ِلا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَ مَا نُنَزِّلُهُ ِلا بِقَدَرٍ مَّعلُومٍ )(حجر ۲۱)''اور ہمارے یہاں تو ہر چیز کے بے شمار خزانے پڑے ہیں اور ہم ایک جچی،تلی مقدار ہی بھیجتے رہتے ہیں ''ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ؛ کے ذیل آیہ سے ۔

۱۷۱

جواب یہ ہے کہ :مذکورہ آیہ حضرت آدم کی ذات میں خلافت کے انحصار پر نہ فقط دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جملہ( أَ تَجعَلُ فِیهَا مَن یُفسِدُ فِیهَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خلافت حضرت آدم کی ذات سے منحصر نہیں ہے ، اس لئے کہ اگر صرف حضرت آدم سے خلافت مخصوص ہوتی تو چونکہ حضرت آدم معصوم ہیں اور معصوم فساد و خونریزی نہیں کرتا ہے لہٰذا خداوند عالم فرشتوں سے یہ فرما سکتا تھا کہ : آدم فساد اور خونریزی نہیں کرے گا ،البتہ یہ شبہ نہ ہو کہ تمام افراد بالفعل خدا کے جانشین و خلیفہ ہیں ،اس لئے کہ یہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے کہ مقرب الٰہی فرشتے جس مقام کے لائق نہ تھے اور جس کی وجہ سے حضرت آدم کا سجدہ کیا تھا ، وہ تاریخ کے بڑے بڑے ظالموں کے اختیار میں قرار پائے اوروہ خلافت کے لائق بھی ہوں ؟!پس یہ خلافت حضرت آدم اور ان کے بعض فرزندوں سے مخصوص ہے جو تمام اسماء کا علم رکھتے ہیں ،لہٰذا اگرچہ نوع انسان خدا کی جانشینی اور خلافت کا امکان رکھتا ہے لیکن جو حضرات عملی طور پر اس مقام کو حاصل کرتے ہیں وہ حضرت آدم اور ان کی بعض اولادیں ہیں جو ہر زمانہ میں کم از کم ان کی ایک فرد سماج میں ہمیشہ موجود ہے اور وہ روئے زمین پر خدا کی حجت ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جس کی روایات میں بھی تاکید ہوئی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ الاصول من الکافی ؛ ج۱، ص ۱۷۸ و ۱۷۹۔

۱۷۲

کرامت انسان

انسان کی کرامت کے سلسلہ میں قرآن مجیدکا دو پہلو بیان موجود ہے :قرآن مجید کی بعض آیات میں انسان کی کرامت ، شرافت اور دوسری مخلوقات پر اس کی برتری کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اور بعض آیات میں انسان کی تذلیل اور اس کو حیوانات سے پست بیان کیا گیاہے مثال کے طورپر سورۂ اسراء کی ۷۰ویں آیت میں خداوند عالم نے بنی آدم کی تکریم کی ہے اور بہت سی دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں اس کی برتری بیان ہوئی ہے ۔(۱) سورۂ تین کی چوتھی آیہ اور سورۂ مومنون کی ۱۴ ویں آیہ میں انسان کی بہترین اندازمیں خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے(۲) اور دوسری بہت سی آیات میں یوں مذکور ہے کہ جو کچھ بھی زمینوں و آسمانوں میں ہے انسان کے لئے مسخر یا اس کے لئے پیدا کی گئی ہے(۳) اور ملائکہ نے اس کا سجدہ کیا ہے، وہ تمام اسماء کا جاننے والا، مقام خلافت(۴) اور بلند درجات(۵) کاحامل ہے، یہ تمام چیزیں دوسری مخلوقات پر انسان کی برتری ، شرافت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے،اور دوسری طرف ضعیف ہونا(۶) ، لالچی ہونا(۷) ، ظالم و ناشکرا(۸) اور جاہل ہونا(۹) ، چوپائے کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہونا ۰ ) اور پست ترین

____________________

(۱)(وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً )(اسراء ۷۰)اورہم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں ان کو لئے پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہتیرے مخلوقات پر ان کو فضیلت دی ۔(۲)(لَقَد خَلَقنَا الِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقوِیمٍ )(تین۴)یقینا ہم نے انسان کو بہت اچھے حلیے (ڈھانچے)میں کا پیدا کیا ۔(فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أَحسَنُ الخَالِقِینَ )(مومنون۱۴)تو خدا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں میں بہتر ہے ۔(۳)(أ لَم تَرَوا أَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِی الأرضِ وَ أَسبَغَ عَلَیکُم نِعمَهُ ظَاهِرةً وَ بَاطِنَةً )( لقمان ۲۰) کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیںکیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں ۔(هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فِی الأرضِ جَمِیعاً )(بقرہ ۲۹)اور وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزوں کو پیدا کیا۔ (۴)یہ آیات خلافت الٰہی کی بحث میں بیان ہوچکی ہیں ۔(۵)اس حصہ کی آیتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(۶)(وَ خُلِقِ الإنسَانُ ضَعِیفاً )(نساء ۲۸)اور انسان کمزور خلق کیا گیا ہے ۔(۷)(إنَّ النسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً )(معارج ۱۹)یقینا انسان بہت لالچی پیدا ہوا ہے (۸)(إنَّ النسَانَ لَظَلُوم کَفَّار )(ابراہیم،۳۴) یقینا انسان بڑاناانصاف اور ناشکرا ہے ۔(۹)(إِنَّهُ کَانَ ظَلُوماً جَهُولاً )( احزاب ۷۲)یقینا انسان بڑا ظالم و جاہل ہے۔(۱۰)(أُولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ )(اعراف ۱۷۹)وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔

۱۷۳

درجہ میں ہونا(۱) یہ وہ امور ہیں جو قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور دوسری مخلوقات پرانسان کی عدم برتری کی علامت ہے بلکہ ان کے مقابلہ میں انسان کے پست تر ہونے کی علامت ہے،کیا یہ دوطرح کی آیات ایک دوسرے کی متناقض ہیں یا ان میں سے ہر ایک کسی خاص مرحلہ کو بیان کررہی ہے یا مسئلہ کسی اور انداز میں ہے ؟

مذکورہ آیات میں غور و فکر ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان قرآن کی نظر میں دو طرح کی کرامت رکھتا ہے :

کرامت ذاتی یا وجود شناسی اور کرامت اکتسابی یا اہمیت شناسی ۔

کرامت ذاتی

کرامت ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ جسم کی بناوٹ کے اعتبار سے بعض دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ امکانات و سہولت کا حامل ہے یا اس کے امکانات کی ترکیب و تنظیم اچھے انداز میں ہوئی ہے، بہر حال بہت زیادہ سہولت اور توانائی کا حامل ہے اس طرح کی کرامت ، نوع انسان پر خداوند عالم کی مخصوص عنایت کا اشارہ ہے جس سے سبھی مستفیض ہیں، لہٰذا کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ ان چیزوں سے مزین ہونے کی بنا پر دوسرے مخلوق کے مقابلہ میں فخر کرے اور ان کو اپنا انسانی کمال اور معیار اعتبار سمجھے یا اس کی وجہ سے مورد تعریف قرار پائے ،بلکہ اتنی سہولت والی ایسی مخلوق تخلیق کرنے کی وجہ سے خداوند عالم کی حمد و تعریف کرنا چاہیئے ۔ جس طرح وہ خود فرماتا ہے( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أحسَنُ الخَالِقِینَ ) اور سورۂ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ( وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلیٰ کَثِیرٍ مَمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً ) (۲) اور بہت سی آیات جو دنیا اورمافیہا کو انسان کے لئے

____________________

(۱)(ثُمّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ )(تین۵)پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔

(۲)سورۂ اسراء ۷۰

۱۷۴

مسخر ہونے کوبیان کرتی ہیں جیسے ''( وَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِیالأرضِ جَمِیعاً مِنهُ ) (۱) اور جیسے (خَلَقَ لَکُم مَا فِی الأرضِ جَمِیعاً)وغیرہ تمام آیات صنف انسان کی کرامت تکوینی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور( خُلِقَ الِإنسَانُ ضَعِیفاً ) (۲) جیسی آیات اور سورہ ٔ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ جو کہ بہت سی مخلوقات (نہ کہ تمام مخلوقات)پر انسان کی برتری کو پیش کرتی ہے یعنی بعض مخلوقات پر انسان کی ذاتی عدم برتری کی یاد آوری کرتی ہے ۔(۳)

کرامت اکتسابی

اکتسابی کرامت سے مراد ان کمالات کا حاصل کرنا ہے جن کو انسان اپنے اختیاری اعمال صالحہ اور ایمان کی روشنی میں حاصل کرتا ہے ،کرامت کی یہ قسم انسان کے ایثار و تلاش اور انسانی اعتبارات کا معیار اور خداوند عالم کی بارگاہ میں معیار تقرب سے حاصل ہوتا ہے، یہ وہ کرامت ہے جس کی وجہ سے یقینا کسی انسان کو دوسرے انسان پر برتر جانا جاسکتا ہے ،تمام لوگ اس کمال و کرامت تک رسائی کی قابلیت رکھتے ہیں ، لیکن کچھ ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اس سے بے بہرہ رہتے ہیں ، گویا اس کرامت میں نہ تو تمام لوگ دوسری مخلوقات سے برتر ہیں اور نہ تمام لوگ دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں پست یا مساوی ہیں ،لہٰذا وہ آیتیں جو انسان کی کسبی کرامت کو بیان کرتی ہیں دو طرح کی ہیں :

الف) کرامت اکتسابی کی نفی کرنے والی آیات

اس سلسلہ کی موجودہ آیات میں سے ہم فقط چار آیتوں کے ذکر پر اکتفا کررہے ہیں :

____________________

(۱)سورہ جاثیہ ۱۳۔ (۲)سورۂ نساء ۲۸۔(۳)گذشتہ بحثوں میں غیر حیوانی استعداد کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان کی دائمی روح بھی معرفت انسان کی ذاتی اور وجودی کرامت میں شمار ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ سبھی یا ان میں سے بعض انسان کی عالی خلقت سے مربوط آیات جو متن کتاب میں بھی مذکور ہیں مد نظر ہوں ۔

۱۷۵

۱۔( ثُمَّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ ) (۱)

پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔

بعض انسانوں سے اکتسابی کرامت کی نفی اس بنا پرہے کہ گذشتہ آیت میں انسان کی بہترین شکل و صورت میں خلقت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور بعد کی آیت میں اچھے عمل والے اور مومنین اسفل السافلین میں گرنے سے استثناء ہوئے ہیں اگر ان کا یہ گرنااور پست ہونا اختیاری نہ ہوتا تو انسان کی خلقت بیکار ہوجاتی اور خداوند عالم کا یہ عمل کہ انسان کو بہترین شکل میں پیدا کرے اور اس کے بعد بے وجہ اورانسان کے اختیار یا اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے پست مرحلہ میں ڈالنا غیر حکیمانہ ہے مزید یہ کہ بعد والی آیت بیان کرتی ہے کہ ایمان اور اپنے صالح عمل کے ذریعہ، انسان خود کو اس حالت سے بچا جاسکتا ہے ،یا اس مشکل میں گرنے سے نجات حاصل کرسکتا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نزول انسان کے اختیاری اعمال اور اکتسابی چیزوں کی وجہ سے ہے ۔

۲۔( أُولٰئکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أُولٰئِکَ هُمُ الغَافِلُونَ ) (۲)

یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گذرے ہیں یہی لوگ غافل ہیں

۳۔( إنّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰهِ الصُّمُّ البُکمُ الَّذِینَ لا یَعقِلُونَ ) (۳)

بیشک کہ زمین پر چلنے والے میں سب سے بد تر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے ہیں ۔

۴۔( إنّ الِإنسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَ إِذَا مَسَّهُ الخَیرُ مَنُوعاً ) (۴)

بیشک انسان بڑا لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف پہونچتی ہے تو بے صبر ہو جاتا ہے اور جب اس تک بھلائی اور خیر کی رسائی ہوتی ہے تو اترانے لگتا ہے ۔

____________________

(۱)تین۵

(۲)اعراف ۱۷۹ (۳)انفال ۲۲

(۴)سورہ معارج ۱۹۔۲۱.

۱۷۶

مذکورہ دو ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ عقل و فکر کو استعمال نہ کرنے اور اس کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے انسانوں کی مذمت کی گئی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں کرامت سے مراد کرامت اکتسابی ہے چونکہ بعد والی آیت نماز پڑھنے والوں کو نماز پڑھنے اور ان کے اختیاری اعمال کی بنا پر استثناء کرتی ہے لہٰذا تیسری آیہ اکتسابی کرامت سے مربوط ہے۔

ب) کرامت اکتسابی کو ثابت کرنے والی آیات

اس سلسلہ میں بھی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے ہم دو آیتوں کونمونہ کے طور پر ذکرکرتے ہیں ۔

۱.( نَّ أَکرَمَکُم عِندَ اللّٰهِ أَتقَٰکُم ) (۱)

۲.ان آیات کا مجموعہ جو کسبی کرامت کی نفی کے بعد بعض انسانوں کو اس سے استثناء کرتی ہیں جیسے( إنَّ الِإنسَانَ لَفِی خُسرٍ إلا الَّذِینَ آمَنُوا ) (۲) ( ، ثُمَّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ إلا الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ) (۳) ( ، إنّ النسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً إلا المُصَلِّینَ ) (۴)

جیسا کہ اشارہ ہوا کہ اکتسابی کرامت انسان کے اختیار سے وابستہ ہے اور اس کو حاصل کرنا جیسا کہ گذشتہ آیتوں میں آچکا ہے کہ تقویٰ ، ایمان اور اعمال صالحہ کے بغیر میسر نہیں ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں وسیع اور قدیمی مسئلہ ''انسان کا اشرف المخلوقات ہونا''وغیرہ بھی واضح و روشن ہو جاتا ہے ،اس لئے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے سے مراد دوسری مخلوقات خصوصاً مادی دنیا کی مخلوقات کے مقابلہ میں مزید سہولت اور بہت زیادہ توانائی کا مالک ہونا ہے ( چاہے قابلیت،بہتراوربہت زیادہ امکانات کی صورت میں ہو ) اپنے اور قرآنی نظریہ کے مطابق انسان

____________________

(۱)حجرات ۱۳۔

(۲)عصر ۲و ۳۔

(۳)تین ۵و ۶۔

(۴)معارج ۱۹۔

۱۷۷

اشرف المخلوقات ہے ۔ اور وہ مطالب جو انسان کی غیر حیوانی فطرت کی بحث اورکرامت ذاتی سے مربوط آیتوں میں بیان ہو چکے ہیں ہمارے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ،اگرچہ ممکن ہے کہ بعض دوسری مخلوقات جیسے فرشتے بعض خصوصیات میں انسان سے بہتر ہوں یا بعض مخلوقات جیسے جن ، انسانوں کے مقابلہ میں ہوں(۱) لیکن اگر تمام مخلوقات پر انسان کی فوقیت و برتری منظور نظر ہے تب بھی کسی صورت میں ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم کی تمام مخلوقات پر تمام انسان فوقیت اور برتری رکھتے ہیں، البتہ انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خداوند عالم کی ہر مخلوق بلکہ تمام مخلوقات سے برتر ہیں اور اکتسابی کرامت کے اس درجہ و مرتبہ کو حاصل کرچکے ہیں جسے کوئی حاصل ہی نہیں کرسکتا، یہ وہی لوگ ہیں جو ولایت تکوینی اور لا محدود خلافت الٰہی کیحامل ہیں ۔

اس مقام پر ایک اہم سوال یہ در پیش ہے کہ اگر کرامت اکتسابی انسان سے مخصوص ہے تو قرآن مجید میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے انسانوں کو کیونکر چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے پست سمجھا گیا ہے ؟ اور کس طرح ایک مہم اور معتبر شیٔ کو ایک امر تکوینی سے تقابل کیا جاسکتا ہے اور ان دونوں مقولوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟!

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اگرچہ اقدار شناسی کے مقولہ میں سے ہے لیکن یہ ایک حقیقی شیٔ ہے نہ کہ اعتباری ، دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر قابل اہمیت شیٔ ضروری نہیں ہے کہ اعتباری اور وضعی ہو، جب یہ کہا جاتا ہے کہ : شجاعت ، سخاوت ، ایثار و قربانی اعتباری چیزوں میں سے ہیں ،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سخی ، ایثار کرنے والے ، فداکار شخص کو صرف اعتبار اور وضع کی بنیاد پر اچھا اورلائق تعریف و تمجید سمجھا گیا ہے بلکہ ایسا شخص واقعاً سخاوت ، ایثار اور فداکاری نامی حقیقت

____________________

(۱)ایک دوسرے زاویہ سے جس طرح فلسفہ و عرفان اسلامی میں بیان ہوا ہے نیزروایات میں مذکورہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کا نورانی وجود، تمام مخلوقات کے لئے فیضان الٰہی کا واسطہ اور نقطہ آغازو علت ہے ۔اورعلم حیات کے اعتبار سے سب سے رفیع درجات و کمالات کے مالک اور خداوند عالم کی عالی ترین مخلوق میں سے ہیں ۔

۱۷۸

کا حامل ہے جس سے دوسرے لوگ دور ہیں بس کرامت اکتسابی بھی اسی طرح ہے انسان کی اکتسابی کرامت صرف اعتباری اور وضعی شیٔ نہیں ہے بلکہ انسان واقعاً عروج و کمال پاتا یا سقوط کرتا ہے ۔ لہٰذا مزید وہ چیزیں جن سے انسانوں کو اکتسابی اور عدم اکتسابی کرامت سے استوارہونے کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیئے اور ایک کو بلند اور دوسرے کو پست سمجھنا چاہیئے، اسی طرح انسانوں کو حیوانات اور دوسری مخلوقات سے بھی موازنہ کرنا چاہیئے اور بعض کو فرشتوں سے بلند اور بعض کو جمادات و حیوانات سے پست سمجھنا چاہیئے اسی وجہ سے سورۂ اعراف کی ۱۷۹ویںآیہ میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے افرادکو چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ بتایاگیاہے ۔ سورہ انفال کی ۲۲ ویں آیہ میں ''بد ترین متحرک '' کا عنوان دیاگیا ہے اور قیامت کے دن ایسے لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش مٹی ہوتے(( وَ یَقُولُ الکَافِرُ یَا لَیتَنِی کُنتُ تُرَاباً ) (۱) اور کافر (قیامت کے دن )کہیں گے اے کاش میں مٹی ہوتا ۔

____________________

(۱)سورہ ٔ نبا ۴۰۔

۱۷۹

خلاصہ فصل

۱.گذشتہ فصل میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان بعض مشترکہ خصوصیات کا حامل ہے بعض مغربی مفکرین نے مثال کے طور پروہ افراد جو انسان کی فعالیت کو بنیادی محور قرار دیتے ہیں یا افراط کے شکار معاشرہ پرست افراد بنیادی طور پر ایسے عناصر کے وجود کے منکر ہیں اوروہ انسان کی حقیقت کے سادہ لوح ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔

ان گروہ کے علاوہ دوسرے لوگ مشترکہ فطرت کو قبول کرتے ہیں لیکن انسان کے اچھے یا برے ہونے میں اختلاف نظررکھتے ہیں بعض اس کو برا اور بعض فقط اچھا سمجھتے ہیں ، بعض نے انسان کو دوپہلو رکھنے والی تصویر سے تعبیر کیا ہے۔

۲.قرآن کریم نے اس سوال کے جواب میں جو انسانوں کو بنیادی طور پر اچھے اور برے خواہشات کا حامل جانتے ہیں، ان کے معنوی و مادی پہلوؤں کو جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کی ہے۔

۳.انسان کے خلیفة اللہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک تکوینی شیٔ ہے یعنی انسان کائنات میں تصرف اور ولایت تکوینی کے مقام کو حاصل کر سکتا ہے اس مقام کو حاصل کرنے کی راہ اور حضرت آدم کی صلاحیت کا معیار تمام اسماء کے بارے میں ان کی حضوری معرفت ہے ،اسماء مخلوقات اس کی جانشینی کے اختیارات پر استوار ہے ۔اسماء الہٰی ،قدرت اور ولایت تکوینی کو فراہم کرتا ہے اور وسیلہ فیض کے اسماء اس کے لئے اشیاء میں طریقہ تصرف مہیا کرتے ہیں ۔

۴.حضرت آدم کی اولادوں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو مقام خلافت کو حاصل کر چکے ہیں اور روایتوں کے مطابق ہر زمانے میں کم از کم ایک فرد زمین پر خلیفة اللہ کے عنوان سے موجودہے ۔

۵.انسان دو طرح کی کرامت رکھتا ہے : ایک کرامت ذاتی جو تمام افراد کو شامل ہے اور باقی مخلوقات کے مقابلہ میں بہتر اور بہت زیادہ امکانات کا حامل ہے اور دوسرا کرامت اکتسابی کہ اس سے مراد وہ مقام و منزلت ہے جس کو انسان اپنی تلاش و جستجو سے حاصل کرتا ہے اوراس معنوی کمال کے حصول کی راہ، ایمان اور عمل صالح ہے اور چونکہ افراد کی آزمائش کا معیار و اعتبار اسی کرامت پر استوار ہے اور اسی اعتبار سے انسانوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لہٰذا قرآن کبھی انسان کی تعریف اور کبھی مذمت کرتا ہے ۔

۱۸۰

تمرین

۱.گذشتہ فصول کے مطالب کی بنیاد پر کیوں افراد انسان مشترکہ فطرت و حقیقت رکھنے کے باوجود رفتار، گفتار، اخلاق و اطوار میں مختلف ہیں۔ ؟

۲.عالم ہستی میں انسان کی رفعت و منزلت اور الٰہی فطرت کے باوجود اور اس کے بہترین ترکیبات سے مزین ہونے کے باوجود اکثر افراد صحیح راستہ سے کیوں منحرف ہو جاتے ہیں ۔؟

۳.اگر جستجو کا احساس انسان کے اندر ایک فطری خواہش ہے تو قرآن نے دوسروں کے کاموں میں تجسس کرنے کی کیوں مذمت کی ہے ؟ آیا یہ مذمت اس الٰہی اور عام فطرت کے نظر انداز کرنے کے معنی میں نہیں ہے ؟

۴.خدا کی تلاش ، خود پسندی اور دوسری خواہشوں کو کس طرح سے پورا کیا جائے تاکہ انسان کی حقیقی سعادت کو نقصان نہ پہونچے ؟

۵.قرآنی اصطلاح میں روح ، نفس ، عقل ، قلب جیسے کلمات کے درمیان کیا رابطہہے ؟

۶.انسان کے امانت دار ہونے سے مراد کیا ہے نیز مصادیق امانت بھی ذکر کریں ؟

۷.غیر دینی حقوقی قوانین میں ،انسان کی کرامت اکتسابی مورد توجہ ہے یا اس کی غیر اکتسابی کرامت ؟

۸.اگر حقیقی اہمیت کا معیار انسان کی کرامت اکتسابی ہے تو مجرم اور دشمن افراد کے علاوہ ان انسانوں کا ختم کرنا جو کرامت اکتسابی کے حامل نہ ہوں کیوں جائز نہیں ہے ؟

۹.آیا جانشینی اور اعتباری خلافت ، جانشین اور خلیفہ کی مہم ترین دلیل ہے ؟

۱۸۱

مزید مطالعہ کے لئے

۱۔ انسان کا جانشین خدا ہونے کے سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں:

۔ جوادی آملی ، عبداللہ ( ۱۳۶۹) زن در آئینہ جلال و جمال تہران : مرکز نشر فرہنگی ،رجاء

۔ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶ ، تہران : رجاء

۔ صدر ، سید محمد باقر ( ۱۳۹۹) خلافة الانسان و شہادة الانبیاء ،قم : مطبعة الخیام ۔

۔ محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۳) خلقت و خلافت انسان در المیزان گرد آورندہ : شمس الدین ربیعی ، تہران : نور فاطمہ

۔ محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )قم : موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ، تہران : صدرا ۔

۔ موسوی یزدی ، علی اکبر ، و دیگران ( ۱۳۹۹) الامامة و الولایة فی القرآن الکریم ، قم : مطبعة الخیام

۔ تفاسیر قرآن ، سورہ بقرہ کی ۳۰ ویں آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ انسان کی کرامت کے سلسلہ میں :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲) کرامت در قرآن ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء ۔

۔مصباح ،محمد تقی(۱۳۶۷)معارف قران(خدا شناسی،کیہان شناسی،انسان شناسی)قم موسسہ در راہ حق

۔واعظی،احمد(۱۳۷۷)انسان از دیدگاہ اسلام ۔قم:دفترہمکاری حوزہ ودانش گاہ۔

۱۸۲

ساتویں فصل :

آزادی اور اختیار

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱ ۔انسان کے سلسلہ میں تین مہم نظریوں کو بیان کریں ؟

۲ ۔مفہوم اختیار کی وضاحت کریں اور اس کے مفہوم کے چار موارد استعمال ذکر کریں ؟

۳ ۔قرآن مجید کی ان آیات کی دستہ بندی اور تفسیرکریں جو انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؟

۴۔انسان کے اختیار کو مشکوک کرنے والے شبہات کی وضاحت کریں ؟

۵۔انسان کے جبر سے متعلق ، شبہات کے اقسام نیز اس کی تجزیہ و تحلیل کریں ؟

۱۸۳

جو افعال انسان سے صادر ہوتے ہیں ایک عام تقسیم کے اعتبار سے دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

جبری افعال جو بغیر ارادے اور قصد کے انجام پاتے ہیں اور اختیاری افعال جوانتخاب اور انسان کے ارادوں کے نتیجہ میں عالم وجود میں آتے ہیں ، دوسرے گروہ کے متعلق ، فعل کا انجام دینے والا خود اس فعل کی علت اور اس فعل کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پراس انجام دیئے گئے فعل کے مطابق ہم اس کو لائق تعریف یا مذمت سمجھتے ہیں ،تمام اخلاقی ، دینی ، تربیتی اور حقوقی قوانین اسی یقین کی بنیاد پر استوار ہیں ۔ کسی فعل کو انجام دے کر خوش ہونا یا افسوس کرنا ، عذر خواہی یا دوسرے سے مربوط فعل کے مقابلہ میں حق طلب کرنا بھی اسی سچائی پر یقین اور بھروسہ کیبنیاد پر ہے ۔ دوسری طرف یہ بات قابل قبول ہے کہ انسان کے اختیاری طریقہ عمل میں مختلف تاریخی ، اجتماعی ، فطری ، طبیعی عوامل موثر ہیں اس طرح سے کہ وہ اس کی انجام دہی میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور انسان ہر پہلو میں بے قید و شرط اور مطلقاً آزادی کا حامل نہیں ہے ۔

دینی تعلیمات میں قضا و قدر اور الٰہی ارادے اور غیب کا مسئلہ انسان کے اختیاری افعال سے مربوط ہے اور مذکورہ امور سے انسان کا ارادہ و اختیار ، نیز اس کا آزاد ہونا کس طرح ممکن ہے؟ اس کو بیان کیا گیا ہے۔

۱۸۴

مذکورہ مسائل کو انسان کے بنیادی مسئلہ اختیار سے مربوط جاننا چاہیئے اور زندگی سنوارنااس کرامت کو حاصل کرناہے جس کے بارے میں گذشتہ فصل میں گفتگو ہوچکی ہے(۱) انہیں چیزوںکی وجہ سے انسان کے اختیار کا مسئلہ مختلف ملتوں اور مختلف علمی شعبوں کے دانشمندوں اور ادیان و مذاہب کے مفکرین اور ماننے والوں کے درمیان ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ کے عنوان سے مورد توجہ قرار پایا ہے لہٰذااس کے بارے میں مختلف سوالات اور بحث و مباحثہ کے علاوہ مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

مندرجہ ذیل سوالات وہ ہیں جن کے بارے میں ہم اس فصل میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔

۱.اختیار سے مراد کیا ہے ؟ آیا یہ مفہوم ، مجبوری ( اضطرار ) اور ناپسندیدہ ( اکراہ ) کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ؟

۲.انسان کے مجبور یا مختار ہونے کے بارے میں قرآن کا کیا نظریہ ہے ؟

۳. انسان کے اختیاری افعال میں قضا و قدر ، اجتماعی قوانین ، تاریخی ، فطری نیز طبیعی عوامل کا کیا کردار ہے اور یہ سب باتیں انسان کے آزاد ارادہ سے کس طرح سازگار ہیں ؟

۴. کیا علم غیب اور خدا کا عام ارادہ ( ارادۂ مشیت ) جو انسان کے اختیاری افعال میں بھی شامل ہے انسان کے مجبور ہونے کا سبب ہے ؟

____________________

(۱)گذشتہ فصل میں انسان کی کرامت اکتسابی کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے اور ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اس کی اختیاری تلاش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی جو کچھ اس فصل میں اور آئندہ فصل میں بیان ہوگا، اس کا شمار کرامت اکتسابی کے اصول میں ہوگااور انسان کے مسئلہ اختیار کے حل کے بغیر کرامت اکتسابی کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔

۱۸۵

انسان کی آزادی کے سلسلہ میں تین مہم نظریات

انسان کے اختیار اور جبر کا مسئلہ بہت قدیمی ہے اور شاید یہ کہا جاسکتا ہے انسان کی آخرت کے مسئلہ کے بعد جبر و اختیار کی بحث سے زیادہ انسان شناسی کے کسی مسئلہ کے بارے میں یوں گفتگو

مختلف ملتوں اور مذاہب کے ماننے والوں اور معاشرہ کے مختلف قوموں کے درمیان چاہے وہ دانشمند ہوں یا عوام ، رائج نہ تھی ، پہلے تو یہ مسئلہ کلامی ، دینی اور فلسفی پہلوؤں سے زیادہ مربوط تھا لیکن علوم تجربی کی خلقت و وسعت اور علوم انسانی کے باب میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے جبر و اختیار کی بحث علوم تجربی سے بھی مربوط ہوگئی ، اسی لئے علوم تجربی کی بحث میں مفکرین خصوصاً علوم انسانی کے ماہرین نے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ایک طرف تو اختیار ،انسان کا ضمیر رکھنا اور بہت سی دلیلوں کا وجود اور دوسری طرف اختیاری افعال اور اس کے اصول میں بعض غیر اختیاری افعال کا موثر ہونا اور بعض فلسفی اوردینی تعلیمات میں سوء تفاہم کی بنا پر مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں، بعض نے بالکل انسان کے اختیار کا انکار کیا ہے اور بعض لوگوں نے اختیار انسان کو تسلیم کیاہے اور بعض لوگوں نے جبر و اختیار کے ناکارہ ہونے کا یقین رکھنے کے باوجود دونوں کو قبول کیا ہے حالانکہ کوئی معقول توجیہ اس کے متعلق پیش نہیں کی ہے ۔

رواقیان وہ افراد ہیں جو انسان کے اچھے یا برے ہونے کی ذمہ داری کو خود اسی کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں ۔اور دنیا کے تمام حوادث منجملہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی انسان کے ذریعہ غیر قابل تغییر، تقدیر الٰہی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔

اسلامی سماج و معاشرہ میں اشاعرہ نے جبر کے مسلک کو قبول کیا ہے ۔(۱) اور معتزلہ نے

____________________

(۱)اشاعرہ ، جہمیہ کے برخلاف انسان کو اس کے اختیاری افعال میں جمادات کی طرح سمجھتے تھے اس یقین پر کہ انسان کا فعل، قدرت و ارادۂ خدا سے مربوط ہونے کے باوجود خداوند عالم اپنے ارادہ اور قدرت کے ساتھ انسان کے اندر قدرت و ارادہ ایجاد کرتا ہے اور اس فعل سے انسان کا ارادہ مربوط ہوتا ہے ۔ اور اس حقیقت ( فعل سے انسان کے ارادہ کے مربوط ہونے ) کو کسب کہا ہے ۔ لیکن ہر اعتبار سے انسان کے لئے تحقق فعل میں کسی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ملاحظہ ہو: تھانوی ، محمد علی ؛ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم؛ مکتبة لبنان ناشرون ، بیروت : ۱۹۹۶۔

۱۸۶

تفویض کو قبول کیا ہے اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم سے الگ اس کی قدرت و انتخاب کی وجہ سے انجام پاتے ہیں(۱) اس نظریہ کے مشابہ دنیا کی تمام مخلوقات کے سلسلہ میں بعض مسیحی اور مغربی دانشمندوں کے نظریے بیان ہوئے ہیں ۔(۲)

اسلامی سماج اور معاشرہ میں تیسرا نظریہ ، اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ ہے ۔ اس نظریہ میں انسان اپنے اختیاری فعل میں نہ مجبور ہے اور نہ ہی آزاد بلکہ ان دونوں کے درمیان کی ایک حقیقت ہے : ''لا جَبرَ وَ لا تَفوِیضَ بَل أمر بَینَ الأمرَین'' اس نظریہ کے مطابق انسان کے افعال میں نہ تنہا انسان کا خدا کے ساتھ فعال ہونے میں منافات نہیں ہے بلکہ خدا اور انسان کی صحیح شناخت کا تقاضا اور واقعی و اختیاری فعل کی حقیقت کو دقیق درک کرنا ہے ۔

عقیدۂ جبر، اسلام سے پہلے عرب کے جاہل مشرکوں کے یہاں بھی موجود تھا اور قرآن مجید ایک غلط نظریہ کے عنوان سے نقل کرتے ہوئے اس فکر کے فرسودہ ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے اور فرماتا ہے :

( سَیُقُولُ الَّذِینَ أَشرَکُوا لَوشَائَ اللّٰهُ مَا أَشرَکنَا وَ لا آبَاؤُنَا وَ لا حَرَّمنَامِن شَییٍٔ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبلِهِم ) (۳)

عنقریب مشرکین کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ، دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام کرتے اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرچکے ہیں جھٹلاتے رہے

____________________

(۱)کہا گیا ہے کہ بعض معتزلہ کے علماء جیسے ابو الحسن بصری اور نجار ، تفویض کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے ۔

(۲)سنت مسیحیت میں خداوند عالم نے دنیا کو چھہ روز میں خلق کیا ہے اور ساتویں روز آرام کیا ہے ۔ اس عقیدہ کی بنیاد پر دنیا اس گھڑی کے مانند ہے جس میں خداوند عالم نے آغاز خلقت ہی میں چابھی بھر دیا ہے اور اس کے بعد دنیا خدا سے جدا اور مستقل ہوکر اپنی حرکت پر باقی ہے ۔

(۳)سورہ انعام ۱۴۸۔

۱۸۷

دوسری آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا اعتقاد ہر طرح کی علمی حمایت سے دور ہے اور یہ نظریہ فقط نصیحت پر مبنی ہے ، یوں فرماتا ہے :

( وَ قَالُوا لَو شَائَ الرَّحَمٰنُ مَا عَبَدنَاهُم مَا لَهُم بِذٰلِکَ مِن عِلمٍ ن هُم ِلا یَخرُصُونَ ) (۱)

اور کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پرستش نہ کرتے ان کو اس کی کچھ خبر ہی نہیں یہ لوگ تو بس الٹی سیدھی باتیں کیا کرتے ہیں ۔

اسلامی معاشرہ میں جاہل عرب کے عقیدہ ٔ جبر کا قرآن کے نازل ہونے اور اسلام کی سر سخت مخالفت کے بعد اس کا کوئی مقام نہیں رہا ۔اگرچہ کبھی کبھی اس سلسلہ میں بعض مسلمان، بزرگان دین سے سوالات کرکے جوابات حاصل کیاکرتے تھے(۲) لیکن حکومت بنی امیہ کے تین اموی خلفاء نے اسلامی شہروں میں اپنے ظلم کی توجیہ کیلئے عقیدہ ٔ جبر کو رواج دیا اور اس نظریے کے مخالفین سے سختی سے پیش آتے رہے ،ان لوگوں نے اپنے جبری نظریہ کی توجیہ کے لئے بعض آیات و روایات سے بھی استفادہ کیا تھا،تفویض کا نظریہ جو معتزلہ کی طرف سے بیان ہوا ہے عقیدہ جبر کے ماننے والوں کی سخت فکری و عملی مخالفت نیز عقیدۂ جبر کے مقابلہ میں یہ ( تفویض کا نظریہ) ایک طرح کا عکس العمل تھا ۔ جب کہ آیات و روایات اور پیغمبرنیز ان کے سچے ماننے والوں کی زندگی کا طرز عمل بھی مذکورہ دونوں نظریوں کی تائید نہیں کرتا ہے بلکہ اہل بیت کے نظریہ ''الأمر بین الأمرین'' سے مطابقت رکھتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ زخرف ۲۰۔(۲) مثال کے طور پر امام علی اس شخص کے جواب میں جس نے قضا و قدر الٰہی کو جبر سے ملادیا تھا آپ نے فرمایا ..........کیا تم گمان کررہے ہو کہ ( جو کچھ جنگ صفین میں اور دوران سفر میں ہم نے انجام دیا ہے ) ہمارے اختیار سے خارج ، حتمی اور جبری قضا و قدر تھا ؟ اگر ایسا ہی ہے تو سزا و جزا ، امر و نہی سب کچھ غلط اور بے وجہ ہے۔صدوق ، ابن بابویہ، التوحید ، مکتبة الصدوق ، تہران : ۱۳۷۸م ، ص ۳۸۰۔

۱۸۸

بہر حال اگرچہ عقلی ، نقلی اوردرونی ( ضمیر ) تجربہ کے ذریعہ انسان کے اختیار کا مسئلہ ایک غیر قابل انکار شیٔ ہے جس پر بہت سے تجربی دلائل گواہ ہیں لیکن سیاسی اور بعض دینی و فلسفی تعلیمات سے غلط استفادہ اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات کے جوابات میں بعض فکری مکاتب کی ناتوانی کی بنا پر اسلامی معاشرہ کا ایک گروہ عقیدۂ جبر کی طرف مائل ہو گیااوروہ لوگ اس کے معتقد ہوگئے(۱) البتہ یہ شیٔ اسلامی معاشرہ سے مخصوص نہیں ہے دوسرے مکاتب فکرکے دانشمندوں کے درمیان اور متعدد غیر مسلم فرق و مذاہب میں بھی اس عقیدے کے حامی افراد موجود ہیں ۔(۲)

مفہوم اختیار

لفظ اختیار مختلف جہات سے مستعمل ہے یہاں انسان کے اختیار کے معنی کو روشن کرنے کے لئے جو کرامت اکتسابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے چار موارد ذکرکئے جا رہے ہیں۔

۱۔اضطرار اور مجبوری کے مقابلہ میں اختیار

کبھی انسان کسی خاص شرائط اور ایسے حالات و مقامات میں گھر جاتا ہے جس کی بنا پر مجبور ہو کر کسی عمل کو انجام دیتا ہے مثال کے طور پر ایک مسلمان بیابان میں گرفتار ہو جاتا ہے اور راستہ بھول جاتا ہے بھوک اور پیاس اسے اس حد تک بے چین کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی جان خطرہ میں پڑجاتی ہے لیکن ایک مردار کے علاوہ اس کے سامنے کوئی غذا نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے مجبوراً اس حیوان کے گوشت کو اتنی ہی مقدار میں استعمال کر سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ موت سے نجات حاصل کرسکے ،اس مقام پر کہا جائے گا کہ اس شخص نے اپنی خواہش اور اختیار سے مردار گوشت نہیں کھایا ہے بلکہ وہ مجبور تھا اور اضطرار کی وجہ سے مردار کے گوشت کو مصرف کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید اس کی غذا

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مغربی مفکرین و فلاسفہ کے نظریات کوہم ''ضمائم'' میں بیان کریں گے ۔

(۲)انسانی علوم تجربی کے بعض غیر مسلم مفکرین و فلاسفہ کے نظریات ''ضمائم ''میں بیان ہوں گے ۔

۱۸۹

کے جائز ہونے کے بارے میں فرماتا ہے :

( إنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ... فَمَنِ اضطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَ لا عَادٍ فَلا ِثمَ عَلَیهِ ) (۱)

اس نے تو تم پر بس مردہ جانور اور ...لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور سرکشی کرنے والا اورزیادتی کرنے والا نہ ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے ۔

۲.اکراہ کے مقابلہ میں اختیار

کبھی خود انسان کسی کام کے انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے یا کسی کام سے نفرت کرتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص اس کو ڈراتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق اس کام کو انجام دینے کے لئے مجبور کرتا ہے اس طرح کہ اگر اس شخص کا خوف نہ ہوتا تو وہ اس فعل کو انجام نہ دیتا اس مسلمان کی طرح جو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے قتل ہوجانے کے خوف کی بنا پر ظاہر میں زبان سے اظہار کفر کرتا ہے ، اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بااختیار اس عمل کو انجام نہیں دیا ، جیسا کہ سورہ نحل کی ۱۰۶ ویں آیہ میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں :

( مَن کَفَرَ بِاللّٰهِ مِن بَعدَ ِیمَانِهِ لا مَن أُکرِهَ وَ قَلبُهُ مُطمَئِنّ بِالِیمَانِ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے سوائے اس شخص کے جو اس عمل پرمجبورکردیاجائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو۔(۲)

اضطرار سے اکراہ کا فرق یہ ہے کہ اکراہ میں دوسرے شخص کا خوف زدہ کرنا بیان ہوتا ہے جب کہ اضطرار میں ایسا نہیں ہے بلکہ خارجی حالات اور وضعیت اس عمل کی متقاضی ہوتی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۱۷۳۔

(۲)سورہ نحل۱۰۶۔

۱۹۰

۳.اختیار یعنی انتخاب و آزمائش کے بعد ارادہ

جب بھی انسان کے سامنے کسی کام کے انجام دینے کے لئے متعدد راہیں ہوں تو وہ اس کا تجزیہ کرتا ہے اسے خوب پرکھتا ہے اس کے بعد ایک راہ کو انتخاب کرتا ہے اور اسی کے مطابق اس فعل کے انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کام اختیار کے ساتھ انجام پایا ہے لیکن اگر کوئی کام سوچے سمجھے بغیر انتخاب اور اس کا ارادہ کرلیا گیاتو کہا جائے گا کہ یہ فعل غیراختیاری طور پر سرزد ہواہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ میں رعشہ ہو اور اس کا ہاتھ حرکت دینے کے ارادہ کے بغیر ہی لرزرہا ہو ۔

۴.اختیار یعنی رغبت ، محبت اور مرضی کے ساتھ انجام دینا

اس استعمال میں آزمائش اور انتخاب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کسی فعل میں صرف اکراہ اور مجبوری نہ ہو اور وہ فعل کسی کی رضایت اور خواہش کے ساتھ انجام پائے تو اس فعل کو اختیاری کہا جاسکتا ہے، خدا اور فرشتوں کے افعال میں اسی طرح کا اختیار ہے، اس معنی کے مطابق خداوند عالم اور فرشتوں کے افعال، اختیاری ہیں البتہ ان کی طرف سے کسی کام کے انجام پانے کے لئے آزمائش اور انتخاب کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے مثال کے طورپر خداوند عالم اپنے کام کے انجام دینے میں تجزیہ و تحلیل اور انتخاب کی حاجت نہیں رکھتا ہے اوراس کیلئے کسی بھی شی ٔمیں ایسا ارادہ جو پہلے نہ رہا ہو تصور نہیں ہوتا ہے چنانچہ مختار ہونے کا یہ معنی ہے کہ خواہش ، رغبت اور فاعل کی خود اپنی مرضی سے وہ فعل انجام پائے ۔(۱)

____________________

(۱) افعال انسان کے اختیاری ہونے کو اس کے ارادہ سے ملانا نہیں چاہیئے، کسی فعل کے ارادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ارادہ سے پہلے ایک ارادہ ہو اور وہ فعل بھی ارادہ سے پہلے ہو لیکن اختیاری ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس فعل کے صدور میں حقیقی عامل کوئی اور نہیں ہے بلکہ خود وہ شخص ہے ۔ اس بیان کے مطابق خود ارادہ انسان کے لئے بھی ایک اختیاری فعل موجود ہے اگرچہ وہ ایک ارادی فعل نہیں ہے یعنی ارادہ کرنے کے لئے کسی سابق ارادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

۱۹۱

بھی ایک ارادہ ہونا چاہیئے اور یہ تسلسل باقی رہے گا اور یہ محال ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ارادہ کوئی ارادی فعل نہیں ہے اور ضروری نہیں ہے کہ اس کے پہلے بھی ایک ارادہ ہو بلکہ یہ ایک اختیاری فعل ہے اور ارادہ و اختیار میں بہت فرق ہے ،چونکہ حقیقی عامل و سبب نفس انسان ہے اور اس میں کوئی اضطرار و مجبوری نہیں ہے لہذا فعل اختیاری ہے چاہے اس کے پہلے کوئی ارادہ نہ رہا ہو ۔

اس وضاحت سے ارادہ و اختیار میں موجود اہم اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، اس اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہر اختیاری فعل سے پہلے ایک ارادہ کا ہونا ضروری ہے تو خود ارادہ کرنا بھی تو ایک نفسیاتی فعل ہے لہٰذا اس سے پہلے...

مذکورہ چار معانی میں سے جو انسان کے اختیاری کاموں میں مورد نظر ہے نیز کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا طریقۂ عمل بھی ہے وہ تیسرا معنی ہے ۔ یعنی جب بھی انسان متعدد موجودہ راہوں اور افعال کے درمیان تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ کسی کام کو انتخاب کرلے اور اس کے انجام کا ارادہ کرلے تو اس نے اختیاری فعل انجام دیا ہے اور اپنی اچھی یا بری سرنوشت کی راہ میں قدم بڑھایا ہے ،اس لئے تجزیہ و تحلیل ، انتخاب اور ارادہ ، اختیار انسان کے تین بنیادی عنصر شمار ہوتے ہیں ،البتہ منتخب فعل لازمی طور پر انسان کے رغبت اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے یہ ہوسکتا ہے کہ خود بخود وہ فعل انسان کے لئے محبوب و مطلوب ہو اس شخص کی طرح جو خدا کی عبادت اور راز و نیاز کا عاشق ہے اور نیمۂ شب میں با اشتیاق بستر خواب سے بلند ہوتا ہے اور نماز شب پڑھتا ہے یا اس شخص کی طرح جس کے پاس موسم گرما میں تھوڑا سا ٹھنڈا اور میٹھا پانی موجود ہے جس سے ہاتھ اور چہرہ دھلنا اس کے لئے لذت بخش ہے لیکن ظہر کے وقت اسی پانی سے وضو کرتا ہے ،مطلوب اور اچھا فعل اگر معرفت اور ارادہ کے ہمراہ ہو تو ایک اختیاری فعل اور کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ، قدرت انتخاب نہ رکھنے والے جمادات اور فرشتوں میں جن کے سامنے متعدد راہیں نہیں ہوتیں اورغیر ترقی یافتہ انسان میں جو ابھی قدرت انتخاب سے مزین نہیں ہے،اس کے لئے ایسے انتخاب کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) اختیار کی تعریف کے اعتبار سے ،چاہے بہت کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو کیا حیوانات اختیار رکھتے ہیں ؟ اس میں اختلاف نظر ہے لیکن بعض آیات کے ظواہر اور بعض تجربی شواہد بہت معمولی مقدار میں ان کے اختیار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ۔

۱۹۲

انسان کے مختار ہونے پر قرآنی دلیلیں

گذشتہ مفہوم کے مطابق انسان کا اختیار قرآن کی نظر میں بھی مورد تائید ہے اور بہت سی آیات بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ،ان میں سے چار طرح کی آیات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے

۱۔وہ آیات جو بہت ہی واضح طور پر انسان کے اختیار کو بیان کرتی ہیں :

( وَ قُلِ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَن شَائَ فَلیُؤمِن وَ مَن شَائَ فَلیَکفُر ) (۱)

اور تم کہدو کہ سچی بات(قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے پس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے ۔

۲۔ وہ آیات جو اتمام حجت کے لئے پیغمبروں کے بھیجنے اور آسمانی کتب کے نزول کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں :

( لِیَهلِکَ مَن هَلَکَ عَن بَیِّنَةٍ وَ یَحیَیٰ مَن حَیَّ عَن بَیِّنَةٍ ) (۲)

تاکہ جو شخص ہلاک ہو وہ حجت تمام ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ ہدایت کی حجت تمام ہونے کے بعد زندہ رہے ۔

( رُسُلاً مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیٰ اللّٰهِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ )

بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر (بھیجے)تاکہ لوگوں کی خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے ۔(۳)

۳۔ وہ آیات جو انسان کے امتحان اور مصیبت میں گرفتار ہونے پر دلالت کرتی ہیں :

( إِنَّا جَعَلنَا مَا عَلَیٰ الأرضِ زِینَةً لَّهَا لِنَبلُوَهُم أَیُّهُم أَحسَنُ عَمَلاً )

جو کچھ روئے زمین پر ہے ہم نے اسے زینت قرار دیاہے تاکہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے اعمال والا ہے ۔(۴)

____________________

(۱)سورہ کہف ۲۹(۲)سورہ انفال ۴۲

(۳)سورہ نساء ۱۶۵

(۴)سورۂ کہف ۷

۱۹۳

۴. وہ آیات جو بشیرو نذیر ، وعد و وعید ، تعریف و مذمت اور اس کے مثل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اسی وقت فائدہ مند اور مفید ہوں گی جب انسان مختار ہو ۔

( وَعَدَ اللّٰهُ المُنَافِقِینَ وَ المُنَافِقَاتِ وَ الکُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا )

منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے خدا نے جہنم کی آگ کا وعدہ کرلیا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔(۱)

____________________

(۱)سورۂ توبہ ۶۸

۱۹۴

عقیدہ ٔ جبر کے شبہات

جیسا کہ کہا گیا ہے کہ انسان کا مختار اور وجدانی ہونا عقلی نقلی دلیلوں کے علاوہ تجربی شواہد سے بھی ثابت اور مورد تائید ہے لیکن کسی بنا پر ( منجملہ بعض شبہات کی وجہ سے جو انسان کے اختیار کے بارے میں بیان ہوئے ہیں ) بعض لوگ جبر کے قائل ہیں یہاں ہم ان شبہات کا تجزیہ کریں گے ۔

جبر الٰہی

مذکورہ شبہات میں سے ایک شبہہ جبر الٰہی ہے ،تاریخ اسلام میں ایک گروہ کو ''مجبرہ'' کہتے ہیں یہ گروہ معتقد تھا کہ دینی تعلیمات کے ذریعہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اختیاری افعال میں مجبور ہے ، جبر الٰہی کے ماننے والوں کی استناد اور ان کے دینی بیانات کو تین دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا گروہ

وہ آیات و روایات جو علم غیب کے بارے میں ہیں، ان میں مذکور ہے کہ خداوند عالم، انسان کے افعال اختیاری کے انجام پانے سے پہلے ان افعال اور ان کے انجام پانے کی کیفیت سے آگاہ ہے اور انسانوں کی خلقت سے پہلے وہ جانتا تھا کہ کون انسانِ صالح و سعادت مند ہے اور کون برا و بدبخت ہے اور یہ حقائق لوح محفوظ نامی کتاب میں ثبت ہیں جیسے :

۱۹۵

( وَ مَا یَعزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثقَالِ ذَرَّةٍ فِی الأرضِ وَ لا فِی السَّمَائِ وَ لا أَصغَرَ مِن ذٰلِکَ وَ لا أَکبَرَ ِلا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍ ) (۱)

اور تمہارے پروردگار سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز غائب نہیں رہ سکتی نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں چھوٹی ، بڑی چیزوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے مگر وہ روشن کتاب میں ضرور ہے ۔

دوسرا گروہ

وہ آیات و روایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ انسان کے افعال خدا کے ارادہ اور اس کی طرف سے معینہ حدود میں انجام پاتے ہیں جیسے وہ آیات جو ہرشیٔ کے تحقق منجملہ انسان کے اختیاری اعمال کو خدا کی اجازت ، مشیت ، ارادہ نیزقضا و قدر الہٰی کا نتیجہ سمجھتی ہیں جیسے یہ آیات :

( وَ مَا کَانَ لِنَفسٍ أَن تُؤمِنَ لا بِِذنِ اللّٰهِ ) (۲)

کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ بغیر اذن خدا ایمان لے آئے

( مَن یَشَأِ اللّٰهُ یُضلِلهُ وَ مَن یَشَأ یَجعَلهُ عَلَیٰ صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ ) (۳)

اللہ جسے چاہے اسے گمراہی میں چھوڑ دے اور جسے چاہے اسے سیدھے راستہ پر لادے

( وَ مَا تَشَائُ ونَ ِلا أَن یَشَائَ اللّهُ ) (۴)

اور تم لوگ وہی چاہتے ہو( انجام دینا)جو خدا چاہتا ہے ۔

پس انسان اس وقت ایمان لاتا ہے اور صحیح و غلط راستہ اختیار کرتا ہے یا کسی کام کو انجام دے

____________________

(۱)سورۂ یونس ۶۱

(۲)یونس۱۰۰

(۳)انعام ۳۹

(۴)تکویر ۲۹۔

۱۹۶

سکتا ہے جب خدا کی مرضی شامل حال ہو ایک روایت میں امام علی رضا سے بھی منقول ہے کہ :''لا یکُون لا مَاشَاء اللّه وَ أرَاد وَ قدّر وَ قضیٰ '' (۱) کوئی بھی چیز بغیر خدا کی مرضی و ارادہ نیز قضا و قدر کے متحقق نہیں ہوتی ہے ۔

تیسرا گروہ

وہ آیات و روایات جو بیان کرتی ہیں کہ : انسانوں کی اچھی اور بری فطرت پہلے ہی سے آمادہ ہے فقط طبیعت مختلف ہے ۔بعض انسانوں کی فطرت اچھی ہے اور وہ اسی اعتبار سے ہدایت پاتے ہیں اور بعض دوسرے انسانوں کی فطرت بری ہے جس کی بنا پر گمراہ ہوجاتے ہیں جیسے دو آیتیں( کَلاّ إِنَّ کِتَابَ الفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ ) (۲) ( کَلاّ إِنَّ کِتَابَ الأبرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ ) (۳) بیان کرتی ہیں کہ : اچھے لوگوں کی سرنوشت بلند مقام( عِلِّیِّینَ ) اور برے افراد کی سرنوشت پست مقام( سِجِّینِ ) بتائی گئی ہے جیساکہ مختلف احادیث بیان کرتی ہیں کہ : اچھے انسانوں کی فطرت میٹھے پانی اور برے افراد کی فطرت تلخ پانی سے تخلیق ہوئی ہے نیزان احادیث میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ : ''الشَقِی مَن شقیٰ فِی بطنِ أمهِ و السعِید مَن سَعد فِی بطنِ أمهِ ''(۴) بد بخت وہی ہے جو شکم مادر میں بد بخت ہے اور سعادت مند وہی ہے جو شکم مادر ہی سے سعادت مند ہے ۔

جبر الٰہی کی تجزیہ و تحلیل

پہلے گروہ کے شبہہ کا جواب یہ ہے کہ خداوند عالم کا کسی شخص کے اچھے یا برے فعل کے انجام

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ، ج۱ ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :۱۳۴۸، ص ۱۵۸۔

(۲)مطففین ۷۔

(۳)مطففین۱۸

(۴)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ؛ دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :۱۳۶۳۔

۱۹۷

دینے کا علم، اس فعل کے عالم خارج میں بغیر کسی قید و شرط کے انجام پانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس فعل کو تمام قیود اور شرائط کے ساتھ انجام دینے کے معنی میں ہے ، منجملہ انسان کے اختیاری افعال میں یہ قیود، فعل کو پرکھنا ، انتخاب کرنا اور ارادہ کے ذریعہ انجام دینا ہے،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کسی کام کے انجام پانے کے بارے میں خدا کا علم ، جبر اور اختیار دونوں سے سازگار ہے اس لئے کہ اگر خدا جانتا ہے کہ یہ کام جبر کی بنا پر اور فاعل کے ارادہ کے بغیر انجام اور صادر ہوا ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ کی لرزش جسے رعشہ ہو ، تو ظاہر ہے وہ فعل جبری ہے لیکن اگر خدا یہ جانتا ہے کہ فاعل نے اس کام کو اپنے اختیار اور ارادہ سے انجام دیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فعل اختیاری ہے اور فاعل مختار ہے جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال میں کام کے انجام پانے کی ایک شرط اور قید، انسان کا اختیار ہے ، اسی بنا پر خدا جانتا ہے کہ انسان مختار ہے اور اس کام کو اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ جبر الٰہی کے معتقدین نے یہ تصور کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم فعل کے صادر ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے لہٰذا ہم مجبور ہیں ، جب کہ یہ تصور بھی غلط ہے اور ہمیں خود سے خدا کا تقابل نہیں کرنا چاہیئے ،خداوند عالم لامحدود اور زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے ماضی ، حال و مستقبل کا تصور نہیں ہے۔ مادی مخلوقات اگرچہ زمانہ کے ہمراہ ہیں اور اپنے اور دوسرے کے ماضی و مستقبل کے حالات سے جاہل و بے خبر ہیں اور دھیرے دھیرے ان کے لئے حوادث واقع ہوتے ہیں، لیکن اس خدا کے بارے میں جو زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے حرکت و زمان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور یہ کائنات اس کے لئے پوری طرح سے آشکار ہے ، گذشتہ اور آئندہ کے حوادث کے بارے میں خدا وند عالم کا علم ہمارے حال اور موجودہ حوادث کے بارے میں علم رکھنے کی طرح ہے وہ کاروان ہستی اور سلسلۂ حوادث کو ایک ساتھ اور ایک ہی دفعہ میں مشاہدہ کرتا ہے ، غرض یہ کہ کسی چیز کے متحقق ہونے سے پہلے اور متحقق ہونے کے وقت ، اور متحقق ہونے کے بعد کا علم اس کے لئے متصور نہیں ہے ،بہر حال جس طرح اس شخص کے بارے میں ہمارا علم جو ہمارے ہی سامنے اچھا کام کرتا ہے اس کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے اسی طرح خدا کا علم ( ہمارے اعتبار سے اس اچھے کام کے متحقق ہونے سے پہلے ) بھی اس شخص کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے گروہ کی وضاحت میں (قدر،قضا ،مشیت اور ارادۂ خدا کی آیات وروایات میں )قابل ذکر یہ ہے کہ قدر چاہے انسان کے اختیاری افعال یا غیر اختیاری افعال میں ہو ضروری شرائط فراہم ہونے کے معنی میں ناکافی ہے اور قدر کے متحقق ہونے سے فعل حتمی اور قطعی متحقق نہیں ہوتا ہے

۱۹۸

بلکہ تمام شرائط کے فراہم ہونے کی بنا پر حتماً متحقق ہوتاہے اس لئے انسان کے اختیاری افعال میں قدر یعنی کسی فاعل سے فعل کا حتمی صادر ہونا اور واقع ہونا ، جبر کالا زمہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر کسی فعل کے صدور کے لئے علت ناقصہ (نہ کہ تامہ)فراہم ہوئی ہے تو صدور فعل حتمی نہیں ہے کہ اس فعل کے سلسلہ میں اختیاری یا جبری ہونے کے بارے میں بحث کیا جائے اور اگر صدور فعل کے تمام شرائط فراہم ہوں اور فقط فاعل نے قصد نہ کیا ہو تو معلوم ہوا کہ فاعل کا قصد ایک دوسری شرط ہے جو فعل کے حتمی متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے اور اس صورت میں فعل اختیاری ہوگا۔

قضائے الٰہی

جو قدر کے مقابلہ میں ایک فعل کے متحقق ہونے کے لئے کافی اور ضروری شرائط کے فراہم ہونے کے معنی میں ہے وہ بھی انسان کے اختیارسے منافات نہیں رکھتا ہے اس لئے کہ قضائے الہی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب کسی کام کے تحقق پانے کے تمام شرائط جن میں سے ایک انسان کا ارادہ بھی ہے فراہم ہوجائے. اور اختیاری افعال میں انسان کے قصد وارادہ کے بغیر قضائے الہی انسان کے اختیاری افعال میں متحقق نہیں ہوتا ہے.لہذا قضاء الٰہی بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے.

مشیت ، ارادہ اور اذن خدا کو بیان کرنے والی آیات وروایات جو دلالت کرتی ہیں کہ جو بھی فعل انسان انجام دیتا ہے اس کی اجازت اور ارادہ سے متحقق ہوتا ہے اور جس کا خدا نے ارادہ کیا ہے انسان اس کے علاوہ انجام نہیں دیتا ہے یہ مطلب بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے ، اس لئے کہ ان آیات وروایات میں مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کا ارادہ خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں اور خدا کے ارادہ اور اجازت کے سامنے قرار پاتا ہے یعنی ہمارے ارادہ کرنے اور اپنے کام کو انجام دینے کے بجائے خدا ارادہ کرے اور اسے انجام دے اور ہم نے کوئی ارادہ نہ کیا ہو یا فعل کے تحقق میں ہمارا ارادہ مؤثر نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اپنے کاموں کے انجام میں مستقل اور خداسے بے نیاز نہیں ہیں اور مزید یہ کہ کسی بھی فعل کے انجام دینے میں ہمارا قصد اورارادہ مؤثر ہے ، اور طول میں خدا کی اجازت ، قصد اور ارادہ موثر ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہمارے افعال ہمارے ہی اختیار سے انجام پائیں اس لئے کہ اگر وہ نہ چاہے تو ہم کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتے یا ہمارا ارادہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے(۱)

____________________

(۱)مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ؛ ج۱، ص۹۹، محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۲۸۱،۲۸۲

۱۹۹

خدا کے فعاّل ہونے کا راز

قرآن نے( تفویض ) نام کے غلط نظریہ کی نفی کے لئے خدا کے ارادے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے اس نظریہ والوں کا یقین یہ تھا کہ خدا نے دنیا کو خلق کیا اور اسکو اسی کے حال پر چھوڑ کر خود آرام کررہا ہے یادنیا خلق ہونے کے بعد اس کی قدرت اختیار سے خارج ہوگئی ہے اور اس میں خدا کا کوئی نقش و کردار نہیں ہے انسان کے سلسلہ میں یعنی خدا وند عالم فقط آغاز آفرینش میں اپناکردار ادا کرتا ہے اور جب انسان کی تخلیق ہوگئی تو پھر انسان پوری طرح خلاق و فعال ہے اور خدا وند عالم ( نَعُوذُ بِاللّہِ) بیکار ہے۔خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ: ایسا نہیں ہے بلکہ تم اپنے ارادہ سے جو یہ کام انجام دے رہے ہو یہ بھی میری خواہش سے ہے قرآن مجیدمیں فرماتا ہے:

( وَقَالَتِ الیَهُودُ یَدُ اﷲِ مَغلُولَة ) یہودی کہتے ہیں خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے ایسا نہیں ہے (بَل یَدَاہُ مَبسُوطَتَانِ)(۱) اﷲکے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی خدا پوری طرح سے اختیار رکھتا ہے اور فعاّل ہے آیات تاکید کرتی ہیں کہ یہ گمان نہ کرنا کہ اگر انسان اپنے اختیار سے فعل انجام دے رہا ہے تو خدا وند عالم بیکار ہے.

دنیا اور خدا کا رابطہ گھڑی اوراس شخص کے رابطہ کی طرح ہے جو گھڑی کو چابی دیتا ہے ایسا نہیں ہے کہ دنیا گھڑی کی طرح چابی دینے کے بعد خود حرکت کرے اور کسی چابی دینے والے کی محتاج نہ ہو بلکہ یہ خدا وند عالم ہے جو دنیا کو ہمیشہ چلانے والا ہے (کُلَّ یَومٍ ھُوَ فِی شَأنٍ)(۲) کہ وہ ہر وقت فعاّل ہے انسان بھی دنیا کے حوادث سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ مشمول تدبیر وتقدیر الہی ہے. حتی کہ انسان آخرت میں بھی مشیت وارادۂ خدا سے خارج نہیں ہے جیسا کہ سورہ ہود کی ۱۰۸ویں آیہ جو ظلم کرکے ظالمانہ طور پر جہنم میں اور خوش بختی کے ساتھ بہشت میں ورود کو بیان کرنے کے بعد دونوں گروہوں کے بارے میں فرماتی ہے :

( خَالِدِینَ فِیهَا مَا دَامَتِ السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ ِلا مَاشَائَ رَبُّکَ )

جب تک آسمان و زمین ہے وہ ہمیشہ اسی (جنت یا جہنم )میں رہیں گے مگر جب تیرا پروردگار چاہے ۔

ان دو عبارتوں میں '' لوگ ہمیشہ ہونگے''اور''جب تک دنیا باقی ہے''پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ مراد یہ نہیں ہے کہ کسی وقت خداوند عالم خوشبختوں یا ظالموں کو بہشت اور جہنم سے نکالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ کہیں یہ تصور نہ ہوکہ یہ موضوع قدرت خدا کے حدود سے خارج ہوگیا ہے خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوگا توخدا وند عالم اپنی مخلوق کا محکوم واقع ہوجائے گا۔

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۶۴۔

(۲)سورۂ رحمٰن ۲۹۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307