انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145834 / ڈاؤنلوڈ: 4848
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱)

تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔

____________________

(۱) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش

''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل

مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی

۲۲

اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میں روح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔(۱)

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں

انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔

خدا شناسی اور انسان شناسی

انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(۲) یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میں انسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث

____________________

(۱)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

( ۲ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔

۲۳

انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(۱)

قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :

( وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ ) (۲)

زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں ( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔

اور دوسری آیت میں بیان ہوا :

( سَنُریهِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَهُم أَنّهُ الحَقُّ ) (۳)

عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(۴)

____________________

(۱)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔ (۲)ذاریات ۲۰و ۲۱۔

(۳)فصلت ۵۳۔

(۴)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔

۲۴

نبوت اور انسان شناسی

نبوت کا ہونا اوراس کا اثبات ورابطہ ،انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل پر موقوف ہے ۔ اگر انسان شناسی میں یہ ثابت نہ ہو کہ وہ فرشتوں کی طرح خدا سے براہ راست یا باواسطہ رابطہ رکھ سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وحی اور پیغمبرکے سلسلہ میں گفتگو کی جائے ؟!

وحی اورمنصب نبوت سے مرادیہ ہے کہ لوگوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیںجوبراہ راست یا فرشتوں کے ذریعہ خداوند عالم سے وابستہ ہیں ، خداوند عالم ان کے ذریعہ معجزات دکھاتا ہے اور یہ حضرات خدا سے معارف اور پیغامات حاصل کرتے ہیں تا کہ لوگوں تک پہونچائیں ،اس حقیقت کو ثابت اور قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس رابطہ کے سلسلہ میں انسان کی قابلیت کو پرکھا جائے ۔بنوت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات اور شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ایسا رابطہ خداوند عالم سے رکھ ہی نہیں سکتا اور ایسا رابطہ انسان کی قدرت سے خارج ہے ، قرآن مجید اس طرح بنوت کا انکار کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

( مَا هٰذا لاّ بَشَر مِثلُکُم ...ولَو شَائَ اللّٰهُ لأَنزَلَ مَلائِکَةً مَا سَمِعنَا بِهٰذا فِی آبَائِنَا الأوَّلِینَ ) (۱)

''یہ (پیغمبر )تم جیسا بشر کے علاوہ کچھ نہیں اگر خدا چاہتا(کوئی پیغمبر بھیجے ) تو

فرشتوں کو نازل کرتا ، ہم نے تو اس سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد سے کچھ نہیں سنا

دوسری آیت میں کافروں اور قیامت کا انکار کرنے والوں سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے :

( مَا هٰذَا لاّ بَشَر مِثلُکُم یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُونَ مِنهُ وَ یَشرَبُ مِمَّا تَشرَبُونَ وَ لَئِن أَطَعتُم بَشَراً مِثلَکُم ِنَّکُم ِذاً لَخَاسِرُونَ ) (۲)

____________________

(۱)مومنون ۲۴ ۔

(۲) مومنون ۳۳و ۳۴۔

۲۵

(کفار اور قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں :)یہ (پیغمبر ) فقط تمہاری طرح ایک بشر ہے جو چیزیں تم کھاتے اور پیتے ہو وہی وہ کھاتا اور پیتا ہے ، اور اگر تم لوگ نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی، تب تو ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

لہٰذا نبوت کا ہونا یا نہ ہونا اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان اللہ کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات وحی کو دریافت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مزید یہ کہ نبوت کا ہونا ، نبوت عامہ کا اثبات اور انبیاء کی بعثت کی ضرورت بھی اسی انسان شناسی کے مسائل کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان وحی کی مدداور خدا کی مخصوص رہنمائی کے بغیر ،نیز صرف عمومی اسباب کے ذریعہ معرفت حاصل کرکے اپنی راہ سعادت کو کامل طریقے سے پہچان سکتا ہے ؟ یا یہ کہ عمومی اسباب کسب معرفت کے سلسلہ میں کافی و وافی کردار ادا نہیں کرسکتے اور کیا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے کوئی پیغمبر مبعوث ہو ؟

معاد اور انسان شناسی

وحی کی روشنی میں انسان کا وجودصرف مادی دنیا اور دنیاوی زندگی ہی سے مخصوص نہیں ہوتابلکہ اس کے وجود کی وسعت عالم آخرت سے بھی تعلق رکھتی ہے اوراس کی حقیقی زندگی موت کے بعدکی دنیا سے مربوط ہے لہٰذا ایک زاویہ نگاہ سے معاد پر اعتقاد ، موت کے بعد انسان کی زندگی کے دوام اور اس کے نابود نہ ہونے کا اعتقاد ہے اور ایسا اعتقاد در اصل ایک طرح سے انسان کے سلسلہ میں ایسا تفکر ہے جسے انسان شناسی کے مباحث سے اگرحاصل اور ثابت نہیں کیا گیا تو معاد کے مسئلہ کی کوئی عقلی ضرورت نہیں رہ جاتی اورمعاد کا مسئلہ عقلی دلائل کی پشت پناہی سے عاری ہوگا اسی وجہ سے قرآن مجید معاد کی ضرورت و حقانیت پر استدلال کے لئے موت کے بعد انسان کی بقا اور اس کے نابود نہ ہونے پر تکیہ کرتا ہے اور رسول اکرم سے مخاطب ہو کرمنکرین معادکی گفتگو کو اس طرح پیش کرتا ہے :

۲۶

( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نّا لَفِی خَلقٍ جَدیدٍ ) (۱)

اور (معاد کا انکار کرنے والے )یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب (ہم مرگئے اور بوسیدہ ہوگئے اور )زمین میں ناپید ہوجائیں گے تو کیا ہم پھردوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟

ان لوگوں کے جواب میں قرآن یوں فرماتا ہے :

( ...بَل هُم بِلِقائِ رَبِّهِم کَافِرُونَ٭قُلّ یَتَوفَّاکُم مَلکُ الموتِ الذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ لیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) (۲)

(ان لوگوں نے زمین میں مل جانے کو دلیل قرار دیا ہے ورنہ معاد کے ہونے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہہ نہیں رکھتے ہیں )بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات ہی سےانکار کرتے ہیں(اے پیغمبر! اس دلیل کے جواب میں ) تم کہدو کہ: ملک الموت

جو تمہارے اوپر معین ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (اور تم ناپیدا نہیں ہوئوگے)اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائوگے ۔

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت

اس سے پہلے انسان کی حقیقی قابلیت اور بنیادی ضرورتوں کی معرفت نیز بنیاد سازی اور معقول و صحیح اجتماعی عادات و اطوار کی ترسیم مورد تائید قرار پا چکی ہے۔ لہٰذاہم یہاں اس نکتہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ بعض دین کے اجتماعی احکام کو عقلی نقطۂ نظر سے قبول کریں اور انہیں انسان شناسی کے بعض مسائل میں استفادہ کریں، اگرچہ دین کے اجتماعی احکام کی صحت و حقانیت علم خدا کے اس لامتناہی سرچشمہ کی وجہ سے ہے کہ جس کی ذات ،عادل، رحیم و کلیم جیسے صفات سے استوار ہے ،لیکن اسلام کے بعض اجتماعی احکام کی معقول وضاحت ((دینی ، عالم کی معرفت میں ) اس طرح سے کہ جو لوگ

____________________

(۱)سجدہ ۱۰۔

(۲)سجدہ ۱۰و ۱۱

۲۷

دین کونہیں مانتے ہیںان کے لئے بھی معقول اور قابل فہم ہو )صرف انسان شناسی کے بعض مسائل کے جوابات کی روشنی میں میسور وممکن ہے مثال کے طور پر وحی کی تعلیمات میں ، انسان کی حقیقی شخصیت (انسان کی انسانیت )قرب الہٰی(خدا سے قریب ہونا)کی راہ میں گامزن ہونے کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اور خدا سے دور ہونے کا مطلب خود کو فراموش کرنا اور انسانیت کے رتبہ سے گر کر حیوانات سے بدتر ہونا ہے(۱) اس مطلب کی روشنی میں ، وہ شخص جو اسلام کی حقانیت اور اس پر ایمان لانے کے بعد کسی غرض اور حق کی مخالفت کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑ کے کافر(مرتد) ہوجائے تو اس کے لئے پھانسی کا قانون ایک معقول اور مستحکم فعل ہے ،اس لئے کہ ایسے شخص نے اپنی انسانیت کو جان بوجھ کر گنوایا ہے نیزحیوان اور بد ترین مخلوق ہونے کا سہرا باندھ کر جامعہ کے لئے خطرناک جانور(۲) میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو

بہت سی فکری کوششیں جو وجود انسان کے گوشوں کو روشن کرنے کے لئے دوبارہ احیاء ہوئی ہیںاس نے بشر کے لئے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں ،اگرچہ ان معلومات کی جمع آوری میں تحقیق کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن ان میں روش تجربی کا حصہ دوسری راہوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسان شناسی میں زیادہ حصہ تجربہ کا ہے۔ بہت سے قضایا اور انکشافات جو انسان شناسی کے مختلف مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وجود انسانی کے

____________________

(۱)(أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلونَ )''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ۱۷۹)

(۲)(إنَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّهِ الّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لایُؤمِنُونَ )''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ۵۵)

۲۸

تاریک گوشوںکے حوالے سے قابل تحقیق ہیں ۔ نیز فراوانی اور اس کے ابعاد کی کثرت کی وجہ سے نہ صرف انسان کے ناشناختہپہلوئوں کو جیسا چاہیئے تھا واضح کرتے اور اس نامعلوم موجود کی شناخت میں حائل شدہ مشکلات کو حل کرتیخود ہی مشکلات سے دچار ہوگئے ہیں ۔(۱)

علم کے کسی شعبہ میں بحران کا معنی یہ ہیںکہ جن مشکلات کے حل کے لئے اس علم کی بنیاد رکھی گئی ہووہ علم اس کو حل کرنے سے عاجز ہو اور اپنے محوری و مرکزی سوالات کے جوابات میں مبہوت و پریشان ہو، ٹھیکیہی صورت حال دور حاضر میں انسان شناسی کی ہوگئی ہے، یہ بات ایک سر سری نظر سے معلوم ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں انسان شناسی کی مختلف معلومات، مختلف جہتوںسے بحران کا شکار ہیں۔ انسان شناسی کا ماہر، جرمنی کا فلسفی ''اسکیلر میکس '' لکھتا ہے کہ : تاریخ کے اوراق میں کسی وقت بھی ...انسان جس قدر آج معمہ بنا ہوا ہے کبھی نہیں تھا ...تخصصی علوم جن کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اوربشر کے مسائل سے مربوط ہیں ،یہ بھی ذات انسان کو مزید معمہ بنائے ہوئے ہیں ۔(۲)

دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کا چار بنیادی طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان چار بنیادی طریقوں سے مراد یہ ہیں؛ ۱۔ علوم نظری کی ایک دوسرے سے عدم ہماہنگی اور اندرونی نظم سے عاری ہونا۔ ۲۔ فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۔ ۳۔ انسان کے ماضی و مستقبل کا خیال نہ کرنا

۴ ۔ انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۔

____________________

(۱)''ہوسرل ''منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے انسان شناسی کے بحران کو بیان کیا ہے ،اس نے '' وین''(مئی ۱۹۳۵)کی اپنی تقریر میں ''یورپ میں انسانیت کی بحران کا فلسفہ ''اور ''پراگ ''(۱۲ ۱۹۳۴)کی تقریر میں ''نفسیات شناسی اور یورپ کے علوم کا بحران''کے عناوین سے اس موضوع پر تقریریں کی ہیں اوراس کی موت کے بعد اس کے مسودوں کو ۱۹۵۴ئ میں ایک پر حجم کتاب کی شکل میں ''بحران علوم اروپائی و پدیدار شناسی استعلایی '' کے عنوان سے منتشرکیا گیاہے ،ملاحظہ ہو ؛ مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی، ص۵۶

(۲) Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. ۱۷

کیسیرر سے نقل کرتے ہوئے ، ارنسٹ ، ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ، ص ۴۶و ۴۷۔

۲۹

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا

تمام مفکرین مدعی ہیں کہ انسان کے سلسلہ میں ان کا خاکہ اور نظریہ، دنیاوی اور تجربی معلومات و حوادث پر مبنی ہے اور ان کے نظریات کی دنیاوی حوادث سے تائید ہو جاتی ہے لیکن اگر ان نظریات کی سبھی توضیحات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی فطری وحدت مجہول ہے اور ہم انسان کی ایک فرد یاایسے مختلف افراد سے رو برو نہیں ہیںجو ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔(۱) مثال کے طور پر''رفتار گرایان'' کا عقیدہ ( جو انسان کے کردار کو محور تسلیم کرتے ہیں )جیسے ا سکینر(۲) ، سیاسی و اقتصادی جامعہ شناس جیسے کارل مارکس(۳) ، جامعہ شناس جیسے دور کھیم(۴) علم الحیات کے نظریات کو ماننے والے اور عقیدہ وجود والے جیسے ژان پل سارٹر(۵) کے نظریات انسان کے اختیارات اور آزادی کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ کس طرح ایک دوسرے سے ہماہنگ اور قابل جمع نہیں ہیں؛ ''عقیدۂ رفتار و کردار رکھنے والے'' اختیار کا ایک سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ''مارکس'' انسان کے اختیاراور آزادی کو روابط کے ایجاد اور تاریخی جبر کی پیداوار سمجھتا ہے ۔'' دورکھیم'' اجتماعی جبر کی تاکید کرتا ہے۔ ''حیات شناس افراد'' عناصر حیات کے سرنوشت ساز کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور'' ژان پل سارٹر''انسان کی بے چوں و چرا آزادی کا قائل ہے کہ جس میں حیات کے تقاضوں سے بالاتر ہو کرمادی دنیا کے تغییر ناپذیر قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔''اسکیلر میکس'' اس سلسلہ میں کہتا ہے کہگذشتہ دور کے برخلاف آج کے دور میں انسان شناسی تجربی(اپنے تمام انواع کے ساتھ) انسان شناسی فلسفی اور انسان شناسی الٰہی ایک دوسرے کے مخالف یا آپس میں بالکل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیںان میں

____________________

(۱)کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ (ترجمہ )ص ۴۵و ۴۶۔

(۲) B.F.Skinner

(۳) Karl Marx

(۴) Emile Durkheim

(۵) Jean-Paul

۳۰

انسان کے سلسلہ میں اجماعی نظریہ اور اتحاد نہیںپایا جاتا ہے ۔(۱)

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا

طبیعی علوم میں وہ قوانین جن کو علوم طبیعی کے اکثر مفکرین مانتے ہیں ان کے علاوہ، تجربی روش کو بھی اکثر مفکرین نے آخری دلیل اور حاکم کے عنوان سے قبول کیا ہے،اگرچہ اس کی افادیت کی مقدار میں بعض اعتراضات موجود ہیں لیکن علوم انسانی میں (جیسا کہ'' ارنسٹ کیسیرر''(۲) ذکرکرتاہے کہ)کوئی ایسی علمی اصل نہیں ملتی جسے سبھی مانتے ہوں(۳) ایسے موقعہ پر ایک مفید حاکم و دلیل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس کے باوجود علمی تحقیق یہ ہے کہ دور حاضر میں ہر انسان شناس اپنے نظریات کے سلسلہ میں عین واقعیت اور تجربی دلیلوں سے ہماہنگی کا مدعی ہے ، حالانکہ ، تجربی روش جس کو آخری اور مستحکم دلیل و حاکم کے عنوان سیپیش کیا گیا ہے خود ہی متناقض معلومات فراہم کرتی ہے اوروہ بیان کئے گئے مشکلات کو حل کرنے میں مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ضروری افادیت سے محروم ہے مزید یہ کہ (مفکرین کے )قابل توجہ گروہ نے کلی طور پر ( حتی ان موارد میں بھی جہاں علم تجربی ہمارے لئے ہماہنگ معلومات فراہم کرتا ہے)اس روش کی افادیت میں شک ظاہر کیا ہے اور تفہیم و حوادث شناسی کے دوسرے طریقۂ کار کی تاکید کی ہے ۔

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا

انسان شناسی تجربی کے نظریات ،انسان کے ماضی اور مستقبل (موت کے بعد کی دنیا) کے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ اگر انسان موت سے نابود نہیں ہوتا ہے (جب کہ ایساہی ہے ) تو یہ نظریات اس کی کیفیت اور اس دنیاوی زندگی سے اس کے رابطوں کی وضاحت و تعریف سے عاجز ہیں

____________________

(۱)اسکیلرمیکس۔

(۲) Earnest Cassirar

(۳)کیسیرر ، ارنسٹ ، گذشتہ حوالہ، ص ۴۶۔

۳۱

چنانچہ وہ اپنے ماضی سے غافل ہیں ،انسان کی سر نوشت اوراس کی خواہش میں معنوی اسباب کا اثر و عمل بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے بارے میں انسان شناسی تجربی کے نظریات کسی بھی وضاحت یا حتمی رأی دینے سے قاصر ہیں ۔انسان شناسی کے دوسرے اقسام بھی (دینی انسان شناسی کے علاوہ ) اخروی سعادت اور انسانی اعمال کے درمیان تفصیلی اور قدم بہ قدم روابط کے بیان سے عاجز ہیں ۔

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا

دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریے اور مکاتب اس دنیا کے بھی مہم ترین انسانی حوادث کی تفصیل و صراحت سے عاجز ہیں اور اس جہت سے بھی علمِ انسان شناسی بحران کا شکار ہے ۔ زبان ، اجتماعی اور انسانی حوادث کے اہم ترین ایجادات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ علوم انسانی کے بعض مفکرین کا نظریہ ہے کہ: جو مکتب اچھی طرح زبان کی وضاحت پر قادر ہے وہ انسانی حوادث کی بھی صراحت کر سکتا ہے جب کہ دور حاضر میں انسان شناسی ،زبان کے بعض گوشوں کی تفسیر و وضاحت سے عاجز ہے مثال کے طور پر وہ نظریات جو انسان کو ایک مشین یا کامل حیوان کا درجہ دیتے ہیں کس طرح ان جدید اصطلاحات و ایجاد معانی جن کو پہلی مرتبہ انسان مشاہدہ کرتا ہے یا اس طرح کی چیزوں کے سمجھنے میں ذہن انسانی کی خلاقیت اور اس کی ابتکاری صلاحیت کی کیونکروضاحت کرسکتے ہیں؟ یا نمونہ کے طور پر میدان فہم و تفہیم میں (مقصد کو بیان کرنے کے لئے کلمات کا ایجاد کرنا) جو حیوانات کی آواز کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،انسان کی خلاقیت کی کس طرح وضاحت کریں گے ؟ ''چومسکی''(۱) معتقد ہے کہ قابلیت اور ایجادات ،انسان کی زبان کے امتیازات میں سے ہے یعنی ہم سب سے گفتگو کرسکتے ہیں اور زبان کے قوانین اور معانی کی مدد سے ایسے جملات کو سمجھتے ہیں جس کو اس سے پہلے سنا ہی نہ تھا ، لہٰذا زبان ماہیت کے اعتبار سے حیوانات کے اپنے مخصوص طریقۂ عمل سے کاملاًجدا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) Chomsky Noam (۲)لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ۱۶۱۔

۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

دینی انسان شناسی اپنے مد مقابل اقسام کے درمیان کچھ ایسے امتیازات کی مالک ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں :

جامعیت

چونکہ دینی انسان شناسی تعلیمات وحی سے بہرہ مند ہے اور طریقہ وحی کسی خاص زاویہ سے مخصوص نہیں ہے لہٰذااس سلسلہ میں دوسری روشوں کی محدودیت معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عمومیت کی مالک ہے، اس طرح کہ اگر ہم کسی فرد خاص کے بارے میں بھی گفتگو کریں تواس گفتگو کوانسان کے سبھی افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس فرد خاص کے اعتبارسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ گفتگو کرنے والا کامل اور ہر زاویہ سے صاحب معرفت ہے ، مزید دینی انسان شناسی کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ یہ انسان شناسی ، انسان کے مختلف افراد کو مدنظر رکھتی ہے نیز جسمانی و فطری ، تاریخی و سماجی ،دنیاوی واخروی، فعلی و ارمانی، مادی و معنوی لحاظ سے بھی گفتگو کرتی ہے اور بعض موارد میں ایسی حقیقتوں کو منظر عام پر لاتی ہے جن کو انسان شناسی کے دوسرے انواع و اقسام کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ، دینی تعلیمات میں منظور نظرا ہداف ہی انسان شناسی دینی کے مختلف گوشے ہیں جو انتخابی صورت میں انجام پاتے ہیں ۔لہٰذا ہر پہلو کے مسئلہ کو اسی مقدار میں پیش کیا جائے گا جس قدر وہ انسان کی حقیقی سعادت میں اثر انداز ہے ، جب کہ اس کی انتخابی عمومیت باقی رہے گی بلکہ انسان شناسی کے ہر ایک شعبہ مثلاً فلسفی ، تجربی ،شہودی کے لئے ایک خاص موضوع مورد نظر ہو گا اور انسان شناسی سے مربوط دوسرے موضوعات اس کے دائر ۂبحث سے خارج ہوںگے ۔

۳۳

استوار اور محکم

دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔

مبدا اور معاد کا تصور

غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)

بنیادی فکر

دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و

____________________

(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔

۳۴

معنوی اور فکری تمایل نیز ان کے آپسی روابط کے تاثرات ،شدید مورد توجہ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن تجربی، فلسفی ،عرفانی انسان شناسی میں یا تو آپس میں ایسے وسیع روابط سے غفلت ہو جاتی ہے یااتنی وسعت سے توجہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف بعض آپسی جوانب کے روابط سے گفتگو ہوتی ہے ۔

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی شناخت اور اس کے ابعادوجودی، زمانہ قدیم سے لے کراب تک مفکرین کی مہم ترین تحقیقات کا موضوع رہے ہیں ۔

۲۔ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروہ یا انسان کے ابعاد وجودی کے بارے میں بحث کرے یا انسان کے سلسلہ میں کلی طور پربحث کرے اس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

۳۔ انسان شناسی کی مختلف قسمیں ہیں ،جو تحقیقی روش یا زاویہ نگاہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔

۴۔ اس کتاب میں مورد توجہ انسان شناسی ، انسان شناسی کلاں یا جامع ہے جو روائی اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یا یوں کہا جائے کہ وحی اور تعبدی طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

۵۔ انسان شناسی ''کلاں نمائی'' مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مخصوص اہمیتکی حامل ہے :

الف)زندگی کو واضح کرتی ہے ۔ ب)اجتماعی نظام کو بیان کرتی ہے ۔

ج)علوم و تحقیقات کی طرفداری میں موثر ہے ۔ د)دین کے بنیادی اصول اور اس کے اجتماعی احکام کی توضیح سے مربوط ہے ۔

۶۔ دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریات میں عدم ہماہنگی کی وجہ سے جامع اور مفید دلیل و حاکم کے فقدان ، انسان کے ماضی و آئندہ سے چشم پوشی اور اس کے مہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجزاور شدید بحران سے روبرو ہے ۔

۷۔ دینی انسان شناسی ''ہمہ گیر ''ہونے کی وجہ سے جامعیت ، نا قابل خطا، مبدا و معاد پہ توجہ اور دوسرے انسان شناسی کے مقابلہ میں عمدہ کردار کی وجہ سے برتری رکھتی ہے۔

۳۵

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں اور اگر ان کے جوابات میں کوئی مشکل در پیش ہو تومطالب کا دوبارہ مطالعہ کریں ؟

۱۔ منددرجہ ذیل موارد میں سے کون انسان شناسی کل نمائی اور ہمہ گیر موضوعات کا جزء ہے اور کون انسان شناسی ،جزئی موضوعات کا جزء ہے ؟

''سعادت انسان ، خود فراموشی، حقوق بشر ، انسانی قابلیت ، انسانی ضرورتیں ، مغز کی بناوٹ ''

۲۔ ''خود شناسی ''سے مراد کیا ہے اور دینی انسان شناسی سے اس کا کیا رابطہ ہے ؟

۳۔ مندرجہ ذیل میں سے کون صحیح ہے ؟

(الف) تجربی علوم انسانی میں ایک مکتب، انسان محوری ہے ؟( ب) تجربی علوم انسانی اور دینی انسان شناسی، موضوع ، دائرہ عمل اورروش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ ( ج) حقوق بشر کا یقین اور اعتقاد ، انسانوں کی مشترکہ فطرت سے وابستہ ہے ۔ (د) موت کے بعد کی دنیا پر یقین کا انسان شناسی کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

۴۔ انسان کی صحیح اور جھوٹی ضرورتوں کی شناخت کا معیار کیا ہے ؟

۵۔ آپ کے تعلیمی موضوع کا وجود و اعتبار کس طرح انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل سے مربوط ہے ؟

۶۔ انسانوں کا جانوروں سے امتیاز اوراختلاف ، فہم اور انتقال مطالب کے دائرے میں زبان اور آواز کے حوالے سے کیا ہے ؟

۷۔ آیا انسان محوری ، انسان کی تعظیم و قدر دانی ہے یا انسان کی تذلیل اور اس کے حقیقی قدر و منزلت سے گرانا ہے ؟

۳۶

مزید مطالعہ کے لئے

۱.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ارتگا ای گاست ، خوسہ ؛ انسان و بحران ترجمہ احمد تدین ؛ تہران : انتشارات علمی و فرہنگی

۔عارف ، نصر محمد ( ۱۹۱۷ ) قضایا المنھجیة فی العلوم النسانیة.قاہرہ : المعھد العالمی للفکر السلامی

۔کیسیرر،ارنسٹ (۱۳۶۹) رسالہای در باب انسان در آمدی بر فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادرزادہ تہران : پژوہشگاہ علوم انسانی

۔گلدنر ، الوین (۱۳۶۸) بحران جامعہ شناسی غرب ، ترجمہ فریدہ ممتاز ، تہران : شرکت سہامی انتشار

۔ گنون ، رنہ ،بحران دنیای متجدد ، ترجمہ ضیاء الدین دہشیری تہران : امیر کبیر

۔والر اشتاین ، ایمانویل (۱۳۷۷)سیاست و فرہنگ در نظام متحول جہانی ، ترجمہ پیروز ایزدی تہران : نشرنی

۔ واعظی ، احمد ، ''بحران انسان شناسی معاصر''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹، ص ۱۰۹.۹۴، قم دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵.

۲ معارف دینی اور تفکر بشری کے سلسلہ میں انسان شناسی کا اثر چنانچہ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ در آمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ص ۴۵.۵۵۔

۔ محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن (خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان

شناسی )قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۱۵۔ ۳۵۔

۔ پیش نیازھای مدیریت اسلامی ، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ،قم : ۱۳۷۹۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، تہران : سمت ، ص ۱۴۔۱۷۔

۳. انسان شناسی کی کتابوں کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹ ،ص۱۶۶۔ ۱۲۸ ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵

۳۷

۴۔بعض وہ کتابیں جس میں اسلامی نقطہ نظر سے انسان کے بارے میں بحث ہوئی ہے :

۔ ایزوٹسوٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸) خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۔ بہشتی ، احمد (۱۳۶۴ ) انسان در قرآن ، کانون نشر طریق القدس ۔

۔ جعفری ، محمد تقی ( ۱۳۴۹ ) انسان در افق قرآن ، اصفہان : کانون علمی و تربیتی جہان اسلام.

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲ ) انسان در اسلام ، تہران : رجاء ۔

۔حائری تہرانی ، مہدی ( ۱۳۷۳) شخصیت انسان از نظر قرآن و عترت .قم : بنیاد فرہنگی امام مہدی ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن ( ۱۳۶۹) انسان و قرآن ، تہران:الزہراء

۔حلبی ، علی اصغر ( ۱۳۷۱ ) انسان در اسلام و مکاتب غربی تہران : اساطیر

۔دولت آبادی ، علی رضا (۱۳۷۵)سایہ خدایان نظریہ بحران روان شناسی در مسئلہ

انسان ،فردوس : ( ۱۳۷۵)

۔قرائتی ، محسن ( بی تا ) جہان و انسان از دیدگاہ قرآن ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔قطب ، محمد ( ۱۳۴۱) انسان بین مادیگری و اسلام ، تہران : سہامی انتشار ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )

قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( بی تا ) انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۔ نصری ، عبد اللہ ( ۱۳۶۸) مبانی انسان شناسی در قرآن ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۳۸

دوسری فصل :

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

ا۔ انسان کے بارے میں مختلف نظریوں کو مختصراً بیان کریں ؟

۲۔ہیومنزم کے معانی و مراد کی وضاحت کریں ؟

۳۔ ہیومنزم کے چار اہداف و مراتب کی مختصراً وضاحت پیش کریں ؟

۴۔ہیومنزم کے نظریہ کی تنقیدو تحلیل کریں ؟

۳۹

جیسا کہ اشارہ ہوچکاہے کہ انسان ، بشری تفکر کا ایک محور ہے جس کے بارے میں وجود اور اہمیت شناسی کے مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، بعض مفکرین نے انسان کو دوسرے موجودات سے بالاتر اور بعض نے اسے حیوانات کے برابر اور کچھ نے اس کو حیوان سے کمتر و ناتواں اور ضعیف بیان کیا ہے ، معرفت کی اہمیت کے اعتبار سے بھی بعض نے اس کو اشرف المخلوقات ، بعض نے معتدل (نہ بہتر اور نہ خراب ) اور بعض نے انسان کو برا ، ذلیل اورپست کہا ہے، آئندہ مباحث میں ہم بعض مذکورہ بالا نظریوں کو اجمالاً بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی نظریات کو بھی پیش کریں گے ۔

ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔

دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ان کے جوابات کو فلسفی اور تجربی انسان شناسوں کی نگاہ سے ترتیب دیا ہے جس کو پروفیسر ''ونس پاکرڈ''نے ''عناصر انسان ''نامی کتاب میں پیش کیا ہے ،ہم ان سوالات میں سے دو مہم سوالوں کو جو انسان کی فطرت سے مربوط ہیںیہاں نقل کر رہے ہیں ۔(۱)

پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کی فطرت کیا ذاتاً اچھی ہے یا بری ہے یا نہ ہی اچھی ہے اور نہ ہی بری ؟

منفی نظریات

فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان ایک منفی اور مخالف سرشت کا مالک ہے اور وہ ایسے غرائزسے برانگیختہ ہوتا ہے جس کی جڑیں زیست شناسی سے تعلق رکھتی ہیں ۔ خاص طور سے جنسی خواہشات(۲) اور پر خاش گری کو(۳) فقط اجتماعی معاملات سے قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔

نظریہ تجربہ گرا کے حامی(۴) : (ہابز )کے لحاظ سے انسان فقط اپنی منفعت کی راہ میں حرکت کرتا ہے ۔

نظریہ سود خوری(۵) : (بنٹام ہیل) کے مطابق انسان کے تمام اعمال اس کی تلاش منفعت کا نتیجہ ہیں ۔

نظریہ لذت گرا کے نمائندے کہتے ہیں کہ(۶) : انسان لذت کے ذریعہ اپنی ضرورت حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور رنج سے دوچار ہونے سے فرار کرتا ہے ۔

____________________

(۱) Vance Pakard,The People Shapers,PP.۳۶۱,Biston,Toronto,۱۹۷۷

اس کتاب کو جناب حسن افشار نے ''آدم سازان '' کے عنوان سے ترجمہ اور انتشارات بہبہانی نے ۱۳۷۰میں منتشر کیا ہے اور ہم نے جناب حسن افشار کے ترجمہ کو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

(۲) sex

(۳) aggression

(۴) empiricists

(۵) utillitarians

(۶) hedonists

۱۶۱

نظریہ افعال گرایان کے حامی(۱) : (لورنز ) کا کہنا ہے انسان ذاتی طور پر برا ہے یعنی اپنے ہی ہم شکلوں کے خلاف ناراضگی کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے ۔

آرتھونلک کا ماہر نفسیات(۳) : (نیوبلڈ(۴) ): انسان کی ناراضگی کے سلسلہ میں اس گروہ کا نظریہ بھی عقیدہ افعال گرایان کے مشابہ ہے ۔

دوسرا سوال اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کا حیوانات سے جدا ہونا ماہیت کے اعتبار سے ہے یا مرتبہ حیوانیت کے اعتبار سے ہے ؟اس سلسلہ میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں جن میں سے بعض نظریات کو ''ناٹالی ٹربوویک '' نے سوال و جواب کی صورت میں یوں پیش کیا ہے :

انسان و حیوان ایک مخصوص طرز عمل کی پیروی کرتے ہیں یا انسان میں ایسے نظری ارادے ہیں جو حیوانی ضرورتوں سے بہت بالا ہیں ؟

صلح پسندی کے مدعی (ہیوم ، ہارٹلی)کا کہنا ہے:انسان کے طریقہ عمل میں دوسرے تمام حیوانات کے طریقہ عمل کی طرح کچھ ضدی چیزیں ہیں جو خود بخود حساس ہوجاتی ہیں ۔

عقیدہ ٔ تجربہ گرائی کے ہمنوا( ہابز)کے مطابق:انسان کی فطرت بالکل مشینی انداز میں ہے جو قوانین حرکت کی پیروی کرتا ہے ،انسان کے اندر روح کے عنوان سے کوئی برتری کی کیفیت نہیں ہے ۔

____________________

(۱)" ethologists "کردار شناسی ( ethology )ایسا کردار و رفتاری مطالعہ ہے جو جانور شناسی کی ایک شاخ کے عنوان سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی انواع و اقسام کی توصیفِ رفتار اور مشاہدہ کی مزید ضرورت کی تاکید کرتا ہے ۔ تفسیر رفتار بہ عنوان نتیجہ، تکامل انسان کے طبیعی انتخاب کا سرچشمہ ہے ، لیکن بعد میں اس کا اطلاق انسان و حیوان کے انتخابی پہلو پر ہونے لگا اور اس وقت حضوری گوشوں پر اطلاق ہوتا تھا اور آج کل علم حیات کی طرف متمائل ہوگیا ہے

(۲) Lorenz

(۳) orthonoleculer Psychiatrists

(۴) Newbold

۱۶۲

فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان تمام حیوانوں کی طرح فقط غریزی خواہشوں کے فشار(۱) کو کنٹرول کر سکتا ہے ۔ اس خواہش کو شرمندۂ تعبیر حیاتی ضرورتیں وجود میں لاتی ہیں ۔ انسان کا طریقۂ عمل، لذت کی طرف میلان اور رنج و الم سے دوری کی پیروی کرنا ہے حتی وہ طریقۂ عمل جو ایسا لگتا ہے کہ بلند و بالا اہداف کی بنیاد پر ہے حقیقت میں وہ بہت ہی پست مقاصد کو بیان کرتا ہے ۔

عقیدہ کردار و افعال کے علمبردار(ا سکینر)کے مطابق : طریقۂ عمل چاہے انسان کاہو، چاہے حیوان کاسبھی شرائط کے پابند ہیں کبھی انسان کے طریقۂ عمل پر نگاہ ہوتی ہے لیکن اس چیز پر نگاہ نہیں ہوتی جو انسان کے طریقۂ عمل کو حیوان کے طریقہ عمل سے جدا کردے جیسے ''آزادنہ ارادہ ، اندرونی خواہش اور خود مختار ہونا''اس طرح کے غلط مفاہیم ،بے فائدہ اور خطرناک ہیں چونکہ انسان کی اس غلط فکر کی طرف رہنمائی ہوتیہے کہ وہ ایک خاص مخلوق ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔

عقیدہ عقل ( ڈکارٹ ) : پست حیوانات مشین کی طرح ہیں یعنی ان کا طریقۂ عمل بعض مادی قوانین کے تحت ہے اور انسان حیوانی فطرت کے علاوہ عقلی فطرت بھی رکھتا ہے جو اسے قضاوت ، انتخاب اور اپنے آزاد ارادہ کے انجام دینے کی اجازت دیتی ہے ۔

فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن) کے مطابق: انسان ایسی توانائی رکھتا ہے جو زندگی کی سادہ ضرورتوں پر راضی ہونے سے بالا تر ہے اور وہ اچھائیاں تلاش کرنے کے لئے فطری توانائی رکھتا ہے ۔ لیکن یہ بات کہ وہ انہیں کسب کرسکے گا یا نہیں ، اجتماعی اسباب پر منحصر ہے، انسان کے اچھے کام ہوسکتے ہیں کہ بلند و بالا ارادے سے آغاز ہو ںلہٰذا وہ فقط پست اہداف سے منحرف نہیں ہوتے ہیں ۔

انسان محوری کے شیدائی( مازلو، روجرز ) کے مطابق: انسان کی فطرت حیوان کی فطرت سے بعض جہتوں میں برتر ہے، ہر انسان یہ قابلیت رکھتا ہے کہ کمال کی طرف حرکت کرے اور خود کو نمایاں

____________________

(۱) Tensions

۱۶۳

کرے، نامناسب ماحول کے شرائط وغیرہ مثال کے طور پر فقیر آدمی کا اجتماعی ماحول، جو اپنے تہذیب نفس کی ہدایت کو غلط راستہ کی طرف لے جاکر نابود کردیتاہے یہ ایسی ضرورتیںہیں جو انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن حیوان کے لئے باعث اہمیت نہیں ہیں مثال کے طور پر محبت کی ضرورت ، عزت اعتبار ، صحت ، احترام کی ضرورت اور اپنی فہم کی ضرورت وغیرہ ۔

عقیدۂ وجود کے پرستار( سارٹر) کے بہ قول : انسان اس پہلو سے تمام حیوانوں سے جدا ہے کہ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کے اعمال کی ذمہ داری فقط اسی پر ہے ،یہی معرفت انسان کو تنہائی اور ناامیدی سے باہر لاتی ہے اور یہ چیزانسان ہی سے مخصوص ہے ۔

مبہم نظریات

نظریہ افعال گرائی کے حامی(۱) (واٹسن(۲) ، ا سکینر(۳) )کے مطابق : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ ماحول اس کو اچھا یا برا بناتا ہے ۔

معاشرہ اور سماج گرائی نظریہ (بانڈورا(۴) ، مائکل(۵) )کے مطابق :اچھائی یا برائی انسان کو ایسی چیز کی تعلیم دیتے ہیں جو اس کے لئے اجر کی سوغات پیش کرتے ہیںاور اس کو سزا سے بچاتے ہیں ۔

وجود گرائی کا نظریہ (سارٹر)کے بہ قول : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ وہ جس عمل کو انجام دیتا ہے اس کی ذاتی فطرت پر اثر انداز ہوتا ہے ،لہٰذا اگر تمام لوگ اچھے ہوں تو انسان کی فطرت بھی اچھی ہے اور اسی طرح بر عکس۔

____________________

(۱) Behaviorists

(۲) Watson

(۳) Skinner

(۴) Bandura

(۵) Mischel

۱۶۴

مثبت نظریات

فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن ) :

انسان کے اچھے ہونے کے لئے اس کے اندر مخصوص توانائی موجود ہے لیکن یہ کہ وہ اچھا ہے یا نہیں ، اس معاشرہ سے مربوط ہے جس میں وہ زندگی گذاررہا ہے اور ان دوستوں سے مربوط ہے جس کے ساتھ خاص طور سے بچپنے میں رابطہ رکھتا تھا فرایڈ کے نظریہ کے برخلاف اچھے اعمال فطری زندگی کی ضرورتوں سے وجود میں نہیں آتے ہیں ۔

انسان محوری(۲) ( مازلو(۳) ، روجرز(۴) ):

انسان کے اندرنیک ہونے اور رہنے کی قابلیت موجود ہے اور اگر اجتماعی ضرورتیں یا اس کے غلط ارادہ کی دخالت نہ ہو تو اس کی اچھائی ظاہر ہو جائے گی ۔

رومینٹکس افراد(۵) ( روسو) انسان اپنی خلقت کے وقت سے ایک اچھی طبیعت کا مالک ہے اور جو وہ براعمل انجام دیتا ہے وہ اس کی ذات میں کسی چیز کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ برے معاشرہ کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) Erikson.(۲)humanists.(۳)Maslow.(۴)Rogers

(۵) romanticists رومانی انداز، فنون اور بین الاقوامی عقیدہ فلسفہ میں غالباً (نئے کہن پرستی کے مقابلہ میں اور مکانیزم و عقل پرستی سے پہلے)مغربی یورپ اور روس میں ۱۸ویں صدی کے آخراور ۱۹ویں صدی کے آغاز تک چھا گیا تھا ۔رومانیزم فطرت کی طرف سادہ انداز میں بازگشت کے علاوہ غفلت یعنی میدان تخیل اور احساس تھا ،نفسیات شناسی کے مفاہیم اور موضوعات سے مرتبط، بیان ، سادہ لوحی ، انقلابی اور بے پرواہی اور حقیقی لذت ان کے جدید تفکر میں بنیادی اعتبار رکھتا ہے۔ رومانیزم ،ظاہر بینی ،ہنر و افکاراور انسان کے مفاہیم میں محدودیت کے خلاف ایک خاص طغیان تھا اوراپنے فعل میں تاکید بھی کرتے تھے کہ جہان کو درک کرنے والا اس پر مقدم ہے ، یہیں سے نظریۂ تخیل محور و مرکز قرار پاتا ہے ۔

۱۶۵

چھٹی فصل :

نظام خلقت میں انسان کا مقام

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات

۱.خلافت ، کرامت اور انسان کے امانت دار ہونے کے مفاہیم کی وضاحت کریں ؟

۲.آیات قرآن کی روشنی میں انسان کے خلیفة اللہ ہونے کی وضاحت کریں؟

۳.خلافت کے لئے ،حضرت آدم کے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیار بیان کریں ؟

۴.کرامت انسان سے کیا مراد ہے اس کو واضح کریں نیزقرآن کی روشنی میں اس کے اقسام

کو ذکرفرمائیں ؟

۵.ذاتی اور کسبی کرامت کی وضاحت کریں ؟

۱۶۶

دو فصل پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ قرآن مجید انسان کی موجودہ نسل کی تخلیق کو حضرت آدم کی خلقت سے مخصوص جانتا ہے اور انسانوں کے تفکر ، خواہشات اور غیر حیوانی توانائی سے استوار ہونے کی تاکید کرتا ہے ،حضرت آدم اور ان کی نسل کی آفرینش سے مربوط آیات گذشتہ دو فصلوں میں بیان کی گئی آیات سے زیادہ ہیںجس میں حضرت آدم کی خلافت و جانشینی نیزدوسرے موجودات پر انسان کی برتری و کرامت اور دوسری طرف انسان کی پستی ، تنزلی دوسری مخلوقات سے بھی گر جانے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ،انسان کی خلافت کے مسئلہ اور اس کی کرامت کے بارے میں قرآن مجید نے دو اعتبار سے لوگوںکے سامنے متعدد سوالات اٹھائے ہیں ،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱.حضرت آدم کی جانشینی سے مراد کیا ہے اور وہ کس کے جانشین تھے ؟

۲.آیا خلافت اور جانشینی حضرت آدم سے مخصوص ہے یا ان کی نسل بھی اس سے بہر مند ہو سکتی ہے ؟

۳.حضرت آدم کا خلافت کے لئے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیارکیا ہے اور کیوں دوسری مخلوقات خلافت کے لائق نہیں ہیں ؟

۴. انسان کی برتری اور کرامت کے سلسلہ میں قرآن میں دو طرح کے بیانات کا کیا راز ہے؟ کیا یہ بیانات ، قرآن کے بیان میں تناقض کی طرف اشارہ نہیں ہیں ؟ اسی فصل میں ہم خلافت الٰہی اور کرامت انسان کے عنوان کے تحت مذکورہ سوالات کا جائزہ و تحلیل اور ان کے جوابات پیش کریں گے ۔

۱۶۷

خلافت الٰہی

اولین انسان کی خلقت کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات میں ذکر کئے گئے مسائل میں سے ایک انسان کا خلیفہ ہونا ہے ،سورۂ بقرہ کی ۳۰ ویں آیہ میں خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِکَةِ إِنِّی جَاعِل فِی الأرضِ خَلِیفَةً قَالُوا أ تَجعَلُ فِیهَا مَن یُفسِدُ فِیهَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ وَ نَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعلَمُ مَا لا تَعلَمُونَ )

اور( یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں تو کہنے لگے: کیا تو زمین میں ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو زمین میں فساد اور خونریزیاں کرتا پھرے حالانکہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی ثابت کرتے ہیں، تب خدا نے فرمایا :اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔

خلیفہ اور خلافت ، ''خلف''سے ماخوذہے جس کے معنی پیچھے اور جانشین کے ہیں ،جانشین کا استعمال کبھی تو حسی امور کے لئے ہوتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیلَ وَ النَّهَارَ خِلفَةً... ) (۱) ''اور وہی تو وہ(خدا) ہے جس نے رات اور دن کو جانشین بنایا ...''اور کبھی اعتباری امور کے لئے جیسے( یَا دَاودُ إِنَّا جَعَلنَاکَ خَلِیفَةً فِی الأرضِ فَأحکُم بَینَ النَّاسِ بِالحَقِّ ) اے داوود !ہم نے تم کو زمین میں نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو،(۲) اور کبھی غیر طبیعی حقیقی امور میں استعمال ہوتا ہے جیسے حضرت آدم کی خلافت جو سورہ

____________________

(۱)فرقان ۶۲۔

(۲)ص۲۶۔

۱۶۸

بقرہ کی ۳۰ ویں آیہ میں مذکور ہے ۔

حضرت آدم کی خلافت سے مراد انسانوں کی خلافت یا ان سے پہلے دوسری مخلوقات کی خلافت نہیں ہے بلکہ مراد ، خدا کی خلافت و جانشینی ہے ،اس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ : '' میں جانشین قرار دوںگا'' یہ نہیں فرمایا کہ '' کس کا جانشین '' مزید یہ کہ فرشتوں کے لئے جانشینی کا مسئلہ پیش کرنا ، ان میں آدم کا سجدہ بجالانے کے لئے آمادگی ایجاد کرنا مطلوب تھا اور اس آمادگی میں غیر خدا کی طرف سے جانشینی کا کوئی کردار نہیں ہے،اس کے علاوہ جیسا کہ فرشتوں نے کہا : کیا اس کو خلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے جب کہ ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں، اصل میں یہ ایک مؤدبانہ درخواست تھی کہ ہم کو خلیفہ بنادے کیوں کہ ہم سب سے بہتر و سزاوار ہیں اور اگر جانشینی خدا کی طرف سے مد نظر نہ تھی تو یہ درخواست بھی بے وجہ تھی ،اس لئے کہ غیر خدا کی طرف سے جانشینی اتنی اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ فرشتے اس کی درخواست کرتے ،نیز غیرخدا سے جانشینی حاصل کرنے کے لئے تمام اسماء کا علم یا ان کو حفظ کرنے کی توانائی لازم نہیں ہے ،پس خلافت سے مراد خداوند عالم کی جانشینی ہے ۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ خداوند عالم کی جانشینی صرف ایک اعتباری جانشینی نہیں ہے بلکہ تکوینی جانشینی ہے جیسا کہ آیہ کے سیاق و سباق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوجاتا ہے، خداوند عالم فرماتا ہے:( وَ عَلّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّهَا ) ''اور خدا وند عالم نے حضرت آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی''فرشتوں کو خدوند عالم کی طرف سے جناب آدم کے سجدہ کرنے کا حکم ہونااس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ خلافت ،خلافت تکوینی (عینی حقائق میں تصرف)کو بھی شامل ہے۔(۱) خلافت تکوینی کاعالی رتبہ ، خلیفة اللہ کو قوی بناتا ہے تاکہ خدائی افعال انجام دے سکے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ولایت تکوینی کا مالک ہو جائے ۔

____________________

(۱)تشریعی خلافت سے مراد ، لوگوں کی ہدایت اور قضاوت کے منصب کا عہدہ دار ہونا ہے ۔اور خلافت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص خدا کے ایک یا چندیا تمام اسماء کا مظہر بن جائے اور صفات باری تعالی اس کے ذریعہ مرحلۂ عمل یا ظہور میں واقع ہوں۔

۱۶۹

خلافت کے لئے حضرت آدم کے شائستہ ہونے کا معیار

آیت کریمہ کے ذریعہ( وَ عَلَّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُم عَلَیٰ المَلائِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسمَآئِ هٰؤُلآئِ إن کُنتُم صَادِقِینَ ) (۱) ''اور حضرت آدم کو تمام اسماء کا علم دے دیا پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اسماء کے نام بتاؤ ''یہ اچھی طرح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خلافت خدا کے لئے حضرت آدم کی معیار قابلیت ،تمام اسماء کا علم تھا۔ اس مطلب کو سورۂ بقرہ کی ۳۳ ویں آیہ بھی تائید کرتی ہے ۔

لیکن یہ کہ اسماء سے مراد کیا ہے اور خدا وند عالم نے کس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی تعلیم دی اور فرشتے ان اسماء سے کیونکر بے خبر تھے اس سلسلہ میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے جس کو ہم پیش نہیں کریں گے فقط ان میں سے پہلے مطلب کو بطور اختصار ذکر کریں گے ،آیات قرآن میں وضاحت کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ ان اسماء سے مراد کن موجودات کے نام ہیں اور روایات میں ہم دو طرح کی روایات سے رو برو ہیں، جس میں سے ایک قسم نے تمام موجودات کے نام اور دوسری قسم نے چہاردہ معصومین کے نام کو ذکر کیا ہے ۔(۲) لیکن حضرت آدم کی خلافت تکوینی کی وجہ اور اس بات پر قرآن کی تائید کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کا علم دیا سے مراد یہ ہے کہ موجودات، فیض خدا کا وسیلہ بھی ہوں اور خدا وند عالم کے اسماء بھی ہوںاور کسی چیز سے چشم پوشی نہ ہوئی ہو ۔

مخلوقات کے اسماء سے حضرت آدم کا آگاہ ہونا اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی طرف سے خلافت اور جانشینی کے حدود کو ان کے اختیار میں قرار دیاجائے ۔اور اسماء خداوند عالم کے جاننے کا مطلب ، مظہر اسماء الہٰی ہونے کی قدرت ہے یعنی ولایت تکوینی کا ملنا ہے اور اسماء کا جاننا ، فیض الہی کا ذریعہ ہے ،یہ ان کو خلافت کے حدود میں تصرف کے طریقے بتاتا ہے اور اس وضاحت سے ان دو

____________________

(۱)بقرہ ۳۱۔

(۲)ملاحظہ ہو: مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۱۱ ص ۱۴۵۔ ۱۴۷، ج ۲۶، ص ۲۸۳۔

۱۷۰

طرح کی روایات کے درمیان ظاہری اختلاف اور ناہماہنگی بر طرف ہو جاتی ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسماء سے مراد اس کا ظاہری مفہوم نہیں ہے جس کو ایک انسان فرض ، اعتبار اور وضع کرتا ہے، اسی طرح ان اسماء کی تعلیم کے معنی بھی ان الفاظ و کلمات کا ذہن میں ذخیرہ کرنا نہیں ہے ،اس لئے کہ مذکورہ طریقہ سے ان اسماء کا جاننا کسی بھی صورت میں خلافت الٰہی کے لئے معیار قابلیت اور خلافت تکوینی کے حصول کے لئے کوئی اہم رول نہیں ادا کرسکتا ہے ،اس لئے کہ اگر علم حصولی کے ذریعہ اسماء وضعی اور اعتباری حفظ کرنا اور یاد کرنا مراد ہوتا توحضرت آدم کے خبر دینے کے بعد چونکہ فرشتہ بھی ان اسماء سے آگاہ ہوگئے تھے لہٰذا انھیں بھی خلافت کے لائق ہونا چاہیئے تھا بلکہ اس سے مراد چیزوں کی حقیقت جاننا ان کے اور اسماء خداوند عالم کے بارے میں حضوری معرفت رکھنا ہے جو تکوینی تصرف پر قدرت کے ساتھ ساتھ حضرت آدم کے وجود کی برتری بھی ہے ۔(۱)

حضرت آدم کے فرزندوں کی خلافت

حضرت آدم کے تخلیق کی گفتگو میں خداوند عالم کی طرف سے خلافت اور جانشینی کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے ۔ اور سورۂ بقرہ کی ۳۰ ویں آیت نے بہت ہی واضح خلافت کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ اب یہ سوال در پیش ہے کہ کیا یہ خلافت حضرت آدم سے مخصوص ہے یا دوسرے افراد میں بھی پائی جاسکتی ہے ؟

____________________

(۱)بعض مفسرین نے احتمال دیا ہے کہ ''اسمائ''کا علم مافوقِ عالم و ملائکہ ہے ؛ یعنی اس کی حقیقت ملائکہ کی سطح سے بالاترہے کہ جس عالم میں معرفت وجودمیں ترقی اور وجود ملائکہ کے رتبہ و کمال سے بالاتر کمال رکھنا ہے اور وہ عالم ، عالم خزائن ہے جس میں تمام اشیاء کی اصل و حقیقت ہے اور اس دنیا کی مخلوقات اسی حقیقت اور خزائن سے نزول کرتے ہیں (وَ إِن مِّن شَییٍٔ ِلا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَ مَا نُنَزِّلُهُ ِلا بِقَدَرٍ مَّعلُومٍ )(حجر ۲۱)''اور ہمارے یہاں تو ہر چیز کے بے شمار خزانے پڑے ہیں اور ہم ایک جچی،تلی مقدار ہی بھیجتے رہتے ہیں ''ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ؛ کے ذیل آیہ سے ۔

۱۷۱

جواب یہ ہے کہ :مذکورہ آیہ حضرت آدم کی ذات میں خلافت کے انحصار پر نہ فقط دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جملہ( أَ تَجعَلُ فِیهَا مَن یُفسِدُ فِیهَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خلافت حضرت آدم کی ذات سے منحصر نہیں ہے ، اس لئے کہ اگر صرف حضرت آدم سے خلافت مخصوص ہوتی تو چونکہ حضرت آدم معصوم ہیں اور معصوم فساد و خونریزی نہیں کرتا ہے لہٰذا خداوند عالم فرشتوں سے یہ فرما سکتا تھا کہ : آدم فساد اور خونریزی نہیں کرے گا ،البتہ یہ شبہ نہ ہو کہ تمام افراد بالفعل خدا کے جانشین و خلیفہ ہیں ،اس لئے کہ یہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے کہ مقرب الٰہی فرشتے جس مقام کے لائق نہ تھے اور جس کی وجہ سے حضرت آدم کا سجدہ کیا تھا ، وہ تاریخ کے بڑے بڑے ظالموں کے اختیار میں قرار پائے اوروہ خلافت کے لائق بھی ہوں ؟!پس یہ خلافت حضرت آدم اور ان کے بعض فرزندوں سے مخصوص ہے جو تمام اسماء کا علم رکھتے ہیں ،لہٰذا اگرچہ نوع انسان خدا کی جانشینی اور خلافت کا امکان رکھتا ہے لیکن جو حضرات عملی طور پر اس مقام کو حاصل کرتے ہیں وہ حضرت آدم اور ان کی بعض اولادیں ہیں جو ہر زمانہ میں کم از کم ان کی ایک فرد سماج میں ہمیشہ موجود ہے اور وہ روئے زمین پر خدا کی حجت ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جس کی روایات میں بھی تاکید ہوئی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ الاصول من الکافی ؛ ج۱، ص ۱۷۸ و ۱۷۹۔

۱۷۲

کرامت انسان

انسان کی کرامت کے سلسلہ میں قرآن مجیدکا دو پہلو بیان موجود ہے :قرآن مجید کی بعض آیات میں انسان کی کرامت ، شرافت اور دوسری مخلوقات پر اس کی برتری کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اور بعض آیات میں انسان کی تذلیل اور اس کو حیوانات سے پست بیان کیا گیاہے مثال کے طورپر سورۂ اسراء کی ۷۰ویں آیت میں خداوند عالم نے بنی آدم کی تکریم کی ہے اور بہت سی دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں اس کی برتری بیان ہوئی ہے ۔(۱) سورۂ تین کی چوتھی آیہ اور سورۂ مومنون کی ۱۴ ویں آیہ میں انسان کی بہترین اندازمیں خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے(۲) اور دوسری بہت سی آیات میں یوں مذکور ہے کہ جو کچھ بھی زمینوں و آسمانوں میں ہے انسان کے لئے مسخر یا اس کے لئے پیدا کی گئی ہے(۳) اور ملائکہ نے اس کا سجدہ کیا ہے، وہ تمام اسماء کا جاننے والا، مقام خلافت(۴) اور بلند درجات(۵) کاحامل ہے، یہ تمام چیزیں دوسری مخلوقات پر انسان کی برتری ، شرافت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے،اور دوسری طرف ضعیف ہونا(۶) ، لالچی ہونا(۷) ، ظالم و ناشکرا(۸) اور جاہل ہونا(۹) ، چوپائے کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہونا ۰ ) اور پست ترین

____________________

(۱)(وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً )(اسراء ۷۰)اورہم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں ان کو لئے پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہتیرے مخلوقات پر ان کو فضیلت دی ۔(۲)(لَقَد خَلَقنَا الِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقوِیمٍ )(تین۴)یقینا ہم نے انسان کو بہت اچھے حلیے (ڈھانچے)میں کا پیدا کیا ۔(فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أَحسَنُ الخَالِقِینَ )(مومنون۱۴)تو خدا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں میں بہتر ہے ۔(۳)(أ لَم تَرَوا أَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِی الأرضِ وَ أَسبَغَ عَلَیکُم نِعمَهُ ظَاهِرةً وَ بَاطِنَةً )( لقمان ۲۰) کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیںکیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں ۔(هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فِی الأرضِ جَمِیعاً )(بقرہ ۲۹)اور وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزوں کو پیدا کیا۔ (۴)یہ آیات خلافت الٰہی کی بحث میں بیان ہوچکی ہیں ۔(۵)اس حصہ کی آیتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(۶)(وَ خُلِقِ الإنسَانُ ضَعِیفاً )(نساء ۲۸)اور انسان کمزور خلق کیا گیا ہے ۔(۷)(إنَّ النسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً )(معارج ۱۹)یقینا انسان بہت لالچی پیدا ہوا ہے (۸)(إنَّ النسَانَ لَظَلُوم کَفَّار )(ابراہیم،۳۴) یقینا انسان بڑاناانصاف اور ناشکرا ہے ۔(۹)(إِنَّهُ کَانَ ظَلُوماً جَهُولاً )( احزاب ۷۲)یقینا انسان بڑا ظالم و جاہل ہے۔(۱۰)(أُولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ )(اعراف ۱۷۹)وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔

۱۷۳

درجہ میں ہونا(۱) یہ وہ امور ہیں جو قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور دوسری مخلوقات پرانسان کی عدم برتری کی علامت ہے بلکہ ان کے مقابلہ میں انسان کے پست تر ہونے کی علامت ہے،کیا یہ دوطرح کی آیات ایک دوسرے کی متناقض ہیں یا ان میں سے ہر ایک کسی خاص مرحلہ کو بیان کررہی ہے یا مسئلہ کسی اور انداز میں ہے ؟

مذکورہ آیات میں غور و فکر ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان قرآن کی نظر میں دو طرح کی کرامت رکھتا ہے :

کرامت ذاتی یا وجود شناسی اور کرامت اکتسابی یا اہمیت شناسی ۔

کرامت ذاتی

کرامت ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ جسم کی بناوٹ کے اعتبار سے بعض دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ امکانات و سہولت کا حامل ہے یا اس کے امکانات کی ترکیب و تنظیم اچھے انداز میں ہوئی ہے، بہر حال بہت زیادہ سہولت اور توانائی کا حامل ہے اس طرح کی کرامت ، نوع انسان پر خداوند عالم کی مخصوص عنایت کا اشارہ ہے جس سے سبھی مستفیض ہیں، لہٰذا کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ ان چیزوں سے مزین ہونے کی بنا پر دوسرے مخلوق کے مقابلہ میں فخر کرے اور ان کو اپنا انسانی کمال اور معیار اعتبار سمجھے یا اس کی وجہ سے مورد تعریف قرار پائے ،بلکہ اتنی سہولت والی ایسی مخلوق تخلیق کرنے کی وجہ سے خداوند عالم کی حمد و تعریف کرنا چاہیئے ۔ جس طرح وہ خود فرماتا ہے( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أحسَنُ الخَالِقِینَ ) اور سورۂ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ( وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلیٰ کَثِیرٍ مَمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً ) (۲) اور بہت سی آیات جو دنیا اورمافیہا کو انسان کے لئے

____________________

(۱)(ثُمّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ )(تین۵)پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔

(۲)سورۂ اسراء ۷۰

۱۷۴

مسخر ہونے کوبیان کرتی ہیں جیسے ''( وَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِیالأرضِ جَمِیعاً مِنهُ ) (۱) اور جیسے (خَلَقَ لَکُم مَا فِی الأرضِ جَمِیعاً)وغیرہ تمام آیات صنف انسان کی کرامت تکوینی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور( خُلِقَ الِإنسَانُ ضَعِیفاً ) (۲) جیسی آیات اور سورہ ٔ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ جو کہ بہت سی مخلوقات (نہ کہ تمام مخلوقات)پر انسان کی برتری کو پیش کرتی ہے یعنی بعض مخلوقات پر انسان کی ذاتی عدم برتری کی یاد آوری کرتی ہے ۔(۳)

کرامت اکتسابی

اکتسابی کرامت سے مراد ان کمالات کا حاصل کرنا ہے جن کو انسان اپنے اختیاری اعمال صالحہ اور ایمان کی روشنی میں حاصل کرتا ہے ،کرامت کی یہ قسم انسان کے ایثار و تلاش اور انسانی اعتبارات کا معیار اور خداوند عالم کی بارگاہ میں معیار تقرب سے حاصل ہوتا ہے، یہ وہ کرامت ہے جس کی وجہ سے یقینا کسی انسان کو دوسرے انسان پر برتر جانا جاسکتا ہے ،تمام لوگ اس کمال و کرامت تک رسائی کی قابلیت رکھتے ہیں ، لیکن کچھ ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اس سے بے بہرہ رہتے ہیں ، گویا اس کرامت میں نہ تو تمام لوگ دوسری مخلوقات سے برتر ہیں اور نہ تمام لوگ دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں پست یا مساوی ہیں ،لہٰذا وہ آیتیں جو انسان کی کسبی کرامت کو بیان کرتی ہیں دو طرح کی ہیں :

الف) کرامت اکتسابی کی نفی کرنے والی آیات

اس سلسلہ کی موجودہ آیات میں سے ہم فقط چار آیتوں کے ذکر پر اکتفا کررہے ہیں :

____________________

(۱)سورہ جاثیہ ۱۳۔ (۲)سورۂ نساء ۲۸۔(۳)گذشتہ بحثوں میں غیر حیوانی استعداد کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان کی دائمی روح بھی معرفت انسان کی ذاتی اور وجودی کرامت میں شمار ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ سبھی یا ان میں سے بعض انسان کی عالی خلقت سے مربوط آیات جو متن کتاب میں بھی مذکور ہیں مد نظر ہوں ۔

۱۷۵

۱۔( ثُمَّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ ) (۱)

پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔

بعض انسانوں سے اکتسابی کرامت کی نفی اس بنا پرہے کہ گذشتہ آیت میں انسان کی بہترین شکل و صورت میں خلقت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور بعد کی آیت میں اچھے عمل والے اور مومنین اسفل السافلین میں گرنے سے استثناء ہوئے ہیں اگر ان کا یہ گرنااور پست ہونا اختیاری نہ ہوتا تو انسان کی خلقت بیکار ہوجاتی اور خداوند عالم کا یہ عمل کہ انسان کو بہترین شکل میں پیدا کرے اور اس کے بعد بے وجہ اورانسان کے اختیار یا اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے پست مرحلہ میں ڈالنا غیر حکیمانہ ہے مزید یہ کہ بعد والی آیت بیان کرتی ہے کہ ایمان اور اپنے صالح عمل کے ذریعہ، انسان خود کو اس حالت سے بچا جاسکتا ہے ،یا اس مشکل میں گرنے سے نجات حاصل کرسکتا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نزول انسان کے اختیاری اعمال اور اکتسابی چیزوں کی وجہ سے ہے ۔

۲۔( أُولٰئکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أُولٰئِکَ هُمُ الغَافِلُونَ ) (۲)

یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گذرے ہیں یہی لوگ غافل ہیں

۳۔( إنّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰهِ الصُّمُّ البُکمُ الَّذِینَ لا یَعقِلُونَ ) (۳)

بیشک کہ زمین پر چلنے والے میں سب سے بد تر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے ہیں ۔

۴۔( إنّ الِإنسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَ إِذَا مَسَّهُ الخَیرُ مَنُوعاً ) (۴)

بیشک انسان بڑا لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف پہونچتی ہے تو بے صبر ہو جاتا ہے اور جب اس تک بھلائی اور خیر کی رسائی ہوتی ہے تو اترانے لگتا ہے ۔

____________________

(۱)تین۵

(۲)اعراف ۱۷۹ (۳)انفال ۲۲

(۴)سورہ معارج ۱۹۔۲۱.

۱۷۶

مذکورہ دو ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ عقل و فکر کو استعمال نہ کرنے اور اس کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے انسانوں کی مذمت کی گئی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں کرامت سے مراد کرامت اکتسابی ہے چونکہ بعد والی آیت نماز پڑھنے والوں کو نماز پڑھنے اور ان کے اختیاری اعمال کی بنا پر استثناء کرتی ہے لہٰذا تیسری آیہ اکتسابی کرامت سے مربوط ہے۔

ب) کرامت اکتسابی کو ثابت کرنے والی آیات

اس سلسلہ میں بھی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے ہم دو آیتوں کونمونہ کے طور پر ذکرکرتے ہیں ۔

۱.( نَّ أَکرَمَکُم عِندَ اللّٰهِ أَتقَٰکُم ) (۱)

۲.ان آیات کا مجموعہ جو کسبی کرامت کی نفی کے بعد بعض انسانوں کو اس سے استثناء کرتی ہیں جیسے( إنَّ الِإنسَانَ لَفِی خُسرٍ إلا الَّذِینَ آمَنُوا ) (۲) ( ، ثُمَّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ إلا الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ) (۳) ( ، إنّ النسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً إلا المُصَلِّینَ ) (۴)

جیسا کہ اشارہ ہوا کہ اکتسابی کرامت انسان کے اختیار سے وابستہ ہے اور اس کو حاصل کرنا جیسا کہ گذشتہ آیتوں میں آچکا ہے کہ تقویٰ ، ایمان اور اعمال صالحہ کے بغیر میسر نہیں ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں وسیع اور قدیمی مسئلہ ''انسان کا اشرف المخلوقات ہونا''وغیرہ بھی واضح و روشن ہو جاتا ہے ،اس لئے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے سے مراد دوسری مخلوقات خصوصاً مادی دنیا کی مخلوقات کے مقابلہ میں مزید سہولت اور بہت زیادہ توانائی کا مالک ہونا ہے ( چاہے قابلیت،بہتراوربہت زیادہ امکانات کی صورت میں ہو ) اپنے اور قرآنی نظریہ کے مطابق انسان

____________________

(۱)حجرات ۱۳۔

(۲)عصر ۲و ۳۔

(۳)تین ۵و ۶۔

(۴)معارج ۱۹۔

۱۷۷

اشرف المخلوقات ہے ۔ اور وہ مطالب جو انسان کی غیر حیوانی فطرت کی بحث اورکرامت ذاتی سے مربوط آیتوں میں بیان ہو چکے ہیں ہمارے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ،اگرچہ ممکن ہے کہ بعض دوسری مخلوقات جیسے فرشتے بعض خصوصیات میں انسان سے بہتر ہوں یا بعض مخلوقات جیسے جن ، انسانوں کے مقابلہ میں ہوں(۱) لیکن اگر تمام مخلوقات پر انسان کی فوقیت و برتری منظور نظر ہے تب بھی کسی صورت میں ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم کی تمام مخلوقات پر تمام انسان فوقیت اور برتری رکھتے ہیں، البتہ انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خداوند عالم کی ہر مخلوق بلکہ تمام مخلوقات سے برتر ہیں اور اکتسابی کرامت کے اس درجہ و مرتبہ کو حاصل کرچکے ہیں جسے کوئی حاصل ہی نہیں کرسکتا، یہ وہی لوگ ہیں جو ولایت تکوینی اور لا محدود خلافت الٰہی کیحامل ہیں ۔

اس مقام پر ایک اہم سوال یہ در پیش ہے کہ اگر کرامت اکتسابی انسان سے مخصوص ہے تو قرآن مجید میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے انسانوں کو کیونکر چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے پست سمجھا گیا ہے ؟ اور کس طرح ایک مہم اور معتبر شیٔ کو ایک امر تکوینی سے تقابل کیا جاسکتا ہے اور ان دونوں مقولوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟!

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اگرچہ اقدار شناسی کے مقولہ میں سے ہے لیکن یہ ایک حقیقی شیٔ ہے نہ کہ اعتباری ، دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر قابل اہمیت شیٔ ضروری نہیں ہے کہ اعتباری اور وضعی ہو، جب یہ کہا جاتا ہے کہ : شجاعت ، سخاوت ، ایثار و قربانی اعتباری چیزوں میں سے ہیں ،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سخی ، ایثار کرنے والے ، فداکار شخص کو صرف اعتبار اور وضع کی بنیاد پر اچھا اورلائق تعریف و تمجید سمجھا گیا ہے بلکہ ایسا شخص واقعاً سخاوت ، ایثار اور فداکاری نامی حقیقت

____________________

(۱)ایک دوسرے زاویہ سے جس طرح فلسفہ و عرفان اسلامی میں بیان ہوا ہے نیزروایات میں مذکورہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کا نورانی وجود، تمام مخلوقات کے لئے فیضان الٰہی کا واسطہ اور نقطہ آغازو علت ہے ۔اورعلم حیات کے اعتبار سے سب سے رفیع درجات و کمالات کے مالک اور خداوند عالم کی عالی ترین مخلوق میں سے ہیں ۔

۱۷۸

کا حامل ہے جس سے دوسرے لوگ دور ہیں بس کرامت اکتسابی بھی اسی طرح ہے انسان کی اکتسابی کرامت صرف اعتباری اور وضعی شیٔ نہیں ہے بلکہ انسان واقعاً عروج و کمال پاتا یا سقوط کرتا ہے ۔ لہٰذا مزید وہ چیزیں جن سے انسانوں کو اکتسابی اور عدم اکتسابی کرامت سے استوارہونے کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیئے اور ایک کو بلند اور دوسرے کو پست سمجھنا چاہیئے، اسی طرح انسانوں کو حیوانات اور دوسری مخلوقات سے بھی موازنہ کرنا چاہیئے اور بعض کو فرشتوں سے بلند اور بعض کو جمادات و حیوانات سے پست سمجھنا چاہیئے اسی وجہ سے سورۂ اعراف کی ۱۷۹ویںآیہ میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے افرادکو چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ بتایاگیاہے ۔ سورہ انفال کی ۲۲ ویں آیہ میں ''بد ترین متحرک '' کا عنوان دیاگیا ہے اور قیامت کے دن ایسے لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش مٹی ہوتے(( وَ یَقُولُ الکَافِرُ یَا لَیتَنِی کُنتُ تُرَاباً ) (۱) اور کافر (قیامت کے دن )کہیں گے اے کاش میں مٹی ہوتا ۔

____________________

(۱)سورہ ٔ نبا ۴۰۔

۱۷۹

خلاصہ فصل

۱.گذشتہ فصل میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان بعض مشترکہ خصوصیات کا حامل ہے بعض مغربی مفکرین نے مثال کے طور پروہ افراد جو انسان کی فعالیت کو بنیادی محور قرار دیتے ہیں یا افراط کے شکار معاشرہ پرست افراد بنیادی طور پر ایسے عناصر کے وجود کے منکر ہیں اوروہ انسان کی حقیقت کے سادہ لوح ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔

ان گروہ کے علاوہ دوسرے لوگ مشترکہ فطرت کو قبول کرتے ہیں لیکن انسان کے اچھے یا برے ہونے میں اختلاف نظررکھتے ہیں بعض اس کو برا اور بعض فقط اچھا سمجھتے ہیں ، بعض نے انسان کو دوپہلو رکھنے والی تصویر سے تعبیر کیا ہے۔

۲.قرآن کریم نے اس سوال کے جواب میں جو انسانوں کو بنیادی طور پر اچھے اور برے خواہشات کا حامل جانتے ہیں، ان کے معنوی و مادی پہلوؤں کو جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کی ہے۔

۳.انسان کے خلیفة اللہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک تکوینی شیٔ ہے یعنی انسان کائنات میں تصرف اور ولایت تکوینی کے مقام کو حاصل کر سکتا ہے اس مقام کو حاصل کرنے کی راہ اور حضرت آدم کی صلاحیت کا معیار تمام اسماء کے بارے میں ان کی حضوری معرفت ہے ،اسماء مخلوقات اس کی جانشینی کے اختیارات پر استوار ہے ۔اسماء الہٰی ،قدرت اور ولایت تکوینی کو فراہم کرتا ہے اور وسیلہ فیض کے اسماء اس کے لئے اشیاء میں طریقہ تصرف مہیا کرتے ہیں ۔

۴.حضرت آدم کی اولادوں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو مقام خلافت کو حاصل کر چکے ہیں اور روایتوں کے مطابق ہر زمانے میں کم از کم ایک فرد زمین پر خلیفة اللہ کے عنوان سے موجودہے ۔

۵.انسان دو طرح کی کرامت رکھتا ہے : ایک کرامت ذاتی جو تمام افراد کو شامل ہے اور باقی مخلوقات کے مقابلہ میں بہتر اور بہت زیادہ امکانات کا حامل ہے اور دوسرا کرامت اکتسابی کہ اس سے مراد وہ مقام و منزلت ہے جس کو انسان اپنی تلاش و جستجو سے حاصل کرتا ہے اوراس معنوی کمال کے حصول کی راہ، ایمان اور عمل صالح ہے اور چونکہ افراد کی آزمائش کا معیار و اعتبار اسی کرامت پر استوار ہے اور اسی اعتبار سے انسانوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لہٰذا قرآن کبھی انسان کی تعریف اور کبھی مذمت کرتا ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307