انسان شناسی

انسان شناسی25%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146141 / ڈاؤنلوڈ: 4876
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تمرین

۱.گذشتہ فصول کے مطالب کی بنیاد پر کیوں افراد انسان مشترکہ فطرت و حقیقت رکھنے کے باوجود رفتار، گفتار، اخلاق و اطوار میں مختلف ہیں۔ ؟

۲.عالم ہستی میں انسان کی رفعت و منزلت اور الٰہی فطرت کے باوجود اور اس کے بہترین ترکیبات سے مزین ہونے کے باوجود اکثر افراد صحیح راستہ سے کیوں منحرف ہو جاتے ہیں ۔؟

۳.اگر جستجو کا احساس انسان کے اندر ایک فطری خواہش ہے تو قرآن نے دوسروں کے کاموں میں تجسس کرنے کی کیوں مذمت کی ہے ؟ آیا یہ مذمت اس الٰہی اور عام فطرت کے نظر انداز کرنے کے معنی میں نہیں ہے ؟

۴.خدا کی تلاش ، خود پسندی اور دوسری خواہشوں کو کس طرح سے پورا کیا جائے تاکہ انسان کی حقیقی سعادت کو نقصان نہ پہونچے ؟

۵.قرآنی اصطلاح میں روح ، نفس ، عقل ، قلب جیسے کلمات کے درمیان کیا رابطہہے ؟

۶.انسان کے امانت دار ہونے سے مراد کیا ہے نیز مصادیق امانت بھی ذکر کریں ؟

۷.غیر دینی حقوقی قوانین میں ،انسان کی کرامت اکتسابی مورد توجہ ہے یا اس کی غیر اکتسابی کرامت ؟

۸.اگر حقیقی اہمیت کا معیار انسان کی کرامت اکتسابی ہے تو مجرم اور دشمن افراد کے علاوہ ان انسانوں کا ختم کرنا جو کرامت اکتسابی کے حامل نہ ہوں کیوں جائز نہیں ہے ؟

۹.آیا جانشینی اور اعتباری خلافت ، جانشین اور خلیفہ کی مہم ترین دلیل ہے ؟

۱۸۱

مزید مطالعہ کے لئے

۱۔ انسان کا جانشین خدا ہونے کے سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں:

۔ جوادی آملی ، عبداللہ ( ۱۳۶۹) زن در آئینہ جلال و جمال تہران : مرکز نشر فرہنگی ،رجاء

۔ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶ ، تہران : رجاء

۔ صدر ، سید محمد باقر ( ۱۳۹۹) خلافة الانسان و شہادة الانبیاء ،قم : مطبعة الخیام ۔

۔ محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۳) خلقت و خلافت انسان در المیزان گرد آورندہ : شمس الدین ربیعی ، تہران : نور فاطمہ

۔ محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )قم : موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ، تہران : صدرا ۔

۔ موسوی یزدی ، علی اکبر ، و دیگران ( ۱۳۹۹) الامامة و الولایة فی القرآن الکریم ، قم : مطبعة الخیام

۔ تفاسیر قرآن ، سورہ بقرہ کی ۳۰ ویں آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ انسان کی کرامت کے سلسلہ میں :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲) کرامت در قرآن ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء ۔

۔مصباح ،محمد تقی(۱۳۶۷)معارف قران(خدا شناسی،کیہان شناسی،انسان شناسی)قم موسسہ در راہ حق

۔واعظی،احمد(۱۳۷۷)انسان از دیدگاہ اسلام ۔قم:دفترہمکاری حوزہ ودانش گاہ۔

۱۸۲

ساتویں فصل :

آزادی اور اختیار

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱ ۔انسان کے سلسلہ میں تین مہم نظریوں کو بیان کریں ؟

۲ ۔مفہوم اختیار کی وضاحت کریں اور اس کے مفہوم کے چار موارد استعمال ذکر کریں ؟

۳ ۔قرآن مجید کی ان آیات کی دستہ بندی اور تفسیرکریں جو انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؟

۴۔انسان کے اختیار کو مشکوک کرنے والے شبہات کی وضاحت کریں ؟

۵۔انسان کے جبر سے متعلق ، شبہات کے اقسام نیز اس کی تجزیہ و تحلیل کریں ؟

۱۸۳

جو افعال انسان سے صادر ہوتے ہیں ایک عام تقسیم کے اعتبار سے دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

جبری افعال جو بغیر ارادے اور قصد کے انجام پاتے ہیں اور اختیاری افعال جوانتخاب اور انسان کے ارادوں کے نتیجہ میں عالم وجود میں آتے ہیں ، دوسرے گروہ کے متعلق ، فعل کا انجام دینے والا خود اس فعل کی علت اور اس فعل کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پراس انجام دیئے گئے فعل کے مطابق ہم اس کو لائق تعریف یا مذمت سمجھتے ہیں ،تمام اخلاقی ، دینی ، تربیتی اور حقوقی قوانین اسی یقین کی بنیاد پر استوار ہیں ۔ کسی فعل کو انجام دے کر خوش ہونا یا افسوس کرنا ، عذر خواہی یا دوسرے سے مربوط فعل کے مقابلہ میں حق طلب کرنا بھی اسی سچائی پر یقین اور بھروسہ کیبنیاد پر ہے ۔ دوسری طرف یہ بات قابل قبول ہے کہ انسان کے اختیاری طریقہ عمل میں مختلف تاریخی ، اجتماعی ، فطری ، طبیعی عوامل موثر ہیں اس طرح سے کہ وہ اس کی انجام دہی میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور انسان ہر پہلو میں بے قید و شرط اور مطلقاً آزادی کا حامل نہیں ہے ۔

دینی تعلیمات میں قضا و قدر اور الٰہی ارادے اور غیب کا مسئلہ انسان کے اختیاری افعال سے مربوط ہے اور مذکورہ امور سے انسان کا ارادہ و اختیار ، نیز اس کا آزاد ہونا کس طرح ممکن ہے؟ اس کو بیان کیا گیا ہے۔

۱۸۴

مذکورہ مسائل کو انسان کے بنیادی مسئلہ اختیار سے مربوط جاننا چاہیئے اور زندگی سنوارنااس کرامت کو حاصل کرناہے جس کے بارے میں گذشتہ فصل میں گفتگو ہوچکی ہے(۱) انہیں چیزوںکی وجہ سے انسان کے اختیار کا مسئلہ مختلف ملتوں اور مختلف علمی شعبوں کے دانشمندوں اور ادیان و مذاہب کے مفکرین اور ماننے والوں کے درمیان ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ کے عنوان سے مورد توجہ قرار پایا ہے لہٰذااس کے بارے میں مختلف سوالات اور بحث و مباحثہ کے علاوہ مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

مندرجہ ذیل سوالات وہ ہیں جن کے بارے میں ہم اس فصل میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔

۱.اختیار سے مراد کیا ہے ؟ آیا یہ مفہوم ، مجبوری ( اضطرار ) اور ناپسندیدہ ( اکراہ ) کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ؟

۲.انسان کے مجبور یا مختار ہونے کے بارے میں قرآن کا کیا نظریہ ہے ؟

۳. انسان کے اختیاری افعال میں قضا و قدر ، اجتماعی قوانین ، تاریخی ، فطری نیز طبیعی عوامل کا کیا کردار ہے اور یہ سب باتیں انسان کے آزاد ارادہ سے کس طرح سازگار ہیں ؟

۴. کیا علم غیب اور خدا کا عام ارادہ ( ارادۂ مشیت ) جو انسان کے اختیاری افعال میں بھی شامل ہے انسان کے مجبور ہونے کا سبب ہے ؟

____________________

(۱)گذشتہ فصل میں انسان کی کرامت اکتسابی کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے اور ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اس کی اختیاری تلاش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی جو کچھ اس فصل میں اور آئندہ فصل میں بیان ہوگا، اس کا شمار کرامت اکتسابی کے اصول میں ہوگااور انسان کے مسئلہ اختیار کے حل کے بغیر کرامت اکتسابی کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔

۱۸۵

انسان کی آزادی کے سلسلہ میں تین مہم نظریات

انسان کے اختیار اور جبر کا مسئلہ بہت قدیمی ہے اور شاید یہ کہا جاسکتا ہے انسان کی آخرت کے مسئلہ کے بعد جبر و اختیار کی بحث سے زیادہ انسان شناسی کے کسی مسئلہ کے بارے میں یوں گفتگو

مختلف ملتوں اور مذاہب کے ماننے والوں اور معاشرہ کے مختلف قوموں کے درمیان چاہے وہ دانشمند ہوں یا عوام ، رائج نہ تھی ، پہلے تو یہ مسئلہ کلامی ، دینی اور فلسفی پہلوؤں سے زیادہ مربوط تھا لیکن علوم تجربی کی خلقت و وسعت اور علوم انسانی کے باب میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے جبر و اختیار کی بحث علوم تجربی سے بھی مربوط ہوگئی ، اسی لئے علوم تجربی کی بحث میں مفکرین خصوصاً علوم انسانی کے ماہرین نے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ایک طرف تو اختیار ،انسان کا ضمیر رکھنا اور بہت سی دلیلوں کا وجود اور دوسری طرف اختیاری افعال اور اس کے اصول میں بعض غیر اختیاری افعال کا موثر ہونا اور بعض فلسفی اوردینی تعلیمات میں سوء تفاہم کی بنا پر مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں، بعض نے بالکل انسان کے اختیار کا انکار کیا ہے اور بعض لوگوں نے اختیار انسان کو تسلیم کیاہے اور بعض لوگوں نے جبر و اختیار کے ناکارہ ہونے کا یقین رکھنے کے باوجود دونوں کو قبول کیا ہے حالانکہ کوئی معقول توجیہ اس کے متعلق پیش نہیں کی ہے ۔

رواقیان وہ افراد ہیں جو انسان کے اچھے یا برے ہونے کی ذمہ داری کو خود اسی کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں ۔اور دنیا کے تمام حوادث منجملہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی انسان کے ذریعہ غیر قابل تغییر، تقدیر الٰہی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔

اسلامی سماج و معاشرہ میں اشاعرہ نے جبر کے مسلک کو قبول کیا ہے ۔(۱) اور معتزلہ نے

____________________

(۱)اشاعرہ ، جہمیہ کے برخلاف انسان کو اس کے اختیاری افعال میں جمادات کی طرح سمجھتے تھے اس یقین پر کہ انسان کا فعل، قدرت و ارادۂ خدا سے مربوط ہونے کے باوجود خداوند عالم اپنے ارادہ اور قدرت کے ساتھ انسان کے اندر قدرت و ارادہ ایجاد کرتا ہے اور اس فعل سے انسان کا ارادہ مربوط ہوتا ہے ۔ اور اس حقیقت ( فعل سے انسان کے ارادہ کے مربوط ہونے ) کو کسب کہا ہے ۔ لیکن ہر اعتبار سے انسان کے لئے تحقق فعل میں کسی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ملاحظہ ہو: تھانوی ، محمد علی ؛ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم؛ مکتبة لبنان ناشرون ، بیروت : ۱۹۹۶۔

۱۸۶

تفویض کو قبول کیا ہے اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم سے الگ اس کی قدرت و انتخاب کی وجہ سے انجام پاتے ہیں(۱) اس نظریہ کے مشابہ دنیا کی تمام مخلوقات کے سلسلہ میں بعض مسیحی اور مغربی دانشمندوں کے نظریے بیان ہوئے ہیں ۔(۲)

اسلامی سماج اور معاشرہ میں تیسرا نظریہ ، اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ ہے ۔ اس نظریہ میں انسان اپنے اختیاری فعل میں نہ مجبور ہے اور نہ ہی آزاد بلکہ ان دونوں کے درمیان کی ایک حقیقت ہے : ''لا جَبرَ وَ لا تَفوِیضَ بَل أمر بَینَ الأمرَین'' اس نظریہ کے مطابق انسان کے افعال میں نہ تنہا انسان کا خدا کے ساتھ فعال ہونے میں منافات نہیں ہے بلکہ خدا اور انسان کی صحیح شناخت کا تقاضا اور واقعی و اختیاری فعل کی حقیقت کو دقیق درک کرنا ہے ۔

عقیدۂ جبر، اسلام سے پہلے عرب کے جاہل مشرکوں کے یہاں بھی موجود تھا اور قرآن مجید ایک غلط نظریہ کے عنوان سے نقل کرتے ہوئے اس فکر کے فرسودہ ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے اور فرماتا ہے :

( سَیُقُولُ الَّذِینَ أَشرَکُوا لَوشَائَ اللّٰهُ مَا أَشرَکنَا وَ لا آبَاؤُنَا وَ لا حَرَّمنَامِن شَییٍٔ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبلِهِم ) (۳)

عنقریب مشرکین کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ، دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام کرتے اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرچکے ہیں جھٹلاتے رہے

____________________

(۱)کہا گیا ہے کہ بعض معتزلہ کے علماء جیسے ابو الحسن بصری اور نجار ، تفویض کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے ۔

(۲)سنت مسیحیت میں خداوند عالم نے دنیا کو چھہ روز میں خلق کیا ہے اور ساتویں روز آرام کیا ہے ۔ اس عقیدہ کی بنیاد پر دنیا اس گھڑی کے مانند ہے جس میں خداوند عالم نے آغاز خلقت ہی میں چابھی بھر دیا ہے اور اس کے بعد دنیا خدا سے جدا اور مستقل ہوکر اپنی حرکت پر باقی ہے ۔

(۳)سورہ انعام ۱۴۸۔

۱۸۷

دوسری آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا اعتقاد ہر طرح کی علمی حمایت سے دور ہے اور یہ نظریہ فقط نصیحت پر مبنی ہے ، یوں فرماتا ہے :

( وَ قَالُوا لَو شَائَ الرَّحَمٰنُ مَا عَبَدنَاهُم مَا لَهُم بِذٰلِکَ مِن عِلمٍ ن هُم ِلا یَخرُصُونَ ) (۱)

اور کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پرستش نہ کرتے ان کو اس کی کچھ خبر ہی نہیں یہ لوگ تو بس الٹی سیدھی باتیں کیا کرتے ہیں ۔

اسلامی معاشرہ میں جاہل عرب کے عقیدہ ٔ جبر کا قرآن کے نازل ہونے اور اسلام کی سر سخت مخالفت کے بعد اس کا کوئی مقام نہیں رہا ۔اگرچہ کبھی کبھی اس سلسلہ میں بعض مسلمان، بزرگان دین سے سوالات کرکے جوابات حاصل کیاکرتے تھے(۲) لیکن حکومت بنی امیہ کے تین اموی خلفاء نے اسلامی شہروں میں اپنے ظلم کی توجیہ کیلئے عقیدہ ٔ جبر کو رواج دیا اور اس نظریے کے مخالفین سے سختی سے پیش آتے رہے ،ان لوگوں نے اپنے جبری نظریہ کی توجیہ کے لئے بعض آیات و روایات سے بھی استفادہ کیا تھا،تفویض کا نظریہ جو معتزلہ کی طرف سے بیان ہوا ہے عقیدہ جبر کے ماننے والوں کی سخت فکری و عملی مخالفت نیز عقیدۂ جبر کے مقابلہ میں یہ ( تفویض کا نظریہ) ایک طرح کا عکس العمل تھا ۔ جب کہ آیات و روایات اور پیغمبرنیز ان کے سچے ماننے والوں کی زندگی کا طرز عمل بھی مذکورہ دونوں نظریوں کی تائید نہیں کرتا ہے بلکہ اہل بیت کے نظریہ ''الأمر بین الأمرین'' سے مطابقت رکھتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ زخرف ۲۰۔(۲) مثال کے طور پر امام علی اس شخص کے جواب میں جس نے قضا و قدر الٰہی کو جبر سے ملادیا تھا آپ نے فرمایا ..........کیا تم گمان کررہے ہو کہ ( جو کچھ جنگ صفین میں اور دوران سفر میں ہم نے انجام دیا ہے ) ہمارے اختیار سے خارج ، حتمی اور جبری قضا و قدر تھا ؟ اگر ایسا ہی ہے تو سزا و جزا ، امر و نہی سب کچھ غلط اور بے وجہ ہے۔صدوق ، ابن بابویہ، التوحید ، مکتبة الصدوق ، تہران : ۱۳۷۸م ، ص ۳۸۰۔

۱۸۸

بہر حال اگرچہ عقلی ، نقلی اوردرونی ( ضمیر ) تجربہ کے ذریعہ انسان کے اختیار کا مسئلہ ایک غیر قابل انکار شیٔ ہے جس پر بہت سے تجربی دلائل گواہ ہیں لیکن سیاسی اور بعض دینی و فلسفی تعلیمات سے غلط استفادہ اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات کے جوابات میں بعض فکری مکاتب کی ناتوانی کی بنا پر اسلامی معاشرہ کا ایک گروہ عقیدۂ جبر کی طرف مائل ہو گیااوروہ لوگ اس کے معتقد ہوگئے(۱) البتہ یہ شیٔ اسلامی معاشرہ سے مخصوص نہیں ہے دوسرے مکاتب فکرکے دانشمندوں کے درمیان اور متعدد غیر مسلم فرق و مذاہب میں بھی اس عقیدے کے حامی افراد موجود ہیں ۔(۲)

مفہوم اختیار

لفظ اختیار مختلف جہات سے مستعمل ہے یہاں انسان کے اختیار کے معنی کو روشن کرنے کے لئے جو کرامت اکتسابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے چار موارد ذکرکئے جا رہے ہیں۔

۱۔اضطرار اور مجبوری کے مقابلہ میں اختیار

کبھی انسان کسی خاص شرائط اور ایسے حالات و مقامات میں گھر جاتا ہے جس کی بنا پر مجبور ہو کر کسی عمل کو انجام دیتا ہے مثال کے طور پر ایک مسلمان بیابان میں گرفتار ہو جاتا ہے اور راستہ بھول جاتا ہے بھوک اور پیاس اسے اس حد تک بے چین کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی جان خطرہ میں پڑجاتی ہے لیکن ایک مردار کے علاوہ اس کے سامنے کوئی غذا نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے مجبوراً اس حیوان کے گوشت کو اتنی ہی مقدار میں استعمال کر سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ موت سے نجات حاصل کرسکے ،اس مقام پر کہا جائے گا کہ اس شخص نے اپنی خواہش اور اختیار سے مردار گوشت نہیں کھایا ہے بلکہ وہ مجبور تھا اور اضطرار کی وجہ سے مردار کے گوشت کو مصرف کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید اس کی غذا

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مغربی مفکرین و فلاسفہ کے نظریات کوہم ''ضمائم'' میں بیان کریں گے ۔

(۲)انسانی علوم تجربی کے بعض غیر مسلم مفکرین و فلاسفہ کے نظریات ''ضمائم ''میں بیان ہوں گے ۔

۱۸۹

کے جائز ہونے کے بارے میں فرماتا ہے :

( إنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ... فَمَنِ اضطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَ لا عَادٍ فَلا ِثمَ عَلَیهِ ) (۱)

اس نے تو تم پر بس مردہ جانور اور ...لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور سرکشی کرنے والا اورزیادتی کرنے والا نہ ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے ۔

۲.اکراہ کے مقابلہ میں اختیار

کبھی خود انسان کسی کام کے انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے یا کسی کام سے نفرت کرتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص اس کو ڈراتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق اس کام کو انجام دینے کے لئے مجبور کرتا ہے اس طرح کہ اگر اس شخص کا خوف نہ ہوتا تو وہ اس فعل کو انجام نہ دیتا اس مسلمان کی طرح جو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے قتل ہوجانے کے خوف کی بنا پر ظاہر میں زبان سے اظہار کفر کرتا ہے ، اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بااختیار اس عمل کو انجام نہیں دیا ، جیسا کہ سورہ نحل کی ۱۰۶ ویں آیہ میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں :

( مَن کَفَرَ بِاللّٰهِ مِن بَعدَ ِیمَانِهِ لا مَن أُکرِهَ وَ قَلبُهُ مُطمَئِنّ بِالِیمَانِ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے سوائے اس شخص کے جو اس عمل پرمجبورکردیاجائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو۔(۲)

اضطرار سے اکراہ کا فرق یہ ہے کہ اکراہ میں دوسرے شخص کا خوف زدہ کرنا بیان ہوتا ہے جب کہ اضطرار میں ایسا نہیں ہے بلکہ خارجی حالات اور وضعیت اس عمل کی متقاضی ہوتی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۱۷۳۔

(۲)سورہ نحل۱۰۶۔

۱۹۰

۳.اختیار یعنی انتخاب و آزمائش کے بعد ارادہ

جب بھی انسان کے سامنے کسی کام کے انجام دینے کے لئے متعدد راہیں ہوں تو وہ اس کا تجزیہ کرتا ہے اسے خوب پرکھتا ہے اس کے بعد ایک راہ کو انتخاب کرتا ہے اور اسی کے مطابق اس فعل کے انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کام اختیار کے ساتھ انجام پایا ہے لیکن اگر کوئی کام سوچے سمجھے بغیر انتخاب اور اس کا ارادہ کرلیا گیاتو کہا جائے گا کہ یہ فعل غیراختیاری طور پر سرزد ہواہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ میں رعشہ ہو اور اس کا ہاتھ حرکت دینے کے ارادہ کے بغیر ہی لرزرہا ہو ۔

۴.اختیار یعنی رغبت ، محبت اور مرضی کے ساتھ انجام دینا

اس استعمال میں آزمائش اور انتخاب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کسی فعل میں صرف اکراہ اور مجبوری نہ ہو اور وہ فعل کسی کی رضایت اور خواہش کے ساتھ انجام پائے تو اس فعل کو اختیاری کہا جاسکتا ہے، خدا اور فرشتوں کے افعال میں اسی طرح کا اختیار ہے، اس معنی کے مطابق خداوند عالم اور فرشتوں کے افعال، اختیاری ہیں البتہ ان کی طرف سے کسی کام کے انجام پانے کے لئے آزمائش اور انتخاب کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے مثال کے طورپر خداوند عالم اپنے کام کے انجام دینے میں تجزیہ و تحلیل اور انتخاب کی حاجت نہیں رکھتا ہے اوراس کیلئے کسی بھی شی ٔمیں ایسا ارادہ جو پہلے نہ رہا ہو تصور نہیں ہوتا ہے چنانچہ مختار ہونے کا یہ معنی ہے کہ خواہش ، رغبت اور فاعل کی خود اپنی مرضی سے وہ فعل انجام پائے ۔(۱)

____________________

(۱) افعال انسان کے اختیاری ہونے کو اس کے ارادہ سے ملانا نہیں چاہیئے، کسی فعل کے ارادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ارادہ سے پہلے ایک ارادہ ہو اور وہ فعل بھی ارادہ سے پہلے ہو لیکن اختیاری ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس فعل کے صدور میں حقیقی عامل کوئی اور نہیں ہے بلکہ خود وہ شخص ہے ۔ اس بیان کے مطابق خود ارادہ انسان کے لئے بھی ایک اختیاری فعل موجود ہے اگرچہ وہ ایک ارادی فعل نہیں ہے یعنی ارادہ کرنے کے لئے کسی سابق ارادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

۱۹۱

بھی ایک ارادہ ہونا چاہیئے اور یہ تسلسل باقی رہے گا اور یہ محال ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ارادہ کوئی ارادی فعل نہیں ہے اور ضروری نہیں ہے کہ اس کے پہلے بھی ایک ارادہ ہو بلکہ یہ ایک اختیاری فعل ہے اور ارادہ و اختیار میں بہت فرق ہے ،چونکہ حقیقی عامل و سبب نفس انسان ہے اور اس میں کوئی اضطرار و مجبوری نہیں ہے لہذا فعل اختیاری ہے چاہے اس کے پہلے کوئی ارادہ نہ رہا ہو ۔

اس وضاحت سے ارادہ و اختیار میں موجود اہم اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، اس اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہر اختیاری فعل سے پہلے ایک ارادہ کا ہونا ضروری ہے تو خود ارادہ کرنا بھی تو ایک نفسیاتی فعل ہے لہٰذا اس سے پہلے...

مذکورہ چار معانی میں سے جو انسان کے اختیاری کاموں میں مورد نظر ہے نیز کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا طریقۂ عمل بھی ہے وہ تیسرا معنی ہے ۔ یعنی جب بھی انسان متعدد موجودہ راہوں اور افعال کے درمیان تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ کسی کام کو انتخاب کرلے اور اس کے انجام کا ارادہ کرلے تو اس نے اختیاری فعل انجام دیا ہے اور اپنی اچھی یا بری سرنوشت کی راہ میں قدم بڑھایا ہے ،اس لئے تجزیہ و تحلیل ، انتخاب اور ارادہ ، اختیار انسان کے تین بنیادی عنصر شمار ہوتے ہیں ،البتہ منتخب فعل لازمی طور پر انسان کے رغبت اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے یہ ہوسکتا ہے کہ خود بخود وہ فعل انسان کے لئے محبوب و مطلوب ہو اس شخص کی طرح جو خدا کی عبادت اور راز و نیاز کا عاشق ہے اور نیمۂ شب میں با اشتیاق بستر خواب سے بلند ہوتا ہے اور نماز شب پڑھتا ہے یا اس شخص کی طرح جس کے پاس موسم گرما میں تھوڑا سا ٹھنڈا اور میٹھا پانی موجود ہے جس سے ہاتھ اور چہرہ دھلنا اس کے لئے لذت بخش ہے لیکن ظہر کے وقت اسی پانی سے وضو کرتا ہے ،مطلوب اور اچھا فعل اگر معرفت اور ارادہ کے ہمراہ ہو تو ایک اختیاری فعل اور کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ، قدرت انتخاب نہ رکھنے والے جمادات اور فرشتوں میں جن کے سامنے متعدد راہیں نہیں ہوتیں اورغیر ترقی یافتہ انسان میں جو ابھی قدرت انتخاب سے مزین نہیں ہے،اس کے لئے ایسے انتخاب کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) اختیار کی تعریف کے اعتبار سے ،چاہے بہت کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو کیا حیوانات اختیار رکھتے ہیں ؟ اس میں اختلاف نظر ہے لیکن بعض آیات کے ظواہر اور بعض تجربی شواہد بہت معمولی مقدار میں ان کے اختیار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ۔

۱۹۲

انسان کے مختار ہونے پر قرآنی دلیلیں

گذشتہ مفہوم کے مطابق انسان کا اختیار قرآن کی نظر میں بھی مورد تائید ہے اور بہت سی آیات بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ،ان میں سے چار طرح کی آیات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے

۱۔وہ آیات جو بہت ہی واضح طور پر انسان کے اختیار کو بیان کرتی ہیں :

( وَ قُلِ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَن شَائَ فَلیُؤمِن وَ مَن شَائَ فَلیَکفُر ) (۱)

اور تم کہدو کہ سچی بات(قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے پس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے ۔

۲۔ وہ آیات جو اتمام حجت کے لئے پیغمبروں کے بھیجنے اور آسمانی کتب کے نزول کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں :

( لِیَهلِکَ مَن هَلَکَ عَن بَیِّنَةٍ وَ یَحیَیٰ مَن حَیَّ عَن بَیِّنَةٍ ) (۲)

تاکہ جو شخص ہلاک ہو وہ حجت تمام ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ ہدایت کی حجت تمام ہونے کے بعد زندہ رہے ۔

( رُسُلاً مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیٰ اللّٰهِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ )

بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر (بھیجے)تاکہ لوگوں کی خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے ۔(۳)

۳۔ وہ آیات جو انسان کے امتحان اور مصیبت میں گرفتار ہونے پر دلالت کرتی ہیں :

( إِنَّا جَعَلنَا مَا عَلَیٰ الأرضِ زِینَةً لَّهَا لِنَبلُوَهُم أَیُّهُم أَحسَنُ عَمَلاً )

جو کچھ روئے زمین پر ہے ہم نے اسے زینت قرار دیاہے تاکہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے اعمال والا ہے ۔(۴)

____________________

(۱)سورہ کہف ۲۹(۲)سورہ انفال ۴۲

(۳)سورہ نساء ۱۶۵

(۴)سورۂ کہف ۷

۱۹۳

۴. وہ آیات جو بشیرو نذیر ، وعد و وعید ، تعریف و مذمت اور اس کے مثل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اسی وقت فائدہ مند اور مفید ہوں گی جب انسان مختار ہو ۔

( وَعَدَ اللّٰهُ المُنَافِقِینَ وَ المُنَافِقَاتِ وَ الکُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا )

منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے خدا نے جہنم کی آگ کا وعدہ کرلیا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔(۱)

____________________

(۱)سورۂ توبہ ۶۸

۱۹۴

عقیدہ ٔ جبر کے شبہات

جیسا کہ کہا گیا ہے کہ انسان کا مختار اور وجدانی ہونا عقلی نقلی دلیلوں کے علاوہ تجربی شواہد سے بھی ثابت اور مورد تائید ہے لیکن کسی بنا پر ( منجملہ بعض شبہات کی وجہ سے جو انسان کے اختیار کے بارے میں بیان ہوئے ہیں ) بعض لوگ جبر کے قائل ہیں یہاں ہم ان شبہات کا تجزیہ کریں گے ۔

جبر الٰہی

مذکورہ شبہات میں سے ایک شبہہ جبر الٰہی ہے ،تاریخ اسلام میں ایک گروہ کو ''مجبرہ'' کہتے ہیں یہ گروہ معتقد تھا کہ دینی تعلیمات کے ذریعہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اختیاری افعال میں مجبور ہے ، جبر الٰہی کے ماننے والوں کی استناد اور ان کے دینی بیانات کو تین دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا گروہ

وہ آیات و روایات جو علم غیب کے بارے میں ہیں، ان میں مذکور ہے کہ خداوند عالم، انسان کے افعال اختیاری کے انجام پانے سے پہلے ان افعال اور ان کے انجام پانے کی کیفیت سے آگاہ ہے اور انسانوں کی خلقت سے پہلے وہ جانتا تھا کہ کون انسانِ صالح و سعادت مند ہے اور کون برا و بدبخت ہے اور یہ حقائق لوح محفوظ نامی کتاب میں ثبت ہیں جیسے :

۱۹۵

( وَ مَا یَعزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثقَالِ ذَرَّةٍ فِی الأرضِ وَ لا فِی السَّمَائِ وَ لا أَصغَرَ مِن ذٰلِکَ وَ لا أَکبَرَ ِلا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍ ) (۱)

اور تمہارے پروردگار سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز غائب نہیں رہ سکتی نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں چھوٹی ، بڑی چیزوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے مگر وہ روشن کتاب میں ضرور ہے ۔

دوسرا گروہ

وہ آیات و روایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ انسان کے افعال خدا کے ارادہ اور اس کی طرف سے معینہ حدود میں انجام پاتے ہیں جیسے وہ آیات جو ہرشیٔ کے تحقق منجملہ انسان کے اختیاری اعمال کو خدا کی اجازت ، مشیت ، ارادہ نیزقضا و قدر الہٰی کا نتیجہ سمجھتی ہیں جیسے یہ آیات :

( وَ مَا کَانَ لِنَفسٍ أَن تُؤمِنَ لا بِِذنِ اللّٰهِ ) (۲)

کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ بغیر اذن خدا ایمان لے آئے

( مَن یَشَأِ اللّٰهُ یُضلِلهُ وَ مَن یَشَأ یَجعَلهُ عَلَیٰ صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ ) (۳)

اللہ جسے چاہے اسے گمراہی میں چھوڑ دے اور جسے چاہے اسے سیدھے راستہ پر لادے

( وَ مَا تَشَائُ ونَ ِلا أَن یَشَائَ اللّهُ ) (۴)

اور تم لوگ وہی چاہتے ہو( انجام دینا)جو خدا چاہتا ہے ۔

پس انسان اس وقت ایمان لاتا ہے اور صحیح و غلط راستہ اختیار کرتا ہے یا کسی کام کو انجام دے

____________________

(۱)سورۂ یونس ۶۱

(۲)یونس۱۰۰

(۳)انعام ۳۹

(۴)تکویر ۲۹۔

۱۹۶

سکتا ہے جب خدا کی مرضی شامل حال ہو ایک روایت میں امام علی رضا سے بھی منقول ہے کہ :''لا یکُون لا مَاشَاء اللّه وَ أرَاد وَ قدّر وَ قضیٰ '' (۱) کوئی بھی چیز بغیر خدا کی مرضی و ارادہ نیز قضا و قدر کے متحقق نہیں ہوتی ہے ۔

تیسرا گروہ

وہ آیات و روایات جو بیان کرتی ہیں کہ : انسانوں کی اچھی اور بری فطرت پہلے ہی سے آمادہ ہے فقط طبیعت مختلف ہے ۔بعض انسانوں کی فطرت اچھی ہے اور وہ اسی اعتبار سے ہدایت پاتے ہیں اور بعض دوسرے انسانوں کی فطرت بری ہے جس کی بنا پر گمراہ ہوجاتے ہیں جیسے دو آیتیں( کَلاّ إِنَّ کِتَابَ الفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ ) (۲) ( کَلاّ إِنَّ کِتَابَ الأبرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ ) (۳) بیان کرتی ہیں کہ : اچھے لوگوں کی سرنوشت بلند مقام( عِلِّیِّینَ ) اور برے افراد کی سرنوشت پست مقام( سِجِّینِ ) بتائی گئی ہے جیساکہ مختلف احادیث بیان کرتی ہیں کہ : اچھے انسانوں کی فطرت میٹھے پانی اور برے افراد کی فطرت تلخ پانی سے تخلیق ہوئی ہے نیزان احادیث میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ : ''الشَقِی مَن شقیٰ فِی بطنِ أمهِ و السعِید مَن سَعد فِی بطنِ أمهِ ''(۴) بد بخت وہی ہے جو شکم مادر میں بد بخت ہے اور سعادت مند وہی ہے جو شکم مادر ہی سے سعادت مند ہے ۔

جبر الٰہی کی تجزیہ و تحلیل

پہلے گروہ کے شبہہ کا جواب یہ ہے کہ خداوند عالم کا کسی شخص کے اچھے یا برے فعل کے انجام

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ، ج۱ ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :۱۳۴۸، ص ۱۵۸۔

(۲)مطففین ۷۔

(۳)مطففین۱۸

(۴)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ؛ دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :۱۳۶۳۔

۱۹۷

دینے کا علم، اس فعل کے عالم خارج میں بغیر کسی قید و شرط کے انجام پانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس فعل کو تمام قیود اور شرائط کے ساتھ انجام دینے کے معنی میں ہے ، منجملہ انسان کے اختیاری افعال میں یہ قیود، فعل کو پرکھنا ، انتخاب کرنا اور ارادہ کے ذریعہ انجام دینا ہے،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کسی کام کے انجام پانے کے بارے میں خدا کا علم ، جبر اور اختیار دونوں سے سازگار ہے اس لئے کہ اگر خدا جانتا ہے کہ یہ کام جبر کی بنا پر اور فاعل کے ارادہ کے بغیر انجام اور صادر ہوا ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ کی لرزش جسے رعشہ ہو ، تو ظاہر ہے وہ فعل جبری ہے لیکن اگر خدا یہ جانتا ہے کہ فاعل نے اس کام کو اپنے اختیار اور ارادہ سے انجام دیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فعل اختیاری ہے اور فاعل مختار ہے جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال میں کام کے انجام پانے کی ایک شرط اور قید، انسان کا اختیار ہے ، اسی بنا پر خدا جانتا ہے کہ انسان مختار ہے اور اس کام کو اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ جبر الٰہی کے معتقدین نے یہ تصور کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم فعل کے صادر ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے لہٰذا ہم مجبور ہیں ، جب کہ یہ تصور بھی غلط ہے اور ہمیں خود سے خدا کا تقابل نہیں کرنا چاہیئے ،خداوند عالم لامحدود اور زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے ماضی ، حال و مستقبل کا تصور نہیں ہے۔ مادی مخلوقات اگرچہ زمانہ کے ہمراہ ہیں اور اپنے اور دوسرے کے ماضی و مستقبل کے حالات سے جاہل و بے خبر ہیں اور دھیرے دھیرے ان کے لئے حوادث واقع ہوتے ہیں، لیکن اس خدا کے بارے میں جو زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے حرکت و زمان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور یہ کائنات اس کے لئے پوری طرح سے آشکار ہے ، گذشتہ اور آئندہ کے حوادث کے بارے میں خدا وند عالم کا علم ہمارے حال اور موجودہ حوادث کے بارے میں علم رکھنے کی طرح ہے وہ کاروان ہستی اور سلسلۂ حوادث کو ایک ساتھ اور ایک ہی دفعہ میں مشاہدہ کرتا ہے ، غرض یہ کہ کسی چیز کے متحقق ہونے سے پہلے اور متحقق ہونے کے وقت ، اور متحقق ہونے کے بعد کا علم اس کے لئے متصور نہیں ہے ،بہر حال جس طرح اس شخص کے بارے میں ہمارا علم جو ہمارے ہی سامنے اچھا کام کرتا ہے اس کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے اسی طرح خدا کا علم ( ہمارے اعتبار سے اس اچھے کام کے متحقق ہونے سے پہلے ) بھی اس شخص کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے گروہ کی وضاحت میں (قدر،قضا ،مشیت اور ارادۂ خدا کی آیات وروایات میں )قابل ذکر یہ ہے کہ قدر چاہے انسان کے اختیاری افعال یا غیر اختیاری افعال میں ہو ضروری شرائط فراہم ہونے کے معنی میں ناکافی ہے اور قدر کے متحقق ہونے سے فعل حتمی اور قطعی متحقق نہیں ہوتا ہے

۱۹۸

بلکہ تمام شرائط کے فراہم ہونے کی بنا پر حتماً متحقق ہوتاہے اس لئے انسان کے اختیاری افعال میں قدر یعنی کسی فاعل سے فعل کا حتمی صادر ہونا اور واقع ہونا ، جبر کالا زمہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر کسی فعل کے صدور کے لئے علت ناقصہ (نہ کہ تامہ)فراہم ہوئی ہے تو صدور فعل حتمی نہیں ہے کہ اس فعل کے سلسلہ میں اختیاری یا جبری ہونے کے بارے میں بحث کیا جائے اور اگر صدور فعل کے تمام شرائط فراہم ہوں اور فقط فاعل نے قصد نہ کیا ہو تو معلوم ہوا کہ فاعل کا قصد ایک دوسری شرط ہے جو فعل کے حتمی متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے اور اس صورت میں فعل اختیاری ہوگا۔

قضائے الٰہی

جو قدر کے مقابلہ میں ایک فعل کے متحقق ہونے کے لئے کافی اور ضروری شرائط کے فراہم ہونے کے معنی میں ہے وہ بھی انسان کے اختیارسے منافات نہیں رکھتا ہے اس لئے کہ قضائے الہی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب کسی کام کے تحقق پانے کے تمام شرائط جن میں سے ایک انسان کا ارادہ بھی ہے فراہم ہوجائے. اور اختیاری افعال میں انسان کے قصد وارادہ کے بغیر قضائے الہی انسان کے اختیاری افعال میں متحقق نہیں ہوتا ہے.لہذا قضاء الٰہی بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے.

مشیت ، ارادہ اور اذن خدا کو بیان کرنے والی آیات وروایات جو دلالت کرتی ہیں کہ جو بھی فعل انسان انجام دیتا ہے اس کی اجازت اور ارادہ سے متحقق ہوتا ہے اور جس کا خدا نے ارادہ کیا ہے انسان اس کے علاوہ انجام نہیں دیتا ہے یہ مطلب بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے ، اس لئے کہ ان آیات وروایات میں مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کا ارادہ خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں اور خدا کے ارادہ اور اجازت کے سامنے قرار پاتا ہے یعنی ہمارے ارادہ کرنے اور اپنے کام کو انجام دینے کے بجائے خدا ارادہ کرے اور اسے انجام دے اور ہم نے کوئی ارادہ نہ کیا ہو یا فعل کے تحقق میں ہمارا ارادہ مؤثر نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اپنے کاموں کے انجام میں مستقل اور خداسے بے نیاز نہیں ہیں اور مزید یہ کہ کسی بھی فعل کے انجام دینے میں ہمارا قصد اورارادہ مؤثر ہے ، اور طول میں خدا کی اجازت ، قصد اور ارادہ موثر ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہمارے افعال ہمارے ہی اختیار سے انجام پائیں اس لئے کہ اگر وہ نہ چاہے تو ہم کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتے یا ہمارا ارادہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے(۱)

____________________

(۱)مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ؛ ج۱، ص۹۹، محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۲۸۱،۲۸۲

۱۹۹

خدا کے فعاّل ہونے کا راز

قرآن نے( تفویض ) نام کے غلط نظریہ کی نفی کے لئے خدا کے ارادے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے اس نظریہ والوں کا یقین یہ تھا کہ خدا نے دنیا کو خلق کیا اور اسکو اسی کے حال پر چھوڑ کر خود آرام کررہا ہے یادنیا خلق ہونے کے بعد اس کی قدرت اختیار سے خارج ہوگئی ہے اور اس میں خدا کا کوئی نقش و کردار نہیں ہے انسان کے سلسلہ میں یعنی خدا وند عالم فقط آغاز آفرینش میں اپناکردار ادا کرتا ہے اور جب انسان کی تخلیق ہوگئی تو پھر انسان پوری طرح خلاق و فعال ہے اور خدا وند عالم ( نَعُوذُ بِاللّہِ) بیکار ہے۔خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ: ایسا نہیں ہے بلکہ تم اپنے ارادہ سے جو یہ کام انجام دے رہے ہو یہ بھی میری خواہش سے ہے قرآن مجیدمیں فرماتا ہے:

( وَقَالَتِ الیَهُودُ یَدُ اﷲِ مَغلُولَة ) یہودی کہتے ہیں خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے ایسا نہیں ہے (بَل یَدَاہُ مَبسُوطَتَانِ)(۱) اﷲکے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی خدا پوری طرح سے اختیار رکھتا ہے اور فعاّل ہے آیات تاکید کرتی ہیں کہ یہ گمان نہ کرنا کہ اگر انسان اپنے اختیار سے فعل انجام دے رہا ہے تو خدا وند عالم بیکار ہے.

دنیا اور خدا کا رابطہ گھڑی اوراس شخص کے رابطہ کی طرح ہے جو گھڑی کو چابی دیتا ہے ایسا نہیں ہے کہ دنیا گھڑی کی طرح چابی دینے کے بعد خود حرکت کرے اور کسی چابی دینے والے کی محتاج نہ ہو بلکہ یہ خدا وند عالم ہے جو دنیا کو ہمیشہ چلانے والا ہے (کُلَّ یَومٍ ھُوَ فِی شَأنٍ)(۲) کہ وہ ہر وقت فعاّل ہے انسان بھی دنیا کے حوادث سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ مشمول تدبیر وتقدیر الہی ہے. حتی کہ انسان آخرت میں بھی مشیت وارادۂ خدا سے خارج نہیں ہے جیسا کہ سورہ ہود کی ۱۰۸ویں آیہ جو ظلم کرکے ظالمانہ طور پر جہنم میں اور خوش بختی کے ساتھ بہشت میں ورود کو بیان کرنے کے بعد دونوں گروہوں کے بارے میں فرماتی ہے :

( خَالِدِینَ فِیهَا مَا دَامَتِ السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ ِلا مَاشَائَ رَبُّکَ )

جب تک آسمان و زمین ہے وہ ہمیشہ اسی (جنت یا جہنم )میں رہیں گے مگر جب تیرا پروردگار چاہے ۔

ان دو عبارتوں میں '' لوگ ہمیشہ ہونگے''اور''جب تک دنیا باقی ہے''پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ مراد یہ نہیں ہے کہ کسی وقت خداوند عالم خوشبختوں یا ظالموں کو بہشت اور جہنم سے نکالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ کہیں یہ تصور نہ ہوکہ یہ موضوع قدرت خدا کے حدود سے خارج ہوگیا ہے خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوگا توخدا وند عالم اپنی مخلوق کا محکوم واقع ہوجائے گا۔

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۶۴۔

(۲)سورۂ رحمٰن ۲۹۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307