انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146086 / ڈاؤنلوڈ: 4866
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: انسان شناسی

مولف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی

مترجم: سید محمد عباس رضوی اعظمی

مصحح: مرغوب عالم عسکری

نظر ثانی: سید شجاعت حسین رضوی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے توکائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے سے پیچیدگیوںکا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کوپیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر، اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۴

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،حجة الاسلام و المسلمین عالیجناب مولانا محمود رجبی صاحب کی گرانقدر کتاب ''انسان شناسی ''کو فاضل جلیل مولانا سید محمدعباس رضوی اعظمی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، نیز ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

بسم الله الرحمٰن الرحیم

مقدمہ:

( ثُمَّ أنشأناهُ خَلقاً آخَرَ فتبارک اللّهُ أحسَنُ الخَالقِینَ ) (۱)

پھر ہم نے اس کو ایک دوسری صورت میں پیدا کیاپس

بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والاہے ۔

انسان بہت سے انتخابی عمل کا سامنا کرتا ہے جس میں سے فقط بعض کو انتخاب کرتا ہے ، بعض کو دیکھتا ہے، بعض کے بارے میں سنتا ہے اور اپنے ہاتھ ، پیر اور دوسرے اعضاء کو بعض کاموں کی انجام دہی میں استعمال کرتا ہے، قوت جسمانی کی رشد کے ساتھ ساتھ فکری ، عاطفی اور بہت سے مخلوط و مختلف اجتماعی روابط ،علمی ذخائر اور عملی مہارتوں میں اضافہ کی وجہ سے انتخابی دائرے صعودی شکل میں اس طرح وسیع ہو جاتے ہیں کہ ہر لمحہ ہزاروںامور کا انجام دینا ممکن ہوتاہے لہٰذا انتخاب کرنابہت مشکل ہو جاتا ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ مومنون ۱۴

۶

طریقہ کار کی تعین و ترجیح کے لئے مختلف ذرائع موجود ہیں مثلاً فطری رشد ، خواہشات کی شدت ، ناامنی کا احساس ، عادات و اطوار، پیروی کرنا ، سمجھانا اور دوسرے روحی و اجتماعی اسباب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے مہم عقلی اسباب ہیں جوسبھی طریقۂ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ایک کی معراج کمال اور انسانی سعادت کے لئے موثراور مہم طریقۂ کار کی تعیین و ترجیح اور سب سے بہتر واہم انتخاب کے لئے درکار ہیں جو انسانی ارادہ کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ انسان کی حقیقی اشرفیت اور برتری کے راز کو انہیں اسباب و علل اور طریقۂ کار کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیئے ۔

اعمال کی اہمیت اور ان کا صحیح انتخاب اس طرح کہ انسان کی دنیا و آخرت کی خوشبختی کا ذمہ دار ہو ، معیار اہمیت کی شناخت پر موقوف ہے ،ان معیار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے حقیقت انسان ، کیفیت وجود ، آغازو انجام اور کمال و سعادت اخروی کوسمجھا جائے ۔یہ موضوع ایک دوسرے زاویۂفکرکا محتاج ہے جس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

لہٰذا انسان شناسی کو معارف انسانی کی سب سے بنیادی چیزسمجھنا چاہیئے اور اس کا مطالعہ خاص کر ان افراد کے لئے جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی درست و بے نقص اور عقلی معیار پر استوار ہو ضروری ہے ۔

اس کتاب میں انسان شناسی کے بنیادی مسائل کی تحقیق پیش کی جائے گی۔ البتہ یہ بات مسلم ہے کہ انسان کی حقیقی شخصیت کی شناخت ، اس کی پیدائش کا ہدف اور اس ہدف تک رسائی کی کیفیت ، قرآنی تعلیمات ،اسلامی دستورات اور عقلی تجزیہ و تحلیل پر موقوف ہے ، لہٰذا کتاب کے اکثر مباحث میں انسان شناسی کے نظریات کو قرآن کریم اور دین اسلام کے تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے ۔ پہلے تویہ کتاب بالمشافہہ تدریس کیلئے مرتب کی گئی تھی لیکن ان افرادکی بہت سی درخواستوں کی وجہ سے جو معارف اسلامی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور'' مؤسسۂ (اکیڈمی)آموزش و پژوہش امام خمینی '' کے پروگرام میں شرائط و مشکلات کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکتے تھے

۷

لہٰذاان کے لئے ایک خصوصی پروگرام ''تدریس از راہ دور''(۱) تصویب کیا گیاجس میں نقش و نگار سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے معانی و مفاہیم کو غیر حضوری شکل میں اور نہایت ہی مناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔

آپ ابتدا ء مطالعہ ہی سے ایک تعلیمی پروگرام کے شروع ہو جانے کا احساس کریں گے اور رہنمائیوں کو اپنے لئے رہنما و راہبر محسوس کریں گے ، یہ راہنمائیاں مؤلف اور قاری کے درمیان گفتگو اور مکالمہ کی شکل میں ڈھالی گئی ہیں جو کتاب کے مطالب کو درست و دقیق اور مؤثر انداز میں حاصل کرنے کی ہدایت کرتی ہیں،البتہ بہتر نتیجہ آپ کے مطالعہ پر موقوف ہے ۔ ابتدا ہی میں پوری کتاب کے مطالب کو نموداری شکل میں پیش کیاگیا ہے تاکہ کتاب کے بنیادی مطالب کا خاکہ اور ہر بحث کی جایگاہمشخص ہو جائے اور کتاب کے مطالعہ میں رہنمائی کے فرائض انجام دے ۔ ہر فصل کے مطالب خود اس فصل سے مربوط تعلیمی اہداف سے آغاز ہوتے ہیں،ہر فصل کے مطالعہ کے بعد اتنی فہم و توانائی کی ہمیں امیدہے کہ جس سے ان اہداف کو حاصل کیا جاسکے نیز ان رہنمائیوں کے ساتھ ساتھ یاد گیری کے عنوان سیہر فصل کے مطالب کو بیان کرنے کے بعدبطور آزمائش سوالات بھی درج کئے گئیہیں جن کے جوابات سے آپ اپنی توانائی کی مشق اور آزمائش کریںگے ، سوالات بنانے میں جان بوجھ کرایسے مسائل پیش کئے گئے ہیں جو کتاب کے مطالب پر تسلط کے علاوہ آپ کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیںاور حافظہ پراعتماد کے ساتھ ساتھ مزید غور و فکر کے لئے بر انگیختہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہر فصل کے آخر میں اس کاخلاصہ اورمزید مطالعہ کے لئے منابع ذکر کئے گئے ہیں، ہرفصل کے خلاصہ میں مختلف فصلوںکے مطالب کے درمیان ہماہنگی برقرار رکھنے کے لئے آنے والی فصل کے بعض مباحث کو کتاب کے کلی مطالب سے ربط دیا گیا ہے۔کتاب کے آخر میں ایک ''آزمائش ''بھی ہے جس میں کلی مطالب ذکر کئے گئے ہیں تاکہ متن کتاب سے کئے گئے سوالات کے جوابات سے اپنی فہم کی مقدار کا اندازہ لگایا جا سکے ۔ چنانچہ اگر کتاب کے کسی موضوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہر فصل کے آخر میں مطالعہ کے لئے بیان کی گئی کتابوں سے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ درک مطالب میں پیش آنے والی مشکلات سے دوچار ہونے کی صورت میں اپنے سوالات کو مؤسسہ کے''تدریس از راہ دور''کے شعبہ میں ارسال کرکے جوابات دریافت کرسکتے ہیں، اسلوب بیان کی روش میں اصلاح کیلئے آپ کی رائے اور اظہار نظر کے مشتاق ہیں،اللہ آپکی توفیقات میں مزیداضافہ کرے۔

موسسۂ آموزشی وپژوہشی امام خمینی

____________________

(۱)راہ دور سے تعلیمی پروگرام کی تدوین اور اس کے انجام دہی میں ہم ماہرانہ تحقیقات و مطالعات نیز اکیڈمی کے داخلی و بیرونی معاونین و محققین کی ایک کثیر تعداد کی شب و روز کوشش و تلاش، ہمت اور لگن سے بہرہ مند تھے اور ہم ان تمام دوستوں کے خصوصاً''پیام نور ''یونیورسٹی کے جن دوستوں نے ہماری معاونت کی ہے شکرگذار ہیں۔

۸

مطالعہ کتاب کی کامل رہنمائی

فصل ۱

انسان شناسی

مفہوم انسان شناسی

اہمیت و ضرورت

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

تعریف انسان شناسی، بشری تفکر کے دائرہ میں

انسان شناسی معارف دینی کے آئینہ میں

نوع

فصل ۲

خلقت انسان

اولین انسان کی خلقت

تمام انسانوں کی خلقت

اثبات روح کی دلیلیں

ادلۂ عقلی

ادلۂ نقلی

۹

فصل ۳

انسانی فطرت

مشترکہ فطرت

فطرت

مشترکہ فطرت کے وجود پر دلیلیں

انسان کی فطرت الٰہی سے مراد

فطرت کی زوال ناپذیری

فصل ۴

نظام خلقت میں انسان کا مقام

خلافت الٰہی

کرامت انسان

کرامت ذاتی

کرامت اکتسابی

۱۰

فصل ۵

آزادی و اختیار

مفہوم اختیار

شبہات جبر

انسان کے اختیار پر قرآنی دلیلیں

جبر الٰہی

اجتماعی و تاریخی جبر

فطری و طبیعی جبر

فصل ۶

اختیار کے اصول

عناصر اختیار

آگاہی و معرفت

ارادہ و خواہش

قدرت و طاقت

۱۱

فصل ۷

کمال نہائی

مفہوم کمال

انسان کا کمال نہائی

قرب الٰہی

فصل ۸

رابطہ دنیا و آخرت

کلمات دنیا وآخرت کے استعمالات

نظریات کی تحقیق

رابطہ کی حقیقت و واقعیت

.

فصل ۹

خود فراموشی

خود فراموشی کے مؤسسین

قرآن اور خود فراموشی

خود فراموشی کا علاج

ہگل

بیچ

مارکس

۱۲

پہلی فصل :

مفہوم انسان شناسی

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

۱۔'' انسان شناسی '' کی تعریف اور اس کے اقسام کو بیان کریں؟

۲۔جملۂ'' انسان شناسی؛ فکر بشر کے آئینہ میں '' کی وضاحت کریں ؟

۳۔معرفت خدا، نبوت و معاد کا انسان شناسی سے کیا رابطہ ہے دو سطروں میں بیان کریں؟

۴۔ انسان شناسی ''کل نگر''و'' جزء نگر'' کے موضوعات کی مثالوں کو ذکر کریں ؟

۵۔ خود شناسی سے کیا مراد ہے اور اس کا دینی انسان شناسی سے کیارابطہ ہے بیان کریں؟

۶۔ ''دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران ''میں سے چارمحورکی وضاحت کریں ؟

۱۳

خدا ،انسان اور دنیا فکر بشر کے تین بنیادی مسائل ہیں جن کے بارے میں پوری تاریخ بشر کے ہر دور میں ہمیشہ بنیادی، فکری اور عقلی سوالات ہوتے رہتے ہیں اور فکر بشر کی ساری کوششیں انہی تین بنیادی چیزوں پر متمرکز اور ان سے مربوط سوالات کے صحیح جوابات کی تلاش میں ہیں۔

بہر حال انسان کی معرفت ،اس کے مشکلات کا حل نیز اس کے پوشیدہ اسرار،کافی اہمیت کے حامل ہیں، جس نے بہت سے دانشمندوں کو اپنے مختلف علوم کے شعبوں میں مشغول کررکھا ہے۔(۱) مذاہب آسمانی کی تعلیمات میں (خصوصاً اسلام میں )معرفت خدا کے مسئلہ کے بعد معرفت انسان سب سے اہم مسئلہ مانا جاتا ہے،دنیا کا خلق کرنا ،پیغمبروں کو مبعوث کرنا ،آسمانی کتابوں کا نزول در حقیقت آخرت میں انسان کی خوشبختی کے لئے انجام دیا گیا ہے اگرچہ قرآن کی روشنی میں سبھی چیزیںخدا کی مخلوق ہیں اور کوئی بھی شئی اس کے مقابلہ میں نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی روشنی میں اس کائنات کو ایک ایسے دائرے سے کہ جس کے دو نقطہ ہوں تعبیر کیا گیا ہے جس کی حقیقی نسبت کا ایک سرا اوپر(اللہ) ہے اور دوسرا سرانیچے (انسان) کی طرف ہے(۲) اورانسان بھی ایک عرصۂ دراز سے ، اپنے وسیع تجربے کے ذریعہ اسی نسبت کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب

____________________

(۱)منجملہ علوم جو انسان اور اس کے اسرار و رموز کی تحلیل و تحقیق کرتے ہیں جیسے علوم انسانی تجربی اور دیگر فلسفے جیسے علم النفس ، فلسفہ خود شناسی ، فلسفہ اخلاق ،فلسفہ عرفان ، فلسفہ اخلاق ،فلسفہ اجتماعی ، فلسفۂ علوم اجتماعی ، فلسفہ تاریخ و حقوق وغیرہ

(۲) ایزوٹسو ،ٹوشی ہیکو، قرآن میں خدا و انسان ، ترجمہ احمد آرام ، ص ۹۲۔

۱۴

کہ انسان شناسی کے ماہرین نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ انسان کی معرفت کے اسباب ووسائل ، پوری طرح سے انسان کی حقیقت اور اس کے وجودی گوشوں کے حوالے سے مہم سوالات کا جواب نہیں دے سکتے ہیں لہٰذا آج انسان کو ایسا وجود جس کی شناخت نہ ہو سکی ہو یا انسان کی معرفت کا بحران وغیرہ جیسے الفاظ سے یاد کیا جانے لگا ۔

مذکورہ دو حقیقتوں میں غوروفکرہمیں مندرجہ ذیل چار سوالات سے روبروکرتا ہے:

۱۔انسان کے بارے میں کئے گئے بنیادی سوال کون سے ہیںاور انسان کی معرفت میں کیسی کو ششیں ہونی چاہیئے اوران سوالات کے لئے مناسب جوابات تک رسائی کیسے ممکن ہے؟

۲۔انسان کی معرفت میں بشر کی مسلسل حقیقی تلاش کا سبب کیا ہے؟ اورکیا دوسرے بہت سے اسباب کی طرح فطری جستجو کا وجودہی ان تمام کوششوںکی وضاحت و تحلیل کے لئے کافی ہے؟ یا دوسرے اسباب و علل کی بھی جستجوضروری ہے یا انسان کی معرفت کے اہم مسائل اوراس کی دنیو ی و اخروی زندگی نیز علمی و دینی امور میں گہرے اور شدید رابطوں کو بیان کرنا ضروری ہے ؟

۳۔دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران سے کیا مراد ہے اور اس بحران کے انشعابات کیا ہیں ؟

۴۔دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران سے نجات کے لئے کیا کوئی بنیادی حل موجود ہے؟دین اور دینی انسان شناسی کا اس میں کیا کردار ہے ؟

مذکورہ سوالات کے مناسب جوابات حاصل کرنے کے لئے اس فصل میں انسان شناسی کے مفہوم کی تحقیق اور اس کے اقسام ،انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت ، انسان شناسی کے بحران اور اس کے اسباب نیز دینی انسان شناسی کی خصوصیات کے بارے میں ہم گفتگو کریں گے ۔

۱۵

۱۔انسان شناسی کی تعریف

ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروپ یا طبقہ کا کسی زاویہ سے جائزہ لیتی ہے اس کو انسان شناسی کہا جا سکتا ہے ،انسان شناسی کی مختلف اور طرح طرح کی قسمیں ہیںکہ جس کا امتیاز ایک دوسرے سے یہ ہے کہ اس کی روش یا زاویہ نگاہ مختلف ہے، اس مقولہ کوانسان شناسی کی روش کے اعتبار سے تجربی ،عرفانی، فلسفی اور دینی میں اور انسان شناسی کی نوعیت کے اعتبار سیکلی اورجزئی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

۱۔روش اور نوعیت کے اعتبار سے انسان شناسی کے اقسام

انسان شناسی کے اقسام

روش کے اعتبار سے

نوعیت کے اعتبار سے

تجربی

عرفانی

فلسفی

دینی

جامع

اجزائ

۱۶

۲۔انسان شناسی کے اقسام

تجربی،عرفانی،فلسفی اور دینی

متفکرین نے انسان کے سلسلہ میں کئے گئے سوالات اور معموں کو حل کرنے کے لئے پوری تاریخ انسانی میں مختلف طریقہ کار کا سہارا لیا ہے ،بعض لوگوں نے تجربی روش سے مسئلہ کی تحقیق کی ہے اور ''انسان شناسی تجربی ''(۱) کی بنیاد رکھی جس کے دامن میں انسانی علوم کے سبھی مباحث موجود ہیں ۔(۲)

____________________

(۱)انسان شناسی تجربی کو انسان شناسی logy Anthropo کے مفہوم سے مخلوط نہیں کرنا چاہیئے ،جیسا کہ متن درس میں اشارہ ہوچکا ہے، انسان شناسی تجربی، علوم انسانی کے تمام موضوعات منجملہ Anthropology کو بھی شامل ہے، گرچہ پوری تاریخ بشر میں مختلف استعمالات موجود ہیں، لیکن دور حاضر میں علمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اس کے رائج معانی علوم اجتماعی کے یا علوم انسانی تجربی کے موضوعات میں سے ہے جس میں انسان کی تخلیق کا سبب ، جمعیت کی وسعت اور اس کی پراکندگی ، انسانوں کی درجہ بندی ، قوموں کا ملاپ ، ماحول و مادی خصوصیات اور اجتماعی و سماجی موضوعات،نیز روابط جیسے مسائل کو تجربہ کے ذریعہ واضح کیا گیاہے ۔

(۲) فارسی میں کلمہ علوم انسانی کبھی کلمہ Humanities اور کبھی کلمہ Social sciences کے مترادف قرار پاتا ہے ۔ کلمۂ Humanities کا فارسی معنی علوم انسانی یا . .معارف انسانی قرار دینا بہتر ہے ، اس کا ابتدائی استعمال ان انگریزی اور یونانی آثار پر ہوتا تھا جو قرون وسطی میں اہل مدرسہ کی خدا شناسی کے برخلاف انسانی پہلو رکھتا تھا اور آج ان علوم میں استعمال ہوتا ہے جو انسان کی زندگی ، تجربہ رفتار و کردار کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔یورپ اور امریکہ میں یہ کلمہ ادبیات ، لسان ، فلسفہ ، تاریخ ، ہنر ، خداشناسی اور طبیعی و اجتماعی علوم کی موسیقی کے موضوعات کی جدائی کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور روش کے اعتبار سے علمی و تجربی روش میں منحصر نہیں ہے ، معارف دینی بھی جب فکر بشر کا نتیجہ ہو گی تواسی دائرہ اختیار میں قراردی جائیگی ، اسی بنا پر دینی معارف کے تفکرات و اعتبارات، خدا کی طرف سے اور فطرت سے بالاتر ذات سے حاصل ہونے کی وجہ سے اس گروہ سے خارج ہیں ، کلمہ ٔ Social sciences کا بالکل دقیق مترادف '' علوم اجتماعی تجربی '' ہے اور کبھی انسانی علوم تجربی کا استعمال، طبیعی تجربی علوم کے مد مقابل معنی میں ہوتا ہے،اور جامعہ شناسی، نفسیات شناسی ، علوم سیاسی و اقتصادی حتی مدیریت ، تربیتی علوم اور علم حقوق کے موضوعات کوبھی شامل ہے ۔ اور کبھی اس کے حصار میں جامعہ شناسی ، اقتصاد ،علوم سیاسی اور انسان شناسی ( Anthropology ) بھی قرار پاتے ہیں اور اجتماعی نفسیات شناسی ، اجتماعی حیات شناسی اجتماعی جغرافیا اور اس کے سرحدی گوشے اور حقوق ، فلسفہ اجتماعی ، سیاسی نظریات اور طریقہ عمل کے اعتبار سے تاریخی تحقیقات ( تاریخ اجتماعی ، تاریخ اقتصادی ) اس کے مشترکہ موضوعات میں شمار ہوتا ہے ۔رجوع کریں

Kuper Adman The social Sciences Encyclopedia Rotlage and Kogan paul

و: فرہنگ اندیشہ نو ، بولک بارس و غیرہ ، ترجمہ پاشایی و نیز :

Theodorson George, A modern Dictionary of Social Sciences

۱۷

بعض لوگوں نے عرفانی سیرو سلوک اور مشاہدہ کو انسان کی معرفت کا صحیح طریقہ مانا ہے،اور وہ کوششیںجو اس روش سے انجام دی ہیں،اس کے ذریعہ ایک طرح سے انسا ن کی معرفت کو حاصل کر لیاہے جسے انسان شناسی عرفانی کہا جا سکتا ہے،دوسرے گروہ نے عقلی اور فلسفی تفکر سے انسان کے وجودی گوشوں کی تحقیق کی ہے اور فکری تلاش کے ما حصل کو انسان شناسی فلسفی کا نام دیا گیا ہے اور آخر کار ایک گروپ نے دینی تعلیمات اور نقل روایت سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کی معرفت حاصل کی اور انسان شناسی دینی کی بنیاد رکھی ہے ،اس کتاب کی آئندہ بحثوں میں جو منظور نظر ہے وہ دینی تعلیمات اور نقل احادیث کے آئینہ میں انسان کی تحقیق ہے لہٰذاانسان شناسی کے باب میں دینی تعلیمات کو

ہم آئندہ مباحث میں محور قراردیں گے اگرچہ انسان شناسی فلسفی ،تجربی اور عرفانی معلومات بھی بعض جگہوں پروضاحت اور انسان شناسی دینی میں ان کا تقابل اور ہماہنگی کے بارے میں گفتگو کی جائیگی ، لہٰذا انسان شناسی میں ہماری روش ،نقل روایت اور ایک طرح سے تعبدی یا تعلیمات وحی کی روش ہوگی ۔(۱)

____________________

(۱)طریقہ وحی سے مراد یہ ہے کہ واقعیت اور حقایق کی شناخت میں تجربی طریقۂ سے استفادہ کرنے کے بجائے عقلی یا شہودی اور وحی الٰہی کے ذریعہ معرفت حاصل کی جائے ایسی معرفت پیغمبروں کے لئے منزل شہود کی طرح ہے اور دوسرے جو دینی مقدس متون کے ذریعہ اسے حاصل کرتے ہیں وہ سندی یا نقلی طریقہ سے حقیقت کو حاصل کرنا ہے اسی بنا پر اس کو روش نقلی بھی کہا جاتا ہے ۔ البتہ کبھی طریقہ وحی سے مراد، دین کی مورد تائید طریقوں کا مجموعہ ہے جوروش تجربی ، عقلانی اور شہودی کو اس شرط پر شامل ہے کہ جب وہ واقع نما اور ان کاقطعی ہونا ثابت ہوجائے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی روش کو دینی روش کہنا چاہیئے ۔ دینی متون اور منابع کے درمیان فقط وہ اسلامی منابع مورد توجہ ہوناچاہیئے جو ہمارے نظریہ کے مطابق قابل اعتبار ہوں۔ چونکہ تمام منابع اسلامی کے اعتبار سے (خواہ وہ آیات و روایات ہوں) مسئلہ کی تحقیق و تحلیل کے لئے مزید وقت درکار ہے لہٰذا اسلام کا نظریہ بیان کرنے میں تمام مذاہب و فرقوں کے درمیان سب سے مستحکم و متقن منبع دینی یعنی قرآن مجید سے انسان شناسی کے مختلف موضوعات کی تحقیق و تحلیل میں استفادہ کریں گے اور مخصوص موارد کے علاوہ روائی منابع سے استناد نہیں کریں گے ؛ اسی بناپر مورد بحث انسان شناسی کو اسلامی انسان شناسی یا قرآنی انسان شناسی بھی کہا جاسکتا ہے ۔

۱۸

انسان شناسی خردو کلاں یا جامع و اجزاء

انسان کے بارے میں پوری گفتگو اور انجام دی گئی تحقیق کو دو عام گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کبھی انسان کی تحقیق میں کسی خاص شخص،کوئی مخصوص گروہ ،یا کسی خاص زمان و مکان کو پیش نظر رکھ کر افراد کے سلسلہ میں مفکرین نے سوال اٹھائے ہیںاوراسی کے متعلق جواب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کبھی انسان بطور کلی کسی شخص یا خاص شرائط زمان و مکان کا لحاظ کئے بغیر مفکرین و محققین کی توجہ کا مرکز قرار پاتا ہے اور انسان شناسی کے راز کشف کئے جا تے ہیں ،مثال کے طور پر انسان کے جسمانی

طول ،عرض، عمق کی بناوٹ کی کیفیت کے بارے میں ،اسی طرح اولین انسان یا جسم میں تاریخی اعتبار سے تبدیلی اور تغیر کیبارے میں گفتگو ہوتی ہے یا ابتدائی انسانوں کے فکری ،عاطفی وعملی یا مخصوص سرزمین میں قیام یا معین مرحلۂ زمان میں زندگی گزارنے والے افراد کے طریقۂ زندگی ،کلچر، آداب و رسومات کے بارے میں تحقیق و گفتگو ہو تی ہے اور کبھی عام طور پر انسان کے مجبور و مختار ،دائمی اور غیردائمی یا دوسری مخلوقات سے اس کی برتری یا عدم برتری نیز اس کے انتہائی کمال اور حقیقی سعادت و خوش بختی کے بارے گفتگو ہوتی ہے جو کسی ایک فرد یا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی۔انسان شناسی کی پہلی قسم کو انسان شناسی خرد یا ''جزنمائی'' اور انسان شناسی کی دوسری قسم کو انسان شناسی کلاں یا ''کل نمائی'' کہا جا سکتا ہے ۔

اس کتاب کے زاویہ نگاہ سے انسان شناسی کلاںیا کل مورد نظر ہے اسی بنا پر انسان کے سلسلہ میں زمان و مکان اور معین شرائط نیز افراد انسان کے کسی خاص شخص سے استثنائی موارد کے علاوہ گفتگو نہیں ہو گی،لہٰذا اس کتاب میں مورد بحث انسان شناسی کا موضوع ،انسان بعنوان عام ہے اور انسان کو بہ طور کلی اور مجموعی مسائل کے تناظر میں پیش کیا جائے گااور وہ تجربی اطلاعات و گزارشات جو کسی خاص انسان سے مختص ہیں یا کسی خاص شرائط و زمان و مکان کے افراد سے وابستہ ہیں اس موضوع بحث سے خارج ہیں۔

۱۹

انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت

انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت کے لئے دو زاویہ نگاہ سے تحقیق کیا جاسکتا ہے :

پہلے زاویہ نگاہ میں ، اس مسئلہ کی بشری تفکر کے دائرہ میں تحقیق کی جاتی ہے ۔

دوسرے زاویہ نگاہ میں ،انسان شناسی کی اہمیت کو دینی تعلیمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے ۔

الف: انسان شناسی ،بشری تفکر کے دائرے میں باہدف زندگی کی تلاش

انسان کی زندگی کا بامقصد اور بے مقصد ہونا اس کے مختلف تصورات سے پوری طرح مرتبط ہے اور ان مختلف تصورات کو انسانشناسی کی تحقیقات ہمارے لئے فراہم کرتی ہے ، مثال کے طور پر اگر انسان شناسی میں ہم یہ تصور ذہن میں بٹھا لیں کہ انسان کا کوئی معقول و مناسب ہدف نہیں ہے جس پر اپنی پوری زندگی گذارتا رہے یا اگر انسان کو ایسی مخلوق سمجھا جائے جو زبر دستی الٰہی ، تاریخی ، اجتماعی زندگی گذارنے پر مجبور ہو اور خود اپنی تقدیر نہ بنا سکے تو ایسی صورت میں انسان کی زندگی بے معنی اور کاملاً بے مقصد اور عبث ہوگی ، لیکن اگر ہم نے انسان کو باہدف (معقول و مناسب ہدف) اور صاحب اختیار تصور کیا اس طرح سے کہ اپنے اختیار سے تلاش و کوشش کے ذریعہ اس بہترین ہدف تک پہونچ سکتا ہے تو اس کی زندگی معقول و مناسب اور بامعنی وبا مقصدتصور کی جائے گی ۔(۱)

____________________

(۱)معانی زندگی کی تلاش کا مسئلہ نفسیاتی علاج ( Psychotherapy )میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور نفسیاتی علاج کے موضوعات میں سے ایک با مقصدعلاج ( logotherapy ) ہے ،بامقصد علاج کے نفسیاتی ماہرین کا عقیدہ ہے کہ تمام نفسیاتی علاج جس کا کوئی جسمانی سبب نہیں ہے زندگی کو بامقصد بنا کر علاج کیا جاسکتا ہے،بامقصد علاج کا موجد ''وکٹر فرینکل ( Emil Viktor Frankle ) معتقد ہے کہ زندگی کوایسا بامقصد بنانا چاہیئے کہ انسان اپنی زندگی گذارنے میں ایک ہدف نہائی کا تصور حاصل کرلے تاکہ اس کے زیر سایہ اس کی پوری زندگی بامقصد ہوجائے اورایسا کوئی لاجواب سوال جو اس کی زندگی کے بامقصد ہونے کو متزلزل کرے اس کے لئے باقی نہ رہے ، ایسی صورت میں جب کہ اس کی تمام نفسیاتی بیماریوں کا کوئی جسمانی سبب نہیں ہے اس طرح قابل علاج ہیں ۔ با مقصد علاج کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

الف) انسان در جستجوی معنا ، ترجمہ اکبر معارفی ۔

ب)پزشک و روح ، ترجمہ بہزاد بیرشک ۔

ج) فریاد ناشنیدہ معنا ، ترجمہ بہزاد بیرشک ، از وکٹرفرینکل۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

 یا ایک اور جگہ پر ہے کہ:وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (اور ان میں سے کوئی آتشِ دوزخ سے نہیں نکلے گا۔ سورہ بقرہ۲آیت۱۶۷)ایک اور مقام پر ہے:اُكُلُهَا دَاىِٕمٌ وَّظِلُّهَا (اور جنت کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا۔ سورئہ رعد۱۳۔ آیت۳۵)

اہلِ دوزخ کے خلود کے بارے میں ایک اہم اعتراض اٹھایاگیا ہےلہٰذا یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ دائمی عذاب عدالت کے بر خلاف ہو سکتا ہے اور چند سال کے گناہوں سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ اپنے مقام پر اس اعتراض کا جواب دیا جا چکا ہے۔(۱)

لیکن بہشت اور ہمیشہ جاری خدا کی نعمتوں کے بارے میں خداوند ِعالم کے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر کسی قسم کااعتراض و اشکال نہیں اٹھایا جاسکتا، وہ خداجس کی رحمت پورے عالم پر چھائی ہوئی ہے بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے، اس کا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنا اور بے پایاں لطف وکرم کا برتائو کرنا کسی صورت باعث ِ تعجب نہیں۔

لہٰذا اپنے ممتاز اور پیارے بندوں پر خدا کے مسلسل اور دائمی فضل وکرم کے حوالے سے کوئی عقلی رکاوٹ حائل نہیں، یہ شرع کے لحاظ سے ثابت ہے، اور آیاتِ قرآنی(جن میں زیر بحث آیت بھی شامل ہے )کی رو سے مسلمات میں سے ہے۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بعض آیت ِقرآنی میں دنیا اورآخرت کی جزاوپاداش کے مابین فرق رکھا گیا ہےمثلاً ایک جگہ ہے کہ:فَاٰتٰىهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ (تو خدا نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عطا کیاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۸)

--------------

۱:- اس بارے میں تفسیر موضوعی قرآن ” پیامِ قرآن“ کی۔ ج۶۔ ص ۵۰۰، ۵۰۱ کا مطالعہ فرمایئے۔

۱۶۱

جزا و ثواب اچھی چیزہے، خواہ وہ دنیاکی ہوخواہ آخرت کی لیکن اسکے باوجود مذکورہ آیت میں صرف آخرت کی جزا کو نیک اور احسن بتایا گیا ہے، اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی جزا میں فرق ہے۔ کیونکہ دنیا کی جزا جو کچھ بھی اور کتنی ہی کیوں نہ ہو، آخرکا ر اُسے فنااور زوال کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ نیز دوسری مشکلات جو دنیا کی زندگی کی خاصیت ہیں، اسکے ہمراہ

ہوں گی، جبکہ آخرت کی جزا، اور وہاں ملنے والا بدلا، دائمی، ہمیشہ رہنے والا اور مشکلات سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ اسلام نے اپنے کلمات میں بار ہا اس نکتے کاذکر کیا ہےایک خطبے میں فرمایا ہے:

فامّا اهلُ الطاعةِ، فاتابَهُم بجوارهِ، وخلّدَ همْ فی داره، حیثُ لا یظعنُ النزال، ولا تتغیّرُ بهمُ الحالُ، ولا تنوبُهُم الافزاعُ، ولا تنالُهُم الا سقام، ولا تعرِضُ لهم الاخطار، ولا تشخصهم الاسفار

جوفرما نبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اسکے جو ارِرحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہرادے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اورنہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اورنہ انہیںسفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتے ہیں نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۰۷

وضاحت کے طورپر عرض ہے کہ خلود اور جاوید انگی کا مسئلہ کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، جو انسانوں کے لیے ایک عظیم انتباہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی جگہ ایک کا عدد تحریرکریں اوراسکے پہلو میں بے انتہا دور تک صفر لگاتے چلے جائیں اور ان اَن گنت اعداد کے زریعے خلود کی انتہامعلوم کرنا چاہیں، تب بھی معلوم نہ کر سکیںگے۔

لہٰذا وہ مجرمین جن سے خدا نے دائمی آتشِ جہنم کا وعدہ کیا ہے انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں رہنا ہےاور ان کے مقابل ممتاز پاکیزہ بندگانِ خدا، جیسے ” عباد الرحمٰن“ جنہیں خدا عظیم دائمی جزا سے نوازے گا، انہیں یہ بات ذہن سے نکالنی چاہیے کہ انہیں ایسی دائمی جزا سے نوازا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔

۱۶۲

لہٰذا کیا یہ بات مناسب ہوگی کہ انسان دنیا کی چار روزہ زندگی سے دل لگا کر دائمی عذاب کا مستحق ہوجائے اور دائمی جزا وپاداش سے محروم رہے؟

کیا اس صورت میں ” نقد کو پکڑو، ادھار کو چھوڑو“ والی بات کوئی اہمیت رکھتی ہے جب انسان سستی چیز کو اس کے نقد ہونے کی وجہ سے منتخب کرکے اس کے مقابل بعد میں ملنے والے کروڑوں ٹن سونے کو چھوڑ دے؟

ایک دانشور کے بقول، بالفرضِ محال اگر آخرت کے امور احتمالی ہوں، اور دنیا کے امور یقینی، تب بھی عقلمند انسان احتمال کی کروڑوں صدیوں کو یقین کے چند سال پر فدا نہیں کرے گاجبکہ ہم مسلمان معاد اور آخرت پر عقیدہ رکھتے ہیںلہٰذا ہمیں فنا ہوجانے والے اور چند روزہ نقد کے مقابل ہمیشہ اور جاویداں ادھار کا انتخاب کرنا چاہیےاسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھا:

والعَجبُ کلّ العَجب للمصدّقِ بدارِا لخلُود، وهوَ یعملُ لدارِ الغُرور

انتہائی تعجب ہے ایسے شخص پر جو آخرت کے ہمیشہ رہنے والے ٹھکانے کی تصدیق کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس فریب اور فانی دنیا سے وابستگی اختیار کرتا ہےبحار الانوارج۷۸۔ ص۱۸۴

نیز فرمایا:

فَلا تعدّن عیشاً منصرفاً، مالَکَ منهُ الاّ لذَّةُ تزدلف بکَ الیٰ حمامِکَ

فانی اور ناپائیدار زندگی کو زندگی نہ سمجھوتم نے کیوں دنیائے فانی سے (جو مجازی ہے اور) جس میں معمولی سی لذت کے سوا کچھ نہیں دل لگایا ہے، جبکہ یہ دنیا تمہیں موت سے نزدیک کررہی ہےبحار الانوارج۷۸ص۱۷۹

یعنی اس سو سالہ دنیا کی لذت وعیش ونشاط میں غرق ہونا اس وقت کیا فائدہ دے گا جبکہ اس کے نتیجے میں خدا کے دائمی عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گاکیا اس طرح کے نقد کی لذت اس قدر اہم ہے کہ اس کی خاطر آخرت کی ہمیشگی اور دائمی لذت کو قربان کردیا جائے؟

۱۶۳

تجزیہ اور تحلیل

بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ” صبر“ کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اور ہر قسم کے دباؤ اور سختی کو برداشت کرنا نہیں ہےاس قسم کے معنی سے عاجزی اور تظلم (یعنی ظلم کو قبول کرنا) جھلکتا ہے، جس سے اسلام سختی کے ساتھ روکتا ہےبلکہ صبر کے اصل معنی امور کی انجام دہی کے لیے مضبوط عزم وارادے اور مسلسل اور لازوال ثابت قدمی کے ساتھ کام کو جاری رکھنا ہے۔

” مجمع بحرین“ نامی لغت میں صبر کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:الصَّبْرُ کَفُّ النَّفس عَنْ هَواها (صبر یعنی نفس کا نفسانی خواہشات سے پرہیز کرنا، یعنی نفسِ امارہ کے طاغوت کے خلاف جنگ کرنااور ” المنجد“ نامی لغت میں ہے کہ:صَبراً عَلَی الامْر: جَرءَ وشَجَعَ وتَجلّدَ (کسی چیز پر صبر کے معنی ہیں اس کے بارے میں جرات، شجاعت، ثابت قدمی اور شکست کو قبول نہ کرنا)

یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے آیات ِقرآنی میں صبرو استقامت کو مجاہدین راہِ خدا کے لیے ایک بڑی شرط قرار دیا ہے:

اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اگر اُن میں سے بیس افراد صابر ہوئے، تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے اور اگر سو افراد ہوئے، تو وہ ایک ہزار افراد پر غلبہ حاصل کرلیں گےسورئہ انفال۸آیت۶۵

یعنی ایک صابر انسان دشمن کے دس افراد کو زیر کرسکتا ہےاگر صبر کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہوں تو ایسا صبر کبھی انسان کو یہ قوت فراہم نہیں کرتا کہ وہ دس افراد کے مقابل کھڑا ہوکر انہیں شکست دیدے۔

۱۶۴

اسی طرح قرآنِ کریم میں صبر کو ضعف وکمزوری کے مقابل قرار دیا گیا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ صبر کے معنی استقامت اور پیہم جدوجہد ہے، جو ضعف وسستی کی ضد ہےلہٰذا خداوند ِعالم فرماتا ہے:

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ مَعَه رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا وَاللهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ

اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ہم رکاب ہوکر مردانِ الٰہی کے جمع کثیر نے اس انداز سے جنگ کی ہے کہ یہ لوگ راہِ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاہرہ کیا اور اﷲ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے والوں ہی کو پسند کرتا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۶

قرآن کریم میں دو سو سے زائد مرتبہ مسئلہ صبر کو مختلف الفاظ اور بعض اوقات لفظ ” استقامت“ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے(۱) اور اس کے نتائج کا ذکر کیاگیا ہےاس نکتے سے صبر واستقامت کی انتہائی بلند اہمیت کا اظہار ہوتا ہےان آیات کے ذریعے مجموعی طور پر یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ صبر واستقامت کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں اس کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی  ہے کہ خداوند ِعالم فرماتا ہے:اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (بس صبر کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں بے حساب اجر دیا جاتا ہےسورئہ زمر۳۹آیت۱۰)

--------------

1:-معجم المفہرس لالفظ القرآن الکریم، لفظ ” صبر“ اور ’قوم“ کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے۔

۱۶۵

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الصَّبْرُ خَیْرُ مَرْ کَبٍ مٰا رَزَقَ اللّٰهُ عبْداً خَیْراً لَهُ وَلٰا أَ وْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ

صبر بہترین سواری ہےخداوند ِعالم نے اپنے کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر روزی عطا نہیں کی ہےبحار الانوارج۸۲ص۱۳۹

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو کے ضمن میں فرمایا ہے:

عَلَیْکُمْ بِالصَّبْرِ، فانَّ الصَّبْرَ مِنَ الایمانِ کَالرّاسِ مِن الْجَسَدِ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لو، کیونکہ صبر کو ایمان سے ویسی ہی نسبت حاصل ہے جیسی نسبت سر کو بدن سے ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۸۲

ان عبارتوں سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی تعمیر، تکمیل اور اسے پاک وپاکیزہ بنانے میں صبر واستقامت انتہائی اہم کردار کا حامل ہےاور اسکے بغیر انسان ہر گز کمال حاصل نہیں کرسکتا اور آلودگیوں سے نجات نہیں پاسکتامولانا جلال الدین رومی کے بقول:

صد ہزار کیمیا حق آفرید

کمیائی ہمچو صبر آدم نہ دید

(خدا نے لاکھوں کیمیا پیدا کیے ہیں، لیکن صبر کی طرح کا کوئی کیمیا انسان نے نہیں دیکھا)

۱۶۶

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق

متعدد روایات میں ہے، اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:

صَبْرٌ عندَ المُصیبَةِ، وَصَبْرٌ الطّاعةِ، وَصَبْرٌ عَلَی الْمَعصیةِ

صبر کی تین قسمیں ہیں: مصیبت کے موقع پر صبر، اطاعت کی راہ میں صبر اور گناہ کے مقابل صبر

یہی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے، اور اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ:

گناہ کے مقابل صبر، ان دو پہلی قسموں کی نسبت زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے(اصولِ کافی ج۲ص۱۹۱، میزان الحکم ۃج۵ص۲۶۷)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے کہ:

الصَّبْرُ صَبْرانِ، صَبْرٌ عِنْدَالْمُصیبَةِ، حَسَنٌ جَمیلٌ، وأَحْسنُ مِنْ ذلکَ الصَّبرُ عِنْدَ ماحَرَّمَ اللّٰهُ عَزَّوجلّ عَلَیکَ

صبر دو طرح کا ہے: مصائب ومشکلات کے سامنے صبر، کہ یہ صبر خوبصورت اور عمدہ ہے اور اس صبر سے زیادہ عمدہ ان امور کے مقابل صبر ہے جنہیں خداوند ِعالم نے حرام قرار دیا ہےاصولِ کافی ج۲ص۹۰

ان دو احادیث کی رو سے صبر واستقامت کی وہی تین جڑیں اور بنیادیں ہیں۔

جب ہم خدا کے نزدیک امتیازی مقام رکھنے والے بندوں کی ان بارہ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان پر گہرا غور وفکر کرتے ہیں، تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خصوصیت صبر واستقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور ان بارہ خصوصیات کے حصول کے لیے صبرو استقامت کی مدد لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، ان میں سے چار خصوصیات منفی پہلو کی حامل ہیں

۱۶۷

 اور ان کے خلاف جنگ کی ضرورت ہوتی ہےیہ خصوصیات صرف گناہ کے مقابل صبر کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہیںجبکہ چھے خصوصیات مثبت پہلو رکھتی ہیں، جو راہِ اطاعت میں صبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ تمام پہلوؤں میں، بالخصوص گناہ سے مقابلے اور اطاعت کی راہ میں صبر کو اپنی روح ورواں میں جگہ دیں تاکہ یہ بارہ خصوصیات حاصل کرسکیں۔

جی ہاں، صبر واستقامت بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے اور اسکے بغیر انسان کسی صورت اعلیٰ انسانی اقدار تک نہیں پہنچ سکتااسی وجہ سے (جیساکہ ہم نے کہا) قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کے ذریعے دو سو سے زائد مرتبہ مسلمانوں کو صبر واستقامت کی دعوت دی ہے اور انہیں صبر کی عظیم طاقت سے مدد لینے کی تلقین کی ہےقرآنِ کریم ایک مقام پر واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ:

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ

صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگوبیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےسورئہ بقرہ۲آیت۱۵۳

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار

صبر اور اس کے بہترین اثرات کی زیادہ سے زیادہ اہمیت جاننے کے لیے اور اس بات سے واقف ہونے کے لیے فضائل سے آراستہ ہونے، رذائل سے پیراستہ ہونے اور زندگی کے مختلف مسائل میں سدھار اور سنوار پیدا کرنے کے سلسلے میں صبر ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، آئیے آپ کو پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کچھ فرامین کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الصّبرُ کَنْزٌ مِنْ کُنوزِ الجنّةِ

صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہےالمحجۃ البیضاج۷ص۱۰۷

۱۶۸

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

الصَّبرُ مَطیَّةٌ لٰا تَکْبو

صبر ایسی سواری ہے جو کسی صورت زمین پر نہیں گرتی بحار الانوارج۶۸ص۹۶

حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

الصّبرُ عَوْنٌ عَلٰی کُلّ المْرً

صبر تمام امور میں انسان کا یاورومددگار ہوتا ہےغرر الحکم

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

عَلیکُم بالصَّبْرِ فانَّهُ لا دینَ لِمَنْ لٰا صَبْرَلَهُ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لوایسا شخص جس میں صبر واستقامت نہ ہو، اس کا دین نہیں بحار الانوارج۷۱ص۹۲

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

کَمْ مِنْ صَبْرِ ساعةٍ قَدْ اوْرَ ثَتْ فَرَحاً طَویلاً

بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ساعت کا صبر طویل خوشیوں کا باعث بن جاتا ہےبحار الانوارج۷۱ص۹۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے پرہیز گاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

صَبَرواایّاماً قَصیرَةً اعْققَبَهُمْ راحَةً طَویلةً

ان لوگوں نے دنیا کے چند دنوں میں صبر کیا اور اسکے نتیجے میں آخرت میں طولانی آسائشیں حاصل کیں نہج البلاغہ خطبہ۱۹۳

۱۶۹

امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے:

عَلامةُ الصّابرِ فی ثلاثٍ: اوّلُها ان لا یَکسِلَ، والثانیةُ انْ لا یَضْجِرَ، والثّالَثَةُ انْ لا یشْکُر مِنْ رَبّهِ عَزَّوجَلّ

صبر کرنے والوں کی تین نشانیاں ہیں: (۱) اپنے آپ سے بے حوصلگی کو دور کرنا(۲) بے قراری اور دل تنگی سے دوری(۳) خداوند ِعالم سے گلہ نہ کرنا بحار الانوارج۷۱ص۸۶

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے کہ:

مِفتاحُ الظَّفرِ لُزُومُ الصَّبْر

صبر وشکیبائی کامیابی کی کنجی ہے غرر الحکم  حدیث ۹۸۰۹

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

قِلَّةُ الصَّبْرِ فَضیحَةٌ

صبر کی کمی رسوائی کا باعث بنتی ہےبحار الانوارج۷۸ص۶۶۹

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: جب انسان کو قبر میں رکھتے ہیں تو اس کے دائیں طرف نماز، اسکے بائیں طرف زکات اور اسکے سر کی جانب نیکیاں کھڑی ہوجاتی ہیں اور ایک طرف ان سے ذرا دور صبر کھڑا ہوجاتا ہےاس موقع پر جب سوال کرنے والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو صبر (جو نورانی صورت لیے ہوتا ہے) نماز، زکات اور نیکیوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ:دُونَکُمْ صَاحبَکُمْ فانْ عَجَزتُم عَنْهُ فَاَنادوُنَهُ (اپنے صاحب کی طرف سے ہوشیار رہو، اگر اسے عذاب سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہو، تو میں اسکی حفاظت کے لیے حاضر ہوں(اصولِ کافی  ج۲ص۹۰)

۱۷۰

یہ احادیث انسان کی مادّی، معنوی، دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں میں صبرو استقامت کے کردار کی نشاندہی کرتی ہیں اور زبانِ قال وحال سے کہتی ہیں کہ:

صبر و ظفر ہر دو دوستانِ قدیمیند

بر اثر صبر نو بتِ ظفر آید

(صبر وظفر دونوں قدیمی دوست ہیں، صبر کے اثر سے ظفر کی نوبت آتی ہے)۔

۱۷۱

فہرست

عرض ناشر 2

تواضع و انکسا ری. 3

پہلی خصوصیت: تواضع و انکساری. 4

خدا کے مقابل تواضع و انکساری. 5

لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا 8

رسولِ کریم ؐکی انکساری کی ایک جھلک. 10

حضرت علیؑ کی تواضع اور انکساری کی ایک جھلک. 12

مثبت اور منفی انکساری. 14

حلم اور ضبط ِنفس. 16

قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم 18

۱۷۲

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت. 22

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت. 24

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات. 30

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت. 32

عبادت اور اس کا فلسفہ 33

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت. 39

خوف وخشیت ِالٰہی 44

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب. 47

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت. 50

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی. 52

انفاق اور خرچ میں اعتدال. 56

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت. 57

۱۷۳

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا 62

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز 64

ہر طرح کے شرک سے پرہیز 67

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں. 69

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو 74

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی 78

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب. 80

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں. 82

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ 88

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ 91

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب. 94

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے 97

۱۷۴

بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف.. 102

گناہ کی محفلوں میں شرکت سے پرہیز 103

جھوٹی گواہی سے پرہیز 105

بیہودہ محفلوں میں شرکت سے پرہیز 109

نتیجہ اور خلاصہ 111

فضول کاموں اور وقت کے زیاں کی مخالفت. 113

قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب. 114

وقت کی پہچان اور اسکی قدر 118

وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج 121

قرآنِ کریم سے درست استفادہ 126

قرآن مجید میں غوروفکر اور اس پر عمل حضرت علی ؑکی نظر میں. 130

قرآن کریم سے صحیح استفادے کی چند مثالیں. 133

۱۷۵

دعا اور اُس کے مضامین پر توجہ 139

اسلام میں دعا کی اہمیت. 140

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق. 142

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب. 145

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔ 149

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں. 150

اچھی بیوی اور اس کے اثرات. 150

صالح اولاد 152

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا 154

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا 155

جزاو پاداش. 156

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب. 158

۱۷۶

خلودوجاویدانگی کی اہمیت. 160

تجزیہ اور تحلیل. 164

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق. 167

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار 168

۱۷۷

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307