انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145869 / ڈاؤنلوڈ: 4856
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

تیسرے گروہ کی روایات کے سلسلہ میں یعنی وہ روایات جو فطرت انسان کو بیان کرتی ہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ روایات تقاضوں کو بیان کررہی ہیں علت تامہ کو بیان نہیں کررہی ہیں یعنی جو لوگ پیدا ہو چکے ہیں ان میں سے بعض کی فطرت گناہ اور ویرانی کی طرف رغبت کا تقاضا کرتی ہے اور بعض افراد کی فطرت اچھائی کی طرف رغبت رکھتی ہے جیسے وہ نوزاد جو زنا سے متولد ہواہو اس بچہ کے مقابلے میں جو صالح باپ سے متولد ہوا ہے گناہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے لیکن کسی میں بھی جبر نہیں ہے.

دوسرا جواب : یہ ہے کہ اچھے یا برے ہونے میں فطرت کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم پہلے سے جانتا ہے کہ کون اپنے اختیار سے صحیح راہ اور کون بری راہ انتخاب کرے گا اسی لئے پہلے گروہ کو اچھی طینت اور دوسرے کو بری طینت سے خلق کیا ہے۔

اس کی مثال ایک باغبان کی طرح ہے جو تمام پھولوں کو اسکی قیمت اور رشد وبالیدگی کے مطابق ایک مناسب گلدان میں قرار دیتا ہے .گلدان پھولوں کے اچھے یا برے ہونے میں تاثیر نہیں رکھتا ہے اسی طرح طینت بھی فقط ایک ظرف ہے جو اس روح کیمطابقہے جسے اپنے اختیار سے اچھا یا براہوناہے طینت وہ ظرف ہے جواپنے مظروف کے اچھے یابرے ہونے میں اثر انداز نہیں ہوتا دوسرا جواب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے لئے فلسفی مقدمات ضروری ہیں لہٰذا اس سے صرف نظر کیا جارہا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)''ضمائم ''کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۱

ب) اجتماعی اور تاریخی جبر

اجتماعی اور تاریخی جبر کا عقیدہ بعض فلاسفہ اور جامعہ شناسی کے ان گروہ کے درمیان شہرت رکھتا ہے جو جامعہ اور تاریخ کی اصالت پرزور دیتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق کسی فرد کی معاشرے اور تاریخ سے الگ کوئی حقیقت نہیں ہے .معاشرہ اور تاریخ ایک با عفت وجود کی طرح اپنے تمام افراد کی شخصیت کو مرتب کرتے ہیں لوگوں کا تمام فکری (احساس )اور افعالی شعور، تاریخ اور معاشرے کے تقاضہ کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان اپنی شخصیت کوبنانے میں ہر طرح کے انتخاب اور اختیار سے معذور ہے نمونہ کے طور پرہگل مارکس ، اور ڈورکھیم کے نظریوں کو ذکر کیا جا سکتا ہے ہگل جو تاریخ کے لئے ایک واقعی حقیقت کا قائل ہے معتقد تھا کہ تاریخ صرف تاریخی حوادث یاسادہ سلسلۂ عبرت کے لئے ہے کہ جس کی نظری اور فکری تجزیہ وتحلیل نہیں ہوتی ،اس کی نظر میں گوہر تاریخ ،عقل ہے(اس کا نظریہ اسی مفہوم کے اعتبار سے ہے) اور تاریخی ہر حادثہ اس کے مطابق انجام پاتا ہے، تاریخ ساز افراد ، مطلق تاریخ کی روح کے متحقق ہونے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور بغیر اس کے کہ خود آگاہ ہوں اس راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔(۱) مارکس کا نظریہ تھا کہ انسان کا ہر فرد تاریخ اور معاشرہ کا نتیجہ ہے. تمام انسانی افعال تہذیت و ثقافت ، مذہب،ہنر،اجتماعی افراد کے علاوہ تمام چیزیں معاشرہ پر پھیلے ہوے اقتصادی روابط پر مبنی ہیں.(۲) اس لئے انسان کے ہر فرد کی آمادگی کا تنہا حاکم اس کے معاشرے پرحاکم اقتصادی روابط کو سمجھنا چاہیئے اس لئے کہ اقتصادی روابط زمانہ کے دامن میں متحول ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ متحول ہوتا ہے اور معاشرے کے معقول ہونے سے انسانوں کی شخصیت ،حقیقت ،تہذیب و ثقافت اور اس کے اعتبارات بھی متحول ہوجاتے ہیں. ڈورکھیم اس جبر کی روشنی میں ''نظریہ آئیڈیا'' کی طرف مائل ہوا ہے کہ انسان ایک فردی واجتماعی کردار رکھتا ہے اوراس کا اجتماعی نقش ارادوں ،خواہشوں ، احساسات اور تمام افراد کے عواطف کے ملنے اور ان کے ظاہر ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور یہی روح معاشرہ ہے۔

____________________

(۱) بعض فلاسفۂ تاریخ بھی معمولاًتاریخ کے لئے ایسے اعتبارات ، قوانین اور مراحل مانتے ہیں جو غیر قابل تغیر ہیں اور انسانوں کے ارادے ، خواہشات ،جستجو اور معاشرے انہیں شرائط و حدود میں مرتب ہوتے ہیں

(۲)البتہ مارکس کا ''اجتماعی جبر '' فیور بیچ اور ہگل کے تاریخی جبر کی آغوش سے وجود میں آیا ہے ۔

۲۰۲

اور یہ روح اجتماعی بہت قوی ہے جو افراد کے وجودی ارکان پرمسلط ہے شخصی اور فردی ارادہ اس کے مقابلے میں استادگی کی توانائی نہیں رکھتا ہے. وہ افراد جو اس روح اجتماعی کے تقاضوں کے زیر اثر ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیز یں سماج ا ورمعاشرہ نے انسان کو دیا ہے اگر وہ اس کو واپس کردے تو حیوان سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔

اجتماعی اور تاریخی جبر کی تجزیہ وتحلیل

پہلی بات: سماج اور تاریخ کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ یہ مرکب اعتباری ہیں جو افراد کے اجتماعی اور زمان ومکان کے دامن میں انکے روابط سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو وجود رکھتی ہیں وہ ہرفرد کے روابط اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں عمل و رد عمل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔

دوسری بات: ہم اجتماعی و تاریخی عوامل،اقتصادی روابط جیسے ، اعتبارات ، آداب و رسوم اور تمام اجتماعی و تاریخی عناصر کی قدرت کے منکر نہیں ہیں اور ہمیں افراد کی شخصیت سازی کی ترکیبات میں ان کے نقش و کردار سے غافل بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن اجتماعی اور تاریخی عوامل میں سے کوئی بھی انسان کے اختیار کو سلب کرنے والے نہیں ہیںاگر چہ معاشرہ زمان ومکان کی آغوش میں اپنے مخصوص تقاضے رکھتا ہے اور انسان سے مخصوص اعمال و رفتار کا خواہاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس سے اختیار سلب ہوگیا ہے جبکہ انسان ان تمام عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتا ہے حتی معاشرہ کی سر نوشت میں اثر انداز ہو سکتا ہے. جیسا کہ اس طرح کے اثرات کے نمونوں کو معاشروں کی تاریخ میں بہت زیادہ دریافت کیا جا سکتا ہے

۲۰۳

ج)فطری جبر

فلسفۂ مادی اور مادہ پرستی کے ہمراہ ارثی صفات کے سلسلہ میں علمی ارتقاء انسان کی جبری زندگی کا عقیدہ پیش کرتاہے .جو لوگ انسان کے اندر معنوی جوہر کے وجود کے منکر ہیں اور اس کو صرف اپنی تمام ترقدرتوں سے مزین ایک پیکر اور جسم سے تعبیر کرتے ہیں .اور اس کی بہت سی توانائیاں انسانی خصوصیات کے ارثی و وراثتی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور انسان کے تمام نفسیاتی و ذہنی حالات کی مادی توجیہ کرتے ہیں اور لذت ،شوق ،علم،احساس اور ارادہ کو مغز کے اندر سلسلۂ اعصاب اور الکٹرانک حرکتوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں لہٰذا طبیعی طور پر عقیدہ جبر کی طرف گامزن ہیں(۱) ایسی صورت میں انسان کو اخلاقاً اس کے اعمال کے مقابلے میں ذمہ دار نہیں سمجھا جاسکتا ہے .کیونکہ ایسی حالت میں جزا و سزا اپنے معنی و مفہوم کھو دیں گے اس لئے کہ ان سوالوں کے مقابلہ میں کہ کیوں فلاں شخص مرتکب جرم ہوا ہے ؟ تو جواب دینا چاہئے کہ اس کے ذہن میں مخصوص الکٹرانک اشیا کا تحقق اس کے تحریک کا باعث ہوا ہے اور یہ حادثہ وجود میں آیا ہے اور اگر سوال یہ ہو کہ کیوں یہ مخصوص اشیاء اس کے ذہن اور اعصاب میں حاصل ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ فلاں حادثہ بھی فلاں فطری اور الکٹرانک حوادث کی وجہ سے تھا اس تحلیل کی روشنی میں مغز کے مادی حوادث انسان کے خارجی افعال و حوادث کے اسباب ہیں مغز کے مادی حوادث میں سے کوئی بھی ارادی ، اختیاری افعال اور انسانوں میں تبدیلی وغیرہ اُن ارثی صفات اور فطری بناوٹ میں تبدیلی کی بنا پر ہے جن کا ان کی ترکیبات میں کوئی کردار نہیں ہے. یعنی لوگوں نے ترقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ : بیرونی فطرت کے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان سے مخصوص افعال سرزد ہوں اور یہ عوامل جدا ہونے والے نہیں ہیں وہ افعال جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں نہ مخصوص نفسیاتی مقدمات (فہم وخواہشات ) ہیں جو فطری اور بیرونی طبیعی حوادث سے بے ربط نہیں ہیں مثال کے طور پر ہمارا دیکھنا ،اگر چہ یہ فعل ہے جو نفس انجام دیتا ہے. لیکن نفس کے اختیار میں نہیں ہے. عالم خارج میں فطری بصارت کی شرطوں کا متحقق ہونا موجب بصارت ہوتا ہے اور یہ بصارت ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے اختیاری فعل میں موثر ہے۔

____________________

(۱) ا سکینر ،کتاب ''فراسوی آزادی و منزلت''میں کہتا ہے کہ : جس طرح بے جان اشیاء کوجاندار سمجھنا ( بے جان چیزوں سے روح کو نسبت دینا ) غلط ہے اسی طرح لوگوں کو انسان سمجھنا اور ان کے بارے میں فکر کرنا اور صاحب ارادہ سمجھنا بھی غلط ہے،ملاحظہ ہو: اسٹیونسن، لسلی؛ ہفت نظریہ دربارۂ طبیعت انسان ؛ ص ۱۶۳۔

۲۰۴

اس تاثیر کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب تک کسی چیز کو نہیں دیکھے گا اس کی طرف احساس تمایل بھی نہیں کرے گا لیکن جب اس کو دیکھتا ہے تو اس کا ارادہ مورد نظر فعل کے انجام سے مربوط ہوجاتا ہے۔(۱) دیکھنا ،ایک غیر اختیاری شیٔ ہے اور طبیعی قوانین کے تابع ہے. پس جو بھی چیز اس پر مرتب ہوگی اسی قوانین کیتابع ہوگی۔

انسان بھی اگر چہ خواہشات سے وجود میں آتا ہے جو ہمارے اندر موجود ہے لیکن فطرت سے بے ربط نہیں ہے. نفسیاتی علوم کے ماہرین نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عوامل طبیعی خصوصاً انسان میں خواہشات کے بر انگیختہ کرنے کا موجب ہوتا ہے ہم لوگوںنے بھی تھوڑا بہت آزمایا ہے اور معروف بھی ہے کہ زعفران خوشی دلاتا ہے اور مسور کی دال قلب میں نرمی پیدا کرتی ہے قانون وراثت کی بنیاد پر انسان اپنے اباء و اجداد کی بہت سی خصوصیات کا وارث ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.

یہ تمام چیزیں طبیعی وفطری عوامل کے مطابق انسان کے مجبور ہونے کی دلیل ہے اور ان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ارادہ ،فطری اور طبیعی عوامل کے ذریعہ حاصل ہوتاہے گر چہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(۱) بابا طاہر کہتے ہیں :

ز دست دیدہ و دل ہر دو فریاد

کہ ہرچہ دیدہ بیند دل کند یاد

بسازم خنجری نیشش ز پولاد

زنم بر دیدہ ، تا دل گردد آزاد

میں چشم و دل ، دونوں سے رنجیدہ ہوں کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے اسے دل محفوظ کرلیتا ہے ۔میں ایسا خنجر بنانا چاہتا ہوں جس کی نوک فولاد کی ہواور اسی سے آنکھ پھوڑ دوں گا تاکہ دل آزاد ہوجائے ۔

۲۰۵

اور اس کا عکس بھی صادق ہے کہ کہا گیا ہے :

از دل برود ، ہر آن کہ از دیدہ برفت

جو کچھ آنکھ سے پوشدہ ہو جاتا ہے دل سے بھی رخصت ہو جاتا ہے ۔

بغیر کسی مقدمہ کے ارادہ کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱)قابل ذکربات یہ ہے کہ حیاتی اور مادی جبر میں انسان کے معنوی جوہر اور روحانی حالات کی نفی پر تاکید ہوئی ہے اور انسان کو ہمیشہ ایک مادی مخلوق سمجھا جاتا ہے لیکن فطری شبہہ کا جبر میں کوئی اصرار پایا نہیں جاتا ہے بلکہ فطری اسباب و علل اور ان پر حاکم قوانین کے مقابلہ میں فقط انسان کے تسلیم ہونے کی تاکید ہوئی ہے یعنی اگر انسان میں روح اور حالات نفسانی ہیں تو یہ حالات فطری علتوں کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور اس میں انسان کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے

۲۰۶

فطری جبرکی تجزیہ و تحلیل

اس طرح کے جبر کا عقیدہ انسان کے کردار وشخصیت سازی اور طبیعی ،فکری اورموروثی عوامل کے کردار میں افراط ومبالغہ سے کام لیناہے انسانوں کی متفاوت ومتفرق زندگی اور وراثت کے عنصر کا کسی طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کے کردار وشخصیت سازی کے سلسلہ میں تمام موثرعوامل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ارثی علت میں منحصر کرناکسی طرح صحیح نہیں ہے. انسان کو اس زاویہ سے نگاہ کرنے میں بنیادی اشکال اس کے معنوی اور روحانی جہت سے چشم پوشی کرناہے. جبکہ گذشتہ فصلوں میں قرآنی آیات اور فلسفی براہیں سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے انسانوں کے فہم واحساسات کے مرکز ، معنوی اور غیر مادی جوہر کے وجود کو ثابت کیا ہے. نفس مجرد کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد اس قسم کے جبر پر اعتقاد کے لئے کوئی مقام نہیں ہے اس لئے کہ ارادہ کا آزاد ہونا انسان کے روح مجرد کی قابلیتوں میں سے ایک ہے اور انسان کے آزاد ارادے کو مورد نظر قرار دیتے ہوئے ،اگر چہ مادی ترکیبات کے فعل و انفعالات اور فطری عوامل کا کردار قابل قبول ہے لیکن ہم اس نکتہ کی تاکید کررہے ہیں کہ ان امور کا فعال ہونا اختیار انسان کے سلب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے.مادی ترکیبات کے فعل وانفعالات کے حصول اور بعض خواہشات کے بر انگیختہ ہونے میں خارجی عوامل اور ان کی تاثیروں کے باوجود کیا ہم ان عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتے ہیں ؟اس سلسلہ میں اپنی اور دوسروں کی روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ نمونوں سے روبرو ہوتے رہے ہیں۔

قانون وراثت کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے کہ جو فرزند اپنے آباء واجداد سے بعض خصوصیات کا وارث ہواہے وہ کسی بھی انتخاب کی قدرت نہیں رکھتا ہے. اگرمذکورہ امور کو بعض انسانی اعمال کا نتیجہ فرض کرلیا جائے تو یہ جزء العلة ہوں گے لیکن آخر کار ، انسان بھی اختیار استعمال کرسکتا ہے اور تمام ان عوامل کے تقاضوں کے بر خلاف دوسرے طریقہ کار کے انتخاب کی بنا پر انسان کے بارے میں مادی فعل وانفعال اور وراثت کی صحیح پیش بینی ،فطری عوامل کے اعتبار سے نہیں کی جا سکتی ہے۔

۲۰۷

خلاصہ فصل

۱۔ گذشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کرامت اکتسابی ، انسان کے اختیار و ارادہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے. ہم اس فصل میں مسئلہ اختیار اور اس کے حدود کے اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کریںگے ۔۲۔ انسان ایسی مخلوق ہے جو آزمائش ،انتخاب اور قصد وارادے سے اپنے افعال کو انجام دیتا ہے عقلی ونقلی دلیلیں انسان کے اندرپائے جانے والے عنصر (اختیار) کی تائید کرتی ہیں. لیکن اس کے باوجودکچھ شبہات بیان کئے گئے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے.۳۔مسلمانوں کے درمیان ایک گروہ (مجبرہ)ہے جو بعض آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کو ارادۂ الہی کے زیر اثر، فاقداختیار سمجھتا ہے۔ وہ آیات وروایات جو خدا کے علم مطلق اور وہ آیات وروایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ کوئی بھی چیز خدا کے اذن وارادے سے خارج نہیں ہے اور وہ دلیلیں جو بیان کرتی ہیں کہ انسانوں کا مقدر پہلے سے ہی آراستہ ہے. اس گروہ (مجبرہ) نے ایسی ہی دلیلوں سے استناد کیا ہے۔۴۔ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ تمام مورد نظر دلیلیں عقیدہ ٔ تفویض کی نفی کررہی ہیں اور اس نکتہ کو ثابت کررہی ہیں کہ خداوندعالم ابتداء خلقت سے تاابددنیاکاعالم و نگراں نیزمحافظ ہونے کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کرتا ہے اور یہ کہ تمام چیزیں اس کے قضاء وقدر سے مربوط ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر واقعہ کے متحقق ہونے کے لئے کافی ووافی شرائط کا ہونا ضروری ہے منجملہ شرائط ، انتخاب کے بعد قصد کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام اشیاء خداوند عالم کے ارادے اور اذن کے حدود میں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲکاارادہ انسان کے ارادے کے مقابلہ میں ہے.بلکہ ہمارا ارادہ بھی ارادۂ پروردگار کے ہمراہ اور طول میں موثر ہے۔۵۔ دوسرا شبہ اجتماعی وتاریخی جبر کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسان قدرت مقاومت نہ رکھنے کے باوجود تاریخی واجتماعی عوامل اور تقاضوں سے متاثر ہے''. ہگل ،ڈورکھیم اور مارکس'' فرد واجتماع کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ایسا ہی نظریہ رکھتے تھے.علم جنٹک کی پیشرفت کے ساتھ یہ شبہ ایجاد ہوتا ہے کہ انسان کا انتخاب در اصل دماغ کے شیمیائی فعل و انفعالات کا نتیجہ ہے اور انسان کا ایک دوسرے سے متفاوت ہونا اس کے جسمی اور موروثی تفاوت کی وجہ سے ہے ، لہٰذا انسان اپنی جسمی اور طبیعی خصلتوں سے مغلوب و مقہور ہے ۔

۶۔ ان دو شبہوں کے جواب میں مذکورہ عوامل کے وجود کا منکر نہیں ہونا چاہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل میں سیاسی ،اقتصادی اور اجتماعی روابط بھی بہت زیادہ اثر انداز ہیں اور انسانوں کی زندگی کے تفاوت میں عنصر وراثت بھی دخیل ہے. لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والوں نے ان عوامل کی تاثیر کے مقدار میں مبالغہ کیا ہے اور درونی و معنوی عوامل کی تاثیر کو بھول بیٹھے ہیں. انسان کا نفس ایک غیر مادی عنصر ہے اورارادہ اس کی قوتوں میں سے ہے جو مادی اور ضمنی محدودیتوں کے باوجود بھی اسی طرح فعالیت اور مقاومت انجام دے رہا ہے.

۲۰۸

تمرین

۱۔انسان کے فردی اور اجتماعی حالات وکردار کے چند نمونے جو اس کے مختار ہونے کی علامت ہیں ذکر کریں؟

۲۔مفہوم اختیار کے استعمال کے چار موارد کی وضاحت کریں؟

۳۔(امر بین الامرین) سے مراد کیا ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کے نظریہ کو بیان کرتا ہے؟

۴۔بعض لوگوں نے خدا وند عالم کے علم غیب سے متعلق شبۂ جبر کے جواب میں کہا ہے کہ: جس طرح بہت ہی صمیمی اور گہرے دوست کی اپنے دوست کے آئندہ کاموں کے سلسلہ میں پیشن گوئی اس کے دوست کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتے اسی طرح خداوند عالم کا علم غیب بھی انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے. آپ کی نظر میں کیا یہ جواب متقن اور قانع کرنے والا ہے؟

۵۔ کیا انسان کے افعال میں خدا کو فعّال سمجھنا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ ہم انسان کے برے کاموں، تمام گناہوں اور ظلم کو اﷲکی طرف نسبت دیں؟اور کیوں؟

۶۔ کیا آیة شریفہ (ومارمیت ذ رمیت ولکن اﷲ رمی) عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کررہی ہے؟ اور کیوں؟

۷۔انسان کا مختار ہونا ،انسانی حوادث کے قانون مند ہونے سے کس طرح سازگار ہے؟

۸۔ وہ اختیار جو حقوقی اور فقہی مباحث میں تکلیف ، ثواب اور عقاب کے شرائط میں سے ہے اور وہ اختیار جو کلامی وفلسفی اور انسان شناسی کے مباحث میں مورد نظر ہے ان دونوں کے درمیان کیا نسبت ہے؟

۹۔ اختیاری کاموں کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل توضیحات میں سے کون سی توضیح صحیح ہے؟

اختیاری فعل وہ فعل ہے جو انسان کے قصد کے تحت ہو۔اور

(الف) اچانک ظاہرہوتا ہے اور انجام پاتاہے۔

(ب) صاحب علت ہے اور انجام پاتا ہے۔

۲۰۹

مزید مطالعہ کے لئے :

۱.جبرو تفویض اور اس کے غلط ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۶۶)خیر الاثر در رد جبر و قدر : قم : انتشارات قبلہ ۔

۔سبحانی ، جعفر( ۱۴۱۱)الٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲، قم : المرکز العالمی للدراسات الاسلامیہ ۔

۔کاکایی ، قاسم (۱۳۷۴)خدامحوری ( اکازیونالیزم ) در تفکر اسلامی و فلسفہ مالبرانچ، تہران : حکمت ۔

۔مجلسی ، محمد باقر ( ۱۳۶۸) جبر و تفویض ، تحقیق مہدی رجائی ؛ مشہد : بنیاد پژوہش ھای اسلامی ۔

۔مرعشی شوشتری ، محمد حسن ( ۱۳۷۲) ''جبر و اختیار و امر بین الامرین ''مجلہ رہنمون ، ش۶۔

۔ملا صدرا شیرازی ، صدر الدین ( ۱۳۴۰) '' رسالہ جبر و اختیار ، خلق الاعمال ، اصفہان : بی نا۔

۔موسوی خمینی ، روح اللہ ( امام خمینی ) (۱۳۶۲)طلب و ارادہ ، ترجمہ و شرح سید احمد فہری ، تہران : مرکز انتشارات علمی و فرہنگی ۔

۲. جبر کے شبہات اور اس کی تحقیقات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو :

۔جعفر ،محمد تقی ؛ جبر و اختیار ، قم : انتشارات دار التبلیغ اسلامی ۔

۔ جعفر سبحانی( ۱۳۵۲) سرنوشت از دیدگاہ علم و فلسفہ، تہران : غدیر۔

۔سعید مہر ، محمد (۱۳۷۵)علم پیشین الٰہی و اختیار انسان ، تہران : پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی ۔

۔صدر ، محمد باقر ( ۱۳۵۹) انسان مسؤول و تاریخ ساز ، ترجمہ محمد مہدی فولادوند، تہران : بیناد قرآن ۔

۔محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۱) نہایة الحکمة ، تعلیق : محمد تقی مصباح یزدی ، ج۲ ، ص ۳۴۶، تہران : انتشارات ، الزہرائ۔

۔طوسی ، نصیر الدین ( ۱۳۳۰) جبر و قدر ، تہران : دانشگاہ تہران۔

۔محمد تقی مصباح؛ آموزش فلسفہ ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی و انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۴۵)انسان و سرنوشت ، تہران : شرکت سہامی انتشار۔

۔مجموعہ آثار ، ج۱ ، تہران : صدرا ۔

۔ احمدواعظی ( ۱۳۷۵)انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۲۱۰

ملحقات

۱۔ مغربی انسان شناسی کے منکرین اور مسئلہ اختیار

ناٹالی ٹربوویک نے انسان کے اختیار یا جبر کے باب میں مغربی منکرین کے نظریوں کو دوسوالوں کے ضمن میں یوں بیان کیا ہے:

الف)کیا انسان کے اعمال وکردار، اس کے آزاد ارادے کا نتیجہ ہیں یا تقریباً بہ طور کامل ماحول ، وراثت ، طفلی کے ابتدائی دور یا خدا کی طرف سے تعیین ہوتا ہے؟مختلف فکری مکاتب کے ابتدائی نظریوں کو عقیدۂ جبر کے کامل جنون سے لے کر اس کے کامل ضدیت کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے:

عقیدہ تجربہ (ہابز) عقیدۂ جبرتام(۱) عقیدہ ہمبستگی(۲) (ہار ٹلی(۳) ہیوم) آزاد ارادہ کا نسبی یا کامل طور پر انکار عقیدہ نفع (بنٹام ،میل)

فرایڈ کے ماننے والے عقیدہ کردار (واٹسن،ا سکینر) فرایڈکے نئے ماننے والے (فروم،اریکسن) عقیدۂ جبر معتدل انسان محوری(مازلو،روجرز) معمولی آزادیۂ ارادہ عقیدہ خرد (وکارسٹ) وجود پسند، انسان محوری(۴) (می(۵) ،فرینکل(۶) ) خدا کو قبول کرنے والوں کا عقیدہ وجود(۷)

____________________

(۱) Total determinism

(۲) associationists

(۳) Hartley

(۴) existential humanists

(۵) May

(۶) Farnkl

(۷) theistic Existentialists

۲۱۱

عقیدہ ٔجبر یا ضدیت (ببر(۱) ،ٹلیچ(۲) ، فورنیر(۳) )تمام ارادہ کی آزادی عقیدہ عروج وبلندی(۴) (کانٹ)عقیدہ وجود (سارٹر)

(ب)عقیدۂ جبر کے اصول کیا ہیں؟

فطری خواہشات

فرایڈ کے ماننے والے : انسان اپنی معرفت زندگی (جنسیت ،بھوک، دور کرنا(۵) اور ان کے مثل چیزوں) اور فطری خواہشات کے زیر نظرہے انسان کے تمام رفتار وکردار صرف ان سازشوں کا نتیجہ ہیںجو فطری ضرورتوں اور مختلف اجتماعی تقاضوں کے درمیان حاصل ہوتی ہیں.فطری خواہشیں غالباً بے خبرضمیر میں موثر ہیں.اس طرح کہ انسان نہ صرف ان کے زیر اثر قرار پاتا ہے بلکہ اکثر خود بھی اس کنٹرول سے بے خبر ہے. آرتھونلک کے اعصابی اطباء : (نیوبلڈ) اس گروہ کا نظریہ ،عقیدۂ اخلاق کے نظریہ کی طرح ہے انسان محوری (روجرز، مازلو)انسان مادر زاد خواہشات کا حامل ہے جو اسے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے پیش کرتا ہے۔

موروثی وجود

وراثت سے استفادہ کا مکتب :(۶) (جنسن(۷) ،شاکلے(۸) ہرنشٹائن(۹) )اکثر انسان

____________________

(۱) Buber

(۲) Tillich

(۳) Fournier

(۴) transcendentalists

(۵) Elimination

(۶) Inherited L.O.School

(۷) Jensen

(۸) Shockley

(۹) Hernstien

۲۱۲

کا شعورمیراثی ہوتا ہے عقل وخرد سے مربوط تمام رفتار وکردار، ایسے حصہ میں قرار پاتے ہیںجو مخصوص طریقے سے وارث کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔(۱) نظریۂ علم حیات کے مطابق اکثر انسان کے رفتار و کردار اوراس کی افسردگی ،بیرونی درونی ارثی توجہ کا نتیجہ ہیں۔

ماحول کی توانائیاں

افعال گرائی کے نظریہ کے حامی :( واٹسن) کے مطابق انسان کے رفتار و کردار کو ماحول ہی معین کرتا ہے۔

اصول پسندی کے حامی :(ا سکینر) کا کہنا ہے اسباب ماحول ،رفتار وکردار کے مہم ترین معین کرنے والوں میں سے ہیں.اگر چہ فطری عوامل بھی موثر ہیں۔

اجتماعی محافظت کا نظریہ پیش کرنے والے :(بانڈرا،برکوٹز(۲) )اکثررفتار وکردار ، مخصوصاً اجتماعی رفتار وکردار، ماحول کی دینہے نہ کہ فطری خواہشات کا میلان۔

فرایڈ کے نئے ماننے والے : (فردم،اریکسن)کا کہنا ہے فرہنگی اور اجتماعی ماحول ،انسان کے رفتار وکردار کو ترتیب دینے والی بہت ہی مہم قوت ہے. علم حیات کی فطری خواہشات کم اہمیت کی حامل ہے ۔

کارل مارکس کے عقیدہ کے حامی کہتے ہیں : اسباب صنعت یا اقتصادی نظام انسان کے اعتباری چیزوں اور یقینیات کو ترتیب دینے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور اس کے رفتار وکردار کے ایک عظیم حصہ کو بھی معین کرتے ہیں۔

انسان محوری کے دعویدار :(روجرز،مازلو) کے مطابق رفتار وکردار کو اجتماعی عوامل اور معین ماحول ترتیب دے سکتا ہے ۔

____________________

(۱) Eysenck

(۲) Berkowitz

۲۱۳

اگر معنوی احترام اور جسمانی آسودگی کی ابتدائی ضرورت حاصل نہ ہوں تو ماحول ومحیط کے اسباب انسان کو منحرف کرسکتے ہیں اورتکامل و ارتقاء کی راہ میں مانع ہوسکتے ہیں لیکن اگر یہ ابتدائی ضرورت حاصل ہو تو انسان ترقی کرسکتا ہے اور اپنے ہی طرح(۱) دوسرے اہداف کو متحقق کرسکتا ہے جو بیرونی ماحول کے زیر اثر نہیں ہیں.

معنوی قوتیں(۲)

اکثرمفکرین ایسی طاقتوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں جوکسی اندازے یا وضاحت سے روشن نہیں ہوتی ہیں ۔لیکن اکثر بزرگ علماء انسان کے رفتار وکردار میں خدا یا خداؤںکی دخالت کے معتقد ہیں،پوری تاریخ میں حتیٰ گذشتہ چند سالوں میں بھی اکثر معاشروں نے مادیات کے مقابلہ میں معنویات کی زیادہ تاکید کی ہے.

۲۔ خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت اور مسئلہ اختیار

خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت جو کہ انسان کے اختیاری اعمال میں بھی شامل ہے اور قرآن کی آیات میں بھی اسکی وضاحت ہوئی ہے جیسے (قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَی ٍٔ)(۳) (وَ اﷲُخَلَقَکُم ومَا تَعمَلُونَ)(۴) یہ آیات عقیدۂ جبر رکھنے والوں کے لئے ایک دلیل وسند بھی ہوسکتی ہے.لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات میں غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات بھی اس کی فعالیت کی نفی نہیں کررہی ہیں بلکہ حقیقی توحید اور انسان کے اختیار ی کاموں میں خدا وند عالم کے مقابلہ میں انسان کی فعالیت کے برابر نہ ہونے کو بیان کررہی ہیں.اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کسی فعل کو دو یا چند فاعل کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو مذکورہ فعل کا متعدد فاعل سے انجام پانا مندرجہ ذیل چار صورتوں میں سے ایک ہی صورت میں ہوگا۔

____________________

(۱) self-actualization

(۲) spiritual forces

(۳)رعد ۱۶

(۴)صافات ۹۶۔

۲۱۴

الف)ایک حقیقی فاعل ہے اور دوسرا مجازی فاعل شمار ہوتا ہے اور فعل کے انجام دینے میں کوئی کردار نہیں رکھتا ہے۔

ب) ایک فاعل حقیقی ہے اور دوسرا اس کا مددگار ہے

ج) متعدد فاعل نے ایک دوسرے کی مدد سے کام کو انجام دیا ہے اور کام کا بعض حصہ ہر ایک سے منسوب ہے.

د) دو یا چند فاعل فعل کو انجام دینے میں حقیقی کردار ادا کرتے ہیںاور یہ فعل ان میں سے ہر ایک کا نتیجہ ہے. لیکن ہر ایک کی علت فاعلی دوسرے سے بالا تر اور طول میں واقع ہے.

قرآن مجید کی آیات فقط چوتھی صورت سے مطابقت رکھتی ہے اور خدا وند عالم کی فاعلیت کو انسان کی فاعلیت کے طول میں بیان کرتی ہیں لہذا انسان کا اختیاری فعل درحقیقت فعل خدا بھی ہے اور فعل انسان بھی، مخلوق خدا بھی ہے اور مخلوق انسان بھی اس لئے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں اور فعل کو ان دونوں کی طرف نسبت دینے میں بھی کوئی عقلی مشکل نہیں ہے.(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں : جوادی آملی، عبد اللہ ؛ تفسیر موضوعی قرآن کریم ، توحید و شرک ، مصباح یزدی ، محمد تقی ؛ معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۱۰۶، ۱۲۴۔

۲۱۵

۳۔ طینت کی روایات کا دوسرا جواب

ایک فلسفی مقدمہ قرآن میں موجود ہے جس کے بہت ہی دقیق ہونے کی وجہ سے ہم آسان لفظوں میں اشارہ کرتے ہوئے اس مقدمہ کو پیش کریںگے۔البتہ یہ مقدمہ بہترین جواب اور روایات طینت کے لئے بہترین توجیہ ہے :

عالم مادی کے علاوہ عالم برزخ ،عالم قیامت اور عالم آخرت جیسے دوسرے جہان بھی ہیں اور روایات ،مذکورہ عالم میں سے عالم آخرت کو بیان کررہی ہے. عالم آخرت میں زمان ومکان وجود نہیں رکھتا ہے جو کچھ اس دنیا میں زمان ومکان کے دامن میں واقع ہوتا ہے اس عالم میں اکٹھا اور بسیط انداز میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اس دنیا کے ماضی ،حال اور آئندہ، اس دنیا میں یکجا ہوںگے .پوری یہ دنیا جس میں ایک طولانی زمان ومکان موجزن ہے ، اس دنیا میں صرف ایک وجود کی طرح بسیط اور بغیر اجزا کے ہوںگے .لہذا وہ چیزیں جو اس دنیا میں موجود ہیں وہاں بھی ہیں.(۱) روایات طینت اُس دنیا اور اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتی ہیں کہ یہ انسان جو پوری زندگی بھرترقی کرتا ہے اور بعد میں اپنے اختیار سے ایسے اعمال انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اچھا یا برا ہوجاتا ہے.یہ تمام چیزیںاس دنیا میں یکجا موجود ہیں اور انسان کا اچھا یا برا ہونا اس کے دنیا میں آنے سے پہلے اس عالم میں معلوم ہے.اس لئے کہ اس دنیا کے یا اسی کے تمام مراحل وہاں موجود ہیں آیا اب یہ گفتگو یعنی اس دنیا میں اچھا یا برا معلوم ہونے کا معنی جبر ہے؟ نہیں، اگر لوگ اس دنیا میں بااختیار عمل انجام دیتے ہیں تو اس دنیا میں بھی اسی طرح یکجا ہوںگے اور اگر مجبور ہیں تووہاں بھی یکجا جبر ہی ہوگا قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید انسان کو اس دنیا میں مختار بتارہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا یکجا اور بسیط وجود بھی مختار ہے ایسے عالم کا ہونا ،اس میں انسان کا حاضر ہونا اور وہاں اچھاا ور برا معلوم ہونا انسان کے مختار ہونے سے منافات نہیں رکھتا ہے. پس روایات طینت ،انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہیں۔

۴۔ فلسفی جبر

بعض فلسفی قواعد بھی انسان کے اختیاری افعال میں جبر کے توہم کا سبب بنے ہیں اسی بنا پر بعض لوگوں نے ان قواعد کو غلط یا قابل استثناء کہا ہے اور بعض لوگوں نے انسان کے اختیاری افعال کو جبری قرار دیا ہے .منجملہ قاعدہ (الشَیٔ مَالم یجِب لم یُوجد) ہے (ہر وہ چیز جب تک سرحد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچے وجود میں نہیں آئے گی ) جبر ایجاد کرنے میں اس قاعدہ کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ قاعدہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی شامل ہے اختیاری افعال بھی جب تک سر حد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچیں متحقق نہیں ہوںگے چونکہ ایساہی ہے لہٰذا ہر اختیاری فعل جب تک سرحد

____________________

(۱) اس عالم میں ''ابھی ''کی تعبیر مجبوری کی وجہ سے ہے ورنہ اس دنیا میں حال ، گذشتہ اور آئندہ نہیں ہے ۔

۲۱۶

وجوب تک نہیں پہونچا ہے محقق نہیں ہوگا اور جب سر حد ضرورت ووجوب تک پہونچ جائے گا تو انسان چاہے یا نہ چاہے قطعاً وہ فعل محقق ہوگا .اسی لئے انسان محکوم ومجبور ہے اور اس کے ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔

اس شبہہ کے جواب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ قاعدہ عقلی اور کلی ہے اور قابل استثناء نہیں ہے اور یہ بات اپنی جگہ ثابت اور مسلم ہے لیکن اس قاعدہ سے جبر کا استخراج اس سے غلط استفادہ کرنے کا نتیجہ ہے. اس لئے کہ یہ قاعدہ یہ نہیں بتاتا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال کن شرائط میں مرحلہ وجوب وضرورت تک پہونچتے ہیں بلکہ صرف مرحلہ ضرورت ووجوب تک پہونچنے کی صورت میں اختیاری فعل کے حتمی متحقق ہو نے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور اختیاری افعال میں یہ وجوب وضرورت ارادہ کے تحقق ہونے سے وابستہ ہے اور جب تک ارادہ متحقق نہ ہووہ مرحلہ ضرورت ووجوب تک نہیں پہونچے گا لہذا اگر چہ اس قاعدہ کے مطابق جس وقت اختیاری فعل مرحلہ ضرورت تک پہونچے گا تحقق حتمی ہے لیکن اسکا مرحلہ ضرورت تک پہونچنا ارادہ کے تحقق سے وابستہ ہے اور ایسی صورت میں یہ قاعدہ نہ صرف انسان کے اختیار سے کوئی منافات نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے معنی انسان کا حقیقی مختار ہونا ہے۔

دوسرا قاعدہ جو جبر کے توہم کاباعث ہوا ہے وہ قاعدہ (ارادہ کا بے ارادہ ہونا )ہے. اس شبہہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر اختیاری فعل ارادہ سے پہلے ہونا چاہیئے اور خود ارادہ بھی انسان کے درونی اختیاری افعال میں سے ہے لہٰذا اسکے اختیاری ہونے کے لئے دوسرے ارادہ کا اس کے پہلے ہونا ضروری ہے اورپھر تیسرے ارادہ کا بھی دوسرے ارادہ سے پہلے ہونا ضروری ہوگا ، اور یہ سلسلہ لا محدود ہونے کی وجہ سے متوقف ہوجاتا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ وہ ارادہ اب اختیاری نہیں رہا بلکہ جبر ہوگیا ہے اور جب وہ ارادہ جبری ہوگیا تو اختیاری فعل بھی جو اس سے وابستہ ہے جبری ہو جائے گا۔

اس کا جواب جو کم از کم فارابی کے زمانے سے رائج ہے متعدد ومتنوع جوابات سے مزین ہیں جن میں سے سب سے واضح جواب ذکرکیا جا رہا ہے ۔

اختیاری فعل کا معیار یہ نہیں ہے کہ ارادہ سے پہلے ہو،تا کہ اختیاری فعل کے لئے کوئی ارادہ نہ ہو ، بلکہ اختیاری فعل کا معیار یہ ہے کہ ایسے فاعل سے صادر ہو جو اپنے کام کو رضایت اور رغبت سے انجام دیتا ہے.ایسا نہ ہوکہ ایک دوسرا عامل اس کو اس کی رغبت کے خلاف مجبور کرے.انسان کے تمام اختیاری افعال منجملہ انسان کا ارادہ اسی طرح ہے اور ہمیشہ انسان کی خواہش سے انجام پاتا ہے اور انسان ان کے انجام دینے میں کسی جبر کا شکار نہیں ہے ۔

۲۱۷

تیسرا قاعدہ جو فلسفی جبر کے توہم کا موجب ہواہے وہ قاعدہ (ایک معلول کے لئے دو علت کا محال ہونا )(استحالةُ تواردِ العلّتین علیٰ معلولٍ واحدٍ ) ہے ، اس شبہہ میں کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات منجملہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم کی مخلوق اور معلول ہیں اور یہ موضوع متعدد عقلی ونقلی دلیلوںپر مبنی ہے جسے ہم مناسب مقام پر بیان کریں گے اس وقت اگر انسان کے اختیاری افعال کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حوادث انسان کے اختیاروارادہ سے وابستہ ہیں تو اس کا معنی یہ ہیں کہ انسان بھی ان حوادث کے رونما ہونے کی علت ہے اور اس کا لازمہ ،ایک معلوم کے لئے (انسان کا اختیاری فعل ) دو علت (خدا وانسان )کا وجود ہے اور اس کو فلسفہ میں محال مانا گیا ہے کہ ایک معلوم کے لئے دوعلتوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ میں اورہم رتبہ ہونالازم آتاہے ،لیکن طول میں دو علتوں کا وجود اس طرح کہ ایک دوسرے سے بالا تر ہوں یہ فلسفی اعتبار سے نہ فقط محال نہیں ہے بلکہ فلسفی مباحث کے مطابق دنیا کی خلقت اسی اصول پر استوار ہے اور انسان کے اختیاری افعال کے سلسلہ میں صورت یوں ہے کہ انسان کے اختیاری افعال سے منسوب خدا وند عالم کی علت اور اس کی فاعلیت بالاتر ہے اور انسان اور اس کا اختیار ارادۂ خدا کے طول میں واقع ہے اسی بنا پر خداوند عالم کی علیت ،انسان اوراس کے اختیار کی علیت بھی قابل قبول ہے اوریوں کسی طرح کا کوئی جبر لازم نہیں آتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: سبحانی ؛ الالٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲ ص ۲۰۳، ۲۰۴؛ محمد تقی مصباح ؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۳۷۸، ۳۸۹۔

۲۱۸

آٹھویں فصل

مقدمات اختیار

اس فصل کے مطالعہ سے اپنی معلومات کو آزمائیں :

۱۔ان عناصر کا نام بتائیں جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے تحقق میں محتاج ہے؟

۲۔ انسان کے اختیاری اعمال میں تیں عناصر میں سے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

۳۔معرفت انسان کے اسباب کو آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ درونی کشش(خواہشات)کی تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کے بارے میں مختصر سی وضاحت کریں؟

۵۔ انتخاب اعمال کے معیار کی وضاحت کریں؟

۶۔ عالم آخرت کے کمالات ولذتوں کے چار امتیاز اور برتری کو بیان کریں؟

۲۱۹

گذشتہ فصل میں ہم نے انسان کے متعلق اختیاری رفتار وافعال کو مرتب کرنے والے مختلف اسباب کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ذکر کیا ہے کہ ان اسباب کے درمیان انسان کا اختیار بہت ہی اہم رول ادا کرتا ہے اور انسان کا قصدوانتخاب اس کے اختیاری افعال ورفتار میں سرنوشت ساز ہیں. اس طرح اختیاری رفتار وکردار میں دقت وتوجہ ، حقیقت و اختیارکی ساخت و ساز میں معاون و مددگار ہیں. اسی بنا پر خصوصاً اختیار کی کیفیت کی ترتیب میں قدیم الایام سے متنوع ومتعدد سوالات بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض اہم سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔کیا انسان کا اختیار بے حساب و بہت زیادہ ہے اور کیا کسی قاعدہ واصول پرمبنی نہیں ہے یا اختیارکی ترتیب بھی دوسرے عوامل واسباب کے ماتحت ہے؟

۲۔اختیار کوفراہم کرنے والے اسباب کون ہیں اور انسان کی توانائی ، خواہش اور معلومات کا اس سلسلہ میں کیا کردار ہے ؟

۳۔ اختیاری افعال میں انتخاب و تعیین کا معیار کیا ہے اور فعاّل وعقلمندانسانوں اور بہت زیادہ متاثر افراد کہ جو اپنے انتخاب کی باگ ڈ ور معاشرے کے حالات وماحول کے شانے پرڈال دیتے ہیں اور غفلت یا کسی جماعت کے ساتھ اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اس سلسلہ میں کون سے تفاوت واختلاف موجودہیںبیان کریں ؟

۴۔ کیا انسان کی معرفت کے عام اسباب اورطرز عمل (تجربہ اور تعقل وتفکر)صحیح راہ کے انتخاب ومعرفت کے لئے تمام مراحل میں کفایت کرتے ہیں؟

۵۔ خصوصاً وحی کے ذریعہ استفادہ کی بنیادپر اور گذشتہ سوالات کے جوابات کے منفی ہونے کی صورت میں حقیقی سعادت کے حصول اور صحیح راستہ کے انتخاب اور اس کی معرفت میں (خصوصاً طریقہ وحی)اور (عام طریقہ معرفت )میں سے ہر ایک کا کیاکردارہے؟ اورکیااس موضوع میں دونوں طریقہ ایک دوسرے سے ہماہنگ ہیں؟ اس فصل میں ہم مذکورہ بالاسوالات کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

اس طرح جدید قرآنی نسخے مرتب کرکے مصر، شام، مکّہ، مدینہ اور کوفہ و بصرہ بھجوا دیئے، اور آج کا موجودہ قرآن انہی نسخوں کے مطابق ہے۔ باقی جتنے بھی قرآنی نسخے تھے وہ جمع کروا دیئے گئے اور ایک نسخہ تک باقی نہ رہا۔(۱)

یہ دعویٰ ہذیان اور مجذوب کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ حجاج جو بنی امیہ کے والیوں میں سے ایک والی تھا، اس کی کیا جراءت تھی کہ قرآن میں تحریف کرنے کی جسارت کرتا بلکہ وہ فروع دین میں سے بھی کسی میں رد و بدل کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا تھا، چہ جائیکہ وہ قرآن میں تحریف کا مرتکب ہوتا جو اساس دین اور سرچشمہئ شریعت ہے۔ اس کی کیا قدرت اورمجال تھی کہ وہ سارے اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے قرآنلوں کی طرف دست تجاوز دراز کرتا۔

اگر اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا تو مؤرخین نے اس عظیم المیہ کا ذکر کیوں نہیں کیا اورکیوں اسے اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا؟ حالانکہ اس غیر معمولی سانحہ کا تقاضہ تھا کہ یہ تاریخ میں ثبت ہو جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو حجاج کے زمانے میں کسی مسلمان نے اسے نقل کیا ہے اور نہ اس کے دور حکومت کے بعد کسی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے حجاج کے دور حکومت کے بعد بھی اس سنگین جرم سے چشم پوشی کی ہو۔

فرض کیجیئے حجاج میں یہ قدرت تھی کہ وہ قرآن کے تمام نسخوں کو اکٹھا کرلے اور تمام اسلامی ممالک میں ایک نسخہ بھی باقی نہ رہنے دے۔ لیکن کیا مسلمانوں کے سینوں اور حافظان قرآن کے دلوں سے بھی وہ قرآن کو خارج کرسکتا تھا؟ جبکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جسے خدا ہی جانتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن بنی امیہ کے خلاف کوئی آیہ ہوتی تو حجاج سے پہلے معاویہ اسے قرآن سے خارج کرنے کی کوشش کرتا جس کی قدرت و طاقت حجاج سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر معاویہ اس جرم کا مرتکب ہوتا تو اصحاب امیر المومنین (ع)معاویہ کے خلاف جہاں دوسرے احتجاجات اور دلائل پیش کرتے تھے جو تاریخ، کتب حدیث اور علم کلام میں ثبت ہیں، وہاں تحریف قرآن کے مسئلے

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۲۵۷۔

۲۸۱

کو بھی اٹھاتے۔ حالانکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریف کا دعویٰ کرنے والے عقلی بدیہیات کے مخالف اور منکر ہیں۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے۔

''حدث الرجل بما لا یلیق فان صدق فهو لیس بعاقل،،

''کسی آدمی سے غیر معقول بات کریں، اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو سمجھ لیں کہ وہ عقلمند نہیں ہے۔،،

قائلین تحریف کے شبہات

تحریف کے قائل جن شبہات اور غلط فہمیوں کا سہارا لیتے ہیں ان کا بھی ذکر کرنا اور جواب دینا ضروری ہے:

پہلا شبہ:

تورات اور انجیل میں یقیناً تحریف ہوئی ہے اور شیعہ و سنی روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ گذشتہ اقوام میںجو واقعات رونما ہوئے ہیں اس امت میں بھی ضرور واقع ہوں گے۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی کتاب ''اکمال الدین،، میں فرماتے ہیں کہ غیاث بن ابراہیم نے امام صادق(ع) سے اور آپ نے اپنے آباؤ اجداد(ع) سے نقل فرمایا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم کل ما کان فی الأمم السالفة، فانه یکون فی هذه الامة مثله حذو النعل بالنعل، و القذه بالقذه،، (۱)

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: جو کچھ گذشتہ اُمّتوں میں واقع ہوا ہے، بعینہ موبہ مو اس امت میں بھی واقع ہوگا۔،،

_____________________

(۱) بحار، باب افتراق الامۃ بعد النبی(ص) علی ثلاث و سبعین فرقہ، ج ۸، ص ۴، اس حدیث کے بعض حوالے اہل سنت کی سند سے اسی کتاب میں گزر چکے ہیں۔

۲۸۲

اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں تحریف ضرور واقع ہوئی ہوگی ورنہ اس حدیث کا معنی صحیح نہ ہوگا۔

جواب:

i ۔ ایسی روایات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سب کی سب خبر واحد ہیں جو باعث علم و عمل نہیں ہوسکتیں ان کے متواتر ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے اور کتب اربعہ (اصول کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار) میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہونے اور قرآن میں تحریف ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے (تورات میں تحریف ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن میں بھی تحریف ہو)۔

ii ۔ اگر یہ دلیل درست ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں اضافہ بھی ہوا ہو جس طرح تورات و انجیل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔

iii ۔ گذشتہ امتوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس امت میں رونما نہیں ہوئے۔ مثلاً بچھڑے کی پوجا کرنا، بنی اسرائیل کا چالیس سال سرگداں رہنا، فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا، حضرت سلیمانؑ کا جن و انس پر حکومت کرنا، حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف لے جانا، حضرت موسیٰ! کے وحی حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے پہلے وفات پانا، حضرت موسیٰؑ سے نو معجزات رونما ہونا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت،گذشتہ اقوام میں سے بہت سی قوموں کا بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات ایسے ہیں جوگذشتہ اقوام میں تو واقع ہوئے ہیں لیکن اس اُمّت میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معصومؑ کی مراد ہو نہیں جو ظاہری طور پر روایات سے سمجھی جاتی ہے۔ لامحالہ ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس امت کو گذشتہ امتوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ہر واقعہ میں نہیں۔

۲۸۳

بنابرایں اگرچہ قرآن کا کوئی حصہ کم نہیں کیا گیا لیکن قرآن کے حروف اور الفاظ برقرار رکھتے ہوئے اس کے احکام اور حدود کی پیروی نہ کرنے پر بھی تحریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ اس بحث کے آغاز میں مذکورہ روایت کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اس کی تائید و تاکید ابو واقدلیثی کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

''خیبر کی طرف جاتے ہوئے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مشرکین کے ایک درخت کے قریب سے گزرے جو ''ذات انواط،، کہلاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے، اصحاب پیغمبرؐ نے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) جسطرح مشرکین کے پاس ''ذات انواط،، ہے ہمارے لیے بھی ایک ''ذات انواط،، کا بندوبست فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ کی قوم نے کہا تھا کہ آپ ہمارے لیے بھی بہت سے خداؤں کا انتظام کریں جس طرح ان کے کئی خدا ہیں۔ قسم بخدا! تم بھی گذشتہ اقوام کی سنت پر عمل کرو گے۔،،(۱)

یہ روایت تصریح کرتی ہے کہ اس امت میں رونما ہونے والے واقعات بعض جہات سے گذشتہ اقوام کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں، ہر لحاظ سے نہیں۔

iv ۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے متواتر ہیں اور ان کا معنی بھی وہی ہے جیسا کہ تحریف کے قائل حضرات کہتے ہی، پھر بھی ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گذشتہ زمانے میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے آئندہ زمانے میں قرآن میں کو ئی کمی بیشی ہونے والی ہو۔ کیوں کہ بخاری کی روایت کے مطابق قیامت تک اس اُمّت کے واقعات گذشتہ اُمّتوں کے واقعات کی مانند رونما ہوتے رہیں گے۔

بنابرایں ان روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدر اسلام یا خلفاء کے دور میں قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

_____________________

(۱) صحیح ترمذی، باب ''ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم،، ج ۹، ص ۲۶۔

۲۸۴

دوسرا شبہ:

تحریف کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امیر المومنین (ع)کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ ایک اور قرآن تھا جسے آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ یہ قرآن کچھ ایسے حصوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن امیر المومنین (ع)کے پاس موجود قرآن سے کم ہے اور یہی وہ تحریف ہے جس کی نفی و اثبات میں اختلاف ہے اور اس موضوع کی روایات بہت سی ہیں۔

i ۔ ان میں سے ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین (ع)نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا:

''یا طلحة ان کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد صلی الله علیه و آله عندی باملاء رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و خط یدی، و تأویل کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد ؐو کل حلال ،أو حرام، أو حدّ، أو حکم، أو شیء تحتاج الیه الأمة الی یوم القیامة، فهو عندی مکتوب باملاء رسول الله و خط یدی، حتی أرش الحدش ۔۔۔،، (۱)

''اے طلحہ! قرآن کی ہر آیت جو خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمائی، میرے پاس موجود ہے، جس کی املاء رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے لکھوائی اور میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی۔ ہر اس آیت کی تاویل جو خدا نے محمدؐ پر نازل فرمائی، ہر حلال، حرام، حد، حکم اور ہر وہ چیز جس کی امت محمدیؐ کو قیامت تک احتیاج ہے میرے پاس رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دی ہوئی املاء میں میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس میں ایک خراش کی حد (سزا) تک کا ذکر موجود ہے۔،،

______________________

(۱) مقدمہ تفسیر ا لبرھان، ص ۲۷، ا س روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ موجودہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سب قرآن ہی ہے۔

۲۸۵

ii ۔ امیر المومنین (ع)کا ایک زندیق سے استدلال کے بارے میں ہے:

''أتی بلکتاب کملاً مشتملاً علی التأویل و التنزیل، و المحکم و المتشابه ،و الناسخ و المنسوخ، لم یسقط منه حرف ألف و لا لام فلم یقباوا ذلک،، (۱)

''آپ نے ایک ایسی مکمل کتاب پیش کی جو تاویل و تنزیل، محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ پر مشتمل تھی اور اس میں سے ایک الف اور لام تک ضائع نہیں ہوا تھا۔ مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا۔،،

iii ۔ کافی میں جابر کی سند سے امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:

''ما یستطیع احد ان یدعی ان عنده جمیع القرآن کله، ظاهره و باطنه غیر الاوصیائ،، (۲)

''سوائے اوصیاء کرامؑ کے کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ قرآن کا ظاہر و باطن غرض سارا قرآن اس کے پاس موجود ہے۔،،

iv ۔ جابر امام محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں:

''سمعت اءبا جعفرؑ یقول ما ادّعی اءحد من

''لوگوں میں سے جو بھی قرآن کو اس طرح جمع کرنے کا دعویٰ کرے

الناس أنه جمع القرآن کله کما أنزل الا کذاب، و ما جمعه وحفظه کما نزله الله تعالیٰ الا علی بن ابی طالب و الأئمة من بعده علیهم السلام،، (۳)

جس طرح وہ نازل ہوتا تھا وہ کذاب ہوگا۔ سوائے امیر المومنین (ع)اور باقی ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے کسی نے بھی قرآن کو اس طرح جمع اور محفوظ نہیں کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔،،

____________________

(۱) تفسیر صافی المقدمہ السادسہ، ص ۱۱۔

(۲) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ، باب ۷۶۔ ص ۱۳۰۔

(۳) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ باب ۷۶، ص ۱۳۰۔

۲۸۶

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین (ع)کے پاس ایک ایسا قرآن موجود تھا جو سوروں کی ترتیب کے اعتبار سے موجودہ قرآن سے مختلف تھا۔ جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور یہ محتاج دلیل نہیں۔ اگرچہ یہ بھی اپنے مقام پر درست ہے کہ امیر المومنین (ع)کا قرآن کچھ ایسی زاید چیزوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں جو تحریف کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں بلکہ صحیح اور حق یہ ہے کہ ان زاید چیزوں میں کلام کی تفسیر اور اس کی تاویل بیان کی گئی ہے یا مقصود الہٰی کی تشریح کی گئی ہے۔

دراصل اس شبہ یا دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ تنزیل سے مراد وہ کلام ہو جو بطور قرآن نازل کیا گیا ہو اور تاویل سے کسی لفظ سے ایسی مراد کا قصد کیا جائے جو ظاہری معنی کے خلاف ہو۔ لیکن یہ دونوں معنی متاخرین کی اصطلاح ہیں۔

لغت میں ان دونوں معنی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تا کہ روایات میں تاویل و تنزیل سے یہ معانی مراد لیے جائیں۔

تاویل جو ''اول،، کا مزید فیہ ہے اس کا معنی رجوع اور برگشت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:''اول الحکم الی اهله ای رده الیهم،، (یعنی) ''حکم کو اپنے اہل کی طرف پلٹاؤ،،۔

کبھی تاویل سے انجام کار مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ میں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے:

( وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ) ۱۲:۶

''اور (تمہارا پروردگار) تمہیں خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔،،

( نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ) :۳۶

''ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ۔،،

( هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ ) :۱۰۰

''یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی۔،،

۲۸۷

( ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ) ۱۸:۸۲

''یہ حقیقت ہے ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔،،

ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر لفظ تاویل انجام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بنابرایں تاویل قرآن سے مراد کلام کی بازگشت اور اس کا انجام ہے۔ چاہے یہ ظاہری معنی ہو جسے ہر اہل لغت سمجھ سکتا ہے یا ایک مخفی معنی ہو جسے صرف راسخین فی العلم سمجھتے ہیں۔

تنزیل بھی ثلاثی مزید فیہ ہے جس کی اصل نزول ہے، کبھی تنزیل نازل شدہ چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

( إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ) ۵۶:۷۷

''بیشک یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔،،

( فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ) : ۷۸

''جو کتاب (لوح) محفوظ میں ہے۔،،

( لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) : ۷۹

''اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔،،

( تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ) :۸۰

''سارے جہاں کے پروردگار کی طرف سے (محمدؐ پر) نازل ہوا ہے۔،،

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کی طرف سے بطور وحی نازل ہونے والی ہر چیز قرآن ہی ہو۔ بنابراین ان روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے قرآن میں جو زاید چیزیں تھیں وہ قرآنی آیات کی تفسیر ان میں ان آیات کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایات ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں۔

۲۸۸

امیر المومنین (ع)کے قرآن میں منافقین کے جو نام مذکور ہیں وہ بھی اسی (تنزیل و تاویل) کے ذی میں آتے ہیں۔ کیونکہ ان منافقین کے نام یقیناً بطور تفسیر ذکر کئے گئے ہیں (اور وہ قرآن کا حصہ نہیں ہےں) اس امر پر وہ قطعی دلائل بھی دلالت کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ منافقین کے ساتھ پیغمبر اسلام ؐ کا جو برتاؤ تھا اس کا بھی یہ تقاضا نہیں کہ منافقین کے نام قرآن کی صورت میں نازل کیے جاتے کیونکہ آپ کا شیوہ یہ تھا کہ منافقین کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ شریک کرتے اور ان کی منافقت، جسے آپ بخوبی جانتے تھے، کو راز میں رکھتے تھے۔ یہ ایسی چیز ہے جو آپ کی سیرت اور حسن اخلاق سے آگاہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان منافقین کے ناموں کی قرآن میں تصریح کردی جائے اور دن رات خود منافقین اور مسلمانوں کو یہ تاکید کی جائے کہ منافقین پر لغت بھیجیں۔ کیا اس قسم کی روش کا احتمال بھی دیا جاسکتا ہے تاکہ اس کی صحت اوربطلان کے بارے میں سوچا جائے اور اس کے اثبات کے لیے ان روایات سے تمسک کیا جائے جن کے مطابق امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے لیے بعض منافقین کے نام موجود ہیں؟!

البتہ تمام منافقین کو ابو لہب، جو کہ برملا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے دشمنی کا مظاہرہ کرتا تھا اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی یہ جانتے تھے کہ یہ مشرک ہی مرے گا، پر قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) ہاں! بعید نہیں کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے یے بعض منافقین کی نشاندھی فرمائی ہو۔

گذشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے ہوا کہ اگرچہ مصحف (قرآن) علی (علیہ السلام) میں کچھ زاید چیزیں موجود ہیں مگر یہ اس قرآن کا حصہ نہیں ہیں جس کی تبلیغ کا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو حک دیا گیا تھا اور ان زاید چیزوں کو قرآن کا حصہ قرار دینے کی کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ بذات خود باطل ہے اور اس کے بطلان پر وہ تمام قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں جن سے تحریف قرآن کی نفی ہوتی ہے۔

____________________

) ۱) یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر قرآن میں ابولہب کا نام آسکتا ہے تو باقی منافقین کے نام کیوں نہیں آسکتے۔ (مترجم)

۲۸۹

تیسرا شبہ

تحریف کی تیسری دلیل کے طور پر اہل بیت عصمتؑ کی ان متواتر روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو تحریف پر دلالت کرتی ہےں۔

جواب:

یہ روایات متنازع فیہ معنی میں تحریف واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔

وضاحت:

بہت سی روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں،کیونکہ ان میں سے کچھ تو احمد بن محمد سیاری کی کتاب سے منقول ہیں جس کے فاسد المذاہب ہونے پر تمام علمائے رجال کا اتفاق ہے، اس کے علاوہ یہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ کچھ روایات علی بن احمد کوفی سے منقول ہیں جو علمائے رجال کے نزدیک کذاب اور فاسد المذاہب تھا۔

یہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ کثرت سے ہیں اس لیے اتنا ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ بعض روایات ضرور ائمہ اطہار (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور کم از کم اس کا ظن غالب ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔

ان میں سے بعض روایات ایسی بھی ہیں جو معتبر طریقوں سے روایت کی گئی ہیں۔ لہٰذا ہر روایت کی سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہے۔

روایات تحریف

اس مقام پر یہ بحث ضروری ہے کہ ان روایات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان سے یکساں اسفادہ نہیں ہوتا، لہذا ہم ذ یل میں ان روایات کے مفاہیم اور خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

۲۹۰

یہ روایات کئی قسم کی ہیں:

i ۔ پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں لفظ تحریف کا ذکر ہے اور اس طرح وہ تحریف پر دلالت کرتی ہیں، ایسی روایتیں بیس ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں اور ان جیسی دیگر روایات کا ذکر نہیں کرتے۔

پہلی روایت: علی بن ابراہیم قمی اپنی سند کے ذریعے ابوذر سے نقل کرتے ہیں:

''لما نزلت هذه الآیة: یوم تبیض وجوه و تسود وجوه، قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ترد امتی علی یوم القیامة علی خمس رایات ثم ذکر أن رسول الله صلی الله علیه و آله یسأل الریات عما فعلوا بالثقلین فتقول الرایة الأولی: أما الاکبر فحر فناه، و نبذناه وراء ظهورنا، و أما الأصغر فعادیناه، و أبغضناه، و ظلمناه و تقول الرایة الثانیة أما الأکبر فحر فناه، و مزقناه، و خالفناه، و أما الأصغر فعادیناه و قاتلناه ،،

''جب آیت کریمہ: ''یوم تبیض وجوہ و تسود وجود،، نازل ہوئی تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: روز قیامت میری امت پانچ جھنڈے اٹھائے میرے سامنے پیش ہوگی۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہر گروہ سے پوچھیں گے: ثم ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے؟ پہلا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر (قرآن) میں تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دیا اور ثقل اصغر (عترت پیغمبرؐ) سے بغض و عداوت رکھی اور اس پر ظلم کیا۔ دوسرا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر میں تحریف کی۔ اسے پھاڑا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کی مخالفت کی اور ثقل اصغر سے دشمنی روا رکھی اور اس سے جنگ لڑی۔،،

دوسری روایت: ابن طاؤس اور سید محدث جزائری نے اپنی سندوں سے حسن بن حسن سامری سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والے کے بارے میں حذیفہ سے فرمایا:

''انه یضل الناس عن سبیل الله، و یحرف کتبابه، و یغیر سنتی،،

''یہ لوگوں کی راہ خدا سے منحرف، کتاب خدا میں تحریف اور میریؐ سنت کو تبدیل کرتا ہے۔

۲۹۱

تیسری روایت: سعد بن عبداللہ قمی نے اپنی سند سے جابر جعفی اور اس نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''دعا رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بمنی قال: أیها الناس انی تارک فیکم الثقلین أما ان تمسکتم بهما لن تضلوا کتاب الله و عترتی والکعبة البیت الحرام ثم قال ابوجعفر : اما کتابالله فحرفوا، و أما الکعبة فهدموا، و أما فتقلوا، و کل ودائع الله قد نبذوا و منها قد تبرأوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے منیٰ میں دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دوگرانقدر چیزیں قرآن اور میری عترتؑ ہیں اور دیکھو! کعبہ، واجب الاحترام ہے۔ اس کے بعد امام(ع) نے فرمایا: لوگوں نے کتاب خدا میں تحریف کی، کعبہ کو گرایا، اور عترت پیغمبرؐ کو شہید کردیا۔ غرض انہوں نے خدا کی تمام امانتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ان سے دور ہوگئے۔،،

چوتھی روایت: خصال میں صدوق نے اپنی سند سے جابر سے اور انہوں نے رسول اسلامؐ سے راویت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''یجیئ یوم القیامة ثلاثة یشکون: المصحف، و المسجد، العترة یقول المصحف یا رب حرفونی و مزقونی، و یقول المسجد یا رب عطلونی و ضیعونی، و تقول العترة یا رب قتلونا، و ردونا، و شر دونا،،

''تین چیزیں بارگاہ الہی میں شکایت کریں گی: قرآن، مسجد اور عترت پیغمبرؐ قرآن کہے گا: پالنے والے! لوگوں نے مجھ میں تحریف کی اور مجھے پھاڑ ڈالا۔ مسجد کہے گی: مجھے لوگوں نے بے آباد رکھا اور ضائع کردیا اور عترت محمد(ص) کہے گی: یارب! لوگوںنے ہمیں شہید کیا اور جلا وطن کیا۔،،

۲۹۲

پانچویں روایت: علی بن سوید کہتے ہیں: میں نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا جب آپ زندان میں تھے۔ علی بن سوید نے اپنے خط اور امام(ع) کے جواب کا مکمل ذکر کیا ہے، جس میں آپ نے فرمایا:

''کتبت الی أبی الحسن موسیٰ و هو فی الحبس کتابا الی أن ذکر جوابه بتمامه، و فیه سوله اؤتمنوا علی کتاب الله فحرفوه و بدلوه،،

''لوگوں میں کتاب الہٰی بطور امانت چھوڑ دی گئی مگر انہوں نے اس میں تحریف کی اور اسے تبدیل کردیا۔،،

چھٹی روایت: ابن شہر آشوب، اپنی سند سے عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے روز عاشور اپنے خطبے میں فرمایا:

''انما انتم من طواغیت الامة، و شذاذ الأحزاب، و نبذة الکتاب، و نفئة الشیطان، و عصبة الآثام، و محر فی الکتاب،،

''تم اس امت کے طاغوت، گھٹیا گروہ، قرآن کو پس پشت ڈالنے والے، شیطان کی اولاد، گناہ کے پتلے او رکتاب خدا میں تحریف کرنے والے لوگ ہو۔،،

ساتویں روایت: ابن قولویہ نے کتاب ''کامل الزیارات،، میں جسن بن عطیہ اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اذا دخلت الحائر فقل: اللهم العن الذین کذبوا رسلک، وهدموا کعبتک، و حرفوا کتابک،،

''جب تم سید الشہداءؑ کے حرم میں داخل ہو تو کہو: ان لوگوں پر تیری لعنت ہو جنہوں نے تیرے رسولوں کی تکذیب کی، تیرے کعبہ کو منہدم کیا اور تیری کتاب میں تحریف کی۔

آٹھویں روایت: حجال نے قطبہ بن میمون سے اور اس نے عبد الاعلیٰ سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:

''قال أبو عبدالله(ع) أصحاب العربیة یحرفون کلام الله عزوجل عن مواضعه،،

''عربیت پرست قرآن میں اس کی جگہوں میں تحریف کرتے ہیں۔،،

۲۹۳

روایات کا حقیقی مفہوم

اس مضمون کی روایات کا جواب یہ ہے اور آخری روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریف سے مراد قاریوں کا اختلاف اور قرااءات کے سلسلے مںی ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت اور اصل قرآن تو محفوظ ہے۔ صرف قراءت کی کیفیت میں اختلاف ہے اور تحریف کی بحث کے آغاز میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس معنی میں قرآن میں یقیناً تحریف ہوئی ہے چونکہ سات کی سات قرااءات متواتر نہیں ہیں بلکہ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر بھی ہوں پھر بھی اس معنی میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے اس لیے کہ قرااءات زیادہ ہیں اور یہ سب کی سب ظنی اجتہادات پر مشتمل ہیں جن سے قہری طور پر قراءت کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس روایت کا مستدل کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔

جہاں تک باقی روایات کا تعلق ہے ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں تحریف سے مراد آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرنا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، ان سے دشمنی کرنا اور جنگ لڑنا ہے۔ اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ سید الشہداءؑ کے خطبے میں تحریف کی نسبت آپ کے مقابلے میں آنے والے بنی امیہ کی طرف دی گئی ہے۔

آغاز بحث میں مذکورہ روایت میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:

''و کان من نبذهم الکتاب أنهم أقاموا حروفه، و حرفوا حدوده،،

''ان لوگوں نے کتاب الہٰی کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ اس کے حروف کو تو برقرار رکھا مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔،،

i ۔ ہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ قرآن میں اس معنی (الفاظ قرآن سے غلط معنی اخذ کرنا) میں یقیناً تحریف واقع ہوئی ہے۔ یہ ہمارے محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اگر قرآن میں یہ تحریف واقع نہ ہوئی ہوتی تو عترت پیغمبرؐ کے حقوق محفوظ رہتے، رسول اسلامؐ کا احترام برقرار رہتا اور آہل رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حقوق پامال کرکے رسول گرامیؐ کو اذیت نہ دی جاتی۔

۲۹۴

ii ۔ دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآنی آیات میں ائمہ ہدیٰؑ کے نام موجود تھے جو تحریف کے نتیجے میں نکال دیئے گئے ہیں اور یہ روایات کثرت سے ہیں۔ان میں چند یہ ہیں:

الف۔ کافی کی روایت ہے جسے محمد بن فضیل نے ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر(علیہما السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ولایۃ علی بن ابی طالب مکتوب فی جمیع صحف الانبیاء و لن یبعث اللہ رسولا الا بنبوۃ محمد و ''ولایۃ،، و صیہ۔ صلی اللہ علیہما و آلھما،،

''امیر المومنین (ع)کی ولایت تمام انبیاءؑ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک اسے خاتم الانبیائؐ کی نبوّت اور آپ کے وصی (علیہ علیہ السلام) کی ولایت سے آگاہ نہیں کیا۔،،

ب۔ عیاشی میں امام صادق(ع) سے راویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''لو قرأ القرآن کما انزل لألفینا مسمین،،

''اگر قرآن کی اسی طرح تلاوت کی جاتی جس طرح اسے نازل کیا گیا تھا تو لوگ ہمیں نام سے پہچانتے۔،،

ج۔ کافی، تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر(ع) سے اور کنزالفوائد میں مختلف سندوں سے ابن عباس سے اور تفسیر فرات بن ابراہیم کوفی میں متعدد سندوں سے اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے:

''قالوا: قال امیر المومنین (ع)القرآن نزل علی اربعة ارباع، ربع فینا، و ربع فی عدونا، و ربع سنن و امثال، و ربع فرائض و احکام ، و لنا کرائم القرآن،،

''امیر المومنین (ع)نے فرمایا: قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ اس کا ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں، ایک چوتھائی سیرت اور مثالوں کے بارے میں اور ایک چوتھائی واجبات اور دیگر احکام کے بارے میں ہے اور قرآن کی عزت و کرامت ہماری ذات سے مختص ہے۔،،

۲۹۵

د۔ کافی میں امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''نزل جبرئیل بهذه الآیة علی محمد هکذا: و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فی علی فاتوا سورة من مثله،،

''جبرئیل آنحضرتؐ کی خدمت میں یہ آیت اس طرح لے کر آیا تھا: ''علیؑ کے بارے میں کچھ ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اس میں اگر شک ہو تو اس کی مانند ایک سورہ پیش کرکے دکھاؤ۔،،

جواب: بعض چیزوں تفسیر قرآن کے طور پر نازل ہوا کرتی تھیں جو کہ خود قرآن نہیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان روایات سے بھی یہی مراد ہونی چاہیے کہ اگر قرآن میں ائمہ (ع) کے نام موجود تھے تو بطور تفسیر ہوں گے اور قرآن کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اگر ان روایات سے یہ معنی اخذ نہ کئے جائیں تو سرے سے ان روایات کو رد کرنا پڑے گا کیونکہ یہ روایات کتاب و سنت اور ان قطعی دلیلوں کے خلاف ہیں جن سے عدم تحریف ثابت ہوتی ہے۔ روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روایات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں پیش کرنا ضروری ہے اور جو روایت کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ٹھکرا اور دیوار پر مار دینا واجب ہے۔

قرآن میں امیر المومنین (ع)کے نام کی تصریح نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل حدیث غدیر ہے۔ کیونکہ حدیث غدیر می اس بات کی تصریح ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خدا کی طرف سے حکم و تاکید اور اپنےؐ تحفظ کی ضمانت لینے کے بعد امیر المومنین کو اپنا ولی نصب فرمایا۔

اگر قرآن میں امیر المومنین (ع)کا نام موجود ہوتا تو اس تقرری اور مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع کے اہتمام کی ضرورت نہ ہوتی اور نہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا۔

۲۹۶

خلاصہ یہ کہ حدیث غدیر کی صحت سے ان روایات کا کذب ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ائمہ (ع) کے اسماء قرآن مجید میں موجود ہیں۔ یہ نکتہ خاص کر قابل توجہ ہے کہ حدیث غدیر، حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلامؐ کی زندگی کے آخری ایام میں صادر ہوئی تھی جب سارا قرآن نازل ہوچکا اور مسلمانوں میں پھیل گیا تھا اور آخری روایت جو کافی میں نقل کی گئی ہے وہ بذات خود قابل تصدیق نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوت کو ثابت اور قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا جارہا ہو تو ایسے موقع پر علی (علیہ السلام) کا نام ذکر کرتنا مقتضیٰ حال کے مطابق نہیں ہے اور ان تمام روایات کی معارض کافی کی صحیحہ ابی بصیر ہے۔ ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام(ع) سے آیہ:

( أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹ کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

''قال: فقال نزلت فی علی بن ابی طالب و الحسن ؑو الحسین ؑفقلت له: ان الناس یقولون فما له لم یسم علیا و أهل بیته فی کتاب الله ۔قال: فقولوا لهم ان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) نزلت علیه الصلاة و لم یسم الله لهم ثلاثا ،و لا أربعاً، حتی کان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) هو الذی فسر لهم ذلک ۔۔۔(۱)

''یہ آیت کریمہ علی ابن ابی طالب، حسن اور حسین(علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا: مولا! لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے قرآن میں آپ اور آپ کے اہل بیتؑ کے نام کیوں ذکر نہیں فرمائے؟ آپ نے فرمایا: تم ان لوگوں کو جواب میں کہو کہ خدا نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نماز بھی نازل فرمائی ہے، لیکن قرآن میں تین یا چار رکعتوں کاذکر کسی بھی جگہ نہیں ہے بلکہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی تفسیر فرمایا کرتے تھے۔،،

بنابرایں یہ روایت ان تمام روایات پر مقدم ہوگی ارویہ ان روایات کا صحیح مطلب و مقصد بیان کررہی ہے اور

____________________

(۱) الوافی، ج ۲، باب ۳۰، مانص اللہ و رسولہ علیہم، ص ۶۳۔

۲۹۷

یہ کہ قرآن میں علیؑ کا نام بطور تفسیر و تنزیل بیان کیا گیا ہے ۔ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے، جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ کبھی نہیں کہا کہ حضرت علی(علیہ السلام) کا نام (بطور خلیفہ) قرآن میں موجود ہے۔ اگر آپ کا نام قرآن میں موجود ہوتا تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین دلیل بنتی اور وہ اس کا ذکر ضرور کرتے ۔

اس دلیل کو اس اعتبار سے بھی زیادہ تقویت حاصل ہوتی ہے کہ (مستدل کے زعم میں) جمع قرآن کا مسئلہ، مسئلہ خلافت کے تصفیہ کے کافی عرصہ بعد پیش آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کسی آیہ میں علی (علیہ السلام) کا نام موجود نہیں تپا جس کو حذف کردیا گیا ہو۔

iii ۔ تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں اضافہ اور کمی کی صورت میں تحریف واقع ہوئی ہے اور یہ کہ امت نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد بعض کلمات قرآن کو تبدیل کرکے دوسرے کلمات کو رکھ دیا ہ۔ وہ روایات یہ ہیں:

الف۔ علی بن ابراہیم قمی نے حریز کی سند سے حضرت ابی عبد اللہ امام صادق (علیہ السلام) سے سورہ حمد کی آیہ کو یوں بیان فرمایا ہے:

صراط من أنعمت علیهم غیر المغضوب علیهم و غیر الضالین

ب۔ عیاشی نے ہشام بن سالم سے راویت کی ہے۔ ہشام فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو عبداللہ صادق(ع) سے آیہ کریمہ:

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ) ۳:۳۳

کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

آیہ کریمہ اصل می ''آل ابراہیم و آل محمد علی العالمین،، تھی لوگوں نے ایک اسم کی جگہ دوسرے کو رکھ دیا ہے۔ یعنی لوگوں نے قرآن میں تبدیلی کی ہے اور آل محمد کی جگہ آل عمران رکھ دیا ہے۔

۲۹۸

جواب:

ان روایات کی سند ضعیف ہے اور اگر اس سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ روایات قرآن، سنت اور اجماع مسلمین کے خلاف ہیں جن کے مطابق قرآن میں ایک حرف کی بھی زیادتی نہیں ہوئی ہے، حتیٰ کہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں وہ بھی اس معنی میں تحریف کے قائل نہیں ہیں۔

علماء کی ایک جماعت نے قرآن میں زیادتی و اقع نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی بین دفتین موجود ہے، سب کا سب قرآن ہے اور ایک لفظ بھی زیادہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے ان میں شیخ مفید، شیخ طوسی، شیخ بہائی اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

اس سے قبل احتجاج طبرسی کی وہ روایت بھی بیان کی جاچکی ہے جس کے مطابق قرآن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

iv ۔ چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں تحریف کمی کی صورت میں واقع ہوئی ہے۔

جواب:

ان روایات کو اس معنی پر حمل کیا جائے گا جس پر مصحف امیر المومنین (ع)میں موجود اضافات کو حمل کیا گیا ہے اور اگر کسی روایت کو اس معنی پر حمل نہ کیا جاسکے تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا کیونکہ یہ قرآن و سنت کی مخالف سمجھی جائے گی۔

ہم نے اپنی بحثوں کے دوران اس قسم کی روایات کاایک اور معنی بھی کیا ہے۔ شاید یہ معنی سب سے قریب ہو مگر اختصار کی خاطر اس معنی کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور جگہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

اس قسم کی بعض بلکہ اکثر روایات کی سند ضعیف ہے اور بعض روایات کا تو بذات خود کوئی صحیح معنی نہیں بنتا اور علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ یا تو اس قسم کی روایات کی تاویل کرنی چاہےے یا انہیں ٹھکرادینا چاہیے۔

۲۹۹

ان علمائے کرام میں سے ایک محقق کلباسی ہیں۔ ان سے منقول ہے:

''وہ تمام روایات اجماع علماء کے خلاف ہیں جو قرآن میں تحریف پر دلالت کرتی ہیں۔،،

آپ مزید فرماتے ہیں:

''اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ موجودہ قرآن میں کسی قسم کی کمی موجود ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کسی قسم کی کمی واقع ہوئی ہوتی تو یہ مشہور ہوجاتی بلکہ بطور تواتر اس کو نقل کیا جاتا کیونکہ غیر معمولی اور اہم واقعات کا یہی تقاضا ہے کہ انہیں بطور تواتر نقل کیا جائے اور تحریف فی القرآن سے بڑھ کر اور کون سا واقعہ اہم ہوسکتا ہے۔،،

''شارح وافیہ،، محقق بغدادی نے اس بات کی تصریح کی ہے اور اسے محقق کرکی سے نقل فرمایا ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ محقق کرکی اس رسالہ میں فرماتے ہیں:

''جو روایات بھی قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں یا تو ان کی تاویل کرنی چاہیے یا انہیں ٹھکرا دینا چاہیے، چونکہ جو حدیث بھی قرآن، سنت متواترہ اور اجماع کے خلا ف ہو اور قابل تاویل نہ ہو اسے ٹھکرانا ضروری ہے۔،،

مؤلف: محقق کرکی نے اپنے اس کلام میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی طرف اس سے قبل ہم نے اشارہ کیاتھا۔ یعنی روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو روایت بھی قرآن کے خلاف ہو اس کو ٹھکرانا لازمی ہے ان متواترہ روایات میں سے ایک روایت یہ ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307