انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145885 / ڈاؤنلوڈ: 4858
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

تیسرے گروہ کی روایات کے سلسلہ میں یعنی وہ روایات جو فطرت انسان کو بیان کرتی ہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ روایات تقاضوں کو بیان کررہی ہیں علت تامہ کو بیان نہیں کررہی ہیں یعنی جو لوگ پیدا ہو چکے ہیں ان میں سے بعض کی فطرت گناہ اور ویرانی کی طرف رغبت کا تقاضا کرتی ہے اور بعض افراد کی فطرت اچھائی کی طرف رغبت رکھتی ہے جیسے وہ نوزاد جو زنا سے متولد ہواہو اس بچہ کے مقابلے میں جو صالح باپ سے متولد ہوا ہے گناہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے لیکن کسی میں بھی جبر نہیں ہے.

دوسرا جواب : یہ ہے کہ اچھے یا برے ہونے میں فطرت کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم پہلے سے جانتا ہے کہ کون اپنے اختیار سے صحیح راہ اور کون بری راہ انتخاب کرے گا اسی لئے پہلے گروہ کو اچھی طینت اور دوسرے کو بری طینت سے خلق کیا ہے۔

اس کی مثال ایک باغبان کی طرح ہے جو تمام پھولوں کو اسکی قیمت اور رشد وبالیدگی کے مطابق ایک مناسب گلدان میں قرار دیتا ہے .گلدان پھولوں کے اچھے یا برے ہونے میں تاثیر نہیں رکھتا ہے اسی طرح طینت بھی فقط ایک ظرف ہے جو اس روح کیمطابقہے جسے اپنے اختیار سے اچھا یا براہوناہے طینت وہ ظرف ہے جواپنے مظروف کے اچھے یابرے ہونے میں اثر انداز نہیں ہوتا دوسرا جواب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے لئے فلسفی مقدمات ضروری ہیں لہٰذا اس سے صرف نظر کیا جارہا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)''ضمائم ''کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۱

ب) اجتماعی اور تاریخی جبر

اجتماعی اور تاریخی جبر کا عقیدہ بعض فلاسفہ اور جامعہ شناسی کے ان گروہ کے درمیان شہرت رکھتا ہے جو جامعہ اور تاریخ کی اصالت پرزور دیتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق کسی فرد کی معاشرے اور تاریخ سے الگ کوئی حقیقت نہیں ہے .معاشرہ اور تاریخ ایک با عفت وجود کی طرح اپنے تمام افراد کی شخصیت کو مرتب کرتے ہیں لوگوں کا تمام فکری (احساس )اور افعالی شعور، تاریخ اور معاشرے کے تقاضہ کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان اپنی شخصیت کوبنانے میں ہر طرح کے انتخاب اور اختیار سے معذور ہے نمونہ کے طور پرہگل مارکس ، اور ڈورکھیم کے نظریوں کو ذکر کیا جا سکتا ہے ہگل جو تاریخ کے لئے ایک واقعی حقیقت کا قائل ہے معتقد تھا کہ تاریخ صرف تاریخی حوادث یاسادہ سلسلۂ عبرت کے لئے ہے کہ جس کی نظری اور فکری تجزیہ وتحلیل نہیں ہوتی ،اس کی نظر میں گوہر تاریخ ،عقل ہے(اس کا نظریہ اسی مفہوم کے اعتبار سے ہے) اور تاریخی ہر حادثہ اس کے مطابق انجام پاتا ہے، تاریخ ساز افراد ، مطلق تاریخ کی روح کے متحقق ہونے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور بغیر اس کے کہ خود آگاہ ہوں اس راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔(۱) مارکس کا نظریہ تھا کہ انسان کا ہر فرد تاریخ اور معاشرہ کا نتیجہ ہے. تمام انسانی افعال تہذیت و ثقافت ، مذہب،ہنر،اجتماعی افراد کے علاوہ تمام چیزیں معاشرہ پر پھیلے ہوے اقتصادی روابط پر مبنی ہیں.(۲) اس لئے انسان کے ہر فرد کی آمادگی کا تنہا حاکم اس کے معاشرے پرحاکم اقتصادی روابط کو سمجھنا چاہیئے اس لئے کہ اقتصادی روابط زمانہ کے دامن میں متحول ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ متحول ہوتا ہے اور معاشرے کے معقول ہونے سے انسانوں کی شخصیت ،حقیقت ،تہذیب و ثقافت اور اس کے اعتبارات بھی متحول ہوجاتے ہیں. ڈورکھیم اس جبر کی روشنی میں ''نظریہ آئیڈیا'' کی طرف مائل ہوا ہے کہ انسان ایک فردی واجتماعی کردار رکھتا ہے اوراس کا اجتماعی نقش ارادوں ،خواہشوں ، احساسات اور تمام افراد کے عواطف کے ملنے اور ان کے ظاہر ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور یہی روح معاشرہ ہے۔

____________________

(۱) بعض فلاسفۂ تاریخ بھی معمولاًتاریخ کے لئے ایسے اعتبارات ، قوانین اور مراحل مانتے ہیں جو غیر قابل تغیر ہیں اور انسانوں کے ارادے ، خواہشات ،جستجو اور معاشرے انہیں شرائط و حدود میں مرتب ہوتے ہیں

(۲)البتہ مارکس کا ''اجتماعی جبر '' فیور بیچ اور ہگل کے تاریخی جبر کی آغوش سے وجود میں آیا ہے ۔

۲۰۲

اور یہ روح اجتماعی بہت قوی ہے جو افراد کے وجودی ارکان پرمسلط ہے شخصی اور فردی ارادہ اس کے مقابلے میں استادگی کی توانائی نہیں رکھتا ہے. وہ افراد جو اس روح اجتماعی کے تقاضوں کے زیر اثر ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیز یں سماج ا ورمعاشرہ نے انسان کو دیا ہے اگر وہ اس کو واپس کردے تو حیوان سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔

اجتماعی اور تاریخی جبر کی تجزیہ وتحلیل

پہلی بات: سماج اور تاریخ کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ یہ مرکب اعتباری ہیں جو افراد کے اجتماعی اور زمان ومکان کے دامن میں انکے روابط سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو وجود رکھتی ہیں وہ ہرفرد کے روابط اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں عمل و رد عمل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔

دوسری بات: ہم اجتماعی و تاریخی عوامل،اقتصادی روابط جیسے ، اعتبارات ، آداب و رسوم اور تمام اجتماعی و تاریخی عناصر کی قدرت کے منکر نہیں ہیں اور ہمیں افراد کی شخصیت سازی کی ترکیبات میں ان کے نقش و کردار سے غافل بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن اجتماعی اور تاریخی عوامل میں سے کوئی بھی انسان کے اختیار کو سلب کرنے والے نہیں ہیںاگر چہ معاشرہ زمان ومکان کی آغوش میں اپنے مخصوص تقاضے رکھتا ہے اور انسان سے مخصوص اعمال و رفتار کا خواہاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس سے اختیار سلب ہوگیا ہے جبکہ انسان ان تمام عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتا ہے حتی معاشرہ کی سر نوشت میں اثر انداز ہو سکتا ہے. جیسا کہ اس طرح کے اثرات کے نمونوں کو معاشروں کی تاریخ میں بہت زیادہ دریافت کیا جا سکتا ہے

۲۰۳

ج)فطری جبر

فلسفۂ مادی اور مادہ پرستی کے ہمراہ ارثی صفات کے سلسلہ میں علمی ارتقاء انسان کی جبری زندگی کا عقیدہ پیش کرتاہے .جو لوگ انسان کے اندر معنوی جوہر کے وجود کے منکر ہیں اور اس کو صرف اپنی تمام ترقدرتوں سے مزین ایک پیکر اور جسم سے تعبیر کرتے ہیں .اور اس کی بہت سی توانائیاں انسانی خصوصیات کے ارثی و وراثتی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور انسان کے تمام نفسیاتی و ذہنی حالات کی مادی توجیہ کرتے ہیں اور لذت ،شوق ،علم،احساس اور ارادہ کو مغز کے اندر سلسلۂ اعصاب اور الکٹرانک حرکتوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں لہٰذا طبیعی طور پر عقیدہ جبر کی طرف گامزن ہیں(۱) ایسی صورت میں انسان کو اخلاقاً اس کے اعمال کے مقابلے میں ذمہ دار نہیں سمجھا جاسکتا ہے .کیونکہ ایسی حالت میں جزا و سزا اپنے معنی و مفہوم کھو دیں گے اس لئے کہ ان سوالوں کے مقابلہ میں کہ کیوں فلاں شخص مرتکب جرم ہوا ہے ؟ تو جواب دینا چاہئے کہ اس کے ذہن میں مخصوص الکٹرانک اشیا کا تحقق اس کے تحریک کا باعث ہوا ہے اور یہ حادثہ وجود میں آیا ہے اور اگر سوال یہ ہو کہ کیوں یہ مخصوص اشیاء اس کے ذہن اور اعصاب میں حاصل ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ فلاں حادثہ بھی فلاں فطری اور الکٹرانک حوادث کی وجہ سے تھا اس تحلیل کی روشنی میں مغز کے مادی حوادث انسان کے خارجی افعال و حوادث کے اسباب ہیں مغز کے مادی حوادث میں سے کوئی بھی ارادی ، اختیاری افعال اور انسانوں میں تبدیلی وغیرہ اُن ارثی صفات اور فطری بناوٹ میں تبدیلی کی بنا پر ہے جن کا ان کی ترکیبات میں کوئی کردار نہیں ہے. یعنی لوگوں نے ترقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ : بیرونی فطرت کے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان سے مخصوص افعال سرزد ہوں اور یہ عوامل جدا ہونے والے نہیں ہیں وہ افعال جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں نہ مخصوص نفسیاتی مقدمات (فہم وخواہشات ) ہیں جو فطری اور بیرونی طبیعی حوادث سے بے ربط نہیں ہیں مثال کے طور پر ہمارا دیکھنا ،اگر چہ یہ فعل ہے جو نفس انجام دیتا ہے. لیکن نفس کے اختیار میں نہیں ہے. عالم خارج میں فطری بصارت کی شرطوں کا متحقق ہونا موجب بصارت ہوتا ہے اور یہ بصارت ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے اختیاری فعل میں موثر ہے۔

____________________

(۱) ا سکینر ،کتاب ''فراسوی آزادی و منزلت''میں کہتا ہے کہ : جس طرح بے جان اشیاء کوجاندار سمجھنا ( بے جان چیزوں سے روح کو نسبت دینا ) غلط ہے اسی طرح لوگوں کو انسان سمجھنا اور ان کے بارے میں فکر کرنا اور صاحب ارادہ سمجھنا بھی غلط ہے،ملاحظہ ہو: اسٹیونسن، لسلی؛ ہفت نظریہ دربارۂ طبیعت انسان ؛ ص ۱۶۳۔

۲۰۴

اس تاثیر کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب تک کسی چیز کو نہیں دیکھے گا اس کی طرف احساس تمایل بھی نہیں کرے گا لیکن جب اس کو دیکھتا ہے تو اس کا ارادہ مورد نظر فعل کے انجام سے مربوط ہوجاتا ہے۔(۱) دیکھنا ،ایک غیر اختیاری شیٔ ہے اور طبیعی قوانین کے تابع ہے. پس جو بھی چیز اس پر مرتب ہوگی اسی قوانین کیتابع ہوگی۔

انسان بھی اگر چہ خواہشات سے وجود میں آتا ہے جو ہمارے اندر موجود ہے لیکن فطرت سے بے ربط نہیں ہے. نفسیاتی علوم کے ماہرین نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عوامل طبیعی خصوصاً انسان میں خواہشات کے بر انگیختہ کرنے کا موجب ہوتا ہے ہم لوگوںنے بھی تھوڑا بہت آزمایا ہے اور معروف بھی ہے کہ زعفران خوشی دلاتا ہے اور مسور کی دال قلب میں نرمی پیدا کرتی ہے قانون وراثت کی بنیاد پر انسان اپنے اباء و اجداد کی بہت سی خصوصیات کا وارث ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.

یہ تمام چیزیں طبیعی وفطری عوامل کے مطابق انسان کے مجبور ہونے کی دلیل ہے اور ان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ارادہ ،فطری اور طبیعی عوامل کے ذریعہ حاصل ہوتاہے گر چہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(۱) بابا طاہر کہتے ہیں :

ز دست دیدہ و دل ہر دو فریاد

کہ ہرچہ دیدہ بیند دل کند یاد

بسازم خنجری نیشش ز پولاد

زنم بر دیدہ ، تا دل گردد آزاد

میں چشم و دل ، دونوں سے رنجیدہ ہوں کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے اسے دل محفوظ کرلیتا ہے ۔میں ایسا خنجر بنانا چاہتا ہوں جس کی نوک فولاد کی ہواور اسی سے آنکھ پھوڑ دوں گا تاکہ دل آزاد ہوجائے ۔

۲۰۵

اور اس کا عکس بھی صادق ہے کہ کہا گیا ہے :

از دل برود ، ہر آن کہ از دیدہ برفت

جو کچھ آنکھ سے پوشدہ ہو جاتا ہے دل سے بھی رخصت ہو جاتا ہے ۔

بغیر کسی مقدمہ کے ارادہ کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱)قابل ذکربات یہ ہے کہ حیاتی اور مادی جبر میں انسان کے معنوی جوہر اور روحانی حالات کی نفی پر تاکید ہوئی ہے اور انسان کو ہمیشہ ایک مادی مخلوق سمجھا جاتا ہے لیکن فطری شبہہ کا جبر میں کوئی اصرار پایا نہیں جاتا ہے بلکہ فطری اسباب و علل اور ان پر حاکم قوانین کے مقابلہ میں فقط انسان کے تسلیم ہونے کی تاکید ہوئی ہے یعنی اگر انسان میں روح اور حالات نفسانی ہیں تو یہ حالات فطری علتوں کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور اس میں انسان کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے

۲۰۶

فطری جبرکی تجزیہ و تحلیل

اس طرح کے جبر کا عقیدہ انسان کے کردار وشخصیت سازی اور طبیعی ،فکری اورموروثی عوامل کے کردار میں افراط ومبالغہ سے کام لیناہے انسانوں کی متفاوت ومتفرق زندگی اور وراثت کے عنصر کا کسی طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کے کردار وشخصیت سازی کے سلسلہ میں تمام موثرعوامل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ارثی علت میں منحصر کرناکسی طرح صحیح نہیں ہے. انسان کو اس زاویہ سے نگاہ کرنے میں بنیادی اشکال اس کے معنوی اور روحانی جہت سے چشم پوشی کرناہے. جبکہ گذشتہ فصلوں میں قرآنی آیات اور فلسفی براہیں سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے انسانوں کے فہم واحساسات کے مرکز ، معنوی اور غیر مادی جوہر کے وجود کو ثابت کیا ہے. نفس مجرد کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد اس قسم کے جبر پر اعتقاد کے لئے کوئی مقام نہیں ہے اس لئے کہ ارادہ کا آزاد ہونا انسان کے روح مجرد کی قابلیتوں میں سے ایک ہے اور انسان کے آزاد ارادے کو مورد نظر قرار دیتے ہوئے ،اگر چہ مادی ترکیبات کے فعل و انفعالات اور فطری عوامل کا کردار قابل قبول ہے لیکن ہم اس نکتہ کی تاکید کررہے ہیں کہ ان امور کا فعال ہونا اختیار انسان کے سلب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے.مادی ترکیبات کے فعل وانفعالات کے حصول اور بعض خواہشات کے بر انگیختہ ہونے میں خارجی عوامل اور ان کی تاثیروں کے باوجود کیا ہم ان عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتے ہیں ؟اس سلسلہ میں اپنی اور دوسروں کی روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ نمونوں سے روبرو ہوتے رہے ہیں۔

قانون وراثت کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے کہ جو فرزند اپنے آباء واجداد سے بعض خصوصیات کا وارث ہواہے وہ کسی بھی انتخاب کی قدرت نہیں رکھتا ہے. اگرمذکورہ امور کو بعض انسانی اعمال کا نتیجہ فرض کرلیا جائے تو یہ جزء العلة ہوں گے لیکن آخر کار ، انسان بھی اختیار استعمال کرسکتا ہے اور تمام ان عوامل کے تقاضوں کے بر خلاف دوسرے طریقہ کار کے انتخاب کی بنا پر انسان کے بارے میں مادی فعل وانفعال اور وراثت کی صحیح پیش بینی ،فطری عوامل کے اعتبار سے نہیں کی جا سکتی ہے۔

۲۰۷

خلاصہ فصل

۱۔ گذشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کرامت اکتسابی ، انسان کے اختیار و ارادہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے. ہم اس فصل میں مسئلہ اختیار اور اس کے حدود کے اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کریںگے ۔۲۔ انسان ایسی مخلوق ہے جو آزمائش ،انتخاب اور قصد وارادے سے اپنے افعال کو انجام دیتا ہے عقلی ونقلی دلیلیں انسان کے اندرپائے جانے والے عنصر (اختیار) کی تائید کرتی ہیں. لیکن اس کے باوجودکچھ شبہات بیان کئے گئے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے.۳۔مسلمانوں کے درمیان ایک گروہ (مجبرہ)ہے جو بعض آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کو ارادۂ الہی کے زیر اثر، فاقداختیار سمجھتا ہے۔ وہ آیات وروایات جو خدا کے علم مطلق اور وہ آیات وروایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ کوئی بھی چیز خدا کے اذن وارادے سے خارج نہیں ہے اور وہ دلیلیں جو بیان کرتی ہیں کہ انسانوں کا مقدر پہلے سے ہی آراستہ ہے. اس گروہ (مجبرہ) نے ایسی ہی دلیلوں سے استناد کیا ہے۔۴۔ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ تمام مورد نظر دلیلیں عقیدہ ٔ تفویض کی نفی کررہی ہیں اور اس نکتہ کو ثابت کررہی ہیں کہ خداوندعالم ابتداء خلقت سے تاابددنیاکاعالم و نگراں نیزمحافظ ہونے کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کرتا ہے اور یہ کہ تمام چیزیں اس کے قضاء وقدر سے مربوط ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر واقعہ کے متحقق ہونے کے لئے کافی ووافی شرائط کا ہونا ضروری ہے منجملہ شرائط ، انتخاب کے بعد قصد کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام اشیاء خداوند عالم کے ارادے اور اذن کے حدود میں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲکاارادہ انسان کے ارادے کے مقابلہ میں ہے.بلکہ ہمارا ارادہ بھی ارادۂ پروردگار کے ہمراہ اور طول میں موثر ہے۔۵۔ دوسرا شبہ اجتماعی وتاریخی جبر کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسان قدرت مقاومت نہ رکھنے کے باوجود تاریخی واجتماعی عوامل اور تقاضوں سے متاثر ہے''. ہگل ،ڈورکھیم اور مارکس'' فرد واجتماع کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ایسا ہی نظریہ رکھتے تھے.علم جنٹک کی پیشرفت کے ساتھ یہ شبہ ایجاد ہوتا ہے کہ انسان کا انتخاب در اصل دماغ کے شیمیائی فعل و انفعالات کا نتیجہ ہے اور انسان کا ایک دوسرے سے متفاوت ہونا اس کے جسمی اور موروثی تفاوت کی وجہ سے ہے ، لہٰذا انسان اپنی جسمی اور طبیعی خصلتوں سے مغلوب و مقہور ہے ۔

۶۔ ان دو شبہوں کے جواب میں مذکورہ عوامل کے وجود کا منکر نہیں ہونا چاہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل میں سیاسی ،اقتصادی اور اجتماعی روابط بھی بہت زیادہ اثر انداز ہیں اور انسانوں کی زندگی کے تفاوت میں عنصر وراثت بھی دخیل ہے. لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والوں نے ان عوامل کی تاثیر کے مقدار میں مبالغہ کیا ہے اور درونی و معنوی عوامل کی تاثیر کو بھول بیٹھے ہیں. انسان کا نفس ایک غیر مادی عنصر ہے اورارادہ اس کی قوتوں میں سے ہے جو مادی اور ضمنی محدودیتوں کے باوجود بھی اسی طرح فعالیت اور مقاومت انجام دے رہا ہے.

۲۰۸

تمرین

۱۔انسان کے فردی اور اجتماعی حالات وکردار کے چند نمونے جو اس کے مختار ہونے کی علامت ہیں ذکر کریں؟

۲۔مفہوم اختیار کے استعمال کے چار موارد کی وضاحت کریں؟

۳۔(امر بین الامرین) سے مراد کیا ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کے نظریہ کو بیان کرتا ہے؟

۴۔بعض لوگوں نے خدا وند عالم کے علم غیب سے متعلق شبۂ جبر کے جواب میں کہا ہے کہ: جس طرح بہت ہی صمیمی اور گہرے دوست کی اپنے دوست کے آئندہ کاموں کے سلسلہ میں پیشن گوئی اس کے دوست کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتے اسی طرح خداوند عالم کا علم غیب بھی انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے. آپ کی نظر میں کیا یہ جواب متقن اور قانع کرنے والا ہے؟

۵۔ کیا انسان کے افعال میں خدا کو فعّال سمجھنا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ ہم انسان کے برے کاموں، تمام گناہوں اور ظلم کو اﷲکی طرف نسبت دیں؟اور کیوں؟

۶۔ کیا آیة شریفہ (ومارمیت ذ رمیت ولکن اﷲ رمی) عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کررہی ہے؟ اور کیوں؟

۷۔انسان کا مختار ہونا ،انسانی حوادث کے قانون مند ہونے سے کس طرح سازگار ہے؟

۸۔ وہ اختیار جو حقوقی اور فقہی مباحث میں تکلیف ، ثواب اور عقاب کے شرائط میں سے ہے اور وہ اختیار جو کلامی وفلسفی اور انسان شناسی کے مباحث میں مورد نظر ہے ان دونوں کے درمیان کیا نسبت ہے؟

۹۔ اختیاری کاموں کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل توضیحات میں سے کون سی توضیح صحیح ہے؟

اختیاری فعل وہ فعل ہے جو انسان کے قصد کے تحت ہو۔اور

(الف) اچانک ظاہرہوتا ہے اور انجام پاتاہے۔

(ب) صاحب علت ہے اور انجام پاتا ہے۔

۲۰۹

مزید مطالعہ کے لئے :

۱.جبرو تفویض اور اس کے غلط ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۶۶)خیر الاثر در رد جبر و قدر : قم : انتشارات قبلہ ۔

۔سبحانی ، جعفر( ۱۴۱۱)الٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲، قم : المرکز العالمی للدراسات الاسلامیہ ۔

۔کاکایی ، قاسم (۱۳۷۴)خدامحوری ( اکازیونالیزم ) در تفکر اسلامی و فلسفہ مالبرانچ، تہران : حکمت ۔

۔مجلسی ، محمد باقر ( ۱۳۶۸) جبر و تفویض ، تحقیق مہدی رجائی ؛ مشہد : بنیاد پژوہش ھای اسلامی ۔

۔مرعشی شوشتری ، محمد حسن ( ۱۳۷۲) ''جبر و اختیار و امر بین الامرین ''مجلہ رہنمون ، ش۶۔

۔ملا صدرا شیرازی ، صدر الدین ( ۱۳۴۰) '' رسالہ جبر و اختیار ، خلق الاعمال ، اصفہان : بی نا۔

۔موسوی خمینی ، روح اللہ ( امام خمینی ) (۱۳۶۲)طلب و ارادہ ، ترجمہ و شرح سید احمد فہری ، تہران : مرکز انتشارات علمی و فرہنگی ۔

۲. جبر کے شبہات اور اس کی تحقیقات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو :

۔جعفر ،محمد تقی ؛ جبر و اختیار ، قم : انتشارات دار التبلیغ اسلامی ۔

۔ جعفر سبحانی( ۱۳۵۲) سرنوشت از دیدگاہ علم و فلسفہ، تہران : غدیر۔

۔سعید مہر ، محمد (۱۳۷۵)علم پیشین الٰہی و اختیار انسان ، تہران : پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی ۔

۔صدر ، محمد باقر ( ۱۳۵۹) انسان مسؤول و تاریخ ساز ، ترجمہ محمد مہدی فولادوند، تہران : بیناد قرآن ۔

۔محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۱) نہایة الحکمة ، تعلیق : محمد تقی مصباح یزدی ، ج۲ ، ص ۳۴۶، تہران : انتشارات ، الزہرائ۔

۔طوسی ، نصیر الدین ( ۱۳۳۰) جبر و قدر ، تہران : دانشگاہ تہران۔

۔محمد تقی مصباح؛ آموزش فلسفہ ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی و انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۴۵)انسان و سرنوشت ، تہران : شرکت سہامی انتشار۔

۔مجموعہ آثار ، ج۱ ، تہران : صدرا ۔

۔ احمدواعظی ( ۱۳۷۵)انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۲۱۰

ملحقات

۱۔ مغربی انسان شناسی کے منکرین اور مسئلہ اختیار

ناٹالی ٹربوویک نے انسان کے اختیار یا جبر کے باب میں مغربی منکرین کے نظریوں کو دوسوالوں کے ضمن میں یوں بیان کیا ہے:

الف)کیا انسان کے اعمال وکردار، اس کے آزاد ارادے کا نتیجہ ہیں یا تقریباً بہ طور کامل ماحول ، وراثت ، طفلی کے ابتدائی دور یا خدا کی طرف سے تعیین ہوتا ہے؟مختلف فکری مکاتب کے ابتدائی نظریوں کو عقیدۂ جبر کے کامل جنون سے لے کر اس کے کامل ضدیت کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے:

عقیدہ تجربہ (ہابز) عقیدۂ جبرتام(۱) عقیدہ ہمبستگی(۲) (ہار ٹلی(۳) ہیوم) آزاد ارادہ کا نسبی یا کامل طور پر انکار عقیدہ نفع (بنٹام ،میل)

فرایڈ کے ماننے والے عقیدہ کردار (واٹسن،ا سکینر) فرایڈکے نئے ماننے والے (فروم،اریکسن) عقیدۂ جبر معتدل انسان محوری(مازلو،روجرز) معمولی آزادیۂ ارادہ عقیدہ خرد (وکارسٹ) وجود پسند، انسان محوری(۴) (می(۵) ،فرینکل(۶) ) خدا کو قبول کرنے والوں کا عقیدہ وجود(۷)

____________________

(۱) Total determinism

(۲) associationists

(۳) Hartley

(۴) existential humanists

(۵) May

(۶) Farnkl

(۷) theistic Existentialists

۲۱۱

عقیدہ ٔجبر یا ضدیت (ببر(۱) ،ٹلیچ(۲) ، فورنیر(۳) )تمام ارادہ کی آزادی عقیدہ عروج وبلندی(۴) (کانٹ)عقیدہ وجود (سارٹر)

(ب)عقیدۂ جبر کے اصول کیا ہیں؟

فطری خواہشات

فرایڈ کے ماننے والے : انسان اپنی معرفت زندگی (جنسیت ،بھوک، دور کرنا(۵) اور ان کے مثل چیزوں) اور فطری خواہشات کے زیر نظرہے انسان کے تمام رفتار وکردار صرف ان سازشوں کا نتیجہ ہیںجو فطری ضرورتوں اور مختلف اجتماعی تقاضوں کے درمیان حاصل ہوتی ہیں.فطری خواہشیں غالباً بے خبرضمیر میں موثر ہیں.اس طرح کہ انسان نہ صرف ان کے زیر اثر قرار پاتا ہے بلکہ اکثر خود بھی اس کنٹرول سے بے خبر ہے. آرتھونلک کے اعصابی اطباء : (نیوبلڈ) اس گروہ کا نظریہ ،عقیدۂ اخلاق کے نظریہ کی طرح ہے انسان محوری (روجرز، مازلو)انسان مادر زاد خواہشات کا حامل ہے جو اسے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے پیش کرتا ہے۔

موروثی وجود

وراثت سے استفادہ کا مکتب :(۶) (جنسن(۷) ،شاکلے(۸) ہرنشٹائن(۹) )اکثر انسان

____________________

(۱) Buber

(۲) Tillich

(۳) Fournier

(۴) transcendentalists

(۵) Elimination

(۶) Inherited L.O.School

(۷) Jensen

(۸) Shockley

(۹) Hernstien

۲۱۲

کا شعورمیراثی ہوتا ہے عقل وخرد سے مربوط تمام رفتار وکردار، ایسے حصہ میں قرار پاتے ہیںجو مخصوص طریقے سے وارث کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔(۱) نظریۂ علم حیات کے مطابق اکثر انسان کے رفتار و کردار اوراس کی افسردگی ،بیرونی درونی ارثی توجہ کا نتیجہ ہیں۔

ماحول کی توانائیاں

افعال گرائی کے نظریہ کے حامی :( واٹسن) کے مطابق انسان کے رفتار و کردار کو ماحول ہی معین کرتا ہے۔

اصول پسندی کے حامی :(ا سکینر) کا کہنا ہے اسباب ماحول ،رفتار وکردار کے مہم ترین معین کرنے والوں میں سے ہیں.اگر چہ فطری عوامل بھی موثر ہیں۔

اجتماعی محافظت کا نظریہ پیش کرنے والے :(بانڈرا،برکوٹز(۲) )اکثررفتار وکردار ، مخصوصاً اجتماعی رفتار وکردار، ماحول کی دینہے نہ کہ فطری خواہشات کا میلان۔

فرایڈ کے نئے ماننے والے : (فردم،اریکسن)کا کہنا ہے فرہنگی اور اجتماعی ماحول ،انسان کے رفتار وکردار کو ترتیب دینے والی بہت ہی مہم قوت ہے. علم حیات کی فطری خواہشات کم اہمیت کی حامل ہے ۔

کارل مارکس کے عقیدہ کے حامی کہتے ہیں : اسباب صنعت یا اقتصادی نظام انسان کے اعتباری چیزوں اور یقینیات کو ترتیب دینے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور اس کے رفتار وکردار کے ایک عظیم حصہ کو بھی معین کرتے ہیں۔

انسان محوری کے دعویدار :(روجرز،مازلو) کے مطابق رفتار وکردار کو اجتماعی عوامل اور معین ماحول ترتیب دے سکتا ہے ۔

____________________

(۱) Eysenck

(۲) Berkowitz

۲۱۳

اگر معنوی احترام اور جسمانی آسودگی کی ابتدائی ضرورت حاصل نہ ہوں تو ماحول ومحیط کے اسباب انسان کو منحرف کرسکتے ہیں اورتکامل و ارتقاء کی راہ میں مانع ہوسکتے ہیں لیکن اگر یہ ابتدائی ضرورت حاصل ہو تو انسان ترقی کرسکتا ہے اور اپنے ہی طرح(۱) دوسرے اہداف کو متحقق کرسکتا ہے جو بیرونی ماحول کے زیر اثر نہیں ہیں.

معنوی قوتیں(۲)

اکثرمفکرین ایسی طاقتوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں جوکسی اندازے یا وضاحت سے روشن نہیں ہوتی ہیں ۔لیکن اکثر بزرگ علماء انسان کے رفتار وکردار میں خدا یا خداؤںکی دخالت کے معتقد ہیں،پوری تاریخ میں حتیٰ گذشتہ چند سالوں میں بھی اکثر معاشروں نے مادیات کے مقابلہ میں معنویات کی زیادہ تاکید کی ہے.

۲۔ خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت اور مسئلہ اختیار

خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت جو کہ انسان کے اختیاری اعمال میں بھی شامل ہے اور قرآن کی آیات میں بھی اسکی وضاحت ہوئی ہے جیسے (قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَی ٍٔ)(۳) (وَ اﷲُخَلَقَکُم ومَا تَعمَلُونَ)(۴) یہ آیات عقیدۂ جبر رکھنے والوں کے لئے ایک دلیل وسند بھی ہوسکتی ہے.لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات میں غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات بھی اس کی فعالیت کی نفی نہیں کررہی ہیں بلکہ حقیقی توحید اور انسان کے اختیار ی کاموں میں خدا وند عالم کے مقابلہ میں انسان کی فعالیت کے برابر نہ ہونے کو بیان کررہی ہیں.اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کسی فعل کو دو یا چند فاعل کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو مذکورہ فعل کا متعدد فاعل سے انجام پانا مندرجہ ذیل چار صورتوں میں سے ایک ہی صورت میں ہوگا۔

____________________

(۱) self-actualization

(۲) spiritual forces

(۳)رعد ۱۶

(۴)صافات ۹۶۔

۲۱۴

الف)ایک حقیقی فاعل ہے اور دوسرا مجازی فاعل شمار ہوتا ہے اور فعل کے انجام دینے میں کوئی کردار نہیں رکھتا ہے۔

ب) ایک فاعل حقیقی ہے اور دوسرا اس کا مددگار ہے

ج) متعدد فاعل نے ایک دوسرے کی مدد سے کام کو انجام دیا ہے اور کام کا بعض حصہ ہر ایک سے منسوب ہے.

د) دو یا چند فاعل فعل کو انجام دینے میں حقیقی کردار ادا کرتے ہیںاور یہ فعل ان میں سے ہر ایک کا نتیجہ ہے. لیکن ہر ایک کی علت فاعلی دوسرے سے بالا تر اور طول میں واقع ہے.

قرآن مجید کی آیات فقط چوتھی صورت سے مطابقت رکھتی ہے اور خدا وند عالم کی فاعلیت کو انسان کی فاعلیت کے طول میں بیان کرتی ہیں لہذا انسان کا اختیاری فعل درحقیقت فعل خدا بھی ہے اور فعل انسان بھی، مخلوق خدا بھی ہے اور مخلوق انسان بھی اس لئے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں اور فعل کو ان دونوں کی طرف نسبت دینے میں بھی کوئی عقلی مشکل نہیں ہے.(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں : جوادی آملی، عبد اللہ ؛ تفسیر موضوعی قرآن کریم ، توحید و شرک ، مصباح یزدی ، محمد تقی ؛ معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۱۰۶، ۱۲۴۔

۲۱۵

۳۔ طینت کی روایات کا دوسرا جواب

ایک فلسفی مقدمہ قرآن میں موجود ہے جس کے بہت ہی دقیق ہونے کی وجہ سے ہم آسان لفظوں میں اشارہ کرتے ہوئے اس مقدمہ کو پیش کریںگے۔البتہ یہ مقدمہ بہترین جواب اور روایات طینت کے لئے بہترین توجیہ ہے :

عالم مادی کے علاوہ عالم برزخ ،عالم قیامت اور عالم آخرت جیسے دوسرے جہان بھی ہیں اور روایات ،مذکورہ عالم میں سے عالم آخرت کو بیان کررہی ہے. عالم آخرت میں زمان ومکان وجود نہیں رکھتا ہے جو کچھ اس دنیا میں زمان ومکان کے دامن میں واقع ہوتا ہے اس عالم میں اکٹھا اور بسیط انداز میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اس دنیا کے ماضی ،حال اور آئندہ، اس دنیا میں یکجا ہوںگے .پوری یہ دنیا جس میں ایک طولانی زمان ومکان موجزن ہے ، اس دنیا میں صرف ایک وجود کی طرح بسیط اور بغیر اجزا کے ہوںگے .لہذا وہ چیزیں جو اس دنیا میں موجود ہیں وہاں بھی ہیں.(۱) روایات طینت اُس دنیا اور اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتی ہیں کہ یہ انسان جو پوری زندگی بھرترقی کرتا ہے اور بعد میں اپنے اختیار سے ایسے اعمال انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اچھا یا برا ہوجاتا ہے.یہ تمام چیزیںاس دنیا میں یکجا موجود ہیں اور انسان کا اچھا یا برا ہونا اس کے دنیا میں آنے سے پہلے اس عالم میں معلوم ہے.اس لئے کہ اس دنیا کے یا اسی کے تمام مراحل وہاں موجود ہیں آیا اب یہ گفتگو یعنی اس دنیا میں اچھا یا برا معلوم ہونے کا معنی جبر ہے؟ نہیں، اگر لوگ اس دنیا میں بااختیار عمل انجام دیتے ہیں تو اس دنیا میں بھی اسی طرح یکجا ہوںگے اور اگر مجبور ہیں تووہاں بھی یکجا جبر ہی ہوگا قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید انسان کو اس دنیا میں مختار بتارہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا یکجا اور بسیط وجود بھی مختار ہے ایسے عالم کا ہونا ،اس میں انسان کا حاضر ہونا اور وہاں اچھاا ور برا معلوم ہونا انسان کے مختار ہونے سے منافات نہیں رکھتا ہے. پس روایات طینت ،انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہیں۔

۴۔ فلسفی جبر

بعض فلسفی قواعد بھی انسان کے اختیاری افعال میں جبر کے توہم کا سبب بنے ہیں اسی بنا پر بعض لوگوں نے ان قواعد کو غلط یا قابل استثناء کہا ہے اور بعض لوگوں نے انسان کے اختیاری افعال کو جبری قرار دیا ہے .منجملہ قاعدہ (الشَیٔ مَالم یجِب لم یُوجد) ہے (ہر وہ چیز جب تک سرحد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچے وجود میں نہیں آئے گی ) جبر ایجاد کرنے میں اس قاعدہ کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ قاعدہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی شامل ہے اختیاری افعال بھی جب تک سر حد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچیں متحقق نہیں ہوںگے چونکہ ایساہی ہے لہٰذا ہر اختیاری فعل جب تک سرحد

____________________

(۱) اس عالم میں ''ابھی ''کی تعبیر مجبوری کی وجہ سے ہے ورنہ اس دنیا میں حال ، گذشتہ اور آئندہ نہیں ہے ۔

۲۱۶

وجوب تک نہیں پہونچا ہے محقق نہیں ہوگا اور جب سر حد ضرورت ووجوب تک پہونچ جائے گا تو انسان چاہے یا نہ چاہے قطعاً وہ فعل محقق ہوگا .اسی لئے انسان محکوم ومجبور ہے اور اس کے ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔

اس شبہہ کے جواب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ قاعدہ عقلی اور کلی ہے اور قابل استثناء نہیں ہے اور یہ بات اپنی جگہ ثابت اور مسلم ہے لیکن اس قاعدہ سے جبر کا استخراج اس سے غلط استفادہ کرنے کا نتیجہ ہے. اس لئے کہ یہ قاعدہ یہ نہیں بتاتا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال کن شرائط میں مرحلہ وجوب وضرورت تک پہونچتے ہیں بلکہ صرف مرحلہ ضرورت ووجوب تک پہونچنے کی صورت میں اختیاری فعل کے حتمی متحقق ہو نے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور اختیاری افعال میں یہ وجوب وضرورت ارادہ کے تحقق ہونے سے وابستہ ہے اور جب تک ارادہ متحقق نہ ہووہ مرحلہ ضرورت ووجوب تک نہیں پہونچے گا لہذا اگر چہ اس قاعدہ کے مطابق جس وقت اختیاری فعل مرحلہ ضرورت تک پہونچے گا تحقق حتمی ہے لیکن اسکا مرحلہ ضرورت تک پہونچنا ارادہ کے تحقق سے وابستہ ہے اور ایسی صورت میں یہ قاعدہ نہ صرف انسان کے اختیار سے کوئی منافات نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے معنی انسان کا حقیقی مختار ہونا ہے۔

دوسرا قاعدہ جو جبر کے توہم کاباعث ہوا ہے وہ قاعدہ (ارادہ کا بے ارادہ ہونا )ہے. اس شبہہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر اختیاری فعل ارادہ سے پہلے ہونا چاہیئے اور خود ارادہ بھی انسان کے درونی اختیاری افعال میں سے ہے لہٰذا اسکے اختیاری ہونے کے لئے دوسرے ارادہ کا اس کے پہلے ہونا ضروری ہے اورپھر تیسرے ارادہ کا بھی دوسرے ارادہ سے پہلے ہونا ضروری ہوگا ، اور یہ سلسلہ لا محدود ہونے کی وجہ سے متوقف ہوجاتا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ وہ ارادہ اب اختیاری نہیں رہا بلکہ جبر ہوگیا ہے اور جب وہ ارادہ جبری ہوگیا تو اختیاری فعل بھی جو اس سے وابستہ ہے جبری ہو جائے گا۔

اس کا جواب جو کم از کم فارابی کے زمانے سے رائج ہے متعدد ومتنوع جوابات سے مزین ہیں جن میں سے سب سے واضح جواب ذکرکیا جا رہا ہے ۔

اختیاری فعل کا معیار یہ نہیں ہے کہ ارادہ سے پہلے ہو،تا کہ اختیاری فعل کے لئے کوئی ارادہ نہ ہو ، بلکہ اختیاری فعل کا معیار یہ ہے کہ ایسے فاعل سے صادر ہو جو اپنے کام کو رضایت اور رغبت سے انجام دیتا ہے.ایسا نہ ہوکہ ایک دوسرا عامل اس کو اس کی رغبت کے خلاف مجبور کرے.انسان کے تمام اختیاری افعال منجملہ انسان کا ارادہ اسی طرح ہے اور ہمیشہ انسان کی خواہش سے انجام پاتا ہے اور انسان ان کے انجام دینے میں کسی جبر کا شکار نہیں ہے ۔

۲۱۷

تیسرا قاعدہ جو فلسفی جبر کے توہم کا موجب ہواہے وہ قاعدہ (ایک معلول کے لئے دو علت کا محال ہونا )(استحالةُ تواردِ العلّتین علیٰ معلولٍ واحدٍ ) ہے ، اس شبہہ میں کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات منجملہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم کی مخلوق اور معلول ہیں اور یہ موضوع متعدد عقلی ونقلی دلیلوںپر مبنی ہے جسے ہم مناسب مقام پر بیان کریں گے اس وقت اگر انسان کے اختیاری افعال کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حوادث انسان کے اختیاروارادہ سے وابستہ ہیں تو اس کا معنی یہ ہیں کہ انسان بھی ان حوادث کے رونما ہونے کی علت ہے اور اس کا لازمہ ،ایک معلوم کے لئے (انسان کا اختیاری فعل ) دو علت (خدا وانسان )کا وجود ہے اور اس کو فلسفہ میں محال مانا گیا ہے کہ ایک معلوم کے لئے دوعلتوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ میں اورہم رتبہ ہونالازم آتاہے ،لیکن طول میں دو علتوں کا وجود اس طرح کہ ایک دوسرے سے بالا تر ہوں یہ فلسفی اعتبار سے نہ فقط محال نہیں ہے بلکہ فلسفی مباحث کے مطابق دنیا کی خلقت اسی اصول پر استوار ہے اور انسان کے اختیاری افعال کے سلسلہ میں صورت یوں ہے کہ انسان کے اختیاری افعال سے منسوب خدا وند عالم کی علت اور اس کی فاعلیت بالاتر ہے اور انسان اور اس کا اختیار ارادۂ خدا کے طول میں واقع ہے اسی بنا پر خداوند عالم کی علیت ،انسان اوراس کے اختیار کی علیت بھی قابل قبول ہے اوریوں کسی طرح کا کوئی جبر لازم نہیں آتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: سبحانی ؛ الالٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲ ص ۲۰۳، ۲۰۴؛ محمد تقی مصباح ؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۳۷۸، ۳۸۹۔

۲۱۸

آٹھویں فصل

مقدمات اختیار

اس فصل کے مطالعہ سے اپنی معلومات کو آزمائیں :

۱۔ان عناصر کا نام بتائیں جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے تحقق میں محتاج ہے؟

۲۔ انسان کے اختیاری اعمال میں تیں عناصر میں سے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

۳۔معرفت انسان کے اسباب کو آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ درونی کشش(خواہشات)کی تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کے بارے میں مختصر سی وضاحت کریں؟

۵۔ انتخاب اعمال کے معیار کی وضاحت کریں؟

۶۔ عالم آخرت کے کمالات ولذتوں کے چار امتیاز اور برتری کو بیان کریں؟

۲۱۹

گذشتہ فصل میں ہم نے انسان کے متعلق اختیاری رفتار وافعال کو مرتب کرنے والے مختلف اسباب کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ذکر کیا ہے کہ ان اسباب کے درمیان انسان کا اختیار بہت ہی اہم رول ادا کرتا ہے اور انسان کا قصدوانتخاب اس کے اختیاری افعال ورفتار میں سرنوشت ساز ہیں. اس طرح اختیاری رفتار وکردار میں دقت وتوجہ ، حقیقت و اختیارکی ساخت و ساز میں معاون و مددگار ہیں. اسی بنا پر خصوصاً اختیار کی کیفیت کی ترتیب میں قدیم الایام سے متنوع ومتعدد سوالات بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض اہم سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔کیا انسان کا اختیار بے حساب و بہت زیادہ ہے اور کیا کسی قاعدہ واصول پرمبنی نہیں ہے یا اختیارکی ترتیب بھی دوسرے عوامل واسباب کے ماتحت ہے؟

۲۔اختیار کوفراہم کرنے والے اسباب کون ہیں اور انسان کی توانائی ، خواہش اور معلومات کا اس سلسلہ میں کیا کردار ہے ؟

۳۔ اختیاری افعال میں انتخاب و تعیین کا معیار کیا ہے اور فعاّل وعقلمندانسانوں اور بہت زیادہ متاثر افراد کہ جو اپنے انتخاب کی باگ ڈ ور معاشرے کے حالات وماحول کے شانے پرڈال دیتے ہیں اور غفلت یا کسی جماعت کے ساتھ اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اس سلسلہ میں کون سے تفاوت واختلاف موجودہیںبیان کریں ؟

۴۔ کیا انسان کی معرفت کے عام اسباب اورطرز عمل (تجربہ اور تعقل وتفکر)صحیح راہ کے انتخاب ومعرفت کے لئے تمام مراحل میں کفایت کرتے ہیں؟

۵۔ خصوصاً وحی کے ذریعہ استفادہ کی بنیادپر اور گذشتہ سوالات کے جوابات کے منفی ہونے کی صورت میں حقیقی سعادت کے حصول اور صحیح راستہ کے انتخاب اور اس کی معرفت میں (خصوصاً طریقہ وحی)اور (عام طریقہ معرفت )میں سے ہر ایک کا کیاکردارہے؟ اورکیااس موضوع میں دونوں طریقہ ایک دوسرے سے ہماہنگ ہیں؟ اس فصل میں ہم مذکورہ بالاسوالات کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

عمرو بن عبدود جو بہت بڑا بہادر تھا او رتنہا ایک ہزار سوار سے جنگ کیا کرتا تھا_ جنگ احزاب (جنگ خندق) میں جب حضرت علی علیہ السلام سے لڑنے آیا تو آپ نے اس کو قتل کردیا جب کہ آپ کی عمر اس وقت تقریباً بیس سال کی تھی_ کفّار اور بت پرستوں کے اکثر سردار حضرت علی علیہ السلام کے قوی اور توانا ہاتھوں سے ہلاک ہوئے ہیں_

حضرت علی علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے، آپ رات میں نماز شب اور دعا میں مشغول رہتے، رات کی تاریکی میں خدا سے راز و نیاز کرتے اور گریہ و بکا کرتے تھے دس سال کی عمر میں پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کا اظہار کیا اور محراب عبادت میں سحر کے وقت نماز کی حالت میں شہادت پائی_

حضرت علی علیہ السلام بچپن سے پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور پیغمبر (ص) کے علوم سے بہرہ مند ہوتے تھے، آپ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد سب سے زیادہ علم رکھتے تھے لوگ آپ سے کسب علم کیا کرتے تھے، آپ کے فیصلے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے تھے، آپ سے ہزاروں حدیثیں مروی ہیں اور آپ کا مجموعہ کلام نہج البلاغہ، علم و دانش اور ادب و معنویت کا ایک بیکراں دریا ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:

'' میں علم کا شہر ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ہیں جو شخص شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ دروازہ سے داخل ہو''_

آپ کی انھیں آسمانی علوم اور معنوی صلاحیتوں کی وجہ سے پیغمبر(ص) نے آپ کو ولایت و رہبری کے منصب پر فائز ہونے کا لوگوں کے سامنے اعلان کیا اور آپ کے

۲۸۱

حق میں فرمایا کہ:

' ' جس نے میری ولایت کو قبول کیا ہے اس کے ولی علی (ع) ہیں''_

حضرت علی علیہ السلام محنتی و فعّال اور زحمت کش انسان تھے آپ نے اپنے ہاتھ سے کافی کھجوروں کے بڑے باغ بنائے اورگہرے کنویں کھودے، آپ دن و رات محنت کرتے تھے لیکن مال و دولت کے اکٹھا کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی زندگی کے معاش کے پورا کرنے اور لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایسا کرتے تھے_

آپ جو کچھ کماتے تھے اسے راہ خدا میں خرچ کردیتے تھے ، لذیذ اور مختلف اقسام کی غذا کھانے سے پرہیز کرتے تھے، آپ کا لباس اورخوراک عام فقراء جیسا ہوا کرتا تھا، آپ بہت سختی و تنگی میں زندگی بسر کیا کرتے تھے ،اپنی آمدنی کو یتیموں ، بیوہ عورتوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیتے تھے، ماں و دولت اورجاہ و حشم سے آپ کو ی وابستگی نہ تھی اور جو کچھ کرتے تھے وہ خلق خدا کی خدمت ل ے کرتے تھے _ حضرت علی علیہ السلام بہت خوش اخلاق اور مہربان تھے، کسی کا مذاق نہیں اڑاتے تھے، آپ کے دین مبارک سے ناروابات نہ نکلتی تھی ، آپ بہت متواضع تھے لیکن اس کے باوجود رعب و ہیبت کے مالک تھے ، ظالموں کے سامنے بہت سخت اور مظلوموں کے ل ے ہمدرد تھے_

مجرموں اور گناہکاروں کو حتی الامکان عفو کرتے تھے اسے سزا پر ترجیح دیتے تھے اور ظالموں کو اس لرے قتل کرتے تھے یا مجروں سے اس ل ے قصاص لیتے تھے تا کہ معاشرے میں امن و امان برقرار رہے _

۲۸۲

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت مثالی شخصیت تھی ، تمام انسانی کمالات آپ میں جمع تھے ، ایسا شخص نہ صرف مسلمانوں کے ل ے بلکہ ہر آگاہ اور روشن فکر انسان کے ل ے نمونہ عمل ہے _

پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:

قال رسول الله صلی الله علیه و آله : انا مدینة العلم و علی بابها فمن اراد العلم فلیاته من بابه (۱)

''میں علم کا شہر ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ میں جو شہر میں آنا چاہتا ہے اسے چاہی ے کہ اس کے دروازہ سے آئے ''_

____________________

۱_ کتاب مجمع الزوائد جلد ۹

۲۸۳

سوالات

مندرجہ ذیل سوالات کے متعلق سوچو اور ان کے جوابات دو اور اپنی صفات و کردار حضرت علی (ع) کے صفات و کردار سے موازنہ کرو اورارتقاء کی منزل تک پہونچنے کے لئے کوشش کرو _

۱_ حضرت علی علیہ السلام کا لباس اور آپ کی خوراک کیسی تھی؟

۲_ آپ کا اخلاق کیسا تھا؟

۳_ ستم گروں کے ساتھ کیساسلوک کیا کرتے تھے اور مظلوموں کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہوتا تھا؟

۴_ پیغمبر اسلام (ص) نے آسمانی علم حاصل کرنے کے لئے کون سا راستہ معین کیا ہے ؟

۵_ حضرت علی علیہ السلام کی بہادری اور شجاعت کیسی تھی ؟ آپ کی شجاعت کے دو نمونے پیش کرو _

۶_ آپ کا جہاد سے عشق کیسا تھا؟ آپ کے اس سے متعلق دو جملے نقل کرو _

۷_ کیا کسی سے قصاص لیتے تھے ؟ مجرم کو معاف کردینا زیادہ پسند کرتے تھے یا سزادینا؟

۸_ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان کا اظہار کس عمر میں کیا تھا اور کس طرح آپ نے پیغمبر (ص) کی مدد کی تھی ؟

۲۸۴

۹_ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے رشتے داروں کی دعوت میں حضرت علی علیہ السلام کو کیا منصب عنایت فرمایا تھا؟

۱۰_ ہجرت کی رات پیغمبر اسلام (ص) کی کس طرح مدد کی تھی ؟

۱۱_ جنگ احد میں پیغمبر اسلام (ص) کی کس طرح مدد کی تھی اور فرشتہ نے آپ کے بارے میں کیا کہا تھا؟

۲۸۵

بارہویں امام (ع) کی غیبت اور ظہور

امام زمانہ علیہ السلام پندرہ شعبان سنہ ۲۵۵ ھ صبح کے وقت شہر سامرہ میں پیدا ہوئے آپ کا اسم مبارک محمد اور لقب مہدی ، قائم ، امام زمانہ اور ولی عصر ہے آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں_

آپ کو علم ہوگا کہ ظالم خلیفہ عباسی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو ان کے والدکے ہمراہ سامرہ لے گیا تھا اور آپ کو ایم محلہ میں جو فوجی مرکز بھی تھا زیر نظر رکھا تھا اور کبھی آپ کو قید خانہ میں بھی ڈال دیتا تھا یہاں تک کہ اٹھائیس سال کے سن میں آپ کو شہید کردیا نیز وہ ہمیشہ آپ کے جانشین کی تلاش میں رہتا تھا تا کہ انھیں بچپن میں ہی قتل کردے لہذا امام زمانہ (ع) کی ولادت بہت مخفی طور سے کوئی اور آپ خدا کے حکم سے بچپن سے ہی لوگوں کی نظروں سے غائب رہے _

پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے پہلے ہی سے مسلمانوں کو خبر دے دی تھی کہ مہدی (ع) گیارہویں امام کے فرزند مجبورا نظروں سے غائب رہیں گے _

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :

'' ہمارے مہدی کے لئے دو غیبت ہیں ایک مختصر اور دوسری طویل، مختصر غیبت میں مخلص شیعوں کو آپ کی جائے سکونت کا علم ہوگا لیکن غیبت کبری میں کسی کو بھی آپ کے

۲۸۶

محل سکونت کی اطلاع نہ ہوگی مگر چند آپ کے نزدیک ترین دوستوں کو '' _

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو اپنے فرزند بارہویں امام (ع) کا دیدار کرایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ :

'' خدا نے میرے بعد آپ کو امامت کے لئے معین کیا ہے ''_

بارہویں امام (ع) اپنے والد کی شہادت کے بعد بہت کم دکھائی دیتے تھے اور اکثر نظروں سے غائب رہا کرتے تھے_

۲۸۷

غیبت صغری اور کبری :

امام مہدی علیہ السلام کے لئے دو غیبت ہیں پہلی غیبت صغری اور دوسری غیبت کبری ہے ، غیبت صغری تقریبا ۵۹ سا ل تک رہی ، آپ کے والد کی شہادت کے بعد جو سنہ ۲۶۰ میں ہوئی غیبت صغری شروع ہوئی اور اس کا سلسلہ سنہ ۲۲۹ ھ تک رہا _

امام زمانہ (ع) اس مدت میں عام لوگوں کی نگاہوں سے غائب تھے لیکن لوگوں کا ربط امام زمانہ (ع) سے چار آدمیوں کے واسطہ سے کہ جنھیں آپ نے اپنا نائب اور وکیل معین کیا تھا ، رہا کرتا تھا ، مومنین ان وکیلوں کے ذریعہ امام زمانہ (ع) سے رابطہ قائم کرتے تھے آپ کے پاس خطوط بھیجتے تھے اور آپ ان کے جواب دیتے تھے _

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے چار وکیل تھے جنھیں نواب اربعہ کہا جاتا ہے اور وہ جناب عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، حسین بن روح اورعلی بن محمد تھے _

یہ چاروں ائمہ علیہم السلام کے مورد اعتماد اصحاب تھے اور یہ حضرات مذکورہ ترتیب سے ایک کے بعد وکیل ہوتے رہے _

ان حضرا ت کو نائب امام (ع) اور باب امام بھی کہا جاتا تھا _ حضرت اما م مہدی علیہ السلام ان ہی کے ذریعہ لوگوں کی مشکلات کو حل کیا کرتے تھے اور لوگوں کے خطوط کے جواب دیتے تھے اور کبھی خود بھی ان وکیلوں کو خط لکھ دیا کرتے تھے یہ سلسلہ چوتھے نائب کی وفات تک جاری رہا کہ جن کانام علی بن محمد ہے انہوں نے اپنی وفات سے کئی دن پہلے وہ خط جوان کے پاس امام زمانہ (ع) کی طرف سے آیا تھا لوگوں کو دکھلایا

۲۸۸

اس خط میں یہ تحریر تھا:

'' اے علی بن محمد ، خداوند عالم تیرے وفات کا اجر تیرے دوستوں کے لئے زیادہ کرے تم جان لو کہ چھ دن کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوجاؤ گے لہذا اپنے کاموں کو صحیح کرلو اور اپنا جانشین کسی کو معین نہ کرنا کیونکہ اب غیبت کبری کا زمانہ آگیا ہے اس کا سلسلہ طویل رہے گا اور میں اذن الہی سے ظہور کروں گا ''_

علی بن محمد نے یہ خط شیعوں کو دکھایا اور چھ دن کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا اس وقت سے غیبت کبری کا زمانہ شروع ہوگیا _

خداوند عالم نے اپنی قدرت کاملہ سے امام زمانہ (ع) کو ایک طویل عمر عنایت فرماری ہے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ غیبت میں زندگی بسر کریں اور ضرورت کے وقت تمام مسلمانوں کی مددبھی کرتے رہیں اور پاک دلوں کی خداوند عالم کی طرف ہدایت بھی کرتے رہیں موجودہ دور میں امام زمانہ (ع) نظروں سے غائب ہیں لیکن پھر بھی لوگوں کے درمیان آمد و رفت رکھتے ہیں ، لوگوں کی مدد کرتے ہیں ، اپنے فرائض کو انجام دیتے رہتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہونچاتے رہتے ہیں _

پیغمبر اسلام(ص) سے سوال کیا گیا کہ لوگ بارہویں امام (ع) کی غیبت کے زمانہ میں آپ سے کس طرح فائدہ حاصل کر سکیں گے ؟ تو آپ (ع) نے اس کا جواب دیا کہ :

'' جیسے سورج سے اس پر بادل چھا جانے کے بعد لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں اسی طرح امام زمانہ (ع) سے غیبت کے زمانہ میں فائدہ حاصل کریں گے ''_

اگر امام زمانہ (ع) آشکا ر طور سے لوگوں کے درمیان زندگی گذارتے تو تو ظالموں کے

۲۸۹

ہاتھوں قتل کردیئےاتے کیونکہ پیغمبر اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے لوگوں کو پہلے ہی سے خبر دی تھی کہ :

'' مہدی موعود (ع) ، قائم آل محمد (ص) ظالموں و طاغوتوں کے سخت دشمن ہوں گے اور اپنے وفادار دوستوں کے ذریعہ ایک سخت انقلاب بر پا کرکے ظالموں کے تخت کو ساری دنیا میں الٹ دیں گے _

محروم اور مستضعف طبقے کی حکومت اس جان میں برپا کریں گے اور توحید و خداپرستی کے کامیاب پرچم کو تمام جہان پر بلند کردیں گے '' _

ظالموں اور طاغوتوں نے یہ بات سن رکھی تھی اور وہ خوف و ہراس سے ایسے شخص کی تلاش میں رہا کرتے تھے _ اگر آپ لوگوں میں آشکار طور پر زندگی گذارتے تو قبل اس کے کہ آپ اپنے وفادار ساتھی بناتے اور انقلاب جہانی کے مقدمات فراہم کرتے ، ظالموں کے ہاتھوں قتل کردیئےاتے اور زمین حجت خدا سے خالی ہوجاتی _

لیکن آج آپ پردہ غیبت میں ہیں اور شیعہ آپ کے ظہور کے منتظر ہیں ، آپ کی عالمی اسلامی حکومت کیلئے زمین ہموار کررہے ہیں اور اس امید پر کوشش کررہے ہیں کہ آپ کے نورانی چہرہ کے دیدار کے ساتھ اپنی اور پورے عالم کی اصلاح آپ کے ذریعہ سے ہوگی _

امام زمانہ (ع) کا غیبت کبری میں نائب ، فقیہ عادل ہوتا ہے جو قانون و احکام دین کو بتاتا ہے ، قرآن کے قانون اور عالم اسلام کا رہبر و محافظ ہوتا ہے لہذا تمام مسلمانوں

۲۹۰

پر فرض ہے کہ اس کے حکم کو قبول کریں تا کہ امام زمانہ (ع) کی زیارت کرنے کے لائق ہوسکیں _

قرآن کی آیت :

( و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین ) (۱)

'' اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین پرکمزور کردیئےئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو پیشوا بنائیں اور ان ہی کو اس سرزمین کا مالک بنائیں ''

____________________

۱_ سورہ قصص آیت نمبر ۵

۲۹۱

سوالات

سوچئے اور جواب دیجئے

۱_ کیا بتا سکتے ہیں کہ کیوں امام زمانہ (ع) کی ولادت مخفی سے ہوئی ؟

۲_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بارہویں امام (ع) کی دو غیبت کے متعلق کیا فرمایا ہے ؟

۳_ امام زمانہ (ع) کی غیبت صغری کتنی مدت تک رہی اور اس زمانہ میں امام (ع) کا لوگوں کے ساتھ کیسے رابطہ ہوتا تھا؟ آپ کے نائب کون تھے اور ان میں آخری نائب کون تھا؟

۴ _ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں کیا ذمہ داری ہے ؟ لوگ کس طرح غیبت کے زمانہ میں امام علیہ السلام کے وجود سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، پیغمبر اسلام (ص) نے اس سلسلہ میں کیا فرمایا ہے؟

۵_ غیبت کبری کے زمانہ میں امام زمانہ (ع) کا نائب کون ہے؟

۶___ غیبت کے زمانہ میں لوگوں کا رابطہ رہبر کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے؟

۷___ آپ جانتے ہیں کہ امام زمانہ (ع) کی پیدائشے کے دن کو کیا کہتے ہیں اور کیوں ؟

ترجمہ ختم کیا شب پنجشنبہ سنہ ۱۴۰۵ اختر عباس

۲۹۲

فہرست

عرض ناشر ۴

اہداء ۶

پہلا حصّہ ۷

جہاں کا خالق خدا ۷

کائنات کی تخلیق میں ہم آہنگی کس بات کا ثبوت ہے؟ ۸

سوالات ۱۴

دنیا میں پانی کی گردش ۱۵

سوالات ۱۸

ایمان او رعمل ۱۹

سوالات ۲۳

بہترین سبق ۲۴

سوالات ۲۹

اپنے آپ کو دیکھیں ۳۳

مثانہ گردےونیرنالی وگردے: ۳۴

۲)نیرنالی : ۳۴

۳) مثانہ: ۳۴

۴) پیشاب کے خارج ہونے کا راستہ: ۳۵

قرآن کی آیت : ۳۸

سوالات ۳۹

۲۹۳

جواب دیجئے ۳۹

خالق جہان کے صفات کمالیہ ۴۰

قرآن مجید کی آیت: ۴۳

توحید اور شرک ۴۴

قرآن مجید کی آیت: ۴۷

سوالات ۴۸

عدل خدا ۴۹

ایک سوال ۵۳

جواب ۵۳

اس بحث کا خلاصہ اور تکمیل ۵۴

قرآن مجید کی آیت: ۵۵

سوچئے اور جواب دیجئے ۵۶

دوسرا حصّہ ۵۷

آخرت کے مسائل کے بارے میں ۵۷

(۱) عمل کا ثمر ۵۸

خلاصہ ۶۱

سوالات: ۶۲

(۲) عمل کا ثمر ۶۴

سوالات ۶۹

آخرت کی طرف منتقل ہونا ۷۰

۲۹۴

آیت قرآن مجید: ۷۴

سوالات ۷۵

تذكّر: ۷۵

قرآن کی آیت: ۷۸

سوالات ۷۹

نامہ اعمال ۸۰

الحاصل: ۸۲

آیت قرآن کریم ۸۵

سوالات ۸۶

سوچئے اور جواب دیجئے ۸۶

قیامت کا منظر ۸۸

قیامت کا منظر ۸۸

برزخ اور قیامت ۹۱

برزخ اور قیامت ۹۱

آیت: ۹۳

سوالات ۹۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۹۴

تیسرا حصّہ ۹۵

پیغمبری اور پیغمبروں کے مسائل کے بارے میں ۹۵

پہاڑ کی چوٹی پر درس ۹۶

۲۹۵

سوالات ۱۰۳

پیغمبر یا آخرت کے سفر کے راہنما ۱۰۵

سوالات ۱۰۹

فکر کیجئے، بحث کیجئے اور صحیح جواب تلاش کیجئے ۱۰۹

پیغمبروں کی انسان کو ضرورت ۱۱۰

چند ایک سوال ۱۱۱

قرآن کی آیت: ۱۱۲

سوالات ۱۱۴

سوچیئےور جواب دیجئے ۱۱۴

پیغمبری میں عصمت ، شرط ہے ۱۱۵

پیغمبری میں عصمت ، شرط ہے ۱۱۵

سوالات ۱۱۶

قرآن کی آیت: ۱۱۷

سوالات ۱۱۸

سوچیئے اور جواب دیجئے ۱۱۸

قرآن کی آیت: ۱۲۳

سوالات ۱۲۴

سوچیئےور جواب دیجیئے ۱۲۴

تحقیق اور تکمیل: ۱۲۷

قرآن کی آیت: ۱۲۸

۲۹۶

سوالات ۱۲۹

سوچیئے اور جواب دیجیئے ۱۲۹

مرکز توحید (۱) ۱۳۰

قرآن کی آیت ۱۳۲

مرکز توحید (۲) ۱۳۳

قرآن کی آیت : ۱۳۶

سوالات ۱۳۷

دین یہود ۱۳۸

سوالات ۱۴۲

سوچیئے اور جواب دیجئے ۱۴۲

دین عیسی علیہ السلام ۱۴۳

قرآن مجید کی آیت: ۱۴۷

سوالات ۱۴۸

سوچیئے اور جواب دیجیئے ۱۴۸

قرآن اللہ تعالی کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے ۱۴۹

قرآن مجید کی آیت: ۱۵۳

سوالات سوچیئے اور جواب دیجیئے ۱۵۴

اگر نعمت کی قدرت نہ کریں ۱۵۵

آیت قرآن: ۱۵۸

سوالات ۱۵۹

۲۹۷

چوتھا حصّہ ۱۶۰

پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کے اصحاب کے بارے میں ۱۶۰

پیغمبر اسلام(ص) کی مخفی تبلیغ ۱۶۱

پیغمبر اسلام(ص) کی مخفی تبلیغ ۱۶۱

قرآن مجید کی آیت: ۱۶۴

عالمی دعوت کا اعلان ۱۶۶

قرآن کی آیت: ۱۶۹

سوالات ۱۷۰

ہر قسم کی سازش کی نفی ۱۷۱

قرآن کی آیت: ۱۷۶

سوالات ۱۷۷

پیغمبر (ص) اور مستضعف ۱۷۸

پیغمبر(ص) کی رفتار اور اخلاق: ۱۸۲

سوالات ۱۸۵

سوچیئے اور جواب دیجئے ۱۸۵

پانچواں حصّہ ۱۸۶

اسلام اور اس کے سیاسی و اجتماعی اور اخلاقی امور ۱۸۶

اسلام کی عظیم امّت ۱۸۷

اسلام کی عظیم امّت ۱۸۷

اسلامی سرزمین سے د فاع کرنا: ۱۸۸

۲۹۸

مشترک دشمن کے مقابل مسلمانوں کا اتحاد: ۱۸۹

جہان اسلام کی وحدت اور استقلال کی حفاظت: ۱۹۰

متجاوز سے نمٹنے کا طریقہ: ۱۹۱

قرآن مجید کی آیت: ۱۹۲

سوالات ۱۹۳

سوچیئے اور جواب دیجئے ۱۹۳

اجتہاد اور رہبری ۱۹۴

سوالات ۱۹۸

سوچیئے اور جواب دیجیئے ۱۹۸

قانون میں سب مساوی ہیں ۱۹۹

توضیح اور تحقیق: ۲۰۳

قرآن کی آیت: ۲۰۴

سوالات ۲۰۵

اسلام میں برادری ۲۰۷

سوالات ۲۱۰

سوچیئے اور جواب دیجئے ۲۱۰

اسلام اور مساوات ۲۱۱

قرآن مجید کی آیات: ۲۱۴

سوالات ۲۱۵

سوچیئے اور جواب دیجئے ۲۱۵

۲۹۹

ظالموں کی مدد مت کرو ۲۱۶

توضیح اور تحقیق: ۲۱۹

سوالات ۲۲۲

اسلام میں جہاد اوردفاع ۲۲۳

فداکار اور جری خاتون: ۲۲۵

سوالات ۲۲۹

سوچیئے اور جواب دیجئے ۲۲۹

پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث شریف: ۲۳۷

سوالات ۲۳۸

سوچیئےور جواب دیجئے ۲۳۸

شہیدوں کے پیغام ۲۳۹

سوالات ۲۴۷

سوچویے اور جواب دیجئے ۲۴۷

پروردگار ۲۵۰

الہی ۲۵۱

خداوندا ۲۵۱

خدایا ۲۵۱

پروردگارا ۲۵۲

سوالات ۲۵۳

ان سوالات کے جوابات دیجیئے ۲۵۳

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307