انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146133 / ڈاؤنلوڈ: 4876
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

۱_ حديث يوم الدار

۲_ حديث منزلت

۳_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين''(۳۲) يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت علىعليه‌السلام نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں _ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا علىعليه‌السلام ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(۳۳)

۲۱

حديث منزلت

صرف وہ غزوہ جس ميں حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حكم كے پيروى كرتے ہوئے شركت نہيں كى غزوہ تبوك تھا _ چنانچہ اس مرتبہ آپ جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيثيت سے اور ان واقعات كا سد باب كرنے كى غرض سے جن كے رونما ہونے كا احتمال تھا مدينہ ميں ہى قيام پذير رہے_

جس وقت منافقوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ارادے كى خبر ہوئي تو انہوں نے ايسى افواہيں پھيلائيں جن سے حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تعلقات ميں كشيدگى پيدا ہوجائے اور حضرت علىعليه‌السلام كو يہ بات باور كراديں كہ اب آپ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہلى سى محبت نہيں _ چنانچہ جب آپ كو منافقين كى ان شرپسندانہ سازشوں كا علم ہوا تو ان كى باتوں كو غلط ثابت كرنے كى غرض سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور صحيح واقعات كى اطلاع دي_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو مدينہ واپس جانے كا حكم ديتے ہوئے اس تاريخى جملے سے حضرت علىعليه‌السلام كے اس مقام و مرتبہ كو جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھا اس طرح بيان فرمايا : ''كيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو كہ ميرے اور تمہارے درميان وہى نسبت ہے جو كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كے درميان تھي_ مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں ہوگا_(۳۴)

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب:

اب ديكھنا يہ ہے كہ قرآن پاك كى نظر ميں حضرت ہارون كے وہ كون سے مناصب و مقامات تھے جو حضرت علىعليه‌السلام ميں بھى نبوت كے علاوہ (چنانچہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ہى مذكورہ حديث ميں آپ كو اس سے مستثنى قرار ديا ہے) بدرجہ اتم موجود تھے_

چنانچہ جب ہم قرآن كى جانب رجوع كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے حضرت ہارونعليه‌السلام كے لئے مندرجہ ذيل مناصب چاہے تھے_ مقام وزارت :( واجعل لى وزيرا من اهلى هارون اخي' ) _(۳۵) _ ''ميرے كنبے سے ہارون كو وزير مقرر كردے جوكہ ميرے بھائي ہيں ''_

۲۲

تقويت و تائيد''واشد به ازري'' _ اس كے ذريعے ميرا ہاتھ مضبوط كر

مقام نبوت:''واشركه فى امري''اور اس كو ميرے كام ميں شريك كردے''_

حضرت موسىعليه‌السلام نے جو چيزيں خداوند تعالے سے مانگيں اس نے ان كا مثبت جواب ديا اور مذكورہ تمام مقامات حضرت ہارون كو عطا كرديئے_ چنانچہ اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتاہے:''قد اوتيت سوالك يا موسي_ ''اے موسى جو تم نے مانگا ہم نے عطا كيا''_

اس كے علاوہ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى غير موجودگى ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا _ (وقال موسى لاخيہ ہارون اخلفنى فى قومي)موسى نے حضرت ہارون سے كہا تم ميرى قوم ميں ميرے خليفہ اور جانشين ہو ''_

حديث منزلت كے مطابق وہ تمام مناصب و مقامات جو ہارون كےلئے بيان كئے گئے ہيں ، صرف ايك منصب كے علاوہ كہ جسے آيت سے مستثنى قرار ديا ہے، حضرت علىعليه‌السلام كےلئے ثابت ہيں _

اس لحاظ سے حضرت عليعليه‌السلام ہى امت مسلمہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ياور و مددگار اور خليفہ ہيں _(۴۰)

حديث غدير

ہجرت كے دسويں سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت ''حجة الوداع''(۴۱) سے واپس تشريف لا رہے تھے تو ماہ ذى الحجہ كى اٹھارہ تاريخ كو آپ نے ''غدير خم '' كے مقام پر فرمان خداوندى كے مطابق حكم ديا كہ سارے مسلمان يہاں توقف كريں اس كے بعد ايك لاكھ سے زيادہ افراد كى موجودگى ميں حمد وستائشے بارى تعالى كے بعد جو خطبہ ديا اسے جارى ركھتے ہوئے آپ نے دريافت فرمايا : اے لوگو تم ميں ايسا كون ہے جسے تمام مومنين پر برترى حاصل ہو ؟

سب نے كہا يہ تو خدااور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى بہتر جانتاہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند تعالى نے مجھے ولايت سے سرفراز فرمايا ہے اور مجھے تمام مومنين پر ان كے نفسوں سے زيادہ تصرف كا حق حاصل ہے_

۲۳

اس كے بعد آپ نے حضرت على عليه‌السلام كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش بدوش ديكھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميں ہوں علىعليه‌السلام اس كا مولا و سرپرست ہے _(۴۲) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_

اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو علىعليه‌السلام كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران علىعليه‌السلام كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(۴۳)

يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت علىعليه‌السلام نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _

۲۴

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟

۲_ بعثت سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_

۴_ جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر)ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے

۷_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد امامعليه‌السلام كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟

۲۵

حوالہ جات

۱_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_

۲_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۱)

۳_حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج ۲ ص ۳۴۹)حاكم نے مستدرك (ج ۳ ص ۴۸۳) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص ۱۵ مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج ۴ ص ۲۳_ ۲۱

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۱ /۲۶۲ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۵۸ كشف الغمہ ج ۱ / ۷۹ ، تاريخ طبرى ج ۲ / ۳۱۲ البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميں ملاحظہ ہو _

۵_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۳ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۳/۱۹۹ _ كشف الغمہ ج ۱ / ۱۱۷ كامل ابن اثير ج ۲ /۵۸ وسيرة ابن ہشام ج ۱ / ۲۶۳

۶_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لى كل يوم من اخلاقه علماً يا مرنى بالاقتداء به

۷_ سورہ واقعہ آيہ( السابقون السابقون اولئك المقربون ) _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت

۲۶

كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _

۸_ سورہ حديد آيہ ۱۰( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا ) ''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_

۹_ سيرت ابن ہشام ج ۱ / ۲۴۶ ، كشف الغمہ ج ۱/۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۰ _ سنن ابن ماجہ ج ۱/ ۵۷

۱۰ _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۳۶ ، كشف الغمہ ج ۱ / ۱۰۵ _ تاريخ بغداد ج ۲/ ۸۱ شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۳۸۵ وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳/ ۲۲۰

۱۱_ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_

۱۲_ نہج البلاغہ خ ۱۳۱ _اللهم انى اول من اناب وسمع واجاب

۱۳_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج ۱ / ۲۰۶ ، تفسير الميزان ج ۲/ ۹۹، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج ۱۹ صفحات (۵۶_ ۷۸_ ۸۷)

۱۴_ بقرہ آيہ ۲۰۷

۱۵_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا(معجم البلدان) ج ۴ / ۳۰۱

۱۶_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۷۷ (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ

۱۷_والذى بعثنى بالحق الخ انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۴

۱۸_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_

۱۹_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳/۱۹۲ ، بحار ج ۱۹/ ۲۲۵ _ ۲۵۴ _۲۹۰

۲۷

۲۱_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳ / ۲۰۳ _۲۰۲_ مناقب ج ۲/ ۶۸ نيز ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹/ ۲۷۹_ ۲۷۶_ ۲۹۱

۲۲_ بحار ج ۲۰/۵۰ _ ۵۱ ،الصحيح من سيرة النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج ۴ / ۲۱۸_ ۲۱۳_

۲۳_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲/ ۵۱۴ كامل ابن اثير ج ۲/ ۱۵۴ وشرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۲۵۰ اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _

۲۴_ بحار ج ۲۰ / ۷۰ خصال صدوق (مترجم) ج ۲ / ۱۲۷_

۲۵_ بحار ج ۲۰/ ۵۴ تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_

۲۶_ ۱۲۷ _ بحارج ۲۰ / ۲۱۶_ ۲۱۵ _

۲۷_ بحار ج ۲۰ / ۲۰۵_

۲۸_''ا رونيه ترونى رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (ارشاد مفيد / ۶۶)_

۲۹_ ارشاد مفيد / ۶۷ / ۶۵ بحار ج ۲۱ / ۱۶_ ۱۴_

۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۲۳_ الصحيح ج ۳/ ۲۲۰_

۳۱_ مقتل خوارزمى ۲ /۵۹ _

لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل

قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل

۳۲_ سورہ شعرا ء ۲۱۴ _

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۲۱ و ۳۲۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۶۳ _ ۶۲ مجمع البيان ج ۸/ ۷ الغدير ج ۲ / ۲۷۸ ''فا يكم يؤازرنى على هذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان هذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا له واطيعوه'' _

۳۴_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ ۱۵۲ سے ۱۰۷پر ايك سو ستر (۱۷۰)محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں _ صاحب المراجعات نے بھى (۱۳۹_ ۱۴۱) پر مذكورہ حديث كو صحيح

۲۸

مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_

۳۵_ سورہ طہ ۲۹_ ۳۰_

۳۶_ _۳۷_ ۳۸ _ سورہ طہ آيات ۳۱_۳۲_ ۳۶_

۳۹_سورہ احزاب آيت ۱۴۲_

۴۰_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات ۱۶۸ _ ۱۶۷_

۴۱_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت ۶۷ ''( ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس ) '_

۴۲_من كنت مولاه فهذا على مولاه _اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله _ ملاحظہ ہو الغدير ج ۱/ ۱۱_۹

۲۹

دوسر ا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

غير متوقع حادثہ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

لاتعلقي

امت كى پريشانى كا خطرہ

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

منافقين كا خطرہ

شورى

وصى اور جانشين كا تقرر

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

اس خطبے كے اہم نكات

انصار كا رد عمل

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

سوالات

حوالہ جات

۳۰

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے تعميرى اور كردار ساز بعض حادثات وواقعات كا جائزہ ترتيب وار گذشتہ فصل ميں ليا جاچكا ہے _ چونكہ ہمارا مطمع نظر تاريخ اسلام كا تجزيہ وتحليل ہے نہ كہ ان بزرگوار شخصيات كے احوال زندگى كو بيان كرنا اسيلئے بہت سے ايسے واقعات جن كا امامعليه‌السلام نے ان مراحل ميں سامنا كيا ، ان كا ذكر نہيں كياجاسكا_اب ہم يہاں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد تاريخ اسلام كے واقعات كا جائزہ ليں گے_

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سب سے پہلا واقعہ جو مسلمانوں كے سامنے آيا وہ عمر كى جانب سے رونما ہوا چنانچہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كے سامنے بآواز بلند كہا كہ جو شخص يہ كہے گا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ہوگئي ميں اسى تلوار سے اس كا سر قلم كردوں گا اگر چہ حضرت ابن عباس و ديگر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ آيت بھى سنائي جس كا مفہوم يہ ہے كہ موت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بھى مفر نہيں(۲) مگر اس كا ان پر اثر نہ ہوا بوقت رحلت ابوبكر مدينہ سے باہر تھے _ چند لحظے گذرنے كے بعد وہ بھى آن پہنچے اور عمر كى داد و فرياد كى جانب توجہ كي ے بغير وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں داخل ہوگئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك سے چادر ايك طرف كركے بوسہ ديا اور مسجد ميں واپس آگئے اور يہ اعلان كيا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے ہيں _ اس كے بعد انہوں نے بھى اسى آيت كى تلاوت كى اس پر عمر نے كہا ايسا لگتا ہے كہ ميں نے آج تك گويا يہ آيت سنى ہى نہيں تھى(۳)

۳۱

غير متوقع حادثہ

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل دينے ميں مشغول اور مسلمان تكميل غسل و كفن كا انتظار كر رہے تھے تاكہ نماز جنازہ ميں شركت كرسكيں خبر آئي كہ كچھ لوگ ''سقفيہ بنى ساعدہ'' ميں جمع ہيں او رخليفہ منتخب كئے جانے كے بارے ميں بحث كر رہے ہيں اور قبيلہ خزرج كے سردار سعد بن عبادہ كا نام خلافت كےلئے پيش كيا گيا ہے_

عمر اور ابوبكر نے جيسے ہى يہ خبر سنى فوراً سقيفہ كى طرف روانہ ہوئے_ راستے ميں ابوعبيدہ بن جراح كو بھى مطلع كيا اور تينوں افراد نے سقيفہ(۴) كى جانب رخ كيا _

اس وقت تك معاملہ انصار كے ہاتھ ميں تھا ليكن جيسے ہى يہ تينوں مہاجر وہاں پہنچے تو تنازع شروع ہوگيا اور ہر شخص اپنى اہليت وشايستگى كى تعريف كرنے لگا _ بالآخر ابوبكر كو پانچ رائے كے ذريعے سقيفہ ميں خليفہ چن ليا گيا _

برادران اہل سنت نے اس واقعہ كو حقيقت سمجھ ليا اور خليفہ كے انتخاب كو مشاورت اور اجماع مسلمين كا نام دے كر اسے تسليم كرليا_

اس حقيقت كو آشكار كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ مندرجہ ذيل عنوانات كا تجزيہ كياجائے تاكہ اصل واقعے كى وضاحت ہوسكے_

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

شيعوں كا عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى فرمان خدا كے ذريعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طے اور واضح كرديا تھا اور جو كچھ سقيفہ بنى ساعدہ ميں پيش آيا وہ فرمان خدا اور حكم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف محض ايك تحريك تھي_

گذشتہ فصل ميں ہم نے چند ايسى دليليں اور حديثيں بيان كى تھےں جو مذكورہ دعوے كو ثابت كرتى ہيں _ يہاں اس مسئلے كا تاريخى واقعات كى روشنى ميں جائزہ لياجائے گا_

۳۲

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں :

لا تعلقي

شوري

اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت

اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_

۳۳

لاتعلقي

لاتعلقى سے مراد يہ ہے كہ ہم اس بات كے قائل ہوجائيں كہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلام كے مستقبل سے كوئي سرو كار نہ تھا بلكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نوشتہ تقدير اور آئندہ حالات كے رحم وكرم پر چھوڑ ديا تھا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسى شخصيت كے بارے ميں ايسى بے سرو پا باتوں كا فرض كرلينا كسى طرح بھى حقائق وواقعات كے موافق نہيں ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اسلامى رسالت كا مقصد يہ تھا كہ دور جاہليت كے جتنے بھى رگ وريشے اس دور كے انسان ميں ہوسكتے تھے انہيں اس كے دل وجان كے اندر ہى خشك كردياجائے اور اس كے بجائے ايك جديد اسلامى انسان كى تعمير كى جائے _ جب بھى كوئي ہادى و راہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جائے اور انقلاب ميں ايك ايسا خلاء پيدا ہوجائے گا جس كى وجہ سے اس كو مختلف قسم كے خطرات لاحق ہوجائيں گے _ مثال كے طور پر :

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ روح رسالت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحريك كے مقاصد كو وہى شخص پايہ تكميل تك پہنچاسكتا تھا كہ جس كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہچنواياتھا اور امت كے كسى فرد ميں اسكى صلاحيت نہ تھى كہ وہ رسول كے بعد زمام دارى اور رسالت كے مقصد كے درميان كوئي متين تناسب قائم كرسكے اور اسلامى معاشرہ سے ان جاہلى تعصبات كو دور كرسكے جو ابھى تك معاشرہ كى رگ و پے ميں موجود تھے كہ جس نے انہيں مہاجر، انصار ، قريش و غير قريش اور مكى و مدنى وغيرہ ميں تقسيم كر ركھا تھا_

۳۴

تھے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ كاغذ و دوات لے آؤ تاكہ ميں تمہارے لئے ايسا نوشتہ لكھ دوں كہ جس سے تم (ميرے بعد)ہرگز گمراہ نہ ہو(۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ فرمانا ہى اس بات كى واضح و روشن دليل ہے كہ آيندہ رونما ہونے والے خطرات كے بارے ميں آپ كو تشويش تھى اور ان كا سد باب كرنے كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوشاں تھے _

شورى

شورى سے مراد يہ ہے كہ گويا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں كى رہبرى كو انہى كے وست اختيار ميں دے ديا تھا كہ جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

اگرچہ اسلام نے قانون اور اصول شورى (مشاورت)كا احترام كيا ہے اور قرآن ميں اس كا شمار اوصاف مومنين ميں ہوتا ہے(۶) ليكن اس كا تعلق ان واقعات سے ہے جو مسلم معاشرے كے درميان رونما ہوتے ہيں اور ان كى بارے ميں كوئي نص صريح موجود نہ ہو كيونكہ اسلام كے قوانين و احكام مشوروں سے طے نہيں ہوتے يہى وجہ تھى كہ وہ ذمہ دارياں (تكاليف) جو وحى كى ذريعے معين كى گئيں تھيں ان كے بارے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى سے مشورہ نہ كيا چنانچہ مسئلہ ولايت و امامت كا شمار بھى ايسے ہى مسائل ميں ہوتاہے جو امور مشاورت كى حدود سے خارج ہيں يہى نہيں بلكہ اس كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى اپنى رائے كا اظہار نہيں فرما سكتے تھے _

يہى وجہ ہے كہ جس وقت قبيلہ بنى عامر كى ايك جماعت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كرنے كے لئے آئي اور اس نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم اس شرط پر ايمان لانے كو تيار ہيں كہ آپ اپنے بعد خلافت ہمارى تحويل ميں دے ديں اگرچہ اس وقت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي پر آشوب حالات سے دو چار تھے نيز قريش(۷) كى جانب سے آپ پر سخت دباؤ بھى تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخوفزدہ كرنے كى كوشش بھى كى جا رہى تھى مگر اس كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ كام خداند تعالى كا ہے (اور اس ميں مجھے كوئي اختيار نہيں )وہ جسے بھى مناسب سمجھے گا اسے ہى ميرے بعد ميرا جانشين مقرر كرے گا(۸) _

۳۵

اس كى علاوہ اسلام كى فلاح و بہبود كى خاطر پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كو سودمند اقدام خيال فرماتے تو آپ يقينا اپنے زمانہ حيات كے دوران ايسے دستورات عمل كا سلسلہ مرتب فرماتے جس كے ذريعے امت مسلمہ خود كو اس اقدام كے لئے تيار كر ليتى كہ شورى كے ذريعے نظام حكومت جارى ركھ سكے كيونكہ دور جاہليت كے نظام حكومت ميں كوئي ايسا ادارہ كار فرمانہ تھا جو شورى كى ذريعے نظام حكومت چلاسكے اگرچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى وقت بھى نظام شورى اور راس كے دائرہ عمل نيز مشخصات كو منفى قرار نہيں ديا اور نہ ہى مسلمانوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ وہ اس سے گريز كريں _

اس سے قطع نظر ابو بكر نے جب عمر كو اپنا جانشين مقرر كيا تو يہ اس امر كى واضح دليل تھى كہ اس اقدام كے ذريعے نظام شورى كى نفى كى گئي اور يہ ثابت ہو گيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كے حامى نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنا حق سمجھتے تھے كہ زمانہ حيات ميں كسى ايسے شخص كو مقرر فرما ديں جو رحلت كے بعد آپ كا جانشين ہو سكے يہى نہيں بلكہ عمر بھى خليفہ مقرر كرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد كے درميان محدود كر ديا تھا تاكہ وہ اپنے درميان ميں سے كسى ايك شخص كو خليفہ مقرر كر ليں اور ان افراد كے علاوہ انہوں نے تمام امت مسلمہ كو اس حق سے محروم كر ديا تھا_

وصى اور جانشين كا تقرر

وصايت (عملى جانشينى)سے ہمارى مراد يہ ہے كہ تنہا ايك يہى ايسى راہ ہے جو حقائق اور فطرت اور خلافت كى واقعيت سے عين سازگار ہے اور ہم كہہ سكتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام كى آيندہ فلاح و بہبود كى خاطر يہ مثبت اقدام فرمايا تھا اور خدا عالم كے حكم سے ايك شخص كو جانشين كى حيثيت سے مقرر كر ديا تھا چنانچہ صرف يہى ايك ايسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل ميں اسلام كى خير و صلاح اور رسالت كو خطرات سے محفوظ ركھنے كا ضامن ہو سكتا تھا _ اسلام ميں سبقت ، اور دوسرے مسلمانوں كى نسبت عليعليه‌السلام كى واضح و امتيازى خصوصيات كى بناء پر كسى دوسرے شخص كو ان كے علاوہ

۳۶

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا حق حاصل نہ تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علىعليه‌السلام كى باہمى زندگى كے ايسے بہت سے شواہد موجود ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كى تربيت فرمارہے تھے كہ آيندہ اسلامى معاشرے كے آپعليه‌السلام ہى قائد و رہبر ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام كو حقائق رسالت كى بہت سے خصوصيات سے نوازا تھا حضرت علىعليه‌السلام جب كبھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي بات دريافت فرماتے تو آپكا سوال ختم ہونے كے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كلام كى ابتدا فرماتے اور تہذيب و افكار كے ہدايا و تحائف كى دولت سے آپعليه‌السلام كو معزز و مفتخر فرماتے چنانچہ روز و شب كا زيادہ وقت باہمى گفتگو اور خلوت مےں گذرتا _

اس كے علاوہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانشينى كا مختلف مواقع پر اعلان بھى فرما ديا تھا چنانچہ اس ضمن ميں بكثرت احاديث نبوى موجود ہيں جس ميں سے حديث يوم الدرار ' حديث الثقلين ' حديث منزلت اور سب سے اہم غدير (حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر مسلمانوں كا بيعت كرنا)قابل ذكر اور اس دعوے كى شاہد و گواہ ہيں(۹) _

مزيد بر آں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور آپ نے پورى زندگى جہاد و ذمہ دارى ميں گذارى جس سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام ہى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں آپ كى لياقت كا ايك نمونہ يہ ہے كہ جن مسائل كو حل كرنا خلفاء كے لئے ناممكن تھا انھيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى سے حل كرتے تھے ليكن اس كے برعكس ہميں خلفاء كے زمانہ ميں ايك موقعہ بھى ايسا نظر نہيں آتا كہ جس ميں امامعليه‌السلام نے كسى مشكل كے حل كيلئے يا اسلام كے نظريہ سے مزيد آگہى كے لئے كسى سے رجوع كيا ہو(۱۰)

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

معن بن عدى اور عويم بن ساعدہ نامى دو افراد كے دلوں ميں '' سعد بن عبادہ خزرجى '' كے

۳۷

خلاف كدورت تھى ان كے ذريعے عمر اور ابوبكر كو خبر ملى كہ انصار سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہو رہے ہيں چنانچہ يہ دونوں حضرات نہايت عجلت كے ساتھ اضطراب و پريشانى كے عالم ميں ابو عبيدہ كے ہمراہ سقيفہ ميں داخل ہوئے عمر گفتگو كا آغاز كر كے ابوبكر كى خلافت كيلئے ميدان ہموار كرنا چاہتے تھے ليكن ابو بكر نے منع كر ديا اور كہا كہ اگر مجھ سے كوئي فرو گذاشت ہو جائے تو تم اس كى تلافى كرو چنانچہ اس كے بعد انھوں نے تقرير شروع كى اور خداوند عالم كى وحدنيت اور رسالت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شہادت كے بعد كہا كہ مہاجرين ميں ہم وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا اور اس لحاظ سے تمام لوگ ہمارے پيروكار ہيں ہم طائفہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مركز قبائل عرب ميں سے ہيں نيز ان كے درميان نقطئہ ربط و تعلق ہيں آپ انصار بھى خدا و رسول كے ياور و مددگار ہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پشتيبان اور ہمارے سردار ہيں دين اور اس كے فائدے ميں آپ ہمارے شريك ہيں _ خداوند تعالى كى رضا ميں راضى رہے اور اس پاك پروردگار نے تم سے مہاجر بھائيوں كے لئے جو كچھ چاہا اسے قبول كرنے ميں لائق و شائستہ ترين افراد ثابت ہوئے ليكن تمہيں اس پر حسد نہيں كرنا چاہيے اسلام كى ترقى كى خاطر تم نے مشكلات ميں اپنى طاقت كے جوہر دكھائے اس بنا پر تمہارے لئے يہ زيبا نہيں كہ اپنے ہى ہاتھوں سے اس دين كى بيخ كُنى كرو_ ميں تمہيں ابو عبيدہ اور عمر كى بيعت كى دعوت ديتا ہوں ميں دونوں ہى كو قابل و اہل سمجھتا ہوں(۱۱) اس موقعے پر ان دونوں نے كہا : لوگوں ميں سے كسى كو تم پر برترى حاصل نہيں ہے _ تم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے يار غار ہو

اس خطبے كے اہم نكات

ابو بكر نے جو تقرير كى اس كے بعض نكات كا ذكر كرنا يہاں ضرورى ہے _(۱۲)

ابوبكر نے پہلے مہاجرين كى تعريف كى تاكہ ان كى عظمت انصار كے ذہنوں پر نقش ہو جائے اس كے بعد جس حد تك ممكن تھا اُس نے انصار كى بھى تعريف و توصيف بيان كى اور خود كو منصف كى حيثيت سے ظاہر كيا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ انصار كو اپنى طرف متوجہ كر ليا اس تردو كے بر خلاف جو

۳۸

خلافت كے سلسلہ مےں انصار كے ذہنوں ميں تھا ابوبكر نے يقين كے ساتھ كہا مہاجرين كى خلافت جو خدا كى مرضى كے مطابق ہے اور يہى خدا كا حتمى فيصلہ ہے چنانچہ ہر قسم كا تذبذب ختم ہو گيا ابوبكر نے خلافت كو مہاجرين كا مسلم حق ثابت كرنے كے بعد اس سلسلہ ميں انصار كى كسى بھى فعاليت كو خدا سے عہد شكنى اور دين كو برباد كرنے كے مترادف قرار دے ديا اپنى تقرير كے آخر ميں ابوبكر نے حاضرين كو عُمر و ابوعبيدہ كى بيعت كى دعوت دى وہ طبيعى طور پر ابوبكر كو مقدم سمجھتے تھے گويا وہ پہلے ہى خليفہ كى تعيين كے سلسلہ ميں منصوبہ بنا چكے تھے _(۱۳)

انصار كا ردّعمل

پروگرام كے تحت ابوبكر كى ہونے والى تقرير سن كر انصار اپنے گذشتہ موقف سے ہٹ گئے اور انہوں نے مہاجرين كے سامنے اپنے سرخم كر ديئے ان ميں '' حباب بن منذر '' ہى ايك ايسے انصار تھے جنہوں نے كھڑے ہو كر يہ دھمكى دى كہ اگر مہاجرين انصار سے مصالحت نہيں كرتے تو ہم عليحدہ مستقل حكومت قائم كر ليں گے ليكن عمر نے فورا ہى اس كى گفتگو كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كہا كہ افسوس دو تلواريں ايك ميان ميں نہےں سماسكتيں خدا كى قسم عرب اس بات پر ہرگز راضى نہےں ہوں گے كہ حكومت تمہارے حوالے كر دى جائے اس كى وجہ يہ تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم ميں سے نہےں تھے _(۱۴) مہاجرين اور انصار كے درميان حصول اقتدار كى خاطر بہت سخت كشمكش ہونے لگى چنانچہ انصار كے دو قبيلوں اوس اور خزرج كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا قبيلہ اوس كے سردار ''اسيد بن حضير'' كا ميلان مہاجرين كى طرف تھا ، اس نے اظہار رغبت كيا انكى پيروى كرتے ہوئے '' بشير بن سعد خزرجى '' نے لوگوں كو مہاجرين كى بيعت كى جانب رغبت دلانا شروع كى بالاخر اس كشمكش كا نتيجہ يہ ہوا كہ خلافت كا فيصلہ ابوبكر كے حق ميں ہوگيا اور انھيں پانچ رائے كے ذريعے خليفہ منتخب كر ليا گيا _(۱۵)

اس واقعے كا اگر اجمالى طور پر جايزہ ليں تو اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ سقيفہ ميں جو كچھ پيش آيا

۳۹

اور اس ميں ابوبكر كو خليفہ منتخب كيا گيا وہ انتخاب كے اصول و ضوابط كے منافى تھا _

اس معاملے مےں فيصلہ اتنى عجلت و جلدى سے كيا گيا كہ كسى صاحب فكر شخص كو اتنا موقعہ ہى نہےں ديا گيا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں غور و فكر كر سكے اور كسى مخالف كوبھى اتنى مہلت نہ ملى كہ وہ اپنے دعوے كے حق ميں دليل پيش كر سكے اس عجلت و تندى كے باعث روح انتخابات كى اچھى طرح پائمالى كى گئي كہ حتى كہ ان لوگوں سے بھى جو سقيفہ ميں موجود تھے حق رائے دہى سلب كر ليا گيا شروع سے آخر تك ذاتى ميلانات و احساسات كار فرما رہے اس كے علاوہ انتخاب اس طرح كيا گياكہ بيشتر مسلمان قطعى لاعلم و بے خبر رہے اور جنہيں اطلاع بھى ہوئي تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مراسم تجہيز و تكفين ميں منہمك و مشغول تھے وہ سقيفہ والے انتخابات ميں شريك نہيں ہو سكتے تھے _

جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انتخاب كے لئے جس مجلس كى تشكيل كى گئي تھى اس ميں كم از كم كوئي ايسا شخص تو اپنے افراد خاندان كے ہمراہ وہاں پيش پيش رہتا جس كى قدر و منزلت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظروں ميں وہى تھى جو حضرت ہارون كى حضرت موسيعليه‌السلام كے نزديك تھى اس واقعے پر جب ہم شروع سے آخر تك نظر ڈالتے ہيں تو ديكھتے ہيں يہ سب اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ بنى ہاشم بالخصوص اس كے سردار يعنى اميرالمومنين علىعليه‌السلام ان واقعات سے قطعى بے خبر اور لاعلم ركھا گيا _

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تجہيز و تدفين ميں منہمك و مشغول تھے كہ ابو سفيان ' جس مےں حس تدبر و سياست فہمى بہت تيز تھى ' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پہنچا تاكہ مسلمانوں كے درميان اختلاف پيدا كرے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ آپعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرے ليكن حضرت علىعليه‌السلام اسكى نيت كو جانتے تھے لہذا اسكى باتوں كو قطعى اہميت نہ دى اور فرمايا تمہارا مقصد مسلمانوں كے درميان فتنہ پھيلانا ہے_(۱۶)

جس وقت ابوسفيان نے يہ تجويز پيش كى توعين اس وقت حضرت عباس نے بھى چاہا كہ اپنے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

تیسرے گروہ کی روایات کے سلسلہ میں یعنی وہ روایات جو فطرت انسان کو بیان کرتی ہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ روایات تقاضوں کو بیان کررہی ہیں علت تامہ کو بیان نہیں کررہی ہیں یعنی جو لوگ پیدا ہو چکے ہیں ان میں سے بعض کی فطرت گناہ اور ویرانی کی طرف رغبت کا تقاضا کرتی ہے اور بعض افراد کی فطرت اچھائی کی طرف رغبت رکھتی ہے جیسے وہ نوزاد جو زنا سے متولد ہواہو اس بچہ کے مقابلے میں جو صالح باپ سے متولد ہوا ہے گناہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے لیکن کسی میں بھی جبر نہیں ہے.

دوسرا جواب : یہ ہے کہ اچھے یا برے ہونے میں فطرت کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم پہلے سے جانتا ہے کہ کون اپنے اختیار سے صحیح راہ اور کون بری راہ انتخاب کرے گا اسی لئے پہلے گروہ کو اچھی طینت اور دوسرے کو بری طینت سے خلق کیا ہے۔

اس کی مثال ایک باغبان کی طرح ہے جو تمام پھولوں کو اسکی قیمت اور رشد وبالیدگی کے مطابق ایک مناسب گلدان میں قرار دیتا ہے .گلدان پھولوں کے اچھے یا برے ہونے میں تاثیر نہیں رکھتا ہے اسی طرح طینت بھی فقط ایک ظرف ہے جو اس روح کیمطابقہے جسے اپنے اختیار سے اچھا یا براہوناہے طینت وہ ظرف ہے جواپنے مظروف کے اچھے یابرے ہونے میں اثر انداز نہیں ہوتا دوسرا جواب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے لئے فلسفی مقدمات ضروری ہیں لہٰذا اس سے صرف نظر کیا جارہا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)''ضمائم ''کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۱

ب) اجتماعی اور تاریخی جبر

اجتماعی اور تاریخی جبر کا عقیدہ بعض فلاسفہ اور جامعہ شناسی کے ان گروہ کے درمیان شہرت رکھتا ہے جو جامعہ اور تاریخ کی اصالت پرزور دیتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق کسی فرد کی معاشرے اور تاریخ سے الگ کوئی حقیقت نہیں ہے .معاشرہ اور تاریخ ایک با عفت وجود کی طرح اپنے تمام افراد کی شخصیت کو مرتب کرتے ہیں لوگوں کا تمام فکری (احساس )اور افعالی شعور، تاریخ اور معاشرے کے تقاضہ کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان اپنی شخصیت کوبنانے میں ہر طرح کے انتخاب اور اختیار سے معذور ہے نمونہ کے طور پرہگل مارکس ، اور ڈورکھیم کے نظریوں کو ذکر کیا جا سکتا ہے ہگل جو تاریخ کے لئے ایک واقعی حقیقت کا قائل ہے معتقد تھا کہ تاریخ صرف تاریخی حوادث یاسادہ سلسلۂ عبرت کے لئے ہے کہ جس کی نظری اور فکری تجزیہ وتحلیل نہیں ہوتی ،اس کی نظر میں گوہر تاریخ ،عقل ہے(اس کا نظریہ اسی مفہوم کے اعتبار سے ہے) اور تاریخی ہر حادثہ اس کے مطابق انجام پاتا ہے، تاریخ ساز افراد ، مطلق تاریخ کی روح کے متحقق ہونے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور بغیر اس کے کہ خود آگاہ ہوں اس راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔(۱) مارکس کا نظریہ تھا کہ انسان کا ہر فرد تاریخ اور معاشرہ کا نتیجہ ہے. تمام انسانی افعال تہذیت و ثقافت ، مذہب،ہنر،اجتماعی افراد کے علاوہ تمام چیزیں معاشرہ پر پھیلے ہوے اقتصادی روابط پر مبنی ہیں.(۲) اس لئے انسان کے ہر فرد کی آمادگی کا تنہا حاکم اس کے معاشرے پرحاکم اقتصادی روابط کو سمجھنا چاہیئے اس لئے کہ اقتصادی روابط زمانہ کے دامن میں متحول ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ متحول ہوتا ہے اور معاشرے کے معقول ہونے سے انسانوں کی شخصیت ،حقیقت ،تہذیب و ثقافت اور اس کے اعتبارات بھی متحول ہوجاتے ہیں. ڈورکھیم اس جبر کی روشنی میں ''نظریہ آئیڈیا'' کی طرف مائل ہوا ہے کہ انسان ایک فردی واجتماعی کردار رکھتا ہے اوراس کا اجتماعی نقش ارادوں ،خواہشوں ، احساسات اور تمام افراد کے عواطف کے ملنے اور ان کے ظاہر ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور یہی روح معاشرہ ہے۔

____________________

(۱) بعض فلاسفۂ تاریخ بھی معمولاًتاریخ کے لئے ایسے اعتبارات ، قوانین اور مراحل مانتے ہیں جو غیر قابل تغیر ہیں اور انسانوں کے ارادے ، خواہشات ،جستجو اور معاشرے انہیں شرائط و حدود میں مرتب ہوتے ہیں

(۲)البتہ مارکس کا ''اجتماعی جبر '' فیور بیچ اور ہگل کے تاریخی جبر کی آغوش سے وجود میں آیا ہے ۔

۲۰۲

اور یہ روح اجتماعی بہت قوی ہے جو افراد کے وجودی ارکان پرمسلط ہے شخصی اور فردی ارادہ اس کے مقابلے میں استادگی کی توانائی نہیں رکھتا ہے. وہ افراد جو اس روح اجتماعی کے تقاضوں کے زیر اثر ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیز یں سماج ا ورمعاشرہ نے انسان کو دیا ہے اگر وہ اس کو واپس کردے تو حیوان سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔

اجتماعی اور تاریخی جبر کی تجزیہ وتحلیل

پہلی بات: سماج اور تاریخ کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ یہ مرکب اعتباری ہیں جو افراد کے اجتماعی اور زمان ومکان کے دامن میں انکے روابط سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو وجود رکھتی ہیں وہ ہرفرد کے روابط اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں عمل و رد عمل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔

دوسری بات: ہم اجتماعی و تاریخی عوامل،اقتصادی روابط جیسے ، اعتبارات ، آداب و رسوم اور تمام اجتماعی و تاریخی عناصر کی قدرت کے منکر نہیں ہیں اور ہمیں افراد کی شخصیت سازی کی ترکیبات میں ان کے نقش و کردار سے غافل بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن اجتماعی اور تاریخی عوامل میں سے کوئی بھی انسان کے اختیار کو سلب کرنے والے نہیں ہیںاگر چہ معاشرہ زمان ومکان کی آغوش میں اپنے مخصوص تقاضے رکھتا ہے اور انسان سے مخصوص اعمال و رفتار کا خواہاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس سے اختیار سلب ہوگیا ہے جبکہ انسان ان تمام عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتا ہے حتی معاشرہ کی سر نوشت میں اثر انداز ہو سکتا ہے. جیسا کہ اس طرح کے اثرات کے نمونوں کو معاشروں کی تاریخ میں بہت زیادہ دریافت کیا جا سکتا ہے

۲۰۳

ج)فطری جبر

فلسفۂ مادی اور مادہ پرستی کے ہمراہ ارثی صفات کے سلسلہ میں علمی ارتقاء انسان کی جبری زندگی کا عقیدہ پیش کرتاہے .جو لوگ انسان کے اندر معنوی جوہر کے وجود کے منکر ہیں اور اس کو صرف اپنی تمام ترقدرتوں سے مزین ایک پیکر اور جسم سے تعبیر کرتے ہیں .اور اس کی بہت سی توانائیاں انسانی خصوصیات کے ارثی و وراثتی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور انسان کے تمام نفسیاتی و ذہنی حالات کی مادی توجیہ کرتے ہیں اور لذت ،شوق ،علم،احساس اور ارادہ کو مغز کے اندر سلسلۂ اعصاب اور الکٹرانک حرکتوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں لہٰذا طبیعی طور پر عقیدہ جبر کی طرف گامزن ہیں(۱) ایسی صورت میں انسان کو اخلاقاً اس کے اعمال کے مقابلے میں ذمہ دار نہیں سمجھا جاسکتا ہے .کیونکہ ایسی حالت میں جزا و سزا اپنے معنی و مفہوم کھو دیں گے اس لئے کہ ان سوالوں کے مقابلہ میں کہ کیوں فلاں شخص مرتکب جرم ہوا ہے ؟ تو جواب دینا چاہئے کہ اس کے ذہن میں مخصوص الکٹرانک اشیا کا تحقق اس کے تحریک کا باعث ہوا ہے اور یہ حادثہ وجود میں آیا ہے اور اگر سوال یہ ہو کہ کیوں یہ مخصوص اشیاء اس کے ذہن اور اعصاب میں حاصل ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ فلاں حادثہ بھی فلاں فطری اور الکٹرانک حوادث کی وجہ سے تھا اس تحلیل کی روشنی میں مغز کے مادی حوادث انسان کے خارجی افعال و حوادث کے اسباب ہیں مغز کے مادی حوادث میں سے کوئی بھی ارادی ، اختیاری افعال اور انسانوں میں تبدیلی وغیرہ اُن ارثی صفات اور فطری بناوٹ میں تبدیلی کی بنا پر ہے جن کا ان کی ترکیبات میں کوئی کردار نہیں ہے. یعنی لوگوں نے ترقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ : بیرونی فطرت کے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان سے مخصوص افعال سرزد ہوں اور یہ عوامل جدا ہونے والے نہیں ہیں وہ افعال جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں نہ مخصوص نفسیاتی مقدمات (فہم وخواہشات ) ہیں جو فطری اور بیرونی طبیعی حوادث سے بے ربط نہیں ہیں مثال کے طور پر ہمارا دیکھنا ،اگر چہ یہ فعل ہے جو نفس انجام دیتا ہے. لیکن نفس کے اختیار میں نہیں ہے. عالم خارج میں فطری بصارت کی شرطوں کا متحقق ہونا موجب بصارت ہوتا ہے اور یہ بصارت ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے اختیاری فعل میں موثر ہے۔

____________________

(۱) ا سکینر ،کتاب ''فراسوی آزادی و منزلت''میں کہتا ہے کہ : جس طرح بے جان اشیاء کوجاندار سمجھنا ( بے جان چیزوں سے روح کو نسبت دینا ) غلط ہے اسی طرح لوگوں کو انسان سمجھنا اور ان کے بارے میں فکر کرنا اور صاحب ارادہ سمجھنا بھی غلط ہے،ملاحظہ ہو: اسٹیونسن، لسلی؛ ہفت نظریہ دربارۂ طبیعت انسان ؛ ص ۱۶۳۔

۲۰۴

اس تاثیر کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب تک کسی چیز کو نہیں دیکھے گا اس کی طرف احساس تمایل بھی نہیں کرے گا لیکن جب اس کو دیکھتا ہے تو اس کا ارادہ مورد نظر فعل کے انجام سے مربوط ہوجاتا ہے۔(۱) دیکھنا ،ایک غیر اختیاری شیٔ ہے اور طبیعی قوانین کے تابع ہے. پس جو بھی چیز اس پر مرتب ہوگی اسی قوانین کیتابع ہوگی۔

انسان بھی اگر چہ خواہشات سے وجود میں آتا ہے جو ہمارے اندر موجود ہے لیکن فطرت سے بے ربط نہیں ہے. نفسیاتی علوم کے ماہرین نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عوامل طبیعی خصوصاً انسان میں خواہشات کے بر انگیختہ کرنے کا موجب ہوتا ہے ہم لوگوںنے بھی تھوڑا بہت آزمایا ہے اور معروف بھی ہے کہ زعفران خوشی دلاتا ہے اور مسور کی دال قلب میں نرمی پیدا کرتی ہے قانون وراثت کی بنیاد پر انسان اپنے اباء و اجداد کی بہت سی خصوصیات کا وارث ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.

یہ تمام چیزیں طبیعی وفطری عوامل کے مطابق انسان کے مجبور ہونے کی دلیل ہے اور ان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ارادہ ،فطری اور طبیعی عوامل کے ذریعہ حاصل ہوتاہے گر چہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(۱) بابا طاہر کہتے ہیں :

ز دست دیدہ و دل ہر دو فریاد

کہ ہرچہ دیدہ بیند دل کند یاد

بسازم خنجری نیشش ز پولاد

زنم بر دیدہ ، تا دل گردد آزاد

میں چشم و دل ، دونوں سے رنجیدہ ہوں کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے اسے دل محفوظ کرلیتا ہے ۔میں ایسا خنجر بنانا چاہتا ہوں جس کی نوک فولاد کی ہواور اسی سے آنکھ پھوڑ دوں گا تاکہ دل آزاد ہوجائے ۔

۲۰۵

اور اس کا عکس بھی صادق ہے کہ کہا گیا ہے :

از دل برود ، ہر آن کہ از دیدہ برفت

جو کچھ آنکھ سے پوشدہ ہو جاتا ہے دل سے بھی رخصت ہو جاتا ہے ۔

بغیر کسی مقدمہ کے ارادہ کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱)قابل ذکربات یہ ہے کہ حیاتی اور مادی جبر میں انسان کے معنوی جوہر اور روحانی حالات کی نفی پر تاکید ہوئی ہے اور انسان کو ہمیشہ ایک مادی مخلوق سمجھا جاتا ہے لیکن فطری شبہہ کا جبر میں کوئی اصرار پایا نہیں جاتا ہے بلکہ فطری اسباب و علل اور ان پر حاکم قوانین کے مقابلہ میں فقط انسان کے تسلیم ہونے کی تاکید ہوئی ہے یعنی اگر انسان میں روح اور حالات نفسانی ہیں تو یہ حالات فطری علتوں کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور اس میں انسان کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے

۲۰۶

فطری جبرکی تجزیہ و تحلیل

اس طرح کے جبر کا عقیدہ انسان کے کردار وشخصیت سازی اور طبیعی ،فکری اورموروثی عوامل کے کردار میں افراط ومبالغہ سے کام لیناہے انسانوں کی متفاوت ومتفرق زندگی اور وراثت کے عنصر کا کسی طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کے کردار وشخصیت سازی کے سلسلہ میں تمام موثرعوامل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ارثی علت میں منحصر کرناکسی طرح صحیح نہیں ہے. انسان کو اس زاویہ سے نگاہ کرنے میں بنیادی اشکال اس کے معنوی اور روحانی جہت سے چشم پوشی کرناہے. جبکہ گذشتہ فصلوں میں قرآنی آیات اور فلسفی براہیں سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے انسانوں کے فہم واحساسات کے مرکز ، معنوی اور غیر مادی جوہر کے وجود کو ثابت کیا ہے. نفس مجرد کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد اس قسم کے جبر پر اعتقاد کے لئے کوئی مقام نہیں ہے اس لئے کہ ارادہ کا آزاد ہونا انسان کے روح مجرد کی قابلیتوں میں سے ایک ہے اور انسان کے آزاد ارادے کو مورد نظر قرار دیتے ہوئے ،اگر چہ مادی ترکیبات کے فعل و انفعالات اور فطری عوامل کا کردار قابل قبول ہے لیکن ہم اس نکتہ کی تاکید کررہے ہیں کہ ان امور کا فعال ہونا اختیار انسان کے سلب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے.مادی ترکیبات کے فعل وانفعالات کے حصول اور بعض خواہشات کے بر انگیختہ ہونے میں خارجی عوامل اور ان کی تاثیروں کے باوجود کیا ہم ان عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتے ہیں ؟اس سلسلہ میں اپنی اور دوسروں کی روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ نمونوں سے روبرو ہوتے رہے ہیں۔

قانون وراثت کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے کہ جو فرزند اپنے آباء واجداد سے بعض خصوصیات کا وارث ہواہے وہ کسی بھی انتخاب کی قدرت نہیں رکھتا ہے. اگرمذکورہ امور کو بعض انسانی اعمال کا نتیجہ فرض کرلیا جائے تو یہ جزء العلة ہوں گے لیکن آخر کار ، انسان بھی اختیار استعمال کرسکتا ہے اور تمام ان عوامل کے تقاضوں کے بر خلاف دوسرے طریقہ کار کے انتخاب کی بنا پر انسان کے بارے میں مادی فعل وانفعال اور وراثت کی صحیح پیش بینی ،فطری عوامل کے اعتبار سے نہیں کی جا سکتی ہے۔

۲۰۷

خلاصہ فصل

۱۔ گذشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کرامت اکتسابی ، انسان کے اختیار و ارادہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے. ہم اس فصل میں مسئلہ اختیار اور اس کے حدود کے اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کریںگے ۔۲۔ انسان ایسی مخلوق ہے جو آزمائش ،انتخاب اور قصد وارادے سے اپنے افعال کو انجام دیتا ہے عقلی ونقلی دلیلیں انسان کے اندرپائے جانے والے عنصر (اختیار) کی تائید کرتی ہیں. لیکن اس کے باوجودکچھ شبہات بیان کئے گئے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے.۳۔مسلمانوں کے درمیان ایک گروہ (مجبرہ)ہے جو بعض آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کو ارادۂ الہی کے زیر اثر، فاقداختیار سمجھتا ہے۔ وہ آیات وروایات جو خدا کے علم مطلق اور وہ آیات وروایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ کوئی بھی چیز خدا کے اذن وارادے سے خارج نہیں ہے اور وہ دلیلیں جو بیان کرتی ہیں کہ انسانوں کا مقدر پہلے سے ہی آراستہ ہے. اس گروہ (مجبرہ) نے ایسی ہی دلیلوں سے استناد کیا ہے۔۴۔ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ تمام مورد نظر دلیلیں عقیدہ ٔ تفویض کی نفی کررہی ہیں اور اس نکتہ کو ثابت کررہی ہیں کہ خداوندعالم ابتداء خلقت سے تاابددنیاکاعالم و نگراں نیزمحافظ ہونے کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کرتا ہے اور یہ کہ تمام چیزیں اس کے قضاء وقدر سے مربوط ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر واقعہ کے متحقق ہونے کے لئے کافی ووافی شرائط کا ہونا ضروری ہے منجملہ شرائط ، انتخاب کے بعد قصد کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام اشیاء خداوند عالم کے ارادے اور اذن کے حدود میں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲکاارادہ انسان کے ارادے کے مقابلہ میں ہے.بلکہ ہمارا ارادہ بھی ارادۂ پروردگار کے ہمراہ اور طول میں موثر ہے۔۵۔ دوسرا شبہ اجتماعی وتاریخی جبر کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسان قدرت مقاومت نہ رکھنے کے باوجود تاریخی واجتماعی عوامل اور تقاضوں سے متاثر ہے''. ہگل ،ڈورکھیم اور مارکس'' فرد واجتماع کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ایسا ہی نظریہ رکھتے تھے.علم جنٹک کی پیشرفت کے ساتھ یہ شبہ ایجاد ہوتا ہے کہ انسان کا انتخاب در اصل دماغ کے شیمیائی فعل و انفعالات کا نتیجہ ہے اور انسان کا ایک دوسرے سے متفاوت ہونا اس کے جسمی اور موروثی تفاوت کی وجہ سے ہے ، لہٰذا انسان اپنی جسمی اور طبیعی خصلتوں سے مغلوب و مقہور ہے ۔

۶۔ ان دو شبہوں کے جواب میں مذکورہ عوامل کے وجود کا منکر نہیں ہونا چاہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل میں سیاسی ،اقتصادی اور اجتماعی روابط بھی بہت زیادہ اثر انداز ہیں اور انسانوں کی زندگی کے تفاوت میں عنصر وراثت بھی دخیل ہے. لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والوں نے ان عوامل کی تاثیر کے مقدار میں مبالغہ کیا ہے اور درونی و معنوی عوامل کی تاثیر کو بھول بیٹھے ہیں. انسان کا نفس ایک غیر مادی عنصر ہے اورارادہ اس کی قوتوں میں سے ہے جو مادی اور ضمنی محدودیتوں کے باوجود بھی اسی طرح فعالیت اور مقاومت انجام دے رہا ہے.

۲۰۸

تمرین

۱۔انسان کے فردی اور اجتماعی حالات وکردار کے چند نمونے جو اس کے مختار ہونے کی علامت ہیں ذکر کریں؟

۲۔مفہوم اختیار کے استعمال کے چار موارد کی وضاحت کریں؟

۳۔(امر بین الامرین) سے مراد کیا ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کے نظریہ کو بیان کرتا ہے؟

۴۔بعض لوگوں نے خدا وند عالم کے علم غیب سے متعلق شبۂ جبر کے جواب میں کہا ہے کہ: جس طرح بہت ہی صمیمی اور گہرے دوست کی اپنے دوست کے آئندہ کاموں کے سلسلہ میں پیشن گوئی اس کے دوست کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتے اسی طرح خداوند عالم کا علم غیب بھی انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے. آپ کی نظر میں کیا یہ جواب متقن اور قانع کرنے والا ہے؟

۵۔ کیا انسان کے افعال میں خدا کو فعّال سمجھنا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ ہم انسان کے برے کاموں، تمام گناہوں اور ظلم کو اﷲکی طرف نسبت دیں؟اور کیوں؟

۶۔ کیا آیة شریفہ (ومارمیت ذ رمیت ولکن اﷲ رمی) عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کررہی ہے؟ اور کیوں؟

۷۔انسان کا مختار ہونا ،انسانی حوادث کے قانون مند ہونے سے کس طرح سازگار ہے؟

۸۔ وہ اختیار جو حقوقی اور فقہی مباحث میں تکلیف ، ثواب اور عقاب کے شرائط میں سے ہے اور وہ اختیار جو کلامی وفلسفی اور انسان شناسی کے مباحث میں مورد نظر ہے ان دونوں کے درمیان کیا نسبت ہے؟

۹۔ اختیاری کاموں کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل توضیحات میں سے کون سی توضیح صحیح ہے؟

اختیاری فعل وہ فعل ہے جو انسان کے قصد کے تحت ہو۔اور

(الف) اچانک ظاہرہوتا ہے اور انجام پاتاہے۔

(ب) صاحب علت ہے اور انجام پاتا ہے۔

۲۰۹

مزید مطالعہ کے لئے :

۱.جبرو تفویض اور اس کے غلط ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۶۶)خیر الاثر در رد جبر و قدر : قم : انتشارات قبلہ ۔

۔سبحانی ، جعفر( ۱۴۱۱)الٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲، قم : المرکز العالمی للدراسات الاسلامیہ ۔

۔کاکایی ، قاسم (۱۳۷۴)خدامحوری ( اکازیونالیزم ) در تفکر اسلامی و فلسفہ مالبرانچ، تہران : حکمت ۔

۔مجلسی ، محمد باقر ( ۱۳۶۸) جبر و تفویض ، تحقیق مہدی رجائی ؛ مشہد : بنیاد پژوہش ھای اسلامی ۔

۔مرعشی شوشتری ، محمد حسن ( ۱۳۷۲) ''جبر و اختیار و امر بین الامرین ''مجلہ رہنمون ، ش۶۔

۔ملا صدرا شیرازی ، صدر الدین ( ۱۳۴۰) '' رسالہ جبر و اختیار ، خلق الاعمال ، اصفہان : بی نا۔

۔موسوی خمینی ، روح اللہ ( امام خمینی ) (۱۳۶۲)طلب و ارادہ ، ترجمہ و شرح سید احمد فہری ، تہران : مرکز انتشارات علمی و فرہنگی ۔

۲. جبر کے شبہات اور اس کی تحقیقات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو :

۔جعفر ،محمد تقی ؛ جبر و اختیار ، قم : انتشارات دار التبلیغ اسلامی ۔

۔ جعفر سبحانی( ۱۳۵۲) سرنوشت از دیدگاہ علم و فلسفہ، تہران : غدیر۔

۔سعید مہر ، محمد (۱۳۷۵)علم پیشین الٰہی و اختیار انسان ، تہران : پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی ۔

۔صدر ، محمد باقر ( ۱۳۵۹) انسان مسؤول و تاریخ ساز ، ترجمہ محمد مہدی فولادوند، تہران : بیناد قرآن ۔

۔محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۱) نہایة الحکمة ، تعلیق : محمد تقی مصباح یزدی ، ج۲ ، ص ۳۴۶، تہران : انتشارات ، الزہرائ۔

۔طوسی ، نصیر الدین ( ۱۳۳۰) جبر و قدر ، تہران : دانشگاہ تہران۔

۔محمد تقی مصباح؛ آموزش فلسفہ ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی و انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۴۵)انسان و سرنوشت ، تہران : شرکت سہامی انتشار۔

۔مجموعہ آثار ، ج۱ ، تہران : صدرا ۔

۔ احمدواعظی ( ۱۳۷۵)انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۲۱۰

ملحقات

۱۔ مغربی انسان شناسی کے منکرین اور مسئلہ اختیار

ناٹالی ٹربوویک نے انسان کے اختیار یا جبر کے باب میں مغربی منکرین کے نظریوں کو دوسوالوں کے ضمن میں یوں بیان کیا ہے:

الف)کیا انسان کے اعمال وکردار، اس کے آزاد ارادے کا نتیجہ ہیں یا تقریباً بہ طور کامل ماحول ، وراثت ، طفلی کے ابتدائی دور یا خدا کی طرف سے تعیین ہوتا ہے؟مختلف فکری مکاتب کے ابتدائی نظریوں کو عقیدۂ جبر کے کامل جنون سے لے کر اس کے کامل ضدیت کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے:

عقیدہ تجربہ (ہابز) عقیدۂ جبرتام(۱) عقیدہ ہمبستگی(۲) (ہار ٹلی(۳) ہیوم) آزاد ارادہ کا نسبی یا کامل طور پر انکار عقیدہ نفع (بنٹام ،میل)

فرایڈ کے ماننے والے عقیدہ کردار (واٹسن،ا سکینر) فرایڈکے نئے ماننے والے (فروم،اریکسن) عقیدۂ جبر معتدل انسان محوری(مازلو،روجرز) معمولی آزادیۂ ارادہ عقیدہ خرد (وکارسٹ) وجود پسند، انسان محوری(۴) (می(۵) ،فرینکل(۶) ) خدا کو قبول کرنے والوں کا عقیدہ وجود(۷)

____________________

(۱) Total determinism

(۲) associationists

(۳) Hartley

(۴) existential humanists

(۵) May

(۶) Farnkl

(۷) theistic Existentialists

۲۱۱

عقیدہ ٔجبر یا ضدیت (ببر(۱) ،ٹلیچ(۲) ، فورنیر(۳) )تمام ارادہ کی آزادی عقیدہ عروج وبلندی(۴) (کانٹ)عقیدہ وجود (سارٹر)

(ب)عقیدۂ جبر کے اصول کیا ہیں؟

فطری خواہشات

فرایڈ کے ماننے والے : انسان اپنی معرفت زندگی (جنسیت ،بھوک، دور کرنا(۵) اور ان کے مثل چیزوں) اور فطری خواہشات کے زیر نظرہے انسان کے تمام رفتار وکردار صرف ان سازشوں کا نتیجہ ہیںجو فطری ضرورتوں اور مختلف اجتماعی تقاضوں کے درمیان حاصل ہوتی ہیں.فطری خواہشیں غالباً بے خبرضمیر میں موثر ہیں.اس طرح کہ انسان نہ صرف ان کے زیر اثر قرار پاتا ہے بلکہ اکثر خود بھی اس کنٹرول سے بے خبر ہے. آرتھونلک کے اعصابی اطباء : (نیوبلڈ) اس گروہ کا نظریہ ،عقیدۂ اخلاق کے نظریہ کی طرح ہے انسان محوری (روجرز، مازلو)انسان مادر زاد خواہشات کا حامل ہے جو اسے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے پیش کرتا ہے۔

موروثی وجود

وراثت سے استفادہ کا مکتب :(۶) (جنسن(۷) ،شاکلے(۸) ہرنشٹائن(۹) )اکثر انسان

____________________

(۱) Buber

(۲) Tillich

(۳) Fournier

(۴) transcendentalists

(۵) Elimination

(۶) Inherited L.O.School

(۷) Jensen

(۸) Shockley

(۹) Hernstien

۲۱۲

کا شعورمیراثی ہوتا ہے عقل وخرد سے مربوط تمام رفتار وکردار، ایسے حصہ میں قرار پاتے ہیںجو مخصوص طریقے سے وارث کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔(۱) نظریۂ علم حیات کے مطابق اکثر انسان کے رفتار و کردار اوراس کی افسردگی ،بیرونی درونی ارثی توجہ کا نتیجہ ہیں۔

ماحول کی توانائیاں

افعال گرائی کے نظریہ کے حامی :( واٹسن) کے مطابق انسان کے رفتار و کردار کو ماحول ہی معین کرتا ہے۔

اصول پسندی کے حامی :(ا سکینر) کا کہنا ہے اسباب ماحول ،رفتار وکردار کے مہم ترین معین کرنے والوں میں سے ہیں.اگر چہ فطری عوامل بھی موثر ہیں۔

اجتماعی محافظت کا نظریہ پیش کرنے والے :(بانڈرا،برکوٹز(۲) )اکثررفتار وکردار ، مخصوصاً اجتماعی رفتار وکردار، ماحول کی دینہے نہ کہ فطری خواہشات کا میلان۔

فرایڈ کے نئے ماننے والے : (فردم،اریکسن)کا کہنا ہے فرہنگی اور اجتماعی ماحول ،انسان کے رفتار وکردار کو ترتیب دینے والی بہت ہی مہم قوت ہے. علم حیات کی فطری خواہشات کم اہمیت کی حامل ہے ۔

کارل مارکس کے عقیدہ کے حامی کہتے ہیں : اسباب صنعت یا اقتصادی نظام انسان کے اعتباری چیزوں اور یقینیات کو ترتیب دینے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور اس کے رفتار وکردار کے ایک عظیم حصہ کو بھی معین کرتے ہیں۔

انسان محوری کے دعویدار :(روجرز،مازلو) کے مطابق رفتار وکردار کو اجتماعی عوامل اور معین ماحول ترتیب دے سکتا ہے ۔

____________________

(۱) Eysenck

(۲) Berkowitz

۲۱۳

اگر معنوی احترام اور جسمانی آسودگی کی ابتدائی ضرورت حاصل نہ ہوں تو ماحول ومحیط کے اسباب انسان کو منحرف کرسکتے ہیں اورتکامل و ارتقاء کی راہ میں مانع ہوسکتے ہیں لیکن اگر یہ ابتدائی ضرورت حاصل ہو تو انسان ترقی کرسکتا ہے اور اپنے ہی طرح(۱) دوسرے اہداف کو متحقق کرسکتا ہے جو بیرونی ماحول کے زیر اثر نہیں ہیں.

معنوی قوتیں(۲)

اکثرمفکرین ایسی طاقتوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں جوکسی اندازے یا وضاحت سے روشن نہیں ہوتی ہیں ۔لیکن اکثر بزرگ علماء انسان کے رفتار وکردار میں خدا یا خداؤںکی دخالت کے معتقد ہیں،پوری تاریخ میں حتیٰ گذشتہ چند سالوں میں بھی اکثر معاشروں نے مادیات کے مقابلہ میں معنویات کی زیادہ تاکید کی ہے.

۲۔ خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت اور مسئلہ اختیار

خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت جو کہ انسان کے اختیاری اعمال میں بھی شامل ہے اور قرآن کی آیات میں بھی اسکی وضاحت ہوئی ہے جیسے (قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَی ٍٔ)(۳) (وَ اﷲُخَلَقَکُم ومَا تَعمَلُونَ)(۴) یہ آیات عقیدۂ جبر رکھنے والوں کے لئے ایک دلیل وسند بھی ہوسکتی ہے.لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات میں غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات بھی اس کی فعالیت کی نفی نہیں کررہی ہیں بلکہ حقیقی توحید اور انسان کے اختیار ی کاموں میں خدا وند عالم کے مقابلہ میں انسان کی فعالیت کے برابر نہ ہونے کو بیان کررہی ہیں.اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کسی فعل کو دو یا چند فاعل کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو مذکورہ فعل کا متعدد فاعل سے انجام پانا مندرجہ ذیل چار صورتوں میں سے ایک ہی صورت میں ہوگا۔

____________________

(۱) self-actualization

(۲) spiritual forces

(۳)رعد ۱۶

(۴)صافات ۹۶۔

۲۱۴

الف)ایک حقیقی فاعل ہے اور دوسرا مجازی فاعل شمار ہوتا ہے اور فعل کے انجام دینے میں کوئی کردار نہیں رکھتا ہے۔

ب) ایک فاعل حقیقی ہے اور دوسرا اس کا مددگار ہے

ج) متعدد فاعل نے ایک دوسرے کی مدد سے کام کو انجام دیا ہے اور کام کا بعض حصہ ہر ایک سے منسوب ہے.

د) دو یا چند فاعل فعل کو انجام دینے میں حقیقی کردار ادا کرتے ہیںاور یہ فعل ان میں سے ہر ایک کا نتیجہ ہے. لیکن ہر ایک کی علت فاعلی دوسرے سے بالا تر اور طول میں واقع ہے.

قرآن مجید کی آیات فقط چوتھی صورت سے مطابقت رکھتی ہے اور خدا وند عالم کی فاعلیت کو انسان کی فاعلیت کے طول میں بیان کرتی ہیں لہذا انسان کا اختیاری فعل درحقیقت فعل خدا بھی ہے اور فعل انسان بھی، مخلوق خدا بھی ہے اور مخلوق انسان بھی اس لئے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں اور فعل کو ان دونوں کی طرف نسبت دینے میں بھی کوئی عقلی مشکل نہیں ہے.(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں : جوادی آملی، عبد اللہ ؛ تفسیر موضوعی قرآن کریم ، توحید و شرک ، مصباح یزدی ، محمد تقی ؛ معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۱۰۶، ۱۲۴۔

۲۱۵

۳۔ طینت کی روایات کا دوسرا جواب

ایک فلسفی مقدمہ قرآن میں موجود ہے جس کے بہت ہی دقیق ہونے کی وجہ سے ہم آسان لفظوں میں اشارہ کرتے ہوئے اس مقدمہ کو پیش کریںگے۔البتہ یہ مقدمہ بہترین جواب اور روایات طینت کے لئے بہترین توجیہ ہے :

عالم مادی کے علاوہ عالم برزخ ،عالم قیامت اور عالم آخرت جیسے دوسرے جہان بھی ہیں اور روایات ،مذکورہ عالم میں سے عالم آخرت کو بیان کررہی ہے. عالم آخرت میں زمان ومکان وجود نہیں رکھتا ہے جو کچھ اس دنیا میں زمان ومکان کے دامن میں واقع ہوتا ہے اس عالم میں اکٹھا اور بسیط انداز میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اس دنیا کے ماضی ،حال اور آئندہ، اس دنیا میں یکجا ہوںگے .پوری یہ دنیا جس میں ایک طولانی زمان ومکان موجزن ہے ، اس دنیا میں صرف ایک وجود کی طرح بسیط اور بغیر اجزا کے ہوںگے .لہذا وہ چیزیں جو اس دنیا میں موجود ہیں وہاں بھی ہیں.(۱) روایات طینت اُس دنیا اور اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتی ہیں کہ یہ انسان جو پوری زندگی بھرترقی کرتا ہے اور بعد میں اپنے اختیار سے ایسے اعمال انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اچھا یا برا ہوجاتا ہے.یہ تمام چیزیںاس دنیا میں یکجا موجود ہیں اور انسان کا اچھا یا برا ہونا اس کے دنیا میں آنے سے پہلے اس عالم میں معلوم ہے.اس لئے کہ اس دنیا کے یا اسی کے تمام مراحل وہاں موجود ہیں آیا اب یہ گفتگو یعنی اس دنیا میں اچھا یا برا معلوم ہونے کا معنی جبر ہے؟ نہیں، اگر لوگ اس دنیا میں بااختیار عمل انجام دیتے ہیں تو اس دنیا میں بھی اسی طرح یکجا ہوںگے اور اگر مجبور ہیں تووہاں بھی یکجا جبر ہی ہوگا قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید انسان کو اس دنیا میں مختار بتارہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا یکجا اور بسیط وجود بھی مختار ہے ایسے عالم کا ہونا ،اس میں انسان کا حاضر ہونا اور وہاں اچھاا ور برا معلوم ہونا انسان کے مختار ہونے سے منافات نہیں رکھتا ہے. پس روایات طینت ،انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہیں۔

۴۔ فلسفی جبر

بعض فلسفی قواعد بھی انسان کے اختیاری افعال میں جبر کے توہم کا سبب بنے ہیں اسی بنا پر بعض لوگوں نے ان قواعد کو غلط یا قابل استثناء کہا ہے اور بعض لوگوں نے انسان کے اختیاری افعال کو جبری قرار دیا ہے .منجملہ قاعدہ (الشَیٔ مَالم یجِب لم یُوجد) ہے (ہر وہ چیز جب تک سرحد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچے وجود میں نہیں آئے گی ) جبر ایجاد کرنے میں اس قاعدہ کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ قاعدہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی شامل ہے اختیاری افعال بھی جب تک سر حد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچیں متحقق نہیں ہوںگے چونکہ ایساہی ہے لہٰذا ہر اختیاری فعل جب تک سرحد

____________________

(۱) اس عالم میں ''ابھی ''کی تعبیر مجبوری کی وجہ سے ہے ورنہ اس دنیا میں حال ، گذشتہ اور آئندہ نہیں ہے ۔

۲۱۶

وجوب تک نہیں پہونچا ہے محقق نہیں ہوگا اور جب سر حد ضرورت ووجوب تک پہونچ جائے گا تو انسان چاہے یا نہ چاہے قطعاً وہ فعل محقق ہوگا .اسی لئے انسان محکوم ومجبور ہے اور اس کے ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔

اس شبہہ کے جواب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ قاعدہ عقلی اور کلی ہے اور قابل استثناء نہیں ہے اور یہ بات اپنی جگہ ثابت اور مسلم ہے لیکن اس قاعدہ سے جبر کا استخراج اس سے غلط استفادہ کرنے کا نتیجہ ہے. اس لئے کہ یہ قاعدہ یہ نہیں بتاتا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال کن شرائط میں مرحلہ وجوب وضرورت تک پہونچتے ہیں بلکہ صرف مرحلہ ضرورت ووجوب تک پہونچنے کی صورت میں اختیاری فعل کے حتمی متحقق ہو نے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور اختیاری افعال میں یہ وجوب وضرورت ارادہ کے تحقق ہونے سے وابستہ ہے اور جب تک ارادہ متحقق نہ ہووہ مرحلہ ضرورت ووجوب تک نہیں پہونچے گا لہذا اگر چہ اس قاعدہ کے مطابق جس وقت اختیاری فعل مرحلہ ضرورت تک پہونچے گا تحقق حتمی ہے لیکن اسکا مرحلہ ضرورت تک پہونچنا ارادہ کے تحقق سے وابستہ ہے اور ایسی صورت میں یہ قاعدہ نہ صرف انسان کے اختیار سے کوئی منافات نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے معنی انسان کا حقیقی مختار ہونا ہے۔

دوسرا قاعدہ جو جبر کے توہم کاباعث ہوا ہے وہ قاعدہ (ارادہ کا بے ارادہ ہونا )ہے. اس شبہہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر اختیاری فعل ارادہ سے پہلے ہونا چاہیئے اور خود ارادہ بھی انسان کے درونی اختیاری افعال میں سے ہے لہٰذا اسکے اختیاری ہونے کے لئے دوسرے ارادہ کا اس کے پہلے ہونا ضروری ہے اورپھر تیسرے ارادہ کا بھی دوسرے ارادہ سے پہلے ہونا ضروری ہوگا ، اور یہ سلسلہ لا محدود ہونے کی وجہ سے متوقف ہوجاتا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ وہ ارادہ اب اختیاری نہیں رہا بلکہ جبر ہوگیا ہے اور جب وہ ارادہ جبری ہوگیا تو اختیاری فعل بھی جو اس سے وابستہ ہے جبری ہو جائے گا۔

اس کا جواب جو کم از کم فارابی کے زمانے سے رائج ہے متعدد ومتنوع جوابات سے مزین ہیں جن میں سے سب سے واضح جواب ذکرکیا جا رہا ہے ۔

اختیاری فعل کا معیار یہ نہیں ہے کہ ارادہ سے پہلے ہو،تا کہ اختیاری فعل کے لئے کوئی ارادہ نہ ہو ، بلکہ اختیاری فعل کا معیار یہ ہے کہ ایسے فاعل سے صادر ہو جو اپنے کام کو رضایت اور رغبت سے انجام دیتا ہے.ایسا نہ ہوکہ ایک دوسرا عامل اس کو اس کی رغبت کے خلاف مجبور کرے.انسان کے تمام اختیاری افعال منجملہ انسان کا ارادہ اسی طرح ہے اور ہمیشہ انسان کی خواہش سے انجام پاتا ہے اور انسان ان کے انجام دینے میں کسی جبر کا شکار نہیں ہے ۔

۲۱۷

تیسرا قاعدہ جو فلسفی جبر کے توہم کا موجب ہواہے وہ قاعدہ (ایک معلول کے لئے دو علت کا محال ہونا )(استحالةُ تواردِ العلّتین علیٰ معلولٍ واحدٍ ) ہے ، اس شبہہ میں کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات منجملہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم کی مخلوق اور معلول ہیں اور یہ موضوع متعدد عقلی ونقلی دلیلوںپر مبنی ہے جسے ہم مناسب مقام پر بیان کریں گے اس وقت اگر انسان کے اختیاری افعال کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حوادث انسان کے اختیاروارادہ سے وابستہ ہیں تو اس کا معنی یہ ہیں کہ انسان بھی ان حوادث کے رونما ہونے کی علت ہے اور اس کا لازمہ ،ایک معلوم کے لئے (انسان کا اختیاری فعل ) دو علت (خدا وانسان )کا وجود ہے اور اس کو فلسفہ میں محال مانا گیا ہے کہ ایک معلوم کے لئے دوعلتوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ میں اورہم رتبہ ہونالازم آتاہے ،لیکن طول میں دو علتوں کا وجود اس طرح کہ ایک دوسرے سے بالا تر ہوں یہ فلسفی اعتبار سے نہ فقط محال نہیں ہے بلکہ فلسفی مباحث کے مطابق دنیا کی خلقت اسی اصول پر استوار ہے اور انسان کے اختیاری افعال کے سلسلہ میں صورت یوں ہے کہ انسان کے اختیاری افعال سے منسوب خدا وند عالم کی علت اور اس کی فاعلیت بالاتر ہے اور انسان اور اس کا اختیار ارادۂ خدا کے طول میں واقع ہے اسی بنا پر خداوند عالم کی علیت ،انسان اوراس کے اختیار کی علیت بھی قابل قبول ہے اوریوں کسی طرح کا کوئی جبر لازم نہیں آتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: سبحانی ؛ الالٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲ ص ۲۰۳، ۲۰۴؛ محمد تقی مصباح ؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۳۷۸، ۳۸۹۔

۲۱۸

آٹھویں فصل

مقدمات اختیار

اس فصل کے مطالعہ سے اپنی معلومات کو آزمائیں :

۱۔ان عناصر کا نام بتائیں جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے تحقق میں محتاج ہے؟

۲۔ انسان کے اختیاری اعمال میں تیں عناصر میں سے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

۳۔معرفت انسان کے اسباب کو آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ درونی کشش(خواہشات)کی تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کے بارے میں مختصر سی وضاحت کریں؟

۵۔ انتخاب اعمال کے معیار کی وضاحت کریں؟

۶۔ عالم آخرت کے کمالات ولذتوں کے چار امتیاز اور برتری کو بیان کریں؟

۲۱۹

گذشتہ فصل میں ہم نے انسان کے متعلق اختیاری رفتار وافعال کو مرتب کرنے والے مختلف اسباب کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ذکر کیا ہے کہ ان اسباب کے درمیان انسان کا اختیار بہت ہی اہم رول ادا کرتا ہے اور انسان کا قصدوانتخاب اس کے اختیاری افعال ورفتار میں سرنوشت ساز ہیں. اس طرح اختیاری رفتار وکردار میں دقت وتوجہ ، حقیقت و اختیارکی ساخت و ساز میں معاون و مددگار ہیں. اسی بنا پر خصوصاً اختیار کی کیفیت کی ترتیب میں قدیم الایام سے متنوع ومتعدد سوالات بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض اہم سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔کیا انسان کا اختیار بے حساب و بہت زیادہ ہے اور کیا کسی قاعدہ واصول پرمبنی نہیں ہے یا اختیارکی ترتیب بھی دوسرے عوامل واسباب کے ماتحت ہے؟

۲۔اختیار کوفراہم کرنے والے اسباب کون ہیں اور انسان کی توانائی ، خواہش اور معلومات کا اس سلسلہ میں کیا کردار ہے ؟

۳۔ اختیاری افعال میں انتخاب و تعیین کا معیار کیا ہے اور فعاّل وعقلمندانسانوں اور بہت زیادہ متاثر افراد کہ جو اپنے انتخاب کی باگ ڈ ور معاشرے کے حالات وماحول کے شانے پرڈال دیتے ہیں اور غفلت یا کسی جماعت کے ساتھ اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اس سلسلہ میں کون سے تفاوت واختلاف موجودہیںبیان کریں ؟

۴۔ کیا انسان کی معرفت کے عام اسباب اورطرز عمل (تجربہ اور تعقل وتفکر)صحیح راہ کے انتخاب ومعرفت کے لئے تمام مراحل میں کفایت کرتے ہیں؟

۵۔ خصوصاً وحی کے ذریعہ استفادہ کی بنیادپر اور گذشتہ سوالات کے جوابات کے منفی ہونے کی صورت میں حقیقی سعادت کے حصول اور صحیح راستہ کے انتخاب اور اس کی معرفت میں (خصوصاً طریقہ وحی)اور (عام طریقہ معرفت )میں سے ہر ایک کا کیاکردارہے؟ اورکیااس موضوع میں دونوں طریقہ ایک دوسرے سے ہماہنگ ہیں؟ اس فصل میں ہم مذکورہ بالاسوالات کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307