انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146092 / ڈاؤنلوڈ: 4867
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

توحید اور شرک

(کے معیار کی شناخت)

(تالیف)

مولانا سید نسیم حیدرزیدی

انوار القرآن اکیڈمی (پاکستان)

۱

بسم اﷲالرّحمن الرّحیم

۲

توحید اور شرک

(کے معیار کی شناخت)

( ولقد بعثنا فی کلّ امّةٍ رسولاًان اعبدوا اﷲواجتنبوا الطّاغوت )

ہم نے ہر امّت کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث کیا ہے تاکہ خدا کی پرستش کریں اور خدا کے علاوہ ہر معبود سے اجتناب کریں۔

(سورہ مبارکہ نحل آیت 36 )

۳

باب اوّل : توحید ودلائل توحید

مسئلہ توحید جو ما سوا اللّہ کے وجود کی نفی اور خداوند متعال کے اثبات کے مضمون پر دلالت کرتا ہے ، تمام ادوار میں پیغمبران ِ خدا کی دعوت کا اساس رہا ہے ۔تمام انسانوں کو چاہیے کہ خدا کی پر ستش کریں اور دوسرے موجودات کی عبادت اور پرستش سے اجتناب کریں ۔ایک خدا کو ماننا اور دوئی کی زنجیروں کو توڑنا خداکی طرف سے بھیجے ہوئے بنیادی ترین احکام میں سے ایک ہے ۔تمام انبیائے الٰہی (ع)کے مشن میں جو چیز سر فہرست ہے وہ یہی ہے ۔گویا تمام انبیاء (علیہم السّلام )ایک ہی ہدف کے لیئے چنے گئے ہیں اور وہ یہ کہ مسئلہ توحید اور یکتا پرستی کو انسانوں کے دلوں میں راسخ کریں ۔اور شرک کے خلاف بطور مطلق جہاد کریں ۔

قرآن مجید نے اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

١ ( ولقد بعثنا فی کلّ امّةٍ رسولاًان اعبدوا اﷲواجتنبوا الطّاغوت ) (1)

''ہم نے ہر امّت کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث کیا ہے تاکہ خدا کی پرستش کریں اور خداکے علاوہ ہر معبود سے اجتناب کریں''۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ نحل آیت 36

۴

٢ (وماارسلنا من قبلک من رسول الّا نوحی الیه انّه لااله الاّ انا فاعبدون ) (2)

''آپ سے قبل ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے ہم نے وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور

میری ہی عبادت و بندگی کرو ''

قرآن مجید نے خدا کی عبادت اور پر ستش کو تمام آسمانی شریعتوں کے لیئے ''اصل مشترک ''کے طور پر پہچنوایا ہے

(قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمةٍسوائٍ بینناو بینکمالّانعبدو االّاﷲولا نشر ک به شیئاً) (1)

''اے رسول آپ کہدیجئے،کہ اے اہل کتاب آو اس کلمہ کو قبول کریں جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کے علاوہ ہم کسی کی پرستش نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں ۔

قرآن مجید نے اسی اساسی اور بنیادی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیئے متعدد دلائل اور براہین قاطعہ پیش کیے ہیں جنھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔دلائل نظری اور دلائل مشاہداتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ نحل آیت 36 (2)سورہ مبارکہ انبیاء آیت 25

۵

(1)دلائل نظری

قرآن مجید نے نظری استدلال کا اندازو اسلوب اختیار کرتے ہوئے اثبات توحید کے باب میں متعدد مقامات پر جو ارشاد فرمایا ہے یہاں اس کا بیان مقصود ہے

پہلی دلیل:

قرآن مجید تصوّر توحید کو انتہائی مثبت اور انوکھے انداز میں یوں پیش کرتا ہے

(والٰهکم الٰه واحد لآاله الاهو الرّحمن الرّحیم ) (1)

'' اور تمھارا معبود خدائے واحد ہے اس کے سواء کوئی معبود نہیں (وہ) نہایت مہربان بہت رحم والا ہے''

ابتدائے آفرینش سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ توہماتی طورپر ہر اس وجود کو منصب الوہیت پر فائز کرکے اس کی بندگی اور پرستش کا خوگر بنا رہا ،جس سے اس کی ذات کے لئے مادی منفعت کا کوئی پہلو نظر آتا تھا ،ایک نادیدہ خدا کا تصوّر اس کے لئے عجیب وغریب بات تھی ۔

اس کائنات رنگ و بو میں خدا کی ربوبیت نے جتنے بھی اسباب مہیا فرمائے اور مظاہر قدرت پیدا کئے ہیں وہ سب کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت بجا لانے اور اس کے لئے منفعت اندوزی کا سامان مہیا کر نے میں لگے ہوئے ہیں ۔انسان نے اپنی اس ازلی اور فطری کمزوری کی بنا پرعناصر اربعہ آگ ،پانی ،مٹی ،ہوا اور ان کے متعلقات

----------------

(1) سورہ مبارکہ بقرہ 2:162

۶

کو جن سے وہ کسی نہ کسی صورت میں تمتّع حاصل کرتا رہا ،مقام الوہیت پر لا بٹھایااور اپنی نادانی اور کوتاہ نظری سے انہیں خدایا خدا تک پہنچنے کا ذریعہ تصوّر کرتا رہادرج بالا آیہ کریمہ میں اس باطل تصوّر کی نفی کرتے ہوئے انسان پر یہ حقیقت واشگاف کی جارہی ہے کہ وہ ذات جونفع رساں اور مسلسل ا پنی بے پایان رحمت عمومی کے خزانے نچھاور کرنے والی ہے ہی ،منصب الوہیت کی سزاواراور اس لائق ہے کہ جبینِ نیاز اسی کے سامنے جھکائی جائے ۔وہی لازوال ہستی جو تمھارے معاش کی حاجتوں کو پورا کرنے والی اورمعاد کی حاجتوںاور ضرورتوں کو بھی فراہم کرنے والی ہے اس بات کی مستحق ہے کہ تم اپنا سر تسلیم اور جبیں بندگی اسی کے سامنے خم کرو اور سبھی معبودان باطلہ کی پرستش و بندگی سے باز آجاو۔

دو سری دلیل:

قرآن مجید سورہ بقرہ کی 164 ویں آیت میں اسی عقلی و نظری استدلال کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان کو تخلیق کائنات اوراختلاف لیل ونہار کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے ۔ ارشاد ربّ العزت ہے ۔

(انّ فی خلق السمّوات والارض واختلاف الّیلِ والنّهارِلایات لّقومِ یعقلون )

''بے شک آسمانوںاور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ''

۷

اس آیہ کریمہ میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جارہی ہے کہیہ کائنات ارضی و سماوی تو خود مخلوق ہے لہذا یہ الہٰ کیسے ہوسکتی ہے منصب الوہیت پر فائز ہونے کی حقدار تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو پیدا نہ کی گئی ہو ،اس لئے کہ پیدا کی جانے والی ذات حادث تصوّر ہو گی اور حادث ذات کبھی الہٰ نہیں ہوسکتی۔

تیسری دلیل:

قرآن مجید میں ایک مقام پرخداوندمتعال نے اپنی خالقیت وربوبیت کو اپنی الوہیت ومعبودیت کی عقلی دلیل کے طور پر ان الفاظ میں پیش کیا ہے ۔

(یا أيّها الناس اعبدوا ربّکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلّکم تتّقون الذی جعل لکم الارض فراشاًوّالسمائَ بنائًوانزل من السّمائِ مائً فاخرج به من الثّمرات رزقاًلّکم فلا تجعلوا للّه انداداًوّانتم تعلمون ) (1)

'' اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاو۔جس نے تمھارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے تمھارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے پس تم اﷲ کے لئے شریک نہ ٹھراو حالانکہ تم جانتے ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ مبارکہ بقرہ،2:21۔22

۸

اس آیہ کریہ میں اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام گزشتہ اور آئندہ

نسلوں اور انسانیت کے تمام طبقوں کو معرض وجود میں لانے والی اور ان کی کفالت کرنے والی واحد ہستی ہی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کے سامنے سر بندگی اور جبین نیاز خم کی جائے ۔اس انداز استدلال سے اس بات کا استشہاد کیا گیا ہے کہ جب سب کو پیدا کرنے والی اور پرورش وتربیت کرنے والی ذات رب ذو الجلال کی ہے تو انسان کس وجہ سے معبودان ِ باطلہ کو اس کے ساتھ عبادت میں شریک کرتا ہے ۔گویا خالقیت اور ربوبیت میں یکتا اور واحد ہونا اس کی الوہیت و معبودیت میں یکتا و واحد ہونے پر محکم دلیل ہے ۔کیوں کہ یہ بات عقل ِسلیم کے خلاف ہے کہ انسان کو پردہ نیستی سے وجود میں لانے والی اور اس کی تمام فطری اور جبلّی ضرورتوں کی تکمیل و تسکین کا سامان فراہم کرنے والی تو اس کی ذات ہو اور وہ عبادت کسی اور کی کرتا رہے ۔جب وہ اوّلین وآخرین سب کا خالق و مالک اور پروردگار ہے تو اسے چھوڑ کر کسی مخلوق کی عبادت کرنا یا اﷲ کی عبادت کے ساتھ اس کو شریک کرلینا عقل و فہم کی رو سے کب جائز وروا ہوگا۔

مشاہداتی دلائل:

خدا کی ہستی اور اثبات توحیدپرقرآن ِ مجید کا طرز واسلوبِ استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقّل و تفکّر اورتدبّر کی دعوت دیتاہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔چنانچہ قرآن جا بجا انسان کوعالم انفس ،آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے

۹

کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور کریاور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم وانضباط کے ساتھ چل رہا ہے ۔ انسان اگر غور و فکر کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت خداوند متعال کے بہت سے سر بستہ راز کھول دیں گے ۔اس سلسلے میں قرآن مجید نے جن دلائل سے ذات باری تعالیٰ کی توحید پر استشہاد کیا ہے ان میں سے چند کا اجمالی تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

پہلی دلیل:

اگر گوش اور دیدہ بینا کو وا کرکے ہم کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق سے ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا۔اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گیکہ اس کائنات کی تخلیق با لحق ہوئی ہے ۔انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ (ربّنا ما خلقت ھذا باطل )(1)

''اے ہمارے رب ! تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ۔

دوسری دلیل:

قرآن اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کار فرما نظام ِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کایقین انگڑائیاں نہ لینے لگے ۔یہ ممکن ہے کہ انسان سرکشی ،اور تمرّد اور غفلت کی بنا پر ہر چیز سے انکار کردے ، لیکن وہ اپنی فطرت سے انکار نہیں کرسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) آل عمران 3: 191

۱۰

اس کی فطرت سلیمہ کے خمیر میں خدا پرستی کا جذبہ خوابیدہ حالت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ جب اس کی غفلت کا پردہ چاک ہوتا ہے تو اس کا وجدان خود اس کی رہنمائی کرکے اسے اس کے مدّعا تک پہنچادیتا ہے ۔

چنانچہ قرآن مجید نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے ۔

( بل الانسان علیٰ نفسه بصیر ة) (1)

''بلکہ انسان خود بھی اپنی حالت پر مطلّع ہے ''

تیسری دلیل :

قرآن مجید میں ایسے مقامات ہیں جن میں ایک وسیع البنیاد نظام ربوبیت سے توحید باری تعالیٰ پر استدلال کیا گیا ہے ،بے شمار ہیں ۔لیکن یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ارشادات پر اکتفا کیا جائے گا ۔

انسان سے مخاطب ہو کر فرمایا گیا

( فلینظر الانسان الیٰ طعامه انّا صببنا المأئَ صبّا ثمّ شققنا الارض شقاًفانبتنا فیها حبّا) (2)

''پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف غور کرےبشک ہم ہی نے خوب پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو جابجا پھاڑدیاپھر ہم نے اس میں غلّہ پیدا کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ قیامت ،75:14

(2)سورہ مبارکہ عبس ،24۔۔27

۱۱

یہاں ''فلینظر الانسان '' کے ابتدائی کلمات ہی انتہائی فکر انگیز اور بصیرت افزاء ہیں ۔انسان ہر چیز سے غافل ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنی خوراک کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیر سکتا ۔وہ دانہ گندم پر بیج سے پودا بننے کے نامیاتی عمل پر غور کرے تو نظام کائنات کے باطن میں جھلکنے والی ربوبیت اسے اس کار خانہ حیات کے پیدا کرنے والی ہستی کا سراغ دے گی ۔

سورہ نحل میں خدا کے کارخانہ ربوبیت کی مثال شہد کی مکھی سے انتہائی بلیغ پیرائے میں دی گئی ہے ارشاد ربّ العزت ہے ۔

(واوحیٰ ربّک الیٰ النحل ان اتّخذی من الجبال بیوتاًو من الشجروممّایعرشون ) (1)

''اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوںمیں اور بعض چھپروں میں جھنیں لوگ اونچا بناتے ہیں۔''

یہ بات طے شدہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جسے پرورش کی احتیاج نہ ہو جس طرح ہر چیز جو مخلوق ہے اپنے خالق پر دلالت کرتی ہے ۔ایسی ہر چیز جو مربوب ہے اس کے لئے لازمی ہے کہ اس کا ایک رب بھی ہو۔

رحم مادر میں پرورش پانے والے جنین کو غذاپہنچانے کے پیچیدہ نظام کے مطالعہ سے نظام ربوبیت کی وہ کرشمہ سازیاں عیاں ہوتی ہیں جو کسی پرورش کرنے والی ہستی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ نحل،:68

۱۲

خبر دیتی ہیں ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر ایک کی پرورش ہو رہی ہو اور پرورش کرنے والی کوئی ذات موجود نہ ہو۔خود بخود تخلیق کے تصوّرکی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور اس کی لغویت اتنی آشکارا ہے کہ غیر جانبدارانہ تعقّل و تفکّر سے انسان خدا کے وجود کا اقرار کئے بغیر رہ نہیں سکتا ۔

۱۳

باب دوم :توحید اور شرک کا معیار

توحید اور شرک کی بحث میں سب سے اہم مسئلہ دونوں کے معیار کی شناخت ہے۔ اگر کلیدی طور پر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بہت سے بنیادی مسائل کا حل ہونا مشکل ہے لہٰذا ہم مختصرطور پر توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں پر بحث کریں گے۔

1۔ توحید ذات

توحید ذات کی دو صورتیں ہیں:

الف: خدا (علماء کلام کی تعبیر کے مطابق ''واجب الوجود'') ایک ہے اس کی مثل و نظیر نہیں ہے۔ یہ وہی توحید ہے جس کو خداوند عالم نے قرآن مجید میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ مثلاً :

(لیس کَمِثْلِهِ شیئ) (1)

کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہے۔

یا دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ شوریٰ، آیت 11۔

۱۴

(وَ لَمْ یَکُنْ لَه' کُفْواً أَحَدا) (1)

کوئی اس جیسا نہیں ہے۔

قدیم فلاسفہ و حکماء کے نزدیک یہ کائنات دو حصوں میں منقسم ہے ۔

1۔ ممکن الوجود

2۔ واجب الوجود

ممکن الوجود کے زمرے میںوہ سب وجود اور چیزیں شامل ہیں جن کا ہست و نیست ہونا اور موجود و معدوم ہونا دونوں جائز اور روا ہے اور ان کے وجود پر کائنات کے وجود کا انحصار نہ ہو ۔گویا دوسرے لفظوں میں ان کا وجود اور عدم وجود برابر و یکساں ہے۔ اگر ان مختلف ا لنوع ا شیاء کا کائنات میں وجود مان بھی لیا جائے تب بھی درست ہے اور اگر نہ مانا جائے تب بھی درست و جائز ہے ۔اس میں خداوند متعال کے علاوہ کائنات کی ہر چیز شامل ہے جبکہ اس کے بر عکس واجب الوجود ہستی سے مراد وہ ذات ہے جس کے وجود پر کائنات کے وجود کا انحصار ہے اور اس کاہر آن ،ہر زمانے اور ہر کیفیت میں ہونا بہر حال ضروری ہے ۔اس کے عدم وجود کا تصوّر بھی ناممکن ومحال ہے ۔اس بنا پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلان چیز واجب ہے تو اس کا معنیٰ لا محالہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ہونا لازمی ہے اور نہ ہونے کا سوال ہی خارج از بحث ہے ۔اس کا اطلاق صرف اور صرف خداوند متعال کی ذات مطلق پر ہوتا ہے کہ تنہا وہی ایک ایسی ہستی ہے جو ازل

---------------

(1)۔ سورہ مبارکہ اخلاص، آیت 4۔

۱۵

سے موجود ہے اور ابد تک رہے گی اور اس کے وجود پرتمام کائنات کا دارو مدار ہے ۔

البتہ اس طرح کی توحید کی کبھی عوامی صورت سامنے آتی ہے جس میں توحید عددی کا رنگ شامل ہوتاہے اور کہا جاتا ہے کہ ''خدا ایک ہے'' دو نہیں ہیں ظاہر ہے کہ اس قسم کی توحید مقامِ الوہیت کے شایانِ شان نہیں ہے خدا کی ذات بسیط ہے مرکب نہیں ہے کیونکہ اجزائے ذہنی یا اجزاء خارجی سے کسی موجود کی ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اجزاء کا محتاج ہے اور احتیاج، امکان کی دلیل ہے۔ امکان اور علت کی احتیاج کا لازم و ملزوم ہونا واجب الوجود کی شان کے خلاف ہے۔

2۔ توحید خالقیت

توحید خالقیت عقل و نقل کے اعتبار سے قابل قبول ہے عقلی اعتبار سے اللہ کے علاوہ، ایک امکانی نظام ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کمال یا جمال نہیں پایا جاتا۔ اس نظام کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ''غنی بالذات'' منبع فیض کی دِین ہے۔ لہٰذا دنیا میں کمال و جمال کے جو بھی جلوے نظر آتے ہیں سب اسی کی عطا ہیں۔

توحید خالقیت کے موضوع پر قرآن میں بہت سے آیتیں ہیں نمونہ کے طور پر ہم یہاں ایک آیت پیش کر رہے ہیں:

(قل اللّٰه خالق کل شیئٍ وهو الواحد القهار) (1)

کہہ دیجئے کہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا خدا ہے جو ایک اور غالب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ رعد، آیت 16۔

۱۶

کلی طور پر توحید خالقیت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، البتہ پیدائش کی دو تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔

الف: موجودات کے درمیان ہر طرح علت و معلول اور سبب و مسبب والا قانون ''علة العلل'' اور مسبب الاسباب تک منتہی ہوتا ہے درحقیقت مستقل اور حقیقی خالق خدا ہے۔ اپنے معلولات میں غیر خدا کی اثر اندازی خدا کی اجازت اور مشیت کے بغیر ناممکن ہے۔

اس نظریہ میں اس علت و معلول والے نظام کا اعتراف ہے جو دنیا میں کارفرما ہے اور علم بشر نے بھی اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سارا نظام کسی نہ کسی انداز سے خدا سے متعلق ہے۔ وہ اس نظام کا خالق ہے۔ اسباب و علل کو اسباب و علل بنانے والا اور مؤثر کو تاثیر عطا کرنے والا وہی ہے۔

ب: دوسرا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک خالق کا وجود ہے اور وہ خدا ہے نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان کسی طرح کی تاثیر و تأثر نہیں ہے ۔ وہ بلا واسطہ ساری طبیعی اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی طاقت بھی اس کے فعل پر اثر انداز نہیں ہوتی۔اس وجہ سے کائنات میں ایک ہی علت ہے۔ اس کے سوا اور کسی علت کا وجود نہیں ہے۔ علم جِسے علل طبیعی کے عنوان سے روشناس کراتا ہے۔ وہ وہی ذات ہے اور بس!

توحید خالقیت کے موضوع پر یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن اشاعرہ سے بعض

۱۷

اشخاص نے اس تفسیر سے انکار کیا ہے اور پہلی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ مثلاً۔ امام الحرمین(1) اور شیخ محمد عبدہ نے رسالہ توحید میں اسی رُخ کو اختیار کیا ہے۔

3۔ کائنات کی تنظیم میں توحید

چونکہ کائنات کا پیدا کرنے والا خدا ہے۔ اس لیے نظام ہستی کا چلانے والا بھی اسی کو ہونا چاہیے۔ دنیا کا منتظم صرف ایک ہے اور جس عقلی دلیل سے خالق کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے اِسی سے کائنات کے منتظم کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے۔

قرآن مجید نے بھی مختلف آیتوں میں یہی بتایا ہے کہ منتظم کائنات ایک ہے۔

( قُلْ أغَیْرَ اﷲِ أبْغِی رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْئٍ) (2)

کہہ دیجئے کہ کیا میں خدا کے علاوہ کوئی دوسرا پروردگار ڈھونڈوں حالانکہ تمام چیزوں کا رب وہی ہے۔

توحید خالقیت میں جو دو تفسیریں بیان کی گئی تھیں، وہی مدبر ومنتظم کائنات کی توحید میں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ ہماری نظر میں مستقل اور اصلی مدبر خدا ہی کی ذات ہے۔

چونکہ نظام ہستی میں سب کچھ خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ سے انجام پاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے بھی ان تدبیر اور تنظیم کرنے والوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو خالق کی ذات سے وابستہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ ملل و نحل: شہرستانی، ج1۔

(2)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت 164۔

۱۸

(فَالْمُدَبِّرٰاتِ أمْراً) (1)

وہ نظام ہستی کا انتظام کرنے والے ہیں۔

4۔ توحیدِ حاکمیت

توحید حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ حقِ ثابت کے عنوان سے حکومت کا حق صرف اللہ کو ہے اور سارے انسانوں پر صرف وہی حاکم ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

(ان الحکم اِلّا اللّٰه) (2)

صرف خدا کو حاکمیت کا حق ہے۔

اس بنا پر خدا کی مشیت سے ہی دوسروں کی حکومت قائم ہوسکتی ہے تاکہ نیک انسان معاشرہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھالیں اور منزلِ سعادت و کمال کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں۔

قرآن خود کہتا ہے:

(یَادَاوُودُ ِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الَْرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقّ)(3)

اے دائود ہم نے تم کو زمین پر اپنا نمائندہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ نازعات، آیت 5۔

(2)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت 40۔

(3)۔ سورہ مبارکہ ص، آیت 26۔

۱۹

5۔ اطاعت میں توحید

بالذات جس کی پیروی لازم ہے وہ خداوند عالم کی ذات ہے۔ اس بنا پر انبیائ، ائمہ ٪ فقیہ، ماں باپ وغیرہ کی اطاعت خدا کے حکم اور ارادہ کی پابند ہے۔

6۔ قانون سازی کے مسئلہ میں توحید

اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون سازی اور شریعت بنانے کا حق صرف خدا کو حاصل ہے اسی وجہ سے ہماری آسمانی کتاب کے مطابق جو حکم قانون الٰہی حدوں سے خارج ہو وہ کفر، فسق اور ظلم و ستم ہے۔

( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُون) (1)

جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔

( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْفاسِقُون) (2)

جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔

( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْظَالِمُون) (3)

جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت 44۔

(2)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت 47۔

(3)۔ سورہ مبارکہ ص، آیت 45۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

تیسرے گروہ کی روایات کے سلسلہ میں یعنی وہ روایات جو فطرت انسان کو بیان کرتی ہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ روایات تقاضوں کو بیان کررہی ہیں علت تامہ کو بیان نہیں کررہی ہیں یعنی جو لوگ پیدا ہو چکے ہیں ان میں سے بعض کی فطرت گناہ اور ویرانی کی طرف رغبت کا تقاضا کرتی ہے اور بعض افراد کی فطرت اچھائی کی طرف رغبت رکھتی ہے جیسے وہ نوزاد جو زنا سے متولد ہواہو اس بچہ کے مقابلے میں جو صالح باپ سے متولد ہوا ہے گناہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے لیکن کسی میں بھی جبر نہیں ہے.

دوسرا جواب : یہ ہے کہ اچھے یا برے ہونے میں فطرت کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم پہلے سے جانتا ہے کہ کون اپنے اختیار سے صحیح راہ اور کون بری راہ انتخاب کرے گا اسی لئے پہلے گروہ کو اچھی طینت اور دوسرے کو بری طینت سے خلق کیا ہے۔

اس کی مثال ایک باغبان کی طرح ہے جو تمام پھولوں کو اسکی قیمت اور رشد وبالیدگی کے مطابق ایک مناسب گلدان میں قرار دیتا ہے .گلدان پھولوں کے اچھے یا برے ہونے میں تاثیر نہیں رکھتا ہے اسی طرح طینت بھی فقط ایک ظرف ہے جو اس روح کیمطابقہے جسے اپنے اختیار سے اچھا یا براہوناہے طینت وہ ظرف ہے جواپنے مظروف کے اچھے یابرے ہونے میں اثر انداز نہیں ہوتا دوسرا جواب بھی دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے لئے فلسفی مقدمات ضروری ہیں لہٰذا اس سے صرف نظر کیا جارہا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)''ضمائم ''کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۱

ب) اجتماعی اور تاریخی جبر

اجتماعی اور تاریخی جبر کا عقیدہ بعض فلاسفہ اور جامعہ شناسی کے ان گروہ کے درمیان شہرت رکھتا ہے جو جامعہ اور تاریخ کی اصالت پرزور دیتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق کسی فرد کی معاشرے اور تاریخ سے الگ کوئی حقیقت نہیں ہے .معاشرہ اور تاریخ ایک با عفت وجود کی طرح اپنے تمام افراد کی شخصیت کو مرتب کرتے ہیں لوگوں کا تمام فکری (احساس )اور افعالی شعور، تاریخ اور معاشرے کے تقاضہ کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان اپنی شخصیت کوبنانے میں ہر طرح کے انتخاب اور اختیار سے معذور ہے نمونہ کے طور پرہگل مارکس ، اور ڈورکھیم کے نظریوں کو ذکر کیا جا سکتا ہے ہگل جو تاریخ کے لئے ایک واقعی حقیقت کا قائل ہے معتقد تھا کہ تاریخ صرف تاریخی حوادث یاسادہ سلسلۂ عبرت کے لئے ہے کہ جس کی نظری اور فکری تجزیہ وتحلیل نہیں ہوتی ،اس کی نظر میں گوہر تاریخ ،عقل ہے(اس کا نظریہ اسی مفہوم کے اعتبار سے ہے) اور تاریخی ہر حادثہ اس کے مطابق انجام پاتا ہے، تاریخ ساز افراد ، مطلق تاریخ کی روح کے متحقق ہونے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور بغیر اس کے کہ خود آگاہ ہوں اس راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔(۱) مارکس کا نظریہ تھا کہ انسان کا ہر فرد تاریخ اور معاشرہ کا نتیجہ ہے. تمام انسانی افعال تہذیت و ثقافت ، مذہب،ہنر،اجتماعی افراد کے علاوہ تمام چیزیں معاشرہ پر پھیلے ہوے اقتصادی روابط پر مبنی ہیں.(۲) اس لئے انسان کے ہر فرد کی آمادگی کا تنہا حاکم اس کے معاشرے پرحاکم اقتصادی روابط کو سمجھنا چاہیئے اس لئے کہ اقتصادی روابط زمانہ کے دامن میں متحول ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ متحول ہوتا ہے اور معاشرے کے معقول ہونے سے انسانوں کی شخصیت ،حقیقت ،تہذیب و ثقافت اور اس کے اعتبارات بھی متحول ہوجاتے ہیں. ڈورکھیم اس جبر کی روشنی میں ''نظریہ آئیڈیا'' کی طرف مائل ہوا ہے کہ انسان ایک فردی واجتماعی کردار رکھتا ہے اوراس کا اجتماعی نقش ارادوں ،خواہشوں ، احساسات اور تمام افراد کے عواطف کے ملنے اور ان کے ظاہر ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور یہی روح معاشرہ ہے۔

____________________

(۱) بعض فلاسفۂ تاریخ بھی معمولاًتاریخ کے لئے ایسے اعتبارات ، قوانین اور مراحل مانتے ہیں جو غیر قابل تغیر ہیں اور انسانوں کے ارادے ، خواہشات ،جستجو اور معاشرے انہیں شرائط و حدود میں مرتب ہوتے ہیں

(۲)البتہ مارکس کا ''اجتماعی جبر '' فیور بیچ اور ہگل کے تاریخی جبر کی آغوش سے وجود میں آیا ہے ۔

۲۰۲

اور یہ روح اجتماعی بہت قوی ہے جو افراد کے وجودی ارکان پرمسلط ہے شخصی اور فردی ارادہ اس کے مقابلے میں استادگی کی توانائی نہیں رکھتا ہے. وہ افراد جو اس روح اجتماعی کے تقاضوں کے زیر اثر ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیز یں سماج ا ورمعاشرہ نے انسان کو دیا ہے اگر وہ اس کو واپس کردے تو حیوان سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔

اجتماعی اور تاریخی جبر کی تجزیہ وتحلیل

پہلی بات: سماج اور تاریخ کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ یہ مرکب اعتباری ہیں جو افراد کے اجتماعی اور زمان ومکان کے دامن میں انکے روابط سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو وجود رکھتی ہیں وہ ہرفرد کے روابط اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں عمل و رد عمل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔

دوسری بات: ہم اجتماعی و تاریخی عوامل،اقتصادی روابط جیسے ، اعتبارات ، آداب و رسوم اور تمام اجتماعی و تاریخی عناصر کی قدرت کے منکر نہیں ہیں اور ہمیں افراد کی شخصیت سازی کی ترکیبات میں ان کے نقش و کردار سے غافل بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن اجتماعی اور تاریخی عوامل میں سے کوئی بھی انسان کے اختیار کو سلب کرنے والے نہیں ہیںاگر چہ معاشرہ زمان ومکان کی آغوش میں اپنے مخصوص تقاضے رکھتا ہے اور انسان سے مخصوص اعمال و رفتار کا خواہاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس سے اختیار سلب ہوگیا ہے جبکہ انسان ان تمام عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتا ہے حتی معاشرہ کی سر نوشت میں اثر انداز ہو سکتا ہے. جیسا کہ اس طرح کے اثرات کے نمونوں کو معاشروں کی تاریخ میں بہت زیادہ دریافت کیا جا سکتا ہے

۲۰۳

ج)فطری جبر

فلسفۂ مادی اور مادہ پرستی کے ہمراہ ارثی صفات کے سلسلہ میں علمی ارتقاء انسان کی جبری زندگی کا عقیدہ پیش کرتاہے .جو لوگ انسان کے اندر معنوی جوہر کے وجود کے منکر ہیں اور اس کو صرف اپنی تمام ترقدرتوں سے مزین ایک پیکر اور جسم سے تعبیر کرتے ہیں .اور اس کی بہت سی توانائیاں انسانی خصوصیات کے ارثی و وراثتی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور انسان کے تمام نفسیاتی و ذہنی حالات کی مادی توجیہ کرتے ہیں اور لذت ،شوق ،علم،احساس اور ارادہ کو مغز کے اندر سلسلۂ اعصاب اور الکٹرانک حرکتوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں لہٰذا طبیعی طور پر عقیدہ جبر کی طرف گامزن ہیں(۱) ایسی صورت میں انسان کو اخلاقاً اس کے اعمال کے مقابلے میں ذمہ دار نہیں سمجھا جاسکتا ہے .کیونکہ ایسی حالت میں جزا و سزا اپنے معنی و مفہوم کھو دیں گے اس لئے کہ ان سوالوں کے مقابلہ میں کہ کیوں فلاں شخص مرتکب جرم ہوا ہے ؟ تو جواب دینا چاہئے کہ اس کے ذہن میں مخصوص الکٹرانک اشیا کا تحقق اس کے تحریک کا باعث ہوا ہے اور یہ حادثہ وجود میں آیا ہے اور اگر سوال یہ ہو کہ کیوں یہ مخصوص اشیاء اس کے ذہن اور اعصاب میں حاصل ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ فلاں حادثہ بھی فلاں فطری اور الکٹرانک حوادث کی وجہ سے تھا اس تحلیل کی روشنی میں مغز کے مادی حوادث انسان کے خارجی افعال و حوادث کے اسباب ہیں مغز کے مادی حوادث میں سے کوئی بھی ارادی ، اختیاری افعال اور انسانوں میں تبدیلی وغیرہ اُن ارثی صفات اور فطری بناوٹ میں تبدیلی کی بنا پر ہے جن کا ان کی ترکیبات میں کوئی کردار نہیں ہے. یعنی لوگوں نے ترقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ : بیرونی فطرت کے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان سے مخصوص افعال سرزد ہوں اور یہ عوامل جدا ہونے والے نہیں ہیں وہ افعال جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں نہ مخصوص نفسیاتی مقدمات (فہم وخواہشات ) ہیں جو فطری اور بیرونی طبیعی حوادث سے بے ربط نہیں ہیں مثال کے طور پر ہمارا دیکھنا ،اگر چہ یہ فعل ہے جو نفس انجام دیتا ہے. لیکن نفس کے اختیار میں نہیں ہے. عالم خارج میں فطری بصارت کی شرطوں کا متحقق ہونا موجب بصارت ہوتا ہے اور یہ بصارت ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے اختیاری فعل میں موثر ہے۔

____________________

(۱) ا سکینر ،کتاب ''فراسوی آزادی و منزلت''میں کہتا ہے کہ : جس طرح بے جان اشیاء کوجاندار سمجھنا ( بے جان چیزوں سے روح کو نسبت دینا ) غلط ہے اسی طرح لوگوں کو انسان سمجھنا اور ان کے بارے میں فکر کرنا اور صاحب ارادہ سمجھنا بھی غلط ہے،ملاحظہ ہو: اسٹیونسن، لسلی؛ ہفت نظریہ دربارۂ طبیعت انسان ؛ ص ۱۶۳۔

۲۰۴

اس تاثیر کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب تک کسی چیز کو نہیں دیکھے گا اس کی طرف احساس تمایل بھی نہیں کرے گا لیکن جب اس کو دیکھتا ہے تو اس کا ارادہ مورد نظر فعل کے انجام سے مربوط ہوجاتا ہے۔(۱) دیکھنا ،ایک غیر اختیاری شیٔ ہے اور طبیعی قوانین کے تابع ہے. پس جو بھی چیز اس پر مرتب ہوگی اسی قوانین کیتابع ہوگی۔

انسان بھی اگر چہ خواہشات سے وجود میں آتا ہے جو ہمارے اندر موجود ہے لیکن فطرت سے بے ربط نہیں ہے. نفسیاتی علوم کے ماہرین نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عوامل طبیعی خصوصاً انسان میں خواہشات کے بر انگیختہ کرنے کا موجب ہوتا ہے ہم لوگوںنے بھی تھوڑا بہت آزمایا ہے اور معروف بھی ہے کہ زعفران خوشی دلاتا ہے اور مسور کی دال قلب میں نرمی پیدا کرتی ہے قانون وراثت کی بنیاد پر انسان اپنے اباء و اجداد کی بہت سی خصوصیات کا وارث ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.

یہ تمام چیزیں طبیعی وفطری عوامل کے مطابق انسان کے مجبور ہونے کی دلیل ہے اور ان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ارادہ ،فطری اور طبیعی عوامل کے ذریعہ حاصل ہوتاہے گر چہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(۱) بابا طاہر کہتے ہیں :

ز دست دیدہ و دل ہر دو فریاد

کہ ہرچہ دیدہ بیند دل کند یاد

بسازم خنجری نیشش ز پولاد

زنم بر دیدہ ، تا دل گردد آزاد

میں چشم و دل ، دونوں سے رنجیدہ ہوں کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے اسے دل محفوظ کرلیتا ہے ۔میں ایسا خنجر بنانا چاہتا ہوں جس کی نوک فولاد کی ہواور اسی سے آنکھ پھوڑ دوں گا تاکہ دل آزاد ہوجائے ۔

۲۰۵

اور اس کا عکس بھی صادق ہے کہ کہا گیا ہے :

از دل برود ، ہر آن کہ از دیدہ برفت

جو کچھ آنکھ سے پوشدہ ہو جاتا ہے دل سے بھی رخصت ہو جاتا ہے ۔

بغیر کسی مقدمہ کے ارادہ کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱)قابل ذکربات یہ ہے کہ حیاتی اور مادی جبر میں انسان کے معنوی جوہر اور روحانی حالات کی نفی پر تاکید ہوئی ہے اور انسان کو ہمیشہ ایک مادی مخلوق سمجھا جاتا ہے لیکن فطری شبہہ کا جبر میں کوئی اصرار پایا نہیں جاتا ہے بلکہ فطری اسباب و علل اور ان پر حاکم قوانین کے مقابلہ میں فقط انسان کے تسلیم ہونے کی تاکید ہوئی ہے یعنی اگر انسان میں روح اور حالات نفسانی ہیں تو یہ حالات فطری علتوں کی بنیاد پر مرتب ہوتے ہیں اور اس میں انسان کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے

۲۰۶

فطری جبرکی تجزیہ و تحلیل

اس طرح کے جبر کا عقیدہ انسان کے کردار وشخصیت سازی اور طبیعی ،فکری اورموروثی عوامل کے کردار میں افراط ومبالغہ سے کام لیناہے انسانوں کی متفاوت ومتفرق زندگی اور وراثت کے عنصر کا کسی طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کے کردار وشخصیت سازی کے سلسلہ میں تمام موثرعوامل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ارثی علت میں منحصر کرناکسی طرح صحیح نہیں ہے. انسان کو اس زاویہ سے نگاہ کرنے میں بنیادی اشکال اس کے معنوی اور روحانی جہت سے چشم پوشی کرناہے. جبکہ گذشتہ فصلوں میں قرآنی آیات اور فلسفی براہیں سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے انسانوں کے فہم واحساسات کے مرکز ، معنوی اور غیر مادی جوہر کے وجود کو ثابت کیا ہے. نفس مجرد کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد اس قسم کے جبر پر اعتقاد کے لئے کوئی مقام نہیں ہے اس لئے کہ ارادہ کا آزاد ہونا انسان کے روح مجرد کی قابلیتوں میں سے ایک ہے اور انسان کے آزاد ارادے کو مورد نظر قرار دیتے ہوئے ،اگر چہ مادی ترکیبات کے فعل و انفعالات اور فطری عوامل کا کردار قابل قبول ہے لیکن ہم اس نکتہ کی تاکید کررہے ہیں کہ ان امور کا فعال ہونا اختیار انسان کے سلب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے.مادی ترکیبات کے فعل وانفعالات کے حصول اور بعض خواہشات کے بر انگیختہ ہونے میں خارجی عوامل اور ان کی تاثیروں کے باوجود کیا ہم ان عوامل کے مقابلہ میں مقاومت کرسکتے ہیں ؟اس سلسلہ میں اپنی اور دوسروں کی روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ نمونوں سے روبرو ہوتے رہے ہیں۔

قانون وراثت کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے کہ جو فرزند اپنے آباء واجداد سے بعض خصوصیات کا وارث ہواہے وہ کسی بھی انتخاب کی قدرت نہیں رکھتا ہے. اگرمذکورہ امور کو بعض انسانی اعمال کا نتیجہ فرض کرلیا جائے تو یہ جزء العلة ہوں گے لیکن آخر کار ، انسان بھی اختیار استعمال کرسکتا ہے اور تمام ان عوامل کے تقاضوں کے بر خلاف دوسرے طریقہ کار کے انتخاب کی بنا پر انسان کے بارے میں مادی فعل وانفعال اور وراثت کی صحیح پیش بینی ،فطری عوامل کے اعتبار سے نہیں کی جا سکتی ہے۔

۲۰۷

خلاصہ فصل

۱۔ گذشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کرامت اکتسابی ، انسان کے اختیار و ارادہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے. ہم اس فصل میں مسئلہ اختیار اور اس کے حدود کے اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کریںگے ۔۲۔ انسان ایسی مخلوق ہے جو آزمائش ،انتخاب اور قصد وارادے سے اپنے افعال کو انجام دیتا ہے عقلی ونقلی دلیلیں انسان کے اندرپائے جانے والے عنصر (اختیار) کی تائید کرتی ہیں. لیکن اس کے باوجودکچھ شبہات بیان کئے گئے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے.۳۔مسلمانوں کے درمیان ایک گروہ (مجبرہ)ہے جو بعض آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کو ارادۂ الہی کے زیر اثر، فاقداختیار سمجھتا ہے۔ وہ آیات وروایات جو خدا کے علم مطلق اور وہ آیات وروایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ کوئی بھی چیز خدا کے اذن وارادے سے خارج نہیں ہے اور وہ دلیلیں جو بیان کرتی ہیں کہ انسانوں کا مقدر پہلے سے ہی آراستہ ہے. اس گروہ (مجبرہ) نے ایسی ہی دلیلوں سے استناد کیا ہے۔۴۔ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ تمام مورد نظر دلیلیں عقیدہ ٔ تفویض کی نفی کررہی ہیں اور اس نکتہ کو ثابت کررہی ہیں کہ خداوندعالم ابتداء خلقت سے تاابددنیاکاعالم و نگراں نیزمحافظ ہونے کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کرتا ہے اور یہ کہ تمام چیزیں اس کے قضاء وقدر سے مربوط ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر واقعہ کے متحقق ہونے کے لئے کافی ووافی شرائط کا ہونا ضروری ہے منجملہ شرائط ، انتخاب کے بعد قصد کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام اشیاء خداوند عالم کے ارادے اور اذن کے حدود میں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲکاارادہ انسان کے ارادے کے مقابلہ میں ہے.بلکہ ہمارا ارادہ بھی ارادۂ پروردگار کے ہمراہ اور طول میں موثر ہے۔۵۔ دوسرا شبہ اجتماعی وتاریخی جبر کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسان قدرت مقاومت نہ رکھنے کے باوجود تاریخی واجتماعی عوامل اور تقاضوں سے متاثر ہے''. ہگل ،ڈورکھیم اور مارکس'' فرد واجتماع کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ایسا ہی نظریہ رکھتے تھے.علم جنٹک کی پیشرفت کے ساتھ یہ شبہ ایجاد ہوتا ہے کہ انسان کا انتخاب در اصل دماغ کے شیمیائی فعل و انفعالات کا نتیجہ ہے اور انسان کا ایک دوسرے سے متفاوت ہونا اس کے جسمی اور موروثی تفاوت کی وجہ سے ہے ، لہٰذا انسان اپنی جسمی اور طبیعی خصلتوں سے مغلوب و مقہور ہے ۔

۶۔ ان دو شبہوں کے جواب میں مذکورہ عوامل کے وجود کا منکر نہیں ہونا چاہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل میں سیاسی ،اقتصادی اور اجتماعی روابط بھی بہت زیادہ اثر انداز ہیں اور انسانوں کی زندگی کے تفاوت میں عنصر وراثت بھی دخیل ہے. لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والوں نے ان عوامل کی تاثیر کے مقدار میں مبالغہ کیا ہے اور درونی و معنوی عوامل کی تاثیر کو بھول بیٹھے ہیں. انسان کا نفس ایک غیر مادی عنصر ہے اورارادہ اس کی قوتوں میں سے ہے جو مادی اور ضمنی محدودیتوں کے باوجود بھی اسی طرح فعالیت اور مقاومت انجام دے رہا ہے.

۲۰۸

تمرین

۱۔انسان کے فردی اور اجتماعی حالات وکردار کے چند نمونے جو اس کے مختار ہونے کی علامت ہیں ذکر کریں؟

۲۔مفہوم اختیار کے استعمال کے چار موارد کی وضاحت کریں؟

۳۔(امر بین الامرین) سے مراد کیا ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کے نظریہ کو بیان کرتا ہے؟

۴۔بعض لوگوں نے خدا وند عالم کے علم غیب سے متعلق شبۂ جبر کے جواب میں کہا ہے کہ: جس طرح بہت ہی صمیمی اور گہرے دوست کی اپنے دوست کے آئندہ کاموں کے سلسلہ میں پیشن گوئی اس کے دوست کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتے اسی طرح خداوند عالم کا علم غیب بھی انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے. آپ کی نظر میں کیا یہ جواب متقن اور قانع کرنے والا ہے؟

۵۔ کیا انسان کے افعال میں خدا کو فعّال سمجھنا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ ہم انسان کے برے کاموں، تمام گناہوں اور ظلم کو اﷲکی طرف نسبت دیں؟اور کیوں؟

۶۔ کیا آیة شریفہ (ومارمیت ذ رمیت ولکن اﷲ رمی) عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کررہی ہے؟ اور کیوں؟

۷۔انسان کا مختار ہونا ،انسانی حوادث کے قانون مند ہونے سے کس طرح سازگار ہے؟

۸۔ وہ اختیار جو حقوقی اور فقہی مباحث میں تکلیف ، ثواب اور عقاب کے شرائط میں سے ہے اور وہ اختیار جو کلامی وفلسفی اور انسان شناسی کے مباحث میں مورد نظر ہے ان دونوں کے درمیان کیا نسبت ہے؟

۹۔ اختیاری کاموں کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل توضیحات میں سے کون سی توضیح صحیح ہے؟

اختیاری فعل وہ فعل ہے جو انسان کے قصد کے تحت ہو۔اور

(الف) اچانک ظاہرہوتا ہے اور انجام پاتاہے۔

(ب) صاحب علت ہے اور انجام پاتا ہے۔

۲۰۹

مزید مطالعہ کے لئے :

۱.جبرو تفویض اور اس کے غلط ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۶۶)خیر الاثر در رد جبر و قدر : قم : انتشارات قبلہ ۔

۔سبحانی ، جعفر( ۱۴۱۱)الٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲، قم : المرکز العالمی للدراسات الاسلامیہ ۔

۔کاکایی ، قاسم (۱۳۷۴)خدامحوری ( اکازیونالیزم ) در تفکر اسلامی و فلسفہ مالبرانچ، تہران : حکمت ۔

۔مجلسی ، محمد باقر ( ۱۳۶۸) جبر و تفویض ، تحقیق مہدی رجائی ؛ مشہد : بنیاد پژوہش ھای اسلامی ۔

۔مرعشی شوشتری ، محمد حسن ( ۱۳۷۲) ''جبر و اختیار و امر بین الامرین ''مجلہ رہنمون ، ش۶۔

۔ملا صدرا شیرازی ، صدر الدین ( ۱۳۴۰) '' رسالہ جبر و اختیار ، خلق الاعمال ، اصفہان : بی نا۔

۔موسوی خمینی ، روح اللہ ( امام خمینی ) (۱۳۶۲)طلب و ارادہ ، ترجمہ و شرح سید احمد فہری ، تہران : مرکز انتشارات علمی و فرہنگی ۔

۲. جبر کے شبہات اور اس کی تحقیقات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو :

۔جعفر ،محمد تقی ؛ جبر و اختیار ، قم : انتشارات دار التبلیغ اسلامی ۔

۔ جعفر سبحانی( ۱۳۵۲) سرنوشت از دیدگاہ علم و فلسفہ، تہران : غدیر۔

۔سعید مہر ، محمد (۱۳۷۵)علم پیشین الٰہی و اختیار انسان ، تہران : پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی ۔

۔صدر ، محمد باقر ( ۱۳۵۹) انسان مسؤول و تاریخ ساز ، ترجمہ محمد مہدی فولادوند، تہران : بیناد قرآن ۔

۔محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۱) نہایة الحکمة ، تعلیق : محمد تقی مصباح یزدی ، ج۲ ، ص ۳۴۶، تہران : انتشارات ، الزہرائ۔

۔طوسی ، نصیر الدین ( ۱۳۳۰) جبر و قدر ، تہران : دانشگاہ تہران۔

۔محمد تقی مصباح؛ آموزش فلسفہ ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی و انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۴۵)انسان و سرنوشت ، تہران : شرکت سہامی انتشار۔

۔مجموعہ آثار ، ج۱ ، تہران : صدرا ۔

۔ احمدواعظی ( ۱۳۷۵)انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۲۱۰

ملحقات

۱۔ مغربی انسان شناسی کے منکرین اور مسئلہ اختیار

ناٹالی ٹربوویک نے انسان کے اختیار یا جبر کے باب میں مغربی منکرین کے نظریوں کو دوسوالوں کے ضمن میں یوں بیان کیا ہے:

الف)کیا انسان کے اعمال وکردار، اس کے آزاد ارادے کا نتیجہ ہیں یا تقریباً بہ طور کامل ماحول ، وراثت ، طفلی کے ابتدائی دور یا خدا کی طرف سے تعیین ہوتا ہے؟مختلف فکری مکاتب کے ابتدائی نظریوں کو عقیدۂ جبر کے کامل جنون سے لے کر اس کے کامل ضدیت کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے:

عقیدہ تجربہ (ہابز) عقیدۂ جبرتام(۱) عقیدہ ہمبستگی(۲) (ہار ٹلی(۳) ہیوم) آزاد ارادہ کا نسبی یا کامل طور پر انکار عقیدہ نفع (بنٹام ،میل)

فرایڈ کے ماننے والے عقیدہ کردار (واٹسن،ا سکینر) فرایڈکے نئے ماننے والے (فروم،اریکسن) عقیدۂ جبر معتدل انسان محوری(مازلو،روجرز) معمولی آزادیۂ ارادہ عقیدہ خرد (وکارسٹ) وجود پسند، انسان محوری(۴) (می(۵) ،فرینکل(۶) ) خدا کو قبول کرنے والوں کا عقیدہ وجود(۷)

____________________

(۱) Total determinism

(۲) associationists

(۳) Hartley

(۴) existential humanists

(۵) May

(۶) Farnkl

(۷) theistic Existentialists

۲۱۱

عقیدہ ٔجبر یا ضدیت (ببر(۱) ،ٹلیچ(۲) ، فورنیر(۳) )تمام ارادہ کی آزادی عقیدہ عروج وبلندی(۴) (کانٹ)عقیدہ وجود (سارٹر)

(ب)عقیدۂ جبر کے اصول کیا ہیں؟

فطری خواہشات

فرایڈ کے ماننے والے : انسان اپنی معرفت زندگی (جنسیت ،بھوک، دور کرنا(۵) اور ان کے مثل چیزوں) اور فطری خواہشات کے زیر نظرہے انسان کے تمام رفتار وکردار صرف ان سازشوں کا نتیجہ ہیںجو فطری ضرورتوں اور مختلف اجتماعی تقاضوں کے درمیان حاصل ہوتی ہیں.فطری خواہشیں غالباً بے خبرضمیر میں موثر ہیں.اس طرح کہ انسان نہ صرف ان کے زیر اثر قرار پاتا ہے بلکہ اکثر خود بھی اس کنٹرول سے بے خبر ہے. آرتھونلک کے اعصابی اطباء : (نیوبلڈ) اس گروہ کا نظریہ ،عقیدۂ اخلاق کے نظریہ کی طرح ہے انسان محوری (روجرز، مازلو)انسان مادر زاد خواہشات کا حامل ہے جو اسے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے پیش کرتا ہے۔

موروثی وجود

وراثت سے استفادہ کا مکتب :(۶) (جنسن(۷) ،شاکلے(۸) ہرنشٹائن(۹) )اکثر انسان

____________________

(۱) Buber

(۲) Tillich

(۳) Fournier

(۴) transcendentalists

(۵) Elimination

(۶) Inherited L.O.School

(۷) Jensen

(۸) Shockley

(۹) Hernstien

۲۱۲

کا شعورمیراثی ہوتا ہے عقل وخرد سے مربوط تمام رفتار وکردار، ایسے حصہ میں قرار پاتے ہیںجو مخصوص طریقے سے وارث کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔(۱) نظریۂ علم حیات کے مطابق اکثر انسان کے رفتار و کردار اوراس کی افسردگی ،بیرونی درونی ارثی توجہ کا نتیجہ ہیں۔

ماحول کی توانائیاں

افعال گرائی کے نظریہ کے حامی :( واٹسن) کے مطابق انسان کے رفتار و کردار کو ماحول ہی معین کرتا ہے۔

اصول پسندی کے حامی :(ا سکینر) کا کہنا ہے اسباب ماحول ،رفتار وکردار کے مہم ترین معین کرنے والوں میں سے ہیں.اگر چہ فطری عوامل بھی موثر ہیں۔

اجتماعی محافظت کا نظریہ پیش کرنے والے :(بانڈرا،برکوٹز(۲) )اکثررفتار وکردار ، مخصوصاً اجتماعی رفتار وکردار، ماحول کی دینہے نہ کہ فطری خواہشات کا میلان۔

فرایڈ کے نئے ماننے والے : (فردم،اریکسن)کا کہنا ہے فرہنگی اور اجتماعی ماحول ،انسان کے رفتار وکردار کو ترتیب دینے والی بہت ہی مہم قوت ہے. علم حیات کی فطری خواہشات کم اہمیت کی حامل ہے ۔

کارل مارکس کے عقیدہ کے حامی کہتے ہیں : اسباب صنعت یا اقتصادی نظام انسان کے اعتباری چیزوں اور یقینیات کو ترتیب دینے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور اس کے رفتار وکردار کے ایک عظیم حصہ کو بھی معین کرتے ہیں۔

انسان محوری کے دعویدار :(روجرز،مازلو) کے مطابق رفتار وکردار کو اجتماعی عوامل اور معین ماحول ترتیب دے سکتا ہے ۔

____________________

(۱) Eysenck

(۲) Berkowitz

۲۱۳

اگر معنوی احترام اور جسمانی آسودگی کی ابتدائی ضرورت حاصل نہ ہوں تو ماحول ومحیط کے اسباب انسان کو منحرف کرسکتے ہیں اورتکامل و ارتقاء کی راہ میں مانع ہوسکتے ہیں لیکن اگر یہ ابتدائی ضرورت حاصل ہو تو انسان ترقی کرسکتا ہے اور اپنے ہی طرح(۱) دوسرے اہداف کو متحقق کرسکتا ہے جو بیرونی ماحول کے زیر اثر نہیں ہیں.

معنوی قوتیں(۲)

اکثرمفکرین ایسی طاقتوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں جوکسی اندازے یا وضاحت سے روشن نہیں ہوتی ہیں ۔لیکن اکثر بزرگ علماء انسان کے رفتار وکردار میں خدا یا خداؤںکی دخالت کے معتقد ہیں،پوری تاریخ میں حتیٰ گذشتہ چند سالوں میں بھی اکثر معاشروں نے مادیات کے مقابلہ میں معنویات کی زیادہ تاکید کی ہے.

۲۔ خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت اور مسئلہ اختیار

خداوند عالم کی عالم گیر خالقیت جو کہ انسان کے اختیاری اعمال میں بھی شامل ہے اور قرآن کی آیات میں بھی اسکی وضاحت ہوئی ہے جیسے (قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَی ٍٔ)(۳) (وَ اﷲُخَلَقَکُم ومَا تَعمَلُونَ)(۴) یہ آیات عقیدۂ جبر رکھنے والوں کے لئے ایک دلیل وسند بھی ہوسکتی ہے.لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات میں غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات بھی اس کی فعالیت کی نفی نہیں کررہی ہیں بلکہ حقیقی توحید اور انسان کے اختیار ی کاموں میں خدا وند عالم کے مقابلہ میں انسان کی فعالیت کے برابر نہ ہونے کو بیان کررہی ہیں.اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کسی فعل کو دو یا چند فاعل کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو مذکورہ فعل کا متعدد فاعل سے انجام پانا مندرجہ ذیل چار صورتوں میں سے ایک ہی صورت میں ہوگا۔

____________________

(۱) self-actualization

(۲) spiritual forces

(۳)رعد ۱۶

(۴)صافات ۹۶۔

۲۱۴

الف)ایک حقیقی فاعل ہے اور دوسرا مجازی فاعل شمار ہوتا ہے اور فعل کے انجام دینے میں کوئی کردار نہیں رکھتا ہے۔

ب) ایک فاعل حقیقی ہے اور دوسرا اس کا مددگار ہے

ج) متعدد فاعل نے ایک دوسرے کی مدد سے کام کو انجام دیا ہے اور کام کا بعض حصہ ہر ایک سے منسوب ہے.

د) دو یا چند فاعل فعل کو انجام دینے میں حقیقی کردار ادا کرتے ہیںاور یہ فعل ان میں سے ہر ایک کا نتیجہ ہے. لیکن ہر ایک کی علت فاعلی دوسرے سے بالا تر اور طول میں واقع ہے.

قرآن مجید کی آیات فقط چوتھی صورت سے مطابقت رکھتی ہے اور خدا وند عالم کی فاعلیت کو انسان کی فاعلیت کے طول میں بیان کرتی ہیں لہذا انسان کا اختیاری فعل درحقیقت فعل خدا بھی ہے اور فعل انسان بھی، مخلوق خدا بھی ہے اور مخلوق انسان بھی اس لئے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں اور فعل کو ان دونوں کی طرف نسبت دینے میں بھی کوئی عقلی مشکل نہیں ہے.(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں : جوادی آملی، عبد اللہ ؛ تفسیر موضوعی قرآن کریم ، توحید و شرک ، مصباح یزدی ، محمد تقی ؛ معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۱۰۶، ۱۲۴۔

۲۱۵

۳۔ طینت کی روایات کا دوسرا جواب

ایک فلسفی مقدمہ قرآن میں موجود ہے جس کے بہت ہی دقیق ہونے کی وجہ سے ہم آسان لفظوں میں اشارہ کرتے ہوئے اس مقدمہ کو پیش کریںگے۔البتہ یہ مقدمہ بہترین جواب اور روایات طینت کے لئے بہترین توجیہ ہے :

عالم مادی کے علاوہ عالم برزخ ،عالم قیامت اور عالم آخرت جیسے دوسرے جہان بھی ہیں اور روایات ،مذکورہ عالم میں سے عالم آخرت کو بیان کررہی ہے. عالم آخرت میں زمان ومکان وجود نہیں رکھتا ہے جو کچھ اس دنیا میں زمان ومکان کے دامن میں واقع ہوتا ہے اس عالم میں اکٹھا اور بسیط انداز میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اس دنیا کے ماضی ،حال اور آئندہ، اس دنیا میں یکجا ہوںگے .پوری یہ دنیا جس میں ایک طولانی زمان ومکان موجزن ہے ، اس دنیا میں صرف ایک وجود کی طرح بسیط اور بغیر اجزا کے ہوںگے .لہذا وہ چیزیں جو اس دنیا میں موجود ہیں وہاں بھی ہیں.(۱) روایات طینت اُس دنیا اور اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتی ہیں کہ یہ انسان جو پوری زندگی بھرترقی کرتا ہے اور بعد میں اپنے اختیار سے ایسے اعمال انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اچھا یا برا ہوجاتا ہے.یہ تمام چیزیںاس دنیا میں یکجا موجود ہیں اور انسان کا اچھا یا برا ہونا اس کے دنیا میں آنے سے پہلے اس عالم میں معلوم ہے.اس لئے کہ اس دنیا کے یا اسی کے تمام مراحل وہاں موجود ہیں آیا اب یہ گفتگو یعنی اس دنیا میں اچھا یا برا معلوم ہونے کا معنی جبر ہے؟ نہیں، اگر لوگ اس دنیا میں بااختیار عمل انجام دیتے ہیں تو اس دنیا میں بھی اسی طرح یکجا ہوںگے اور اگر مجبور ہیں تووہاں بھی یکجا جبر ہی ہوگا قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید انسان کو اس دنیا میں مختار بتارہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا یکجا اور بسیط وجود بھی مختار ہے ایسے عالم کا ہونا ،اس میں انسان کا حاضر ہونا اور وہاں اچھاا ور برا معلوم ہونا انسان کے مختار ہونے سے منافات نہیں رکھتا ہے. پس روایات طینت ،انسان کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہیں۔

۴۔ فلسفی جبر

بعض فلسفی قواعد بھی انسان کے اختیاری افعال میں جبر کے توہم کا سبب بنے ہیں اسی بنا پر بعض لوگوں نے ان قواعد کو غلط یا قابل استثناء کہا ہے اور بعض لوگوں نے انسان کے اختیاری افعال کو جبری قرار دیا ہے .منجملہ قاعدہ (الشَیٔ مَالم یجِب لم یُوجد) ہے (ہر وہ چیز جب تک سرحد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچے وجود میں نہیں آئے گی ) جبر ایجاد کرنے میں اس قاعدہ کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ قاعدہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی شامل ہے اختیاری افعال بھی جب تک سر حد ضرورت ووجوب تک نہ پہونچیں متحقق نہیں ہوںگے چونکہ ایساہی ہے لہٰذا ہر اختیاری فعل جب تک سرحد

____________________

(۱) اس عالم میں ''ابھی ''کی تعبیر مجبوری کی وجہ سے ہے ورنہ اس دنیا میں حال ، گذشتہ اور آئندہ نہیں ہے ۔

۲۱۶

وجوب تک نہیں پہونچا ہے محقق نہیں ہوگا اور جب سر حد ضرورت ووجوب تک پہونچ جائے گا تو انسان چاہے یا نہ چاہے قطعاً وہ فعل محقق ہوگا .اسی لئے انسان محکوم ومجبور ہے اور اس کے ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔

اس شبہہ کے جواب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ قاعدہ عقلی اور کلی ہے اور قابل استثناء نہیں ہے اور یہ بات اپنی جگہ ثابت اور مسلم ہے لیکن اس قاعدہ سے جبر کا استخراج اس سے غلط استفادہ کرنے کا نتیجہ ہے. اس لئے کہ یہ قاعدہ یہ نہیں بتاتا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال کن شرائط میں مرحلہ وجوب وضرورت تک پہونچتے ہیں بلکہ صرف مرحلہ ضرورت ووجوب تک پہونچنے کی صورت میں اختیاری فعل کے حتمی متحقق ہو نے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور اختیاری افعال میں یہ وجوب وضرورت ارادہ کے تحقق ہونے سے وابستہ ہے اور جب تک ارادہ متحقق نہ ہووہ مرحلہ ضرورت ووجوب تک نہیں پہونچے گا لہذا اگر چہ اس قاعدہ کے مطابق جس وقت اختیاری فعل مرحلہ ضرورت تک پہونچے گا تحقق حتمی ہے لیکن اسکا مرحلہ ضرورت تک پہونچنا ارادہ کے تحقق سے وابستہ ہے اور ایسی صورت میں یہ قاعدہ نہ صرف انسان کے اختیار سے کوئی منافات نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے معنی انسان کا حقیقی مختار ہونا ہے۔

دوسرا قاعدہ جو جبر کے توہم کاباعث ہوا ہے وہ قاعدہ (ارادہ کا بے ارادہ ہونا )ہے. اس شبہہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر اختیاری فعل ارادہ سے پہلے ہونا چاہیئے اور خود ارادہ بھی انسان کے درونی اختیاری افعال میں سے ہے لہٰذا اسکے اختیاری ہونے کے لئے دوسرے ارادہ کا اس کے پہلے ہونا ضروری ہے اورپھر تیسرے ارادہ کا بھی دوسرے ارادہ سے پہلے ہونا ضروری ہوگا ، اور یہ سلسلہ لا محدود ہونے کی وجہ سے متوقف ہوجاتا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ وہ ارادہ اب اختیاری نہیں رہا بلکہ جبر ہوگیا ہے اور جب وہ ارادہ جبری ہوگیا تو اختیاری فعل بھی جو اس سے وابستہ ہے جبری ہو جائے گا۔

اس کا جواب جو کم از کم فارابی کے زمانے سے رائج ہے متعدد ومتنوع جوابات سے مزین ہیں جن میں سے سب سے واضح جواب ذکرکیا جا رہا ہے ۔

اختیاری فعل کا معیار یہ نہیں ہے کہ ارادہ سے پہلے ہو،تا کہ اختیاری فعل کے لئے کوئی ارادہ نہ ہو ، بلکہ اختیاری فعل کا معیار یہ ہے کہ ایسے فاعل سے صادر ہو جو اپنے کام کو رضایت اور رغبت سے انجام دیتا ہے.ایسا نہ ہوکہ ایک دوسرا عامل اس کو اس کی رغبت کے خلاف مجبور کرے.انسان کے تمام اختیاری افعال منجملہ انسان کا ارادہ اسی طرح ہے اور ہمیشہ انسان کی خواہش سے انجام پاتا ہے اور انسان ان کے انجام دینے میں کسی جبر کا شکار نہیں ہے ۔

۲۱۷

تیسرا قاعدہ جو فلسفی جبر کے توہم کا موجب ہواہے وہ قاعدہ (ایک معلول کے لئے دو علت کا محال ہونا )(استحالةُ تواردِ العلّتین علیٰ معلولٍ واحدٍ ) ہے ، اس شبہہ میں کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات منجملہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم کی مخلوق اور معلول ہیں اور یہ موضوع متعدد عقلی ونقلی دلیلوںپر مبنی ہے جسے ہم مناسب مقام پر بیان کریں گے اس وقت اگر انسان کے اختیاری افعال کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حوادث انسان کے اختیاروارادہ سے وابستہ ہیں تو اس کا معنی یہ ہیں کہ انسان بھی ان حوادث کے رونما ہونے کی علت ہے اور اس کا لازمہ ،ایک معلوم کے لئے (انسان کا اختیاری فعل ) دو علت (خدا وانسان )کا وجود ہے اور اس کو فلسفہ میں محال مانا گیا ہے کہ ایک معلوم کے لئے دوعلتوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ میں اورہم رتبہ ہونالازم آتاہے ،لیکن طول میں دو علتوں کا وجود اس طرح کہ ایک دوسرے سے بالا تر ہوں یہ فلسفی اعتبار سے نہ فقط محال نہیں ہے بلکہ فلسفی مباحث کے مطابق دنیا کی خلقت اسی اصول پر استوار ہے اور انسان کے اختیاری افعال کے سلسلہ میں صورت یوں ہے کہ انسان کے اختیاری افعال سے منسوب خدا وند عالم کی علت اور اس کی فاعلیت بالاتر ہے اور انسان اور اس کا اختیار ارادۂ خدا کے طول میں واقع ہے اسی بنا پر خداوند عالم کی علیت ،انسان اوراس کے اختیار کی علیت بھی قابل قبول ہے اوریوں کسی طرح کا کوئی جبر لازم نہیں آتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: سبحانی ؛ الالٰہیات علی ھدی الکتاب و السنة و العقل ج۲ ص ۲۰۳، ۲۰۴؛ محمد تقی مصباح ؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۳۷۸، ۳۸۹۔

۲۱۸

آٹھویں فصل

مقدمات اختیار

اس فصل کے مطالعہ سے اپنی معلومات کو آزمائیں :

۱۔ان عناصر کا نام بتائیں جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے تحقق میں محتاج ہے؟

۲۔ انسان کے اختیاری اعمال میں تیں عناصر میں سے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

۳۔معرفت انسان کے اسباب کو آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ درونی کشش(خواہشات)کی تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کے بارے میں مختصر سی وضاحت کریں؟

۵۔ انتخاب اعمال کے معیار کی وضاحت کریں؟

۶۔ عالم آخرت کے کمالات ولذتوں کے چار امتیاز اور برتری کو بیان کریں؟

۲۱۹

گذشتہ فصل میں ہم نے انسان کے متعلق اختیاری رفتار وافعال کو مرتب کرنے والے مختلف اسباب کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ذکر کیا ہے کہ ان اسباب کے درمیان انسان کا اختیار بہت ہی اہم رول ادا کرتا ہے اور انسان کا قصدوانتخاب اس کے اختیاری افعال ورفتار میں سرنوشت ساز ہیں. اس طرح اختیاری رفتار وکردار میں دقت وتوجہ ، حقیقت و اختیارکی ساخت و ساز میں معاون و مددگار ہیں. اسی بنا پر خصوصاً اختیار کی کیفیت کی ترتیب میں قدیم الایام سے متنوع ومتعدد سوالات بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض اہم سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔کیا انسان کا اختیار بے حساب و بہت زیادہ ہے اور کیا کسی قاعدہ واصول پرمبنی نہیں ہے یا اختیارکی ترتیب بھی دوسرے عوامل واسباب کے ماتحت ہے؟

۲۔اختیار کوفراہم کرنے والے اسباب کون ہیں اور انسان کی توانائی ، خواہش اور معلومات کا اس سلسلہ میں کیا کردار ہے ؟

۳۔ اختیاری افعال میں انتخاب و تعیین کا معیار کیا ہے اور فعاّل وعقلمندانسانوں اور بہت زیادہ متاثر افراد کہ جو اپنے انتخاب کی باگ ڈ ور معاشرے کے حالات وماحول کے شانے پرڈال دیتے ہیں اور غفلت یا کسی جماعت کے ساتھ اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اس سلسلہ میں کون سے تفاوت واختلاف موجودہیںبیان کریں ؟

۴۔ کیا انسان کی معرفت کے عام اسباب اورطرز عمل (تجربہ اور تعقل وتفکر)صحیح راہ کے انتخاب ومعرفت کے لئے تمام مراحل میں کفایت کرتے ہیں؟

۵۔ خصوصاً وحی کے ذریعہ استفادہ کی بنیادپر اور گذشتہ سوالات کے جوابات کے منفی ہونے کی صورت میں حقیقی سعادت کے حصول اور صحیح راستہ کے انتخاب اور اس کی معرفت میں (خصوصاً طریقہ وحی)اور (عام طریقہ معرفت )میں سے ہر ایک کا کیاکردارہے؟ اورکیااس موضوع میں دونوں طریقہ ایک دوسرے سے ہماہنگ ہیں؟ اس فصل میں ہم مذکورہ بالاسوالات کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307