انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145867 / ڈاؤنلوڈ: 4856
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اختیار کو مہیا کرنے والے عناصر

ہر اختیاری عمل کا تحقق کم از کم تین عنصروں کا محتاج ہے۱۔ معلومات ومعرفت ۲۔خواہش وارادہ۳۔قدرت وتوانائی

معرفت

اختیاری افعال میں معرفت ایک چراغ کے مانند ہے جو امور اختیاری میں واضح اور روشن کردینے والا کردار ادا کرتی ہے ، چونکہ ہمارے لئے طریقۂ انجام اور افعال کو پہچاننا اور ان کی اچھائی اور برائی کو جدا کرنا ضروری ہے تاکہ ہم سب سے بہتر کو انتخاب کرسکیں اور ہمارا یہ اختیاری فعل حکیمانہ اور عقل پسندی پر مبنی ہو.لیکن افعال کے اچھے اور برے کی معرفت ، حقیقی کمال کے سلسلہ میں صحیح معلومات اور اس کی راہ حصول پر مبنی ہے. جب تک ہم اپنے حقیقی اور نہائی کمال اور اس کے راہ حصول کو نہیں سمجھ سکیں گے اس وقت تک افعال کی اچھائی اور برائی کو صحیح طرح مشخص نہیں کرسکتے اور نہ ہی معقول ودرست انتخاب کرسکتے ہیں۔ حقیقی کمال اور اس کے راہ حصول کی معرفت بھی تین دوسری معرفت پر مبنی ہے، اور وہ مبداء ،معاد، دنیا اور آخرت کی شناخت ہے اس لئے کہ جو نہیں جانتا کہ اس کا اور موجودات کا وجود مستقل اور کافی ہے یا خالق دو عالم سے وابستہ ہے وہ حقیقی اور نہائی کمال اور اپنے وجود کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتا ہے اور دوسری طرف جواﷲپر عقیدہ نہیں رکھتا اس کے لئے یہ فرضیہ واضح نہیں ہے کہ وہ خدا تک پہونچ سکتا ہے یا خدا سے قریب ہوسکتا ہے یا اس کی آخری آرزو لقاء اللہ ہے تو کیااس تک دست رسی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟!لہٰذا ایسے انسان کا طریقۂ عمل اس شخص سے جدا ہوگا جو اپنے وجود اور تمام موجودات کو خدا کی ملکیت جانتا ہے ، اور اپنا کمال خدا سے نزدیک ہونے کو سمجھتا ہے ان دونوں افراد میں کمال کے حصول کی راہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے.

معاد کا موضوع بھی کچھ اسی طرح کا ہے اگر زندگی ، مادی دنیا کی زندگی میں منحصر نہ ہوتو قابل حصول معنوی کمالات، دنیاوی لذتوں سے کہیں بالاتر ہوں گے اور انسان کو اپنے طریقۂ عمل میں اس معرفت کو حاصل کرنا چاہئیے کہ کس طرح اپنے اختیاری تلاش سے اس کمال کو حاصل کرے اور ضرورت کے وقت بہت ہی جلد ختم ہونے والی دنیا وی لذتوں کو آخرت کی برتر اور پایدار لذت پر قربان کردے ،پس مرحلۂ معرفت میں مسئلہ مبدا، معاد ، دنیا وآخرت کا رابطہ اور کمال نہائی کی راہ افعال اختیاری کے انجام میں عقلائی اور ضروری ہے اور یہ مسئلہ یعنی قرآن مجیدکا مبدا و معاد اور اِس کے بارے میں معلومات نیز دنیاوی و اخروی زندگی کی خصوصیات اور ان دونوں کے درمیان رابطہ پر تاکید کرنا اس قضیہ کے اہم رازوں میں سے ایک راز ہے ۔

۲۲۱

انسان کے امکانات اور ضروری معرفت

اس بات پر توجہ کرتے ہوئے کہ اختیاری فعل کے انجام میں معرفت ایک مہم کردار ادا کرتی ہے اورشناخت میں ہم نہائی کمال کی معرفت اور اس کی راہ حصول کے محتاج ہیں دوسرا مہم سوال جو بیان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کن راہوں سے اس ضروری معرفت کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور کیا معرفت کے عام اسباب وامکانات اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں؟

قرآن مجید نے حواس ،عقل اور دل کو اسباب کے عنوان سے ذکر کیا ہے جن کو خداوند عالم نے راہ کمال طے کرنے کے لئے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے اور اس راہ میں ان سے استفادہ کی تاکید کی ہے ، اور کافروں اورمنافقوں کی ان اسباب کے استعمال نہ کرنے یا ان کے تقاضوں کے مطابق عمل نہ کرنے پر مذمت وملامت کی ہے .سورہ دھر کی دوسری آیہ میں حواس کو قابو میں رکھنے کو انسان کے لئے آزمائش قرار دیاہے اور فرمایا ہے :

( إِنَّا خَلَقنَا الِنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَّبتَلِیهِ فَجَعَلنَاهُ سَمِیعاً بَصِیراً )

ہم نے انسان کو مخلوط نطفے ( مختلف عناصر)سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں ( اسی وجہ

سے ) ہم نے اسے سننے والا اوردیکھنے والا بنایا ۔

یہ آیہ مواقع آزمائش کے فراہم ہونے میں انسان کی سماعت وبصارت اور آخر کار اسکے صعود یا نزول کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے سورہ نحل کی ۷۸ویںآیہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ )

اور خدا ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا ، تم بالکل ناسمجھ تھے اور تم کو کان دیا اور آنکھیں دیں اور دل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

یہ آیت بھی انسان کی سعادت میں عمومی (حواس ودل) اسباب معرفت کے کردار اور خداوند عالم سے تشکر کے بارے میں بیان ہوئی ہے.

۲۲۲

اس آیہ کریمہ کے سلسلہ میں متعدد ومختلف سوالات کئے گئے ہیں یہاں ہم ان دو سوالوں کے بارے میں تجزیہ وتحلیل کریں گے جو ہمارے موضوع سے بہت زیادہ مربوط ہیں.

۱۔فلسفی مباحث میں کہا گیا ہے کہ ہر موجود مجرد اپنے آپ سے آگاہ ہے اور انسان کا نفس ایک موجود مجرد ہے لہٰذا اپنی ذات کے بارے میں معلومات رکھنا چاہئے البتہ انسان بھی ابتدائی بدیہی چیزوں کو فطری طور پر جانتا ہے اور فطرت کی بحث میں ہم نے بیان بھی کیاہے کہ انسان فطری طور پر خدا سے آشناہے جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ بعض انبیاء اور ائمہ معصومین شکم مادر ہی میں صاحب دانش تھے تو کیوں آیہ شریفہ میں بالکل انسان کو ولادت کے وقت کسی بھی طرح کی معلومات سے عاری بتایا گیاہے

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیہ اس ظاہری علوم کو بیان کررہی ہے جو انسان عام طور پر حاصل کرتا ہے اور انبیاء وائمہ کے استثنائی علوم نیز انسان کے نامعلوم اور نصف معلوم علوم(۱) کو بیان نہیں کررہی ہے ،لہٰذا اپنے سلسلہ میں نفس کی معلومات اور ابتداء خلقت کے تمام فطری معارف میں خدا کے بارے میں نامعلوم حضوری معرفت اور معصوم رہبروں کے علوم بھی (لاتعلمون شیئاً کی عبارت سے) کوئی منافات نہیں رکھتے ہیں اسکے علاوہ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ عبارت معلوم اور نامعلوم تمام بشری علوم کو شامل ہے تویہ جملہ عام ہے جو قابل تخصیص ہے اور ہم عقلی یا نقلی دلائل سے مذکورہ موارد کو تخصیص دیں گے اور آیہ ان موارد کو شامل نہیں ہوگی

۲۔لفظ'' فؤاد'' اور اس کی جمع ''افئدہ'' سے مراد اور قرآن کی اصطلاح میں قلب اور فلسفہ کی اصطلاح میں '' نفس'' سے کیا مراد ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں فواد لفظ قلب کے مترادف ہے اسی بنا پر ہم حضرت موسیٰ کی داستان میں پڑھتے ہیں:

____________________

(۱)جب لفظ علم ، عرف میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد معلومات ہے لیکن دقیق فلسفی اعتبار سے علم کی تین قسمیں ہیں : ''بے خبری ''، ''نصف معلومات '' ، ''پوری معلومات '' ۔''بے خبری ''وہ علم ہے جس کے بارے میں انسان کوئی درک و فہم نہیں رکھتا ہے حتی اس سے متعلق سوال کے مقابلہ میں کہتا ہے کہ: میں نہیں جانتا ہوں ! لیکن تجربیات اور عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ایسی بے خبری کا علم انسان میں بہت زیادہ ہے،'' نصف آگاہی ''وہ علم ہے جس میں انسان اس بات سے باخبر ہے کہ وہ نہیں جانتا ہے ،لیکن یہ ممکن ہے کہ باخبر ہوجائے ،جس طرح ہم بہت سی چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں لیکن فعلاً ہم غافل ہیں ،لیکن کسی انگیزۂ معانی یا اس کے متناسب محرک سے روبرو ہونے یا انسان کو متوجہ کرنے والے دوسرے عوامل کے ذریعہ ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم اسے جانتے ہیں ،''پوری معلومات ''یہ ہے کہ ہمارے پاس علم ہے اور اس بات کابھی علم ہے کہ ہم جانتے ہیں ،جب عرف میں کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں مسئلہ کا علم رکھتا ہے تو یہی تیسرا معنی مراد ہوتا ہے ۔

۲۲۳

( وَ أَصبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَیٰ فَارِغاً ن کَادَت لَتُبدِی بِهِ لَو لا أَن رَّبَطنَا عَلَیٰ قَلبِهَا لِتَکُونَ مِنَ المُؤمِنِینَ ) (۱)

اور موسیٰ کی ماں کا دل ایسا بے چین ہوگیا اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کردیتے تو قریب تھا کہ راز کو فاش کردیتی تا کہ مومنوں میں سے ہوجائے ۔

اس آیہ میں فواد اور قلب کا ایک ہی چیز پر اطلاق ہوا ہے اور حالت اضطراب (دل کا متیحیر ہونا) اور احساس آرام کو دل کی طرف نسبت دی گئی ہے

حقیقت میں یہ دولفظیں انسان یا حیوان کے بدن میں ایک مخصوص عضو کے معنی میں ہیں کہ جن کا کام خون کو صاف کرنا اور اس کو گردش دینا ہے اور عام طورپر سینہ کے بائیں حصہ میں ہے لیکن عرف میں احساسات ، عواطف اور مرکز ادراکات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لفظ کے لغوی وعرفی معنی کے درمیان رابطہ شاید اس طرح سے ہو کہ عرف عام تصور کرتا تھا کہ ادراک و احساس اس مخصوص اعضا سے مربوط ہیں اور انہیں کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) سورہ قصص آیت :۱۰۔

(۲)قرآن میں بھی کبھی لفظ قلب اسی عرفی اصطلاح میں استعمال ہوتا ہے جیسے (فَإِنّهَا لا تَعمَی الأبصَارُ وَ لَٰکِن تَعمَی القُلُوبُ الَّتِی فِی الصُدُورِ )حج ۴۶(کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ وہ دل جو ان سینہ میں ہے وہی اندھا ہوجایا کرتاہے )ممکن ہے کہاجائے کہ یہ رابطہ ایک خیالی رابطہ ہے تو کیوں قرآن اشارتاً اس کی تائید کرتا ہے ؟ جواب میں کہا جاسکتا ہے : چونکہ قرآن مجید انسانوں کی زبان میں نازل ہوا ہے لہٰذا اس حصہ میں ان کی اصطلاحات کے مطابق گفتگو کی ہے اور مراد یہ ہے کہ تمہارے چہرے کی آنکھوں کے بارے میں نہیں کہا ہے بلکہ تمہارے دل کی آنکھیں اندھی ہیں ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ صدور سے مراد جسمانی سینہ نہیں ہے بلکہ دل سے مراد درک کرنے والی قوت ہے اور صدر سے مراد انسان کا باطن ہے ؛ اس لئے کہ عرف میں معمولاً جب باطن کی طرف اشارہ کیاجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ : ''میرے سینہ میں راز ہے ''۔ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے : (إنّ اللّهَ عَلِیم بِذَاتِ الصُّدُورِ )لقمان ۲۳.خداوند عالم سینوں کے اندر کے حالات کو بھی جانتا ہے ، اس لئے کہ بدن کی سب سے چھپی اور مخفی جگہ سینہ ہے ۔لہٰذا قلب یعنی مرکز ادراک اور صدر یعنی انسان کے باطن کا ایک حصہ ہے .حتی اگر ہم یہ قبول نہ کریں کہ قلب مرکز احساس و ادراک ہے تو کم از کم ایک ایساعضو ہے جو ہر عضو کے مقابلہ میں بہت زیادہ روح سے مربوط ہے اور ایسا عضو ہے جو بدن سے روح کی جدائی کے وقت سب سے آخر میں بیکار ہوتا ہے روح کا بدن کے تمام اعضا سے رابطہ مساوی نہیں ہے .اور بعض اعضا جیسے قلب و مغز میں یہ رابطہ سب سے پہلے اور قوی ہوتاہے اور شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ : قلب سے روح کا رابطہ سب اعضاپرمقدم ہے ۔

۲۲۴

بہرحال قرآن میں فواد وقلب کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سینہ کے اندر مادی عضو یا کوئی روح نہیں ہے بلکہ متعدد قوتوں کا مالک ہوناہے اس لئے کہ آیات قرآن میں مختلف امور کو قلب اور فواد کی طرف نسبت دی گئی ہے جوہر قسم کی روحی توانائی سے مربوط ہے ،مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیتوں میں ''فقہ''جو دقیق فہم کے معنی میں ہے اور ''عقل'' جو حقیقی دریافت کے معنی میں ہے قلب کی طرف نسبت دی گئی ہے

( أَ فَلَم یَسِیرُوا فِی الأرضِ فَتَکُونَ لَهُم قُلُوب یَعقِلُونَ بِهَا )

کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلتے پھرتے نہیں(اور غور و فکر نہیں کرتے ) تاکہ

ان کے ایسے دل ہوتے جس سے حق باتوں کو سمجھتے ۔(۱)

( وَ لَقَد ذَرَأنَا لِجَهَنَّمَ کَثِیراً مِنَ الجِنِّ وَ الِنسِ لَهُم قُلُوب لا یَفقَهُونَ بِهَا وَ لَهُم أَعیُن لا یُبصِرُونَ بِهَا وَ لَهُم آذَان لا یَسمَعُونَ بِهَا. ) (۲)

اور گویا ہم نے بہت سے جنات اور آدمیوں کو(اپنے اختیار سے عمل انجام دیں چونکہ غلط راستہ کو انتخاب کیا ہے )جہنم ہی کے واسطے پیدا کیا ان کے پاس دل تو ہیں مگر اسسے سمجھتے نہیں ہیں اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر

____________________

(۱) سورہ حج ۴۶۔

(۲) سورہ اعراف ۱۷۹۔

۲۲۵

اس سے دیکھتے نہیںاور انکے پاس کان تو ہیں مگر اس سے سنتے ہی نہیں ۔

دوسری طرف احساسات اور عواطف چاہے مثبت ہوں یا منفی مثال کے طور پر اچھا لگنے اور برا لگنے کو دل کی طرف نسبت دی گئی ہے جیسے

( إِنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَت قُلُوبُهُم ) (۱)

سچے ایماندار تو بس وہی لوگ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کاپنے لگتے ہیں ۔

( وَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَحدَهُ ِشمَأَزَّت قُلُوبُ الَّذِینَ لا یُؤمِنُونَ بِالآخِرَةِ )

اور صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جولوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل متنفر ہوجاتے ہیں ۔(۲)

دوسری آیات میں قلب کو، مکان ایمان(۳) مرکز انحراف(۴) بیماری(۵) اور مہرزدہ(۶) سمجھا گیا ہے ،بعض آیات کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ قلب علم حضوری بھی رکھتا ہے جیسے

( کَلاّ بَل رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِهِم مَّا کَانُوا یَکسِبُونَ کَلاّ ِنَّهُم عَن رَّبِّهِم یَومَئِذٍ لَّمَحجُوبُونَ ) (۷)

ہرگزنہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو اعمال کرتے ہیں ان کا انکے دلوںپر زنگ بیٹھ گیا ہے بیشک اس دن اپنے پروردگار سے روک دیئے جائیںگے۔

____________________

(۱)انفال ۲۔

(۲)زمر ۴۵۔

(۳)حجرات ۷

(۴)آل عمران ۷

(۵)بقرہ ۱۰

(۶)بقرہ۷۔

(۷) مطففین ۱۴،۱۵۔

۲۲۶

ان لوگوں کو روز قیامت خدا وند عالم کا جلوہ دیکھنا چاہیئے لیکن ان کے اعمال آئینہ دل پر تصویر کے مانند ہوگئے ہیں جو مانع ہے کہ انوار الہی اس میں جلوہ گر ہو اس لئے دل وہ شیٔ ہے جو خداوند عالم کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ معنی روایات میں بھی آیا ہے :

''لا تدرکُهُ العُیُون بِمشاهدةِ العیان ولکِن تُدرکُه القلُوب بحقَائقِ الیمان''

ظاہری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی ہیں لیکن قلوب اس کو حقائق ایمان کے ذریعہ درک کرتے ہیں.(۱)

قرآن میں انتخاب واختیار کو بھی دل کی طرف نسبت دیا گیا ہے :

( لا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰهُ بِاللَّغوِ فِی أَیمَانِکُم وَلٰکِن یُؤَاخِذُکَُم بِمَا کَسَبَت قُلُوبُکُم ) (۲)

تمہاری لغو قسموں پر خدا تم سے گرفت نہیں کرے گا مگر ان قسموں پر ضرور تمہاری گرفت کرے گا جو تم نے قصداً دل سے کھائی ہو۔

( وَ لَیسَ عَلَیکُم جُنَاح فِیمَا أَخطَأتُم بِهِ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَت قُلُوبُکُم وَ کَانَ اللّٰهُ غَفُوراً رَحِیماً ) (۳)

اور ہاں اگر بھول چوک ہو جائے تو اس کا تم پر کوئی الزام نہیں ہے مگر جب تم دل سے (انتخاب کیا ہے )جان بوجھ کر کرو(مواخذہ کیا جائے گا) اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلب قرآن مجید میں ایسی شی ٔہے جو علم حضوری اور علم حصولی بھی رکھتا ہے

____________________

(۱)نہج البلاغہ ، خ۱۷۹۔

(۲)سورہ بقرہ ۲۲۵۔

(۳) سورہ احزاب ۵۔

۲۲۷

اور احساس ،ادراک ، ہیجان ، عواطف ،انتخاب اور اختیارکو بھی اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے تنہا وہ چیز جس کو نفس کی طرف نسبت دی جاتی اور قلب کی طرف نسبت نہیں دی جاتی ہے وہ افعال بدن ہیں.اس لئے کہ'' قلب وفؤاد'' ایک مخصوص قوت نہیں ہیں(۱) قرآن مجید میں ان کے موارد استعمال کے اعتبار سے اس چیز کے مترادف ہے جسے فلسفہ میں روح یا نفس کہا جاتا ہے۔ بہر حال بعض آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے معرفت کے لئے اسباب خلق کئے جن میں سب سے مہم آنکھ ،کان اور دل ہیں.(۲)

____________________

(۱)فلسفی بحثوں میں انسان سے سرزد ہونے والے ہر کام کے لئے ایک مخصوص مبدا ہے ۔ جب ہم مختلف اقسام کے ادراکات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ان سب چیزوں کے لئے ایک قوت ہے جیسے حس مشترک ، خیال ، حافظہ اور عقل لیکن نفسیاتی کیفیات اور انفعالات کے لئے کسی فاعلی مبدا کے قائل نہیں ہیں اور اس کو نفس کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

(۲)قرآن مجید مختلف وسائل سے معرفت و دانش کے حصول کے سلسلہ میں ایک خاص اہمیت و احترام کا قائل ہے لیکن انسان کے لئے بعض ایسے علم کو بھی شمار کیا ہے جو معمولی راہوں سے حاصل نہیں ہوتے ہیں ، ان میں سے منجملہ وہ علوم ہیں جو وحی کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں :(الرَّحمٰنُ عَلَّمَ القُرآنَ )رحمٰن ۲۔ہم معمولی راہوں سے عالم قرآن ہوتے ہیں ، لیکن پیغمبر علم حضوری سے حقیقت و ذات وحی کو حاصل کرکے عالم قرآن ہوتا ہے ۔ انبیاء پر وحی کے علاوہ ،'' علم لدنی'' نیز غیر انبیاء کے لئے وحی سے حاصل ہونے والے علوم غیر معمولی راہوں کو بیان کرتے ہیں۔ لفظ لدنی قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن ایسے علم کا نام لیا گیا ہے جو خدا وند قدوس کی طرف ( لدنی) سے ہے : (وَ عَلَّمنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلماً ) کہف ۶۵۔ہم نے اسے اپنے پاس سے علم دیا ۔ اور حضرت مریم اور مادر موسی کے سلسلہ کی وحی میں آیا ہے کہ: (وَ أَوحَینَا لَیٰ أُمِّ مُوسَیٰ أَن أَ رضِعِیهِ فَِذَا خِفتَ عَلَیهِ فَأَلقِیهِ فِی الیَمِّ وَ لاتَخَافِی وَ لا تَحزَنِی ِنَّا رَادُّوهُ ِلَیکِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ المُرسَلِینَ ) قصص۷ ۔ (اور ہم نے موسی کی ماں کے پاس یہ وحی بھیجی کہ تم اس کو دودھ پلا لو پھر جب اس کی نسبت کوئی خوف ہو تو اس کو دریا میں ڈال دو اور تم بالکل نہیں ڈرنا اور نہ ہی سہمنا ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہونچا دیں گے اور اس کو رسول بنائیں گے ۔) مادر موسی نے اسی وحی کے ذریعہ اپنے فرزند کے مستقبل کے بارے میں علم وخبر حاصل کیاتھا۔ اور حضرت مریم کے بارے میں فرماتا ہے : (إِذ قَالَتِ المَلائِکَةُ یَامَریَمُ ِنَّ اللّهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنهُ اسمُهُ المَسِیحُ عِیسَیٰ ابنُ مَریَمَ ..)آل عمران ۴۵۔(جب فرشتوں نے کہا اے مریم خداتم کو صرف اپنے حکم کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسی ٰ مسیح ابن مریم ہوگا )

۲۲۸

مذکورہ اسباب انسان کو صحیح راہ کی طرف متوجہ اور راہ معرفت میں گمراہی سے بچانے نیز مبدأ ومعاد اور کمال کے حصول کی راہ کے بارے میں عمومی معارف کے درک میں مدد پہونچانے کے لئے مہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کو استعمال کرے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے تو مبدا ،معاد اور راستہ کی راہنمائیوں کو پہچان لے گا لیکن یہ اسباب، کمال کے حصول کی راہ کو لمحہ بہ لمحہ اور دقیق انداز میں بتانے سے ناتواں ہیں اور یہ کہ کون سا کام سعادت لاتا ہے اور کون سا کام برائی پیدا کرتا ہے و...کے لئے بالکل صحیح راہ عمل کی تعیین کے سلسلہ میں ان پراکتفا ء نہیں کیا جا سکتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ دنیا وآخرت کے درمیان لمحہ بہ لمحہ اور بالکل صحیح رابطہ کے تعیین کو کشف کرنا ان اسباب کی توانائی سے باہر ہے اسی لئے وحی کی ضرورت ہے اوراس طرح معارف وحی کی اہمیت ہم پر آشکارہوجاتی ہے البتہ یہ وہی مخصوص راہ ہے جسے خداوند عالم نے بشر کی حقیقی اور نہائی سعادت حاصل کرنے کے لئے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے اسی لئے عمومی اسباب معرفت ،راہ سعادت کے عمومی طریقے بیان کرنے میں بہت کارساز ہیں لیکن خطا کا احتمال اور متاثر ہونے کا امکان نیز ان کی محدودیت وغیرہ کی وجہ سے راہ سعادت کی تفصیلی معرفت میں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ، لہذا ایک اور راہ کی ضرورت ہے اور وہ راہ وحی و نبوت ہے ۔

۲۲۹

خواہش اورارادہ

خواہش و اراد ہ جو اختیار ی کاموں میں توانائی کا کردار ادا کرتا ہے اختیاری فعالیت میں دوسرا ضروری عنصر ہے جو معرفت انسان کو قصد وحرکت عطا نہیں کرتی ہے بلکہ صرف راستہ بتاتی ہے یہ تو خواہشات ہیں جو راہ کی شناخت کے بعد انسان کو جستجو میں ڈال دیتے ہیں خواہش وارادہ کا رابطہ ایک مہم بحث ہے جس کے بارے میں دو مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں. بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش کہا ہے اور بعض لوگوں نے شدید شوق یا شدید خواہش کو ارادہ کے تحقق کی شرط مانا ہے دونوں صورتوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انسان اور اس کے مشابہ مخلوق کسی بھی مقام پر ارادہ نہیں کرسکتی ہے مگر یہ کہ اس میں خواہش موجود ہو انسان کے اندر حیوانی اور پست نیز انسانی ومتعالی وبلند خواہشات ہیں جن سے انسان ،جنسی یا غذا اور دوسرے جسمانی امور کی خواہش کرتا ہے اس سلسلہ میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے اور متعدد ومختلف تقسیم بندی ہوئی ہے جن میں سے مہم مندرجہ ذیل ہیں

خواہشات کی تقسیم بندی

سب سے اہم تقسیم بندی میں سے ایک تقسیم اندرونی رغبتوں کو چار قسم غرائز ،عواطف انفعالات اور احساسات میں منقسم کرنا ہے

غرائز

انسان کی حیاتی ضرورتوں کو بیان کرنے والی اور جسم کے کسی ایک اعضاء سے مربوط باطنی رغبت کو غریزہ کہا جاتاہے جیسے کھانے اور پینے کی خواہش جو انسان کی طبیعی ضرورت کو بھی دور کرتی ہے اور معدہ سے مربوط ہے یا جنسی خواہش نسل کی بقا کا ضامن ہے ا ور مخصوص عضو سے مربوط ہے

۲۳۰

عواطف

عواطف .وہ خواہش ہے جو دوسرے انسان کیلئے ظاہرہوتی ہے جیسے بچوں کے لئے والدین کی محبت اور اسکے بر عکس یا کسی دوسرے انسان کے لئے ہماری مختلف رغبتیں اجتماعی ، طبیعی یا معنوی رابطہ جس قدر زیادہ ہوگا محبت بھی اتنی ہی شدید تر ہوگی جیسے والدین اور فرزند کے رابطہ میں ایک فطری حمایت موجود ہے اور استاد و شاگرد کے رابطہ میں معنوی حمایت موجود ہے

انفعالات

انفعالات یامنفی میلان جو عواطف کے مقابلہ میں ہے اور اس کے بر عکس یعنی ایک روحی حالت ہے جس کی بنیاد پر انسان ناپسند یدگی یا احساس ضرر کی وجہ سے کسی سے دوری کرتا ہے یا اس کو ترک کردیتا ہے اسی وجہ سے نفرت ، غصہ ، کینہ وغیرہ کا انفعالات میں شمار ہوتا ہے

احساسات

بعض اصطلاحات کے مطابق احساسات ایسی کیفیت ہے جو مذکورہ تینوں موارد سے بہت شدید ہے اور فقط انسان سے مربوط ہے گذشتہ تینو ں کیفیات کم وبیش حیوانات میں بھی موجود ہیں لیکن احساسات جیسے احساس تعجب ، احساس احترام ، احساس عشق وعبادت، یہ درونی رغبتیں کبھی سبھی چیزوںمیں موثرہوتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے منضم اور ملکر اثر انداز ہوتی ہیں .اوریہ ادراک ومعرفت کے اسباب سے مربوط ہیں اور ان پر ادراکی قوتیں بھی موثر ہیں اورا نھیں سے بعض خواہشات جنم لیتی ہیں ۔

خواہشات کی دوسری تقسیم فردی واجتماعی خواہشات کی تقسیم ہے فطری خواہشات معمولاً فردی اور عواطف کی طرح ہیں اور دوسری خواہشات غالباً اجتماعی ہیں۔

۲۳۱

دوسرے اعتبار سے خواہشات کو مادی وروحی اور پھر روحی خواہشات کو پست اور بلند خواہشات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے خواہشات اوراس کے مانند غرائز کی تامین سے بدن کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے یہ مادی خواہشات ہیں اور وہ خواہشات جو بدن کی ضرورت کے پورا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں انہیں روحی خواہشات کہا جاتا ہے جیسے اس وقت خوشی کی ضرورت جب جسم تو سالم ہے لیکن روح مسرور نہیں ہے اس لئے اس تقسیم بندی کے اعتبار سے خواہشات تین طرح کی ہیں :

(۱) وہ خواہشات جو مادی اور جسمانی پہلو رکھتی ہیں

(۲) وہ خواہشات جو مادی اور روحی پہلو رکھتی ہیں لیکن وہ روح کی پست خواہشات میں سے ہیں جیسے خوشی اور سکون

(۳) وہ خواہشات جو مادی اور روحی پہلورکھتی ہیں اور روح کی عالی خواہشات میں سے ہیں جیسے ہدف تک رسائی اور آزادی کی خواہش اسی لئے بعض لوگوں نے عالی ضرورتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :

(۱) حق کی تلاش اور حقائق کی معرفت

(۲) فضیلت کی خواہش نیزعدالت ، حریت کی آرزو۔

(۳) مطلق خوبصورتی کی خواہش، اس لئے کہ وہ خوبصورتیاں جن سے انسان کی خواہش مربوط ہوتی ہے بہت زیادہ اور مختلف ہیںبعض بصارت سے مربوط ہیں تو بعض سماعت سے اور بعض شعر وشاعری کی طرح خیالات سے مربوط ہیں لیکن مطلقاً خوبصورتی کی خواہش بلند وبالاآرزؤںمیں سے ہے

۲۳۲

بعض لوگوں نے چوتھی قسم کا بھی اضافہ کیا ہے اور اس کو''مذہبی حس'' کا نام دیاہے اور بعض لوگوں نے ان تینوں کوبھی اسی چوتھی قسم کے زیر اثر قرار دیا ہے

ایک دوسرے اعتبارسے خواہشات دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

۱۔ وہ خواہشات جن کی حفاظت،انسان کی موجودیت اور بقا میں مددگار ہے ؛جیسے کھانا پینا لباس اور حفاظت ذات کی خواہش

۲۔ وہ خواہشات جو کسی کی حفاظت کے لئے نہیں ہیںبلکہ تکامل کے لئے ہیں

اس سلسلہ میں بھی تجزیہ وتحلیل ہوئی ہے کہ خواہشات میں سے حقیقی کون ہیں اور غیر حقیقی کون سی ہیںتحقیق وتحلیل کی روشنی میں انسان کے لئے ۲سے لیکر ۱۲ حقیقی خواہشیں تسلیم کی گئی ہیں مذکورہ خواہشات کبھی ایک طرف اور ایک جہت میں ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہیں مثال کے طور پر اکثر حیوانی اور انسانی خواہشات کے درمیان تعارض اور نا ہماہنگی پائی جاتی ہے اورجب انسان دونوں خواہشوں کو بطور کامل انجام نہیں دے پاتاہے تو مجبورا ًایک کو انتخاب کرکے دوسرے پر ترجیح دیتاہے اور دوسرے کو محدود یا اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں مسئلہ انتخاب اور ایک خواہش کو دوسری خواہش یا بہت سی خواہشوں پر ترجیح دینے اور اسکے معیار کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔

۲۳۳

خواہشات کا انتخاب

معمولاً انسان کہ جس طرح نفسیات کے ماہرین نے کہا ہے؛ خواہشات کے ٹکراؤ کے وقت ایسی خواہش کی طرف حرکت کرتاہے اور ایسی خواہشات کے زیر اثر آجاتا ہے جو جذباتی ہوتی ہیں یا اس خواہشات سے بار بار سیر ہونے کی وجہ سے ایک عادت سی ہوگئی ہو یا بہت زیادہ تبلیغ کی بنا پر لوگوں کی توجہ اس کی طرف مائل ہوگئی ہو اور تمام خواہشات کے سلسلہ میں ایک قسم کی غفلت اور بے توجہی برتی گئی ہو ۔ بہت ہی اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہماہر نفسیات کی یہ گفتگو متائثر انسانوں کے بارے میں ہے لیکن ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ فعّال ہو منفعل نہ ہوتو کن معیاروں کی بنا پر بعض خواہشات کو بعض پر ترجیح دے گا؟

قرآن مجید ایک عام نگاہ میں عالی خواہشات کو مادی اور پست خواہشات پر ترجیح کی تاکید کرتا ہے .قرآن مجید میں بعض حیوانی خواہشات حقارت ومذمت کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں .سورہ معارج کی ۱۹ویں آیہ میں فرماتا ہے :

( إِنَّ الِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً، ِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَ ِذَا مَسَّهُ الخَیرُ مَنُوعاً ِلا المُصَلِّینَ )

بیشک انسان بڑا ہی لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف اور ناگواری کا سامنا ہوتا ہے تو گھبرا جاتاہے اور جب اسے بھلائی اور آسودگی حاصل ہوئی تو بخیل بن جاتا ہے مگر جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ۔

آیہ شریفہ یہ ماننے کے بعد کہ انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ اس کے اندر بعض پست خواہشات موجود ہیںآگاہ کرتی ہے کہ اگر اپنے اختیار سے بہت ہی بلند کمالات کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو ان خواہشات کا اسیر نہیں ہونا چاہئیے بلکہ انہیں عظیم کمالات کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئیے چونکہ کمال ،ایثار کے دامن میں جنم لیتاہے اسی لئے شہوت پرستی اور شکم پُری اور اس کے مثل چیزیںاس کی سد راہ نہیں ہونا چاہیئے اور جس وقت کمال فدا کاری سے مربوط ہو تو مادی حیات کو اس کے شہادت کے فیض سے روکنا نہیں چاہئیے. مذکورہ حقیقت مندرجہ ذیل دو آیتوں میں بھی مورد توجہ اور تاکید ہے ۔

۲۳۴

( زُیَّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَائِ وَ البَنِینَ وَ القَنَاطِیرِ المُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الفِضَّةِ وَ الخَیلِ المُسَوَّمَةِ وَ الأنعَامِ وَ الحَرثِ ذَٰلِکَ مَتَاعُ الحَیٰوةِ الدُّنیَا وَ اللّٰهُ عِندَهُ حُسنُ المَئَابِ ) ...)(۱)

لوگوں کو ان کی مرغوب چیزیں بیویوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوے ڈھیروں اور عمدہ عمدہ گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتی کے ساتھ الفت بھی کرکے دکھادی گئی ہے یہ سب دنیاوی زندگی کے فائدہ ہیں اور اچھا ٹھکاناتو خدا ہی کے یہا ں ہے ۔

( اعلَمُوا أَنَّمَا الحَیَٰوةَ الدُّنیَا لَعِب وَلَهو وَ زِینَة وَ تَفَاخُر بَینَکُم وَ تَکَاثُرفِی الأموَالِ وَ الأولادِ کَمَثَلِ غَیثٍ أَعجَبَ الکُفَّارَ نَبَٰاتُهُ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَیٰهُ مُصفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَ فِی الآخِرَةِ عَذَاب شَدِید وَ مَغفِرَة مِنَ اللّٰهِ وَ رِضوَان وَ مَا الحَیَٰوةُ الدُّنیَا لا مَتَاعُ الغُرُورِ ) (۲)

جان لو کہ دنیاوی زندگی محض کھیل اور تماشا اور ظاہری زینت اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ خواہش یہ اس بارش کی سی طرح ہے(جو سبزہ اگاتی ہے ) جس کی ہریالی کسانوں کو خوش کردیتی ہے اور پھر وہ کھیتی سوکھ جاتی ہے اور اس کی ہریالی زردپڑجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور خداکی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیاوی زندگی تو بس غرور کا ساز و سامان ہے۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۱۴۔

(۲)سورہ حدید ۲۰ ۔

۲۳۵

دوسری طرف بلند وبالا خواہشوں کی بہتری وتقویت کی قرآن مجید میں بھی تاکید ہوئی ہے مثال کے طور پر قرآن کی روشنی میں مقام و منزلت(۱) اور ہمیشہ با حیات رہنے کی خواہش اور خدا وند عالم کی طرف تمایل کی خواہش کو مورد توجہ قراردیاگیاہے اس سلسلہ میں بعض آیتیںقرآن مجید میں مذکور ہیں سورہ فاطر کی ۱۰ویں آیت میں انسان کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ذریعہ متعالی اور بلندمعارف کی نشاندہی کی گئی ہے۔

( مَن کَانَ یُرِیدُ العِزَّةَ فَلِلّٰهِ العِزَّةُ جَمِیعاً )

جو شخص عزت کا خواہاں ہے (تو جان لے) ساری عزت تو خدا ہی کیلئے ہے

سبھی مقام وعزت چاہتے ہیں.(۲) حقیقت میں عزت واحترام اور آبرو کا حاصل کرنا برا نہیں ہے لیکن یہ جاننا چاہئے کہ عزت فقط معاشرہ میں پائی جانے والی اعتباری عزتوں سے مخصوص نہیں ہے مذکورہ آیہ اسی خواہش کو بیان کر رہی ہے کہ :اگر تم فقیر اور محتاج لوگوں میں عزیز ہونا چاہتے ہو تو غنی وبلند پروردگار کے نزدیک کیوں عزیز نہیں ہونا چاہتے ؟جبکہ عزت حقیقی فقط خداوند عالم کے لئے ہے۔

____________________

(۱) قدر و منزلت چاہنا ان خواہشات میں سے ہے جو اصل میں فطری ہے اور غالباً اس کی ابتدائی تجلیات نوجوانی میں ظاہر ہوتی ہے ۔اور نفسیات شناسی میں بلوغ ، انسان کا نقطۂ الفت شمار ہوتا ہے ۔ اس کے پہلے بچے اکثر بزرگوں کی تقلید کرتے ہیں ،اس زمانے میں بچہ چاہتا ہے کہ''خود مختار ہو ''دوسروں کی باتوں پر عمل نہ کرے ، جو خود سمجھتا ہے اس پر عمل کرے اور امرو نہی سے حساس ہو جاتا ہے ۔ یہ حالت بھی اپنی جگہ انسان کے تکامل میں مفید و موثر ہے، یہ حکمت خداوند قدوس ہے کہ جس کی حقیقت حب کمال ہے لیکن معرفت کے نقص کی بنیاد پر محدود شکلوں میں جلوہ گر ہوتی ہے، قدر و منزلت چاہنا ، بزرگوں میں اور اجتماع میں دھیرے دھیرے مقام و مرتبہ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ وہ شخص چاہتا ہے کہ حاکم ہوجائے اور دوسرے اس کی بات کو سنیں اور مانیں ، اس کی بھی مختلف شکلیں ہیں جن میں سے منجملہ شہرت ، ریاست ، مقام و مرتبہ اور مشہور ہونے کی خواہش ہے ۔

(۲) قرآن کہتا ہے کہ حتی بعض بت پرست عزت و احترام حاصل کرنے کے ارادہ سے بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ (وَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰهِ آلِهَةً لِّیَکُونُوا لَهُم عِزّاً )مریم ۸۱۔ اور ان لوگوں نے خدا کے علاوہ دوسرے معبود انتخاب کرلئے ہیں تاکہ ان کی عزت کا سبب ہوں ۔

۲۳۶

بقا کی خواہش بھی انسان کی فطری خواہشوں میں سے ہے انسان کبھی مرنا نہیں چاہتا ہے اس لئے کہ وہ سوچتا ہے کہ مرنا ، نابود ہونے کے معنی میں ہے یا یہ چاہتا ہے کہ ا س کی عمر طولانی ہو قرآن مجید بنی اسرائیل کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ ہزار سال زندہ رہنا چاہتے ہیں :

(( یَوَدُّ أَحَدُهُم لَو یُعَمَّرُ أَلفَ سَنَةٍ ) (۱)

ہر شخص چاہتا ہے کہ کا ش اس کو ہزار برس کی عمر دی جاتی ۔

ہزار کثرت کی علامت ہے ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک ہزار ایک سال نہیں چاہتا ہے یہ خواہش تمام انسانوں میں ہے حتی ہمارے جد ،حضرت آدم میں بھی موجود تھی اسی خواہش کی بنا پر شیطان نے ان کو دھوکا دیا ہے :

( هَل أَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَةِ الخُلدِ وَ مُلکٍ لایَبلَیٰ ) (۲)

کیا میں تمہیں ہمیشگی کا درخت اور وہ سلطنت جو کبھی زائل نہ ہوبتادوں ۔

یہ آیہ بھی بقا اور مقام ومنزلت کی خواہش کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس نکتہ کو بھی بیان کررہی ہے کہ انسان میں یہ خواہش فطری ہے اس کو منفی عنصر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ معرفت میں موجودہ نقص کو بر طرف کرنا چاہیے اور متوجہ رہیں کہ یہ دنیا بقا کے قابل نہیں ہے اور ابدی حکومت خدا کے پاس ہے انسان کو دنیا کے بجائے آخرت سے علاقہ مند ہونا چاہئے :

( وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۳)

اور آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۶۔

(۲)طہ ۱۲۰

(۳)اعلیٰ ۱۷

۲۳۷

آخر کار تمام خواہشات پر نہائی خواہش برترہے خصوصاً انسان کا عمیق ووسیع وجود قرب خدا کے لئے اور اسی کی طرف موجزن ہے، ا فسوس ! کہ جس سے اکثر ماہرنفسیات نا واقف ہیں۔یہ خواہش احساسات وعواطف کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں سے بہت زیادہ لطیف اور پوشیدہ ہے ، چونکہ انسان کا نہائی کمال اسی سے وابستہ ہے لہذا اس کو فعال کرنا بھی خود انسان کے ہاتھ میں ہے

غرائز اور طبعی خواہشات ، خود بخود فعال ہوتے ہیں مثال کے طور پر خلقت کے وقت ہی سے بچہ کے اندر بھوک کا احساس ہوتاہے نیز جنسی خواہش بالغ ہونے کے وقت فعال ہوتی ہے اور انسان اس کو پورا کرنے کے راستہ بھی تعیین کرتا ہے لیکن معنوی کمالات اولاً خود بخود فعال نہیں ہوتے ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے .دوسرے موضوع اور اس کے متعلق کو پہچاننے کے بعد اختیاری انداز میں اس کوانجام دیاجاتا ہے یعنی جب کوئی خواہش انسان کے اندر فعال ہوتو دھیرے دھیرے قدم بڑھانا چاہئے تاکہ نہائی مراحل سے نزدیک ہوسکیں ،اس سلسلہ میں حضرت ابراہیم کی داستان سے مربوط آیتیں رہنمائی کرتی ہیں ، حضرت ابراہیم نے ستاروں کے ڈوبنے کے بعد فرمایا:

( لا أُحِبُّ الأفِلِینَ ) (۱)

غروب ہونے والی چیز کو میں پسند نہیں کرتا ۔

یعنی تمام انسان غروب نہ کرنے والے وجود کی طرف متمایل ہوجاتے ہیں خواہش اور عبادت کی رغبت کوایسی چیز سے مرتبط ہونا چاہئے جو ہمیشہ موجود ہو ایسا محبوب ہو جو ہمیشہ اسکے پاس رہ سکتا ہو اور وہ خدا وند عالم کے علاوہ کوئی نہیں ہے خدا وند عالم سے محبت کے لئے جو چیز خدا سے مربوط ہے (منجملہ ایمان ) انسان کے لئے بھی محبوب ہو جانا چاہئے :

( وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ ِلَیکُمُ الِیمَانَ ) (۲)

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲)حجرات۷

۲۳۸

لیکن خدا نے تو تمہیں ایمان کی محبت دی ہے ۔

خداوند عالم پر ایمان کی وجہ سے انسان محبوب ہوتا ہے اور یہ قرب الہی کے لئے ایک راہ ہے اور اس راہ میں اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب انسان اپنی زندگی میں خدا اور اس کی رضا کے علاوہ کوئی خواہش نہ رکھتا ہو :

( إلا ابتِغَائَ وَجهِ رَبِّهِ الأعلَیٰ )( ) ۱)

( کوئی بھی نعمت خدا کی بارگاہ میں جزا کے لئے سزاوارنہیں ہے) مگر یہ کہ

صرف اپنے عالیشان پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیا ہو۔

____________________

(۱)سورہ لیل آیت ۲۰۔

۲۳۹

خواہشات کے انتخاب کا معیار

یہاں یہ سوال در پیش ہے کہ مادی خواہشات پر عالی خواہشات کی ترجیح کے لئے قرآن مجید کا کیا معیار ہے ؟ ایک آسان تجزیہ وتحلیل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک خواہش کے دوسری خواہش پر ترجیح کے لئے انسان کے پاس حقیقی معیار ، لذت ہے انسان ذاتاً یوں خلق ہوا ہے کہ اس چیز کی جستجو میں رہے جو اس کی طبیعت کے لئے مناسب اور لذیذ ہو اور ہر رنج والم کا باعث بننے والی شیٔ سے گریزاں ہو اور وہ فوائد جو بعض نظریات میں خواہشات کے معیار انتخاب کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں وہ ایک اعتبار سے لذت کی طرف مائل ہیں ۔

اب یہ سوال در پیش ہے کہ اگر دو لذت بخش خواہشوںکے درمیان تعارض واقع ہو تو ہم کس کو ترجیح دیں اور کس کا انتخاب کریں ؟ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے جس میں زیادہ لذت ہو یاجوزیادہ دوام رکھتی ہو یا زیادہ کمال آفرین ہو اسی کو مقدم کیا جائے گا لہذا کثیر پائدار یا زیادہ کمال کا جو باعث ہو، اسے انتخاب کا معیار قرار دیا جائے گا ۔

بعض خواہشات کی تامین بہت زیادہ لذت بخش ہے لیکن کمال آفرین نہیں ہے بلکہ کبھی تو نقص کا باعث ہوتی ہے یا دوسری خواہشات کی بہ نسبت اس میں بہت کم لذت ہوتی ہے اور بہت کم کمال کا سبب بنتی ہے ایسی حالت میں انتخاب کے لئے ایجاد کمال بھی مد نظر ہونا چاہیئے۔بہت زیادہ لذت ،بادوام اور ایجاد کمال کو مد نظر قرار دینے سے انسان مزید سوالات سے دوچار ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر دو خواہشیں زمان یا بہت زیادہ لذت کے اعتبار سے برابر ہوں تو کسے مقدم کیا جائے ؟ اگر ایک مدت کے اعتبار سے اور دوسرا بہت زیادہ لذت کے اعتبار سے برتری رکھتا ہو توایسی حالت میں کسے انتخاب کیا جائے ؟ آیا جسمانی اور مادی لذتیں بھی برابر ہیں ؟اورکون سی جسمانی لذت کس روحی لذت پر برتری رکھتی ہے ؟آپ نے مشاہدہ کیا کہ یہ تینوں معیار ،مقام عمل ونظر دونوں میں مشکلات سے روبرو ہیں اور گذشتہ دلیلوں کے اعتبار سے تمام انسانوں کے لئے بعض خواہشات کو بعض پرمقدم کرنا اور انتخاب کے سلسلہ میں صحیح قضاوت کرنا ممکن نہیں ہے۔

ایک بار پھر یہاں مسئلہ معرفت کی اہمیت اور مبدا ومعاد کی عظمت واضح ہوجاتی ہے۔ گذشتہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے انسان کی حقیقت اور دوام وپایداری کی مقدار نیز اس کمال کے ساتھ رابطہ اورحد کو جسے حاصل کرنا چاہتاہے ،معلوم ہوناضروری ہے سب سے پہلے یہ جاننا چاہیئے کہ کیا انسان موت سے نابود ہوجاتا ہے اور اسکی زندگی اسی دنیاوی زندگی سے مخصوص ہے یاکوئی دائمی زندگی بھی رکھتا ہے .اس کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ کون سے کمالات انسان حاصل کرسکتا ہے اور بالخصوص کمال نہائی کیا ہے ؟

۲۴۰

اگر یہ دو مسئلے حل ہوجا ئیں اور انسان اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ موت سے نابود نہیں ہوتا ہے اور اس کی ایک دائمی زندگی ہے نیز اسکا حقیقی کمال قرب الہٰی ہے اور اس کے لئے کوئی حد نہیں ہے تو معیار انتخاب واضح ہوجائے گا جو چیز انسان کو اس دائمی کمال تک پہونچائے اسے فوقیت دیتے ہوئے اسی کے مطابق عمل انجام دیا جائے یہی عام معیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ کون سی خواہش کن شرائط کے ساتھ اس نقش کو انجام دے گی اور کون سی حرکت ہمیں اس دائمی اور بے انتہا کمال سے نزدیک یا دور کرتی ہے ،ہمیں اس راہ کو وحی کے ذریعہ دریافت کرناہوگااس لئے کہ وحی کی معرفت وہ ہے جو اس سلسلہ میں اساسی اور بنیادی رول ادا کرے گی لہٰذا سب سے پہلے مسئلہ مبدأومعاد کو حل کرنا چاہیئے اور اسکے بعد وحی ونبوت کو بیان کرنا چاہئے تاکہ حکیمانہ اور معقول انتخاب واضح ہوجائے۔ اس نقطۂ نظر میں انتخاب کو سب سے زیادہ اور پایدار لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کے معیاروں کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے انسان کی پوری زندگی کے مشخص ومعین نہ ہونے اور اس کمال کی مقدار جسے حاصل کرنا چاہتاہے اور سب سے بہتر خواہش کی تشخیص میں اس کی معرفت کے اسباب کی نارسائی کی بناپرمذکورہ مشکلات جنم لیتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس (وحی کے ) دائرہ میں حل ہوسکتی ہیں ۔

اخروی لذتوں کی خصوصیات

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ قرآن کی روشنی میں دنیاوی لذتوں کے علاوہ اخروی لذتوں کے موارد ذکرہیں۔ اور انسان کو لذتوں کے انتخاب میں انھیں بھی مورد توجہ قرار دینا چاہیئے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ لذت بخش اور سب سے زیادہ پائدار اورجوایجاد کما ل کا باعث ہو اسے انتخاب کرنا چاہیئے اسی بنا پر قرآن مجید نے آیات ( نشانیاں ) کے بیان کرنے کا ہدف دنیا وآخرت کے بارے میں تفکر اور دونوں کے درمیان موازنہ بتایا ہے :

( کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرُونَ٭فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ )

یوں خداوند عالم اپنے احکامات تم سے صاف صاف بیان دیئے ہیں تاکہ تم دنیا و آخرت

کے بارے میں غور و فکر کرو۔(۱)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اخروی کمالات ولذتوں کو بیان کرنے والی آیات کی تحقیق وتحلیل ہمیں یہ نتیجہ عطا کرتی ہیں کہ یہ لذتیں اور کمالات، دنیاوی لذتوں کے مقابلہ میں فزونی،پایداری ، برتری اور

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۱۹۔

۲۴۱

خلوص کی حامل ہیں لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ اپنی زندگی میں ایسی خواہشوں کو انتخاب کرے جو اخروی لذت وکمال کو پوراکرسکتی ہوں ان آیتوں میں چار خصوصیات اور اخروی کمالات ولذتوں کی برتری کے بارے میں مندرجہ ذیل انداز میں گفتگو ہوئی ہے :

۱۔پایدار ی اور ہمیشگی

قرآن کی نظر میں دنیاوی زندگی نا پایدار ومحدود ہے اور اخروی زندگی دائمی اور محدودیت زمانی سے عاری ہے :

( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱)

مگر تم لوگ دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیرپا ہے ۔

( مَا عِندَکُم یَنفَذُ وَ مَا عِندَ اللّٰهِ بَاقٍ... ) (۲)

جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو خدا کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا

۲۔اخلاص اور رنج و الم سے نجات

دنیاوی زندگی میں نعمتیں اور خوشی ،رنج وغم سے مخلوط ہیں لیکن اخروی زندگی سے خالص خوشی اور حقیقی نعمت حاصل کرسکتے ہیں .قرآن مجید بہشتیوں کی زبان میں فرماتا ہے :

( الَّذِی أحَلَّنَا دَارَ المُقَامَةِ مِن فَضلِهِ لا یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَب وَ لا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوب ) (۳)

جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشگی کے گھر میں اتارا جہاں ہمیں نہ تو کوئی تکلیف پہونچے گی اور نہ ہی کوئی تکان آئے گی۔

____________________

(۱)سورہ اعلیٰ۱۶،۱۷۔

(۲)سورہ نحل ۹۶۔(۳)سورہ فاطر ۳۵۔

۲۴۲

۳۔ وسعت و فراوانی

اخروی نعمتیں ،دنیاوی نعمتوں کے مقابلہ میں جو کم وکیف کے اعتبار سے محدود اور بہت کم ہیں بہت زیادہ اور فراوان ہیں قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَ سَارِعُوا ِلَیٰ مَغفِرَةٍ مِّن رَّبِّکُم وَ جَنَّةٍ عَرضُهَا السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ )

اور اپنے پروردگار کے بخشش اور جنت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے

آسمان اور زمین کے برابر ہے ۔(۱)

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ فِیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَ تَلَذُّ الأعیُنُ ) (۲)

اور وہاں ( بہشت میں )جس چیز کا جی چاہے اور جس سے

آنکھیں لذت اٹھائیں (موجود ہیں)۔

۴۔ مخصوص کمالات اورلذتیں

اخروی دنیا میں ان نعمتوں کے علاوہ جو دنیاوی نعمتوں کے مشابہ ہیں مخصوص نعمتیں بھی ہیں جو دنیا کی نعمتوں سے بہت بہتر اور عالی ہیں قرآن مجید دنیاوی نعمتوں سے مشابہ نعمتوں کو شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ رِضوَان مِنَ اللّٰهِ أَکبَرُ ذٰلِکَ هُوَ الفَوزُ العَظِیمُ ) (۳)

اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۱۳۳۔

(۲)سورہ زخرف۷۱ ۔

(۳)سورہ توبہ آیت ۷۲۔

۲۴۳

ایک روایت میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :''فیُعطهم ﷲ مَالا عین رأت ولا أُذن سمعت ولم یخطر علیٰ قلب بشر'' (۱)

خدا وند عالم انہیں (اپنے صالح بندوں ) ایسی نعمتیں عطا کرے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ ہی کسی قلب نے محسوس کیا ہوگا مذکورہ خصوصیات پر توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید فقط اخروی زندگی کو زندگی سمجھتا ہے اور دنیا کی زندگی کو مقدمہ اور اس کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جب دنیاوی زندگی اخروی زندگی کے حصول کا ذریعہ نہ ہوتو اسے کھیل بے خبری وغفلت کی علت ،فخر کا ذریعہ نیز ظاہری آرائش اورجاہلانہ عمل شمار کرتا ہے اور اسکی فکر وجستجو میں ہونا اور اس کو پورا کرنے والی خواہشوں کو انتخاب کرنا ایک غیر عقلی فعل کہا ہے اور ایسی زندگی کو حیوانات کی زندگی اور انسان کے حیوانی پہلو کو پورا کرنا بتا یا ہے۔

( وَ مَا هٰذِهِ الحَیَوٰةُ الدُّنیَا ِلا لَهو وَ لَعِب وَ نَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِیَ الحَیَوَانُ لَو کَانُوا یَعلَمُونَ ) (۲)

اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں اگر یہ لوگ سمجھیںبوجھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ابدی زندگی تو بس آخرت کا گھر ہے ۔

____________________

(۱)نوری ، میرزا حسین ؛ مستدرک الوسایل ج۶ ص ۶۳۔

(۲)سورہ عنکبوت ۶۴۔

۲۴۴

قدرت :

اختیاری افعال میں تیسرا بنیادی عنصر قدرت ہے جو اس سلسلہ میں امکانات واسباب کا رول ادا کرتا ہے انسان جن خواہشات کو اپنے لئے حقیقی کمال کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اسکے مقدمۂ حصول کو تشخیص دیتا ہے انھیں معارف کی روشنی میں حاحل کرنا چاہیئے اور وہ افعال جو اس کو اُس کمال نہائی کے حصول سے روکتے ہیں یا دور کرتے ہیںاس سے پرہیزکرنا چاہیئے. یہ قدرت اندرونی اعمال پر

محیط ہے جیسے نیت ، ایمان لانا ، رضایت ، غصہ، محبت ،دشمنی، قصد اور ارادہ خارجی، عمل پراثر انداز ہوتے ہیں۔اور قرآن کی نظر میں ،انسان ان تمام مراحل میں قدرت کونافذ کرنے کے لئے ضروری امکانات سے استوارہے قدرت کے مختلف اقسام ہیں جسے ایک نظریہ کے اعتبار سے چار حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

الف۔قدرت طبعی : یعنیطبیعت سے استفادہ کرتے ہوئے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان ہو اپنے مقاصد کو حاصل کیاجاتا ہے

ب۔قدرت علمی: یعنی وہ قدرت جو ٹکنیکل آلات سے استفادہ کرکے اپنے اہداف کو حاصل کرلے اور اپنے مورد نظر افعال کو انجام دے۔

ج: قدرت اجتماعی:ہماہنگی وتعاون کے ذریعہ یا طاقت و قبضہ اور اجتماعی مرکز کے حصول ، مشروع یا غیر مشروع طریقہ سے اپنے جیسے افراد کو ہی اپنے فائدہ کے لئے اپنی خدمت میں استعمال کرتاہے اور ان کی توانائی سے استفادہ کرکے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔

د: قدرت غیرطبیعی: اپنی روحی قدرت سے استفادہ یا غیبی امداد اور الٰہی عنایت ،انسانوں کی جاندار بے جان طبیعت میں تصرف کرکے یا جن وشیاطین کی مدد سے جس چیز کوچاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے ۔

۲۴۵

اختیار کی اصل وبنیاد کے عنوان سے جو باتیں قدرت کی وضاحت میں گذر چکی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ قدرت کو جسمانی توانائی ،اعضاء وجوارح کی سلامتی اورافعال کے انجام دہی میں بیرونی شرائط کے فراہم ہونے سے مخصوص نہیں کرناچاہیئے بلکہ توجہ ہونا چاہئیے کہ ان کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اندرونی اختیاری عمل کا امکان موجود رہتا ہے جیسے محبت کرنا ،دشمنی کرنا ، نیت کرنا ، کسی کام کے انجام کا ارادہ کرنا یا کسی شخص کے عمل سے راضی ہونا وغیرہ۔ البتہ انسان اندرونی اعمال کے ذریعہ خود کو خدا سے نزدیک کرسکتا ہے اور اختیاری اصول مثال کے طور پر معرفت ، خواہشات اور مذکورہ درونی امور کا ارادہ خصوصاً جو چیزیں حقیقی عمل کو ترتیب دیتی ہیں یعنی نیت ،ان شرائط میں بھی فراہم ہیں اور جس قدر نیت خالص ہوگی اعتبار اور اس کے قرب کا اندازہ بھی زیادہ ہوگا لہٰذا انسان اعمال ظاہری کے انجام پر بھی مامور ہے اور افعال باطنی کے انجام کا بھی ذمہ دار ہے البتہ اگر کوئی ظاہر ی عمل انجام دے سکتا ہے تو اس کے لئے صرف باطنی عمل کی نیت کافی نہیں ہے اسی بنا پر ایمان وعمل صالح ہمیشہ باہم ذکر ہوئے ہیں اور دل کے صاف ہونے کا فائدہ ظاہری اعمال میں ہوتا ہے اگرچہ اعمال ظاہری سے نا توانی اس کے اعمال کے سقوط میں ، باطنی رضایت کا نہ توسبب ہے اور نہ ہی باطنی رفتارسے اختلاف، ظاہری عمل میں اعلان رضایت کے لئے کافی ہے مگر یہ کہ انسان عمل ظاہری کے انجام سے معذور ہو۔

۲۴۶

خلاصہ فصل

۱۔افعال اختیاری کو انجام دینے کے لئے ہم تین عناصر (معرفت ،انتخاب اورقدرت) کے محتاج ہیں۔

۲۔ اچھے اور برے کا علم، حقیقی کمال کی شناخت اورمعرفت نیز اس کی راہ حصول کے بارے میں اطلاع اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مبدا ، معاد اور دنیا وآخرت کے رابطہ کو پہچانیں

۳۔ قرآن مجید اگر چہ آنکھ اورکان (حواس ) اور قلب (عقل ودل ) کومعرفت اور سعادت کی عام راہوں میں معتبر مانتا ہے لیکن یہ اسباب محدودہونے کے ساتھ ساتھ امکان خطاء سے لبریز نیز تربیت وتکامل کے محتاج ہیں اس لئے ایک دوسرے مرکز کی ضرورت ہے تاکہ ضروری مسائل میں صحیح وتفصیلی معرفت کے ذریعے انسان کی مدد کرسکے اور وہ منبع و مرکز، وحی الہٰی ہے جو ہمارے لئے بہت ضروری ہے

۴۔خواہش یا ارادہ، اختیار و قصدکے لئے ایک دوسرا ضروری عنصر ہے البتہ یہ کوئی ایسا ارادے والا فعل نہیں ہے جس میں خواہش اور چاہت کا کردار نہ ہوحالانکہ بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش یا مزید شوق کہا ہے۔

۵۔ بہت سی جگہوں میں جہاںچند ناہماہنگ خواہشیں باہم ہوتی ہیں اور انسان مجبور ہوتاہے کہ کسی ایک کو ترجیح دے تواس سلسلہ میں قرآن مجید کی شفارش یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو مد نظر قرار دے اور اس کو معیارانتخاب سمجھے ۔

۶۔ قرآن مجید ایسے بلند و بالا خواہشات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس میں شخصیت و منزلت کی خواہش اور ایک معبود کی عبادت فقط خداوند عالم کی عبادت کے سایہ میں پوری ہوسکتی ہے ۔

۷۔ قرآن مجید اعلی خواہشوں کو ایجاد کمال ،پائدار اور زیادہ لذت بخش ہونے کے معیار پر ترجیح دیتا ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مذکورہ امور فقط آخرت میں حاصل ہونگے جس کی نعمتیں پائدار ،حقیقی ، رنج وغم سے عاری اور باکمال ہیں۔

۸۔ قدرت ،مقدمات اختیار کے ایک مقدمہ کے عنوان سے کسی بھی عمل کے لئے درکار ہے مثلا شناخت اور معرفت کے لئے انتخاب اور ارادے کی قدرت۔البتہ قرآن کی نظر میں ان تمام موارد کے لئے انسان ضروری قدرت سے آراستہ ہے ۔

۲۴۷

تمرین

۱۔اصول اختیار کی تین قسمیں ہیں جواختیاری افعال میں ایک ہی طرح کا کردار ادا کرتی ہیں یا بعض کا کردار دوسرے سے زیادہ ہے ،اس اختلاف کا کیا سبب ہے ؟

۲۔ مقتضائے معرفت کے لئے کون سے امور معرفت سے انحراف کا سببہیں اور کس طرح یہ عمل انجام دیتے ہیں ؟

۳۔معرفت کے اہم کردار کی روشنی میں انسان کے حقیقی کمال کے حصول کے لئے قرآن مجید میں ہر چیز سے زیادہ کیوں ایمان وعمل صالح کی تاکید ہوتی ہے ؟

۴۔ ایمان وتقویٰ سے معرفت کا کیا رابطہ ہے ؟

۵۔ ایمان ،عقل و انتخاب اور کردار کے مقولوں میں سے کون سا مقولہ ہے ؟

۶۔ اگر خواہشات کا انتخاب انسان کی عقل کے مطابق سب سے زیادہ پائدار ، حقیقی لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کی بنیاد پر ہو تو کیا یہ معیار غیر دینی ہوگا ؟ کیوں اور کیسے ؟

۷۔ اگر ایمان کے حصول اور قرب الہی میں معرفت کا اہم رول ہے تو میدان عمل میں کیوں بعض مفکر ین بالکل ہی خدا اور معادکے منکرہیں یا اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ہیں؟ اور کیوں علم بشر کی ترقی دینداری اور ایمان کی وسعت سے بلا واسطہ تعلق نہیں رکھتی ہے ؟

۲۴۸

مزید مطالعہ کے لئے :

۱۔شناخت کے تمام گوشوںکے اعتبار سے انسان کی سعادت کے لئے ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۵) تفسیر موضوعی قرآن کریم ، تہران : رجاء ۱۳۶۵، ج۴ ص ۹۳۔ ۱۱۱

۔جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۰) شناخت شناسی در قرآن ، تنظیم و پیش کش ، حمید پارسانیا، قم : مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۔

۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( راہ و راہنماشناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی

۲۔ قرآن کی نظر میں انسان کے مختلف خواہشات کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۸) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۱۲( فطرت در قرآن ) قم : اسراء ۔

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۶۶) تفسیر موضوعی قرآن ، ج ۵، تہران : رجاء

۔شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری، قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ہا( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ (۱۳۷۷)خود شناسی برائے خودسازی ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ نجاتی ، محمد عثمان (۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد : بنیاد پژوہش ھای آستانہ قدس۔

۲۴۹

نویں فصل :

کمال نہائی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱۔ (کمال ) کا معنی ذکر کرتے ہوئے اس کی تشریح کریں ؟

۲۔ انسان کے کمال نہائی سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۳۔ قرب الٰہی کے حصول کی راہ کو آیات قرآن سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ ایمان اور مقام قرب کے رابطے کی وضاحت کریں ؟

۲۵۰

کمال خواہی اور سعادت طلبی ہر انسان کی ذاتی وفطری خواہشات میں سے ہے اور انسان کی پوری کوشش اسی خواہش کو پوراکرنا اور نقائص کو دورکرناہے البتہ یہ بات کہ کمال کی خواہش اور سعادت طلب کرنا خود ایک حقیقی اور مستقل رغبت وخواہش ہے ، یا ایک فرعی خواہش ہے جو دوسری خواہشوں کا نتیجہ ہے جیسے خود پسندی وغیرہ میں یہ مسئلہ اتفاقی نہیں ہے اگر چہ نظریہ کمال کو مستقل اور حقیقی سمجھنا ہی اکثر لوگوں کا نظریہ ہے ۔

انسان کی سعادت وکمال کی خواہش میں ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ ،کمال اور سعادت کے مراد کو واضح کرنا ہے جو مختلف فلسفی ودینی نظریوں کی بنیاد پر متفاوت اورمختلف ہے اسی طرح کمال وسعادت کے حقیقی مصداق کو معین کرنا اور ان کی خصوصیات نیز کیفیت اور اس کے حصول کا طریقہ کاران امور میں سے ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق وتحلیل اور بحث ہوچکی ہے اور مزید ہوگی ظاہر ہے کہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیں ، ان تمام مسائل میں دنیاوی پہلو اختیار کرتے ہیں اور کمال وسعادت کے معنی ومفہوم اور ان دونوں کا حقیقی مصداق اور اس کے راہ حصول کو مادی امور ہی میں منحصرجانتے ہیں لیکن غیر مادی مکاتب خصوصاً الہی مکاتب فکر، مادی و دنیاوی اعتبار سے بلند اور وسیع و عریض نظریہ پیش کرتے ہیں اس فصل میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ قرآنی نظریہ کے مطابق مذکورہ مسائل کا جواب تلاش کریں

۲۵۱

مفہوم کمال اور انسانی معیار کمال

دنیا کی باحیات مخلوق جن سے ہمارا سرو کار ہے ،ان میں سے نباتات نیز حیوان و انسان گوناگوں صلاحیت کے حامل ہیں ، جس کے لئے مناسب اسباب و علل کا فراہم ہونا ظاہر وآشکار اور پوشیدہ توانائیوں کے فعال ہونے کا سبب ہیں اور ان صلاحیتوں کے فعال ہونے سے ایسی چیزیں معرض وجود میں آتی ہیں جواس سے قبل حاصل نہیں تھیں اس طرح تمام با حیات مخلوق میں درونی قابلیتوں کو پوری طرح سے ظاہر کرنے کے لئے طبیعی تلاش جاری ہے البتہ یہ فرق ہے کہ نباتات موجودات کے ان طبیعی قوانین کے اصولوں کے پابند ہیں،جو ان کے وجود میں ڈال دی گئی ہیں جانوروں کیسعی و کوشش حب ذات جیسے عوامل پر مبنی ہے جو فطری الہام وفہم کے اعتبار سے اپنے امور انجام دیتے ہیں لیکن انسان کی جستجو، اختیار وعلم کی روشنی میں ہوتی ہے ۔

اس وضاحت کے مطابق جو اختیار اور اس کے اصول کی بحث میں گذرچکا ہے اس کے کمال نہائی کا مقصد دوسری مخلوق سے بالکلعلیحدہ اور جدا ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ''کمال'' ایک وجودی صفت ہے جو ایک وجود کا دوسرے وجود کے مقابلہ میں حقیقی توانائی وقوت کی طرف اشارہ کرتا ہے .اور کامل وجود اگر فہم وشعور کی نعمت سے مالامال ہو تو کمال سے مزین ہونے کی وجہ سے لذت محسوس کرتا ہے گذشتہ مفہوم کی بنیاد پر کمال اگر طبیعی اور غیر اختیاری طور پر حاصل ہو جائے جیسے انسان کی حیوانی توانائی کا فعال ہونا (جیسے جنسی خواہش )تو اسے غیر اکتسابی وغیر طبیعی کمال کہا جاتا ہے اور اگر دانستہ اور اختیاری تلاش کی روشنی میں حاصل ہوتو کمال اکتسابی کہا جاتا ہے پس جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر موجود کا کمال منجملہ انسان کا کمال ایک قسم کی تمام قابلیت کا ظاہر اورآشکار ہونا ہے توبنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقی کمال کیا ہے اور کون سی قابلیت کا ظاہر ہونا انسانی کمال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟ بے شک انسان کی قابلیتوں اور خواہشوں کے درمیان حیوانی اور مادی خواہشوں کے ظاہر ہونے کو انسانی کمالات میں شمار نہیں کیا جاسکتااس لئے کہ یہ خواہشیں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک ہیں اور حیوانی پہلو سے ان قابلیتوں کے فعال ہونے کا مطلب انسان کا تکامل پانا ہے ۔

۲۵۲

ایسے مرحلہ میں انسان کی انسانیت ابھی بالقوہ ہے اور اس کی حیوانیت بالفعل ہوچکی ہے اور یہ محدود ،ناپایدار اور سریع ختم ہونے والی صلاحیتیں انسان کی واقعی حقیقت یعنی نا قابل فنا روح ، اور ہمیشہ باقی رہنے والی لامحدود خواہش سے سازگار نہیں ہے انسان کی انسانیت اس وقت بالفعل ہوگی جب اس ناقابل فناروح کی قابلیت فعال ہواور کمال وسعادت اور ختم نہ ہونے والی خالص اور ناقابل فنا لذت بغیر مزاحمت ومحدود یت کے حاصل ہو ۔

انسان کا کمال نہائی

انسانی کمال اور اس کی عام خصوصیات کے واضح ہونے کے بعد یہ بنیاد ی سوال در پیش ہوتا ہے کہ انسانی کمال کا نقطۂ عروج اور مقصد حقیقی جسے ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنی تمام فعالیت جس کے حصول کے لئے انجام دیتا ہے وہ کیا ہیں ؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ انسان کا کمال نہائی کیا ہے ؟

اس سوال کے جواب کے وقت اس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ حوادث زندگی میں انسان کی طرف سے جن مقاصد کی جستجو ہوئی ہے وہ ایک جیسے مساوی اور برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اہداف، ابتدائی اہداف ہیں جو بلند وبالا اہداف کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور بعض نہائی اور حقیقی اہداف شمار ہوتے ہیں اور بعض درمیانی ہیں جو مقدماتی اور نہائی اہداف کے درمیان حد وسط کے طور پر واقع ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ، یہ تین طرح کے اہداف ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں. انسان کے نہائی کمال وہدف سے مراد وہ نقطہ ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی کمال، انسان کے لئے متصور نہیں ہے اور انسان کی ترقی کا وہ آخری زینہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے یہ تلاش وکوشش جاری ہے قرآن مجید نے اس نقطۂ عروج کو فوز (کامیابی ) ،فلاح (نجات ) اور سعادت (خوشبختی )جیسے ناموں سے یاد کیا ہے اور فرماتا ہے :

۲۵۳

( وَ مَن یُطِعِ اللّٰهَ و رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظِیماً ) (۱)

اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کوبہت اچھی طرح پہونچ گیا ۔

( أُولٰئِکَ عَلَیٰ هُدًی مِن رَّبِّهِم وِ أُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۲)

یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے

( وَ أَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیهَا )

اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بہشت میں ہوں گے ۔(۳)

قرآن مذکورہ مفاہیم کے نقطۂ مقابل کو ناکامی :( إِنَّهُ لا یُفلِحُ الظَّالِمُونَ ) (۴) (اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوںگے )ناامیدی اور محرومی :( وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (اور یقینا جس نے اسے بنا دیا وہ نامراد رہا ) شقاوت اور بد بختی سے تعبیر کرتا ہے:( فَأَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَهُم فِیهَا زَفِیر وَشَهِیق ) (۵) (تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی)

گذشتہ مطالب کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی توانائیوں میں سے ہر ایک کو کمال اور فعلیت کے مرحلہ میں پہونچنے کے لئے فقط اتنی ہی مقدار معتبر ہے جس میں ایجاد کمال نیز دائمی اورلازوال کمال کے تحقق کے اسباب فراہم ہوسکیں اور کمال نہائی کے حصول کا مقدمہ بن سکیں دوسرے لفظوں میں ان کا رشد وکمال ایک مقدمہ ہے اور اگرمقدماتی پہلو کا فقدان ہوجائے توانسان اپنی مطلوبیت اور اعتبار کو کھودیتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ احزاب ۷۱۔

(۲)سورہ بقرہ ۵۔

(۳)سورہ ھود ۱۰۸۔

(۴)سورہ قصص ۳۷۔

(۵)سورہ ھود ۱۰۶۔

۲۵۴

قرب الٰہی

اہم گفتگو یہ ہے کہ اس کمال نہائی کا مقام ومصداق کیا ہے ؟ قرآن کریم اس کمال نہائی کے مصداق کو قرب الہی بیان کرتا ہے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ہیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ہے اور سب سے اعلی ،خالص ، وسیع اور پایدار لذت ،مقام قرب کے پانے سے حاصل ہوتی ہے .قرب خدا کا عروج وہ مقام ہے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ہوتی ہے اور رحمت الہیسے فیضیاب ہوتاہے اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ہیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ہیں درجہ ذیل ہیں :

۱۔ِ( إنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَهَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ )

بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں پسندیدہ مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہوں میں ہوں گے ۔(۱)

۲.( فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَ اعتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدخِلُهُم فِی رَحمَةٍ مِّنهُ وَ فَضلٍ وَ یَهدِیهِم ِلَیهِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً ) (۲)

پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رہے تو خدا بھی انھیں عنقریب ہی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پہونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا ۔

اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ہے :

''ما تقرب لیّ عبد بشیٍٔ أحبّ لیّ ممّا فترضت علیه و أنّه لیتقرب

____________________

(۱) سورہ قمر ۵۴،۵۵۔

(۲) سورہ نسائ ۱۷۶۔

۲۵۵

لی بالنافلة حتیٰ أحبه فذا أحببته کنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصر به و لسانه الذی ینطق به و یده التی یبطش بها'' (۱)

کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شیٔ کے ذریعے مجھ سے نزدیک نہیں ہوتا ہے بندہ ہمیشہ (درجہ بہ درجہ ) مستحب کاموں سے (واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک ہوتا ہے حتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جب وہ مرا محبوب ہوجاتا ہے تواسکا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے اور اسکا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ہے ۔

قربت کی حقیقت

اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پہونچنے کے بغیر میسر نہیں ہے لیکن غلط مفاہیم کی نفی سے اس کو چاہے ناقص ہی سہی حاصل کیا جاسکتا ہے

کسی موجود سے نزدیک ہونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ہوتاہے یہ بات واضح ہے کہ قرب الٰہی اس مقولہ سے نہیں ہے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ہیںاور خداوند عالم زمان و مکان سے بالاتر ہے .اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جہاں سے مخصوص ہے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر چہ اس پر ظاہر ی آثار مترتب ہوتے ہیں کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ہے منجملہ انسان خدا وند عالم سے وابستہ ہے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ہمیشہ حاضر ہیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ہے :

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۳۵۲۔

۲۵۶

( وَ نَحنُ أَقرَبُ إِلَیهِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ ) (۱)

اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نہائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ہے

دوست ،نزدیک تراز من بہ من است

وین عجیب ترکہ من از وی دورم

''دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ میں اس سے دورہوں''

بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ہے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاہے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ہوجاتاہے. اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے اور اپنے نفسانی مشاہدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ہے:

( وُجُوه یَومَئِذٍ نَاضِرَة ٭ لَیٰ رَبِّهَا نَاظِرَة ) ۔(۲)

اس روز بہت سے چہرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے ۔

قرب الٰہی کے حصول کا راستہ

گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انسانی تکامل ،کرامت اکتسابی اور کمال نہائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ہے.لیکن یہ بات واضح رہے کہ ہر اختیاری عمل ،ہرانداز اورہرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اشارہ ہواہے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ہیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ہوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے

____________________

(۱)سورہ ق ۱۶۔

(۲)سورہ قیامت ۲۲، ۲۳۔

۲۵۷

ہوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ہے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ہوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نہیں ہیں:( إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ المُتَّقِینَ ) (۱) (خدا تو بس پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے )لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل ،ایمان اور عمل صالح ہیں.اس لئے کہ جو عمل تقوی ز کے ہمراہ نہ ہو خدا وند عالم کے سامنے پیش ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نہیں کہا جاسکتاہے۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ہے وہ در اصل عبادی عمل ہے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ہر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ہے''إنّما الأعمال بالنیات'' (۲) آگاہ ہو جاؤ کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ہے اور نیت وہ تنہا عمل ہے جو ذاتاً عبادت ہے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ہونا ، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ہونے کے اوپر ہے ، یہی وجہ ہے تنہا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ہوسکتا ہے وہ نیت ہے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ہیں اسی بنا پرنیت کے پاک ہوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نہیں ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ہدف عبادت بنایا گیا ہے:( وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ النسَ ِلا لِیَعبُدُونَ ) (۳) (اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰہی کو حاصل کرنا ہر کس و ناکس ، ہر قوم و ملت کے لئے ممکن نہیں ہے اور صرف اختیاری ہی عمل سے (اعضاو جوارح کے علاوہ )اس تک رسائی ممکن ہے ۔

مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۲۷۔

(۲)مجلسی، محمد باقر ؛ بحار الانوار؛ ج۷۶،ص۲۱۲۔

(۳)ذاریات ۵۶۔

۲۵۸

خواہش دنیا ، شیطان کی پیروی اور خواہش نفس(ہوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے.حضرت موسی کے دوران بعثت ،یہودی عالم'' بلعم باعور'' کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَاتلُ عَلَیهِم نَبَأَ الَّذِی آتَینَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنهَا فأَتبَعَهُ الشَّیطَانُ فَکَانَ مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاهُ بِهَا وَ لٰکِنَّهُ أَخلَدَ ِلَیٰ الأرضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ )

اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا ۔(۱)

تقرب خدا کے درجات

قرب الہی جو انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات رکھتا ہے حتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ہوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ہے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ہے. اور ہر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ہوتا ہے:( هُم دَرَجَات عِندَ اللّٰهِ ) (۲) (وہ لوگ (صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں (صاحب)درجات ہیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوند عالم سے دوری بھی درجات کا باعث ہے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ہے اسی بنا پر انسان کی زندگی میں ٹھہراو ٔاور توقف کا کوئی مفہوم نہیں ہے .ہر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ہے یا دور کرتاہے، ٹھہراؤ اس وقت متصور ہے جب انسان مکلف نہ ہو. اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ہے مکلف

____________________

(۱) سورہ اعراف ۱۷۵،۱۷۶۔

(۲)سورہ آل عمران ۱۶۳۔

۲۵۹

ہے چاہے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے ، تکامل یا تنزل سے ہمکنار ہوگا۔

( وَ لِکُلِّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَلُونَ )

اور جس نے جیسا کیا ہے اسی کے موافق (نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں سے) ہر ایک کے درجات ہیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے ۔(۱)

انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ہے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ہے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بہشت کے بہت سے درجات ہیںکہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔

ایمان ومقام قرب کا رابطہ

ایمان وہ تنہا شیٔ ہے جو خدا کی طرف صعود کرتی ہے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ہے:

( إِلَیهِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُهُ ) (۲)

اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پہونچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ہے ۔

انسان مومن بھی اپنے ایمان ہی کے مطابق خدا وند عالم سے قریب ہے.اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگااتناہی اس کا تقرب زیادہ ہوگا.(۳) اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ہے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ہواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاہوا ہے جو تقرب

____________________

(۱)سورہ انعام۱۳۲۔

(۲)سورہ فاطر۱۰۔

(۳)مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ خود شناسی برای خودسازی۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307