انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145878 / ڈاؤنلوڈ: 4857
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اگر یہ دو مسئلے حل ہوجا ئیں اور انسان اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ موت سے نابود نہیں ہوتا ہے اور اس کی ایک دائمی زندگی ہے نیز اسکا حقیقی کمال قرب الہٰی ہے اور اس کے لئے کوئی حد نہیں ہے تو معیار انتخاب واضح ہوجائے گا جو چیز انسان کو اس دائمی کمال تک پہونچائے اسے فوقیت دیتے ہوئے اسی کے مطابق عمل انجام دیا جائے یہی عام معیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ کون سی خواہش کن شرائط کے ساتھ اس نقش کو انجام دے گی اور کون سی حرکت ہمیں اس دائمی اور بے انتہا کمال سے نزدیک یا دور کرتی ہے ،ہمیں اس راہ کو وحی کے ذریعہ دریافت کرناہوگااس لئے کہ وحی کی معرفت وہ ہے جو اس سلسلہ میں اساسی اور بنیادی رول ادا کرے گی لہٰذا سب سے پہلے مسئلہ مبدأومعاد کو حل کرنا چاہیئے اور اسکے بعد وحی ونبوت کو بیان کرنا چاہئے تاکہ حکیمانہ اور معقول انتخاب واضح ہوجائے۔ اس نقطۂ نظر میں انتخاب کو سب سے زیادہ اور پایدار لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کے معیاروں کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے انسان کی پوری زندگی کے مشخص ومعین نہ ہونے اور اس کمال کی مقدار جسے حاصل کرنا چاہتاہے اور سب سے بہتر خواہش کی تشخیص میں اس کی معرفت کے اسباب کی نارسائی کی بناپرمذکورہ مشکلات جنم لیتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس (وحی کے ) دائرہ میں حل ہوسکتی ہیں ۔

اخروی لذتوں کی خصوصیات

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ قرآن کی روشنی میں دنیاوی لذتوں کے علاوہ اخروی لذتوں کے موارد ذکرہیں۔ اور انسان کو لذتوں کے انتخاب میں انھیں بھی مورد توجہ قرار دینا چاہیئے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ لذت بخش اور سب سے زیادہ پائدار اورجوایجاد کما ل کا باعث ہو اسے انتخاب کرنا چاہیئے اسی بنا پر قرآن مجید نے آیات ( نشانیاں ) کے بیان کرنے کا ہدف دنیا وآخرت کے بارے میں تفکر اور دونوں کے درمیان موازنہ بتایا ہے :

( کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرُونَ٭فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ )

یوں خداوند عالم اپنے احکامات تم سے صاف صاف بیان دیئے ہیں تاکہ تم دنیا و آخرت

کے بارے میں غور و فکر کرو۔(۱)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اخروی کمالات ولذتوں کو بیان کرنے والی آیات کی تحقیق وتحلیل ہمیں یہ نتیجہ عطا کرتی ہیں کہ یہ لذتیں اور کمالات، دنیاوی لذتوں کے مقابلہ میں فزونی،پایداری ، برتری اور

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۱۹۔

۲۴۱

خلوص کی حامل ہیں لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ اپنی زندگی میں ایسی خواہشوں کو انتخاب کرے جو اخروی لذت وکمال کو پوراکرسکتی ہوں ان آیتوں میں چار خصوصیات اور اخروی کمالات ولذتوں کی برتری کے بارے میں مندرجہ ذیل انداز میں گفتگو ہوئی ہے :

۱۔پایدار ی اور ہمیشگی

قرآن کی نظر میں دنیاوی زندگی نا پایدار ومحدود ہے اور اخروی زندگی دائمی اور محدودیت زمانی سے عاری ہے :

( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱)

مگر تم لوگ دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیرپا ہے ۔

( مَا عِندَکُم یَنفَذُ وَ مَا عِندَ اللّٰهِ بَاقٍ... ) (۲)

جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو خدا کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا

۲۔اخلاص اور رنج و الم سے نجات

دنیاوی زندگی میں نعمتیں اور خوشی ،رنج وغم سے مخلوط ہیں لیکن اخروی زندگی سے خالص خوشی اور حقیقی نعمت حاصل کرسکتے ہیں .قرآن مجید بہشتیوں کی زبان میں فرماتا ہے :

( الَّذِی أحَلَّنَا دَارَ المُقَامَةِ مِن فَضلِهِ لا یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَب وَ لا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوب ) (۳)

جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشگی کے گھر میں اتارا جہاں ہمیں نہ تو کوئی تکلیف پہونچے گی اور نہ ہی کوئی تکان آئے گی۔

____________________

(۱)سورہ اعلیٰ۱۶،۱۷۔

(۲)سورہ نحل ۹۶۔(۳)سورہ فاطر ۳۵۔

۲۴۲

۳۔ وسعت و فراوانی

اخروی نعمتیں ،دنیاوی نعمتوں کے مقابلہ میں جو کم وکیف کے اعتبار سے محدود اور بہت کم ہیں بہت زیادہ اور فراوان ہیں قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَ سَارِعُوا ِلَیٰ مَغفِرَةٍ مِّن رَّبِّکُم وَ جَنَّةٍ عَرضُهَا السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ )

اور اپنے پروردگار کے بخشش اور جنت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے

آسمان اور زمین کے برابر ہے ۔(۱)

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ فِیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَ تَلَذُّ الأعیُنُ ) (۲)

اور وہاں ( بہشت میں )جس چیز کا جی چاہے اور جس سے

آنکھیں لذت اٹھائیں (موجود ہیں)۔

۴۔ مخصوص کمالات اورلذتیں

اخروی دنیا میں ان نعمتوں کے علاوہ جو دنیاوی نعمتوں کے مشابہ ہیں مخصوص نعمتیں بھی ہیں جو دنیا کی نعمتوں سے بہت بہتر اور عالی ہیں قرآن مجید دنیاوی نعمتوں سے مشابہ نعمتوں کو شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ رِضوَان مِنَ اللّٰهِ أَکبَرُ ذٰلِکَ هُوَ الفَوزُ العَظِیمُ ) (۳)

اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۱۳۳۔

(۲)سورہ زخرف۷۱ ۔

(۳)سورہ توبہ آیت ۷۲۔

۲۴۳

ایک روایت میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :''فیُعطهم ﷲ مَالا عین رأت ولا أُذن سمعت ولم یخطر علیٰ قلب بشر'' (۱)

خدا وند عالم انہیں (اپنے صالح بندوں ) ایسی نعمتیں عطا کرے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ ہی کسی قلب نے محسوس کیا ہوگا مذکورہ خصوصیات پر توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید فقط اخروی زندگی کو زندگی سمجھتا ہے اور دنیا کی زندگی کو مقدمہ اور اس کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جب دنیاوی زندگی اخروی زندگی کے حصول کا ذریعہ نہ ہوتو اسے کھیل بے خبری وغفلت کی علت ،فخر کا ذریعہ نیز ظاہری آرائش اورجاہلانہ عمل شمار کرتا ہے اور اسکی فکر وجستجو میں ہونا اور اس کو پورا کرنے والی خواہشوں کو انتخاب کرنا ایک غیر عقلی فعل کہا ہے اور ایسی زندگی کو حیوانات کی زندگی اور انسان کے حیوانی پہلو کو پورا کرنا بتا یا ہے۔

( وَ مَا هٰذِهِ الحَیَوٰةُ الدُّنیَا ِلا لَهو وَ لَعِب وَ نَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِیَ الحَیَوَانُ لَو کَانُوا یَعلَمُونَ ) (۲)

اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں اگر یہ لوگ سمجھیںبوجھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ابدی زندگی تو بس آخرت کا گھر ہے ۔

____________________

(۱)نوری ، میرزا حسین ؛ مستدرک الوسایل ج۶ ص ۶۳۔

(۲)سورہ عنکبوت ۶۴۔

۲۴۴

قدرت :

اختیاری افعال میں تیسرا بنیادی عنصر قدرت ہے جو اس سلسلہ میں امکانات واسباب کا رول ادا کرتا ہے انسان جن خواہشات کو اپنے لئے حقیقی کمال کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اسکے مقدمۂ حصول کو تشخیص دیتا ہے انھیں معارف کی روشنی میں حاحل کرنا چاہیئے اور وہ افعال جو اس کو اُس کمال نہائی کے حصول سے روکتے ہیں یا دور کرتے ہیںاس سے پرہیزکرنا چاہیئے. یہ قدرت اندرونی اعمال پر

محیط ہے جیسے نیت ، ایمان لانا ، رضایت ، غصہ، محبت ،دشمنی، قصد اور ارادہ خارجی، عمل پراثر انداز ہوتے ہیں۔اور قرآن کی نظر میں ،انسان ان تمام مراحل میں قدرت کونافذ کرنے کے لئے ضروری امکانات سے استوارہے قدرت کے مختلف اقسام ہیں جسے ایک نظریہ کے اعتبار سے چار حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

الف۔قدرت طبعی : یعنیطبیعت سے استفادہ کرتے ہوئے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان ہو اپنے مقاصد کو حاصل کیاجاتا ہے

ب۔قدرت علمی: یعنی وہ قدرت جو ٹکنیکل آلات سے استفادہ کرکے اپنے اہداف کو حاصل کرلے اور اپنے مورد نظر افعال کو انجام دے۔

ج: قدرت اجتماعی:ہماہنگی وتعاون کے ذریعہ یا طاقت و قبضہ اور اجتماعی مرکز کے حصول ، مشروع یا غیر مشروع طریقہ سے اپنے جیسے افراد کو ہی اپنے فائدہ کے لئے اپنی خدمت میں استعمال کرتاہے اور ان کی توانائی سے استفادہ کرکے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔

د: قدرت غیرطبیعی: اپنی روحی قدرت سے استفادہ یا غیبی امداد اور الٰہی عنایت ،انسانوں کی جاندار بے جان طبیعت میں تصرف کرکے یا جن وشیاطین کی مدد سے جس چیز کوچاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے ۔

۲۴۵

اختیار کی اصل وبنیاد کے عنوان سے جو باتیں قدرت کی وضاحت میں گذر چکی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ قدرت کو جسمانی توانائی ،اعضاء وجوارح کی سلامتی اورافعال کے انجام دہی میں بیرونی شرائط کے فراہم ہونے سے مخصوص نہیں کرناچاہیئے بلکہ توجہ ہونا چاہئیے کہ ان کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اندرونی اختیاری عمل کا امکان موجود رہتا ہے جیسے محبت کرنا ،دشمنی کرنا ، نیت کرنا ، کسی کام کے انجام کا ارادہ کرنا یا کسی شخص کے عمل سے راضی ہونا وغیرہ۔ البتہ انسان اندرونی اعمال کے ذریعہ خود کو خدا سے نزدیک کرسکتا ہے اور اختیاری اصول مثال کے طور پر معرفت ، خواہشات اور مذکورہ درونی امور کا ارادہ خصوصاً جو چیزیں حقیقی عمل کو ترتیب دیتی ہیں یعنی نیت ،ان شرائط میں بھی فراہم ہیں اور جس قدر نیت خالص ہوگی اعتبار اور اس کے قرب کا اندازہ بھی زیادہ ہوگا لہٰذا انسان اعمال ظاہری کے انجام پر بھی مامور ہے اور افعال باطنی کے انجام کا بھی ذمہ دار ہے البتہ اگر کوئی ظاہر ی عمل انجام دے سکتا ہے تو اس کے لئے صرف باطنی عمل کی نیت کافی نہیں ہے اسی بنا پر ایمان وعمل صالح ہمیشہ باہم ذکر ہوئے ہیں اور دل کے صاف ہونے کا فائدہ ظاہری اعمال میں ہوتا ہے اگرچہ اعمال ظاہری سے نا توانی اس کے اعمال کے سقوط میں ، باطنی رضایت کا نہ توسبب ہے اور نہ ہی باطنی رفتارسے اختلاف، ظاہری عمل میں اعلان رضایت کے لئے کافی ہے مگر یہ کہ انسان عمل ظاہری کے انجام سے معذور ہو۔

۲۴۶

خلاصہ فصل

۱۔افعال اختیاری کو انجام دینے کے لئے ہم تین عناصر (معرفت ،انتخاب اورقدرت) کے محتاج ہیں۔

۲۔ اچھے اور برے کا علم، حقیقی کمال کی شناخت اورمعرفت نیز اس کی راہ حصول کے بارے میں اطلاع اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مبدا ، معاد اور دنیا وآخرت کے رابطہ کو پہچانیں

۳۔ قرآن مجید اگر چہ آنکھ اورکان (حواس ) اور قلب (عقل ودل ) کومعرفت اور سعادت کی عام راہوں میں معتبر مانتا ہے لیکن یہ اسباب محدودہونے کے ساتھ ساتھ امکان خطاء سے لبریز نیز تربیت وتکامل کے محتاج ہیں اس لئے ایک دوسرے مرکز کی ضرورت ہے تاکہ ضروری مسائل میں صحیح وتفصیلی معرفت کے ذریعے انسان کی مدد کرسکے اور وہ منبع و مرکز، وحی الہٰی ہے جو ہمارے لئے بہت ضروری ہے

۴۔خواہش یا ارادہ، اختیار و قصدکے لئے ایک دوسرا ضروری عنصر ہے البتہ یہ کوئی ایسا ارادے والا فعل نہیں ہے جس میں خواہش اور چاہت کا کردار نہ ہوحالانکہ بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش یا مزید شوق کہا ہے۔

۵۔ بہت سی جگہوں میں جہاںچند ناہماہنگ خواہشیں باہم ہوتی ہیں اور انسان مجبور ہوتاہے کہ کسی ایک کو ترجیح دے تواس سلسلہ میں قرآن مجید کی شفارش یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو مد نظر قرار دے اور اس کو معیارانتخاب سمجھے ۔

۶۔ قرآن مجید ایسے بلند و بالا خواہشات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس میں شخصیت و منزلت کی خواہش اور ایک معبود کی عبادت فقط خداوند عالم کی عبادت کے سایہ میں پوری ہوسکتی ہے ۔

۷۔ قرآن مجید اعلی خواہشوں کو ایجاد کمال ،پائدار اور زیادہ لذت بخش ہونے کے معیار پر ترجیح دیتا ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مذکورہ امور فقط آخرت میں حاصل ہونگے جس کی نعمتیں پائدار ،حقیقی ، رنج وغم سے عاری اور باکمال ہیں۔

۸۔ قدرت ،مقدمات اختیار کے ایک مقدمہ کے عنوان سے کسی بھی عمل کے لئے درکار ہے مثلا شناخت اور معرفت کے لئے انتخاب اور ارادے کی قدرت۔البتہ قرآن کی نظر میں ان تمام موارد کے لئے انسان ضروری قدرت سے آراستہ ہے ۔

۲۴۷

تمرین

۱۔اصول اختیار کی تین قسمیں ہیں جواختیاری افعال میں ایک ہی طرح کا کردار ادا کرتی ہیں یا بعض کا کردار دوسرے سے زیادہ ہے ،اس اختلاف کا کیا سبب ہے ؟

۲۔ مقتضائے معرفت کے لئے کون سے امور معرفت سے انحراف کا سببہیں اور کس طرح یہ عمل انجام دیتے ہیں ؟

۳۔معرفت کے اہم کردار کی روشنی میں انسان کے حقیقی کمال کے حصول کے لئے قرآن مجید میں ہر چیز سے زیادہ کیوں ایمان وعمل صالح کی تاکید ہوتی ہے ؟

۴۔ ایمان وتقویٰ سے معرفت کا کیا رابطہ ہے ؟

۵۔ ایمان ،عقل و انتخاب اور کردار کے مقولوں میں سے کون سا مقولہ ہے ؟

۶۔ اگر خواہشات کا انتخاب انسان کی عقل کے مطابق سب سے زیادہ پائدار ، حقیقی لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کی بنیاد پر ہو تو کیا یہ معیار غیر دینی ہوگا ؟ کیوں اور کیسے ؟

۷۔ اگر ایمان کے حصول اور قرب الہی میں معرفت کا اہم رول ہے تو میدان عمل میں کیوں بعض مفکر ین بالکل ہی خدا اور معادکے منکرہیں یا اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ہیں؟ اور کیوں علم بشر کی ترقی دینداری اور ایمان کی وسعت سے بلا واسطہ تعلق نہیں رکھتی ہے ؟

۲۴۸

مزید مطالعہ کے لئے :

۱۔شناخت کے تمام گوشوںکے اعتبار سے انسان کی سعادت کے لئے ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۵) تفسیر موضوعی قرآن کریم ، تہران : رجاء ۱۳۶۵، ج۴ ص ۹۳۔ ۱۱۱

۔جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۰) شناخت شناسی در قرآن ، تنظیم و پیش کش ، حمید پارسانیا، قم : مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۔

۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( راہ و راہنماشناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی

۲۔ قرآن کی نظر میں انسان کے مختلف خواہشات کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۸) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۱۲( فطرت در قرآن ) قم : اسراء ۔

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۶۶) تفسیر موضوعی قرآن ، ج ۵، تہران : رجاء

۔شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری، قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ہا( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ (۱۳۷۷)خود شناسی برائے خودسازی ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ نجاتی ، محمد عثمان (۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد : بنیاد پژوہش ھای آستانہ قدس۔

۲۴۹

نویں فصل :

کمال نہائی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱۔ (کمال ) کا معنی ذکر کرتے ہوئے اس کی تشریح کریں ؟

۲۔ انسان کے کمال نہائی سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۳۔ قرب الٰہی کے حصول کی راہ کو آیات قرآن سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ ایمان اور مقام قرب کے رابطے کی وضاحت کریں ؟

۲۵۰

کمال خواہی اور سعادت طلبی ہر انسان کی ذاتی وفطری خواہشات میں سے ہے اور انسان کی پوری کوشش اسی خواہش کو پوراکرنا اور نقائص کو دورکرناہے البتہ یہ بات کہ کمال کی خواہش اور سعادت طلب کرنا خود ایک حقیقی اور مستقل رغبت وخواہش ہے ، یا ایک فرعی خواہش ہے جو دوسری خواہشوں کا نتیجہ ہے جیسے خود پسندی وغیرہ میں یہ مسئلہ اتفاقی نہیں ہے اگر چہ نظریہ کمال کو مستقل اور حقیقی سمجھنا ہی اکثر لوگوں کا نظریہ ہے ۔

انسان کی سعادت وکمال کی خواہش میں ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ ،کمال اور سعادت کے مراد کو واضح کرنا ہے جو مختلف فلسفی ودینی نظریوں کی بنیاد پر متفاوت اورمختلف ہے اسی طرح کمال وسعادت کے حقیقی مصداق کو معین کرنا اور ان کی خصوصیات نیز کیفیت اور اس کے حصول کا طریقہ کاران امور میں سے ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق وتحلیل اور بحث ہوچکی ہے اور مزید ہوگی ظاہر ہے کہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیں ، ان تمام مسائل میں دنیاوی پہلو اختیار کرتے ہیں اور کمال وسعادت کے معنی ومفہوم اور ان دونوں کا حقیقی مصداق اور اس کے راہ حصول کو مادی امور ہی میں منحصرجانتے ہیں لیکن غیر مادی مکاتب خصوصاً الہی مکاتب فکر، مادی و دنیاوی اعتبار سے بلند اور وسیع و عریض نظریہ پیش کرتے ہیں اس فصل میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ قرآنی نظریہ کے مطابق مذکورہ مسائل کا جواب تلاش کریں

۲۵۱

مفہوم کمال اور انسانی معیار کمال

دنیا کی باحیات مخلوق جن سے ہمارا سرو کار ہے ،ان میں سے نباتات نیز حیوان و انسان گوناگوں صلاحیت کے حامل ہیں ، جس کے لئے مناسب اسباب و علل کا فراہم ہونا ظاہر وآشکار اور پوشیدہ توانائیوں کے فعال ہونے کا سبب ہیں اور ان صلاحیتوں کے فعال ہونے سے ایسی چیزیں معرض وجود میں آتی ہیں جواس سے قبل حاصل نہیں تھیں اس طرح تمام با حیات مخلوق میں درونی قابلیتوں کو پوری طرح سے ظاہر کرنے کے لئے طبیعی تلاش جاری ہے البتہ یہ فرق ہے کہ نباتات موجودات کے ان طبیعی قوانین کے اصولوں کے پابند ہیں،جو ان کے وجود میں ڈال دی گئی ہیں جانوروں کیسعی و کوشش حب ذات جیسے عوامل پر مبنی ہے جو فطری الہام وفہم کے اعتبار سے اپنے امور انجام دیتے ہیں لیکن انسان کی جستجو، اختیار وعلم کی روشنی میں ہوتی ہے ۔

اس وضاحت کے مطابق جو اختیار اور اس کے اصول کی بحث میں گذرچکا ہے اس کے کمال نہائی کا مقصد دوسری مخلوق سے بالکلعلیحدہ اور جدا ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ''کمال'' ایک وجودی صفت ہے جو ایک وجود کا دوسرے وجود کے مقابلہ میں حقیقی توانائی وقوت کی طرف اشارہ کرتا ہے .اور کامل وجود اگر فہم وشعور کی نعمت سے مالامال ہو تو کمال سے مزین ہونے کی وجہ سے لذت محسوس کرتا ہے گذشتہ مفہوم کی بنیاد پر کمال اگر طبیعی اور غیر اختیاری طور پر حاصل ہو جائے جیسے انسان کی حیوانی توانائی کا فعال ہونا (جیسے جنسی خواہش )تو اسے غیر اکتسابی وغیر طبیعی کمال کہا جاتا ہے اور اگر دانستہ اور اختیاری تلاش کی روشنی میں حاصل ہوتو کمال اکتسابی کہا جاتا ہے پس جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر موجود کا کمال منجملہ انسان کا کمال ایک قسم کی تمام قابلیت کا ظاہر اورآشکار ہونا ہے توبنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقی کمال کیا ہے اور کون سی قابلیت کا ظاہر ہونا انسانی کمال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟ بے شک انسان کی قابلیتوں اور خواہشوں کے درمیان حیوانی اور مادی خواہشوں کے ظاہر ہونے کو انسانی کمالات میں شمار نہیں کیا جاسکتااس لئے کہ یہ خواہشیں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک ہیں اور حیوانی پہلو سے ان قابلیتوں کے فعال ہونے کا مطلب انسان کا تکامل پانا ہے ۔

۲۵۲

ایسے مرحلہ میں انسان کی انسانیت ابھی بالقوہ ہے اور اس کی حیوانیت بالفعل ہوچکی ہے اور یہ محدود ،ناپایدار اور سریع ختم ہونے والی صلاحیتیں انسان کی واقعی حقیقت یعنی نا قابل فنا روح ، اور ہمیشہ باقی رہنے والی لامحدود خواہش سے سازگار نہیں ہے انسان کی انسانیت اس وقت بالفعل ہوگی جب اس ناقابل فناروح کی قابلیت فعال ہواور کمال وسعادت اور ختم نہ ہونے والی خالص اور ناقابل فنا لذت بغیر مزاحمت ومحدود یت کے حاصل ہو ۔

انسان کا کمال نہائی

انسانی کمال اور اس کی عام خصوصیات کے واضح ہونے کے بعد یہ بنیاد ی سوال در پیش ہوتا ہے کہ انسانی کمال کا نقطۂ عروج اور مقصد حقیقی جسے ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنی تمام فعالیت جس کے حصول کے لئے انجام دیتا ہے وہ کیا ہیں ؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ انسان کا کمال نہائی کیا ہے ؟

اس سوال کے جواب کے وقت اس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ حوادث زندگی میں انسان کی طرف سے جن مقاصد کی جستجو ہوئی ہے وہ ایک جیسے مساوی اور برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اہداف، ابتدائی اہداف ہیں جو بلند وبالا اہداف کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور بعض نہائی اور حقیقی اہداف شمار ہوتے ہیں اور بعض درمیانی ہیں جو مقدماتی اور نہائی اہداف کے درمیان حد وسط کے طور پر واقع ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ، یہ تین طرح کے اہداف ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں. انسان کے نہائی کمال وہدف سے مراد وہ نقطہ ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی کمال، انسان کے لئے متصور نہیں ہے اور انسان کی ترقی کا وہ آخری زینہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے یہ تلاش وکوشش جاری ہے قرآن مجید نے اس نقطۂ عروج کو فوز (کامیابی ) ،فلاح (نجات ) اور سعادت (خوشبختی )جیسے ناموں سے یاد کیا ہے اور فرماتا ہے :

۲۵۳

( وَ مَن یُطِعِ اللّٰهَ و رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظِیماً ) (۱)

اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کوبہت اچھی طرح پہونچ گیا ۔

( أُولٰئِکَ عَلَیٰ هُدًی مِن رَّبِّهِم وِ أُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۲)

یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے

( وَ أَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیهَا )

اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بہشت میں ہوں گے ۔(۳)

قرآن مذکورہ مفاہیم کے نقطۂ مقابل کو ناکامی :( إِنَّهُ لا یُفلِحُ الظَّالِمُونَ ) (۴) (اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوںگے )ناامیدی اور محرومی :( وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (اور یقینا جس نے اسے بنا دیا وہ نامراد رہا ) شقاوت اور بد بختی سے تعبیر کرتا ہے:( فَأَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَهُم فِیهَا زَفِیر وَشَهِیق ) (۵) (تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی)

گذشتہ مطالب کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی توانائیوں میں سے ہر ایک کو کمال اور فعلیت کے مرحلہ میں پہونچنے کے لئے فقط اتنی ہی مقدار معتبر ہے جس میں ایجاد کمال نیز دائمی اورلازوال کمال کے تحقق کے اسباب فراہم ہوسکیں اور کمال نہائی کے حصول کا مقدمہ بن سکیں دوسرے لفظوں میں ان کا رشد وکمال ایک مقدمہ ہے اور اگرمقدماتی پہلو کا فقدان ہوجائے توانسان اپنی مطلوبیت اور اعتبار کو کھودیتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ احزاب ۷۱۔

(۲)سورہ بقرہ ۵۔

(۳)سورہ ھود ۱۰۸۔

(۴)سورہ قصص ۳۷۔

(۵)سورہ ھود ۱۰۶۔

۲۵۴

قرب الٰہی

اہم گفتگو یہ ہے کہ اس کمال نہائی کا مقام ومصداق کیا ہے ؟ قرآن کریم اس کمال نہائی کے مصداق کو قرب الہی بیان کرتا ہے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ہیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ہے اور سب سے اعلی ،خالص ، وسیع اور پایدار لذت ،مقام قرب کے پانے سے حاصل ہوتی ہے .قرب خدا کا عروج وہ مقام ہے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ہوتی ہے اور رحمت الہیسے فیضیاب ہوتاہے اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ہیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ہیں درجہ ذیل ہیں :

۱۔ِ( إنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَهَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ )

بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں پسندیدہ مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہوں میں ہوں گے ۔(۱)

۲.( فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَ اعتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدخِلُهُم فِی رَحمَةٍ مِّنهُ وَ فَضلٍ وَ یَهدِیهِم ِلَیهِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً ) (۲)

پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رہے تو خدا بھی انھیں عنقریب ہی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پہونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا ۔

اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ہے :

''ما تقرب لیّ عبد بشیٍٔ أحبّ لیّ ممّا فترضت علیه و أنّه لیتقرب

____________________

(۱) سورہ قمر ۵۴،۵۵۔

(۲) سورہ نسائ ۱۷۶۔

۲۵۵

لی بالنافلة حتیٰ أحبه فذا أحببته کنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصر به و لسانه الذی ینطق به و یده التی یبطش بها'' (۱)

کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شیٔ کے ذریعے مجھ سے نزدیک نہیں ہوتا ہے بندہ ہمیشہ (درجہ بہ درجہ ) مستحب کاموں سے (واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک ہوتا ہے حتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جب وہ مرا محبوب ہوجاتا ہے تواسکا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے اور اسکا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ہے ۔

قربت کی حقیقت

اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پہونچنے کے بغیر میسر نہیں ہے لیکن غلط مفاہیم کی نفی سے اس کو چاہے ناقص ہی سہی حاصل کیا جاسکتا ہے

کسی موجود سے نزدیک ہونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ہوتاہے یہ بات واضح ہے کہ قرب الٰہی اس مقولہ سے نہیں ہے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ہیںاور خداوند عالم زمان و مکان سے بالاتر ہے .اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جہاں سے مخصوص ہے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر چہ اس پر ظاہر ی آثار مترتب ہوتے ہیں کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ہے منجملہ انسان خدا وند عالم سے وابستہ ہے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ہمیشہ حاضر ہیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ہے :

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۳۵۲۔

۲۵۶

( وَ نَحنُ أَقرَبُ إِلَیهِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ ) (۱)

اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نہائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ہے

دوست ،نزدیک تراز من بہ من است

وین عجیب ترکہ من از وی دورم

''دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ میں اس سے دورہوں''

بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ہے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاہے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ہوجاتاہے. اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے اور اپنے نفسانی مشاہدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ہے:

( وُجُوه یَومَئِذٍ نَاضِرَة ٭ لَیٰ رَبِّهَا نَاظِرَة ) ۔(۲)

اس روز بہت سے چہرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے ۔

قرب الٰہی کے حصول کا راستہ

گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انسانی تکامل ،کرامت اکتسابی اور کمال نہائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ہے.لیکن یہ بات واضح رہے کہ ہر اختیاری عمل ،ہرانداز اورہرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اشارہ ہواہے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ہیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ہوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے

____________________

(۱)سورہ ق ۱۶۔

(۲)سورہ قیامت ۲۲، ۲۳۔

۲۵۷

ہوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ہے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ہوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نہیں ہیں:( إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ المُتَّقِینَ ) (۱) (خدا تو بس پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے )لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل ،ایمان اور عمل صالح ہیں.اس لئے کہ جو عمل تقوی ز کے ہمراہ نہ ہو خدا وند عالم کے سامنے پیش ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نہیں کہا جاسکتاہے۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ہے وہ در اصل عبادی عمل ہے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ہر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ہے''إنّما الأعمال بالنیات'' (۲) آگاہ ہو جاؤ کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ہے اور نیت وہ تنہا عمل ہے جو ذاتاً عبادت ہے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ہونا ، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ہونے کے اوپر ہے ، یہی وجہ ہے تنہا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ہوسکتا ہے وہ نیت ہے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ہیں اسی بنا پرنیت کے پاک ہوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نہیں ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ہدف عبادت بنایا گیا ہے:( وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ النسَ ِلا لِیَعبُدُونَ ) (۳) (اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰہی کو حاصل کرنا ہر کس و ناکس ، ہر قوم و ملت کے لئے ممکن نہیں ہے اور صرف اختیاری ہی عمل سے (اعضاو جوارح کے علاوہ )اس تک رسائی ممکن ہے ۔

مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۲۷۔

(۲)مجلسی، محمد باقر ؛ بحار الانوار؛ ج۷۶،ص۲۱۲۔

(۳)ذاریات ۵۶۔

۲۵۸

خواہش دنیا ، شیطان کی پیروی اور خواہش نفس(ہوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے.حضرت موسی کے دوران بعثت ،یہودی عالم'' بلعم باعور'' کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَاتلُ عَلَیهِم نَبَأَ الَّذِی آتَینَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنهَا فأَتبَعَهُ الشَّیطَانُ فَکَانَ مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاهُ بِهَا وَ لٰکِنَّهُ أَخلَدَ ِلَیٰ الأرضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ )

اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا ۔(۱)

تقرب خدا کے درجات

قرب الہی جو انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات رکھتا ہے حتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ہوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ہے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ہے. اور ہر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ہوتا ہے:( هُم دَرَجَات عِندَ اللّٰهِ ) (۲) (وہ لوگ (صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں (صاحب)درجات ہیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوند عالم سے دوری بھی درجات کا باعث ہے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ہے اسی بنا پر انسان کی زندگی میں ٹھہراو ٔاور توقف کا کوئی مفہوم نہیں ہے .ہر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ہے یا دور کرتاہے، ٹھہراؤ اس وقت متصور ہے جب انسان مکلف نہ ہو. اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ہے مکلف

____________________

(۱) سورہ اعراف ۱۷۵،۱۷۶۔

(۲)سورہ آل عمران ۱۶۳۔

۲۵۹

ہے چاہے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے ، تکامل یا تنزل سے ہمکنار ہوگا۔

( وَ لِکُلِّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَلُونَ )

اور جس نے جیسا کیا ہے اسی کے موافق (نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں سے) ہر ایک کے درجات ہیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے ۔(۱)

انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ہے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ہے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بہشت کے بہت سے درجات ہیںکہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔

ایمان ومقام قرب کا رابطہ

ایمان وہ تنہا شیٔ ہے جو خدا کی طرف صعود کرتی ہے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ہے:

( إِلَیهِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُهُ ) (۲)

اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پہونچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ہے ۔

انسان مومن بھی اپنے ایمان ہی کے مطابق خدا وند عالم سے قریب ہے.اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگااتناہی اس کا تقرب زیادہ ہوگا.(۳) اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ہے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ہواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاہوا ہے جو تقرب

____________________

(۱)سورہ انعام۱۳۲۔

(۲)سورہ فاطر۱۰۔

(۳)مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ خود شناسی برای خودسازی۔

۲۶۰

کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ہے شرک اور نفاق جلی کا ہے اور کہا جا چکا ہے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ہیں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

''نیّة الشرک فی أمتی أخفی من دبیب النملة السودائِ علیٰ صخرة الصّاً فی اللیلة الظلمائ'' (۱)

میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)طوسی ، خواجہ نصیر الدین ؛ اوصاف الاشراف ۔

۲۶۱

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی تمام جستجو وتلاش کمالات کو حاصل کرنے اور سعادت کو پانے کے لئے ہے۔

۲۔ وہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیںدنیاوی فکر رکھتے ہیں نیز کمال وسعادت اور اس کے راہ حصول کے معانی ومفاہیم کو مادی امور میں منحصر جانتے ہیں.

۳۔ہرموجودکا کمال منجملہ انسان، اس کے اندر موجودہ صلاحیتوں کا فعلیت پانا نیز اس کا ظاہر وآشکار ہوناہے

۴۔ قرآن مجید انسان کے کمال نہائی کو فوز(کامیابی)فلاح(نجات)اور سعادت (خوشبختی ) جیسے کلمات سے تعبیرکرتا ہے.اور کمال نہائی کے مصداق کو قرب الٰہی بتاتاہے

۵۔ اچھے لوگوں کے لئے مقام قرب الہی ایمان کے ساتھ ساتھتقویٰ اور شائستہ اختیاری عمل ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

۶۔ قرب الہی جس انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات کا حامل ہے حتی کہ انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط کے ہمراہ ہو تو انسان کو ایک حد تک خدا سے قریب کردیتا ہے.اس لئے اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کی بنیاد پر لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں .جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگا اسی اعتبار سے اس کا تقرب الہی زیادہ ہوگا اور ایمان کامل اورتوحید خالص، قرب الہی کے آخری مرتبہ سے مربوط ہے۔

۲۶۲

تمرین

۱۔صاحب کمال ہونے اور کمال سے لذت اندوز ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟

۲۔ انسان کی انسانیت اور اس کی حیوانیت کے درمیان کون سا رابطہ برقرار ہے؟

۳۔کمال نہائی کے حاصل ہونے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔آیات وروایات کی زبان میں اعمال نیک کو عمل صالح کیوں کہا گیا ہے؟

۵۔ اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں؟

۶۔اگرہرعمل کااعتبار نیت سے وابستہ ہے تو اس شخص کے اعمال جو دینی واجبات کو خلوص نیت کے ساتھ لیکن غلط انجام دیتا ہے کیوں قبول نہیں کیا جاتا ہے؟

۲۶۳

مزید مطالعہ کے لئے

۔ آذر بائجانی ، مسعود (۱۳۷۵) ''انسان کامل از دیدگاہ اسلام و روان شناسی '' مجلۂ حوزہ و دانشگاہ ، سال نہم ، شمارہ پیاپی۔

۔بدوی ، عبد الرحمٰن (۱۳۷۶) الانسان الکامل فی الاسلام ؛ کویت : وکالة المطبوعات ۔

۔جبلی ، عبد الکریم ؛ ( ۱۳۲۸)الانسان الکامل فی معرفة الاوایل و الاواخر؛ قاہرہ : المطبعة الازہریة المصریة ۔

۔جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶، تہران : رجائ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۷۲) انسان کامل از دیدگاہ نہج البلاغہ ؛ قم : قیام ۔

۔زیادہ ، معن ، (۱۳۸۶)الموسوعة الفلسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی ۔

۔ سادات ، محمد علی ، (۱۳۶۴)اخلاق اسلامی ، تہران : سمت۔

۔سبحانی ، جعفر (۱۳۷۱) سیمای انسان کامل در قرآن ؛ قم : دفتر تبلیغات اسلامی ۔

۔شولٹس ، ڈوال ( بی تا) روان شناسی کمال ؛ ترجمہ ، گیتی خوشدل ، تہران : نشر نو ۔

۔محمد تقی مصباح ( بی تا) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ؛ تہران : صدرا۔

۔نصری ، عبد اللہ؛ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب ؛ تہران : انتشارات دانشگاہ علامہ طباطبائی۔

۲۶۴

ملحقات

ناٹالی ٹربوویک، انسان کے نہائی ہدف اور اس کے راہ حصول کے سلسلہ میں علماء علوم تجربی کے نظریات کو جو کہ صرف دنیاوی نقطہ نگاہ سے ہیں اس طرح بیان کرتا ہے۔

مغربی انسان شناسی کے اعتبار سے کمال نہائی

انسان کو بہتر مستقبل بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیئے ؟انسان کی ترقی کے آخری اہداف کیا ہیں ؟ فرایڈ کے ماننے والے کہتے ہیں : انسان کا مستقبل تاریک ہے ، انسان کی خود پسند فطرت اس کے مشکلات کی جڑ ہے اور اس فطرت کی موجودہ جڑ وں کو پہچاننا اور اس کی اصلاح کرنا راہ تکامل(۱) کے بغیر دشوار نظر آتا ہے، فرایڈ کا دعویٰ ہے کہ زندگی کے نیک تقاضوں کو پورا کرنا ( جیسے جنسی مسائل) اور برے تقاضوں کو کمزور بنانا ( جیسے لڑائی جھگڑے وغیرہ ) شاید انسان کی مدد کرسکتا ہے جب کہ فرایڈ خود ان اصول پر عمل پیرا نہیں تھا ۔

ڈاکٹر فرایڈ کے نئے ماننے والے (مارکس، فروم ):انسان کی خطائیں معاشرے کے منفی آثار کا سر چشمہ ہیں لہٰذا اگر سماج اور معاشرہ کو اس طرح بدل دیا جائے کہ انسان کا قوی پہلو مضبوط اور ضعیف پہلو نابود ہوجائے تو انسان کی قسمت بہتر ہو سکتی ہے ، انسان کی پیشرفت کا آخری مقصد ایسے معاشرے کی ایجاد ہے جو تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کریں ۔

مارکسیزم مذہب کے پیروی کرنے والے ( مارکس ، فروم ) : جن کا مقصدایسے اجتماعی شوسیالیزم کا وجود میں لانا تھا جس میں معاشرے کے تمام افراد ، ایجادات اور محصولات میں شریک

____________________

(۱) Evolution

۲۶۵

ہوں، جب کہ انسان کی مشکلوں کے لئے راہ حل اور آخری ہدف اس کی ترقی ہے، معاشرے کے افراد اس وقت اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوشنود پائیں گے جب سب کے سب اجتماعی طور پر اہداف کو پانے کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔

فعالیت اور کردار کو محور قرار دینے والے افراد مثلا ا سکینر کا کہنا ہے: انسان کی ترقی کا آخری ہدف ، نوع بشر کی بقاء ہے اور جو چیز بھی اس ہدف میں مددگار ہوتی ہے وہ مطلوب و بہتر ہے ۔ اس بقا کے لئے ماحول بنانا ، بنیادی اصول میں سے ہے ، اوروہ ماحول جو تقاضے کے تحت بنائے جاتے ہیں وہ معاشرے کو مضبوط بنا سکتے ہیں نیز اس میں بقاکا احتمال زیادہ رہتا ہے (جیسے زندگی کی بہتری ، صلح ، معاشرہ پر کنٹرول وغیرہ )

نظریہ تجربیات کے حامی ( ہابز) کا کہنا ہے : انسان کے رفتار و کردار کو کنٹرول اور پیشن گوئی کے لئے تجربیات سے استفادہ کرنا اس کی ترقی کی راہ میں بہترین معاون ہے ۔

سود خوری کرنے والے ( بنٹام ، میل ) کا کہنا ہے : معاشرے کوچاہیئے کہ افراد کے اعمال و رفتار کو کنٹرول کرے اس طرح کہ سب سے زیادہ فائدہ عوام کی کثیر تعداد کو ملے ۔

انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے ( مازلو، روجر ) :مازلو کے مطابق ہر شخص میں ایک فطری خواہش ہے جو اس کو کامیابی و کامرانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے لیکن یہ اندرونی قوت اتنی نازک و لطیف ہے جو متعارض ماحول کے دباؤسے بڑی سادگی سے متروک یا اس سے پہلو تہی کرلیتی ہے ۔ اسی بنا پر انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کلید، معاشرے کو پہچاننے اور پوشیدہ قوتوں کی ہلکی جھلک، انسان کی تشویق میں مضمر ہے ۔

۲۶۶

روجر کا کہنا ہے :جملہ افراد دوسروں کی بے قید و شرط تائید کے محتاج ہیں تاکہ خود کو ایک فرد کے عنوان سے قبول کریں اور اس کے بعد اپنی انتہائی صلاحیت کے مطابق ترقی و پیش رفت کریں ، اسی لئے تائید کی میزان ِ افزائش انسان کی وضعیت کے بہتر بنانے کی کلید ہے اور ہر انسان کی اپنی شخصیت سازی ہی اس کی ترقی کا ہدف ہے ۔

انسان گرائی کا عقیدہ رکھنے والے ( می، فرینکل )کے مطابق :

می:کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے انسان کو جاننا چاہیئے کہ جب تک وہ صاحب ارادہ ہے اپنے اعمال کے لئے مواقع کی شناخت کرناچاہیئے اوراپنے حسِ ارادہ کو حاصل کرکے اپنی وضعیت بہتر بنانی چاہیئے ۔

فرینکل کہتا ہے کہ : ہروہ انسان جو کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی کے واسطے زندگی گذارنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیئے کہ وہ اس کی حیات کو اہمیت دے ۔ یہ معنی اور نظریہ ہر ارادہ کرنے والے کو ایک مبنیٰ فراہم کراتا ہے اور انسان کو مایوسی اور تنہائی سے نجات دلاتا ہے ۔

خدا کا یقین رکھنے والے( ببر ، ٹلیچ ، فورنیر) :کا کہنا ہے کہ ہمارا خدا اور اس کے بندے سے دوگانہ رابطہ ہمارے آزادانہ افعال کے لئے ہدایت کا سر چشمہ ہے اور انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہے ۔

۲۶۷

دسویں فصل :

دنیا وآخرت کا رابطہ

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :

۱۔ قرآن مجید میں کلمہ دنیا وآخرت کے استعمالات میں سے تیں موارد بیان کریں؟

۲۔دنیا وآخرت کے باری میں مختلف نظریات کی تجزیہ وتحلیل کریں؟

۳۔ رابطہ دنیا وآخرت کے مہم نکات کو ذکر کریں؟

۴۔ آخرت میں دنیاوی حالت سے مربوط افراد کے چار دستوں کانام ذکر کریں؟

۲۶۸

گذشتہ فصلوں میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان مادی اور حیوانی حصہ میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دنیا اس کی دنیاوی زندگی میں منحصر ہے.انسان ایک دائمی مخلوق ہے جو اپنے اختیاری تلاش سے اپنی دائمی سعادت یا بد بختی کے اسباب فراہم کرتی ہے اوروہ سعادت وبد بختی محدود دنیا میں سمانے کی ظرفیت نہیں رکھتی ہے. دنیا ایک مزرعہ کی طرح ہے جس میں انسان جو کچھ بو تا ہے عالم آخرت میں وہی حاصل کرتاہے اس فصل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دو عالم کا رابطہ اور دنیا میں انسان کی جستجو کا کردار ، آخرت میں اس کی سعادت وبد بختی کی نسبت کو واضح کریں ،ہم قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں اس رابطہ کے غلط مفہوم ومصادیق کومشخص اورجدا کرتے ہوئے اس کی صحیح وواضح تصویر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

قرآن مجید میں کلمہ ٔدنیا کے مختلف استعمالات

چونکہ قرآن مجید میں لفظ دنیا وآخرت کا مختلف ومتعدد استعمال ہوا ہے.لہٰذا ہم دنیا وآخرت کے رابطے کو بیان کرنے سے پہلے ان لفظوںکے مراد کو واضح کرنا چاہتے ہیں.قرآن میں دنیا وآخرت سے مراد کبھی انسان کی زندگی کا ظرف ہے جیسے( فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۱) ان لوگوں (مرتد افراد)کا انجام دیا ہوا سب کچھ دنیا و آخرت میں اکارت ہے ۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۱۷۔

۲۶۹

ان دو لفظوںکے دوسرے استعمال میں دنیا وآخرت کی نعمتوں کا ارادہ ہواہے.جیسے( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱) مگر تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔

ان دولفظوں کا تیسرا استعمال کہ جس سے مراد دنیاوآخرت میں انسان کا طریقۂ زندگی ہے، اور جو چیز اس بحث میں ملحوظ ہے وہ ان دو لفظوں کا دوسرا اور تیسرا استعمال ہے یعنی اس بحث میں ہم یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں کہ طریقۂ رفتار وکردارنیز اس دنیا میں زندگی گذارنے کی کیفیت کاآخرت کی زندگی اور کیفیت سے کیا رابطہ ہے۔؟

اس سلسلہ میں تجزیہ وتحلیل کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعد کے عالم پر صرف اعتقاد رکھنا ہمارے اس دنیا میں اختیاری کردارورفتار پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اسی وقت فائدہ مند ہے جب دنیا میں انسان کی رفتار وکردار اور اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی زندگی کی کیفیت کے درمیان ایک مخصوص رابطہ کے معتقد ہوں .مثال کے طور پر اگر کوئی معتقد ہو کہ انسان کی زندگی کا ایک مرحلہ دنیا میں ہے جو موت کے آجانے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور آخرت میں زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے جو اس کی دنیاوی زندگی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے تو صرف اس جدید حیات کا عقیدہ اس کے رفتار وکردار پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ان مراحل کے درمیان کوئی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کس طرح کا رابطہ ہے؟

دنیا و آخرت کے روابط کے بارے میں پائے جانے والے نظریات کا تجزیہ

ان لوگوں کے نظریہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو آخرت کی زندگی کو مادی زندگی کا دوسرا حصہ سمجھتے ہیں اسی لئے وہ اپنے مرنے والوں کے قبروں میں مادی امکانات مثال کے طور پر کھانا

____________________

(۱)سورہ اعلی ۱۶ و ۱۷ ۔

۲۷۰

اور دوسرے اسباب زینت رکھنے کے قائل ہیں،تاریخ انسانیت میں دنیا وآخرت کے درمیان تین طرح کے رابطے انسانوں کی طرف سے بیان ہوئے ہیں.

پہلا نظریہ یہ ہے کہ انسا ن اور دنیا وآخرت کے درمیان ایک مثبت اور مستقیم رابطہ ہے جو لوگ دنیا میں اچھی زندگی سے آراستہ ہیںوہ آخرت میں بھی اچھی زندگی سے ہم کنار ہوں گے ۔قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتاہے :

( وَ دَخَلَ جَنَّتَهُ وَ هُوَ ظَالِم لِّنَفسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هٰذِهِ أَبَداً٭وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّدِدتُّ لَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیراً مِنهَا مُنقَلَباً )

وہ کہ جس نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا تھا جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تو اس کا گمان بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ باغ اجڑ جائے گا اور میں تو یہ بھی خیال نہیں کرتا تھاکہ قیامت برپاہوگی اور جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاؤں گا تو یقینا اس سے کہیں اچھی جگہ پاؤں گا ۔(۱)

سورہ فصلت کی ۵۰ویں آیہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں :

( وَ لَئِن أَذَقنَاهُ رَحمَةً مِنَّا مِن بَعدِ ضَرَّائَ مَسَّتهُ لَیَقُولَنَّ هٰذَا لِی وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّجِعتُ ِلَیٰ رَبِّی ِنَّ لِی عِندَهُ لَلحُسنَیٰ )

اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہونچ جانے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو یقینی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ہی ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا بھی جاؤں تو بھی میرے لئییقینا اس کے یہاں بھلائی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ کہف ۳۵و۳۶۔

۲۷۱

بعض لوگوں نے بھی اس آیہ شریفہ( و َمَن کَانَ فِی هٰذِهِ أَعمَیٰ فَهُوَ فِی الآخِرَةِ أَعمَیٰ وَ أَضَلُّ سَبِیلاً ) ''اور جو شخص اس دنیامیں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ راست سے بھٹکا ہوا ہوگا''(۱) کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ: قرآن نے بھی اس مستقیم ومثبت رابطہ کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے تلاش نہیںکرتا ہے اور مادی نعمتوں کو حاصل نہیں کرپاتا ہے وہ آخرت میں بھی آخرت کی نعمتوںسے محروم رہے گا.

بعض لوگوں نے اس رابطے کے برعکس نظریہ ذکر کیا ہے ان لوگوںکاکہنا ہے کہ ہر قسم کی اس دنیا میں لطف اندوزی اور عیش پرستی، آخرت میں غم واندوہ کا باعث ہے اور اس دنیا میں ہر طرح کی محرومیت،آخرت میں آسودگی اور خوشبختی کاپیش خیمہ ہے،یہ لوگ شاید یہ خیال کرتے ہیںکہ ہم دو زندگی اور ایک روزی و نعمت کے مالک ہیں اور اگر اس دنیا میں اس سے بہرہ مند ہوئے تو آخرت میں محروم ہوں گے اور اگریہاں محروم رہے تو اس دنیا میں حاصل کرلیں گے۔

یہ نظریہ بعض معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کی طرف سے مورد تائید ہے اور وہ اس آیہ سے استدلال کرتے ہیں:

( أَذهَبتُم طَیِّبَاتِکُم فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنیَا وَ استَمتَعتُم بِهَا فَالیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ ) (۲)

تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے اڑا چکے اور اس میں خوب چین کر چکے تو آج (قیامت کے روز) تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا ۔

دو نوں مذکورہ نظریہ قرآن سے سازگار نہیں ہے اسی لئے قرآن مجید نے سینکڑوں آیات میں اس مسئلہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

____________________

(۱)سورہ اسرائ۷۲۔

(۲)سورہ احقاق ۲۰۔

۲۷۲

پہلے نظریہ کے غلط اور باطل ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو یاد کیا ہے جو دنیا میں فراوانی نعمت سے ہمکنار تھے لیکن کافر ہونے کی وجہ سے اہل جہنم اور عذاب الہی سے دوچار ہیں. جیسے ولید بن مغیرہ ،ثروت مند اور عرب کا چالاک نیز پیغمبر اکرم کے سب سے بڑے دشمنون میں سے تھا اوریہ آیہ اس کے لئے نازل ہوئی ہے.

( ذَرنِی وَ مَن خَلَقتُ وَحِیداً٭وَ جَعَلتُ لَهُ مَالاً مَمدُوداً٭وَ بَنِینَ شُهُوداً٭وَ مَهَّدتُّ لَهُ تَمهِیداً٭ثُمَّ یَطمَعُ أَن أَزِیدَ ٭ کَلاّ ِنَّهُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیداً٭ سَأُرهِقُهُ صَعُوداً ) (۱)

مجھے اس شخص کے ساتھ چھوڑ دو کہ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور نظر کے سامنے رہنے والے بیٹے اور اسے ہر طرح کے سامان میں وسعت دی پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں یہ ہرگز نہ ہوگا یہ تو میری آیتوں کا دشمن تھا تو میں عنقریب اسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا ۔

قارون کی دولت اور اس کی بے انتہا ثروت ، دنیاوی سزا میں گرفتارہونا اور اس کی آخرت کی بد بختی بھی ایک دوسرا واضح نمونہ ہے جو سورہ قصص کی ۷۶ویں آیہ اور سورہ عنکبوت کی ۳۹ویں آیہ میں مذکور ہے.دوسری طرف قرآن مجید صالح لوگوں کے بارے گفتگو کر تا ہے جو دنیا میں وقار وعزت اور نعمتوں سے محروم تھے لیکن عالم آخرت میں ،جنت میں ہیںجیسیصدر اسلام کے مسلمین جن کی توصیف میں فرماتاہے :

( لِلفُقَرَائِ المُهَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخرِجُوا مِن دِیَارِهِم وَ أَموَالِهِم یَبتَغُونَ فَضلاً مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضوَاناً وَ یَنصُرُونَ اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ أُولٰئِکَ هُمُ )

____________________

(۱)سورہ مدثر ۱۱تا۱۷۔

۲۷۳

( الصَّادِقُونَ٭...فَأُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۱)

ان مفلس مہاجروں کا حصہ ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے خدا کے فضل و خوشنودی کے طلبگار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایماندار ہیں ...تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ آخرت میں شقاوت وسعادت کا معیار ایمان اور عمل صالح نیز کفر اور غیر شائستہ اعمال ہیں، دنیاوی شان و شوکت اور اموال سے مزین ہونا اور نہ ہونانہیں ہے۔

( وَ مَن أَعرَضَ عَن ذِکرِی فَِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَ نَحشُرُهُ یَومَ القِیَامَةِ أعمَیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی أَعمَیٰ وَ قَد کُنتُ بَصِیراً ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتکَ آیاتُنَا فَنَسِیتَهَا وَ کَذٰلِکَ الیَومَ تُنسَیٰ ) (۲)

جو بھی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کے لئے سخت و ناگوار زندگی کا سامنا ہے اور اس کو ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ، تب وہ کہے گا الٰہی میں تو آنکھ والا تھا تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا خدا فرمائے گاجس طرح سے ہماری آیتیں تمہارے پاس پہونچیں تو تم نے انھیں بھلادیااور اسی طرح آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے ۔

یہ آیہ دلالت کرتی ہے کہ نامطلوب دنیاوی زندگی اگر کفر وگناہ کے زیر اثر ہو تو ہوسکتا ہے کہ آخرت کی بد بختی کے ہمراہ ہو. لیکن بری زندگی خود معلول ہے علت نہیں ہے جو گناہ و کفراور مطلوبہ نتائج (ایک دنیاوی امر دوسرا اخروی )کاحامل ہے،دوسرے نظریہ کے بطلان پر بھی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں جیسے:

( قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّٰهِ الَّتِی أَخرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ قُل هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الحَیَاةِ الدُّنیَا خَالِصَةً یَومَ القِیامَةِ )

____________________

(۱)سورہ حشر ۸و۹۔ (۲) طہ۱۲۴تا۱۲۶۔

۲۷۴

(اے پیامبر کہدو) کہ جو زینت اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطہ پیدا کی ہیں کس نے حرام قرار دیں تم خود کہدوکہ سب پاکیزہ چیزیں قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگی میں ایمان لائے ۔(۱)

حضرت سلیمان جن کو قرآن مجید نے صالح اور خدا کے مقرب بندوں میں شمار کیا ہے اورجو دنیاوی عظیم امکانات کے حامل تھے اس کے باوجود ان امکانات نے ان کی اخروی سعادت کو کوئی نقصان نہیں پہونچایا ہے۔

آیہ( أَذهَبتُم طَیِّبَاتکُم ) بھی ان کافروں سے مربوط ہے جنہوں نے دنیا وی عیش و آرام کو کفر اور انکار خدا نیز سرکشی اور عصیان کے بدلے میں خریدا ہے جیسا کہ ابتداء آیہ میں وارد ہوا ہے:( وَقِیلَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا... ) جن آیات میں ایمان اورعمل صالح اوراخروی سعادت کے درمیان نیزکفر وگناہ اوراخروی بد بختی کے درمیان رابطہ اتنا زیادہ ہے کہ جس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے اور یہ مطلب مسلم بھی ہے بلکہ اسلام وقرآن کی ضروریات میں سے ہے۔

رابطۂ دنیا وآخرت کی حقیقت

ایمان اورعمل صالح کا اخروی سعادت سے رابطہ اور کفر وگناہ کا اخروی شقاوت سے لگاؤایک طرح سے صرف اعتباری رابطہ نہیں ہے جسے دوسرے اعتبارات کے ذریعہ تبدیل کیا جاسکتا ہو اور ان کے درمیان کوئی تکوینی و حقیقی رابطہ نہ ہو اور ان آیات میں وضعی واعتباری روابط پر دلالت کرنے والی تعبیروں سے مراد، رابطہ کا وضعی واعتباری ہونا نہیں ہے بلکہ یہ تعبیریں انسانوں کی تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے استعمال ہوئی ہیں جیسے تجارت(۲) ، خرید وفروش(۳) سزا(۴) جزا(۵) اور اس کے مثل ، بہت سی آیات کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ انسان نے جو کچھ

____________________

(۱)سورہ اعراف ۳۲۔

(۲) (یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَل أَدُلُّکُم عَلَیٰ تِجَارَةٍ تُنجِیکُم مِّن عَذَابٍ أَلِیمٍ )(صف ۱۰ )

( اے صاحبان ایمان! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتادوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دے ) (۳)(إنَّ اللّهَ اشتَرَیٰ مِنَ المُؤمِنِینَ أَنفُسَهُم وَ أَموَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ )(توبہ ۱۱۱) (اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لئے ہیں کہ ان کے لئے بہشت ہے )

(۴)(وَ ذٰلِکَ جَزَائُ مَن تَزَکَّیٰ )(طہ۷۶)(اور جس نے اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اس کا یہی (جنت)صلہ ہے )

(۵)(فَنِعمَ أَجرُ العَامِلِینَ )(زمر۷۴) (جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی ان کے لئے کیاخوب مزدوری ہے )

۲۷۵

بھی انجام دیا ہے وہ دیکھے گا اور اس کی جزا وہی عمل ہے.

اچھے لوگوں کی جزا کاان کے اچھے کاموںسے رابطہ بھی صرف فضل ورحمت کی بنا پر نہیں ہے کہ جس میں ان کے نیک عمل کی شائستگی اور استحقاق ثواب کا لحاظ نہ کیا گیا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو عدل وانصاف ، اپنے اعمال کے مشاہدہ اور یہ کہ عمل کے مطابق ہی ہر انسان کی جزا ہے جیسی آیات سے قطعاً سازگار نہیں ہے ۔

مذکورہ رابطہ کو ایک انرجی کا مادہ میں تبدیل ہونے کی طرح سمجھنا صحیح نہیں ہے اور موجودہ انرجی اور آخرت کی نعمتوںکے درمیان مناسبت کا نہ ہونااور ایک انرجی کا اچھے اور برے فعل میں استعمال کا امکان نیز وہ بنیادی کردار جو آیات میں عمل ونیت کے اچھے اور برے ہونے سے دیاگیا ہے اس نظریہ کے باطل ہونے کی دلیل ہے.

گذشتہ مطالب کی روشنی میں ایمان وعمل صالح کا سعادت اور کفر وگناہ کا اخروی بد بختی سے ایک حقیقی رابطہ ہے اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمالملکوتی شکل میں ظاہر ہوںگے اور وہی ملکوتی وجود، آخرت کی جزا اور سزا نیز عین عمل قرار پائے گا۔

منجملہ وہ آیات جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

( وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأنفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّٰهِ ) (۱)

اور جو کچھ بھلائی اپنے لئے پہلے سے بھیج دوگے اس کو موجود پاؤ گے۔

( یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُّحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِنٍ

) ____________________

(۱)سورہ بقرہ۱۱۰ ۔

۲۷۶

سُوء تَوَدُّ لَو أَنَّ بَینَهَا وَ بَینَهُ أَمَداً بَعِیداً) (۱)

اس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز ہوجاتا

( فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَهُ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ )

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے اسے بھی دیکھ لے گا ۔(۲)

( إِنَّمَا تُجزَونَ مَا کُنتُم تَعمَلُونَ ) (۳)

بس تم کو انھیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے ۔

( إِنَّ الَّذِینَ یَأکُلُونَ أَموَالَ الیَتَامَیٰ ظُلماً ِنَّمَا یَأکُلُونَ فِی بُطُونِهِم نَاراً )

بے شک جو لوگ یتیم کے اموال کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے شکم میں آگ کھارہے ہیں۔(۴)

دنیا اور آخرت کے رابطہ میں دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنا نتیجۂ اعمال دیکھیںگے اور کوئی کسی کے نتائج اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی کسی کے برے اعمال کی سزا قبول کر سکے گا۔

( أَلا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ أُخرَیٰ وَ أَن لَّیسَ لِلِإنسَانِ ِلا مَا سَعَیٰ )

کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔(۵)

دوسرا نکتہ یہ ہے کے آخرت میں لوگ اپنی دنیاوی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ہونگے

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۳۰۔

(۲)سورہ زلزال ۷،۸۔

(۳)طور ۱۶ ۔

(۴)سورہ نساء ۱۰ ۔

(۵)سورہ نجم ۳۸،۳۹۔

۲۷۷

الف)وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں۔

( وآتَینَاهُ أَجرَهُ فِی الدُّنیَا وَ ِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ )

اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں بھی اچھا بدلہ عطا کیا اور وہ تو آخرت میں بھی یقینی نیکو کاروںمیں سے ہیں۔(۱)

ب)وہ لوگ جودنیا وآخرت میں محروم ہیں۔

( خَسِرَ الدُّنیَا وَ الآخِرَةَ ذٰلِکَ هُوَ الخُسرَانُ المُبِینُ )

اس نے دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھایا صریحی گھاٹا۔(۲)

ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میں بہرہ مند ہیں.

د) وہ لوگ جو آخرت میں محروم اور دنیا میں بہرہ مندہیں.

آخری دو گروہ کے نمونے بحث کے دوران گذرچکے ہیں ۔ دنیا وآخرت کے رابطے (ایمان وعمل صالح ہمراہ سعادت اور کفر وگناہ ہمراہ شقاوت )میں آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کاایمان اورعمل صالح اس کے گذشتہ آثار کفر کو ختم کردیتا ہے اور عمر کے آخری حصہ میں کفر اختیار کرناگذشتہ ایمان وعمل صالح کو برباد کردیتا ہے۔( کہ جس کو حبط عمل سے تعبیر کیا گیا ہے )

( وَ مَن یُؤمِن بِاللّٰهِ وَ یَعمَل صَالِحاً یُکَفِّر عَنهُ سَیِّئَاتِهِ ) ۔(۳)

اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے وہ اپنی برائیوںکو محو کردیتا ہے

( وَ مَن یَرتَدِد مِنکُم عَن دِینِهِ فَیَمُت وَ هُوَ کَافِر فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۴)

____________________

(۱)سورہ عنکبوت ۲۷۔

(۲)سورہ حج ۱۱۔

(۳)سورہ تغابن ۹۔

(۴)سورہ بقرہ ۲۱۷۔

۲۷۸

اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرگیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے گیا ،

اس نے اپنے دنیا و آخرت کے تمام اعمال برباد کردیئے ۔

دوسری طرف اگر چہ اچھا یابرا کام دوسرے اچھے یابرے فعل کے اثر کو ختم نہیں کرتاہے .لیکن بعض اچھے افعال ،بعض برے افعال کے اثر کو ختم کردیتے ہیں اور بعض برے افعال بعض اچھے افعال کے آثار کو ختم کردیتے ہیں مثال کے طور پر احسان جتانا، نقصان پہونچانا، مالی انفاق(صدقات) کے اثر کو ختم کردیتا ہے.

( لا تُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنِّ وَ الأذَیٰ ) (۱)

اپنی خیرات کو احسان جتانے اور ایذا دینے کی وجہ سے اکارت نہ کرو۔

اور صبح وشام اور کچھ رات گئے نماز قائم کرنا بعض برے افعال کے آثار کو ختم کردیتا ہے قرآن مجید فرماتاہے:

( وَ أَقِمِ الصَّلَٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ اللَّیلِ إنَّ الحَسَنَاتِ یُذهِبنَ السَّیِّئَاتِ )

دن کے دونوں طرف اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کروکیونکہ نیکیاں بیشک گناہوں کو دور کریتی ہیں۔(۲)

شفاعت بھی ایک علت وسبب ہے جو انسان کے حقیقی کمال وسعادت کے حصول میں موثر ہے.(۳)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۶۴۔

(۲)ھود۱۱۴۔

(۳) قرآن مجید کی آیات میں ایمان اور عمل صالح ، ایمان اور تقویٰ، ہجرت اور اذیتوں کا برداشت کرنا، جہادنیز کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا ، پوشیدہ طور پر صدقہ دینا ، احسان کرنا ، توبۂ نصوح اور نماز کے لئے دن کے ابتدا اور آخر میں نیزرات گئے قیام کرنا منجملہ ان امور میں سے ہیں جن کو بعض گناہوں کے آثار کو محو کرنے کی علت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو: محمد ۲؛مائدہ ۱۲؛ عنکبوت ۷؛ مائدہ ۶۵؛ آل عمران ۱۹۵؛ نساء ۳۱؛ بقرہ۲۷۱ ؛انفال ۲۹؛ زمر۳۵؛ تحریم ۸؛ ھود ۱۴۴۔اچھے اور برے اعمال کا ایک دوسرے میں اثرانداز ہونے کی مقدار اور اقسام کی تعیین کو وحی اور ائمہ معصومین کی گفتگو کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیئے اور اس سلسلہ میں کوئی عام قاعدہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

۲۷۹

اچھے اور برے اعمال ،حبط و تکفیر ہونے کے علاوہ اس دنیا میں انسان کی توفیقات اور سلب توفیقات ، خوشی اور ناخوشی میں موثر ہیں ، مثال کے طور پر دوسروں پر احسان کرنا خصوصاً والدین اور عزیزو اقربا پر احسان کرنا آفتوں اور بلاؤں کے دفع اور طول عمر کا سبب ہوتا ہے اور بزرگوں کی بے احترامی کرنا توفیقات کے سلب ہونے کا موجب ہوتا ہے ۔ لیکن ان آثار کا مرتب ہونا اعمال کے پوری طرح سے جزا و سزا کے دریافت ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حقیقی جزا و سزا کا مقام جہان اخروی ہے ۔

(۴) شفاعت کے کردار اور اس کے شرائط کے حامل ہونے کی آگاہی اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات اور ان کے جوابات سے مطلع ہونے کے لئے ملحقات کی طرف مراجعہ کریں ۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307