انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145884 / ڈاؤنلوڈ: 4858
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۸۔تعمیر قبور

وہابیوں کا نظریہ اور ان کے فتاوٰی کے نمونے

قبور کی تعمیر کے شریعت میں جائز ہونے پر بہترین دلیل بیت المقدس کے اطراف میں انبیائے الہی کی قبور کا موجود ہونا ہے اور مسلمانوں کے تمام فرقے بھی ہر زمانے میں اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ لیکن وہابی قبور پر عمارت ، گنبد، ان کے تعمیر اور چونا کرنے کو شرک وکفر اور ان کے ویران کرنے کو واجب سمھتے ہیں ۔

۱۔ صنعانی کہتا ہے :

مقبرہ بت کے مانندہے اس لئے کہ جو کام زمانہ جاہلیت میں لوگ بتوں کے لئے انجام دیتے تھے وہی کام (قبوریون یعنی قبروں کے پجاری) اولیائے خدا کی قبروں اور مقبروں کے لئے انجام دیتے ہیں( ۱ )

۲۔ ابن تیمیہ کاشاگرد ابن قیم کہتا ہے :

قبور کے اوپر بنائی گئی عمارات کا نابود کرنا واجب ہے جو بتوں اور طاغوتوں کے عنوان سے پرستش کی جاتی ہیں ۔ ان کو خراب کرنے کی طاقت رکھنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی تاخیر جائز نہیں ہے ۔ چونکہ یہ عمارات دوبتوں لات وعزی کی طرح ہیں۔ اور وہاں پر بد ترین شرک آلودہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔( ۲ )

۳۔ علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں یوں بیان ہواہے:

قبور کے اوپر عمارت بنانے کا ممنوع ہونا اجماعی ہے جس کی ممنوعیت پر صحیح احادیث دلالت کررہی ہیں ۔ اسی وجہ سے بہت سے علماء نے ان کے خراب اور ویران کرنے کا فتوی دیا ہے ۔ وہ اس فتوی میں (ابو

____________________

۱۔کشف الارتیاب :۲۸۶، بہ نقل از تطھیر الاعتقاد صنعانی

۲۔زاد المعاد ۳:س۵۰۶.

۱۲۱

الھیاج ) کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو اس نے حضرت علی سے نقل کی کہ علی بن ابیطالب

علیہ السلام نے اس سے فرمایا:الا ان ابعثک علی ما بعثنی علیه رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمسته ولا قربا مشرفا الا سویته

آگاہ رہو ! میں تمہیں ایسے کام پر مامور کررہا ہو جس پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے مامور کیا تھا کسی تصویر کو نہ چھوڑنا مگر یہ کہ اسے محو کردینا اورجو قبر بلند نظر آئے اسے زمین کے برابر کردینا۔( ۱ )

اس فتوی کا رد

ہم اس فتوی کے جواب میں کہتے ہیں۔

وہ اجماع جسے وہابی بیان کرتے ہیں مردود ہے بلکہ اس فتوی کے خلاف ایسے عمل کے جائز ہونے پر اجماع موجود ہے ۔ وہابی فرقہ کی پیدائش سے پہلے تمام مذاہب کے مسلمانوں کی ہر زمانہ میں یہی سیرت رہی ہے ۔

اس بارے میں صنعانی کا سیرت کا اعتراف کرنا ہمارے نظریہ کی تایید کررہا ہے ۔ا س نے اپنی کتاب (تطھیر الاعتقاد ) میں ایک سوال کی صورت میں اس بارے میں لکھا ہے ۔

اس سیرت نے شرق وغرب عالم کے تمام شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک کا کوئی ایسا نقطہ نہیں ہے کہ وہاں پہ قبر یا مقبرہ نہ ہو یہاں تک کہ مسلمانوں کی مساجد بھی قبروں سے خالی نہیں ہیں۔ او رکوئی عقل مندیہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ عمل حرام ہے ۔ علمائے اسلام بھی اس بارے میں ساکت ہیں۔

اس کے بعد صنعانی کہتا ہے ۔ اگر انصاف سے کام لیں او رسلف کی پیروی سے کنارہ کش ہوجائیں تو

____________________

۱۔کشف الارتیاب :۲۸۸.

۱۲۲

جان لیں گے کہ حق وہی ہے جو دلیل کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے نہ کہ ہر نسل کا اتفاق واجماع ۔ لہذا یہ امور جو عوام انجام دیتے ہیں ۔ یہ اپنے آباء واجداد کی تقلید او ربدون دلیل ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنے آپ کو اہل علم کہلواتے ہیں یا منصب قضاوت ، فتوی اور تدریس پر فائز ہیں۔ یا حکومت میں امیر ورئیس ہیں لیکن عمل عوام کی طرح انجام دیتے ہیں۔

البتہ کسی مجہول چیز کے رواج میں علماء یا عالم کا سکوت کرنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے ۔

صنعانی نے اپنے اس کلام میں اس سیرت کے عوام وعلماء کے تمام طبقوں میں پائے جانے کا اعتراف کیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف یہ کہہ رہا کہ حق وہی ہے جو دلیل سے ثابت ہوچکا ہے ۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ کیا ہر نسل میں امت کے اتفاق سے بڑھ کر کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟

اس حدیث پر اعتراض

قابل ذکر ہے کہ جس حدیث سے وہابی استناد کرتے ہیں چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے:

۱۔ کسی حدیث کا وہابیوں کے نزدیک صحیح ہونا یا اس کی مخالفت میں کسی حدیث کا نہ پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حدیث دوسروں کے نزدیک بھی صحیح ہو لہذااس موضوع پر اجماع کے پائے جانے کادعوٰی کرناممکن نہیں ہے

۲۔علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں تناقض پایا جاتاہے اس لئے کہ ایک بار یہ کہا جارہا کہ بہت سے علماء نے تخریب قبور کے وجوب کافتوٰی دیاہے تودوسری بار یہ کہاجارہا:حرمت پر دلالت کرنے والی احادیث کے صحیح ہونے پر اجماع موجود ہے

۱۲۳

اگرواقعا اجماع موجود ہے تو پھر تمام علماء نے قبورکی تخریب کے وجوب کافتوٰی کیوں نہ دیا؟

۳۔اس حدیث میں سنداور دلالت دونوں اعتبار سے اشکال موجود ہے.

اس حدیث کی سند میں ایسے افراد موجود ہیں جنہیں علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں سے ایک وکیع بن جرّاح ہے.

عبداللہ بن احمد بن حنبل شیبانی اس کے متعلق کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے سناوہ کہا کرتے تھے: ابن مہدی کی تصحیف( ۱ ) وکیع کی نسبت زیادہ اور وکیع کے اشتباہات ابن مہدی سے زیادہ ہیں.

وہی دوسرے مقام پر کہتے ہیں : ابن مہدی نے پانچ سو احادیث میں خطا کی ہے.( ۲ )

ابن المدینی کہتے ہیں : وکیع عربی زبان میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور اگر اپنے الفاظ میں بیان کرتا تو انسان کو تعجب میں ڈال دیتا.وہ ہمیشہ کہا کرتا: حدّثناالشعبی عن عائشہ( ۳ )

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابو سفیان ثوری ہے

ذہبی اس کے متعلق کہتے ہیں: سفیان ثوری دھوکے اور فریب کاری سے ضعیف راویوں کو ثقہ اور قابل اعتماد بیان کیا کرتا.( ۴ )

یحیٰی بن معین اس کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابو اسحاق کی احادیث میں سفیان سے بڑھ کر کوئی دانا تر نہیں لیکن وہ احادیث میں تدلیس (حدیث میں ایک طرح کا جھوٹ اور اس میں ملاوٹ کرنا ہے )کیا کرتا( ۵ )

اسی حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی حبیب بن ابو ثابت ہے .ابن حبّان حبیب کے

____________________

۱۔لکھنے یا پڑھنے میں کسی بھی قسم کی غلطی کو تصحیف کہاجاتا ہے.

۲۔تہذیب الکمال ۳۰: ۴۷۱.

۳۔میزان الاعتدال ۷:۱۲۷.

۴۔حوالہ سابق.

۵۔الجرح والتعدیل۴: ۲۲۵.

۱۲۴

متعلق کہتے ہیں: وہ حدیث میں تدلیس اور دھوکے سے کام لیا کرتا( ۱ )

ابن خزیمہ ا س کے بارے میں کہتے ہیں: حبیب بن ابو ثابت احادیث میں تدلیس کیا کرتا.( ۲ )

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابووائل بھی ہے جو دل میں بغض علی علیہ السلام رکھتا تھا ( ۳)جبکہ حدیث معتبر میں رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

یا علی لایحبّک الاّ مؤمن ولا یبغضک الاّ منافق

اے علی ! تجھ سے محبت وہی کرے گا جو مومن ہو گا اور تجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہو( ۴ )

دوسری جانب حدیث کے متن کی بھی تحقیق کی ضرورت ہے چونکہ اس کا راوی تنہا ابو الہیاج ہے لہذا یہ حدیث شاذ کہلائے گی.

جلال الدین سیوطی نے نسائی کی شرح میں لکھا ہے : کتب روایات میں ابوالہیاج سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے

اورپھر یہ حدیث ان کے مدّعا پر دلالت بھی نہیں کر رہی چونکہ ایک طرف قبر کے زمین کے برابر کرنے کی حکم دے رہی ہے تو دوسری جانب اس کے اوپر والے حصے کے ناہموار ہونے سے منع کر رہی ہے .اس لئے کہ شرف کا معنٰی بلندی ہے. اور لغت میں اونٹ کی کوہان کی بلندی کو کہا جاتا ہے.( ۵ )

____________________

۱۔ تہذیب التہذیب ۲: ۱۵۶.

۲۔حوالہ سابق.

۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۴: ۹۹.

۴۔مجمع الزوائد ۹: ۱۳۳.

۵۔القاموس ۳: ۱۶۲.

۱۲۵

اس بنا پر لفظ شرف ہر طرح کی بلندی کو شامل ہو گا جبکہ سوّیتہ کا معنٰی برابر کرنا اس بات پر قرینہ ہے کہ یہاں پر شرف سے مراد اونٹ کی کوہان یا مچھلی کی پشت پرموجود ابھار ہے.

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں تین احتمال موجود ہیں:

۱۔ قبروںکے اوپر موجود بلند عمارتوں کو ویران کیا جائے

۲۔ قبروں کو زمین کے برابر کیا جائے

۳۔ جس قبر کے اوپر اونٹ کی کوہان کے مانندابھار موجود ہو اسے برابر کیا جائے

پہلا احتمال مردود ہے اس لئے کہ صحابہ کرام کا عمل اور سیرت مسلمین اس کے خلاف ہے جس کے نمونوں کی طرف اشارہ کر چکے.

نیز دوسرا احتمال بھی باطل ہے چونکہ سنت قطعی قبر کے زمین سے ایک بالشت بلند ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔

تیسر ا احتمال یہ کہ قبر کے اوپر موجود ہر طرح کی ناہمواری اور کجی جواونٹ کی کوہان کی مانند ہو اسے برابر کیا جائے .بعض اہل سنت علماء جیسے عسقلانی اور نووی وغیرہ نے بھی اس روایت کی یہی شرح بیان کی ہے.

نووی کہتے ہیں: قبر کو زیادہ بلند نہیں ہونا چاہئے اور اوپر سے مسنّم( اونٹ کی کوہان کی طرح )نہ ہوبلکہ زمین سے ایک بالشت بلند اور اوپر سے ہموار ہو ۔( ۱ )

قسطلانی قبروں کے ہموار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ابو الہیاج کی حدیث

____________________

۱۔ المجموع ۵: ۲۹۵اور ۱:۲۲۹.

۱۲۶

سے مراد یہ نہیں ہے کہ قبر زمین کے برابر ہوبلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ قبر کو اوپر سے ہموار ہونا چاہئے( ۱ )

سیرت صحابہ کرام ومسلمین

بیت المقدس کے اطراف میں بہت سے انبیائے الہی کی قبور موجود ہیں جیسے قدس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ، الخلیل میں حضرت ابراہیم ،حضرت اسحا ق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف علیہم السلام کی قبور جن پر بلند عمارات پائی جاتی ہیں.اسلام سے پہلے ان پر پتھر موجود تھے اور جب اسلام نے اس علاقے کو فتح کیا تویہ قبور اسی صورت میں تھیں.( ۲ )

ابن تیمیہ اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:

شہر الخلیل کی فتح کے دوران صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر پر عمارت موجود تھی مگر یہ کہ اس کا دروازہ ۴۰۰ہجری تک بند رہا۔( ۳ )

بے شک جب حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کیا تو اس وقت بھی یہ عمارت موجود تھی لیکن اس کے ویران کرنے کا حکم نہیں دیا جبکہ ابن بلہید یہ دعوٰی کررہا کہ مقبروں کا بنانا پانچویں صدی کے بعد رائج ہوا۔

یہ دعوٰی یقینا درست نہیں ہے چونکہ بہت سے مقبروں کا تعلق پہلی ،دوسری یا تیسری صدی سے ہے( ۴ ) جن کے چندایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

____________________

۱۔ ارشادالساری ۲: ۴۶۸.

۲۔کشف الارتیاب :۳۰۶.

۳۔مجموع الفتاوٰی ابن تیمیہ ۲۷: ۱۴۱.

۴۔اخبار المدینة۱: ۸۱.

۱۲۷

۱۔ اس حجرہ شریفہ کی عمارت جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدفن ہیں۔

۲۔ حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر پر موجود مسجد کی عمارت۔

۳۔محمد بن زید بن علی علیہ السلام کے گھر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند ابراہیم کی قبر

۴۔ امیرالمؤمنین حضرت علیہ السلام کا روضہ مبارک جو ۳۷۲ ہجری میں تعمیر ہوا۔( ۱)

۵۔زبیر کا مقبرہ جو ۳۸۶ ہجری میں تعمیر کروایا گیا.( ۲ )

۶۔حضرت سعد بن معاذ کا مقبر ہ جو دوسری صدی ہجری میں بنا.( ۳ )

۷۔ ۲۵۶ ہجری میں امام بخاری کی قبر پر ضریح کا بنا کر رکھا جانا.( ۴ )

صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں مقبروں کی تعمیر نو

ہم اس موضوع کا آغاز اس سوال سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اگر واقعا مقبروں اور روضوںکابنانا حرام ہے تو پھر صحابہ کرام نے روضہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیوں نہ گرایا جس کی عمارت اب بھی موجودہے؟

اور پھر جس گھر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دفن کیا گیا تھا اس میں دیوار نہیں تھی اور سب سے پہلے جس نے دیوار بنوائی وہ حضرت عمر بن خطاب تھے ۔( ۵ )

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے اس گھر میں اپنے اور قبور کے درمیان دیوار

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱: ۲۵۱.

۲۔المنتظم ۱۴:۳۷۷.

۳۔ سیر اعلام النبلاء ۱۳: ۲۸۵.

۴۔ الطبقات الشافعیة الکبرٰی۲: ۲۳۴.

۵۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۲: ۵۴۱.

۱۲۸

بنوائی اور پھر وہیں پہ نماز بھی پڑھا کرتی تھیں۔

عبداللہ بن زبیر نے اپنے دور حکومت میں قبر مبارک پر عمارت بنوائی جو کچھ عرصہ بعد خراب ہو گئی اور پھر متوکل عباسی کے زمانے میں اس عمارت پر سنگ مرمر لگائی گئی۔

صحابہ کرام اور دیگر افراد کی قبور

۱۔ دوسر ی صد ی ہجری میں ہارون الرشید نے امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہما السلام کی قبر مبار ک پر گنبد بنوایا۔( ۱)

۲۔ ۲۳۰ ہجری میں نہشل بن حمید طوسی نے معروف شاعر ابو تمام حبیب بن اوس طائی کا مقرہ بنوایا( ۲ )

۳۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ۳۶ ہجری میں وفات پائی .خطیب بغد ادی لکھتے ہیں: ان کی قبر اب بھی ایوان کسرٰی کے قریب موجود ہے اس پر مقبرہ بنا ہوا ہے( ۳ )

۴۔ ابن بطوطہ ، طلحہ بن عبید اللہ ( جو اپنے زمانہ کے امام حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مار اگیا تھا ) کے مقبرہ کے متعلق کہتے ہیں:

اس کی قبر شہر کے اندر موجود ہے اور اس پر گنبد بنا ہوا ہے ۔( ۴ )

۵ ۔ ۲۰۴ ھ میں امام شافعی کی وفات ہوئی ،ذہبی نے لکھا ہے:ملک کامل نے شافعی کی قبر پر گنبد بنوایا (

۶۔ ذہبی کہتے ہیں: ۲۳۶ ھ میں متوکل عباسی نے یہ حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر اور اس کے

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱۶: ۲۵۱.

۲۔شذرارت الذہب ۲:۷۴.

۳۔ تاریخ بغداد ۱: ۱۶۳.

۴۔ سفر نامہ ابن بطوطہ ۱: ۲۰۸.۔

۵۔ دول الاسلام : ۳۴۴.

۱۲۹

اطراف میں موجود عمارتوں کو ویران کیا جائے ۔جب اس کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا تو مسلمان غمگین ہوئے اور اہل بغداد نے مساجد اور شہر کی دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے اور شعراء نے اپنے اشعار میں اس کی مذمت کی ...۔( ۱ )

البتہ طول تاریخ اور تاریخی وقائع میں اس کے بہت زیادہ نمونے واضح طور پر پائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی میں ان کی یہی سیرت رہی ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات تعمیر کرواتے اور یہ سیرت وہابیوں کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ لیکن اس کے باوجود اکرم البوشی جیسا شخص ذہبی کی کتاب سیر اعلام النبلائ) کے حاشیہ پر ان تاریخی حقائق کے ذیل میں لکھتاہے :

یہ سب مسلمان عوام کے خود ساختہ امور ہیں جو اس بارے میں کسی قسم کی آگاہی نہیں رکھتے اور یہ اعمال بدعت ہیں جن سے نہی کی گیٔ ہے۔

خدا وند متعال کا شکر ہے کہ اکرم البوشی نے یہ نہیں کہا : کہ یہ شیعوں کا کام ہے بلکہ کہا : (مسلمان عوام کا کام ہے ۔ ہاں ! گویا خود کو خواص میں سے سمجھتاہے اور باقی مسلمانوں کوعوام !

ابو زبیر کی حدیث سے استناد

وہابیوں نے اپنے مدعاکے اثبات کے لیٔے ابو زبیر کی روایت سے استناد کیا ہے ابوزبیر کہتاہے :

نهی رسول الله ان یجصص القبر وأن یقعد علیه وأن یبنی علیه

رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے قبروں کو چونا کرنے، ان کے پاس بیٹھنے یا ان پر مقبرہ تعمیر کرنے

سے نھی فرمائی ہے ۔

____________________

۱۔مآثر الانافة فی معالم الخلافة ،قلقشندی ۱: ۱۲۰.

۱۳۰

البتہ یہ حدیث چند واسطوں سے نقل ہوئی ہے ۔ مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ ، نسائی ، ابوداؤد اور احمدبن حنبل نے عبارت میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اسے نقل کیا ہے ۔( ۱ )

اس حدیث پر اعتراضات

اس حدیث میں بھی سند اور دلالت کے اعتبار سے اشکال موجود ہے ۔

۱۔اس حدیث کی سند میں ابن جریج ، ابوزبیر ، حفص بن غیاث اور محمد بن ربیعہ جیسے راوی موجود ہیں جن کے بارے میں اہل سنت علمائے رجال نے شک وتردید کا اظہار کای ہے ۔ انہی راویوں میں سے ایک ابن جریج ہے ۔ احمد بن حنبل اس کے بارے میں کہتے ہیں : اگر ابن جریج کہے کہ فلاں وفلاں نے یوں کہا ہے تو وہ منکر ومجھول احادیث کو نقل کررہاہے ابن حبان نے بھی اسے اہل تدلیس قرار دیا ہے ۔( ۲ )

اس کا دوسرا راوی ابوزبیر ہے جس کے بارے میں نعیم بن حماد کا کہنا ہے : میں نے ابن عیینہ سے سنا ہے کہ وہ ابوزبیر کو حدیث کے نقل کرنے میں ضعیف قرار دیا کرتے ۔

عبدالرحمان بن ابوحاتم نے اس کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو ابوحاتم نے کہا : ابو زبیر کی احادیث لکھی جائیں گی لیکن ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔( ۳ )

اس حدیث کا ایک اور راوی حفص بن غیاث ہے ۔ یعقوب بن شعبہ حفص کی نقل کردہ روایات کے بارے میں کہتے ہیں : اس کے بعض محفوظات کے بارے میں احتیاط سے کام لیاجائے۔

داؤد بن رشید نے اس کے بارے میں یوں اظہار نظر کیاہے وہ کہتے ہیں : حفص بہت زیادہ

____________________

۱۔صحیح مسلم ۲:۶۶؛سنن ترمذی ۳:۳۶۸؛سنن ابن ماجہ۱:۴۹۸؛سنن نسائی ۴:۸۸؛سنن ابی داؤد۳:۲۱۶؛ مسند احمد ۳:۲۹۵.

۲۔تہذیب الکمال ۱۸:۳۴۸؛ تہذیب التہذیب ۶: ۳۵۷.

۳۔تہذیب الکمال ۲۶:۴۰۷.

۱۳۱

اشتباہ کیا کرتا۔( ۱ )

وہابی کسطرح ان احادیث پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تکفیر اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں جن کی سند میں اس قدر فراوان اشکالات پائے جاتے ہیں ۔

۲۔ دلالت کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں مشکل پائی جاتی ہے ۔

اولا: یہ حدیث یہ کہہ رہی ہے : (رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے قبروں کوچونا کرنے ، ان کے پاس بیٹھنے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے نہی فرمائی ہے جب کہ نہی ہمیشہ حرمت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات کراہت پر دلالت بھی کرتی ہے جس کے نمونے بکثرت موجود ہیں اور یہی کثرت باعث بنتی ہے کہ اس حدیث میں نہی کا ظہور کراہت پر دلالت کرے ۔

اسی بناء پر اہل سنت علماء نے اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں فتوی دیا ہے۔ شافعی اس حدیث کے مطابق کہتے ہیں : مستحب یہ ہے کہ قبر زمین سے زیادہ بلند نہ ہو۔

نووی کہتے ہیں : صاحب قبر کی اپنی ملکیت میں قبر پر عمارت بنانامکروہ اور و قف شدہ زمین میں حرام ہے.( ۲ )

سندی نے نیشاپوری سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھاہے : یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ شرق وغرب تک اسلام کے پیشوا قبروں پر عبارات لکھا کرتے اور یہ و ہی چیز ہے جسے آنے والی نسلوں نے سلف سے لیا ہے( ۳ )

ثانیا : ایسی احادیث تعمیر قبور اور ان پر عمارت کے حکم کو بیان نہیں کررہی ہیں اسلئے کہ یہ کام شعائر اللہ اور

____________________

۱۔تاریخ بغداد ۸:۱۹۹.

۲۔شرح صحیح مسلم ۷: ۲۷.

۳۔حاشیہ نسائی ۴:۸۷.

۱۳۲

خدا کی نشانیوں میں سے ہے جن کی تعظیم ضروری ہے اور ان کا شعائر الہی ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ان قبروں میں مدفون یا تو انبیائے الہی ہیں یا اولیائے خدا ، یا یہ کہ ان قبور کی تعمیر اور ان پر عمارات کا بنانا مصلحت یا دین میں ان کی اہمیت کی بناء پر ہے ۔ مندرجہ ذیل شواہد ہمارے مدعی کوثابت کررہے ہیں :

۱۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک پتھر رکھ کر اسے مشخص کیا ۔( ۱ ) ہیثمی ابن ماجہ کے کلام کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند حسن اور معتبر ہے ۔

۲۔اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: دختر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ ، حضرت حمزہ کی قبر پر تشریف لاتیں تو اس پر نشانی رکھ کر جاتیں تاکہ اسے پہچان سکیں ۔

اسی طرح کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر او رعمر کی قبور پر چھوٹے چھوٹے پتھر موجود تھے۔( ۲ )

مقبروں کے آثار

واضح ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات بنانے میں فوائد و آثارپائے جاتے ہیں مثال کے طور پر :

۱۔ یہ کام شعائر الہی میں سے او ردشمنوںومنکروں کی ناک کو خاک پر ملنا ہے ۔

۲۔ان مقامات میں عبادات کا انجام دینا ان کی شرافت وعظمت کی وجہ سے رجحان رکھتاہے ۔ لہذا زائرین کو گرمی وسردی سے بچانے ، زیارت میں آسانی ، نماز ، تلاوت قرآن اور مجالس وعظ میں شرکت کرنے والوں کیلئے سائبان قرار دینا ایک نیک عمل ہے ۔

۳۔دین کے نمونوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھنا ۔

شاید مقبروں کا مہم ترین اثر یہی ہے کہ اس طرح دین کے بنیادی نمونوں کی حفاظت کی جاسکے اور اگرایسی

____________________

۱۔سنن ابن ماجہ ۱:۴۹۸.

۲۔المصنف ۳: ۵۷۴.

۱۳۳

تعظیم نہ ہو تویہ نمونے فراموشی کی نذر ہوجائیں گے ۔

درحقیقت وہابیوں کا اصلی ہدف مقبروں کی تعمیر کی مخالفت کرکے ایک دینی دستور پر عمل پیرا ہونا نہیں ہے بلکہ وہ دین کے ان نمونوں کی نابودی چاہتے ہیں جبکہ انسان تربیت میں نمونے کا محتاج ونیازمند ہے ۔

۱۳۴

۹۔قبور پر چراغ روشن کرنا

قبور پر چراغ روشن کرنا

وہابی عوام کو قبروں پر چراغ روشن کرنے سے منع کرتے ہیں اور اس بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

لعن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زائرات القبور والمتخذین علیهاالمساجد والسرج

رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں ، قبور کو مساجد قرار دینے والوں اوران پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے ۔( ۱ )

اس نظریہ کارد

وہابیوں کے اس نظریہ کی چند جھات سے تحقیق اور اسے رد کیا جاسکتاہے :

۱۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔

حاکم نیشاپوری نے (المستدرک علی الصحیحین ) میں اس روایت کو دو واسطوں کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیاہے جبکہ اس روایت کے دونوں سلسلوں میں ایک راوی ابوصالح باذام ہے جسے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیاہے ۔

ابوحاتم اس کے بارے میں کہتے ہیں : باذام کی روایت کو نقل تو کیاجائے گالیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

نسائی باذام کے بارے میں کہتے ہیں: ابو صالح باذام حدیث کے نقل کرنے میں قابل اعتماد نہیں ہے۲۔

____________________

۱۔ سنن نسائی ۴: ۹۴ ، المستدرک علی الصحیحین ۱: ۵۳۰، ح ۱۳۸۴.

۲۔الکامل فی الضعفاء ۲: ۷۱.

۱۳۵

۲۔ اس حدیث میں بیان شدہ لعنت ان افراد کو شامل ہے جو عام افراد کی قبور پر ایسے اعمال انجام دیتے ہیں نہ کہ انبیاء واولیائے الہی کی قبور پر جن کے احترام کا حکم دیاگیاہے ۔ لہذا اس بناء پر انبیاء واولیاء کی قبور کی زیارت اوران پر چراغ روشن کرنا نہ تنہا مذموم نہیں ہے بلکہ ایساعمل ان کی تعظیم اور رجحان شرعی بھی رکھتاہے

۳۔ لعنت کا تعلق اس صورت سے ہے کہ جب چراغ روشن کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو اورایک لغو کام شمار ہو لیکن اگر قرآن ودعااورنماز پڑھنے کیلئے یا وہاں پہ شب بیداری کرنے والوں کیلئے روشن کیاجائے تاکہ وہ اس کی روشنی سے بہرہ مند ہوسکیں توایسا عمل حرام تو دور کی بات مکروہ بھی نہیں ہوگااور نیکی وتقوی میں تعاون کا مصداق قرار پائے گا۔ جیسا کہ بعض علمائے اہل سنت نے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

عزیزی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی شرح میں کہتے ہیں؛ کہ لعنتِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تنہا ان افراد کو شامل ہوگی جو قبور پرچراغ روشن کریں جبکہ زندہ افراد اس کی روشنی سے فائدہ حاصل نہ کریں ۔ اور اگر لوگ اس سے بہرہ مند ہوں تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔( ۱ )

سندی نے سنن نسائی کے حاشیہ پر لکھا ہے : لعنت اس وقت ہوگی جب مال بغیر استفادہ کے ضائع ہوجائے ،اس معنی میں کہ اگر لوگ اس چراغ کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔( ۲ )

شیخ حنفی (جامع صغیر ) کے حاشیہ پر لکھتے ہیں : ولی خدا کی قبر پر چراغ روشن کرنا حرام ہے جب کوئی شخص اس سے استفادہ نہ کرے( ۳ )

____________________

۱۔شرح الجامع الصغیر ۳: ۱۹۸.

۲۔حاشیہ سننن نسائی ۴: ۹۵.

۳۔کشف الارتیاب ؛ ۳۳۸.

۱۳۶

قبروں پر چراغ روشن کرنے کے جواز کی دلیل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل ہے ، ترمذی لکھتے ہیں :

ابن عباس کہتے ہیں: پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رات کے وقت قبرستان میں داخل ہوئے اور ایک قبر پر چراغ روشن کیا ۔( ۱ )

۴۔ سیر ت مسلمین :

وہابیوں کے نظریہ کے باطل ہونے پر چوتھی دلیل سیرت مسلمین ہے جس پر وہ ابن تیمیہ کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بھی عمل پیرا رہے اور یہ سیرت وہابیوں کے نظریہ کے مخالف ہے ۔ علماء نے اس بارے میں بہت سے شواہد بیان کئے ہیں ۔

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : ولید کہتاہے : ابوایوب انصاری کی قبر پر شمعدان موجود تھے( ۲ )

ابن جوزی کہتے ہیں : ۶۸۳ ھ کے حوادث میں سے ایک یہ ہے کہ بصرہ کے لوگوں نے یہ دعوی کیاکہ انہوں نے زبیر بن عوام کی قبر تلاش کرلی ہے لہذا اس قبر کیلئے شمعدان اور چٹائیاں لے گئے ۔( ۳ )

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : امام موسی کاظم کی قبر ایک مشہور زیارتگاہ ہے ۔جس پر عظیم بارگاہ بنی ہوئی ہے اور یہاں پہ سونے اور چاندی کے شمعدان ، مختلف وسائل اور بے شمار فرش موجود ہیں ۔( ۴ )

____________________

۱۔جامع الصحیح ۳:۳۷۲

۲۔تاریخ بغداد ۱:۱۵۴.

۳۔المنتظم ۱۴:۳۸۷.

۴۔وفیات الاعیان ۵: ۳۱۰.

۱۳۷

۱۰۔ نذر

غیر خدا کیلئے نذر

اسلام کے فرعی احکام میں سے ایک نذر ہے ۔ انسان نذر کرتے وقت یہ ارادہ کرتاہے کہ اگر میری فلاں حاجت پوری ہوگئی تو خداکیلئے فلاں کام انجام دوں گا۔ یہ حکم مسلمانوں کے درمیان رائج رہا اور اب بھی ہے ۔

جبکہ وہابیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ غیر خدا کیلئے نذر کرنا حرام ہے چونکہ یہ نذر مشرکوں کی بتوں کیلئے نذر کرنے کے مانندہے اور معمولا غیر خدا کیلئے نذرکی وجہ سے یہ ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں غلو او رخاص قسم کا اعتقاد پایا جاتاہے ۔

قصیمی کہتاہے : غیر خدا کیلئے نذر کرنا شیعوں کے شعائر میں سے ہے چونکہ وہ علی اور ان کی اولاد کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔( ۱ )

ابن تیمیہ نے اس بارے میں یوں اظہار خیال کیاہے :

ہمارے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قبر اورا س کے مجاوروں کیلئے درہم ، روغن ، شمع اور حیوان کی نذر کرنا جائز نہیں ہے چونکہ ایسی نذریں گناہ ہیں او ر صحیح روایت میں بیان ہوا ہے :جوبھی خدا کی اطاعت کی نذر کرے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے اور جو بھی خدا کی معصیت کی نذر کرے تو اسے چاہیے کہ معصیت نہ کرے( ۲ )

وہ کہتاہے :

شرک میں مبتلا ہونے کے خوف سے مردہ شخص سے درخواست کرنے سے منع کیا گیاہے اگرچہ وہ نبی ہی

____________________

۱۔الصراع بین الاسلام والوثنیہ ۱: ۵۴.

۲۔رسالة زیارة القبور ۲۷ ؛ کشف الارتیاب : ۲۸۳.

۱۳۸

کیوں نہ ہو،پس قبور یا انکی عمارات کیلئے نذر کرنا حرام اورباطل ہے ۔ اس اس طرح کی نذر مشرکوں کی اس نذر کے مانند ہے جو وہ اپنے بتوں کیلئے کیا کرتے اور جوبھی یہ عقیدہ رکھے کہ قبور کیلئے نذر نفع یا ثواب رکھتی ہے تو وہ ناداں گمراہ ہے ۔( ۱ )

اس نظریے کا ردّ

ہم ان کے اس عقیدہ کاجواب چند جہات سے دے سکتے ہیں :

اول : یہ کہ نذر کرنے والے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اس صدقہ اور ہدیہ کا ثواب نبی خدا یا ولی خدا کو ایصال اور یوں خداوند متعال سے تقرب پیدا کرسکے ۔ پس کیسے ممکن ہے کہ اس کا مقصد نبی یا ولی ہو جبکہ وہ تو مردہ ہیں نہ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی پہن سکتے ہیں ؟

دوم: یہ نذر بالکل اس شخص کے عمل کی طرح ہے جو اپنے والدین کیلئے نذر کرے یا قسم کھائے یا اپنے آپ سے عہد کرے کہ وہ ان کیلئے صدقہ دے گا۔

روایت میں بیان ہوا ہے کہ میمونہ کہتی ہیں :پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں میرے باپ نے یہ منت مانی تھی کہ ایک خاص جگہ پر پچاس گوسفند ذبح کریں گے ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا وہاں پر بتوں کیلئے قربانی کی جاتی ہے ؟

عرض کیا : نہیں ، رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اوف بنذرک ۔ اپنی نذر پر عمل کرو۔( ۲ )

شاید پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلئے سوال کیا ہوکہ وہاں پر بتوں کی پرستش کی جاتی ہو یا مشرک لوگ وہاںپر اپنی رسومات بجالاتے ہوں چونکہ مسلمان زمانہ جاہلیت سے نزدیک تھے اور اس چیز کا ا حتمال موجود تھا۔

____________________

۱۔الملل والنحل : ۲۹۱.

۲۔معجم البلدان ۱:۵۰۵.

۱۳۹

ہم اس تائید میں کہتے ہیں کہ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ثابت بن ضحاک کہتے ہیں : ایک شخص نے نذر کی کہ (بوانہ ) نامی منطقہ میں ایک اونٹ ذبح کرے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سے آگاہ کیا ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: کیا وہاں پر زمانہ جاہلیت میں کوئی بت موجود تھا جس کی پرستش کیا کرتے ؟

عرض کی : نہیں ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اوف نذرک ، فانه لا وفاء لنذر فی معصیة الله ولا فیما لا یملک ابن آدم

تم اپنی نذر پر عمل کرو اس لئے کہ فقط دومقام پر نذر درست نہیں ہے ۔

۱۔ گناہ ونافرمانی میں ۲۔ جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے ۔( ۱ )

دوسری جانب ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسان نذر کرتے وقت یہ کہتاہے :

اگر میری فلاں مراد پوری ہوگئی تو خدا کیلئے نذر کرتاہوں کہ فلاں کام انجام دوں گا۔پس جب وہ یہ کہے گا : کہ فلاں کیلئے نذر کرتاہوں تویہ ایک مجازی تعبیر ہے اور اختصار کی بناء پر یوں کہا جاتاہے ورنہ درحقیقت اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ خدا کے لئے انجام دوں گا تاکہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے ۔

سوم: کیا کسی مسلمان کے عمل کا کسی کافر کے عمل سے مشابہ ہونا باعث بنتاہے کہ اس مسلمان کو کافر قرار دینا جائز ہو؟ ابن تیمیہ نے اسی دلیل کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر کی ہے لہذا ہم یہ کہیں گے کہ اگر صرف شباہت کفر کے جواز کا باعث بنتی ہے تو پھر حج کے اعمال بھی اسی طرح ہیں چونکہ مشرک اپنے بتوں کے اردگرد طواف کرتے تھے اور ان کی پرستش بھی کرتے ۔ علاوہ ازیں قربانی کے دن اپنے بتوں کے لئے قربانی بھی کیا کرتے اور ہم بھی قربانی کرتے ہیں کیا یہ درست ہے کہ ان دو مشابہ اعمال کو ایک جیسا

____________________

۱۔سنن ابوداؤد ۳: ۲۳۸، ح ۳۳۱۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اگر یہ دو مسئلے حل ہوجا ئیں اور انسان اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ موت سے نابود نہیں ہوتا ہے اور اس کی ایک دائمی زندگی ہے نیز اسکا حقیقی کمال قرب الہٰی ہے اور اس کے لئے کوئی حد نہیں ہے تو معیار انتخاب واضح ہوجائے گا جو چیز انسان کو اس دائمی کمال تک پہونچائے اسے فوقیت دیتے ہوئے اسی کے مطابق عمل انجام دیا جائے یہی عام معیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ کون سی خواہش کن شرائط کے ساتھ اس نقش کو انجام دے گی اور کون سی حرکت ہمیں اس دائمی اور بے انتہا کمال سے نزدیک یا دور کرتی ہے ،ہمیں اس راہ کو وحی کے ذریعہ دریافت کرناہوگااس لئے کہ وحی کی معرفت وہ ہے جو اس سلسلہ میں اساسی اور بنیادی رول ادا کرے گی لہٰذا سب سے پہلے مسئلہ مبدأومعاد کو حل کرنا چاہیئے اور اسکے بعد وحی ونبوت کو بیان کرنا چاہئے تاکہ حکیمانہ اور معقول انتخاب واضح ہوجائے۔ اس نقطۂ نظر میں انتخاب کو سب سے زیادہ اور پایدار لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کے معیاروں کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے انسان کی پوری زندگی کے مشخص ومعین نہ ہونے اور اس کمال کی مقدار جسے حاصل کرنا چاہتاہے اور سب سے بہتر خواہش کی تشخیص میں اس کی معرفت کے اسباب کی نارسائی کی بناپرمذکورہ مشکلات جنم لیتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس (وحی کے ) دائرہ میں حل ہوسکتی ہیں ۔

اخروی لذتوں کی خصوصیات

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ قرآن کی روشنی میں دنیاوی لذتوں کے علاوہ اخروی لذتوں کے موارد ذکرہیں۔ اور انسان کو لذتوں کے انتخاب میں انھیں بھی مورد توجہ قرار دینا چاہیئے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ لذت بخش اور سب سے زیادہ پائدار اورجوایجاد کما ل کا باعث ہو اسے انتخاب کرنا چاہیئے اسی بنا پر قرآن مجید نے آیات ( نشانیاں ) کے بیان کرنے کا ہدف دنیا وآخرت کے بارے میں تفکر اور دونوں کے درمیان موازنہ بتایا ہے :

( کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرُونَ٭فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ )

یوں خداوند عالم اپنے احکامات تم سے صاف صاف بیان دیئے ہیں تاکہ تم دنیا و آخرت

کے بارے میں غور و فکر کرو۔(۱)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اخروی کمالات ولذتوں کو بیان کرنے والی آیات کی تحقیق وتحلیل ہمیں یہ نتیجہ عطا کرتی ہیں کہ یہ لذتیں اور کمالات، دنیاوی لذتوں کے مقابلہ میں فزونی،پایداری ، برتری اور

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۱۹۔

۲۴۱

خلوص کی حامل ہیں لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ اپنی زندگی میں ایسی خواہشوں کو انتخاب کرے جو اخروی لذت وکمال کو پوراکرسکتی ہوں ان آیتوں میں چار خصوصیات اور اخروی کمالات ولذتوں کی برتری کے بارے میں مندرجہ ذیل انداز میں گفتگو ہوئی ہے :

۱۔پایدار ی اور ہمیشگی

قرآن کی نظر میں دنیاوی زندگی نا پایدار ومحدود ہے اور اخروی زندگی دائمی اور محدودیت زمانی سے عاری ہے :

( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱)

مگر تم لوگ دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیرپا ہے ۔

( مَا عِندَکُم یَنفَذُ وَ مَا عِندَ اللّٰهِ بَاقٍ... ) (۲)

جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو خدا کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا

۲۔اخلاص اور رنج و الم سے نجات

دنیاوی زندگی میں نعمتیں اور خوشی ،رنج وغم سے مخلوط ہیں لیکن اخروی زندگی سے خالص خوشی اور حقیقی نعمت حاصل کرسکتے ہیں .قرآن مجید بہشتیوں کی زبان میں فرماتا ہے :

( الَّذِی أحَلَّنَا دَارَ المُقَامَةِ مِن فَضلِهِ لا یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَب وَ لا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوب ) (۳)

جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشگی کے گھر میں اتارا جہاں ہمیں نہ تو کوئی تکلیف پہونچے گی اور نہ ہی کوئی تکان آئے گی۔

____________________

(۱)سورہ اعلیٰ۱۶،۱۷۔

(۲)سورہ نحل ۹۶۔(۳)سورہ فاطر ۳۵۔

۲۴۲

۳۔ وسعت و فراوانی

اخروی نعمتیں ،دنیاوی نعمتوں کے مقابلہ میں جو کم وکیف کے اعتبار سے محدود اور بہت کم ہیں بہت زیادہ اور فراوان ہیں قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَ سَارِعُوا ِلَیٰ مَغفِرَةٍ مِّن رَّبِّکُم وَ جَنَّةٍ عَرضُهَا السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ )

اور اپنے پروردگار کے بخشش اور جنت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے

آسمان اور زمین کے برابر ہے ۔(۱)

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ فِیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَ تَلَذُّ الأعیُنُ ) (۲)

اور وہاں ( بہشت میں )جس چیز کا جی چاہے اور جس سے

آنکھیں لذت اٹھائیں (موجود ہیں)۔

۴۔ مخصوص کمالات اورلذتیں

اخروی دنیا میں ان نعمتوں کے علاوہ جو دنیاوی نعمتوں کے مشابہ ہیں مخصوص نعمتیں بھی ہیں جو دنیا کی نعمتوں سے بہت بہتر اور عالی ہیں قرآن مجید دنیاوی نعمتوں سے مشابہ نعمتوں کو شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ رِضوَان مِنَ اللّٰهِ أَکبَرُ ذٰلِکَ هُوَ الفَوزُ العَظِیمُ ) (۳)

اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۱۳۳۔

(۲)سورہ زخرف۷۱ ۔

(۳)سورہ توبہ آیت ۷۲۔

۲۴۳

ایک روایت میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :''فیُعطهم ﷲ مَالا عین رأت ولا أُذن سمعت ولم یخطر علیٰ قلب بشر'' (۱)

خدا وند عالم انہیں (اپنے صالح بندوں ) ایسی نعمتیں عطا کرے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ ہی کسی قلب نے محسوس کیا ہوگا مذکورہ خصوصیات پر توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید فقط اخروی زندگی کو زندگی سمجھتا ہے اور دنیا کی زندگی کو مقدمہ اور اس کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جب دنیاوی زندگی اخروی زندگی کے حصول کا ذریعہ نہ ہوتو اسے کھیل بے خبری وغفلت کی علت ،فخر کا ذریعہ نیز ظاہری آرائش اورجاہلانہ عمل شمار کرتا ہے اور اسکی فکر وجستجو میں ہونا اور اس کو پورا کرنے والی خواہشوں کو انتخاب کرنا ایک غیر عقلی فعل کہا ہے اور ایسی زندگی کو حیوانات کی زندگی اور انسان کے حیوانی پہلو کو پورا کرنا بتا یا ہے۔

( وَ مَا هٰذِهِ الحَیَوٰةُ الدُّنیَا ِلا لَهو وَ لَعِب وَ نَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِیَ الحَیَوَانُ لَو کَانُوا یَعلَمُونَ ) (۲)

اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں اگر یہ لوگ سمجھیںبوجھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ابدی زندگی تو بس آخرت کا گھر ہے ۔

____________________

(۱)نوری ، میرزا حسین ؛ مستدرک الوسایل ج۶ ص ۶۳۔

(۲)سورہ عنکبوت ۶۴۔

۲۴۴

قدرت :

اختیاری افعال میں تیسرا بنیادی عنصر قدرت ہے جو اس سلسلہ میں امکانات واسباب کا رول ادا کرتا ہے انسان جن خواہشات کو اپنے لئے حقیقی کمال کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اسکے مقدمۂ حصول کو تشخیص دیتا ہے انھیں معارف کی روشنی میں حاحل کرنا چاہیئے اور وہ افعال جو اس کو اُس کمال نہائی کے حصول سے روکتے ہیں یا دور کرتے ہیںاس سے پرہیزکرنا چاہیئے. یہ قدرت اندرونی اعمال پر

محیط ہے جیسے نیت ، ایمان لانا ، رضایت ، غصہ، محبت ،دشمنی، قصد اور ارادہ خارجی، عمل پراثر انداز ہوتے ہیں۔اور قرآن کی نظر میں ،انسان ان تمام مراحل میں قدرت کونافذ کرنے کے لئے ضروری امکانات سے استوارہے قدرت کے مختلف اقسام ہیں جسے ایک نظریہ کے اعتبار سے چار حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

الف۔قدرت طبعی : یعنیطبیعت سے استفادہ کرتے ہوئے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان ہو اپنے مقاصد کو حاصل کیاجاتا ہے

ب۔قدرت علمی: یعنی وہ قدرت جو ٹکنیکل آلات سے استفادہ کرکے اپنے اہداف کو حاصل کرلے اور اپنے مورد نظر افعال کو انجام دے۔

ج: قدرت اجتماعی:ہماہنگی وتعاون کے ذریعہ یا طاقت و قبضہ اور اجتماعی مرکز کے حصول ، مشروع یا غیر مشروع طریقہ سے اپنے جیسے افراد کو ہی اپنے فائدہ کے لئے اپنی خدمت میں استعمال کرتاہے اور ان کی توانائی سے استفادہ کرکے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔

د: قدرت غیرطبیعی: اپنی روحی قدرت سے استفادہ یا غیبی امداد اور الٰہی عنایت ،انسانوں کی جاندار بے جان طبیعت میں تصرف کرکے یا جن وشیاطین کی مدد سے جس چیز کوچاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے ۔

۲۴۵

اختیار کی اصل وبنیاد کے عنوان سے جو باتیں قدرت کی وضاحت میں گذر چکی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ قدرت کو جسمانی توانائی ،اعضاء وجوارح کی سلامتی اورافعال کے انجام دہی میں بیرونی شرائط کے فراہم ہونے سے مخصوص نہیں کرناچاہیئے بلکہ توجہ ہونا چاہئیے کہ ان کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اندرونی اختیاری عمل کا امکان موجود رہتا ہے جیسے محبت کرنا ،دشمنی کرنا ، نیت کرنا ، کسی کام کے انجام کا ارادہ کرنا یا کسی شخص کے عمل سے راضی ہونا وغیرہ۔ البتہ انسان اندرونی اعمال کے ذریعہ خود کو خدا سے نزدیک کرسکتا ہے اور اختیاری اصول مثال کے طور پر معرفت ، خواہشات اور مذکورہ درونی امور کا ارادہ خصوصاً جو چیزیں حقیقی عمل کو ترتیب دیتی ہیں یعنی نیت ،ان شرائط میں بھی فراہم ہیں اور جس قدر نیت خالص ہوگی اعتبار اور اس کے قرب کا اندازہ بھی زیادہ ہوگا لہٰذا انسان اعمال ظاہری کے انجام پر بھی مامور ہے اور افعال باطنی کے انجام کا بھی ذمہ دار ہے البتہ اگر کوئی ظاہر ی عمل انجام دے سکتا ہے تو اس کے لئے صرف باطنی عمل کی نیت کافی نہیں ہے اسی بنا پر ایمان وعمل صالح ہمیشہ باہم ذکر ہوئے ہیں اور دل کے صاف ہونے کا فائدہ ظاہری اعمال میں ہوتا ہے اگرچہ اعمال ظاہری سے نا توانی اس کے اعمال کے سقوط میں ، باطنی رضایت کا نہ توسبب ہے اور نہ ہی باطنی رفتارسے اختلاف، ظاہری عمل میں اعلان رضایت کے لئے کافی ہے مگر یہ کہ انسان عمل ظاہری کے انجام سے معذور ہو۔

۲۴۶

خلاصہ فصل

۱۔افعال اختیاری کو انجام دینے کے لئے ہم تین عناصر (معرفت ،انتخاب اورقدرت) کے محتاج ہیں۔

۲۔ اچھے اور برے کا علم، حقیقی کمال کی شناخت اورمعرفت نیز اس کی راہ حصول کے بارے میں اطلاع اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مبدا ، معاد اور دنیا وآخرت کے رابطہ کو پہچانیں

۳۔ قرآن مجید اگر چہ آنکھ اورکان (حواس ) اور قلب (عقل ودل ) کومعرفت اور سعادت کی عام راہوں میں معتبر مانتا ہے لیکن یہ اسباب محدودہونے کے ساتھ ساتھ امکان خطاء سے لبریز نیز تربیت وتکامل کے محتاج ہیں اس لئے ایک دوسرے مرکز کی ضرورت ہے تاکہ ضروری مسائل میں صحیح وتفصیلی معرفت کے ذریعے انسان کی مدد کرسکے اور وہ منبع و مرکز، وحی الہٰی ہے جو ہمارے لئے بہت ضروری ہے

۴۔خواہش یا ارادہ، اختیار و قصدکے لئے ایک دوسرا ضروری عنصر ہے البتہ یہ کوئی ایسا ارادے والا فعل نہیں ہے جس میں خواہش اور چاہت کا کردار نہ ہوحالانکہ بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش یا مزید شوق کہا ہے۔

۵۔ بہت سی جگہوں میں جہاںچند ناہماہنگ خواہشیں باہم ہوتی ہیں اور انسان مجبور ہوتاہے کہ کسی ایک کو ترجیح دے تواس سلسلہ میں قرآن مجید کی شفارش یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو مد نظر قرار دے اور اس کو معیارانتخاب سمجھے ۔

۶۔ قرآن مجید ایسے بلند و بالا خواہشات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس میں شخصیت و منزلت کی خواہش اور ایک معبود کی عبادت فقط خداوند عالم کی عبادت کے سایہ میں پوری ہوسکتی ہے ۔

۷۔ قرآن مجید اعلی خواہشوں کو ایجاد کمال ،پائدار اور زیادہ لذت بخش ہونے کے معیار پر ترجیح دیتا ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مذکورہ امور فقط آخرت میں حاصل ہونگے جس کی نعمتیں پائدار ،حقیقی ، رنج وغم سے عاری اور باکمال ہیں۔

۸۔ قدرت ،مقدمات اختیار کے ایک مقدمہ کے عنوان سے کسی بھی عمل کے لئے درکار ہے مثلا شناخت اور معرفت کے لئے انتخاب اور ارادے کی قدرت۔البتہ قرآن کی نظر میں ان تمام موارد کے لئے انسان ضروری قدرت سے آراستہ ہے ۔

۲۴۷

تمرین

۱۔اصول اختیار کی تین قسمیں ہیں جواختیاری افعال میں ایک ہی طرح کا کردار ادا کرتی ہیں یا بعض کا کردار دوسرے سے زیادہ ہے ،اس اختلاف کا کیا سبب ہے ؟

۲۔ مقتضائے معرفت کے لئے کون سے امور معرفت سے انحراف کا سببہیں اور کس طرح یہ عمل انجام دیتے ہیں ؟

۳۔معرفت کے اہم کردار کی روشنی میں انسان کے حقیقی کمال کے حصول کے لئے قرآن مجید میں ہر چیز سے زیادہ کیوں ایمان وعمل صالح کی تاکید ہوتی ہے ؟

۴۔ ایمان وتقویٰ سے معرفت کا کیا رابطہ ہے ؟

۵۔ ایمان ،عقل و انتخاب اور کردار کے مقولوں میں سے کون سا مقولہ ہے ؟

۶۔ اگر خواہشات کا انتخاب انسان کی عقل کے مطابق سب سے زیادہ پائدار ، حقیقی لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کی بنیاد پر ہو تو کیا یہ معیار غیر دینی ہوگا ؟ کیوں اور کیسے ؟

۷۔ اگر ایمان کے حصول اور قرب الہی میں معرفت کا اہم رول ہے تو میدان عمل میں کیوں بعض مفکر ین بالکل ہی خدا اور معادکے منکرہیں یا اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ہیں؟ اور کیوں علم بشر کی ترقی دینداری اور ایمان کی وسعت سے بلا واسطہ تعلق نہیں رکھتی ہے ؟

۲۴۸

مزید مطالعہ کے لئے :

۱۔شناخت کے تمام گوشوںکے اعتبار سے انسان کی سعادت کے لئے ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۵) تفسیر موضوعی قرآن کریم ، تہران : رجاء ۱۳۶۵، ج۴ ص ۹۳۔ ۱۱۱

۔جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۰) شناخت شناسی در قرآن ، تنظیم و پیش کش ، حمید پارسانیا، قم : مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۔

۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( راہ و راہنماشناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی

۲۔ قرآن کی نظر میں انسان کے مختلف خواہشات کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۸) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۱۲( فطرت در قرآن ) قم : اسراء ۔

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۶۶) تفسیر موضوعی قرآن ، ج ۵، تہران : رجاء

۔شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری، قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ہا( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ (۱۳۷۷)خود شناسی برائے خودسازی ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ نجاتی ، محمد عثمان (۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد : بنیاد پژوہش ھای آستانہ قدس۔

۲۴۹

نویں فصل :

کمال نہائی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱۔ (کمال ) کا معنی ذکر کرتے ہوئے اس کی تشریح کریں ؟

۲۔ انسان کے کمال نہائی سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۳۔ قرب الٰہی کے حصول کی راہ کو آیات قرآن سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ ایمان اور مقام قرب کے رابطے کی وضاحت کریں ؟

۲۵۰

کمال خواہی اور سعادت طلبی ہر انسان کی ذاتی وفطری خواہشات میں سے ہے اور انسان کی پوری کوشش اسی خواہش کو پوراکرنا اور نقائص کو دورکرناہے البتہ یہ بات کہ کمال کی خواہش اور سعادت طلب کرنا خود ایک حقیقی اور مستقل رغبت وخواہش ہے ، یا ایک فرعی خواہش ہے جو دوسری خواہشوں کا نتیجہ ہے جیسے خود پسندی وغیرہ میں یہ مسئلہ اتفاقی نہیں ہے اگر چہ نظریہ کمال کو مستقل اور حقیقی سمجھنا ہی اکثر لوگوں کا نظریہ ہے ۔

انسان کی سعادت وکمال کی خواہش میں ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ ،کمال اور سعادت کے مراد کو واضح کرنا ہے جو مختلف فلسفی ودینی نظریوں کی بنیاد پر متفاوت اورمختلف ہے اسی طرح کمال وسعادت کے حقیقی مصداق کو معین کرنا اور ان کی خصوصیات نیز کیفیت اور اس کے حصول کا طریقہ کاران امور میں سے ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق وتحلیل اور بحث ہوچکی ہے اور مزید ہوگی ظاہر ہے کہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیں ، ان تمام مسائل میں دنیاوی پہلو اختیار کرتے ہیں اور کمال وسعادت کے معنی ومفہوم اور ان دونوں کا حقیقی مصداق اور اس کے راہ حصول کو مادی امور ہی میں منحصرجانتے ہیں لیکن غیر مادی مکاتب خصوصاً الہی مکاتب فکر، مادی و دنیاوی اعتبار سے بلند اور وسیع و عریض نظریہ پیش کرتے ہیں اس فصل میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ قرآنی نظریہ کے مطابق مذکورہ مسائل کا جواب تلاش کریں

۲۵۱

مفہوم کمال اور انسانی معیار کمال

دنیا کی باحیات مخلوق جن سے ہمارا سرو کار ہے ،ان میں سے نباتات نیز حیوان و انسان گوناگوں صلاحیت کے حامل ہیں ، جس کے لئے مناسب اسباب و علل کا فراہم ہونا ظاہر وآشکار اور پوشیدہ توانائیوں کے فعال ہونے کا سبب ہیں اور ان صلاحیتوں کے فعال ہونے سے ایسی چیزیں معرض وجود میں آتی ہیں جواس سے قبل حاصل نہیں تھیں اس طرح تمام با حیات مخلوق میں درونی قابلیتوں کو پوری طرح سے ظاہر کرنے کے لئے طبیعی تلاش جاری ہے البتہ یہ فرق ہے کہ نباتات موجودات کے ان طبیعی قوانین کے اصولوں کے پابند ہیں،جو ان کے وجود میں ڈال دی گئی ہیں جانوروں کیسعی و کوشش حب ذات جیسے عوامل پر مبنی ہے جو فطری الہام وفہم کے اعتبار سے اپنے امور انجام دیتے ہیں لیکن انسان کی جستجو، اختیار وعلم کی روشنی میں ہوتی ہے ۔

اس وضاحت کے مطابق جو اختیار اور اس کے اصول کی بحث میں گذرچکا ہے اس کے کمال نہائی کا مقصد دوسری مخلوق سے بالکلعلیحدہ اور جدا ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ''کمال'' ایک وجودی صفت ہے جو ایک وجود کا دوسرے وجود کے مقابلہ میں حقیقی توانائی وقوت کی طرف اشارہ کرتا ہے .اور کامل وجود اگر فہم وشعور کی نعمت سے مالامال ہو تو کمال سے مزین ہونے کی وجہ سے لذت محسوس کرتا ہے گذشتہ مفہوم کی بنیاد پر کمال اگر طبیعی اور غیر اختیاری طور پر حاصل ہو جائے جیسے انسان کی حیوانی توانائی کا فعال ہونا (جیسے جنسی خواہش )تو اسے غیر اکتسابی وغیر طبیعی کمال کہا جاتا ہے اور اگر دانستہ اور اختیاری تلاش کی روشنی میں حاصل ہوتو کمال اکتسابی کہا جاتا ہے پس جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر موجود کا کمال منجملہ انسان کا کمال ایک قسم کی تمام قابلیت کا ظاہر اورآشکار ہونا ہے توبنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقی کمال کیا ہے اور کون سی قابلیت کا ظاہر ہونا انسانی کمال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟ بے شک انسان کی قابلیتوں اور خواہشوں کے درمیان حیوانی اور مادی خواہشوں کے ظاہر ہونے کو انسانی کمالات میں شمار نہیں کیا جاسکتااس لئے کہ یہ خواہشیں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک ہیں اور حیوانی پہلو سے ان قابلیتوں کے فعال ہونے کا مطلب انسان کا تکامل پانا ہے ۔

۲۵۲

ایسے مرحلہ میں انسان کی انسانیت ابھی بالقوہ ہے اور اس کی حیوانیت بالفعل ہوچکی ہے اور یہ محدود ،ناپایدار اور سریع ختم ہونے والی صلاحیتیں انسان کی واقعی حقیقت یعنی نا قابل فنا روح ، اور ہمیشہ باقی رہنے والی لامحدود خواہش سے سازگار نہیں ہے انسان کی انسانیت اس وقت بالفعل ہوگی جب اس ناقابل فناروح کی قابلیت فعال ہواور کمال وسعادت اور ختم نہ ہونے والی خالص اور ناقابل فنا لذت بغیر مزاحمت ومحدود یت کے حاصل ہو ۔

انسان کا کمال نہائی

انسانی کمال اور اس کی عام خصوصیات کے واضح ہونے کے بعد یہ بنیاد ی سوال در پیش ہوتا ہے کہ انسانی کمال کا نقطۂ عروج اور مقصد حقیقی جسے ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنی تمام فعالیت جس کے حصول کے لئے انجام دیتا ہے وہ کیا ہیں ؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ انسان کا کمال نہائی کیا ہے ؟

اس سوال کے جواب کے وقت اس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ حوادث زندگی میں انسان کی طرف سے جن مقاصد کی جستجو ہوئی ہے وہ ایک جیسے مساوی اور برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اہداف، ابتدائی اہداف ہیں جو بلند وبالا اہداف کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور بعض نہائی اور حقیقی اہداف شمار ہوتے ہیں اور بعض درمیانی ہیں جو مقدماتی اور نہائی اہداف کے درمیان حد وسط کے طور پر واقع ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ، یہ تین طرح کے اہداف ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں. انسان کے نہائی کمال وہدف سے مراد وہ نقطہ ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی کمال، انسان کے لئے متصور نہیں ہے اور انسان کی ترقی کا وہ آخری زینہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے یہ تلاش وکوشش جاری ہے قرآن مجید نے اس نقطۂ عروج کو فوز (کامیابی ) ،فلاح (نجات ) اور سعادت (خوشبختی )جیسے ناموں سے یاد کیا ہے اور فرماتا ہے :

۲۵۳

( وَ مَن یُطِعِ اللّٰهَ و رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظِیماً ) (۱)

اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کوبہت اچھی طرح پہونچ گیا ۔

( أُولٰئِکَ عَلَیٰ هُدًی مِن رَّبِّهِم وِ أُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۲)

یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے

( وَ أَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیهَا )

اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بہشت میں ہوں گے ۔(۳)

قرآن مذکورہ مفاہیم کے نقطۂ مقابل کو ناکامی :( إِنَّهُ لا یُفلِحُ الظَّالِمُونَ ) (۴) (اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوںگے )ناامیدی اور محرومی :( وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (اور یقینا جس نے اسے بنا دیا وہ نامراد رہا ) شقاوت اور بد بختی سے تعبیر کرتا ہے:( فَأَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَهُم فِیهَا زَفِیر وَشَهِیق ) (۵) (تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی)

گذشتہ مطالب کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی توانائیوں میں سے ہر ایک کو کمال اور فعلیت کے مرحلہ میں پہونچنے کے لئے فقط اتنی ہی مقدار معتبر ہے جس میں ایجاد کمال نیز دائمی اورلازوال کمال کے تحقق کے اسباب فراہم ہوسکیں اور کمال نہائی کے حصول کا مقدمہ بن سکیں دوسرے لفظوں میں ان کا رشد وکمال ایک مقدمہ ہے اور اگرمقدماتی پہلو کا فقدان ہوجائے توانسان اپنی مطلوبیت اور اعتبار کو کھودیتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ احزاب ۷۱۔

(۲)سورہ بقرہ ۵۔

(۳)سورہ ھود ۱۰۸۔

(۴)سورہ قصص ۳۷۔

(۵)سورہ ھود ۱۰۶۔

۲۵۴

قرب الٰہی

اہم گفتگو یہ ہے کہ اس کمال نہائی کا مقام ومصداق کیا ہے ؟ قرآن کریم اس کمال نہائی کے مصداق کو قرب الہی بیان کرتا ہے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ہیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ہے اور سب سے اعلی ،خالص ، وسیع اور پایدار لذت ،مقام قرب کے پانے سے حاصل ہوتی ہے .قرب خدا کا عروج وہ مقام ہے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ہوتی ہے اور رحمت الہیسے فیضیاب ہوتاہے اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ہیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ہیں درجہ ذیل ہیں :

۱۔ِ( إنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَهَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ )

بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں پسندیدہ مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہوں میں ہوں گے ۔(۱)

۲.( فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَ اعتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدخِلُهُم فِی رَحمَةٍ مِّنهُ وَ فَضلٍ وَ یَهدِیهِم ِلَیهِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً ) (۲)

پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رہے تو خدا بھی انھیں عنقریب ہی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پہونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا ۔

اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ہے :

''ما تقرب لیّ عبد بشیٍٔ أحبّ لیّ ممّا فترضت علیه و أنّه لیتقرب

____________________

(۱) سورہ قمر ۵۴،۵۵۔

(۲) سورہ نسائ ۱۷۶۔

۲۵۵

لی بالنافلة حتیٰ أحبه فذا أحببته کنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصر به و لسانه الذی ینطق به و یده التی یبطش بها'' (۱)

کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شیٔ کے ذریعے مجھ سے نزدیک نہیں ہوتا ہے بندہ ہمیشہ (درجہ بہ درجہ ) مستحب کاموں سے (واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک ہوتا ہے حتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جب وہ مرا محبوب ہوجاتا ہے تواسکا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے اور اسکا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ہے ۔

قربت کی حقیقت

اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پہونچنے کے بغیر میسر نہیں ہے لیکن غلط مفاہیم کی نفی سے اس کو چاہے ناقص ہی سہی حاصل کیا جاسکتا ہے

کسی موجود سے نزدیک ہونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ہوتاہے یہ بات واضح ہے کہ قرب الٰہی اس مقولہ سے نہیں ہے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ہیںاور خداوند عالم زمان و مکان سے بالاتر ہے .اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جہاں سے مخصوص ہے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر چہ اس پر ظاہر ی آثار مترتب ہوتے ہیں کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ہے منجملہ انسان خدا وند عالم سے وابستہ ہے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ہمیشہ حاضر ہیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ہے :

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۳۵۲۔

۲۵۶

( وَ نَحنُ أَقرَبُ إِلَیهِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ ) (۱)

اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نہائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ہے

دوست ،نزدیک تراز من بہ من است

وین عجیب ترکہ من از وی دورم

''دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ میں اس سے دورہوں''

بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ہے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاہے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ہوجاتاہے. اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے اور اپنے نفسانی مشاہدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ہے:

( وُجُوه یَومَئِذٍ نَاضِرَة ٭ لَیٰ رَبِّهَا نَاظِرَة ) ۔(۲)

اس روز بہت سے چہرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے ۔

قرب الٰہی کے حصول کا راستہ

گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انسانی تکامل ،کرامت اکتسابی اور کمال نہائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ہے.لیکن یہ بات واضح رہے کہ ہر اختیاری عمل ،ہرانداز اورہرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اشارہ ہواہے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ہیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ہوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے

____________________

(۱)سورہ ق ۱۶۔

(۲)سورہ قیامت ۲۲، ۲۳۔

۲۵۷

ہوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ہے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ہوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نہیں ہیں:( إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ المُتَّقِینَ ) (۱) (خدا تو بس پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے )لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل ،ایمان اور عمل صالح ہیں.اس لئے کہ جو عمل تقوی ز کے ہمراہ نہ ہو خدا وند عالم کے سامنے پیش ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نہیں کہا جاسکتاہے۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ہے وہ در اصل عبادی عمل ہے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ہر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ہے''إنّما الأعمال بالنیات'' (۲) آگاہ ہو جاؤ کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ہے اور نیت وہ تنہا عمل ہے جو ذاتاً عبادت ہے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ہونا ، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ہونے کے اوپر ہے ، یہی وجہ ہے تنہا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ہوسکتا ہے وہ نیت ہے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ہیں اسی بنا پرنیت کے پاک ہوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نہیں ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ہدف عبادت بنایا گیا ہے:( وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ النسَ ِلا لِیَعبُدُونَ ) (۳) (اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰہی کو حاصل کرنا ہر کس و ناکس ، ہر قوم و ملت کے لئے ممکن نہیں ہے اور صرف اختیاری ہی عمل سے (اعضاو جوارح کے علاوہ )اس تک رسائی ممکن ہے ۔

مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۲۷۔

(۲)مجلسی، محمد باقر ؛ بحار الانوار؛ ج۷۶،ص۲۱۲۔

(۳)ذاریات ۵۶۔

۲۵۸

خواہش دنیا ، شیطان کی پیروی اور خواہش نفس(ہوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے.حضرت موسی کے دوران بعثت ،یہودی عالم'' بلعم باعور'' کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَاتلُ عَلَیهِم نَبَأَ الَّذِی آتَینَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنهَا فأَتبَعَهُ الشَّیطَانُ فَکَانَ مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاهُ بِهَا وَ لٰکِنَّهُ أَخلَدَ ِلَیٰ الأرضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ )

اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا ۔(۱)

تقرب خدا کے درجات

قرب الہی جو انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات رکھتا ہے حتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ہوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ہے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ہے. اور ہر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ہوتا ہے:( هُم دَرَجَات عِندَ اللّٰهِ ) (۲) (وہ لوگ (صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں (صاحب)درجات ہیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوند عالم سے دوری بھی درجات کا باعث ہے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ہے اسی بنا پر انسان کی زندگی میں ٹھہراو ٔاور توقف کا کوئی مفہوم نہیں ہے .ہر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ہے یا دور کرتاہے، ٹھہراؤ اس وقت متصور ہے جب انسان مکلف نہ ہو. اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ہے مکلف

____________________

(۱) سورہ اعراف ۱۷۵،۱۷۶۔

(۲)سورہ آل عمران ۱۶۳۔

۲۵۹

ہے چاہے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے ، تکامل یا تنزل سے ہمکنار ہوگا۔

( وَ لِکُلِّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَلُونَ )

اور جس نے جیسا کیا ہے اسی کے موافق (نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں سے) ہر ایک کے درجات ہیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے ۔(۱)

انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ہے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ہے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بہشت کے بہت سے درجات ہیںکہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔

ایمان ومقام قرب کا رابطہ

ایمان وہ تنہا شیٔ ہے جو خدا کی طرف صعود کرتی ہے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ہے:

( إِلَیهِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُهُ ) (۲)

اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پہونچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ہے ۔

انسان مومن بھی اپنے ایمان ہی کے مطابق خدا وند عالم سے قریب ہے.اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگااتناہی اس کا تقرب زیادہ ہوگا.(۳) اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ہے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ہواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاہوا ہے جو تقرب

____________________

(۱)سورہ انعام۱۳۲۔

(۲)سورہ فاطر۱۰۔

(۳)مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ خود شناسی برای خودسازی۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307