انسان شناسی

انسان شناسی0%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی
زمرہ جات:

صفحے: 307
مشاہدے: 120372
ڈاؤنلوڈ: 2907

تبصرے:

انسان شناسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120372 / ڈاؤنلوڈ: 2907
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

اگر یہ دو مسئلے حل ہوجا ئیں اور انسان اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ موت سے نابود نہیں ہوتا ہے اور اس کی ایک دائمی زندگی ہے نیز اسکا حقیقی کمال قرب الہٰی ہے اور اس کے لئے کوئی حد نہیں ہے تو معیار انتخاب واضح ہوجائے گا جو چیز انسان کو اس دائمی کمال تک پہونچائے اسے فوقیت دیتے ہوئے اسی کے مطابق عمل انجام دیا جائے یہی عام معیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ کون سی خواہش کن شرائط کے ساتھ اس نقش کو انجام دے گی اور کون سی حرکت ہمیں اس دائمی اور بے انتہا کمال سے نزدیک یا دور کرتی ہے ،ہمیں اس راہ کو وحی کے ذریعہ دریافت کرناہوگااس لئے کہ وحی کی معرفت وہ ہے جو اس سلسلہ میں اساسی اور بنیادی رول ادا کرے گی لہٰذا سب سے پہلے مسئلہ مبدأومعاد کو حل کرنا چاہیئے اور اسکے بعد وحی ونبوت کو بیان کرنا چاہئے تاکہ حکیمانہ اور معقول انتخاب واضح ہوجائے۔ اس نقطۂ نظر میں انتخاب کو سب سے زیادہ اور پایدار لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کے معیاروں کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے انسان کی پوری زندگی کے مشخص ومعین نہ ہونے اور اس کمال کی مقدار جسے حاصل کرنا چاہتاہے اور سب سے بہتر خواہش کی تشخیص میں اس کی معرفت کے اسباب کی نارسائی کی بناپرمذکورہ مشکلات جنم لیتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اس (وحی کے ) دائرہ میں حل ہوسکتی ہیں ۔

اخروی لذتوں کی خصوصیات

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ قرآن کی روشنی میں دنیاوی لذتوں کے علاوہ اخروی لذتوں کے موارد ذکرہیں۔ اور انسان کو لذتوں کے انتخاب میں انھیں بھی مورد توجہ قرار دینا چاہیئے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ لذت بخش اور سب سے زیادہ پائدار اورجوایجاد کما ل کا باعث ہو اسے انتخاب کرنا چاہیئے اسی بنا پر قرآن مجید نے آیات ( نشانیاں ) کے بیان کرنے کا ہدف دنیا وآخرت کے بارے میں تفکر اور دونوں کے درمیان موازنہ بتایا ہے :

( کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرُونَ٭فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ )

یوں خداوند عالم اپنے احکامات تم سے صاف صاف بیان دیئے ہیں تاکہ تم دنیا و آخرت

کے بارے میں غور و فکر کرو۔(۱)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اخروی کمالات ولذتوں کو بیان کرنے والی آیات کی تحقیق وتحلیل ہمیں یہ نتیجہ عطا کرتی ہیں کہ یہ لذتیں اور کمالات، دنیاوی لذتوں کے مقابلہ میں فزونی،پایداری ، برتری اور

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۱۹۔

۲۴۱

خلوص کی حامل ہیں لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ اپنی زندگی میں ایسی خواہشوں کو انتخاب کرے جو اخروی لذت وکمال کو پوراکرسکتی ہوں ان آیتوں میں چار خصوصیات اور اخروی کمالات ولذتوں کی برتری کے بارے میں مندرجہ ذیل انداز میں گفتگو ہوئی ہے :

۱۔پایدار ی اور ہمیشگی

قرآن کی نظر میں دنیاوی زندگی نا پایدار ومحدود ہے اور اخروی زندگی دائمی اور محدودیت زمانی سے عاری ہے :

( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱)

مگر تم لوگ دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیرپا ہے ۔

( مَا عِندَکُم یَنفَذُ وَ مَا عِندَ اللّٰهِ بَاقٍ... ) (۲)

جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو خدا کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا

۲۔اخلاص اور رنج و الم سے نجات

دنیاوی زندگی میں نعمتیں اور خوشی ،رنج وغم سے مخلوط ہیں لیکن اخروی زندگی سے خالص خوشی اور حقیقی نعمت حاصل کرسکتے ہیں .قرآن مجید بہشتیوں کی زبان میں فرماتا ہے :

( الَّذِی أحَلَّنَا دَارَ المُقَامَةِ مِن فَضلِهِ لا یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَب وَ لا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوب ) (۳)

جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشگی کے گھر میں اتارا جہاں ہمیں نہ تو کوئی تکلیف پہونچے گی اور نہ ہی کوئی تکان آئے گی۔

____________________

(۱)سورہ اعلیٰ۱۶،۱۷۔

(۲)سورہ نحل ۹۶۔(۳)سورہ فاطر ۳۵۔

۲۴۲

۳۔ وسعت و فراوانی

اخروی نعمتیں ،دنیاوی نعمتوں کے مقابلہ میں جو کم وکیف کے اعتبار سے محدود اور بہت کم ہیں بہت زیادہ اور فراوان ہیں قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَ سَارِعُوا ِلَیٰ مَغفِرَةٍ مِّن رَّبِّکُم وَ جَنَّةٍ عَرضُهَا السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ )

اور اپنے پروردگار کے بخشش اور جنت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے

آسمان اور زمین کے برابر ہے ۔(۱)

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ فِیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَ تَلَذُّ الأعیُنُ ) (۲)

اور وہاں ( بہشت میں )جس چیز کا جی چاہے اور جس سے

آنکھیں لذت اٹھائیں (موجود ہیں)۔

۴۔ مخصوص کمالات اورلذتیں

اخروی دنیا میں ان نعمتوں کے علاوہ جو دنیاوی نعمتوں کے مشابہ ہیں مخصوص نعمتیں بھی ہیں جو دنیا کی نعمتوں سے بہت بہتر اور عالی ہیں قرآن مجید دنیاوی نعمتوں سے مشابہ نعمتوں کو شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ رِضوَان مِنَ اللّٰهِ أَکبَرُ ذٰلِکَ هُوَ الفَوزُ العَظِیمُ ) (۳)

اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۱۳۳۔

(۲)سورہ زخرف۷۱ ۔

(۳)سورہ توبہ آیت ۷۲۔

۲۴۳

ایک روایت میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :''فیُعطهم ﷲ مَالا عین رأت ولا أُذن سمعت ولم یخطر علیٰ قلب بشر'' (۱)

خدا وند عالم انہیں (اپنے صالح بندوں ) ایسی نعمتیں عطا کرے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ ہی کسی قلب نے محسوس کیا ہوگا مذکورہ خصوصیات پر توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید فقط اخروی زندگی کو زندگی سمجھتا ہے اور دنیا کی زندگی کو مقدمہ اور اس کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جب دنیاوی زندگی اخروی زندگی کے حصول کا ذریعہ نہ ہوتو اسے کھیل بے خبری وغفلت کی علت ،فخر کا ذریعہ نیز ظاہری آرائش اورجاہلانہ عمل شمار کرتا ہے اور اسکی فکر وجستجو میں ہونا اور اس کو پورا کرنے والی خواہشوں کو انتخاب کرنا ایک غیر عقلی فعل کہا ہے اور ایسی زندگی کو حیوانات کی زندگی اور انسان کے حیوانی پہلو کو پورا کرنا بتا یا ہے۔

( وَ مَا هٰذِهِ الحَیَوٰةُ الدُّنیَا ِلا لَهو وَ لَعِب وَ نَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِیَ الحَیَوَانُ لَو کَانُوا یَعلَمُونَ ) (۲)

اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں اگر یہ لوگ سمجھیںبوجھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ابدی زندگی تو بس آخرت کا گھر ہے ۔

____________________

(۱)نوری ، میرزا حسین ؛ مستدرک الوسایل ج۶ ص ۶۳۔

(۲)سورہ عنکبوت ۶۴۔

۲۴۴

قدرت :

اختیاری افعال میں تیسرا بنیادی عنصر قدرت ہے جو اس سلسلہ میں امکانات واسباب کا رول ادا کرتا ہے انسان جن خواہشات کو اپنے لئے حقیقی کمال کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اسکے مقدمۂ حصول کو تشخیص دیتا ہے انھیں معارف کی روشنی میں حاحل کرنا چاہیئے اور وہ افعال جو اس کو اُس کمال نہائی کے حصول سے روکتے ہیں یا دور کرتے ہیںاس سے پرہیزکرنا چاہیئے. یہ قدرت اندرونی اعمال پر

محیط ہے جیسے نیت ، ایمان لانا ، رضایت ، غصہ، محبت ،دشمنی، قصد اور ارادہ خارجی، عمل پراثر انداز ہوتے ہیں۔اور قرآن کی نظر میں ،انسان ان تمام مراحل میں قدرت کونافذ کرنے کے لئے ضروری امکانات سے استوارہے قدرت کے مختلف اقسام ہیں جسے ایک نظریہ کے اعتبار سے چار حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

الف۔قدرت طبعی : یعنیطبیعت سے استفادہ کرتے ہوئے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان ہو اپنے مقاصد کو حاصل کیاجاتا ہے

ب۔قدرت علمی: یعنی وہ قدرت جو ٹکنیکل آلات سے استفادہ کرکے اپنے اہداف کو حاصل کرلے اور اپنے مورد نظر افعال کو انجام دے۔

ج: قدرت اجتماعی:ہماہنگی وتعاون کے ذریعہ یا طاقت و قبضہ اور اجتماعی مرکز کے حصول ، مشروع یا غیر مشروع طریقہ سے اپنے جیسے افراد کو ہی اپنے فائدہ کے لئے اپنی خدمت میں استعمال کرتاہے اور ان کی توانائی سے استفادہ کرکے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔

د: قدرت غیرطبیعی: اپنی روحی قدرت سے استفادہ یا غیبی امداد اور الٰہی عنایت ،انسانوں کی جاندار بے جان طبیعت میں تصرف کرکے یا جن وشیاطین کی مدد سے جس چیز کوچاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے ۔

۲۴۵

اختیار کی اصل وبنیاد کے عنوان سے جو باتیں قدرت کی وضاحت میں گذر چکی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ قدرت کو جسمانی توانائی ،اعضاء وجوارح کی سلامتی اورافعال کے انجام دہی میں بیرونی شرائط کے فراہم ہونے سے مخصوص نہیں کرناچاہیئے بلکہ توجہ ہونا چاہئیے کہ ان کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اندرونی اختیاری عمل کا امکان موجود رہتا ہے جیسے محبت کرنا ،دشمنی کرنا ، نیت کرنا ، کسی کام کے انجام کا ارادہ کرنا یا کسی شخص کے عمل سے راضی ہونا وغیرہ۔ البتہ انسان اندرونی اعمال کے ذریعہ خود کو خدا سے نزدیک کرسکتا ہے اور اختیاری اصول مثال کے طور پر معرفت ، خواہشات اور مذکورہ درونی امور کا ارادہ خصوصاً جو چیزیں حقیقی عمل کو ترتیب دیتی ہیں یعنی نیت ،ان شرائط میں بھی فراہم ہیں اور جس قدر نیت خالص ہوگی اعتبار اور اس کے قرب کا اندازہ بھی زیادہ ہوگا لہٰذا انسان اعمال ظاہری کے انجام پر بھی مامور ہے اور افعال باطنی کے انجام کا بھی ذمہ دار ہے البتہ اگر کوئی ظاہر ی عمل انجام دے سکتا ہے تو اس کے لئے صرف باطنی عمل کی نیت کافی نہیں ہے اسی بنا پر ایمان وعمل صالح ہمیشہ باہم ذکر ہوئے ہیں اور دل کے صاف ہونے کا فائدہ ظاہری اعمال میں ہوتا ہے اگرچہ اعمال ظاہری سے نا توانی اس کے اعمال کے سقوط میں ، باطنی رضایت کا نہ توسبب ہے اور نہ ہی باطنی رفتارسے اختلاف، ظاہری عمل میں اعلان رضایت کے لئے کافی ہے مگر یہ کہ انسان عمل ظاہری کے انجام سے معذور ہو۔

۲۴۶

خلاصہ فصل

۱۔افعال اختیاری کو انجام دینے کے لئے ہم تین عناصر (معرفت ،انتخاب اورقدرت) کے محتاج ہیں۔

۲۔ اچھے اور برے کا علم، حقیقی کمال کی شناخت اورمعرفت نیز اس کی راہ حصول کے بارے میں اطلاع اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مبدا ، معاد اور دنیا وآخرت کے رابطہ کو پہچانیں

۳۔ قرآن مجید اگر چہ آنکھ اورکان (حواس ) اور قلب (عقل ودل ) کومعرفت اور سعادت کی عام راہوں میں معتبر مانتا ہے لیکن یہ اسباب محدودہونے کے ساتھ ساتھ امکان خطاء سے لبریز نیز تربیت وتکامل کے محتاج ہیں اس لئے ایک دوسرے مرکز کی ضرورت ہے تاکہ ضروری مسائل میں صحیح وتفصیلی معرفت کے ذریعے انسان کی مدد کرسکے اور وہ منبع و مرکز، وحی الہٰی ہے جو ہمارے لئے بہت ضروری ہے

۴۔خواہش یا ارادہ، اختیار و قصدکے لئے ایک دوسرا ضروری عنصر ہے البتہ یہ کوئی ایسا ارادے والا فعل نہیں ہے جس میں خواہش اور چاہت کا کردار نہ ہوحالانکہ بعض لوگوں نے ارادہ کو شدید خواہش یا مزید شوق کہا ہے۔

۵۔ بہت سی جگہوں میں جہاںچند ناہماہنگ خواہشیں باہم ہوتی ہیں اور انسان مجبور ہوتاہے کہ کسی ایک کو ترجیح دے تواس سلسلہ میں قرآن مجید کی شفارش یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو مد نظر قرار دے اور اس کو معیارانتخاب سمجھے ۔

۶۔ قرآن مجید ایسے بلند و بالا خواہشات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس میں شخصیت و منزلت کی خواہش اور ایک معبود کی عبادت فقط خداوند عالم کی عبادت کے سایہ میں پوری ہوسکتی ہے ۔

۷۔ قرآن مجید اعلی خواہشوں کو ایجاد کمال ،پائدار اور زیادہ لذت بخش ہونے کے معیار پر ترجیح دیتا ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مذکورہ امور فقط آخرت میں حاصل ہونگے جس کی نعمتیں پائدار ،حقیقی ، رنج وغم سے عاری اور باکمال ہیں۔

۸۔ قدرت ،مقدمات اختیار کے ایک مقدمہ کے عنوان سے کسی بھی عمل کے لئے درکار ہے مثلا شناخت اور معرفت کے لئے انتخاب اور ارادے کی قدرت۔البتہ قرآن کی نظر میں ان تمام موارد کے لئے انسان ضروری قدرت سے آراستہ ہے ۔

۲۴۷

تمرین

۱۔اصول اختیار کی تین قسمیں ہیں جواختیاری افعال میں ایک ہی طرح کا کردار ادا کرتی ہیں یا بعض کا کردار دوسرے سے زیادہ ہے ،اس اختلاف کا کیا سبب ہے ؟

۲۔ مقتضائے معرفت کے لئے کون سے امور معرفت سے انحراف کا سببہیں اور کس طرح یہ عمل انجام دیتے ہیں ؟

۳۔معرفت کے اہم کردار کی روشنی میں انسان کے حقیقی کمال کے حصول کے لئے قرآن مجید میں ہر چیز سے زیادہ کیوں ایمان وعمل صالح کی تاکید ہوتی ہے ؟

۴۔ ایمان وتقویٰ سے معرفت کا کیا رابطہ ہے ؟

۵۔ ایمان ،عقل و انتخاب اور کردار کے مقولوں میں سے کون سا مقولہ ہے ؟

۶۔ اگر خواہشات کا انتخاب انسان کی عقل کے مطابق سب سے زیادہ پائدار ، حقیقی لذت اور سب سے زیادہ ایجاد کمال کی بنیاد پر ہو تو کیا یہ معیار غیر دینی ہوگا ؟ کیوں اور کیسے ؟

۷۔ اگر ایمان کے حصول اور قرب الہی میں معرفت کا اہم رول ہے تو میدان عمل میں کیوں بعض مفکر ین بالکل ہی خدا اور معادکے منکرہیں یا اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ہیں؟ اور کیوں علم بشر کی ترقی دینداری اور ایمان کی وسعت سے بلا واسطہ تعلق نہیں رکھتی ہے ؟

۲۴۸

مزید مطالعہ کے لئے :

۱۔شناخت کے تمام گوشوںکے اعتبار سے انسان کی سعادت کے لئے ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۵) تفسیر موضوعی قرآن کریم ، تہران : رجاء ۱۳۶۵، ج۴ ص ۹۳۔ ۱۱۱

۔جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۰) شناخت شناسی در قرآن ، تنظیم و پیش کش ، حمید پارسانیا، قم : مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۔

۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( راہ و راہنماشناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی

۲۔ قرآن کی نظر میں انسان کے مختلف خواہشات کے بارے میں ملاحظہ ہو :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۸) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۱۲( فطرت در قرآن ) قم : اسراء ۔

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۶۶) تفسیر موضوعی قرآن ، ج ۵، تہران : رجاء

۔شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری، قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ہا( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ (۱۳۷۷)خود شناسی برائے خودسازی ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ نجاتی ، محمد عثمان (۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد : بنیاد پژوہش ھای آستانہ قدس۔

۲۴۹

نویں فصل :

کمال نہائی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱۔ (کمال ) کا معنی ذکر کرتے ہوئے اس کی تشریح کریں ؟

۲۔ انسان کے کمال نہائی سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۳۔ قرب الٰہی کے حصول کی راہ کو آیات قرآن سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟

۴۔ ایمان اور مقام قرب کے رابطے کی وضاحت کریں ؟

۲۵۰

کمال خواہی اور سعادت طلبی ہر انسان کی ذاتی وفطری خواہشات میں سے ہے اور انسان کی پوری کوشش اسی خواہش کو پوراکرنا اور نقائص کو دورکرناہے البتہ یہ بات کہ کمال کی خواہش اور سعادت طلب کرنا خود ایک حقیقی اور مستقل رغبت وخواہش ہے ، یا ایک فرعی خواہش ہے جو دوسری خواہشوں کا نتیجہ ہے جیسے خود پسندی وغیرہ میں یہ مسئلہ اتفاقی نہیں ہے اگر چہ نظریہ کمال کو مستقل اور حقیقی سمجھنا ہی اکثر لوگوں کا نظریہ ہے ۔

انسان کی سعادت وکمال کی خواہش میں ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ ،کمال اور سعادت کے مراد کو واضح کرنا ہے جو مختلف فلسفی ودینی نظریوں کی بنیاد پر متفاوت اورمختلف ہے اسی طرح کمال وسعادت کے حقیقی مصداق کو معین کرنا اور ان کی خصوصیات نیز کیفیت اور اس کے حصول کا طریقہ کاران امور میں سے ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق وتحلیل اور بحث ہوچکی ہے اور مزید ہوگی ظاہر ہے کہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیں ، ان تمام مسائل میں دنیاوی پہلو اختیار کرتے ہیں اور کمال وسعادت کے معنی ومفہوم اور ان دونوں کا حقیقی مصداق اور اس کے راہ حصول کو مادی امور ہی میں منحصرجانتے ہیں لیکن غیر مادی مکاتب خصوصاً الہی مکاتب فکر، مادی و دنیاوی اعتبار سے بلند اور وسیع و عریض نظریہ پیش کرتے ہیں اس فصل میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ قرآنی نظریہ کے مطابق مذکورہ مسائل کا جواب تلاش کریں

۲۵۱

مفہوم کمال اور انسانی معیار کمال

دنیا کی باحیات مخلوق جن سے ہمارا سرو کار ہے ،ان میں سے نباتات نیز حیوان و انسان گوناگوں صلاحیت کے حامل ہیں ، جس کے لئے مناسب اسباب و علل کا فراہم ہونا ظاہر وآشکار اور پوشیدہ توانائیوں کے فعال ہونے کا سبب ہیں اور ان صلاحیتوں کے فعال ہونے سے ایسی چیزیں معرض وجود میں آتی ہیں جواس سے قبل حاصل نہیں تھیں اس طرح تمام با حیات مخلوق میں درونی قابلیتوں کو پوری طرح سے ظاہر کرنے کے لئے طبیعی تلاش جاری ہے البتہ یہ فرق ہے کہ نباتات موجودات کے ان طبیعی قوانین کے اصولوں کے پابند ہیں،جو ان کے وجود میں ڈال دی گئی ہیں جانوروں کیسعی و کوشش حب ذات جیسے عوامل پر مبنی ہے جو فطری الہام وفہم کے اعتبار سے اپنے امور انجام دیتے ہیں لیکن انسان کی جستجو، اختیار وعلم کی روشنی میں ہوتی ہے ۔

اس وضاحت کے مطابق جو اختیار اور اس کے اصول کی بحث میں گذرچکا ہے اس کے کمال نہائی کا مقصد دوسری مخلوق سے بالکلعلیحدہ اور جدا ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ''کمال'' ایک وجودی صفت ہے جو ایک وجود کا دوسرے وجود کے مقابلہ میں حقیقی توانائی وقوت کی طرف اشارہ کرتا ہے .اور کامل وجود اگر فہم وشعور کی نعمت سے مالامال ہو تو کمال سے مزین ہونے کی وجہ سے لذت محسوس کرتا ہے گذشتہ مفہوم کی بنیاد پر کمال اگر طبیعی اور غیر اختیاری طور پر حاصل ہو جائے جیسے انسان کی حیوانی توانائی کا فعال ہونا (جیسے جنسی خواہش )تو اسے غیر اکتسابی وغیر طبیعی کمال کہا جاتا ہے اور اگر دانستہ اور اختیاری تلاش کی روشنی میں حاصل ہوتو کمال اکتسابی کہا جاتا ہے پس جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر موجود کا کمال منجملہ انسان کا کمال ایک قسم کی تمام قابلیت کا ظاہر اورآشکار ہونا ہے توبنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقی کمال کیا ہے اور کون سی قابلیت کا ظاہر ہونا انسانی کمال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟ بے شک انسان کی قابلیتوں اور خواہشوں کے درمیان حیوانی اور مادی خواہشوں کے ظاہر ہونے کو انسانی کمالات میں شمار نہیں کیا جاسکتااس لئے کہ یہ خواہشیں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک ہیں اور حیوانی پہلو سے ان قابلیتوں کے فعال ہونے کا مطلب انسان کا تکامل پانا ہے ۔

۲۵۲

ایسے مرحلہ میں انسان کی انسانیت ابھی بالقوہ ہے اور اس کی حیوانیت بالفعل ہوچکی ہے اور یہ محدود ،ناپایدار اور سریع ختم ہونے والی صلاحیتیں انسان کی واقعی حقیقت یعنی نا قابل فنا روح ، اور ہمیشہ باقی رہنے والی لامحدود خواہش سے سازگار نہیں ہے انسان کی انسانیت اس وقت بالفعل ہوگی جب اس ناقابل فناروح کی قابلیت فعال ہواور کمال وسعادت اور ختم نہ ہونے والی خالص اور ناقابل فنا لذت بغیر مزاحمت ومحدود یت کے حاصل ہو ۔

انسان کا کمال نہائی

انسانی کمال اور اس کی عام خصوصیات کے واضح ہونے کے بعد یہ بنیاد ی سوال در پیش ہوتا ہے کہ انسانی کمال کا نقطۂ عروج اور مقصد حقیقی جسے ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنی تمام فعالیت جس کے حصول کے لئے انجام دیتا ہے وہ کیا ہیں ؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ انسان کا کمال نہائی کیا ہے ؟

اس سوال کے جواب کے وقت اس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ حوادث زندگی میں انسان کی طرف سے جن مقاصد کی جستجو ہوئی ہے وہ ایک جیسے مساوی اور برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اہداف، ابتدائی اہداف ہیں جو بلند وبالا اہداف کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور بعض نہائی اور حقیقی اہداف شمار ہوتے ہیں اور بعض درمیانی ہیں جو مقدماتی اور نہائی اہداف کے درمیان حد وسط کے طور پر واقع ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ، یہ تین طرح کے اہداف ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں. انسان کے نہائی کمال وہدف سے مراد وہ نقطہ ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی کمال، انسان کے لئے متصور نہیں ہے اور انسان کی ترقی کا وہ آخری زینہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے یہ تلاش وکوشش جاری ہے قرآن مجید نے اس نقطۂ عروج کو فوز (کامیابی ) ،فلاح (نجات ) اور سعادت (خوشبختی )جیسے ناموں سے یاد کیا ہے اور فرماتا ہے :

۲۵۳

( وَ مَن یُطِعِ اللّٰهَ و رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظِیماً ) (۱)

اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کوبہت اچھی طرح پہونچ گیا ۔

( أُولٰئِکَ عَلَیٰ هُدًی مِن رَّبِّهِم وِ أُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۲)

یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے

( وَ أَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیهَا )

اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بہشت میں ہوں گے ۔(۳)

قرآن مذکورہ مفاہیم کے نقطۂ مقابل کو ناکامی :( إِنَّهُ لا یُفلِحُ الظَّالِمُونَ ) (۴) (اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوںگے )ناامیدی اور محرومی :( وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (اور یقینا جس نے اسے بنا دیا وہ نامراد رہا ) شقاوت اور بد بختی سے تعبیر کرتا ہے:( فَأَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَهُم فِیهَا زَفِیر وَشَهِیق ) (۵) (تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی)

گذشتہ مطالب کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی توانائیوں میں سے ہر ایک کو کمال اور فعلیت کے مرحلہ میں پہونچنے کے لئے فقط اتنی ہی مقدار معتبر ہے جس میں ایجاد کمال نیز دائمی اورلازوال کمال کے تحقق کے اسباب فراہم ہوسکیں اور کمال نہائی کے حصول کا مقدمہ بن سکیں دوسرے لفظوں میں ان کا رشد وکمال ایک مقدمہ ہے اور اگرمقدماتی پہلو کا فقدان ہوجائے توانسان اپنی مطلوبیت اور اعتبار کو کھودیتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ احزاب ۷۱۔

(۲)سورہ بقرہ ۵۔

(۳)سورہ ھود ۱۰۸۔

(۴)سورہ قصص ۳۷۔

(۵)سورہ ھود ۱۰۶۔

۲۵۴

قرب الٰہی

اہم گفتگو یہ ہے کہ اس کمال نہائی کا مقام ومصداق کیا ہے ؟ قرآن کریم اس کمال نہائی کے مصداق کو قرب الہی بیان کرتا ہے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ہیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ہے اور سب سے اعلی ،خالص ، وسیع اور پایدار لذت ،مقام قرب کے پانے سے حاصل ہوتی ہے .قرب خدا کا عروج وہ مقام ہے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ہوتی ہے اور رحمت الہیسے فیضیاب ہوتاہے اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ہیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ہیں درجہ ذیل ہیں :

۱۔ِ( إنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَهَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ )

بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں پسندیدہ مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہوں میں ہوں گے ۔(۱)

۲.( فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَ اعتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدخِلُهُم فِی رَحمَةٍ مِّنهُ وَ فَضلٍ وَ یَهدِیهِم ِلَیهِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً ) (۲)

پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رہے تو خدا بھی انھیں عنقریب ہی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پہونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا ۔

اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ہے :

''ما تقرب لیّ عبد بشیٍٔ أحبّ لیّ ممّا فترضت علیه و أنّه لیتقرب

____________________

(۱) سورہ قمر ۵۴،۵۵۔

(۲) سورہ نسائ ۱۷۶۔

۲۵۵

لی بالنافلة حتیٰ أحبه فذا أحببته کنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصر به و لسانه الذی ینطق به و یده التی یبطش بها'' (۱)

کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شیٔ کے ذریعے مجھ سے نزدیک نہیں ہوتا ہے بندہ ہمیشہ (درجہ بہ درجہ ) مستحب کاموں سے (واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک ہوتا ہے حتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جب وہ مرا محبوب ہوجاتا ہے تواسکا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے اور اسکا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ہے ۔

قربت کی حقیقت

اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پہونچنے کے بغیر میسر نہیں ہے لیکن غلط مفاہیم کی نفی سے اس کو چاہے ناقص ہی سہی حاصل کیا جاسکتا ہے

کسی موجود سے نزدیک ہونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ہوتاہے یہ بات واضح ہے کہ قرب الٰہی اس مقولہ سے نہیں ہے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ہیںاور خداوند عالم زمان و مکان سے بالاتر ہے .اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جہاں سے مخصوص ہے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر چہ اس پر ظاہر ی آثار مترتب ہوتے ہیں کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ہے منجملہ انسان خدا وند عالم سے وابستہ ہے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ہمیشہ حاضر ہیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ہے :

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۳۵۲۔

۲۵۶

( وَ نَحنُ أَقرَبُ إِلَیهِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ ) (۱)

اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نہائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ہے

دوست ،نزدیک تراز من بہ من است

وین عجیب ترکہ من از وی دورم

''دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ میں اس سے دورہوں''

بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ہے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاہے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ہوجاتاہے. اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے اور اپنے نفسانی مشاہدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ہے:

( وُجُوه یَومَئِذٍ نَاضِرَة ٭ لَیٰ رَبِّهَا نَاظِرَة ) ۔(۲)

اس روز بہت سے چہرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے ۔

قرب الٰہی کے حصول کا راستہ

گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انسانی تکامل ،کرامت اکتسابی اور کمال نہائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ہے.لیکن یہ بات واضح رہے کہ ہر اختیاری عمل ،ہرانداز اورہرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اشارہ ہواہے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ہیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ہوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے

____________________

(۱)سورہ ق ۱۶۔

(۲)سورہ قیامت ۲۲، ۲۳۔

۲۵۷

ہوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ہے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ہوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نہیں ہیں:( إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ المُتَّقِینَ ) (۱) (خدا تو بس پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے )لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل ،ایمان اور عمل صالح ہیں.اس لئے کہ جو عمل تقوی ز کے ہمراہ نہ ہو خدا وند عالم کے سامنے پیش ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نہیں کہا جاسکتاہے۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ہے وہ در اصل عبادی عمل ہے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ہر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ہے''إنّما الأعمال بالنیات'' (۲) آگاہ ہو جاؤ کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ہے اور نیت وہ تنہا عمل ہے جو ذاتاً عبادت ہے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ہونا ، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ہونے کے اوپر ہے ، یہی وجہ ہے تنہا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ہوسکتا ہے وہ نیت ہے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ہیں اسی بنا پرنیت کے پاک ہوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نہیں ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ہدف عبادت بنایا گیا ہے:( وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ النسَ ِلا لِیَعبُدُونَ ) (۳) (اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰہی کو حاصل کرنا ہر کس و ناکس ، ہر قوم و ملت کے لئے ممکن نہیں ہے اور صرف اختیاری ہی عمل سے (اعضاو جوارح کے علاوہ )اس تک رسائی ممکن ہے ۔

مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۲۷۔

(۲)مجلسی، محمد باقر ؛ بحار الانوار؛ ج۷۶،ص۲۱۲۔

(۳)ذاریات ۵۶۔

۲۵۸

خواہش دنیا ، شیطان کی پیروی اور خواہش نفس(ہوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے.حضرت موسی کے دوران بعثت ،یہودی عالم'' بلعم باعور'' کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَاتلُ عَلَیهِم نَبَأَ الَّذِی آتَینَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنهَا فأَتبَعَهُ الشَّیطَانُ فَکَانَ مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاهُ بِهَا وَ لٰکِنَّهُ أَخلَدَ ِلَیٰ الأرضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ )

اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا ۔(۱)

تقرب خدا کے درجات

قرب الہی جو انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات رکھتا ہے حتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ہوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ہے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ہے. اور ہر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ہوتا ہے:( هُم دَرَجَات عِندَ اللّٰهِ ) (۲) (وہ لوگ (صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں (صاحب)درجات ہیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوند عالم سے دوری بھی درجات کا باعث ہے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ہے اسی بنا پر انسان کی زندگی میں ٹھہراو ٔاور توقف کا کوئی مفہوم نہیں ہے .ہر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ہے یا دور کرتاہے، ٹھہراؤ اس وقت متصور ہے جب انسان مکلف نہ ہو. اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ہے مکلف

____________________

(۱) سورہ اعراف ۱۷۵،۱۷۶۔

(۲)سورہ آل عمران ۱۶۳۔

۲۵۹

ہے چاہے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے ، تکامل یا تنزل سے ہمکنار ہوگا۔

( وَ لِکُلِّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَلُونَ )

اور جس نے جیسا کیا ہے اسی کے موافق (نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں سے) ہر ایک کے درجات ہیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے ۔(۱)

انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ہے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ہے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بہشت کے بہت سے درجات ہیںکہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔

ایمان ومقام قرب کا رابطہ

ایمان وہ تنہا شیٔ ہے جو خدا کی طرف صعود کرتی ہے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ہے:

( إِلَیهِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُهُ ) (۲)

اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پہونچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ہے ۔

انسان مومن بھی اپنے ایمان ہی کے مطابق خدا وند عالم سے قریب ہے.اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگااتناہی اس کا تقرب زیادہ ہوگا.(۳) اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ہے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ہواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاہوا ہے جو تقرب

____________________

(۱)سورہ انعام۱۳۲۔

(۲)سورہ فاطر۱۰۔

(۳)مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ خود شناسی برای خودسازی۔

۲۶۰