انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146120 / ڈاؤنلوڈ: 4873
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۱ ۔ ایک نسخہ شیخ کاشف الغطاء کے کتاب خانہ نجف اشرف میں ۔

۲ ۔ایک نسخہ جناب مرزا محمد علی اردوبادی کے کتاب خانہ نجف اشرف میں ۔

۳ ۔ ایک نسخہ جناب محدث نوری کے کتاب خانہ نجف اشرف میں کہ انہوں نے کتاب مستدرک میں اس سے کثرت سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۴ ۔ ایک نسخہ جناب علامہ امینی کے کتاب خانہ نجف اشرف میں کہ جس کی تاریخ کتابت ۳/ شوال ۹۵۶ ھئق ہے۔(۲)

۵ ۔ ایک نسخہ آیة اللہ مرعشی کے کتاب خانہ قم میں جس کا شمارہ ۴۹۰۳ ہے، کہ جس کے ۴۸۲ صفحات ہیں اور اس کے کتابت کی تاریخ گیارہویں صدی ہجری سے مربوط ہے ۔(۳)

اس کی فوٹو کاپی کتاب خانہ موسہ آل البیت قم میں ہے جس کا شمارہ ۵۲۰۹ ( قفسہ ۲۹ ردیف ۱۷۶ ش ۱۹) ہے ۔

یہ کتاب پہلی مرتبہ ماہ رمضان ۱۴۱۹ ھئقم میں ۷۰۴ صفحات کے ساتھ قم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ۔

یہ کتاب مزار کبیر کے نام سے مشہور ہوئی اور زیارت کے متعلق جامع ترین کتاب

________________________

۱۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طھرانی، ج۲۰،ص ۳۲۴۔

۲۔طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ طھرانی، قرن ششم ،ص۲۵۳۔

۳۔ فہرست کتاب خانہ آیة اللہ مرعشی ،سید احمد حسینی اشکوری ،ج۱۳،ص۸۳۔

۴۱

ہے۔ جو مختلف طولانی زمانے اور صدیوں کے حوادث سے محفوظ رہی ہے اور ہمارے زمانے تک باقی ہے ۔

آٹھ صدی کی طویل مدت اس کی تاریخ تالیف سے گزرچکی ہے ،یہ کتاب ہمیشہ اکابر علمائے شیعہ کے مورد اعتماد رہی ہے اور ہر وہ صاحبان کتاب کہ جنہوں نے اس آٹھ صدی کے دوران دعاوزیارت کے متعلق کتاب تحریر کی انہوں نے واسطہ یا بغیر واسطہ کے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے ۔

ابن مشہدی اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:

”میں نے اس کتاب میں مقامات مقدسہ کی زیارات و اعمال ،مساجد کے اعمال ، منتخب دعائیں اور واجب نمازوں کی تعقیبات کی جمع آوری کی ہے جو متصل سند کے ساتھ مورد اعتماد راویوں کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہے ۔“(۱)

آیة اللہ خوئی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:

”یہ جملہ صراحت کے ساتھ ان تمام راویوں کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے جو اس کتاب کے سلسلہ سند میں واقع ہوئے ہیں۔“(۲)

جناب آقا بزرگ تہرانی نے مجموعاً راویانِ حدیث کے پندرہ افراد کا استخراج کیا ہے اور ان کی وثاقت کا حکم لگایا ہے ۔(۳)

________________________

۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۲۷۔

۲۔ معجم رجال الحدیث ،سید ابو القاسم خوئی ،ج۱،ص ۶۵۔

۳۔ الذریعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ج۲۰،ص ۳۲۴۔

۴۲

ابن مشہدی اس کتاب میں ،دعائے ندبہ کو بہ عنوان ”وہ دعا جو حضرت صاحب الزمان کے لیے سزاوار ہے کہ چارعظیم عیدوں :عید فطر،عید قربان، عید غدیر اور عید جمعہ میں پڑھی جائے “ذکر کیا ہے۔

انہوں نے اس کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن یعقوب بن ابی قرّہ کے توسط سے کتاب بزوفری سے نقل کیا ہے ۔

دعائے ندبہ کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی کے نسخہ میں صفحہ ۸۲۱ سے ۸۳۷ تک اور آل البیت کے نسخہ میں صفحہ ۸۳۱ سے ۸۴۷ تک اور مطبوعہ نسخہ میں ۵۷۳ سے ۵۸۴ تک ذکر ہوئی ہے ۔(۱)

۴ ۔ صاحب کتاب مزار قدیم

مزار قدیم بھی گراں قدر اور بہت عظیم کتاب ہے کہ اس کے مولف بھی ابن مشہدی صاحب کے ہم عصر تھے

اس کتاب میں بہت سی دعائیں اور زیارتیں ہیں جو کسی دوسرے منابع میں نہیں مل سکتیں۔ اس کے مولف اپنے استاد کے ذریعہ ” مہدی بن ابی حرب حسینی“ الشیخ ابو علی (فرزند شیخ طوسی )سے روایت کرتے ہیں:

اس بیان کے مطابق وہ شیخ طبرسی رحمة اللہ علیہ صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ۔(۲)

________________________

۱۔صفحات کے اختلاف کا ارتباط شمارہ گزار ی سے ہے ورنہ نسخہ آ ل البیت کتاب خانہ مرعشی کے نسخہ کی فوٹو کاپی ہے۔

۲۔الذریعہ ،آغابزرگ تہرانی ،ص۳۲۲۔

۴۳

اس کتاب کا ایک خطی نسخہ کتاب خانہ آیة اللہ مرعشی میں شمارہ ۴۶۲،۱۸۱ صفحات میں موجود ہے ۔(۱)

مزار قدیم کے مولف اپنی اس گراں بہا یاد گاری کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن ابی قرّہ کے توسط سے ،کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بزوفری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”یہ دعا حضرت صاحب الزمان کے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں کے شب و روز میں پڑھی جائے ۔“

اس نسخہ میں دعائے ندبہ ۱۷۳ صفحہ سے شروع ہوتی ہے اور ۱۷۶ صفحہ تک ختم ہوتی ہے ۔

اس بات کے پیش نظر کہ کتاب مزار قدیم کے مولف غیر معروف ہیں لہذا اس پر ایک موثق منبع کے عنوان سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا ، صرف اسے ابن مشہدی کی نقل کے لیے ابن ابی قرّہ اور بزوفری سے بطور تائید قرار دیا جا سکتا ہے ۔

۵ ۔ رضی الدین علی ابن موسیٰ ابن طاووس حلّی

سید ابن طاووس نے اپنی گراں قدر کتاب مصباح الزائر میں حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی زیارتوں کے حصّے میں چھ زیارات نقل کی ہےں ،اس وقت دعائے ندبہ کو ساتویں زیارت کے عنوان سے ”محمد بن علی بن ابی قرّہ“ کے نقل کے مطابق ”محمد

_______________________

۱۔ فہرست کتابخانہ آیت مرعشی ، سید احمد حسینی اشکوری ،ج۲،ص ۶۸۔

۴۴

بن حسین بن سنان بزوفری “ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے :

”یہ دعا حضرت صاحب الزمان سے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے ۔ “(۱)

اسی طرح آپ کتاب اقبال میں بھی اسلامی عیدوں کی دعاؤں کی ایک مخصوص تعداد شمار کر تے ہوئے کہتے ہیں:

”ایک دوسری دعا ہے جو نماز عید کے بعد اور تمام چارعظیم عیدوں میں پڑھی جاتی ہے ۔“(۲)

اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کرتے ہیں اور آخر میں مزید فرماتے ہیں:

”جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو پروردگار کے مقابل سجدہ کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور کہو:

جو کچھ ہم نے امام جعفر صادق سے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ فرمایا: اس دعا کے بعد اپنا داہنا رخسار زمین پر رکھو اور کہو ”سیدی ،سیدیکم من عتیق لک ای عزیز ای جمیل “۔(۳)

اس تعبیر سے استفادہ ہوتا ہے کہ سید ابن طاووس نے مزار کبیر کے علاوہ دعائے

________________________

۱۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۶۔ ۴۵۳۔

۲۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۵۔

۳۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۹۔

۴۵

ندبہ کو دسرے طریقہ سے نقل کیا ہے ،اس لیے کہ مزار کبیر اور مزار قدیم میں یہ آخری حصہ موجود نہیں ہے اور سید نے تصریح کی ہے کہ اسے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق سے روایت کی ہے ۔

سید ابن طاووس عید قربان کے اعمال بیان کرتے وقت ان دعاؤں کو نقل کرتے ہیں کہ جسے نماز عید سے واپس ہونے کے بعد پڑھا جاتا ہے ،پھر کہتے ہیں:”منجملہ ان دعاؤں میں سے کہ جسے نماز عید قرباں کے بعد پڑھا جاتا ہے دعائے ندبہ ہے کہ جسے عید فطر کے باب میں ہم نے بیان کیا ہے “۔(۱)

۶ ۔ علی ابن علی ابن موسیٰ ابن طاووس

علی ابن علی ،فرزند سید ابن طاووس(۲) نے کتاب زوائد الفوائد(۳) میں دعائے ندبہ کو اپنے پدربزرگوار سے نقل کیا ہے ۔(۴)

_______________________

۱۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۴۴۹۔

۲۔ فرزند سید ابن طاووس ان کے پدر بزرگوار کی تحریر کے مطابق جمعہ کے دن ۸محرم ۶۴۷ھء ق نجف اشرف میں پیدا ہوئے (کشف المحجة ص۶۴۹) اور۶۸۰ھء ق میں ان کے بھائی جلال الدین محمد کے انتقال کے وقت سادات کی نقابت حاصل کی۔ (طبقات اعلام الشیعہ قرن ہفتم ،ص۱۰۷)

۳۔ اس کتاب کا خطی نسخہ سید محمد مشکات کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے۔(الذریعہ ،ج۱۲،ص ۶۰)

۴۔زوائد الفوائد ،علی بن علی بن موسیٰ حلی ،ص۴۹۳،نسخہ خطی کتاب خانہ مرکزی دانشگاہ تہران۔

۷۔علامہ محمد باقر مجلسی

۴۶

علامہ مجلسی نے دعائے ندبہ کو اپنی گراں قدر کتاب بحار الانوار میں مصباح الزائر کے نقل کے مطابق سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔(۱) اور آخر میں رقم طراز ہیں :

محمد بن مشہدی نے مزار کبیر میں کہا ہے : محمد بن علی بن ابی قرّہ کا قول ہے :

”میں نے دعائے ندبہ کو کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے۔“(۲)

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد میں بھی دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے اور اس کے آغاز میں کہتے ہیں:

”لیکن دعائے ندبہ جو برحق عقائد پر مشتمل ہے اور حضرت قائم کی غیبت پر اظہار افسوس ہے ،معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اس دعا ئے ندبہ کو چارعظیم عیدوں میں پڑھنا سنت ہے یعنی جمعہ ،عید فطر ،عید قرباں اور عید غدیر۔“(۳)

علامہ مجلسی اسی طرح کتاب تحفة الزائر میں سرداب مقدس کے اعمال کے بعد کہتے ہیں:

____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۱۰۴۔ ۱۱۰۔

۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۱۰۲،ص۱۱۰۔

۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۸۶۔

۴۷

”سید اور شیخ محمد بن مشہدی نے محمد بن علی بن (ابی) قرّہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے کہ ”دعائے ندبہ“ جو صاحب الزمان سے متعلق ہے مستحب ہے اسے چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے “۔

اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے ۔(۱)

جیسا کہ قارئین کرام نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ علامہ مجلسی نے ،کتاب زاد المعاد میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ دعائے ندبہ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت ہوئی ہے ،اور کتاب تحفة الزائر کے مقدمہ میں اس بات کے پابند ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں صرف زیارات، ادعیہ اور ان آداب کو ذکر کریں گے جو معتبر اسناد کے ذریعہ ائمہ دین سے منقول ہےں ۔(۲)

۸ ۔ سید محمد طباطبائی یزدی

علامہ جلیل القدر ،صدر الدین سید محمد طباطبائی یزدی (متوفیٰ ۱۱۵۴ ھئق) اپنی گراں قدر کتاب شرح دعائے ندبہ کے آغاز میں دعائے ندبہ کے متن کو سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ یہ امام جعفر صادق سے مروی ہے ۔(۳)

_____________________

۱۔ تحفة الزائر ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۳۴۔

۲۔ تحفة الزائر ، محمد باقر مجلسی ، ص۲۔

۳۔ فروغ ولایت ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ،ص۳۳۔

۹۔ سید حیدر کاظمی

۴۸

علامہ جلیل سید حیدر حسنی کاظمی ،(متوفیٰ ۱۲۶۵ ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب عمدة الزائر میں دعائے ندبہ کو سید ابن طاووس اور دوسروں سے روایت کی ہے ۔(۱)

۱۰ ۔ محدّث نوری

محدث بزگوار آقا مرزا حسین نوری (متوفیٰ ۱۳۲۰ ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب تحیة الزائر میں دعائے ندبہ کو مزار کبیر،مزار قدیم سے نقل کیا ہے اور مصباح الزائر سید ابن طاووس سے بھی روایت کی ہے ۔(۳)

۱۱ ۔ صدر الاسلام ہمدانی

دبیر الدین صدر الاسلام علی اکبر ہمدانی (متوفیٰ ۱۳۲۵ ھئق) اپنی گراں قدر کتاب تکالیف الانام میں وظیفہ نمبر ۳۴ کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں:

”یہ مبارک دعا کثرت شہرت کی وجہ سے آفتاب عالم تاب کی طرح ہے۔ بہتر ہے کہ ہر جمعہ کو حضرت کے چاہنے والے مرد عورت مساجد میں سے کسی مسجد یا عبادت گاہوں میں سے کسی عبادت گاہ میں جمع ہوں اور اس مبارک دعا کو انتہائی گریہ و زاری اور نالہ وشیون کے ساتھ نہایت حزن و ملال اور بے قراری سے پڑھیں اشک بہائیں اور اس روشن

________________________

۱۔ عمدة الزائر ،سید حیدر کاظمی ،ص۳۵۲۔۳۵۹۔

۲۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری ،ص۲۴۸۔

۴۹

آفتاب کی غیبت اور اس جان جاناں کی عدم موجودگی پر توجہ کریں فریاد و فغاں بلند کریں اور قلب پُر درد سے آہ سرد نکالیں۔

اور اس عظیم مصیبت کو آسان تصور نہ کریں، اس مصیبت عظمیٰ کو سہل گمان نہ کریں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے اسلام بالکل ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا ہے اور صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے ۔”ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدینا“۔

کفر اور فسق و فجور ناشکری تمام کرہ ارض پر چھا گئی ہے ،جو کچھ دستیاب نہیں ہے وہ مسلمان ہونے کے آثار ہیں اور جو کچھ ظاہر اور دستیاب ہے شیطانی آثار ہیں۔سب وادی غفلت اور ضلالت و جہالت کے لق و دق صحرا میں حیرا ن و سرگرداں شیطان کے سپاہیوں کے تابع ہیں اور حضرت صاحب الامر کے حکم کے نا فرمان ہیں ”اللّھمّ عجّل فرجہ و سھّل مخرجہ بمحمد و آلہ الطاھرین “۔(۱)

پھر اس وقت دعائے ندبہ کے متن کو صفحہ( ۱۹۰ سے ۱۹۶ تک) ذکر کیا ہے ،اپنے استاد (مرحوم آقا مرزا حسین نوری طاب ثراہ) سے نقل کیا کہ استاداعظم کہتے ہےں :

”مشہور و معروف دعائے ندبہ کا شب جمعہ اور روز جمعہ پڑھنا مستحب ہے جو حضرت مہدی سے متعلق ہے ۔ در حقیقت اس کے مضامین دل

_______________________

۱۔ تکالیف الانام ،علی اکبر ہمدانی (صدر الاسلام) ص۱۸۸۔

۵۰

شگاف اور جگر کو پاش پاش کرنے والے ہیں اور اس شخص کو خون کے آنسو رلانے والے ہیں کہ جس نے حضرت کے شربت محبت کو پیا ہے اور ان کے فراق کے زہر کی تلخی چکھی ہے ،جمعہ کے دن بلکہ شب جمعہ میں بھی (جیسا کہ کسی ایک مزارات قدیم میں کہ جس کے مولف شیخ طبرسی صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ان سے مروی ہے) پڑھی جانی چاہیے ۔“(۱)

پھر مزید کہتے ہیں:

مولف کہتے ہیں :”اس مبارک دعا کے پڑھنے کے من جملہ خواص میں سے یہ ہے کہ تمام زمان و مکان میں مکمل خلوص اور حضور قلب سے پڑھی جائے اور اس کی خاصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر اس کے مضامین عالیہ اور روشن عبارات و اشارات کی طرف متوجہ رہے تو صاحب العصر و الزمان ارواحنا فداہ کی مخصوص عنایات اس صاحب مکان کے شامل حال ہو گی بلکہ حضرت کی بھی اس مجلس میںتشریف آوری کا باعث ہوگی۔ جیسا کہ بعض مقامات پر ایسا اتفاق ہوا ہے ۔“

پھر ایک واقعہ ملازین العابدین سلماسی کا نقل کیا ہے۔(۲)

_____________________

۱۔تکالیف الانام، علی اکبر ہمدانی (صدر اسلام) ،ص۱۹۷۔

۲۔ گزشتہ حوالہ ۔

۵۱

۱۲ ۔ ابراہیم ابن محسن کاشانی

عالم ربّانی شیخ ابراہیم ابن محسن کاشانی (متوفیٰ ۱۳۴۵ ھئق) اپنی ارزش مند کتاب ”الصحیفة الھادیة و التحفة المھدیة“ میں جو آیت اللہ آقای سید اسماعیل صدر کی تقریظ کے ساتھ ایک صدی پہلے طبع ہوئی دعائے ندبہ کے متن کو کتاب بحار الانوار کے باب مزار سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۱۳ ۔ مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی

نادرہ زمان ،عاشق صاحب الزمان آقا مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی (متوفیٰ ۱۳۴۸ ھئق) نے مبارک کتاب مکیال المکارم میں ایک سو سے زیادہ ائمہ معصومین سے ماثورہ دعاؤں کو اس آفتاب عالم تاب کے زمانہ غیبت کے لیے نقل کیا ہے ، منجملہ ان میں سے دعائے ندبہ کو علامہ مجلسی اور محدث نوری کے نقل کے مطابق ذکر کیا ہے ۔(۲)

صاحب مکیال المکارم مزکورہ کتاب کے علاوہ ،کتاب وظیفہ مردم در غیبت امام زمان ظ میں بھی ۵۲ نمبر کے وظیفہ کے عنوان سے بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”جمعہ ،عید غدیر ،عید فطر اور عید قرباں کے دنوں میں دعائے ندبہ جو

____________________

۱۔ الصحیفة الھادیة ، ابراہیم بن محسن کاشانی (فیض کاشانی) ، ص۷۵۔۸۹۔

۲۔ مکیال المکارم ،السید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳۔۱۰۰۔

ظ یہ کتاب اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔(مترجم)

۵۲

سے متعلق ہے اور زاد المعاد میں موجود ہے توجہ کے ساتھ پڑھنی چاہیے ۔“(۱)

۱۴ ۔ محدّث قمّی

خاتم المحدّثین جناب شیخ عباس قمّی (متوفیٰ ۱۳۵۹ ھئق) اپنی با برکت کتاب مفاتیح الجنان میں جو مولف کے خلوص کے نتیجہ میں عالَم مشرق و مغرب میں پھیلی ہوئی ہے اور شیعیان اہل بیت کی ہر فرد کے گھر میں، ایک یا چند نسخے اس کے مل جائیں گے، سرداب مقدس کے اعمال کے ضمن میں اور حضرت صاحب الزمان کی زیارتوں کے ذیل میں دعائے ندبہ کو بھی مصباح الزائر سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔

۱۵ ۔ شیخ محمد باقر فقیہ ایمان

حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے عاشق دل باختہ ،جناب شیخ محمد باقر فقیہ ایمانی (متوفیٰ ۱۳۷۰ ھئق) جو ۷۷ کتابوں کے مولف ہیں ،ان میں سے ۲۷ جلد کعبہ مقصود قبلہ موعود ،حضرت صاحب الزمان سے مخصوص ہے ۔اپنی گراں قدر کتاب فوز اکبر میں دعائے ندبہ کے متن کو ( ۱۱۵ سے ۱۲۵ تک ) ذکر کیا ہے ،اس کے پڑھنے کی بہت تاکید کی ہے اور اس کے پڑھنے کی علت کو تین عنوان میں بیان کیا ہے :

۱ ۔انسان کا آنکھوں کی روشنی کے لیے حضرت کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرنا ۔

____________________

۱۔ وظیفہ مردم در غیبت امام زمانہ ، سید محمد تقی موسوی اصفہانی ، ص۷۹۔

۵۳

۲ ۔ حضرت کے ہمّ و غم کو دور کرنے کے لیے ۔

۳ ۔ تعجیل فرج کے ارادے سے۔(۱)

۱۶ ۔ سید محسن امین

عظیم مورخ سید محسن امین عاملی مولف اعیان الشیعہ (متوفیٰ ۱۳۷۱ ھئق) نے دعائے ندبہ کے متن کو کتاب مفتاح الجنّات میں ذکر کیا ہے ۔(۲)

اگر تمام دعاؤں اور زیارتوں کو نقل کرنا چاہیں کہ جس میں دعائے ندبہ کو نقل کیا گیا ہے تو ہماری بات طولانی اور وہ اس کتاب کی وسعت سے خارج ہو جائے گی، اس لحاظ سے ہم اپنی گفتگو یہیں ختم کرتے ہیں اور اس کی وسیع بحث کو کسی اور موقع پر موقوف کرتے ہیں مزید قارئین کرام کو اس کے متعلق جو مستقل طور پر کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔(۳)

____________________

۱۔ فوز اکبر ،محمد باقر فقیہ ایمانی ،ص۱۱۸۔

۲۔ مفتاح الجنّات ،سید محسن امین عاملی ،ج۲،ص ۲۶۰۔

۳۔ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لیے رجوع کریں ۔پاسخ ما بہ گفتہ ھا ،سید محمد مہدی مرتضوی لنگرودی ، تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ،رضا استادی ،فروغ ولایت در دعائے ندبہ ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ، مدارک دعائے شریف ندبہ ،جعفر صبوری قمی ، نشریة ینتشربھا انوار دعاء الندبہ ، شیخ محمد باقر رشاد زنجانی ،نصرة المومنین در حمایت از دعائے ندبہ ،عبد الرضا ابراہیمی ،مزکورہ بالا عناوین کی کتاب شناسی توصیفی کو کتاب نامہ حضرت مہدی ،ج۱،ص ۱۹۶، ۲۲۴،ج۲،ص۵۵۴،۶۳۷،۷۵۰،ا۷۵ میں ملاحظہ فرمائیں۔

>>>مکتب اسلام نامی ارزش مند مجلے میں اس سلسلے میں مقالات بھی نشر ہو چکے ہیں۔ (سال ۱۳، شمارہ ۶،۷،۸،۹)

اس سلسلے میں دوسرے آثار بھی طبع اور نشر ہو چکے ہیں جن کے عناوین کتاب نامہ حضرت مہدی میں ذکر ہوئے ہیں۔(ج۱،ص ۳۴۶۔۳۴۸)

جناب آیت الله شیخ محمد باقر صدیقین (متوفیٰ ۱۴۱۴هئق) نے سات کتابچه درسهائی از ولایت کے عنوان سے نشر کیے هیں که ان میں سے ایک دعائے ندبه سے دفاع کے لیے مخصوص ہے

۵۴

امام زمانہ کی دعائے ندبہ کی مجالس پر خاص عنایات

تجربه سے ثابت هوا ہے که حضرت ولی عصر ارواحنا فداه کے وجود اقدس کی طرف سے جن مجالس و محافل میں دعائے ندبه پڑهی جاتی ہے خاص عنایت هوتی ہے ، بعض تحریر شده کتابوں میں ان میں سے بعض عنایتوں کی طرف اشاره کیا گیا ہے اور اگر خدائے متعال توفیق عطا کرے تو ان میں سے بعض کو فرصت سے جمع آوری کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، هم یهاں صرف اس کی فهرست کی طرف مختصر طور پر اشاره کر رهے هیں:

۱ سرداب مقدس میں ملّا زین العابدین سلماسی کا واقعه جسے صدر الاسلام همدانی نے نقل کیا ہے(۱)

۲ آیت الله جناب مرزا مهدی شیرازی کا واقعه جسے علامه قزوینی نے مولف کے لیے نقل کیا ہے

۳ آیت الله میر جهانی کا واقعه جسے مولف نے متعدد مرتبه خود ان سے سنا ہے

________________________

۱تکالیف الانام، علی اکبر همدانی (صدر الاسلام )ص۱۹۷

۵۵

۴ بعض سعادت مند افراد کے واقعات که جسے علامه نهاوندی نے بغیر واسطه کے خود ان سے نقل کیا ہے(۱)

۵ بعض دوسری جماعت کے واقعات که جسے محدث نوری نے متصل سند کے ساته نقل کیا ہے(۲)

هم یهاں صرف ایک عاشق دل باخته کے واقعه کے نقل پر اکتفا کرتے هیں:

حضرت صاحب الزمان ارواحنا فداه کے عاشق دل باخته حضرت آیت الله شیخ محمد خادمی شیرازی (متوفیٰ ۱۴۱۹ هئق) جو گراں قدر تالیفات جیسے رجعت ، یاد مهدی اور فروغ بی نهایت کے مالک هیں مولف کے لیے نقل کیا ہے که تقریباً چالیس سال پهلے امام رضا کے حرم مطهر پر آستانه بوسی کے لیے مشرف هوا ،ایک شب جمعه کو اس مهربان امام کے حرم مطهر میں حضرت بقیة الله ارواحنا فداه کے فراق میں بهت زیاده آنسو بهایا ،جب اپنی قیام گاه پر پهنچا تو کچه دیر آرام اور عالم خواب میں حضرت مهدی کے چهره انور کو دیکها ،خدا حافظی کے وقت میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا هو جاؤں، کیا دوباره بهی مجه رو سیاه کو اپنے دیدار مبارک کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ فرمایا: همارے وعده دیدار کا وقت کل صبح دعائے ندبه ہے میں نے عرض کیا : اے میرے مولا! میں زائر هوں مجهے نهیں معلوم که دعائے ندبه کهاں پڑهی جاتی هے؟ فرمایا: سید جواد مجتهدی کے گهر میں میں خواب سے بیدار هوا وضو کیا حرم کی طرف چلا اور امام رضا کی عنایات کا شکریه ادا کیا نماز صبح کے بعد حرم سے نکلا مسجد گوهر شاد کے صحن میں جس پهلے شخص کا دیدار کیا میں نے اس سے دریافت کیا: مشهد میں دعائے ندبه کهاں پڑهی جاتی هے؟ جواب دیا: جناب سید مجتهدی کے گهر میں میں نے ان کے گهر کا پته لیا اور تیزی سے اس پُر فیض مجلس میں خود کو پهنچایا ،که مجلس بهت نورانی اور معنوی تهی اور اس چهره منورکو که جس کا رات عالَم خواب میں مشاهده کیا تها اپنے عاشقوں کے درمیان حاضر پایا تهے

____________________

۱ العبقری الحسان ،علی اکبرنهاوندی ،ج۲،ص ۱۰۱،۱۹۸

۲ دار السلام ،حسین بن محمد تقی نوری ،ج۲،ص ۲۲۴

۵۶

اسی طرح کا واقعه جناب محمد یزدی کے لیے بهی پیش آیا تها انهوں نے بهی امام رضا سے توسل کیا ان کو بهی سید مجتهدی کے گهر کی طرف رهنمائی هوئی تهی اور وهاں بهی کعبه مقصود کی خدمت میں ان کے لیے شرفِ حضور فراهم هوا تها یه نمونے حضرت بقیة الله ارواحنا فداه کی مجالس دعائے ندبه پر خاص عنایت کی نشان دهی کرتے هیں

کتاب کے اس حصه میں دوسرے سوال کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے اور دعائے ندبه کے سلسله اسناد کی زمانوں اور صدیوں کے اعتبار سے تحقیق پیش کی ہے اور سند کی تاکید اور استحکام کے لیے عظیم شخصیتوں کے اقوال جیسے علامه مجلسی کے قول کو نقل کیا ہے یهاں پر هم مزید یه کهتے هیں که:

فقه شیعه میں رائج سخت گیریاں ان اخبار اور احادیث کے متعلق ہے جو ایک ضروری حکم (واجب یا حرام) کے استنباط کی راه میں قرار پاتی هیں، لیکن مستحبی مسائل میں ،بالخصوص دعاؤں اور زیارتوں میں وه سخت گیری اور سندی موشکافی مرسوم نهیں ہے ،بلکه اسی مقدار میں که اس کے مضامین شرع پسند اور مقبول هوں اور ایک مشهور کتاب میں نقل هو بس یهی کافی ہے

لهٰذا اگر ایک دعا کی سند معتبر نه هو اور اس کا (بالخصوص) معصوم سے صادر هونا ثابت نه هو چونکه عمومی طور پر دعا کے لیے حکم هوا ہے اور دعا اعمال راجحه اور عبادات موکده میں سے ہے ،ان کا پڑهنا قرآنی اور حدیثی عمومات کے مطابق راجح اور مستحب ہے اور مقام عمل میں سندی سخت گیری کی ضرورت نهیں ہے ،بلکه” قاعده تسامح در ادله سنن“ اس مقام پر جاری ہے اور اتنی مقدار بهر اخروی ثواب حاصل کرنے کے لیے کافی ہے قاعده تسامح در ادله سنن بهت زیاده حدیثوں پر متوقف ہے که اسے ”احادیث من بلغ“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے یعنی : ان حدیثوں کی بنا پر ، اگر ایک نیک عمل میں اجر و ثواب خداوپیغمبر سے نقل هوا هو اور یه نقل کسی ایک فرد کو معلوم هو اور وه اس اجر و ثواب کو حاصل کرنے کے لیے اس عمل خیر کے لیے اقدام کرے تو خداوندمنّان اس ثواب کو اسے عنایت فرمائے گا اگر چه اس قسم کی کوئی حدیث حقیقت میں معصوم سے صادر نه هوئی هو

اس سلسلے میں معصومین سے بهت سی روایات نقل هوئی هیں(۱) اور شیخ انصاری

________________________

۱الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ج۲،ص ۸۷، المحاسن ،احمد بن محمد بن خالد البرقی ، ج۱،ص ۹۳، ثواب الاعمال شیخ صدوق ،ص۱۳۲، عدّّة الداعی ، احمد بن فهد حلّی ،ص۱۳، اقبال الاعمال سید ابن طاووس ،فلاح السائل سید ابن طاووس ،ص۱۲، مفتاح الفلاح شیخ بهائی ،ص۴۰۶، روضة المتقین ،محمد تقی مجلسی ،ج۱،ص ۴۵۵، مدارک الاحکام ، العاملی ، ج۱،ص ۱۸۷، وسائل الشیعه ،حرعاملی ،ج۱،ص ۸۰، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۲،ص ۲۵۶، مرآة العقول ،محمد باقر مجلسی ،ج۸،ص ۱۱۲

۵۷

نے جواز تسامح در ادلہ سنن کے متعلق مستقل رسالہ تحریر کیا ہے ۔

متن دعا قوی مضامین اور الفاظ کے استحکام بھی اس کے اعتبار میں اضافہ کا باعث ہےں ۔ اقوال معصومین کی روش گفتار کی معرفت اور شناخت رکھنے و الے افراد ایک متن کے مضمون اور مطالب کی تحقیق سے اس کا معصوم سے صادر ہونے یا صادر نہ ہونے کا اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔

جب آیت اللہ کاشف الغطا سے ”دعائے صباح“ ک ی سند کے متعلق سوال کیا گیا تو کہا:

ہر ایک صاحبان علم و ثقاقت کے لیے ایک اسلوب ہوا کرتا ہے اور بشری معاشروں کے ہر گروہ کے لیے بلکہ ہر ملت اور تمام ملک کے باشندوں کے لیے طور و طریقہ ہوتا ہے ائمہ علیہم السلام کے لیے بھی مقام دعا میں تعریف اور پروردگار کی حمد و ثنا کے لیے مخصوص شیوہ سخن ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ان کے اقوال سے مانوس ہو گا اسے تسلط اور کمانڈ حاصل ہو جائے گا کہ ان کے اقوال کو پہچانے اور ایسا شخص شک و شبہ نہیں کر ے گا کہ دعاء صباح ان سے صادر ہوئی ہے ۔(۱)

________________________

۱۔ فردوس الاعلی ،شیخ محمد حسین، کاشف الغطاء ،ص۵۰۔

۵۸

بہت سے بزرگوں نے ”دعائے ندبہ “اور زیارت”جامعہ کبیرہ“ کے مضامین عالیہ اور متن کی تحقیق کے متعلق کہا ہے کہ وہی صرف اس کے اعتبار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اس کی سند کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے ۔(۱)

ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی ان لوگوں کے مقابل میں جنہوں نے نہج البلاغہ کے بعض فقرات کا مولائے متقیان امیر المومنین سے صادر ہونے کے متعلق شک و شبہ کا اظہار کیا ہے یہی طریقہ استدلال پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نہج البلاغہ کے تمام فقرات حضرت کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔

انہوں نے ”خطبہ شقشقیہ “ کے متعلق مصدّق بن شبیب واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے:

۶۰۳ ھ ق میں اس خطبہ کو میں نے شیخ ابو محمد ،عبد اللہ بن احمد ،عرفیت ”ابن خشّاب“ کی خدمت میں پڑھان سے دریافت کیا: ”کیا آپ اس خطبہ کے جعلی اور نقلی ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں؟“۔

فرمایا: نہیں خدا کی قسم !

مجھے یقین ہے کہ یہ خطبہ حضرت کے اقوال کا حصہ ہے ،جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس کی تصدیق کرنے والے ہو۔

میں نے کہا: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سید رضی کے کلمات کا

________________________

۱۔ الانوار اللامعہ ،سید عبد اللہ شُبّر،ص۳۱۔

۵۹

حصہ ہے ۔

فرمایا: نہیں نہ رضی اور نہ غیر رضی ، ان کا طرز گفتگو کہاں اس قسم کا تھا؟ میں نے رضی کے مکتوبات کو دیکھا ہے اور ان کے نثر کے طریقہ کلام سے میں آشنا ہوں ۔(۱)

اس بیان کی بنا پر ،اعلی معارف ،درخشاں حقائق ،روشن معانی اور عمیق مطالب جو پسندیدہ اسلوب، بہترین بیان ،منطقی نما اور نہایت عظیم و فصیح عبارتیں اس مبارک دعا میں مزکور ہیں ،وہ ہمیں ہر قسم کی سند اور منبع و مصدر پیش کرنے سے بے نیاز کرتی ہیں کہ ایسے تابناک اور روشن ظریف نکات جو کبھی بھی ولایت کے صاف و شفاف چشمہ کے علاوہ کسی اور منبع و مصدر سے نشاة نہیں پاتے ۔

ہمارے استاد دانا حضرت آیت اللہ سید مرتضیٰ شبستری (متوفیٰ ۱۴۰۱ ھء ق) جو قرآنی اور حدیثی مسائل میں ایک بے مثال انسان تھے ،جس زمانے میں ائمہ اطہار کی ولایت و امامت کی بحث محکمات قرآن کی بنیاد پر حوزہ علمیہ قم کے ممتاز علماء و فضلاء کی جماعت کے لیے درس دیتے تھے ایک دن مسند درس پر فرمایا:

”میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے ہر فقرہ متواتر ہے اور تمام حوزہ علمیہ کے لوگوں کو اس سلسلے میں بحث و گفتگو کی دعوت عام دیتا ہوں۔ “

_______________________

۱۔ شر ح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ابو حامد ھبة اللہ مدائنی ،ج۱،ص ۲۰۵۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ہے شرک اور نفاق جلی کا ہے اور کہا جا چکا ہے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ہیں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

''نیّة الشرک فی أمتی أخفی من دبیب النملة السودائِ علیٰ صخرة الصّاً فی اللیلة الظلمائ'' (۱)

میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)طوسی ، خواجہ نصیر الدین ؛ اوصاف الاشراف ۔

۲۶۱

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی تمام جستجو وتلاش کمالات کو حاصل کرنے اور سعادت کو پانے کے لئے ہے۔

۲۔ وہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیںدنیاوی فکر رکھتے ہیں نیز کمال وسعادت اور اس کے راہ حصول کے معانی ومفاہیم کو مادی امور میں منحصر جانتے ہیں.

۳۔ہرموجودکا کمال منجملہ انسان، اس کے اندر موجودہ صلاحیتوں کا فعلیت پانا نیز اس کا ظاہر وآشکار ہوناہے

۴۔ قرآن مجید انسان کے کمال نہائی کو فوز(کامیابی)فلاح(نجات)اور سعادت (خوشبختی ) جیسے کلمات سے تعبیرکرتا ہے.اور کمال نہائی کے مصداق کو قرب الٰہی بتاتاہے

۵۔ اچھے لوگوں کے لئے مقام قرب الہی ایمان کے ساتھ ساتھتقویٰ اور شائستہ اختیاری عمل ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

۶۔ قرب الہی جس انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات کا حامل ہے حتی کہ انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط کے ہمراہ ہو تو انسان کو ایک حد تک خدا سے قریب کردیتا ہے.اس لئے اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کی بنیاد پر لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں .جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگا اسی اعتبار سے اس کا تقرب الہی زیادہ ہوگا اور ایمان کامل اورتوحید خالص، قرب الہی کے آخری مرتبہ سے مربوط ہے۔

۲۶۲

تمرین

۱۔صاحب کمال ہونے اور کمال سے لذت اندوز ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟

۲۔ انسان کی انسانیت اور اس کی حیوانیت کے درمیان کون سا رابطہ برقرار ہے؟

۳۔کمال نہائی کے حاصل ہونے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔آیات وروایات کی زبان میں اعمال نیک کو عمل صالح کیوں کہا گیا ہے؟

۵۔ اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں؟

۶۔اگرہرعمل کااعتبار نیت سے وابستہ ہے تو اس شخص کے اعمال جو دینی واجبات کو خلوص نیت کے ساتھ لیکن غلط انجام دیتا ہے کیوں قبول نہیں کیا جاتا ہے؟

۲۶۳

مزید مطالعہ کے لئے

۔ آذر بائجانی ، مسعود (۱۳۷۵) ''انسان کامل از دیدگاہ اسلام و روان شناسی '' مجلۂ حوزہ و دانشگاہ ، سال نہم ، شمارہ پیاپی۔

۔بدوی ، عبد الرحمٰن (۱۳۷۶) الانسان الکامل فی الاسلام ؛ کویت : وکالة المطبوعات ۔

۔جبلی ، عبد الکریم ؛ ( ۱۳۲۸)الانسان الکامل فی معرفة الاوایل و الاواخر؛ قاہرہ : المطبعة الازہریة المصریة ۔

۔جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶، تہران : رجائ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۷۲) انسان کامل از دیدگاہ نہج البلاغہ ؛ قم : قیام ۔

۔زیادہ ، معن ، (۱۳۸۶)الموسوعة الفلسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی ۔

۔ سادات ، محمد علی ، (۱۳۶۴)اخلاق اسلامی ، تہران : سمت۔

۔سبحانی ، جعفر (۱۳۷۱) سیمای انسان کامل در قرآن ؛ قم : دفتر تبلیغات اسلامی ۔

۔شولٹس ، ڈوال ( بی تا) روان شناسی کمال ؛ ترجمہ ، گیتی خوشدل ، تہران : نشر نو ۔

۔محمد تقی مصباح ( بی تا) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ؛ تہران : صدرا۔

۔نصری ، عبد اللہ؛ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب ؛ تہران : انتشارات دانشگاہ علامہ طباطبائی۔

۲۶۴

ملحقات

ناٹالی ٹربوویک، انسان کے نہائی ہدف اور اس کے راہ حصول کے سلسلہ میں علماء علوم تجربی کے نظریات کو جو کہ صرف دنیاوی نقطہ نگاہ سے ہیں اس طرح بیان کرتا ہے۔

مغربی انسان شناسی کے اعتبار سے کمال نہائی

انسان کو بہتر مستقبل بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیئے ؟انسان کی ترقی کے آخری اہداف کیا ہیں ؟ فرایڈ کے ماننے والے کہتے ہیں : انسان کا مستقبل تاریک ہے ، انسان کی خود پسند فطرت اس کے مشکلات کی جڑ ہے اور اس فطرت کی موجودہ جڑ وں کو پہچاننا اور اس کی اصلاح کرنا راہ تکامل(۱) کے بغیر دشوار نظر آتا ہے، فرایڈ کا دعویٰ ہے کہ زندگی کے نیک تقاضوں کو پورا کرنا ( جیسے جنسی مسائل) اور برے تقاضوں کو کمزور بنانا ( جیسے لڑائی جھگڑے وغیرہ ) شاید انسان کی مدد کرسکتا ہے جب کہ فرایڈ خود ان اصول پر عمل پیرا نہیں تھا ۔

ڈاکٹر فرایڈ کے نئے ماننے والے (مارکس، فروم ):انسان کی خطائیں معاشرے کے منفی آثار کا سر چشمہ ہیں لہٰذا اگر سماج اور معاشرہ کو اس طرح بدل دیا جائے کہ انسان کا قوی پہلو مضبوط اور ضعیف پہلو نابود ہوجائے تو انسان کی قسمت بہتر ہو سکتی ہے ، انسان کی پیشرفت کا آخری مقصد ایسے معاشرے کی ایجاد ہے جو تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کریں ۔

مارکسیزم مذہب کے پیروی کرنے والے ( مارکس ، فروم ) : جن کا مقصدایسے اجتماعی شوسیالیزم کا وجود میں لانا تھا جس میں معاشرے کے تمام افراد ، ایجادات اور محصولات میں شریک

____________________

(۱) Evolution

۲۶۵

ہوں، جب کہ انسان کی مشکلوں کے لئے راہ حل اور آخری ہدف اس کی ترقی ہے، معاشرے کے افراد اس وقت اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوشنود پائیں گے جب سب کے سب اجتماعی طور پر اہداف کو پانے کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔

فعالیت اور کردار کو محور قرار دینے والے افراد مثلا ا سکینر کا کہنا ہے: انسان کی ترقی کا آخری ہدف ، نوع بشر کی بقاء ہے اور جو چیز بھی اس ہدف میں مددگار ہوتی ہے وہ مطلوب و بہتر ہے ۔ اس بقا کے لئے ماحول بنانا ، بنیادی اصول میں سے ہے ، اوروہ ماحول جو تقاضے کے تحت بنائے جاتے ہیں وہ معاشرے کو مضبوط بنا سکتے ہیں نیز اس میں بقاکا احتمال زیادہ رہتا ہے (جیسے زندگی کی بہتری ، صلح ، معاشرہ پر کنٹرول وغیرہ )

نظریہ تجربیات کے حامی ( ہابز) کا کہنا ہے : انسان کے رفتار و کردار کو کنٹرول اور پیشن گوئی کے لئے تجربیات سے استفادہ کرنا اس کی ترقی کی راہ میں بہترین معاون ہے ۔

سود خوری کرنے والے ( بنٹام ، میل ) کا کہنا ہے : معاشرے کوچاہیئے کہ افراد کے اعمال و رفتار کو کنٹرول کرے اس طرح کہ سب سے زیادہ فائدہ عوام کی کثیر تعداد کو ملے ۔

انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے ( مازلو، روجر ) :مازلو کے مطابق ہر شخص میں ایک فطری خواہش ہے جو اس کو کامیابی و کامرانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے لیکن یہ اندرونی قوت اتنی نازک و لطیف ہے جو متعارض ماحول کے دباؤسے بڑی سادگی سے متروک یا اس سے پہلو تہی کرلیتی ہے ۔ اسی بنا پر انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کلید، معاشرے کو پہچاننے اور پوشیدہ قوتوں کی ہلکی جھلک، انسان کی تشویق میں مضمر ہے ۔

۲۶۶

روجر کا کہنا ہے :جملہ افراد دوسروں کی بے قید و شرط تائید کے محتاج ہیں تاکہ خود کو ایک فرد کے عنوان سے قبول کریں اور اس کے بعد اپنی انتہائی صلاحیت کے مطابق ترقی و پیش رفت کریں ، اسی لئے تائید کی میزان ِ افزائش انسان کی وضعیت کے بہتر بنانے کی کلید ہے اور ہر انسان کی اپنی شخصیت سازی ہی اس کی ترقی کا ہدف ہے ۔

انسان گرائی کا عقیدہ رکھنے والے ( می، فرینکل )کے مطابق :

می:کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے انسان کو جاننا چاہیئے کہ جب تک وہ صاحب ارادہ ہے اپنے اعمال کے لئے مواقع کی شناخت کرناچاہیئے اوراپنے حسِ ارادہ کو حاصل کرکے اپنی وضعیت بہتر بنانی چاہیئے ۔

فرینکل کہتا ہے کہ : ہروہ انسان جو کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی کے واسطے زندگی گذارنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیئے کہ وہ اس کی حیات کو اہمیت دے ۔ یہ معنی اور نظریہ ہر ارادہ کرنے والے کو ایک مبنیٰ فراہم کراتا ہے اور انسان کو مایوسی اور تنہائی سے نجات دلاتا ہے ۔

خدا کا یقین رکھنے والے( ببر ، ٹلیچ ، فورنیر) :کا کہنا ہے کہ ہمارا خدا اور اس کے بندے سے دوگانہ رابطہ ہمارے آزادانہ افعال کے لئے ہدایت کا سر چشمہ ہے اور انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہے ۔

۲۶۷

دسویں فصل :

دنیا وآخرت کا رابطہ

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :

۱۔ قرآن مجید میں کلمہ دنیا وآخرت کے استعمالات میں سے تیں موارد بیان کریں؟

۲۔دنیا وآخرت کے باری میں مختلف نظریات کی تجزیہ وتحلیل کریں؟

۳۔ رابطہ دنیا وآخرت کے مہم نکات کو ذکر کریں؟

۴۔ آخرت میں دنیاوی حالت سے مربوط افراد کے چار دستوں کانام ذکر کریں؟

۲۶۸

گذشتہ فصلوں میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان مادی اور حیوانی حصہ میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دنیا اس کی دنیاوی زندگی میں منحصر ہے.انسان ایک دائمی مخلوق ہے جو اپنے اختیاری تلاش سے اپنی دائمی سعادت یا بد بختی کے اسباب فراہم کرتی ہے اوروہ سعادت وبد بختی محدود دنیا میں سمانے کی ظرفیت نہیں رکھتی ہے. دنیا ایک مزرعہ کی طرح ہے جس میں انسان جو کچھ بو تا ہے عالم آخرت میں وہی حاصل کرتاہے اس فصل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دو عالم کا رابطہ اور دنیا میں انسان کی جستجو کا کردار ، آخرت میں اس کی سعادت وبد بختی کی نسبت کو واضح کریں ،ہم قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں اس رابطہ کے غلط مفہوم ومصادیق کومشخص اورجدا کرتے ہوئے اس کی صحیح وواضح تصویر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

قرآن مجید میں کلمہ ٔدنیا کے مختلف استعمالات

چونکہ قرآن مجید میں لفظ دنیا وآخرت کا مختلف ومتعدد استعمال ہوا ہے.لہٰذا ہم دنیا وآخرت کے رابطے کو بیان کرنے سے پہلے ان لفظوںکے مراد کو واضح کرنا چاہتے ہیں.قرآن میں دنیا وآخرت سے مراد کبھی انسان کی زندگی کا ظرف ہے جیسے( فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۱) ان لوگوں (مرتد افراد)کا انجام دیا ہوا سب کچھ دنیا و آخرت میں اکارت ہے ۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۱۷۔

۲۶۹

ان دو لفظوںکے دوسرے استعمال میں دنیا وآخرت کی نعمتوں کا ارادہ ہواہے.جیسے( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱) مگر تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔

ان دولفظوں کا تیسرا استعمال کہ جس سے مراد دنیاوآخرت میں انسان کا طریقۂ زندگی ہے، اور جو چیز اس بحث میں ملحوظ ہے وہ ان دو لفظوں کا دوسرا اور تیسرا استعمال ہے یعنی اس بحث میں ہم یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں کہ طریقۂ رفتار وکردارنیز اس دنیا میں زندگی گذارنے کی کیفیت کاآخرت کی زندگی اور کیفیت سے کیا رابطہ ہے۔؟

اس سلسلہ میں تجزیہ وتحلیل کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعد کے عالم پر صرف اعتقاد رکھنا ہمارے اس دنیا میں اختیاری کردارورفتار پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اسی وقت فائدہ مند ہے جب دنیا میں انسان کی رفتار وکردار اور اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی زندگی کی کیفیت کے درمیان ایک مخصوص رابطہ کے معتقد ہوں .مثال کے طور پر اگر کوئی معتقد ہو کہ انسان کی زندگی کا ایک مرحلہ دنیا میں ہے جو موت کے آجانے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور آخرت میں زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے جو اس کی دنیاوی زندگی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے تو صرف اس جدید حیات کا عقیدہ اس کے رفتار وکردار پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ان مراحل کے درمیان کوئی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کس طرح کا رابطہ ہے؟

دنیا و آخرت کے روابط کے بارے میں پائے جانے والے نظریات کا تجزیہ

ان لوگوں کے نظریہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو آخرت کی زندگی کو مادی زندگی کا دوسرا حصہ سمجھتے ہیں اسی لئے وہ اپنے مرنے والوں کے قبروں میں مادی امکانات مثال کے طور پر کھانا

____________________

(۱)سورہ اعلی ۱۶ و ۱۷ ۔

۲۷۰

اور دوسرے اسباب زینت رکھنے کے قائل ہیں،تاریخ انسانیت میں دنیا وآخرت کے درمیان تین طرح کے رابطے انسانوں کی طرف سے بیان ہوئے ہیں.

پہلا نظریہ یہ ہے کہ انسا ن اور دنیا وآخرت کے درمیان ایک مثبت اور مستقیم رابطہ ہے جو لوگ دنیا میں اچھی زندگی سے آراستہ ہیںوہ آخرت میں بھی اچھی زندگی سے ہم کنار ہوں گے ۔قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتاہے :

( وَ دَخَلَ جَنَّتَهُ وَ هُوَ ظَالِم لِّنَفسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هٰذِهِ أَبَداً٭وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّدِدتُّ لَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیراً مِنهَا مُنقَلَباً )

وہ کہ جس نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا تھا جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تو اس کا گمان بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ باغ اجڑ جائے گا اور میں تو یہ بھی خیال نہیں کرتا تھاکہ قیامت برپاہوگی اور جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاؤں گا تو یقینا اس سے کہیں اچھی جگہ پاؤں گا ۔(۱)

سورہ فصلت کی ۵۰ویں آیہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں :

( وَ لَئِن أَذَقنَاهُ رَحمَةً مِنَّا مِن بَعدِ ضَرَّائَ مَسَّتهُ لَیَقُولَنَّ هٰذَا لِی وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّجِعتُ ِلَیٰ رَبِّی ِنَّ لِی عِندَهُ لَلحُسنَیٰ )

اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہونچ جانے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو یقینی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ہی ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا بھی جاؤں تو بھی میرے لئییقینا اس کے یہاں بھلائی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ کہف ۳۵و۳۶۔

۲۷۱

بعض لوگوں نے بھی اس آیہ شریفہ( و َمَن کَانَ فِی هٰذِهِ أَعمَیٰ فَهُوَ فِی الآخِرَةِ أَعمَیٰ وَ أَضَلُّ سَبِیلاً ) ''اور جو شخص اس دنیامیں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ راست سے بھٹکا ہوا ہوگا''(۱) کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ: قرآن نے بھی اس مستقیم ومثبت رابطہ کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے تلاش نہیںکرتا ہے اور مادی نعمتوں کو حاصل نہیں کرپاتا ہے وہ آخرت میں بھی آخرت کی نعمتوںسے محروم رہے گا.

بعض لوگوں نے اس رابطے کے برعکس نظریہ ذکر کیا ہے ان لوگوںکاکہنا ہے کہ ہر قسم کی اس دنیا میں لطف اندوزی اور عیش پرستی، آخرت میں غم واندوہ کا باعث ہے اور اس دنیا میں ہر طرح کی محرومیت،آخرت میں آسودگی اور خوشبختی کاپیش خیمہ ہے،یہ لوگ شاید یہ خیال کرتے ہیںکہ ہم دو زندگی اور ایک روزی و نعمت کے مالک ہیں اور اگر اس دنیا میں اس سے بہرہ مند ہوئے تو آخرت میں محروم ہوں گے اور اگریہاں محروم رہے تو اس دنیا میں حاصل کرلیں گے۔

یہ نظریہ بعض معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کی طرف سے مورد تائید ہے اور وہ اس آیہ سے استدلال کرتے ہیں:

( أَذهَبتُم طَیِّبَاتِکُم فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنیَا وَ استَمتَعتُم بِهَا فَالیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ ) (۲)

تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے اڑا چکے اور اس میں خوب چین کر چکے تو آج (قیامت کے روز) تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا ۔

دو نوں مذکورہ نظریہ قرآن سے سازگار نہیں ہے اسی لئے قرآن مجید نے سینکڑوں آیات میں اس مسئلہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

____________________

(۱)سورہ اسرائ۷۲۔

(۲)سورہ احقاق ۲۰۔

۲۷۲

پہلے نظریہ کے غلط اور باطل ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو یاد کیا ہے جو دنیا میں فراوانی نعمت سے ہمکنار تھے لیکن کافر ہونے کی وجہ سے اہل جہنم اور عذاب الہی سے دوچار ہیں. جیسے ولید بن مغیرہ ،ثروت مند اور عرب کا چالاک نیز پیغمبر اکرم کے سب سے بڑے دشمنون میں سے تھا اوریہ آیہ اس کے لئے نازل ہوئی ہے.

( ذَرنِی وَ مَن خَلَقتُ وَحِیداً٭وَ جَعَلتُ لَهُ مَالاً مَمدُوداً٭وَ بَنِینَ شُهُوداً٭وَ مَهَّدتُّ لَهُ تَمهِیداً٭ثُمَّ یَطمَعُ أَن أَزِیدَ ٭ کَلاّ ِنَّهُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیداً٭ سَأُرهِقُهُ صَعُوداً ) (۱)

مجھے اس شخص کے ساتھ چھوڑ دو کہ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور نظر کے سامنے رہنے والے بیٹے اور اسے ہر طرح کے سامان میں وسعت دی پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں یہ ہرگز نہ ہوگا یہ تو میری آیتوں کا دشمن تھا تو میں عنقریب اسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا ۔

قارون کی دولت اور اس کی بے انتہا ثروت ، دنیاوی سزا میں گرفتارہونا اور اس کی آخرت کی بد بختی بھی ایک دوسرا واضح نمونہ ہے جو سورہ قصص کی ۷۶ویں آیہ اور سورہ عنکبوت کی ۳۹ویں آیہ میں مذکور ہے.دوسری طرف قرآن مجید صالح لوگوں کے بارے گفتگو کر تا ہے جو دنیا میں وقار وعزت اور نعمتوں سے محروم تھے لیکن عالم آخرت میں ،جنت میں ہیںجیسیصدر اسلام کے مسلمین جن کی توصیف میں فرماتاہے :

( لِلفُقَرَائِ المُهَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخرِجُوا مِن دِیَارِهِم وَ أَموَالِهِم یَبتَغُونَ فَضلاً مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضوَاناً وَ یَنصُرُونَ اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ أُولٰئِکَ هُمُ )

____________________

(۱)سورہ مدثر ۱۱تا۱۷۔

۲۷۳

( الصَّادِقُونَ٭...فَأُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۱)

ان مفلس مہاجروں کا حصہ ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے خدا کے فضل و خوشنودی کے طلبگار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایماندار ہیں ...تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ آخرت میں شقاوت وسعادت کا معیار ایمان اور عمل صالح نیز کفر اور غیر شائستہ اعمال ہیں، دنیاوی شان و شوکت اور اموال سے مزین ہونا اور نہ ہونانہیں ہے۔

( وَ مَن أَعرَضَ عَن ذِکرِی فَِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَ نَحشُرُهُ یَومَ القِیَامَةِ أعمَیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی أَعمَیٰ وَ قَد کُنتُ بَصِیراً ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتکَ آیاتُنَا فَنَسِیتَهَا وَ کَذٰلِکَ الیَومَ تُنسَیٰ ) (۲)

جو بھی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کے لئے سخت و ناگوار زندگی کا سامنا ہے اور اس کو ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ، تب وہ کہے گا الٰہی میں تو آنکھ والا تھا تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا خدا فرمائے گاجس طرح سے ہماری آیتیں تمہارے پاس پہونچیں تو تم نے انھیں بھلادیااور اسی طرح آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے ۔

یہ آیہ دلالت کرتی ہے کہ نامطلوب دنیاوی زندگی اگر کفر وگناہ کے زیر اثر ہو تو ہوسکتا ہے کہ آخرت کی بد بختی کے ہمراہ ہو. لیکن بری زندگی خود معلول ہے علت نہیں ہے جو گناہ و کفراور مطلوبہ نتائج (ایک دنیاوی امر دوسرا اخروی )کاحامل ہے،دوسرے نظریہ کے بطلان پر بھی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں جیسے:

( قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّٰهِ الَّتِی أَخرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ قُل هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الحَیَاةِ الدُّنیَا خَالِصَةً یَومَ القِیامَةِ )

____________________

(۱)سورہ حشر ۸و۹۔ (۲) طہ۱۲۴تا۱۲۶۔

۲۷۴

(اے پیامبر کہدو) کہ جو زینت اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطہ پیدا کی ہیں کس نے حرام قرار دیں تم خود کہدوکہ سب پاکیزہ چیزیں قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگی میں ایمان لائے ۔(۱)

حضرت سلیمان جن کو قرآن مجید نے صالح اور خدا کے مقرب بندوں میں شمار کیا ہے اورجو دنیاوی عظیم امکانات کے حامل تھے اس کے باوجود ان امکانات نے ان کی اخروی سعادت کو کوئی نقصان نہیں پہونچایا ہے۔

آیہ( أَذهَبتُم طَیِّبَاتکُم ) بھی ان کافروں سے مربوط ہے جنہوں نے دنیا وی عیش و آرام کو کفر اور انکار خدا نیز سرکشی اور عصیان کے بدلے میں خریدا ہے جیسا کہ ابتداء آیہ میں وارد ہوا ہے:( وَقِیلَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا... ) جن آیات میں ایمان اورعمل صالح اوراخروی سعادت کے درمیان نیزکفر وگناہ اوراخروی بد بختی کے درمیان رابطہ اتنا زیادہ ہے کہ جس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے اور یہ مطلب مسلم بھی ہے بلکہ اسلام وقرآن کی ضروریات میں سے ہے۔

رابطۂ دنیا وآخرت کی حقیقت

ایمان اورعمل صالح کا اخروی سعادت سے رابطہ اور کفر وگناہ کا اخروی شقاوت سے لگاؤایک طرح سے صرف اعتباری رابطہ نہیں ہے جسے دوسرے اعتبارات کے ذریعہ تبدیل کیا جاسکتا ہو اور ان کے درمیان کوئی تکوینی و حقیقی رابطہ نہ ہو اور ان آیات میں وضعی واعتباری روابط پر دلالت کرنے والی تعبیروں سے مراد، رابطہ کا وضعی واعتباری ہونا نہیں ہے بلکہ یہ تعبیریں انسانوں کی تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے استعمال ہوئی ہیں جیسے تجارت(۲) ، خرید وفروش(۳) سزا(۴) جزا(۵) اور اس کے مثل ، بہت سی آیات کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ انسان نے جو کچھ

____________________

(۱)سورہ اعراف ۳۲۔

(۲) (یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَل أَدُلُّکُم عَلَیٰ تِجَارَةٍ تُنجِیکُم مِّن عَذَابٍ أَلِیمٍ )(صف ۱۰ )

( اے صاحبان ایمان! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتادوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دے ) (۳)(إنَّ اللّهَ اشتَرَیٰ مِنَ المُؤمِنِینَ أَنفُسَهُم وَ أَموَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ )(توبہ ۱۱۱) (اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لئے ہیں کہ ان کے لئے بہشت ہے )

(۴)(وَ ذٰلِکَ جَزَائُ مَن تَزَکَّیٰ )(طہ۷۶)(اور جس نے اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اس کا یہی (جنت)صلہ ہے )

(۵)(فَنِعمَ أَجرُ العَامِلِینَ )(زمر۷۴) (جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی ان کے لئے کیاخوب مزدوری ہے )

۲۷۵

بھی انجام دیا ہے وہ دیکھے گا اور اس کی جزا وہی عمل ہے.

اچھے لوگوں کی جزا کاان کے اچھے کاموںسے رابطہ بھی صرف فضل ورحمت کی بنا پر نہیں ہے کہ جس میں ان کے نیک عمل کی شائستگی اور استحقاق ثواب کا لحاظ نہ کیا گیا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو عدل وانصاف ، اپنے اعمال کے مشاہدہ اور یہ کہ عمل کے مطابق ہی ہر انسان کی جزا ہے جیسی آیات سے قطعاً سازگار نہیں ہے ۔

مذکورہ رابطہ کو ایک انرجی کا مادہ میں تبدیل ہونے کی طرح سمجھنا صحیح نہیں ہے اور موجودہ انرجی اور آخرت کی نعمتوںکے درمیان مناسبت کا نہ ہونااور ایک انرجی کا اچھے اور برے فعل میں استعمال کا امکان نیز وہ بنیادی کردار جو آیات میں عمل ونیت کے اچھے اور برے ہونے سے دیاگیا ہے اس نظریہ کے باطل ہونے کی دلیل ہے.

گذشتہ مطالب کی روشنی میں ایمان وعمل صالح کا سعادت اور کفر وگناہ کا اخروی بد بختی سے ایک حقیقی رابطہ ہے اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمالملکوتی شکل میں ظاہر ہوںگے اور وہی ملکوتی وجود، آخرت کی جزا اور سزا نیز عین عمل قرار پائے گا۔

منجملہ وہ آیات جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

( وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأنفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّٰهِ ) (۱)

اور جو کچھ بھلائی اپنے لئے پہلے سے بھیج دوگے اس کو موجود پاؤ گے۔

( یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُّحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِنٍ

) ____________________

(۱)سورہ بقرہ۱۱۰ ۔

۲۷۶

سُوء تَوَدُّ لَو أَنَّ بَینَهَا وَ بَینَهُ أَمَداً بَعِیداً) (۱)

اس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز ہوجاتا

( فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَهُ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ )

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے اسے بھی دیکھ لے گا ۔(۲)

( إِنَّمَا تُجزَونَ مَا کُنتُم تَعمَلُونَ ) (۳)

بس تم کو انھیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے ۔

( إِنَّ الَّذِینَ یَأکُلُونَ أَموَالَ الیَتَامَیٰ ظُلماً ِنَّمَا یَأکُلُونَ فِی بُطُونِهِم نَاراً )

بے شک جو لوگ یتیم کے اموال کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے شکم میں آگ کھارہے ہیں۔(۴)

دنیا اور آخرت کے رابطہ میں دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنا نتیجۂ اعمال دیکھیںگے اور کوئی کسی کے نتائج اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی کسی کے برے اعمال کی سزا قبول کر سکے گا۔

( أَلا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ أُخرَیٰ وَ أَن لَّیسَ لِلِإنسَانِ ِلا مَا سَعَیٰ )

کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔(۵)

دوسرا نکتہ یہ ہے کے آخرت میں لوگ اپنی دنیاوی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ہونگے

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۳۰۔

(۲)سورہ زلزال ۷،۸۔

(۳)طور ۱۶ ۔

(۴)سورہ نساء ۱۰ ۔

(۵)سورہ نجم ۳۸،۳۹۔

۲۷۷

الف)وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں۔

( وآتَینَاهُ أَجرَهُ فِی الدُّنیَا وَ ِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ )

اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں بھی اچھا بدلہ عطا کیا اور وہ تو آخرت میں بھی یقینی نیکو کاروںمیں سے ہیں۔(۱)

ب)وہ لوگ جودنیا وآخرت میں محروم ہیں۔

( خَسِرَ الدُّنیَا وَ الآخِرَةَ ذٰلِکَ هُوَ الخُسرَانُ المُبِینُ )

اس نے دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھایا صریحی گھاٹا۔(۲)

ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میں بہرہ مند ہیں.

د) وہ لوگ جو آخرت میں محروم اور دنیا میں بہرہ مندہیں.

آخری دو گروہ کے نمونے بحث کے دوران گذرچکے ہیں ۔ دنیا وآخرت کے رابطے (ایمان وعمل صالح ہمراہ سعادت اور کفر وگناہ ہمراہ شقاوت )میں آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کاایمان اورعمل صالح اس کے گذشتہ آثار کفر کو ختم کردیتا ہے اور عمر کے آخری حصہ میں کفر اختیار کرناگذشتہ ایمان وعمل صالح کو برباد کردیتا ہے۔( کہ جس کو حبط عمل سے تعبیر کیا گیا ہے )

( وَ مَن یُؤمِن بِاللّٰهِ وَ یَعمَل صَالِحاً یُکَفِّر عَنهُ سَیِّئَاتِهِ ) ۔(۳)

اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے وہ اپنی برائیوںکو محو کردیتا ہے

( وَ مَن یَرتَدِد مِنکُم عَن دِینِهِ فَیَمُت وَ هُوَ کَافِر فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۴)

____________________

(۱)سورہ عنکبوت ۲۷۔

(۲)سورہ حج ۱۱۔

(۳)سورہ تغابن ۹۔

(۴)سورہ بقرہ ۲۱۷۔

۲۷۸

اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرگیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے گیا ،

اس نے اپنے دنیا و آخرت کے تمام اعمال برباد کردیئے ۔

دوسری طرف اگر چہ اچھا یابرا کام دوسرے اچھے یابرے فعل کے اثر کو ختم نہیں کرتاہے .لیکن بعض اچھے افعال ،بعض برے افعال کے اثر کو ختم کردیتے ہیں اور بعض برے افعال بعض اچھے افعال کے آثار کو ختم کردیتے ہیں مثال کے طور پر احسان جتانا، نقصان پہونچانا، مالی انفاق(صدقات) کے اثر کو ختم کردیتا ہے.

( لا تُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنِّ وَ الأذَیٰ ) (۱)

اپنی خیرات کو احسان جتانے اور ایذا دینے کی وجہ سے اکارت نہ کرو۔

اور صبح وشام اور کچھ رات گئے نماز قائم کرنا بعض برے افعال کے آثار کو ختم کردیتا ہے قرآن مجید فرماتاہے:

( وَ أَقِمِ الصَّلَٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ اللَّیلِ إنَّ الحَسَنَاتِ یُذهِبنَ السَّیِّئَاتِ )

دن کے دونوں طرف اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کروکیونکہ نیکیاں بیشک گناہوں کو دور کریتی ہیں۔(۲)

شفاعت بھی ایک علت وسبب ہے جو انسان کے حقیقی کمال وسعادت کے حصول میں موثر ہے.(۳)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۶۴۔

(۲)ھود۱۱۴۔

(۳) قرآن مجید کی آیات میں ایمان اور عمل صالح ، ایمان اور تقویٰ، ہجرت اور اذیتوں کا برداشت کرنا، جہادنیز کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا ، پوشیدہ طور پر صدقہ دینا ، احسان کرنا ، توبۂ نصوح اور نماز کے لئے دن کے ابتدا اور آخر میں نیزرات گئے قیام کرنا منجملہ ان امور میں سے ہیں جن کو بعض گناہوں کے آثار کو محو کرنے کی علت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو: محمد ۲؛مائدہ ۱۲؛ عنکبوت ۷؛ مائدہ ۶۵؛ آل عمران ۱۹۵؛ نساء ۳۱؛ بقرہ۲۷۱ ؛انفال ۲۹؛ زمر۳۵؛ تحریم ۸؛ ھود ۱۴۴۔اچھے اور برے اعمال کا ایک دوسرے میں اثرانداز ہونے کی مقدار اور اقسام کی تعیین کو وحی اور ائمہ معصومین کی گفتگو کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیئے اور اس سلسلہ میں کوئی عام قاعدہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

۲۷۹

اچھے اور برے اعمال ،حبط و تکفیر ہونے کے علاوہ اس دنیا میں انسان کی توفیقات اور سلب توفیقات ، خوشی اور ناخوشی میں موثر ہیں ، مثال کے طور پر دوسروں پر احسان کرنا خصوصاً والدین اور عزیزو اقربا پر احسان کرنا آفتوں اور بلاؤں کے دفع اور طول عمر کا سبب ہوتا ہے اور بزرگوں کی بے احترامی کرنا توفیقات کے سلب ہونے کا موجب ہوتا ہے ۔ لیکن ان آثار کا مرتب ہونا اعمال کے پوری طرح سے جزا و سزا کے دریافت ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حقیقی جزا و سزا کا مقام جہان اخروی ہے ۔

(۴) شفاعت کے کردار اور اس کے شرائط کے حامل ہونے کی آگاہی اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات اور ان کے جوابات سے مطلع ہونے کے لئے ملحقات کی طرف مراجعہ کریں ۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307