انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146134 / ڈاؤنلوڈ: 4876
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت ميں ہو ليکن پهلی مرتبہ کا جو خون عادت ميں ہو تين دن سے کم ہو تو ضروری ہے کہ دونوں خونوں کے دوران تروک حائض اور اعمال استحاضہ ميں جمع کرے اور درميانی پاکی کے دوران تروک حائض اور افعال طاہرہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٩٠ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر عادت ميں خون نہ دیکھے اور عادت کے علاوہ کسی اور وقت اپنے حيض کے ایام کی مقدار ميں خون دیکھے تو حيض کی علامات موجود ہونے کی صورت ميں اس خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩١ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت ميں خون دیکھے جو تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس خون کے ایام کی مقدار عادت کے ایام سے کم ہو یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد دوبارہ عادت کے ایام کے برابر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو اگر ان دونوں خون اور درميان کی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب کو حيض قرار دے اور زیادہ ہونے کی صورت ميں عادت ميں دیکھے ہوئے خون کو حيض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٢ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو جو خون عادت کے ایام ميں دیکھا ہو وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور جو خون عادت کے ایام کے بعد دیکھا ہے استحاضہ ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات ہوں مثلاً جس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہو، اگر پهلی سے بارہویں تک خون دیکھے تو پهلے سات دن حيض ہيں اور بعد والے پانچ دن استحاضہ ہيں ۔

٢۔وقتيہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٣ وقتيہ عادت والی عورتوں کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) ایسی عورت ہے جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر خون دیکھے اور چند دنوں کے بعد پاک ہو جائے ليکن خون دیکھنے کے دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں مساوی نہ ہو، مثلاً دو ماہ مسلسل پهلی تاریخ سے خون حيض دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو، لہٰذا اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کی پهلی تاریخ کو اپنے حيض کی عادت کا پهلا دن قرار دے۔

(دوم) ایسی عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين سے تين یا زیادہ دن خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون والے تمام ایام اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو ليکن دوسرے مهينے ميں پهلے کے مقابلے ميں کم یا زیادہ ہو مثلاً پهلے مهينے آٹھ دن اور دوسرے مهينے نو دن ہو۔ ایسی عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کے پهلے دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔

۸۱

مسئلہ ۴ ٩ ۴ وقتيہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے وقت یا اس سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا ابتدا عادت ميں اتنی تاخير ہو کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت ميں تاخير ہوگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں مثلاً تين دن سے پهلے پاک ہونے کی وجہ سے معلوم ہو جائے کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٩ ۵ وقتيہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور حيض کی نشانيوں کے ذریعے حيض کو پہچان نہ سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين، چاہے پدری ہوں یا مادری اور چاہے زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، کے ایامِ عادت کی مقدار کو اپنا حيض قرار دے اور اگر ان کی عادت چھ یا سات دن نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی عادت اور چھ یا سات دن کے درميان کی مدت ميں حيض اور استحاضہ دونوں کے احکام پر عمل کرے۔هاں، رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت کو اپنی عادت صرف اسی صورت ميں قرار دے سکتی ہے جب ان سب کے ایام حيض کی تعداد مساوی ہو۔ لہذا، اگر ان کے ایام حيض کی مقدار مساوی نہ ہو مثلاً بعض کی عادت پانچ دن اور دوسروں کی عادت سات دن ہو تو ان کی عادت کو اپنے لئے حيض قرار نہيں دے سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٩ ۶ جس وقتيہ عادت والی عورت نے اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو اپنا حيض قرار دیا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو دن ہر ماہ اس کی عادت کا پهلا دن ہو اس دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔ مثلاً جو عورت ہر ماہ پهلی تاریخ کو خون دیکھتی ہو اور کبهی سات اور کبهی آٹھ تاریخ کو پاک ہوتی ہو اگر کسی مهينے بارہ دن خون دیکھے اور اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن ہو تو ضروری ہے کہ مهينے کے ابتدائی سات دنوں کو حيض اور باقی ایام کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٧ جس عورت کو اپنی عادت رشتہ دار خواتين کی عادت کے مطابق قرار دینی ہے اگر اس کی رشتہ دار خواتين نہ ہوں یا ان کی عادت آپس ميں مساوی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ہر مهينے خون دیکھنے کے دن سے چھ یا سات دن تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣۔عدديہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٨ عددیہ عادت والی خواتين کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) وہ عورت ہے جس کے خون دیکھنے کے ایام کی تعداد مسلسل دو ماہ تک مساوی ہو ليکن خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو تو اس صورت ميں جن ایام ميں خون دیکھا ہو وہ اس کی عادت ہيں ۔

مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مهينے گيارہویں سے پندرہویں تک خون دیکھے تو اس کی عادت پانچ روز ہوگی۔

۸۲

(دوم) وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک تين یا زیادہ دن خون دیکھے اور ایک یا زیادہ روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور پهلے مهينے خون دیکھنے کا وقت دوسرے مهينے سے فرق رکھتا ہو تو اگر جن ایام ميں خون دیکھا ہے ان کے ساته درميانی پاکی کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور ان کے ایام بھی دونوں مهينوں ميں برابر ہوں تو جن دنوں ميں خون دیکھا ہو اور جن دنوں ميں پاک رہی ہو سب کو اپنے حيض کی عادت قرار دے۔ البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ درميانی پاکی کے ایام دونوں مهينوں ميں برابر ہوں مثلاً اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھنے کے بعد دو روز پاک رہے پھر دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے ماہ گيارہویں سے تيرہویں تک خون دیکھے اور دو دن یا اس سے زیادہ یا کم روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہے ۔

اسی طرح مثلاً اگر ایک ماہ ميں آٹھ روز خون دیکھے اور دوسرے ماہ چار دن خون دیکھے اور پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہوگی۔

مسئلہ ۴ ٩٩ عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی نشانيوں کے ساته اپنی عادت کے عدد سے کم یا زیادہ دن خون دیکھے جو دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ان سب کو حيض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر دیکھا ہوا تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ خون دیکھنے کی ابتدا سے اپنی حيض کی عادت کے عدد کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر دیکھا ہوا سارا خون ایک جيسا نہ ہو بلکہ چند روز خون حيض کی علامات کے ساته ہو اور چند روز استحاضہ کی علامات کے ساته تو اگر حيض کی نشانيوں والے خون کا عدد اس کی عادت کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر حيض کی علامات والا خون عادت کے عدد سے زیادہ ہو تو فقط عادت کی مقدار کو حيض قرار دے اور اس سے زیادہ جس ميں حيض کی علامات ہوں اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

اور اگر حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس کی عادت کے ایام سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان ایام کو حيض قرار دے اور اس کے بعد عادت کے عدد تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

۴ ۔ مضطربہ

مسئلہ ۵ ٠٠ مضطربہ یعنی وہ عورت جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو اور اس کی عادت معين نہ ہوئی ہو یا اس کی عادت بگڑگئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو۔ مضطربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور اگر تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو اگر اس کی رشتہ دار عورتوں کی عادت چھ یا سات دن ہو تو ان ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۳

اور اگر کم ہو مثلاً پانچ روز ہو تو ان کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ان کی عادت اور چھ یا سات روز کے درميان فرق ميں جو کہ ایک یا دو دن ہيں جو کام حائض پر حرام ہيں ترک کرے اور استحاضہ کے کام انجام دے۔

اور اگر اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن سے زیادہ ہو مثلاً نو دن ہو تو چھ یا سات دنوں کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر چھ یا سات اور ان کی عادت کے درميان فرق ميں جو کہ دو یا تين دن ہيں حائض پر حرام کاموں کو ترک کرے اور استحاضہ والے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٠١ مصظربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے جن ميں چند دن حيض کی علامات اور چند دن استحاضہ کی علامات موجود ہوں تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ سب خون حيض ہے ۔ ہاں، اگرحيض کی علامات والے سارے خون کو حيض قرار نہ دیا جاسکتا ہو مثلاً پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته، پھر پانچ دن استحاضہ کی نشانيوں کے ساته اور پھر دوبارہ پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته خون دیکھے ، تو اس صورت ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ حيض کی نشانيوں والے دونوں خون کو حيض قرار دینا ممکن ہو، اس طرح سے کہ ان ميں سے ہر ایک تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو ضروری ہے کہ ان دونوں خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے اور درميان ميں جو خون حيض کی علامات کے ساته نہيں ہے اسے استحاضہ قرار دے اور اگر ان ميں سے فقط ایک کو حيض قرار دینا ممکن ہو تو پھر اسی کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۵ ۔مبتدئہ

مسئلہ ۵ ٠٢ مبتدئہ یعنی وہ عورت جس نے پهلی بار خون دیکھا ہو۔ ایسی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور سارا خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔ اگر اس کی کوئی رشتہ دار خاتون نہ ہو یا ان کی عادت مختلف ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تين دن کو حيض قرار دے اور پهلے مهينے دس دن تک اور بعد والے مهينوں ميں چھ یا سات دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۵ ٠٣ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور ان ميں سے چند دن حيض کی علامات کے ساته اور باقی چند دن استحاضہ کی علامات کے ساته ہو تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ، ليکن اگر حيض کی علامات والا خون ختم ہونے کے بعد درميان ميں دس دن گزر نے سے پهلے دوبارہ حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے مثلاً پانچ دن سياہ خون، نو دن زرد خون اور دوبارہ پانچ دن سياہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ درميان والے خون کو استحاضہ قرار دے اور پهلے اور آخری خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے۔

۸۴

مسئلہ ۵ ٠ ۴ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے کہ جس ميں چند دن حيض کی نشانياں اور باقی روز استحاضہ کی علامات ہوں اور حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم ہو تو تمام خون کو استحاضہ قرار دے۔

۶ ۔ ناسيہ

مسئلہ ۵ ٠ ۵ ناسيہ کی تين اقسام ہيں :

١) صرف عددیہ عادت والی عورت تھی اور عدد بھول گئی۔ اس صورت ميں اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے اور اگر یہ مقدار چھ دن سے کم یا سات دن سے زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر حيض کی احتمالی مقدار اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، ان کے درميانی ایام ميں تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

٢) صرف وقتيہ عادت والی عورت تھی اور وقت بھول گئی۔ تو اس صورت ميں اگر حيض کی علامات والا خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب خون حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اتنا معلوم ہو کہ ان ميں سے بعض اس کی عادت کے ایام ہی تهے تو ضروری ہے کہ تمام خون کے دوران تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے اگر چہ سب یا بعض خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں۔ یهی حکم اس وقت ہے جب معلوم نہ ہو ليکن احتمال ہو کہ یہ خون ایامِ عادت ميں آیا ہے ۔

اور اگر ایامِ عادت ميں آنے کا احتمال بھی نہ ہو اور بعض ميں حيض اور بعض ميں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس ميں حيض کی علامات ہوں اگر وہ تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس سب کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور جب تمام خون ميں حيض کی علامات ہوں اور وہ دس دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات روز تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت تھی۔ اس کی تين صورتيں ہيں :

١) فقط وقت بھول گئی تو اس کا وظيفہ وهی ہے جو دوسری قسم ميں گزرا، سوائے یہ کہ خون علامات حيض کے ساته ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا اور دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت ميں اگر اس کی عادت چھ یا سات روز ہو تو اس کو حيض قرار دے اور اگر اس سے کم ہو یا زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، کے درميانی ایام ميں تروکِ حائض اور اعمالِ ستحاضہ ميں جمع کرے اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۵

٢) فقط عدد بھول گئی ہو تو اس صورت ميں وہ خون جو وقت ميں دیکھا ہو اس سے اتنی مقدار ميں جس کے بارے ميں یقين ہو کہ عادت سے کم نہيں ہے وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور اس کے بعد کے ایام ميں اگر حيض کی نشانيوں کے ساته ہو اور پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ نہ ہو توسارا کا سارا حيض ہے ، ليکن پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ ہو نے کی صورت ميں جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو اگر چھ

دن سے کم ہو تو اس مقدار کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس مقدار تک تروکِ حائض اور اعمالِ مستحاضہ ميں جمع کرے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو توچه یا سات روز ميں سے جسے اختيار کرے اس مقدار تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے لے کر دس دن گزرنے سے پهلے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

٣) وقت اور عدد دونوں بھول گئی ہو۔ اس صورت ميں اگر خون علامات کے ساته ہو اور تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ،ليکن اگر دس دن سے زیادہ ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا ہے توجس مقدار کے عادت ہونے کا احتمال ہو وہ اگر چھ یا سات دن ہو تو اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر چھ دن سے کم ہو تو اس کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جسے اختيار کرے اس دن تک احتياط واجب ہے کہ حائض اور مستحاضہ کے وظائف کا خيال رکھے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس دن تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے دس دن گزرنے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

اور اگر خون کی صفات مختلف ہوں یعنی بعض ميں حيض کی صفات اور بعض ميں استحاضہ کی صفات ہوں تو حيض کی صفات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہونے کی صورت ميں حيض ہے اور استحاضہ کی صفات والے خون کے بارے ميں اگرجانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا تو استحاضہ ہے اور اگر ایامِ حيض ميں آنے کا احتمال ہو تو ضروری ہے کہ حيض اور استحاضہ کے وظائف ميں احتياط کرتے ہوئے جمع کرے۔

حيض کے متفرق مسائل

مسئلہ ۵ ٠ ۶ مبتدئہ، مضطربہ، ناسيہ یا عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کردے اور جب معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا انجام دے اور اگر حيض کی علامات کے بغير خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات انجام دے، سوائے ناسيہ کے کہ اگر اسے عادت آجانے کا یقين ہو جائے تو جب تک عادت کے باقی ہونے کا احتمال دے ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کرے۔

۸۶

مسئلہ ۵ ٠٧ حيض کی عادت والی عورت، چاہے وقتيہ عادت والی ہو یا عددیہ عادت والی یا وقتيہ و عددیہ عادت والی، اگر دو ماہ مسلسل اپنی عادت کے خلاف ایسا خون دیکھے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں ایک ہی ہو تو وهی اس کی نئی عادت بن جائے گی جو اس نے ان دو مهينوں ميں دیکھی ہے ۔ مثلاً اگر مهينے کے پهلے دن سے خون دیکھتی اور ساتویں دن پاک ہوتی تهی، پھر جب دو ماہ تک دس کو خون دیکھے اور سترہ کو پاک ہو تو دس سے سترہ تک اس کی عادت ہوگی۔

مسئلہ ۵ ٠٨ ایک مهينہ گزرنے کا مطلب خون دیکھنے کے بعد سے تيس دن گزرنا ہے ، نہ کہ مهينے کی پهلی سے آخری تاریخ۔

مسئلہ ۵ ٠٩ جو عورت عام طور پر مهينے ميں ایک مرتبہ خون دیکھتی ہو اگر ایک مهينے ميں دو مرتبہ خون دیکھے اور دونوں ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو اگر درميان والے پاکی کے ایام دس دن سے کم نہ ہوں تو ضروری ہے کہ دونوں کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١٠ اگر تين یا اس سے زیادہ دن حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور بعد ميں دس دن یا اس سے زیادہ استحاضہ کی علامات کے ساته خون دیکھے پھر دوبارہ تين دن تک حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ حيض کی علامات والے پهلے اور آخری خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١١ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور معلوم ہو کہ اندر خون نہيں ہے تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے، اگرچہ اسے گمان ہو کہ دس دن گزرنے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا، ليکن اگر یقين ہو کہ دس دن تمام ہونے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے۔

مسئلہ ۵ ١٢ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون موجود ہے تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا تهوڑی روئی اندر ڈال کر تهوڑی دیر صبر کرنے کے بعد نکالے اور احتياط مستحب ہے کہ اس کام کو کھڑے ہو کر اس طرح کرے کہ پيٹ دیوار سے لگا ہو اور ٹانگ دیوار پر بلند ہو۔اب اگر پاک ہو تو غسل کر کے اپنی عبادات انجام دے اور اگر پاک نہ ہو اگرچہ روئی زرد رطوبت سے آلودہ ہو تو اگر وہ عورت حيض کی عادت نہ رکھتی ہو یا اس کی عادت دس دن کی ہو تو ضروری ہے کہ صبرکرے۔ اب اگر دس دن سے پهلے پاک ہو جائے تو اس وقت غسل کرے اور اگر دسویں دن پاک ہوجائے یا اس وقت تک پاک نہ ہو تو دسویں دن کے شروع پر غسل کرے۔اور اگر اس کی عادت دس دن سے کم ہو، تو اگر جانتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پهلے یا دسویں دن پاک ہوجائے گی تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے اور اگر احتمال ہو کہ خون دس دن سے تجاوز کر جائے گا تو ایک دن عبادات کو ترک کرنا واجب ہے ، البتہ اس کے بعد ميں وہ مستحاضہ کے اعمال انجام دے سکتی ہے ،بلکہ احتياط مستحب ہے کہ دسویں دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔ یہ حکم صرف اس عورت کے لئے ہے کہ جسے عادت سے پهلے مسلسل خون نہ آرہا ہو، ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۷

مسئلہ ۵ ١٣ اگر بعض ایام کو حيض قرار دے کر عبادات ترک کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ان ایام ميں ترک کی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا انجام دے اور اگر حيض نہ ہونے کے گمان سے عبادات انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض تھا تو ان ایام ميں رکھے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے ۔

نفاس

مسئلہ ۵ ١ ۴ بچے کی پيدائش کے بعد، ولادت کی وجہ سے ماں جو خون دیکھتی ہے اگر دس دن سے پهلے یا دسویں دن بند ہو جائے تو نفاس ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر بچے کا پهلا حصہ باہر آنے کے ساته جو خون دیکھے ، اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ عورت کو نفاس کی حالت ميں ”نفساء“ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١ ۵ بچے کا پهلا حصہ باہر آنے سے پهلے جو خون دیکھے ، وہ نفاس نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ١ ۶ ضروری نہيں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوئی ہو بلکہ اگر ناقص ہو تب بھی دس دن تک جو خون دیکھے نفاس ہے بشرطيکہ عرفاً کها جائے کہ اس نے بچے کو جنم دیا ہے ۔ ہاں، جب عرفی اعتبار سے شک ہو کہ اسے بچہ جننا کها جاسکتا ہے یا نہيں ، تو اس خون پر نفاس کے احکام نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١٧ ممکن ہے کہ خون نفاس ایک لمحہ سے زیادہ نہ آئے، ليکن دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتا۔

مسئلہ ۵ ١٨ جب تک شک ہو کہ کوئی چيز سقط ہوئی یا نہيں یا شک کرے کہ جو چيز سقط ہوئی ہے بچہ ہے یا نہيں ، تو تحقيق ضروری نہيں ہے اور جو خون خارج ہو رہا ہو وہ شرعاً خون نفاس نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ تحقيق کرے۔

مسئلہ ۵ ١٩ نفساء کے لئے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف، خداوند متعال کے اسم مبارک اور دوسرے اسمائے حسنیٰ سے مس کرنا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پران تمام کاموں کا جو حائضہ پر حرام ہيں ، یهی حکم ہے اور وہ تمام چيزیں جو حائضہ پر واجب ہيں نفساء پر بھی واجب ہيں ۔

مسئلہ ۵ ٢٠ حالت نفاس ميں عورت کو طلاق دینا باطل ہے اور اس کے ساته نزدیکی حرام ہے ، ليکن اگر اس کا شوہر اس سے نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢١ جب عورت نفاس سے اس طرح پاک ہو کہ اندر بھی خون باقی نہ رہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات انجام دے۔ اب اگر دوبارہ خون دیکھے اور دونوںخون دیکھنے والے اور درميان کے طهارت والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو اگر اس کی حيض کی عادت ہو اور یہ سارے ایام اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوں، مثلاً اگر اس کی عادت چھ دن ہو اور چھ دن کے درميان دو دن پاک رہی ہو تو تمام چھ دن نفاس ہيں ۔ اس کے علاوہ باقی صورتوں ميں ، جن ایام ميں خون دیکھے وہ نفاس اور جن ایام ميں پاک رہی ہو ان ميں احتياط واجب کی بنا پر تروکِ نفساء اور اعمال طاہرہ ميں جمع کرے۔

۸۸

مسئلہ ۵ ٢٢ اگرعورت خونِ نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون ہے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تهوڑی روئی اندر ڈال کر صبر کرے تاکہ اگر پاک ہو تو اپنی عبادات کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۵ ٢٣ اگر عورت کا خون نفاس دس دن سے تجاوز کر جائے تو حيض کی عادت رکھنے کی صورت ميں عادت کے ایام کو نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور عادت نہ ہونے کی صورت ميں دس دن تک نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔اور احتياط مستحب ہے کہ جس کی عادت ہو وہ عادت کے بعد والے دن سے اور جس کی عادت نہ ہو وہ دسویں دن سے بچہ جننے کے اٹھ ارہویں دن تک نفساء کے حرام کاموں کو ترک کرے اور مستحاضہ کے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٢ ۴ جس عورت کی عادتِ حيض دس دن سے کم ہو اگر اپنی عادت سے زیادہ خون دیکھے تو اپنی عادت کے برابر ایام کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک روز اور عبادت ترک کرے اور باقی ایام ميں دسویں دن تک اس کی مرضی ہے کہ مستحاضہ کے احکام جاری کرے یا عبادت کو ترک کرے۔

اور اگر خون دس دن سے تجاوز کر جائے تو ضروری ہے کہ عادت کے بعد سے استحاضہ قرار دے اور ان ایام ميں جن عبادات کو ترک کيا ہو ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دن ہو اگر چھ دن سے زیادہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ چھ دن کو نفاس قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ساتویں دن بھی عبادات ترک کرے اور آٹھ ویں، نویں اور دسویں دن اختيار ہے کہ یا تو ان عبادات کو ترک کرے یا استحاضہ کے اعمال انجام دے اور اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو اس کی عادت کے بعد والے دن سے استحاضہ ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢ ۵ حيض کی عادت رکھنے والی عورت اگر بچے کو جنم دینے کے بعد ایک مهينے یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو اس کی عادت کے ایام کی مقدار ميں نفاس ہے اور عادت کے بعد سے دس دن تک جو خون دیکھے استحاضہ ہے ، اگر چہ اس کی ماہانہ عادت کے ایام ميں ہو۔ مثلاً جس عورت کی عادت ہر مهينے کی بيسویں سے ستائيویں تک ہو اگر مهينے کی دسویں تاریخ کو جنم دے اور ایک ماہ یا زیادہ ایام مسلسل خون دیکھے تو سترہ تاریخ تک نفاس اور سترہ سے دس دن تک استحاضہ ہے حتی وہ خون بھی جو عادت ميں دیکھے ، جو بيسویں سے لے کر ستائيسویں تک ہے ۔

اور دس دن گزرنے کے بعد اگر ایسا خون دیکھے جو اس کی عادت ميں ہو تو حيض ہے چاہے علامات حيض ہوں یا نہ ہوں اور یهی حکم ہے اگر اس کی عادت کے ایام ميں نہ ہو ليکن حيض کی علامات موجود ہوں، ليکن اگر نہ عادت کے ایام ميں ہواور نہ ہی حيض کی علامات ہوں تو استحاضہ ہے ۔

۸۹

مسئلہ ۵ ٢ ۶ حيض ميں عدد کی عادت نہ رکھنے والی عورت اگر بچہ جننے کے بعد ایک ماہ یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو پهلے دس دن نفاس اور دوسرے دس دن استحاضہ ہے اور جو خون اس کے بعد دیکھے اگر اس ميں حيض کی علامات ہوں یا اس کی عادت کے ایام ميں ہو تو حيض ہے اور اگر نہ ہو تو یہ بھی استحاضہ ہے ۔

غسلِ مسِ ميّت

مسئلہ ۵ ٢٧ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کومس کرے جو ٹھنڈا ہوچکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گيا ہو، یعنی اپنے بدن کا کوئی حصّہ اس سے لگائے، تو اس کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ، خواہ اس نے نيند کی حالت ميں مردے کا بدن مس کيا ہو یا بيداری کے عالم ميں ، ارادی طور پر مس ہوا ہو یا غير ارای طور پر، حتی اگر اس کا ناخن یا ہڈی، مردے کے ناخن یا ہڈی سے مس ہو جائے تب بھی اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر مردہ حيوان کو مس کرے تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢٨ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو، اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ مس کيا ہو وہ ٹھنڈا ہوچکا ہو۔

مسئلہ ۵ ٢٩ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے یا اپنے بال مردے کے بالوں سے لگائے جب کہ بال اتنے ہوں کہ بدن کے تابع حساب ہوتے ہوں تو احتياط کی بنا پر غسل واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٠ مردہ بچے کو مس کرنے پر حتی ایسے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر جس کے چار مهينے پورے ہوچکے ہوں غسلِ مسِ ميت واجب ہے اور چار مهينے سے چھوٹے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر غسل واجب نہيں ہوتا مگر یہ کہ اس کے بدن ميں روح داخل ہوچکی ہو، لہٰذا اگر چار مهينے کا بچہ مردہ پيدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہوچکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصّے کو مس ہو جائے تو اس کی ماں کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣١ جو بچہ ماں کے مر جانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پيدا ہو، اگر وہ ماں کے ظاہری حصے کو مس ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص ایک ایسی ميّت کو مس کرے جسے تين غسل مکمل طور پر دئے جاچکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہيں ہوتا، ليکن اگر وہ تيسرا غسل مکمل ہونے سے پهلے اس کے بدن کے کسی حصّے کو مس کرے خواہ اس حصے کو تيسرا غسل دیا جاچکا ہو، اس شخص کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٣ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ، ميّت کو مس کرے تو دیوانے کے لئے عاقل ہونے اور بچے کے لئے بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے اور اگر بچہ مميّز ہو اور غسلِ مس ميت بجالائے تو اس کا غسل صحيح ہوگا۔

۹۰

مسئلہ ۵ ٣ ۴ اگر کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو ایک ایسا حصہ جدا ہو جائے جس ميں ہڈی ہو اور اس سے پهلے کہ اس حصّے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کرے تو احتياط کی بنا پر وہ غسلِ مسِ ميت کرے اور اگر وہ جدا ہونے والا حصہ بغير ہڈی کے ہو اس کو مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔هاں، اگر کسی زندہ انسان کے بدن سے کوئی حصہ جدا ہو توچاہے اس ميں ہڈی ہو اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ۵ ٣ ۵ بغير گوشت کی ہڈی کو مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو، خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے، غسل واجب نہيں ہے ۔ اسی طرح مردہ یا زندہ کے بدن سے جدا ہونے والے دانتوں کو مس کرنے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣ ۶ غسلِ مسِ ميت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا ضروری ہے اور جس شخص نے غسلِ مسِ ميت کرليا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے وضو کرنا واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٧ اگر کوئی شخص کئی ميّتوں کو مس کرے یا ایک ميّت کو کئی بار مس کرے، تو ایک غسل کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٨ جس شخص نے ميّت کو مس کرنے کے بعد غسل نہ کيا ہو اس کے لئے مسجد ميں ٹہرنا، بيوی سے جماع کرنا اور واجب سجدہ والی سورتوں کی تلاوت کرنا منع نہيں ہے ليکن نماز اور اس جيس عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ۔

محتضر کے احکام

مسئلہ ۵ ٣٩ جو مسلمان محتضر ہو، یعنی جان کنی کی حالت ميں ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، احتياط واجب کی بنا پر بصورت امکان اسے پيٹھ کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔ اگر مکمل طور پر اس طرح سے لٹانا ممکن نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر جهاں تک ممکن ہو اس حکم پر عمل کيا جائے۔ اسی طرح احتياط مستحب یہ ہے کہ جب اسے اس طرح سے لٹانا بالکل ناممکن ہو اسے قبلہ رخ بٹھ ا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے سيدهے پهلو یا اُلٹے پهلو قبلہ رخ لٹایا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٠ احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو اس جگہ سے اٹھ ایا نہ جائے، اسے قبلہ رخ ہی لٹائيں۔ اسی طرح احتياط مستحب کی بنا پر غسل دیتے وقت بھی قبلہ رخ لٹایا جائے، ليکن غسل مکمل کرنے کے بعد مستحب ہے کہ اسے اس طرح لٹائيں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہيں ۔

مسئلہ ۵۴ ١ محتضر کو قبلہ رخ لٹانا، احتياط کی بنا پر، ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر ممکن ہو تو محتضر سے اجازت لينا ضروری ہے اور اگر ممکن نہ ہو یا اس کی اجازت معتبر نہ ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے ولی سے اجازت لينا چاہيے۔

۹۱

مسئلہ ۵۴ ٢ مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت ميں ہو اس کے سامنے شهادتين، بارہ اماموں عليهم السلام اقرار اور دوسرے عقائد حقہ کو اس طرح دهرایا جائے کہ وہ سمجھ لے۔ اسی طرح مستحب ہے ان مذکورہ چيزوں کو موت کے وقت تک تکرار کيا جائے۔ اور نيز دعائے فرج کو محتضر کے لئے تلقين کيا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٣ مستحب ہے کہ یہ دعا محتضر کو اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیَ الْکَثِيْرَ مِنْ مَعَاصِيْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ مِنْ طَاعَتِکَ یَا مَنْ یَّقْبَلُ الْيَسِيْرَ وَ یَعْفُوْ عَن الْکَثِيْرَ، إِقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِيْرَ، اِنَّکَ ا نَْٔتَ الْعَفُوُّ الْغَفُوْرُ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِی فَاِنَّکَ رَحِيْمٌ ))

مسئلہ ۵۴۴ جس کی جان سختی سے نکل رہی ہو، اگر اس کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جهاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، مستحب ہے ۔

مسئلہ ۵۴۵ محتضر کے سرہا نے سورہ مبارکہ یاسين، سورہ صافات، سورہ احزاب، آیت الکرسی، سورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورہ بقرہ کی آخری تين آیات پڑھنا مستحب ہے ، بلکہ قرآن جتنا پڑھا جاسکے، پڑھا جائے۔

مسئلہ ۵۴۶ محتضر کو تنها چھوڑنا مکروہ ہے ۔ اور اسی طرح کسی چيز کا اس کے پيٹ پر رکھنا، جنب اور حائض کا اس کے قریب ہونا، زیادہ باتيں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنا مکروہ ہے ۔

مرنے کے بعد کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٧ مرنے کے بعد مستحب ہے کہ ميّت کی آنکہيں اور ہونٹ بند کردئے جائيں اور اس کی ٹھ وڑی کو بانده دیا جائے۔ نيز اس کے ہاتھ اور پاؤں سيدهے کر دئے جائيں اور اس کے اُوپر کپڑا ڈال دیا جائے، جنازے ميں شرکت کے لئے مومنين کو اطلاع دی جائے۔

اگر موت رات کو واقع ہوئی ہو تو موت واقع ہونے والی جگہ پر چراغ جلایا جائے اور اسے دفن کرنے ميں جلدی کریں۔ ليکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقين نہ ہو تو انتظار کریں تا کہ صورتحال واضح ہو جائے۔ نيز اگر ميّت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے ميں اتنا تاخير کریں کہ اس کا پهلو چاک کر کے بچے کو باہر نکال کر دوبارہ غسل کے لئے اس کا پهلو سی دیں اور بہتر یہ ہے کہ بچے کو باہر نکالنے کے لئے الٹا پهلو چاک کيا جائے۔

غسل، کفن، نماز اور دفن ميّت کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٨ مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز ميّت اور دفن ہر مکلّف پر واجب ہے ۔ ہاں، اگر بعض افراد ان امور کو انجام دیں تو دوسروں سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سب گناہ گارہوں گے۔

۹۲

مسئلہ ۵۴ ٩ اگر کوئی شخص تجهيز و تکفين کے کاموں ميں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے کوئی اقدام کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر وہ ان کاموں کو ادهورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے ان کاموں کو پایہ تکميل تک پهنچائيں۔

مسئلہ ۵۵ ٠ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا حجت شرعيہ رکھتا ہو کہ کوئی دوسرا ميّت کے کاموں ميں مشغول ہے تو اس پر واجب نہيں ہے کہ ميّت کے کاموں کے بارے ميں اقدام کرے، ليکن اگر اسے محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔

مسئلہ ۵۵ ١ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ميّت کا غسل، حنوط، کفن، نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، ليکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک کرے کہ صحيح تھا یا نہيں ، تو اس صورت ميں اقدام کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٢ غسل، حنوط، کفن، نماز اور دفن کے لئے ميت کے ولی سے اجازت لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٣ عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اوراگر مرنے والی کسی کی بيوی نہ ہو یا مرنے والا کوئی مرد ہو تو مرنے والے کے مرد وارث اس کی وارث عورتوں پر مقدم ہيں ۔ مردوں ميں بھی جو ورثے کے اعتبار سے مقدم ہے ولی ہونے کے اعتبار سے بھی وهی مقدم ہے ۔

ليکن اگر مرنے والے کے رشتہ داروں ميں دو ایسے افراد موجود ہوں جن ميں سے ایک رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے جب کہ دوسرا ورثے کے اعتبار سے، مثلاً اگر ميت کا دادا بھی موجود ہو اور ميت کے بيٹے کا پوتا بھی تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو ميراث کے اعتبار سے مقدم ہے ، وہ اس سے اجازت لے جو رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے ۔

مسئلہ ۵۵۴ اگر کوئی شخص کهے کہ ميں ميّت کا ولی ہوں یا ميّت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ ميّت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کهے کہ تجهيز و تکفين کے کاموں کے لئے ميں اس کا وصی ہوں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہو جائے یا ميّت اس کے اختيار ميں ہو یا دو عادل یا ایک ایسا قابل اعتمادشخص گواہی دے جس کی بات کے برخلاف کوئی ظن بھی نہ ہو، تو اس کی بات مان لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵۵ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن، اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ ميں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ولی سے بھی اجازت لے۔

اور جس شخص کو ميّت نے وصيت کی ہو وہ ميّت کی زندگی ميں وصی بننے سے منع کرسکتا ہے اور اگر قبول کرے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر ميّت کی زندگی ميں منع نہ کرے یا اس کا انکار وصيت کرنے والے تک نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس وصيت پر عمل کرے۔

۹۳

غسل ميت کا طريقہ

مسئلہ ۵۵۶ واجب ہے کہ ميّت کو تين غسل دئے جائيں۔

(اوّل) ایسے پانی کے ساته جس ميں بيری کے پتے ملے ہوئے ہوں۔

(دوم) ایسے پانی کے ساته جس ميں کافور ملا ہوا ہو۔

(سوم) خالص پانی کے ساته۔

مسئلہ ۵۵ ٧ ضروری ہے کہ بيری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ نہ کها جاسکے کہ بيری اور کافور اس پانی ميں ملائے گئے ہيں ۔

مسئلہ ۵۵ ٨ اگر بيری اور کافور اتنی مقدار ميں نہ مل سکيں جتنی کہ ضروری ہے تو احتياط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار ميّسر آئے پانی ميں ملا دی جائے۔

مسئلہ ۵۵ ٩ اگر کوئی شخص حج یا عمرے کے احرام کی حالت ميں مرجائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہيں دے سکتے بلکہ اس کی بجائے خالص پانی سے غسل دینا ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ حج کا احرام ہو اور سعی کو مکمل کرچکا ہو تو اس صورت ميں کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٠ اگر بيری اور کافور یا ان ميں سے کوئی ایک نہ مل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثال کے طور پر غصبی ہو، ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کی بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو احتياط واجب کی بنا پر ميت کو بدليت کے قصد سے خالص پانی سے غسل دیا جائے اور تيمم بھی اسی قصد کے ساته کرایا جائے۔

مسئلہ ۵۶ ١ جو شخص ميّت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ شيعہ اثناعشری، عاقل اور بنابر احتياط بالغ ہو اور مسائل غسل کو جانتا ہو اگر چہ ان مسائل کو غسل کے دوران سيکه رہا ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٢ جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ قربت کی نيت، جيسا کہ وضو ميں بيان ہوچکا ہے اور اخلاص رکھتا ہو اور اسی نيّت کا تيسرے غسل تک باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٣ مسلمان کے بچے کو، خواہ وہ ولدالزنا ہی کيوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، حنوط، کفن و دفن جائز نہيں ہے ۔ جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت ميں ہی بالغ ہو جائے چنانچہ اس کے ماں باپ یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو یا کسی دوسری وجہ سے اسلام کے حکم ميں ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے ، ورنہ اسے غسل دینا جائز نہيں ہے ۔

۹۴

مسئلہ ۵۶۴ اگر ایک بچہ چار مهينے یا اس سے زیادہ کا ہو کر سقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے اور اگر چار مهينے سے کم ہو اور اس کے بدن ميں روح بھی داخل نہ ہوئی ہو، احتياط واجب کی بنا پر اسے ایک کپڑے ميں لپيٹ کر بغير غسل دئے دفن کر دیا جائے۔

مسئلہ ۵۶۵ مرد کا عورت کو غسل دینا اور عورت کا مرد کو غسل دینا جائز نہيں ہے اور باطل ہے ، ليکن بيوی اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل دے سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل نہ دے۔

مسئلہ ۵۶۶ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو مميز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے بچے کو غسل دے سکتی ہے جو مميز نہ ہو۔ اگرچہ احتياط موکد یہ ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی تين سال سے زیادہ عمر کے ہوں، تو لڑکے کو مرد اور لڑکی کو عورت غسل دے۔

مسئلہ ۵۶ ٧ اگر مرد کی ميّت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو وہ عورتيں جو اس کی قربت دار اور محرم ہوں مثلاً ماں، بهن، پهوپهی اور خالہ یا وہ عورتيں جو نکاح یا رضاعت کے سبب محرم ہوگئی ہوں اسے غسل دے سکتی ہيں ۔ اسی طرح اگر عورت کی ميّت کو غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ ہو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم ہوں یا نکاح یا رضاعت کے سبب اس کے محرم ہوگئے ہوں، اسے غسل دے سکتے ہيں ۔ ہاں، احتياط واجب کی بنا پر مماثل کے ہوتے ہوئے محرم کی باری نہيں آتی۔ لباس کے نيچے سے غسل دینا واجب نہيں ہے ، اگرچہ اس طرح غسل دینا احوط ہے ليکن ضروری ہے کہ شرمگاہ پر نظر نہ ڈاليں اور احتياط کی بنا پر شرمگاہ کو ڈهانپ ليں۔

مسئلہ ۵۶ ٨ اگر ميّت اور غسّال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن برہنہ ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٩ بيوی اور شوہر کے علاوہ ميّت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہ گار ہے ليکن اس سے غسل باطل نہيں ہوتا۔

“ مسئلہ ۵ ٧٠ اگر ميّت کے بدن کا کوئی حصّہ نجس ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح مسئلہ” ٣٧٨

ميں بيان ہوچکا ہے پاک کيا جائے اور بہتر یہ ہے ہر عضو کو غسل دینے سے پهلے بلکہ ميّت کے پورے بدن کو غسل شروع ہونے سے پهلے دوسری نجاسات سے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ۵ ٧١ غسلِ ميّت، غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو غسل ترتيبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیاجائے اور غسل ترتيبی ميں بھی ضروری ہے کہ دا هنی طرف کو بائيں طرف سے پهلے دهویا جائے۔ ہاں، یہ اختيار ہے کہ پانی اس کے بدن پر ڈاليں یا بدن کو پانی ميں ڈبو دیں۔

۹۵

مسئلہ ۵ ٧٢ جو شخص حيض یا جنابت کی حالت ميں مرجائے اسے غسلِ حيض یا غسلِ جنابت دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اس کے لئے صرف غسلِ ميّت کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٣ ميّت کو غسل دینے کی اُجرت لينا جائز نہيں ہے اور اگر کوئی شخص اجرت لينے کے لئے ميّت کو غسل دے تو وہ غسل باطل ہے ، ليکن غسل کے غير ضروری ابتدائی کاموں کی اجرت لينا جائز ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۴ اگر پانی ميسر نہ ہو یا اس کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ ہر غسلِ ميّت کے بدلے ایک تيمم کرائے اور احتياط واجب کی بنا پر ان تين غسلوں کی بجائے ایک اور تيمم بھی کرائے اور اگر تيمم کرانے والا ان تيمم ميں سے ایک ميں مافی الذمہ کی نيت کرے، یعنی نيت کرے کہ یہ تيمم اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے کروا رہا ہوں جو مجھ پر واجب ہے تو چوتھا تيمم ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۵ جو شخص ميّت کو تيمم کرا رہا ہو اسے چاہيے کہ اپنے ہاتھ زمين پر مارے اور ميت کے چھرے اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو ميّت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تيمم کرائے۔

کفن کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ ۶ مسلمان ميّت کو تين کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے ، جنہيں لنگ، کرتہ اور چادر کها جاتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٧ لنگ اور کرتے کی واجب مقدار یہ ہے کہ عرفاً انہيں لنگ اور کرتہ کها جائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ لنگ، ناف سے گھٹنوں تک اطراف بدن کو ڈهانپ لے اور افضل یہ ہے کہ سينے سے پاؤں تک پهنچے، جب کہ کرتے ميں ضروری ہے کہ کندہوں کے سروں سے احتياط واجب کی بنا پر آدهی پنڈليوں تک تمام بدن کو ڈهانپ دے اور افضل یہ ہے کہ پاؤں تک پهنچے۔

اورچادر کی لمبائی اتنا ہونا ضروری ہے کہ پاؤں اور سر کی طرف سے گِرہ دے سکيں اور اس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہيے کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے پر آسکے۔

مسئلہ ۵ ٧٨ اگر وارث بالغ ہوں اور اس بات کی اجازت دیں کہ واجب کفن کی مقدار سے زیادہ جسے سابقہ مسئلہ ميں بيان کيا گيا ہے ، کو ان کے حصّے سے لے ليں تو کوئی اشکال نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفن کی واجب مقدار سے زیادہ کو نابالغ وارث کے حصّے سے نہ ليں۔

مسئلہ ۵ ٧٩ اگر کسی شخص نے وصيت کی ہو کہ کفن کی وہ مقدار جو افضل ہے اس کے تھائی مال سے لی جائے یا وصيت کی ہو کہ اس کا تھائی مال خود اس پر خرچ کيا جائے ليکن اس کے مصرف کا تعين نہ کيا ہو یا صرف اس کے کچھ حصّے کا مصرف معين کيا ہو تو کفن کی افضل مقدار کو اس کے تھائی مال سے ليا جاسکتا ہے ۔

۹۶

مسئلہ ۵ ٨٠ اگر مرنے والے نے یہ وصيت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تھائی مال سے ليا جائے اور اس کے اصل مال سے لينا چاہيں تو مسئلہ” ۵ ٧٨ “ ميں بيان کئے گئے طریقے پر عمل کریں۔

مسئلہ ۵ ٨١ عورت کے کفن کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اگر چہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کوطلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پهلے مرجائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے، جيسا کہ طلاق کے احکام ميں ذکر آئے گا اور اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو اس کے ولی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے، اور احتياط واجب کی بنا پر نافرمان اور جس عورت سے عقد مو قٔت کيا گيا ہو تو اس کا کفن شوہر پر ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٢ ميّت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگرميّت کا کوئی مال نہ ہو تو اسے وہ شخص کفن دے جس کے لئے ميّت کی زندگی ميں اس کے مخارج دینا ضروری تھا۔

مسئلہ ۵ ٨٣ واجب ہے کہ مجموعی طور پر کفن کے تين کپڑے اتنا باریک نہ ہوں کہ ميّت کا بدن نيچے سے نظر آئے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ تينوں کپڑوں ميں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ ميّت کا بدن اس کے نيچے سے نظر آئے۔

مسئلہ ۵ ٨ ۴ غصب کی ہوئی چيز کا کفن دینا، خواہ کوئی دوسری چيز ميّسر نہ ہو،جائز نہيں ہے اور اگر ميّت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اتار لينا چاہيے خواہ اس کو دفن بھی کيا جاچکا ہو۔ اسی طرح نجس مردار کی کھال کا کفن دینا اختياری حالت ميں جائز نہيں ہے ، بلکہ مجبوری کی حالت ميں بھی نجس مردار کی کھال کا کفن دینا محل اشکال ہے ۔ اسی طرح اختياری حالت ميں پاک مردار کی کھال کا کفن دینا بھی محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۵ ميّت کو نجس چيز، احتياط واجب کی بنا پر اس نجاست کے ساته جو نماز ميں معاف ہے ، اسی طرح خالص ریشم کے کپڑے کا یا ایسے کپڑے کا جس ميں دهاگا ریشم سے زیادہ نہ ہو اور احتياط واجب کی بنا پر زردوزی سے بنائے گئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہيں ہے ۔هاں،مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۶ ميّت کو حرام گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار کئے گئے کپڑے کا کفن دینااختياری حالت ميں احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم اس حلال گوشت جانور کی کهال سے کفن دینے کا ہے جسے شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح کيا گيا ہو۔ ہاں، حلال گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار شدہ کفن دینے ميں کوئی حرج نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ ان دو کا کفن بھی نہ دیا جائے۔

مسئلہ ۵ ٨٧ اگر ميّت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اسے دهونا یا اس طرح سے کاٹنا ممکن ہو کہ کفن ضائع نہ ہو تو ضروری ہے کہ اتنا مقدار کو جو نجس ہے دهویا یا کاٹا جائے، چاہے ميّت کو قبر ميں اتارا جاچکا ہو اور اگر

۹۷

اس کا دهونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو ليکن تبدیل کرنا ممکن ہو ضروری ہے کہ اسے تبدیل کيا جائے۔ البتہ یہ حکم نجاست کی اتنی مقدار تک جو نماز ميں معاف ہے ،احتياط پر مبنی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٨ اگر کوئی ایسا شخص جس نے حج یا عمرہ کا احرام بانده رکھا ہو مرجائے تو اسے دوسروں کی طرح کفن دینا ضروری ہے اور اس کا سر و چہرہ ڈهانپنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٩ انسان کے لئے اپنی زندگی ميں کفن تيار کرنا مستحب ہے اور جب بھی اس پر نظر ڈالے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے ۔

حنُوط کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٠ غسل کے بعد واجب ہے کہ ميّت کو حنوط کيا جائے یعنی اس کی پيشانی، دونوں ہتھيليوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹہوں پر کافور ملا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان مقامات پر کافور کی کچھ مقدار رکھی بھی جائے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ ميّت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا اور تازہ ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہوگئی ہو تو کافی نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٩١ احتياط مستحب یہ ہے کہ کافور، پهلے ميّت کی پيشانی پر ملاجائے ليکن دوسرے مقامات پر ملنے ميں ترتيب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٢ ميّت کو کفن پهنانے سے پهلے، کفن پهنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حُنوط کيا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٣ اگر ایسا شخص جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام بانده رکھا ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا جائز نہيں ہے ، ليکن حج کے احرام ميں اگر سعی مکمل کرنے کے بعد مرے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۴ اگر ایسی عورت جس کا شوہر مرگيا ہو اور ابهی اس کی عدت باقی ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۵ احتياط واجب یہ ہے کہ ميّت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئيں نہ لگائيں اور ان خوشبوؤں کو کافور کے ساته بھی نہ ملائيں۔

مسئلہ ۵ ٩ ۶ مستحب ہے کہ تربت سيدالشهداء امام حسين عليہ السلام کی کچھ مقدار کافور ميں ملائی جائے، ليکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہيں لگاسکتے جهاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب کافور کے ساته مل جائے تو اسے کافور نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ۵ ٩٧ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط ضروری نہيں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو ليکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلے پيشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔

مسئلہ ۵ ٩٨ مستحب ہے کہ دو ترو تازہ ٹہنياں ميّت کے ساته قبر ميں رکھی جائيں۔

۹۸

نمازِ ميّت کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٩ ہر مسلمان کی اور ایسے بچے کی ميّت پر جو اسلام کے حکم ميں ہو اور پورے چھ

سال کا ہوچکا ہو، نماز پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٠ ایسے بچے کی ميّت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو رجاء کی نيّت سے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن مردہ پيدا ہونے والے بچے پر نماز پڑھنا،مشروع نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠١ ميّت کی نماز، اسے غسل دینے، حنوط کرنے اور کفن پهنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اور اگر ان امور سے پهلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ہی کيوں نہ ہو، کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٢ جو شخص نمازِ ميّت پڑھنا چاہے ضروری نہيں کہ اس نے وضو یا غسل یا تيمم کر رکھا ہو اور اس کا بدن و لباس پاک ہو ں، بلکہ اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی نمازِ ميّت کے لئے کوئی حرج نہيں ۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان تمام چيزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نماز وں ميں لازمی ہيں ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر ان چيزوں سے پر هيز ضروری ہے جو اہل شرع کے درميا ن رائج نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٣ جو شخص نمازِ ميّت پڑھ رہا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ رخ ہو ۔ یہ بھی واجب ہے کہ ميّت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ ميّت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائيں طرف اور پاؤں اس کے بائيں طرف ہو ں۔

مسئلہ ۶ ٠ ۴ احتياط مستحب کی بنا پر جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ غصبی نہ ہو، ليکن ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ ميّت کے مقام سے اونچی یا نيچی نہ ہو ۔هاں، اگر معمولی پستی یا بلندی ہو تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۵ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت سے دور نہ ہو، ليکن جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو اور وہ ميّت سے دور ہو جب کہ صفيں آپس ميں متصل ہو ں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۶ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت کے سامنے کهڑا ہو ليکن اگر نماز باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صف ميّت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز ميں جو ميّت کے سامنے نہ ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٧ ضروری ہے کہ ميّت اور نماز پڑھنے والے کے درميا ن پر دہ، دیوار یا کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو ۔ ہاں، اگر ميّت تابوت یا اس جيسی کسی اور چيز ميں رکھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٨ نمازپڑھتے وقت ضروری ہے کہ ميّت کی شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو اور اگر اسے کفن پهنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرمگاہ کو، چاہے لکڑی کے تختے، اینٹ یا انهی جيسی کسی چيز سے ڈهانپ دیں۔

۹۹

مسئلہ ۶ ٠٩ نمازِ ميّت پڑھنے والے کا مومن ہونا ضروری ہے ۔ غير بالغ کی نماز اگر چہ صحيح ہے ليکن بالغين کی نماز کی جگہ نہيں لے سکتی۔ ضروری ہے کہ نمازِ ميّت کھڑے ہو کر، قربت کی نيت و اخلاص سے پڑھے۔ نيت کرتے وقت ميت کو معين کرے مثلاً نيت کرے: نماز پڑھتا ہو ں اس ميّت پر قربةً الی الله۔

مسئلہ ۶ ١٠ اگر کوئی کھڑے ہو کر نمازِ ميّت پڑھنے والا نہ ہو تو بيٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ۶ ١١ اگر مرنے والے نے وصيّت کی ہو کہ کوئی معين شخص اس کی نماز پڑھائے، احتياط مستحب ہے کہ وہ شخص ميّت کے ولی سے اجازت لے اور ولی بھی اجازت دے دے۔

مسئلہ ۶ ١٢ ميّت پر چند مرتبہ نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ۶ ١٣ اگر ميّت کو جان بوجه کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغير نماز پڑھے دفن کر دیا جائے تو جب تک اس کا بدن متلاشی نہ ہو ا ہو واجب ہے کہ نمازِ ميّت کے سلسلے ميں مذکورہ شرائط کے ساته اس کی قبر پر نماز پڑہيں ۔یهی حکم اس وقت ہے جب اس پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہو ۔

نمازِ ميّت کا طريقہ

مسئلہ ۶ ١ ۴ نمازِ ميّت ميں پانچ تکبيریں ہيں اور اگر نماز پڑھنے والا اس ترتيب کے ساته پانچ تکبيریں کهے تو کافی ہے :

نيت کرنے اور پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَات

چوتھی تکبير کے بعد اگر ميّت مرد ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذَا الْمَيِّت

اور اگر ميّت عورت ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذِهِ الْمَيِّت

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

خلاصہ فصل

۱ ۔دنیا میں انسان کی تلاش و کوشش آخرت میں اس کی بدبختی و خوشبختی میں بہت ہی اہم رول ادا کرتی ہے.

۲۔ دنیا وآخرت کے رابطے کے سلسلہ میں گفتگو کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعدکی دنیا پرعقیدہ رکھنا صرف اس دنیا ہی میں ہمارے اختیاری اعمال ورفتار پرموثر نہیں ہے بلکہ اس وقت یہ عقیدہ ثمر بخش ہے جب انسان کے اعمال ورفتار اور دنیا میں اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی کیفیت زندگی کے درمیان رابطہ کا یقین رکھتے ہوں.

۳۔ ایمان وعمل صالح کی سعادت اور کفر وگناہ کااخروی بد بختی کے درمیان ایک حقیقی رابطہ ہے.اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمال ملکوتیصورت میں ظاہری ہوتے ہیں اوراس کا وجود ملکوتی ہی آخرت میں حقیقی عمل نیزسزا اور جزا ہے۔

۴۔ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنے اعمال کے نتائج دیکھتے ہیں اور کوئی کسی کے نتائج

اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکتاہے اور کسی کے برے اعمال کی سزا بھی نہیں قبول کرسکتا ہے .(و ان لیس للانسان الا ماسعی) ۔

۵۔آخرت میں لوگ اپنی دنیا وی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ہیں:

الف) وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے مستفیض ہیں

ب) وہ لوگ جو دنیا وآخرت میں محروم ہیں.

ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میں بہرہ مند ہیں.

د)وہ لوگ جو آخرت میں محروم اور دنیا میں بہرہ مند ہیں.

۶۔ ایمان وعمل صالح اس وقت فائدہ مند ہیں جب انسان، آخری عمر تک اپنے ایمان کی حفاظت کرے۔

۲۸۱

تمرین

۱۔ عمرکے آخری حصہ میں کافر ہوجانے کی وجہ سے کیاکسی انسان کے تمام اعمال صالحہ کے تباہ وبرباد ہوجانے کی کوئی عقلی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟اور کس طرح؟

۲۔ انسان کا حقیقی کمال نیز بد بختی اور خوشبختی کے مسئلہ میں معاد کو تسلیم کرنے والوں کے نظریات اور منکرین معاد کے نظریات کا اختلاف کس چیز میں ہے ؟ مفہوم ومصداق میں یا دونوں میں یا کسی اور چیز میں ہے وضاحت کریں؟

۳۔ اگر ہر انسان عالم آخرت میں فقط اپنے اعمال کا نتیجہ پاتا ہے تو سورہ نحل کی ۲۵ویںآیہ سے مراد کیا ہے ؟

۴۔دنیاوی زندگی میں مندرجہ ذیل اقسامِ رابطہ میں سے کون سارابطہ مفید ہے ؟ اورکو ن سا آخرت میں مفید نہیں ہے؟

۔الف ۔ خاندانی رابطہ .ب۔ دوستی کا رابطہ. ج۔ اعتباری اور وضعی رابطہ (اعتباری اور وضعی قوانین ) (تکوینی رابطہ)(علّی قوانین)۔

۵۔ مرے ہوے لوگوں کی اخروی زندگی میں ،زندہ لوگوں کی دعاؤں کا کیا اثرہے اور کس طرح اس حقیقت (کہ ہر انسان فقط اپنے نتیجہ اعمال کو پاتا ہے)سے سازگار ہے؟

۲۸۲

مزید مطالعہ کے لئے :

۔حسینی طہرانی ، محمد حسین ؛ ( ۱۴۰۷)معاد شناسی ؛ ج۹، تہران : حکمت ۔

۔جوادی آملی ، عبد اللہ ؛ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدأ و معاد ؛ تہران : الزہراء

۔محمد حسین طباطبائی ؛ ( ۱۳۵۹) فرازھای از اسلام ؛ تہران : جہان آراء

۔ محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۰) آموزش عقاید ؛ ج۳ ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

۔ (۱۳۶۷) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ؛ قم : موسسہ درراہ حق ۔

۔مطہری ، مرتضی (۱۳۶۸) مجموعہ آثار ؛ ج۱، تہران : صدرا ۔

۔مطہری ، مرتضی (۱۳۶۹)مجموعہ آثار ؛ ج۲ تہران : صدرا ۔

۔ مطہری ، مرتضی (۱۳۵۴) سیری در نہج البلاغہ ؛قم : دار التبلیغ اسلامی ۔

۲۸۳

ملحقات

۱۔ شفاعت

شفاعت ، شفع (جفت ،زوج ) سے لیا گیا ہے.اور عرف میں یہ معنی ہے کہ کوئی عزت دار شخص کسی بزرگ سے خواہش کرے کہ وہ اس کے (جس کی شفاعت کر رہا ہے )جرم کی سزا معاف کردے. یا خدمت گذار فرد کی جزا میں اضافہ کردے ۔

شفاعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان، شفیع کی مدد کے بغیر سزا سے بچنے یا جزا کے ملنے کے لائق نہیں ہے لیکن شفیع کی درخواست سے اس کے لئے یہ حق حاصل ہوجائے گا۔

شفاعت ،برائیوں سے توبہ وتکفیر کے علاوہ ہے گنہگاروں کی امید کی آخری کرن اور خداوندعالم کی رحمت کا سب سے عظیم مظہر ہے. شفاعت کامعنی شفیع کی طرف سے خدا وند عالم پر اثر انداز ہونا نہیں ہے .شفاعت کا انکار کرنے والی آیات سے مراد جیسے(لا یُقبَلُ مِنھَا شَفَاعَة)''سورہ بقرہ ۴۸و۱۲۳''کی آیہ کے یہی معنی ہے.لفظ شفاعت کبھی وسیع تر معنی یعنی دوسرے انسان کے ذریعہ کسی انسان کے لئے کسی طرح سے اثر خیر ظاہر ہونے میں استعمال ہوتا ہے.جیسے فرزندوں کے لئے والدین کا موثر ہونا اور اس کے برعکس یعنی والدین کے لئے بچوں کا موثر ہونایا اساتید اور رہنما حضرات کاشاگردوں اور ہدایت پانے والوں کے حوالے سے حتی مؤذن کی آواز ان لوگوں کے لئے جو اس کی آواز سے نماز کو یاد کرتے ہیں اور مسجد جاتے ہیں .شفاعت کہا جاتاہے .وہی اثر خیر جو دنیا میں تھا آخرت میں شفاعت کی صورت میں ظاہر ہوگا جس طرح گناہوں کے لئے استغفارنیزدوسرے دنیاوی حاجات کے پورا ہونے کے لئے دعا کرنے کو شفاعت کہا جاتاہے۔

شفاعت کے مندرجہ ذیل قوانین ہیں:

الف) خداوند عالم کی طرف سے شفیع کو اجازت

ب) شفاعت پانے والوں کے اعمال نیز اس کی اہمیت و عظمت سے شفاعت کرنے والوں کا آگاہ ہونا۔

ج) دین وایمان کے حوالے سے شفاعت پانے والوں کا ممدوح اورپسندیدہ ہونا.

۲۸۴

حقیقی شفاعت کرنے والے خداوند عالم کی طرف سے ماذون ہونے کے علاوہ معصیت کار اور گنہگارنہ ہوں اہل اطاعت ومعصیت کے مراتب کو پرکھنے کی ان کے اندر صلاحیت ہونیز شفاعت کرنے والوں کے ماننے والے بھی کم ترین درجہ کے شفیع ہوں ،دوسری طرف وہی شفاعت پانے کے قابل ہیں جو خدا وند کریم کی اجازت کے علاوہ خدا، انبیاء حشر اور وہ تمام چیزیں جو خدا وند عالم نے اپنے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں منجملہ ''شفاعت''پر حقیقی ایمان رکھتے ہوں اور زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے ایمان کو محفوظ رکھے ہوں اور جو لوگ نماز کو ترک کریںاور فقرا کی مدد نہ کریں نیزروز قیامت کی تکذیب کریںاور خود شفاعت سے انکار کریں یااس کو ہلکا سمجھیں توایسے لوگ شفاعت سے محروم ہیں.

اس دنیا میں شفیع کی شفاعت کا قبول کرنا شفیع کی ہمنشینی اور محبت کی لذت کے ختم ہوجانے کاخوف یا شفیع کی طرف سے ضرر پہونچنے کا اندیشہ یا شفیع سے شفاعت کے قبول کرنے کی ضرورت کی وجہ سے شفاعت انجام پاتی ہے لیکن خداوند عالم کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والوںکی شفاعت کے قبول ہونے کی دلیل مذکورہ امور نہیں ہیں بلکہ خدا وند عالم کی وسیع رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ دائمی رحمت کے حاصل کرنے کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں ان کے لئے شرائط وضوابط کے ساتھ کوئی راستہ فراہم کرنے کا نام شفاعت ہے ۔

۲۸۵

۲۔ شفاعت کے بارے میں اعتراضات و شبہات

شفاعت کے بارے میں بہت سے اعتراضات و شبہات بیان کئے گئے، یہاں پرہم ان میں سے بعض اہم اعتراضات و شبہات کا تجزیہ کریں گے۔

پہلا شبہہ :پہلا شبہہ یہ ہے کہ بعض آیات قرآنی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روز قیامت کسی کی بھی شفاعت قبول نہیںکی جائے گی جیسا کہ سورہ بقرہ کی ۴۸ویں آیہ میں فرماتا ہے:

( وَ اتَّقُوا یَوماً لا تَجزِی نَفس عَن نَّفسٍ شَیئاً وَ لا یُقبَلُ مِنهَا شَفَاعَة وَ لا یُؤخَذُ مِنهَا عَدل وَ لا هُم یُنصَرُونَ )

جواب: اس طرح کی آیات بغیر قاعدہ وقانون کے مطلقاًاور مستقل شفاعت کی نفی کرتی ہیں بلکہ جو لوگ شفاعت کے معتقد ہیں وہ مزیداس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ آیات عام ہیں جو ان آیات کے ذریعہ جو خدا کی اجازت اور مخصوص قواعد وضوابط کے تحت شفاعت کے قبول کرنے پر دلالت کرتی ہیں تخصیص دی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے۔

دوسرا شبہہ: شفاعت کے صحیح ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم شفاعت کرنے والوں کے زیر اثر قرار پائے یعنی ان لوگوں کی شفاعت فعل الہی یعنی مغفرت کا سبب ہوگی.

جواب : شفاعت کا قبول کرنا زیر اثر ہونے کی معنی میں نہیں ہے جس طرح توبہ اور دعا کا قبول ہونا بھی مذکورہ غلط لازمہ نہیں رکھتا ہے. اس لئے کہ ان تمام موارد میں بندوں کے افعال کا اس طرح شائستہ و سزاوار ہونا ہے کہ وہ رحمت الہٰی کو جذب کرنے کا باعث بن سکیں، اصطلاحاًقابل کی شرط قابلیت اور فاعل کی شرط فاعلیت نہیں ہے۔

تیسرا شبہہ : شفاعت کا لازمہ یہ ہے کہ شفاعت کرنے والے خدا سے زیادہ مہربان ہوں ، اس لئے کہ فرض یہ ہے کہ اگر ان کی شفاعت نہ ہوتی تویہ گنہگار لوگ عذابمیں مبتلا ہوجاتے ،یا ہمیشہ معذّب رہتے

جواب:شفاعت کرنے والوں کی مہربانی اور ہمدردی بھی خداوند عالم کی بے انتہا رحمت کی جھلک ہے دوسرے لفظوں میں ، شفاعت وہ وسیلہ اور راہ ہے جسے خداوند عالم نے خود اپنے بندوں کے گناہوں کو بخشنے کے لئے قرار دیا ہے اور جیسا کہ اشارہ ہو ا کہ اسکی عظیم رحمتوں کا جلوہ اور کرشمہ اس کے منتخب بندوں میں ظاہر ہوتا ہے اسی طرح دعا اور توبہ بھی وہ ذرائع ہیں جنہیں خداوند عالم نے گناہوں کی بخشش اور ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے قرار دیا ہے.

۲۸۶

چوتھا شبہہ : اگر خداوند عالم کا گنہگاروں پرعذاب نازل کرنے کا حکم مقتضاء عدالت ہے تو ان کے لئے شفاعت کا قبول کرنا خلاف عدل ہوگا اور اگر شفاعت کو قبول کرنے کے نتیجہ میں عذاب الہی سے نجات پاناعادلانہ ہے تواس کے معنی یہ ہوئے کہ شفاعت کے انجام پانے سے پہلے عذاب کا حکم، غیر عادلانہ تھا۔

جواب : ہر حکم الٰہی (چاہے شفاعت سے پہلے عذاب کا حکم ہو یاشفاعت کے بعد نجات کا حکم ہو) عدل وحکمت کے مطابق ہے ایک حکم کا عادلانہ اور حکیمانہ ہونا دوسرے حکم کے عادلانہ اور حکیمانہ ہونے سے ناسازگار نہیں ہے،اس لئے کہ اس کاموضوع جداہے ۔

وضاحت : عذاب کا حکم ارتکاب گناہ کا تقاضا ہے. ان تقاضوں سے چشم پوشی کرنا ہی گنہگارکے حق میں شفاعت اور قبول شفاعت کے تحقق کا سبب ہوتا ہے. اور عذاب سے نجات کا حکم شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی وجہ سے ہے، یہ موضوع اس طرح ہے کہ بلا کا دعا یا صدقہ دینے سے پہلے مقدر ہونا یا دعا اور صدقہ کے بعد بلا کا ٹل جانا ہی حکیمانہ فعل ہے۔

پانچواں شبہہ: خداوند متعال نے شیطان کی پیروی کوعذاب دوزخ میں گرفتارہونے کا سبب بتایاہے جیسا کہ سورہ حجر کی ۴۲و۴۳ویں آیہ میں فرماتا ہے:

( إِنَّ عِبَادِی لَیسَ لَکَ عَلَیهِم سُلطَان ِلا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الغَاوِینَ ٭ وَ نَّ جَهَنَّمَ لَمَوعِدُهُم أَجمَعِینَ )

جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تجھے کسی طرح کی حکومت نہ ہوگی مگرصرف گمراہوں میں سے جو تیری پیروی کرے اور ہاں ان سب کے واسطے وعدہ بس جہنم ہے ۔

آخرت میں گنہگاروںپر عذاب نازل کرنا ایک سنت الہی ہے اور سنت الہی غیر قابل تغیر ہے جیسا کہ سورہ فاطرکی ۴۳ویں آیہ میں فرماتا ہے کہ:

( فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبدِیلاً وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحوِیلاً )

ہرگز خدا کی سنت میں تبدیلی نہیں آئیگی اور ہرگز خدا کی سنت میں تغیر نہیں پیدا ہوگاجب یہ بات طے ہے تو کیسے ممکن ہے کہ شفاعت کے ذریعہ خدا کی سنت نقض ہوجائے اور اس میں تغیر پیدا ہو جائے ۔

جواب : جس طرح گنہگاروں پر عذاب نازل کرنا ایک سنت ہے اسی طرح واجد شرائط گنہگاروں کے لئے شفاعت قبول کرنا بھی ایک غیر قابل تغیر الٰہی سنت ہے لہٰذا دونوں پر ایک ساتھ توجہ کرنا چاہئیے ، خدا وند عالم کی مختلف سنتیں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں ان میں جس کا معیار و اعتبار زیادہ قوی ہوگا وہ دوسرے پر حاکم ہوجاتی ہے۔

چھٹا شبہہ : وعدۂ شفاعت ، غلط راہوں اور گناہوں کے ارتکاب میں لوگوں کی جرأت کا سبب ہوتا ہے۔

۲۸۷

جواب : شفاعت ومغفرت ہونا مشروط ہے بعض ایسی شرطوں سے کہ گنہگار اس کے حصول کا یقین پیدا نہیں کرسکتا ہے. شفاعت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اپنے ایمان کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھے اور ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی شرط کے تحقق پر یقین (کہ ہمارا ایمان آخری لمحہ تک محفوظ رہے گا)نہیںرکھ سکتا ہے. دوسری طرف جو مرتکب گناہ ہوتا ہے اگر اس کے لئے بخشش کی کوئی امید اور توقع نہ ہو تووہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجائے گا اور یہی نا امیدی اس میں ترک گناہ کے انگیزے کو ضعیف کردے گی اور آخر کار خطاو انحراف کی طرف مائل ہوجائے گا اسی لئے خدائی مربیوں کا طریقۂ تربیت یہ رہاہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو خوف و امید کے درمیان باقی رکھتے ہیں. نہ ہی رحمت خدا سے اتنا امید وار کرتے ہیں کہ خدا وند عالم کے عذاب سے محفوظ ہوجائیں اور نہ ہی ان کو عذاب سے اتنا ڈراتے ہیں کہ وہ رحمت الٰہی سے مایوس ہوجائیں. اور ہمیں معلوم ہے کہ رحمت الٰہی سے مایوس اور محفوظ ہونا گناہ کبیرہ شمار ہوتا ہے.

ساتواںشبہہ: عذاب سے بچنے میں شفاعت کی تاثیر یعنی گنہگار شخص کو بد بختی سے بچانے اور سعادت میں دوسروں (شفاعت کرنے والے) کے فعل کا موثر ہونا ہے. جبکہ سورہ نجم ۳۹ویںآیہ کا تقاضا یہ ہے کہ فقط یہ انسان کی اپنی کوشش ہے جو اسے خوشبخت بناتی ہے۔

جواب : مننرل مقصود کو پانے کے لئے کبھی خود انسان کی کوششہوتی ہے جو آخری منزل تک جاری رہتی ہے اور کبھی مقدمات اور واسطوں کے فراہم کرنے سے انجام پاتی ہے. جو شخص مورد شفاعت قرار پاتا ہے وہ بھی مقدمات سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے. اس لئے کہ ایمان لانا اور استحقاق شفاعت کے شرائط کا حاصل کرنا حصول سعادت کی راہ میں ایک طرح کی کوشش شمار ہوتی ہے چاہے وہ تلاش ایک ناقص و بے فائدہ کیوں نہ ہو. اسی وجہ سے مدتوں برزخ کی سختیوں اور غموں میں گرفتار ہونے کے بعد انسان میدان محشر میں وارد ہوگا لیکن بہر حال خودہی سعادت کے بیج (یعنی ایمان ) کو اپنے زمین دل میں بوئے اور اس کو اپنے اچھے اعمال سے آبیاری کرے اس طرح کہ اپنی عمر کے آخری لمحات تک خشک نہ ہونے دے تویہ اس کی انتہائی سعادت و خوشبختی ہے جو خود اسی کی تلاش و کوشش کا نتیجہ ہے. اگر چہ شفاعت کرنے والے بھی ایک طرح سے اس درخت کے ثمر بخش ہونے میں موثر ہیں جس طرح اس دنیا میں بھی بعض لوگ بعض دوسرے افراد کی تربیت و ہدایت میں موثر واقع ہوتے ہیں لیکن ان کی یہ تاثیر اس شخص کے تلاش و جستجو کی نفی کا معنی نہیں دیتی ہے.(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ آموزش عقاید ؛ ج۳ سازمان تبلیغات ، تہران ۱۳۷۰۔

۲۸۸

فہرست منابع

۱۔قرآن کریم ۔

۲۔آرن ،ریمن ( ۱۳۷۰) مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی ، ترجمہ باقر پرھام ، تہران : انتشارات آموزش انقلاب اسلامی ۔

۳۔آلوسی ، سید محمود ( ۱۴۰۸) روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی ، بیروت : دار الفکر۔

۴۔ابوزید ، منیٰ احمد (۱۴۱۴) الانسان فی الفلسفة الاسلامیة ، بیروت : مؤسسة الجامعیة للدراسات ۔

۵۔احمدی ، بابک ( ۱۳۷۳) مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی ، تہران : مرکز ۔

۶۔احمدی بابک ( ۱۳۷۷)معمای مدرنیتہ ، تہران : مرکز۔

۷۔اسٹیونسن ، لسلی( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران : رشد

۸۔ایزوٹسو،ٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸)خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی ۔

۹۔باربور، ایان (۱۳۶۲) علم و دین ، ترجمہ بہاء الدین خرمشاہی ، تہران : مرکز نشر دانشگاہی ۔

۱۰۔بارس ، بولک ،و دیگران (۱۳۶۹)فرہنگ اندیشہ تو، ترجمۂ ع، پاشایی ، تہران : مازیار ۔

۱۱۔بدوی ، عبد الرحمٰن ( ۱۹۸۴) موسوعة الفسلفة ، بیروت : الموسسة العربیة للدراسات و النشر ۔

۱۲۔بوکای ، موریس ( ۱۳۶۸) مقایسہ ای تطبیقی میان تورات ، انجیل ، قرآن و علم ، ترجمہ ذبیح اللہ دبیر ، تہران : نشر فرہنگ اسلامی ۔

۲۸۹

۱۳۔پاکر ، ڈوینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ، ترجمہ حسن افشار ، تہران : بہبہارنی ۔

۱۴۔پاپر، کارل ( ۱۳۶۹)جستجوی ناتمام ، ترجمہ ایرج علی آبادی ، تہران ۔

۱۵۔تہانوی ، محمد علی (۱۹۹۶)کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم ، بیروت : مکتبة لبنان ناشرون ۔

۱۶۔ڈیوس ٹونی ( ۱۳۷۸)ہیومنزم ، ترجمہ عباس مخبر ، تہران : مرکز ۔

۱۷۔جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۶۶)تفسیر موضوعی قرآن کریم : توحید و شرک، قم : نہاد نمایندگی رہبری در دانشگاہ ھا۔

۱۸۔جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۸)تفسیر موضوعی قرآن کریم ، قم : اسرائ۔

۱۹۔الحر العاملی ، محمد بن الحسن ( ۱۴۰۳) وسایل الشیعہ ج۱۹، تہران : المکتبة الاسلامیة ۔

۲۰۔دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۷۲) درآمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی : فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت ۔

۲۱۔حسن زادہ ، صادق ( ۱۳۷۸) اسوۂ عارفان ، قم : انتشارات امیر المومنین ۔

۲۲۔دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۶۹)مکتبھای روان شناسی و نقد آن ، ج۱، تہران : سمت ۔

۲۳۔دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲)مکتبھای روان شناسی و نقد آن ، ج۲، تہران : سمت ۔

۲۴۔ڈورانٹ ، ویل ( ۱۳۷۱) تاریخ تمدن ، ترجمہ صفدر تقی زادہ و ابو طالب صارمی ، ج۵، تہران ، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی ، ایران ۔

۲۹۰

۲۵۔ڈورکھیم ، امیل (۱۳۵۹)قواعد روش جامعہ شناسی ، ترجمہ علی محمد کاردان ، تہران : دانشگاہ تہران ۔

۲۶۔رشید رضا ، محمد، المنار فی تفسیر القرآن ، بیروت : دار المعرفة ۔

۲۷۔رضی موسوی ، شریف محمد ( ۱۴۰۷)نہج البلاغہ ، مصحح صبحی صالحی ، قم : دار الہجرة۔

۲۸۔رنڈل ، جان ہرمان ( ۱۳۷۶) سیر تکامل عقل نوین ، ترجمہ ابو القاسم پایندہ ، تہران ، انتشارات علمی و فرہنگی ، ایران ۔

۲۹۔روزنٹال ، یودین ، و دوسرے افراد ( ۱۹۷۸)الموسوعة الفلسفیة ، ترجمہ سمیر کرم ، بیروت: دار الطبیعة ۔

۳۰۔زیادہ ، معن (۱۹۸۶) الموسوعة الفلسفیة العربیة ، بیروت : معہد الانماء العربی ۔

۳۱۔سبحانی ، جعفر ( ۱۴۱۱) الالہٰیات علی ضوء الکتاب و السنة و العقل ، قم : المرکز العالمی للدراسات الاسلامیة

۳۲۔شفلر ، ایزرائل (۱۳۷۷)در باب استعداد ھای آدمی ( گفتاری در فلسفہ تعلیم و تربیت ) تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۳۳۔سلطانی نسب ،رضا ، و فرہاد گرجی ( ۱۳۶۸)جنین شناسی انسان ( بررسی تکامل طبیعی و غیر طبیعی انسان ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۲۹۱

۳۴۔شاکرین ، حمید رضا ''قرآن و رویان شناسی ''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۸، ص ۲۲، ۲۵۔

۳۵۔صانع پور ، مریم ( ۱۳۷۸)نقدی بر مبانی معرفت شناسی ہیومنیسٹی ، تہران : دانش و اندیشہ معاصر ۔

۳۶۔صدوق ، ابو جعفر حسین ( ۱۳۷۸)التوحید ، تہران : مکتبة الصدوق ۔

۳۷۔طبارہ ، عبد الفتاح ،خلق الانسان ، دراسة علمیة قرآنیة ، ج۲ بیروت۔

۳۸۔طباطبایی ، محمد حسین ( ۱۳۸۸)المیزان فی تفسیر القرآن ، ج۱،۲، ۷، ۱۵، تہران : دار الکتب الاسلامیة ۔

۳۹۔طوسی ، خواجہ نصیر الدین (۱۳۴۴) اوصاف الاشراف ، تہران : وزارت فرہنگ و ہنر ۔

۴۰۔طبرسی ، ابو علی فضل ( ۱۳۷۹)مجمع البیان لعلوم القرآن ، تہران : مکتبة العلمیة الاسلامیة ۔

۴۱۔طہ، فرج عبد القادر ( ۱۹۹۳) موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ، کویت : دار السعادة الصباح ۔

۴۲۔عبودیت ، عبد الرسول (۱۳۷۸)ہستی شناسی ، ج۱ ، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۴۳۔العطاس ، محمد نقیب (۱۳۷۴)اسلام و دنیوی گروی ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : موسسہ مطالعاتی اسلامی دانشگاہ تہران ۔

۴۴۔فرینکل ، ویکٹور امیل (۱۳۷۵)انسان در جستجوی معنی ، ترجمہ اکبر معارفی ، تہران : دانشگاہ تہران

۴۵۔فرینکل ، ویکٹور امیل (۱۳۷۲) پزشک روح ، ترجمہ فرخ سیف بہزاد ، تہران : درسا۔

۴۶۔فرینکل ، ویکٹور امیل (۱۳۷۱)ریاد ناشنیدہ معنی ، ترجمہ علی علوی نیا و مصطفی تبریزی ، ( بی جا ) یادآوران ۔

۴۷۔فولادوند ، عزت اللہ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون ''نگاہ حوزہ ، شمارہ ۵۳، ۵۴۔

۴۸۔قاسم لو ، یعقوب ( ۱۳۷۹)طبیب عاشقان ، قم : نسیم حیات ۔

۲۹۲

۴۹۔کیسیرر، ارنسٹ ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادر زادہ ، تہران : موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ۔

۵۰۔کیسیرر، ارنسٹ (۱۳۷۰)فلسفہ روشنگری ، ترجمہ ید اللہ موقن ، تہران : نیلوفر ۔

۵۱۔کلینی ، محمد بن یعقوب ( ۱۳۸۸)اصول کافی ، ج۱ و ۲، تہران : دار الکتب الاسلامیہ ۔

۵۲۔کوزر ، لوئیس ( ۱۳۶۸) زندگی و اندیشہ بزرگان جامعہ شناسی ، ترجمہ محسن ثلاثی ، تہران : علمی ۔

۵۳۔لالانڈ ، اینڈریو ( ۱۹۹۶) موسوعة لالاند الفلسفیہ ، ترجمہ خلیل احمد خلیل بیروت : منشورات عویدات

۵۴۔لالانڈ ، اینڈریو (۱۳۷۷)فرہنگ علمی انتقادی فلسفہ ، ترجمہ غلام رضا وثیق ، تہران : فردوسی ایران ۔

۵۵۔مان ، مائکل ( ۱۴۱۴)موسوعة العلوم الاجتماعیة ، ترجمہ عادل مختار الھواری ، مکتبة الفلاح الامارات العربیة المتحدة۔

۵۶۔مجلسی ، محمد باقر ( ۱۳۶۳)بحار الانوار ج۱، ۵، ۱۱، ۲۱، ۷۶، تہران : دار الکتب الاسلامیہ ۔

۵۷۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۶۵)آموزش فلسفہ ج۲ ، تہران : سازمان تبلیغات ۔

۵۸۔محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۵)اخلاق در قرآن ، ج۱ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۵۹۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۲۹۳

۶۰۔محمد تقی مصباح ،خود شناسی برای خود سازی ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۶۱۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۰)آموزش عقاید ، ج۳ تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔

۶۲۔محمد تقی مصباح (۱۳۶۸)جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی ۔

۶۳۔محمد تقی مصباح ،راہنما شناسی ، قم : حوزہ علمیہ قم ۔

۶۴۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ، ج۳ ، تہران : صدرا۔

۶۵۔مطہری ، مرتضی (۱۳۷۱)مجموعہ آثار ، ج۶ ، تہران : صدرا۔

۶۶۔مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱)انسان کامل ، تہران : صدرا۔

۶۷۔مطہری ، مرتضی (۱۳۴۵)سیری در نہج البلاغہ ، قم : دار التبلیغ اسلامی ۔

۶۸۔ملکیان ، مصطفی (۱۳۷۵)اگزیستانسیالیزم ، فلسفہ عصیان و شورش ، محمد غیاثی ، قم ۔

۶۹۔نوذری ، حسین علی ، صورتبندی مدرنیتہ و پست مدرنیتہ ، تہران : چاپخانہ علمی و فرہنگی ، ایران ۔

۷۰۔نوری ، میرزا حسین ( ۱۴۰۸)مستدرک الوسائل ، ج۶ ، بیروت : موسسہ آل البیت لاحیاء التراث

۷۱۔واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷)انسان در اسلام ، سمت ( دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ )۔

۲۹۴

(۷۲) Webster Mariam,(۱۹۸۸)Webster's Ninth collegiate Dictionary,U.S.A

(۷۳) Kupet Adam,(۱۹۵۸)the social sciences Encyclopedia, Rotlage and Kogan paul

(۷۴) Theodorson,George,(۱۹۶۹)and Acilles,G;A modern Dictionary of sociology,NEW YORK,Thomas. Y.Prowerl

(۷۵) Lw,R,I,Z Encyclopedia of Religion,(۱۹۷۴)the NEW (۱۵th ).

(۷۶) Paul,Edward,(۱۹۷۶)Encyclopedia of Philosophy,NEW YORK,Macmillan

قابل ذکر بات یہ کہ بہت سے مذکورہ منابع ،'' مزید مطالعہ ''کے عنوان سے اس کتاب کے ہرفصل کی تالیف میں مور د استفادہ واقع ہوئے ہیں ۔لیکن چونکہ ان کی معلومات اسی موضوع فصل کے تحت تھیں اور اس منابع سے ان کے استفادہ کی مقداربھی کم ہونے کی بناپر دوبارہ ذکر کرنے سے پرہیز کیا جارہا ہے ۔

۲۹۵

خود آزمائی

۱.انسان شناسی سے خداشناسی ، نبوت و معاد کے رابطہ کی وضاحت کیجئے ؟

۲.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کی چار مرکزی بحثوں کو بیان کیجئے ؟

۳.ہیومنزم کے چارنتائج وپیغامات کو بیان کرتے ہوئے ہر ایک کی اختصار کے ساتھ وضاحت کیجئے ؟

۴.ہیومنزم کے تفکرات کو بیان کرتے ہوئے تبصرہ و تنقید کیجئے ؟

۵.خود فراموش انسان کی خصوصیات اور خود فراموشی کے نتائج کو بیان کرتے ہوئے کم از کم پانچ موارد کی طرف اشارہ کیجئے ؟

۶.خود فراموشی کے علاج کے عملی طریقوں کی تحلیل کیجئے ؟

۷.قرآن مجید کی تین آیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے خلقت انسان کی وضاحت کیجئے ؟

۸.انسان کے دوبعدی ہونے کی دلیلیں پیش کیجئے ؟

۹.دینی اعتبار سے انسان کی مشترکہ فطرت کا سب سے مرکزی عنصر کیا ہے ؟

۱۰.فطرت کے لازوال ہونے کی سورۂ روم کی تیسویں آیہ سے وضاحت کیجئے اور مذکورہ آیہ میں (لا تبدیل لخلق اللہ )سے مراد کیا ہے وضاحت کیجئے ؟

۱۱.قرآنی اصطلاح میں ان کلمات، روح ، نفس ، عقل و قلب کا آپس میں کیا رابطہ ہے وضاحت کیجئے ؟

۱۲.کرامت انسان سے کیا مراد ہے وضاحت کرتے ہوئے قرآن کی روشنی میں اس کے اقسام کو ذکر کیجئے ؟

۱۳.کیا آیۂ شریفہ ( و ما رمیت اذ رمیت و لٰکن اللہ رمی)عقیدۂ جبر کی تائید نہیں کرتی ہے ؟ اور کیوں؟

۱۴.جبر الٰہی کے سلسلہ میں جو شبہات پیدا ہوئے ہیں اس کا جواب دیجئے ؟

۱۵.ان تین عناصر کو بیان کیجئے جن کا انسان ہر اختیاری عمل کے انجام دینے میں محتاج ہے ؟

۱۶.افعال ا نسان کے انتخاب کے معیار کی وضاحت کیجئے ؟

۱۷. قرآن و روایات کی زبان میں کیوںاچھے اعمال کو ''عمل صالح ''کہا گیا ہے ؟

۱۸.اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں ؟

۱۹.قرآن میں ذکر کئے گئے کلماتِ دنیا اور آخرت کے تین موارد استعمال کو بیان کیجئے ؟

۲۰. اواخرعمر میں کفر کی وجہ سے کسی شخص کیتمام اچھے اعمال برباد ہو جانے کے بارے میں مناسب توجیہ پیش کیجئے ؟

۲۹۶

فہرست

حرف اول ۴

مقدمہ: ۶

مطالعہ کتاب کی کامل رہنمائی ۹

پہلی فصل : ۱۳

مفہوم انسان شناسی ۱۳

۱۔انسان شناسی کی تعریف ۱۶

۱۔روش اور نوعیت کے اعتبار سے انسان شناسی کے اقسام ۱۶

۲۔انسان شناسی کے اقسام ۱۷

تجربی،عرفانی،فلسفی اور دینی ۱۷

انسان شناسی خردو کلاں یا جامع و اجزاء ۱۹

انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت ۲۰

الف: انسان شناسی ،بشری تفکر کے دائرے میں باہدف زندگی کی تلاش ۲۰

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱) ۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش ۲۲

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل ۲۲

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں ۲۳

خدا شناسی اور انسان شناسی ۲۳

نبوت اور انسان شناسی ۲۵

معاد اور انسان شناسی ۲۶

۲۹۷

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت ۲۷

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو ۲۸

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا ۳۰

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۳۱

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا ۳۱

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات ۳۳

جامعیت ۳۳

استوار اور محکم ۳۴

مبدا اور معاد کا تصور ۳۴

بنیادی فکر ۳۴

خلاصہ فصل ۳۵

تمرین ۳۶

مزید مطالعہ کے لئے ۳۷

دوسری فصل : ۳۹

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان ۳۹

ہیومنزم کا مفہوم و معنی ۴۱

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب ۴۴

ہیومنزم کے اجزا ئے ترکیبی اور نتائج(۷) ۴۵

عقل پرستی(۱) اور تجربہ گرائی(۲) ۴۶

۲۹۸

استقلال ۴۷

تساہل و تسامح ۴۹

سکولریزم(۲) ۴۹

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق ۵۲

فکرو عمل میں تناقض ۵۲

فکری حمایت کا فقدان ۵۳

فطرت اور مادہ پرستی ۵۶

ہیومنزم اور دینی تفکر ۵۶

بے قید وشرط آزادی ۵۸

تسامح و تساہل ۶۱

خلاصہ فصل ۶۲

تمرین ۶۳

مزید مطالعہ کے لئے : ۶۴

ملحقات ۶۵

تیسری فصل : ۶۸

خود فراموشی ۶۸

مفہوم بے توجہی ۷۰

قرآن اور خود فراموشی کا مسئلہ ۷۳

خود فراموشی کے نتائج ۷۶

غیرکو اصل قرار دینا ۷۶

۲۹۹

روحی تعادل کا درہم برہم ہونا ۷۸

ہدف و معیار کا نہ ہونا ۸۰

حالات کی تبدیلی کے لئے آمادگی و قدرت کا نہ ہونا ۸۰

مادہ اور مادیات کی حقیقت ۸۲

عقل و دل سے استفادہ نہ کرنا ۸۴

خود فراموشی اور حقیقی توحید ۸۵

اجتماعی اور سماجی بے توجہی (اجتماعیحقیقت کا فقدان ) ۸۶

خود فراموشی کا علاج ۸۸

خلاصہ فصل ۹۲

تمرین ۹۳

مزید مطالعہ کے لئے ۹۴

ملحقات ۹۵

فرڈریچ ویلیم ہگل(۱) ( ۱۸۳۱۔۱۷۷۰ ) ۹۵

فیور بیچ(۲) (۱۸۳۲۔۱۷۷۵) ۹۶

کارل مارکس(۲) (۱۸۱۸۔ ۳ ۱۸۸ ) ۹۷

چوتھی فصل : ۹۹

انسان کی خلقت ۹۹

انسان ،دوبعدی مخلوق ۱۰۰

اولین انسان کی خلقت ۱۰۱

قرآن کے بیانات اور ڈارون کا نظریہ ۱۰۴

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307