انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146105 / ڈاؤنلوڈ: 4873
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱)

تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔

____________________

(۱) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش

''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل

مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی

۲۲

اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میں روح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔(۱)

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں

انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔

خدا شناسی اور انسان شناسی

انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(۲) یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میں انسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث

____________________

(۱)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

( ۲ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔

۲۳

انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(۱)

قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :

( وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ ) (۲)

زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں ( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔

اور دوسری آیت میں بیان ہوا :

( سَنُریهِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَهُم أَنّهُ الحَقُّ ) (۳)

عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(۴)

____________________

(۱)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔ (۲)ذاریات ۲۰و ۲۱۔

(۳)فصلت ۵۳۔

(۴)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔

۲۴

نبوت اور انسان شناسی

نبوت کا ہونا اوراس کا اثبات ورابطہ ،انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل پر موقوف ہے ۔ اگر انسان شناسی میں یہ ثابت نہ ہو کہ وہ فرشتوں کی طرح خدا سے براہ راست یا باواسطہ رابطہ رکھ سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وحی اور پیغمبرکے سلسلہ میں گفتگو کی جائے ؟!

وحی اورمنصب نبوت سے مرادیہ ہے کہ لوگوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیںجوبراہ راست یا فرشتوں کے ذریعہ خداوند عالم سے وابستہ ہیں ، خداوند عالم ان کے ذریعہ معجزات دکھاتا ہے اور یہ حضرات خدا سے معارف اور پیغامات حاصل کرتے ہیں تا کہ لوگوں تک پہونچائیں ،اس حقیقت کو ثابت اور قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس رابطہ کے سلسلہ میں انسان کی قابلیت کو پرکھا جائے ۔بنوت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات اور شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ایسا رابطہ خداوند عالم سے رکھ ہی نہیں سکتا اور ایسا رابطہ انسان کی قدرت سے خارج ہے ، قرآن مجید اس طرح بنوت کا انکار کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

( مَا هٰذا لاّ بَشَر مِثلُکُم ...ولَو شَائَ اللّٰهُ لأَنزَلَ مَلائِکَةً مَا سَمِعنَا بِهٰذا فِی آبَائِنَا الأوَّلِینَ ) (۱)

''یہ (پیغمبر )تم جیسا بشر کے علاوہ کچھ نہیں اگر خدا چاہتا(کوئی پیغمبر بھیجے ) تو

فرشتوں کو نازل کرتا ، ہم نے تو اس سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد سے کچھ نہیں سنا

دوسری آیت میں کافروں اور قیامت کا انکار کرنے والوں سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے :

( مَا هٰذَا لاّ بَشَر مِثلُکُم یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُونَ مِنهُ وَ یَشرَبُ مِمَّا تَشرَبُونَ وَ لَئِن أَطَعتُم بَشَراً مِثلَکُم ِنَّکُم ِذاً لَخَاسِرُونَ ) (۲)

____________________

(۱)مومنون ۲۴ ۔

(۲) مومنون ۳۳و ۳۴۔

۲۵

(کفار اور قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں :)یہ (پیغمبر ) فقط تمہاری طرح ایک بشر ہے جو چیزیں تم کھاتے اور پیتے ہو وہی وہ کھاتا اور پیتا ہے ، اور اگر تم لوگ نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی، تب تو ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

لہٰذا نبوت کا ہونا یا نہ ہونا اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان اللہ کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات وحی کو دریافت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مزید یہ کہ نبوت کا ہونا ، نبوت عامہ کا اثبات اور انبیاء کی بعثت کی ضرورت بھی اسی انسان شناسی کے مسائل کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان وحی کی مدداور خدا کی مخصوص رہنمائی کے بغیر ،نیز صرف عمومی اسباب کے ذریعہ معرفت حاصل کرکے اپنی راہ سعادت کو کامل طریقے سے پہچان سکتا ہے ؟ یا یہ کہ عمومی اسباب کسب معرفت کے سلسلہ میں کافی و وافی کردار ادا نہیں کرسکتے اور کیا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے کوئی پیغمبر مبعوث ہو ؟

معاد اور انسان شناسی

وحی کی روشنی میں انسان کا وجودصرف مادی دنیا اور دنیاوی زندگی ہی سے مخصوص نہیں ہوتابلکہ اس کے وجود کی وسعت عالم آخرت سے بھی تعلق رکھتی ہے اوراس کی حقیقی زندگی موت کے بعدکی دنیا سے مربوط ہے لہٰذا ایک زاویہ نگاہ سے معاد پر اعتقاد ، موت کے بعد انسان کی زندگی کے دوام اور اس کے نابود نہ ہونے کا اعتقاد ہے اور ایسا اعتقاد در اصل ایک طرح سے انسان کے سلسلہ میں ایسا تفکر ہے جسے انسان شناسی کے مباحث سے اگرحاصل اور ثابت نہیں کیا گیا تو معاد کے مسئلہ کی کوئی عقلی ضرورت نہیں رہ جاتی اورمعاد کا مسئلہ عقلی دلائل کی پشت پناہی سے عاری ہوگا اسی وجہ سے قرآن مجید معاد کی ضرورت و حقانیت پر استدلال کے لئے موت کے بعد انسان کی بقا اور اس کے نابود نہ ہونے پر تکیہ کرتا ہے اور رسول اکرم سے مخاطب ہو کرمنکرین معادکی گفتگو کو اس طرح پیش کرتا ہے :

۲۶

( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نّا لَفِی خَلقٍ جَدیدٍ ) (۱)

اور (معاد کا انکار کرنے والے )یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب (ہم مرگئے اور بوسیدہ ہوگئے اور )زمین میں ناپید ہوجائیں گے تو کیا ہم پھردوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟

ان لوگوں کے جواب میں قرآن یوں فرماتا ہے :

( ...بَل هُم بِلِقائِ رَبِّهِم کَافِرُونَ٭قُلّ یَتَوفَّاکُم مَلکُ الموتِ الذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ لیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) (۲)

(ان لوگوں نے زمین میں مل جانے کو دلیل قرار دیا ہے ورنہ معاد کے ہونے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہہ نہیں رکھتے ہیں )بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات ہی سےانکار کرتے ہیں(اے پیغمبر! اس دلیل کے جواب میں ) تم کہدو کہ: ملک الموت

جو تمہارے اوپر معین ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (اور تم ناپیدا نہیں ہوئوگے)اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائوگے ۔

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت

اس سے پہلے انسان کی حقیقی قابلیت اور بنیادی ضرورتوں کی معرفت نیز بنیاد سازی اور معقول و صحیح اجتماعی عادات و اطوار کی ترسیم مورد تائید قرار پا چکی ہے۔ لہٰذاہم یہاں اس نکتہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ بعض دین کے اجتماعی احکام کو عقلی نقطۂ نظر سے قبول کریں اور انہیں انسان شناسی کے بعض مسائل میں استفادہ کریں، اگرچہ دین کے اجتماعی احکام کی صحت و حقانیت علم خدا کے اس لامتناہی سرچشمہ کی وجہ سے ہے کہ جس کی ذات ،عادل، رحیم و کلیم جیسے صفات سے استوار ہے ،لیکن اسلام کے بعض اجتماعی احکام کی معقول وضاحت ((دینی ، عالم کی معرفت میں ) اس طرح سے کہ جو لوگ

____________________

(۱)سجدہ ۱۰۔

(۲)سجدہ ۱۰و ۱۱

۲۷

دین کونہیں مانتے ہیںان کے لئے بھی معقول اور قابل فہم ہو )صرف انسان شناسی کے بعض مسائل کے جوابات کی روشنی میں میسور وممکن ہے مثال کے طور پر وحی کی تعلیمات میں ، انسان کی حقیقی شخصیت (انسان کی انسانیت )قرب الہٰی(خدا سے قریب ہونا)کی راہ میں گامزن ہونے کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اور خدا سے دور ہونے کا مطلب خود کو فراموش کرنا اور انسانیت کے رتبہ سے گر کر حیوانات سے بدتر ہونا ہے(۱) اس مطلب کی روشنی میں ، وہ شخص جو اسلام کی حقانیت اور اس پر ایمان لانے کے بعد کسی غرض اور حق کی مخالفت کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑ کے کافر(مرتد) ہوجائے تو اس کے لئے پھانسی کا قانون ایک معقول اور مستحکم فعل ہے ،اس لئے کہ ایسے شخص نے اپنی انسانیت کو جان بوجھ کر گنوایا ہے نیزحیوان اور بد ترین مخلوق ہونے کا سہرا باندھ کر جامعہ کے لئے خطرناک جانور(۲) میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو

بہت سی فکری کوششیں جو وجود انسان کے گوشوں کو روشن کرنے کے لئے دوبارہ احیاء ہوئی ہیںاس نے بشر کے لئے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں ،اگرچہ ان معلومات کی جمع آوری میں تحقیق کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن ان میں روش تجربی کا حصہ دوسری راہوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسان شناسی میں زیادہ حصہ تجربہ کا ہے۔ بہت سے قضایا اور انکشافات جو انسان شناسی کے مختلف مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وجود انسانی کے

____________________

(۱)(أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلونَ )''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ۱۷۹)

(۲)(إنَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّهِ الّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لایُؤمِنُونَ )''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ۵۵)

۲۸

تاریک گوشوںکے حوالے سے قابل تحقیق ہیں ۔ نیز فراوانی اور اس کے ابعاد کی کثرت کی وجہ سے نہ صرف انسان کے ناشناختہپہلوئوں کو جیسا چاہیئے تھا واضح کرتے اور اس نامعلوم موجود کی شناخت میں حائل شدہ مشکلات کو حل کرتیخود ہی مشکلات سے دچار ہوگئے ہیں ۔(۱)

علم کے کسی شعبہ میں بحران کا معنی یہ ہیںکہ جن مشکلات کے حل کے لئے اس علم کی بنیاد رکھی گئی ہووہ علم اس کو حل کرنے سے عاجز ہو اور اپنے محوری و مرکزی سوالات کے جوابات میں مبہوت و پریشان ہو، ٹھیکیہی صورت حال دور حاضر میں انسان شناسی کی ہوگئی ہے، یہ بات ایک سر سری نظر سے معلوم ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں انسان شناسی کی مختلف معلومات، مختلف جہتوںسے بحران کا شکار ہیں۔ انسان شناسی کا ماہر، جرمنی کا فلسفی ''اسکیلر میکس '' لکھتا ہے کہ : تاریخ کے اوراق میں کسی وقت بھی ...انسان جس قدر آج معمہ بنا ہوا ہے کبھی نہیں تھا ...تخصصی علوم جن کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اوربشر کے مسائل سے مربوط ہیں ،یہ بھی ذات انسان کو مزید معمہ بنائے ہوئے ہیں ۔(۲)

دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کا چار بنیادی طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان چار بنیادی طریقوں سے مراد یہ ہیں؛ ۱۔ علوم نظری کی ایک دوسرے سے عدم ہماہنگی اور اندرونی نظم سے عاری ہونا۔ ۲۔ فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۔ ۳۔ انسان کے ماضی و مستقبل کا خیال نہ کرنا

۴ ۔ انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۔

____________________

(۱)''ہوسرل ''منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے انسان شناسی کے بحران کو بیان کیا ہے ،اس نے '' وین''(مئی ۱۹۳۵)کی اپنی تقریر میں ''یورپ میں انسانیت کی بحران کا فلسفہ ''اور ''پراگ ''(۱۲ ۱۹۳۴)کی تقریر میں ''نفسیات شناسی اور یورپ کے علوم کا بحران''کے عناوین سے اس موضوع پر تقریریں کی ہیں اوراس کی موت کے بعد اس کے مسودوں کو ۱۹۵۴ئ میں ایک پر حجم کتاب کی شکل میں ''بحران علوم اروپائی و پدیدار شناسی استعلایی '' کے عنوان سے منتشرکیا گیاہے ،ملاحظہ ہو ؛ مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی، ص۵۶

(۲) Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. ۱۷

کیسیرر سے نقل کرتے ہوئے ، ارنسٹ ، ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ، ص ۴۶و ۴۷۔

۲۹

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا

تمام مفکرین مدعی ہیں کہ انسان کے سلسلہ میں ان کا خاکہ اور نظریہ، دنیاوی اور تجربی معلومات و حوادث پر مبنی ہے اور ان کے نظریات کی دنیاوی حوادث سے تائید ہو جاتی ہے لیکن اگر ان نظریات کی سبھی توضیحات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی فطری وحدت مجہول ہے اور ہم انسان کی ایک فرد یاایسے مختلف افراد سے رو برو نہیں ہیںجو ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔(۱) مثال کے طور پر''رفتار گرایان'' کا عقیدہ ( جو انسان کے کردار کو محور تسلیم کرتے ہیں )جیسے ا سکینر(۲) ، سیاسی و اقتصادی جامعہ شناس جیسے کارل مارکس(۳) ، جامعہ شناس جیسے دور کھیم(۴) علم الحیات کے نظریات کو ماننے والے اور عقیدہ وجود والے جیسے ژان پل سارٹر(۵) کے نظریات انسان کے اختیارات اور آزادی کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ کس طرح ایک دوسرے سے ہماہنگ اور قابل جمع نہیں ہیں؛ ''عقیدۂ رفتار و کردار رکھنے والے'' اختیار کا ایک سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ''مارکس'' انسان کے اختیاراور آزادی کو روابط کے ایجاد اور تاریخی جبر کی پیداوار سمجھتا ہے ۔'' دورکھیم'' اجتماعی جبر کی تاکید کرتا ہے۔ ''حیات شناس افراد'' عناصر حیات کے سرنوشت ساز کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور'' ژان پل سارٹر''انسان کی بے چوں و چرا آزادی کا قائل ہے کہ جس میں حیات کے تقاضوں سے بالاتر ہو کرمادی دنیا کے تغییر ناپذیر قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔''اسکیلر میکس'' اس سلسلہ میں کہتا ہے کہگذشتہ دور کے برخلاف آج کے دور میں انسان شناسی تجربی(اپنے تمام انواع کے ساتھ) انسان شناسی فلسفی اور انسان شناسی الٰہی ایک دوسرے کے مخالف یا آپس میں بالکل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیںان میں

____________________

(۱)کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ (ترجمہ )ص ۴۵و ۴۶۔

(۲) B.F.Skinner

(۳) Karl Marx

(۴) Emile Durkheim

(۵) Jean-Paul

۳۰

انسان کے سلسلہ میں اجماعی نظریہ اور اتحاد نہیںپایا جاتا ہے ۔(۱)

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا

طبیعی علوم میں وہ قوانین جن کو علوم طبیعی کے اکثر مفکرین مانتے ہیں ان کے علاوہ، تجربی روش کو بھی اکثر مفکرین نے آخری دلیل اور حاکم کے عنوان سے قبول کیا ہے،اگرچہ اس کی افادیت کی مقدار میں بعض اعتراضات موجود ہیں لیکن علوم انسانی میں (جیسا کہ'' ارنسٹ کیسیرر''(۲) ذکرکرتاہے کہ)کوئی ایسی علمی اصل نہیں ملتی جسے سبھی مانتے ہوں(۳) ایسے موقعہ پر ایک مفید حاکم و دلیل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس کے باوجود علمی تحقیق یہ ہے کہ دور حاضر میں ہر انسان شناس اپنے نظریات کے سلسلہ میں عین واقعیت اور تجربی دلیلوں سے ہماہنگی کا مدعی ہے ، حالانکہ ، تجربی روش جس کو آخری اور مستحکم دلیل و حاکم کے عنوان سیپیش کیا گیا ہے خود ہی متناقض معلومات فراہم کرتی ہے اوروہ بیان کئے گئے مشکلات کو حل کرنے میں مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ضروری افادیت سے محروم ہے مزید یہ کہ (مفکرین کے )قابل توجہ گروہ نے کلی طور پر ( حتی ان موارد میں بھی جہاں علم تجربی ہمارے لئے ہماہنگ معلومات فراہم کرتا ہے)اس روش کی افادیت میں شک ظاہر کیا ہے اور تفہیم و حوادث شناسی کے دوسرے طریقۂ کار کی تاکید کی ہے ۔

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا

انسان شناسی تجربی کے نظریات ،انسان کے ماضی اور مستقبل (موت کے بعد کی دنیا) کے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ اگر انسان موت سے نابود نہیں ہوتا ہے (جب کہ ایساہی ہے ) تو یہ نظریات اس کی کیفیت اور اس دنیاوی زندگی سے اس کے رابطوں کی وضاحت و تعریف سے عاجز ہیں

____________________

(۱)اسکیلرمیکس۔

(۲) Earnest Cassirar

(۳)کیسیرر ، ارنسٹ ، گذشتہ حوالہ، ص ۴۶۔

۳۱

چنانچہ وہ اپنے ماضی سے غافل ہیں ،انسان کی سر نوشت اوراس کی خواہش میں معنوی اسباب کا اثر و عمل بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے بارے میں انسان شناسی تجربی کے نظریات کسی بھی وضاحت یا حتمی رأی دینے سے قاصر ہیں ۔انسان شناسی کے دوسرے اقسام بھی (دینی انسان شناسی کے علاوہ ) اخروی سعادت اور انسانی اعمال کے درمیان تفصیلی اور قدم بہ قدم روابط کے بیان سے عاجز ہیں ۔

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا

دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریے اور مکاتب اس دنیا کے بھی مہم ترین انسانی حوادث کی تفصیل و صراحت سے عاجز ہیں اور اس جہت سے بھی علمِ انسان شناسی بحران کا شکار ہے ۔ زبان ، اجتماعی اور انسانی حوادث کے اہم ترین ایجادات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ علوم انسانی کے بعض مفکرین کا نظریہ ہے کہ: جو مکتب اچھی طرح زبان کی وضاحت پر قادر ہے وہ انسانی حوادث کی بھی صراحت کر سکتا ہے جب کہ دور حاضر میں انسان شناسی ،زبان کے بعض گوشوں کی تفسیر و وضاحت سے عاجز ہے مثال کے طور پر وہ نظریات جو انسان کو ایک مشین یا کامل حیوان کا درجہ دیتے ہیں کس طرح ان جدید اصطلاحات و ایجاد معانی جن کو پہلی مرتبہ انسان مشاہدہ کرتا ہے یا اس طرح کی چیزوں کے سمجھنے میں ذہن انسانی کی خلاقیت اور اس کی ابتکاری صلاحیت کی کیونکروضاحت کرسکتے ہیں؟ یا نمونہ کے طور پر میدان فہم و تفہیم میں (مقصد کو بیان کرنے کے لئے کلمات کا ایجاد کرنا) جو حیوانات کی آواز کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،انسان کی خلاقیت کی کس طرح وضاحت کریں گے ؟ ''چومسکی''(۱) معتقد ہے کہ قابلیت اور ایجادات ،انسان کی زبان کے امتیازات میں سے ہے یعنی ہم سب سے گفتگو کرسکتے ہیں اور زبان کے قوانین اور معانی کی مدد سے ایسے جملات کو سمجھتے ہیں جس کو اس سے پہلے سنا ہی نہ تھا ، لہٰذا زبان ماہیت کے اعتبار سے حیوانات کے اپنے مخصوص طریقۂ عمل سے کاملاًجدا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) Chomsky Noam (۲)لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ۱۶۱۔

۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

دینی انسان شناسی اپنے مد مقابل اقسام کے درمیان کچھ ایسے امتیازات کی مالک ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں :

جامعیت

چونکہ دینی انسان شناسی تعلیمات وحی سے بہرہ مند ہے اور طریقہ وحی کسی خاص زاویہ سے مخصوص نہیں ہے لہٰذااس سلسلہ میں دوسری روشوں کی محدودیت معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عمومیت کی مالک ہے، اس طرح کہ اگر ہم کسی فرد خاص کے بارے میں بھی گفتگو کریں تواس گفتگو کوانسان کے سبھی افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس فرد خاص کے اعتبارسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ گفتگو کرنے والا کامل اور ہر زاویہ سے صاحب معرفت ہے ، مزید دینی انسان شناسی کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ یہ انسان شناسی ، انسان کے مختلف افراد کو مدنظر رکھتی ہے نیز جسمانی و فطری ، تاریخی و سماجی ،دنیاوی واخروی، فعلی و ارمانی، مادی و معنوی لحاظ سے بھی گفتگو کرتی ہے اور بعض موارد میں ایسی حقیقتوں کو منظر عام پر لاتی ہے جن کو انسان شناسی کے دوسرے انواع و اقسام کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ، دینی تعلیمات میں منظور نظرا ہداف ہی انسان شناسی دینی کے مختلف گوشے ہیں جو انتخابی صورت میں انجام پاتے ہیں ۔لہٰذا ہر پہلو کے مسئلہ کو اسی مقدار میں پیش کیا جائے گا جس قدر وہ انسان کی حقیقی سعادت میں اثر انداز ہے ، جب کہ اس کی انتخابی عمومیت باقی رہے گی بلکہ انسان شناسی کے ہر ایک شعبہ مثلاً فلسفی ، تجربی ،شہودی کے لئے ایک خاص موضوع مورد نظر ہو گا اور انسان شناسی سے مربوط دوسرے موضوعات اس کے دائر ۂبحث سے خارج ہوںگے ۔

۳۳

استوار اور محکم

دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔

مبدا اور معاد کا تصور

غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)

بنیادی فکر

دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و

____________________

(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔

۳۴

معنوی اور فکری تمایل نیز ان کے آپسی روابط کے تاثرات ،شدید مورد توجہ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن تجربی، فلسفی ،عرفانی انسان شناسی میں یا تو آپس میں ایسے وسیع روابط سے غفلت ہو جاتی ہے یااتنی وسعت سے توجہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف بعض آپسی جوانب کے روابط سے گفتگو ہوتی ہے ۔

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی شناخت اور اس کے ابعادوجودی، زمانہ قدیم سے لے کراب تک مفکرین کی مہم ترین تحقیقات کا موضوع رہے ہیں ۔

۲۔ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروہ یا انسان کے ابعاد وجودی کے بارے میں بحث کرے یا انسان کے سلسلہ میں کلی طور پربحث کرے اس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

۳۔ انسان شناسی کی مختلف قسمیں ہیں ،جو تحقیقی روش یا زاویہ نگاہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔

۴۔ اس کتاب میں مورد توجہ انسان شناسی ، انسان شناسی کلاں یا جامع ہے جو روائی اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یا یوں کہا جائے کہ وحی اور تعبدی طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

۵۔ انسان شناسی ''کلاں نمائی'' مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مخصوص اہمیتکی حامل ہے :

الف)زندگی کو واضح کرتی ہے ۔ ب)اجتماعی نظام کو بیان کرتی ہے ۔

ج)علوم و تحقیقات کی طرفداری میں موثر ہے ۔ د)دین کے بنیادی اصول اور اس کے اجتماعی احکام کی توضیح سے مربوط ہے ۔

۶۔ دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریات میں عدم ہماہنگی کی وجہ سے جامع اور مفید دلیل و حاکم کے فقدان ، انسان کے ماضی و آئندہ سے چشم پوشی اور اس کے مہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجزاور شدید بحران سے روبرو ہے ۔

۷۔ دینی انسان شناسی ''ہمہ گیر ''ہونے کی وجہ سے جامعیت ، نا قابل خطا، مبدا و معاد پہ توجہ اور دوسرے انسان شناسی کے مقابلہ میں عمدہ کردار کی وجہ سے برتری رکھتی ہے۔

۳۵

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں اور اگر ان کے جوابات میں کوئی مشکل در پیش ہو تومطالب کا دوبارہ مطالعہ کریں ؟

۱۔ منددرجہ ذیل موارد میں سے کون انسان شناسی کل نمائی اور ہمہ گیر موضوعات کا جزء ہے اور کون انسان شناسی ،جزئی موضوعات کا جزء ہے ؟

''سعادت انسان ، خود فراموشی، حقوق بشر ، انسانی قابلیت ، انسانی ضرورتیں ، مغز کی بناوٹ ''

۲۔ ''خود شناسی ''سے مراد کیا ہے اور دینی انسان شناسی سے اس کا کیا رابطہ ہے ؟

۳۔ مندرجہ ذیل میں سے کون صحیح ہے ؟

(الف) تجربی علوم انسانی میں ایک مکتب، انسان محوری ہے ؟( ب) تجربی علوم انسانی اور دینی انسان شناسی، موضوع ، دائرہ عمل اورروش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ ( ج) حقوق بشر کا یقین اور اعتقاد ، انسانوں کی مشترکہ فطرت سے وابستہ ہے ۔ (د) موت کے بعد کی دنیا پر یقین کا انسان شناسی کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

۴۔ انسان کی صحیح اور جھوٹی ضرورتوں کی شناخت کا معیار کیا ہے ؟

۵۔ آپ کے تعلیمی موضوع کا وجود و اعتبار کس طرح انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل سے مربوط ہے ؟

۶۔ انسانوں کا جانوروں سے امتیاز اوراختلاف ، فہم اور انتقال مطالب کے دائرے میں زبان اور آواز کے حوالے سے کیا ہے ؟

۷۔ آیا انسان محوری ، انسان کی تعظیم و قدر دانی ہے یا انسان کی تذلیل اور اس کے حقیقی قدر و منزلت سے گرانا ہے ؟

۳۶

مزید مطالعہ کے لئے

۱.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ارتگا ای گاست ، خوسہ ؛ انسان و بحران ترجمہ احمد تدین ؛ تہران : انتشارات علمی و فرہنگی

۔عارف ، نصر محمد ( ۱۹۱۷ ) قضایا المنھجیة فی العلوم النسانیة.قاہرہ : المعھد العالمی للفکر السلامی

۔کیسیرر،ارنسٹ (۱۳۶۹) رسالہای در باب انسان در آمدی بر فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادرزادہ تہران : پژوہشگاہ علوم انسانی

۔گلدنر ، الوین (۱۳۶۸) بحران جامعہ شناسی غرب ، ترجمہ فریدہ ممتاز ، تہران : شرکت سہامی انتشار

۔ گنون ، رنہ ،بحران دنیای متجدد ، ترجمہ ضیاء الدین دہشیری تہران : امیر کبیر

۔والر اشتاین ، ایمانویل (۱۳۷۷)سیاست و فرہنگ در نظام متحول جہانی ، ترجمہ پیروز ایزدی تہران : نشرنی

۔ واعظی ، احمد ، ''بحران انسان شناسی معاصر''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹، ص ۱۰۹.۹۴، قم دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵.

۲ معارف دینی اور تفکر بشری کے سلسلہ میں انسان شناسی کا اثر چنانچہ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ در آمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ص ۴۵.۵۵۔

۔ محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن (خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان

شناسی )قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۱۵۔ ۳۵۔

۔ پیش نیازھای مدیریت اسلامی ، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ،قم : ۱۳۷۹۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، تہران : سمت ، ص ۱۴۔۱۷۔

۳. انسان شناسی کی کتابوں کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹ ،ص۱۶۶۔ ۱۲۸ ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵

۳۷

۴۔بعض وہ کتابیں جس میں اسلامی نقطہ نظر سے انسان کے بارے میں بحث ہوئی ہے :

۔ ایزوٹسوٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸) خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۔ بہشتی ، احمد (۱۳۶۴ ) انسان در قرآن ، کانون نشر طریق القدس ۔

۔ جعفری ، محمد تقی ( ۱۳۴۹ ) انسان در افق قرآن ، اصفہان : کانون علمی و تربیتی جہان اسلام.

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲ ) انسان در اسلام ، تہران : رجاء ۔

۔حائری تہرانی ، مہدی ( ۱۳۷۳) شخصیت انسان از نظر قرآن و عترت .قم : بنیاد فرہنگی امام مہدی ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن ( ۱۳۶۹) انسان و قرآن ، تہران:الزہراء

۔حلبی ، علی اصغر ( ۱۳۷۱ ) انسان در اسلام و مکاتب غربی تہران : اساطیر

۔دولت آبادی ، علی رضا (۱۳۷۵)سایہ خدایان نظریہ بحران روان شناسی در مسئلہ

انسان ،فردوس : ( ۱۳۷۵)

۔قرائتی ، محسن ( بی تا ) جہان و انسان از دیدگاہ قرآن ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔قطب ، محمد ( ۱۳۴۱) انسان بین مادیگری و اسلام ، تہران : سہامی انتشار ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )

قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( بی تا ) انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۔ نصری ، عبد اللہ ( ۱۳۶۸) مبانی انسان شناسی در قرآن ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۳۸

دوسری فصل :

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

ا۔ انسان کے بارے میں مختلف نظریوں کو مختصراً بیان کریں ؟

۲۔ہیومنزم کے معانی و مراد کی وضاحت کریں ؟

۳۔ ہیومنزم کے چار اہداف و مراتب کی مختصراً وضاحت پیش کریں ؟

۴۔ہیومنزم کے نظریہ کی تنقیدو تحلیل کریں ؟

۳۹

جیسا کہ اشارہ ہوچکاہے کہ انسان ، بشری تفکر کا ایک محور ہے جس کے بارے میں وجود اور اہمیت شناسی کے مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، بعض مفکرین نے انسان کو دوسرے موجودات سے بالاتر اور بعض نے اسے حیوانات کے برابر اور کچھ نے اس کو حیوان سے کمتر و ناتواں اور ضعیف بیان کیا ہے ، معرفت کی اہمیت کے اعتبار سے بھی بعض نے اس کو اشرف المخلوقات ، بعض نے معتدل (نہ بہتر اور نہ خراب ) اور بعض نے انسان کو برا ، ذلیل اورپست کہا ہے، آئندہ مباحث میں ہم بعض مذکورہ بالا نظریوں کو اجمالاً بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی نظریات کو بھی پیش کریں گے ۔

ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔

دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔

۴۰

یہ دونوں نظریات ، پوری تاریخ بشر میں نسبی یا مطلق طور پر انسانوں پر حاکم رہے ہیں، لیکن اس حاکمیت کی تاریخی سیر کے متعلق تجزیہ و تحلیل ہمارے ہدف کے پیش نظر ضروری نہیں ہے اور اس کتاب کے دائرہ بحث سے خارج ہے ۔لہٰذا پہلے نظریہ کی حاکمیت کے سلسلہ کی آخری کڑی کی تحقیق کریں گے جو تقریباً ۱۴سو سال سے ہیومنزم(۱) یا انسان مداری کے عنوان سے مرسوم ہے ،اور ۶سو سالوں سے خصوصاً آخری صدیوں میں اکثر سیاسی ، فکری اور ادبی مکاتب اس بات سے متفق ہیں کہ ہیومنزم نے مغرب کو اپنے اس نظریہ سے کاملاً متاثر کیا ہے اور بعض مذاہب الٰہی کے پیروکاروں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر جذب کرلیا ہے۔

ہیومنزم کا مفہوم و معنی

اگرچہ اس کلمہ کے تجزیہ و تحلیل اور اس کے معانی میں محققین نے بہت ساری بحثوں اور مختلف نظریوں کو بیان کیا ہے اور اپنے دعوے میں دلیلیں اور مثالیں بھی پیش کی ہیں ،لیکن اس کلمہ کی لغوی تحلیل و تفسیر اور اس کا ابتدائی استعمال ہمارے مقصد کے سلسلہ میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ لہٰذا اس لغوی تجزیہ و ترکیب کے حل و فصل کے بغیر اس مسئلہ کی حقیقت اور اس کے پہلوؤں کی تحقیق کی جائے گی، اس لئے ہم لغت اوراس کے تاریخی مباحث کے ذکرسے صرف نظر کرتے ہیں ، اور اس تحریک کے مفہوم و مطالب کی تاریخی و تحلیلی پہلو سے بحث کرتے ہیں جو آئندہ مباحث کے محور کو ترتیب دیتے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) Humanism

(۲)کلمہ ہیومنزم کے سلسلہ میں لغت بینی اور تاریخی معلومات کے لئے ۔ملاحظہ ہو

. احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ، ص ۸۳،۹۱۔ .لالانڈ آنڈرہ، فرہنگ علمی و انتقادی فلسفہ کلمۂ Humanism کے ذیل میں

. Lewis W, spitz Encyclopedia of Religion

Abbagnano, Nicola Encyclopedia of Philosophy

۴۱

''ہیومنزم '' ہر اس فلسفہ کو کہتے ہیں جو انسان کے لئے مخصوص اہمیت و منزلت کاقائل ہو اور اس کو ہر چیزکے لئے میزان قرار دیتا ہو، تاریخی لحاظ سے انسان محوری یاہیومنزم ایک ادبی ، سماجی ، فکری اور تعلیمی تحریک تھی، جو چند مراحل کے بعد سیاسی ، اجتماعی رنگ میں ڈھل گئی تھی ، اسی بنا پراس تحریک نے تقریباً سبھی فلسفی ، اخلاقی ، ہنری اور ادبی اور سیاسی مکاتب کو اپنے ماتحت کرلیا تھا یا یوں کہا جائے کہ یہ تمام مکاتب (دانستہ یا نادانستہ ) اس میں داخل ہو گئے تھے ، کمیونیزم(۱) سودپرستی(۲) مغربی روح پرستی(۳) شخص پرستی(۴) وجود پرستی(۵) آزاد پرستی(۶) حتی پیرایش گری(۷) لوتھرمارٹن(۸) (مسیحیت کی اصلاح کرنے والے ) کے اعتبار سے سبھی انسان محوری میں شریک ہیں اوران میں ہیومنزم کی روح پائی جاتی ہے۔(۹) یہ تحریک عام طور پر روم اور یونان قدیم سے وابسطہ تھی ۰ ) اور اکثر یہ تحریک غیر دینی اور اونچے طبقات نیز روشن فکر حلقہ کی حامی و طرفدار رہی ہے ،(۱۱) جو ۱۳ویں صدی کے اواخر میں جنوب اٹلی میں ظاہر ہوئی، اور پورے اٹلی میں پھیل گئی،اس کے بعد جرمن ، فرانس ، اسپین اور انگلیڈ میں پھیلتی چلی گئی اور مغرب میں اس کوایک نئے سماج کے روپ میں شمار کیا جانے لگا ۔عقیدہ ٔ انسان مداری، اس معنی میں بنیادی ترین ترقی(۱۲) کا پیش خیمہ ہے اور ترقی پسندمفکرین، انسان کو مرکز ومحور بنا کر عالم فطرت اور تاریخ کے زاویہ سے

____________________

(۱) communism

(۲) pragmatism

(۳) spiritualism

(۴) Personalism

(۵) existentialism

(۶) Liberalism

(۷) protestantism

(۸) Luther,Martin

(۹)لالاند ، آندرہ ،گذشتہ حوالہ۔ (۱۰)پٹراک ( Francesco Petratch ) اٹلی کا مفکر و شاعر ( ۱۳۰۴۔ ۱۳۷۴) سوال کرتا تھا '' تاریخ روم کی تحلیل و تفسیرکے علاوہ تاریخ کیا ہوسکتی ہے ؟ملاحظہ ہو: احمدی ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۹۲و ۹۳. بیوراکہارٹ ( Burackhardt Jacob )(۱۸۱۸۔۱۸۹۷)کہتا تھا :'' آتن''ہی وہ تنہادنیا کی سند تاریخ ہے جس میں کوئی صفحہ رنج آور نہیں ہے ،ہگل کہتا تھا : یورپ کے مدہوش لوگوں میں یونان کا نام ، وطن دوستی تھا۔ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ترجمہ عباس فجر ؛ ص ۱۷،۲۱،۲۳۔(۱۱)مفکرین کی حکومت سے مراد لائق لوگوں کا حاکم ہونا نہیں ہے بلکہ معاشرہ کے اونچے طبقات کی حکومت ہے ۔(۱۲) Renaissance

۴۲

انسان کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان محوری کا رابطہ روم اور قدیم یونان سے تھا اور انسان کو محور قرار دے کر گفتگو کرنے والوں کا خیال یہ تھاکہ انسان کی قابلیت ، لیاقت روم او ر قدیمیونان کے زمانہ میں قابل توجہ تھی ، چونکہ قرون وسطی میں چشم پوشی کی گئی تھی ، لہٰذا نئے ماحول میں اس کے احیاء کی کوشش کی جانی چاہیئے ،ان لوگوں کا یہ تصور تھا کہ احیاء تعلیم و تعلم کے اہتمام اور مندرجہ ذیل علوم جیسے ریاضی ، منطق ، شعر ، تاریخ ، اخلاق ، سیاست خصوصاً قدیمیونان اور روم کی بلاغت و فصاحت والے علوم کے رواج سے انسان کو کامیاب و کامران بنایا جاسکتا ہے جس سے وہ اپنی آزادی کا احساس کرے ، اسی بنا پر وہ حضرات جو مذکورہ علوم کی تعلیم دیتے تھے یا اس کے ترویج و تعلیم کے مقدمات فراہم کرتے تھے انہیں''ہیومنیسٹ '' کہا جاتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو:ڈیوس ٹونی : ہیومنزم: ص ۱۷۱؛ Abbagnano Nicola lbid

۴۳

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب و علل کے بارے میں بحث و تحقیق مزید وضاحت کی طالب ہے لیکن یہاں فقط دو اہم علتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ۔

ایک طرف تو بعض دینی خصوصیات اور کلیسا ئی نظام کی حاکمیت مثلاً مسیحیتکے احکام اور بنیادی عقائد کا کمزور ہونا ،فہم دین او راس کی آگاہی پر ایمان کے مقدم ہونے کی ضرورت ، مسیحیت کی بعض غلط تعلیمات جیسے انسان کو فطرتاً گنہگار سمجھنا ،بہشت کی خرید و فروش ، مسیحیت کاعلم و عقل کے خلاف ہونا ، علمی و عقلی معلومات پر کلیسا کی غیر قابل قبول تعلیمات کو تحمیل کرنا وغیرہ نے اس زمانے کے رائج و نافذ دینی نظام یعنی مسیحیتکی حاکمیت سے رو گردانی کے اسباب فراہم کئینیز روم او رقدیم یونان کو آئیڈیل قرار دیا کہ جس نے انسان اور اس کی عقل کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔

۴۴

اور دوسری طرف بہت سے ہیومنیسٹ حضرات نے جو صاحب قدرت مراکز سے مرتبط تھے اور دین کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں سر سخت مانع سمجھ رہے تھے گذشتہ گروہوں کی حکومت کے لئے راہ حل مہیا کرنے میں سیاسی تبدیلی اور تجدد پسندی کی(۱) عقلی تفسیراور اس کے منفی مشکلات کی توجیہ کرنے لگے،'' ڈیوس ٹونی''(۲) کے بقول وہ لوگ ؛سات چیزوں کے ماڈرن پہلوؤں کی توجیہ ، دین اور اس کی عظمت و اہمت پر حملہ اور کلیسائی نظام کو اپنا طریقۂ کار قراردینا(۳) اور عوام کی ذہنیت کو دین اور دینی علماء سے خراب کرنا نیزدین کی سیاست اور اجتماع سے جدائی کی ضرورت پر کمربستہ ہوگئے ۔ مذکورہ دوسبب سے اپنی حفاظت کی تلاش میں کلیسا،اجتماع اور سیاست کے میدان سے دین کے پیچھے ہٹ جانے کا ذریعہ بنا ،اس تحریک میں دین اور خدا کے سلسلہ میں نئی نئی تفسیریں جیسے خدا کوماننالیکن دین اور تعلیمات مسیحیت کا انکار کرنا، دین میں شکوک وبدعتیں(۴) نیز کسی بھی دین اور اس کی عظمت و اہمیت میں تسامح و تساہل(۵) ، دینی قداست اور اقدار کے حوالے سے(۶) مختلف طریقۂ عمل اور نئے انداز میں تعلیمات دینی کی توضیح و تفسیر شروع ہوگئی ۔

ہیومنزم کے اجزا ئے ترکیبی اور نتائج(۷)

ہیومنزم کی روح اورحقیقت ،جو ہیومنزم کے مختلف گروہوں کے درمیان عنصر مشترک کو تشکیل دیتی ہے اورہر چیز کے محور و مرکز کے لئے انسان کو معیار قرار دیتی ہے(۸) اگر اس گفتگو کی منطقی ترکیبات

____________________

(۱) Modernity

(۲) Davis,Toni

(۳)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ص ۱۷۱

(۴) Religious Ploralism

(۵) Tolerance

(۶) Protestantism

(۷)ماڈرن انسان کے متنوع ہونے اور ہر گروہ کے مخصوص نظریات کی بناپر ان میں سے بعض مذکورہ امور ہیومنزم کے ائتلاف میں سے ہے اوربعض دوسرے امور اس کے عملی نتائج و ضروریات میں سے ہیں ۔ قابل ذکر یہ ہے کہ نتائج سے ہماری مراد عملی و عینی نتائج و ضروریات سے اعم ہے ۔

(۸)لالانڈ ، آنڈرہ ،گذشتہ مطلب ، ڈیوس ٹونی ،گذشتہ مطلب ،ص۲۸۔

۴۵

اور ضروریات کو مدنظر رکھا جائے توجو معلومات ہمیں انسان محوری سے ملی ہے ہمارے مطلب سے بہت ہی قریب ہے ،یہاںہم ان میں سے فقط چار کی تحقیق و بررسی کریں گے ۔

عقل پرستی(۱) اور تجربہ گرائی(۲)

ہیومنزم کی بنیادی ترکیبوں میں سے ایک عقل پرستی ، خود کفائی پر اعتقاد، انسانی فکر کااپنی شناخت میں آزاد ہونا ، وجود ، حقیقی سعادت اور اس کی راہ دریافت ہے ۔(۳) معرفت کی شناخت میں ہیومنیسٹ افراد کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسی کوئی چیزنہیں ہے جو فکری توانائی سے کشف کے قابل نہ ہواسی وجہ سے ہر وہ موجود کہ جس کی شناخت کے دو پہلو تھے ، ماوراء طبیعت جیسے خدا ، معاد ، وحی اور اعجاز وغیرہ (جس طرح دینی تعلیمات میں ہے ) اس کو وہ لوگ غیرقابل اثبات سمجھتے تھے ۔ اور اہمیت شناخت میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ حقوقی ضرورتوں کو انسان کی عقل ہی کے ذریعہ معین کرنا چاہیئے۔ ہیومنزم ایک ایسی تحریک تھی جو ایک طریقہ سے اس سنتی آئین کے مد مقابل تھی جو دین و وحی سے ماخوذ تھے اسی بنا پر پہ ہیومنزم ، دین کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتاہے ۔(۴) انسانی شان و منزلت کے نئے نئے انکشافات سے انسان نے اپنی ذات کو خدا پرست کے بجائے عقل پرست موجود کا عنوان دیا، علم پرستی یا علمی دیوانگی(۵) ایسی ہی فکر کا ماحصل ہے ۔ ہیومنیسٹ حضرات اٹھارہویں صدی میں ہیوم(۶) (۱۷۱۱۔ ۱۷۷۶) کی طرح معتقد تھے کہ کوئی ایسا اہم سوال کہ جس کا حل علوم انسانی میں نہ ہو(۷) وجود نہیںرکھتا ہے ۔ اومنیسٹ حضرات کی قرون وسطی سے دشمنی اور یونان قدیم سے گہرا رابطہ بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہ لوگ یونان قدیم کو تقویتِ عقل اور قرون وسطی کو جہل و خرافات کی حاکمیت کا دور سمجھتے تھے ۔

____________________

(۱) Scientism

(۳) Empiricism

(۲) Rationalism

(۴) Abbagnano

(۵) lbid

Hume, David (۶ )

(۷)ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ص ۱۶۶۔

۴۶

یہ عقل اور تجربہ پرستی کی عظیم وسعت ، دین و اخلاق کے اہم اطراف میں بھی شامل ہے ۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ سبھی چیز منجملہ قواعد اخلاقی، بشر کی ایجاد ہے اور ہونا بھی چاہئے۔(۱) والٹرلپمن(۲) کتاب ''اخلاقیات پر ایک مقدمہ ''(۳) میں لکھتا ہے کہ ہم تجربہ میں اخلاقی معیار کے محتاج ہیں اس انداز میں زندگی بسر کرنا چاہیئے جو انسان کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ ایسانہ ہو کہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے منطبق کریں بلکہ شرائط سعادت کے اعتبار سے انسان کے ارادہ کواچھی شناخت سے منطبق ہو نا چاہیئے۔(۴)

استقلال

ہیومنیسٹ حضرات معتقد ہیں کہ : انسان دنیا میں آزاد آیا ہے لہٰذا فقط ان چیزوںکے علاوہ جس کووہ خود اپنے لئے انتخاب کرے ہر قید و بند سے آزاد ہونا چاہئے ۔ لیکن قرون وسطی کی بنیادی فطرت نے انسان کو اسیر نیزدینی اور اخلاقی احکام کو اپنے مافوق سے دریافت شدہ عظیم چیزوں کے مجموعہ کے عنوان سے اس پر حاکم کردیا ہے،(۵) ہیومنزم ان چیزوں کو ''خدا کے احکامات اور بندوں کی پابندی '' کے عنوان سے غیر صحیح اور غیر قابل قبول سمجھتے ہیں ۔(۶) چونکہ اس وقت کا طریقہ کار اور نظام ہی یہ تھا کہ قبول کیا جائے اور ان کی تغییر اور تبدیلی کا امکان بھی نہ تھا ۔(۷) لہٰذا یہ چیز یں ان کی نظر میں انسان کی آزادی اور استقلال

____________________

(۱)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۲) Walter lippmann

(۳) A Preface to morals

(۴)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ ۔

(۵) Abbagnano, Nicola, lbid

(۶)آربلاسٹر لکھتا ہے : ہیومنزم کے اعتبار سے انسان کی خواہش اور اس کے ارادے کی اصل اہمیت ہے ، بلکہ اس کے ارادے ہی ، اعتبارات کا سر چشمہ ہیںاور دینی اعتبارات جو عالم بالا میں معین ہوتے ہیں وہ انسان کے ارادے کی حد تک پہونچ کر ساقط ہو جاتے ہیں ،(آربلاسٹر، آنتھونی ؛ ظہور و سقوط لبرلیزم ؛ ص ۱۴۰)

(۷)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

۴۷

کے منافی تھیں ۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ انسان کو اپنی آزادی کوطبیعت و سماج میں تجربہ کرنا چاہیئے اور خود اپنی سرنوشت پر حاکم ہونا چاہیئے ،یہ انسان ہے جو اپنے حقوق کو معین کرتا ہے نہ یہ کہ مافوق سے اس کے لئے احکام و تکالیف معین ہوں۔ اس نظریہ کے اعتبار سے انسان حق رکھتا ہے اس لئیاس پرکوئی تکلیف عائد نہیں ہوتی ۔ بعض ہیومنزم مثلاً'' میکس ہرمان ''(۱) جس نے شخص پرستی کو رواج دیا تھا اس نے افراط سے کام لیا وہ معتقد تھا کہ : لوگوں کو اجتماعی قوانین کا جو ایک طرح سے علمی قوانین کی طرح ہیںپابند نہیں بنانا چاہیئے،(۲) وہ لوگ معتقد تھے کہ فقط کلاسیکل ( ترقی پسند) ادبیات نے انسان کی شخصیت کو پوری طرح سے فکری اور اخلاقی آزادی میں پیش کیا ہے۔(۳) اس لئے کہ وہ ہر شخص کو اجازت دیتا ہے کہ جیسا بھی عقیدہ ونظریہ رکھنا چاہتا ہے رکھ سکتا ہے اوردستورات اخلاقی و حقوقی کوایک نسبی امر، قابل تغییر اور ناپایدار بتایا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ سیاسی ، اخلاقی اور حقوقی نظام کو انسان اور اس کی آزادی کے مطابق ہونا چاہئے ۔ وہ نہ صرف دینی احکام کو لازم الاجراء نہیں جانتے تھے بلکہ ہر طرح کا تسلط اور غیر ہیومنزم چیزیں منجملہ قرون وسطی کے بنیادی مراکز (کلیسا ، شہنشاہیت(۴) ، اور قبیلہ والی حکومتیں یا حکام و رعیت ) کو بالکل اسی نقطۂ نگاہ کی بناپر بے اہمیت وبے اعتبار جانتے تھے ۔(۵)

____________________

(۱) Herman,Max

(۲)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۳۴۔

(۳)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۴) imperial

(۵) Feudaism

۴۸

تساہل و تسامح

۱۶و ۱۷ ویں صدی کی دینی جنگوں کے نتیجہ میں صلح و آشتی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے امکان پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو او رتساہل و تسامح(سستی و چشم پوشی ) کی تاکید ہوئی ہے، اور دینی تعلیمات کی وہ روش جو ہیومنزم کا احترام کرتی تھیں تساہل و تسامح کی روش سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، اس نظریہ میں تسامح کا مطلب یہ تھا کہ مذاہب ایک دوسرے سے اپنے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے باہم صلح و آتشی سے زندگی گذار سکیں ، لیکن جدید انسان گرائی کے تساہل و تسامح سے اس فکر کا اندازہ ہوتاہے کہ انسان کے دینی اعتقادات اسی کی ذات کا سر چشمہ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ ان اعتقادات کے اندر ،بنیادی اور اساسی چیز وحدت ہے کہ جس میں عالمی صلح کا امکان موجود ہے، ہیومنیسٹ اس دنیا کے اعتبار سے خدا کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ : مسیح کا خدا وہی فلسفی بشر کی عقل ہے جو مذہب کی شکل میں موجود ہے۔(۱) اس زاویہ نگاہ سے مذاہب میں تساہل یعنی ، مسالمت آمیز زندگی گزارنے کے علاوہ فلسفہ اور دین کے درمیان میں بھی تساہل موجود ہے ، جب کہ یہ گذشتہ ایام میں ایک دوسرے کے مخالف تھے ۔ یہ چیز قدیم یونان اور اس کی عقل گرائی کی طرف رجوع کی وجہ نہیں تھی ۔ یہ نظریہ جو ہر دین اور اہم نظام کی حقانیت اور سعادت کے انحصاری دعوے پر مبنی ہے کسی بھی اہم نظام اور معرفت کو حق، تسلیم نہیں کرتا اور ایک طرح سے معرفت اور اہمیت میں مخصوص نسبت کا پیروکار ہے اسی بنا پر ہر دین اور اہم نظام کی حکمرانی فقط کسی فرد یا جامعہ کے ارادہ اور خواہش پر مبنی ہے ۔

سکولریزم(۲)

اگرچہ ہیومنزم کے درمیان خدا اور دین پر اعتقاد رکھنے والے افراد بھی ہیںاور انسان مداری (انسان کی اصالت کا قائل ہونا)کو مومن اور ملحد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہیومنزم کو بے دین اور دشمن دین نہ سمجھیں تو کم از کم خدا کی معرفت نہ رکھنے والے اور منکر دین ضرور ہیں، اور ہیومنزم کی تاریخ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ خدا کی اصالت کے بجائے انسان کو اصل قرار دینا ہی باعث بناکہ ہیومنزم افراد قدم بہ قدم سکولریزم اورالحادنیزبے دینی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ خدا اور دینی تعلیمات کی جدید تفسیر کہ جس کو ''لوٹر ''جیسے افراد نے بیان کیاہے کہ خدا کو ماننا نیزخدا او ردین آسمانی کی مداخلت سے انکار

____________________

(۱) ibid

(۲) Secularism

۴۹

منجملہ مسیحی تعلیم سے انکار ، طبیعی دین ( مادّی دین ) اور طبیعی خدا گرائی کی طرف مائل ہونا جسے ''ولٹر''(۲) (۱۷۷۸۔۱۶۹۴ )اور ''ہگل ''(۳) (۱۸۳۱۔۱۷۷۰ )نے بھی بیان کیا ہے،اور '' ہیکسلی ''(۴) جیسے افراد کی طرف سے دین اور خدا کی جانب شکاکیت کی نسبت دینااور'' فیور بیچ ''(۵) (۱۸۳۳۔۱۷۷۵) ''مارکس ''(۶) ( ۱۸۸۳۔۱۸۱۸)نیز ملحد اور مادہ پرستوں نے دین اور خدا کا بالکل انکار کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ ایسے مراحل ہیں جنہیں ہیومنزم طے کرچکا ہے ۔البتہ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ہگل جیسے افراد کے نزدیک اس خدا کا تصورجو ادیان ابراہیمی میں ہے بالکل الگ ہے ۔دین اور خدا کی وہ نئی تفسیرجو جدید تناظر میں بیان ہوئی ہیں وہ ان ادیان کی روح سے سازگار نہیں ہے اور ایک طرح سے اندرونی طورپردینی افکارو اہمیت کی منکر اورانہیںکھوکھلا کرنے والی ہیں۔ بہر حال ہیومنزم کی وہ قسم جو مومن ہے اس کے اعتبار سے بھی خدا اور دین نقطہ اساسی اور اصلی شمار نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانوں کی خدمت کے لئے آلہ کے طور پر ہیں،یہ انسان ہے جو اصل اور مرکزیت رکھتا ہے ،ڈیوس ٹونی لکھتا ہے : یہ کلمہ (ہیومنزم ) انگلیڈ میں یکتا پرستی(۷) حتی خدا شناسی سے ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اور یہ قطعا مسیحیوں اور اشراقیوں کی موقعیت سے سازگار نہیں تھا، عام طورپر یہ کلمہ الہی تعلیمات سے ایک طرح کی آزادی کا متضمن تھا ۔ ت.ھ. ہیکسلی(۸) ڈاروینزم کا برجستہ مفکر اور چارلز بریڈلیف(۹) قومی سکولریزم کی انجمن کے مؤسس نے روح یعنی اصل ہیومنزم کی مدد کی اور اس کو فروغ بخشا تاکہ اس کے ذریعہ

____________________

(۱) Deism

(۲) Voltaire

(۳) Hegel,Friedrich

(۴) Huxley,Julian

(۵) Feuerbach, von Anseim

(۶) Mark, karl .(۷)یکتا پرستی یا توحید ( Unitarianism )سے مراد مسیحیت کی اصلاح کرنے والے فرقہ کی طرف سے بیان کئے گئے توحید کا عقیدہ ہے جو کاٹولیک کلیسا کی طرف سے عقیدہ ٔ تثلیث کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اوریہ ایک اعتبار سے مسیحیت کی نئی تفسیر تھی جوظاہراً مقدس متون کی عبارتوں سے ناسازگار اور مسیحی مفکرین کی نظر میں دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھی ۔ اورعام طور پر یہ کلمہ الٰہی تعلیمات سے آزادی کا متضمن تھا ۔

(۸) Thomas,Henry,Hexley

(۹)وہ پارلیمنٹ کا ممبر اور National Reformer نشریہ کا مدیر اعلیٰ تھا جس نے قسم کھانے کی جگہ انجیل کی تائید کے سلسلہ میں مجلس عوام سے ۶۰ سال تک مقدمہ لڑا۔

۵۰

سرسخت مسیحیت کے آخری توہمات کو بھی ختم کردے ۔(۱) نیز وہ اس طرح کہتا ہے کہ : ''ا گسٹ کانٹ''(۲) کے مادی اور غیر مادی افکار کے اقسام سے عناد، عوام پسند ہیومنزم کے مفہوم کا یکتا پرستی یا الحاد اور سکولریزم میں تبدیلی کا باعث ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اور اس کی تحریک کو ۱۹ویں صدی میں تاسیس انجمنوں کے درمیان مشاہدہ کیا جاسکتا ہے(۳) مثال کے طور پر عقل گرا(اصالت عقل کے قائل )مطبوعاتی ، اخلاقی اور قومی سکولریزم کی انجمنیں۔''ڈیوس ٹونی''اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں مسیحی ہیومنزم مومنین کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مسیحیت اور ہیومنزم کا پیوند اختلافات سے چشم پوشی کرکے انجام پایا جس کی وجہ سے مسیحی ہیومنزم کی ناپایدار ترکیب میں فردی ہیومنزم کے نقش قدم موجود تھے ۔ یعنی خداوند متعال جوہر چیز پر قادر ہے اور کالون کی ہر چیز سے باخبرہے اور فردی ارادہ کی آزادی کے درمیان تناقض،ایسے تناقض ہیں جو ''فیلیپ سیڈنی(۴) ، اڈموند اسپنسر(۵) کریسٹو فرمارلو(۶) ، جان ڈان(۷) اور جان ملٹن''(۸) جیسے اصلاح گرہیومنیسٹ کی عبارتوں میں جگہ جگہ ملتاہے ۔(۹) محمد نقیب العطاس بھی لکھتا ہے : ''نظشے '' کا نعرہ ''کہ خدا مرگیا ہے '' جس کی گونج آج بھی مغربی دنیا میں سنی جاسکتی ہے اور آج مسیحیت کی موت کا نوحہ خصوصاً پروٹسٹوں یعنی اصلاح پسندوں کی طرف سے کہ جنہوں نے ظاہراً اس سر نوشت کو قبول کرتے ہوئے مزید آمادگی سے زمانے کے ساتھ ساتھ طریقۂ مسیحیت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ اس کاعقیدہ ہے کہ اصلاح پسندوںنے ہیومنزم کے مقابلہ میں عقب نشینی کے ذریعہ مسیحیت کودرونی طور پر بدل دیا ہے۔ ۰ ) ''ارنسٹ کیسیرر ''دور حاضر میں اصلاحات (رسانس) پر جاری تفکر کی توصیف میں جو

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ؛ ص ۳۷۔(۲) August,conte

(۳)گذشتہ حوالہ ، ص ۴۱۔(۴) Philip,sidney

(۵) Edmund, spenser

(۶) Chirs topher Marlowe

(۸) John,Don

(۹) John,Milton

(۱۰)العطاس ، محمد نقیب ، اسلام و دینوی گری ، ترجمہ احمد آرام ؛ ص ۳ و ۴۔

۵۱

ہیومنزم سے لیا گیا ہے اور اس سے ممزوج و مخلوط ہے لکھتا ہے :ایسا لگتا ہے کہ تنہا وسیلہ جو انسان کو تعبداور پیش داوری سے آزاد اور اس کے لئے حقیقی سعادت کی راہ ہموار کرتا ہے وہ پوری طرح سے مذہبی اعتقاد اور اقدار سے دست بردار ہونا اور اس کو باطل قرار دینا ہے ، یعنی ہر وہ تاریخی صورت کہ جس سے وہ وابستہ ہے اور ہر وہ ستون کہ جس پر اس نے تکیہ کیا ہے اس کی حاکمیت کی تاریخ اور عملی کارکردگی کے حوالے سے اس کے درمیان بہت گہرا فاصلہ ہے کہ جس کو ہیومنزم کے نظریہ پر اساسی و بنیادی تنقید تصور کیا جاتا ہے اور دور حاضر میں اصلاحات کی عام روش ، دین میں شکوک اور تنقید کا آشکار انداز ہے ۔(۱)

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق

فکرو عمل میں تناقض

فکرو عمل میں تناقض یعنی ایک فکری تحریک کے عنوان سے ہیومنزم کے درمیان اورانسانی معاشرہ پر عملی ہیومنزم میں تناقض نے انسان کی قدر و منزلت کو بلند و بالا کرنے کے بجائے اس کو ایک نئے خطرے سے دوچارکردیا اور انسان پرستی کے مدعی حضرات نے اس کلمہ کو اپنے منافع کی تامین کے لئے غلط استعمال کیاہے۔ شروع ہی میں جب حق زندگی ، آزادی و خوشی اور آسودگی کے تحت ہیومنزم میں انسانی حقوق کے عنوان سے گفتگو ہوتی تھی تو ایک صدی بعد تک امریکہ میں کالوں کو غلام بنانا قانونی سمجھا جاتاتھا ۔(۲) اور معاشرہ میں انسانوں کی ایک کثیر تعداد ماڈرن انسان پرستی کے نام سے قربان ہوتی تھی۔(۳) ''نازیزم''(۴) ''فاشیزم''(۵) اسٹالینزم(۶) امپریالیزم(۷) کی تحریکیں،ہیومنزم کی ہم فکراور ہم خیال تھیں(۸) اسی بنا پر بعض مفکرین نے ضد بشریت ، انسان مخالف تحریک

____________________

(۱)کیسیرر ، ارنسٹ؛ فلسفہ روشنگری؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، ص ۲۱۰۔

(۲)احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۱۱۱۔ ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص ۳۶۔

(۳)گذشتہ حوالہ ،ص ۲۰(۸)ڈیوس ٹونی،وہی مدرک ،ص ۹،۵۴،۶۴،۸۴۔

(۴) Nazism

(۵) Fascism

(۶) Stalinism

(۷) Imperialism

۵۲

دھوکا دینے والی باتیں ، ذات پات کی برتری کی آواز جیسی تعبیروں کو نازیزم اور فاشیزم کی ایجاد جانا ہے اور ان کو انسان مخالف طبیعت کو پرورش دینے نیز مراکز قدرت کی توجیہ کرنے والا بتایا ہے ۔(۱) اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی جرم ایسا ہو جو انسانیت کے نام سے انجام نہ پایا ہو ۔(۲)

ہیومنزم کے ناگوار نتائج اور پیغامات ایسے تھے کہ بعض مفکرین نے اس کو انسان کے لئے ایک طرح کا زندان و گرفتاری سمجھا اور اس سے نجات پانے کے لئے لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے ۔(۳)

فکری حمایت کا فقدان

ہیومنزم کے دعوے کا اور ان کے اصول کا بے دلیل ہونا، ہیومنزم کا دوسرا نقطہ ضعف ہے ۔ ہیومنیسٹ ا س سے پہلے کہ دلیلوں و براہین سے جس کا دعویٰ کر رہے تھے نتیجہ حاصل کرتے، کلیسا کی سربراہی کے مقابلہ میں ایک طرح کے احساسات و عواطف میں گرفتار ہوگئے ،چونکہ فطرت پرستی سے بے حد مانوس تھے لہٰذا روم و قدیم یونان کے فریفتہ و گرویدہ ہوگئے ۔ ''ٹامس جفرسن''(۴) نے امریکا کی آزادی کی تقریر میں کہاہے کہ :ہم اس حقیقت کو بدیہی مانتے ہیں کہ تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیں ۔(۵)

''ڈیوس ٹونی '' لکھتا ہے کہ : عقلی دور(ترقی پسند زمانہ) کا مذاق اڑانے والی اور نفوذ والی کتاب جس نے محترم معاشرہ کو حتی حقوق بشر کی کتاب سے زیادہ ناراض کیا ہے، وہ مقدس کتاب ہے جو عالم آخرت کے حوادث اور سرزنش سے بھری ہوئی ہے،اس کا طریقہ اور سیاق و سباق تمام مسخروں اور مذاق اڑانے والوں کا مسخرا کرناہے ۔ بعض اومانٹسٹ حضرات نے بھی ہیومنزم کی حاکمیت کی توجیہ کی اوراسے اپنے منافع کی تامین کا موقع و محل سمجھا ۔

____________________

(۱)ملاحظہ ہو گذشتہ حوالہ ص ۲۷۔۳۶، ۴۵۔۴۶،۵۴۔۶۲،۶۴،۸۴۔۹۴،۱۴۷۔۱۷۸ واحدی ، بابک گذشتہ حوالہ ص ۹۱۔۹۳، ۱۱۰،۱۲۲.

(۲)احمدی ، بابک ، گذشتہ حوالہ ص ۱۱۲۔

(۳)ڈیوس ٹونی ، گذشتہ حوالہ ،۱۷۸۔

(۴) Thomas, Jeferson

(۵) گذشتہ حوالہ ، ص ۱۱۰۔

۵۳

ہیومنیسٹ کی طرف سے بیان کئے گئے کلی مفاہیم کے بارے میں ''ڈیوس ٹونی ''یہ جانتے ہوئے کہ اس کو منافع کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے لکھتا ہے کہ : اس میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ خود سے سوال کرے کہ : اس عظیم دنیا میں بلند مفاہیم کے پشت پردہ کون سا شخصی اور محلی فائدہ پوشیدہ ہے؟(۱) مجموعی طور پر ہیومنیسٹ، انسان کی قدر و منزلت اور فکری اصلاح کے لئے کوئی پروگرام یا لائحہ عمل طے نہیں کرتے تھے بلکہ گذشتہ معاشرہ کی سرداری کے لئے بہت ہی آسان راہ حل پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ...''لیونارڈو برونی ''(۲) نے لکھا تھا کہ : تاریخی تحقیق ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ کیسے اپنے بادشاہوں اور حاکموں کے حکم اور عمل کا احترام کریں اور بادشاہوں ، حاکموں کو اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ کیسے اجتماعی مسائل کا لحاظ کریں تاکہ اپنی قدرت کو اچھی طرح سے حفظ کرسکیں،(۳) غرض کہ ہر وہ چیز جو قرون وسطی کی نفی کرے یہ لوگ اس کا استقبال کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے ۔ کلیسا کی حاکمیت ،خدا و دین کا نظریہ انسان کا فطرةً گناہگار اور بد بخت ہونا ، معنوی ریاضت نیز جسمانی لذتوں سے چشم پوشی اور صاحبان عقل و خرد سے بے اعتنائی یہ ایسے امور تھے جو قرون وسطی میں معاشرہ پر سایہ فکن تھے ۔ اورہیومنیسٹوں نے کلیسا کی قدرت و حاکمیت سے مقابلہ کرنے کے لئے ، خدا محوری اور اعتقادات دینی کو پیش کیااور انسان کی خوش بختی ،جسمانی لذتوںاور صاحبان خرد کو اہمیت دینے نیز حقوق اللہ اور اخلاقی شرط و شروط سے انسان کو آزاد کرنے کے لئے آستین ہمت بلند کی ۔(۴) وہ لوگ علی الاعلان کہتے تھے کہ : قرون وسطی کے زمانے میں کلیسا نے جو حقوق واقدار انسان سے سلب کر لئے تھے، ہم اس کو ضرور پلٹائیں گے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص،۳۶۔(۲) Abagnano,Nicola,ibid (۳) احمد، بابک ، گذشتہ حوالہ؛ ص، ۹۱ و ۹۳ (۴)ویل ڈورانٹ لکھتا ہے کہ ہیومنیسٹوں نے دھیرے دھیرے اٹلی کی عوام کو خوبصورتی سے شہوت کے معنی سمجھائے جس کی وجہ سے ایک سالم انسانی بدن کی کھلی ہوئی تہذیب (خواہ مرد ہو یا عورت خصوصاً برہنہ ) پڑھے لکھے طبقوں میں رائج ہوگی ۔ویل ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ۵ص ۹۷۔۹۸. جان ہرمان بھی لکھتا ہے کہ : قرن وسطی کے اواخر میں بھی بہت سی گندی نظموں کا سلسلہ رائج ہوگیا تھا جو زندگی کی خوشیوں سے بطور کامل استفادہ کی تشویق کرتی تھی ۔ رنڈل جان ہرمان ، سیر تکامل عقل نوین ، ص ۱۲۰۔

Leonardo Bruni(۵)

۵۴

بہرحال انسان محوری ( اصالت انسان ) کے عقیدے نے ہر چیز کے لئے انسان کو میزان و مرکز بنایا اورہر طرح کی بدی اور مطلق حقائق کی نفی، نیز فطرت سے بالاتر موجودات کا انکار منجملہ خدا اور موت کے بعد کی دنیا (آخرت)کے شدت سے منکر تھے۔آخر وہ کس دلیل کی بنا پر اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتے ہیں ؟ان کے پاس نہ ہی معرفتِ وجوداور نہ ہی انسانوں کی کاملا آزادی واختیار(۱) پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی خدا کے انکار اور اس کے قوانین اور وحی سے بے نیازی پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی شناخت کی اہمیت کے سلسلہ میں کوئی پروف ہے ۔ اور نہ ہی بشر کے افکار و خیالات ، آرزوؤں ، خواہشوں نیزحقوقی و اخلاقی اہمیتوںپر کوئی ٹھوس ثبوت ہے اور نہ ہی فلسفی اور عقلی مسائل کو بعض انسان پرست فلاسفہ کی نفسیاتی تحلیلوں سے ثابت کیا جا سکتاہے ۔ بلکہ عقلی اور نقلی دلیلیں نیز شواہد و تجربات اس کے خلاف دلالت کرتے ہیں، اگرچہ انسان اسلامی تعلیمات اورادیان ابراہیمی کی نگاہ میں مخصوص منزلت کا حامل ہے اور عالم خلقت اور کم از کم اس مادی دنیا کو انسان کامل کے توسط سے انسانوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اوروہ اس کی تابع ہے ۔ لیکن جیسا کہ متعدد دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کا سارا وجود خدا سے وابستہ اور اس کے تکوینی اور تشریعی تدبیر کے ماتحت ہے اور اسی کا محتاج ہے اور اس کی مدد کے بغیر تکوینی اور تشریعی حیثیت سے انسان کی سعادت غیر ممکن ہے ۔

____________________

(۱)انسان محوری کا نظریہ رکھنے والوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان بہت زیادہ اختیارات کا حامل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان جس طریقہ سے چاہے زندگی گذار سکتا ہے ۔ ژان پل ، سارٹر کہتا ہے کہ : اگر ایک مفلوج انسان دوڑمیں ممتاز نہ ہوسکتا ہو تو یہ خود اس کی غلطی ہے ، اسی طرح وہ لوگ اعمال کے انجام دینے(عامل خارجی کو بغیر مد نظر رکھتے ہوئے خواہ حقوقی ، سنتی ، اجتماعی ، سیاسی ، غیر فطری افعال) میں انسان کی ترقی سمجھتے ہیں ۔

۵۵

فطرت اور مادہ پرستی

قریب بہ اتفاق اکثرہیومنزم کے ماننے والوں نے فطرت پسندی کو انسان سے مخصوص کیا ہے

او ر اس کو ایک فطری موجود اور حیوانات کے ہم پلہ بتایا ہے۔ حیوانوں ( چاہے انسان ہو یا انسان کے علاوہ ) کے درجات کو فقط فرضی مانتے ہیں ۔(۱) انسان کے سلسلہ میں اس طرح کے فکری نتائج اور ایک طرف فائدہ کا تصور، مادی لذتوں کا حقیقی ہونا اور دنیائے مغرب کی تباہی اور دوسری طرف سے ہر طرح کی اخلاقی قدرو منزلت ، معنوی حقوق ، معنوی کمالات اور ابدی سعادت کی نفی کی ہے ۔

ہم آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے کہ نہ تو انسان حیوانوں کے برابر ہے اور نہ ہی مادی اور فطری اعتبار سے منحصر ہے اور نہ ہی اس کی دنیا صرف اسی مادی دنیا سے مخصوص ہے ،انسان ایک جہت سے غیر مادی پہلو رکھتا ہے اور دوسری جہت سے انسان موت سے نابودنہیں ہوتااور اس کی زندگی مادی زندگی میں محدود نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا آخری کمال خدا سے قریب ہونااور خدا جیسا ہونا ہے جس کی کا مل تجلی گاہ عالم آخرت ہے جیسا کہ وجود شناسی کے مباحث میں ثابت ہو چکا ہے،خدا صرف ایک فرضی موجود اور انسان کی آرزو، خیالات اور فکری محصول نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حقیقی و واقعی وجود ہے نیز وہ تمام وجود کا مرکز اور قدر و منزلت کی خواہشوں کی آماجگاہ ہے سارے عالم کا وجود اس سے صادر ہوا ہے اور اسی سے وابستہ ہے اور اس کی تکوینی و تشریعی حکمت و تدبیر کے ما تحت ہے ۔

ہیومنزم اور دینی تفکر

عقل و خرد ، خدائی عطیہ ہے اور روایات کی روشنی میں باطنی حجت ہے جو خداکی ظاہری حجت یعنی انبیاء کے ہمراہ ہے، لہٰذا ہیومنزم کی مخالفت کو، عقل و صاحبان خرد کی مخالفت نہیں سمجھنا چاہیئے،وہ چیزیں جو ہیومنزم کی تنقید کے سلسلہ میں بیان ہوتی ہیں وہ عقل کو اہمیت دینے میں افراط، خدا اور عقل کوبرابر سمجھنا یا عقل کو خدا پر برتری دینا اور عقل پرستی کو خدا پرستی کی جگہ قرار دینا ہے ۔ دین کی نگاہ میں عقل انسان کو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کی معرفت و عبادت کی راہ ہموار

____________________

(۱)فولادوند، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' نگاہ حوزہ ؛ شمارہ ۵۳و ۵۴،ص ۱۰۴۔۱۱۱.

۵۶

کرتی ہے ،امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''العَقلُ مَا عُبدَ بِه الرَّحمٰن و اکتسِبَ بِه الجنَان ''(۱) عقل وہ ہے جس کے ذریعہ خدا کی عبادت ہوتی ہے اور بہشت حاصل کی جاتی ہے اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ فرمایا :''رَبّنَا یعرفُ بالعقلِ و یُتوسل لَیه بالعَقلِ ''(۲) ہمارا خدا عقل کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور عقل ہی کے ذریعہ اس سے رابطہ برقرار ہوتا ہے۔

عقل کا صحیح استعمال ،انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ یوں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ کی ربوبیت کے زیر سایہ ہے ۔نیز اخلاقی اقدار اور حقوقی اہمیت کے اصول ،عقل اور الٰہی فطرت کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن عقل کی رہنمائی اورتوانائی کی یہ مقدار جیسا کہ وہ لوگ خود بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ نہ ہی ہیومنزم کی فرد پرستی کا مستلزم ہے اور نہ ہی انسان کی حقیقی سعادت کے حصول کے لئے کافی ہے، وہ چیزیںجو عقل ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہے وہ کلی اصول اور انسان کی ضرورتوں کی مبہم تأمین اور افراد کے حقوق اور عدالت کی رعایت نیز انسان کی بلند و بالا قدر و منزلت ، آزادی اور آمادگی اور اس کی قابلیت کی سیرابی ہے ۔ لیکن حقیقی سعادت کے لئے بیان کئے گئے میزان و حدود اور اس کے مصادیق و موارد کا پہچاننا ضروری ہے ۔ وہ چیزیں جو عقل بشر کی دسترس سے دور ہیں وہ ہیومنزم نظریے خصوصاً ہیومنزم تجربی ( اومانیز کی ایک قسم ہے ) کے حامی اس سلسلہ میں یقینی معرفت کے عدم حصول کی وجہ سے مختلف ادیان و مکاتب کے ہر فرضی نظریہ کو پیش کرتے ہیں اور معرفت وسماجی پلورالیزم کے نظریہ کو قبول کرتے ہیں ۔(۳) تاریخی اعتبار سے اس طرح کے فلسفہ اور نظریات ،نوع بشر کو آزادی اور سعادت کی دعوت دینے کے بجائے خوفناک حوادث و مصائب کی سوغات پیش کرتے ہیں ۔(۴) اور ان نتائج کو فقط ایک امر اتفاقی اور اچانک وجود میں آنے والا حادثہ نہیں سمجھنا چاہیئے،

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ج۱، ص ۱۱۶و ۱۷۰۔

(۲)گذشتہ مدرک ص ۹۳

(۴)ملاحظہ ہو؛ معمای مدرنیتہ ؛ فصل ہفتم۔

(۳)مومٹنگ کہتا ہے کہ : ''ہم کو تجربہ کے ذریعہ حقیقت تک پہونچنا چاہیئے ، لیکن دنیا حتی انسان کے بارے میں یقین حاصل کرنا مشکل ہے اور یہ تمام چیزیں منجملہ اخلاقی اصول خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ہمیں تمام آداب و رسوم کا احترام کرنا چاہیئے اور پلورالیزم معاشرہ کو قبول کرنا چاہیئے ''( فولادوند ، عزت اللہ ؛ گذشتہ مدرک )

۵۷

اگر انسان کو خود اسی کی ذات پر چھوڑ دیا جائے اس طرح سے کہ وہ کسی دوسری جگہ سے رہنمائی اور زندگی ساز ضروری پیغام دریافت نہ کرے توقوت عاطفہ ، غضبیہ اور شہویہ جو فطری طور سے فعال رہتی ہیں اور ہمیشہ تکامل کی طرف گامزن ہیں ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہش بھی اس پر حاکم ہوجائے گی اور اس کی عقل سلیم نہ فقط ان امور کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ ناپسندیدہ اعمال کی انجام دہی کے لئے عقلی بہانے تراشتی پھرے گی ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ :( إنّ الاِنسَان لیَطغیٰ أن رَاهُ استَغنَی ) (۱) یقینا انسان سر کشی کرتا ہے اس لئے کہ وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔

بے قید وشرط آزادی

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ ہیومنزم کے ماننے والے معتقد تھے کہ: انسانی اقدار،حمایت اور طرفداری کے لئے بس فلسفی قوانین ہیں، دینی عقاید و اصول اورانتزاعی دلیلیںانسانی اقدار اور اس کی اہمیت کو پیش کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔(۲) انسان کو چاہیئے کہ خود اپنی آزادی کو طبیعت (مادہ) اور معاشرہ میں تجربہ کرے ایک نئی دنیا بنانے اور اس میں خاطر خواہ تبدیلی اور بہتری لانے کی صلاحیت انسان کے اندر پوری پوری موجود ہے۔(۳) ایسی بکھری ہوئی اور بے نظم آزادی جیسا کہ عملاً ظاہر ہے بجائے اس کے کہ انسان کی ترقی کی راہیں اور اس کی حقیقی ضرورتوں کو تامین کریں انسان پر ستم اور اس کی حقیقی قدر و منزلت اور حقوق سے چشم پوشی کا ذریعہ ہو گئی اورمکتب فاشیزم و نازیزم کے وجود کا سبب بنی۔ ''ہارڈی ''کتاب ''بازگشت بہ وحی'' کا مصنف اس کے نتیجہ کو ایک ایسے سانحہ سے تعبیر کرتا ہے کہ جس کا ہدف غیرمتحقق ہے۔ اس سلسلہ میں لکھتا ہے کہ :بے وقفہ کمال کی جانب ترقی اور پھر اچانک اس راہ میں شکست کی طرف متوجہ ہونا ۱۹ ویں صدی میں یہی وہ موقعہ ہے جس کو''سانحہ'' سے

____________________

(۱)سورۂ علق ۶و ۷.

(۲) Encyclopedia Britanica. (۳)Abbagnona, Nicola,ibid

۵۸

تعبیر کیا گیا ہے جو ماڈرن ( ترقی پسند) ہونے کی حیثیت سے مشخص ہے ۔(۱)

حقیقی اور فطری تمایل کی وجہ سے وجود میں آئی ہوئی انسان کی خود پسندی میں تھوڑا سا غور و خوض ہمیں اس نتیجہ تک پہونچاتا ہے کہ اگر انسان کی اخلاقی اور حقوقی آزادی دینی تعلیمات کی روشنی میں مہار نہ ہو، توانسان کی عقل ، ہوس پرستی اور بے لگام حیوانی خواہشات کے زیر اثرآکرہر جرم کو انجام دی سکتی ہے۔(۲) قرآن مجید اوراسلامی روایات بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کرتے ہیں کہ وحی سے دور رہ کرانسان خود اور دوسروں کی تباہی کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ نیز خود کو اور دوسروں کو سعادت ابدی سے محروم کرنے کے علاوہ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے(۳) یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کو (ان شرائط کے علاوہ جب وہ خود کو خدائی تربیت و تعلیم کے تحت قرار دیتا ہے ) خسارت والا اور شقی سے تعبیر کرتاہے( إنَّ النسَانَ لَفِی خُسرٍ لاّ الَّذِینَ آمنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ ) (۴) یقینا انسان خسارے میں ہے مگر وہ افراد جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں '' اور دوسری طرف ہیومنزم کی بے حد و حصر آزادی کہ جس میں فریضہ اور عمومی مصالح کی رعایت اور ذمہ داری کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، اس نظریہ میں ہر انسان کے حقوق ( واجبات کے علاوہ ) کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے حق کو بجالائے نہ کہ اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو، اس لئے کہ اگر کوئی تکلیف اور ذمہ داری ہے بھی تو حق کے سلسلہ ادائگی میں اسے آزادی ہے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ، ص ۴۴و ۴۵۔ (۲)ڈیوس ٹونی کہتا ہے : ایسا لگتا ہے کہ جفرسون اور اس کے مددگار ۱۷۷۶کے بیانیہ میں مندرج عمومی آزادی کو اپنے غلاموں یا ہمسایوں میں بھی رواج دیتے تھے ۔ (۳)اس سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کی وضاحت آئندہ مباحث میں ذکر ہوگی (۴) سورۂ عصر ۲و ۳۔ (۵)ہم یہاں اس مسئلہ کو ذکر کرنا نہیں چاہتے کہ انسان کا مکلف ہونا بہت ہی معقول اور فائدہ مند شی ہے یا اسی طرح حق بین اور حق پسند ہونا بھی معقول ہے .لیکن ہم مختصراً بیان کریں گے کہ اجتماعی تکالیف اور دوسروں کے حقوق کے درمیان ملازمت پائے جانے کی وجہ سے الہی اور دینی تکالیف مورد قبول ہونے کے علاوہ اسے مستحکم عقلی حمایت حاصل ہے دنیاوی فائدہ اور افراد معاشرہ کے حقوق کی تامین کے اعتبار سے ہیومنزم حق پرستی پر برتری رکھتا ہے ۔اس لئے کہ اس معتبر نظام میں جب کہ ہر فرد اپنا حق چاہتا ہے اس کے باوجود اگر کوئی دوسروں کے حقوق کی رعایت کے مقابلہ میں احساس مسئولیت کرتا ہے تووہ خود کو خداوند منان کی بارگاہ میں جواب گو سمجھتا ہے ۔

۵۹

اجتماعی صورت میں ہیومنزم کے ماننے والوں کی آزادی یعنی جمہوریت نیز حقوقی، اجتماعی قوانین کے حوالے سے نسبی آزادی کے قائل ہیںجو دینی نظریہ سے مناسبت نہیں رکھتے ۔

ہمارے دینی نظریہ کے مطابق سبھی موجودات کا وجود خدا کی وجہ سے ہے اور تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیںنیز ہر ایک قوانین الہی کے مقابلہ میں ذمہ دار ہے اور حاکمیت کا حق صرف خدا کوہے ۔ پیغمبر، ائمہ اور ان کے نائبین ،ایسے افراد ہیں جن کو ایسی حاکمیت کی اجازت دی گئی ہے ۔ حقوقی اور اخلاقی امورجو اللہ کی طرف سے آئے ہیںاور معین ہوئے ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔دین کی نگاہ میں اگرچہ افراد کے حقوق معین و مشخص ہیں جس کو عقل اور انسانی فطرت کلی اعتبار سے درک کرتی ہے لیکن حد و حصر کی تعیین اور ان حقوق کے موارد اور مصادیق کی تشخیص خدا کی طرف سے ہے اور تمام افراد، الہٰی تکلیف کے عنوان سے ان کی رعایت کے پابند ہیں، ہیومنزم کی نظر میں انسانوں کی آزادی کے معنی اعتقادات دینی کو پس پشت ڈالنا اور اس کے احکام سے چشم پوشی کرنا ہے لیکن اسلام اورادیان آسمانی میں انسانوں کے ضروری حقوق کے علاوہ بعض مقدسات اور اعتقادات کے لئے بھی کچھ خاص حقوق ہیں جن کی رعایت لازم ہے مثال کے طور پر انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے کے اعتبار سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسلام کو چھوڑکر کافرو مشرک ہونے یا کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کرنے میں بغیر کسی شرط کے وہ آزاد ہے۔ لیکن اسلام کی رو سے وہ مرتد ہے (اپنے خاص شرائط کے ساتھ ) جس کی سزا قتل یا پھانسی ہے جیسا کہ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام کو ناسزا (سب ) کہنے کی سزا پھانسی ہے لیکن ہیومنزم کی نگاہ میں ایسی سزا قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پیغمبر و ائمہ معصومین اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307