انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146139 / ڈاؤنلوڈ: 4876
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱)

تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔

____________________

(۱) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش

''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل

مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی

۲۲

اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میں روح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔(۱)

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں

انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔

خدا شناسی اور انسان شناسی

انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(۲) یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میں انسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث

____________________

(۱)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

( ۲ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔

۲۳

انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(۱)

قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :

( وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ ) (۲)

زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں ( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔

اور دوسری آیت میں بیان ہوا :

( سَنُریهِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَهُم أَنّهُ الحَقُّ ) (۳)

عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(۴)

____________________

(۱)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔ (۲)ذاریات ۲۰و ۲۱۔

(۳)فصلت ۵۳۔

(۴)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔

۲۴

نبوت اور انسان شناسی

نبوت کا ہونا اوراس کا اثبات ورابطہ ،انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل پر موقوف ہے ۔ اگر انسان شناسی میں یہ ثابت نہ ہو کہ وہ فرشتوں کی طرح خدا سے براہ راست یا باواسطہ رابطہ رکھ سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وحی اور پیغمبرکے سلسلہ میں گفتگو کی جائے ؟!

وحی اورمنصب نبوت سے مرادیہ ہے کہ لوگوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیںجوبراہ راست یا فرشتوں کے ذریعہ خداوند عالم سے وابستہ ہیں ، خداوند عالم ان کے ذریعہ معجزات دکھاتا ہے اور یہ حضرات خدا سے معارف اور پیغامات حاصل کرتے ہیں تا کہ لوگوں تک پہونچائیں ،اس حقیقت کو ثابت اور قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس رابطہ کے سلسلہ میں انسان کی قابلیت کو پرکھا جائے ۔بنوت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات اور شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ایسا رابطہ خداوند عالم سے رکھ ہی نہیں سکتا اور ایسا رابطہ انسان کی قدرت سے خارج ہے ، قرآن مجید اس طرح بنوت کا انکار کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

( مَا هٰذا لاّ بَشَر مِثلُکُم ...ولَو شَائَ اللّٰهُ لأَنزَلَ مَلائِکَةً مَا سَمِعنَا بِهٰذا فِی آبَائِنَا الأوَّلِینَ ) (۱)

''یہ (پیغمبر )تم جیسا بشر کے علاوہ کچھ نہیں اگر خدا چاہتا(کوئی پیغمبر بھیجے ) تو

فرشتوں کو نازل کرتا ، ہم نے تو اس سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد سے کچھ نہیں سنا

دوسری آیت میں کافروں اور قیامت کا انکار کرنے والوں سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے :

( مَا هٰذَا لاّ بَشَر مِثلُکُم یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُونَ مِنهُ وَ یَشرَبُ مِمَّا تَشرَبُونَ وَ لَئِن أَطَعتُم بَشَراً مِثلَکُم ِنَّکُم ِذاً لَخَاسِرُونَ ) (۲)

____________________

(۱)مومنون ۲۴ ۔

(۲) مومنون ۳۳و ۳۴۔

۲۵

(کفار اور قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں :)یہ (پیغمبر ) فقط تمہاری طرح ایک بشر ہے جو چیزیں تم کھاتے اور پیتے ہو وہی وہ کھاتا اور پیتا ہے ، اور اگر تم لوگ نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی، تب تو ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

لہٰذا نبوت کا ہونا یا نہ ہونا اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان اللہ کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات وحی کو دریافت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مزید یہ کہ نبوت کا ہونا ، نبوت عامہ کا اثبات اور انبیاء کی بعثت کی ضرورت بھی اسی انسان شناسی کے مسائل کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان وحی کی مدداور خدا کی مخصوص رہنمائی کے بغیر ،نیز صرف عمومی اسباب کے ذریعہ معرفت حاصل کرکے اپنی راہ سعادت کو کامل طریقے سے پہچان سکتا ہے ؟ یا یہ کہ عمومی اسباب کسب معرفت کے سلسلہ میں کافی و وافی کردار ادا نہیں کرسکتے اور کیا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے کوئی پیغمبر مبعوث ہو ؟

معاد اور انسان شناسی

وحی کی روشنی میں انسان کا وجودصرف مادی دنیا اور دنیاوی زندگی ہی سے مخصوص نہیں ہوتابلکہ اس کے وجود کی وسعت عالم آخرت سے بھی تعلق رکھتی ہے اوراس کی حقیقی زندگی موت کے بعدکی دنیا سے مربوط ہے لہٰذا ایک زاویہ نگاہ سے معاد پر اعتقاد ، موت کے بعد انسان کی زندگی کے دوام اور اس کے نابود نہ ہونے کا اعتقاد ہے اور ایسا اعتقاد در اصل ایک طرح سے انسان کے سلسلہ میں ایسا تفکر ہے جسے انسان شناسی کے مباحث سے اگرحاصل اور ثابت نہیں کیا گیا تو معاد کے مسئلہ کی کوئی عقلی ضرورت نہیں رہ جاتی اورمعاد کا مسئلہ عقلی دلائل کی پشت پناہی سے عاری ہوگا اسی وجہ سے قرآن مجید معاد کی ضرورت و حقانیت پر استدلال کے لئے موت کے بعد انسان کی بقا اور اس کے نابود نہ ہونے پر تکیہ کرتا ہے اور رسول اکرم سے مخاطب ہو کرمنکرین معادکی گفتگو کو اس طرح پیش کرتا ہے :

۲۶

( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نّا لَفِی خَلقٍ جَدیدٍ ) (۱)

اور (معاد کا انکار کرنے والے )یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب (ہم مرگئے اور بوسیدہ ہوگئے اور )زمین میں ناپید ہوجائیں گے تو کیا ہم پھردوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟

ان لوگوں کے جواب میں قرآن یوں فرماتا ہے :

( ...بَل هُم بِلِقائِ رَبِّهِم کَافِرُونَ٭قُلّ یَتَوفَّاکُم مَلکُ الموتِ الذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ لیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) (۲)

(ان لوگوں نے زمین میں مل جانے کو دلیل قرار دیا ہے ورنہ معاد کے ہونے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہہ نہیں رکھتے ہیں )بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات ہی سےانکار کرتے ہیں(اے پیغمبر! اس دلیل کے جواب میں ) تم کہدو کہ: ملک الموت

جو تمہارے اوپر معین ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (اور تم ناپیدا نہیں ہوئوگے)اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائوگے ۔

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت

اس سے پہلے انسان کی حقیقی قابلیت اور بنیادی ضرورتوں کی معرفت نیز بنیاد سازی اور معقول و صحیح اجتماعی عادات و اطوار کی ترسیم مورد تائید قرار پا چکی ہے۔ لہٰذاہم یہاں اس نکتہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ بعض دین کے اجتماعی احکام کو عقلی نقطۂ نظر سے قبول کریں اور انہیں انسان شناسی کے بعض مسائل میں استفادہ کریں، اگرچہ دین کے اجتماعی احکام کی صحت و حقانیت علم خدا کے اس لامتناہی سرچشمہ کی وجہ سے ہے کہ جس کی ذات ،عادل، رحیم و کلیم جیسے صفات سے استوار ہے ،لیکن اسلام کے بعض اجتماعی احکام کی معقول وضاحت ((دینی ، عالم کی معرفت میں ) اس طرح سے کہ جو لوگ

____________________

(۱)سجدہ ۱۰۔

(۲)سجدہ ۱۰و ۱۱

۲۷

دین کونہیں مانتے ہیںان کے لئے بھی معقول اور قابل فہم ہو )صرف انسان شناسی کے بعض مسائل کے جوابات کی روشنی میں میسور وممکن ہے مثال کے طور پر وحی کی تعلیمات میں ، انسان کی حقیقی شخصیت (انسان کی انسانیت )قرب الہٰی(خدا سے قریب ہونا)کی راہ میں گامزن ہونے کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اور خدا سے دور ہونے کا مطلب خود کو فراموش کرنا اور انسانیت کے رتبہ سے گر کر حیوانات سے بدتر ہونا ہے(۱) اس مطلب کی روشنی میں ، وہ شخص جو اسلام کی حقانیت اور اس پر ایمان لانے کے بعد کسی غرض اور حق کی مخالفت کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑ کے کافر(مرتد) ہوجائے تو اس کے لئے پھانسی کا قانون ایک معقول اور مستحکم فعل ہے ،اس لئے کہ ایسے شخص نے اپنی انسانیت کو جان بوجھ کر گنوایا ہے نیزحیوان اور بد ترین مخلوق ہونے کا سہرا باندھ کر جامعہ کے لئے خطرناک جانور(۲) میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو

بہت سی فکری کوششیں جو وجود انسان کے گوشوں کو روشن کرنے کے لئے دوبارہ احیاء ہوئی ہیںاس نے بشر کے لئے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں ،اگرچہ ان معلومات کی جمع آوری میں تحقیق کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن ان میں روش تجربی کا حصہ دوسری راہوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسان شناسی میں زیادہ حصہ تجربہ کا ہے۔ بہت سے قضایا اور انکشافات جو انسان شناسی کے مختلف مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وجود انسانی کے

____________________

(۱)(أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلونَ )''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ۱۷۹)

(۲)(إنَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّهِ الّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لایُؤمِنُونَ )''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ۵۵)

۲۸

تاریک گوشوںکے حوالے سے قابل تحقیق ہیں ۔ نیز فراوانی اور اس کے ابعاد کی کثرت کی وجہ سے نہ صرف انسان کے ناشناختہپہلوئوں کو جیسا چاہیئے تھا واضح کرتے اور اس نامعلوم موجود کی شناخت میں حائل شدہ مشکلات کو حل کرتیخود ہی مشکلات سے دچار ہوگئے ہیں ۔(۱)

علم کے کسی شعبہ میں بحران کا معنی یہ ہیںکہ جن مشکلات کے حل کے لئے اس علم کی بنیاد رکھی گئی ہووہ علم اس کو حل کرنے سے عاجز ہو اور اپنے محوری و مرکزی سوالات کے جوابات میں مبہوت و پریشان ہو، ٹھیکیہی صورت حال دور حاضر میں انسان شناسی کی ہوگئی ہے، یہ بات ایک سر سری نظر سے معلوم ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں انسان شناسی کی مختلف معلومات، مختلف جہتوںسے بحران کا شکار ہیں۔ انسان شناسی کا ماہر، جرمنی کا فلسفی ''اسکیلر میکس '' لکھتا ہے کہ : تاریخ کے اوراق میں کسی وقت بھی ...انسان جس قدر آج معمہ بنا ہوا ہے کبھی نہیں تھا ...تخصصی علوم جن کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اوربشر کے مسائل سے مربوط ہیں ،یہ بھی ذات انسان کو مزید معمہ بنائے ہوئے ہیں ۔(۲)

دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کا چار بنیادی طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان چار بنیادی طریقوں سے مراد یہ ہیں؛ ۱۔ علوم نظری کی ایک دوسرے سے عدم ہماہنگی اور اندرونی نظم سے عاری ہونا۔ ۲۔ فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۔ ۳۔ انسان کے ماضی و مستقبل کا خیال نہ کرنا

۴ ۔ انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۔

____________________

(۱)''ہوسرل ''منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے انسان شناسی کے بحران کو بیان کیا ہے ،اس نے '' وین''(مئی ۱۹۳۵)کی اپنی تقریر میں ''یورپ میں انسانیت کی بحران کا فلسفہ ''اور ''پراگ ''(۱۲ ۱۹۳۴)کی تقریر میں ''نفسیات شناسی اور یورپ کے علوم کا بحران''کے عناوین سے اس موضوع پر تقریریں کی ہیں اوراس کی موت کے بعد اس کے مسودوں کو ۱۹۵۴ئ میں ایک پر حجم کتاب کی شکل میں ''بحران علوم اروپائی و پدیدار شناسی استعلایی '' کے عنوان سے منتشرکیا گیاہے ،ملاحظہ ہو ؛ مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی، ص۵۶

(۲) Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. ۱۷

کیسیرر سے نقل کرتے ہوئے ، ارنسٹ ، ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ، ص ۴۶و ۴۷۔

۲۹

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا

تمام مفکرین مدعی ہیں کہ انسان کے سلسلہ میں ان کا خاکہ اور نظریہ، دنیاوی اور تجربی معلومات و حوادث پر مبنی ہے اور ان کے نظریات کی دنیاوی حوادث سے تائید ہو جاتی ہے لیکن اگر ان نظریات کی سبھی توضیحات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی فطری وحدت مجہول ہے اور ہم انسان کی ایک فرد یاایسے مختلف افراد سے رو برو نہیں ہیںجو ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔(۱) مثال کے طور پر''رفتار گرایان'' کا عقیدہ ( جو انسان کے کردار کو محور تسلیم کرتے ہیں )جیسے ا سکینر(۲) ، سیاسی و اقتصادی جامعہ شناس جیسے کارل مارکس(۳) ، جامعہ شناس جیسے دور کھیم(۴) علم الحیات کے نظریات کو ماننے والے اور عقیدہ وجود والے جیسے ژان پل سارٹر(۵) کے نظریات انسان کے اختیارات اور آزادی کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ کس طرح ایک دوسرے سے ہماہنگ اور قابل جمع نہیں ہیں؛ ''عقیدۂ رفتار و کردار رکھنے والے'' اختیار کا ایک سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ''مارکس'' انسان کے اختیاراور آزادی کو روابط کے ایجاد اور تاریخی جبر کی پیداوار سمجھتا ہے ۔'' دورکھیم'' اجتماعی جبر کی تاکید کرتا ہے۔ ''حیات شناس افراد'' عناصر حیات کے سرنوشت ساز کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور'' ژان پل سارٹر''انسان کی بے چوں و چرا آزادی کا قائل ہے کہ جس میں حیات کے تقاضوں سے بالاتر ہو کرمادی دنیا کے تغییر ناپذیر قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔''اسکیلر میکس'' اس سلسلہ میں کہتا ہے کہگذشتہ دور کے برخلاف آج کے دور میں انسان شناسی تجربی(اپنے تمام انواع کے ساتھ) انسان شناسی فلسفی اور انسان شناسی الٰہی ایک دوسرے کے مخالف یا آپس میں بالکل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیںان میں

____________________

(۱)کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ (ترجمہ )ص ۴۵و ۴۶۔

(۲) B.F.Skinner

(۳) Karl Marx

(۴) Emile Durkheim

(۵) Jean-Paul

۳۰

انسان کے سلسلہ میں اجماعی نظریہ اور اتحاد نہیںپایا جاتا ہے ۔(۱)

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا

طبیعی علوم میں وہ قوانین جن کو علوم طبیعی کے اکثر مفکرین مانتے ہیں ان کے علاوہ، تجربی روش کو بھی اکثر مفکرین نے آخری دلیل اور حاکم کے عنوان سے قبول کیا ہے،اگرچہ اس کی افادیت کی مقدار میں بعض اعتراضات موجود ہیں لیکن علوم انسانی میں (جیسا کہ'' ارنسٹ کیسیرر''(۲) ذکرکرتاہے کہ)کوئی ایسی علمی اصل نہیں ملتی جسے سبھی مانتے ہوں(۳) ایسے موقعہ پر ایک مفید حاکم و دلیل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس کے باوجود علمی تحقیق یہ ہے کہ دور حاضر میں ہر انسان شناس اپنے نظریات کے سلسلہ میں عین واقعیت اور تجربی دلیلوں سے ہماہنگی کا مدعی ہے ، حالانکہ ، تجربی روش جس کو آخری اور مستحکم دلیل و حاکم کے عنوان سیپیش کیا گیا ہے خود ہی متناقض معلومات فراہم کرتی ہے اوروہ بیان کئے گئے مشکلات کو حل کرنے میں مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ضروری افادیت سے محروم ہے مزید یہ کہ (مفکرین کے )قابل توجہ گروہ نے کلی طور پر ( حتی ان موارد میں بھی جہاں علم تجربی ہمارے لئے ہماہنگ معلومات فراہم کرتا ہے)اس روش کی افادیت میں شک ظاہر کیا ہے اور تفہیم و حوادث شناسی کے دوسرے طریقۂ کار کی تاکید کی ہے ۔

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا

انسان شناسی تجربی کے نظریات ،انسان کے ماضی اور مستقبل (موت کے بعد کی دنیا) کے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ اگر انسان موت سے نابود نہیں ہوتا ہے (جب کہ ایساہی ہے ) تو یہ نظریات اس کی کیفیت اور اس دنیاوی زندگی سے اس کے رابطوں کی وضاحت و تعریف سے عاجز ہیں

____________________

(۱)اسکیلرمیکس۔

(۲) Earnest Cassirar

(۳)کیسیرر ، ارنسٹ ، گذشتہ حوالہ، ص ۴۶۔

۳۱

چنانچہ وہ اپنے ماضی سے غافل ہیں ،انسان کی سر نوشت اوراس کی خواہش میں معنوی اسباب کا اثر و عمل بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے بارے میں انسان شناسی تجربی کے نظریات کسی بھی وضاحت یا حتمی رأی دینے سے قاصر ہیں ۔انسان شناسی کے دوسرے اقسام بھی (دینی انسان شناسی کے علاوہ ) اخروی سعادت اور انسانی اعمال کے درمیان تفصیلی اور قدم بہ قدم روابط کے بیان سے عاجز ہیں ۔

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا

دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریے اور مکاتب اس دنیا کے بھی مہم ترین انسانی حوادث کی تفصیل و صراحت سے عاجز ہیں اور اس جہت سے بھی علمِ انسان شناسی بحران کا شکار ہے ۔ زبان ، اجتماعی اور انسانی حوادث کے اہم ترین ایجادات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ علوم انسانی کے بعض مفکرین کا نظریہ ہے کہ: جو مکتب اچھی طرح زبان کی وضاحت پر قادر ہے وہ انسانی حوادث کی بھی صراحت کر سکتا ہے جب کہ دور حاضر میں انسان شناسی ،زبان کے بعض گوشوں کی تفسیر و وضاحت سے عاجز ہے مثال کے طور پر وہ نظریات جو انسان کو ایک مشین یا کامل حیوان کا درجہ دیتے ہیں کس طرح ان جدید اصطلاحات و ایجاد معانی جن کو پہلی مرتبہ انسان مشاہدہ کرتا ہے یا اس طرح کی چیزوں کے سمجھنے میں ذہن انسانی کی خلاقیت اور اس کی ابتکاری صلاحیت کی کیونکروضاحت کرسکتے ہیں؟ یا نمونہ کے طور پر میدان فہم و تفہیم میں (مقصد کو بیان کرنے کے لئے کلمات کا ایجاد کرنا) جو حیوانات کی آواز کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،انسان کی خلاقیت کی کس طرح وضاحت کریں گے ؟ ''چومسکی''(۱) معتقد ہے کہ قابلیت اور ایجادات ،انسان کی زبان کے امتیازات میں سے ہے یعنی ہم سب سے گفتگو کرسکتے ہیں اور زبان کے قوانین اور معانی کی مدد سے ایسے جملات کو سمجھتے ہیں جس کو اس سے پہلے سنا ہی نہ تھا ، لہٰذا زبان ماہیت کے اعتبار سے حیوانات کے اپنے مخصوص طریقۂ عمل سے کاملاًجدا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) Chomsky Noam (۲)لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ۱۶۱۔

۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

دینی انسان شناسی اپنے مد مقابل اقسام کے درمیان کچھ ایسے امتیازات کی مالک ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں :

جامعیت

چونکہ دینی انسان شناسی تعلیمات وحی سے بہرہ مند ہے اور طریقہ وحی کسی خاص زاویہ سے مخصوص نہیں ہے لہٰذااس سلسلہ میں دوسری روشوں کی محدودیت معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عمومیت کی مالک ہے، اس طرح کہ اگر ہم کسی فرد خاص کے بارے میں بھی گفتگو کریں تواس گفتگو کوانسان کے سبھی افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس فرد خاص کے اعتبارسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ گفتگو کرنے والا کامل اور ہر زاویہ سے صاحب معرفت ہے ، مزید دینی انسان شناسی کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ یہ انسان شناسی ، انسان کے مختلف افراد کو مدنظر رکھتی ہے نیز جسمانی و فطری ، تاریخی و سماجی ،دنیاوی واخروی، فعلی و ارمانی، مادی و معنوی لحاظ سے بھی گفتگو کرتی ہے اور بعض موارد میں ایسی حقیقتوں کو منظر عام پر لاتی ہے جن کو انسان شناسی کے دوسرے انواع و اقسام کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ، دینی تعلیمات میں منظور نظرا ہداف ہی انسان شناسی دینی کے مختلف گوشے ہیں جو انتخابی صورت میں انجام پاتے ہیں ۔لہٰذا ہر پہلو کے مسئلہ کو اسی مقدار میں پیش کیا جائے گا جس قدر وہ انسان کی حقیقی سعادت میں اثر انداز ہے ، جب کہ اس کی انتخابی عمومیت باقی رہے گی بلکہ انسان شناسی کے ہر ایک شعبہ مثلاً فلسفی ، تجربی ،شہودی کے لئے ایک خاص موضوع مورد نظر ہو گا اور انسان شناسی سے مربوط دوسرے موضوعات اس کے دائر ۂبحث سے خارج ہوںگے ۔

۳۳

استوار اور محکم

دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔

مبدا اور معاد کا تصور

غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)

بنیادی فکر

دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و

____________________

(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔

۳۴

معنوی اور فکری تمایل نیز ان کے آپسی روابط کے تاثرات ،شدید مورد توجہ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن تجربی، فلسفی ،عرفانی انسان شناسی میں یا تو آپس میں ایسے وسیع روابط سے غفلت ہو جاتی ہے یااتنی وسعت سے توجہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف بعض آپسی جوانب کے روابط سے گفتگو ہوتی ہے ۔

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی شناخت اور اس کے ابعادوجودی، زمانہ قدیم سے لے کراب تک مفکرین کی مہم ترین تحقیقات کا موضوع رہے ہیں ۔

۲۔ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروہ یا انسان کے ابعاد وجودی کے بارے میں بحث کرے یا انسان کے سلسلہ میں کلی طور پربحث کرے اس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

۳۔ انسان شناسی کی مختلف قسمیں ہیں ،جو تحقیقی روش یا زاویہ نگاہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔

۴۔ اس کتاب میں مورد توجہ انسان شناسی ، انسان شناسی کلاں یا جامع ہے جو روائی اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یا یوں کہا جائے کہ وحی اور تعبدی طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

۵۔ انسان شناسی ''کلاں نمائی'' مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مخصوص اہمیتکی حامل ہے :

الف)زندگی کو واضح کرتی ہے ۔ ب)اجتماعی نظام کو بیان کرتی ہے ۔

ج)علوم و تحقیقات کی طرفداری میں موثر ہے ۔ د)دین کے بنیادی اصول اور اس کے اجتماعی احکام کی توضیح سے مربوط ہے ۔

۶۔ دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریات میں عدم ہماہنگی کی وجہ سے جامع اور مفید دلیل و حاکم کے فقدان ، انسان کے ماضی و آئندہ سے چشم پوشی اور اس کے مہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجزاور شدید بحران سے روبرو ہے ۔

۷۔ دینی انسان شناسی ''ہمہ گیر ''ہونے کی وجہ سے جامعیت ، نا قابل خطا، مبدا و معاد پہ توجہ اور دوسرے انسان شناسی کے مقابلہ میں عمدہ کردار کی وجہ سے برتری رکھتی ہے۔

۳۵

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں اور اگر ان کے جوابات میں کوئی مشکل در پیش ہو تومطالب کا دوبارہ مطالعہ کریں ؟

۱۔ منددرجہ ذیل موارد میں سے کون انسان شناسی کل نمائی اور ہمہ گیر موضوعات کا جزء ہے اور کون انسان شناسی ،جزئی موضوعات کا جزء ہے ؟

''سعادت انسان ، خود فراموشی، حقوق بشر ، انسانی قابلیت ، انسانی ضرورتیں ، مغز کی بناوٹ ''

۲۔ ''خود شناسی ''سے مراد کیا ہے اور دینی انسان شناسی سے اس کا کیا رابطہ ہے ؟

۳۔ مندرجہ ذیل میں سے کون صحیح ہے ؟

(الف) تجربی علوم انسانی میں ایک مکتب، انسان محوری ہے ؟( ب) تجربی علوم انسانی اور دینی انسان شناسی، موضوع ، دائرہ عمل اورروش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ ( ج) حقوق بشر کا یقین اور اعتقاد ، انسانوں کی مشترکہ فطرت سے وابستہ ہے ۔ (د) موت کے بعد کی دنیا پر یقین کا انسان شناسی کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

۴۔ انسان کی صحیح اور جھوٹی ضرورتوں کی شناخت کا معیار کیا ہے ؟

۵۔ آپ کے تعلیمی موضوع کا وجود و اعتبار کس طرح انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل سے مربوط ہے ؟

۶۔ انسانوں کا جانوروں سے امتیاز اوراختلاف ، فہم اور انتقال مطالب کے دائرے میں زبان اور آواز کے حوالے سے کیا ہے ؟

۷۔ آیا انسان محوری ، انسان کی تعظیم و قدر دانی ہے یا انسان کی تذلیل اور اس کے حقیقی قدر و منزلت سے گرانا ہے ؟

۳۶

مزید مطالعہ کے لئے

۱.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ارتگا ای گاست ، خوسہ ؛ انسان و بحران ترجمہ احمد تدین ؛ تہران : انتشارات علمی و فرہنگی

۔عارف ، نصر محمد ( ۱۹۱۷ ) قضایا المنھجیة فی العلوم النسانیة.قاہرہ : المعھد العالمی للفکر السلامی

۔کیسیرر،ارنسٹ (۱۳۶۹) رسالہای در باب انسان در آمدی بر فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادرزادہ تہران : پژوہشگاہ علوم انسانی

۔گلدنر ، الوین (۱۳۶۸) بحران جامعہ شناسی غرب ، ترجمہ فریدہ ممتاز ، تہران : شرکت سہامی انتشار

۔ گنون ، رنہ ،بحران دنیای متجدد ، ترجمہ ضیاء الدین دہشیری تہران : امیر کبیر

۔والر اشتاین ، ایمانویل (۱۳۷۷)سیاست و فرہنگ در نظام متحول جہانی ، ترجمہ پیروز ایزدی تہران : نشرنی

۔ واعظی ، احمد ، ''بحران انسان شناسی معاصر''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹، ص ۱۰۹.۹۴، قم دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵.

۲ معارف دینی اور تفکر بشری کے سلسلہ میں انسان شناسی کا اثر چنانچہ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ در آمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ص ۴۵.۵۵۔

۔ محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن (خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان

شناسی )قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۱۵۔ ۳۵۔

۔ پیش نیازھای مدیریت اسلامی ، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ،قم : ۱۳۷۹۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، تہران : سمت ، ص ۱۴۔۱۷۔

۳. انسان شناسی کی کتابوں کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹ ،ص۱۶۶۔ ۱۲۸ ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵

۳۷

۴۔بعض وہ کتابیں جس میں اسلامی نقطہ نظر سے انسان کے بارے میں بحث ہوئی ہے :

۔ ایزوٹسوٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸) خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۔ بہشتی ، احمد (۱۳۶۴ ) انسان در قرآن ، کانون نشر طریق القدس ۔

۔ جعفری ، محمد تقی ( ۱۳۴۹ ) انسان در افق قرآن ، اصفہان : کانون علمی و تربیتی جہان اسلام.

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲ ) انسان در اسلام ، تہران : رجاء ۔

۔حائری تہرانی ، مہدی ( ۱۳۷۳) شخصیت انسان از نظر قرآن و عترت .قم : بنیاد فرہنگی امام مہدی ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن ( ۱۳۶۹) انسان و قرآن ، تہران:الزہراء

۔حلبی ، علی اصغر ( ۱۳۷۱ ) انسان در اسلام و مکاتب غربی تہران : اساطیر

۔دولت آبادی ، علی رضا (۱۳۷۵)سایہ خدایان نظریہ بحران روان شناسی در مسئلہ

انسان ،فردوس : ( ۱۳۷۵)

۔قرائتی ، محسن ( بی تا ) جہان و انسان از دیدگاہ قرآن ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔قطب ، محمد ( ۱۳۴۱) انسان بین مادیگری و اسلام ، تہران : سہامی انتشار ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )

قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( بی تا ) انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۔ نصری ، عبد اللہ ( ۱۳۶۸) مبانی انسان شناسی در قرآن ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۳۸

دوسری فصل :

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

ا۔ انسان کے بارے میں مختلف نظریوں کو مختصراً بیان کریں ؟

۲۔ہیومنزم کے معانی و مراد کی وضاحت کریں ؟

۳۔ ہیومنزم کے چار اہداف و مراتب کی مختصراً وضاحت پیش کریں ؟

۴۔ہیومنزم کے نظریہ کی تنقیدو تحلیل کریں ؟

۳۹

جیسا کہ اشارہ ہوچکاہے کہ انسان ، بشری تفکر کا ایک محور ہے جس کے بارے میں وجود اور اہمیت شناسی کے مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، بعض مفکرین نے انسان کو دوسرے موجودات سے بالاتر اور بعض نے اسے حیوانات کے برابر اور کچھ نے اس کو حیوان سے کمتر و ناتواں اور ضعیف بیان کیا ہے ، معرفت کی اہمیت کے اعتبار سے بھی بعض نے اس کو اشرف المخلوقات ، بعض نے معتدل (نہ بہتر اور نہ خراب ) اور بعض نے انسان کو برا ، ذلیل اورپست کہا ہے، آئندہ مباحث میں ہم بعض مذکورہ بالا نظریوں کو اجمالاً بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی نظریات کو بھی پیش کریں گے ۔

ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔

دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

'' ( و انزلنا اليك الذكر لتبين للناس ما نزّل اليهم ) ''(۱)

اور آپ (ص) كى طرف قرآن كو نازل كيا تا كہ لوگوں كيلئے جواحكام آئے ہيں انہيں بيان كرديں_

اس حقيقت كو ديكھتے ہوئے كہ آنحضرت (ص) مختلف مناصب كے حامل تھے معلوم ہوتاہے كہ عبدالرازق كى پيش كردہ آيات ميں موجود '' حصر'' حقيقى نہيں بلكہ ''اضافي'' ہے _ حصر اضافى كا مطلب يہ ہے كہ جب سامنے والا يہ سمجھ رہا ہو كہ موصوف دو صفتوں كے ساتھ متصف ہے تو متكلم تاكيداً مخاطب پر يہ واضح كرتا ہے كہ نہيں موصوف ان ميں سے صرف ايك صفت كے ساتھ متصف ہے _ مثلاً لوگ يہ سمجھتے تھے كہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى پيام الہى كا پہنچانا بھى اور لوگوں كو زبردستى ہدايت كى طرف لانا بھى ہے_ اس و ہم كو دور كرنے كيلئے آيت نے حصر اضافى كے ذريعہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كو پيام الہى كے ابلاغ ميں منحصر كر ديا ہے اور فرمايا ہے :( ''و ما على الرسول الا البلاغ'' ) اور رسول كے ذمہ تبليغ كے سوا كچھ نہيں ہے(۲) يعنى پيغمبر اكرم (ص) كا كام لوگوں كو زبردستى ايمان پر مجبور كرنا نہيں ہے بلكہ صرف خدا كا پيغام پہنچانا اور لوگوں كو راہ ہدايت دكھانا ہے_ لوگ خود راہ ہدايت كو طے كريں اور نيك كاموں كى طرف بڑھيں_ پس آنحضرت (ص) لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ صرف راہ ہدايت دكھانے كے ذمہ دا ر ہيں آنحضرت (ص) صرف ہادى ہيں اور لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہے _ بلكہ لوگ خود ہدايت حاصل كرنے اور نيك اعمال بجا لانے كے ذمہ دار ہيں_ اس حقيقت كو آيت نے حصر اضافى كے قالب ميں يوں بيان فرمايا ہے_(۳)

____________________

۱) سورہ نحل آيت۴۴_

۲) سورہ نورآيت ۵۴_

۳) تفسير ميزان ج ۱۲ ، ص ۲۴۱، ۲۴۲ سورہ نحل آيت ۳۵ كے ذيل ميں _ ج ۱۰ ص ۱۳۳ سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸ كے ذيل ميں _

۸۱

( ''فمن اهتدى فانما يهتدى لنفسه و من ضل فانما يضّل عليها و ما انا عليكم بوكيل'' ) (۱)

پس اب جو ہدايت حاصل كرے گا وہ اپنے فائدہ كيلئے كرے گا اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنے آپ كا نقصان كرے گا اور ميں تمہارا ذمہ دار نہيں ہوں _

بنابريں عبدالرازق سے غلطى يہاں ہوئي ہے كہ انہوں نے مذكورہ آيات ميںحصر كو حقيقى سمجھا ہے اور ان آيات ميں مذكورمخصوص صفت كے علاوہ باقى تمام اوصاف كى آنحضرت (ص) سے نفى كى ہے_ حالانكہ ان آيات ميںحصر'' اضافي'' ہے بنيادى طور پريہ آيات دوسرے اوصاف كو بيان نہيں كررہيںبلكہ ہر آيت صرف اس وصف كى نفى كر رہى ہے جس وصف كا وہم پيدا ہوا تھا_

دوسرى دليل كا جواب :

ظہور اسلام سے پہلے كى تاريخ عرب كااگر مطالعہ كيا جائے تو يہ حقيقت واضح ہوجاتى ہے كہ ظہور اسلام سے پہلے جزيرہ نما عرب ميں كوئي منظم حكومت نہيں تھى _ ايسى كوئي حكومت موجود نہيں تھى جو ملك ميں امن و امان برقرار كر سكے اور بيرونى دشمنوں كا مقابلہ كر سكے صرف قبائلى نظام تھا جو اس وقت اس سرزمين پر رائج تھا_ اس دور كى مہذب قوموں ميں جو سياسى ڈھانچہ اور حكومتى نظام موجود تھا جزيرة العرب ميں اس كا نشان تك نظر نہيں آتا _ ہر قبيلے كا ايك مستقل وجود اور رہبر تھا_ ان حالات كے باوجود آنحضرت (ص) نے جزيرة العرب ميں كچھ ايسے بنيادى اقدامات كئے جو سياسى نظم و نسق اور تأسيس حكومت كى حكايت كرتے ہيں حالانكہ اس ماحول ميں كسى مركزى حكومت كا كوئي تصور نہيں تھا_ يہاں ہم آنحضرت (ص) كے ان بعض اقدامات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو آپ (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كے قيام پر دلالت كرتے ہيں_

____________________

۱) سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸_

۸۲

الف _ آنحضرت (ص) نے مختلف اور پراگندہ قبائل كے درميان اتحاد قائم كيا _ يہ اتحاد صرف دينى لحاظ سے نہيں تھا بلكہ اعتقادات اور مشتركہ دينى تعليمات كے ساتھ ساتھ سياسى اتحاد بھى اس ميں شامل تھا _ كل كے مستقل اور متخاصم قبائل آج اس سياسى اتحاد كى بركت سے مشتركہ منافع اور تعلقات كے حامل ہوگئے تھے_ اس سياسى اتحاد كا نماياں اثر يہ تھا كہ تمام مسلمان قبائل غير مسلم قبائل كيساتھ جنگ اور صلح كے موقع پر متحد ہوتے تھے_

ب _ آنحضرت (ص) نے مدينہ كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور وہيں سے دوسرے علاقوں ميں والى اور حكمران بھيجے طبرى نے ايسے بعض صحابہ كے نام ذكر كئے ہيں_ اُن ميں سے بعض حكومتى امور كے علاوہ دينى فرائض كى تعليم پر بھى مامور تھے جبكہ بعض صرف اس علاقہ كے مالى اور انتظامى امور سنبھالنے كيلئے بھيجے گئے تھے جبكہ مذہبى امور مثلانماز جماعت كا قيام اور قرآن كريم اور شرعى احكام كى تعليم دوسرے افراد كى ذمہ دارى تھى _

طبرى كے بقول آنحضرت (ص) نے سعيد ابن عاص كو ''رمَعْ و زبيد '' كے درميانى علاقے پر جو نجران كى سرحدوں تك پھيلا ہوا تھا عامر ابن شمر كو ''ہمدان ''اور فيروز ديلمى كو ''صنعا ''كے علاقے كى طرف بھيجا _ اقامہ نماز كيلئے عمرو ابن حزم كو اہل نجران كى طرف بھيجا جبكہ اسى علاقہ سے زكات اور صدقات كى جمع آورى كيلئے ابوسفيان ابن حرب كو مامور فرمايا_ ابو موسى اشعرى كو ''مأرب ''اور يعلى ابن اميہ كو ''الجند ''نامى علاقوں كى طرف روانہ كيا(۱)

ج _ مختلف علاقوں كى طرف آنحضرت (ص) كا اپنے نمائندوںكو خطوط ديكر بھيجنا اس بات كى واضح دليل ہے كہ آپ (ص) نے اپنى قيادت ميں ايك وسيع حكومت قائم كى تھى _ ان ميں سے بعض خطوط اور عہد نامے ايسے ہيں جو دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے ان افراد كو حاكم اور والى كے عنوان سے بھيجا تھا_ عمرو بن حزم

____________________

۱) تاريخ طبرى ( تاريخ الرسل و الملوك ) ج ۳ ص ۳۱۸_

۸۳

كو آپ نے حكم نامہ ديا تھا اس ميں آپ (ص) نے لكھا تھا :لوگوں سے نرمى سے پيش آنا ليكن ظالموں سے سخت رويہ ركھنا _ غنائم سے خمس وصول كرنا اور اموال سے زكات ان ہدايات كے مطابق وصول كرنا جو اس خط ميں لكھى گئي ہيں (۱) واضح سى بات ہے كہ ايسے امور حاكم اور والى ہى انجام دے سكتا ہے_

د _ آنحضرت (ص) كے ہاتھوں حكومت كے قيام كى ايك اور دليل يہ ہے كہ آپ (ص) نے مجرموں اور ان افراد كيلئے سزائيں مقرر كيں جو شرعى حدود كى پائمالى اور قانون شكنى كے مرتكب ہوتے تھے اور آپ (ص) نے صرف اخروى عذاب پر اكتفاء نہيں كيا اورحدود الہى كا نفاذ اور مجرموں كيلئے سزاؤں كا اجراحكو متى ذمہ داريوں ميں سے ہيں_

ہ_ قرآن كريم اور صدر اسلام كے مومنين كى زبان ميں حكومت اور سياسى اقتدار كو لفظ''الامر''سے تعبير كيا جاتا تھا_

''( و شاورهم فى الامر'' ) (۲) اور اس امر ميں ان سے مشورہ كرو _( ''و امرهم شورى بينهم'' ) (۳) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں _

اگر آنحضرت (ص) كى رہبرى اور قيادت صرف دينى رہبرى ميں منحصر تھى تو پھر رسالت الہى كے ابلاغ ميں آپ (ص) كو مشورہ كرنے كا حكم دينا ناقابل قبول اور بے معنى ہے لہذا ان دو آيات ميں لفظ ''امر'' سياسى فيصلوں اور معاشرتى امور كے معنى ميں ہے_

____________________

۱) اس خط كى عبارت يہ تھى _''امره ان ياخذ بالحق كما امره الله ، يخبر الناس بالذى لهم و الذى عليهم ، يلين للناس فى الحق و يشتدّ عليهم فى الظلم ، امره ان ياخذ من المغانم خمس الله ''

ملاحظہ ہو: نظام الحكم فى الشريعة و التاريخ الاسلامى ، ظافر القاسمي، الكتاب الاول ص ۵۲۹_

۲) سورہ العمران آيت ۱۵۹_

۳) سورہ شورى آيت ۳۸_

۸۴

خلاصہ :

۱) آنحضرت (ص) اپنى امت كے قائد تھے اور تمام مسلمان قائل ہيں كہ آپ نے حكومت تشكيل دى تھى _ موجودہ دور كے بعض مسلمان مصنفين آپ (ص) كى دينى قيادت كے معترف ہيں ليكن تشكيل حكومت كا انكار كرتے ہيں_

۲) آپ (ص) كى حكومت كے بعض منكرين نے ان آيات كا سہارا ليا ہے جو شان پيغمبر كو ابلاغ وحى ، بشارت دينے اور ڈرانے والے ميں منحصر قرار ديتى ہيں اور ان آيات ميں آپ كى حاكميت كاكوئي تذكرہ نہيں ہے_

۳) ان آيات سے'' حصر اضافي'' كا استفادہ ہوتا ہے نہ كہ'' حصر حقيقي'' كا _ لہذايہ آنحضر ت (ص) كے سياسى اقتدار كى نفى كى دليل نہيں ہيں_

۴)بعض منكرين كى دوسرى دليل يہ ہے كہ مسلمانوں پر آپ (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين امور بھى نہيں پائے جاتے جو ايك حكومت كى تشكيل كيلئے انتہائي ضرورى ہوتے ہيں_

۵) تاريخ شاہد ہے كہ آنحضرت (ص) نے اس دور كے اجتماعى ، ثقافتى اور ملكى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے حكومتى انتظامات كئے تھے_

۶) مختلف علاقوں كى طرف صاحب اختيار نمائندوں كا بھيجنا اور مجرموں كيلئے سزائيں اور قوانين مقرر كرنا آنحضرت (ص) كى طرف سے تشكيل حكومت كى دليل ہے_

۸۵

سوالات :

۱) آنحضرت (ص) كى زعامت اور رياست كے متعلق كونسى دو اساسى بحثيں ہيں؟

۲) آنحضرت (ص) كے ہاتھوں تشكيل حكومت كى نفى پر عبدالرازق كى پہلى دليل كونسى ہے؟

۳) عبدالرازق كى پہلى دليل كے جواب كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۴)عبدالرزاق كى دوسرى دليل كيا ہے ؟

۵) آنحضرت (ص) كے ذريعے تشكيل حكومت پر كونسے تاريخى شواہد دلالت كرتے ہيں؟

۸۶

دسواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲-

محمد عابد الجابرى نامى ايك عرب مصنف آنحضرت (ص) كى دينى حكومت كى نفى كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ آپ (ص) نے كوئي سياسى نظام اور دينى حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ آپ (ص) كى پورى كوشش ايك ''امت مسلمہ ''كى تاسيس تھى _ آپ (ص) نے كوئي حكومت قائم نہيں كى تھى بلكہ آپ (ص) نے لوگوں ميں ايك خاص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى كو رائج كيا اور ايسى امت كو وجود ميں لائے جو ہميشہ دين الہى كى حفاظت كيلئے كوشش كرتى رہى اور اسلام اور بعثت نبوى كى بركت سے ايك منظم معنوى اور اجتماعى راہ كو طے كيا_ اس معنوى و اجتماعى راہ كى توسيعكى كوششوں اور امت مسلمہ كى پرورش كے باوجود آنحضرت (ص) نے اپنے آپ (ص) كو بادشاہ ، حكمران يا سلطان كا نام نہيں ديا _ بنابريںدعوت محمدى سے ابتدا ميں ايك ''امت مسلمہ'' وجود ميں آئي پھر امتداد زمانہ كے ساتھ ايك خاص سياسى ڈھانچہ تشكيل پايا جسے اسلامى حكومت كا نام ديا گيا _ سياسى نظم و نسق اور

۸۷

حكومت كى تشكيل عباسى خلفا كے عہد ميں وقوع پذير ہوئي _ صدر اسلامكےمسلمان اسلام اور دعوت محمدى كو دين خاتم كے عنوان سے ديكھتے تھے نہحكومت كے عنوان سے_ اسى لئے ان كى تمام تر كوشش اس دين كى حفاظت اور اس امت مسلمہ كى بقا كيلئےرہى نہ كہ سياسى نظام اور نوزائيدہ مملكت كى حفاظت كيلئے_ صدر اسلام ميں جو چيز اسلامى معاشرے ميں وجود ميں آئي وہ امت مسلمہ تھى پھر اس دينى پيغام اور الہى رسالت كے تكامل اور ارتقاء سے دينى حكومت نے جنم ليا_

عابد جابرى نے اپنے مدعا كى تائيد كيلئے درج ذيل شواہد كا سہارا ليا ہے_

الف _ زمانہ بعثت ميں عربوںكے پاس كوئي مملكت اور حكومت نہيں تھى _ مكہ اور مدينہ ميں قبائلى نظام رائج تھا جسے حكومت نہيں كہا جا سكتا تھا كيونكہ حكومت كا وجود چند امور سے تشكيل پاتا ہے: اس سرزمين كى جغرافيائي حدود معين ہوں ،لوگ مستقل طور پر وہاں سكونت اختيار كريں_ايك مركزى قيادت ہو جو قوانين كے مطابق ان لوگوں كے مسائل حل كرے _جبكہ عرب ميں اس قسم كى كوئي شئے موجود نہيں تھي_

ب _ آنحضرت (ص) نے اس دينى اور معاشرتى رسم و رواج اور طرز زندگى كى ترويج كى جسے اسلام لايا تھا اور خود كو حكمران يا سلطان كہلو انے سے اجتناب كيا _

ج _ قرآن مجيد نے كہيں بھى اسلامى حكومت كى بات نہيں كى بلكہ ہميشہ امت مسلمہ كا نام ليا ہے ''و كنتم خير امّة ا ُخرجت للناس''تم بہترين امت ہو جسے لوگوں كيلئے لايا گيا ہے_(۱)

د _ حكومت ايك سياسى اصطلاح كے عنوان سے عباسى دور ميں سامنے آئي _ اس سے پہلے صرف'' امت مسلمہ '' كا لفظ استعمال كيا جاتا تھا جب امويوں سے عباسيوں كى طرف اقتدار منتقل ہوا تو ان كى اور ان

____________________

۱) سورہ آل عمران آيت ۱۱۰_

۸۸

كے حاميوں كى زبان پر'' ہذہ دولتنا'' ( يہ ہمارى حكومت ہے) جيسے الفاظ جارى ہوئے جو كہ دين و حكومت كے ارتباط كى حكايت كرتے ہيں اور امت كى بجائے حكومت اور رياست كا لفظ استعمال ہونے لگا _ (۱)

جابرى كے نظريئےکا جواب :

گذشتہ سبق كا وہ حصہ جو عبدالرازق كى دوسرى دليل كے جواب كے ساتھ مربوط ہے جابرى كے اس نظريہ كے رد كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ يہاں ہم جابرى كے نظريہ كے متعلق چند تكميلى نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ اسلام اور ايمان كى بركت سے عرب كے متفرق اور مختلف قبائل كے درميان ايك امت مسلمہ كى تشكيل اور ايك مخصوص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى اس سے مانع نہيں ہے كہ يہ امت ايك مركزى حكومت قائم كر لے _كسى كو بھى اس سے انكار نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) مختلف اور متعدد قبائل سے'' امت واحدہ'' كو وجود ميں لائے_ بحث اس ميں ہے كہ يہ امت سياسى اقتداراور قدرت كى حامل تھى _ حكومت كا عنصراس امت ميں موجود تھا اور اس حكومت اور سياسى اقتدار كى قيادت و رہبرى آنحضرت (ص) كے ہاتھ ميں تھى _

گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم نے جو شواہد بيان كئے ہيں وہ اس مدعا كو ثابت كرتے ہيں_

۲_ عبدالرازق اور جابرى دونوں اس بنيادى نكتہ سے غافل رہے ہيں: كہ ہر معاشرہ كى حكومت اس معاشرہ كے مخصوص اجتماعى اور تاريخى حالات كى بنياد پر تشكيل پاتى ہے_ ايك سيدھا اور سادہ معاشرہ جو كہ پيچيدہ مسائل كا حامل نہيں ہے اس كى حكومت بھى طويل و عريض اداروں پر مشتمل نہيں ہوگى _جبكہ ايك وسيع معاشرہ جو كہ مختلف اجتماعى روابط اور پيچيدہ مسائل كا حامل ہے واضح سى بات ہے اسے ايك ايسى حكومت

____________________

۱) الدين و الدولہ و تطبيق الشريعة محمد عابد جابرى ص ۱۳_ ۲۴ _

۸۹

كى ضرورت ہے جو وسيع انتظامى امور اور اداروں پر مشتمل ہوتا كہ اس كے مسائل حل كر سكے _ جس غلط فہمى ميں يہ دو افراد مبتلا ہوئے ہيں وہ يہ ہے كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كے دور كے اجتماعى حالات پر غور نہيں كيا _ انہوں نے حكومت كے متعلق ايك خاص قسم كا تصور ذہن ميں ركھا ہے لہذا جب آنحضرت (ص) كے دور ميں انہيں حكومت كے متعلق وہ تصور نہيں ملا توكہنے لگے آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى بلكہ عباسيوں كے دور ميں ا سلامى حكومت وجود ميں آئي _

يہ نظريہ كہ جس كا سرچشمہ عبدالرازق كا كلام ہے كى ردّ ميں ڈاكٹر سنہورى كہتے ہيں :

عبد الرازق كى بنيادى دليل يہ ہے كہ ايك حكومت كيلئے جو انتظامى امور اور ادارے ضرورى ہوتے ہيں_ وہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں نہيںتھے_ ليكن يہ بات عبدالرازق كے اس مدعاكى دليل نہيں بن سكتى كہ آپ (ص) كے دور ميں حكومت كا وجود نہيں تھا_ كيونكہ اس وقت جزيرة العرب پر ايك سادہ سى طرز زندگى حاكم تھى جو اس قسم كے پيچيدہ اور دقيق نظم و نسق كى روادار نہيں تھى لہذا اس زمانہ ميں جو بہترين نظم و نسق ممكن تھا آنحضرت (ص) نے اپنى حكومت كيلئے قائم كيا _ پس اس اعتراض كى كوئي گنجائشے نہيں رہتى كہ ''اگر آپ نے حكومت تشكيل دى تھى تو اس ميں موجود ہ دور كى حكومتوں كى طرح كا نظم و نسق اور انتظامى ادارے كيوں نہيں ملتے_ كيونكہ اس قسم كانظم و نسق اور طرز حكومت آنحضرت (ص) كے زمانہ كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا تھا ليكن اس كے باوجود آپ نے اپنى اسلامى حكومت كيلئے ماليات ، قانون گذارى ، انتظامى امور اور فوجى ادارے قائم كئے_(۱)

۳_ ہمارا مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) سياسى اقتدار اور ايك مركزى حكومت كى ماہيت كو وجود ميں لائے_ ہمارى بحث اس ميں نہيں ہے كہ اس وقت لفظ حكومت استعمال ہوتا تھا يا نہيں يا وہ الفاظ جو كہ عموماً حكمران

____________________

۱) ''فقہ الخلافة و تطورہا ''عبدالرزاق احمد سنہورى ص ۸۲_

۹۰

استعمال كرتے تھے مثلاً امير ، بادشاہ يا سلطان و غيرہ آنحضرت (ص) نے اپنے لئے استعمال كئے يا نہيں؟تاكہ جابرى صرف اس بنا پر كہ آپ (ص) نے خود كو حكمران يا بادشاہ نہيںكہلوايا ياعباسيوں كے دور ميں ''ہمارى حكومت '' جيسے الفاظ رائج ہوئے تشكيل حكومت كو بعد والے ادوار كى پيداوار قرار ديں_

وہ تاريخى حقيقت كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كے دور ميں مدينہ ميں سياسى اقتدار وجود ميں آچكا تھا _ البتہ يہ حكومت جو كہ اسلامى تعليمات كى بنياد پر قائم تھى شكل و صورت اور لوگوں كے ساتھ تعلقات ميں اس دور كى دوسرى مشہور حكومتوں سے بہت مختلف تھى _

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا :

اس نكتہ كى وضاحت كے بعد كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت تشكيل دى تھى اور آپ كى رسالت اور نبوت سياسى ولايت كے ساتھ ملى ہوئي تھى _ اس اہم بحث كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ آنحضرت (ص) كو يہ حكومت اور سياسى ولايت خداوند كريم كى طرف سے عطا ہوئي تھى يا اس كا منشأ رائے عامہ اور بيعت تھى ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا آ پ (ص) كى سياسى ولايت كا منشأدينى تھا يا عوامى اورمَدني؟

اس سوال كا جواب اسلام اور سياست كے رابطہ كى تعيين ميں اہم كردار ادا كرے گا _ اگر آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور حكومت كا منشا دينى تھا_ اور يہ منصب آپ (ص) كو خدا كى طرف سے عطا كيا گيا تھا تو پھر اسلام اور سياست كا تعلق'' ذاتي'' ہوگا _ بايں معنى كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں حكومت پر توجہ دى ہے اور مسلمانوں سے دينى حكومت كے قيام كا مطالبہ كيا ہے لہذا آنحضرت (ص) نے اس دينى مطالبہ پر لبيك كہتے ہوئے حكومت كى تشكيل اور مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور كے حل كيلئے اقدام كيا ہے_ اور اگر آنحضرت (ص) كى حكومت اور سياسى ولايت كا منشأ و سرچشمہ صرف لوگوں كى خواہش اور مطالبہ تھا تو اس صورت ميں اسلام اور حكومت كے درميان تعلق ايك ''تاريخى تعلق ''كہلائے گا _ اس تاريخى تعلق سے مراد يہ

۹۱

ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں دينى حكومت كى تشكيل كا مطالبہ نہيں كيا اور آنحضرت (ص) كيلئے سياسى ولايت جيسا منصب يا ذمہ دارى قرار نہيں دى بلكہ رسولخدا (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كا قيام ايك تاريخى واقعہ تھا جو اتفاقاً وجود ميں آگيا _ اگر مدينہ كے لوگ آپ(ص) كو سياسى قائد كے طور پر منتخب نہ كرتے اور آپ (ص) كى بيعت نہ كرتے تو اسلام اورحكومت كے درميان اس قسم كا تعلق پيدا نہ ہوتا كيونكہ اس نظريہ كے مطابق اسلام اور سياست كے درميان كوئي ''ذاتى تعلق'' نہيں ہے اور نہ ہى اس دين ميں سياسى ولايت كے متعلق اظہار رائے كياگيا ہے _

اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں :

آسمانى پيغام كو پہنچانے كيلئے رسولخدا (ص) كى اجتماعى ، سياسى اور اخلاقى قيادت سب سے پہلے لوگوں كے منتخب كرنے اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي پھر اس بيعت كو خداوند كريم نے پسند فرمايا جيسا كہ سورہ فتح كى آيت'' لقد رضى اللہ عن المومنين اذ يبايعونك تحت الشجرة ''(۱) ''بے شك اللہ تعالى مومنوں سے اس وقت راضى ہو گيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے''_ سے معلوم ہوتا ہے ايسا نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى قيادت الہى ماموريت اور رسالت كا ايك حصہ ہو بلكہ آپ كى سياسى قيادت اورفرمانروائي جو كہ لوگوں كى روزمرہ زندگى اور عملى و اجرائي دستورات پر مشتمل تھى لوگوں كے انتخاب اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي لہذا يہ رہبرى وحى الہى كے زمرے ميں نہيں آتي_

يہ نظريہ صحيح نہيں ہے كہ دين اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق ہے اور آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت ايك مدنى ضرورت تھى _ آپ (ص) كى حكومت اس دور كے تقاضے اور لوگوں كے مطالبہ سے اتفاقاً وجود ميں نہيں

____________________

۱) سورہ فتح آيت نمبر۱۸_

۹۲

آئي تھى _بلكہ اس كا سرچشمہ اسلامى تعليمات تھيں اور جيسا كہ آگے ہم وضاحت كريں گے كہ لوگوں كى خواہش اور بيعت نے درحقيقت اس دينى دعوت كے عملى ہونے كى راہ ہموار كى _ متعدد دلائل سے ثابت كيا جاسكتا ہے كہ آپ (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ اسلام اور وحى الہى تھى ان ميں سے بعض دلائل يہ ہيں_

الف _ اسلام كچھ ايسے قوانين اور شرعى فرائض پر مشتمل ہے كہ جنہيں دينى حكومت كى تشكيل كے بغير اسلامى معاشرہ ميں جارى نہيں كيا جاسكتا _ اسلامى سزاؤں كا نفاذ اور مسلمانوں كے مالى واجبات مثلا ً زكوة ، اور اموال و غنائم كے خمس كى وصولى اور مصرف ايسے امور ہيں كہ دينى حكومت كى تشكيل كے بغير ان كا انجام دينا ممكن نہيں ہے _ بنابريں دينى تعليمات كے اس حصہ كو انجام دينے كيلئے آپ (ص) كيلئے سياسى ولايت ناگزير تھي_ ہاں اگر مسلمان آپ (ص) كا ساتھ نہ ديتے اور بيعت اور حمايت كے ذريعہ آپ (ص) كى پشت پناہى نہ كرتے تو آپ كى سياسى ولايت كو استحكام حاصل نہ ہوتا اور دينى تعليمات كا يہ حصہ نافذ نہ ہوتا _ ليكن اس كا يہ معنى نہيںہے كہ آپ(ع) كى سياسى ولايت كا منشأ عوام تھے اور اسلام سے اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_

ب _ قرآنى آيات رسولخدا (ص) كى سياسى ولايت كو ثابت كرتى ہيں اورمؤمنين سے مطالبہ كرتى ہيں كہ وہ آپ (ص) كى طرف سے ديے گئے اوامر اور نواہى كى اطاعت كريں:

( '' النبى اولى بالمومنين من انفسهم '' ) (۱)

بے شك نبى تمام مومنوں سے ان كے نفس كى نسبت اولى ہيں _

( '' انما وليّكم الله و رسوله و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكوة و هم راكعون'' ) (۲)

____________________

۱) سورہ احزاب آيت ۶_

۲) سورہ مائدہ آيت۵۵_

۹۳

يقينا ً تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ صاحبان ايمان ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

( '' انا انزلنا اليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اريك الله'' ) (۱)

ہم نے تمہارى طرف بر حق كتاب نازل كى تا كہ لوگوں كے درميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_

اس قسم كى آيات سے ثابت ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) مومنين پر ولايت ،اولويت اور حق تقدم ركھتے ہيں_ بحث اس ميں ہے كہ يہ ولايت اور اولويت كن امور ميں ہے _ ان آيات سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ ولايت اور اولويت ان امور ميں ہے جن ميں لوگ معمولاً اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتے ہيں يعنى وہ اجتماعى امور جن كے ساتھ معاشرہ اور نظام كى حفاظت كا تعلق ہے _ مثلاً نظم و نسق كا برقرار ركھنا ،لوگوں كے حقوق كى پاسدارى ، ماليات كى جمع آورى ، انكى تقسيم اورمستحقين تك ان كا پہنچانا اور اس طرح كے دوسرے ضرورى مصارف ، مجرموں كو سزا دينا اور غيروں سے جنگ اور صلح جيسے امور _

ج_ وہ افراد جو آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كو مدنى اور غير الہى سمجھتے ہيں ان كى اہم ترين دليل مختلف موقعوں پر مسلمانوں كا رسولخدا ا(ص) كى بيعت كرنا ہے _ بعثت كے تير ہويں سال اہل يثرب كى بيعت اور بيعت شجرہ( بيعت رضوان) كہ جس كى طرف اسى سبق ميں اشارہ كيا گيا ہے يہ وہ بيعتيں ہيں جن سے ان افراد نے تمسك كرتے ہوئے كہا ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت كا منشأ دينى نہيں تھا _

بعثت كے تير ہويں سال اعمال حج انجام دينے كے بعد اور رسولخدا (ص) كى مدينہ ہجرت سے پہلے اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _ جسے بيعت عقبہ كہتے ہيں_ اگر اس كا پس منظر ديكھا

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۱۰۵_

۹۴

جائے تو بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ اس بيعت كا مقصد مشركين مكہ كى دھمكيوں كے مقابلہ ميں رسولخدا (ص) كى حمايت كرنا تھا _ اس بيعت ميں كوئي ايسى چيز نہيں ہے جو دلالت كرتى ہو كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كو سياسى رہبر كے عنوان سے منتخب كيا ہو _ اس بيعت كے وقت آنحضرت (ص) نے فرمايا:

''امّا مالى عليكم فتنصروننى مثل نسائكم و ابنائكم و ان تصبروا على عضّ السّيف و ان يُقتل خياركم ''

بہر حال ميرا تم پر يہ حق ہے كہ تم ميرى اسى طرح مدد كرو جس طرح اپنى عورتوں اور بچوں كى مدد كرتے ہو اور يہ كہ تلواروں كے كاٹنے پر صبر كرو اگر چہ تمہارے بہترين افراد ہى كيوں نہ مارے جائيں_

براء بن معرور نے آنحضرت (ص) كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا اور كہا :

''نعم و الذى بعثك بالحق لنمنعنّك ممّا نمنع منه ازرنا ''(۱ )

ہاں اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے ہم ہراس چيز سے آپ كا دفاع كريں گے جس سے اپنى قوت و طاقت كا دفاع كرتے ہيں_

بيعت رضوان كہ جس كى طرف سورہ فتح كى اٹھارويں آيت اشارہ كر رہى ہے سن چھ ہجرى ميں ''حديبيہ'' كے مقام پر ہوئي اس بيعت سے يہ استدلال كرنا كہ آنحضرت(ص) كى حكومت كا منشا مدنى اور عوامى تھا ناقابل فہم بہت عجيب ہے كيونكہ يہ بيعت مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور اقتدار كے استحكام كے كئي سال بعد ہوئي پھر اس بيعت كا مقصد مشركين كے ساتھ جنگ كى تيارى كا اظہار تھا _ لہذا سياسى رہبر كے انتخاب كے مسئلہ كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا _

____________________

۱) مناقب آل ابى طالب ج ۱، ص ۱۸۱_

۹۵

خلاصہ :

۱) عصر حاضر كے بعض مصنفين قائل ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ ايك امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى _ امت مسلمہ كى تشكيل كے بعد عباسيوں كے دور ميں دينى حكومت قائم ہوئي _

۲) اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ رسولخد ا (ص) كے دور ميں جو قبائلى نظام رائج تھا اس پر حكومت كى تعريف صادق نہيں آتى _ دوسرا يہ كہ آنحضرت (ص) نے اپنے آپ كو امير يا حاكم كا نام نہيں ديا نيز قرآن نے بھى مسلمانوں كيلئے ''امت ''كا لفظ استعمال كيا ہے _

۳) اس نظريہ كے حامى اس نكتہ سے غافل رہے ہيں كہ ہر معاشرے اور زمانے كى حكومت اس دور كے اجتماعى حالات كے مطابق ہوتى ہے لہذا دور حاضر ميں حكومت كى جو تعريف كى جاتى ہے اس كا رسولخدا (ص) كے زمانے كى حكومت پر صادق نہ آنا اس بات كى نفى نہيں كرتاكہ مدينہ ميں آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى _

۴) دوسرا نكتہ جس سے غفلت برتى گئي ہے وہ يہ ہے كہ بحث لفظ ''حكومت، رياست اور امارت'' ميں نہيں ہے _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں حكومت اور سياسى ولايت موجود تھى _

۵) مسلمانوں ميں حكومت كا وجود ان پر لفظ ''امت'' كے اطلاق كے منافى نہيں ہے _

۶) اصلى مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اسلام اور سياست كے در ميان ذاتى تعلق كا نتيجہ ہے نہ كہ ايك اتفاقى اور تاريخى واقعہ _ پس اسلام اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق نہيں ہے_

۷) آنحضرت (ص) كى حكومت كے الہى اور غير مدنى ہونے پر بہت سى ادلّہ موجود ہيں _

۹۶

سوالات :

۱) جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت كى بجائے امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى اس سے ان كى مراد كيا ہے ؟

۲) اس مدعا پر انہوں نے كونسى ادلّہ پيش كى ہيں ؟

۳) آنحضرت (ص) كے ہاتھوںتشكيل حكومت كے منكرين كے اس گروہ كو كيا جواب ديا گيا ہے؟

۴) اسلام اور سياست كے درميان ''ذاتى تعلق'' اور ''تاريخى تعلق'' سے كيا مراد ہے ؟

۵)اس بات كى كيا دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت الہى تھى اور اس كا سرچشمہ دين تھا ؟ اور يہ كہ آپ (ص) كى حكومت مدنى نہ تھي_

۹۷

گيا رہواں سبق:

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

گذشتہ سبق ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ كرچكے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت، شرعى نص اور وحى الہى كى بنياد پر تھى اور اس ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا _ اب سوال يہ ہے كہ كيا رحلت كے بعد مسلمانوں كے سياسى نظام اور امت كے سياسى اقتدار كے متعلق اسلامى تعليمات اور دينى نصوص ميں اظہار رائے كيا گيا ہے ؟ يا اسلام اس بارے ميں خاموش رہا ہے اور امر ولايت اور سياسى اقتدار اور اس كى كيفيت كو خود امت اور اس كے اجتہاد و فكر پر چھوڑ ديا ہے ؟

يہ مسئلہ جو كہ'' كلام اسلامي'' ميں ''مسئلہ امامت'' كے نام سے موسوم ہے طول تاريخ ميں عالم اسلام كى اہم ترين كلامى مباحث ميں رہا ہے اوراسلام كے دو بڑے فرقوں يعنى شيعہ و سنى كے درميان نزاع كا اصلى محور يہى ہے _ اہلسنت كہتے ہيں: آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت كے متعلق دينى نصوص ساكت ہيں اور نظام حكومت ، مسلمانوں كے حكمران كى شرائط اور اس كے طرزانتخاب كے متعلق كوئي واضح فرمان نہيں ديا گيا _ آنحضرت(ص) كے بعد جو كچھ ہوا وہ صدر اسلام كے مسلمانوں كے اجتہاد كى بناپرتھا _ اہل سنت اس اجتہاد كا نتيجہ

۹۸

''نظام خلافت''كے انتخا ب كو قرار ديتے ہيں _

جبكہ اس كے مقابلے ميں اہل تشيع يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى ميں ہى حكم خدا سے متعدد شرعى نصوص كے ذريعہ امت كى سياسى ولايت اور'' نظام امامت'' كى بنياد ركھ دي_

ان دو بنيادى نظريات كى تحقيق سے پہلے جو كہ آپس ميں بالكل متضاد ہيں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اہلسنت نے ''مسئلہ امامت'' كو وہ اہميت اور توجہ نہيں دى جو شيعوں نے دى ہے _ اہلسنت كے نزديك مسئلہ خلافت ، شرائط خليفہ اور اس كى تعيين كا طريقہ ايك فقہى مسئلہ ہے _ جس كا علم كلام اور اعتقاد سے كوئي تعلق نہيں ہے _ اسى لئے انہوں نے اسے اتنى اہميت نہيں دى _ ان كى كلامى كتب ميںاس مسئلہ پر جووسيع بحث كى گئي ہے وہ در حقيقت ضد اور شيعوں كے رد عمل كے طور پر كى گئي ہے _ كيونكہ شيعوں نے اس اہم مسئلہ پر بہت زور ديا ہے اور'' مسئلہ امامت'' كو اپنى اعتقادى مباحث كے زمرہ ميں شمار كرتے ہوئے اسے بہت زيادہ اہميت دى ہے _ لہذا اہلسنت بھى مجبوراً اس فرعى اور فقہى بحث كو علم كلام اور اعتقادات ميں ذكر كرنے لگے بطور مثال ،غزالى مسئلہ امامت كے متعلق كہتے ہيں :

''النظر فى الامامة ليس من المهمات و ليس ايضاً من فنّ المعقولات بل من الفقهيات''

امامت كے بارے ميں غور كرنا اتنا اہم نہيں ہے اور نہ ہى يہ علم كلام كے مسائل ميں سے ہے بلكہ اس كا تعلق فقہ سے ہے(۱)

مسئلہ امامت شيعوں كے نزديك صرف ايك فرعى اور فقہى مسئلہ نہيں ہے اور نہ ہى معاشرتى نظام كے چلانے كى كيفيت اور سياسى ولايت ميں منحصر ہے بلكہ ايك كلامى مسئلہ ہے اور جزء ايمان ہے لہذا ائمہ

____________________

۱) الاقتصاد فى الاعتقاد، ابوحامد غزالى ص ۹۵_

۹۹

معصومين كى امامت پر اعتقاد نہ ركھنا در حقيقت دين كے ايك حصّے كے انكار اور بعض نصوص اور دينى تعليمات سے صرف نظر كرنے كے مترادف ہے ،جس كے نتيجہ ميں ايمان ناقص رہ جاتا ہے _ شيعوں كے نزديك امامت ايك ايسا بلند منصب ہے كہ سياسى ولايت اس كا ايك جزء ہے _ شيعہ ہونے كا اساسى ركن امامت كا معتقد ہونا ہے _ يہى وجہ ہے كہ اہلسنت كے مشہور عالم ''شہرستاني'' '' شيعہ'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں: الشيعة ہم الذين شايعوا علياً على الخصوص و قالوا بامامتہ و خلافتہ نصاً و وصيتاً اما جلياً و اما خفيا و اعتقدوا ان امامتہ لا تخرج من اولادہ (۱ ) شيعہ وہ لوگ ہيں جو بالخصوص حضرت على كا اتباع كرتے ہيں اور آنحضرت (ص) كى ظاہرى يا مخفى وصيت اور نص كى روسے انكى امامت اور خلافت كے قائل ہيں اور معتقد ہيں كہ امامت ان كى اولاد سے باہر نہيں جائے گى _

اہلسنت اور نظريہ خلافت :

اگر موجودہ صدى كے بعض روشن فكر عرب مسلمانوں كے سياسى مقاصد اور نظريات سے چشم پوشى كرليں تو اہلسنت كا سياسى تفكر تاريخى لحاظ سے نظام خلافت كے قبول كرنے پر مبتنى ہے _

اہلسنت كے وہ پہلے مشہور عالم ماوردى(۲) كہ جنہوں نے اسلام كى سياسى فقہ كے متعلق ايك مستقل كتاب لكھى ہے كے زمانہ سے ليكر آج تك سياسى تفكر كے بارے ميں انكى سب تحريروں كا محور نظريہ خلافت ہے_

اہلسنت كى فقہ سياسى اور فلسفہ سياسى دينى نصوص كى بجائے صحابہ كے عمل سے متاثر ہے _ اہلسنت سمجھتے ہيں كہ خليفہ كى تعيين كى كيفيت اورشرائط كے متعلق قرآن اور سنت ميں كوئي واضح تعليمات موجو د نہيں ہيں

____________________

۱) الملل و النحل، شہرستانى ج ۲ ص ۱۳۱_

۲) على ابن محمد ابن حبيب ابوالحسن ماوردى ( ۳۶۴ _ م ۴۵۰ ق) شافعى مذہب كے عظيم فقہا ميں سے ہيں فقہ سياسى كے متعلق ''احكام سلطانيہ'' كے علاوہ ديگر كتب كے بھى مؤلف ہيں جيسے ''الحاوي'' اور ''تفسير قرآن'' _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307