انسان شناسی

انسان شناسی25%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146104 / ڈاؤنلوڈ: 4873
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱)

تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔

____________________

(۱) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش

''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل

مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی

۲۲

اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میں روح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔(۱)

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں

انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔

خدا شناسی اور انسان شناسی

انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(۲) یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میں انسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث

____________________

(۱)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

( ۲ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔

۲۳

انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(۱)

قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :

( وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ ) (۲)

زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں ( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔

اور دوسری آیت میں بیان ہوا :

( سَنُریهِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَهُم أَنّهُ الحَقُّ ) (۳)

عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(۴)

____________________

(۱)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔ (۲)ذاریات ۲۰و ۲۱۔

(۳)فصلت ۵۳۔

(۴)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔

۲۴

نبوت اور انسان شناسی

نبوت کا ہونا اوراس کا اثبات ورابطہ ،انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل پر موقوف ہے ۔ اگر انسان شناسی میں یہ ثابت نہ ہو کہ وہ فرشتوں کی طرح خدا سے براہ راست یا باواسطہ رابطہ رکھ سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وحی اور پیغمبرکے سلسلہ میں گفتگو کی جائے ؟!

وحی اورمنصب نبوت سے مرادیہ ہے کہ لوگوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیںجوبراہ راست یا فرشتوں کے ذریعہ خداوند عالم سے وابستہ ہیں ، خداوند عالم ان کے ذریعہ معجزات دکھاتا ہے اور یہ حضرات خدا سے معارف اور پیغامات حاصل کرتے ہیں تا کہ لوگوں تک پہونچائیں ،اس حقیقت کو ثابت اور قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس رابطہ کے سلسلہ میں انسان کی قابلیت کو پرکھا جائے ۔بنوت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات اور شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ایسا رابطہ خداوند عالم سے رکھ ہی نہیں سکتا اور ایسا رابطہ انسان کی قدرت سے خارج ہے ، قرآن مجید اس طرح بنوت کا انکار کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

( مَا هٰذا لاّ بَشَر مِثلُکُم ...ولَو شَائَ اللّٰهُ لأَنزَلَ مَلائِکَةً مَا سَمِعنَا بِهٰذا فِی آبَائِنَا الأوَّلِینَ ) (۱)

''یہ (پیغمبر )تم جیسا بشر کے علاوہ کچھ نہیں اگر خدا چاہتا(کوئی پیغمبر بھیجے ) تو

فرشتوں کو نازل کرتا ، ہم نے تو اس سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد سے کچھ نہیں سنا

دوسری آیت میں کافروں اور قیامت کا انکار کرنے والوں سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے :

( مَا هٰذَا لاّ بَشَر مِثلُکُم یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُونَ مِنهُ وَ یَشرَبُ مِمَّا تَشرَبُونَ وَ لَئِن أَطَعتُم بَشَراً مِثلَکُم ِنَّکُم ِذاً لَخَاسِرُونَ ) (۲)

____________________

(۱)مومنون ۲۴ ۔

(۲) مومنون ۳۳و ۳۴۔

۲۵

(کفار اور قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں :)یہ (پیغمبر ) فقط تمہاری طرح ایک بشر ہے جو چیزیں تم کھاتے اور پیتے ہو وہی وہ کھاتا اور پیتا ہے ، اور اگر تم لوگ نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی، تب تو ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

لہٰذا نبوت کا ہونا یا نہ ہونا اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان اللہ کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات وحی کو دریافت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مزید یہ کہ نبوت کا ہونا ، نبوت عامہ کا اثبات اور انبیاء کی بعثت کی ضرورت بھی اسی انسان شناسی کے مسائل کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان وحی کی مدداور خدا کی مخصوص رہنمائی کے بغیر ،نیز صرف عمومی اسباب کے ذریعہ معرفت حاصل کرکے اپنی راہ سعادت کو کامل طریقے سے پہچان سکتا ہے ؟ یا یہ کہ عمومی اسباب کسب معرفت کے سلسلہ میں کافی و وافی کردار ادا نہیں کرسکتے اور کیا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے کوئی پیغمبر مبعوث ہو ؟

معاد اور انسان شناسی

وحی کی روشنی میں انسان کا وجودصرف مادی دنیا اور دنیاوی زندگی ہی سے مخصوص نہیں ہوتابلکہ اس کے وجود کی وسعت عالم آخرت سے بھی تعلق رکھتی ہے اوراس کی حقیقی زندگی موت کے بعدکی دنیا سے مربوط ہے لہٰذا ایک زاویہ نگاہ سے معاد پر اعتقاد ، موت کے بعد انسان کی زندگی کے دوام اور اس کے نابود نہ ہونے کا اعتقاد ہے اور ایسا اعتقاد در اصل ایک طرح سے انسان کے سلسلہ میں ایسا تفکر ہے جسے انسان شناسی کے مباحث سے اگرحاصل اور ثابت نہیں کیا گیا تو معاد کے مسئلہ کی کوئی عقلی ضرورت نہیں رہ جاتی اورمعاد کا مسئلہ عقلی دلائل کی پشت پناہی سے عاری ہوگا اسی وجہ سے قرآن مجید معاد کی ضرورت و حقانیت پر استدلال کے لئے موت کے بعد انسان کی بقا اور اس کے نابود نہ ہونے پر تکیہ کرتا ہے اور رسول اکرم سے مخاطب ہو کرمنکرین معادکی گفتگو کو اس طرح پیش کرتا ہے :

۲۶

( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نّا لَفِی خَلقٍ جَدیدٍ ) (۱)

اور (معاد کا انکار کرنے والے )یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب (ہم مرگئے اور بوسیدہ ہوگئے اور )زمین میں ناپید ہوجائیں گے تو کیا ہم پھردوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟

ان لوگوں کے جواب میں قرآن یوں فرماتا ہے :

( ...بَل هُم بِلِقائِ رَبِّهِم کَافِرُونَ٭قُلّ یَتَوفَّاکُم مَلکُ الموتِ الذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ لیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) (۲)

(ان لوگوں نے زمین میں مل جانے کو دلیل قرار دیا ہے ورنہ معاد کے ہونے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہہ نہیں رکھتے ہیں )بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات ہی سےانکار کرتے ہیں(اے پیغمبر! اس دلیل کے جواب میں ) تم کہدو کہ: ملک الموت

جو تمہارے اوپر معین ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (اور تم ناپیدا نہیں ہوئوگے)اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائوگے ۔

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت

اس سے پہلے انسان کی حقیقی قابلیت اور بنیادی ضرورتوں کی معرفت نیز بنیاد سازی اور معقول و صحیح اجتماعی عادات و اطوار کی ترسیم مورد تائید قرار پا چکی ہے۔ لہٰذاہم یہاں اس نکتہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ بعض دین کے اجتماعی احکام کو عقلی نقطۂ نظر سے قبول کریں اور انہیں انسان شناسی کے بعض مسائل میں استفادہ کریں، اگرچہ دین کے اجتماعی احکام کی صحت و حقانیت علم خدا کے اس لامتناہی سرچشمہ کی وجہ سے ہے کہ جس کی ذات ،عادل، رحیم و کلیم جیسے صفات سے استوار ہے ،لیکن اسلام کے بعض اجتماعی احکام کی معقول وضاحت ((دینی ، عالم کی معرفت میں ) اس طرح سے کہ جو لوگ

____________________

(۱)سجدہ ۱۰۔

(۲)سجدہ ۱۰و ۱۱

۲۷

دین کونہیں مانتے ہیںان کے لئے بھی معقول اور قابل فہم ہو )صرف انسان شناسی کے بعض مسائل کے جوابات کی روشنی میں میسور وممکن ہے مثال کے طور پر وحی کی تعلیمات میں ، انسان کی حقیقی شخصیت (انسان کی انسانیت )قرب الہٰی(خدا سے قریب ہونا)کی راہ میں گامزن ہونے کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اور خدا سے دور ہونے کا مطلب خود کو فراموش کرنا اور انسانیت کے رتبہ سے گر کر حیوانات سے بدتر ہونا ہے(۱) اس مطلب کی روشنی میں ، وہ شخص جو اسلام کی حقانیت اور اس پر ایمان لانے کے بعد کسی غرض اور حق کی مخالفت کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑ کے کافر(مرتد) ہوجائے تو اس کے لئے پھانسی کا قانون ایک معقول اور مستحکم فعل ہے ،اس لئے کہ ایسے شخص نے اپنی انسانیت کو جان بوجھ کر گنوایا ہے نیزحیوان اور بد ترین مخلوق ہونے کا سہرا باندھ کر جامعہ کے لئے خطرناک جانور(۲) میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو

بہت سی فکری کوششیں جو وجود انسان کے گوشوں کو روشن کرنے کے لئے دوبارہ احیاء ہوئی ہیںاس نے بشر کے لئے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں ،اگرچہ ان معلومات کی جمع آوری میں تحقیق کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن ان میں روش تجربی کا حصہ دوسری راہوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسان شناسی میں زیادہ حصہ تجربہ کا ہے۔ بہت سے قضایا اور انکشافات جو انسان شناسی کے مختلف مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وجود انسانی کے

____________________

(۱)(أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلونَ )''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ۱۷۹)

(۲)(إنَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّهِ الّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لایُؤمِنُونَ )''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ۵۵)

۲۸

تاریک گوشوںکے حوالے سے قابل تحقیق ہیں ۔ نیز فراوانی اور اس کے ابعاد کی کثرت کی وجہ سے نہ صرف انسان کے ناشناختہپہلوئوں کو جیسا چاہیئے تھا واضح کرتے اور اس نامعلوم موجود کی شناخت میں حائل شدہ مشکلات کو حل کرتیخود ہی مشکلات سے دچار ہوگئے ہیں ۔(۱)

علم کے کسی شعبہ میں بحران کا معنی یہ ہیںکہ جن مشکلات کے حل کے لئے اس علم کی بنیاد رکھی گئی ہووہ علم اس کو حل کرنے سے عاجز ہو اور اپنے محوری و مرکزی سوالات کے جوابات میں مبہوت و پریشان ہو، ٹھیکیہی صورت حال دور حاضر میں انسان شناسی کی ہوگئی ہے، یہ بات ایک سر سری نظر سے معلوم ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں انسان شناسی کی مختلف معلومات، مختلف جہتوںسے بحران کا شکار ہیں۔ انسان شناسی کا ماہر، جرمنی کا فلسفی ''اسکیلر میکس '' لکھتا ہے کہ : تاریخ کے اوراق میں کسی وقت بھی ...انسان جس قدر آج معمہ بنا ہوا ہے کبھی نہیں تھا ...تخصصی علوم جن کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اوربشر کے مسائل سے مربوط ہیں ،یہ بھی ذات انسان کو مزید معمہ بنائے ہوئے ہیں ۔(۲)

دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کا چار بنیادی طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان چار بنیادی طریقوں سے مراد یہ ہیں؛ ۱۔ علوم نظری کی ایک دوسرے سے عدم ہماہنگی اور اندرونی نظم سے عاری ہونا۔ ۲۔ فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۔ ۳۔ انسان کے ماضی و مستقبل کا خیال نہ کرنا

۴ ۔ انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۔

____________________

(۱)''ہوسرل ''منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے انسان شناسی کے بحران کو بیان کیا ہے ،اس نے '' وین''(مئی ۱۹۳۵)کی اپنی تقریر میں ''یورپ میں انسانیت کی بحران کا فلسفہ ''اور ''پراگ ''(۱۲ ۱۹۳۴)کی تقریر میں ''نفسیات شناسی اور یورپ کے علوم کا بحران''کے عناوین سے اس موضوع پر تقریریں کی ہیں اوراس کی موت کے بعد اس کے مسودوں کو ۱۹۵۴ئ میں ایک پر حجم کتاب کی شکل میں ''بحران علوم اروپائی و پدیدار شناسی استعلایی '' کے عنوان سے منتشرکیا گیاہے ،ملاحظہ ہو ؛ مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی، ص۵۶

(۲) Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. ۱۷

کیسیرر سے نقل کرتے ہوئے ، ارنسٹ ، ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ، ص ۴۶و ۴۷۔

۲۹

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا

تمام مفکرین مدعی ہیں کہ انسان کے سلسلہ میں ان کا خاکہ اور نظریہ، دنیاوی اور تجربی معلومات و حوادث پر مبنی ہے اور ان کے نظریات کی دنیاوی حوادث سے تائید ہو جاتی ہے لیکن اگر ان نظریات کی سبھی توضیحات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی فطری وحدت مجہول ہے اور ہم انسان کی ایک فرد یاایسے مختلف افراد سے رو برو نہیں ہیںجو ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔(۱) مثال کے طور پر''رفتار گرایان'' کا عقیدہ ( جو انسان کے کردار کو محور تسلیم کرتے ہیں )جیسے ا سکینر(۲) ، سیاسی و اقتصادی جامعہ شناس جیسے کارل مارکس(۳) ، جامعہ شناس جیسے دور کھیم(۴) علم الحیات کے نظریات کو ماننے والے اور عقیدہ وجود والے جیسے ژان پل سارٹر(۵) کے نظریات انسان کے اختیارات اور آزادی کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ کس طرح ایک دوسرے سے ہماہنگ اور قابل جمع نہیں ہیں؛ ''عقیدۂ رفتار و کردار رکھنے والے'' اختیار کا ایک سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ''مارکس'' انسان کے اختیاراور آزادی کو روابط کے ایجاد اور تاریخی جبر کی پیداوار سمجھتا ہے ۔'' دورکھیم'' اجتماعی جبر کی تاکید کرتا ہے۔ ''حیات شناس افراد'' عناصر حیات کے سرنوشت ساز کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور'' ژان پل سارٹر''انسان کی بے چوں و چرا آزادی کا قائل ہے کہ جس میں حیات کے تقاضوں سے بالاتر ہو کرمادی دنیا کے تغییر ناپذیر قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔''اسکیلر میکس'' اس سلسلہ میں کہتا ہے کہگذشتہ دور کے برخلاف آج کے دور میں انسان شناسی تجربی(اپنے تمام انواع کے ساتھ) انسان شناسی فلسفی اور انسان شناسی الٰہی ایک دوسرے کے مخالف یا آپس میں بالکل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیںان میں

____________________

(۱)کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ (ترجمہ )ص ۴۵و ۴۶۔

(۲) B.F.Skinner

(۳) Karl Marx

(۴) Emile Durkheim

(۵) Jean-Paul

۳۰

انسان کے سلسلہ میں اجماعی نظریہ اور اتحاد نہیںپایا جاتا ہے ۔(۱)

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا

طبیعی علوم میں وہ قوانین جن کو علوم طبیعی کے اکثر مفکرین مانتے ہیں ان کے علاوہ، تجربی روش کو بھی اکثر مفکرین نے آخری دلیل اور حاکم کے عنوان سے قبول کیا ہے،اگرچہ اس کی افادیت کی مقدار میں بعض اعتراضات موجود ہیں لیکن علوم انسانی میں (جیسا کہ'' ارنسٹ کیسیرر''(۲) ذکرکرتاہے کہ)کوئی ایسی علمی اصل نہیں ملتی جسے سبھی مانتے ہوں(۳) ایسے موقعہ پر ایک مفید حاکم و دلیل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس کے باوجود علمی تحقیق یہ ہے کہ دور حاضر میں ہر انسان شناس اپنے نظریات کے سلسلہ میں عین واقعیت اور تجربی دلیلوں سے ہماہنگی کا مدعی ہے ، حالانکہ ، تجربی روش جس کو آخری اور مستحکم دلیل و حاکم کے عنوان سیپیش کیا گیا ہے خود ہی متناقض معلومات فراہم کرتی ہے اوروہ بیان کئے گئے مشکلات کو حل کرنے میں مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ضروری افادیت سے محروم ہے مزید یہ کہ (مفکرین کے )قابل توجہ گروہ نے کلی طور پر ( حتی ان موارد میں بھی جہاں علم تجربی ہمارے لئے ہماہنگ معلومات فراہم کرتا ہے)اس روش کی افادیت میں شک ظاہر کیا ہے اور تفہیم و حوادث شناسی کے دوسرے طریقۂ کار کی تاکید کی ہے ۔

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا

انسان شناسی تجربی کے نظریات ،انسان کے ماضی اور مستقبل (موت کے بعد کی دنیا) کے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ اگر انسان موت سے نابود نہیں ہوتا ہے (جب کہ ایساہی ہے ) تو یہ نظریات اس کی کیفیت اور اس دنیاوی زندگی سے اس کے رابطوں کی وضاحت و تعریف سے عاجز ہیں

____________________

(۱)اسکیلرمیکس۔

(۲) Earnest Cassirar

(۳)کیسیرر ، ارنسٹ ، گذشتہ حوالہ، ص ۴۶۔

۳۱

چنانچہ وہ اپنے ماضی سے غافل ہیں ،انسان کی سر نوشت اوراس کی خواہش میں معنوی اسباب کا اثر و عمل بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے بارے میں انسان شناسی تجربی کے نظریات کسی بھی وضاحت یا حتمی رأی دینے سے قاصر ہیں ۔انسان شناسی کے دوسرے اقسام بھی (دینی انسان شناسی کے علاوہ ) اخروی سعادت اور انسانی اعمال کے درمیان تفصیلی اور قدم بہ قدم روابط کے بیان سے عاجز ہیں ۔

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا

دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریے اور مکاتب اس دنیا کے بھی مہم ترین انسانی حوادث کی تفصیل و صراحت سے عاجز ہیں اور اس جہت سے بھی علمِ انسان شناسی بحران کا شکار ہے ۔ زبان ، اجتماعی اور انسانی حوادث کے اہم ترین ایجادات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ علوم انسانی کے بعض مفکرین کا نظریہ ہے کہ: جو مکتب اچھی طرح زبان کی وضاحت پر قادر ہے وہ انسانی حوادث کی بھی صراحت کر سکتا ہے جب کہ دور حاضر میں انسان شناسی ،زبان کے بعض گوشوں کی تفسیر و وضاحت سے عاجز ہے مثال کے طور پر وہ نظریات جو انسان کو ایک مشین یا کامل حیوان کا درجہ دیتے ہیں کس طرح ان جدید اصطلاحات و ایجاد معانی جن کو پہلی مرتبہ انسان مشاہدہ کرتا ہے یا اس طرح کی چیزوں کے سمجھنے میں ذہن انسانی کی خلاقیت اور اس کی ابتکاری صلاحیت کی کیونکروضاحت کرسکتے ہیں؟ یا نمونہ کے طور پر میدان فہم و تفہیم میں (مقصد کو بیان کرنے کے لئے کلمات کا ایجاد کرنا) جو حیوانات کی آواز کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،انسان کی خلاقیت کی کس طرح وضاحت کریں گے ؟ ''چومسکی''(۱) معتقد ہے کہ قابلیت اور ایجادات ،انسان کی زبان کے امتیازات میں سے ہے یعنی ہم سب سے گفتگو کرسکتے ہیں اور زبان کے قوانین اور معانی کی مدد سے ایسے جملات کو سمجھتے ہیں جس کو اس سے پہلے سنا ہی نہ تھا ، لہٰذا زبان ماہیت کے اعتبار سے حیوانات کے اپنے مخصوص طریقۂ عمل سے کاملاًجدا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) Chomsky Noam (۲)لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ۱۶۱۔

۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

دینی انسان شناسی اپنے مد مقابل اقسام کے درمیان کچھ ایسے امتیازات کی مالک ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں :

جامعیت

چونکہ دینی انسان شناسی تعلیمات وحی سے بہرہ مند ہے اور طریقہ وحی کسی خاص زاویہ سے مخصوص نہیں ہے لہٰذااس سلسلہ میں دوسری روشوں کی محدودیت معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عمومیت کی مالک ہے، اس طرح کہ اگر ہم کسی فرد خاص کے بارے میں بھی گفتگو کریں تواس گفتگو کوانسان کے سبھی افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس فرد خاص کے اعتبارسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ گفتگو کرنے والا کامل اور ہر زاویہ سے صاحب معرفت ہے ، مزید دینی انسان شناسی کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ یہ انسان شناسی ، انسان کے مختلف افراد کو مدنظر رکھتی ہے نیز جسمانی و فطری ، تاریخی و سماجی ،دنیاوی واخروی، فعلی و ارمانی، مادی و معنوی لحاظ سے بھی گفتگو کرتی ہے اور بعض موارد میں ایسی حقیقتوں کو منظر عام پر لاتی ہے جن کو انسان شناسی کے دوسرے انواع و اقسام کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ، دینی تعلیمات میں منظور نظرا ہداف ہی انسان شناسی دینی کے مختلف گوشے ہیں جو انتخابی صورت میں انجام پاتے ہیں ۔لہٰذا ہر پہلو کے مسئلہ کو اسی مقدار میں پیش کیا جائے گا جس قدر وہ انسان کی حقیقی سعادت میں اثر انداز ہے ، جب کہ اس کی انتخابی عمومیت باقی رہے گی بلکہ انسان شناسی کے ہر ایک شعبہ مثلاً فلسفی ، تجربی ،شہودی کے لئے ایک خاص موضوع مورد نظر ہو گا اور انسان شناسی سے مربوط دوسرے موضوعات اس کے دائر ۂبحث سے خارج ہوںگے ۔

۳۳

استوار اور محکم

دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔

مبدا اور معاد کا تصور

غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)

بنیادی فکر

دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و

____________________

(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔

۳۴

معنوی اور فکری تمایل نیز ان کے آپسی روابط کے تاثرات ،شدید مورد توجہ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن تجربی، فلسفی ،عرفانی انسان شناسی میں یا تو آپس میں ایسے وسیع روابط سے غفلت ہو جاتی ہے یااتنی وسعت سے توجہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف بعض آپسی جوانب کے روابط سے گفتگو ہوتی ہے ۔

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی شناخت اور اس کے ابعادوجودی، زمانہ قدیم سے لے کراب تک مفکرین کی مہم ترین تحقیقات کا موضوع رہے ہیں ۔

۲۔ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروہ یا انسان کے ابعاد وجودی کے بارے میں بحث کرے یا انسان کے سلسلہ میں کلی طور پربحث کرے اس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

۳۔ انسان شناسی کی مختلف قسمیں ہیں ،جو تحقیقی روش یا زاویہ نگاہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔

۴۔ اس کتاب میں مورد توجہ انسان شناسی ، انسان شناسی کلاں یا جامع ہے جو روائی اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یا یوں کہا جائے کہ وحی اور تعبدی طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

۵۔ انسان شناسی ''کلاں نمائی'' مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مخصوص اہمیتکی حامل ہے :

الف)زندگی کو واضح کرتی ہے ۔ ب)اجتماعی نظام کو بیان کرتی ہے ۔

ج)علوم و تحقیقات کی طرفداری میں موثر ہے ۔ د)دین کے بنیادی اصول اور اس کے اجتماعی احکام کی توضیح سے مربوط ہے ۔

۶۔ دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریات میں عدم ہماہنگی کی وجہ سے جامع اور مفید دلیل و حاکم کے فقدان ، انسان کے ماضی و آئندہ سے چشم پوشی اور اس کے مہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجزاور شدید بحران سے روبرو ہے ۔

۷۔ دینی انسان شناسی ''ہمہ گیر ''ہونے کی وجہ سے جامعیت ، نا قابل خطا، مبدا و معاد پہ توجہ اور دوسرے انسان شناسی کے مقابلہ میں عمدہ کردار کی وجہ سے برتری رکھتی ہے۔

۳۵

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں اور اگر ان کے جوابات میں کوئی مشکل در پیش ہو تومطالب کا دوبارہ مطالعہ کریں ؟

۱۔ منددرجہ ذیل موارد میں سے کون انسان شناسی کل نمائی اور ہمہ گیر موضوعات کا جزء ہے اور کون انسان شناسی ،جزئی موضوعات کا جزء ہے ؟

''سعادت انسان ، خود فراموشی، حقوق بشر ، انسانی قابلیت ، انسانی ضرورتیں ، مغز کی بناوٹ ''

۲۔ ''خود شناسی ''سے مراد کیا ہے اور دینی انسان شناسی سے اس کا کیا رابطہ ہے ؟

۳۔ مندرجہ ذیل میں سے کون صحیح ہے ؟

(الف) تجربی علوم انسانی میں ایک مکتب، انسان محوری ہے ؟( ب) تجربی علوم انسانی اور دینی انسان شناسی، موضوع ، دائرہ عمل اورروش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ ( ج) حقوق بشر کا یقین اور اعتقاد ، انسانوں کی مشترکہ فطرت سے وابستہ ہے ۔ (د) موت کے بعد کی دنیا پر یقین کا انسان شناسی کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

۴۔ انسان کی صحیح اور جھوٹی ضرورتوں کی شناخت کا معیار کیا ہے ؟

۵۔ آپ کے تعلیمی موضوع کا وجود و اعتبار کس طرح انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل سے مربوط ہے ؟

۶۔ انسانوں کا جانوروں سے امتیاز اوراختلاف ، فہم اور انتقال مطالب کے دائرے میں زبان اور آواز کے حوالے سے کیا ہے ؟

۷۔ آیا انسان محوری ، انسان کی تعظیم و قدر دانی ہے یا انسان کی تذلیل اور اس کے حقیقی قدر و منزلت سے گرانا ہے ؟

۳۶

مزید مطالعہ کے لئے

۱.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ارتگا ای گاست ، خوسہ ؛ انسان و بحران ترجمہ احمد تدین ؛ تہران : انتشارات علمی و فرہنگی

۔عارف ، نصر محمد ( ۱۹۱۷ ) قضایا المنھجیة فی العلوم النسانیة.قاہرہ : المعھد العالمی للفکر السلامی

۔کیسیرر،ارنسٹ (۱۳۶۹) رسالہای در باب انسان در آمدی بر فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادرزادہ تہران : پژوہشگاہ علوم انسانی

۔گلدنر ، الوین (۱۳۶۸) بحران جامعہ شناسی غرب ، ترجمہ فریدہ ممتاز ، تہران : شرکت سہامی انتشار

۔ گنون ، رنہ ،بحران دنیای متجدد ، ترجمہ ضیاء الدین دہشیری تہران : امیر کبیر

۔والر اشتاین ، ایمانویل (۱۳۷۷)سیاست و فرہنگ در نظام متحول جہانی ، ترجمہ پیروز ایزدی تہران : نشرنی

۔ واعظی ، احمد ، ''بحران انسان شناسی معاصر''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹، ص ۱۰۹.۹۴، قم دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵.

۲ معارف دینی اور تفکر بشری کے سلسلہ میں انسان شناسی کا اثر چنانچہ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ در آمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ص ۴۵.۵۵۔

۔ محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن (خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان

شناسی )قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۱۵۔ ۳۵۔

۔ پیش نیازھای مدیریت اسلامی ، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ،قم : ۱۳۷۹۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، تہران : سمت ، ص ۱۴۔۱۷۔

۳. انسان شناسی کی کتابوں کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹ ،ص۱۶۶۔ ۱۲۸ ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵

۳۷

۴۔بعض وہ کتابیں جس میں اسلامی نقطہ نظر سے انسان کے بارے میں بحث ہوئی ہے :

۔ ایزوٹسوٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸) خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۔ بہشتی ، احمد (۱۳۶۴ ) انسان در قرآن ، کانون نشر طریق القدس ۔

۔ جعفری ، محمد تقی ( ۱۳۴۹ ) انسان در افق قرآن ، اصفہان : کانون علمی و تربیتی جہان اسلام.

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲ ) انسان در اسلام ، تہران : رجاء ۔

۔حائری تہرانی ، مہدی ( ۱۳۷۳) شخصیت انسان از نظر قرآن و عترت .قم : بنیاد فرہنگی امام مہدی ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن ( ۱۳۶۹) انسان و قرآن ، تہران:الزہراء

۔حلبی ، علی اصغر ( ۱۳۷۱ ) انسان در اسلام و مکاتب غربی تہران : اساطیر

۔دولت آبادی ، علی رضا (۱۳۷۵)سایہ خدایان نظریہ بحران روان شناسی در مسئلہ

انسان ،فردوس : ( ۱۳۷۵)

۔قرائتی ، محسن ( بی تا ) جہان و انسان از دیدگاہ قرآن ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔قطب ، محمد ( ۱۳۴۱) انسان بین مادیگری و اسلام ، تہران : سہامی انتشار ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )

قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( بی تا ) انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۔ نصری ، عبد اللہ ( ۱۳۶۸) مبانی انسان شناسی در قرآن ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۳۸

دوسری فصل :

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

ا۔ انسان کے بارے میں مختلف نظریوں کو مختصراً بیان کریں ؟

۲۔ہیومنزم کے معانی و مراد کی وضاحت کریں ؟

۳۔ ہیومنزم کے چار اہداف و مراتب کی مختصراً وضاحت پیش کریں ؟

۴۔ہیومنزم کے نظریہ کی تنقیدو تحلیل کریں ؟

۳۹

جیسا کہ اشارہ ہوچکاہے کہ انسان ، بشری تفکر کا ایک محور ہے جس کے بارے میں وجود اور اہمیت شناسی کے مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، بعض مفکرین نے انسان کو دوسرے موجودات سے بالاتر اور بعض نے اسے حیوانات کے برابر اور کچھ نے اس کو حیوان سے کمتر و ناتواں اور ضعیف بیان کیا ہے ، معرفت کی اہمیت کے اعتبار سے بھی بعض نے اس کو اشرف المخلوقات ، بعض نے معتدل (نہ بہتر اور نہ خراب ) اور بعض نے انسان کو برا ، ذلیل اورپست کہا ہے، آئندہ مباحث میں ہم بعض مذکورہ بالا نظریوں کو اجمالاً بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی نظریات کو بھی پیش کریں گے ۔

ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔

دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307