انسان شناسی

انسان شناسی18%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145880 / ڈاؤنلوڈ: 4857
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

یہ دونوں نظریات ، پوری تاریخ بشر میں نسبی یا مطلق طور پر انسانوں پر حاکم رہے ہیں، لیکن اس حاکمیت کی تاریخی سیر کے متعلق تجزیہ و تحلیل ہمارے ہدف کے پیش نظر ضروری نہیں ہے اور اس کتاب کے دائرہ بحث سے خارج ہے ۔لہٰذا پہلے نظریہ کی حاکمیت کے سلسلہ کی آخری کڑی کی تحقیق کریں گے جو تقریباً ۱۴سو سال سے ہیومنزم(۱) یا انسان مداری کے عنوان سے مرسوم ہے ،اور ۶سو سالوں سے خصوصاً آخری صدیوں میں اکثر سیاسی ، فکری اور ادبی مکاتب اس بات سے متفق ہیں کہ ہیومنزم نے مغرب کو اپنے اس نظریہ سے کاملاً متاثر کیا ہے اور بعض مذاہب الٰہی کے پیروکاروں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر جذب کرلیا ہے۔

ہیومنزم کا مفہوم و معنی

اگرچہ اس کلمہ کے تجزیہ و تحلیل اور اس کے معانی میں محققین نے بہت ساری بحثوں اور مختلف نظریوں کو بیان کیا ہے اور اپنے دعوے میں دلیلیں اور مثالیں بھی پیش کی ہیں ،لیکن اس کلمہ کی لغوی تحلیل و تفسیر اور اس کا ابتدائی استعمال ہمارے مقصد کے سلسلہ میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ لہٰذا اس لغوی تجزیہ و ترکیب کے حل و فصل کے بغیر اس مسئلہ کی حقیقت اور اس کے پہلوؤں کی تحقیق کی جائے گی، اس لئے ہم لغت اوراس کے تاریخی مباحث کے ذکرسے صرف نظر کرتے ہیں ، اور اس تحریک کے مفہوم و مطالب کی تاریخی و تحلیلی پہلو سے بحث کرتے ہیں جو آئندہ مباحث کے محور کو ترتیب دیتے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) Humanism

(۲)کلمہ ہیومنزم کے سلسلہ میں لغت بینی اور تاریخی معلومات کے لئے ۔ملاحظہ ہو

. احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ، ص ۸۳،۹۱۔ .لالانڈ آنڈرہ، فرہنگ علمی و انتقادی فلسفہ کلمۂ Humanism کے ذیل میں

. Lewis W, spitz Encyclopedia of Religion

Abbagnano, Nicola Encyclopedia of Philosophy

۴۱

''ہیومنزم '' ہر اس فلسفہ کو کہتے ہیں جو انسان کے لئے مخصوص اہمیت و منزلت کاقائل ہو اور اس کو ہر چیزکے لئے میزان قرار دیتا ہو، تاریخی لحاظ سے انسان محوری یاہیومنزم ایک ادبی ، سماجی ، فکری اور تعلیمی تحریک تھی، جو چند مراحل کے بعد سیاسی ، اجتماعی رنگ میں ڈھل گئی تھی ، اسی بنا پراس تحریک نے تقریباً سبھی فلسفی ، اخلاقی ، ہنری اور ادبی اور سیاسی مکاتب کو اپنے ماتحت کرلیا تھا یا یوں کہا جائے کہ یہ تمام مکاتب (دانستہ یا نادانستہ ) اس میں داخل ہو گئے تھے ، کمیونیزم(۱) سودپرستی(۲) مغربی روح پرستی(۳) شخص پرستی(۴) وجود پرستی(۵) آزاد پرستی(۶) حتی پیرایش گری(۷) لوتھرمارٹن(۸) (مسیحیت کی اصلاح کرنے والے ) کے اعتبار سے سبھی انسان محوری میں شریک ہیں اوران میں ہیومنزم کی روح پائی جاتی ہے۔(۹) یہ تحریک عام طور پر روم اور یونان قدیم سے وابسطہ تھی ۰ ) اور اکثر یہ تحریک غیر دینی اور اونچے طبقات نیز روشن فکر حلقہ کی حامی و طرفدار رہی ہے ،(۱۱) جو ۱۳ویں صدی کے اواخر میں جنوب اٹلی میں ظاہر ہوئی، اور پورے اٹلی میں پھیل گئی،اس کے بعد جرمن ، فرانس ، اسپین اور انگلیڈ میں پھیلتی چلی گئی اور مغرب میں اس کوایک نئے سماج کے روپ میں شمار کیا جانے لگا ۔عقیدہ ٔ انسان مداری، اس معنی میں بنیادی ترین ترقی(۱۲) کا پیش خیمہ ہے اور ترقی پسندمفکرین، انسان کو مرکز ومحور بنا کر عالم فطرت اور تاریخ کے زاویہ سے

____________________

(۱) communism

(۲) pragmatism

(۳) spiritualism

(۴) Personalism

(۵) existentialism

(۶) Liberalism

(۷) protestantism

(۸) Luther,Martin

(۹)لالاند ، آندرہ ،گذشتہ حوالہ۔ (۱۰)پٹراک ( Francesco Petratch ) اٹلی کا مفکر و شاعر ( ۱۳۰۴۔ ۱۳۷۴) سوال کرتا تھا '' تاریخ روم کی تحلیل و تفسیرکے علاوہ تاریخ کیا ہوسکتی ہے ؟ملاحظہ ہو: احمدی ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۹۲و ۹۳. بیوراکہارٹ ( Burackhardt Jacob )(۱۸۱۸۔۱۸۹۷)کہتا تھا :'' آتن''ہی وہ تنہادنیا کی سند تاریخ ہے جس میں کوئی صفحہ رنج آور نہیں ہے ،ہگل کہتا تھا : یورپ کے مدہوش لوگوں میں یونان کا نام ، وطن دوستی تھا۔ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ترجمہ عباس فجر ؛ ص ۱۷،۲۱،۲۳۔(۱۱)مفکرین کی حکومت سے مراد لائق لوگوں کا حاکم ہونا نہیں ہے بلکہ معاشرہ کے اونچے طبقات کی حکومت ہے ۔(۱۲) Renaissance

۴۲

انسان کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان محوری کا رابطہ روم اور قدیم یونان سے تھا اور انسان کو محور قرار دے کر گفتگو کرنے والوں کا خیال یہ تھاکہ انسان کی قابلیت ، لیاقت روم او ر قدیمیونان کے زمانہ میں قابل توجہ تھی ، چونکہ قرون وسطی میں چشم پوشی کی گئی تھی ، لہٰذا نئے ماحول میں اس کے احیاء کی کوشش کی جانی چاہیئے ،ان لوگوں کا یہ تصور تھا کہ احیاء تعلیم و تعلم کے اہتمام اور مندرجہ ذیل علوم جیسے ریاضی ، منطق ، شعر ، تاریخ ، اخلاق ، سیاست خصوصاً قدیمیونان اور روم کی بلاغت و فصاحت والے علوم کے رواج سے انسان کو کامیاب و کامران بنایا جاسکتا ہے جس سے وہ اپنی آزادی کا احساس کرے ، اسی بنا پر وہ حضرات جو مذکورہ علوم کی تعلیم دیتے تھے یا اس کے ترویج و تعلیم کے مقدمات فراہم کرتے تھے انہیں''ہیومنیسٹ '' کہا جاتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو:ڈیوس ٹونی : ہیومنزم: ص ۱۷۱؛ Abbagnano Nicola lbid

۴۳

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب و علل کے بارے میں بحث و تحقیق مزید وضاحت کی طالب ہے لیکن یہاں فقط دو اہم علتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ۔

ایک طرف تو بعض دینی خصوصیات اور کلیسا ئی نظام کی حاکمیت مثلاً مسیحیتکے احکام اور بنیادی عقائد کا کمزور ہونا ،فہم دین او راس کی آگاہی پر ایمان کے مقدم ہونے کی ضرورت ، مسیحیت کی بعض غلط تعلیمات جیسے انسان کو فطرتاً گنہگار سمجھنا ،بہشت کی خرید و فروش ، مسیحیت کاعلم و عقل کے خلاف ہونا ، علمی و عقلی معلومات پر کلیسا کی غیر قابل قبول تعلیمات کو تحمیل کرنا وغیرہ نے اس زمانے کے رائج و نافذ دینی نظام یعنی مسیحیتکی حاکمیت سے رو گردانی کے اسباب فراہم کئینیز روم او رقدیم یونان کو آئیڈیل قرار دیا کہ جس نے انسان اور اس کی عقل کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔

۴۴

اور دوسری طرف بہت سے ہیومنیسٹ حضرات نے جو صاحب قدرت مراکز سے مرتبط تھے اور دین کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں سر سخت مانع سمجھ رہے تھے گذشتہ گروہوں کی حکومت کے لئے راہ حل مہیا کرنے میں سیاسی تبدیلی اور تجدد پسندی کی(۱) عقلی تفسیراور اس کے منفی مشکلات کی توجیہ کرنے لگے،'' ڈیوس ٹونی''(۲) کے بقول وہ لوگ ؛سات چیزوں کے ماڈرن پہلوؤں کی توجیہ ، دین اور اس کی عظمت و اہمت پر حملہ اور کلیسائی نظام کو اپنا طریقۂ کار قراردینا(۳) اور عوام کی ذہنیت کو دین اور دینی علماء سے خراب کرنا نیزدین کی سیاست اور اجتماع سے جدائی کی ضرورت پر کمربستہ ہوگئے ۔ مذکورہ دوسبب سے اپنی حفاظت کی تلاش میں کلیسا،اجتماع اور سیاست کے میدان سے دین کے پیچھے ہٹ جانے کا ذریعہ بنا ،اس تحریک میں دین اور خدا کے سلسلہ میں نئی نئی تفسیریں جیسے خدا کوماننالیکن دین اور تعلیمات مسیحیت کا انکار کرنا، دین میں شکوک وبدعتیں(۴) نیز کسی بھی دین اور اس کی عظمت و اہمیت میں تسامح و تساہل(۵) ، دینی قداست اور اقدار کے حوالے سے(۶) مختلف طریقۂ عمل اور نئے انداز میں تعلیمات دینی کی توضیح و تفسیر شروع ہوگئی ۔

ہیومنزم کے اجزا ئے ترکیبی اور نتائج(۷)

ہیومنزم کی روح اورحقیقت ،جو ہیومنزم کے مختلف گروہوں کے درمیان عنصر مشترک کو تشکیل دیتی ہے اورہر چیز کے محور و مرکز کے لئے انسان کو معیار قرار دیتی ہے(۸) اگر اس گفتگو کی منطقی ترکیبات

____________________

(۱) Modernity

(۲) Davis,Toni

(۳)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ص ۱۷۱

(۴) Religious Ploralism

(۵) Tolerance

(۶) Protestantism

(۷)ماڈرن انسان کے متنوع ہونے اور ہر گروہ کے مخصوص نظریات کی بناپر ان میں سے بعض مذکورہ امور ہیومنزم کے ائتلاف میں سے ہے اوربعض دوسرے امور اس کے عملی نتائج و ضروریات میں سے ہیں ۔ قابل ذکر یہ ہے کہ نتائج سے ہماری مراد عملی و عینی نتائج و ضروریات سے اعم ہے ۔

(۸)لالانڈ ، آنڈرہ ،گذشتہ مطلب ، ڈیوس ٹونی ،گذشتہ مطلب ،ص۲۸۔

۴۵

اور ضروریات کو مدنظر رکھا جائے توجو معلومات ہمیں انسان محوری سے ملی ہے ہمارے مطلب سے بہت ہی قریب ہے ،یہاںہم ان میں سے فقط چار کی تحقیق و بررسی کریں گے ۔

عقل پرستی(۱) اور تجربہ گرائی(۲)

ہیومنزم کی بنیادی ترکیبوں میں سے ایک عقل پرستی ، خود کفائی پر اعتقاد، انسانی فکر کااپنی شناخت میں آزاد ہونا ، وجود ، حقیقی سعادت اور اس کی راہ دریافت ہے ۔(۳) معرفت کی شناخت میں ہیومنیسٹ افراد کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسی کوئی چیزنہیں ہے جو فکری توانائی سے کشف کے قابل نہ ہواسی وجہ سے ہر وہ موجود کہ جس کی شناخت کے دو پہلو تھے ، ماوراء طبیعت جیسے خدا ، معاد ، وحی اور اعجاز وغیرہ (جس طرح دینی تعلیمات میں ہے ) اس کو وہ لوگ غیرقابل اثبات سمجھتے تھے ۔ اور اہمیت شناخت میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ حقوقی ضرورتوں کو انسان کی عقل ہی کے ذریعہ معین کرنا چاہیئے۔ ہیومنزم ایک ایسی تحریک تھی جو ایک طریقہ سے اس سنتی آئین کے مد مقابل تھی جو دین و وحی سے ماخوذ تھے اسی بنا پر پہ ہیومنزم ، دین کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتاہے ۔(۴) انسانی شان و منزلت کے نئے نئے انکشافات سے انسان نے اپنی ذات کو خدا پرست کے بجائے عقل پرست موجود کا عنوان دیا، علم پرستی یا علمی دیوانگی(۵) ایسی ہی فکر کا ماحصل ہے ۔ ہیومنیسٹ حضرات اٹھارہویں صدی میں ہیوم(۶) (۱۷۱۱۔ ۱۷۷۶) کی طرح معتقد تھے کہ کوئی ایسا اہم سوال کہ جس کا حل علوم انسانی میں نہ ہو(۷) وجود نہیںرکھتا ہے ۔ اومنیسٹ حضرات کی قرون وسطی سے دشمنی اور یونان قدیم سے گہرا رابطہ بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہ لوگ یونان قدیم کو تقویتِ عقل اور قرون وسطی کو جہل و خرافات کی حاکمیت کا دور سمجھتے تھے ۔

____________________

(۱) Scientism

(۳) Empiricism

(۲) Rationalism

(۴) Abbagnano

(۵) lbid

Hume, David (۶ )

(۷)ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ص ۱۶۶۔

۴۶

یہ عقل اور تجربہ پرستی کی عظیم وسعت ، دین و اخلاق کے اہم اطراف میں بھی شامل ہے ۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ سبھی چیز منجملہ قواعد اخلاقی، بشر کی ایجاد ہے اور ہونا بھی چاہئے۔(۱) والٹرلپمن(۲) کتاب ''اخلاقیات پر ایک مقدمہ ''(۳) میں لکھتا ہے کہ ہم تجربہ میں اخلاقی معیار کے محتاج ہیں اس انداز میں زندگی بسر کرنا چاہیئے جو انسان کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ ایسانہ ہو کہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے منطبق کریں بلکہ شرائط سعادت کے اعتبار سے انسان کے ارادہ کواچھی شناخت سے منطبق ہو نا چاہیئے۔(۴)

استقلال

ہیومنیسٹ حضرات معتقد ہیں کہ : انسان دنیا میں آزاد آیا ہے لہٰذا فقط ان چیزوںکے علاوہ جس کووہ خود اپنے لئے انتخاب کرے ہر قید و بند سے آزاد ہونا چاہئے ۔ لیکن قرون وسطی کی بنیادی فطرت نے انسان کو اسیر نیزدینی اور اخلاقی احکام کو اپنے مافوق سے دریافت شدہ عظیم چیزوں کے مجموعہ کے عنوان سے اس پر حاکم کردیا ہے،(۵) ہیومنزم ان چیزوں کو ''خدا کے احکامات اور بندوں کی پابندی '' کے عنوان سے غیر صحیح اور غیر قابل قبول سمجھتے ہیں ۔(۶) چونکہ اس وقت کا طریقہ کار اور نظام ہی یہ تھا کہ قبول کیا جائے اور ان کی تغییر اور تبدیلی کا امکان بھی نہ تھا ۔(۷) لہٰذا یہ چیز یں ان کی نظر میں انسان کی آزادی اور استقلال

____________________

(۱)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۲) Walter lippmann

(۳) A Preface to morals

(۴)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ ۔

(۵) Abbagnano, Nicola, lbid

(۶)آربلاسٹر لکھتا ہے : ہیومنزم کے اعتبار سے انسان کی خواہش اور اس کے ارادے کی اصل اہمیت ہے ، بلکہ اس کے ارادے ہی ، اعتبارات کا سر چشمہ ہیںاور دینی اعتبارات جو عالم بالا میں معین ہوتے ہیں وہ انسان کے ارادے کی حد تک پہونچ کر ساقط ہو جاتے ہیں ،(آربلاسٹر، آنتھونی ؛ ظہور و سقوط لبرلیزم ؛ ص ۱۴۰)

(۷)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

۴۷

کے منافی تھیں ۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ انسان کو اپنی آزادی کوطبیعت و سماج میں تجربہ کرنا چاہیئے اور خود اپنی سرنوشت پر حاکم ہونا چاہیئے ،یہ انسان ہے جو اپنے حقوق کو معین کرتا ہے نہ یہ کہ مافوق سے اس کے لئے احکام و تکالیف معین ہوں۔ اس نظریہ کے اعتبار سے انسان حق رکھتا ہے اس لئیاس پرکوئی تکلیف عائد نہیں ہوتی ۔ بعض ہیومنزم مثلاً'' میکس ہرمان ''(۱) جس نے شخص پرستی کو رواج دیا تھا اس نے افراط سے کام لیا وہ معتقد تھا کہ : لوگوں کو اجتماعی قوانین کا جو ایک طرح سے علمی قوانین کی طرح ہیںپابند نہیں بنانا چاہیئے،(۲) وہ لوگ معتقد تھے کہ فقط کلاسیکل ( ترقی پسند) ادبیات نے انسان کی شخصیت کو پوری طرح سے فکری اور اخلاقی آزادی میں پیش کیا ہے۔(۳) اس لئے کہ وہ ہر شخص کو اجازت دیتا ہے کہ جیسا بھی عقیدہ ونظریہ رکھنا چاہتا ہے رکھ سکتا ہے اوردستورات اخلاقی و حقوقی کوایک نسبی امر، قابل تغییر اور ناپایدار بتایا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ سیاسی ، اخلاقی اور حقوقی نظام کو انسان اور اس کی آزادی کے مطابق ہونا چاہئے ۔ وہ نہ صرف دینی احکام کو لازم الاجراء نہیں جانتے تھے بلکہ ہر طرح کا تسلط اور غیر ہیومنزم چیزیں منجملہ قرون وسطی کے بنیادی مراکز (کلیسا ، شہنشاہیت(۴) ، اور قبیلہ والی حکومتیں یا حکام و رعیت ) کو بالکل اسی نقطۂ نگاہ کی بناپر بے اہمیت وبے اعتبار جانتے تھے ۔(۵)

____________________

(۱) Herman,Max

(۲)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۳۴۔

(۳)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۴) imperial

(۵) Feudaism

۴۸

تساہل و تسامح

۱۶و ۱۷ ویں صدی کی دینی جنگوں کے نتیجہ میں صلح و آشتی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے امکان پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو او رتساہل و تسامح(سستی و چشم پوشی ) کی تاکید ہوئی ہے، اور دینی تعلیمات کی وہ روش جو ہیومنزم کا احترام کرتی تھیں تساہل و تسامح کی روش سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، اس نظریہ میں تسامح کا مطلب یہ تھا کہ مذاہب ایک دوسرے سے اپنے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے باہم صلح و آتشی سے زندگی گذار سکیں ، لیکن جدید انسان گرائی کے تساہل و تسامح سے اس فکر کا اندازہ ہوتاہے کہ انسان کے دینی اعتقادات اسی کی ذات کا سر چشمہ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ ان اعتقادات کے اندر ،بنیادی اور اساسی چیز وحدت ہے کہ جس میں عالمی صلح کا امکان موجود ہے، ہیومنیسٹ اس دنیا کے اعتبار سے خدا کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ : مسیح کا خدا وہی فلسفی بشر کی عقل ہے جو مذہب کی شکل میں موجود ہے۔(۱) اس زاویہ نگاہ سے مذاہب میں تساہل یعنی ، مسالمت آمیز زندگی گزارنے کے علاوہ فلسفہ اور دین کے درمیان میں بھی تساہل موجود ہے ، جب کہ یہ گذشتہ ایام میں ایک دوسرے کے مخالف تھے ۔ یہ چیز قدیم یونان اور اس کی عقل گرائی کی طرف رجوع کی وجہ نہیں تھی ۔ یہ نظریہ جو ہر دین اور اہم نظام کی حقانیت اور سعادت کے انحصاری دعوے پر مبنی ہے کسی بھی اہم نظام اور معرفت کو حق، تسلیم نہیں کرتا اور ایک طرح سے معرفت اور اہمیت میں مخصوص نسبت کا پیروکار ہے اسی بنا پر ہر دین اور اہم نظام کی حکمرانی فقط کسی فرد یا جامعہ کے ارادہ اور خواہش پر مبنی ہے ۔

سکولریزم(۲)

اگرچہ ہیومنزم کے درمیان خدا اور دین پر اعتقاد رکھنے والے افراد بھی ہیںاور انسان مداری (انسان کی اصالت کا قائل ہونا)کو مومن اور ملحد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہیومنزم کو بے دین اور دشمن دین نہ سمجھیں تو کم از کم خدا کی معرفت نہ رکھنے والے اور منکر دین ضرور ہیں، اور ہیومنزم کی تاریخ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ خدا کی اصالت کے بجائے انسان کو اصل قرار دینا ہی باعث بناکہ ہیومنزم افراد قدم بہ قدم سکولریزم اورالحادنیزبے دینی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ خدا اور دینی تعلیمات کی جدید تفسیر کہ جس کو ''لوٹر ''جیسے افراد نے بیان کیاہے کہ خدا کو ماننا نیزخدا او ردین آسمانی کی مداخلت سے انکار

____________________

(۱) ibid

(۲) Secularism

۴۹

منجملہ مسیحی تعلیم سے انکار ، طبیعی دین ( مادّی دین ) اور طبیعی خدا گرائی کی طرف مائل ہونا جسے ''ولٹر''(۲) (۱۷۷۸۔۱۶۹۴ )اور ''ہگل ''(۳) (۱۸۳۱۔۱۷۷۰ )نے بھی بیان کیا ہے،اور '' ہیکسلی ''(۴) جیسے افراد کی طرف سے دین اور خدا کی جانب شکاکیت کی نسبت دینااور'' فیور بیچ ''(۵) (۱۸۳۳۔۱۷۷۵) ''مارکس ''(۶) ( ۱۸۸۳۔۱۸۱۸)نیز ملحد اور مادہ پرستوں نے دین اور خدا کا بالکل انکار کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ ایسے مراحل ہیں جنہیں ہیومنزم طے کرچکا ہے ۔البتہ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ہگل جیسے افراد کے نزدیک اس خدا کا تصورجو ادیان ابراہیمی میں ہے بالکل الگ ہے ۔دین اور خدا کی وہ نئی تفسیرجو جدید تناظر میں بیان ہوئی ہیں وہ ان ادیان کی روح سے سازگار نہیں ہے اور ایک طرح سے اندرونی طورپردینی افکارو اہمیت کی منکر اورانہیںکھوکھلا کرنے والی ہیں۔ بہر حال ہیومنزم کی وہ قسم جو مومن ہے اس کے اعتبار سے بھی خدا اور دین نقطہ اساسی اور اصلی شمار نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانوں کی خدمت کے لئے آلہ کے طور پر ہیں،یہ انسان ہے جو اصل اور مرکزیت رکھتا ہے ،ڈیوس ٹونی لکھتا ہے : یہ کلمہ (ہیومنزم ) انگلیڈ میں یکتا پرستی(۷) حتی خدا شناسی سے ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اور یہ قطعا مسیحیوں اور اشراقیوں کی موقعیت سے سازگار نہیں تھا، عام طورپر یہ کلمہ الہی تعلیمات سے ایک طرح کی آزادی کا متضمن تھا ۔ ت.ھ. ہیکسلی(۸) ڈاروینزم کا برجستہ مفکر اور چارلز بریڈلیف(۹) قومی سکولریزم کی انجمن کے مؤسس نے روح یعنی اصل ہیومنزم کی مدد کی اور اس کو فروغ بخشا تاکہ اس کے ذریعہ

____________________

(۱) Deism

(۲) Voltaire

(۳) Hegel,Friedrich

(۴) Huxley,Julian

(۵) Feuerbach, von Anseim

(۶) Mark, karl .(۷)یکتا پرستی یا توحید ( Unitarianism )سے مراد مسیحیت کی اصلاح کرنے والے فرقہ کی طرف سے بیان کئے گئے توحید کا عقیدہ ہے جو کاٹولیک کلیسا کی طرف سے عقیدہ ٔ تثلیث کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اوریہ ایک اعتبار سے مسیحیت کی نئی تفسیر تھی جوظاہراً مقدس متون کی عبارتوں سے ناسازگار اور مسیحی مفکرین کی نظر میں دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھی ۔ اورعام طور پر یہ کلمہ الٰہی تعلیمات سے آزادی کا متضمن تھا ۔

(۸) Thomas,Henry,Hexley

(۹)وہ پارلیمنٹ کا ممبر اور National Reformer نشریہ کا مدیر اعلیٰ تھا جس نے قسم کھانے کی جگہ انجیل کی تائید کے سلسلہ میں مجلس عوام سے ۶۰ سال تک مقدمہ لڑا۔

۵۰

سرسخت مسیحیت کے آخری توہمات کو بھی ختم کردے ۔(۱) نیز وہ اس طرح کہتا ہے کہ : ''ا گسٹ کانٹ''(۲) کے مادی اور غیر مادی افکار کے اقسام سے عناد، عوام پسند ہیومنزم کے مفہوم کا یکتا پرستی یا الحاد اور سکولریزم میں تبدیلی کا باعث ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اور اس کی تحریک کو ۱۹ویں صدی میں تاسیس انجمنوں کے درمیان مشاہدہ کیا جاسکتا ہے(۳) مثال کے طور پر عقل گرا(اصالت عقل کے قائل )مطبوعاتی ، اخلاقی اور قومی سکولریزم کی انجمنیں۔''ڈیوس ٹونی''اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں مسیحی ہیومنزم مومنین کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مسیحیت اور ہیومنزم کا پیوند اختلافات سے چشم پوشی کرکے انجام پایا جس کی وجہ سے مسیحی ہیومنزم کی ناپایدار ترکیب میں فردی ہیومنزم کے نقش قدم موجود تھے ۔ یعنی خداوند متعال جوہر چیز پر قادر ہے اور کالون کی ہر چیز سے باخبرہے اور فردی ارادہ کی آزادی کے درمیان تناقض،ایسے تناقض ہیں جو ''فیلیپ سیڈنی(۴) ، اڈموند اسپنسر(۵) کریسٹو فرمارلو(۶) ، جان ڈان(۷) اور جان ملٹن''(۸) جیسے اصلاح گرہیومنیسٹ کی عبارتوں میں جگہ جگہ ملتاہے ۔(۹) محمد نقیب العطاس بھی لکھتا ہے : ''نظشے '' کا نعرہ ''کہ خدا مرگیا ہے '' جس کی گونج آج بھی مغربی دنیا میں سنی جاسکتی ہے اور آج مسیحیت کی موت کا نوحہ خصوصاً پروٹسٹوں یعنی اصلاح پسندوں کی طرف سے کہ جنہوں نے ظاہراً اس سر نوشت کو قبول کرتے ہوئے مزید آمادگی سے زمانے کے ساتھ ساتھ طریقۂ مسیحیت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ اس کاعقیدہ ہے کہ اصلاح پسندوںنے ہیومنزم کے مقابلہ میں عقب نشینی کے ذریعہ مسیحیت کودرونی طور پر بدل دیا ہے۔ ۰ ) ''ارنسٹ کیسیرر ''دور حاضر میں اصلاحات (رسانس) پر جاری تفکر کی توصیف میں جو

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ؛ ص ۳۷۔(۲) August,conte

(۳)گذشتہ حوالہ ، ص ۴۱۔(۴) Philip,sidney

(۵) Edmund, spenser

(۶) Chirs topher Marlowe

(۸) John,Don

(۹) John,Milton

(۱۰)العطاس ، محمد نقیب ، اسلام و دینوی گری ، ترجمہ احمد آرام ؛ ص ۳ و ۴۔

۵۱

ہیومنزم سے لیا گیا ہے اور اس سے ممزوج و مخلوط ہے لکھتا ہے :ایسا لگتا ہے کہ تنہا وسیلہ جو انسان کو تعبداور پیش داوری سے آزاد اور اس کے لئے حقیقی سعادت کی راہ ہموار کرتا ہے وہ پوری طرح سے مذہبی اعتقاد اور اقدار سے دست بردار ہونا اور اس کو باطل قرار دینا ہے ، یعنی ہر وہ تاریخی صورت کہ جس سے وہ وابستہ ہے اور ہر وہ ستون کہ جس پر اس نے تکیہ کیا ہے اس کی حاکمیت کی تاریخ اور عملی کارکردگی کے حوالے سے اس کے درمیان بہت گہرا فاصلہ ہے کہ جس کو ہیومنزم کے نظریہ پر اساسی و بنیادی تنقید تصور کیا جاتا ہے اور دور حاضر میں اصلاحات کی عام روش ، دین میں شکوک اور تنقید کا آشکار انداز ہے ۔(۱)

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق

فکرو عمل میں تناقض

فکرو عمل میں تناقض یعنی ایک فکری تحریک کے عنوان سے ہیومنزم کے درمیان اورانسانی معاشرہ پر عملی ہیومنزم میں تناقض نے انسان کی قدر و منزلت کو بلند و بالا کرنے کے بجائے اس کو ایک نئے خطرے سے دوچارکردیا اور انسان پرستی کے مدعی حضرات نے اس کلمہ کو اپنے منافع کی تامین کے لئے غلط استعمال کیاہے۔ شروع ہی میں جب حق زندگی ، آزادی و خوشی اور آسودگی کے تحت ہیومنزم میں انسانی حقوق کے عنوان سے گفتگو ہوتی تھی تو ایک صدی بعد تک امریکہ میں کالوں کو غلام بنانا قانونی سمجھا جاتاتھا ۔(۲) اور معاشرہ میں انسانوں کی ایک کثیر تعداد ماڈرن انسان پرستی کے نام سے قربان ہوتی تھی۔(۳) ''نازیزم''(۴) ''فاشیزم''(۵) اسٹالینزم(۶) امپریالیزم(۷) کی تحریکیں،ہیومنزم کی ہم فکراور ہم خیال تھیں(۸) اسی بنا پر بعض مفکرین نے ضد بشریت ، انسان مخالف تحریک

____________________

(۱)کیسیرر ، ارنسٹ؛ فلسفہ روشنگری؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، ص ۲۱۰۔

(۲)احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۱۱۱۔ ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص ۳۶۔

(۳)گذشتہ حوالہ ،ص ۲۰(۸)ڈیوس ٹونی،وہی مدرک ،ص ۹،۵۴،۶۴،۸۴۔

(۴) Nazism

(۵) Fascism

(۶) Stalinism

(۷) Imperialism

۵۲

دھوکا دینے والی باتیں ، ذات پات کی برتری کی آواز جیسی تعبیروں کو نازیزم اور فاشیزم کی ایجاد جانا ہے اور ان کو انسان مخالف طبیعت کو پرورش دینے نیز مراکز قدرت کی توجیہ کرنے والا بتایا ہے ۔(۱) اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی جرم ایسا ہو جو انسانیت کے نام سے انجام نہ پایا ہو ۔(۲)

ہیومنزم کے ناگوار نتائج اور پیغامات ایسے تھے کہ بعض مفکرین نے اس کو انسان کے لئے ایک طرح کا زندان و گرفتاری سمجھا اور اس سے نجات پانے کے لئے لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے ۔(۳)

فکری حمایت کا فقدان

ہیومنزم کے دعوے کا اور ان کے اصول کا بے دلیل ہونا، ہیومنزم کا دوسرا نقطہ ضعف ہے ۔ ہیومنیسٹ ا س سے پہلے کہ دلیلوں و براہین سے جس کا دعویٰ کر رہے تھے نتیجہ حاصل کرتے، کلیسا کی سربراہی کے مقابلہ میں ایک طرح کے احساسات و عواطف میں گرفتار ہوگئے ،چونکہ فطرت پرستی سے بے حد مانوس تھے لہٰذا روم و قدیم یونان کے فریفتہ و گرویدہ ہوگئے ۔ ''ٹامس جفرسن''(۴) نے امریکا کی آزادی کی تقریر میں کہاہے کہ :ہم اس حقیقت کو بدیہی مانتے ہیں کہ تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیں ۔(۵)

''ڈیوس ٹونی '' لکھتا ہے کہ : عقلی دور(ترقی پسند زمانہ) کا مذاق اڑانے والی اور نفوذ والی کتاب جس نے محترم معاشرہ کو حتی حقوق بشر کی کتاب سے زیادہ ناراض کیا ہے، وہ مقدس کتاب ہے جو عالم آخرت کے حوادث اور سرزنش سے بھری ہوئی ہے،اس کا طریقہ اور سیاق و سباق تمام مسخروں اور مذاق اڑانے والوں کا مسخرا کرناہے ۔ بعض اومانٹسٹ حضرات نے بھی ہیومنزم کی حاکمیت کی توجیہ کی اوراسے اپنے منافع کی تامین کا موقع و محل سمجھا ۔

____________________

(۱)ملاحظہ ہو گذشتہ حوالہ ص ۲۷۔۳۶، ۴۵۔۴۶،۵۴۔۶۲،۶۴،۸۴۔۹۴،۱۴۷۔۱۷۸ واحدی ، بابک گذشتہ حوالہ ص ۹۱۔۹۳، ۱۱۰،۱۲۲.

(۲)احمدی ، بابک ، گذشتہ حوالہ ص ۱۱۲۔

(۳)ڈیوس ٹونی ، گذشتہ حوالہ ،۱۷۸۔

(۴) Thomas, Jeferson

(۵) گذشتہ حوالہ ، ص ۱۱۰۔

۵۳

ہیومنیسٹ کی طرف سے بیان کئے گئے کلی مفاہیم کے بارے میں ''ڈیوس ٹونی ''یہ جانتے ہوئے کہ اس کو منافع کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے لکھتا ہے کہ : اس میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ خود سے سوال کرے کہ : اس عظیم دنیا میں بلند مفاہیم کے پشت پردہ کون سا شخصی اور محلی فائدہ پوشیدہ ہے؟(۱) مجموعی طور پر ہیومنیسٹ، انسان کی قدر و منزلت اور فکری اصلاح کے لئے کوئی پروگرام یا لائحہ عمل طے نہیں کرتے تھے بلکہ گذشتہ معاشرہ کی سرداری کے لئے بہت ہی آسان راہ حل پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ...''لیونارڈو برونی ''(۲) نے لکھا تھا کہ : تاریخی تحقیق ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ کیسے اپنے بادشاہوں اور حاکموں کے حکم اور عمل کا احترام کریں اور بادشاہوں ، حاکموں کو اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ کیسے اجتماعی مسائل کا لحاظ کریں تاکہ اپنی قدرت کو اچھی طرح سے حفظ کرسکیں،(۳) غرض کہ ہر وہ چیز جو قرون وسطی کی نفی کرے یہ لوگ اس کا استقبال کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے ۔ کلیسا کی حاکمیت ،خدا و دین کا نظریہ انسان کا فطرةً گناہگار اور بد بخت ہونا ، معنوی ریاضت نیز جسمانی لذتوں سے چشم پوشی اور صاحبان عقل و خرد سے بے اعتنائی یہ ایسے امور تھے جو قرون وسطی میں معاشرہ پر سایہ فکن تھے ۔ اورہیومنیسٹوں نے کلیسا کی قدرت و حاکمیت سے مقابلہ کرنے کے لئے ، خدا محوری اور اعتقادات دینی کو پیش کیااور انسان کی خوش بختی ،جسمانی لذتوںاور صاحبان خرد کو اہمیت دینے نیز حقوق اللہ اور اخلاقی شرط و شروط سے انسان کو آزاد کرنے کے لئے آستین ہمت بلند کی ۔(۴) وہ لوگ علی الاعلان کہتے تھے کہ : قرون وسطی کے زمانے میں کلیسا نے جو حقوق واقدار انسان سے سلب کر لئے تھے، ہم اس کو ضرور پلٹائیں گے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص،۳۶۔(۲) Abagnano,Nicola,ibid (۳) احمد، بابک ، گذشتہ حوالہ؛ ص، ۹۱ و ۹۳ (۴)ویل ڈورانٹ لکھتا ہے کہ ہیومنیسٹوں نے دھیرے دھیرے اٹلی کی عوام کو خوبصورتی سے شہوت کے معنی سمجھائے جس کی وجہ سے ایک سالم انسانی بدن کی کھلی ہوئی تہذیب (خواہ مرد ہو یا عورت خصوصاً برہنہ ) پڑھے لکھے طبقوں میں رائج ہوگی ۔ویل ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ۵ص ۹۷۔۹۸. جان ہرمان بھی لکھتا ہے کہ : قرن وسطی کے اواخر میں بھی بہت سی گندی نظموں کا سلسلہ رائج ہوگیا تھا جو زندگی کی خوشیوں سے بطور کامل استفادہ کی تشویق کرتی تھی ۔ رنڈل جان ہرمان ، سیر تکامل عقل نوین ، ص ۱۲۰۔

Leonardo Bruni(۵)

۵۴

بہرحال انسان محوری ( اصالت انسان ) کے عقیدے نے ہر چیز کے لئے انسان کو میزان و مرکز بنایا اورہر طرح کی بدی اور مطلق حقائق کی نفی، نیز فطرت سے بالاتر موجودات کا انکار منجملہ خدا اور موت کے بعد کی دنیا (آخرت)کے شدت سے منکر تھے۔آخر وہ کس دلیل کی بنا پر اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتے ہیں ؟ان کے پاس نہ ہی معرفتِ وجوداور نہ ہی انسانوں کی کاملا آزادی واختیار(۱) پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی خدا کے انکار اور اس کے قوانین اور وحی سے بے نیازی پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی شناخت کی اہمیت کے سلسلہ میں کوئی پروف ہے ۔ اور نہ ہی بشر کے افکار و خیالات ، آرزوؤں ، خواہشوں نیزحقوقی و اخلاقی اہمیتوںپر کوئی ٹھوس ثبوت ہے اور نہ ہی فلسفی اور عقلی مسائل کو بعض انسان پرست فلاسفہ کی نفسیاتی تحلیلوں سے ثابت کیا جا سکتاہے ۔ بلکہ عقلی اور نقلی دلیلیں نیز شواہد و تجربات اس کے خلاف دلالت کرتے ہیں، اگرچہ انسان اسلامی تعلیمات اورادیان ابراہیمی کی نگاہ میں مخصوص منزلت کا حامل ہے اور عالم خلقت اور کم از کم اس مادی دنیا کو انسان کامل کے توسط سے انسانوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اوروہ اس کی تابع ہے ۔ لیکن جیسا کہ متعدد دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کا سارا وجود خدا سے وابستہ اور اس کے تکوینی اور تشریعی تدبیر کے ماتحت ہے اور اسی کا محتاج ہے اور اس کی مدد کے بغیر تکوینی اور تشریعی حیثیت سے انسان کی سعادت غیر ممکن ہے ۔

____________________

(۱)انسان محوری کا نظریہ رکھنے والوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان بہت زیادہ اختیارات کا حامل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان جس طریقہ سے چاہے زندگی گذار سکتا ہے ۔ ژان پل ، سارٹر کہتا ہے کہ : اگر ایک مفلوج انسان دوڑمیں ممتاز نہ ہوسکتا ہو تو یہ خود اس کی غلطی ہے ، اسی طرح وہ لوگ اعمال کے انجام دینے(عامل خارجی کو بغیر مد نظر رکھتے ہوئے خواہ حقوقی ، سنتی ، اجتماعی ، سیاسی ، غیر فطری افعال) میں انسان کی ترقی سمجھتے ہیں ۔

۵۵

فطرت اور مادہ پرستی

قریب بہ اتفاق اکثرہیومنزم کے ماننے والوں نے فطرت پسندی کو انسان سے مخصوص کیا ہے

او ر اس کو ایک فطری موجود اور حیوانات کے ہم پلہ بتایا ہے۔ حیوانوں ( چاہے انسان ہو یا انسان کے علاوہ ) کے درجات کو فقط فرضی مانتے ہیں ۔(۱) انسان کے سلسلہ میں اس طرح کے فکری نتائج اور ایک طرف فائدہ کا تصور، مادی لذتوں کا حقیقی ہونا اور دنیائے مغرب کی تباہی اور دوسری طرف سے ہر طرح کی اخلاقی قدرو منزلت ، معنوی حقوق ، معنوی کمالات اور ابدی سعادت کی نفی کی ہے ۔

ہم آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے کہ نہ تو انسان حیوانوں کے برابر ہے اور نہ ہی مادی اور فطری اعتبار سے منحصر ہے اور نہ ہی اس کی دنیا صرف اسی مادی دنیا سے مخصوص ہے ،انسان ایک جہت سے غیر مادی پہلو رکھتا ہے اور دوسری جہت سے انسان موت سے نابودنہیں ہوتااور اس کی زندگی مادی زندگی میں محدود نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا آخری کمال خدا سے قریب ہونااور خدا جیسا ہونا ہے جس کی کا مل تجلی گاہ عالم آخرت ہے جیسا کہ وجود شناسی کے مباحث میں ثابت ہو چکا ہے،خدا صرف ایک فرضی موجود اور انسان کی آرزو، خیالات اور فکری محصول نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حقیقی و واقعی وجود ہے نیز وہ تمام وجود کا مرکز اور قدر و منزلت کی خواہشوں کی آماجگاہ ہے سارے عالم کا وجود اس سے صادر ہوا ہے اور اسی سے وابستہ ہے اور اس کی تکوینی و تشریعی حکمت و تدبیر کے ما تحت ہے ۔

ہیومنزم اور دینی تفکر

عقل و خرد ، خدائی عطیہ ہے اور روایات کی روشنی میں باطنی حجت ہے جو خداکی ظاہری حجت یعنی انبیاء کے ہمراہ ہے، لہٰذا ہیومنزم کی مخالفت کو، عقل و صاحبان خرد کی مخالفت نہیں سمجھنا چاہیئے،وہ چیزیں جو ہیومنزم کی تنقید کے سلسلہ میں بیان ہوتی ہیں وہ عقل کو اہمیت دینے میں افراط، خدا اور عقل کوبرابر سمجھنا یا عقل کو خدا پر برتری دینا اور عقل پرستی کو خدا پرستی کی جگہ قرار دینا ہے ۔ دین کی نگاہ میں عقل انسان کو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کی معرفت و عبادت کی راہ ہموار

____________________

(۱)فولادوند، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' نگاہ حوزہ ؛ شمارہ ۵۳و ۵۴،ص ۱۰۴۔۱۱۱.

۵۶

کرتی ہے ،امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''العَقلُ مَا عُبدَ بِه الرَّحمٰن و اکتسِبَ بِه الجنَان ''(۱) عقل وہ ہے جس کے ذریعہ خدا کی عبادت ہوتی ہے اور بہشت حاصل کی جاتی ہے اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ فرمایا :''رَبّنَا یعرفُ بالعقلِ و یُتوسل لَیه بالعَقلِ ''(۲) ہمارا خدا عقل کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور عقل ہی کے ذریعہ اس سے رابطہ برقرار ہوتا ہے۔

عقل کا صحیح استعمال ،انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ یوں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ کی ربوبیت کے زیر سایہ ہے ۔نیز اخلاقی اقدار اور حقوقی اہمیت کے اصول ،عقل اور الٰہی فطرت کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن عقل کی رہنمائی اورتوانائی کی یہ مقدار جیسا کہ وہ لوگ خود بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ نہ ہی ہیومنزم کی فرد پرستی کا مستلزم ہے اور نہ ہی انسان کی حقیقی سعادت کے حصول کے لئے کافی ہے، وہ چیزیںجو عقل ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہے وہ کلی اصول اور انسان کی ضرورتوں کی مبہم تأمین اور افراد کے حقوق اور عدالت کی رعایت نیز انسان کی بلند و بالا قدر و منزلت ، آزادی اور آمادگی اور اس کی قابلیت کی سیرابی ہے ۔ لیکن حقیقی سعادت کے لئے بیان کئے گئے میزان و حدود اور اس کے مصادیق و موارد کا پہچاننا ضروری ہے ۔ وہ چیزیں جو عقل بشر کی دسترس سے دور ہیں وہ ہیومنزم نظریے خصوصاً ہیومنزم تجربی ( اومانیز کی ایک قسم ہے ) کے حامی اس سلسلہ میں یقینی معرفت کے عدم حصول کی وجہ سے مختلف ادیان و مکاتب کے ہر فرضی نظریہ کو پیش کرتے ہیں اور معرفت وسماجی پلورالیزم کے نظریہ کو قبول کرتے ہیں ۔(۳) تاریخی اعتبار سے اس طرح کے فلسفہ اور نظریات ،نوع بشر کو آزادی اور سعادت کی دعوت دینے کے بجائے خوفناک حوادث و مصائب کی سوغات پیش کرتے ہیں ۔(۴) اور ان نتائج کو فقط ایک امر اتفاقی اور اچانک وجود میں آنے والا حادثہ نہیں سمجھنا چاہیئے،

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ج۱، ص ۱۱۶و ۱۷۰۔

(۲)گذشتہ مدرک ص ۹۳

(۴)ملاحظہ ہو؛ معمای مدرنیتہ ؛ فصل ہفتم۔

(۳)مومٹنگ کہتا ہے کہ : ''ہم کو تجربہ کے ذریعہ حقیقت تک پہونچنا چاہیئے ، لیکن دنیا حتی انسان کے بارے میں یقین حاصل کرنا مشکل ہے اور یہ تمام چیزیں منجملہ اخلاقی اصول خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ہمیں تمام آداب و رسوم کا احترام کرنا چاہیئے اور پلورالیزم معاشرہ کو قبول کرنا چاہیئے ''( فولادوند ، عزت اللہ ؛ گذشتہ مدرک )

۵۷

اگر انسان کو خود اسی کی ذات پر چھوڑ دیا جائے اس طرح سے کہ وہ کسی دوسری جگہ سے رہنمائی اور زندگی ساز ضروری پیغام دریافت نہ کرے توقوت عاطفہ ، غضبیہ اور شہویہ جو فطری طور سے فعال رہتی ہیں اور ہمیشہ تکامل کی طرف گامزن ہیں ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہش بھی اس پر حاکم ہوجائے گی اور اس کی عقل سلیم نہ فقط ان امور کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ ناپسندیدہ اعمال کی انجام دہی کے لئے عقلی بہانے تراشتی پھرے گی ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ :( إنّ الاِنسَان لیَطغیٰ أن رَاهُ استَغنَی ) (۱) یقینا انسان سر کشی کرتا ہے اس لئے کہ وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔

بے قید وشرط آزادی

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ ہیومنزم کے ماننے والے معتقد تھے کہ: انسانی اقدار،حمایت اور طرفداری کے لئے بس فلسفی قوانین ہیں، دینی عقاید و اصول اورانتزاعی دلیلیںانسانی اقدار اور اس کی اہمیت کو پیش کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔(۲) انسان کو چاہیئے کہ خود اپنی آزادی کو طبیعت (مادہ) اور معاشرہ میں تجربہ کرے ایک نئی دنیا بنانے اور اس میں خاطر خواہ تبدیلی اور بہتری لانے کی صلاحیت انسان کے اندر پوری پوری موجود ہے۔(۳) ایسی بکھری ہوئی اور بے نظم آزادی جیسا کہ عملاً ظاہر ہے بجائے اس کے کہ انسان کی ترقی کی راہیں اور اس کی حقیقی ضرورتوں کو تامین کریں انسان پر ستم اور اس کی حقیقی قدر و منزلت اور حقوق سے چشم پوشی کا ذریعہ ہو گئی اورمکتب فاشیزم و نازیزم کے وجود کا سبب بنی۔ ''ہارڈی ''کتاب ''بازگشت بہ وحی'' کا مصنف اس کے نتیجہ کو ایک ایسے سانحہ سے تعبیر کرتا ہے کہ جس کا ہدف غیرمتحقق ہے۔ اس سلسلہ میں لکھتا ہے کہ :بے وقفہ کمال کی جانب ترقی اور پھر اچانک اس راہ میں شکست کی طرف متوجہ ہونا ۱۹ ویں صدی میں یہی وہ موقعہ ہے جس کو''سانحہ'' سے

____________________

(۱)سورۂ علق ۶و ۷.

(۲) Encyclopedia Britanica. (۳)Abbagnona, Nicola,ibid

۵۸

تعبیر کیا گیا ہے جو ماڈرن ( ترقی پسند) ہونے کی حیثیت سے مشخص ہے ۔(۱)

حقیقی اور فطری تمایل کی وجہ سے وجود میں آئی ہوئی انسان کی خود پسندی میں تھوڑا سا غور و خوض ہمیں اس نتیجہ تک پہونچاتا ہے کہ اگر انسان کی اخلاقی اور حقوقی آزادی دینی تعلیمات کی روشنی میں مہار نہ ہو، توانسان کی عقل ، ہوس پرستی اور بے لگام حیوانی خواہشات کے زیر اثرآکرہر جرم کو انجام دی سکتی ہے۔(۲) قرآن مجید اوراسلامی روایات بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کرتے ہیں کہ وحی سے دور رہ کرانسان خود اور دوسروں کی تباہی کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ نیز خود کو اور دوسروں کو سعادت ابدی سے محروم کرنے کے علاوہ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے(۳) یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کو (ان شرائط کے علاوہ جب وہ خود کو خدائی تربیت و تعلیم کے تحت قرار دیتا ہے ) خسارت والا اور شقی سے تعبیر کرتاہے( إنَّ النسَانَ لَفِی خُسرٍ لاّ الَّذِینَ آمنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ ) (۴) یقینا انسان خسارے میں ہے مگر وہ افراد جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں '' اور دوسری طرف ہیومنزم کی بے حد و حصر آزادی کہ جس میں فریضہ اور عمومی مصالح کی رعایت اور ذمہ داری کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، اس نظریہ میں ہر انسان کے حقوق ( واجبات کے علاوہ ) کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے حق کو بجالائے نہ کہ اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو، اس لئے کہ اگر کوئی تکلیف اور ذمہ داری ہے بھی تو حق کے سلسلہ ادائگی میں اسے آزادی ہے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ، ص ۴۴و ۴۵۔ (۲)ڈیوس ٹونی کہتا ہے : ایسا لگتا ہے کہ جفرسون اور اس کے مددگار ۱۷۷۶کے بیانیہ میں مندرج عمومی آزادی کو اپنے غلاموں یا ہمسایوں میں بھی رواج دیتے تھے ۔ (۳)اس سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کی وضاحت آئندہ مباحث میں ذکر ہوگی (۴) سورۂ عصر ۲و ۳۔ (۵)ہم یہاں اس مسئلہ کو ذکر کرنا نہیں چاہتے کہ انسان کا مکلف ہونا بہت ہی معقول اور فائدہ مند شی ہے یا اسی طرح حق بین اور حق پسند ہونا بھی معقول ہے .لیکن ہم مختصراً بیان کریں گے کہ اجتماعی تکالیف اور دوسروں کے حقوق کے درمیان ملازمت پائے جانے کی وجہ سے الہی اور دینی تکالیف مورد قبول ہونے کے علاوہ اسے مستحکم عقلی حمایت حاصل ہے دنیاوی فائدہ اور افراد معاشرہ کے حقوق کی تامین کے اعتبار سے ہیومنزم حق پرستی پر برتری رکھتا ہے ۔اس لئے کہ اس معتبر نظام میں جب کہ ہر فرد اپنا حق چاہتا ہے اس کے باوجود اگر کوئی دوسروں کے حقوق کی رعایت کے مقابلہ میں احساس مسئولیت کرتا ہے تووہ خود کو خداوند منان کی بارگاہ میں جواب گو سمجھتا ہے ۔

۵۹

اجتماعی صورت میں ہیومنزم کے ماننے والوں کی آزادی یعنی جمہوریت نیز حقوقی، اجتماعی قوانین کے حوالے سے نسبی آزادی کے قائل ہیںجو دینی نظریہ سے مناسبت نہیں رکھتے ۔

ہمارے دینی نظریہ کے مطابق سبھی موجودات کا وجود خدا کی وجہ سے ہے اور تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیںنیز ہر ایک قوانین الہی کے مقابلہ میں ذمہ دار ہے اور حاکمیت کا حق صرف خدا کوہے ۔ پیغمبر، ائمہ اور ان کے نائبین ،ایسے افراد ہیں جن کو ایسی حاکمیت کی اجازت دی گئی ہے ۔ حقوقی اور اخلاقی امورجو اللہ کی طرف سے آئے ہیںاور معین ہوئے ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔دین کی نگاہ میں اگرچہ افراد کے حقوق معین و مشخص ہیں جس کو عقل اور انسانی فطرت کلی اعتبار سے درک کرتی ہے لیکن حد و حصر کی تعیین اور ان حقوق کے موارد اور مصادیق کی تشخیص خدا کی طرف سے ہے اور تمام افراد، الہٰی تکلیف کے عنوان سے ان کی رعایت کے پابند ہیں، ہیومنزم کی نظر میں انسانوں کی آزادی کے معنی اعتقادات دینی کو پس پشت ڈالنا اور اس کے احکام سے چشم پوشی کرنا ہے لیکن اسلام اورادیان آسمانی میں انسانوں کے ضروری حقوق کے علاوہ بعض مقدسات اور اعتقادات کے لئے بھی کچھ خاص حقوق ہیں جن کی رعایت لازم ہے مثال کے طور پر انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے کے اعتبار سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسلام کو چھوڑکر کافرو مشرک ہونے یا کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کرنے میں بغیر کسی شرط کے وہ آزاد ہے۔ لیکن اسلام کی رو سے وہ مرتد ہے (اپنے خاص شرائط کے ساتھ ) جس کی سزا قتل یا پھانسی ہے جیسا کہ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام کو ناسزا (سب ) کہنے کی سزا پھانسی ہے لیکن ہیومنزم کی نگاہ میں ایسی سزا قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پیغمبر و ائمہ معصومین اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے ۔

۶۰

جن کے بارے میں لوگ اطلاع نہیں رکھتے، وہ کون ہے؟ جس نے معدہ کو محکم اعصاب سے مجہز کیا، اور اسے سخت غذا کے ہضم کرنے کے قابل بنایا ، وہ کون ہے؟ جس نے جگر کی بناوٹ ، نازک اور باریک نالیوں سے انجام دی تاکہ صاف اور لطیف غذا کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کرے، اور معدہ سے زیادہ نازک و لطیف کام انجام دے ، سوائے اُس خداوند متعال کے اور کوئی نہیں کہ جو قادر اور قوی ہے، کیا تم اس بات کو کہہ سکتے ہو کہ محض اتفاقات نے ان میں سے کسی ایک کام کو بھی انجام دیا ہے ؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ تمام کام اُس مدبر کی حکمت و تدبیر کے تحت ہیں، جس نے اپنی تدبیر سے انہیں پیدا کیا ،اور کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کرتی ، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں )

اے مفضل ذرا غور کرو، آخر کیوں خداوند عالم نے نازک مغز کو محکم و مضبوط ہڈیوں کے درمیان رکھا؟ سوائے اس کے کہ وہ محکم ہڈیاں اُسے محفوظ رکھیں، آخر کیوں خون کو رگوں کے حصار میں قرار دیا، جیسے کہ پانی برتن میں ہو، کیا رگوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کہ جواُسے جسم میں منتشر ہونے سے بچائے، آخر کیوں؟ ناخنوں کو سر انگشت پر جگہ عطا کی؟ سوائے اس کے کہ وہ انگلیوں کو محفوظ رکھیں اور انگلیوں کے کام کرنے میں ان کی مدد کریں ، آخر کیوں؟ کان کا اندرونی حصہ پیچیدگی صورت اختیار کئے ہوئے ہے؟ سوائے اس کے کہ آواز اس کے ذریعہ وارد ہوکر کان کے اندر ختم ہوجائے (اور کان کے پردے کو کسی بھی قسم کے ضرر کا سامنا کرنا نہ پڑے) کیونکہ اس پیچیدگی ہی کہ وجہ سے ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے ، اور کان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، آخر کس مقصد کے تحت ران اور کولھوں کو گوشت کا لباس پہنایا؟ سوائے اس کے کہ زمین پر بیٹھتے وقت انہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے،اور زمین کی سختی ان پر اثر انداز نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی لاغر و کمزور آدمی زمین پر بیٹھتے وقت اپنے نیچے کوئی چیز نہ رکھے، تو اُسے درد محسوس ہوتا

۶۱

ہے، وہ کون ہے؟ جس نے انسان کو نر و مادہ کی صورت میں پیدا کیا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ نسل انسانی باقی رہے، کون ہے جس نے انسان کو صاحب نسل قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ جس نے اسے صاحب آرزو خلق کیا، کون ہے جس نے اُسے اپنی حاجت کو پورا کرنے والا بنایا، کون ہے جس نے اُسے حاجت بنایا؟ سوائے اس کے کہ جس نے اس بات کہ ذمہ داری اپنے سر لی، کہ اِسے پورا کریگا، کون ہے، جس نے اُسے کام کاج کے لئے أعضاء و جوارح عطا کئے، کون ہے، جس نے اسے کام کے لئے قدرت و طاقت عطاکی، کون ہے ، جس نے درک و فہم کو فقط اس کے ساتھ مخصوص کیا، کون ہے، جس نے انسان پر شکر کو واجب قرار دیا، کون ہے جس نے اُسے فکر و اندیشہ گری سیکھائی؟ سوائے اس کے کہ جس نے اُسے اُس کی قوت عطاکی، کون ہے جس نے انسان کو قدرت ، طاقت وتوانائی جیسی نعمت سے نوازا؟ کون ہے جس نے انسانوں پر اپنی حجت تمام کی، کہ جو ناچارگی و بے کسی کے عالم میں کفایت أمر کرتاہے، کون ہے، کہ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، ادا نہیں ہوتا،اے مفضل ذارا غور کرو، کہ کیا تم اس بیان شدہ نظام میں اتفاقات کا مشاہدہ کرتے ہو؟ خداوند متعال بلند و برتر ہے، ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

( دل کا نظام )

اے مفضل ، اب میں تمہارے لئے دل کی تعریف بیان کرتا ہوں ، جان لو کہ دل میں ایک سوراخ ہے جو اُس سوراخ کے سامنے ہے جو پھیپھڑوں میں مشاہدہ کیا جاتا ے، جس کے وسیلہ سے دل کو ہوا اور سکون ملتا ہے، اگر یہ سوراخ ایک دوسرے سے دو ر یا جابجا ہوجائیں اور دل تک ہوا نے پہنچے تو انسان ہلاک ہوجائے، کیا کسی صاحب عقل کے لئے یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ یہ عمل محض اتفاق کا نتیجہ ہے ، اس کے باوجود کہ وہ ایسے شواہد کا مشاہدہ کرتا ہے ، کہ جو اسے اس گفتار سے روکتے ہیں، اگر تم دو

۶۲

دروازوں میں سے ایک کو دیکھو کہ اُس میں کُنڈی لٹکی ہوئی ہے ، تو کیا تم یہ کہو گے کہ اس کے بنانے والے نے اسے بے فائدہ اور بے مقصد بنایا ہے، ہرگز نہیں ، بلکہ تم سوچوگے کہ یہ دروازے آپس میں ملنے کے لئے ہیں ، اور یہ کنڈی ہے کہ جو انہیں ملانے کا کام انجام دیتی ہے ، اور ان کے ملنے ہی میں مصلحت ہے، تو بس تم حیوانات میں نر کو بھی اسی طرح پاؤگے کہ اسے ایک ایسا ہی آلہ عطا کیا گیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مادہ کے ساتھ نزدیکی کرے کہ جس میں اس کی نسل کی بقاء ہے، اب ان فلسفیوں پر نفرین کی جائے کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، کہ وہ اس عجیب و غریب خلقت میں تدبیر و ارادہ کا انکار کرتے ہیں، اگر مرد کا آلہ تناسل ہمیشہ آویزاں ہوتا، تو کس طرح نطفہ رحم تک پہنچتا، اور اگر ہر وقت کھڑا ہوتا ، تو کس طرح سے بستر پر کروٹ لے سکتا تھا، اور اس حالت میں وہ کس طرح سے لوگوں کے درمیا ن راہ چلتا، اس کے علاوہ اگر ایسا ہوتا تو یہ منظر قباحت پر مشتمل ہوتا، اور مرد وزن کی شہوت کو ہر وقت متحرک کرتا، لہٰذا خداوند متعال نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ اکثر اوقات مردوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے، اور ان کے لئے زحمت ومشقت کا باعث نہ ہو، لیکن اس میں ایک ایسی قوت عطا کی کہ ضرورت کے وقت کھڑا ہوجائے، اس لئے کہ اس میں بقاء نسل پوشیدہ ہے۔

( مقام مخرج )

اے مفضل، اب ذرا غور کرو،بڑی نعمتوں میں سے کھانے، پینے اور فضلات کے بدن سے بآسانی خارج ہونے پر، مگر کیا مقام مخرج کی بناوٹ وساخت کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ تھا کہ اُسے پوشیدہ ترین اور مخفی جگہ پر قرار دیا جائے، کہ جو نہ انسان کی پشت پر ہو اور نہ آگے لٹکی ہوئی، بلکہ اُسے ایسی پوشیدہ اور مناسب جگہ قرار دیا ، جسے رانوں اور کولھوں کاگوشت چھپائے ہوئے ہے، اور جب انسان خلاء کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور ایک خاص انداز میں بیٹھتا ہے تو اس کی جائے مخرج مہیا ہے ، اور ہمیشہ فضولات کا رخ نیچے کی طرف ہے، کس قدر مبارک ہے وہ ذات جس کی نعمتیں مسلسل اور بے شمار ہیں۔

۶۳

( دندان کی وضعیّت )

اے مفضل، فکر کرو، اُن دانتوں پر جو غذا کو پیستے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، کہ جنہیں خدا وند متعال نے انسانوں کی سہولت کے لئے پیدا کیاہے، اُن میں سے بعض تیز اور نوکیلے ہیں، جو غذا کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور بعض پھیلے ہوئے ہیں کہ جو غذا کو چبانے اور نرم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، یہ صفت اُن میں تاحد ضرورت موجود ہے۔

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر )

اے مفضل ، بالوں اور ناخنوں کے حسن صناعت پر غور کرو، یہ مسلسل بڑھتے ہیں، اور انسان انہیں تراشنے پر مجبور ہوتا ہے، لہٰذا انہیں بے حس قرار دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے تراشنے سے انسان کو درد کا سامنا کرنا نہ پڑے، اگر ان کے تراشنے سے انسان درد کا احساس کرتا تو اس کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجاتی اور اگر درد کی وجہ سے انہیں نہ تراشتا اور بڑھتا ہوا چھوڑ دیتا تو ایسی صورت میں یہ اس کے لئے باعث زحمت و مشقت بنتے، یا پھر یہ کہ انسان درد کو برداشت کرے۔

مفضل کا بیان ہے میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا، ان کی خلقت اس طرح کیوں نہیں ہوئی کہ یہ بڑے ہی نہ ہوں، اور انسان ان کے تراشنے پر مجبور نہ ہو؟ امام ـنے ارشاد فرمایا: اے مفضل ، خداوند عالم کی اس عظیم نعمت پر شکر کرو کہ جس کی حکمت اس کے بندے نہیں جانتے ، جان لو کہ بدن کے جراثیم و فضلات انہی کے ذریعے جسم سے خارج ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کو ہر ہفتے نورہ لگانے، بال کٹوانے، اور ناخن تراشنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بال اور ناخن تیزی سے بڑھیں اور ان کے ذریعے

۶۴

انسان کے بدن سے جراثیم اور مختلف فضلات دور ہوں، اگر انہیں تراشا نہ جائے تو ان کے بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے، جس سے بدن میں جراثیم اور فضلات باقی رہ جاتے ہیں اور انسان مریض ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بھی فائدے ہیں اور بعض ان مقامات پر کہ جہاں بالوں کا اُگنا خلل اور نقصان کا باعث بنتا، وہاں انہیں اُگنے سے روکا گیا ہے (اب ذرا دیکھو کہ ) اگر بال آنکھوں کے اندر اُگتے تو کیا آنکھوں کو اندھا نہیں کردیتے؟ اور اگر منھ میں اُگتے تو کیا کھانے ، پینے وغیرہ کے لئے ناگوار معلوم نہ ہوتے اور اگر ہتھیلی پر اُگتے تو کیا لمس کے لئے مانع نہ ہوتے؟ اور اسی طرح اگر عورت کی شرمگاہ یا مرد کے آلہ تناسل پر بال اگتے تو کیا لذت جماع کو ختم نہ کردیتے، غور کرو کہ کس طرح بال بعض مقامات پر نہیں اُگتے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے، اور یہ أمر فقط انسانوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ چوپاؤں اور درندوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کی تمام جلد تو بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، مگر وہ مقامات کہ جن کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے بالوں سے خالی ہوتے ہیں ، حاصل مطلب یہ کہ ذرا غور کرو کس طرح سے فائدہ اور نقصان کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسان کے لئے فائدہ اور اس کی بھلائی ہے، انہیں فراہم کیا گیا ہے۔

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات )

اے مفضل ، وہ تمام کلمات و شبہات جو فرقہ مانویہ خلقت کے بارے میں رکھتا ہے، کہ اس کائنات کے اندر قصد و ارادہ نام کی کوئی چیز نہیں ، مثلاً وہ بغل اور زیرناف بال اُگنے کو بیہودہ اور عبث تصور کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ مقامات رطوبت کے جاری ہونے کے لئے ہیں ، لہٰذا اُن مقامات پر بالوں کا اُگنا بالکل اُسی طرح ہے جس طرح نہر اور ندی وغیرہ کے کنارے گھاس وغیرہ اُگتی ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ مقامات رطوبت کے جاری اور بہنے کے لئے دوسرے تمام مقامات

۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور پنہاں ہیں اور پھر یہ کہ ان کے اُگنے اور کٹوانے کے بعد انسان مرض وغیرہ کی تکلیف میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے اور ان ہی کے بدن سے صاف ہونے کہ وجہ سے حرص و کثافت طبیعی طور پر انسان سے دور ہوجاتی ہے اور ان سب کا دور ہونا انسان کو سرکشی ، تجاوز اور فراغت سے بچاتا ہے اور انسان خوش و خرم رہتا ہے۔

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت )

اے مفضل ، آب دہن اور اس کے فوائد پر غور کرو، یہ ہمیشہ منہ میں جاری ہے تاکہ گلے اور خنجرہ کو تر رکھے ، کہ اگر یہ خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاک ہوجائے ، اس کے علاوہ کھانا بھی بآسانی نہیں کھا سکتا کیونکہ یہی رطوبت لقمہ کو حرکت دیتی ہے لہٰذا تم مشاہدہ کروگے کہ یہ رطوبت مرکب غذا ہے اور یہی رطوبت ہے جو نلی کی طرف جاری رہتی ہے ، جس میں انسان کی بھلائی ہے کہ اگر یہ رطوبت خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ )

( اے مفضل) بعض جاہل افراد جو اپنے آپ کو اہل کلام کہلواتے ہیںاور کچھ ضعیف فلسفی جو اپنی کم علمی اور اپنی کم دسترسی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ شکم انسان، لبا س کی مانند ہونا چاہیے تھا کہ جسے جب بھی طبیب چاہتا کھول کر معائنہ کرتا، اور اپنے ہاتھ کو اندر ڈال کر جس طرح کا معالجہ ممکن ہوتا، انجام دیتا۔ تو کیا یہ اس سے اچھا نہ ہوتا کہ اُسے ایک مستحکم بند کے ذریعہ بند کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ہاتھ و آنکھ کی دسترسی سے بھی دور ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کے اندر کیا ہے، مگر یہ کہ مختلف راہوں ، طریقوں اور

۶۶

تجربوں سے اس کا معائنہ کیا جائے کہ اس کے اندر پیشاب اور اس قسم کی دوسری بیہودہ ، فالتو چیزیں ہیں کہ جو انسان کی ہلاکت کا باعث ہیں؟ اگر یہ جاہل افراد جان لیں کہ وہی ہوتا جو یہ کہتے ہیں ، تو اس کا پہلا نقصان یہ ہوتا کہ انسان سے موت و مرض کا ڈر ساقط و ختم ہوجاتا، اس لئے کہ جب وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم دیکھتا ، تو اس عالم میں مغرور ہوجاتا،اور یہ چیز اس کے طغیان اور تجاوز کا سبب بن جاتی، اس کے علاوہ وہ رطوبت جو اس کے شکم میں ہے ، اس کے شکم سے چھلکتی اور یہ مسلسل اُسے پلٹاتا ، اور اس کا لباس اور آلات زینت خراب ہوجاتے، بلکہ یوں کہوں کی کلی طور پر اس کی زندگی آلودہ ہوکر رہ جاتی ، اس کے علاوہ معدہ، جگر ، اور دل اپنے عمل کو اس حرارت کی موجودگی میں انجام دیتے ہیں جو خداوند متعال نے شکم میں رکھی ہے ، اگر شکم انسان میں سوراخ ہوتا کہ آنکھ، اور ہاتھ کے وسیلہ سے اس کا معالجہ کیا جاسکتا، تو ایسی صورت میں سرد ہوا اس کے جسم میں داخل ہوکر حرارت کو ختم کردیتی اور یہ تمام اعضاء دل ، معدہ ، جگر اپنا عمل کرنا چھوڑدیتے اور اس صورت میں انسان کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں اوہام سے وجود میں آتی ہیں وہ سب ان کے علاوہ ہیں جو خداوندعالم نے پیدا کی ہیں، اور اوہام سے وجود میں آنے والی چیزیں باطل و خطاہیں۔

اے مفضل، انسانوں کے وجود میں قرار دیئے گئے کاموں کی تدبیر پر غوروفکر کرو ، جیسے کھانا، پینااور جماع کہ یہ تمام انسان کے اندر تحرک پیدا کرتے ہیں جب انسان انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جیسے انسان کا بھوکا ہونا اسے غذا کے طلب کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے حاصل ہونے سے انسان کے بدن کی نشوونما ہوتی ہے سستی اور اُونگھنا علامت ہے کہ اُسے سونے کی ضرورت ہے۔ جس میں اس کیلئے راحت و آرام پوشیدہ ہے شہوت کا اُبھرنا اُسے جماع کی طرف مائل کرتا ہے ،جو انسان کی بقاء اور دوام نسل کا واضح ثبوت ہے۔اگر انسان فقط ضرورت بدن کے لئے غذا کھاتا، اور کوئی چیز اس کے وجود میں ایسی نہ ہوتی کہ جو اسے غذا کے کھانے پر مجبور کرتی ، تو مسلم طور پر

۶۷

انسان کبھی اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دیتا ، ایسا ہونے سے اس کا بدن تحلیل ہونے لگتا اور آہستہ آہستہ وہ ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح سے کبھی دوا کا محتا ج ہوتا ہے جسے کھا کر وہ اپنے بدن کی اصلاح کرے، مگر وہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے لاپروائی کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا بدن فاسد وضعیف و لاغر ہوجاتا اور یہ بات اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے ، اسی طرح اگر سونا فقط اس لئے ہوتا کہ اس کے بدن کو راحت و آرام ملے اور اس کی قوت باقی رہے تو وہ اس میں بھی سستی سے کام لیتا، اور سونے سے پرہیز کرتا اور ہلاک ہوجاتا، اسی طرح اگر طلب اولاد کے لئے جماع کرتا ، تو یہ بعید نہ تھا کہ وہ اس میں بھی سستی کرتا، یہاں تک کہ نسل انسان کم ہوجاتی یا یہ کہ بالکل ہی منقطع ہوکر رہ جاتی، اس لئے کہ بعض افراد اولاد کی طرف رغبت نہیں رکھتے اور اولاد کو اہمیت نہیں دیتے ، اب ذرا غور کرو ، ان کاموں پر کہ جن میں انسان کی بھلائی ہے کس طرح ان کے وجود میں تحرک رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کے اندر حرکت ایجاد کرتے ہوئے اسے ایسے کاموں کے انجام دینے پر مائل کریں۔

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں )

اے مفضل ، جان لو کہ بدن انسان میں چار قوتیں ہیں۔

1۔ قوت جاذبہ : جوکھانے کو قبول کرکے معدہ تک پہنچاتی ہے۔

2۔ قوت ماسکہ: جو کھانے کو اُس وقت تک محفوظ رکھتی ہے جب تک اس میں طبیعی طور پر عمل شروع نہ ہوجائے۔

3۔ قوت ہاضمہ : جو غذا کو معدہ کے اندر حل کرتی ہے اور خالص و صاف غذا کو نکال کر بدن کے اندر پھیلاتی ہے۔

4۔ قوت رافعہ: جب قوت ہاضمہ اپنے عمل کو انجام دے لیتی ہے ، تو یہی قوت رافعہ باقی غذا کو بدن سے باہر نکال دیتی ہے۔

۶۸

پس ان قوتوں کے میزان ، اندازہ ، اور ان کے عمل ،فوائد اور ان کی تدبیر و حکمت پر غور کرو، جوان میں جاری ہے اگر قوت جاذبہ نہ ہوتی، تو کس طرح انسان اُس غذا کی طرف کھینچا چلا جاتا کہ جس میں اس کے بدن کی قوت محفوظ ہے اور اگر قوت ماسکہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا بدن انسان میں معدہ کے عمل کے انتظار میں ٹھہری رہتی اگر قوت ہاضمہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا حل ہو کر معدہ سے باہر آتی کہ بدن اس سے تغذیہ کرکے اپنی حاجت کو پورا کرے اسی طرح اگر قوت دافعہ نہ ہوتی تو کس طرح بچی ہو ئی غذا تدریجی طور پر جسم سے باہر آتی، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے اپنے لطف و صنعت و حسن تدبیر کے سبب کس طرح ان قوتوں کو محافظ بدن قرار دیا، اور تمام وہ چیزیں جو بدن انسان کے لئے ضروری تھیں انہیں فراہم کیا گیاہے۔ اور اب میں تمہارے لئے مثال بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ انسان کا بدن بادشاہ کے محل کی مانند ہے اور اس کے اعضاء اس کے محل کے ملازمین اور کام کرنے والوں کی طرح ہیں ، ان میں کچھ اس محل کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اور کچھ محل میں داخل ہونے والی چیزوں کو قبول کرنے کے بعد استعمال میں لانے کے لئے، کچھ اس محل کو منظم و مرتب ، صاف ستھرا اور آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اور کچھ فضول چیزوں کو محل سے باہر نکالنے کے لئے ہیں۔ اس مثال میں بادشاہ وہی خدائے حکیم ہے جو عالمین کا بادشاہ ہے اور وہ محل بدن انسان ہے اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں اور جو امور خانہ داری کا کام انجام دیتی ہیں وہ چار قوتیں ہیں ، شاید کہ تم خیال کرو کہ ان چار قوتوں کی دوبارہ یادآوری اور ان کے کام کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جا چکاہے ، وہ زائد اور بے مورد ہے حالانکہ ان کے ذکر سے مراد وہ نہیں جو تم اطباء کی کتابوں میں پڑھتے ہو، بلکہ یہاں ہماری گفتگو ان کی گفتگو سے جدا ہے ، اس لئے کے وہ فقط چار قوتوں کے بارے میں بحث طب کے ارتباط اور طبابت کی ضرورت کے لحاظ سے کرتے ہیں ، لیکن ہماری بحث اصلاح دین اور نفوس کو

۶۹

گمراہی اور غلطی سے بچانے کیلئے ہے ، جس طرح سے مثال کے ذریعہ ان کے شافی ہونے پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں کہ جس میں ان کی تدبیر و حکمت پر اشارہ کیا گیا ہے۔

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت )

اے مفضل، انسان کے اندر قوت نفسانی ( فکر، وہم، عقل، حفظ) اور اس کی قدر وقیمت پر غور کرو، کہ اگر قوت حفظ انسان سے سلب ہوجائے، تو اس کی کیا حالت ہوجائے،بہت سے نقصانات اس کے أمر معاش اور اس کے تجربات میں مشاہدہ کئے جائیں گے، کہ وہ اُن چیزوں کو بھلا دیتا جس میں اس کا فائدہ یا نقصان ہے یا پھر وہ نہ جانتا کہ اس نے کیا دیکھا کیا سنا اُس نے کیا کہا اس کے بارے میں کیا کہا گیا کس نے اُس کے ساتھ نیکی کی اور کس نے بدی کی اور وہ اچھی بری چیز کو بھی نہ جانتا ایک مدت تک راستہ پر آمدو رفت کے باوجود اُسے نہ پہچانتا۔ عرصہ دراز تک تحصیل علم کے باوجود کسی بھی چیز کو حفظ نہیں کرسکتا تھا۔ ایسی صورت میں نہ اُسے کوئی قرض دیتا۔ اور نہ وہ لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا تھا گویا گذشتہ کسی بھی حقیقت سے عبرت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ درحقیقت وہ دائرہ انسانیت ہی سے خارج ہوجاتا۔

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں )

اے مفضل ، غور کرو کہ انسان کو کتنی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک کی قدر و قیمت دوسرے کے مقابلے میں عظیم ہے ، اب ذرا دیکھو کہ اگر انسان کے لئے قوت نسیان نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی اپنی مصیبت سے کبھی فارغ نہ ہوتا اور اس کی حسرت کبھی ختم نہ ہوتی اور نہ ہی کبھی کینہ و عداوت دور ہوتی ، گویا دنیا کی کسی بھی نعمت سے بہرہ مند نہ ہوتا اس لئے اس کی مصیبتیں اور آفتیں مسلسل اس کے

۷۰

سامنے رہتیں ، اور نہ وہ کبھی بادشاہ سے بھولنے کی امید رکھتا اور نہ کسی حاسد سے حسد کے ختم ہوجانے کی کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح خداوند عالم نے انسان کے اندر حفظ و نسیان کو رکھا ہے، اگرچہ یہ دو متضاد چیزیں ہیں لیکن ہر ایک کے اندر انسان کیلئے بھلائی ہے اور وہ لوگ جو ان متضاد چیزوں کی تقسیم بندی کرتے ہیں ، کس طرح وہ انہیں دو خالق کی طرف نسبت دیتے ہیں ، حالانکہ ان دو متضاد چیزوں کے جمع ہونے ہی میں انسان کی بھلائی ہے۔

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ )

اے مفضل ، ذرا غور کرو، اس چیز پر کے جسے خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کے لئے مخصوص کیا ہے، کہ جس کی وجہ سے انسان کی فضیلت تمام مخلوق پر عظیم و اعلیٰ ہے اور وہ چیز حیاء ہے، اس لئے کہ اگر حیاء نہ ہوتی تو نہ مہمان نوازی ہوتی، نہ کوئی وعدہ وفا ہوتا، اور نہ کوئی حاجت پوری ہوتی، گویا کام بہتر طور پر انجام نہ دیئے جاتے، اور نہ ہی کوئی برے کاموں سے بچتا بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ یوں کہوں کہ بعض واجب کام بھی حیاء ہی کی بدولت انجام پاتے ہیں۔ جن کے پاس حیاء نہیں ہوتی نہ تو وہ اپنے والدین کے حق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں، نہ وہ امانت کو ادا کرتے ہیں، اور نہ ہی برے کاموں سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح اُن تمام صفتوں کو انسان کے اندر جمع کیا گیا ہے کہ جس میں اس کی اور اس کے تمام کاموں کی بھلائی ہے۔

۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے )

اے مفضل۔ اس نعمت نطق پر بھی غور کرو، جو خداوند عزوجل نے انسان کو عطا کی، جس کے وسیلے سے انسان اپنے مافی الضمیراور جو کچھ دل میں ہے گزرتا ہے اُس کا اظہار کرتا ہے اور اپنی فکر کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اگر قوت نطق نہ ہوتی تو انسان بھی چوپاؤں کی طرح مہمل ہو کر رہ جاتا، نہ اپنی بات کسی کو سمجھا سکتا تھا، اور نہ کسی دوسرے کی سمجھ سکتا تھا، اور اسی طرح ایک نعمت خداوندی کتابت ہے جس کے وسیلہ سے گذشتہ لوگوں کی خبریں حاضرین اور حاضرین کی خبریں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم و أدب کی کتابیں ابھی تک باقی ہیں اسی کے وسیلہ سے انسان ایک دوسرے کے درمیان معاملات و حساب کو محفوظ کرتے ہیں اگر کتابت نہ ہوتی تو ایک زمانے کی باتیں یا خبریں دوسرے زمانے کے لئے اور اسی طرح وطن سے دور لوگوں کی خبریں اہل وطن سے پوشیدہ ہوکر رہ جاتیں۔ علوم وآداب وغیرہ بھی سب ضائع ہوجاتے، خلاصہ یہ کہ لوگوں کے امور و معاملات میں ایک بہت بڑا خلل واقع ہوتا اور وہ ان چیزوں سے خالی ہوتے کہ جن کی انہیں دینی امور میں انہیں ضرورت پڑتی ، اور جو کچھ ان کے لئے روایت کی جاتی یہ اُس سے بے خبر ہوتے۔ شاید تم گمان کرو کہ نطق وکتابت وہ چیزیں ہیں جو حیلہ و ہوشیاری سے حاصل کی گئی ہیں اور انہیں خلقت اور طبیعت انسان میں عطا نہیں کیا گیا اور اسی طرح کلام کہ جسے لوگوں نے خود ایک دوسرے کے درمیان ایجاد کیا ہے ، اسی لئے بات چیت کرتے وقت قوموں اور ملتوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، اور اسی طرح کتابت میں بھی جیسے عربی، سریانی ، عبرانی، رومی اور دوسری مختلف کتابت کہ جن میں ملتوں کے درمیان کلام کی طرح اختلاف پایا جاتا ہے ، جنہیں خود ان ملتوں نے ایجاد کیا ہے ، اب ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے، جو اس بات کا مدعی ہو، یہ صحیح ہے کہ انسان کے ان کاموں میں اس کی فعالیت وحیلہ کا دخل

۷۲

ہے، لیکن وہ چیز کہ جس کے تحت یہ فعالیت و حیلہ کارگر ہیں، وہ خود خدا کا ایک عطیہ و تحفہ ہے کہ جو خدا نے انسان کو اس کی خلقت میں عطا کیا ہے، اس لئے کہ اگر کلام کرنے کے لئے زبان اور امور کی ہدایت کے لئے ذہن نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی کلام نہیں کرسکتا تھا ، اور اسی طرح اگر لکھنے کے لئے ہتھیلی و انگلیاں نہ ہوتیں تو وہ کبھی بھی کتابت میں کامیاب نہ ہوتا، پس ان حیوانات سے عبرت حاصل کرو کہ جنہیں اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ نہ وہ بولنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا خداوند عالم کا یہ اپنے بندوں پر خاص احسان ہے، اب جو اس کا شکر ادا کریگا اُسے اس کا اجر و ثواب عطا کریگا ، اور جو کفر اختیار کریگا تو خدا غنی اور بے نیاز ہے۔

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے )

اے مفضل فکر کرو، اس علم پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کیا اور وہ علم جو اُسے عطا نہ کیا ، خداوند عالم نے وہ تمام علوم اپنے بندوں کو عطا کئے جن میں اس کے دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے اور وہ علم جس میں اس کے دین کی بھلائی ہے ، وہ خدا وند عالم کی معرفت اُن شواہد و دلائل کے ساتھ ہے جو خلقت میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں، اور وہ علم کہ جن کا جاننا اس کے لئے واجب ہے۔جیسے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کرنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا، امانتوں کو ادا کرنا، نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا اور اس قسم کے دوسرے کام جن کی معرفت ہر اُمت کو فطری اور طبیعی طور پر عطا کی گئی ہے ، چاہے وہ اس کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے اور اسی طرح تمام وہ علوم کہ جس میں اس کی دنیا کی بھلائی ہے ، جیسے زراعت ، درخت کاری، کنویں کھودنا، جانور کا پالنا، پانی تلاش کرنا، دواؤں کا جاننا ( جن کے ذریعہ بہت سے مرض دور ہوتے ہیں) معادن کا تلاش کرنا ،کہ جس کے ذریعہ مختلف جواہر حاصل ہوتے ہیں، کشتی پر سواری کرنا، دریاؤں میں غوطہ لگانا (اس کے علاوہ) وحشی جانوروں،

۷۳

پرندوں اور مچھلیوں کے شکار کے لئے مختلف حیلوں اور چالاکیوں کا علم ، مختلف قسم کی صنعت و تجارت کا علم اور اس کے علاوہ دوسری ایسی چیزوں کا علم کہ جن کی تشریح اور وضاحت کی فہرست طویل اور تعداد بہت زیادہ ہے، جس میں اس کے لئے بھلائی اور نفع ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے علوم کے جاننے کو انہیں منع کیا وہ انہیں نہ جانیں اس لئے کہ وہ ان کی طاقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ، علم غیب، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا اور جو کچھ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے ہے جو کچھ دریا کہ تہہ میں ہے اور جو کچھ عالم کے چاروں گوشوں میں ہے اور جو کچھ لوگوں کے دل میں گزرتا ہے اور کچھ رحم مادر میں ہے، اور اس قسم کی بہت سی چیزیں کہ جو انسان سے پوشیدہ ہیں کبھی بہت سے لوگ ان چیزوں کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ جلد ہی ان تمام چیزوں کے بارے میں باطل ہوکر رہ جاتا ہے، اور ان کی خطا آشکار ہوجاتی ہے ، ذرا غور کرو کہ کس طرح سے انسان کو ان چیزوں کا علم عطا کیا گیا، کہ جن میں اس کے دین اور دنیا دونوں کی بقاء ہے اور اس کے علاوہ باقی علوم کو اس پوشیدہ رکھا گیا، تاکہ وہ ان کی قدر و قیمت جان لے اورسمجھ لے کہ جو کچھ خدا نے اُسے علم عطا کیا اور جو علم عطا نہیں کیا ہر دو میں اس کی بھلائی ہے۔

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ )

اے مفضل۔ اب ان چیزوں میں غور کرو کہ جن کا علم خدا نے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ۔ جیسے اس کی زندگی کا علم اگر وہ اپنی زندگی کے مدت کو جان لیتا اور اس کی عمر حیات تھوڑی ہوتی ، تو ایسے میں اس کے لئے زندگی گزارنا ناخوش گوار ثابت ہوتا، بلکہ یہ آدمی اُس شخص کی مانند ہوتا کہ جس کا مال اس کے ہاتھ سے چلا گیا ہو، یا نزدیک ہو کہ چلا جائے کہ وہ مال کے چلے جانے سے فقر کی تنگی سے خوفزدہ ہے، اور عمر کے ختم ہو جانے کا خوف تو اُس خوف سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ مال کے چلے جانے پر وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ دوبارہ مل ہوجائے گا، اور خود کو اس کے لئے تیار کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی

۷۴

موت کا یقین ہوجائے تو نا اُمیدی اُس پر پوری طرح غالب ہوجاتی ہے اور اگر اس کی عمر حیات طویل ہوتی اور وہ اس بات کو جان لیتا تو پھر وہ کمر بستہ طور پر لذتوں اور معصیتوںمیں غوطہ ور ہوجاتا، اور وہ برے کاموں کو تمام عمر اس امر کے ساتھ انجام دیتا کہ جب وہ اپنی خواہشات کو پورا کر لے گا، تو توبہ کرلے گایہ وہ طریقہ ہے کہ جو خداوند عالم اپنے بندوں سے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا اور نہ وہ اس پر راضی ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر تمہارا کوئی غلام ہو اور وہ سال بھر تمہاری نافرمانی کرے ، اور تمہارا کوئی کام اور کسی بھی قسم کی خدمت انجام نہ دے، اور پھر ایک دن یا ایک ماہ وہ تمہیں راضی کرنے میں لگادے تو تم اُسے ہرگز قبول نہ کروگے، اور وہ تمہارے لئے ایک بہترین غلام ثابت نہ ہوگا، سوائے اس کے کہ یہ غلام تمہارے ہر أمر پر سرتسلیم خم کرے اور ہمیشہ تمہارا خیرخواہ ہو، اور اگر تم کہو کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی انسان ایک مدت تک معصیت میں مبتلا رہتا ہے، اور پھر توبہ کرتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے ، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا اُس صورت میں ہوتا ہے جبکہ انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور وہ اپنی خواہشات پر قابو نہ پاسکے اور وہ اس کام کو پہلے سے بجالانے کا قصد و ارادہ بھی نہیں رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں خداوند، اس سے درگذر کرتاہے اور ا س کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کا ارادہ کرے کہ معصیت کو انجام دیتا رہے، اور بعد میں توبہ کرلے گا تو وہ ایسی ذات کو دھوکہ و فریب دینا چاہتا ہے ، جو کسی کے دھوکے اور فریب میں آنے والی نہیں ، کہ وہ پہلے معصیتوں سے لذت حاصل کرتارہے اور بعد میں توبہ کرنے کے وعدے کرتا رہے کہ ایسے میں وہ کبھی بھی اپنے اس وعدے کو وفا نہیں کر سکتا، اس لئے کہ لذتوں اور خوشگوار زندگی سے ہاتھ اٹھانا اور توبہ کرنا وہ بھی اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں خاصہ مشکل ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ توبہ کے لئے آج و کل کرتا ہوا موت کے منہ تک پہنچ جائے اور بغیر توبہ کئے ہوئے اس دنیا سے کوچ کرجائے جس طرح سے کوئی مقروض جو ایک وقت میں قرض ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے ، لیکن قرض

۷۵

واپس دینے سے گریز کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کا تمام مال خرچ ہوجاتا ہے اور قرض اس کی گردن پر اُسی طرح باقی رہ جاتا ہے، پس اس لئے انسان کے لئے یہ بہتر ہے کہ اس کی عمر حیات اس ے پوشیدہ رہے ، تاکہ ساری زندگی موت کی فکر میں رہ کر معصیتوں کو چھوڑ دے اور نیک کام انجام دے ، اب اگر تم یہ کہو کہ جبکہ خداوند عالم نے انسان کی عمر حیات کو اس سے پوشیدہ رکھا اور انسان ہمیشہ اس کے انتظار میں ہے اس کے باوجود وہ برے کاموں کو انجام دیتا ہے، اور خدا کی حدود کا خیال نہیں کرتا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں تدبیر وہی ہے جو بیان کی گئی ہے بالآخر اگر انسان اس کے باوجود بھی گناہوں سے دوری اختیار نہیں کرتا تو یہ اس کے دل کی قساوت کا نتیجہ ہے تو ایسی صورت میں برائی طبیب کے لئے نہیں بلکہ مریض کے لئے ہے ، اس لئے کہ اس نے طبیب کی نافرمانی کی ہے اور جب انسان موت کے انتظار میں رہ کر گناہوں سے دوری نہیں کرتا ، تواگر اُسے اپنی طول زندگی کا پتہ چل جاتا اور مطمئن ہو جاتا تو پھر وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ، پس اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انتظار موت ہر حال میں بہتر ہے اور اگر کچھ لوگ موت سے غافل ہیں اور اُس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو مسلم طور پر دوسرے لوگ اس سے ضرور نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہیں ، اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ، فقراء و مساکین کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے بہترین چیزیں اور مختلف حیوانات کو ان کے لئے صدقہ کرتے ہیں ، لہٰذا یہ بات خلاف عدل ہے کہ اُن لوگوں کی خاطر جو انتظار موت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اُن لوگوں کو بھی اس أمر سے محروم کردیا جائے جو اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۷۶

( خواب میں حسن تدبیر )

اے مفضل۔ فکر کرو خواب پر کہ اس میں کیا تدبیر کار فرما ہے سچ ، جھوٹ میں ملا ہوا ہے اگر سب خواب سچے ہوتے تو تمام لوگ انبیاء ہوجاتے ، اور اگر سب کے سب خواب جھوٹے ہوتے تو خواب کے وجود سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور وہ ایک زائد و بے معنی چیز ہو کر رہ جاتی، کبھی وہ سچے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے وسیلے سے ہدایت پاتے ہیں، یا بعض خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے وسیلے سے انہیں خبر دار کیا جاتا ہے زیادہ تر خواب جھوٹے ہوتے ہیں تاکہ لوگ اس پر اعتقاد ِ کامل نہ رکھیں۔

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں )

اے مفضل۔ فکر کرو ان تمام چیزوں پر جو عالم میں موجود و مہیا ہیں، مٹی تعمیرات کے لئے ، لوہا صنعت کے لئے، لکڑ ی کشتی وغیرہ کے لئے، پتھر چکی وغیرہ کے لئے، پیتل برتن کے لئے، سونا و چاندی معاملات و ذخیرہ کے لئے ، دالیں غذا کے لئے، پھل لذت حاصل کرنے کے لئے،گوشت کھانے کے لئے، عطر خوشبو کے لئے، دوائیں مریض کی شفا کے لئے، چوپائے باربرداری کے لئے، سوکھی لکڑیاں جلانے کے لئے، خاکستر کلس(1) کے لئے، شن زمین کے لئے ، اور اس قسم کی بے انتہا چیزیں کہ جنہیں شمار کرنے والا اگر شمار کرنا چاہے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتا، کیا تم نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گھر میں داخل ہو جس میں وہ تمام چیزیں جو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں، آمادہ و ذخیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سنہری کلخی کہ جو گنبد کے نوک پر لگائی جاتی ہے۔

۷۷

ہوں، تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے، کہ یہ سب چیزیں محض اتفاق کا نتیجہ ہیں، اور بغیر قصد و ارادہ کے وجود میں آئی ہیں۔ لہٰذا کس طرح اُس شخص کو اس عالم اور بیان شدہ أشیاء کے بارے میں یہ اجازت دی جائے کہ وہ انہیں محض اتفاق کا نتیجہ کہے۔

اے مفضل ۔ عبرت حاصل کرو کس طرح چیزوں کو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، اور کس قسم کی تدبیر اُس میں رواں دواں ہے کہ اس نے دانے کو پیدا کیا کہ وہ انسان کے لئے غذا ہو۔ اور اس نے انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس کا آٹا بنائے، آٹے کا خمیر بنائے اور پھر اسے پکا کر روٹی بنائے، اُون کو لباس کے لئے خلق کیا اور انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس سے دھاگہ حاصل کرکے اسے سلائی اور کڑھائی کے استعمال میں لائے۔ درختوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ان کے اُگانے اور ان کی آبیاری و دیکھ بھال کے لئے انسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ دواؤں کو مریض کی شفا کے لئے خلق کیا گیا کہ مریض انہیں استعمال میں لاکر تندرستی حاصل کرے اور ان کے ملانے، اور بنانے پر انسان کو ذمہ دار بنایا، اور اس طرح کی دوسری وہ تمام چیزیں جنہیں تم دیکھتے ہو۔

ذرا غور کرو کس طرح بعض چیزوں کو مہیا کیا گیا ہے ، کہ جن کے اندر انسان کی فعالیت کا دخل نہیں ہے جبکہ بعض چیزوں میں انسان کے لئے فعالیت اور عمل کو رکھا ہے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے اگر تمام کام انسان کے لئے آمادہ ہوتے اور کوئی شغل باقی نہ رہتا تو انسان باغی ہوجاتا اور زمین اسے برداشت نہ کرتی، اس لئے کہ وہ زمین پر اس طرح کے کام انجام دیتا کہ خود اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ، اس کے علاوہ یہ کہ انسان کی زندگی خوشگوار اور لذت بخش نہ ہوتی۔ مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر مہمان کے طور پر جائے اور ایک مد ت تک وہ اس کے گھر قیام کرے اور جس چیز کی اُسے ضرورت ہو، مثلاً کھانے، پینے ، نوکر وغیرہ کی وہ سب اس کے لئے حاضر ہوں تو وہ اپنی فراغت کی

۷۸

وجہ سے تنگ آجاتا ہے اور اس کا نفس اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھے تو پھر کس طرح اس کی زندگی گزرتی جبکہ ساری زندگی اُسکی فراغت پر مشتمل ہوتی کہ تمام کام اس کے لئے آمادہ ہوتے، اور وہ کسی بھی چیز کا محتاج نہ ہوتا ، یہ حسن تدبیر ہے کہ جن چیزوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اُن میں اُس کے لئے فعالیت و عمل کو رکھا گیا ہے ، تاکہ اس کی فراغت اس کی سستی و کاہلی کا باعث نہ بنے اور ان کاموں میں مشغول رہنا اسے اُن کاموں کے انجام دینے سے بچاتا ہے کہ جن کے انجام دینے پر نہ وہ قادر ہے اور نہ ان میں اس کا کوئی فائدہ ہے ۔

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی )

اے مفضل۔ جان لو کہ انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ہے ، ذرا غور کرو کہ ان میں کس طرح تدبیر استعمال ہوئی ہے۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ انسان روٹی سے زیادہ پانی کا محتاج ہوتا ہے اور بھوک پر صبر پیاس پر صبر سے زیادہ کرسکتا ہے، اور جن چیزوں میں انسان پانی کا محتاج ہوتا ہے وہ روٹی کی احتیاج سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے کہ پانی پینے، وضو کرنے، غسل کرنے ، لباس دھونے ، چوپاؤں اور کھیتی کو سیراب کرنے اور اس قسم کی بہت سی ضروریات کے استعمال میں آتا ہے اسی وجہ سے پانی فراوان ہے اور خریدا نہیں جاتا ، تاکہ طلب آب کی زحمتیں انسان سے ساقط ہوجائیں، لیکن روٹی کو مشقت میں رکھا کہ وہ اسے اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ چارہ اندیشی اور فعالیت سے کام نہ لے، اس لئے کہ انسان کے لئے کوئی شغل ہو کہ جو اسے فراغت ، بیکاری ، فالتو اور بے ہودہ کاموں سے بچائے رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ ادب سیکھنے سے پہلے ہی معلم کے سپرد کردیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی بچہ ہے اور ابھی اس کی قوت فہم اور ادراک تعلیم کے لئے کامل نہیں ، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیہودہ اور فضول کاموں سے محفوظ رہے، اور زیادہ کھیل کود اور بیکار کاموں

۷۹

سے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو زحمت میں نہ ڈالے ، اسی طرح اگر انسان کے پاس کوئی شغل نہ ہوتا تو وہ شرارت اور بیہودہ کاموں کی طرف کھینچا چلا جاتا اور تم اس مطلب کو اس شخص کی زندگی سے درک کرسکتے ہو جو امیرانہ اور خوشگوار زندگی بسر کرتا ہوکہ کس قسم کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ انسان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں جس طرح سے پرندے اور جانور آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں کہ ہرنوں اور پرندوں کو ایک دوسرے سے پہچانا نہیں جا سکتا، لیکن اگر تم انسانوں کو دیکھو تو وہ شکل و صورت اور خلقت میں مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ تم دو آدمیوں کو بھی ایک جیسا نہیں پاؤگے، اس لئے کہ انسان اپنی زندگی میں جسمانی اور صفات کے اعتبار سے پہچانے جانے کا محتاج ہے۔ اس لئے کہ ان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہیں لیکن حیوانات کے درمیان کسی بھی قسم کے معاملات طے نہیں ہوتے کہ جس کی وجہ سے وہ پہچانے جانے کے محتاج ہوں، اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ پرندوں کا ایک دوسرے سے شبیہ ہونا ان کے لئے کسی قسم کے ضرر کا باعث نہیں بنتا ، لیکن انسان ہرگز اس طرح نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر دو آدمی ایک دوسرے کی شبیہ ہوں تو لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا معاملات میں ایک کو دوسرے کے بدلے لے لیا جاتا ہے، اور ایک کو دوسرے کے بدلے میں بے گناہ گرفتار کرلیتے ہیں اور کبھی یہ شباہت دوسرے کاموں میں بھی مداخلت کا باعث بنتی ہے وہ کون ہے؟ جس نے صحیح راہ کی تشخیص کے لیے اپنے بندوں پر لطف کیا اور ایسے لطیف کام انجام دیئے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جس کی رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اگر تم ایک تصویر کو دیوار پر نقش دیکھو اور کوئی تم سے کہے کہ اس تصویر کا کوئی بنانے والا نہیں ہے بلکہ خود بخود وجود میں آئی ہے تو کیا تم

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307