انسان شناسی

انسان شناسی12%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146118 / ڈاؤنلوڈ: 4873
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

یہ دونوں نظریات ، پوری تاریخ بشر میں نسبی یا مطلق طور پر انسانوں پر حاکم رہے ہیں، لیکن اس حاکمیت کی تاریخی سیر کے متعلق تجزیہ و تحلیل ہمارے ہدف کے پیش نظر ضروری نہیں ہے اور اس کتاب کے دائرہ بحث سے خارج ہے ۔لہٰذا پہلے نظریہ کی حاکمیت کے سلسلہ کی آخری کڑی کی تحقیق کریں گے جو تقریباً ۱۴سو سال سے ہیومنزم(۱) یا انسان مداری کے عنوان سے مرسوم ہے ،اور ۶سو سالوں سے خصوصاً آخری صدیوں میں اکثر سیاسی ، فکری اور ادبی مکاتب اس بات سے متفق ہیں کہ ہیومنزم نے مغرب کو اپنے اس نظریہ سے کاملاً متاثر کیا ہے اور بعض مذاہب الٰہی کے پیروکاروں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر جذب کرلیا ہے۔

ہیومنزم کا مفہوم و معنی

اگرچہ اس کلمہ کے تجزیہ و تحلیل اور اس کے معانی میں محققین نے بہت ساری بحثوں اور مختلف نظریوں کو بیان کیا ہے اور اپنے دعوے میں دلیلیں اور مثالیں بھی پیش کی ہیں ،لیکن اس کلمہ کی لغوی تحلیل و تفسیر اور اس کا ابتدائی استعمال ہمارے مقصد کے سلسلہ میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ لہٰذا اس لغوی تجزیہ و ترکیب کے حل و فصل کے بغیر اس مسئلہ کی حقیقت اور اس کے پہلوؤں کی تحقیق کی جائے گی، اس لئے ہم لغت اوراس کے تاریخی مباحث کے ذکرسے صرف نظر کرتے ہیں ، اور اس تحریک کے مفہوم و مطالب کی تاریخی و تحلیلی پہلو سے بحث کرتے ہیں جو آئندہ مباحث کے محور کو ترتیب دیتے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) Humanism

(۲)کلمہ ہیومنزم کے سلسلہ میں لغت بینی اور تاریخی معلومات کے لئے ۔ملاحظہ ہو

. احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ، ص ۸۳،۹۱۔ .لالانڈ آنڈرہ، فرہنگ علمی و انتقادی فلسفہ کلمۂ Humanism کے ذیل میں

. Lewis W, spitz Encyclopedia of Religion

Abbagnano, Nicola Encyclopedia of Philosophy

۴۱

''ہیومنزم '' ہر اس فلسفہ کو کہتے ہیں جو انسان کے لئے مخصوص اہمیت و منزلت کاقائل ہو اور اس کو ہر چیزکے لئے میزان قرار دیتا ہو، تاریخی لحاظ سے انسان محوری یاہیومنزم ایک ادبی ، سماجی ، فکری اور تعلیمی تحریک تھی، جو چند مراحل کے بعد سیاسی ، اجتماعی رنگ میں ڈھل گئی تھی ، اسی بنا پراس تحریک نے تقریباً سبھی فلسفی ، اخلاقی ، ہنری اور ادبی اور سیاسی مکاتب کو اپنے ماتحت کرلیا تھا یا یوں کہا جائے کہ یہ تمام مکاتب (دانستہ یا نادانستہ ) اس میں داخل ہو گئے تھے ، کمیونیزم(۱) سودپرستی(۲) مغربی روح پرستی(۳) شخص پرستی(۴) وجود پرستی(۵) آزاد پرستی(۶) حتی پیرایش گری(۷) لوتھرمارٹن(۸) (مسیحیت کی اصلاح کرنے والے ) کے اعتبار سے سبھی انسان محوری میں شریک ہیں اوران میں ہیومنزم کی روح پائی جاتی ہے۔(۹) یہ تحریک عام طور پر روم اور یونان قدیم سے وابسطہ تھی ۰ ) اور اکثر یہ تحریک غیر دینی اور اونچے طبقات نیز روشن فکر حلقہ کی حامی و طرفدار رہی ہے ،(۱۱) جو ۱۳ویں صدی کے اواخر میں جنوب اٹلی میں ظاہر ہوئی، اور پورے اٹلی میں پھیل گئی،اس کے بعد جرمن ، فرانس ، اسپین اور انگلیڈ میں پھیلتی چلی گئی اور مغرب میں اس کوایک نئے سماج کے روپ میں شمار کیا جانے لگا ۔عقیدہ ٔ انسان مداری، اس معنی میں بنیادی ترین ترقی(۱۲) کا پیش خیمہ ہے اور ترقی پسندمفکرین، انسان کو مرکز ومحور بنا کر عالم فطرت اور تاریخ کے زاویہ سے

____________________

(۱) communism

(۲) pragmatism

(۳) spiritualism

(۴) Personalism

(۵) existentialism

(۶) Liberalism

(۷) protestantism

(۸) Luther,Martin

(۹)لالاند ، آندرہ ،گذشتہ حوالہ۔ (۱۰)پٹراک ( Francesco Petratch ) اٹلی کا مفکر و شاعر ( ۱۳۰۴۔ ۱۳۷۴) سوال کرتا تھا '' تاریخ روم کی تحلیل و تفسیرکے علاوہ تاریخ کیا ہوسکتی ہے ؟ملاحظہ ہو: احمدی ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۹۲و ۹۳. بیوراکہارٹ ( Burackhardt Jacob )(۱۸۱۸۔۱۸۹۷)کہتا تھا :'' آتن''ہی وہ تنہادنیا کی سند تاریخ ہے جس میں کوئی صفحہ رنج آور نہیں ہے ،ہگل کہتا تھا : یورپ کے مدہوش لوگوں میں یونان کا نام ، وطن دوستی تھا۔ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ترجمہ عباس فجر ؛ ص ۱۷،۲۱،۲۳۔(۱۱)مفکرین کی حکومت سے مراد لائق لوگوں کا حاکم ہونا نہیں ہے بلکہ معاشرہ کے اونچے طبقات کی حکومت ہے ۔(۱۲) Renaissance

۴۲

انسان کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان محوری کا رابطہ روم اور قدیم یونان سے تھا اور انسان کو محور قرار دے کر گفتگو کرنے والوں کا خیال یہ تھاکہ انسان کی قابلیت ، لیاقت روم او ر قدیمیونان کے زمانہ میں قابل توجہ تھی ، چونکہ قرون وسطی میں چشم پوشی کی گئی تھی ، لہٰذا نئے ماحول میں اس کے احیاء کی کوشش کی جانی چاہیئے ،ان لوگوں کا یہ تصور تھا کہ احیاء تعلیم و تعلم کے اہتمام اور مندرجہ ذیل علوم جیسے ریاضی ، منطق ، شعر ، تاریخ ، اخلاق ، سیاست خصوصاً قدیمیونان اور روم کی بلاغت و فصاحت والے علوم کے رواج سے انسان کو کامیاب و کامران بنایا جاسکتا ہے جس سے وہ اپنی آزادی کا احساس کرے ، اسی بنا پر وہ حضرات جو مذکورہ علوم کی تعلیم دیتے تھے یا اس کے ترویج و تعلیم کے مقدمات فراہم کرتے تھے انہیں''ہیومنیسٹ '' کہا جاتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو:ڈیوس ٹونی : ہیومنزم: ص ۱۷۱؛ Abbagnano Nicola lbid

۴۳

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب و علل کے بارے میں بحث و تحقیق مزید وضاحت کی طالب ہے لیکن یہاں فقط دو اہم علتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ۔

ایک طرف تو بعض دینی خصوصیات اور کلیسا ئی نظام کی حاکمیت مثلاً مسیحیتکے احکام اور بنیادی عقائد کا کمزور ہونا ،فہم دین او راس کی آگاہی پر ایمان کے مقدم ہونے کی ضرورت ، مسیحیت کی بعض غلط تعلیمات جیسے انسان کو فطرتاً گنہگار سمجھنا ،بہشت کی خرید و فروش ، مسیحیت کاعلم و عقل کے خلاف ہونا ، علمی و عقلی معلومات پر کلیسا کی غیر قابل قبول تعلیمات کو تحمیل کرنا وغیرہ نے اس زمانے کے رائج و نافذ دینی نظام یعنی مسیحیتکی حاکمیت سے رو گردانی کے اسباب فراہم کئینیز روم او رقدیم یونان کو آئیڈیل قرار دیا کہ جس نے انسان اور اس کی عقل کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔

۴۴

اور دوسری طرف بہت سے ہیومنیسٹ حضرات نے جو صاحب قدرت مراکز سے مرتبط تھے اور دین کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں سر سخت مانع سمجھ رہے تھے گذشتہ گروہوں کی حکومت کے لئے راہ حل مہیا کرنے میں سیاسی تبدیلی اور تجدد پسندی کی(۱) عقلی تفسیراور اس کے منفی مشکلات کی توجیہ کرنے لگے،'' ڈیوس ٹونی''(۲) کے بقول وہ لوگ ؛سات چیزوں کے ماڈرن پہلوؤں کی توجیہ ، دین اور اس کی عظمت و اہمت پر حملہ اور کلیسائی نظام کو اپنا طریقۂ کار قراردینا(۳) اور عوام کی ذہنیت کو دین اور دینی علماء سے خراب کرنا نیزدین کی سیاست اور اجتماع سے جدائی کی ضرورت پر کمربستہ ہوگئے ۔ مذکورہ دوسبب سے اپنی حفاظت کی تلاش میں کلیسا،اجتماع اور سیاست کے میدان سے دین کے پیچھے ہٹ جانے کا ذریعہ بنا ،اس تحریک میں دین اور خدا کے سلسلہ میں نئی نئی تفسیریں جیسے خدا کوماننالیکن دین اور تعلیمات مسیحیت کا انکار کرنا، دین میں شکوک وبدعتیں(۴) نیز کسی بھی دین اور اس کی عظمت و اہمیت میں تسامح و تساہل(۵) ، دینی قداست اور اقدار کے حوالے سے(۶) مختلف طریقۂ عمل اور نئے انداز میں تعلیمات دینی کی توضیح و تفسیر شروع ہوگئی ۔

ہیومنزم کے اجزا ئے ترکیبی اور نتائج(۷)

ہیومنزم کی روح اورحقیقت ،جو ہیومنزم کے مختلف گروہوں کے درمیان عنصر مشترک کو تشکیل دیتی ہے اورہر چیز کے محور و مرکز کے لئے انسان کو معیار قرار دیتی ہے(۸) اگر اس گفتگو کی منطقی ترکیبات

____________________

(۱) Modernity

(۲) Davis,Toni

(۳)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ص ۱۷۱

(۴) Religious Ploralism

(۵) Tolerance

(۶) Protestantism

(۷)ماڈرن انسان کے متنوع ہونے اور ہر گروہ کے مخصوص نظریات کی بناپر ان میں سے بعض مذکورہ امور ہیومنزم کے ائتلاف میں سے ہے اوربعض دوسرے امور اس کے عملی نتائج و ضروریات میں سے ہیں ۔ قابل ذکر یہ ہے کہ نتائج سے ہماری مراد عملی و عینی نتائج و ضروریات سے اعم ہے ۔

(۸)لالانڈ ، آنڈرہ ،گذشتہ مطلب ، ڈیوس ٹونی ،گذشتہ مطلب ،ص۲۸۔

۴۵

اور ضروریات کو مدنظر رکھا جائے توجو معلومات ہمیں انسان محوری سے ملی ہے ہمارے مطلب سے بہت ہی قریب ہے ،یہاںہم ان میں سے فقط چار کی تحقیق و بررسی کریں گے ۔

عقل پرستی(۱) اور تجربہ گرائی(۲)

ہیومنزم کی بنیادی ترکیبوں میں سے ایک عقل پرستی ، خود کفائی پر اعتقاد، انسانی فکر کااپنی شناخت میں آزاد ہونا ، وجود ، حقیقی سعادت اور اس کی راہ دریافت ہے ۔(۳) معرفت کی شناخت میں ہیومنیسٹ افراد کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسی کوئی چیزنہیں ہے جو فکری توانائی سے کشف کے قابل نہ ہواسی وجہ سے ہر وہ موجود کہ جس کی شناخت کے دو پہلو تھے ، ماوراء طبیعت جیسے خدا ، معاد ، وحی اور اعجاز وغیرہ (جس طرح دینی تعلیمات میں ہے ) اس کو وہ لوگ غیرقابل اثبات سمجھتے تھے ۔ اور اہمیت شناخت میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ حقوقی ضرورتوں کو انسان کی عقل ہی کے ذریعہ معین کرنا چاہیئے۔ ہیومنزم ایک ایسی تحریک تھی جو ایک طریقہ سے اس سنتی آئین کے مد مقابل تھی جو دین و وحی سے ماخوذ تھے اسی بنا پر پہ ہیومنزم ، دین کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتاہے ۔(۴) انسانی شان و منزلت کے نئے نئے انکشافات سے انسان نے اپنی ذات کو خدا پرست کے بجائے عقل پرست موجود کا عنوان دیا، علم پرستی یا علمی دیوانگی(۵) ایسی ہی فکر کا ماحصل ہے ۔ ہیومنیسٹ حضرات اٹھارہویں صدی میں ہیوم(۶) (۱۷۱۱۔ ۱۷۷۶) کی طرح معتقد تھے کہ کوئی ایسا اہم سوال کہ جس کا حل علوم انسانی میں نہ ہو(۷) وجود نہیںرکھتا ہے ۔ اومنیسٹ حضرات کی قرون وسطی سے دشمنی اور یونان قدیم سے گہرا رابطہ بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہ لوگ یونان قدیم کو تقویتِ عقل اور قرون وسطی کو جہل و خرافات کی حاکمیت کا دور سمجھتے تھے ۔

____________________

(۱) Scientism

(۳) Empiricism

(۲) Rationalism

(۴) Abbagnano

(۵) lbid

Hume, David (۶ )

(۷)ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ص ۱۶۶۔

۴۶

یہ عقل اور تجربہ پرستی کی عظیم وسعت ، دین و اخلاق کے اہم اطراف میں بھی شامل ہے ۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ سبھی چیز منجملہ قواعد اخلاقی، بشر کی ایجاد ہے اور ہونا بھی چاہئے۔(۱) والٹرلپمن(۲) کتاب ''اخلاقیات پر ایک مقدمہ ''(۳) میں لکھتا ہے کہ ہم تجربہ میں اخلاقی معیار کے محتاج ہیں اس انداز میں زندگی بسر کرنا چاہیئے جو انسان کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ ایسانہ ہو کہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے منطبق کریں بلکہ شرائط سعادت کے اعتبار سے انسان کے ارادہ کواچھی شناخت سے منطبق ہو نا چاہیئے۔(۴)

استقلال

ہیومنیسٹ حضرات معتقد ہیں کہ : انسان دنیا میں آزاد آیا ہے لہٰذا فقط ان چیزوںکے علاوہ جس کووہ خود اپنے لئے انتخاب کرے ہر قید و بند سے آزاد ہونا چاہئے ۔ لیکن قرون وسطی کی بنیادی فطرت نے انسان کو اسیر نیزدینی اور اخلاقی احکام کو اپنے مافوق سے دریافت شدہ عظیم چیزوں کے مجموعہ کے عنوان سے اس پر حاکم کردیا ہے،(۵) ہیومنزم ان چیزوں کو ''خدا کے احکامات اور بندوں کی پابندی '' کے عنوان سے غیر صحیح اور غیر قابل قبول سمجھتے ہیں ۔(۶) چونکہ اس وقت کا طریقہ کار اور نظام ہی یہ تھا کہ قبول کیا جائے اور ان کی تغییر اور تبدیلی کا امکان بھی نہ تھا ۔(۷) لہٰذا یہ چیز یں ان کی نظر میں انسان کی آزادی اور استقلال

____________________

(۱)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۲) Walter lippmann

(۳) A Preface to morals

(۴)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ ۔

(۵) Abbagnano, Nicola, lbid

(۶)آربلاسٹر لکھتا ہے : ہیومنزم کے اعتبار سے انسان کی خواہش اور اس کے ارادے کی اصل اہمیت ہے ، بلکہ اس کے ارادے ہی ، اعتبارات کا سر چشمہ ہیںاور دینی اعتبارات جو عالم بالا میں معین ہوتے ہیں وہ انسان کے ارادے کی حد تک پہونچ کر ساقط ہو جاتے ہیں ،(آربلاسٹر، آنتھونی ؛ ظہور و سقوط لبرلیزم ؛ ص ۱۴۰)

(۷)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

۴۷

کے منافی تھیں ۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ انسان کو اپنی آزادی کوطبیعت و سماج میں تجربہ کرنا چاہیئے اور خود اپنی سرنوشت پر حاکم ہونا چاہیئے ،یہ انسان ہے جو اپنے حقوق کو معین کرتا ہے نہ یہ کہ مافوق سے اس کے لئے احکام و تکالیف معین ہوں۔ اس نظریہ کے اعتبار سے انسان حق رکھتا ہے اس لئیاس پرکوئی تکلیف عائد نہیں ہوتی ۔ بعض ہیومنزم مثلاً'' میکس ہرمان ''(۱) جس نے شخص پرستی کو رواج دیا تھا اس نے افراط سے کام لیا وہ معتقد تھا کہ : لوگوں کو اجتماعی قوانین کا جو ایک طرح سے علمی قوانین کی طرح ہیںپابند نہیں بنانا چاہیئے،(۲) وہ لوگ معتقد تھے کہ فقط کلاسیکل ( ترقی پسند) ادبیات نے انسان کی شخصیت کو پوری طرح سے فکری اور اخلاقی آزادی میں پیش کیا ہے۔(۳) اس لئے کہ وہ ہر شخص کو اجازت دیتا ہے کہ جیسا بھی عقیدہ ونظریہ رکھنا چاہتا ہے رکھ سکتا ہے اوردستورات اخلاقی و حقوقی کوایک نسبی امر، قابل تغییر اور ناپایدار بتایا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ سیاسی ، اخلاقی اور حقوقی نظام کو انسان اور اس کی آزادی کے مطابق ہونا چاہئے ۔ وہ نہ صرف دینی احکام کو لازم الاجراء نہیں جانتے تھے بلکہ ہر طرح کا تسلط اور غیر ہیومنزم چیزیں منجملہ قرون وسطی کے بنیادی مراکز (کلیسا ، شہنشاہیت(۴) ، اور قبیلہ والی حکومتیں یا حکام و رعیت ) کو بالکل اسی نقطۂ نگاہ کی بناپر بے اہمیت وبے اعتبار جانتے تھے ۔(۵)

____________________

(۱) Herman,Max

(۲)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۳۴۔

(۳)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۴) imperial

(۵) Feudaism

۴۸

تساہل و تسامح

۱۶و ۱۷ ویں صدی کی دینی جنگوں کے نتیجہ میں صلح و آشتی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے امکان پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو او رتساہل و تسامح(سستی و چشم پوشی ) کی تاکید ہوئی ہے، اور دینی تعلیمات کی وہ روش جو ہیومنزم کا احترام کرتی تھیں تساہل و تسامح کی روش سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، اس نظریہ میں تسامح کا مطلب یہ تھا کہ مذاہب ایک دوسرے سے اپنے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے باہم صلح و آتشی سے زندگی گذار سکیں ، لیکن جدید انسان گرائی کے تساہل و تسامح سے اس فکر کا اندازہ ہوتاہے کہ انسان کے دینی اعتقادات اسی کی ذات کا سر چشمہ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ ان اعتقادات کے اندر ،بنیادی اور اساسی چیز وحدت ہے کہ جس میں عالمی صلح کا امکان موجود ہے، ہیومنیسٹ اس دنیا کے اعتبار سے خدا کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ : مسیح کا خدا وہی فلسفی بشر کی عقل ہے جو مذہب کی شکل میں موجود ہے۔(۱) اس زاویہ نگاہ سے مذاہب میں تساہل یعنی ، مسالمت آمیز زندگی گزارنے کے علاوہ فلسفہ اور دین کے درمیان میں بھی تساہل موجود ہے ، جب کہ یہ گذشتہ ایام میں ایک دوسرے کے مخالف تھے ۔ یہ چیز قدیم یونان اور اس کی عقل گرائی کی طرف رجوع کی وجہ نہیں تھی ۔ یہ نظریہ جو ہر دین اور اہم نظام کی حقانیت اور سعادت کے انحصاری دعوے پر مبنی ہے کسی بھی اہم نظام اور معرفت کو حق، تسلیم نہیں کرتا اور ایک طرح سے معرفت اور اہمیت میں مخصوص نسبت کا پیروکار ہے اسی بنا پر ہر دین اور اہم نظام کی حکمرانی فقط کسی فرد یا جامعہ کے ارادہ اور خواہش پر مبنی ہے ۔

سکولریزم(۲)

اگرچہ ہیومنزم کے درمیان خدا اور دین پر اعتقاد رکھنے والے افراد بھی ہیںاور انسان مداری (انسان کی اصالت کا قائل ہونا)کو مومن اور ملحد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہیومنزم کو بے دین اور دشمن دین نہ سمجھیں تو کم از کم خدا کی معرفت نہ رکھنے والے اور منکر دین ضرور ہیں، اور ہیومنزم کی تاریخ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ خدا کی اصالت کے بجائے انسان کو اصل قرار دینا ہی باعث بناکہ ہیومنزم افراد قدم بہ قدم سکولریزم اورالحادنیزبے دینی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ خدا اور دینی تعلیمات کی جدید تفسیر کہ جس کو ''لوٹر ''جیسے افراد نے بیان کیاہے کہ خدا کو ماننا نیزخدا او ردین آسمانی کی مداخلت سے انکار

____________________

(۱) ibid

(۲) Secularism

۴۹

منجملہ مسیحی تعلیم سے انکار ، طبیعی دین ( مادّی دین ) اور طبیعی خدا گرائی کی طرف مائل ہونا جسے ''ولٹر''(۲) (۱۷۷۸۔۱۶۹۴ )اور ''ہگل ''(۳) (۱۸۳۱۔۱۷۷۰ )نے بھی بیان کیا ہے،اور '' ہیکسلی ''(۴) جیسے افراد کی طرف سے دین اور خدا کی جانب شکاکیت کی نسبت دینااور'' فیور بیچ ''(۵) (۱۸۳۳۔۱۷۷۵) ''مارکس ''(۶) ( ۱۸۸۳۔۱۸۱۸)نیز ملحد اور مادہ پرستوں نے دین اور خدا کا بالکل انکار کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ ایسے مراحل ہیں جنہیں ہیومنزم طے کرچکا ہے ۔البتہ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ہگل جیسے افراد کے نزدیک اس خدا کا تصورجو ادیان ابراہیمی میں ہے بالکل الگ ہے ۔دین اور خدا کی وہ نئی تفسیرجو جدید تناظر میں بیان ہوئی ہیں وہ ان ادیان کی روح سے سازگار نہیں ہے اور ایک طرح سے اندرونی طورپردینی افکارو اہمیت کی منکر اورانہیںکھوکھلا کرنے والی ہیں۔ بہر حال ہیومنزم کی وہ قسم جو مومن ہے اس کے اعتبار سے بھی خدا اور دین نقطہ اساسی اور اصلی شمار نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانوں کی خدمت کے لئے آلہ کے طور پر ہیں،یہ انسان ہے جو اصل اور مرکزیت رکھتا ہے ،ڈیوس ٹونی لکھتا ہے : یہ کلمہ (ہیومنزم ) انگلیڈ میں یکتا پرستی(۷) حتی خدا شناسی سے ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اور یہ قطعا مسیحیوں اور اشراقیوں کی موقعیت سے سازگار نہیں تھا، عام طورپر یہ کلمہ الہی تعلیمات سے ایک طرح کی آزادی کا متضمن تھا ۔ ت.ھ. ہیکسلی(۸) ڈاروینزم کا برجستہ مفکر اور چارلز بریڈلیف(۹) قومی سکولریزم کی انجمن کے مؤسس نے روح یعنی اصل ہیومنزم کی مدد کی اور اس کو فروغ بخشا تاکہ اس کے ذریعہ

____________________

(۱) Deism

(۲) Voltaire

(۳) Hegel,Friedrich

(۴) Huxley,Julian

(۵) Feuerbach, von Anseim

(۶) Mark, karl .(۷)یکتا پرستی یا توحید ( Unitarianism )سے مراد مسیحیت کی اصلاح کرنے والے فرقہ کی طرف سے بیان کئے گئے توحید کا عقیدہ ہے جو کاٹولیک کلیسا کی طرف سے عقیدہ ٔ تثلیث کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اوریہ ایک اعتبار سے مسیحیت کی نئی تفسیر تھی جوظاہراً مقدس متون کی عبارتوں سے ناسازگار اور مسیحی مفکرین کی نظر میں دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھی ۔ اورعام طور پر یہ کلمہ الٰہی تعلیمات سے آزادی کا متضمن تھا ۔

(۸) Thomas,Henry,Hexley

(۹)وہ پارلیمنٹ کا ممبر اور National Reformer نشریہ کا مدیر اعلیٰ تھا جس نے قسم کھانے کی جگہ انجیل کی تائید کے سلسلہ میں مجلس عوام سے ۶۰ سال تک مقدمہ لڑا۔

۵۰

سرسخت مسیحیت کے آخری توہمات کو بھی ختم کردے ۔(۱) نیز وہ اس طرح کہتا ہے کہ : ''ا گسٹ کانٹ''(۲) کے مادی اور غیر مادی افکار کے اقسام سے عناد، عوام پسند ہیومنزم کے مفہوم کا یکتا پرستی یا الحاد اور سکولریزم میں تبدیلی کا باعث ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اور اس کی تحریک کو ۱۹ویں صدی میں تاسیس انجمنوں کے درمیان مشاہدہ کیا جاسکتا ہے(۳) مثال کے طور پر عقل گرا(اصالت عقل کے قائل )مطبوعاتی ، اخلاقی اور قومی سکولریزم کی انجمنیں۔''ڈیوس ٹونی''اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں مسیحی ہیومنزم مومنین کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مسیحیت اور ہیومنزم کا پیوند اختلافات سے چشم پوشی کرکے انجام پایا جس کی وجہ سے مسیحی ہیومنزم کی ناپایدار ترکیب میں فردی ہیومنزم کے نقش قدم موجود تھے ۔ یعنی خداوند متعال جوہر چیز پر قادر ہے اور کالون کی ہر چیز سے باخبرہے اور فردی ارادہ کی آزادی کے درمیان تناقض،ایسے تناقض ہیں جو ''فیلیپ سیڈنی(۴) ، اڈموند اسپنسر(۵) کریسٹو فرمارلو(۶) ، جان ڈان(۷) اور جان ملٹن''(۸) جیسے اصلاح گرہیومنیسٹ کی عبارتوں میں جگہ جگہ ملتاہے ۔(۹) محمد نقیب العطاس بھی لکھتا ہے : ''نظشے '' کا نعرہ ''کہ خدا مرگیا ہے '' جس کی گونج آج بھی مغربی دنیا میں سنی جاسکتی ہے اور آج مسیحیت کی موت کا نوحہ خصوصاً پروٹسٹوں یعنی اصلاح پسندوں کی طرف سے کہ جنہوں نے ظاہراً اس سر نوشت کو قبول کرتے ہوئے مزید آمادگی سے زمانے کے ساتھ ساتھ طریقۂ مسیحیت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ اس کاعقیدہ ہے کہ اصلاح پسندوںنے ہیومنزم کے مقابلہ میں عقب نشینی کے ذریعہ مسیحیت کودرونی طور پر بدل دیا ہے۔ ۰ ) ''ارنسٹ کیسیرر ''دور حاضر میں اصلاحات (رسانس) پر جاری تفکر کی توصیف میں جو

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ؛ ص ۳۷۔(۲) August,conte

(۳)گذشتہ حوالہ ، ص ۴۱۔(۴) Philip,sidney

(۵) Edmund, spenser

(۶) Chirs topher Marlowe

(۸) John,Don

(۹) John,Milton

(۱۰)العطاس ، محمد نقیب ، اسلام و دینوی گری ، ترجمہ احمد آرام ؛ ص ۳ و ۴۔

۵۱

ہیومنزم سے لیا گیا ہے اور اس سے ممزوج و مخلوط ہے لکھتا ہے :ایسا لگتا ہے کہ تنہا وسیلہ جو انسان کو تعبداور پیش داوری سے آزاد اور اس کے لئے حقیقی سعادت کی راہ ہموار کرتا ہے وہ پوری طرح سے مذہبی اعتقاد اور اقدار سے دست بردار ہونا اور اس کو باطل قرار دینا ہے ، یعنی ہر وہ تاریخی صورت کہ جس سے وہ وابستہ ہے اور ہر وہ ستون کہ جس پر اس نے تکیہ کیا ہے اس کی حاکمیت کی تاریخ اور عملی کارکردگی کے حوالے سے اس کے درمیان بہت گہرا فاصلہ ہے کہ جس کو ہیومنزم کے نظریہ پر اساسی و بنیادی تنقید تصور کیا جاتا ہے اور دور حاضر میں اصلاحات کی عام روش ، دین میں شکوک اور تنقید کا آشکار انداز ہے ۔(۱)

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق

فکرو عمل میں تناقض

فکرو عمل میں تناقض یعنی ایک فکری تحریک کے عنوان سے ہیومنزم کے درمیان اورانسانی معاشرہ پر عملی ہیومنزم میں تناقض نے انسان کی قدر و منزلت کو بلند و بالا کرنے کے بجائے اس کو ایک نئے خطرے سے دوچارکردیا اور انسان پرستی کے مدعی حضرات نے اس کلمہ کو اپنے منافع کی تامین کے لئے غلط استعمال کیاہے۔ شروع ہی میں جب حق زندگی ، آزادی و خوشی اور آسودگی کے تحت ہیومنزم میں انسانی حقوق کے عنوان سے گفتگو ہوتی تھی تو ایک صدی بعد تک امریکہ میں کالوں کو غلام بنانا قانونی سمجھا جاتاتھا ۔(۲) اور معاشرہ میں انسانوں کی ایک کثیر تعداد ماڈرن انسان پرستی کے نام سے قربان ہوتی تھی۔(۳) ''نازیزم''(۴) ''فاشیزم''(۵) اسٹالینزم(۶) امپریالیزم(۷) کی تحریکیں،ہیومنزم کی ہم فکراور ہم خیال تھیں(۸) اسی بنا پر بعض مفکرین نے ضد بشریت ، انسان مخالف تحریک

____________________

(۱)کیسیرر ، ارنسٹ؛ فلسفہ روشنگری؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، ص ۲۱۰۔

(۲)احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۱۱۱۔ ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص ۳۶۔

(۳)گذشتہ حوالہ ،ص ۲۰(۸)ڈیوس ٹونی،وہی مدرک ،ص ۹،۵۴،۶۴،۸۴۔

(۴) Nazism

(۵) Fascism

(۶) Stalinism

(۷) Imperialism

۵۲

دھوکا دینے والی باتیں ، ذات پات کی برتری کی آواز جیسی تعبیروں کو نازیزم اور فاشیزم کی ایجاد جانا ہے اور ان کو انسان مخالف طبیعت کو پرورش دینے نیز مراکز قدرت کی توجیہ کرنے والا بتایا ہے ۔(۱) اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی جرم ایسا ہو جو انسانیت کے نام سے انجام نہ پایا ہو ۔(۲)

ہیومنزم کے ناگوار نتائج اور پیغامات ایسے تھے کہ بعض مفکرین نے اس کو انسان کے لئے ایک طرح کا زندان و گرفتاری سمجھا اور اس سے نجات پانے کے لئے لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے ۔(۳)

فکری حمایت کا فقدان

ہیومنزم کے دعوے کا اور ان کے اصول کا بے دلیل ہونا، ہیومنزم کا دوسرا نقطہ ضعف ہے ۔ ہیومنیسٹ ا س سے پہلے کہ دلیلوں و براہین سے جس کا دعویٰ کر رہے تھے نتیجہ حاصل کرتے، کلیسا کی سربراہی کے مقابلہ میں ایک طرح کے احساسات و عواطف میں گرفتار ہوگئے ،چونکہ فطرت پرستی سے بے حد مانوس تھے لہٰذا روم و قدیم یونان کے فریفتہ و گرویدہ ہوگئے ۔ ''ٹامس جفرسن''(۴) نے امریکا کی آزادی کی تقریر میں کہاہے کہ :ہم اس حقیقت کو بدیہی مانتے ہیں کہ تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیں ۔(۵)

''ڈیوس ٹونی '' لکھتا ہے کہ : عقلی دور(ترقی پسند زمانہ) کا مذاق اڑانے والی اور نفوذ والی کتاب جس نے محترم معاشرہ کو حتی حقوق بشر کی کتاب سے زیادہ ناراض کیا ہے، وہ مقدس کتاب ہے جو عالم آخرت کے حوادث اور سرزنش سے بھری ہوئی ہے،اس کا طریقہ اور سیاق و سباق تمام مسخروں اور مذاق اڑانے والوں کا مسخرا کرناہے ۔ بعض اومانٹسٹ حضرات نے بھی ہیومنزم کی حاکمیت کی توجیہ کی اوراسے اپنے منافع کی تامین کا موقع و محل سمجھا ۔

____________________

(۱)ملاحظہ ہو گذشتہ حوالہ ص ۲۷۔۳۶، ۴۵۔۴۶،۵۴۔۶۲،۶۴،۸۴۔۹۴،۱۴۷۔۱۷۸ واحدی ، بابک گذشتہ حوالہ ص ۹۱۔۹۳، ۱۱۰،۱۲۲.

(۲)احمدی ، بابک ، گذشتہ حوالہ ص ۱۱۲۔

(۳)ڈیوس ٹونی ، گذشتہ حوالہ ،۱۷۸۔

(۴) Thomas, Jeferson

(۵) گذشتہ حوالہ ، ص ۱۱۰۔

۵۳

ہیومنیسٹ کی طرف سے بیان کئے گئے کلی مفاہیم کے بارے میں ''ڈیوس ٹونی ''یہ جانتے ہوئے کہ اس کو منافع کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے لکھتا ہے کہ : اس میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ خود سے سوال کرے کہ : اس عظیم دنیا میں بلند مفاہیم کے پشت پردہ کون سا شخصی اور محلی فائدہ پوشیدہ ہے؟(۱) مجموعی طور پر ہیومنیسٹ، انسان کی قدر و منزلت اور فکری اصلاح کے لئے کوئی پروگرام یا لائحہ عمل طے نہیں کرتے تھے بلکہ گذشتہ معاشرہ کی سرداری کے لئے بہت ہی آسان راہ حل پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ...''لیونارڈو برونی ''(۲) نے لکھا تھا کہ : تاریخی تحقیق ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ کیسے اپنے بادشاہوں اور حاکموں کے حکم اور عمل کا احترام کریں اور بادشاہوں ، حاکموں کو اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ کیسے اجتماعی مسائل کا لحاظ کریں تاکہ اپنی قدرت کو اچھی طرح سے حفظ کرسکیں،(۳) غرض کہ ہر وہ چیز جو قرون وسطی کی نفی کرے یہ لوگ اس کا استقبال کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے ۔ کلیسا کی حاکمیت ،خدا و دین کا نظریہ انسان کا فطرةً گناہگار اور بد بخت ہونا ، معنوی ریاضت نیز جسمانی لذتوں سے چشم پوشی اور صاحبان عقل و خرد سے بے اعتنائی یہ ایسے امور تھے جو قرون وسطی میں معاشرہ پر سایہ فکن تھے ۔ اورہیومنیسٹوں نے کلیسا کی قدرت و حاکمیت سے مقابلہ کرنے کے لئے ، خدا محوری اور اعتقادات دینی کو پیش کیااور انسان کی خوش بختی ،جسمانی لذتوںاور صاحبان خرد کو اہمیت دینے نیز حقوق اللہ اور اخلاقی شرط و شروط سے انسان کو آزاد کرنے کے لئے آستین ہمت بلند کی ۔(۴) وہ لوگ علی الاعلان کہتے تھے کہ : قرون وسطی کے زمانے میں کلیسا نے جو حقوق واقدار انسان سے سلب کر لئے تھے، ہم اس کو ضرور پلٹائیں گے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص،۳۶۔(۲) Abagnano,Nicola,ibid (۳) احمد، بابک ، گذشتہ حوالہ؛ ص، ۹۱ و ۹۳ (۴)ویل ڈورانٹ لکھتا ہے کہ ہیومنیسٹوں نے دھیرے دھیرے اٹلی کی عوام کو خوبصورتی سے شہوت کے معنی سمجھائے جس کی وجہ سے ایک سالم انسانی بدن کی کھلی ہوئی تہذیب (خواہ مرد ہو یا عورت خصوصاً برہنہ ) پڑھے لکھے طبقوں میں رائج ہوگی ۔ویل ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ۵ص ۹۷۔۹۸. جان ہرمان بھی لکھتا ہے کہ : قرن وسطی کے اواخر میں بھی بہت سی گندی نظموں کا سلسلہ رائج ہوگیا تھا جو زندگی کی خوشیوں سے بطور کامل استفادہ کی تشویق کرتی تھی ۔ رنڈل جان ہرمان ، سیر تکامل عقل نوین ، ص ۱۲۰۔

Leonardo Bruni(۵)

۵۴

بہرحال انسان محوری ( اصالت انسان ) کے عقیدے نے ہر چیز کے لئے انسان کو میزان و مرکز بنایا اورہر طرح کی بدی اور مطلق حقائق کی نفی، نیز فطرت سے بالاتر موجودات کا انکار منجملہ خدا اور موت کے بعد کی دنیا (آخرت)کے شدت سے منکر تھے۔آخر وہ کس دلیل کی بنا پر اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتے ہیں ؟ان کے پاس نہ ہی معرفتِ وجوداور نہ ہی انسانوں کی کاملا آزادی واختیار(۱) پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی خدا کے انکار اور اس کے قوانین اور وحی سے بے نیازی پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی شناخت کی اہمیت کے سلسلہ میں کوئی پروف ہے ۔ اور نہ ہی بشر کے افکار و خیالات ، آرزوؤں ، خواہشوں نیزحقوقی و اخلاقی اہمیتوںپر کوئی ٹھوس ثبوت ہے اور نہ ہی فلسفی اور عقلی مسائل کو بعض انسان پرست فلاسفہ کی نفسیاتی تحلیلوں سے ثابت کیا جا سکتاہے ۔ بلکہ عقلی اور نقلی دلیلیں نیز شواہد و تجربات اس کے خلاف دلالت کرتے ہیں، اگرچہ انسان اسلامی تعلیمات اورادیان ابراہیمی کی نگاہ میں مخصوص منزلت کا حامل ہے اور عالم خلقت اور کم از کم اس مادی دنیا کو انسان کامل کے توسط سے انسانوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اوروہ اس کی تابع ہے ۔ لیکن جیسا کہ متعدد دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کا سارا وجود خدا سے وابستہ اور اس کے تکوینی اور تشریعی تدبیر کے ماتحت ہے اور اسی کا محتاج ہے اور اس کی مدد کے بغیر تکوینی اور تشریعی حیثیت سے انسان کی سعادت غیر ممکن ہے ۔

____________________

(۱)انسان محوری کا نظریہ رکھنے والوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان بہت زیادہ اختیارات کا حامل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان جس طریقہ سے چاہے زندگی گذار سکتا ہے ۔ ژان پل ، سارٹر کہتا ہے کہ : اگر ایک مفلوج انسان دوڑمیں ممتاز نہ ہوسکتا ہو تو یہ خود اس کی غلطی ہے ، اسی طرح وہ لوگ اعمال کے انجام دینے(عامل خارجی کو بغیر مد نظر رکھتے ہوئے خواہ حقوقی ، سنتی ، اجتماعی ، سیاسی ، غیر فطری افعال) میں انسان کی ترقی سمجھتے ہیں ۔

۵۵

فطرت اور مادہ پرستی

قریب بہ اتفاق اکثرہیومنزم کے ماننے والوں نے فطرت پسندی کو انسان سے مخصوص کیا ہے

او ر اس کو ایک فطری موجود اور حیوانات کے ہم پلہ بتایا ہے۔ حیوانوں ( چاہے انسان ہو یا انسان کے علاوہ ) کے درجات کو فقط فرضی مانتے ہیں ۔(۱) انسان کے سلسلہ میں اس طرح کے فکری نتائج اور ایک طرف فائدہ کا تصور، مادی لذتوں کا حقیقی ہونا اور دنیائے مغرب کی تباہی اور دوسری طرف سے ہر طرح کی اخلاقی قدرو منزلت ، معنوی حقوق ، معنوی کمالات اور ابدی سعادت کی نفی کی ہے ۔

ہم آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے کہ نہ تو انسان حیوانوں کے برابر ہے اور نہ ہی مادی اور فطری اعتبار سے منحصر ہے اور نہ ہی اس کی دنیا صرف اسی مادی دنیا سے مخصوص ہے ،انسان ایک جہت سے غیر مادی پہلو رکھتا ہے اور دوسری جہت سے انسان موت سے نابودنہیں ہوتااور اس کی زندگی مادی زندگی میں محدود نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا آخری کمال خدا سے قریب ہونااور خدا جیسا ہونا ہے جس کی کا مل تجلی گاہ عالم آخرت ہے جیسا کہ وجود شناسی کے مباحث میں ثابت ہو چکا ہے،خدا صرف ایک فرضی موجود اور انسان کی آرزو، خیالات اور فکری محصول نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حقیقی و واقعی وجود ہے نیز وہ تمام وجود کا مرکز اور قدر و منزلت کی خواہشوں کی آماجگاہ ہے سارے عالم کا وجود اس سے صادر ہوا ہے اور اسی سے وابستہ ہے اور اس کی تکوینی و تشریعی حکمت و تدبیر کے ما تحت ہے ۔

ہیومنزم اور دینی تفکر

عقل و خرد ، خدائی عطیہ ہے اور روایات کی روشنی میں باطنی حجت ہے جو خداکی ظاہری حجت یعنی انبیاء کے ہمراہ ہے، لہٰذا ہیومنزم کی مخالفت کو، عقل و صاحبان خرد کی مخالفت نہیں سمجھنا چاہیئے،وہ چیزیں جو ہیومنزم کی تنقید کے سلسلہ میں بیان ہوتی ہیں وہ عقل کو اہمیت دینے میں افراط، خدا اور عقل کوبرابر سمجھنا یا عقل کو خدا پر برتری دینا اور عقل پرستی کو خدا پرستی کی جگہ قرار دینا ہے ۔ دین کی نگاہ میں عقل انسان کو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کی معرفت و عبادت کی راہ ہموار

____________________

(۱)فولادوند، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' نگاہ حوزہ ؛ شمارہ ۵۳و ۵۴،ص ۱۰۴۔۱۱۱.

۵۶

کرتی ہے ،امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''العَقلُ مَا عُبدَ بِه الرَّحمٰن و اکتسِبَ بِه الجنَان ''(۱) عقل وہ ہے جس کے ذریعہ خدا کی عبادت ہوتی ہے اور بہشت حاصل کی جاتی ہے اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ فرمایا :''رَبّنَا یعرفُ بالعقلِ و یُتوسل لَیه بالعَقلِ ''(۲) ہمارا خدا عقل کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور عقل ہی کے ذریعہ اس سے رابطہ برقرار ہوتا ہے۔

عقل کا صحیح استعمال ،انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ یوں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ کی ربوبیت کے زیر سایہ ہے ۔نیز اخلاقی اقدار اور حقوقی اہمیت کے اصول ،عقل اور الٰہی فطرت کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن عقل کی رہنمائی اورتوانائی کی یہ مقدار جیسا کہ وہ لوگ خود بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ نہ ہی ہیومنزم کی فرد پرستی کا مستلزم ہے اور نہ ہی انسان کی حقیقی سعادت کے حصول کے لئے کافی ہے، وہ چیزیںجو عقل ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہے وہ کلی اصول اور انسان کی ضرورتوں کی مبہم تأمین اور افراد کے حقوق اور عدالت کی رعایت نیز انسان کی بلند و بالا قدر و منزلت ، آزادی اور آمادگی اور اس کی قابلیت کی سیرابی ہے ۔ لیکن حقیقی سعادت کے لئے بیان کئے گئے میزان و حدود اور اس کے مصادیق و موارد کا پہچاننا ضروری ہے ۔ وہ چیزیں جو عقل بشر کی دسترس سے دور ہیں وہ ہیومنزم نظریے خصوصاً ہیومنزم تجربی ( اومانیز کی ایک قسم ہے ) کے حامی اس سلسلہ میں یقینی معرفت کے عدم حصول کی وجہ سے مختلف ادیان و مکاتب کے ہر فرضی نظریہ کو پیش کرتے ہیں اور معرفت وسماجی پلورالیزم کے نظریہ کو قبول کرتے ہیں ۔(۳) تاریخی اعتبار سے اس طرح کے فلسفہ اور نظریات ،نوع بشر کو آزادی اور سعادت کی دعوت دینے کے بجائے خوفناک حوادث و مصائب کی سوغات پیش کرتے ہیں ۔(۴) اور ان نتائج کو فقط ایک امر اتفاقی اور اچانک وجود میں آنے والا حادثہ نہیں سمجھنا چاہیئے،

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ج۱، ص ۱۱۶و ۱۷۰۔

(۲)گذشتہ مدرک ص ۹۳

(۴)ملاحظہ ہو؛ معمای مدرنیتہ ؛ فصل ہفتم۔

(۳)مومٹنگ کہتا ہے کہ : ''ہم کو تجربہ کے ذریعہ حقیقت تک پہونچنا چاہیئے ، لیکن دنیا حتی انسان کے بارے میں یقین حاصل کرنا مشکل ہے اور یہ تمام چیزیں منجملہ اخلاقی اصول خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ہمیں تمام آداب و رسوم کا احترام کرنا چاہیئے اور پلورالیزم معاشرہ کو قبول کرنا چاہیئے ''( فولادوند ، عزت اللہ ؛ گذشتہ مدرک )

۵۷

اگر انسان کو خود اسی کی ذات پر چھوڑ دیا جائے اس طرح سے کہ وہ کسی دوسری جگہ سے رہنمائی اور زندگی ساز ضروری پیغام دریافت نہ کرے توقوت عاطفہ ، غضبیہ اور شہویہ جو فطری طور سے فعال رہتی ہیں اور ہمیشہ تکامل کی طرف گامزن ہیں ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہش بھی اس پر حاکم ہوجائے گی اور اس کی عقل سلیم نہ فقط ان امور کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ ناپسندیدہ اعمال کی انجام دہی کے لئے عقلی بہانے تراشتی پھرے گی ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ :( إنّ الاِنسَان لیَطغیٰ أن رَاهُ استَغنَی ) (۱) یقینا انسان سر کشی کرتا ہے اس لئے کہ وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔

بے قید وشرط آزادی

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ ہیومنزم کے ماننے والے معتقد تھے کہ: انسانی اقدار،حمایت اور طرفداری کے لئے بس فلسفی قوانین ہیں، دینی عقاید و اصول اورانتزاعی دلیلیںانسانی اقدار اور اس کی اہمیت کو پیش کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔(۲) انسان کو چاہیئے کہ خود اپنی آزادی کو طبیعت (مادہ) اور معاشرہ میں تجربہ کرے ایک نئی دنیا بنانے اور اس میں خاطر خواہ تبدیلی اور بہتری لانے کی صلاحیت انسان کے اندر پوری پوری موجود ہے۔(۳) ایسی بکھری ہوئی اور بے نظم آزادی جیسا کہ عملاً ظاہر ہے بجائے اس کے کہ انسان کی ترقی کی راہیں اور اس کی حقیقی ضرورتوں کو تامین کریں انسان پر ستم اور اس کی حقیقی قدر و منزلت اور حقوق سے چشم پوشی کا ذریعہ ہو گئی اورمکتب فاشیزم و نازیزم کے وجود کا سبب بنی۔ ''ہارڈی ''کتاب ''بازگشت بہ وحی'' کا مصنف اس کے نتیجہ کو ایک ایسے سانحہ سے تعبیر کرتا ہے کہ جس کا ہدف غیرمتحقق ہے۔ اس سلسلہ میں لکھتا ہے کہ :بے وقفہ کمال کی جانب ترقی اور پھر اچانک اس راہ میں شکست کی طرف متوجہ ہونا ۱۹ ویں صدی میں یہی وہ موقعہ ہے جس کو''سانحہ'' سے

____________________

(۱)سورۂ علق ۶و ۷.

(۲) Encyclopedia Britanica. (۳)Abbagnona, Nicola,ibid

۵۸

تعبیر کیا گیا ہے جو ماڈرن ( ترقی پسند) ہونے کی حیثیت سے مشخص ہے ۔(۱)

حقیقی اور فطری تمایل کی وجہ سے وجود میں آئی ہوئی انسان کی خود پسندی میں تھوڑا سا غور و خوض ہمیں اس نتیجہ تک پہونچاتا ہے کہ اگر انسان کی اخلاقی اور حقوقی آزادی دینی تعلیمات کی روشنی میں مہار نہ ہو، توانسان کی عقل ، ہوس پرستی اور بے لگام حیوانی خواہشات کے زیر اثرآکرہر جرم کو انجام دی سکتی ہے۔(۲) قرآن مجید اوراسلامی روایات بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کرتے ہیں کہ وحی سے دور رہ کرانسان خود اور دوسروں کی تباہی کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ نیز خود کو اور دوسروں کو سعادت ابدی سے محروم کرنے کے علاوہ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے(۳) یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کو (ان شرائط کے علاوہ جب وہ خود کو خدائی تربیت و تعلیم کے تحت قرار دیتا ہے ) خسارت والا اور شقی سے تعبیر کرتاہے( إنَّ النسَانَ لَفِی خُسرٍ لاّ الَّذِینَ آمنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ ) (۴) یقینا انسان خسارے میں ہے مگر وہ افراد جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں '' اور دوسری طرف ہیومنزم کی بے حد و حصر آزادی کہ جس میں فریضہ اور عمومی مصالح کی رعایت اور ذمہ داری کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، اس نظریہ میں ہر انسان کے حقوق ( واجبات کے علاوہ ) کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے حق کو بجالائے نہ کہ اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو، اس لئے کہ اگر کوئی تکلیف اور ذمہ داری ہے بھی تو حق کے سلسلہ ادائگی میں اسے آزادی ہے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ، ص ۴۴و ۴۵۔ (۲)ڈیوس ٹونی کہتا ہے : ایسا لگتا ہے کہ جفرسون اور اس کے مددگار ۱۷۷۶کے بیانیہ میں مندرج عمومی آزادی کو اپنے غلاموں یا ہمسایوں میں بھی رواج دیتے تھے ۔ (۳)اس سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کی وضاحت آئندہ مباحث میں ذکر ہوگی (۴) سورۂ عصر ۲و ۳۔ (۵)ہم یہاں اس مسئلہ کو ذکر کرنا نہیں چاہتے کہ انسان کا مکلف ہونا بہت ہی معقول اور فائدہ مند شی ہے یا اسی طرح حق بین اور حق پسند ہونا بھی معقول ہے .لیکن ہم مختصراً بیان کریں گے کہ اجتماعی تکالیف اور دوسروں کے حقوق کے درمیان ملازمت پائے جانے کی وجہ سے الہی اور دینی تکالیف مورد قبول ہونے کے علاوہ اسے مستحکم عقلی حمایت حاصل ہے دنیاوی فائدہ اور افراد معاشرہ کے حقوق کی تامین کے اعتبار سے ہیومنزم حق پرستی پر برتری رکھتا ہے ۔اس لئے کہ اس معتبر نظام میں جب کہ ہر فرد اپنا حق چاہتا ہے اس کے باوجود اگر کوئی دوسروں کے حقوق کی رعایت کے مقابلہ میں احساس مسئولیت کرتا ہے تووہ خود کو خداوند منان کی بارگاہ میں جواب گو سمجھتا ہے ۔

۵۹

اجتماعی صورت میں ہیومنزم کے ماننے والوں کی آزادی یعنی جمہوریت نیز حقوقی، اجتماعی قوانین کے حوالے سے نسبی آزادی کے قائل ہیںجو دینی نظریہ سے مناسبت نہیں رکھتے ۔

ہمارے دینی نظریہ کے مطابق سبھی موجودات کا وجود خدا کی وجہ سے ہے اور تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیںنیز ہر ایک قوانین الہی کے مقابلہ میں ذمہ دار ہے اور حاکمیت کا حق صرف خدا کوہے ۔ پیغمبر، ائمہ اور ان کے نائبین ،ایسے افراد ہیں جن کو ایسی حاکمیت کی اجازت دی گئی ہے ۔ حقوقی اور اخلاقی امورجو اللہ کی طرف سے آئے ہیںاور معین ہوئے ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔دین کی نگاہ میں اگرچہ افراد کے حقوق معین و مشخص ہیں جس کو عقل اور انسانی فطرت کلی اعتبار سے درک کرتی ہے لیکن حد و حصر کی تعیین اور ان حقوق کے موارد اور مصادیق کی تشخیص خدا کی طرف سے ہے اور تمام افراد، الہٰی تکلیف کے عنوان سے ان کی رعایت کے پابند ہیں، ہیومنزم کی نظر میں انسانوں کی آزادی کے معنی اعتقادات دینی کو پس پشت ڈالنا اور اس کے احکام سے چشم پوشی کرنا ہے لیکن اسلام اورادیان آسمانی میں انسانوں کے ضروری حقوق کے علاوہ بعض مقدسات اور اعتقادات کے لئے بھی کچھ خاص حقوق ہیں جن کی رعایت لازم ہے مثال کے طور پر انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے کے اعتبار سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسلام کو چھوڑکر کافرو مشرک ہونے یا کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کرنے میں بغیر کسی شرط کے وہ آزاد ہے۔ لیکن اسلام کی رو سے وہ مرتد ہے (اپنے خاص شرائط کے ساتھ ) جس کی سزا قتل یا پھانسی ہے جیسا کہ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام کو ناسزا (سب ) کہنے کی سزا پھانسی ہے لیکن ہیومنزم کی نگاہ میں ایسی سزا قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پیغمبر و ائمہ معصومین اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے ۔

۶۰

تسامح و تساہل

جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے مطلقا تساہل و تسامح کی حمایت و طرف داری کرتے ہیں اور اس کو قرون وسطی کے رائج تہذیب سے مبارزہ کی نشانی اور قدیم یونان و روم کی طرف بازگشت نیز آزادی اور انسانی قدرو منزلت کا تقاضاجانتے ہیں۔ انہوں نے تمام کامیابیوں کو انسانی کارنامہ اور فکر بشر کا نتیجہ سمجھا ہے ، شناخت کے حوالے سے ، شکاکیت و نسبیت کے نظریہ سے وابستہ ہیں۔ وہ لوگ اعتبارات ، ضروریات اور افکار کے ایک خاص مجموعہ کی تائید نیز حاکمیت اور اس سے دفاع کو ایک غیر معقول بات تصور کرتے ہیں ۔

یہ نظریہ مذاہب آسمانی کی تعلیمات خصوصاً اسلام سے مختلف جہتوںمیں نہ صرف یہ کہ سازگار نہیں ہے بلکہ متضاد بھی ہے،ایک طرف تسامح و تساہل کے اصول (انسان اور اعتبارات و معرفتکے درمیان رابطہ ) دینی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اور دینی تفکرمیں خداوند عالم کی ذات نقطۂ کمال ہے نہ کہ انسان کی ذات اور یہ اہمیت و منزلت یقینی معرفت کی حمایت سے مزین ہے اور دوسری طرف اسلام ہر دین کے ( حتی ادیان غیر الٰہی ) اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ تساہل و تسامح کو قبول نہیں کرتا بلکہ کفر و الحاد کے مقابلہ میں صلح و آشتی کو ناقابل تسلیم جانتاہے ۔(۱) خاص طور سے دوسرے الٰہی ادیان کے ماننے والوں کے سلسلہ میں اسلام، نرمی کا برتاؤ بھی معقول اندازہی میں کرتا ہے ،اور اسلامی معاشرہ میں نیزمسلمانوں کے درمیان دوسرے مذاہب کی تبلیغ قابل قبول نہیں ہے، ان لوگوں کو حکومت اسلامی کے قوانین کے خلاف کسی عمل کے انجام دینے اور علنی طور پر محرمات اسلام کے مرتکب ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ان قوانین کے حصار میں اسلام نہ فقط دوسرے ادیان کے ماننے والوں سے نرمی کے برتاؤ کی تاکید کرتا ہے بلکہ ان سے نیکی کی وصیت کرتا ہے اور قید و بند اور ظلم سے انسانوں کو رہائی دلانے کے لئے اپنی تلاش جاری رکھتاہے اور ان لوگوں کی فریاد رسی کرتا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں انصاف چاہتے ہیں نیز یہ مسلمانوں کی علامتوں اور وظائف میں سے ہے کہ وہ مظلوموں کی فریاد رسی کریں۔

____________________

(۱)البتہ وہ فکر و اندیشہ جو ایک درونی اور غیر اختیاری فعل ہے ہماری بحث سے خارج ہے ، اور کسی ایمان و فکر سے وابستہ ہونا اور اس کا نشر کرنا یا بعض تفکرات کے لئے اختیار کا زمینہ فراہم کرنا یا اس کو باقی رکھنا یہ ہے کہ وہ امر اختیاری ہو۔

۶۱

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی واقعی شخصیت اور اس کی قابلیت اور توانائی کے سلسلہ میں دو کاملاً متفاوت نظریے موجود ہیں : ایک نظریہ انسان کو پوری طرح سے مستقل ، مختار او ر ہر طرح کی ذمہ داری سے عاری موجود جانتا ہے اور دوسرا نظریہ اس کو خدا سے وابستہ نیز خدا کی طرف اس کے محتاج ہونے کا قائل ہے اور پیغمبروں کی مدد سے خدا کی مخصوص ہدایت سے برخوردار اور خدوند عالم کے قوانین کے انجام دینے کا اس کو ذمہ دار مانتا ہے ۔

۲۔ انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والوں (نظریہ اول کے ماننے والوں) نے انسان کو ہر چیز کا معیار قرار دے کر کلیسا کی تعلیمات اور مسیحیت کے قدیمی دین کو خرافات تصور کیا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق فکری نمونہ تلاش کرنے کے لئے روم و قدیم یونان کے افکار کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔

۳۔ انسان محوری کا نظریہ رکھنے والے افرادقدیم یونان سے استفادہ کرتے ہوئے مسیحیت کی نفی کرنے لگے اور ''دین اور خدا کی نئی تفسیر ، دین اور تعلیمات مسیحیت کی نفی ، خدا کااقرار اور ہر خاص دین کی نفی ، دین میں شکوک اور آخر کار دین اور خداسے مکمل طور پر انکار کر دیا ہے''۔

۴۔ انسان محوری اور انسان مداری جو شروع میں ایک ادبی ، فلسفی تحریک تھی آہستہ آہستہ فکری ، سماجی تحریک میں تبدیل ہوگئی جو سبھی علمی ، ہنری ، فلسفی ، اخلاقی حتی دینی نظام اور قوانین پر حاوی ہوگئی اور کمیونیزم ، پریگماٹیزم ، لبرلیزم اورپروٹسٹنٹ(اصلاح پسند مسیحیت )کو وجود میں لانے کا سبب بن گئی ۔ اسی بنا پر آج انسان مدار حضرات، ملحد انسان مداراور موحد انسان مدار میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔

۵۔ ہیومنزم کے بنیادی خمیرکاعقل گرائی کی حد سے زیادہ تجربات پر اعتماد کرنا، نیز آزادی خواہی کے مسئلہ میں افراط سے کام لینا،تساہل و تسامح اور سکولریزم جیسے اجزاء تشکیل دیتے ہیں ۔

۶۔ ہیومنزم کے بنیادی اجزاء ،افراطی پہلوؤں کی وجہ سے میدان عمل میں ، فاشیزم اور نازیزم کے نظریات سے جا ملے ، جس کی وجہ سے یہ موضوع ، بشر دوستی اور مطلقا خواہشات انسانی کی اہمیت اور اس کی اصالت کے قائل ہونے نیز عقل کے خطا پذیر ہونے کا یہ طبیعی نتیجہ ہے ۔

۷۔ انسان کو خدا کی جگہ تسلیم کرنا ،مضبوط فکری تکیہ گاہ کا نہ ہونا ، حد سے زیادہ تجربہ اور انسانی عقل کو اہمیت دینا اور شناخت کی قدر و منزلت اور شناخت کی معرفت میں نسبیت کا قائل ہونا یہ ایسے سست ستون ہیں جن سے ہیومنزم دوچار ہے ۔

۶۲

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں:

۱۔ہیومنزم اور شخص پرستی کے درمیان نسبت کو بیان کریں ؟

۲۔ اسلام کی نظرمیں ایمان ، اعمال اور اعتبارات میں تساہل و تسامح کا کیا مقام ہے ؟ مثال کے ذریعہ واضح کریں ؟

۳۔ ''آتیتکم بالشریعة السهلة السّمحَة ''سے مراد کیا ہے اور سہولت اور سماحت کے درمیان کیا فرق ہے ؟

۴۔ ان آیات میں سے دو آیت جو خود ہمارے اور دوسرے الٰہی ادیان کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے نرم برتاؤ کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں بیان کریں ؟

۵۔ حقیقی راہ سعادت کے حصول میں انسانی عقل کی ناتوانی پر ایک دلیل پیش کریں؟

۶۔ آزادی اوراستقلال ، تساہل ، بے توجہی اور نرمی کا برتاؤ ، مغربی عقل پرستی ، ہیومنزم اور دینی اصول میں عقل پر بھروسہ کرنے کے درمیان تفاوت کو بیان کریں ؟

۶۳

مزید مطالعہ کے لئے :

۔احمدی ، بابک ( ۱۳۷۷) معمای مدرنیتہ ، تہران : نشر مرکز ۔

۔احمدی ، بابک ؛ مدرنتیہ و اندیشہ انتقادی ، تہران : نشر مرکز۔

۔بلیسٹر ، آر ( بی تا ) ظہور و سقوط لیبرالیزم ؛ ترجمہ عباس مخبر ، تہران : نشر مرکز ( بی تا)

۔بیوراکہارٹ ، جیکب ، ( ۱۳۷۶) فرہنگ رنسانس در ایتالیا، ترجمہ محمد حسن لطفی ، تہران ، انتشارات طرح نو

۔ڈیوس ٹونی ( ۱۳۷۸) لیبرالیزم ترجمہ عباس مخبر ، تہران : چاپ مرکز

۔رجبی ، فاطمہ ( ۱۳۷۵) لیبرالیزم ، تہران : کتاب صبح ۔

۔رنڈال ، جان ہرمن ( ۱۳۷۶) سیر تکامل عقل نوین ، ترجمہ ابو القاسم پایندہ ، تہران ، انتشارات علمی و فرہنگی ، ایران ۔

۔سلیمان پناہ ، سید محمد ؛ ''دین و علوم تجربی ، کدامین وحدت ؟''مجلہ حوزہ و دانشگاہ شمارہ ۱۹، ص ۱۱، ۵۲.

۔صانع پور ، مریم ( ۱۳۷۸) نقدی بر مبانی معرفت شناسی ہیومنیسٹی تہران : اندیشہ معاصر.

۔فولادوند ، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' مجلہ نگاہ حوزہ ، شمارہ ۵۳و ۵۴۔

۔ کیسیرر ، ارنسٹ(۱۳۷۰) فلسفہ روشنگری ؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، تہران : نیلوفر ۔

۔لبرلیزم سے مربوط کتابیں ، روشنگری ( رنسانس ) و پسامدرنیزم ، ہیومنزم کی ترکیبات و انسان مداران کی تالیفات ۔

۔گیڈنز ، انتھونی (۱۳۷۷) فرہنگ علمی انتقادی فلسفہ ترجمہ غلام رضا وثیق ، تہران : فردوسی ایران ۔

۔نوذری ، حسین علی ( ۱۳۷۹) صورتبندی مدرنیتہ و پست مدرنیتہ ، تہران ، چاپخانہ علمی و فرہنگی ایران ۔

۔نہاد نمایندگی رہبری در دانشگاہھا ، بولتن اندیشہ شمارہ ۲ و ۳۔

۔واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) ''لیبرالیزم ''مجلہ معرفت ، شمارہ ۲۵ ص ۲۵۔۳۰، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ویل ڈورانٹ ( ۱۳۷۱) تاریخ تمدن ، ترجمہ صفدر تقی زادہ و ابو طالب صارمی ، جلد پنجم ، تہران ، انتشارات و آموزشی انقلاب اسلامی ، ایران ۔

۶۴

ملحقات

ہیومنزم کے سلسلہ میں دانشمندوں کے مختلف نظریات، اس کے عناصر اوراجزاء میں اختلاف کی بناپر ہے جو ہیومنزم کے نتائج اور موضوعات کے درمیان موجود ہیں اور اس کے ماننے والوں کے نظریات میں نسبتاً زیادہ تنوع کی وجہ ان کی نظری،اجتماعی اورسماجی وضعیت نیز ہیومنزم کے سلسلہ میں دانشمندوں کی طرف سے متفاوت نظریات پیش ہوئے ہیں ۔

ایک طرف تو ایسے دانشمند ہیں جو اس نظریہ کو ایک ضد انسانی تحریک سمجھتے ہیں جو بشر کے لئے سوائے خسارے کے کوئی پیغام نہیں دیتی اور اس کے بارے میں ان کی تعبیرات یوں ہیں ''دھوکہ دینے والا مفہوم ، قوم کی برتری اور غیر قابل توجیہ فرد کی حکمرانی کی آواز ، سبعیت کی توجیہ اور تخفیف نیز ماڈرن دور کی آشکار انداز میں نابرابری ، شخصی آزادی خواہی اور فردی منافع کا متحقق ہونا ، نازیزم و فاشیزم کی بے ہودہ پیداواراور ان کا وجود ، محیط زیست کو ویران کرنے والی ضد انسانی عادتوں اور فطری قوتوں پر حملہ آور قوتوں کو پرورش دینا جو آخری کارانسان کی ویرانی پر ختم ہوتا ہے، خوفناک اور ویران کرنے والی قوت جو آرام و سکون کا برتاؤ نہیں کرتی ہیں ، خیالی اور جھوٹے دعوے ، امپریالیزم کے ہم رتبہ و ہم مرتبہ، اسٹالینزم کی ایک دوسری تعبیر اور مسیحیت کے بعد کے احوال کے لئے ایک خطرناک چیز ، آخری قرن میں ایک بناوٹی مفہوم جو ایک عظیم دستور کے عنوان سے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کے لائق ہے ،معاشرے کے بلند طبقے نیز قدرت و اقتدار کے مرکز کی تاویل و توجیہ ، شاہانہ فکر جو ایک خاص طبقہ کے منافع کی تاکید کرتی ہے اور جس کو اپنی آغوش میں لے کر اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے، ہر جرم کا نتیجہ ،متناقض معانی اورمختلف پیغامات سے پر ، ایسے سانحہ کا پیش خیمہ جس کا ہدف متحقق ہونے والا نہیں ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۲۷،۳۶،۴۵،۴۶،۵۴،۶۲،۶۴،۸۴،۹۴،۱۴۷،۱۷۸.احمدی ، بابک گذشتہ حوالہ، ص ۹۱، ۹۳، ۱۱۰، ۱۲۲۔

۶۵

دوسری طرف ہیومنزم کا دفاع کرنے والے ہیں جن کی کوشش انسان اور اس کی صلاحیت کو کمال بخشنا ہے ، نیزفکری اور اخلاقی آزادی کو تامین کرنا ،انسان کی زندگی کو عقلانی بنانا، انسان کی آزادی اور شرافت کی حمایت کرنا اور اس کی ترقی کی راہ ہموار کرنا اور کاملاً مبارزہ کرنے والا اور جہل و خرافات کے مقابلہ میں کامیاب ہونے والابتایا ہے ۔(۱)

اگرچہ ہیومنزم کے بعض منفی پہلوؤں کو انسان مداری کا دعویٰ کرنے والوں کی غلط برداشت سمجھنا چاہیئے '' لیکن یہ تحریک جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ کم از کم اس طرح کی ناپسندیدہ حوادث کے واقع ہونے کے لئے ایک مناسب ذریعہ تھی اور اس کا دعویٰ کرنے والوں کی کثیر تعداد اور ان کی بعض تاریخ ،منفی پہلو سے آمیختہ تھی ۔

عوامی عقل کو محور قرار دینا اورایسے دینی و اخلاقی اقدار کی مخالفت جو معاشرے کے افراد کو معنوی انحرافات ، دوسروں کے حقوق پر تجاوز اور فساد پر کنٹرول کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں ، جس کا نتیجہ ماڈرن اسباب و امکانات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر شایستہ افراد کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کرنا اور ناگوار حوادث کے جنم لینے کا سبب نیز ان حوادث کی عقلی توجیہ بھی کرناہے ۔

ہیومنزم کے نظریات میں اختلافات اور ہیومنزم کی تعریف میں مشکلات کا سبب اس کے ماننے والوں کے مختلف نظریات ہیں ،بعض افراد مدعی ہوئے ہیں کہ ان مختلف نظریات کے درمیان کوئی معقول وجہ ِاشتراک نہیں ہے اور ان نظریات کو ہیومنزم کے کسی ایک نمونہ یا سلسلہ سے نسبت نہیں دی جاسکتی ہے اسی بناء پر ہیومنزم کی تعریف کے مسئلہ کو ایک سخت مشکل سے روبرو ہونا پڑا اور وہ لوگ معتقد ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہیومنزم نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیومنزم کے مختلف انواع کو مندرجہ ذیلعناوین سے یاد کرتے ہیں :

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۹۔

۶۶

۱۵ویں صدی میں اٹلی کے مختلف شہری ریاستوں کا مدنی و معاشرتی ہیومنزم،۱۶ویں صدی میں یورپ کے پروٹسٹل فرقہ کا ہیومنزم، ماڈرن آزاد و روشن خیال انقلاب کا فردی ہیومنزم ، یورپ کے سرمایہ دار طبقے کارومینٹک ہیومنزم،انقلابی ہیومنزم جس نے یورپ کو ہلاکر رکھ دیا،لیبرل ہیومنزم جو انقلابی ہیومنزم کو رام کرنے کے درپے تھا، نازیوں کاہیومنزم ، نازیوں کے مخالفین کا ہیومنزم ، ہیڈگر ، انسان مخالف ہیومنزم ، فوکواور آلٹوسر کی انسان گرائی کے خلاف ہیومنزم وغیرہ ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف ہیومنزم کے مشترکات کو ایک نظریہ میں سمویا جا سکتا ہے کہ جس میں ہر ایک ،ہیومنزم کے مختلف درجات کے حامل ہیں اور ہم نے اس تحقیق میں ہیومنزم کے مشترکات اور ان کے مختلف نتائج اور آثار کو مورد توجہ قرار دیا ہے ۔

۶۷

تیسری فصل :

خود فراموشی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :

۱۔بے توجہی کے مفہوم کی اختصار کے ساتھ وضاحت کریں ؟

۲۔بے توجہی کے مسئلہ میں قرآن کریم کے نظریات کو بیان کریں ؟

۳۔بے توجہ انسان کی خصوصیات اور بے توجہی کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے کم از کم

پانچ موارد کی طرف اشارہ کریں ؟

۴۔فردی اور اجتماعی بے توجہی کے سد باب کے لئے دین اور اس کی تعلیمات کے کردار کو

بیان کریں ؟

۵۔بے توجہی کے علاج میں عملی طریقوں کی وضاحت کریں ؟

۶۸

دوسری فصل میں ہم نے بیان کیاہے کہ چودہویں صدی عیسوی کے دوسرے حصہ میں اٹلی اور اس کے بعدیورپ کے دوسرے ملکوں میں ادبی ، ہنری ، فلسفی اور سیاسی تحریک وجود میں آئی جو انسان کی قدر و منزلت کی مدعی تھی جب کہ قرون وسطی میں انسان جیسا چاہیئے تھا مورد توجہ قرار نہیں پاسکا اور اس دور میں بھی انسان ایک طرح سے بے توجہی کا شکار ہوا ہے ،ان لوگوں نے اس دور کے (نظام کلیسائی)موجودہ دینی نظام سے دوری اور روم وقدیم یونان کے صاحبان عقل کی طرف بازگشت کو ان حالات کے لئے راہ نجات مانا ہے اور اس طرح ہیومنزم ہر چیز کے لئے انسان کو معیار و محور قرار دینے کی وجہ سے ایک کلی فکر کے عنوان سے مشہور ہوا ہے۔

گذشتہ فصل میں ہیومنزم کی پیدائش ،اس کی ترکیبات و ضروریات،مقدار انطباق اور اس کی دینی اور اسلامی تعلیمات سے سازگاری کی کیفیت کے سلسلہ میں گفتگو کی تھی اور اس فصل میں ہمارا ارادہ ہیومنزم کی بنیادی چیزوں میں سے ایک یعنی بے توجہی کے مسئلہ کو بیان کرناہے جو بعد کی صدیوں میں بہت زیادہ مورد توجہ رہا ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو ہیومنسٹوں نے نا درست تصور کیا ہے اور بعض نے اس مسئلہ کو اس دور کے ہیومنزم کی غلط تحریک کی ایجاد بتایا ہے ۔

۶۹

مفہوم بے توجہی

ہماری دنیا کی ملموسات و محسوسات میں سے فقط انسان ہی کا وجود وہ ہے جو اپنی حقیقی شخصیت کو بدل سکتا ہے،چاہے توخود کو بلندی بخشے یا خود کو ذلت اور پستی میں تبدیل کر دے اس طرح فقط انسان کی ذات ہے جواپنی حقیقی شخصیت کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے یا اپنے سے غافل ہو کر خود کو فراموش کر دیتاہے اوراپنی حقیقی شخصیت یعنی اپنے ضمیر کو بیچ کر بیگانگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔(۱)

انسان شناسی کے مہم ترین مسائل میں سے ایک انسان کا خود سے بے توجہ ہوجانا ہے جو علوم انسانی کے مختلف موضوعات میں بھی مورد توجہ رہا ہے، یہ مفہوم جویورپ کی زبانوں میں Alienation سے یاد کیا جاتا ہے جامعہ شناسی ، نفسیات ، فلسفی اعتبارات (اخلاقی اور حقوقی ) حتی ماہرین نفسیات کے مفہوم سے سمجھا جاتا ہے اورزیادہ تر علوم انسانی کے مختلف شعبوں میں اسی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔ کبھی اس مفہوم کا دائرہ اتنا وسیع ہوجاتا ہے کہ'' ڈورکھیم''کہتا ہے: انسان کی بے نظمی Anomic معرفت نفس اور اس کے مثل، شخصیت کے دونوں پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے اور کبھی اس نکتہ کی تاکید ہوتی ہے کہ بے توجہی کے مفہوم کو ان مفاہیم سے ملانا نہیںچاہیئے ۔(۲)

یہ لفظ Alienation(۳) ایک عرصہ تک کبھی مثبت پہلو کے لئے اور زیادہ تر منفی اور مخالف پہلو

____________________

(۱)خود فراموشی کا مسئلہ انسان کی ثابت اور مشترک حقیقت کی فرع ہے اور جو لوگ بالکل انسانی فطرت کے منکرہیں وہ اپنے نظریہ اور مکتب فکرکے دائرے میں خود فراموشی کے مسئلہ کو منطقی انداز میں پیش نہیں کر سکتے ہیں ۔

(۲)اس کلمہ کے مختلف و متعدد استعمالات اور اس میں عقیدہ کثرت کی روشنی میں بعض مدعی ہیں کہ یہ مفہوم فاقد المعنی یامہمل ہوگیا ہے ۔

(۳)یہ کلمہ اور اس کے مشتقات انگریزی زبان میں مبادلہ ، جدائی ، دوری ،عقل کا فقدان ، ہزیان بکنا ،جن زدہ ہونا، خراب کرنا ،پراکندہ کرنا اور گمراہ کرنے کے معنی میں ہے اور فارسی میں اس کلمہ کے مقابلہ میں بہت سے مترادف کلمات قرار دیئے گئے ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

خود فراموشی ، ناچاہنا ،بے رغبتی ، خود سے بے توجہی ، بے توجہی کا درد ،خود سے غافل ہونا، سست ہونا،جن زدہ ہونا ، بیگانہ ہونا ، بیگانوں میں گرفتار ہونا ، دوسروں کو اپنی جگہ قرار دینا ، دوسروں کو اپنا سمجھنا اور خود کو غیر سمجھنا وغیرہ ؛ اس مقالہ میں رائج مترادف کلمہ ''خودکو بھول جانا '' انتخاب کیا گیاہے ، اگرچہ ہم ''دوسرے کو اپنا سمجھنا'' والے معنی ہی کو مقصود کے ادائگی میں دقیق سمجھتے ہیں ۔

۷۰

کے مفہوم سے وابستہ تھا۔(۱) کلمۂ حقیقی(۲) '' ہگل'''' فیور بیچ'' اور'' ہس ''(۳) کے ماننے والوں کی وجہ سے ایک سکولریزم مفہوم سمجھا گیاہے ۔ وہ چیزیںجو آج سماجی اور علمی محافل میں مشہور ہے اور یہاںپر جو مد نظر ہے وہ اس کا منفی پہلو ہے ،اس پہلو میں انسان کی ایک حقیقی اور واقعی شخصیت مد نظر ہوتی ہے کہ جس کے مخالف راہ میں حرکت اس کی حقیقی ذات سے فراموشی کا سبب بن جاتی ہے اور اس حقیقی شخصیت سے غفلت انسان کو پرائی قوتوں کے زیر اثر قرار دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے سے ماسواء کو اپنا سمجھتاہے اور اس کی اپنی ساری تلاش اپنے غیر کے لئے ہوتی ہے ۔خود سے بے توجہی ، مختلف گوشوں سے دانشمندوں کی توجہ کا مرکز ہوگئی ہے ۔ جس میں اختیار یا جبر ، فطری یا غیر فطری ، مختلف شکلیں ، ایجاد کرنے والے عناصر اور اس کے نتائج کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اس کے تمام گوشوں ، نظریات نیزاس کے دلائل کی تحقیق و تنقید کواس کتاب میں ذکر کرناممکن نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ، لہٰذا ان موارد میں ایک سرسری اشارہ کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے ۔

''خود فراموشی '' کے مسائل کو بنیادی طور پرادیان آسمانی کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہیئے ۔ اس لئے کہ یہ ادیان آسمانی ہی ہیں کہ جنھوں نے ہر مکتبہ فکر سے پہلے اس مسئلہ کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے نیز اس کے خطرے سے آگاہ کیا ہے اور اس کی علامتوں کو بیان کرتے ہوئے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کی عملی حکمت پیش کی ہے ۔اس کے باوجود انسانی و اجتماعی علوم کے مباحث میں فنی علمی طریقہ سے ''خود فراموشی ''کے مفہوم کی وضاحت اور تشریح کو ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعض

____________________

(۱)غنوصیوں نے میلاد مسیح سے پہلے قرن اول میں اور میلاد مسیح کے بعد قرن دوم میں نیز'' وون کاسٹل ''( ۱۔ ۱۱۳۷ .۱۰۸۸،م)نے اس کو نفس انسان کی گمراہی سے رہائی ، نیرنگی اور دوبارہ تولد کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ ہگل بھی مثبت و منفی خود فراموشی کا قائل ہے ، لیکن دوسرے مفکرین و ادیان الٰہی اور اس کے ماننے والے خود فراموشی کو منفی و غیر اخلاقی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو: بدوی ، عبد الحمن؛ موسوعة الفلسفة ، طہ فرج ، عبد القادر ؛ موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ۔

(۲) Pauer

(۳) Hess

۷۱

دانشمندوں خصوصاً ''ہگل، فیور بیچ اور مارکس ''کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) دین اور ''خود فراموشی''کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ان تینوں مفکروں کے درمیان وجہ اشتراک یہ ہے کہ یہ تینوں خود دین کو انسان کی خود فراموشی کی وجہ مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ : جب دین کو درمیان سے ہٹادیاجائے توانسان ایک دن اپنے آپ کو درک کرلے گا ۔ اور کم از کم جب تک دین انسان کی فکر پر حاوی ہے انسان ''خود فراموشی''کا شکار ہے ۔(۲) یہ بات ٹھیک ادیان آسمانی کے تفکر کا نقطہ مقابل ہے خصوصاً خود فراموشی کے مسئلہ میں اسلام و قرآن کے خلاف ہے،بہر حال حقیقی طور پر دینی نقطہ نظر سے ''خود فراموشی ''کا مسئلہ ایک مستقل شکل میں مسلمان مفکرین کے نزدیک مورد توجہ قرار نہیں پایا ہے لہٰذا صاحبان فکر کی جستجو کا طالب ہے ۔

____________________

(۱)مذکورہ تین مفکروں کے علاوہ تھامسہابز( Thomas Hobbes ۱۶۷۹۔۱۵۸۸)بینڈکٹ اسپیونزا ( Benedict Spinoza ۱۶۷۷۔۱۶۳۲)جان لاک ( John locke ۱۷۰۴۔۱۶۳۲)ژان ژاک روسو ( Jean Jacquess Rousseau ۱۷۷۸۔۱۷۱۲)میکس اسکلر( Max Scheler ۱۸۰۹۔۱۰۸۵)جوہان فشے ( Johann Fichte ۱۸۴۱۔۱۷۶۲)ولفگیگ گوئٹے ( Wolfgang Goethe ۱۸۳۲۔۱۷۴۹)ویلیم وون ہمبولٹ( Wilhelm Von Humboldt ۱۸۳۵۔۱۷۶۷)سورن کیرکیگارڈ ( soren kier kegaard ۱۸۵۵۔۱۸۱۳)پال ٹیلیچ ( Paul Tillich ۱۹۶۵۔۱۸۸۶)منجملہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود فراموشی کے مسئلہ کو بیان کیا ہے ۔ملاحظہ ہو : زورنٹال و ...، الموسوعة الفلسفیة ؛ ترجمہ سمیر کرم ، بدوی ، عبد الرحمٰن ، موسوعة الفلسفة ۔ زیادہ ، معن ، الموسوعة الفلسفیة العربیة ۔

(۲)گرچہ ہگل نے دو طرح کے دین کی طرف اشارہ کیا ہے : ایک وہ دین جو انسان کو ذلیل و خوار کرکے خداؤں کے حضور میں قربانی کرتا ہے جیسے یہودیت اور دوسرا دین وہ ہے جو انسان کوحیات اور عزت دیتا ہے ۔ پہلے قسم کا دین خود فراموشی کی وجہ سے ہے لیکن دوسرے قسم کے دین کی خصوصیات حقیقی ادیان پر منطبق نہیں ہے ، صرف ایک عرفانی نظریہ اور معارف دینی کے ذریعہ ان دونوں کوایک حد تک ایک دوسرے سے منطبق سمجھا جاسکتا ہے ،اگرچہ ہگل ،خدااور روح و عقل کے بارے میں ایک عمومی بحث کرتا ہے لیکن ہگل کا خدا، عام طور پر ان ادیان کے خدا سے جس کا مومنین یقین رکھتے ہیں بالکل الگ ہے اوروہ خدا کو عالی و متعالی ، عظیم ، خالق ماسوا، انسان پر مسلط اور انسانوں کے اعمال کے بارے میں سوال کرنے والا موجود نہیں سمجھتا ہے ۔

۷۲

قرآن کی روشنی میں ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کو اس ارادہ سے بیان کیا گیا ہے تاکہ ہم بھی ایک ایساقدم بڑھائیںجو اسلام کے نظریہ سے اس کی تحلیل و تحقیق کے لئے نقطۂ آغاز ہو،اس لئے ہم بعض قرآنی آیات کی روشنی میں ''خود فراموشی''کے مسئلہ پرایک سرسری نظرڈالیں گے ۔

قرآن اور خود فراموشی کا مسئلہ

بحث شروع کرنے سے پہلے اس نکتہ کی یادآوری ضروری ہے کہ ''خود فراموشی''کا مسئلہ بیان کرنا ، اس خاکہ سے کاملاً مربوط ہے جسے انسان کی شخصیت و حقیقت کے بارے میں مختلف مکاتب فکر نے پیش کیا ہے اورمختلف مکاتب میں اس خاکہ کی تحقیق و تحلیل اس کتاب کے امکان سے خارج ہے اسی لئے فقط اشارہ ہو رہا ہے کہ قرآن کی روشنی میں انسان کی حقیقت کو اس کی ابدی روح ترتیب دیتی ہے جو خدا کی طرف سے ہے اور اسی کی طرف واپس ہو جائے گی ،انسان کی حقیقت ''اسی سے '' اور ''اس کی طرف ''( إنّا لِلّٰهِ وَ نَّا لَیهِ رَاجعُونَ ) (۱) ہے ،اسلامی نکتہ نگاہ سے انسان کی صحیح و دقیق شناخت، خدا سے اس کے رابطہ کو مد نظر رکھے بغیر ممکن نہیں ہے ، انسان کا وجود خدا سے ملا ہوا ہے اس کو خدا سے جدا اور الگ کرنا گویااس کے حقیقی وجود کو پردۂ ابہام میں ڈال دینا ہے، اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے غیر الٰہی مکتب میں غفلت برتی گئی ہے یا اس سے انکار کیا گیا ہے دوسری طرف انسان کی حقیقی زندگی عالم آخرت میں ہے جسے انسان اس دنیا میں اپنی مخلصانہ تلاش اور ایمان کے ساتھ آمادہ کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی نگاہ میں ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کو اسی تناظر میں مورد توجہ قرار دینا چاہیئے ۔

اس سلسلہ میں دوسرا نکتہ جو قابل توجہ ہے وہ یہ کہ ''خود فراموشی'' کا نام دینے والوں نے انسان اور اس کی زندگی کو دنیاوی زندگی میں اور مادی و معنوی ضرورتوں کو بھی دنیاوی زندگی میں محصور کردیا ہے اور مسئلہ کے سبھی گوشوں پر اسی حیثیت سے نگاہ دوڑائی ہے ، مزید یہ کہ ان میں سے بعض دنیا پرستوں کے فلسفی اصولوں کو قبول کرکے ایک آشکار اختلاف میں گرفتار ہوگئے اور انسان کو دوسری غیر

____________________

(۱)سورۂ بقرہ ، ۱۵۶۔

۷۳

مادی اشیاء کی حد تک گرکر مسئلہ کو بالکل نادرست اور غلط بیان کیاہے ،ایسی حالت میں جو چیز غفلت کا شکار ہوئی ہے وہ انسان کا حقیقی وجود ہے اور حقیقت میں اس کی ''خود فراموشی'' کا مفہوم ہی مصداق اور ''خود فراموشی'' کا سبب بھی ہے ۔

قرآن مجید نے بارہا غفلت اور خود کو غیر خدا کے سپرد کرنے کے سلسلہ میں انسان کو ہوشیار کیا ہے اور بت پرستی ، شیطان اورخواہشات نفس کی پیروی نیز آباؤ واجداد کی چشم بستہ تقلیدکے بارے میں سرزنش کی ہے ۔ انسان پر غلبہ ٔشیطان کے سلسلہ میں بارہا قرآن مجید میں آگاہ کیا گیا ہے ،اور جن و انس، شیاطین کے وسوسہ سے انسان کے خطرہ ٔانحراف کی تاکید ہوئی ہے ۔(۱) اسلامی نظریہ اور انسانی معاشرہ میں بیان کئے گئے مفاہیم سے آشنائی قابل قبول اور لائق درک وفہم ہیں، جب کہ اگر ان پر ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کی روشنی میں توجہ دی جائے تومعلومات کے نئے دریچہ کھلیں گے، لیکن ''خود فراموشی'' خود فروشی اور ضرر جیسے مفاہیم جو بعض آیات میں ذکر ہوئے ہیں، ان کے علاوہ بھی مہم مفاہیم ہیں جن پر مزید توجہ کی ضرورت ہے اور انسان کو دقت کے لئے مجبور کرتے ہیں ،لیکن کیا ایسا ہوسکتاہے کہ انسان ''خود فراموشی'' کا شکار ہوجائے اور خود کو بھول جائے یا یہ کہ خود کو بیچ دے ؟ !کیا خود کو ضرر پہونچانا بھی ممکن ہے ؟ انسان ضرر اٹھاتاہے اور اس کا ضرر موجودہ امکانات کے کھو دینے کے معنی میں ہے ، لیکن خود کو نقصان پہونچانے کا کیا مفہوم ہوسکتا ہے اور کس طرح انسان اپنی ذات کے حوالے سے ضرر سے دوچار ہوتا ہے ؟ ! قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتا ہے کہ :

( وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰهَ فَأنسَاهُم أَنفُسَهُم )

اور ان جیسے نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھول بیٹھے تو خدا نے بھی ان کو انہیں کےنفسوں سے غافل کردیا ۔(۲)

____________________

(۱)یہ مفاہیم روایات میں بھی مذکور ہیں ، ان مفاہیم سے مزید آگاہی کے لئے نہج البلاغہ کی طرف رجوع کریں مطہری ، مرتضی ؛ سیری در نہج البلاغہ ، ص ۲۹۱۔ ۳۰۶۔

(۲)سورہ ٔ حشر ۱۹

۷۴

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے :( بِئسَمَا اشتَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم ) کتنی بری ہے وہ چیز جس کے مقابلہ میں ان لوگوں نے اپنے نفسوں کوبیچ دیا ۔(۱)

سورہ ٔ انعام کی ۱۲ویں اور ۲۰ویں آیت میں فرماتا ہے :

( الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم فَهُم لَا یُؤمِنُونَ ) جنہوں نے اپنے آپ کوخسارے میں ڈال دیا وہ لوگ تو ایمان نہیں لائیں گے ۔

اس طرح کی آیات میں بعض مفسرین نے کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح مذکورہ آیات کو انسان سے مربوط افعال ، خود فراموشی، خود فروشی اور خسارے میں تبدیل کردیا جائے تاکہ عرف میں رائج مفہوم کے مطابق ہوجائے ،لیکن اگر خود انسان کی حقیقت کو مد نظر رکھا جائے اور ''خود فراموشی'' کے زاویہ سے ان آیات کی طرف نظر کی جائے تو یہ تعبیریں اپنے ظاہر کی طرح معنی و مفہوم پیدا کرلیں گی ، بہت سے لوگوں نے دوسرے کو اپنا نفس سمجھتے ہوئے اپنی حقیقت کو فراموش کردیا یا خود کو غفلت میں ڈال دیا ہے اور اپنی حقیقت سے غفلت ، ترقی نہ دینا بلکہ اسے گرانا یعنی یہ اپنا نقصان ہے اور جو بھی اس عمل کو مثال کے طور پر کسی لالچ اور حیوانی خواہشات کے لئے انجام دیتا ہے اس نے خود کو بیچ دیا اور اپنے آپ کو حیوانوں سے مشابہ کرلیا ہے البتہ قرآن کی نظر میں مطلقاً خود فراموشی کی نفی کی گئی ہے لیکن خود فراموشی کی ملامت اس وجہ سے ہے کہ انسان خود کو تھوڑے سے دنیاوی فائدہ کے مقابلہ میں بیچ دیتاہے ۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''خود فراموشی'' کے مسئلہ میں قرآن کا نظریہ اور اس کے موجدوں (ہگل ، فیور بیچ اور مارکس)کی نظر میں بنیادی تفاوت ہے ۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ ان تینوں نظریات میں ''خود فراموشی'' کے اسباب میں سے ایک ،دین ہے اور دین کو انسان کی زندگی سے الگ کرنا ہی

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۹۰

۷۵

اس مشکل کے لئے راہ نجات ہے ،لیکن قرآن کی روشنی میں مسئلہ بالکل اس قضیہ کے برخلاف ہے ۔ انسان جب تک خدا کی طرف حرکت نہ کرے اپنے آپ کونہیں پاسکتا ،نیز خود فراموشی میں گرفتار رہے گا۔ آئندہ ہم دوبارہ اس موضوع پرگفتگو کریں گے اور ایک دوسرے زاویہ سے اس مسئلہ پر غور کریں گے ۔

بہر حال قرآن کی روشنی میں خود فراموشی ایک روحی ، فکری ،اسباب و علل اور آثار و حوادث کا حامل ہے ۔بے توجہ انسان جو دوسروں کو اپنی ذات سمجھتا ہے وہ فطری طور پر دوسرے کے وجود کو اپنا وجود سمجھتا ہے اور یہ وجود جیسا بھی ہو ''خود فراموش'' انسان خود ہی اس کے لئے مناسب مفہوم مرتب کرلیتا ہے، اکثر جگہوں پر یہ دوسرا مفہوم ایک ایسا مفہوم ہے جو خود فراموش انسان کی فکر کے اعتبارسے مرتب ہے ۔(۱)

اس حصہ میں ہم خود فراموشی کے بعض نتائج پر گفتگو کریں گے :

خود فراموشی کے نتائج

غیرکو اصل قرار دینا

خود فراموش ، اپنے تمام یا بعض افعال میں دوسرے کو اصل قرار دیتا ہے۔(۲) اور آزمائشوں ، احساس درد ، مرض کی تشخیص ، مشکلات و راہ حل ، ضرورتوں اور کمالات میں دوسروں کو اپنی جگہ قرار دیتا ہے ۔ اور اپنے امور کو اسی کے اعتبار سے قیاس کرتا ہے اور اس کے لئے قضاوت و انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے ، قرآن مجید سود خور انسانوں کے سلسلہ میں کہتا ہے کہ :

____________________

(۱)قرآن مجیداور روایات میں جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے خود اپنے نفس سے رابطہ کے سلسلہ میں متعدد و مختلف مفاہیم بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر خود فراموشی ، خود سے غافل ہونا ، اپنے بارے میں کم علمی و جہالت ، خود فروشی اور خود کو نقصان پہونچانا وغیرہ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق و تحلیل اور ایک دوسرے سے ان کا فرق اور خود فراموشی سے ان کے روابط کو بیان کرنے کے لئے مزید وقت و تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

(۲)کبھی انسان بالکل خود سے غافل ہوجاتا ہے اور کبھی اپنے بعض پہلوؤں اور افعال کے سلسلہ میں خود فراموش کا شکار ہوجاتا ہے اسی بنا پر کبھی مکمل اور کبھی اپنے بعض پہلوئوںمیں حقیقت کوغیروں کے حوالہ کردیتا ہے ۔

۷۶

( الَّذِینَ یَأکُلُونَ الرِّبا لَایقُومُونَ لاّ کَمَا یَقُومُ الّذِی یَتخَبَّطُهُ الشَیطَانُ مِنَ المَسِّ ذٰلِکَ بِأنَّهُم قَالُوا ِنَّمَا البَیعُ مِثلُ الرِّبَا... ) ۱)

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہ ہوسکیں گے (کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں)(۲) مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوںگے جس کو شیطان نے لپٹ کے(ضررپہونچا کر)مخبوط الحواس بنا دیا ہو(اس کی استقامت کو ختم کردیا ہو ) یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ اس بات کے قائل ہوگئے کہ جس طرح خرید و فروش ہے اسی طرح سودبھی ہے

آیت شریفہ کے مفاد میں تھوڑی سی فکر بھی پڑھنے والے کو اس نتیجہ پر پہونچاتی ہے کہ آیت میں سود اور سود کھانے والوں کو محور بنانے کی بنیاد پر اس بحث کی فطری انداز کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہا جائے : سود کھانے والوں کے لئے ایسے حالات پیدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سود کھانے والے یہ کہتے تھے کہ سود ،خرید و فروش کی طرح ہے اور اگر خرید و فروش میں کوئی حرج نہیں ہے توسود میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن جیسا کہ ملاحظہ ہواہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے : سود کھانے والوں نے کہاخرید و فروش ربا کی طرح ہے ، اس سخن کی توجیہ و توضیح میں بعض مفسروں نے کہا ہے : یہ جملہ معکوس سے تشبیہ اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی گفتگو کا تقاضا یہ تھا کہ ربا کو خرید و فروش سے تشبیہ دی جاتی ، مبالغہ کی وجہ سے قضیہ اس کے برعکس ہوگیااور خرید و فروش کی ربا سے تشبیہ ہوگئی ہے ۔(۳) بعض مفسرین معتقد

____________________

(۱)بقرہ ۲۷۵۔

(۲)(لَایقُومُونَ لاّ کَمَا یَقُومُ ...)جملہ کے مراد میں دو نظریے ہیں :جیسا کہ اس مقالہ میں ذکر ہوا ہے،پہلا نظریہ یہ ہے کہ آیت دنیا میں ربا خوار انسان کے رفتار وکردار کو بیان کررہی ہے اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آخرت میں رباخواروں کے رفتار وکردار کی نوعیت کو بیان کرنا مقصود ہے ،اکثر مفسرین نے دوسرے نظریہ کو انتخاب کیا ہے لیکن رشید رضا نے ''المنار''میں اور مرحوم علامہ طباطبائی نے ''تفسیر المیزان ''میں پہلے نظریہ کو انتخاب کیا ہے .ملاحظہ ہو: رشید رضا ؛ تفسیر المنار ، ج۳ ص ۹۴، علامہ طباطبائی ؛ المیزان ج۲ ص ۴۱۲۔۴۱۳۔

(۳) آیہ شریفہ کے ذیل میں شیعہ و سنی تفاسیر منجملہ روح المعانی و مجمع البیان کی طرف رجوع کریں ۔

۷۷

ہیں کہ چونکہ سود خور اپنے اعتدال کو کھو بیٹھا ہے لہٰذا اس کے لئے خرید و فروش اور ربا میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ ربا،خرید و فروش کی طرح ہے اسی طرح ممکن ہے یہ بھی کہے خرید و فروش ربا کی طرح ہے ۔ اس نے ان دو نوں کے درمیانمساوات برقرار کیا ہے۔(۱)

ان دو توجیہوں میں مناقشہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ توضیح و تبیین سے بہتر یہ ہے کہ خود سے بے توجہی اور دوسروں کو اصل قرار دینے کے اعتبار سے مطلب کی وضاحت کی جائے خود سے بے توجہ انسان جو دوسرے کو اصل قرار دیتا ہے دوسروں کے شان و احترام کے لئے بھی اصل کا قائل ہے اور سبھی فرعی مسائل اور گوشوں میں اصل دوسروں کو بناتاہے، سود خور انسان کی نگاہ میں سود خوری اصل ہے اور خرید و فروش بھی ربا کی طرح ہے جب کہ حقیقت میں وہ یہ سوچتا ہے کہ ربا میں نہ فقط کوئی حرج ہے بلکہ سود حاصل کرنے کا صحیح راستہ ربا خوری ہے نہ کہ خرید و فروش ہے، خرید و فروش کو بھی فائدہ حاصل کرنے میں ربا سے مشابہ ہو نے کی وجہ سے جائز سمجھا جاتا ہے ۔ سود خور انسان کو ایسا حیوان سمجھتا ہے جو جتنا زیادہ دنیا سے فائدہ اٹھائے اور بہرہ مند ہووہ کمال اور ہدف سے زیادہ نزدیک ہے اور سود خوری اس بہرہ مندی کا کامل مصداق ہے لہٰذا خرید و فروش کی بھی اسی طرح توجیہ ہوناچاہیئے!۔

روحی تعادل کا درہم برہم ہونا

اگر انسان اپنے آپ سے بے توجہ ہوجائے اور اپنے اختیار کی باگ ڈور دوسرے کے ہاتھ سپرد کردے تو وہ دو دلیلوں سے اپنے تعادل کو کھودے گا : پہلی دلیل یہ ہے کہ دوسرے کا طرز عمل چونکہ اس کے وجود کے مطابق نہیں ہے لہٰذا عدم تعادل سے دوچار ہوجائے گااور دوسری دلیل یہ ہے کہ دوسرا مختلف اور متعدد موجودات کا حامل ہے لہٰذااگر دوسرا موجودات کی کوئی خاص نوع ہو مثال کے طور پر انسانوں میں بہت سے مختلف افراد ہیں ،یہ مختلف موجودات یا متعدد افراد کم از کم مختلف و متضاد

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی ، المیزان ج۲ ص ۴۱۵

۷۸

خواہشات کے حامل ہیں جو اپنے آپ سے بے توجہ انسان کے تعادل کو درہم برہم کردیتے ہیں ۔ قرآن مجید مشرکین کو اپنے آپ سے بے توجہ مانتے ہوئے کہتا ہے :

( أ أَرباب مُتَفَرِّقُونَ خَیر أَمِ اللّٰهُ الوَاحِدُ القَهَّارُ )

کیا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتاو غلبہ پانے والا(۱)

مزیدیہ بھی فرماتا ہے:

( ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلاً فِیهِ شُرَکَآئُ مُتَشَاکِسُونَ وَ رَجُلاً سَلَماً لِّرَجُلٍ هَل یَستَوِیَانِ مَثَلاً... ) (۲)

خدا نے ایک مثل بیان کی ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (مالدار)جھگڑالو شریک ہیں اور ایک غلام ہے جوپورا ایک شخص کا ہے کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے ؟

( لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِیلِهِ ) (۳)

اور دوسرے راستوں(راہ توحید کے علاوہ جو کہ مستقیم راہ ہے) پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے تتر بتر کردیں گے ۔

سورۂ بقرہ کی ۲۷۵ ویں آیت بھی جیسا کہ ذکر ہو چکی ہے سود خور انسان کے اعمال کو اس مرگی زدہ انسان کی طرح بتاتی ہے جس میں تعادل نہیں ہوتا ہے اور اس کے اعمال میں عدم تعادل کو فکری استقامت اور روحی تعادل کے نہ ہونے کی وجہ بیان کیا ہے ۔(۴)

____________________

(۱)یوسف ، ۳۹

(۲)زمر، ۲۹

(۳)انعام ۱۵۳۔

(۴)رباخوار انسان کے رفتار و کردار کے متعادل نہ ہونے کے بارے میں اور اس کے تفکرات کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی ؛ المیزان ج۲ ص ۴۱۳و ۴۱۴۔

۷۹

ہدف و معیار کا نہ ہونا

گذشتہ بیانات کی روشنی میں ، خود فراموش انسان بے ہدفی سے دوچار ہوتا ہے، وہ خود معقول اور معین شکل میں کسی ہدف کو انتخاب نہیں کرتا ہے اور اپنی زندگی اور اعمال کے سلسلہ میں متردد ہوتاہے ۔ قرآن منافقین کے بارے میں جو خود فراموش لوگوں کا ایک گروہ ہے اس طرح بیان کرتا ہے :

( مُذَبذَبِینَ بَینَ ذَالِکَ لَا لَیٰ هٰولآئِ وَ لآ لیٰ هٰولآئِ وَ مَن یُضلِلِ اللّٰهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِیلاً ) (۱)

ان کے درمیان کچھ مردّد ہیں، نہ وہ مومنین میں سے ہیں اورنہ ہی وہ کافروں میں سے ہیں جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کی تم ہرگز کوئی سبیل نہیں کرسکتے۔(۲)

ایسے لوگ حضرت علی کے فرمان کے مطابق ''یَمِیلونَ معَ کُل رِیح' 'کے مصداق ہیں (جس سمت بھی ہوا چلتی ہے حرکت کرتے ہیں )اور دوسرے جزء کے بارے میں کہا گیا ہے کہ متعدد وپراکندہ ہیں ، ان کا کوئی معیار نہیں ہے بیگانوں کی کثرت بے معیاری اور بے ہدفی انسان کے لئے فراہم کرتی ہے ۔

حالات کی تبدیلی کے لئے آمادگی و قدرت کا نہ ہونا

خود فراموش انسان جو خود کوغیر سمجھتاہے وہ اپنی حقیقت سے غافل ہے یااپنی موجودہ حالت کو مطلوب سمجھتے ہوئے اپنی حالت میں کسی بھی تبدیلی کے لئے حاضر نہیں ہے ،اور اس کے مقابلہ میں مقاومت کرتا ہے یا اپنی اور مطلوب حالت سے غفلت کی بنا پر تبدیلی کی فکر میں نہیں ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ نساء ۱۴۳۔ (۲)خداوند عالم کا انسان کوگمراہ کرنا اس کی خواہش کے بغیر جبری طور پر نہیں ہے بلکہ یہ انسان ہے جو اپنے غلط انتخاب کے ذریعہ ایسی راہ انتخاب کرتا ہے جس میں داخل ہونے سے ضلالت و گمراہی سے دچار ہوتا ہے اسی بنا پر دوسری آیات میں مذکور ہے کہ خداوند عالم ظالمین ( ۲۷ابراہیم ) فاسقین (۲۶بقرہ )، اسراف کرنے والے، بالکل واضح حقائق میں شک کرنے والوں ( ۳۴غافر) اور کافروں ( ۷۴غافر) کو گمراہ کرتا ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307