زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)0%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (پہلی جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22947
ڈاؤنلوڈ: 2223


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22947 / ڈاؤنلوڈ: 2223
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد 1

مؤلف:
اردو

تیرھواں سبق

دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا

* ہوشیار اور عاجز انسان کی نظر اور رفتار میں فرق

* امانت داری اور خشوع:

الف: امانت داری کا اثر

ب:خشوع کا اثر

* خدا کی نظر میں دنیا کا حقیر ہونا۔

دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا

''یَا َبَاذَرٍ! اَلْکَیِّسُ مَنْ اَدَّبَ نَفْسَهُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوتِ' وَالْعَاجِزُمَنِ اتَّبَعَ نَفْسَهُ وَ هَوٰاهَا وَ تَمَنّٰی عَلَی ﷲ عَزَّوَجَلَّ الْاَمَانِیَّ یَا اَبَاذَرٍّ! اِنَّ اَوَّلَ شَیْئٍ یُرْفَعُ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ الْاَمَانَةُ وَالْخَشُوعُ حَتّٰی لاَ یَکٰادُ یُریٰ خَاشِع.

یَا اَبَاذَّرٍ؛ وَالَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَوْ اَنَّ الدُّنْیٰا کٰانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ ﷲ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ اَوْ ذُبَابٍ مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْهَا شَرْبَةً مِنْ مَائٍ''

ہوشیار اور عاجز انسان کی نظر اور رفتار میں فرق:

اس سے پہلے بحث ہوئی کہ اگر انسان کسی گناہ کا مرتکب ہونے کے بعد اس کے بارے میں فکرمند اور پریشان ہو تو' خداوند تعالیٰ اسے اس خوف و پریشانی کی وجہ سے نجش دیتا ہے۔ ممکن ہے غلط فہمی سے یہ گمان کیا جائے کہ جو بھی گناہ کا مرتکب ہو جائے اس کے بعد تو بہ کرے تو اسے بخش دیا جائے گا' اور یہ گمان بذات خود بیشتر لغزش و آلودگی کا سبب ہے' کیونکہ گنہگار ہر گناہ کے بعد اس امید میں رہے گا کہ خدا اسے بخش دے گا۔اس غلط گمان کو رفع کرنے کیلئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: ہوشیار اور عقلمند انسان وہ ہے جو ہمیشہ اپنی عمر سے بہتر استفادہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے کی فکر میں رہتا ہے' نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے تاکہ سر انجام غفلت میں مبتلا نہ ہو جائے:

''یَا َبَاذَرٍ! اَلْکَیِّسُ مَنْ اَدَّبَ نَفْسَهُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوتِ' وَالْعَاجِزُمَنِ اتَّبَعَ نَفْسَهُ وَ هَوٰاهَا وَ تَمَنّٰی عَلَی ﷲ عَزَّوَجَلَّ الْاَمَانِیَّ ''

''اے ابو ذر! ہوشیار اور عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کی تربیت کرے اور مرنے کے بعد والی زندگی کے بارے میں سعی و کوشش کرے اور کمزور و ناتواںوہ ہے جو اپنے نفسانی خواہشات کی اطاعت کرے اور اسی حالت میں خدائے متعال سے اپنی آرزؤں کی درخواست کرے۔''

انسان عقل و ہوش کا مالک ہے' کبھی نفسانی خواہشات پر عقل غلبہ آتی ہے اور کبھی عقل پر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے۔ حدیث کے اس حصہ میں ان دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

بعض اوقات انسان کا نفس ضعیف ہوتا ہے اور اس کی خواہشات اس کی عقل پر غالب نہیں ہوتی ہے۔ یہ اس عقلمند انسان کے بارے میں ہے کہ جو تہذیب نفس اور اصلاح کی راہ میں گامزن اور مسلسل موت کے بعد والی ابدی زندگی کے بارے میں سوچتا رہتاہے۔ اس کے برعکس کبھی نفس اور اس کی خواہشات عقل پر غالب آتی ہیں اور انسان اپنے نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں ناتواں ہوتا ہے اور ان کی مدافعت نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تفسیربحار الانوار کے اس نسخہ کی بنیاد پر ہے کہ جس میں آیا ہے ''من دانہ نفسہ'' یعنی عقلمند وہ ہے جس کا نفس کمزور ہو۔ لیکن دوسرے نسخوں میں ''من ادّب نفسہ'' آیا ہے،شاید دوسری تعبیر بہتر ہو' اس صورت میں جملہ کا معنی یوں ہوتا ہے: ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی ہو' دوسری تعبیر میں وہ اصلاح کرے اور ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کے لئے موقع فراہم نہ کرے۔ ایسا انسان عقلمندی کے ساتھ سوچ سکتا ہے اور محدود مادی دنیا سے اپنی نظر اٹھا کر بیکراں' لامتناہی اور ابدی افق پر نظر ڈال کر تنگ نظری سے بچ سکتا ہے ،وہ اپنے اعمال کو قیامت کے جاویدانی دور کیلئے انجام دیتا ہے۔

اسلام کے نقطۂ نظر سے ایسی فکر عاقلانہ اور یہ انسان زیرک ہے' کیونکہ وہ ایک مقصد کے بارے میں سوچتا ہے اور دنیا کے محدود عالم کے بجائے آخرت کے ابدی اور لا محدود عالم پر نظر رکھتا ہے، دنیا کی عارضی لذتوں کو آخرت کی ابدی نعمتوں سے موزانہ کر کے عقلمندی کے ساتھ دوسرے مورد کو ترجیح دیتا ہے۔

تنگ نظر لوگ عارضی اور ناپائدار لذتوں کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے اور انہیں آخرت کی ابدی لذتوں پر ترجیح دیتے ہیں' ایسے لوگ اپنے عقل کی باگ ڈور کو ہوائے نفس کے حوالے کر کے زبوںحالی کے عالم میں اپنے آپ کو شکم و شہوت کا تابع قرار دیتے ہیں' ایسے افرادکے بارے میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''کم من عقل اسیر عند هویٰ امیر'' (۱)

''کتنے ہی لوگوں کی عقل ہوائے نفسانی کی اسیر ہوتی ہے اور ان کے نفسانی خواہشات عقل پر حکمرانی کرتی ہیں۔

ایسا انسان نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور آرزو رکھتا ہے کہ بہشت میں اولیائے الہٰی کی مصاحبت میں ہو!

امانت داری اور خشوع:

اس سے پہلے خوف و حزن نامی دو خصوصیات کے بارے میں بحث ہوئی' ان دو خصوصیات کے ضمن میں خشوع کی دو حالتیں انسان کیلئے پیدا ہوتی ہیں جوپسندیدہ و مطلوب ہیں' لیکن چونکہ ممکن ہے بعض معنوی کمالات کو انسان سے چھین لیا جاتا ہے' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

'' یَا اَبَاذَرٍّ! اِنَّ اَوَّلَ شَیْئٍ یُرْفَعُ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ الْاَمَانَةُ وَالْخَشُوعُ حَتّٰی لاَ یَکٰادُ یُریٰ خَاشِع.''

اے ابوذر! پہلی صفت جواس امت سے اٹھالی جائے گی' وہ امانتداری و خشوع ہے' یہاں تک ایک شخص بھی اہل خشوع نہیں ملے گا۔

اس بیان میں ' آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دو اخلاقی خصوصیات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ان دو میں سے ایک امانتداری ہے جو ایک اخلاقی اور سماجی خصوصیت ہے اور سالم و محفوظ اور سماجی روابط کو برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کرتی ہے اور اس کے بغیر ایک سالم معاشرہ کو تشکیل نہیں دیا جا سکتا ہے' کیونکہ اجتماعی روابط کی بنیاد متقابل اور طرفین اعتماد پر ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث کے اس حصہ میں جناب ابوذر کو گوش گزار فرماتے ہیں کہ میرے بعد اس امت سے جو نیک اور پسندیدہ صفات اٹھالئے جائیں گے کہ ان میں سے برجستہ ترین صفت امانتداری اور خشوع ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو ایک تربیت یافتہ معاشرے کے عنوان سے دوسری ملتوں پر دو امتیاز ی برتری حاصل تھی: پہلا امتیاز آپسی روابط اور دوسری ملتوں کے ساتھ اجتماعی روابط کے حوالے سے تھا اور دوسرا امتیاز امت کی انفرادی شخصیت کے حوالے سے اخلاقیات و حالات کی تعمیر سے متعلق تھا، یہ امت انفرادی' روحی اور معنوی شخصیت کے لحاظ سے بھی ممتاز تھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی، یہ صفات اسی طولانی تربیت کے نتیجہ میں حاصل ہوئے تھے جو خدا وند متعال کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توسط سے انجام پائی تھی۔

امت اسلامیہ ایک باغ کی مانند تھی جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسی عظیم شخصیت نے سر سبز میوہ دار درخت لگائے تھے۔ اب اگر اس باغ میں آفت آپڑے تو اس میں آفت پڑنے کے آثار ظاہر ہوں گے اور رفتہ رفتہ یہ باغ نابودی اور خرابی کی طرف بڑھ جائے گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت جو انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے لحاظ سے بے مثال تھی' پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس میں آفت آپڑی اور اس کی سر سبز و شادابی خزاں میں تبدیل ہوئی ،پہلی آفت جو امت مسلمہ پر پڑی وہ یہ تھی یہ قوم سنگ دل ہو گئی اور خضوع و خشوع اور نرم دلی کی صفت ان سے چلی گئی یہاں تک حق کے سامنے تسلیم نہیں ہوتے تھے اور مثبت اور قابل قدر خصوصیات کا اثر قبول نہیں کرتے تھے۔ ان میں فرد فرد ایسا سنگ دل تھا کہ حق بات ان میں اثر نہیں کرتی تھی جہاں میں نرم خو ہو کر آنسو بہانا چاہیے تھا' وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔

دوسری آفت ان کے اجتماعی روابط میں ظاہر ہوئی۔ ان میں امانتداری اور ایمانداری کا جنبہ ضعیف ہوگیا' ایک دوسرے کے لئے امین اور وفا دار نہیں رہے وہ امانت میں خیانت کرنے لگے یہ سماج کیلئے ایک خطرہ کی گھنٹی تھی۔اگر یہ انفرادی اور اجتماعی دو آفتیں معاشرے میں رسوخ پیدا کرجائیں تو وہ معاشرے کے زوال کا موجب بنتی ہیں۔

یہ اقدار صرف اسلام اور مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہیں۔ اسلام کے ظہور سے پہلے اور لوگوں کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے سے پہلے بھی سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ایمانداری اور امانت داری اچھی چیز ہے اور لوگوں کے اموال میں خیانت کرنا بری بات ہے۔

الف: امانت داری کا اثر:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عربوں کے درمیان بلکہ ساری دنیا میں کامیاب ہونے کا سب سے بڑ ا سبب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امین ہونا تھا۔ رسالت سے پہلے تمام لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو امین جانتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ''محمد امین'' کے نام سے پکارتے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف لوگوں کے میلان کا سبب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہی خصوصیت تھی' کیونکہ امین ہونے کا لازمہ سچ کہنا بھی ہے۔ اگر انسان دوسروں کے مال میں خیانت کرے تو وہ راست گو نہیں ہو سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیغمبری کے دعویٰ کو اس بنا پر قبول کیا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔

چنانچہ اس سے پہلے بیان ہوا کہ' امانت داری اہمیت و عظمت کو عقل کے ذریعہ بھی درک کیا جاسکتا ہے' لہذا اگر بعثت و دعوت پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی نہ ہوتی پھر بھی لوگ اسے درک کرتے' لیکن اسلام نے اس عقلی حکم کی تائید کرتے ہوئے فرمایا:

( اِنَّ ﷲ یَا مُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ ِلیٰ اَهْلِهَا ) (نسائ٥٨)

''بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو...''

امانتداری زندگی کی ضروریات میں سے ہے اور اگر لوگ اپنی زندگی میں اس کی رعایت نہ کریں اور ایماندار ی سے کام نہ لیں تو نظام درہم برہم ہوجا ئے گا اور کوئی کسی پر اعتماد نہیں کرے گا' کیونکہ اجتماعی زندگی کی بنیاد اور پائداری متقابل اور طرفین اعتماد پر ہے۔

(بیان میں امانت سچ کہنے کا لازمہ ہے اور کردار میں امانت ایمانداری کا لازمہ ہے اور ان کی قدرو قیمت بدیہیات عقلی میں سے ہے اور ان میں استدلال و تعبدکی ضرورت نہیں ہے اس موقع پر اسلام کی تعلیمات ارشادی ہیں' یعنی وہ چیز جسے عقل درک کرتی ہے شرع اس کی تائید و تاکید کرتی ہے)۔

امانت داری صرف دوسروں کے شخصی اموال اور ملکیت کے تحفظ سے مربوط نہیں ہے بلکہ عمومی اموال اور بیت المال کا تحفظ بھی امانتداری کے مصادیق میں ہے۔ سڑکیںِ زمین' پانی ، درخت اور تمام وہ چیزیں جو اسلامی معاشرہ سے تعلق رکھتی ہیں امانت شمار ہوتی ہیں۔ بلکہ عمومی اموال کا تحفظ زیادہ ضروری ہے' کیونکہ اگر کوئی کسی ایک شخص کے مال میں خیانت کرلے وہ تو صرف ایک صاحب مال کا مقروض ہے' لیکن اگر عمومی اموال اور بیت المال میں خیانت کرے تواس نے تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ ڈرائیور جو سرکاری گاڑی چلارہا ہے' اگر ایماندار نہ ہواور احتیاط سے کام نہ لے اور گاڑی کو کوئی نقصان پہنچادے' تو اس نے تمام لوگوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ اگر سرکاری گاڑی کو ذاتی کام میں استعمال کیا جائے' تو وہ بیت المال کی خیانت ہوگی۔

قرآن مجید اسلامی معاشرے کو عہد و پیمان کے ساتھ وفادار اور امانت داری کرنے والے کی حیثیت سے تعارف کراتا ہے:

( وَالَّذِینَ هُمْ لِاَ مَانَاتِهِمْ وَ عَهْدِ هِمْ رَاعُون ) (مومنون٨)

''اور مومنین اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا لحاظ رکھنے والے ہیں''

دوسری جگہ پر حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کو واپس کر دو۔

''( اِنَّ ﷲ یَامُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَ مَانَاتِ اِلٰی اَهْلِهَا... ) ''(نسائ٥٨)

''بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو...''

امانتداری کی اس قدر تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ اگر امانتداری کی اہمیت کو معاشرے سے اٹھا لیا جائے' تو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کریں گے اور ایک دوسرے کے حقوق کو ضائع کریں گے' نتیجہ کے طور پر متقابل اعتماد پر استوار معاشرے کے پیوند اور بنیادیں متزلزل ہوکر گرجائیں گی اور یہ بذات خود انسانی اقدار اور خصوصی قابل اہم صفات کو پس پشت ڈالنے کا آغاز ہوگا۔

ب۔خشوع کا اثر:

اگر لوگ خاشع و متواضع ہوں اور حق کے سامنے جھکنے والے ہوں' معاشرے میں رونما ہونے والے حوادث کے بارے میں لاپروانہ ہوں اور ان کے مقابلے میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوں' تو ایسے لوگ پیغمبروں کی دعوت اور رہنمائی کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔

اس کے برعکس' سنگ دل انسان، ان کو پیش کئے جانیوالے حقائق اور رونما ہونے والے حوادث کے مقابلہ میں لا پروا ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا دل حقائق کو قبول کرنے کی آمادگی نہیں رکھتا ہے، فطری طور پروہ پیغمبروں کی دعوت کو بھی قبول نہیں کرتے ہیں اور حق کے مقابلے میں تواضع نہیں رکھتے۔ وہ صرف اپنی ذاتی فکر میں ہوتے ہیں اور اپنے نفسانی خواہشات کے بارے میں سوچتے ہیں۔

قرآن مجید اہل کتاب کے دوگروہوں کا تعارف کراتا ہے: پہلا گر وہ قوم یہود ہے جو اسلام و مومنین کے سب سے بڑے دشمن تھے:

...( ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ َوْ َشَدُّ قَسْوَةً وَ اِنَّ مِنَّ الْحِجَارَةِ لَمٰا یَتَفَجَرُّ مِنْهُ الْاَنْهَٰرُ وَ ِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَائُ ) (بقرہ۔ ٧٤)

''پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت اس لئے کہ پتھروں سے تو نہر یں بھی جاری ہو جاتی ہیں اور بعض شگافتہ ہو جاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے۔

پتھر سے پانی جاری ہوجاتا ہے لیکن یہود اُتنے سنگ دل ہیں کہ ہر گز ان کا دل نہیں ٹوٹتا تاکہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو اور یہ افراد قوم مومنین کے جانی دشمن ہیں۔

اس کے برعکس، قرآن مجید اہل کتاب کے دوسرے گروہ کا تعارف کراتا ہے، جو مومنین کے دوست اور ان کے ساتھ مہربان ہیں، فرماتا ہے:

( وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا اِنَّا نَصَٰریٰ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْهُمْ ِقسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَاِنَّهُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ ) (مائدہ٨٢)

''اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان میں بہت سے قسیس اور راہب پائے جاتے ہیں اور یہ تکبر اور برائی کرنے والے نہیں ہیں۔''

اس آیت کے ضمن میں خدا وند کریم فرماتا ہے:

( وَاِذَاسَمِعُوامَا اُنْزِلَ اِلٰی الرَّسوُلِ ترَیٰ اَعْیُنَهُمْ تَفیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقّ ) ..... (مائدہ٨٢)

''اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیںیہ اس لئے ہے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔''

حق کے مقابلے میں ان کی نرمی اور جھکاؤ کی حالت ان کے ایمان لانے کا سبب بنی' کیونکہ ان کے دل حقائق کیلئے کھلے تھے۔ اس کے برعکس سنگ دل یہود ایمان نہیں لاتے تھے، اس لحاظ سے ہم تاریخ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے عیسائیوں نے اسلام قبول کیا ہے اور پاک و مخلص مومن بن گئے ہیں' ان کے مقابلہ میں یہودیوں میں سے بہت کم لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: ایک دن ایسا آئے گا کہ جب کوئی متواضع انسان نہیں پایا جائے گا، فروتنی اور انکساری کی حالت بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ اپنے آپ کو اسلام شنا س کہنے والے بعض لوگ کہتے تھے، اسلام انسان کے لئے ذلت و خواری کو پسند نہیں کرتا ہے، حتی انسان کو خدا کے حضورمیں بھی ذلت کا احساس نہیں کرنا چاہیے۔ دل شکستہ ہونا گریہ وتواضع جیسی کیفیت ان لوگوں کی نظروں میں انسانی اقدار کی خلاف ہے! یہ اس حالت میں ہے جب قرآن مجید مومنین کا متواضع ہونے کی حیثیت سے تعارف کراتا ہے۔

ایک عالم دین پر حق سے منحرف ہونے کا الزام لگایاگیا صرف اس لئے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی تھی تو وہ روتے تھے۔ وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ صرف عزاداری اور مصیبت میں رونا چاہیے اور قرآن مجید کی تلاوت کے دوران رونے کو بدعت جانتے تھے۔ یعنی یہ کام اس قدر متروک و غیر مأنوس ہو چکا تھا کہ اگر کوئی ایسا کام کرتا تھا۔ اس پر انحراف اور بدعت کی تہمت لگاتے تھے۔

خشوع، احساس حقارت، ذلت و فروتنی ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا ردعمل انسان کے جسم کے اعضا و جواح میں ظاہر ہوتا ۔ مرحوم راغب اصفہانی کہتے ہیں: خشوع، احساس ضعف و ذلت کے معنی میں ہے اور اس کا بیشتر استعمال اس جگہ پر ہے جہاں اعضا و جوارح سے یہ کیفیت ظاہر ہو۔

مثال کے طور پر قرآن مجید کے مندرجہ ذیل مواقع پر خشوع استعمال ہوا ہے:

١۔گفتگو کرتے وقت:

..( وَخَشعَتْ الْاَصْوَاتِ لِلرَّحْمٰن ) (طہ ٠٨ا)

(قیامت کے دن) خداوند رحمان کے نزدیک آوازیں خاشع ہوجائیں گی۔

٢۔ آنکھوں میں :

( خُشِّعاً اَبْصَارَهُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْاَجْدَاثِ ) (قمر ٧)

(قیامت کے دن کافرین خوف سے) نظریں جھکائے ہوئے قبروں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح ٹڈیاں پھیلی ہوئی ہوں۔

٣۔ چہرہ میں :

( وُجُوه یَومَئِذٍ خَاشِعَةٍ'' ) (غاشیہ ٢)

''اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے۔''

٤۔ سجدے میں :

( وَیَخِرُّونَ لِلْاَ ذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیدُهُمْ خُشُوعاً ) (اسرائ ١٠٩)

اور وہ منہ کے بھل گر پڑتے ہیں روتے ہیں اور قرآن ان کے خشوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔

٥۔ عبادت و نماز میں :

( قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذینَ هُمْ فِی صَلٰوتِهِمْ خَاشِعُونَ ) (مومنون١و٢)

''یقینا صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے۔ جو اپنی نمازوں میں گڑ گڑا نے والے ہیں''

٦۔ دل میں :

( اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِکْرِ ﷲ ) (حدید١٦)

''کیا صاحبان ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہو جائیں۔

مذکورہ مواقع کے ہر ایک مطلب پر جداگانہ بحث کرنے کے لئے کافی فرصت کی ضرورت ہے، جس کی فی الحال گنجائش نہیں ہے۔ اجمالی طور پر واضح ہوگیا کہ خاشع وہ شخص ہے جس کی رفتار میں غرور و تکبر کے احساس کے بغیر بندگی، حقارت اور شرمندگی کے آثار پیدا ہوجائیں اور ایک ذلیل بندے کے مانند اس میں خود خواہی اور تکبر کا عنصر نابود ہوجائے۔ کیونکہ خود خواہی اور تکبر انسان کو خدا کے سامنے فروتنی، تواضع اور خشوع کے ساتھ پیش آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور بیشک متکبروں اور باغیوں کی واضح مثال شیطان ہے۔ قرآن مجید اس کے بارے میں فرماتا ہے:

( فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُونَ اِلاَّ اِبْلِیسَ اَبٰی اَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ) (حجر٣٠و ٣١)

تمام ملا ئکہ نے اجتماعی طور پر(آدم کے سامنے ) سجدہ کرلیا تھا، علاوہ ابلیس کے کہ( اس نے انکار کیا اور) وہ سجدہ گزاروں کے ساتھ نہ ہو ہو سکا۔

اس آیۂ کریمہ کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''تکبر اور خود خواہی میں مبتلا ہو کر اس نے اپنی خلقت پر آدم پر فخر کرتے ہوئے اپنی اصلیت (کہ آگ سے پیدا کیا گیا تھا) کے بارے میں تعصب سے کام لیا اور کھلم کھلا خدا وند متعال کی نافرمانی کی۔ لہٰذا یہ دشمن خدا، متعصبوں اور باغیوں کا پیشوا ہے جس نے تعصب کی بنیاد ڈالی ہے اور خدائے متعال سے عظمت و بزرگی کا مقام حاصل کرنے کے لئے (جو خدا سے مخصوص ہے) لڑ پڑا اور عظمت و سربلندی ( جو اس کا حق نہیں تھا) زیب تن کر کے تواضع وانکساری کے لباس کو تن سے جدا کیا۔(۲)

مزید اس کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''شیطان کے ساتھ خدا وند عالم کا یہ رویہ ( سخت مواخذہ) لوگوں کے لئے باعث عبرت ہے کہ اتنی زیادہ عبادت و بندگی اور اس قدر سعی و کوشش سب کو خدا وند عالم نے برباد کر دیا۔ اس کے باوجود کہ اس نے چھ ہزار سال تک خدائے متعال کی عبادت کی، معلوم نہیں یہ سال دنیوی سال ہیں یا آخرت کے۔ یہ سب کچھ اس کے ایک لمحہ کے تکبر کے نتیجہ میں ہوا۔ لہٰذا شیطان کے بعد کون تکبر و سرکشی کے نتیجہ میں خدا کے عذاب سے بچ سکتا ہے؟ خداوندعالم ہر گز اپنے کسی بندہ کو بہشت میں داخل نہیں کرے گا جو اس گناہ میں مرتکب ہو گا جس کے جرم میں اس نے اپنے فرشتہ کو بہشت سے نکالاہے۔ بیشک خدا کا حکم و فرمان اہل آسمان اور اہل زمین کے لئے یکساں ہے۔''

اس نکتہ کا ذکر ضروری ہے کہ خشوع کے ختم ہونے کی علت اور قساوت قلب نیز امانت میں خیانت کا سبب دنیا سے وابستگی ہے۔ دنیا سے وابستگی خضوع، خشوع اور گریہ و زاری کو انسان سے سلب کرتی ہے، یہ دنیا سے وابستگی کا نتیجہ ہے کہ انسان شروع میں مشکوک کا موں میں ملوث ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ سر انجام محرمات میں آلودہ ہو کر گناہان کبیرہ کا اصرار کرنے لگا ہے۔ لہذا حالت خشوع کے تحفظ کے لئے دنیا سے وابستگی اور اسے ہدف و مقصد قرار دینے سے اجتناب کرنا چاہیے اور مبہم کاموں اور محرمات سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔

اگر ہم مشاہدہ کریں کہ معاشرے سے اقدار اور کمالات رفتہ رفتہ ختم ہو کر ان کی جگہ اجتماعی مفاسدلے رہے ہیں، تو ہمیں اس کا سبب مادیات کی طرف مائل ہونے میں تلاش کرنا چاہیے۔ یہ وابستگی اورمیلان ہر گناہ کو انجام دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انسان گناہ کا مرتکب ہونے پر غمگین نہیں ہوتا لیکن اگر اسے کوئی دنیوی نقصان پہنچے، تھوڑے سے پیسے اس کے گم ہو جائیں تو غمگین ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس دینے سے گھبراتا ہے یہ دنیا سے وابستگی اور محبت کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی آخرت سے وابستگی رکھتا ہے اور اسے اپنا مقصد قرار دیتا ہے، تو وہ ہر چیز سے اپنی آخرت کے لئے استفادہ کرتا ہے۔ اگر پیسے والا ہے تو وہ پیسے سے اپنی آخرت درست کرتا ہے۔ اگر مال دار نہیں ہے تو صبرو تحمل کے ذریعہ اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ اکٹھاکرتا ہے۔ اگر مال دار ہے تو وہ راہ خدا میں اسے انفاق کرتا ہے۔ اگر مال دار نہیں ہے تو دوسری صورت میں محتاجوں کی مدد کرتا ہے۔

جب انسان کی وابستگی دنیا سے بڑھ جاتی ہے تو پہلے حتی الا مکان مباحات سے استفادہ کرتا ہے اور اگر اس سے نہیں ہو سکا تو پھر مشکوک چیزوں کی طرف رخ کرتا ہیا اور کوشش کرتا ہے کہ مراجع کے فتوئوں کا سہارا لے کر ان کی توجیہ کرے، آج سود کو جائز قرار دیتا ہے کل قطعی و یقینی حرام تک ہاتھ بڑھاجائے گا اور اس کا کام یہاں تک پہنچتا ہے کہ چاہے جتنا بڑا، گناہ ہو اس کے انجام دینے سے خوف نہیں کھاتا۔ فطری بات ہے کہ ایسا انسان سنگ دل بن جاتا ہے اور وہ خشوع کی حالت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جب دنیا سے وابستگی پیدا ہوئی، تو لوگوں کے مال میں خیانت کرتا ہے اور اس سے ذاتی استفادہ کرتا ہے۔ پس، قساوت قلب کے گناہ کا سبب مادیات اور حیوانی لذتوں کی طرف مائل اور متوجہ ہونا ہے۔ اب اس بیماری کے علاج کے لئے پہلے اس کی جڑ کو پکڑنا چاہیے دیکھنا چاہیے کہ یہ درخت کیوں خشک ہوگیا ہے، اسے کونسی زہریلی غدا کھلائی گئی ہے جن کے نتیجہ میں یہ خشک ہوا ہے۔ وجود انسان کے درخت کو آفت سے محفوظ رکھنے کے لئے صحیح وسالم غذا دینی چاہیے اور اسے شہوانی اور حیوانی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکنا چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ بے رحمی اور سنگدلی ہے۔

قساوت قلب اور گناہ کی بیخ کنی کرنے کے لئے انسان کو آفتوں سے آگاہ کرنا چاہیے، چونکہ تمام آفتوں کا سرچشمہ۔ جو انسان کو خدااور معنویت سے دور کرتا ہے۔ دنیا ہے، اس لئے قرآن مجید گونا گوں بیانات سے انسان کو دنیا سے ڈراتا ہے اور اس کے اندر خوف پیدا کرتا ہے۔

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں کئی بار دنیا کی مذمت کی گئی ہے اور مسلسل علی علیہ السلام اپنے اصحاب کو دنیا سے ڈراتے ہیں، کیونکہ حضرت جانتے ہیں کہ تمام بیماریوں کی جڑحب دنیا ہے۔ جب تک حبِ دنیا باقی ہے کوئی بھی فضیلت و کمال انسان کے لئے پائدار نہیں ہو سکتا ہے۔

ممکن ہے انسان برسوں کی سختیوں کے نتیجہ میں کسی کمال تک پہنچے لیکن ایک مہلک زہر کے اسے نابود کردے ، اسی لئے قرآن مجید، پیغمبر واہل بیت صلوات اللہ علیہم اجمعین مختلف مواقع پر لوگوں کو دنیا سے دوری اختیار کرنے کے سلسلہ میں نصیحت فرماتے تھے لیکن دنیا سے ڈرنے کا معنی کام سے ہاتھ کھینچنا اور علم و صنعت سے اجتناب کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کا معنی و مفہوم دنیاوی چمک دمک اور اس کی رعنائیوں سے عدم وابستگی اور شہوت پرستی سے پرہیز کے معنی میں ہے۔ مختصر یہ کہ دنیا سے ڈرنا اور اصل دنیا کو بنیاد نہ بنانے اور اسے آخرت کا وسیلہ قرار دینے کے معنی میں ہے۔ اس صورت میں انسان کی تمام کوششیں حتی مال و دولت جمع کرنا بھی آخرت کے لئے قرار پائے گا، کیونکہ آخرت طلبی و دنیا طلبی کا دارومدار انسان کے محرک اور مقصد پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر از دواج کرنے میں مرد کا مقصد صرف شہوت رانی ہو، تویہ دنیا طلبی ہے۔ وہ صرف شہوت رانی کے بارے میں سوچتا ہے، ممکن ہے اس کے لئے اس میں کوئی فرق نہ ہو کہ یہ مقصد اسے حلال راہ سے دستیاب ہو یا حرام طریقے سے۔ لیکن کبھی ازدواج میں اس کا منشا حکم خدا کی اطاعت ہے۔ چونکہ خدائے متعال چاہتا ہے کہ وہ خانوادے کو تشکیل دے ورنہ ایسا نہیں کرتا، اگر چہ اس کے لئے اس میں کافی لذت بھی ہوتی۔ لیکن وہ خدا کے لئے اس کام کو انجام دیتا ہے حتی اگر اسے ہزاروں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے۔

آج کل جو دنیائے غرب میں خانوادگی کا شیرازہ بکھر تا جا رہا ہے اور ان کی نسلی بنیاد سست پڑ تی جا رہی ہے، اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ صرف شہوت رانی اور لذت حاصل کرنے کے پیچھے پڑے ہیں، لہذا اپنے آپ کو خاندانی زندگی کے بندھنوں میں نہیں باند ھتے۔ جب دیکھتے ہیں کہ ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے تو وہ اس قید سے آزاد ہونے کے لئے اسے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن اسلامی معاشرہ ایسا نہیں ہے۔ جب تک اسلامی اقدار حاکم ہیں ایک انسان خانوادگی زندگی کے مشکلات کو برداشت کرتا ہے کیونکہ خدا کی مرضی اسی میں ہے۔ البتہ خدائے متعال نے بھی اپنی مہر بانیوں سے اس کام میں لذتوں کو قرار دیا ہے (خانوادگی زندگی اور اولاد کو پالنے میں فطری اور طبیعی لذتیں قرار دی ہیں) لیکن بہر صورت کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ پس اگر کسی نے دنیوی لذتوں کو خدا کے لئے انجام دیا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کا یہ کام ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ اس کا کام آخرت طلبی ہے نہ دنیا طلبی، دنیا طلبی اس وقت ہے جب ان لذتوں کو بنیاد اور مقصد قرار دے۔

خدا کی نظر میں دنیا کا حقیر اور ناچیز ہونا:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اس حدیث کے دوسرے جملہ میں دنیا کے ناچیز ہونے اور اس کی مذمت میں فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَّرٍ؛ وَالَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَوْ اَنَّ الدُّنْیٰا کٰانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ ﷲ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ اَوْ ذُبَابٍ مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْهَا شَرْبَةً مِنْ مَائٍ''

''اے ابوذر! اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر خدا کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر یا مکھی کے پر کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک بار بھی پانی نہ پلاتا۔''

دنیا پرستی ایک مصیبت ہے جس میں ہم سب کم و بیش مبتلا ہیں، اگر ہم اس وقت اس میں مبتلا نہ ہوں تو احتمال ہے آیندہ مبتلا ہوں گے۔ پس مناسب ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس بیان کی طرف بیشتر توجہ دیں اور کوشش کریں اپنے نفس کی تربیت کے لئے اس سے استفادہ کریں۔

ہمارے لئے قدر و قیمت کا معیار، حیوانی لذتیں ہیں، لہٰذا جو چیز ہمیں زیادہ پسند آئے ہم اس کی قدرو منزلت کے قائل ہیں اور وہی ہمارے لئے پسندید ہ اور مطلوب ہے۔ لیکن اسلام قدرو منزلت کا ایک دوسرا معیار پیش کرتا ہے اور وہ معیار خدا کی مرضی کی مطابق ہونا ہے، یعنی ایک ایسی چیز کی قیمت ہے جس کی خدا کے نزدیک اہمیت ہو۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قسم کھاتے ہیں کہ اگر یہ دنیا، تمام وسعتوں اور لذتوں کے باوجود' جن کو حاصل کرنے کے لئے جانیں نچھاور کی جاتی ہیں اور عمریں ضائع ہوتی ہیں۔ خدا کے نزدیک قدر ومنزلت رکھتیں تو خدائے متعال کا فر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پلاتا۔ اگر سمندروں اور دریائوں کی خدا کے نزدیک قدر ہوتی، تو کافروں کو اس سیبہر مند نہ کرتا بلکہ صرف اولیائے الہٰی کو ان سے مستفید فرماتا (البتہ یہاں پر وہ کافر مراد ہیں جو دین کے دشمن ہیں اور حق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ورنہ مستضعف کافرکا حساب جدا گانہ ہے) یہ جومشاہدہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اور کافر یکساں طور پر دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں، اس امرکی علامت ہے کہ دنیا کی ذاتی قدر نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزمائش کا وسیلہ ہے۔

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( اِنَّمَا اَمْوَٰلُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة ) (تغابن ١٥)

تمہارے اموال اور تمھاری اولادیں تمھارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہیں ۔

دوسری جگہ پر فرماتا ہے:

( اَلْمَالُ وَالْبُنُونَ زِینَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَالْبَٰاقِیَاتُ الصَّٰلِحَاتُ خَیْر عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْر اَمَلاً ) (کہف٤٦)

''مال اور اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاں پرور دگار کے نزدیک ثواب اور اُمید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں۔''

ایک دوسری آیۂ مبارکہ میں دنیا کے فانی ہو جانے اور خدا کے نزدیک موجود ہ چیزوں کے لافانی ہونے کے بارے میں فرماتا ہے:

( مَاعِندَکُمْ یَنْفَدُوَمَا عِندَ ﷲ بَاقٍ ) (نحل ٩٦)

جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

انسان تصور کرتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں قیمتی ہیں اورجو ان سے بیشتر استفادہ کرتاہے وہ زیادہ قدر و منزلت رکھتا ہے۔ قرآن مجید اس غلط تصور کے بارے میں فرماتا ہے:

( فَاَمَّا الْاِانْسَانُ اِذَامَاا بْتَلَٰهُ رَبُّهُ فَاَکْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَیَقُولُ رَبِّی اَکْرَمَنِ وَاَمَّا اِذَامَا ابْتَلَٰهُ فَقَدَرَعَلَیْهِ رِزْقَهُ فَیَقُولُ رَبِّی اَهَٰنَنِ ) (فجر ١٥و١٦)

''لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب خدا نے اس کو اس طرح آزمایا کہ اسے عزت اور نعمت دی تو کہنے لگا میرے رب نے مجھے باعزت بنایا ہے،اور جب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کر دیا تو کہنے لگا میرے پرور دگار نے میری توہین کی ہے۔''

حقیقت میں دنیا امتحان کا وسیلہ ہے اور انسان، خواہ نعمت اور مال دنیا سے سرفراز ہو یا محروم ہو، خدا کی طرف سے آزمائش ہے نہ دنیا سے بہر مند ہونا کرامت وسر بلندی کی علامت ہے نہ ہی فقرو تنگدستی ذلت وخواری کی نشانی ہے پس چونکہ دنیا خدا کے نزدیک ناچیز ہے، اس لئے کافر کو اس سے محروم نہیں کرتا، اس کے برعکس بہشت اور اس کی نعمتیں خدا کے نزدیک قدر و قیمت رکھتیں ہیں، اس لئے ان سے کافر کو محروم کرتا ہے:

( وَنَادیٰ َصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآئِ اَوْمِمَّا رَزَقَکُمُ ﷲ قَالُوا اِنَّ ﷲ حَرَّمَهُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ ) (اعراف ٥٠)

اور جہنم والے جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ذرا ٹھنڈا پانی یا خدا نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی پہنچائو تو وہ لوگ جواب دیں گے کہ ان چیزوں کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے۔

بہشت اور اس کی نعتوں کی ایسی قدرو منزلت ہے کہ کافر ان کی لیاقت نہیں رکھتے اور حقیقت میں یہ بنیادی قدرو منزلت اولیائے الہٰی سے مخصوص ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے، اسی لئے کافر بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں اور ممکن ہے وہ دوسروں سے زیادہ اس سے استفادہ کریں اور دنیوی وسائل سے بہرہ مند ہوجائیں، البتہ جتنا وہ اس سے زیادہ استفادہ کریتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کے عذاب میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ کفار اسے راہ حق سے انحراف اور بغاوت کے لئے استفادہ کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا کے حقیر اور ناچیز ہونے کے بارے میں قسم کھاتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مطلب کے بارے میں باور کرنا عام انسانوں کے لئے مشکل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے یہ دنیا اتنی وسعت، منابع و امکانات اور انسان کے استفادہ کے لئے فراوان لذتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود خدا کے نزدیک ایک مکھی کے پر کے برابر قیمت اور اہمیت نہیں رکھتی ہے! اس سلسلہ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حقائق کے بارے میں ہماری معلومات محدود اور ہماری بصیرت کم ہے۔ ہم نے ماد یات کی طرف توجہ کو اپنی زندگی کی بنیاد قرار دیا ہے اورد نیا کو اصلی ہدف سمجھتے ہیں۔ ہم اس سے غافل ہیں کہ خدا کے نزدیک اور قرآن کے نظریہ کے مطابق دنیا ناچیز ہے اور صرف ایک وسیلہ کی حد تک اعتبار رکھتی ہے۔ حقیقی قدر و قیمت ان نیکیوں اور خوبیوں کی ہے جو انسان کے لئے سعاد تمندی اور رضوان الہٰی کا سبب بنتی ہیں۔ حقیقی قدر و قیمت اس چیز میں ہے جو انسان کے لئے قرب الہٰی حاصل کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ وہی مقصد ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرے۔

____________________

١۔نہج البلاغہ (ترجمہ فیض الاسلام) حکمت ٢٠٢' ص ١١٨٢

۲- نہج بلاغہ ترجمہ فیض الاسلام ،خطبہ ٢٣٤، ص ٧٧٦