زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)13%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26262 / ڈاؤنلوڈ: 4085
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

زاد راہ (پہلی جلد)

پہلا سبق

بندگی کی کیفیت اور کامیابی کا راستہ

*عبادت اور خدائے متعال کے حاضر و ناظر ہونے کا ادراک

*خداوند عالم کی پرستش و بندگی، ترقی اور بلندی کا ذریعہ

*خدا کی بندگی کے مراحل

الف : خداوند عالم کی معرفت

ب۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعتراف

ج۔ اہل بیت علیہم السلام کی محبت

*حضرت نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت کی تشبیہ

بندگی کی کیفیت اور کامیابی کا راستہ

''عَنْ اَبی الْاَسْوَدِ الدُّ ؤِلی : قَالَ قَدِمْتُ الرَّبَذَةَ فَدَخَلْتُ عَلٰی أبی ذَرٍّ، جُنْدَبِ ِبنْ جُنٰادَةَ رَضِیَ ﷲ عَنْهُ ، فَحَدَثَنی أبُوذَرٍّ قٰالَ : دَخَلْتُ ذَاتَ یَومٍ فی صَدْرِ نَهٰارِهِ عَلٰی رَسُولِ ﷲ ، صَلَی ﷲ عَلَیْهِ وَ آلِهِ ، فی مَسْجِدِهِ فَلَم أ َرَ فِی الْمَسْجِدِ َحَداً مِنَ النَّاسِ ِالاَّ رَسُولُ ﷲ ،صَلَی ﷲ عَلَیْهِ وَ آلِهِ ، و عَلِی عَلَیهِ السَّلام إِلٰی جٰانِبِهِ جٰالِس فَاغْتَنَمتُ خَلْوَةَ الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ ﷲ بِاَبی إَنْتَ وَ ُامّی ، اَوصِنی بِوَصِیَّةٍ یَنْفَعُنِی ﷲ بِهَا ، فَقَالَ: نَعَمْ وَ أکْرِمْ بِکَ یَا ابَاذَر إنَّکَ مِنَّا َأهْلَ الْبَیْتِ وَ ِانّی مُوصیکَ بِوَصِیَّةٍ فَأحْفظْهَا فَاِنَّهَا( وَصِیَّة) جَامِعَة لِطُرُقِ الْخَیْرِ وَ سُبُلِهِ فَإنَّکَ اِنْ حَفِظْتَهٰا کَانَ لَکَ بِهٰا کِفْلٰانِ.

یٰاأبَاذَرٍّ : اُعْبُدِ ﷲ کَأنَّکَ تَرَاهُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاهُ فَإنَّهُ یَرٰاکَ وَ اعْلَمْ أَنَّ اَوَّلَ عِبٰادَةِ ﷲ الْمَعْرِفَةُ بِهِ فَهُوَ الْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیئٍ فَلٰا شَیئٍ قَبْلَهُ وَ الْفَرْدُ فَلاَ ثٰانِیَ لَهُ وَ الْبٰاقی لاٰ اِلٰی غَایَةٍ ، فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ مٰا فِیهِمٰا وَ مٰا بَیْنَهُمٰامِنْ شَیئٍ) ۱ ( وَ هُوَّ ﷲ اللَّطیفُ الْخَبیرُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدیر ، ثُمَّ الْاِیْمٰانُ بی وَ الْاِقْرَارُ بِاَنَّ ﷲ تَعٰالٰی اَرْسَلَنی اِلیٰ کَافَّةِ النَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ دَاعِیاً اِلٰی ﷲ بِاِذْنِهِ وَ سِرَاجاً مُنیراً ثُمَّ حُبُّ َأهْلِ بَیْتی الَّذینَ أذْهَبَ ﷲ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهیراً

وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ َاهْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَهٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْهٰا غَرِقَ وَ مِثْلَ بٰابِ حِطَّةٍ ) فی ( بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَهُ کٰانَ آمِناً''

جس روایت کو ہم نے اپنی بحث کا محورقرار دیا ہے ، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان جامع اور انتہائی فائدہ مند موعظوں میں سے ہے جنھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو ذر نامی اپنے ایک عالی مقام صحابی سے فرمایا ہے، اس روایت کا متن تھوڑے فرق کے ساتھ درج ذیل گراں قدر کتابوں میں درج ہوا ہے :

'' مکارم الاخلاق '' '' امالی شیخ طوسی '' ''مجموعۂ ورام '' اور '' بحار الانوار' ' جلد ٤ ( طبع بیروت ) و جلد ٧ ( طبع ایران )

خدا کی مدد سے ہم اسے بحار الانوار سے نقل کرکے حتی الامکان اس کی تفسیر و تشریح کریں گے ابو الاسود دوئلی کہتے ہیں : جب ابوذر اپنی جلاوطنی کی جگہ '' ربذہ'' میں تھے۔ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انھوں نے میرے لئے ایک روایت نقل کی ۔ ابوذر نے فرمایا: ایک دن صبح سویرے مسجد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کوئی اور نہیں تھا، میں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کے بعد احترام بجالاکر فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں ، مجھے ایک ایسی چیز کی سفارش فرمائیے جس کے سبب خدائے تعالی مجھے فائدہ بخشے ۔

آنحضرت نے لطف و عنایت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

نَعَمْ وَ أکْرِمْ بِکَ یَا ابَاذَر ،ِإنَّکَ مِنَّا َأهْلَ الْبَیْتِ

اے ابوذر ! تم کتنے با کرامت انسان ہو کہ ہمارے اہل بیت علیہم السلام میں شمار ہوتے ہو۔(۲)

''أفْعِلْ بِهِ '' عربی می ںصیغۂ تعجب کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی چیز کے بارے میں تعجب کرے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے حسن و زیبائی کے بارے میں تعجب کیا جائے تو بولتے ہیں :' ' َجْمِلْ بِکَ'' کتنے خوبصورت ہو ! اس لحاظ سے لفظ ''أکْرِمْ بِک'' کا معنی یہ ہے کہ '' تم کتنے با کرامت انسان ہو !''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ سے لفظ کریم کا ابوذر جیسے انسان کے لئے استعمال کرنا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک اس بزرگ صحابی کی عظمت اور مقام و منزلت کی دلیل ہے اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مذکورہ بیان کی تاکید میں ا بوذر کو اپنے اہل بیت علیہم السلام کے زمرے میں شمار کیا ہے (سلمان فارسی کے بارے میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے : ''سلمان منّا اهل البیت ''

حدیث کو بیان فرماتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر کو موعظہ فرماتے ہیں:۔

وَ ِانّی مُوصیکَ بِوَصِیَّةٍ فَاحْفَظْهَا فَاِنَّهَا ( وَصِیَّة ) جَامِعَة لِطُرُقِ الْخَیْرِ وَ سُبُلِهِ فَإنَّکَ اِنْ حَفِظْتَهٰا کَانَ لَکَ بِهٰا کِفْلٰانِ ''

میں تجھے ایک موعظہ کی سفارش کرتا ہوں اور امید ہے کہ تم اسے حفظ کرکے اس پر عمل کرو گے ، کیوں کہ اس موعظہ میں خیر و خوش بختی کی تمام راہیں موجود ہیں ،اگر تم میری اس وصیت پر عمل کرو گے تو تجھے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی جائے گی۔

مذکورہ جملہ میں وصیت کا معنی پند و نصیحت ہے نہ مرتے وقت کی جانے والی وصیت، اس کے علاوہ '' طریق'' و '' سبیل '' دونوں لفظ راستہ کے معنی میں ہیں ، لیکن '' طریق '' اصلی اور وسیع راستہ کے معنی میں ہے اور '' سبیل '' فرعی اور معمولی راستہ کے معنی میں ہے ۔

کفلان سے دو معنی تصور کئے جاسکتے ہیں ، ایک '' دوگنا رحمت '' کے معنی میں ۔

قرآن مجید میں میں بھی '' کفلان '' اس معنی میں استعمال ہوا ہے :

( یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوﷲ وَ آمِنُوا بِرَسُولِهِ یُؤتِکُمْ کِفْلَینِ مِنْ رَحْمَتِهِ ) (حدید ٢٨)

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واقعی ایمان لے آؤ تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دہرے حصے عطا کردے

اس لحاظ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمائش کا یہ معنی ہوگا : اگر میری نصیحت پر عمل کرو گے تو تجھے دگنا خیر ملے گی ۔ لیکن اس کا دوسرا معنی اور احتمال یہ ہے کہ '' کفلان '' دنیا و آخرت کے معنی میں ہوگا اور اس صورت میں جملہ کا معنی یوں ہوگا : اگر میرے کہنے پر عمل کرو گے تو تجھے دنیا و آخرت کی سعادت ملے گی۔

عبادت اور خدا کا ادراک :

یٰاأبَاذَرٍّ : ُعْبُدِا ﷲَ کَاَنَّکَ تَرَاهُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاهُ فَاِنَّهُ یَرٰاک

اے ابوذر !خداوند تعالی کی ایسی پرستش کر وکہ جیسے اسے دیکھ رہے ہو، کیونکہ اگر تم اسے نہیںبھی دیکھتے ہو ، وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

اگر حدیث کا یہ حصہ متواتر نہ ہو تو کم از کم مستفیض ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئی طریقوں سے غالباً ابوذر کے توسط سے گوناگوں تعبیروں سے نقل ہوا ہے ۔ اس معنی کے بارے میں ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :

''اَلْاِحْسَان ُ اَنْ تَعْبُدَ ﷲ کَاَنْکَ تَرَاهُ ''(۳)

نیکی وہ ہے کہ خدا کی ایسی عبادت کی جائے کہ گویا اسے دیکھ رہاہے ۔

شاید ابوذر کیلئے جس نے سالہا سال خدا کی بندگی کی راہ میں قدم اٹھائے ہیں اورسعادت

حاصل کرنے کیلئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں بہترین نصیحت یہ ہو کہ اسے عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا جائے اور اس کے سامنے وہ راستہ پیش کیا جائے جس کے ذریعہ وہ اپنی عبادت سے بہترین استفادہ کر سکے اور عبادت کے دوران حضور قلب پیداہو ۔

حضور قلب حاصل کرنے کا راستہ ، مشق و ممارست اور خداوند عالم کو حاضر و ناظر جاننے کا ادراک ہے ، یعنی انسان ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے حضورمیں تصور کرے اور اس سے مانوس ہو اگر کوئی شخص خدا سے انس پیدا کرلے تو وہ خدا سے گفتگو کرتے اور اس کی بات سنتے ہوئے ہرگز تھکن محسوس نہیں کرے گا ، کیونکہ عاشق جتنا زیادہ اپنے معشوق سے محو گفتگو رہتا ہے اتنا ہی زیادہ تشنہ رہتا ہے ۔

یہ جو ہم عبادت انجام دینے میں جلدی تھکن محسوس کرتے ہیں اور نماز کو عجلت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اپنے کاروبار کے پیچھے دوڑتے ہیں اور اگر نماز قدرے طولانی ہوجائے تو نہ یہ کہ کسی قسم کی لذت محسوس نہیںکرتے بلکہ اپنے آپ کو قفس میں محبوس پاتے ہیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم اس بات کو درک نہیں کرتے کہ کس کے حضور میں کھڑے ہیں اور کس سے گفتگو کررہے ہیں ! ممکن ہے ہمیں علم حصولی کے ذریعہ خداوند عالم کی بندگی کے عظیم مرتبہ کی معرفت ہو اور اس کی عظمت سے ہم آگاہ ہوں لیکن ان ذہنی مفاہیم نے ہمارے دل پر کوئی اثر نہ کیا ہو اور خداوند عالم سے حقیقی رابطے کاذریعہ نہ ہو بلکہ جو چیز جو خدائے متعال سے حقیقی اور واقعی رابطے کا سبب ہے ، وہ عبادت کے دوران حضور قلب ہے ۔ جن عبادتوں کو ہم انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ صرف ہمارے لئے شرعی تکلیف انجام دینے کا سبب بنتی ہیں اور اس سے جو فائدہ ہمیں اٹھانا چاہیئے وہ نہیں اٹھاتے ہیں،کیونکہ ہماری عبادتیں بے روح ہوتی ہیں اور یہ حضور قلب کے بغیر انجام پاتی ہیں ۔ دنیوی امور میں مشغول

رہنا خدا سے قلبی انس اور حضور قلب پیدا کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے ، اور یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کا ہمیں سامنا ہے ۔

مسلسل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نماز میں حضور قلب پیدا کرنے کیلئے کیا کیا جائے ؟ حضور قلب حاصل کرنے کیلئے مشق اور ریاضت کی ضرورت ہے ،سب سے پہلے انسان کو ایک گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اس امر پر غور کرنا چاہیئے کہ خداوند متعال اسے دیکھ رہا ہے ۔ بعض معلم اخلاق یہ نصیحت کرتے تھے کہ اس مشق میں تخیلاتی پہلوئوں سے استفادہ کرناچاہیئے ، یعنی ایک کمرے میں یا ایک خلوت جگہ پر بیٹھے ہوئے فرض کریں کہ کوئی شخص چپکے سے تمھاری رفتار و کردار پرنظر رکھے ہوئے ہے تو کیا نظر رکھنے کی صورت میں اور کسی کے نظر نہ رکھنے کی صورت میں تمھاری رفتار ایک جیسی ہوگی ؟ خاص کر اگر وہ شخص کوئی عام شخص نہ ہو بلکہ اسے تم قابل اہمیت سمجھتے ہو اور اپنی قضا و قدرکا مالک جانتے ہو تم چاہتے ہو کہ اس کی نظر میں عزیز رہو اور وہ تجھے دوست رکھے، کیا اس صورت میں تم اس سے بالکل غافل رہ کر کوئی اور کام انجام دے سکتے ہو ؟

اگر انسان یہ کوشش کرے کہ مشق اور ریاضت سے اپنے اندریہ یقین پیدا کرلے کہ وہ خدا کے حضور میں ہے اور خدائے متعال اسے دیکھ رہا ہے اگر چہ وہ خدا کو نہیں دیکھ رہا ہے لیکن خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے ، تووہ اپنی عبادت میں حضور قلب پیدا کرکے اسے با روح عبادت میں تبدیل کرسکتا ہے پھر وہ عبادت صرف تکلیف شرعی سے چھٹکارا پانے والی عبادت نہیں ہوگی بلکہ وہ عبادت معنوی ترقی و بلندی اور قرب الہی کا سبب ہوگی بے شک حضرت علی علیہ السلام کا مندرجہ ذیل بیان اس مطلب کا گواہ ہے :

''اِتَّقُوا مَعَاصِیَ ﷲ فِی الخَلَوَاتِ فَاِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاکِمُ ''(۴)

خلوت کی جگہوں پر گناہ انجام دینے سے پرہیز کرو ، کیونکہ جو تمہارے اعمال کاشاہد ہے وہی حاکم ہے ۔

لہذا ، جنہوں نے نماز کے دوراں حضور قلب حاصل کرنے کے بارے میں اب تک مشق

نہیں کی ہے انہیں دن اور رات کے دوران ایک وقت کو مقرر کرکے خلوت میں بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ خدا انہیں دیکھ رہا ہے البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ خدائے تعالی ٰ کے حضور میں ہے اور خدا اسے دیکھ رہا ہے قرآن مجید نے بھی کئی مواقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :

( یَعْلَمُ خَائِنَةَ الاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُورُ ) ( مومن ١٩)

وہ خدا نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے بھیدوں سے بھی باخبر ہے

ایک شاگرد سے نقل ہو اہے کہ : میں اپنے استاد کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے سراہنے پہنچا اور ان سے آخری نصیحت کرنے کی درخواست کی استاد نے بڑی مشکل سے اپنی زبان کو حرکت میں لاکر فرمایا:

''اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ ﷲ یَریٰ ''

کیا تم نہیں جانتے ہو کہ خداوند عالم دیکھ رہا ہے ؟ '

حضرت علی علیہ السلام اپنے کلمات قصار میں فرماتے ہیں :

''اَیُّهَا النَّاسُ ، اِتَّقُواﷲ الَّذِی اِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ وَ اِنْ اَضْمَرْتُمْ عَلِمَ ''(۵)

اے لوگو ! اس خدا سے ڈرو، جو تمہاری بات کو سنتا ہے اورپوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے ۔

اس حدیث کے پہلے حصہ میں حضرت نے عبادت کو انسان کی سعادت کی کلید کے عنوان سے بیان فرمایا ہے اور اس کے دوسرے حصوں میں خداوندعالم کی عبادت کے مراحل کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس کے علاوہ پہلے حصہ میں عبادت کی کیفیت کی سفارش کی گئی ہے یعنی عبادت میں روح ہونی چاہیئے اور اس کی روح حضور قلب ہے حقیقت میں اصل عبادت و بندگی کی طرف براہ راست اشارہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ مسلّم امر کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔

خدا کی پرستش و بندگی ، مومنین کی ترقی و بلندی کا ذریعہ

قابل ذکر بات ہے کہ انسانی جوہر ، خدا کی عبودیت اور بندگی میں پوشیدہ ہے اور انسان عبادت کے بغیر تمام حیوانات پر اختیاری امتیاز نہیں رکھتا ہے بلکہ صرف تکوینی امتیازات رکھتا ہے بغیر اس کے کہ اس نے ان کا حق ادا کیا ہو ، خدائے متعال کی عبادت سے اجتناب کرنے والا حقیقت میں انسانی کمال کی راہ کو اپنے لئے مسدود کرتا ہے کیونکہ انسانی کمال تک پہنچنا صرف اسی راہ سے ممکن ہے۔

اگر ہم عظیم شخصیتوں کی طرز زندگی پر غور کریں تو مشاہدہ کریں گے کہ ان کی زندگی کے ناقابل تفکیک اصول میں ، خدا کی بندگی ہے جن شخصیتوں نے '' کلیم اللہ ' ، '' خلیل اللہ '' اور '' حبیب اللہ '' کے مقام تک پہنچنے کی سعادت و لیاقت حاصل کی ہے ، وہ سب صرف اس راہ کو طے کرنے اور مشکل امتحانات اور آزمائشوں سے گذرنے کے بعد ان بلند مقامات تک پہنچ گئے ہیں ۔ حتی ایک شخص کو بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ، جو خدائے متعال کی بندگی کے بغیر انسان کے اختیاری کمالات تک پہنچ گیا ہو مذکورہ مطالب کے علاوہ ''رضا'' ، '' یقین '' وغیرہ جیسے مقامات حاصل کرنے کیلئے بھی عبودیت و بندگی میں جستجو کرنی چاہیئے ۔

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِینُ ) (حجر ٩٩)

اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیئے جب تک یقین حاصل ہوجائے اور مقام رضا کے سلسلہ میں فرماتا ہے :

( وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوبِهَا وَ مِنْ ا نَایءِ الَّلْیلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی ) (طہ ١٣٠)

اور آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور رات کے وقت اور دن کے اطراف میں بھی تسبیح پروردگار کریں تا کہ آپ مقام رضا حاصل کرسکیں ۔

تمام پیغمبر کی رسالت کا مقصد لوگوں کو خداوند متعال کی بندگی کی ہدایت ، خد اکی عبادت کا امر اور طاغوت کی پرستش سے نہی کرناتھا:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُواا ﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ) ( نحل ٣٦)

اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ...''

یہ امر قرآن مجید کے مورد تاکید مطالب میں ہے کہ تمام مخلوقات خواہ نخواہ ستائش و بندگی خدا میں مشغول ہیں :

( یُسَبِّحُ ﷲِ مَا فیِ السَّمٰواتِ وَ مَا فِی الارضِ ) (جمعہ ١)

زمین و آسمان کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح کررہا ہے ''

لیکن یہ بندگی تکوینی ہے اور انسان کے کمال میں کوئی کردار نہیں رکھتی ،بلکہ انسان کے کمال میں کردار ادا کرنے والی بندگی وہ ہے جو اختیار کے ساتھ انجام پاتی ہے ، ورنہ پتھر اور پہاڑ بھی تکوینی بندگی کے نتیجہ میں کمال تک پہنچتے ۔

خداوند عالم کی بندگی و عبادت کی اہمیت و قدر و قیمت اس قدر ہے کہ خالق نے قرآن مجید میں جن و انس کی تخلیق کے انتہائی سبب کو عبادت قرار دیا ہے :

( وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَ الاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُون ) (ذاریات ٥٦)

اور میں نے جنات اور انسانو ںکو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ''

مذکورہ مطالب کے علاوہ ، حسِ پرستش انسان کی فطرت ہے ، یعنی پرستش کی ضرورت کا احساس انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے ، اس حقیقت کو ادیان اور قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرکے پایا جاسکتا ہے لیکن ایسی کوئی قوم یا سماج نہیں پایا جاتا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی پرستش و عبادت نہ کی جاتی ہو۔

خدا کی بندگی کے مراحل :

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبادت کے مراحل بیان فرماتے ہیں:

الف : خدا کی معرفت

''وَ اعْلَمْ َنَّ اَوَّلَ عِبٰادَةِ ﷲ الْمَعْرِفَةُ بِهِ فَهُوَ الْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیئٍ فَلٰا شَیئٍ قَبْلَهُ وَ الْفَرْدُ فَلاَ ثٰانِیَ لَهُ وَ الْبٰاقی لاٰ اِلٰی غَایَةٍ ، فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَا لْاَرْضِ وَ مٰا فِیهِمٰا وَ مٰا بَیْنَهُمٰامِنْ شَیئٍ (۶) وَ هُوَ ﷲ اللَّطیفُ الْخَبیرُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدی

اے ابوذر! جان لو کہ خدائے متعال کی عبادت کاسب سے پہلا مرحلہ اس کی شناخت ہے ، بے شک وہ سب سے پہلا ہے اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہ یکتا ہے اس کے مانند کوئی نہیں ہے وہ ابدی اور جاوداں ہے ، وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان اور ان میں موجود ہے خلق کیا ہے اور خداوند عالم دانا و مہربان ہے ، وہ ہر کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے۔

عبادت کے پہلے مرحلہ کے اس حصہ میں ، خدا کی ،معرفت ذکر کی گئی ہے البتہ خود خدا کی معرفت کے گوناگوں مراحل ہیں ، لیکن جو کچھ خدا کی عبادت و بندگی میں ضروری ہے وہ خداوند عالم کی اجمالی شناخت ہے ، یعنی انسان جان لے کہ ایک خدا موجود ہے اور وہ انسان و کائنات کا خالق ہے ۔ اگر انسان کیلئے شناخت کا یہ مرحلہ حاصل نہ ہو تو وہ خدا کی عبادت و پرستش کے مرحلہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ پس شناخت کا یہ مرحلہ عبادت پر مقدم ہے البتہ انسان اپنے ارتقائی سفر کے انتہائی مقام پر شناخت و معرفت کے بلند ترین مرحلہ میں پہنچتا ہے جو اولیائے خدا کیلئے مخصو ص ہے اور ہم ا سکی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ، بلکہ ہم اجمالی طور پر اتنا جانتے ہیں کہ کمال معرفت کی انتہا گراں قیمت او ر بلند ہے جسے اولیائے خدا اپنے ارتقائی سفر کے آخر ی مراحل میں حاصل کرتے ہیں اور وہی خدا کی عبادت کاانتہائی مرحلہ ہے ۔

انسان کیلئے ، عبادت کے پہلے مرحلہ کو حاصل کرنے کے بعد ، یعنی یہ جاننے کے بعدکہ ایک خدا موجود ہے ،ضروری ہے خدا کے صفات او رآثار پر غور کرے تا کہ وہ معرفت اس کے دل میں راسخ ہوجائے اور صرف ایک ذہنی معرفت کی حد تک باقی نہ رہے ، بلکہ وہ معرفت ایک ایسی حاضر و زندہ معرفت میں تبدیل ہوجائے جو انسان کی رفتار پر اثر انداز ہو۔

'' معرفت متوسط'' کے بھی گوناگوں مراتب ہیں اور ا سکا دامن بھی وسیع ہے ۔ انسان آیات الہی میں تفکر اور غور و خوض کرکے اور عملی عبادت کے ذریعہ اس کے مراتب کو حاصل کرسکتا ہے ۔ مذکورہ بیان سے واضح ہوا کہ صفات و آثار الہٰی میں تفکر کرنا اور خدا کو بہتر پہچاننے کیلئے جستجو کرنا ، ایک اختیاری امر وعبادت ہے ، جس کے دوران معرفت حاصل ہوتی ہے جو عبادت کے مقدمات میں سے ہے ۔

(آیات الہی میں غور و خوض معرفت کا مقدمۂ قریبہ '' ہے اور استاد کے درس میں شرکت اور کتاب کا مطالعہ کرنا خدا کی معرفت حاصل کرنے کے منجملہ '' مقدمات ِ بعیدہ '' میں سے ہے )

ب۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعتراف

'' ثُمَّ الْاِیْمٰانُ بی وَ الْاِقْرَارُ بِاَنَّ ﷲ تَعٰالٰی اَرْسَلَنی اِلیٰ کَافَّةِ النَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ دَاعِیاً اِلٰی ﷲ بِاِذْنِهِ وَ سِرَاجاً مُنیراً''

'' ( دوسرے مرحلہ میں ) مجھ پر ایمان لانا اور اس امر کا اعتراف کرنا کہ خدائے متعال نے مجھے بشارت دینے والا ، ڈرانے والا ، اس کی اجازت سے خدا کی طرف دعوت دینے والا اور تمام انسانوں کیلئے شمعِ ہدایت قرار دیا ہے ''

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث میں ذکر ہوئی ہر صفت قابل تفسیر و توضیح ہے اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے بارے میں ہمارا ایمان قوی اور مکمل ہوجائے تو ہم بہت سے شبہات کے جال میں نہیں پھنسیں گے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں کافی معرفت اور ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے ضعیف الایمان مسلمان شبہ میں گرفتارہوجاتے ہیں اور ان شبہات کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اصلی راستہ سے منحرف ہوجاتے ہیں اور بالآخر خدا نخواستہ کفر میں مبتلا ہوتے ہیں ، کیونکہ اس بات پرا یمان نہیں رکھتے ہیں کہ ' ' جو کچھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر ماتے ہیں وہ سچ ہے ''

بعض ضعیف الایمان افراد کہتے ہیں : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے احکام ہمارے زمانہ میں قابل عمل نہیں ہیں ۔ یہ احکام اور دستورات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں '' جزیرة العرب '' کے لوگوں کے نامناسب حالات کی اصلاح کیلئے تھے ، اور اس زمانے میں اسلامی احکام کی ضرورت نہیں ہے ! یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ یہ لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اگر وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش پر ایمان رکھتے کہ : ''ارسلنی الی کافة الناس' ' تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت اور زمانہ کی محدودیت کے قائل نہ ہوتے ، حقیقت میں کہنا چاہیئے کہ دین میں ایجاد ہونے والے تمام انحرافات کا سرچشمہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں ایمان میں کمزوری ہے ۔

ج : اہل بیت پیغمبر کی محبت :

''ثُمَّ حُبُّ اَهْلَ بَیْتی الَّذینَ اَذْهَبَ ﷲ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهیراً ''

( تیسرے مرحلہ میں تجھے تاکید کرتا ہوں ) میرے اہل بیت کی محبت رکھنا ، یہ وہ ہیں جن سے خدائے متعال نے ہر برائی کو دور رکھا ہے اور انھیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا ہے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔''

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اہل بیت کی شناخت کی عظمت اور ان کی عظمت کی بلندی سے آگاہ ہونا اور ان کی محبت کی اہمیت اس قدر ہے کہ حضرت امام خمینی نے اپنے سیاسی ، عبادی وصیت نامہ کا آغاز اس روایت سے کیا ہے : ' ' انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ و عترتی ....''شاید دنیا والوں کیلئے یہ امر تعجب آور تھا کہ قائد انقلاب اپنے وصیت نامہ میں اس خاندان کے تابع ہونے پر افتخار کرتے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ اہل بیت سے محبت اور ان کی معرفت حاصل کرنے کی تاکید میں کون سا راز مضمر ہے ، شاید ہم اسے ایک سادہ امر جان کر یہ تصور کریں کہ چونکہ اہل بیت علیہم السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباہیں اس لئے ان کی محبت کی جانی چاہیے ! اگر ایسا ہوتا تو وہ قرآن مجید کے ہم پلہ ہونے کا تعارف نہیں کراتے ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت کی تاکید اس لئے نہیں کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقربا ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی بیویاں تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بارے میں ایسی تاکید نہیں فرمائی ہے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید اس لحاظ سے کہ خدائے متعال نے انہیں ہر قسم کی برائی اور ناپاکی سے پاک فرمایا ہے ۔

حضرت نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت کی تشبیہ :

'' وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ اَهْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَهٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْهٰا غَرِقَ وَ مِثْلُ بٰابِ حِطَّةٍ( فی) بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَهُ کٰانَ آمِناً''

اے ابو ذر جان لو ! خداوند عز و جل نے میرے اہل بیت علیہم السلام کو میری امت میں نوح کی کشتی کے مانند قرار دیا ہے کہ جو بھی اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ہوا ، اسی طرح وہ بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' کے مانند ہیں ، جو اس دروازہ سے داخل ہوا وہ عذاب الہی سے محفوظ رہا ''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں تاکید اور کشتی نجات اور بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' سے ان کی تشبیہ ، ایک جذباتی موضوع نہیں ہے ، کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے عزیزوں سے محبت اس امر کا سبب ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل ان کی دوستی اور محبت رکھنے کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے ،بلکہ یہ وصیت اور تاکید ایک عزیز کی محبت سے بالاتر ہے اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو امت کیلئے نجات کی کشتی جانا ہے اور آپ معتقد ہیں کہ جو بھی گمراہ اور وادی حیرت کا سرگرداں شخص اس کشتی میں سوار ہوجائے گا وہ گمراہی اور انحرافات کے تلاطم سے نجات پائے گا ،کیونکہ نوح کی امت نے ان کی نجات کی کشتی میں سوار ہوکر عذاب الہی سے نجات پائی اور جنہوں نے من جملہ نوح کے فرزند نے روگردانی کی وہ نابود ہوئے ۔

اسلام کی دعوت کے آغاز پر ، جب امت مسلمہ میں کوئی اختلاف و افتراق نہیں تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ میرے اہل بیت ، نوح کی کشتی کے مانند ہیں ، جو ان سے رابطہ نہیں رکھے گا اور ان کی پیروی نہیں کرے گا ، وہ قوم نوح کی طرح ہلاک ہوجائے گا ۔ حقیقت میں یہ ان مسلمانوں کیلئے ایک تنبیہ و انتباہ ہے ، جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحلت پاتے ہی بغض و نفاق اور انحرافات کے دروازے کھول دیئے اور کچھ منافق جو پہلے سے موقع کی تاک میں تھے دوسروں پر سبقت لے گئے کے ساتھ ہی ایجاد شدہ انحرافات ، تعصب اور نفاق کی بنا پر فرصت سے استفادہ کرکے سبقت کی، تنہا اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علیہ السلام کی سرپرستی میں ،ا مت اسلامیہ کو خطرات ، ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرجانے سے نجات دلاکر ان کے انحرافات میں رکاوٹ بن سکتے تھے ان کے مقابل میں جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی سے روگردانی کرتے ہیں وہ منحرف ہوکر گمراہ ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اپنے اہل بیت کی بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' سے تشبیہ فرماتے ہیں ، ] یہ دوتشبیہ ( کشتی نوح اور باب حطہ کی تشبیہ ) بہت سی شیعہ و سنی روایتوں میں نقل ہوئی ہیں اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں [

جب بنی اسرائیل بے شمار ظلم و گناہ کی وجہ سے عذابِ الہی میں مبتلا ہوئے اور چالیس سال تیک '' تیہ '' نامی صحرا میں آوارہ رہے ، استغفار و ندامت کے نتیجہ میں خدائے متعال نے اپنے لطف و کرم سے ان پر توبہ کا دروازہ ( جسے حطہ کہا جاتا تھا ) کھولا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْهَا حَیْتُ شِئْتُمْ رَغَداً وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَ قُولُوْا حِطَّة نَغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِینَ ) ( بقرہ ٥٨)

اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے کہا کہ اس قریہ میں د اخل ہوجاؤ اورجہاں چاہو اطمینان سے کھاؤ اور دروازہ سے سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ کہتے ہوئے داخل ہوجائو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جز امیں اضافہ بھی کرتے ہیں ۔

جو شخص بھی '' حطہ '' کے د روازہ سے داخل ہوتا تھا، عزت و احترام پانے کے علاوہ اس کے گناہ بھی معاف کئے جاتے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ مثال پیش کرنے کا مقصداس امر کی وضاحت فرمانا تھا کہ چونکہ بنی اسرائیل کے مؤمنین باب توبہ و حطہ سے داخل ہوکر اپنے لئے دوجہاں کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلی تھی اسی طرح اگر مسلمان بھی اہل بیت علیہم السلام کے علم و معارف اور ان کی اطاعت کے دروازہ سے داخلہوجائیں اور ان کی راہ پر چلیں تو اپنے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلیں گے ۔

لغت میں لفظ '' حطہ '' کا معنی گرانا اور نابودکرنا ہے ، بنی اسرائیل یہ لفظ کہہ کر خدا سے مغفرت اور اپنے گناہوں کونابود کرنے کی درخواست کرتے تھے ، خداوند عالم نے اسے ان کے گناہوں کی بخشش کیلئے ایک وسیلہ قرار دیا تھا ، لیکن ایک گروہ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتاتھا ، فرمان خدا کا مذاق اڑاتا تھا ، بعض روایتوں کے مطابق ' حنطہ '' ( گندم ) زبان بر جاری کرتا تھا ۔ خداوند عالم نے ان لوگوں کی نافرمانی اور توبہ و مغفرت سے انحراف کی بنا پر ان پر اپنا عذاب نازل کیا:

( فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَولاً غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزاً مِنَ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) ( بقرہ ٥٩)

مگر ظالموں نے ، جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے بدل دیا ( جو ان سے کہاگیا تھا اس کی جگہ پر ایک دوسرا لفظ رکھ دیا ) تو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانی کی بنا پر آسمان سے عذاب نازل کردیا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کا باب حطہ کے عنوان سے تعارف کرایا ، جن کی پیروی دونوں جہاں کی سعادت اورآخرت کے عذاب سے نجات پانے کا سبب ہے ، لیکن لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات پر یقین نہیں کیا اور اہلبیت کے بجائے دوسروں کا انتخاب کیا اورعلی علیہ السلام اور دوسروں کے درمیان فرق کے قائل نہیں تھے اور تصور کرتے تھے جس طرح علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد تھے عثمان بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد تھے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی خلیفۂ اول کے داماد تھے !

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ عبادت کے اصلی مراتب و مراحل ، قلبی امور اور اندرونی اعمال پر مشتمل ہیں ، یعنی کوئی بھی شخص تب تک عبادت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے جب تک وہ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معرفت اور ان پر ایمان نیز اہل بیت علیہم السلام کی محبت نہ رکھتا ہو ، لہذا عبادت ، ظاہری امور اور دکھاوے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ عبادت کی اصل اور حقیقت قلبی عقیدہ ہے اور تمام بندگیوں کا سرچشمہ قلب ہے ۔

____________________

۱لا من شیٔ (ظ)

۳۔ لفظ '' کرم و کرامت '' کے استعمال کے بارے میں راغب اصفہانی '' مفردات '' میں کہتے ہیں : خدائے متعال کے بارے میں اس کی طرف سے ظاہر ہوئی نیکیوں اور نعمتوں کو کرم کہا جاتا ہے ۔ لیکن انسان کے بارے میں اس سے ظاہر ہوئے نیک اخلاق و کردار کو '' کرم '' کہتے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے : '' کرم ' ، '' حریت '' کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ '' حریت 'کا چھوٹی اور بڑی نیکیوں پر اطلاق ہوتا ہے اور '' کرم '' صرف بڑی نیکیوں کو کہا جاتا ہے : جیسے کوئی شخص اپنی ساری دولت اسلامی فوج کو مسلح کرنے میں خرچ کرے (المفردات فی غریب القرآن ، دار المعرفة ، ص ٤٢٨) لفظ ' کرامت ' کے بلند معنی کی توصیف میں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں لفظ '' کریم '' انتہائی بلند اور مقدس اشخاص و اشیاء کی خصوصیت کے طور پر ذکر ہوا ہے کہ ہم ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

الف : خداوند عالم کی صفت :(و من کفر فان ربی غنی کریم ) نحل ٤٠

ب: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفت: (انه لقول رسول کریم )تکویر ١٩

ج: عرض کی صفت : (.. هو رب العرش کریم ) مومنون ١١٦ ،

د: ملائکہ کی صفت : (کراما کاتبین ) انفطار ١١

ھ : حضرت موسی کی صفت : (و جائهم رسول کریم ) دخان ١٧ ،

و: حضرت یوسف کی صفت: (...ان هذا الا ملک کریم ) یوسف ٣١

ز: بہشت میں مومنوں کے مقام ( جگہ ) کی صفت : (و کنوز و مقام کریم ) شعراء ٥٨

ح: مومنوں کے رزق کی صفت (....و مغفرة و رزق کریم ) انفال ٤ لفظ

۳۔بحار الانوار ، ج ٦٥ ، باب ١، ص ١١٦

۴۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، ص ١٢٤٠ ، حکمت نمبر ٣١٦۔

۵۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،ص ١١٧٨ ، حکمت نمبر ١٩٤)

۶۔ احتمال یہ ہے کہ نسخہ یوں ہو '' و مابینھما لا من شیء '' یعنی جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو کسی دوسری چیز سے مدد لئے بغیر خلق کیا ہے ۔

آیہ تبلیغ

( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) (۱)

اے پیغمبرﷺ! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔

آیت کے انداز پر غور کرنے سے یہ بات بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے کہ آیت کسی اہم ترین مسئلہ کے بارے میں خبر دے رہی ہے کیونکہ اس آیت میں ایسی تاکیدیں موجود ہیں جو اس سے پہلے نہیں پائی گئیں مثلاً:

۱ ۔ آیت "یا ایھا الرسول" سے شروع ہو رہی ہے اور پیغمبر گرامیﷺ کو منصب کے ذریعے مخاطب کیا گیا ہے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بیان کیا جانے والا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

۲ ۔ کلمہ "بلّغ" خود موضوع کی اہمیت و خاصیت پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ:

 یہکلمہ منحصر بہ فردہے ی عن ی پورے قرآن میں ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

 راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات قرآن میں کہتے ہیں کہ "ابلغ" کی نسبت اس لفظ میں زیادہ تاکید پائی جاتی ہے کیونکہ اگرچہ یہ لفظ ایک ہی آیت (سورہ مائدہ، آیت نمبر ۶۷) میں آیا ہے لیکن اس کلمہ میں تاکید کے علاوہ مفہوم تکرار بھی پوشیدہ ہے یعنی یہ موضوع اتنا اہم تھا کہ اسے لازمی طور پر بیان ہونا چاہیے اور اس کی تکرار بھی ہونا چاہیے۔

۳ ۔ جملۂ( و اِن لَم تفعل فما بلّغت رسالت ه ) اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ پیغمبر گرامی کو جس مطلب کے ابلاغ پر مامور کیا گیا ہے وہ اساس دین اور ستون رسالت و نبوت ہے کیونکہ اگر پیغمبرﷺ یہ کام انجام نہ دیں تو گویا فریضہ نبوت ادا نہ ہوسکے گا!

۴ ۔ پروردگار عالم کی طرف سے حضور اکرمﷺ کی جان کی حفاظت کی ضمانت لینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر کی تبلیغ میں یقیناً حضور کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے علاوہ شدید ردِّ عمل کا بھی خوف تھا لیکن خالق اکبر نے ان تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دیدی۔

توجہ:

 لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر آیۂ تبلیغ کس اہم ترین موضوع کے بارے میں خبر دے رہی ہے؟

 پیغمبرگرامیﷺ قدر کی یہ اہم ماموریت کیا تھی کہ جس کے لیئے پروردگار عالم نے واضح طور پر حفظ و امان کی ضمانت دی ہے؟

 حضورؐ سرور کائنات کو وہ کونسا حکم پہنچانا تھا جو آپؐ کی تمام رسالت کے مساوی تھا؟

 اللہ تبارک و تعالیٰ حضور اکرمﷺ سے کیا چاہتا ہے کہ جس کی خاطر ایک طرف آپ کو تہدید کر رہا ہے تو دوسری طرف حفظ جان کا وعدہ کر رہا ہے؟

آیت کے الفاظ پر غور و فکر اور تدبّر و تعمق سے تمام سوالات کے جوابات خودبخود حاصل ہوجاتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ غور و فکر کرنے والا تعصب کی عینک اتار کر منصفانہ طور پر کرسی قضاوت پر بیٹھے، کیونکہ:

اولاً: مورد بحث آیت، سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ ہے اور یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبرگرامیﷺ پر نازل ہونے والی یہ آخری سورت ہے جیسا کہ صاحب تفسیر "المنار" نے بیان کیا ہے کہ یہ پورا سورہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ و مدینہ کے درمیان نازل ہوا ہے۔(۲)

یعنی یہ آیت بعثت کے دسویں سال نازل ہوئی ہے جبکہ پیغمبر اکرم ﷺکو تبلیغ رسالت کرتے ہوئے ۲۳ سال گذر رہے تھے۔

سوال: آپ سوچ کر بتائیے کہ ۲۳ سال تبلیغ اور پیغمبر اکرمﷺ کی زندگی کا آخری سال شروع ہونے تک وہ کون سی چیز تھی کہ جس کا ابھی تک رسمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا؟

 کیا یہ اہم مسئلہ ، نماز کے بارے میں تھا حالانکہ مسلمان ۲۰ سال سے نماز پڑھ رہے تھے؟

 کیا روزہ کے بارے میں اعلان تھا جبکہ ہجرت کے بعد روزہ واجب ہوگیا تھا اور تقریباًٍٍ مسلمان ۱۳ سال سے روزے رکھ رہے تھے؟

 کیا یہ حکم تشریع جہاد سے متعلق تھا؟ جبکہ مسلمان ہجرت کے دوسرے سال سے جہاد کرتے ہوئے آرہے تھے؟

جواب: انصاف تو یہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا مذکورہ بالا امور میں سے کسی سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے! کیونکہ غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آخر پیغمبر اکرمﷺ کی ۲۳ سالہ طاقت فرسا زحمت و مشقت کے باوجود وہ کون سا اہم امر تھا جس کا اعلان ابھی باقی تھا؟

ثانیاً: آیۂ مبارکہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کی ماموریت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ اسے نبوت کے ہم وزن قرار دیا گیا ہے۔ مختلف علماء و دانشمند حضرات نے جو احتمالات دیئے ہیں یا جنکا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ بھی مبہم ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی امر بھی نبوت و رسالت کے ہم وزن نہیں ہوسکتا لہذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ اہم ترین امر کیا ہے جو رسالت و نبوت کے ہم وزن ہے اور ۲۳ سال میں ابھی تک انجام نہیں پایا تھا؟

ثالثاً: اس ماموریت کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ چند لوگ اس کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں وہ پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے جبکہ یہی مسلمان نماز، روزے، حج و زکواۃ وغیرہ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے پس یہ کوئی یقیناً سیاسی مسئلہ تھا جس کی اتنی شدت سے مخالفت ہو رہی تھی۔

لہذا تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے اور منصفانہ قضاوت کرنے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہم ترین مسئلہ غدیر خم میں پیغمبراکرم ﷺکا حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت و جانشینی کا رسمی طور پر اعلان تھا۔

روایات کی روشنی میں آیت کی تفسیر

( بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ ) اس حکم کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس آیہ کریمہ کی صحیح تفسیر و توضیح کیلئے ہمارے پاس یہ طریقہ ہے کہ ہم اس کی شان نزول میں وارد ہونے والی روایات، مفسرین کی آراء ونظریات اور مؤرخین کے اقوال سے مدد لیں۔

صدر اسلام کے بہت سے محدثین کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت حضرت علی ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے مثلاً:

۱ ۔ ابن عباس ۲ ۔ جابر بن عبد اللہ انصاری ۳ ۔ ابو سعید خدری ۴ ۔عبد اللہ بن مسعود ۵ ۔ ابو ہریرہ ۶ ۔ خذیفہ ۷ ۔ براء بن عازب کے علاوہ دیگر اصحاب بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ ولایت علی بن ابی طالبعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

مفسرین اہل سنت میں بھی بہت سے افراد کا یہ ہی نظریہ ہے کہ یہ آیت، ولایت علی بن ابی طالب‘ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مثلاً سیوطی اپنی تفسیر "در المنثور" میں، ابو الحسن واحدی نیشاپوری "اسباب نزول" میں، سید رشید رضا اپنی تفسیر "المنار" میں، فخر رازی اپنی تفسیر "التفسیر الکبیر" میں اور دیگر مفسرین نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہم قارئین کی سہولت کیلئے اور ان کے جذبہ جستجو کو مدّنظر رکھتے ہوئے فقط فخر رازی کے کلام کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں تفصیلات کیلئے مندرجہ بالا کتب و تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔

فخر رازی اہل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں ان کی جامع و مشروح تفسیر موجود ہے اور اس آیت کے بارے میں انہوں نے دس احتمال پیش کئے ہیں اور ولایت علی بن ابی طالبعليه‌السلام کو دسویں احتمال کے طور پر پیش کیا ہے۔

کلام فخر رازی

نزلت الآی ة فی فضل علی بن ابی طالب و لما نزلت ه ذ ه الآی ة اَخذ بید ه و قال: من کنت مولا ه فعلی مولا ه اللّ ه م وال من والا ه و عاد من عادا ه ، فلقی ه عمر فقال: ه نیئاً لک یابن أبی طالب! اصبحت مولای و مولی کل مؤمن و مؤمن ة ۔۔۔(۳)

یہ آیت (حضرت) علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ؐ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا "جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں۔ پس اے پروردگار جو علی بن ابی طالبعليه‌السلام کو قبول کرے تو اسے دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو تو بھی اسے دشمن رکھ۔ اس کے بعد حضرت عمر کھڑے ہوئے اور حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آکر کہنے لگے مبارک ہو اے علی بن ابی طالبعليه‌السلام کہ آج آپ میرے اور ہر مؤمن مرد و عورت کے رہبر و پیشوا مقرر ہوگئے۔

حاکم جسکانی نے بھی اپنی بے نظیر کتاب "شواہد التنزیل" میں زیاد بن منذر" سے روایت نقل کی ہے جس سے ثابت ہے کہ یہ آیت ولایت علی بن ابیطالبعليه‌السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔(۴)

ابلاغ پیام سے پیغمبرﷺکو خطرہ

آیت کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ سرور کائنات کو جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا اس سے پیغمبرؐ کو شدید خطرہ لاحق تھا اگرچہ اسلام سارے مراحل سے گذر چکا تھا اور خیبر و خندق کے معرکے سر ہوچکے تھے۔

ظاہر ہے یہ خطرہ پیغمبر اکرمﷺ کی حیات کیلئے نہیں تھا اور نہ آپ کو اس امر کی پرواہ تھی کہ اس کی خاطر تبلیغ حکم میں تاخیر فرماتے بلکہ آپ دین اسلام کی خاطر ہر طرح کی قربانی دے چکے تھے اور اب بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار تھے ہاں خطرہ اس بدنامی کا تھا کہ لوگ خاندان پرستی کا الزام لگا کر دین سے منحرف ہوجائیں گے اور سالہا سال کی محنت و زحمت خطرہ میں پڑ جائے گی۔

جیسا کہ جب حضوراکرمﷺ نے ولایت علیعليه‌السلام کا اعلان کیا تو اسی صحرائے غدیر میں ایک حارث ابن نعمان فہری نے اعتراض کر دیا اور کہنے لگا۔

"اگر جو کچھ آپ نے اس وقت بیان کیا ہے خدا کی طرف سے ہے تو پھر خدا سے دعا کیجئے کہ مجھ پر عذاب نازل کرے اور مجھے نابود کردے!" اور پھر بعد میں ایسا ہی ہوا۔

لیکن پروردگار عالم نے وعدہ کیا اور حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہوئے فرمایا:

( وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔(۵)

علماء اسلام نے اس حکم کے بارے میں بہت سی تاویلیں تلاش کی ہیں لیکن بالآخر یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت علیعليه‌السلام کو میدان غدیر خم میں اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی ؑ بھی مولا ہے جیسا کہ فخر رازی نے بھی اسے دسویں قول کے طور پر ذکر کیا ہے۔

شُبہات ، اعتراضات و اشکالات

یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی:

محترم قارئیں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کر دینا مناسب ہے کہ بعض لوگوں نے آیت کے معنی و مفہوم میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے ایک شبہ ایجاد کیا ہے تاکہ عام لوگ اصل معنی و مطالب کی طرف متوجہ نہ ہونے پائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکم تبلیغ خود اس بات کی علامت ہے کہ یہ ابتدائے اسلام کی مکی آیت ہے لہذا اس کا واقعہ غدیر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو محسوس کرسکتے ہیں کہ آیت کے ذیل میں( فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ) کا لہجہ دلیل ہے کہ آیت ، تبلیغ رسالت کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس کا ابتداءِ تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ اشکال ابن تیمیہ نے وارد کیا ہے اس کا کہنا ہے: اہل علم حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں مدینہ میں حجۃ الوداع سے کئی سال پہلے نازل ہوئی ہے (اگرچہ یہ سورۂ مائدہ میں موجود ہے)۔

اس لیئے کہ یہ آیت، رجم یا یہودیوں سے قصاص کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور یہ دونوں واقعات اوائل ہجرت میں فتح مکہ سے پہلے واقع ہوئے تھے۔(۶)

ابن تیمیہ کے اس قول میں شدید ضعف پایا جاتا ہے اور کوئی اس کا حامی نہیں سوائے فخر رازی و عینی کے کہ انہوں نے بعض لوگوں کی طرف اس کی نسبت دی ہے اور بطور قول "قیل" یعنی قول ضعیف کہا ہے۔

صحابہ و تابعین میں بھی کوئی اس نظریہ کا حامی نظر نہیں آتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ کے دعویٰ کی حمایت نظر آئے کہ اہل علم حضرات متفق ہیں۔ بلکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حتی ایک فرد بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی ہے بلکہ تاریخ و تفاسیر سے یہ بات ثابت ہے کہ علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ یہ آیت آخر نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔(۷)

احادیث کا جعلی ہونا

آیہ تبلیغ کے سلسلہ میں ولایت علی ؑ سے متعلق وارد ہونے والی احادیث کی اسناد کے بارے میں بعض اہل سنت نے چند ایک اسناد کے ضعیف ہونے کے بارے میں تو اظہار خیال کیا ہے جیسا کہ محقق کتاب "اسباب النزول واحدی نے ابو سعید خدری سے نقل ہونے والی حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے(۸) لیکن کسی نے بھی ان کے جعلی یا جھوٹے ہونے کے بارے میں نہیں کہا ہے لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ نے تعصب سے کام لیتے ہوئے ان احادیث کو جعلی و وضعی کہا ہے۔

ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ علمائے حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو نعیم کی کتاب "حلیۃ الاولیاء"، ثعلبی کی "فضائل خلفاء" اور واحدی کی تفسیر "نقاش" میں جھوٹی اور جعلی احادیث ہیں۔(۹)

جہاں تک احادیث کے ضعیٖف ہونے کا تعلق ہے تو کثرت اسانید اور ان کے مضامین کا آیہ تبلیغ سے ہم آہنگ ہونا اس قسم کے الزامات کو دور کر دیتا ہے اور روایات کی اسناد کے ضعیف ہونے کے احتمال کا بھی ازالہ و تدارک کر دیتا ہے۔

ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے کہ یہ احادیث صرف ابو نعیم اور ثعلبی نے نقل کی ہیں، حالانکہ اہل سنت کے بہت سے معتبر محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔

ابن تیمیہ جب ابو حاتم کو صحیح و جعلی احادیث کی شناخت کے سلسلہ میں مرجع تسلیم کرتے ہیں تو ابو حاتم کے فرزند نے اس آیۂ کریمہ کی شان نزول کے لیے کہا ہے کہ یہ حضرت علیعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے والد کے ذریعہ ابو سعید خدری صحابی پیغمبرﷺسے روایت نقل کی ہے۔ پس ایسی صورت میں ابن تیمیہ کس طرح یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ابو حاتم اس قسم کی جعلی احادیث کو ہرگز نقل نہیں کرتے۔ اور کس طرح یہ حکم عائد کر رہے ہیں کہ "اس قسم کی احادیث کا کذب و جھوٹ، احادیث سے کمترین آگاہی رکھنے والے سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ ابن ابی حاتم کی سند حدیث میں تمام رجال، موثق یا صدوق مانے گئے ہیں۔

ابن تیمیہ نے ابو نعیم و ثعلبی اوردیگر افراد کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو احادیث نقل کی ہیں انہیں ان کے صحیح السند ہونے کا یقین نہیں تھا بلکہ وہ ان کے ضعیف ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ کا یہ دعویٰ بہتان کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے دعوی کے اثبات میں کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکے لہذا انہیں اس بہتان کا جواب دینا چاہیے۔

انکار اعلان ولایت علیعليه‌السلام

اہل سنت کے مطابق واقعہ غدیر اور پیغمبر اکرم ﷺ کی جانب سے اعلان ولایت علی (من کنت مولا ه فعلی مولا ه ) میں کوئی شک و شبھہ اور تردید نہیں پائی جاتی بلکہ یہ واقعہ قطعی ہے۔ صرف ذہبی نے ابن جریر طبری کی شرح حال میں فرغانی سے نقل کیا ہے:

جب ابن جریر طبری کو یہ خبر ملی کہ ابن ا بی داؤد حدیث غدیر خم کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں اور اس کا انکار کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک کتاب فضائل ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے صحیح ہونے کے بارے میں روایات جمع کی ہیں۔(۱۰)

یاقوت حموی بھی کہتے ہیں:

بغداد کے بعض علماء، حدیث غدیر کا انکار اور تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: علی بن ابی طالب‘ اس وقت یمن میں تھے ۔۔۔ جب یہ خبر ابن جریر طبری کو ملی تو انہوں نے اس دعویٰ کی رد میں ایک کتاب فضائل علی بن ابی طالب‘ ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے مختلف طرق بھی بیان کیئے۔(۱۱)

ابو العباس ابن عقد نے بھی ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں حدیث غدیر کے طرق بیان کیئے ہیں۔(۱۲)

پس ان تمام شواہد کے بعد اعلان ولایت علی بن ابی طالب (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) کی صداقت کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک و شبھہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

انکار دعاءِ "اللهم وال من والاه"

واقعہ غدیر میں اعلان ولایت علی بن ابی طالب‘ کے بعد بہت سی کتب میں پیغمبراسلامﷺ کے دعائیہ کلمات ملتے ہیں، جس میں آپ ﷺنے فرمایا:" الل ه م وال من والا ه و عاد من عادا ه و انصر من نصر ه و اخذل من خذل ه " لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

"بیشک حدیث کا یہ حصہ علماء حدیث کی اتفاق نظر سے جھوٹ ہے اس لئے کہ پیغمبرؐ اکرم کی دعا لازمی طور پر مستجاب ہوتی ہے لیکن یہ دعا مستجاب نہ ہوئی لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعاءِ پیغمبر اسلامﷺ نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے سابقین نے زمانہ خلافت علیعليه‌السلام میں ان کی مدد نہیں کی بلکہ ان سے برسر پیکار ہوئے اور ان کے بارے میں صحیحین میں وارد ہوا ہے کہ یہ حضرات ہرگز دوزخ میں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ صلح حدیبیہ کے اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ انہیں علیعليه‌السلام سے جنگ کے بعد کسی قسم کی ذلت و خواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے بعد انہوں نے کفار سے جنگ کی تو خدا نے ان کی مدد کرتے ہوئے انہیں فتحیاب کیا پس صفِ علی میں آنے والوں کے لیئے نصرت خدا کہاں ہے؟!(۱۳)

ابن تیمیہ کے یہ دعوے قرآن کریم کے معیار و موازین اور حدیث شناس علماء کے نظریہ کے برخلاف ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہیں کیونکہ:

اولاً: جن احادیث میں"من کنت مولا ه فعلی مولا ه " کے بعد "الل ه م وال من والا ه ۔۔۔" آیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اہل سنت کے بزرگ و معتبر حدیث شناس علماء کی نظر میں صحیح السند ہیں جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے "یہ حدیث، شیخین، (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔(۱۴)

ان کے علاوہ ذہبی، ابن کثیر ، احمد بن حنبل وغیرہ نے بھی اسے بطور صحیح قبول کیا ہے۔

ان شواہد کے بعد ابن تیمیہ کو کیسے یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ کہنے لگے کہ حدیث شناس علماء کا اس حدیث کے جعلی و کذب ہونے پر اتفاق نظر ہے؟!

ثانیاً: مارقین و ناکثین سے حضرت علی علیہ السلام کی جنگیں تاویل قرآن پر تھیں اور اس کے بارے میں حضورؐ سرورکائنات پہلے سے پیش گوئی فرما چکے تھے: اِنّ منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کما قاتلت علی تنزیلہ ؛ تم میں ایک وہ ہے جو تاویل قرآن کے لیے جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس تنزیل قرآن کے لیے جنگ کی ہے۔ اہل سنت کے مطابق یہ حدیث صحیح السند ہے اور اس کے طرق و مصادر بھی متعدد ہیں۔(۱۵)

ثالثاً: جو تاویل قرآن کی خاطر جنگ کرے قطعی طورپر نصرت الٰہی اس کے شامل حال رہے گی یہاں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نصرت الٰہی سے کیا مراد ہے اگر اس سے مراد ہر میدان میں حق والوں کی ظاہری کامیابی و فتح اور باطل کی شکست و ناکامی ہوجیساکہ ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے، تو پھر انبیاء و مؤمنین کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جن کی کامیابی و کامرانی اور ان کی مدد کا خدانے وعدہ کیا ہے لیکن ایسا واقع نہ ہوا۔ پروردگار عالم فرماتا ہے:( انَّا لننصر رُسُلَنا و الذین آمنوا فی الحیو ة الدنیا و یَوم یقوم الا ش ه ادُ ) "بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اور اس دن بھی مدد کریں گے جب سارے گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے(۱۶) ۔

یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا(۱۷) ۔

بہت سے انبیاءومؤمنین اس دنیا میں قتل ہوئے اور عدل و انصاف قائم نہ کرسکے خصوصاً جبکہ ان کے یاور و انصار نے ان کی نافرمانی کی یا اطاعت میں کوتاہی برتی جیسا کہ حضورﷺکے زمانے میں جنگ احد کے موقع پر اور حضرت علیعليه‌السلام کے زمانے میں جنگ صفین کے موقع پر نافرمانی اورکوتاہی پر اتر آئے تھے بنابرایں انبیاء و مؤمنین کی نصرت کا وعدہ ان شرائط سے مشروط ہے جبکہ یہ فراہم ہوں۔

رابعاًٍ: وہ حدیث (گرچہ صحیح السند ہو) جو آیات قرآن کے مخالف ہو، فاقد اعتبار ہوتی ہے بنابریں ابن تیمیہ نے جو اصحاب شجرہ کے بارے میں حدیث نقل کی ہے وہ فاقد اعتبار اور مردود ہے۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے بعض لوگوں کے لیے الگ حساب کتاب رکھا ہے اور ان کی فتنہ انگیزیوں، خون خرابہ اور خطاؤں کو نادیدہ لیا ہے حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں معیار نجات کی وضاحت کی گئی ہے بنابریں اگرچہ یہ روایات وارد ہوئی ہیں تو ان کی تاویل کرنا پڑے گی کیونکہ یہ تعلیمات قرآن کے برخلاف وارد ہوئی ہیں۔

پروردگار عالم نے اصحاب بیعت رضوان کے بارے میں اپنی رضایت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۔۔۔) (۱۸)

یقیناً خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔

یہ رضایت و خوشنودی اس صورت میں باقی رہنے والی ہے جبکہ یہ لوگ اپنی بیعت پر باقی رہیں لیکن اگر بیعت توڑ ڈالتےہیں تو پھر خوشنودی پروردگار بھی حاصل نہیں ہوسکتی بہشت کا تو سوال ہی کیا ہے!

جبکہ صحیحین میں وارد ہونے والی بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ حضورؐ کی وفات کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے لہذا وہ دوزخی ہیں۔(۱۹)

اب آپ بتائیے کیا ان روایات سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟!

غور کیجئے، فکر کیجئے اور خوب سوچئے !!!

خطبۂ غدیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے۔ وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے۔ وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے ہمیشہ سے بزرک ہے اور ہمیشہ قابل حمد رہے گا۔ بلندیوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا، بے نیاز، پاکیزہ صفات، ملائکہ اور روح کا پروردگار تمام مخلوقات پر فضل و کرم کرنے والا اور تمام ایجادات پر مہربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے اگرچہ کوئی آنکھ اُسے نہیں دیکھتی، وہ صاحب علم و کرم ہے، اس کی رحمت ہر شے کے لیے وسیع اور اس کی نعمت کا احسان ہر شے پر قائم ہے۔ انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقیقن عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، مخفی امور اس پر مشتہح نہیں ہوتے، وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے، اس کی قوت ہر شے میں اور اس کی قدرت ہر چیز پر ہے، وہ بے مثل ہے اور شے کو شے بنانے والا ہے، ہمیشہ رہنے والا، انصاف کرنے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ عزیز و حکیم ہے، نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی۔ کوئی شخص اس کے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اس کے ظاہر و باطن کا ادراک نہیں کرسکتا۔ مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتا دیا ہے، میں گواہی دیتا دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکیزگی زمانہ پر محیط اور جس کا نور ابدی ہے۔ اس کا حکم نافذ ہے۔ نہ اس کا کوئی مشیر ہے نہ وزیر۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی تدابیر میں کوئی فرق ہے، جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر و نظر کی زحمت کے بنایا۔ جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا۔ وہ خدا ہے لاشریک ہے جس کی صفت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے۔

وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتا اور ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اس کے قدرت کے سامنے متواضع اور ہر چیز اس کی ہبیت کے سامنے خاضع ہے وہ تمام ملکوں کا مالک، تمام آسمانوں کا خالق، شمس و قمر پر اختیار رکھنے والا، ہر ایک کو معین مدت کے لیے چلانے والا، دن کو رات اور رات کو دن پر حاوی کرنے والا، ظالموں کی کمر توڑنے والا، شیطانوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ نہ اس کا کوئی ضد ہے نہ مثل۔ وہ یکتا ہے بے نیاز ہے، اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا، نہ ہمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے پورا کر دیتا ہے۔ جاننے والا، خیر کا احصاء کرنے والا ، موت و حیات کا مالک، فقر و غنا کا صاحب اختیار، ہنسانے والا ، رلانے والا، قریب کرنے والا، دو رہٹانے والا، عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے۔ ملک اسی کے اختیار میں ہے اور حمد اسی کے لیے زیبا ہے اور اسی کے قبضہ میں ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔ اس عزیز و غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، عطاؤں کو بکثرت دینے والا، سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے، اس کے لیے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسے گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال کرتا نہیں ہے۔ نیک کرداروں کا بچانے والا، طالبان فلاح کو توفیق دینے والا اور عالمین کا مولا و حاکم ہے۔ اس کا حق ہر مخلوق پر یہ ہے کہ راحت و تکلیف اور نرم و گرم میں اس کی حمدو ثناء کرے اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرے۔ میں اس پر اور اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں، اس کے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں، اس کی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اس کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں اس لیے کہ اس کی اطاعت میرا فرض ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بنا پر کہ نہ کوئی اس کی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے ظلم کا خطرہ ہے میں اپنے لیے بندگی اور اس کے لیے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور اس کے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاہی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اس خدائے وحدہ لاشریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا تو اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لیے حفاظت کی ضمانت لی ہے۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ، اے رسول جو حکم تمہاری طرف علی ؑ کے بارے میں نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی اور میں اس آیت کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جبرئیل بار بار میرے پاس یہ حکم پروردگار لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹھہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب‘ میرے بھائی، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزل میرے لیے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں اور اس کا اعلان خدا نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

علی بن ابی طالب‘ نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوۃ دی ہے، وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ یہ گذارش کی کہ اس وقت تمہارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لیے کہ متقین کی قلت ہے اور منافقین کی کثرت، فساد کرنے والے، بدعمل اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاری کا بھی خطرہ ہے، جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے: "یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو اِن کے دل میں نہیں ہے، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پیش پروردگار بہت بڑی بات ہے"۔ ان لوگوں نے بارہا مجھے اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ مجھے "کاہن" کہنےلگے ہیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں اسی لیے خدا نے آیت نازل کی کہ "کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو فقط کاہن ہیں، تو پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر ایسا ہے تو تمہارے حق میں یہی خیر ہے، ورنہ میں چاہوں تو ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں اور اس کی طرف اشارہ بھی کرسکتا ہوں اور لوگوں کے لیے نشان دہی بھی کرسکتا ہوں۔ لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یہی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کر دوں۔ لہذا لوگو! ہوشیار رہو کہ اللہ نے علی ؑ کو تمہارا ولی اور امام بنا دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین ، انصار اور ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی ، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے۔ ہر توحید پرست کے لیے ان کا حکم جاری، ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے، ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

ایھا الناس! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہذا میری بات سنو، اور اطاعت کرو اور اپنے پروردگار کے حکم کو تسلیم کرو۔ اللہ تمہارا رب، ولی اور پروردگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمدؐ تمہارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی ؑ تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے۔ اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تا روزِ قیامت باقی رہے گی۔

حلال وہ ہے جس کو اللہ نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ یہ سب اللہ نے مجھے بتایا تھا اور میں نے سارے علم کو علی ؑ کے حوالہ کردیا۔

ایھا الناس! کوئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علیعليه‌السلام کے حوالہ کردیا ہے۔ یہ امام المتقین ؑ بھی ہے اور امام المبین بھی ہے۔

ایھا الناس! علیعليه‌السلام سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہوجانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے، حق پر عمل کرنے والے باطل کو فنا کردینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں۔ انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوئی۔ وہ سب سے پہلے اللہ و رسولؐ پر ایمان لائے اور اپنے جی جان سے رسولؐ پر قربان تھے ہمیشہ خدا کے رسولؐ کے ساتھ رہے جب کہ رسولؐ کے علاوہ کوئی عبادتِ خدا کرنے والا نہ تھا۔ ایھا الناس! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے۔ ایھا الناس! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں، اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے، بلکہ اللہ کا حق ہے کہ وہ اس امر پر مخالفت کرنے والے پر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بدترین عذاب نازل کر دے۔ لہذا تم ان کی مخالفت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہوجاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کے لیے مہیار کیا گیا ہے۔

ایھا الناس! خدا گواہ ہے کہ سابق کے تمام انبیاء و مرسلین کو میری بشارت دی گئی ہے اور میں خاتم الانبیاء و المرسلین اور زمین و آسمان کے تمام مخلوقات کے لیے حجت پروردگار ہوں۔ جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ جاہلیت جیسا کافر ہو جائےگا۔ اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا اور اس کا انجام جہنم ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ تا ابد اور ہر حال میں میری حمد کا حق دار ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و برتر ہے۔ اللہ نے ہمارے ہی ذریعہ رزق کو نازل کیا ہے اور مخلوقات کو باقی رکھا ہے۔ جو میری اس بات کو رد کردے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار کا ارشاد ہے کہ جو علی  سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کرے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے۔ لہذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا مہیا کیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قدم راہ حق سے پھسل جائیں اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔

ایھا الناس! علی وہ جنب اللہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ ظالمین افسوس کریں گے کہ انہوں نے جنب اللہ کے بارے میں کوتاہی کی ہے۔

ایھا الناس! قرآن میں فکر کرو، اس کی آیات کو سمجھو، محکمات کو نگاہ میں رکھو اور متَشابہات کے پیچھے نہ پڑو۔ خدا کی قسم قرآن مجید کے احکام اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ کوئی واضح نہ کرسکے گا۔ جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں ، میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی  مولا ہے۔ یہ علی بن ابی طالب‘ میرا بھائی ہے اور وصی بھی۔ اس کی محبت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ اور میری اولاد طیبین ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے ان میں ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوں۔ یہ میری اولاد مخلوقات میں احکام خدا کے امین اور زمین میں ملک خدا کے حکام ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ میں نے تبلیغ کردی میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ میں نے بات سنا دی۔ میں نے حق کو واضح کردیا۔ آگاہ ہوجاؤ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دہرا دیا۔ پھر آگاہ ہوجاؤ کہ امیر المؤمنین میرے اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔

(اس کے بعد علیعليه‌السلام کو اپنے ہاتھوں پر اتنا بلند کیا کہ ان کے قدم رسولؐ کے گھٹنوں کے برابر ہوگئے۔ اور فرمایا)

ایھا الناس! یہ علی ؑ میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اور امت پر میرا خلیفہ ہے۔ یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا، اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے والا، اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا، اس کی معصیت سے روکنے والا، اس کے رسولؐ کا جانشین اور مؤمنین کا امیر، امام اور ہادی ہے اور بیعت شکن، ظالم اور خارجی افراد ے جہاد کرنے والا ہے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ حکم خدا سے کہہ رہا ہوں میری کوئی بات بدل نہیں سکتی ہے۔ خدایا! علی ؑ کے دوست کو دوست رکھنا اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دینا، ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نازل کرنا۔ پروردگار! تو نے یہ وحی کی تھی کہ امامت علیعليه‌السلام کے لیے ہے اور تیرے حکم سے میں نے انہیں مقرر کیا ہے۔ جس کے بعد تو نے دین کو کامل کردیا، نعمت کو تمام کردیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دے دیا اور یہ اعلان کردیا جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہوگا۔ پروردگار! میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی۔

ایھا الناس! اللہ نے دین کی تکمیل علیعليه‌السلام کی امامت سے کی ہے لہذا جو علی ؑ اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا اس کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ ان پر نگاہ رحمت کی جائے گی۔

ایھا الناس! یہ علی ؑ ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا، مجھ سے قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے۔ اللہ اور میں دونوں اس سے راضی ہیں۔ قرآن مجید میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے بارے میں ہے اور جہاں بھی یا ایھا الذین امنو کہا گیا ہے اس کا پہلا مخاطب یہی ہے۔ ہر آیت مدح اسی کے بارے میں ہے، ہل اتیٰ میں جنت کی شہادت اسی کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علاوہ کسی غیر کی مدح میں نہیں نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! یہ دین خدا کا مددگار، رسولؐ خدا سے دفاع کرنے والا، متقی، پاکیزہ صفت، ہادی اور مہدی ہے۔ تمہارا نبی بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین اوصیاء ہیں۔

ایھا الناس! ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہوتی ہے اور میری ذریت علی ؑ کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! ابلیس آدمؑ کے مسئلہ میں حسد کا شکار ہوا۔ لہذا خبردار! تم علیعليه‌السلام سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہارے قدموں میں لغزش پیدا ہو جائے۔ آدم صفی اللہ ہونے کے باوجود ایک ترک اولیٰ پر زمین میں بھیج دیئے گئے تو تم کیا ہو اور تمہاری کیا حقیقت ہے۔ تم میں تودشمنان خدا بھی پائے جاتے ہیں۔ یاد رکھو علیعليه‌السلام کا دشمن صرف شقی ہوگا اور علی ؑ کا دوست صرف تقی ہوگا۔ اس پر ایمان رکھنے والا صرف مؤمن ہی ہوسکتا ہے اور انہیں کے بارے میں سورہ عصر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو، جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار! اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہوجاؤ۔

ایھا الناس! اللہ، اس کے رسولﷺ اور اس نور پر ایمان لاؤ جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ خدا اچھے چہروں کو بگاڑ دے اور انہیں پشت کی طرف پھیر دے۔

ایھا الناس!نور کی پہلی منزل میں ہوں۔ میرے بعد علیعليه‌السلام اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ مہدی قائم تک برقرار رہے گا جو اللہ کا حق اور ہمارا حق حاصل کرے گا! اس لیے کہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین، معاندین، مخالفین، خائنین، آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے۔

ایھا الناس! میں تمہیں باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے لیے اللہ کا نمائندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ تو کیا میں مر جاؤں یا قتل ہو جاؤں تو تم اپنے پرانے دین پر پلٹ جاؤ گے؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جائے گا وہ اللہ کا نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ علی ؑ کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولاد کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے جو ان کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! اللہ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کہ وہ تم سے ناراض ہوجائے اور تم پر اس کی طرف سے عذاب نازل ہوجائے کہ وہ مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہے۔

ایھا الناس! عنقریب میرے بعد ایسے راہنما پیدا ہوں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے۔ اور قیامت میں کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا۔ اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بری اور بیزار ہیں۔

ایھا الناس! یہ لوگ اور ان کی اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور یہ متکبر لوگوں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں لہذا ان کے صحیفہ پر تمہیں نگاہ رکھنی چاہیے۔ لوگوں کی قلیل جماعت کے علاوہ سب صحیفہ کی بات بھول چکے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں امامت کو امانت اور قیامت تک کے لیے اپنی اولاد میں وراثت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کردی ہے تاکہ ہر حاضر و غائب ، موجود و غیر موجود، مولود وغیر مولود سب پر حجت تمام ہوجائے۔ اب حاضر کا فریضہ ہے کہ یہ پیغام غائب تک پہنچائے اور ہر باپ کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کو اپنی اولاد کے حوالہ کرتا رہے اور عنقریب لوگ اس کو غصبی ملکیت بنالیں گے۔ خدا غاصبین پر لعنت کرے۔ قیامت میں تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی اور آگ کے شعلے برسائے جائیں گے جب کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔

ایھا الناس! اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھوڑے گا جب تک خبیث اور طیّب کو الگ الگ نہ کردے اور اللہ تم کو غیب پر باخبر کرنے والا نہیں ہے۔

ایھا الناس! کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جسے اللہ اس کی تکذیب کی بناء پر ہلاک نہ کردے وہ اسی طرح ظالم بستیوں کو ہلاک کرتا رہا ہے۔ علیعليه‌السلام تمہارے امام اور حاکم ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ صادق الوعد ہے۔

ایھا الناس! تم سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور وہی بعد کے ظالموں کو ہلاک کرنے والا ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے امر و نہی کی مجھے ہدایت کی ہے اور میں نے اسے علی ؑ کے حوالہ کردیا ہے وہ امر و نہی الٰہی سے باخبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلامتی پاؤ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔ ان کے روکنے پر رک جاؤ تاکہ راہ راست پر آجاؤ۔ ان کی مرضی پر چلو اور مختلف راستوں پر منتشر نہ ہوجاؤ۔ میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کے اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر میرے بعد علی ؑ ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو اِن کے صلب سے ہے۔ یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین (سورہ حمد کی تلاوت کرنے کے بعد آپ نے فرمایا) یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے بارے میں نازل ہوا ہے، اس میں اولاد کے لیے عمومیت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔ یہی میری اولاد وہ الیاء ہیں جن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ دشمنان علی ؑ ہی اہل تفرقہ ، اہل تعدی اور برادرانِ شیطان ہیں جن میں ایک دوسرے کی طرف مہمل باتوں کے خفیہ اشارے کرتا رہتا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی مؤمنین برحق ہیں جن کا ذکر پروردگار نے اپنی کا ب میں کیا ہے۔ "تم کسی ایسی قوم جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت رکھیں " آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پروردگار نے اس انداز سے کی ہے۔ "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں"۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو جنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہوں گے۔ اور ملائکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے تم طیب و طاہر ہو، لہذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے کہ "یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جو جہنم میں تپائے جائیں گے اور جہنم کی آواز اس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور ہر داخل ہونے والا گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں کہ جن کے بارے میں پروردگار کا فرمان ہے کہ کوئی گروہ داخل جہنم ہوگا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

ایھا الناس! دیکھو جنت و جہنم میں کتنا بڑا فاصلہ ہے۔ ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ، اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔

ایھا الناس! آگاہ ہوجاؤ کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علیعليه‌السلام ہادی ہیں۔

ایھا الناس! میں نبی ہوں اور علیعليه‌السلام میرے وصی ہیں۔ یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدیعليه‌السلام ہے۔ وہی ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کا فتح کرنے والا اور ان کا منہدم کرنے والا ہے۔ وہی مشرکین کے ہر گروہ کا قاتل اور اولیاء اللہ کے ہر خون کا انتقام لینے والا ہے، وہی دین خدا کا مددگار اور ولایت کے عمیق سمندر سے سیراب کرنے والا ہے۔ وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشان لگانے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے۔ وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے، وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے، اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے اور اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے، وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔ ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے۔ اس پر غالب آنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حکم اور خفیہ اور اعلانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے۔

ایھا الناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد علی ؑ تمہیں سمجھائیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے اللہ کے ہاتھ اپنا نفس بیچا ہے اور میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے رہا ہوں۔ جو اس بیعت کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! یہ حج اور عمرہ، اور یہ صفا و مروہ سب شعائر اللہ ہیں، لہذا حج اور عمرہ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔

ایھا الناس! خانۂ خدا کا حج کرو، جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہوجاتے ہیں، اور جو اس سے الگ ہوجاتے ہیں وہ محتاج ہوجاتے ہیں۔

ایھا الناس! کوئی مؤمن کسی موقف میں وقوف نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ لہذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

ایھا الناس! حجاج خدا کی طرف سے محل امداد ہیں اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔

ایھا الناس! پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو اور جب وہاں سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گناہ کے ساتھ۔

ایھا الناس! نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو جس طرح کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کوتاہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علی ؑ تمہارے ولی اور تمہارے لیے وہ احکام کے بیان کرنے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعد معین کیا ہے اور میرا جانشین بنایا ہے وہ تمہیں ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جانتے ہو سب بیان کردیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ حلال و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے۔ لہذا میں تمام حلال و حرام کی امر و نہی اس مقام پر یہ کہہ کر بیان کر دیتا ہوں کہ میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے لوں اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی ؑ اور ان کے بعد کے آئمہ کے بارے میں خدا کی طرف سے لایا ہوں، تم ان سب کا اقرار کرلو۔

"کہ یہ سب مجھ سے ہیں اور ان میں ایک امت قیام کرنے والی ہے جن میں سے مہدی ؑ بھی ہے جو قیامت تک حق کے ساتھ فیصلہ کرتا رہے گا۔"

ایھا الناس! میں نے جس جس حلال کی رہنمائی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی کی ہے۔ لہذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہو اور کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں پھر دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، اور یہ یاد رکھو کہ امر بالمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جاؤ اور جو لوگ نہیں ہیں ان تک پہنچاؤ اور اس کے قبول کرنے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو۔ اس لیے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے اور امام معصوم کو چھوڑ کر نہ کوئی واقعی امر بالمعروف ہوسکتا ہے اور نہ ہی عن المنکر۔

ایھا الناس! قرآن نے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ علیعليه‌السلام کے بعد امام ان کی اولاد ہے اور میں نے بھی سمجھایا ہے یہ سب میرے اور علیعليه‌السلام کے اجزاء ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ اللہ نے انہیں اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے۔ اور میں نے بھی کہا کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے۔

ایھا الناس! تقویٰ اختیار کرو تقوی، قیامت سے ڈرو کہ اس کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے۔ موت، حساب، اللہ کے بارگاہ کا محاسبہ، ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور برائی کرنے والے کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

ایھا الناس! تم اتنے زیادہ ہو کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیعت نہیں کرسکتے ہو۔ لہذا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبان سے علیعليه‌السلام کے امیر المؤمنین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو اِن کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں، لہذا تم سب مل کر کہو ہم سب آپ کی بات کے سننے والے، اطاعت کرنے والے، راضی رہنے والے اور علی ؑ اور اولاد علی ؑ کے بارے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ ہم اس بات پر اپنے دل، اپنی روح، اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے بیعت کر رہے ہیں، اسی پر زندہ رہیں گے، اسی پر مریں گے اور اسی پر دوبارہ اٹھیں گے۔ نہ کوئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہوں گے، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو توڑیں گے۔ اللہ کی اطاعت کریں گے۔ آپ کی اطاعت کریں گے اور علی ؑ امیر المؤمنین اور ان کی اولاد ائمہ ؑ جو آپ کی ذریت میں ہیں ان کی اطاعت کریں گے۔ جن میں سے حسن و حسین‘ کی منزلت کو اور ان کے مرتبہ کو اپنی اور خدا کی بارگاہ میں تمہیں دکھلا دیا ہے اور یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور اپنے باپ علی ؑ کے بعد امام ہیں اور میں علی ؑ سے پہلے ان دونوں کا باپ ہوں۔ اب تم لوگ یہ کہو کہ ہم نے اس بات پر اللہ کی اطاعت کی، آپ کی اطاعت کی اور علی ؑ ، حسنؑ ، حسین ؑ او ائمہ ؑ جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے عہد لیا ہے سب کی دل و جان سے اور دست و زبان سے بیعت کی ہے۔ ہم اس کا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کریں گے۔ اللہ ہمارا گواہ ہے اور وہی گواہی کے لیے کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں اور ہر ظاہر و باطن اور ملائکہ اور بندگان خدا سب اس بات کے گواہ ہیں اور اللہ ہر گواہ سے بڑا گواہ ہے۔

ایھا الناس! اب تم کیا کہتے ہو؟ یاد رکھو کہ اللہ ہر آواز کو جانتا ہے اور ہر نفس کی مخفی حالت سے باخبر ہے، جو ہدایت حاصل کرے گا وہ اپنے لیے اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنا نقصان کرے گا ۔ جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی ہے، اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو ، علی ؑ کے امیر المؤمنین ہونے اور حسن ؑ و حسین ؑ اور ائمہ ؑ کے کلمۂ باقیہ ہونے کی بیعت کرو۔ جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! جو میں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المؤمنین کہہ کر سلام کرو اور یہ کہو کہ پروردگار ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ہمیں تیری مغفرت چاہیے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور یہ کہو کہ شکر پروردگار ہے کہ اس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اس کی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے۔

ایھا الناس! علی بن ابی طالب‘ کے فضائل اللہ کی بارگاہ سے ہیں اور اس نے قرآن میں بیان کیا ہے اور اس سے زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کراسکوں۔ لہذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائل سے آگاہ کرے اس کی تصدیق کرو۔ یاد رکھو جو اللہ، رسولؐ، علی ؑ اور ائمہ ؑ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا۔

ایھا الناس ! جو علی ؑ کی بیعت، ان کی محبت اور انہیں امیر المؤمنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے، وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے۔ ایھا الناس! وہ بات کہو جس سے تمہارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پروردگار مؤمنین و مؤمنات کی مغفرت فرما اور کافرین پر اپنا غضب نازل فرما۔

والحمد لل ه رب العالم ین

آیہ تبلیغ

( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) (۱)

اے پیغمبرﷺ! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔

آیت کے انداز پر غور کرنے سے یہ بات بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے کہ آیت کسی اہم ترین مسئلہ کے بارے میں خبر دے رہی ہے کیونکہ اس آیت میں ایسی تاکیدیں موجود ہیں جو اس سے پہلے نہیں پائی گئیں مثلاً:

۱ ۔ آیت "یا ایھا الرسول" سے شروع ہو رہی ہے اور پیغمبر گرامیﷺ کو منصب کے ذریعے مخاطب کیا گیا ہے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بیان کیا جانے والا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

۲ ۔ کلمہ "بلّغ" خود موضوع کی اہمیت و خاصیت پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ:

 یہکلمہ منحصر بہ فردہے ی عن ی پورے قرآن میں ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

 راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات قرآن میں کہتے ہیں کہ "ابلغ" کی نسبت اس لفظ میں زیادہ تاکید پائی جاتی ہے کیونکہ اگرچہ یہ لفظ ایک ہی آیت (سورہ مائدہ، آیت نمبر ۶۷) میں آیا ہے لیکن اس کلمہ میں تاکید کے علاوہ مفہوم تکرار بھی پوشیدہ ہے یعنی یہ موضوع اتنا اہم تھا کہ اسے لازمی طور پر بیان ہونا چاہیے اور اس کی تکرار بھی ہونا چاہیے۔

۳ ۔ جملۂ( و اِن لَم تفعل فما بلّغت رسالت ه ) اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ پیغمبر گرامی کو جس مطلب کے ابلاغ پر مامور کیا گیا ہے وہ اساس دین اور ستون رسالت و نبوت ہے کیونکہ اگر پیغمبرﷺ یہ کام انجام نہ دیں تو گویا فریضہ نبوت ادا نہ ہوسکے گا!

۴ ۔ پروردگار عالم کی طرف سے حضور اکرمﷺ کی جان کی حفاظت کی ضمانت لینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر کی تبلیغ میں یقیناً حضور کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے علاوہ شدید ردِّ عمل کا بھی خوف تھا لیکن خالق اکبر نے ان تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دیدی۔

توجہ:

 لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر آیۂ تبلیغ کس اہم ترین موضوع کے بارے میں خبر دے رہی ہے؟

 پیغمبرگرامیﷺ قدر کی یہ اہم ماموریت کیا تھی کہ جس کے لیئے پروردگار عالم نے واضح طور پر حفظ و امان کی ضمانت دی ہے؟

 حضورؐ سرور کائنات کو وہ کونسا حکم پہنچانا تھا جو آپؐ کی تمام رسالت کے مساوی تھا؟

 اللہ تبارک و تعالیٰ حضور اکرمﷺ سے کیا چاہتا ہے کہ جس کی خاطر ایک طرف آپ کو تہدید کر رہا ہے تو دوسری طرف حفظ جان کا وعدہ کر رہا ہے؟

آیت کے الفاظ پر غور و فکر اور تدبّر و تعمق سے تمام سوالات کے جوابات خودبخود حاصل ہوجاتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ غور و فکر کرنے والا تعصب کی عینک اتار کر منصفانہ طور پر کرسی قضاوت پر بیٹھے، کیونکہ:

اولاً: مورد بحث آیت، سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ ہے اور یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبرگرامیﷺ پر نازل ہونے والی یہ آخری سورت ہے جیسا کہ صاحب تفسیر "المنار" نے بیان کیا ہے کہ یہ پورا سورہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ و مدینہ کے درمیان نازل ہوا ہے۔(۲)

یعنی یہ آیت بعثت کے دسویں سال نازل ہوئی ہے جبکہ پیغمبر اکرم ﷺکو تبلیغ رسالت کرتے ہوئے ۲۳ سال گذر رہے تھے۔

سوال: آپ سوچ کر بتائیے کہ ۲۳ سال تبلیغ اور پیغمبر اکرمﷺ کی زندگی کا آخری سال شروع ہونے تک وہ کون سی چیز تھی کہ جس کا ابھی تک رسمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا؟

 کیا یہ اہم مسئلہ ، نماز کے بارے میں تھا حالانکہ مسلمان ۲۰ سال سے نماز پڑھ رہے تھے؟

 کیا روزہ کے بارے میں اعلان تھا جبکہ ہجرت کے بعد روزہ واجب ہوگیا تھا اور تقریباًٍٍ مسلمان ۱۳ سال سے روزے رکھ رہے تھے؟

 کیا یہ حکم تشریع جہاد سے متعلق تھا؟ جبکہ مسلمان ہجرت کے دوسرے سال سے جہاد کرتے ہوئے آرہے تھے؟

جواب: انصاف تو یہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا مذکورہ بالا امور میں سے کسی سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے! کیونکہ غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آخر پیغمبر اکرمﷺ کی ۲۳ سالہ طاقت فرسا زحمت و مشقت کے باوجود وہ کون سا اہم امر تھا جس کا اعلان ابھی باقی تھا؟

ثانیاً: آیۂ مبارکہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کی ماموریت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ اسے نبوت کے ہم وزن قرار دیا گیا ہے۔ مختلف علماء و دانشمند حضرات نے جو احتمالات دیئے ہیں یا جنکا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ بھی مبہم ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی امر بھی نبوت و رسالت کے ہم وزن نہیں ہوسکتا لہذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ اہم ترین امر کیا ہے جو رسالت و نبوت کے ہم وزن ہے اور ۲۳ سال میں ابھی تک انجام نہیں پایا تھا؟

ثالثاً: اس ماموریت کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ چند لوگ اس کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں وہ پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے جبکہ یہی مسلمان نماز، روزے، حج و زکواۃ وغیرہ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے پس یہ کوئی یقیناً سیاسی مسئلہ تھا جس کی اتنی شدت سے مخالفت ہو رہی تھی۔

لہذا تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے اور منصفانہ قضاوت کرنے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہم ترین مسئلہ غدیر خم میں پیغمبراکرم ﷺکا حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت و جانشینی کا رسمی طور پر اعلان تھا۔

روایات کی روشنی میں آیت کی تفسیر

( بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ ) اس حکم کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس آیہ کریمہ کی صحیح تفسیر و توضیح کیلئے ہمارے پاس یہ طریقہ ہے کہ ہم اس کی شان نزول میں وارد ہونے والی روایات، مفسرین کی آراء ونظریات اور مؤرخین کے اقوال سے مدد لیں۔

صدر اسلام کے بہت سے محدثین کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت حضرت علی ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے مثلاً:

۱ ۔ ابن عباس ۲ ۔ جابر بن عبد اللہ انصاری ۳ ۔ ابو سعید خدری ۴ ۔عبد اللہ بن مسعود ۵ ۔ ابو ہریرہ ۶ ۔ خذیفہ ۷ ۔ براء بن عازب کے علاوہ دیگر اصحاب بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ ولایت علی بن ابی طالبعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

مفسرین اہل سنت میں بھی بہت سے افراد کا یہ ہی نظریہ ہے کہ یہ آیت، ولایت علی بن ابی طالب‘ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مثلاً سیوطی اپنی تفسیر "در المنثور" میں، ابو الحسن واحدی نیشاپوری "اسباب نزول" میں، سید رشید رضا اپنی تفسیر "المنار" میں، فخر رازی اپنی تفسیر "التفسیر الکبیر" میں اور دیگر مفسرین نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہم قارئین کی سہولت کیلئے اور ان کے جذبہ جستجو کو مدّنظر رکھتے ہوئے فقط فخر رازی کے کلام کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں تفصیلات کیلئے مندرجہ بالا کتب و تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔

فخر رازی اہل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں ان کی جامع و مشروح تفسیر موجود ہے اور اس آیت کے بارے میں انہوں نے دس احتمال پیش کئے ہیں اور ولایت علی بن ابی طالبعليه‌السلام کو دسویں احتمال کے طور پر پیش کیا ہے۔

کلام فخر رازی

نزلت الآی ة فی فضل علی بن ابی طالب و لما نزلت ه ذ ه الآی ة اَخذ بید ه و قال: من کنت مولا ه فعلی مولا ه اللّ ه م وال من والا ه و عاد من عادا ه ، فلقی ه عمر فقال: ه نیئاً لک یابن أبی طالب! اصبحت مولای و مولی کل مؤمن و مؤمن ة ۔۔۔(۳)

یہ آیت (حضرت) علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ؐ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا "جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں۔ پس اے پروردگار جو علی بن ابی طالبعليه‌السلام کو قبول کرے تو اسے دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو تو بھی اسے دشمن رکھ۔ اس کے بعد حضرت عمر کھڑے ہوئے اور حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آکر کہنے لگے مبارک ہو اے علی بن ابی طالبعليه‌السلام کہ آج آپ میرے اور ہر مؤمن مرد و عورت کے رہبر و پیشوا مقرر ہوگئے۔

حاکم جسکانی نے بھی اپنی بے نظیر کتاب "شواہد التنزیل" میں زیاد بن منذر" سے روایت نقل کی ہے جس سے ثابت ہے کہ یہ آیت ولایت علی بن ابیطالبعليه‌السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔(۴)

ابلاغ پیام سے پیغمبرﷺکو خطرہ

آیت کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ سرور کائنات کو جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا اس سے پیغمبرؐ کو شدید خطرہ لاحق تھا اگرچہ اسلام سارے مراحل سے گذر چکا تھا اور خیبر و خندق کے معرکے سر ہوچکے تھے۔

ظاہر ہے یہ خطرہ پیغمبر اکرمﷺ کی حیات کیلئے نہیں تھا اور نہ آپ کو اس امر کی پرواہ تھی کہ اس کی خاطر تبلیغ حکم میں تاخیر فرماتے بلکہ آپ دین اسلام کی خاطر ہر طرح کی قربانی دے چکے تھے اور اب بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار تھے ہاں خطرہ اس بدنامی کا تھا کہ لوگ خاندان پرستی کا الزام لگا کر دین سے منحرف ہوجائیں گے اور سالہا سال کی محنت و زحمت خطرہ میں پڑ جائے گی۔

جیسا کہ جب حضوراکرمﷺ نے ولایت علیعليه‌السلام کا اعلان کیا تو اسی صحرائے غدیر میں ایک حارث ابن نعمان فہری نے اعتراض کر دیا اور کہنے لگا۔

"اگر جو کچھ آپ نے اس وقت بیان کیا ہے خدا کی طرف سے ہے تو پھر خدا سے دعا کیجئے کہ مجھ پر عذاب نازل کرے اور مجھے نابود کردے!" اور پھر بعد میں ایسا ہی ہوا۔

لیکن پروردگار عالم نے وعدہ کیا اور حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہوئے فرمایا:

( وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔(۵)

علماء اسلام نے اس حکم کے بارے میں بہت سی تاویلیں تلاش کی ہیں لیکن بالآخر یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت علیعليه‌السلام کو میدان غدیر خم میں اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی ؑ بھی مولا ہے جیسا کہ فخر رازی نے بھی اسے دسویں قول کے طور پر ذکر کیا ہے۔

شُبہات ، اعتراضات و اشکالات

یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی:

محترم قارئیں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کر دینا مناسب ہے کہ بعض لوگوں نے آیت کے معنی و مفہوم میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے ایک شبہ ایجاد کیا ہے تاکہ عام لوگ اصل معنی و مطالب کی طرف متوجہ نہ ہونے پائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکم تبلیغ خود اس بات کی علامت ہے کہ یہ ابتدائے اسلام کی مکی آیت ہے لہذا اس کا واقعہ غدیر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو محسوس کرسکتے ہیں کہ آیت کے ذیل میں( فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ) کا لہجہ دلیل ہے کہ آیت ، تبلیغ رسالت کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس کا ابتداءِ تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ اشکال ابن تیمیہ نے وارد کیا ہے اس کا کہنا ہے: اہل علم حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں مدینہ میں حجۃ الوداع سے کئی سال پہلے نازل ہوئی ہے (اگرچہ یہ سورۂ مائدہ میں موجود ہے)۔

اس لیئے کہ یہ آیت، رجم یا یہودیوں سے قصاص کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور یہ دونوں واقعات اوائل ہجرت میں فتح مکہ سے پہلے واقع ہوئے تھے۔(۶)

ابن تیمیہ کے اس قول میں شدید ضعف پایا جاتا ہے اور کوئی اس کا حامی نہیں سوائے فخر رازی و عینی کے کہ انہوں نے بعض لوگوں کی طرف اس کی نسبت دی ہے اور بطور قول "قیل" یعنی قول ضعیف کہا ہے۔

صحابہ و تابعین میں بھی کوئی اس نظریہ کا حامی نظر نہیں آتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ کے دعویٰ کی حمایت نظر آئے کہ اہل علم حضرات متفق ہیں۔ بلکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حتی ایک فرد بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی ہے بلکہ تاریخ و تفاسیر سے یہ بات ثابت ہے کہ علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ یہ آیت آخر نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔(۷)

احادیث کا جعلی ہونا

آیہ تبلیغ کے سلسلہ میں ولایت علی ؑ سے متعلق وارد ہونے والی احادیث کی اسناد کے بارے میں بعض اہل سنت نے چند ایک اسناد کے ضعیف ہونے کے بارے میں تو اظہار خیال کیا ہے جیسا کہ محقق کتاب "اسباب النزول واحدی نے ابو سعید خدری سے نقل ہونے والی حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے(۸) لیکن کسی نے بھی ان کے جعلی یا جھوٹے ہونے کے بارے میں نہیں کہا ہے لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ نے تعصب سے کام لیتے ہوئے ان احادیث کو جعلی و وضعی کہا ہے۔

ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ علمائے حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو نعیم کی کتاب "حلیۃ الاولیاء"، ثعلبی کی "فضائل خلفاء" اور واحدی کی تفسیر "نقاش" میں جھوٹی اور جعلی احادیث ہیں۔(۹)

جہاں تک احادیث کے ضعیٖف ہونے کا تعلق ہے تو کثرت اسانید اور ان کے مضامین کا آیہ تبلیغ سے ہم آہنگ ہونا اس قسم کے الزامات کو دور کر دیتا ہے اور روایات کی اسناد کے ضعیف ہونے کے احتمال کا بھی ازالہ و تدارک کر دیتا ہے۔

ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے کہ یہ احادیث صرف ابو نعیم اور ثعلبی نے نقل کی ہیں، حالانکہ اہل سنت کے بہت سے معتبر محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔

ابن تیمیہ جب ابو حاتم کو صحیح و جعلی احادیث کی شناخت کے سلسلہ میں مرجع تسلیم کرتے ہیں تو ابو حاتم کے فرزند نے اس آیۂ کریمہ کی شان نزول کے لیے کہا ہے کہ یہ حضرت علیعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے والد کے ذریعہ ابو سعید خدری صحابی پیغمبرﷺسے روایت نقل کی ہے۔ پس ایسی صورت میں ابن تیمیہ کس طرح یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ابو حاتم اس قسم کی جعلی احادیث کو ہرگز نقل نہیں کرتے۔ اور کس طرح یہ حکم عائد کر رہے ہیں کہ "اس قسم کی احادیث کا کذب و جھوٹ، احادیث سے کمترین آگاہی رکھنے والے سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ ابن ابی حاتم کی سند حدیث میں تمام رجال، موثق یا صدوق مانے گئے ہیں۔

ابن تیمیہ نے ابو نعیم و ثعلبی اوردیگر افراد کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو احادیث نقل کی ہیں انہیں ان کے صحیح السند ہونے کا یقین نہیں تھا بلکہ وہ ان کے ضعیف ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ کا یہ دعویٰ بہتان کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے دعوی کے اثبات میں کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکے لہذا انہیں اس بہتان کا جواب دینا چاہیے۔

انکار اعلان ولایت علیعليه‌السلام

اہل سنت کے مطابق واقعہ غدیر اور پیغمبر اکرم ﷺ کی جانب سے اعلان ولایت علی (من کنت مولا ه فعلی مولا ه ) میں کوئی شک و شبھہ اور تردید نہیں پائی جاتی بلکہ یہ واقعہ قطعی ہے۔ صرف ذہبی نے ابن جریر طبری کی شرح حال میں فرغانی سے نقل کیا ہے:

جب ابن جریر طبری کو یہ خبر ملی کہ ابن ا بی داؤد حدیث غدیر خم کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں اور اس کا انکار کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک کتاب فضائل ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے صحیح ہونے کے بارے میں روایات جمع کی ہیں۔(۱۰)

یاقوت حموی بھی کہتے ہیں:

بغداد کے بعض علماء، حدیث غدیر کا انکار اور تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: علی بن ابی طالب‘ اس وقت یمن میں تھے ۔۔۔ جب یہ خبر ابن جریر طبری کو ملی تو انہوں نے اس دعویٰ کی رد میں ایک کتاب فضائل علی بن ابی طالب‘ ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے مختلف طرق بھی بیان کیئے۔(۱۱)

ابو العباس ابن عقد نے بھی ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں حدیث غدیر کے طرق بیان کیئے ہیں۔(۱۲)

پس ان تمام شواہد کے بعد اعلان ولایت علی بن ابی طالب (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) کی صداقت کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک و شبھہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

انکار دعاءِ "اللهم وال من والاه"

واقعہ غدیر میں اعلان ولایت علی بن ابی طالب‘ کے بعد بہت سی کتب میں پیغمبراسلامﷺ کے دعائیہ کلمات ملتے ہیں، جس میں آپ ﷺنے فرمایا:" الل ه م وال من والا ه و عاد من عادا ه و انصر من نصر ه و اخذل من خذل ه " لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

"بیشک حدیث کا یہ حصہ علماء حدیث کی اتفاق نظر سے جھوٹ ہے اس لئے کہ پیغمبرؐ اکرم کی دعا لازمی طور پر مستجاب ہوتی ہے لیکن یہ دعا مستجاب نہ ہوئی لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعاءِ پیغمبر اسلامﷺ نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے سابقین نے زمانہ خلافت علیعليه‌السلام میں ان کی مدد نہیں کی بلکہ ان سے برسر پیکار ہوئے اور ان کے بارے میں صحیحین میں وارد ہوا ہے کہ یہ حضرات ہرگز دوزخ میں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ صلح حدیبیہ کے اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ انہیں علیعليه‌السلام سے جنگ کے بعد کسی قسم کی ذلت و خواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے بعد انہوں نے کفار سے جنگ کی تو خدا نے ان کی مدد کرتے ہوئے انہیں فتحیاب کیا پس صفِ علی میں آنے والوں کے لیئے نصرت خدا کہاں ہے؟!(۱۳)

ابن تیمیہ کے یہ دعوے قرآن کریم کے معیار و موازین اور حدیث شناس علماء کے نظریہ کے برخلاف ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہیں کیونکہ:

اولاً: جن احادیث میں"من کنت مولا ه فعلی مولا ه " کے بعد "الل ه م وال من والا ه ۔۔۔" آیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اہل سنت کے بزرگ و معتبر حدیث شناس علماء کی نظر میں صحیح السند ہیں جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے "یہ حدیث، شیخین، (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔(۱۴)

ان کے علاوہ ذہبی، ابن کثیر ، احمد بن حنبل وغیرہ نے بھی اسے بطور صحیح قبول کیا ہے۔

ان شواہد کے بعد ابن تیمیہ کو کیسے یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ کہنے لگے کہ حدیث شناس علماء کا اس حدیث کے جعلی و کذب ہونے پر اتفاق نظر ہے؟!

ثانیاً: مارقین و ناکثین سے حضرت علی علیہ السلام کی جنگیں تاویل قرآن پر تھیں اور اس کے بارے میں حضورؐ سرورکائنات پہلے سے پیش گوئی فرما چکے تھے: اِنّ منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کما قاتلت علی تنزیلہ ؛ تم میں ایک وہ ہے جو تاویل قرآن کے لیے جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس تنزیل قرآن کے لیے جنگ کی ہے۔ اہل سنت کے مطابق یہ حدیث صحیح السند ہے اور اس کے طرق و مصادر بھی متعدد ہیں۔(۱۵)

ثالثاً: جو تاویل قرآن کی خاطر جنگ کرے قطعی طورپر نصرت الٰہی اس کے شامل حال رہے گی یہاں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نصرت الٰہی سے کیا مراد ہے اگر اس سے مراد ہر میدان میں حق والوں کی ظاہری کامیابی و فتح اور باطل کی شکست و ناکامی ہوجیساکہ ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے، تو پھر انبیاء و مؤمنین کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جن کی کامیابی و کامرانی اور ان کی مدد کا خدانے وعدہ کیا ہے لیکن ایسا واقع نہ ہوا۔ پروردگار عالم فرماتا ہے:( انَّا لننصر رُسُلَنا و الذین آمنوا فی الحیو ة الدنیا و یَوم یقوم الا ش ه ادُ ) "بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اور اس دن بھی مدد کریں گے جب سارے گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے(۱۶) ۔

یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا(۱۷) ۔

بہت سے انبیاءومؤمنین اس دنیا میں قتل ہوئے اور عدل و انصاف قائم نہ کرسکے خصوصاً جبکہ ان کے یاور و انصار نے ان کی نافرمانی کی یا اطاعت میں کوتاہی برتی جیسا کہ حضورﷺکے زمانے میں جنگ احد کے موقع پر اور حضرت علیعليه‌السلام کے زمانے میں جنگ صفین کے موقع پر نافرمانی اورکوتاہی پر اتر آئے تھے بنابرایں انبیاء و مؤمنین کی نصرت کا وعدہ ان شرائط سے مشروط ہے جبکہ یہ فراہم ہوں۔

رابعاًٍ: وہ حدیث (گرچہ صحیح السند ہو) جو آیات قرآن کے مخالف ہو، فاقد اعتبار ہوتی ہے بنابریں ابن تیمیہ نے جو اصحاب شجرہ کے بارے میں حدیث نقل کی ہے وہ فاقد اعتبار اور مردود ہے۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے بعض لوگوں کے لیے الگ حساب کتاب رکھا ہے اور ان کی فتنہ انگیزیوں، خون خرابہ اور خطاؤں کو نادیدہ لیا ہے حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں معیار نجات کی وضاحت کی گئی ہے بنابریں اگرچہ یہ روایات وارد ہوئی ہیں تو ان کی تاویل کرنا پڑے گی کیونکہ یہ تعلیمات قرآن کے برخلاف وارد ہوئی ہیں۔

پروردگار عالم نے اصحاب بیعت رضوان کے بارے میں اپنی رضایت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۔۔۔) (۱۸)

یقیناً خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔

یہ رضایت و خوشنودی اس صورت میں باقی رہنے والی ہے جبکہ یہ لوگ اپنی بیعت پر باقی رہیں لیکن اگر بیعت توڑ ڈالتےہیں تو پھر خوشنودی پروردگار بھی حاصل نہیں ہوسکتی بہشت کا تو سوال ہی کیا ہے!

جبکہ صحیحین میں وارد ہونے والی بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ حضورؐ کی وفات کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے لہذا وہ دوزخی ہیں۔(۱۹)

اب آپ بتائیے کیا ان روایات سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟!

غور کیجئے، فکر کیجئے اور خوب سوچئے !!!

خطبۂ غدیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے۔ وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے۔ وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے ہمیشہ سے بزرک ہے اور ہمیشہ قابل حمد رہے گا۔ بلندیوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا، بے نیاز، پاکیزہ صفات، ملائکہ اور روح کا پروردگار تمام مخلوقات پر فضل و کرم کرنے والا اور تمام ایجادات پر مہربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے اگرچہ کوئی آنکھ اُسے نہیں دیکھتی، وہ صاحب علم و کرم ہے، اس کی رحمت ہر شے کے لیے وسیع اور اس کی نعمت کا احسان ہر شے پر قائم ہے۔ انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقیقن عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، مخفی امور اس پر مشتہح نہیں ہوتے، وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے، اس کی قوت ہر شے میں اور اس کی قدرت ہر چیز پر ہے، وہ بے مثل ہے اور شے کو شے بنانے والا ہے، ہمیشہ رہنے والا، انصاف کرنے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ عزیز و حکیم ہے، نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی۔ کوئی شخص اس کے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اس کے ظاہر و باطن کا ادراک نہیں کرسکتا۔ مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتا دیا ہے، میں گواہی دیتا دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکیزگی زمانہ پر محیط اور جس کا نور ابدی ہے۔ اس کا حکم نافذ ہے۔ نہ اس کا کوئی مشیر ہے نہ وزیر۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی تدابیر میں کوئی فرق ہے، جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر و نظر کی زحمت کے بنایا۔ جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا۔ وہ خدا ہے لاشریک ہے جس کی صفت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے۔

وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتا اور ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اس کے قدرت کے سامنے متواضع اور ہر چیز اس کی ہبیت کے سامنے خاضع ہے وہ تمام ملکوں کا مالک، تمام آسمانوں کا خالق، شمس و قمر پر اختیار رکھنے والا، ہر ایک کو معین مدت کے لیے چلانے والا، دن کو رات اور رات کو دن پر حاوی کرنے والا، ظالموں کی کمر توڑنے والا، شیطانوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ نہ اس کا کوئی ضد ہے نہ مثل۔ وہ یکتا ہے بے نیاز ہے، اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا، نہ ہمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے پورا کر دیتا ہے۔ جاننے والا، خیر کا احصاء کرنے والا ، موت و حیات کا مالک، فقر و غنا کا صاحب اختیار، ہنسانے والا ، رلانے والا، قریب کرنے والا، دو رہٹانے والا، عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے۔ ملک اسی کے اختیار میں ہے اور حمد اسی کے لیے زیبا ہے اور اسی کے قبضہ میں ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔ اس عزیز و غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، عطاؤں کو بکثرت دینے والا، سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے، اس کے لیے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسے گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال کرتا نہیں ہے۔ نیک کرداروں کا بچانے والا، طالبان فلاح کو توفیق دینے والا اور عالمین کا مولا و حاکم ہے۔ اس کا حق ہر مخلوق پر یہ ہے کہ راحت و تکلیف اور نرم و گرم میں اس کی حمدو ثناء کرے اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرے۔ میں اس پر اور اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں، اس کے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں، اس کی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اس کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں اس لیے کہ اس کی اطاعت میرا فرض ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بنا پر کہ نہ کوئی اس کی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے ظلم کا خطرہ ہے میں اپنے لیے بندگی اور اس کے لیے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور اس کے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاہی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اس خدائے وحدہ لاشریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا تو اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لیے حفاظت کی ضمانت لی ہے۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ، اے رسول جو حکم تمہاری طرف علی ؑ کے بارے میں نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی اور میں اس آیت کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جبرئیل بار بار میرے پاس یہ حکم پروردگار لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹھہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب‘ میرے بھائی، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزل میرے لیے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں اور اس کا اعلان خدا نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

علی بن ابی طالب‘ نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوۃ دی ہے، وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ یہ گذارش کی کہ اس وقت تمہارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لیے کہ متقین کی قلت ہے اور منافقین کی کثرت، فساد کرنے والے، بدعمل اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاری کا بھی خطرہ ہے، جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے: "یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو اِن کے دل میں نہیں ہے، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پیش پروردگار بہت بڑی بات ہے"۔ ان لوگوں نے بارہا مجھے اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ مجھے "کاہن" کہنےلگے ہیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں اسی لیے خدا نے آیت نازل کی کہ "کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو فقط کاہن ہیں، تو پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر ایسا ہے تو تمہارے حق میں یہی خیر ہے، ورنہ میں چاہوں تو ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں اور اس کی طرف اشارہ بھی کرسکتا ہوں اور لوگوں کے لیے نشان دہی بھی کرسکتا ہوں۔ لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یہی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کر دوں۔ لہذا لوگو! ہوشیار رہو کہ اللہ نے علی ؑ کو تمہارا ولی اور امام بنا دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین ، انصار اور ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی ، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے۔ ہر توحید پرست کے لیے ان کا حکم جاری، ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے، ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

ایھا الناس! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہذا میری بات سنو، اور اطاعت کرو اور اپنے پروردگار کے حکم کو تسلیم کرو۔ اللہ تمہارا رب، ولی اور پروردگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمدؐ تمہارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی ؑ تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے۔ اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تا روزِ قیامت باقی رہے گی۔

حلال وہ ہے جس کو اللہ نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ یہ سب اللہ نے مجھے بتایا تھا اور میں نے سارے علم کو علی ؑ کے حوالہ کردیا۔

ایھا الناس! کوئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علیعليه‌السلام کے حوالہ کردیا ہے۔ یہ امام المتقین ؑ بھی ہے اور امام المبین بھی ہے۔

ایھا الناس! علیعليه‌السلام سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہوجانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے، حق پر عمل کرنے والے باطل کو فنا کردینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں۔ انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوئی۔ وہ سب سے پہلے اللہ و رسولؐ پر ایمان لائے اور اپنے جی جان سے رسولؐ پر قربان تھے ہمیشہ خدا کے رسولؐ کے ساتھ رہے جب کہ رسولؐ کے علاوہ کوئی عبادتِ خدا کرنے والا نہ تھا۔ ایھا الناس! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے۔ ایھا الناس! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں، اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے، بلکہ اللہ کا حق ہے کہ وہ اس امر پر مخالفت کرنے والے پر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بدترین عذاب نازل کر دے۔ لہذا تم ان کی مخالفت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہوجاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کے لیے مہیار کیا گیا ہے۔

ایھا الناس! خدا گواہ ہے کہ سابق کے تمام انبیاء و مرسلین کو میری بشارت دی گئی ہے اور میں خاتم الانبیاء و المرسلین اور زمین و آسمان کے تمام مخلوقات کے لیے حجت پروردگار ہوں۔ جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ جاہلیت جیسا کافر ہو جائےگا۔ اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا اور اس کا انجام جہنم ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ تا ابد اور ہر حال میں میری حمد کا حق دار ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و برتر ہے۔ اللہ نے ہمارے ہی ذریعہ رزق کو نازل کیا ہے اور مخلوقات کو باقی رکھا ہے۔ جو میری اس بات کو رد کردے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار کا ارشاد ہے کہ جو علی  سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کرے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے۔ لہذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا مہیا کیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قدم راہ حق سے پھسل جائیں اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔

ایھا الناس! علی وہ جنب اللہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ ظالمین افسوس کریں گے کہ انہوں نے جنب اللہ کے بارے میں کوتاہی کی ہے۔

ایھا الناس! قرآن میں فکر کرو، اس کی آیات کو سمجھو، محکمات کو نگاہ میں رکھو اور متَشابہات کے پیچھے نہ پڑو۔ خدا کی قسم قرآن مجید کے احکام اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ کوئی واضح نہ کرسکے گا۔ جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں ، میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی  مولا ہے۔ یہ علی بن ابی طالب‘ میرا بھائی ہے اور وصی بھی۔ اس کی محبت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ اور میری اولاد طیبین ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے ان میں ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوں۔ یہ میری اولاد مخلوقات میں احکام خدا کے امین اور زمین میں ملک خدا کے حکام ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ میں نے تبلیغ کردی میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ میں نے بات سنا دی۔ میں نے حق کو واضح کردیا۔ آگاہ ہوجاؤ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دہرا دیا۔ پھر آگاہ ہوجاؤ کہ امیر المؤمنین میرے اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔

(اس کے بعد علیعليه‌السلام کو اپنے ہاتھوں پر اتنا بلند کیا کہ ان کے قدم رسولؐ کے گھٹنوں کے برابر ہوگئے۔ اور فرمایا)

ایھا الناس! یہ علی ؑ میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اور امت پر میرا خلیفہ ہے۔ یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا، اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے والا، اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا، اس کی معصیت سے روکنے والا، اس کے رسولؐ کا جانشین اور مؤمنین کا امیر، امام اور ہادی ہے اور بیعت شکن، ظالم اور خارجی افراد ے جہاد کرنے والا ہے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ حکم خدا سے کہہ رہا ہوں میری کوئی بات بدل نہیں سکتی ہے۔ خدایا! علی ؑ کے دوست کو دوست رکھنا اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دینا، ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نازل کرنا۔ پروردگار! تو نے یہ وحی کی تھی کہ امامت علیعليه‌السلام کے لیے ہے اور تیرے حکم سے میں نے انہیں مقرر کیا ہے۔ جس کے بعد تو نے دین کو کامل کردیا، نعمت کو تمام کردیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دے دیا اور یہ اعلان کردیا جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہوگا۔ پروردگار! میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی۔

ایھا الناس! اللہ نے دین کی تکمیل علیعليه‌السلام کی امامت سے کی ہے لہذا جو علی ؑ اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا اس کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ ان پر نگاہ رحمت کی جائے گی۔

ایھا الناس! یہ علی ؑ ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا، مجھ سے قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے۔ اللہ اور میں دونوں اس سے راضی ہیں۔ قرآن مجید میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے بارے میں ہے اور جہاں بھی یا ایھا الذین امنو کہا گیا ہے اس کا پہلا مخاطب یہی ہے۔ ہر آیت مدح اسی کے بارے میں ہے، ہل اتیٰ میں جنت کی شہادت اسی کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علاوہ کسی غیر کی مدح میں نہیں نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! یہ دین خدا کا مددگار، رسولؐ خدا سے دفاع کرنے والا، متقی، پاکیزہ صفت، ہادی اور مہدی ہے۔ تمہارا نبی بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین اوصیاء ہیں۔

ایھا الناس! ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہوتی ہے اور میری ذریت علی ؑ کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! ابلیس آدمؑ کے مسئلہ میں حسد کا شکار ہوا۔ لہذا خبردار! تم علیعليه‌السلام سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہارے قدموں میں لغزش پیدا ہو جائے۔ آدم صفی اللہ ہونے کے باوجود ایک ترک اولیٰ پر زمین میں بھیج دیئے گئے تو تم کیا ہو اور تمہاری کیا حقیقت ہے۔ تم میں تودشمنان خدا بھی پائے جاتے ہیں۔ یاد رکھو علیعليه‌السلام کا دشمن صرف شقی ہوگا اور علی ؑ کا دوست صرف تقی ہوگا۔ اس پر ایمان رکھنے والا صرف مؤمن ہی ہوسکتا ہے اور انہیں کے بارے میں سورہ عصر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو، جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار! اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہوجاؤ۔

ایھا الناس! اللہ، اس کے رسولﷺ اور اس نور پر ایمان لاؤ جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ خدا اچھے چہروں کو بگاڑ دے اور انہیں پشت کی طرف پھیر دے۔

ایھا الناس!نور کی پہلی منزل میں ہوں۔ میرے بعد علیعليه‌السلام اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ مہدی قائم تک برقرار رہے گا جو اللہ کا حق اور ہمارا حق حاصل کرے گا! اس لیے کہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین، معاندین، مخالفین، خائنین، آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے۔

ایھا الناس! میں تمہیں باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے لیے اللہ کا نمائندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ تو کیا میں مر جاؤں یا قتل ہو جاؤں تو تم اپنے پرانے دین پر پلٹ جاؤ گے؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جائے گا وہ اللہ کا نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ علی ؑ کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولاد کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے جو ان کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! اللہ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کہ وہ تم سے ناراض ہوجائے اور تم پر اس کی طرف سے عذاب نازل ہوجائے کہ وہ مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہے۔

ایھا الناس! عنقریب میرے بعد ایسے راہنما پیدا ہوں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے۔ اور قیامت میں کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا۔ اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بری اور بیزار ہیں۔

ایھا الناس! یہ لوگ اور ان کی اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور یہ متکبر لوگوں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں لہذا ان کے صحیفہ پر تمہیں نگاہ رکھنی چاہیے۔ لوگوں کی قلیل جماعت کے علاوہ سب صحیفہ کی بات بھول چکے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں امامت کو امانت اور قیامت تک کے لیے اپنی اولاد میں وراثت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کردی ہے تاکہ ہر حاضر و غائب ، موجود و غیر موجود، مولود وغیر مولود سب پر حجت تمام ہوجائے۔ اب حاضر کا فریضہ ہے کہ یہ پیغام غائب تک پہنچائے اور ہر باپ کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کو اپنی اولاد کے حوالہ کرتا رہے اور عنقریب لوگ اس کو غصبی ملکیت بنالیں گے۔ خدا غاصبین پر لعنت کرے۔ قیامت میں تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی اور آگ کے شعلے برسائے جائیں گے جب کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔

ایھا الناس! اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھوڑے گا جب تک خبیث اور طیّب کو الگ الگ نہ کردے اور اللہ تم کو غیب پر باخبر کرنے والا نہیں ہے۔

ایھا الناس! کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جسے اللہ اس کی تکذیب کی بناء پر ہلاک نہ کردے وہ اسی طرح ظالم بستیوں کو ہلاک کرتا رہا ہے۔ علیعليه‌السلام تمہارے امام اور حاکم ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ صادق الوعد ہے۔

ایھا الناس! تم سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور وہی بعد کے ظالموں کو ہلاک کرنے والا ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے امر و نہی کی مجھے ہدایت کی ہے اور میں نے اسے علی ؑ کے حوالہ کردیا ہے وہ امر و نہی الٰہی سے باخبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلامتی پاؤ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔ ان کے روکنے پر رک جاؤ تاکہ راہ راست پر آجاؤ۔ ان کی مرضی پر چلو اور مختلف راستوں پر منتشر نہ ہوجاؤ۔ میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کے اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر میرے بعد علی ؑ ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو اِن کے صلب سے ہے۔ یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین (سورہ حمد کی تلاوت کرنے کے بعد آپ نے فرمایا) یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے بارے میں نازل ہوا ہے، اس میں اولاد کے لیے عمومیت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔ یہی میری اولاد وہ الیاء ہیں جن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ دشمنان علی ؑ ہی اہل تفرقہ ، اہل تعدی اور برادرانِ شیطان ہیں جن میں ایک دوسرے کی طرف مہمل باتوں کے خفیہ اشارے کرتا رہتا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی مؤمنین برحق ہیں جن کا ذکر پروردگار نے اپنی کا ب میں کیا ہے۔ "تم کسی ایسی قوم جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت رکھیں " آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پروردگار نے اس انداز سے کی ہے۔ "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں"۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو جنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہوں گے۔ اور ملائکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے تم طیب و طاہر ہو، لہذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے کہ "یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جو جہنم میں تپائے جائیں گے اور جہنم کی آواز اس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور ہر داخل ہونے والا گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں کہ جن کے بارے میں پروردگار کا فرمان ہے کہ کوئی گروہ داخل جہنم ہوگا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

ایھا الناس! دیکھو جنت و جہنم میں کتنا بڑا فاصلہ ہے۔ ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ، اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔

ایھا الناس! آگاہ ہوجاؤ کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علیعليه‌السلام ہادی ہیں۔

ایھا الناس! میں نبی ہوں اور علیعليه‌السلام میرے وصی ہیں۔ یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدیعليه‌السلام ہے۔ وہی ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کا فتح کرنے والا اور ان کا منہدم کرنے والا ہے۔ وہی مشرکین کے ہر گروہ کا قاتل اور اولیاء اللہ کے ہر خون کا انتقام لینے والا ہے، وہی دین خدا کا مددگار اور ولایت کے عمیق سمندر سے سیراب کرنے والا ہے۔ وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشان لگانے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے۔ وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے، وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے، اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے اور اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے، وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔ ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے۔ اس پر غالب آنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حکم اور خفیہ اور اعلانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے۔

ایھا الناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد علی ؑ تمہیں سمجھائیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے اللہ کے ہاتھ اپنا نفس بیچا ہے اور میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے رہا ہوں۔ جو اس بیعت کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! یہ حج اور عمرہ، اور یہ صفا و مروہ سب شعائر اللہ ہیں، لہذا حج اور عمرہ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔

ایھا الناس! خانۂ خدا کا حج کرو، جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہوجاتے ہیں، اور جو اس سے الگ ہوجاتے ہیں وہ محتاج ہوجاتے ہیں۔

ایھا الناس! کوئی مؤمن کسی موقف میں وقوف نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ لہذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

ایھا الناس! حجاج خدا کی طرف سے محل امداد ہیں اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔

ایھا الناس! پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو اور جب وہاں سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گناہ کے ساتھ۔

ایھا الناس! نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو جس طرح کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کوتاہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علی ؑ تمہارے ولی اور تمہارے لیے وہ احکام کے بیان کرنے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعد معین کیا ہے اور میرا جانشین بنایا ہے وہ تمہیں ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جانتے ہو سب بیان کردیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ حلال و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے۔ لہذا میں تمام حلال و حرام کی امر و نہی اس مقام پر یہ کہہ کر بیان کر دیتا ہوں کہ میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے لوں اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی ؑ اور ان کے بعد کے آئمہ کے بارے میں خدا کی طرف سے لایا ہوں، تم ان سب کا اقرار کرلو۔

"کہ یہ سب مجھ سے ہیں اور ان میں ایک امت قیام کرنے والی ہے جن میں سے مہدی ؑ بھی ہے جو قیامت تک حق کے ساتھ فیصلہ کرتا رہے گا۔"

ایھا الناس! میں نے جس جس حلال کی رہنمائی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی کی ہے۔ لہذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہو اور کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں پھر دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، اور یہ یاد رکھو کہ امر بالمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جاؤ اور جو لوگ نہیں ہیں ان تک پہنچاؤ اور اس کے قبول کرنے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو۔ اس لیے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے اور امام معصوم کو چھوڑ کر نہ کوئی واقعی امر بالمعروف ہوسکتا ہے اور نہ ہی عن المنکر۔

ایھا الناس! قرآن نے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ علیعليه‌السلام کے بعد امام ان کی اولاد ہے اور میں نے بھی سمجھایا ہے یہ سب میرے اور علیعليه‌السلام کے اجزاء ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ اللہ نے انہیں اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے۔ اور میں نے بھی کہا کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے۔

ایھا الناس! تقویٰ اختیار کرو تقوی، قیامت سے ڈرو کہ اس کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے۔ موت، حساب، اللہ کے بارگاہ کا محاسبہ، ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور برائی کرنے والے کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

ایھا الناس! تم اتنے زیادہ ہو کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیعت نہیں کرسکتے ہو۔ لہذا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبان سے علیعليه‌السلام کے امیر المؤمنین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو اِن کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں، لہذا تم سب مل کر کہو ہم سب آپ کی بات کے سننے والے، اطاعت کرنے والے، راضی رہنے والے اور علی ؑ اور اولاد علی ؑ کے بارے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ ہم اس بات پر اپنے دل، اپنی روح، اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے بیعت کر رہے ہیں، اسی پر زندہ رہیں گے، اسی پر مریں گے اور اسی پر دوبارہ اٹھیں گے۔ نہ کوئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہوں گے، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو توڑیں گے۔ اللہ کی اطاعت کریں گے۔ آپ کی اطاعت کریں گے اور علی ؑ امیر المؤمنین اور ان کی اولاد ائمہ ؑ جو آپ کی ذریت میں ہیں ان کی اطاعت کریں گے۔ جن میں سے حسن و حسین‘ کی منزلت کو اور ان کے مرتبہ کو اپنی اور خدا کی بارگاہ میں تمہیں دکھلا دیا ہے اور یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور اپنے باپ علی ؑ کے بعد امام ہیں اور میں علی ؑ سے پہلے ان دونوں کا باپ ہوں۔ اب تم لوگ یہ کہو کہ ہم نے اس بات پر اللہ کی اطاعت کی، آپ کی اطاعت کی اور علی ؑ ، حسنؑ ، حسین ؑ او ائمہ ؑ جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے عہد لیا ہے سب کی دل و جان سے اور دست و زبان سے بیعت کی ہے۔ ہم اس کا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کریں گے۔ اللہ ہمارا گواہ ہے اور وہی گواہی کے لیے کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں اور ہر ظاہر و باطن اور ملائکہ اور بندگان خدا سب اس بات کے گواہ ہیں اور اللہ ہر گواہ سے بڑا گواہ ہے۔

ایھا الناس! اب تم کیا کہتے ہو؟ یاد رکھو کہ اللہ ہر آواز کو جانتا ہے اور ہر نفس کی مخفی حالت سے باخبر ہے، جو ہدایت حاصل کرے گا وہ اپنے لیے اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنا نقصان کرے گا ۔ جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی ہے، اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو ، علی ؑ کے امیر المؤمنین ہونے اور حسن ؑ و حسین ؑ اور ائمہ ؑ کے کلمۂ باقیہ ہونے کی بیعت کرو۔ جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! جو میں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المؤمنین کہہ کر سلام کرو اور یہ کہو کہ پروردگار ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ہمیں تیری مغفرت چاہیے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور یہ کہو کہ شکر پروردگار ہے کہ اس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اس کی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے۔

ایھا الناس! علی بن ابی طالب‘ کے فضائل اللہ کی بارگاہ سے ہیں اور اس نے قرآن میں بیان کیا ہے اور اس سے زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کراسکوں۔ لہذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائل سے آگاہ کرے اس کی تصدیق کرو۔ یاد رکھو جو اللہ، رسولؐ، علی ؑ اور ائمہ ؑ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا۔

ایھا الناس ! جو علی ؑ کی بیعت، ان کی محبت اور انہیں امیر المؤمنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے، وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے۔ ایھا الناس! وہ بات کہو جس سے تمہارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پروردگار مؤمنین و مؤمنات کی مغفرت فرما اور کافرین پر اپنا غضب نازل فرما۔

والحمد لل ه رب العالم ین


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22