زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)0%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (پہلی جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23032
ڈاؤنلوڈ: 2254


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23032 / ڈاؤنلوڈ: 2254
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد 1

مؤلف:
اردو

زاد راہ (پہلی جلد)

پہلا سبق

بندگی کی کیفیت اور کامیابی کا راستہ

*عبادت اور خدائے متعال کے حاضر و ناظر ہونے کا ادراک

*خداوند عالم کی پرستش و بندگی، ترقی اور بلندی کا ذریعہ

*خدا کی بندگی کے مراحل

الف : خداوند عالم کی معرفت

ب۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعتراف

ج۔ اہل بیت علیہم السلام کی محبت

*حضرت نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت کی تشبیہ

بندگی کی کیفیت اور کامیابی کا راستہ

''عَنْ اَبی الْاَسْوَدِ الدُّ ؤِلی : قَالَ قَدِمْتُ الرَّبَذَةَ فَدَخَلْتُ عَلٰی أبی ذَرٍّ، جُنْدَبِ ِبنْ جُنٰادَةَ رَضِیَ ﷲ عَنْهُ ، فَحَدَثَنی أبُوذَرٍّ قٰالَ : دَخَلْتُ ذَاتَ یَومٍ فی صَدْرِ نَهٰارِهِ عَلٰی رَسُولِ ﷲ ، صَلَی ﷲ عَلَیْهِ وَ آلِهِ ، فی مَسْجِدِهِ فَلَم أ َرَ فِی الْمَسْجِدِ َحَداً مِنَ النَّاسِ ِالاَّ رَسُولُ ﷲ ،صَلَی ﷲ عَلَیْهِ وَ آلِهِ ، و عَلِی عَلَیهِ السَّلام إِلٰی جٰانِبِهِ جٰالِس فَاغْتَنَمتُ خَلْوَةَ الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ ﷲ بِاَبی إَنْتَ وَ ُامّی ، اَوصِنی بِوَصِیَّةٍ یَنْفَعُنِی ﷲ بِهَا ، فَقَالَ: نَعَمْ وَ أکْرِمْ بِکَ یَا ابَاذَر إنَّکَ مِنَّا َأهْلَ الْبَیْتِ وَ ِانّی مُوصیکَ بِوَصِیَّةٍ فَأحْفظْهَا فَاِنَّهَا( وَصِیَّة) جَامِعَة لِطُرُقِ الْخَیْرِ وَ سُبُلِهِ فَإنَّکَ اِنْ حَفِظْتَهٰا کَانَ لَکَ بِهٰا کِفْلٰانِ.

یٰاأبَاذَرٍّ : اُعْبُدِ ﷲ کَأنَّکَ تَرَاهُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاهُ فَإنَّهُ یَرٰاکَ وَ اعْلَمْ أَنَّ اَوَّلَ عِبٰادَةِ ﷲ الْمَعْرِفَةُ بِهِ فَهُوَ الْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیئٍ فَلٰا شَیئٍ قَبْلَهُ وَ الْفَرْدُ فَلاَ ثٰانِیَ لَهُ وَ الْبٰاقی لاٰ اِلٰی غَایَةٍ ، فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ مٰا فِیهِمٰا وَ مٰا بَیْنَهُمٰامِنْ شَیئٍ) ۱ ( وَ هُوَّ ﷲ اللَّطیفُ الْخَبیرُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدیر ، ثُمَّ الْاِیْمٰانُ بی وَ الْاِقْرَارُ بِاَنَّ ﷲ تَعٰالٰی اَرْسَلَنی اِلیٰ کَافَّةِ النَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ دَاعِیاً اِلٰی ﷲ بِاِذْنِهِ وَ سِرَاجاً مُنیراً ثُمَّ حُبُّ َأهْلِ بَیْتی الَّذینَ أذْهَبَ ﷲ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهیراً

وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ َاهْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَهٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْهٰا غَرِقَ وَ مِثْلَ بٰابِ حِطَّةٍ ) فی ( بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَهُ کٰانَ آمِناً''

جس روایت کو ہم نے اپنی بحث کا محورقرار دیا ہے ، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان جامع اور انتہائی فائدہ مند موعظوں میں سے ہے جنھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو ذر نامی اپنے ایک عالی مقام صحابی سے فرمایا ہے، اس روایت کا متن تھوڑے فرق کے ساتھ درج ذیل گراں قدر کتابوں میں درج ہوا ہے :

'' مکارم الاخلاق '' '' امالی شیخ طوسی '' ''مجموعۂ ورام '' اور '' بحار الانوار' ' جلد ٤ ( طبع بیروت ) و جلد ٧ ( طبع ایران )

خدا کی مدد سے ہم اسے بحار الانوار سے نقل کرکے حتی الامکان اس کی تفسیر و تشریح کریں گے ابو الاسود دوئلی کہتے ہیں : جب ابوذر اپنی جلاوطنی کی جگہ '' ربذہ'' میں تھے۔ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انھوں نے میرے لئے ایک روایت نقل کی ۔ ابوذر نے فرمایا: ایک دن صبح سویرے مسجد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کوئی اور نہیں تھا، میں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کے بعد احترام بجالاکر فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں ، مجھے ایک ایسی چیز کی سفارش فرمائیے جس کے سبب خدائے تعالی مجھے فائدہ بخشے ۔

آنحضرت نے لطف و عنایت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

نَعَمْ وَ أکْرِمْ بِکَ یَا ابَاذَر ،ِإنَّکَ مِنَّا َأهْلَ الْبَیْتِ

اے ابوذر ! تم کتنے با کرامت انسان ہو کہ ہمارے اہل بیت علیہم السلام میں شمار ہوتے ہو۔(۲)

''أفْعِلْ بِهِ '' عربی می ںصیغۂ تعجب کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی چیز کے بارے میں تعجب کرے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے حسن و زیبائی کے بارے میں تعجب کیا جائے تو بولتے ہیں :' ' َجْمِلْ بِکَ'' کتنے خوبصورت ہو ! اس لحاظ سے لفظ ''أکْرِمْ بِک'' کا معنی یہ ہے کہ '' تم کتنے با کرامت انسان ہو !''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ سے لفظ کریم کا ابوذر جیسے انسان کے لئے استعمال کرنا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک اس بزرگ صحابی کی عظمت اور مقام و منزلت کی دلیل ہے اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مذکورہ بیان کی تاکید میں ا بوذر کو اپنے اہل بیت علیہم السلام کے زمرے میں شمار کیا ہے (سلمان فارسی کے بارے میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے : ''سلمان منّا اهل البیت ''

حدیث کو بیان فرماتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر کو موعظہ فرماتے ہیں:۔

وَ ِانّی مُوصیکَ بِوَصِیَّةٍ فَاحْفَظْهَا فَاِنَّهَا ( وَصِیَّة ) جَامِعَة لِطُرُقِ الْخَیْرِ وَ سُبُلِهِ فَإنَّکَ اِنْ حَفِظْتَهٰا کَانَ لَکَ بِهٰا کِفْلٰانِ ''

میں تجھے ایک موعظہ کی سفارش کرتا ہوں اور امید ہے کہ تم اسے حفظ کرکے اس پر عمل کرو گے ، کیوں کہ اس موعظہ میں خیر و خوش بختی کی تمام راہیں موجود ہیں ،اگر تم میری اس وصیت پر عمل کرو گے تو تجھے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی جائے گی۔

مذکورہ جملہ میں وصیت کا معنی پند و نصیحت ہے نہ مرتے وقت کی جانے والی وصیت، اس کے علاوہ '' طریق'' و '' سبیل '' دونوں لفظ راستہ کے معنی میں ہیں ، لیکن '' طریق '' اصلی اور وسیع راستہ کے معنی میں ہے اور '' سبیل '' فرعی اور معمولی راستہ کے معنی میں ہے ۔

کفلان سے دو معنی تصور کئے جاسکتے ہیں ، ایک '' دوگنا رحمت '' کے معنی میں ۔

قرآن مجید میں میں بھی '' کفلان '' اس معنی میں استعمال ہوا ہے :

( یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوﷲ وَ آمِنُوا بِرَسُولِهِ یُؤتِکُمْ کِفْلَینِ مِنْ رَحْمَتِهِ ) (حدید ٢٨)

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واقعی ایمان لے آؤ تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دہرے حصے عطا کردے

اس لحاظ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمائش کا یہ معنی ہوگا : اگر میری نصیحت پر عمل کرو گے تو تجھے دگنا خیر ملے گی ۔ لیکن اس کا دوسرا معنی اور احتمال یہ ہے کہ '' کفلان '' دنیا و آخرت کے معنی میں ہوگا اور اس صورت میں جملہ کا معنی یوں ہوگا : اگر میرے کہنے پر عمل کرو گے تو تجھے دنیا و آخرت کی سعادت ملے گی۔

عبادت اور خدا کا ادراک :

یٰاأبَاذَرٍّ : ُعْبُدِا ﷲَ کَاَنَّکَ تَرَاهُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاهُ فَاِنَّهُ یَرٰاک

اے ابوذر !خداوند تعالی کی ایسی پرستش کر وکہ جیسے اسے دیکھ رہے ہو، کیونکہ اگر تم اسے نہیںبھی دیکھتے ہو ، وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

اگر حدیث کا یہ حصہ متواتر نہ ہو تو کم از کم مستفیض ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئی طریقوں سے غالباً ابوذر کے توسط سے گوناگوں تعبیروں سے نقل ہوا ہے ۔ اس معنی کے بارے میں ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :

''اَلْاِحْسَان ُ اَنْ تَعْبُدَ ﷲ کَاَنْکَ تَرَاهُ ''(۳)

نیکی وہ ہے کہ خدا کی ایسی عبادت کی جائے کہ گویا اسے دیکھ رہاہے ۔

شاید ابوذر کیلئے جس نے سالہا سال خدا کی بندگی کی راہ میں قدم اٹھائے ہیں اورسعادت

حاصل کرنے کیلئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں بہترین نصیحت یہ ہو کہ اسے عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا جائے اور اس کے سامنے وہ راستہ پیش کیا جائے جس کے ذریعہ وہ اپنی عبادت سے بہترین استفادہ کر سکے اور عبادت کے دوران حضور قلب پیداہو ۔

حضور قلب حاصل کرنے کا راستہ ، مشق و ممارست اور خداوند عالم کو حاضر و ناظر جاننے کا ادراک ہے ، یعنی انسان ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے حضورمیں تصور کرے اور اس سے مانوس ہو اگر کوئی شخص خدا سے انس پیدا کرلے تو وہ خدا سے گفتگو کرتے اور اس کی بات سنتے ہوئے ہرگز تھکن محسوس نہیں کرے گا ، کیونکہ عاشق جتنا زیادہ اپنے معشوق سے محو گفتگو رہتا ہے اتنا ہی زیادہ تشنہ رہتا ہے ۔

یہ جو ہم عبادت انجام دینے میں جلدی تھکن محسوس کرتے ہیں اور نماز کو عجلت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اپنے کاروبار کے پیچھے دوڑتے ہیں اور اگر نماز قدرے طولانی ہوجائے تو نہ یہ کہ کسی قسم کی لذت محسوس نہیںکرتے بلکہ اپنے آپ کو قفس میں محبوس پاتے ہیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم اس بات کو درک نہیں کرتے کہ کس کے حضور میں کھڑے ہیں اور کس سے گفتگو کررہے ہیں ! ممکن ہے ہمیں علم حصولی کے ذریعہ خداوند عالم کی بندگی کے عظیم مرتبہ کی معرفت ہو اور اس کی عظمت سے ہم آگاہ ہوں لیکن ان ذہنی مفاہیم نے ہمارے دل پر کوئی اثر نہ کیا ہو اور خداوند عالم سے حقیقی رابطے کاذریعہ نہ ہو بلکہ جو چیز جو خدائے متعال سے حقیقی اور واقعی رابطے کا سبب ہے ، وہ عبادت کے دوران حضور قلب ہے ۔ جن عبادتوں کو ہم انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ صرف ہمارے لئے شرعی تکلیف انجام دینے کا سبب بنتی ہیں اور اس سے جو فائدہ ہمیں اٹھانا چاہیئے وہ نہیں اٹھاتے ہیں،کیونکہ ہماری عبادتیں بے روح ہوتی ہیں اور یہ حضور قلب کے بغیر انجام پاتی ہیں ۔ دنیوی امور میں مشغول

رہنا خدا سے قلبی انس اور حضور قلب پیدا کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے ، اور یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کا ہمیں سامنا ہے ۔

مسلسل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نماز میں حضور قلب پیدا کرنے کیلئے کیا کیا جائے ؟ حضور قلب حاصل کرنے کیلئے مشق اور ریاضت کی ضرورت ہے ،سب سے پہلے انسان کو ایک گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اس امر پر غور کرنا چاہیئے کہ خداوند متعال اسے دیکھ رہا ہے ۔ بعض معلم اخلاق یہ نصیحت کرتے تھے کہ اس مشق میں تخیلاتی پہلوئوں سے استفادہ کرناچاہیئے ، یعنی ایک کمرے میں یا ایک خلوت جگہ پر بیٹھے ہوئے فرض کریں کہ کوئی شخص چپکے سے تمھاری رفتار و کردار پرنظر رکھے ہوئے ہے تو کیا نظر رکھنے کی صورت میں اور کسی کے نظر نہ رکھنے کی صورت میں تمھاری رفتار ایک جیسی ہوگی ؟ خاص کر اگر وہ شخص کوئی عام شخص نہ ہو بلکہ اسے تم قابل اہمیت سمجھتے ہو اور اپنی قضا و قدرکا مالک جانتے ہو تم چاہتے ہو کہ اس کی نظر میں عزیز رہو اور وہ تجھے دوست رکھے، کیا اس صورت میں تم اس سے بالکل غافل رہ کر کوئی اور کام انجام دے سکتے ہو ؟

اگر انسان یہ کوشش کرے کہ مشق اور ریاضت سے اپنے اندریہ یقین پیدا کرلے کہ وہ خدا کے حضور میں ہے اور خدائے متعال اسے دیکھ رہا ہے اگر چہ وہ خدا کو نہیں دیکھ رہا ہے لیکن خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے ، تووہ اپنی عبادت میں حضور قلب پیدا کرکے اسے با روح عبادت میں تبدیل کرسکتا ہے پھر وہ عبادت صرف تکلیف شرعی سے چھٹکارا پانے والی عبادت نہیں ہوگی بلکہ وہ عبادت معنوی ترقی و بلندی اور قرب الہی کا سبب ہوگی بے شک حضرت علی علیہ السلام کا مندرجہ ذیل بیان اس مطلب کا گواہ ہے :

''اِتَّقُوا مَعَاصِیَ ﷲ فِی الخَلَوَاتِ فَاِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاکِمُ ''(۴)

خلوت کی جگہوں پر گناہ انجام دینے سے پرہیز کرو ، کیونکہ جو تمہارے اعمال کاشاہد ہے وہی حاکم ہے ۔

لہذا ، جنہوں نے نماز کے دوراں حضور قلب حاصل کرنے کے بارے میں اب تک مشق

نہیں کی ہے انہیں دن اور رات کے دوران ایک وقت کو مقرر کرکے خلوت میں بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ خدا انہیں دیکھ رہا ہے البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ خدائے تعالی ٰ کے حضور میں ہے اور خدا اسے دیکھ رہا ہے قرآن مجید نے بھی کئی مواقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :

( یَعْلَمُ خَائِنَةَ الاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُورُ ) ( مومن ١٩)

وہ خدا نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے بھیدوں سے بھی باخبر ہے

ایک شاگرد سے نقل ہو اہے کہ : میں اپنے استاد کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے سراہنے پہنچا اور ان سے آخری نصیحت کرنے کی درخواست کی استاد نے بڑی مشکل سے اپنی زبان کو حرکت میں لاکر فرمایا:

''اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ ﷲ یَریٰ ''

کیا تم نہیں جانتے ہو کہ خداوند عالم دیکھ رہا ہے ؟ '

حضرت علی علیہ السلام اپنے کلمات قصار میں فرماتے ہیں :

''اَیُّهَا النَّاسُ ، اِتَّقُواﷲ الَّذِی اِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ وَ اِنْ اَضْمَرْتُمْ عَلِمَ ''(۵)

اے لوگو ! اس خدا سے ڈرو، جو تمہاری بات کو سنتا ہے اورپوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے ۔

اس حدیث کے پہلے حصہ میں حضرت نے عبادت کو انسان کی سعادت کی کلید کے عنوان سے بیان فرمایا ہے اور اس کے دوسرے حصوں میں خداوندعالم کی عبادت کے مراحل کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس کے علاوہ پہلے حصہ میں عبادت کی کیفیت کی سفارش کی گئی ہے یعنی عبادت میں روح ہونی چاہیئے اور اس کی روح حضور قلب ہے حقیقت میں اصل عبادت و بندگی کی طرف براہ راست اشارہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ مسلّم امر کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔

خدا کی پرستش و بندگی ، مومنین کی ترقی و بلندی کا ذریعہ

قابل ذکر بات ہے کہ انسانی جوہر ، خدا کی عبودیت اور بندگی میں پوشیدہ ہے اور انسان عبادت کے بغیر تمام حیوانات پر اختیاری امتیاز نہیں رکھتا ہے بلکہ صرف تکوینی امتیازات رکھتا ہے بغیر اس کے کہ اس نے ان کا حق ادا کیا ہو ، خدائے متعال کی عبادت سے اجتناب کرنے والا حقیقت میں انسانی کمال کی راہ کو اپنے لئے مسدود کرتا ہے کیونکہ انسانی کمال تک پہنچنا صرف اسی راہ سے ممکن ہے۔

اگر ہم عظیم شخصیتوں کی طرز زندگی پر غور کریں تو مشاہدہ کریں گے کہ ان کی زندگی کے ناقابل تفکیک اصول میں ، خدا کی بندگی ہے جن شخصیتوں نے '' کلیم اللہ ' ، '' خلیل اللہ '' اور '' حبیب اللہ '' کے مقام تک پہنچنے کی سعادت و لیاقت حاصل کی ہے ، وہ سب صرف اس راہ کو طے کرنے اور مشکل امتحانات اور آزمائشوں سے گذرنے کے بعد ان بلند مقامات تک پہنچ گئے ہیں ۔ حتی ایک شخص کو بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ، جو خدائے متعال کی بندگی کے بغیر انسان کے اختیاری کمالات تک پہنچ گیا ہو مذکورہ مطالب کے علاوہ ''رضا'' ، '' یقین '' وغیرہ جیسے مقامات حاصل کرنے کیلئے بھی عبودیت و بندگی میں جستجو کرنی چاہیئے ۔

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِینُ ) (حجر ٩٩)

اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیئے جب تک یقین حاصل ہوجائے اور مقام رضا کے سلسلہ میں فرماتا ہے :

( وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوبِهَا وَ مِنْ ا نَایءِ الَّلْیلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی ) (طہ ١٣٠)

اور آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور رات کے وقت اور دن کے اطراف میں بھی تسبیح پروردگار کریں تا کہ آپ مقام رضا حاصل کرسکیں ۔

تمام پیغمبر کی رسالت کا مقصد لوگوں کو خداوند متعال کی بندگی کی ہدایت ، خد اکی عبادت کا امر اور طاغوت کی پرستش سے نہی کرناتھا:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُواا ﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ) ( نحل ٣٦)

اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ...''

یہ امر قرآن مجید کے مورد تاکید مطالب میں ہے کہ تمام مخلوقات خواہ نخواہ ستائش و بندگی خدا میں مشغول ہیں :

( یُسَبِّحُ ﷲِ مَا فیِ السَّمٰواتِ وَ مَا فِی الارضِ ) (جمعہ ١)

زمین و آسمان کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح کررہا ہے ''

لیکن یہ بندگی تکوینی ہے اور انسان کے کمال میں کوئی کردار نہیں رکھتی ،بلکہ انسان کے کمال میں کردار ادا کرنے والی بندگی وہ ہے جو اختیار کے ساتھ انجام پاتی ہے ، ورنہ پتھر اور پہاڑ بھی تکوینی بندگی کے نتیجہ میں کمال تک پہنچتے ۔

خداوند عالم کی بندگی و عبادت کی اہمیت و قدر و قیمت اس قدر ہے کہ خالق نے قرآن مجید میں جن و انس کی تخلیق کے انتہائی سبب کو عبادت قرار دیا ہے :

( وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَ الاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُون ) (ذاریات ٥٦)

اور میں نے جنات اور انسانو ںکو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ''

مذکورہ مطالب کے علاوہ ، حسِ پرستش انسان کی فطرت ہے ، یعنی پرستش کی ضرورت کا احساس انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے ، اس حقیقت کو ادیان اور قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرکے پایا جاسکتا ہے لیکن ایسی کوئی قوم یا سماج نہیں پایا جاتا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی پرستش و عبادت نہ کی جاتی ہو۔

خدا کی بندگی کے مراحل :

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبادت کے مراحل بیان فرماتے ہیں:

الف : خدا کی معرفت

''وَ اعْلَمْ َنَّ اَوَّلَ عِبٰادَةِ ﷲ الْمَعْرِفَةُ بِهِ فَهُوَ الْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیئٍ فَلٰا شَیئٍ قَبْلَهُ وَ الْفَرْدُ فَلاَ ثٰانِیَ لَهُ وَ الْبٰاقی لاٰ اِلٰی غَایَةٍ ، فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَا لْاَرْضِ وَ مٰا فِیهِمٰا وَ مٰا بَیْنَهُمٰامِنْ شَیئٍ (۶) وَ هُوَ ﷲ اللَّطیفُ الْخَبیرُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدی

اے ابوذر! جان لو کہ خدائے متعال کی عبادت کاسب سے پہلا مرحلہ اس کی شناخت ہے ، بے شک وہ سب سے پہلا ہے اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہ یکتا ہے اس کے مانند کوئی نہیں ہے وہ ابدی اور جاوداں ہے ، وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان اور ان میں موجود ہے خلق کیا ہے اور خداوند عالم دانا و مہربان ہے ، وہ ہر کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے۔

عبادت کے پہلے مرحلہ کے اس حصہ میں ، خدا کی ،معرفت ذکر کی گئی ہے البتہ خود خدا کی معرفت کے گوناگوں مراحل ہیں ، لیکن جو کچھ خدا کی عبادت و بندگی میں ضروری ہے وہ خداوند عالم کی اجمالی شناخت ہے ، یعنی انسان جان لے کہ ایک خدا موجود ہے اور وہ انسان و کائنات کا خالق ہے ۔ اگر انسان کیلئے شناخت کا یہ مرحلہ حاصل نہ ہو تو وہ خدا کی عبادت و پرستش کے مرحلہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ پس شناخت کا یہ مرحلہ عبادت پر مقدم ہے البتہ انسان اپنے ارتقائی سفر کے انتہائی مقام پر شناخت و معرفت کے بلند ترین مرحلہ میں پہنچتا ہے جو اولیائے خدا کیلئے مخصو ص ہے اور ہم ا سکی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ، بلکہ ہم اجمالی طور پر اتنا جانتے ہیں کہ کمال معرفت کی انتہا گراں قیمت او ر بلند ہے جسے اولیائے خدا اپنے ارتقائی سفر کے آخر ی مراحل میں حاصل کرتے ہیں اور وہی خدا کی عبادت کاانتہائی مرحلہ ہے ۔

انسان کیلئے ، عبادت کے پہلے مرحلہ کو حاصل کرنے کے بعد ، یعنی یہ جاننے کے بعدکہ ایک خدا موجود ہے ،ضروری ہے خدا کے صفات او رآثار پر غور کرے تا کہ وہ معرفت اس کے دل میں راسخ ہوجائے اور صرف ایک ذہنی معرفت کی حد تک باقی نہ رہے ، بلکہ وہ معرفت ایک ایسی حاضر و زندہ معرفت میں تبدیل ہوجائے جو انسان کی رفتار پر اثر انداز ہو۔

'' معرفت متوسط'' کے بھی گوناگوں مراتب ہیں اور ا سکا دامن بھی وسیع ہے ۔ انسان آیات الہی میں تفکر اور غور و خوض کرکے اور عملی عبادت کے ذریعہ اس کے مراتب کو حاصل کرسکتا ہے ۔ مذکورہ بیان سے واضح ہوا کہ صفات و آثار الہٰی میں تفکر کرنا اور خدا کو بہتر پہچاننے کیلئے جستجو کرنا ، ایک اختیاری امر وعبادت ہے ، جس کے دوران معرفت حاصل ہوتی ہے جو عبادت کے مقدمات میں سے ہے ۔

(آیات الہی میں غور و خوض معرفت کا مقدمۂ قریبہ '' ہے اور استاد کے درس میں شرکت اور کتاب کا مطالعہ کرنا خدا کی معرفت حاصل کرنے کے منجملہ '' مقدمات ِ بعیدہ '' میں سے ہے )

ب۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعتراف

'' ثُمَّ الْاِیْمٰانُ بی وَ الْاِقْرَارُ بِاَنَّ ﷲ تَعٰالٰی اَرْسَلَنی اِلیٰ کَافَّةِ النَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ دَاعِیاً اِلٰی ﷲ بِاِذْنِهِ وَ سِرَاجاً مُنیراً''

'' ( دوسرے مرحلہ میں ) مجھ پر ایمان لانا اور اس امر کا اعتراف کرنا کہ خدائے متعال نے مجھے بشارت دینے والا ، ڈرانے والا ، اس کی اجازت سے خدا کی طرف دعوت دینے والا اور تمام انسانوں کیلئے شمعِ ہدایت قرار دیا ہے ''

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث میں ذکر ہوئی ہر صفت قابل تفسیر و توضیح ہے اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے بارے میں ہمارا ایمان قوی اور مکمل ہوجائے تو ہم بہت سے شبہات کے جال میں نہیں پھنسیں گے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں کافی معرفت اور ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے ضعیف الایمان مسلمان شبہ میں گرفتارہوجاتے ہیں اور ان شبہات کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اصلی راستہ سے منحرف ہوجاتے ہیں اور بالآخر خدا نخواستہ کفر میں مبتلا ہوتے ہیں ، کیونکہ اس بات پرا یمان نہیں رکھتے ہیں کہ ' ' جو کچھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر ماتے ہیں وہ سچ ہے ''

بعض ضعیف الایمان افراد کہتے ہیں : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے احکام ہمارے زمانہ میں قابل عمل نہیں ہیں ۔ یہ احکام اور دستورات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں '' جزیرة العرب '' کے لوگوں کے نامناسب حالات کی اصلاح کیلئے تھے ، اور اس زمانے میں اسلامی احکام کی ضرورت نہیں ہے ! یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ یہ لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اگر وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش پر ایمان رکھتے کہ : ''ارسلنی الی کافة الناس' ' تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت اور زمانہ کی محدودیت کے قائل نہ ہوتے ، حقیقت میں کہنا چاہیئے کہ دین میں ایجاد ہونے والے تمام انحرافات کا سرچشمہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں ایمان میں کمزوری ہے ۔

ج : اہل بیت پیغمبر کی محبت :

''ثُمَّ حُبُّ اَهْلَ بَیْتی الَّذینَ اَذْهَبَ ﷲ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهیراً ''

( تیسرے مرحلہ میں تجھے تاکید کرتا ہوں ) میرے اہل بیت کی محبت رکھنا ، یہ وہ ہیں جن سے خدائے متعال نے ہر برائی کو دور رکھا ہے اور انھیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا ہے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔''

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اہل بیت کی شناخت کی عظمت اور ان کی عظمت کی بلندی سے آگاہ ہونا اور ان کی محبت کی اہمیت اس قدر ہے کہ حضرت امام خمینی نے اپنے سیاسی ، عبادی وصیت نامہ کا آغاز اس روایت سے کیا ہے : ' ' انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ و عترتی ....''شاید دنیا والوں کیلئے یہ امر تعجب آور تھا کہ قائد انقلاب اپنے وصیت نامہ میں اس خاندان کے تابع ہونے پر افتخار کرتے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ اہل بیت سے محبت اور ان کی معرفت حاصل کرنے کی تاکید میں کون سا راز مضمر ہے ، شاید ہم اسے ایک سادہ امر جان کر یہ تصور کریں کہ چونکہ اہل بیت علیہم السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباہیں اس لئے ان کی محبت کی جانی چاہیے ! اگر ایسا ہوتا تو وہ قرآن مجید کے ہم پلہ ہونے کا تعارف نہیں کراتے ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت کی تاکید اس لئے نہیں کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقربا ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی بیویاں تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بارے میں ایسی تاکید نہیں فرمائی ہے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید اس لحاظ سے کہ خدائے متعال نے انہیں ہر قسم کی برائی اور ناپاکی سے پاک فرمایا ہے ۔

حضرت نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت کی تشبیہ :

'' وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ اَهْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَهٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْهٰا غَرِقَ وَ مِثْلُ بٰابِ حِطَّةٍ( فی) بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَهُ کٰانَ آمِناً''

اے ابو ذر جان لو ! خداوند عز و جل نے میرے اہل بیت علیہم السلام کو میری امت میں نوح کی کشتی کے مانند قرار دیا ہے کہ جو بھی اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ہوا ، اسی طرح وہ بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' کے مانند ہیں ، جو اس دروازہ سے داخل ہوا وہ عذاب الہی سے محفوظ رہا ''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں تاکید اور کشتی نجات اور بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' سے ان کی تشبیہ ، ایک جذباتی موضوع نہیں ہے ، کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے عزیزوں سے محبت اس امر کا سبب ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل ان کی دوستی اور محبت رکھنے کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے ،بلکہ یہ وصیت اور تاکید ایک عزیز کی محبت سے بالاتر ہے اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو امت کیلئے نجات کی کشتی جانا ہے اور آپ معتقد ہیں کہ جو بھی گمراہ اور وادی حیرت کا سرگرداں شخص اس کشتی میں سوار ہوجائے گا وہ گمراہی اور انحرافات کے تلاطم سے نجات پائے گا ،کیونکہ نوح کی امت نے ان کی نجات کی کشتی میں سوار ہوکر عذاب الہی سے نجات پائی اور جنہوں نے من جملہ نوح کے فرزند نے روگردانی کی وہ نابود ہوئے ۔

اسلام کی دعوت کے آغاز پر ، جب امت مسلمہ میں کوئی اختلاف و افتراق نہیں تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ میرے اہل بیت ، نوح کی کشتی کے مانند ہیں ، جو ان سے رابطہ نہیں رکھے گا اور ان کی پیروی نہیں کرے گا ، وہ قوم نوح کی طرح ہلاک ہوجائے گا ۔ حقیقت میں یہ ان مسلمانوں کیلئے ایک تنبیہ و انتباہ ہے ، جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحلت پاتے ہی بغض و نفاق اور انحرافات کے دروازے کھول دیئے اور کچھ منافق جو پہلے سے موقع کی تاک میں تھے دوسروں پر سبقت لے گئے کے ساتھ ہی ایجاد شدہ انحرافات ، تعصب اور نفاق کی بنا پر فرصت سے استفادہ کرکے سبقت کی، تنہا اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علیہ السلام کی سرپرستی میں ،ا مت اسلامیہ کو خطرات ، ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرجانے سے نجات دلاکر ان کے انحرافات میں رکاوٹ بن سکتے تھے ان کے مقابل میں جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی سے روگردانی کرتے ہیں وہ منحرف ہوکر گمراہ ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اپنے اہل بیت کی بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' سے تشبیہ فرماتے ہیں ، ] یہ دوتشبیہ ( کشتی نوح اور باب حطہ کی تشبیہ ) بہت سی شیعہ و سنی روایتوں میں نقل ہوئی ہیں اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں [

جب بنی اسرائیل بے شمار ظلم و گناہ کی وجہ سے عذابِ الہی میں مبتلا ہوئے اور چالیس سال تیک '' تیہ '' نامی صحرا میں آوارہ رہے ، استغفار و ندامت کے نتیجہ میں خدائے متعال نے اپنے لطف و کرم سے ان پر توبہ کا دروازہ ( جسے حطہ کہا جاتا تھا ) کھولا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْهَا حَیْتُ شِئْتُمْ رَغَداً وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَ قُولُوْا حِطَّة نَغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِینَ ) ( بقرہ ٥٨)

اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے کہا کہ اس قریہ میں د اخل ہوجاؤ اورجہاں چاہو اطمینان سے کھاؤ اور دروازہ سے سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ کہتے ہوئے داخل ہوجائو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جز امیں اضافہ بھی کرتے ہیں ۔

جو شخص بھی '' حطہ '' کے د روازہ سے داخل ہوتا تھا، عزت و احترام پانے کے علاوہ اس کے گناہ بھی معاف کئے جاتے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ مثال پیش کرنے کا مقصداس امر کی وضاحت فرمانا تھا کہ چونکہ بنی اسرائیل کے مؤمنین باب توبہ و حطہ سے داخل ہوکر اپنے لئے دوجہاں کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلی تھی اسی طرح اگر مسلمان بھی اہل بیت علیہم السلام کے علم و معارف اور ان کی اطاعت کے دروازہ سے داخلہوجائیں اور ان کی راہ پر چلیں تو اپنے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلیں گے ۔

لغت میں لفظ '' حطہ '' کا معنی گرانا اور نابودکرنا ہے ، بنی اسرائیل یہ لفظ کہہ کر خدا سے مغفرت اور اپنے گناہوں کونابود کرنے کی درخواست کرتے تھے ، خداوند عالم نے اسے ان کے گناہوں کی بخشش کیلئے ایک وسیلہ قرار دیا تھا ، لیکن ایک گروہ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتاتھا ، فرمان خدا کا مذاق اڑاتا تھا ، بعض روایتوں کے مطابق ' حنطہ '' ( گندم ) زبان بر جاری کرتا تھا ۔ خداوند عالم نے ان لوگوں کی نافرمانی اور توبہ و مغفرت سے انحراف کی بنا پر ان پر اپنا عذاب نازل کیا:

( فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَولاً غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزاً مِنَ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) ( بقرہ ٥٩)

مگر ظالموں نے ، جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے بدل دیا ( جو ان سے کہاگیا تھا اس کی جگہ پر ایک دوسرا لفظ رکھ دیا ) تو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانی کی بنا پر آسمان سے عذاب نازل کردیا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کا باب حطہ کے عنوان سے تعارف کرایا ، جن کی پیروی دونوں جہاں کی سعادت اورآخرت کے عذاب سے نجات پانے کا سبب ہے ، لیکن لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات پر یقین نہیں کیا اور اہلبیت کے بجائے دوسروں کا انتخاب کیا اورعلی علیہ السلام اور دوسروں کے درمیان فرق کے قائل نہیں تھے اور تصور کرتے تھے جس طرح علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد تھے عثمان بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد تھے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی خلیفۂ اول کے داماد تھے !

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ عبادت کے اصلی مراتب و مراحل ، قلبی امور اور اندرونی اعمال پر مشتمل ہیں ، یعنی کوئی بھی شخص تب تک عبادت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے جب تک وہ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معرفت اور ان پر ایمان نیز اہل بیت علیہم السلام کی محبت نہ رکھتا ہو ، لہذا عبادت ، ظاہری امور اور دکھاوے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ عبادت کی اصل اور حقیقت قلبی عقیدہ ہے اور تمام بندگیوں کا سرچشمہ قلب ہے ۔

____________________

۱لا من شیٔ (ظ)

۳۔ لفظ '' کرم و کرامت '' کے استعمال کے بارے میں راغب اصفہانی '' مفردات '' میں کہتے ہیں : خدائے متعال کے بارے میں اس کی طرف سے ظاہر ہوئی نیکیوں اور نعمتوں کو کرم کہا جاتا ہے ۔ لیکن انسان کے بارے میں اس سے ظاہر ہوئے نیک اخلاق و کردار کو '' کرم '' کہتے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے : '' کرم ' ، '' حریت '' کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ '' حریت 'کا چھوٹی اور بڑی نیکیوں پر اطلاق ہوتا ہے اور '' کرم '' صرف بڑی نیکیوں کو کہا جاتا ہے : جیسے کوئی شخص اپنی ساری دولت اسلامی فوج کو مسلح کرنے میں خرچ کرے (المفردات فی غریب القرآن ، دار المعرفة ، ص ٤٢٨) لفظ ' کرامت ' کے بلند معنی کی توصیف میں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں لفظ '' کریم '' انتہائی بلند اور مقدس اشخاص و اشیاء کی خصوصیت کے طور پر ذکر ہوا ہے کہ ہم ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

الف : خداوند عالم کی صفت :(و من کفر فان ربی غنی کریم ) نحل ٤٠

ب: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفت: (انه لقول رسول کریم )تکویر ١٩

ج: عرض کی صفت : (.. هو رب العرش کریم ) مومنون ١١٦ ،

د: ملائکہ کی صفت : (کراما کاتبین ) انفطار ١١

ھ : حضرت موسی کی صفت : (و جائهم رسول کریم ) دخان ١٧ ،

و: حضرت یوسف کی صفت: (...ان هذا الا ملک کریم ) یوسف ٣١

ز: بہشت میں مومنوں کے مقام ( جگہ ) کی صفت : (و کنوز و مقام کریم ) شعراء ٥٨

ح: مومنوں کے رزق کی صفت (....و مغفرة و رزق کریم ) انفال ٤ لفظ

۳۔بحار الانوار ، ج ٦٥ ، باب ١، ص ١١٦

۴۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، ص ١٢٤٠ ، حکمت نمبر ٣١٦۔

۵۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،ص ١١٧٨ ، حکمت نمبر ١٩٤)

۶۔ احتمال یہ ہے کہ نسخہ یوں ہو '' و مابینھما لا من شیء '' یعنی جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو کسی دوسری چیز سے مدد لئے بغیر خلق کیا ہے ۔