زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)13%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26288 / ڈاؤنلوڈ: 4095
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

بیسواں سبق:

بہشت و جہنم کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف

*مخلوقات کی عظمت کے بارے میں غور و خوض۔

* قیامت کی ناقابل توصیف عظمت۔

* عذاب جہنم کی تو صیف کی ایک جھلک۔

* جہنم کے جوش و خروش کے مقابلے میں انسانوں اور فرشتوں کا رد عمل۔

*بہشت مومنین اور صالحین کی ابدی قیام گاہ۔

بہشت و جہنم کے بارے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف

''یَا اَبَاذَرٍ؛ وَلَو کَانَ لِرَجُلٍ عَمَلُ سَبعِینَ نَبِیّاً لاَسْتَقَلَّ عَمَلَهُ مِنْ شِدَّةِ مَا یَریٰ یَومَئِذٍ وَلَواَنَّ دَلواً صُبَّ مِنْ غِسْلِینِ فِی مَطْلَعِ الشَّمْسِ لَغَلَتْ مِنْهُ جَمٰاجِمُ مِنْ مَغْرِبِهٰا وَلَوْ زَفَرَتْ جَهَنَّمُ زَفْرَةً لَمْ یَبْقَ مَلَک مُقَرَّب وَلاَ نَبِی مُرْسَل اِلَّا خَرَّجَاثیاً علٰی رُکْبَتَیهِ، یَقُولُ: رَبِّ نَفْسِی نَفْسِی' حَتّٰی یَنْسٰی اِبْرَاهیمُ اِسْحٰقَ، یَقُولُ: یَا رَبِّ اَنَا خَلیلِکَ اِبْرَاهیمُ فَلاٰ تَنْسَنی

یَا اَبَاذَرٍّ؛ لَو اَنَّ اِمْرَأَةً مِنْ نِسَائِ اَهْلِ الْجَنَّةِ اَطْلَعَتْ مِنْ سَمٰائِ الدُّنیٰا فِی لَیْلَةٍ ظَلْمٰائٍ لَاَ ضٰائَتْ لَهَا الَارْضُ اَفْضَلَ مِمَّا یُضیئُهٰا الْقَمَرُ لَیْلَةَ الْبَدْرِ وَلَوَجَدَ رِیحَ نَشْرِهَا جَمیعُ اَهْلَ الْاَرْضِ وَلَوْ اَنَّ ثَوْباً مِنْ ثِیَابِ اَهْلَ الْجَنَّةِ نُشِرَ الْیَوم فِی الدُّنْیَا لَصَعِقَ مَنْ یَنْظُرُ اِلَیهِ وَمَا حَمَلَتْهُ اَبْصٰارُهُمْ''

خوف الہٰی کے مرتبہ و مقام تک پہنچنے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں،منجملہ ان میں سے خاصان خدا اور اولیا ء الٰہی کے حالات اور ان کی زندگی کا مطالعہ ہے ، اس لئے کہ انسان ان کی معرفت کے ذریعہ مقام خوف ا ور خشیت الٰہی کی کیفیت کو بہترین نمونہ کے طورپر انتخاب کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس روایت میں خدا کے بہترین بندوں اور فرشتوں کا اور ہم نے گزشتہ درس میں اس کے بارے میں بحث کی۔

مخلوقات کی عظمت کے بارے میں غور و خوض

خوف الہٰی کے مقام تک پہنچنے کا دوسرا راستہ خدا کی مخلوق کی عظمت پر تفکر کرنا ہے۔ بیشک انسان مخلوقات کی عظمت کو درک کرنے کی وجہ سے خدا کی بے انتہا عظمت و حکمت نیز صلابت سے استوار آفرینش کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خدائے متعال کے مقابلہ میں اپنی کمزوری، عاجزی اور محتاجی کو بہتر درک کرتا ہے اور اس صورت میں کمال اور بلندیوں تک پہنچنے کے لئے شیطان کی اطاعت اور نفسانی خواہشات کی پیروی سے پرہیز کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خدا کی عظمت اور اس کی بے انتہا قدرت کے بارے میں معرفت حاصل کر کے اس کی مخالفت اور سرپیچی سے سخت خائف ہوتا ہے۔

مخلوقات کی عظمت و معرفت کا ادراک پروردگار عالم کی عظمت و معرفت کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس بارے میں ہم دینی متون یعنی روایات اور قرآن مجید کی آیات میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اولیاء دین نے مخلوقات خدا کی عظمت بیان کرنے کے لئے کافی اہتمام کیا ہے۔ اپنے نورانی بیانات سے مخلوقات پروردگار کی آفرینشی ظرافتیں صلابت و استحکام اوراس کے انواع و اقسام کی وضاحت فرمائی ہے۔ اس طرح انسانوں کو وادار کیا ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح کی چیزوں کا مطالعہ کرے اور چھوٹی سے چھوٹی مخلوقات سے لے کر عظیم مخلوقات الہٰی کے بارے میں غور و خوض کرے۔

حضرت علی علیہ اسلام اپنے نورانی بیان میں ، خدا کی بے انتہا قدرت اور اس کی نعمتوں کی فراوانی پر غور و خوض کرنے کو براہ راست خدا تک پہنچنے کا وسیلہ اور اس کے خوف کا ذریعہ قرار دیتے ہیں آپ بیان فرماتے ہیں:

''ولو فکروا فی عظیم القدرة وجسیم النعمة لرجعواالی الطریق وخافوا عذاب الحریق ولٰکن القلوب علیلة والبصائر مدخولة اَلاٰ ینظرون الی صغیر ما خلق کیف اَحْکَمَ خلقه وتقن ترکیبه وفلق له السمع والبصرو سوّی له العظم والبشر... ''

''اور اگر لوگ خدائے متعال کی عظمت وبزرگی اور اس کی بیشمار نعمتوں کے بارے میں غور وخوض کرتے، تو وہ راہ راست کی طرف پلٹتے اور جہنم کی دہکتی آگ کے عذاب سے ڈرتے، لیکن ان کے دل بیمارہیں اور ان کی فکرو بصیرت میں عیب ہے۔ کیا وہ سب سے چھوٹی مخلوق کے بارے میں غور نہیں کرتے کہ کس طرح اس کی پیدائش کو منظم و مستحکم بنایا گیا ہے اور اس کی ترکیب کو کامل صورت دی گئی ہے؟! اس کے لئے کان اور آنکھیں پیدا کی گئی ہیں اور اسے ہڈی اور کھال سے آراستہ کیا گیا ہے۔''(۱)

اس کے ضمن میں مزید فرماتے ہیں:

''غور کیجئے چیونٹی اور اس کے چھوٹے اور نازک اندام پر کہ جسے آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکتا اور غور و فکر سے اس کی خلقت کی کیفیت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، کس طرح یہ اپنے راستہ کو طے کرتی ہے اور رزق کو حاصل کرنے کے لئے تلاش کرتی ہے۔ دانہ کو اپنے سوراخ کے ذریعہ لے جاکر انبار کرتی ہے۔ گرمیوںکے دنوں میں اپنے لئے سردیوں کا اہتمام کرتی ہے، سوراخ کے اندر جاتے وقت باہر آنے کا خیال بھی رکھتی ہے، اس کا رزق منظور شدہ ہے، اسے اپنی ضرورت کے مطابق روزی ملتی رہتی ہے۔ نعمت دینے والے نے اسے فراموش نہیں کیا ہے اور پاداش دینے والے نے اسے محروم نہیں کیا ہے، اگر چہ ایک خشک اور سخت پتھر پر رہائش کرتی ''

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک مفصل روایت نقل فرماتے ہیں : زینب نامی ایک عطر فروش پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر آیا اور خدائے متعال کی عظمت کے بارے میں سوال کیا۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں ساتوں آسمانوں اور کہکشانوں کا موازنہ کرتے ہوئے ان میں ایک دوسرے کی بہ نسبت حقیر اور پست ہونے کو بیان کیا، من جملہ فرمایا:

''یہ زمین، اپنے اندر اوراپنے اوپر موجود تمام چیزوں کے ساتھ، اس پر احاطہ کرنے والے آسمان کے مقابلہ میں اس انگوٹھی کے مانند ہے جوایک وسیع بیابان میں پڑی ہو، اسی طرح ہمارا آسمان دوسرے آسمانوں کے مقابلہ میں ایک انگوٹھی کے مانند ہے جو بیابان میں پڑی ہو''(۲)

یہی نسبت تمام عوالم کی اپنے سے بالا تر عالم کے مقابلہ میں ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک اور ساتواں آسمان بھی عرش و کرسی کے ساتھ موازنہ کی صورت بہت حقیر و معمولی ہے!

کائنات کی وسعت اور اس کی عظمت کے بارے میں غور و خوض کرنے کا حیرت انگیز اثر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خالق کی عظمت کے سامنے ب ہت ہی حقیر و ذلیل تصور کرتا ہے کائنات کی وسعت اور عظمت کے بارے میں بہتر غور و خوض کرنے کے سلسلہ میں علمائے اخلاق اور مربیان الہٰی نے تاکید کی ہے کہ، جب نماز پڑھ کر ذات باری تعالیٰ کے بارے میں توجہ پیدا کرنا چاہو توکوشش کرو، ایک وسیع بیابان میں جا کر کھلے دل سے غور و فکر کرو، کیونکہ اس صورت میں بارگاہ رب العزت کے مقابل میں اپنی پستی اور حقارت کا اچھی طرح اندازہ کر سکو گے۔ فطری بات ہے کہ جب انسان ایک تنگ اور بند ماحول میں مستقر ہوتا ہے تو اس کا تصور بھی اسی عالم کے حدود تک محدود ہوتا ہے، لیکن جب یہ انسان وسیع بیابانوں میں جائے اور پہاڑوں اور دریائوں کا مشاہدہ کرے، تو عالم کے بارے میں اس کے ذہن میں ایک نیا اور وسیع تصور پیدا ہوگا یہ موازنہ زمین کی وسعت اور عظمت کے بارے میں ہے، زمین کا آسمان کے ساتھ اور آسمانِ اول کا دوسرے آسمانوں کے ساتھ مواز نہ کی بات ہی نہیں!

آج کل جوٹیلسکوپوں، سیٹرلائٹوں اورراکٹوں کے ذریعہ کہکشاؤں، ستاروں، اور سیاروں کے بارے میں جو انکشافات ہوئے ہیں، ان سے انسانوں کو بہت ساری مدد ملی ہے تاکہ وہ کائنات کو اچھی طرح درک کر سکے۔فطری بات ہے کہ اگر انسان عبادت کرنے سے پہلے پرور دگار کی عظمت کے بارے میں تھوڑا سا غور کرے، تو وہ آسانی کے ساتھ اس کے مقابلہ میں اپنی ذلت اور حقارت کودرک کرسکتا ہے اور اس صورت میں خدا کے زیادہ نزدیک ہو سکتا ہے، کیونکہ خدا کے نزدیک ہونے کا راستہ اس کے مقابلہ میں اپنے کو ذلیل و حقیر تصور کرناہے۔

قیامت کی ناقابل توصیف عظمت:

بیشک عالم آخرت' من جملہ بہشت و جہنم' خدا کی عظیم ترین مخلوقات میں سے ہے' ان کا تصور اور درک ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ آیات و روایات سے استفادہ کئے جانے کی بنیاد پر' جس طرح ہم خدائے متعال کی عظمت کو درک کرنے سے عاجز ہیں' اسی طرح قیامت کی عظمت اور اس کے خوف و وحشت کو بھی درک کرنے سے عاجز ہیں اور اس کے بارے میں تصور نہیں کرسکتے۔ لیکن قرآن مجید اور روایتوں میں قیامت کے بارے میں کی گئی توصیف ہمیں قیامت' بہشت و جہنم جو پروردگار کی عظمت کی نشانیاں ہیں کی عظمت کے مقابلہ میں اپنی ذلت و حقارت کو درک کرنے کے لئے بہ طور احسن آمادہ کرتی ہے۔

عرصہ قیامت کے خوف و وحشت کے ماحول کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:

( یَوَمَ تَرَونَهَا تَذْهَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمَلَهَا وَ تَریٰ النَّاسَ سُکَٰریٰ وَمَا هُمْ بَسُکاریٰ وَ لَٰکِنَّ عَذَابَ ﷲ شَدِید'' ) (حج٢)

''جس دن تم دیکھوگے کہ دودھ پلانے والی عورتیں اپنے دودھ پیتے بچوں سے غافل ہو جائیں گی اور حاملہ عورتیں اپنے حمل کو گرادیں گی اور لوگ نشہ کی حالت میں نظر آئیں گے حالانکہ وہ بدمست نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا''

عرصہ قیامت اتنا بھیانک اور وحشتناک ہوگا کہ انسان اپنے آپ سے بے خبری کے عالم میں ادھر اُدھر پھر رہا ہوگا' جیسے وہ طاقت نہیں رکھتا ہے کہ اپنے آپ کو کنٹرول کر سکے۔ ماں' جس کا عزیز ترین فرد' اس کا بچہ ہوتا ہے وہ بھی شیر خوار بچہ جسے ماںکی عطوفت اور محبت کی اشد ضرورت ہوتی ہے خوف و ہراس کے عالم میں اسے بھول جاتی ہے۔ اگر انسان ان آیات کے مفہوم اور معنی پر غور کرے' تو سمجھ لے گا کہ یہ کس قدر متزلزل کرنے والی آیتیں ہیں اور اسے اپنے باطل رفتار کے بارے میں تجدید نظر کرنے پر مجبور کرتی ہیں' اس میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اورراہ ہدایت و سعادت کے رہزنوں سے دوری اختیار کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم ان آیات کے معنی و مفہوم کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور صرف ان کی قرائت' تجوید اور خوش لحن آواز میں پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم مین غورو خوض کرنے پر اتنی توجہ نہیں دیتے ۔ مذکورہ بیانات کے پیش نظر ہم آخرت' بہشت و جہنم کی کیفیت اور عظمت کو سمجھنے سے عاجز ہیں اور قیامت' بہشت اور جہنم کے بارے میں ہمارا تصور و احساس' دنیا میں پیش آنے والے مسائل کے مشابہ ہے۔ اگر ہمیں جہنم کی آگ اور اس کی جلد کے بارے میں کہا جائے تو' ہمارا تصور اس حد تک ہوتاہے کہ ہم دنیوی آگ پر ہاتھ رکھ کر جلتے ہیں' حد اکثر بجلی کا کرنٹ لگ جانے سے زیادہ سوچ نہیں سکتے، یا اگر بہشت کی نعمتوں اور لذتوں کی بات ہوتی ہے تو' ہمارا تصور ان نعمتوں اور لذتوں کی حدمیں ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا میں ان کو پہچانا ہے اور احساس کیا ہے' ہم اس سے زیادہ احساس و تصور نہیں رکھتے۔

انسان کے ذہن کے سوچنے کا دائرہ اس قدرمحدود ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو اس نے دیکھا ہے یا ان کے چند نمونوں کا مشاہدہ کیا ہے' ان کا موازنہ کرنے کے بعد' تصور کر سکتا ہے اور جس چیز کو نہیں دیکھا ہے اس کے بارے میں نہ تصور کرسکتا ہے اور نہ اس کی تصویر اس کے ذہن میں آسکتی ہے۔ اس فہم و ادراک اور ذہنی فعالیت کی محدودیت کے پیش نظر انسان' آخرت کے اوصاف اور خصوصیات بیان کرنے کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا کہ انہیں ایسے تناظر میں پیش کرے جو دنیا میں دیکھی گئی چیزوں کے مشابہ ہوں ورنہ ان خصوصیتوں کو بالکل درک نہیں کرسکے گا۔ اس لحاظ سے ممکن ہے یہ خصوصیتیں لاکھوں درجہ تنزل کر چکی ہوں گی تاکہ ہمارے دنیوی درک و فہم کے افق پر منعکس ہو جائیں اور اثر پیدا کریں ورنہ اگر ہمارے درک و فہم کے دائرہ سے بالاتر ہوں تو ہم میں اثر پیدا نہیں کریں گی' کیونکہ وہ درک و فہم کے قابل نہیں ہیں۔

بیان شدہ مطالب کے پیش نظر' قرآن مجید اور روایتوں میں کوشش کی گئی ہے کہ بہشت' جہنم نیز' ان کی نعمتیں اور عذاب کو ان مثالوں اور نمونوں میں پیش کر کے توصیف کی جائے جن سے لوگ آشنا ہیں۔ اس روایت میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ وآلہ وسلم نے بہشت و جہنم کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے اسی شیوہ کو اختیار کیا ہے۔

عذاب جہنم کی توصیف کی ایک جھلک:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر سے عذاب جہنم کے ایک نمونہ کی توصیف بیان فرماتے ہیں کہ اگر اس کا تھوڑا سا حصہ بھی دنیا میں پیدا ہو جائے تو اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ اس کے علاوہ بہشت کی نعمتوں کا بھی ایک نمونہ ذکر فرماتے ہیں کہ انسان خاکی کے لئے اس کا برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ بیان ہم دنیا پرستوں کیلئے ہے تاکہ دنیا کا آخرت سے موازنہ کر کے دنیا کی محدودیت اور اس کی حقارت کو درک کر سکیں۔ اگرچہ عالم آخرت اپنی تمام ناقابل وصف نعمتوں اور وسعتوں کے ساتھ آیات الہٰی میں سے ایک آیت ہے اور سبھی نے پروردگار جہان آفرین کے ایک ارادہ سے لباس وجود زیب تن کیا ہے' لیکن یہ بذات خود پروردگار عالم کی عظمت اور بے انتہا قدرت کو بیان کرنے والا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَرٍ؛ وَلَو کَانَ لِرَجُلٍ عَمَلُ سَبعِینَ نَبِیّاً لاَسْتَقَلَ عَمَلَهُ مِنْ شِدَّةِ مَا یَریٰ یَومَئِذٍ ''

اے ابوذر: اگر اس روز کوئی انسان ستر پیغمبروں کے برابر اعمال کا حامل ہو' اس دن مشاہدہ کی گئی سختی کے پیش نظر' اسے کم حساب کرے گا۔

ہماری عبادت و عمل ایک عام مومن کے برابر بھی نہیں ہے' انبیاء کی عبادتوں اور اعمال کی بات ہی نہیں اور پھر ستر پیغمبروں کی عبادت و اعمال کے برابر نیک کام انجام دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! اب اگر بفرض محال ہم میں ایسی قابلیت و لیاقت پیدا ہو جائے کہ ہمارا عمل ستر پیغمبروں کے عمل کے برابر ہو۔ تو قیامت کے دن جب ہم اس دن کی شان و شوکت اور عظمت کو دیکھیں گے' تو اسے ذرہ برابر حساب میں نہیں لائیں گے۔ قیامت کا دن ایسا ہولناک اور بھیانک ہے کہ خدائے متعال کی بے انتہا عنایت و فضل و کرم کے بغیر حتی ستر پیغمبروں کے اعمال بھی کچھ نہیں کر سکیں گے! اس بنا پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی مسلسل امید رکھنی چاہئے اور خدا سے راز و نیاز اور قلبی توجہ سے اس کی وسیع رحمت کے کھلے ہوئے دروازوں کا تحفظ کریں۔ ہمیں اپنے عمل پرتکیہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ ہمیں کہیں نہیں پہنچائے گا۔

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

''وَلَواَنَّ دَلواً صُبَّ مِنْ غَسْلِینِ فِی مَطْلَعِ الشَّمْسِ لَغَلَتْ مِنْهُ جَمٰاجِمُ مِنْ مَغْرِبِهٰا''

''اور اگر جہنم کے پیپ کا ایک بالٹی زمین کی مشرق میں ڈالدیا جائے تو مغرب میں رہنے والوں کی کھوپڑیوں کا مغرابل جائے گا۔''

قرآن مجید میں جہنمیوں کی غذاؤں کا ذکر کیا گیا ہے کہ من جملہ ان کے ''غسلین'' یعنی دوزخیوں کا پیپ ہے:

( فَلَیْسَ لَهُ الْیَومَ هٰهُنٰا حَمِیم وَلاَ طَعَام اِلاَّمِنْ غِسْلِینِ ) (الحاقہ٣٥-٣٦)

''نہ تو آج ان کا کوئی مونس و غمخوارہے۔ اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ہے۔''

''غسلین'' جہنمیوں کے پینے کی ایک چیز ہے اور یہ وہ میل والا گندا پانی ہے جو لباس یا برتن دھونے کے بعد باقی رہتا ہے۔ یہ پینے کی چیز اتنی بدبودار اور کثیف ہے کہ اس کو دھوئی ہوئی چیزوں کے کثیف اور گنداپانی کا نام دیا ہے۔ حقیقت میں ''غسلین'' وہ کثافت و گندگی ہے جو انسان کے بڑے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور یہ اس قدر بدبو دار اور جلانے والی ہے کہ اگر اس کا ایک بالٹی دنیا کے مشرق میں ڈال دیا جائے تو مغرب میں رہنے والوں کی کھوپڑیاں ابل پڑیں گی۔

انسان کی کھوپڑی کے ابلنے کا ہمارا تصور اسی صورت میں ہے کہ جب شعلہ ور اور دہکتی آگ کو انسان کے سامنے روشن کیاجائے تو اس کا سرابل کر پاش پاش ہو جائے گا، لیکن اگر وہ آگ چاہے جس قدر بھی شعلہ ور اور جلانے والی ہو' تو دس میٹر یا اس سے زیادہ کے فاصلہ سے کارآمد نہیں ہے لیکن قیامت میں ' جہنمیوں پر ایسی پیاس کا غلبہ ہوگا کہ وہ ایسا ابلتا ہوا اور گرم پانی پینے پر مجبور ہوں گے اگر اس کا ایک بالٹی دنیا کے مشرق میں ڈال دیں' تو مغرب میں رہنے والوں کی کھوپڑیاں منتشر ہو جائیں گی!

جہنم کی آگ اور اس کا عذاب' قبر و قیامت نیز دنیا کی آگ اور عذاب سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ دنیا کی آگ سرد اور افسردہ ہے اور صرف سطح کو جلاتی ہے اور جہنم کی آگ کے مقابلہ میں اس کو برداشت کرنا آسان ہے' لیکن جہنم کی آگ خالص حتی باشعور ہے اس لحاظ سے دنیا کی کوئی آگ روح کو نہیں جلاتی ہے لیکن جہنم کی آگ جسم کے علاوہ روح و قلب کو بھی جلاتی ہے اور انہیں پگھلادیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہنم کی آگ اور اس کا عذاب دنیا میں انسان کے برے اعمال کا نتیجہ اور اس کا ردعمل ہے۔

جہنم کے جوش و خروش کے مقابلے میں انسانوں اور فرشتوں کا ردعمل

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہنم کے خوف و شدت اور گرجنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

''ولو زفرت جهنم زفرةً لم یبق ملک مقرب ولا نبی مرسل الا خدّ جاثیاً علی رکبتیه' یقول: رب نفسی نفسی' حتی ینسی ابراهیم اسحٰق' یقول: یا رب انا خلیلک ابراهیم فلا تنسی''

''اور اگر جہنم گر جنے لگے تو کوئی فرشتہ مقرب اور پیغمبر مرسل باقی نہیں رہے گا جو گھٹنے کے بل گر کر یہ نہ کہے کہ پروردگارا: مجھے نجات دے! حتیٰ ابراہیم اپنے بیٹے اسحاق کو بھول کر کہیں گے پروردگارا: میں تیرا خلیل ابراہیم ہوں' مجھے فراموش نہ کر''

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( فَاَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِلَهُمْ فِیهَا زَفِیر وَشَهِیق ) (ہود١٠٦)

''پس جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں رہیں گے جہاں ان کے لئے ہائے وائے اور چیخ و پکار ہوگی۔''

علامہ طباطبائی اس آیہ ٔ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

''کشاف میں ''زفیر'' سانس کو باہر نکالنا اور ''شہیق'' سانس کو اندر کھیچنابتایا گیاہے۔خدائے متعال کی مراد یہ ہے کہ جہنمی نفس کو سینہ کے اندر کھینچتے ہیں اور پھر اسے باہر نکالتے ہیں اور جہنم کی آگ کی حرارت کی شدت اور عذاب کی وسعت کی وجہ سے روتے ہوئے آہ و نالہ اور چیخ و پکار کی صورت میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔''(۳)

مذکورہ تفسیر کی بنا پرجس طرح انسان کے لئے نفس کی آمد و رفت ہے اسی طرح جہنم کے لئے بھی نفس کی آمد و شد ہے۔ جہنم زفیر یعنی پھونک کے ساتھ شعلہ ور آگ اور حرارت کو باہر نکالتا ہے جو تمام جہنمیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور ''شہیق'' یعنی سانس کو اندر کھینچتے ہوئے اہل جہنم کو نگل جاتا ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اگر جہنم ''زفیر'' یعنی گرج کی صورت اختیار کرلے تو تمام انسان' حتیٰ بڑے بڑے انبیا اور مقرب ملائکہ بھی خوف و وحشت سے دوچار ہو کر زمین پر گرجائیں گے اور ہر ایک ہر چیز کو بھول کر صرف اپنی نجات کی فکر میں ہوں گے۔ نہ ان میں حرکت کرنے کی طاقت ہوگی اور نہ ہی آرام کرنے کی فرصت۔

اسی لئے وہ ذلت و بے چارگی کے عالم میں گھٹنے زمین پرٹیک کر ہاتھوں کو خدا کی بے انتہا رحمت کی طرف بلند کئے ہوں گے اور اس سے نجات کی درخواست کریں گے۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند دلبند' اسحاق کو بھول کر یہ عرض کریں گے: خدا وندا! میں تیرا خلیل ہوں' مجھے فراموش نہ کر اور اس مرگبار عظیم حادثہ سے مجھے نجات دے۔ یہ قیامت کے دن عذاب الہٰی کا ایک نمونہ ہے اگر یہ دنیا میں رونما ہو جائے تو تمام مخلوقات پر بھیانک خوف و وحشت طاری ہو جائے۔

جہنم اور جہنم کے دردناک عذاب کے بارے میں مزید اور بیشتر آگاہی کیلئے مناسب ہے یہاں پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ایک مفصل حدیث بیان کریں۔

''بینا رسول ﷲ صلی ﷲ علیه وآله وسلم ذات یوم قاعداً اذ اتاه جبرئیل علیه السلام و هوکئیب حزین متغیر اللون فقال رسول ﷲ صلی ﷲ علیه وآله وسلم یا جبرئیل' مالی اراک کئیبا حزینا!؟ فقال یا محمد ؛ فکیف لا اکون کذٰلک وانما وضعت منافخ جهنم الیوم فقال رسول ﷲ صلی ﷲ علیه وآله وسلم وما منافیخ جهنم یا جبرئیل؟ فقال:

ان ﷲ تعالیٰ امر بالنار فاوقد علیها الف عام حتی احمرّت' ثم امربها فاوقد علیها الف عام حتی ابیضّت ثمً امربها فاوقد علیها الف عام حتی اسودّت وهی سوداء مظلمة فلو ان حلقةً من السلسلة التی طولها سبعون ذراعا وضعت علی الدنیا لذابت الدنیا من حرها ولوان قطرة من الزقوم و الضریع(۴) قطرت فی شراب اهل الدنیا مات اهل الدنیا من نَتْنِهَا

لفظ زقوم'' قرآن مجید کی تین آیتوں میں ذکر ہوا ہے اور ایک درخت کے معنی میں ہے کہ جہنم کے عمقمیں اگتا ہے۔اس کا میوہ شیطانوں کے سر کے مانند ہے(اس درخت کے میوہ کی شیطان کے سر سے تشبیہ اس لئے دی ہے کہ لوگوں کے تصورمیں شیاطین کی شکل و صورت انتہائی بد ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کے تصور میں فرشتہ بہترین اور خوبصورت ترین اندام کے مالک ہوتے ہیں' اس لحاظ سے اس کا میوہ انتہائی بدبودار اور نفرت انگیز ہوتا ہے۔

''ضریع'' جہنمیوں کی ایک غذا ہے کہ نہ اس کے کھانے سے وہ سیر ہوتے ہیں اور نہ اس کا کھانا دبلے پتلے کو چاق کرتا ہے۔

ابن عباس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے: ''ضریع'' ایک چیز ہے جو جہنم کی آگ میں ہوتی ہے اور کانٹے کے مانند ہے اور ''صبر'' سے زیادہ تلخ اور مردار سے زیادہ بدبودار اور آگ سے تیز جلانے والی ہے۔

(قریشی' سید علی اکبر' قاموس قرآن' ج ٤-٣ مادہ رأس' زقوم ضریع)

قال: فبکی رسول ﷲ صلی ﷲ علیه وآله وسلم وبکی جبرئیل فبعث ﷲ الیهمٰا ملکا' فقال: ان ربکما یقراکمٰا السلام ویقول: انی امنتکمٰا من انتذنبا ذنباً اعذبکمٰا علیه'' (۵)

ہم ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ بیٹھے تھے' جبرئیل ان کی خدمت میں تشریف لائے وہ افسردہ و غمگین تھے' ان کا رنگ متغیر تھا' پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جبرئیل! میں کیوں تمھیں افسردہ و غمگین دیکھ رہا ہوں؟ جبرئیل نے عرض کی: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں کیوںنہ ایسی کیفیت ہو اس لئے کہ آج ہی جہنم کو دم ( بھڑکایا) کیا گیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جہنم کو دم کرنا کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے عرض کی: بیشک خدائے متعال نے آگ کو حکم دیا' پھر ایک ہزار سال تکبھڑکتی رہی یہاں تک کہ وہ سرخ ہو گئی' اس کے بعد پھر حکم دیا اور پھر ایک ہزار سال تک شعلہ ور رہی یہاں تک کہ سفید ہوگئی۔ اس کے بعد پھر اسے حکم دیا آگ مزید ایک ہزار سال تک شعلہ فشاں رہی یہاں تک سیاہ ہوگئی اور یہ آگ سیاہ اور تاریک ہے۔ پس اگر جہنم کی آگ کی زنجیر کی ایک کڑی جو ستر ذراع بلند ہے دنیا میں ڈال دی جائے' تو دنیا اس کی گرمی سے پگھل کر پانی ہو جائے گی اور اگر ''زقوم'' اور ''ضریع'' کا ایک قطرہ دنیا کے پانی میں گرا دیا جائے' تو اس کی بدبو سے تمام لوگ مر جائیں گے۔

اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ و زاری کی اور جبرئیل نے بھی گریہ کیا۔

خدائے متعال نے ان دونوں کی طرف ایک فرشتہ کو روانہ کیا اس فرشتہ نے آکر عرض کیا: خداوند متعال نے تم دونوں کے لئے سلام بھیجا ہے اور فرماتاہے: میں نے تم دونوں کو اس سے محفوظ رکھا ہے اگر گناہ کروگے اس کی وجہ سے عذاب کروں۔

بہشت مومنین اور صالحین کی ابدی قیام گاہ:

بیشک بہشت اور اس کی نعمتیں بزرگ ترین مخلوقات خدا میں سے ہیں' اور ایسے لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں جنہوں نے خدا کی بندگی و اطاعت کی راہ کو طے کیا ہے اور ایمان و عمل صالح کے ذریعہ بلند ترین مراحل انسانی پر فائز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں خلاصہ یہ کہ ملکوت الٰہی تک پہنچنے کی لیاقت سے برخور دار ہیں ۔

( وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُو الصّٰالِحَاتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهَارُ... وَلَهُمْ فِیهَا اَزْوَاج مُطَّهَرَة وَهُمْ فِیهٰا خَالِدُونَ ) (بقرہ٢٥)

''پیغمبر آپ ایمان اور رعمل صالح والوں کو بشارت دے دیں کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں... اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں بھی ہیں اور انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے۔''

ایک دوسری آیت میں خدائے متعال فرماتا ہے:

( وَعَدَ ﷲ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَان مِنَ ﷲ اَکْبَرُ ذٰلِکَ هُوَ الْفَوزُالْعَظِیمُ'' ) (توبہ٧٢)

''اللہ نے مومن مرد اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ان جنات عدن میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ہے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے۔''

حقیقت یہ ہے کہ انسان عمل صالح اور نیک اعمال سے بہشت و الوں کی نعمتوں کو اپنے لئے فراہم کرتا ہے۔ اس بنا پر جس قدر پروردگار کی بندگی و اطاعت کی کوشش کرے اور ریاضت و ہواء نفس سے مبارزہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اللہ کی نعمتوں کو حاصل کرے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم آیات و روایات میں واضح طور پر ملاحظہ کرتے ہیں، امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''لما اسری بی الی السماء دخلت الجنه فرایت فیها ملائکة یبنون لبنة من ذهب ولبنةً من فضة و ربما امسکوا فقلت لهم: مالکم ربما بنیتم وربما امسکتم قالوا: قول المؤمن فی الدنیا سبحان ﷲ والحمد ﷲ ولا اله الاﷲ وﷲ اکبر' فاذا قال بنینا واذا امسک امسکنا'' (۶)

جب مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی اورمیں بہشت میں داخل ہوا۔ میں نے وہاں پر دیکھا کہ ملائکہ محل بنانے میں مشغول ہیں اور سونے اور چاندی کی اینٹیں ایک دوسرے پر رکھنے میں مصروف ہیں اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کام سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کیوں ایسا ہوتا ہے کہ تم کبھی کام میں مشغول رہتے ہو اور کبھی کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اسباب و وسائل ساز و سامان کے منتظر رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا: تمہارا سامان کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ذکر''سبحان اللّٰه'' و ''الحمد للّٰه'' ''لا اله الا اللّٰه'' و ''اللّٰه اکبر'' جو مومن کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ جب وہ ان اذکار کا زبان سے ورد کرتا ہے ہم کام میں مشغول ہوجاتے ہیں اور جب اذکار کہنا چھوڑدیتا ہے تو ہم کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہشت کی توصیف میں فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَرٍّ؛ لَو اَنَّ اِمْرََةً مِنْ نِسَائِ اَهْلِ الْجَنَّةِ اَطْلَعَتْ مِنْ سَمٰائِ الدُّنیٰا فِی لَیْلَةٍ ظَلْمٰائٍ لَاَ ضٰائَتْ لَهَا الَارْضُ اَفْضَلَ مِمَّا یُضیئُهٰا الْقَمَرُ لَیْلَةَ الْبَدْرِ وَلَوَجَدَ رِیحَ نَشْرِهَا جَمیعُ اَهْلَ الْاَرْضِ وَلَوْ اَنَّ ثَوْباً مِنْ ثِیَابِ اَهْلَ الْجَنَّةِ نُشِرَ الْیَوم فِی الدُّنْیَا لَصَعِقَ مَنْ یَنْظُرُ اِلَیهِ وَمَا حَمَلَتْهُ اَبْصٰارُهُمْ''

اے اباذر: اگر بہشتی عورتوں میں سے ایک عورت بھی گھٹا ٹوپ تاریک رات میں اس دنیا کے آسمان پر ظاہر ہوجائے' تو چودھویں کے چاند سے زیادہ زمین کو منور کردے گی اور اس کے زلف کے پریشان ہونے سے جو عطر پھیلے گا اس کی خوشبو تمام اہل زمین تک پہنچے گی ہے اور اگر اہل بہشت میں سے ایک شخص کا لباس آج دنیا میں پھیلادیا جائے' جو بھی اس کی طرف دیکھے گا' وہ بیہوش ہو جائے گا اور لوگوں کی آنکھوں میں اسے دیکھنے کی تاب نہیں ہوگی۔

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیانات سے استفادہ ہوتا ہے کہ قیامت اور بہشت میں انسان کی طاقت اور اس کی آنکھوں کی بصارت اس دنیا کی طاقت اور آنکھوں کی توانائی سے بہت زیادہ قوی ہے۔ انسان اس دنیا میں اس قدر ضعیف ہے اس کی قوت ادراک اور برداشت کی طاقت اتنی کم ہے کہ اگر بہشت کے لباسوں میں سے ایک لباس دنیا میں ظاہر ہو جائے' تو کوئی آنکھ اسے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی اور اس کے دیکھنے سے سب بے ہوش ہو جائیں گے۔ جبکہ بہشتیوں کے لئے اس لباس کو پہننا اور اسے دیکھنا ایک عادی امر ہے،حقیقت میں بہشت میں توانائیاں من جملہ دیکھنے اور درک کرنے کی توانائی بہت زیادہ ہوگی، بعض مخلوقات جیسے انسان جو دنیا میں عقل و شعور رکھتے ہیں' آخرت میں انکے عقل و شعورفہم و فراست کی طاقت اتنی زیادہ ہوگی کہ شائد یہاں کی بہ نسبت لاکھوں گنا سے بھی زیادہہو، وہاں پر ہر ایک چیز زندہ ہے اور در حقیقت زندگی وہیں پر ہے اور اس کی وجہ سے ہر ایک چیز علمی اور شعوری وجود رکھتی ہے اور بات کرتی ہے' اس لحاظ سے حتی درخت اور کنکریاں بھی گفتگو کرتے ہیں:

( وَمَا هٰذِه الْحَیَوٰاة الدُّنْیٰا اِلاَّ لَهَو وَلَعِب وَ اِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَٰانُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) ۔'' (عنکبوت٦٤)

''اور یہ زندگانی دنیا کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں۔''

فطری بات ہے جب ہر چیز میں زندگی ہو اور حتی گھاس اور کنکریاں بھی گفتگو کرتی ہوں' تو یقیناً وہ انسان جو پہلے ہی سے زندگی و شعور کا مالک تھا اس کے بھی تمام اعضا گفتگو کریںگے۔ اس لحاظ سے جہنم میں انسان کے کان آنکھ اس کے اعضا و جوارح جب اس کے جرم و گناہ کی شہادت دیں گے' تو وہ کہیں گے: تم نے کیسے ہمارے اعمال پر شہادت دی؟ وہ اعضاء جواب میں کہیں گے:

( اَنْطَقَنَا ﷲ الَّذِی اَنْطَقَ کُلَّ شَیئٍ ) (فصلت٢١)

ہمیں اس خدا نے گویا بنایا ہے جس نے ہر شیٔ کو قوت گویائی عطا کی ہے۔

جو کچھ اس حدیث کے اس حصہ میں جہنم کے عذابوں اور بہشت کی نعمتوں کے بارے میں بیان ہوا' دنیا کے پیمانوں سے قابل پیمائش نہیں ہیں۔ کس طرح بنام'' غسلیں'' ایک سیال مادہ اس قدر بدبودار' خطرناک اور جلانے والا ہو کہ اگر مشرق میں زمین پر ڈالدیا جائے تو مغرب میں رہنے والوں کا مغز ابلنے لگے گا اور جل جائے گا! البتہ اس لئے ہم خیال نہ کریں۔ ایسی چیز ہونے والی نہیں ہے اور تصور سے دور ہے' خدائے متعال نے بعض عناصر جیسے ''یورانیم'' میں پوشیدہ اور فشردہ انررجی (توانائیاں) جیسے' اٹم کی انرجی ( Atomic Energy ) رکھی ہے کہ اگر اس عنصر سے تھوڑی سی مقدار میں انرجی آزاد ہو جائے تو اس کا دھماکہ اس قدر بھیانک خطرناک اور تباہ کن ہوگا کہ پورے ایک شہر کو ویران اور تہ و بالا کر کے رکھ دے گا! پھر یہ قدرت و انرجی اس دنیا میں موجودہ عناصر میں ہے۔ اب ذرا اس عالم کے بارے میں سوچئے جہاں پر عناصر کی انرجی اور اس کی طاقت دنیا کی انرجی اور طاقت کے لاکھوں برابر ہے یقیناً اس کے آثار بھی اتنی ہی برابر زیادہ ہوں گی جو ہمارے لئے قابل فہم و درک نہیں ہیں۔

جو کچھ بیان ہوا' وہ اس لئے تھا کہ ہم اپنی حیثیت و منزلت کو سمجھ لیں۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ ہم اس محدود دنیا (جس میں درک و شعور بھی محدود ہے)میں پیدا کئے گئے ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس کی لذتیں محدود ہیں' ہمارا درک و شعور بھی اس میں محدود ہے۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ جو کچھ اس دنیا میں ہے وہ آخرت کا ایک مقدمہ ہے اور آخرت کی خوشیوں سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ جن بلاؤں اور مصیبتوں سے ہم دنیا میں روبرو ہوتے ہیں وہ اخروی عذابوں کے مقابلہ میں ناچیز ہیں۔

یقینا دنیا کے عذابوں کا آخرت کے عذابوں سے موازنہ اور دنیا کی نعمتوں اور خوشیوں کا آخرت کی خوشیوں اور نعمتوں سے موازنہ اور ان کے درمیان زیادہ فاصلہ اور تفاوت کا بیان اس بات کا سبب ہے کہ ہر شخص اپنی ظرفیت اور ذہنی توانائی کے مطابق عالم آخرت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو حقیر اور اپنی دنیا کے ناچیز ہونے کے بارے میں سوچے اور اندازہ لگائے اور نظام آفرینش میں اپنی حقارت کا اپنے پروردگارکی عظمت و کبریائی سے موازنہ کر کے درک کرے۔ اس موازنہ اور ناپ تول کا ایک اور نتیجہ خدا کے مقابلے میں تکبر اور خود بینی سے پرہیز اور انکساری و فروتنی کو اپنا شیوہ قرار دینا ہے۔ انسافن اگر دنیا میں کسی نعمت سے بہرہ مند ہے تو اسے اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے اور اگر کسی نعمت سے محروم ہے تو اس پر افسوس نہ کرے کیونکہ دنیا کی تمام نعمتیں بہشت کے ایک سیب کے برابر قدر و منزلت نہیں رکھتی ہیں۔ اس بنا پر یہ عالم دل کو وابستہ کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں انبیاء اور اولیاء خدا کی راہنمائی کی برکت سے قیامت اور پروردگار کی عظمت کا اندازہ لگانا چاہئے اور اپنی حیثیت کو جانتے ہوئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ غرور' تکبر' خود بینی اور خود پسندی سے آلودہ نہ ہو ں۔

٭٭٭٭٭

____________________

١۔نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خ ٢٢٧. ص ٧٣٦۔

٢۔ بحار الانوارطبع ایران ج٦٠ص٨٣و٨٥

۳۔ المیزان ج١١ص٢١

۴۔ ''زقوم'' ایک گھاس کا نام ہے' اس کے پتے چھوٹے اور ان کا مزہ کڑوا ہے اور انتہائی بدبو دارہے۔ انسان کے بدن پر اس گھاس کے رس کو ملنے سے ورم ہوتا ہے۔ یہ گھاس بیابان کے اطراف میں اگتی ہے اور اس کانام جہنم کے ''زقوم'' سے لیا گیا ہے۔ (بحارالانوار' ج ١٧' ص ١٤٦)''

۵۔ امام خمینی' چہل حدیث(مؤسسۂ تنظیم و نشر آثار امام خمینی' ١٣٧٣ طبع چہارم) ص ٢٣

۶۔ بحار الانوار ج٨،ص١٢٣

ساتواں سبق

مومن کی بیداری اور ہوشیاری

* پرہیز گاروں اور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور مومن و کافر کی نظر میں گنا ہ کا فرق

*لائق اورشائستہ دوست کا انتخاب اور گناہ کو بڑا تصور کرنا

*لاپروا علما اور بیوقوف جاہلوں کا خطرہ

*گناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اسے سنگینتصور کرنا ، خدا کے لطف و

عنایات کا نتیجہ ہے

*گناہ کو حقیر سمجھتے کے بجائے اس کی عظمت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت

کہ جس کی نافرمانی کی جا رہی ہے

مومن کی بیداری اور ہوشیاری

'' یَا َبَاذَرٍ!اَلْمُتَّقُونَ سَادَة وَ الْفُقَهَائُ قَادة وَ مُجَالَسَتَهُمْ زِیَادَة اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ تَحْتَ صَخْرَةٍ یَخَافُ اَنْ تَقَعَ عَلَیْهِ وَ اِنَّ الْکَافِرَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ ذُبَاب مَرَّ عَلٰی اَنْفِهِ.

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲتَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اِذَا اَرَادَ بِعَبْدٍ خَیْراً جَعَلَ الذُّنُوبَ بَیْنَ عَیْنَیهِ مُمَثَّلَة وَ الْاِثْمَ عَلَیْهِ ثَقِیلاً وَبِیلاً، وَ اِذاَ اَرَادَ بِعَبْدٍ شَرّاً اَنْسَاهُ ذُنوبَهُ

یَا اَبَاذَر ! لَاتنْظُرْ اِلٰی صِغَرِ الْخَطِیْئَةِ وَ لٰکِنْ انْظُر اِلٰی مَنْ عَصَیْتَ یَا اَبَاذَر ! اِنَّ نَفْسَ الْمُوْمِنُ اَشَّدُ ارْتِکَاضاً مِنَ الخطِیَٔةِ مِنَ الْعُصْفُور،حِیْنَ یُقْذَفُ بِهِ فِی شَرَکِهِ''

پرہیز گاروںاور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور

مومن وکافر کی نظر میں گناہ کا فرق :

'' یَا َبَاذَر ! اَلْمُتَّقُونَ سَادَة وَ الْفُقَهَائُ قَادة وَ مُجَالَسَتَهُمْ زِیَادَة اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ تَحْتَ صَخْرَةٍ یَخَافُ َنْ تَقَعَ عَلَیْهِ وَ اِنَّ الْکَافِرَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ ذُبَاب مَرَّ عَلٰی اَنْفِهِ.

اے ابوذر!جو پرہیزگار ، بزرگوار ، فقیہ ، پیشوا اور قائد ہیں ، ان کی مصاحبت ،علم وفضیلت میں اضافہ کا سبب ہے مؤمن ، گناہ کو ایک بڑے پتھر کے مانند دیکھتا ہے جس کا اسے ڈر رہتا ہے کہ اس کے سر پر نہ گرے اور کافر اپنے گناہ کو اس مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی ﷲعلیہ و آلہ وسلم نے اپنی گزشتہ نصیحتوں میں انسان کو اس کی نازک حالت ، زندگی کی اہمیت اور اس کی عمر کے قیمتی لمحات سے آگاہ فرمایا اور اسے اس بات سے متنبہ کیا کہ سستی کاہلی اور لا پروائی سے اجتناب کرکے ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی کے مسائل پر غور کرے ۔ تاکید کی گئی ہے کہ انسان فرصت کو غنیمت جانے اور آ ج کے کام کو کل پر نہ چھوڑے ۔ اب بحث یہ ہے کہ عمر سے بہتر استفادہ کرنے کا راستہ اور '' سیر الی اللہ '' میں آگے بڑھنے کا پہلا قدم کیا ہے ؟

بے شک عمر کی قدر جاننے کے سلسلے میں ا ور '' سیر الی اللہ '' میں پہلا قدم گنا ہ سے اجتناب ہے کیونکہ گناہوں کا مرتکب انسان کسی مقام تک نہیں پہنچتا ہے اور انسان کی عمر کی قدرو منزلت اسی صورت میں ہے کہ وہ گناہ میں آلودہ نہ ہوجا۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ''مکارم الاخلاق '' میں ارشاد فرماتے ہیں :

اَلّٰلهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَمِّرنی مَاکَانَ عُمْرِیْ بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ فَاِذَا کَان عُمْرِی مَرْتعاً لِّشَیْطَانِ فاقبِضْنِی اِلَیْکَ قَبْلَ اَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ اِلیَّ اَ و یَسْتحکِمَ غَضَبُکَ عِلَیَّ (۱)

پروردگارا ! محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آل محمدعلیہم السلام پر درود بھیج.. میری عمر کو تب تک طولانی فرما جب تک میں تیری بندگی میں مصروف رہوں پس جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے ، تو مجھ پر ناراض ہوکر غضب کرنے سے پہلے میری روح کو قبض کرلے''

اس لحاظ سے گناہ چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو تباہی کا سبب ہے ، اگرچہبعض انسان اس کے ساتھ بہت سی عبادتیں بھی انجام دیتے ہیں جو اپنی عبادتوں کے ساتھ گناہ بھی انجام دیتے ہیں ، ان کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ جس کے پاس ایک سوراخ والا تھیلا ہے ،جتنابھی اس میں ایک طرف سے پیسے اور جواہرات ڈالتے ہیں دوسرے طرف سے گرجاتے ہیں ، یا اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ ایک انبار کو جمع کرنے کے بعد اس میں آگ لگادیتا ہے کیونکہ گناہوںکی مثال اس آگ کی مانند ہے جو ہمارے اعمال کے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

لہٰذا پہلے مرحلے پر ہمیں گناہوں کو پہچاننا چاہیئے اور پھر اس سے آلودہ ہونے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے اور اگر ہم کسی گناہ کے مرتکب ہوجائیں تو فوراً ہمیں توبہ کرنی چاہیئے اور خدا کی مدد اور اولیائے الٰہی کے توسل سے اس صدد میں رہیں کہ کبھی گناہ کے مرتکب نہ ہوں ۔

لائق اور شائستہ دوست کا انتخاب اور گناہ کو بڑا تصور کرنا:

پیغمبر اسلام صلی ﷲعلیہ و آولہ وسلم کی نظر میں انسان ، کمال اور عروج کی راہ میں قدم بڑھاتے وقت دوچیزوں کا سخت محتاج ہوتا ہے : ان میں سے ایک لائق دوست اور دوسری چیز گناہ کو بڑا جان کر اس سے اجتناب کرنا ۔ شاید ان دو چیزوں کا ایک ساتھ بیان کرنا ، اس معنی میں ہے کہ اچھے دوست کا انتخاب گناہ کو بڑا جاننے اور سر انجام گناہ سے اجتناب کرنے کا ایک مقدمہ ہے اور برے دوست کا انتخاب گناہوں سے بیشتر آلودہ ہونے کا ایک مقدمہ ہے ،کیونکہ اچھا دوست بہت سی نیکیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوسکتا ہے ،اور برا دوست بہت سی گمراہیوں اور برائیوں کا عامل ہوتا ہے ۔

اچھا دوست اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان کی آنکھوں کے سامنے گناہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ اگر وہ مرتکب گناہ ہوتو مسلسل خد اکی ذات کے سامنے شرمندہ ہوکر اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے اس کے برعکس برا دوست اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان کی نظر میں گناہ کو معمولی دکھلائے اور اسے چھوٹا شمار کرے تا کہ کسی بھی گنا ہ کے مقابلے میں شرمندگی کا احساس نہہو ۔

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دوست کے انتخاب کیلئے دو معیار بیان فرماتے ہیں :

١۔ صاحب تقویٰ ہونا ۔

٢۔ حلال و حرام الٰہی سے واقفیت ، دوسرے الفاظ میں دین کی شناخت ۔

بے تقوی دوست سے مصاحبت اور اس کے بے تقوائی کا مشاہدہ کرنا ، انسان کی نظر میں گناہ کو کم اہمیت بنا دیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ ابدی نقصان سے دوچار ہوتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید بعض جہنمیوں کی زبانی نقل کرتے ہوئے فرماتاہے :

( یَا وَیْلَتَی لَیْتَنِی لَمْ اَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیلاً ، لَقَدْ اَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَاء َنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْاِنْسَانِ خَذُولاً ) (فرقان ٢٨۔٢٩)

ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے ۔

جس طرح بے تقویٰ انسان لائق دوستی نہیں ہے ، جاہل اور نادان انسان سے بھی دوستی نہیں کرنی چاہیئے وہ اگر نیک کام بھی انجام دینا چاہے تو جہالت کے سبب خطا اور انحراف سے دوچار ہوتا ہے ، پس ، چونکہ آگاہی اور تقویٰ حق کی راہ میں رشد اور ارتقا کیلئے دو پرکے مانند ہیں ، اس لئے یہ دوست کے انتخاب کیلئے بھی دو قیمتی معیار شمار ہوتے ہیں اس لحاظ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کیلئے اپنی سفارش میں تقویٰ اور فقاہت کو دوست کے انتخاب کیلئے دو معیار قرار دیتے ہیں ، البتہ یہ دونوں خصوصیتیں انسان میں اکٹھا ہونی چاہیے ، کیونکہ اگر فرائض کی انجام دہی کیلئے تلاش کرنے والا انسان ،د ین شناس نہ ہو تو کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو لوگوں کے دھوکہ میں آسکتا ہے ۔

لاپروا علما اور نادان جاہلوں کا خطرہ :

ایک معروف روایت میں پیغمبر اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

''قَصَمَ ظَهْرِی رَجُلانِ: عَالِم مُتَهَتِّک وَ جَاهِل مُتَنَسِّک ''

دو گروہوں نے میری کمر توڑ دی ہے ، لا پروا عالم اور نادان و جاہل عابد نے(۲) ۔

امام خمینیفرماتے تھے نام نہاد مقدس افراد اپنے عبادی فرائض پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے اصلی فریضہ کہ علم حاصل کرنا اور صحیح معرفت حاصل کرنا ہے کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اسی طرح اپنے منحرف اصول اور جہالت کے راستہ پر گامزن ہیں، اسی پر تعصب کے ساتھ اصرار کرتے ہیں اسلام کیلئے اس گروہ کا نقصان فاسقوں سے زیادہ ہے اس گروہ کے افراد نہ خو دکہیں پہنچتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''مَنْ عَمِلَ عَلٰی غَیْرِ عِلْمٍ یُفْسِدُ اَکْثَرُ مِمَّا یُصْلِح ''(۳)

جو علم و معرفت کے بغیر عمل کرتا ہے وہ اصلاح انجام دینے کے بجائے تباہی مچاتا ہے ۔

اسی طرح لاپروا عالم جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا ہے لوگ اسکے دھوکہ میں آتے ہیں وہ علم کی وجہ سے اس کا احترام کرتے ہیں اور وہ اپنے بے تقوی ہونے کی وجہ سے اسلام پر ایسی کاری ضرب لگاتا ہے کہ جاہل ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہے، اس لحاظ سے جہاں بھی '' تقویٰ'' کی تعریف و ستائش کی گئی ہے اس سے وہ تقویٰ مراد ہے جو علم کے ساتھ ہو ، ورنہ اگر یہ دو ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں نہ صرف فائدہ مند نہیں ہوںگے بلکہ نقصان دہ بھی ہیں، اس کے مقابلے میں اگر کہیں فقاہت اور علم کی تعریف ہوئی ہے تو اس سے وہ فقاہت و علم مرادہے جو عمل کے ہمراہ ہو جو دین شناس علم رکھتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا، وہ راہزن کے مانند ہے۔

خداوند عالم حضرت داؤدعلیہ السلام سے خطاب فرماتا ہے :

'' لَا تجْعَلْ بَیْنِی وَ بَیْنَک عَالِماً مَفْتُوناً بالدُّنیَا فَیَصُدُّکَ عَنْ طَرِیقٍ مَحَبَّتِی ، فَاِنَّ اُولٰئِکَ قُطَّاعُ طَرِیقِ عِبَادِی الْمُرِیدینَ ، اِنَّ اَدْنیٰ ماَ انا صَانِع بِهِمْ اَنْ اَنْزَعَ حَلَاوَةَ مُنَاجَاتِی عَن قُلُوبِهِمْ '' (۴)

'' اے داؤد ، میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو واسطہ قرار نہ دینا جو دنیا پر فریفتہ ہوچکا ہووہ تجھے میری محبت کی راہ سے ہٹا دے گا بے شک ایسے لوگ خدا کی تلاش میں نکلنے والوں پر ڈاکا ڈالنے والے ہیں ایسے لوگوں کیلئے میری سب سے کم سزا یہ ہے کہ ان کے دل سے میں اپنے مناجات کی شیرینی چھین لیتا ہوں ''

بے عمل اور دنیا پرست عالم ایک ایسا چور ہے ، جو دن دہاڑے کاروان پر ڈاکا ڈالتا ہے وہ چونکہ علم رکھتا ہے اس لئے بہتر جانتا کہ لوگوں کو کیسے دھوکہ دے ایسا عالم، دین کے کام کا نہیں ہے لہذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ ان کے فریب میں نہ آئیں اس لئے تقوی اور فقاہت ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی صورت میں مؤثر ہیں اور اسی صورت میں سماج اور فرد کیلئے سعادت کا سبب بن سکتے ہیں، ان لوگوں کے ساتھ مصاحبت جائز ہے جنھوں نے تقویٰ ، عبادت ، بندگی اور اطاعت کے ذریعہ حکم خدا کو اپنے اندرمحکم کیا ہے اور دوسری طرف سے دین کی شناخت رکھتے ہیں اور معارف دینی کے ماہر ہیں اس قسم کے علما کے ساتھ مصاحبت سے انسان کی فضیلت اور عروج کو تقویت ملتی ہے ۔

اگرچہ اصطلاح میں '' فقیہ ' ان علما کو کہا جاتا ہے جو احکام شرعی کے استنباط کی صلاحیت اور فروع کو اصول کی جانب پلٹانے کی لیاقت رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید اور روایات کی اصطلاح میں '' فقیہ '' دین کی پہچان رکھنے والے کو کہتے ہیں خواہ وہ فرعی مسائل کی معرفت رکھتا ہو یا اعتقادی اور اخلاقی مسائل کی بلکہ اعتقاد ی اور اخلاقی مسائل کے عالم سے مصاحبت بہتر ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

'' اب جب کہ تم نے عزم سفر کیا ہے اور لائق دوست کو اپنے لئے انتخاب کیا ہے ، ہوشیار رہو کہ گناہ میں مبتلا نہ ہو ، اگر گناہ سے آلودہ ہوئے تو تمھارا یہ سفر بے نتیجہ ہوگا اور تمھاری جستجو اور عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا''

انسان بلا سبب گناہ کے پیچھے نہیں جاتا ہے اس میں شک نہیں ہے کہ گناہ میں ایک قسم کی لذت شیرینی اور کشش ہوتی ہے کہ انسان اس سے آلودہ ہوتا ہے اگر چہ یہ لذتیں اور کشش تصوراتی اور خیالی ہیں اور شیطانی وسوسے سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے لیکن بہر حال انسان گناہ میں ایک جاذبہ اور شیرینی دیکھتا ہے جس کے پیچھے وہ دوڑتا ہے ۔ اصلی بات یہ ہے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیئے تا کہ اسے یہ توفیق حاصل ہوجائے کہ گناہ سے اجتناب کرسکے اور اس کا مقابلہ کرسکے ۔

گناہ سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان گناہ کے خطرہ اور اس کے بڑے ہونے کا تصور کرے اس ناپائدار لذت کے نقصانات اور خطرات اور دنیوی و اخروی زندگی پرگناہ کے پڑنے والے مسلسل برے اثرات کو پہچانے ۔

مؤمن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہ کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتا ہے اور یہی نظریہ اس کیلئے گناہ سے بچنے کا سبب ہے مؤمن کیلئے گناہ اس پتھر کے مانند ہے جو اس کے سر پر گرنے والا ہوتا ہے اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اس کے انجام سے خوف زدہ ہوتا ہے ،اس کا نظریہ اس کی فکر پر اتنا اثر ڈالتا ہے کہ ہمیشہ اس کے ضمیر کو گنا ہ کے خلاف تحریک کرتا ہے اور جب بھی کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے فوراً معذرت چاہتے ہوئے توبہ کرتا ہے اسکی حالت بالکل اس انسان کے مانند ہوتی ہے جس کے سرپر ایک بڑا پتھر آویزاں ہو اور ہمیشہ اس کے گرنے سے خائف رہتا ہے یعنی اس انسان کی روح اس قدر پاک و پاکیزہ ہے کہ ہر گناہ کے بارے میں رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہمیشہ اپنے نفس کی ملامت کرتا رہتا ہے حتی اس پر سکون اورنیند حرام ہوجاتی ہے ۔

اس کے برعکس کافر اور وہ انسان جس نے اپنی فطرت کو معصیت کے زنگار سے آلودہ کیا ہو ، گناہ انجام دیتے ہوئے کسی قسم کی اظہار ناراضگی اور تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے اور اسکی نظر میں گناہ اس مکھی کے مانند ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ( کافر سے مراد صرف وہ شخص نہیں ہے جو خداو ومعاد کا منکر ہو بلکہ جو ضروریات دین میں سے کسی ایک کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے )

آیات و روایات کے علاوہ یہ موضوع ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ برے عمل کی تکرار اس کی قباحت کو زائل کرتی ہے اور نتیجہ کے طور پر ، عملی صورت میں یہ برا کام لذت بخش لگتا ہے اور انسان اس کو انجام دینے میں شرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے ،گناہ کی بھی یہی حالت ہے اگر گناہ مسلسل اور مکرر انجام پاتا رہا ، اس کی قباحت زائل ہوجاتی ہے اس کی قباحت زائل ہونے کے نتیجہ میں انسان اس کے مرتکب ہونے میں شرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے ۔

یہاں پر ایک معیار کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ اگر انسان یہ جاننا چاہے کہ وہ ایمان کی سرحد کے نزدیک ہے یا کفر کی سرحد کے نزدیک ہے تو اسے دیکھنا چاہیئے کہ گناہ کے مقابلے میں اس کا رد عمل کیسا ہے اگر وہ دیکھ لے کہ گناہ اس کیلئے اہم نہیں ہے اور اس کی طرف اعتنا نہیں کرتا ہے تو اسے جانناچاہیئے کہ کفر کی راہ پر گامزن ہے کیوںکہ گناہ سے پشیمانی، روح ایمان کی دلیل ہے اور اس سے بے اعتنائی روح کفر کی دلیل ہے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر غضب یا کوئی شہوت انسان پر غالب آئے اور وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے فوراً پشیمان ہوتا ہے اور اپنے کئے ہوئے پر خوف و وحشت کااحساس کرتا ہے اگر ہم میں ایسی حالت نہیں ہے تو ہمیں اپنے انجام سے ڈرنا چاہیئے کہ ہم خطرناک راستے پر گامزن ہیں ۔

گناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اسے سنگین

سمجھنا ، خدا کے لطف و عنایات کا نتیجہ ہے

''یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲتَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اِذَا اَرَادَ بِعَبْدٍ خَیْراً جَعَلَ الذُّنُوبَ بَیْنَ عَیْنَیهِ مُمثَّلَة وَ الْاِثْمَ عَلَیْهِ ثَقِیلاً ، وَ اِذاَ اَرَادَ بِعَبْدٍ شَرّاً اَنْسَاهُ ذُنوبَهُ''

اے ابوذر ! اگر خدائے تبارک و تعالی کسی بندے کی خیر چاہتا ہے تو اس کے اعمال کو اس کے سامنے مجسم کرتا ہے اور گناہ کو اس پر سنگین اور دشوار بنادیتا ہے اگر کسی بندہ کی بدی و بدبختی چاہتا ہے تو اس کے گناہوں کو اس کے ذہن سے فراموش کردیتا ہے ''

خداوند عالم اپنے تمام بندوں کے ساتھ مہربانی اور محبت کرتا ہے اگر کسی کی محبت نہ کرتا تو اسے خلق نہیں کرتا لیکن خدا وند اپنے اولیا کے بارے میں خصوصی محبت و مہربانی کرتا ہے اگر یہ لوگ غفلت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوجائیں ان کی تنبیہ اور بیداری کیلئے گناہ کو ان کی نظروں کے سامنے مجسم کرتا ہے کیونکہ آلودگی میں پھنسنے اور گناہوں میں غرق ہونے کا پہلا مرحلہ گنا ہ اور اس کے انجام کو فراموش کرنا ہے اس کے پیش نظر کہ خداوند عالم اپنے بعض بندوں کی نسبت عنایت کی نظر رکھتا ہے اس لئے انہیں اپنے حال پر نہیں چھوڑتا ہے اس کے برخلاف بعض افراد خدا کی اس عنایت سے بے بہرہ ہیں اور خدا نے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا ہے ہر ایک انسان اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا وہ خدا کے لطف و عنایت کا مستحق قرار پایا ہے کہ نہیں ، اگر اس نے اپنے پچھلے گناہوں کو فراموش نہیں کیا ہے اور گنا ہ اس کیلئے سنگین و سخت ہے تو اسیجاننا چاہیئے کہ و ہ خدائے تعالی کے لطف و عنایت کا مستحققرار پایا ہے لیکن اگر اپنے گناہوں کو فراموش کر دیا ہے اور انہیں ہلکا سمجھتا ہے تو جاننا چاہیئے کہ خدا کی مہربانی و عنایت اس کے ساتھ نہیں ہے ۔

واضح ہے کہ گناہوں کو یاد رکھنا اس وقت فائدہ مند ہے جب یہ گناہ کو جاری رکھنے میں رکاوٹ بنے ورنہ اگر کوئی اپنے گناہوںکا تصور کرتے ہوئے انہیں اپنے کندھوں پر سنگین بوجھ نہ سمجھے تو اسے گناہ کے مرتکب ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں :

''وَ اَنَا الَّذِی اَمْهَلْتَنِی فَمَا اَرْعَوَیْتُ و سترت عَلَیَّ فَمَا اَسْتَحْیَیْتُ وَ عَمِلْتُ بِالْمَعَاصِی فَتَعَدَّیْتُ و َ اَسْقَطتنِی مِنْ عَیْنِکَ فَمَا بٰالَیْتُ ....''

''میں وہ ہوں کہ جسے تو نے گناہ کو ترک کرنے اور توبہ کرنے کی مہلت د ی لیکن میں نے گناہ سے اجتناب نہیں کیا تو نے میرے گناہوں کی پردہ پوشی کی ، میں نے شرم و حیا نہ کرتے ہوئے پھر سے گناہ انجام دئے اور حدسے گزر گیا یہاں تک تو نے مجھے نظر انداز کیا ''

پس ، اگراللہ تعالیٰ کسی کی نیکی چاہتا ہے تو ہر وقت اس کے گناہوں کو اس کے سامنے مجسم کرتا ہے یہاں تک وہ اپنے گناہوں کو اپنے اوپر ایک سنگین بوجھ محسوس کرے، اس کے بر عکس اگر اللہ تعالی کسی پر عنایت نہیں کرتا ہے اور اس کی بدی کو جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑدیتا ہے اور اسکے بعد اس کیلئے گناہ ہلکے ہوجاتے ہیں اور وہ انہیں اہمیت نہیں دیتا ہے ۔

البتہ شروع میں اللہ تعالی کسی کو اپنی عنایت سے محروم نہیں کرتا ہے اور اس کی بدی نہیں چاہتا ہے لیکن جب انسان برے کام انجام دینے لگتا ہے اور ان پر اصرار کرتا ہے تو اس وقت خدا وند عالم اسے اس قسم کے انجام سے دوچار کرتا ہے

وہ انسان خدا کے نزدیک عزیز ہوتا ہے جو اس کی بندگی اور اس کے تقرب کوحاصل کرناچاہتا ہے اور خد اکے نزدیک وہ انسان پست و منفور ہے جو خداوند عالم سے دور ہوچکا ہے اور اسے فراموش کردیا ہے تو خداوند عالم بھی اسے اس کے حال پر چھوڑتا ہے :

( وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُواﷲ فَاَنْسٰهُم اَنْفُسَهُمْ ) (حشر ١٩)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا ، جنہوں نے خدا کو بھلادیا ہے تو خدا نے بھی خود ان کو بھی بھلادیا ''

گناہ کو حقیر سمجھنے کے بجائے اس کی عظمت کی طرف توجہ

کرنے کی ضرورت کہ جس کی نافرمانی کی جارہی ہے

'' یَا اَبَاذَر ! لَاتنْظُرُ اِلٰی صِغْرِ الْخَطِیْئَةِ وَ لٰکِنْ انْظُر اِلٰی مَنْ عَصَیْتَ''

اے ابوذر !گناہ کے چھوٹے ہونے پر نگاہ نہ کرو بلکہ نافرمانی کی جانے والے کی عظمت پر توجہ کرو۔

گناہوں کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے :

١۔ چھوٹے ا ور بڑے ہونے کے زاویہ سے گناہ کودیکھنا ۔

٢۔ فاعل اور گناہ کو انجام دینے والے کے رخ سے دیکھنا ۔

٣۔ نافرمانی ہونے والے کے لحاظ سے گناہ کی طرف نگاہ کرنا ۔

کتاب و سنت میں گناہوں کو دو حصوں ''کبیرہ و صغیرہ '' میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ الگ حکم اور عذاب مخصوص ہیں قرآن مجید فرماتا ہے ؛

جب بعض لوگوں کے ہاتھ میں ا ن کے اعمال نامے دیئے جائیں گے وہ کہیں گے :

( . یَا وَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَ لَا کَبِیرَةً اِلَّا اَحْصٰهَا ) (کہف ٤٩)

ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹابڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کیا ہے ۔

شاید ان دو قسموں میں بنیادی فرق یہ ہو کہ گناہان کبیرہ کے بارے میں عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے اور گناہان صغیرہ کے بارے میں عذاب کا وعدہ نہیں دیا گیا ہے اسی طرح چھوٹے گناہوں کے بارے میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے اس کے بر عکس بڑے گناہوں میں ایک خاص تعداد کے بارے میں ا یک مشخص حد بیان کی گئی ہے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص کسی ایسیگناہ کو انجام دے جو اس کی نظر میں گناہ صغیرہ اور قابل بخشش ہے لیکن اس امر سے وہ غفلت کرتا ہے کہگناہ صغیرہ کی تکرار اور اسے چھوٹا سمجھنا ہی بذات خود گناہ کبیرہ ہے اور اس کا پیہم اصرار انسا ن کو گناہ کرنے میں گستاخ بنادیتا ہے د وسرے یہ کہ : وہ بھول جاتا ہے کسی کے حق میں گستاخی کی ہے اور کسی کی نہی کی نافرمانی کی گئی ہے ۔

روایت کا یہ حصہ دوسرے مطلب کو مد نظر رکھتا ہے کہ صرف گناہ کے چھوٹے ہونے کو ملحوظ نہ رکھو بلکہ اس حقیقت کی طرف توجہ کرو کہ کسی کی بارگاہ میں اور کسی کی نافرمانی کے مرتکب ہور ہے ہو کبھی کوئی امر ، بذات خود چھوٹا ہو لیکن اس لحاظ سے بڑا ہے کہ ایک بڑی شخصیت سے مربوط ہے ۔

فرض کیجئے آپ امام معصوم کے حضور میں ہیں اور امام معصوم آپ کو ایک حکم دے اگر چہ وہ حکم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو مثلا ً حکم دے کہ آپ ان کے لئے پانی کا ایک گلاس لائیں لیکن آپ تصور کیجئے کہ یہ امر بہت چھوٹا ہے اور اس وجہ سے اس کی نافرمانی کریں ۔ کیا اس نافرمانی کو اچھا کہا جائے گا ؟ کیا یہ تصور عاقلانہ ہے ؟ کیا ادب کا تقاضا یہی ہے ؟ کیا اس امر کو چھوٹا سمجھنا صحیح ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے کیونکہ اس امر کے چھوٹے ہونے کے باوجود امر کرنے والا بہت بڑا ہے ،اور چھوٹا حکم ،حکم کرنے والے کے لحاظ سے بڑا ہوجاتا ہے، اب اسی حال کو اللہ تعالی کے بارے میں تصور کیجئے جبکہ خدا کی نافرمانی امام معصوم کی نافرمانی سے قابل موازنہ نہیں ہے لہذا نافرمانی کی قباحت کا امر و نہی کرنے والے کی عظمت سے موازنہ کرنا چاہیئے

گناہ کے بارے میں اس قسم کا تصور ، انسان کیلئے شیطان کی مخالفت کرنے میں قوی محرک بن سکتا ہے اور نفس امارہ کے ہر بہانہ کو سلب کرسکتا ہے ممکن ہے ایک وقت کسی سے اس کا ایک دوست درخواست کرے اور وہ اسے قبول نہ کرتے ہوئے کہے کہ تجھے میرے لئے حکم دینے کا حق نہیں ہے لیکن کبھی باپ ، ماں یا استاد انسان کوحکم دیتے ہیں ان کی مخالفت اور نافرمانی انتہائی بری بات ہے اسی طرح بعض اوقات کوئی حکم ایک مرجع تقلید کی طرف سے ، کبھی امام معصوم اور کبھی خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس صورت میں امر و نہی کرنے والے کا مقام جتنا بلند اور عظیم ہو اس کے فرمان کی نافرمانی بر تری اور اور اس کی سزا شدید تر ہوتی ہے ۔

جب شیطان وسوسہ ڈالتا ہے : نامحرم پر ایک نظر ڈالناکوئی خاص مسئلہ نہیں ہے ، حرام موسیقی پر ایک منٹ کیلئے کان لگانا کوئی چیز نہیں ہے ایسے موقع پر اس امر کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو ! یہاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوذر سے فرماتے ہیں : گناہ کے چھوٹے ہونے پر نگاہ نہ کرو، بلکہ یہ دیکھو کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو ۔

'' یَا اَبَاذَر ! اِنَّ نَفْسَ الْمُؤمِنُ اَشَّدُ ارْتِکَاضاً مِنَ الخطِیَٔةِ مِنَ الْعُصْفُورِ ،حِیْنَ یُقْذَفُ بِهِ فِی شَرَکِهِ''

اے ابوذر! ایک با ایمان انسان کی اپنے گناہ کے بارے میں بے چینی اور اضطراب اس چڑیا کی بے چینی اور خوف سے زیادہ ہے جو پھندے میں پھنس جاتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہاں پر گناہ کے بارے میں مومن کے رد عمل کے بارے میں ا یک اور واضح مثال بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک پرندے کو پھنسا نے کیلئے پھندے کو پھیلایا جائے اور یہ اڑنے والا پرندہ اس میں پھنس جائے تو یہ پرندہ شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انتہائی بیقراری اور اضطراب کی حالت میں اس پھندے سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کیلئے جستجو اور کوشش کرتا ہے اور کبھی اس کی یہی سخت جستجو اسکے موت کا سبب بنتی ہے اس کا یہ انجام اس کے پھندے میں پھنسنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی اورپریشانی کی وجہ سے ہوتا ہے گناہ کے مقابلے میں مومن کا رد عمل بھی ایساہی ہوتا ہے جب وہ احساس کرتا ہے کہ وہ شیطان کے جال میں پھنس گیا ہے تو اس کے تمام وجود پر بے چینی اور اضطراب کا عالم چھا جاتا ہے حتی اسکی یہ بے قراری اور بے چینی اس کے کھانے پینے اور نیند کو بھی حرام کردیتی ہے اور وہ شیطان کے اس پھندے سے آزاد ہونے کیلئے مسلسل جستجو و تلاش کرتا ہے ۔

ہم معصوم نہیں ہیں اور ہمیشہ سہو وخطا سے دوچار ہوسکتے ہیں یہ بھی توقع نہیں کہ ہم سے خطا سرزد نہ ہو ممکن ہے کبھی شیطان کے جال میں پھنس جائیں ( لیکن معصوم نہ ہونے کا معنی یہ نہیں ہے گناہ انجام دیا جانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے غیر معصوم انسان بھی گناہ نہ کرے اور ان کا معصوم سے یہی فرق ہے معصوم میں ایک ایسا ملکہ ہوتاہے جو اسے گناہ انجام دینے سے روکتا ہے عام انسان بھی عصمت کا ملکہ نہ رکھنے کے باوجود گناہ سے آلودہ نہیں ہوسکتا ( بہر صورت اگر ہم کسی گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں مسلسل فکر مندرہنا چاہیئے اور جستجو کرنی چاہئے کہ توبہ ، استغفار ، گریہ وزاری سے اس کے برے نتائج سے اپنے آپ کو نجات دلائیں )۔

____________________

١۔ مفاتیح الجنان ، طبع چہارم دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص ١١٠٦۔

۲۔بحار الانوار ،ج٢ص١١١،روایت ٢٥

۳۔بحار الانوار ،ج١ص٢٠٨

۴۔کافی ،ج١،ص٤٦

ساتواں سبق

مومن کی بیداری اور ہوشیاری

* پرہیز گاروں اور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور مومن و کافر کی نظر میں گنا ہ کا فرق

*لائق اورشائستہ دوست کا انتخاب اور گناہ کو بڑا تصور کرنا

*لاپروا علما اور بیوقوف جاہلوں کا خطرہ

*گناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اسے سنگینتصور کرنا ، خدا کے لطف و

عنایات کا نتیجہ ہے

*گناہ کو حقیر سمجھتے کے بجائے اس کی عظمت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت

کہ جس کی نافرمانی کی جا رہی ہے

مومن کی بیداری اور ہوشیاری

'' یَا َبَاذَرٍ!اَلْمُتَّقُونَ سَادَة وَ الْفُقَهَائُ قَادة وَ مُجَالَسَتَهُمْ زِیَادَة اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ تَحْتَ صَخْرَةٍ یَخَافُ اَنْ تَقَعَ عَلَیْهِ وَ اِنَّ الْکَافِرَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ ذُبَاب مَرَّ عَلٰی اَنْفِهِ.

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲتَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اِذَا اَرَادَ بِعَبْدٍ خَیْراً جَعَلَ الذُّنُوبَ بَیْنَ عَیْنَیهِ مُمَثَّلَة وَ الْاِثْمَ عَلَیْهِ ثَقِیلاً وَبِیلاً، وَ اِذاَ اَرَادَ بِعَبْدٍ شَرّاً اَنْسَاهُ ذُنوبَهُ

یَا اَبَاذَر ! لَاتنْظُرْ اِلٰی صِغَرِ الْخَطِیْئَةِ وَ لٰکِنْ انْظُر اِلٰی مَنْ عَصَیْتَ یَا اَبَاذَر ! اِنَّ نَفْسَ الْمُوْمِنُ اَشَّدُ ارْتِکَاضاً مِنَ الخطِیَٔةِ مِنَ الْعُصْفُور،حِیْنَ یُقْذَفُ بِهِ فِی شَرَکِهِ''

پرہیز گاروںاور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور

مومن وکافر کی نظر میں گناہ کا فرق :

'' یَا َبَاذَر ! اَلْمُتَّقُونَ سَادَة وَ الْفُقَهَائُ قَادة وَ مُجَالَسَتَهُمْ زِیَادَة اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ تَحْتَ صَخْرَةٍ یَخَافُ َنْ تَقَعَ عَلَیْهِ وَ اِنَّ الْکَافِرَ لَیَریٰ ذَنْبَهُ کَاَنَّهُ ذُبَاب مَرَّ عَلٰی اَنْفِهِ.

اے ابوذر!جو پرہیزگار ، بزرگوار ، فقیہ ، پیشوا اور قائد ہیں ، ان کی مصاحبت ،علم وفضیلت میں اضافہ کا سبب ہے مؤمن ، گناہ کو ایک بڑے پتھر کے مانند دیکھتا ہے جس کا اسے ڈر رہتا ہے کہ اس کے سر پر نہ گرے اور کافر اپنے گناہ کو اس مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی ﷲعلیہ و آلہ وسلم نے اپنی گزشتہ نصیحتوں میں انسان کو اس کی نازک حالت ، زندگی کی اہمیت اور اس کی عمر کے قیمتی لمحات سے آگاہ فرمایا اور اسے اس بات سے متنبہ کیا کہ سستی کاہلی اور لا پروائی سے اجتناب کرکے ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی کے مسائل پر غور کرے ۔ تاکید کی گئی ہے کہ انسان فرصت کو غنیمت جانے اور آ ج کے کام کو کل پر نہ چھوڑے ۔ اب بحث یہ ہے کہ عمر سے بہتر استفادہ کرنے کا راستہ اور '' سیر الی اللہ '' میں آگے بڑھنے کا پہلا قدم کیا ہے ؟

بے شک عمر کی قدر جاننے کے سلسلے میں ا ور '' سیر الی اللہ '' میں پہلا قدم گنا ہ سے اجتناب ہے کیونکہ گناہوں کا مرتکب انسان کسی مقام تک نہیں پہنچتا ہے اور انسان کی عمر کی قدرو منزلت اسی صورت میں ہے کہ وہ گناہ میں آلودہ نہ ہوجا۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ''مکارم الاخلاق '' میں ارشاد فرماتے ہیں :

اَلّٰلهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَمِّرنی مَاکَانَ عُمْرِیْ بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ فَاِذَا کَان عُمْرِی مَرْتعاً لِّشَیْطَانِ فاقبِضْنِی اِلَیْکَ قَبْلَ اَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ اِلیَّ اَ و یَسْتحکِمَ غَضَبُکَ عِلَیَّ (۱)

پروردگارا ! محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آل محمدعلیہم السلام پر درود بھیج.. میری عمر کو تب تک طولانی فرما جب تک میں تیری بندگی میں مصروف رہوں پس جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے ، تو مجھ پر ناراض ہوکر غضب کرنے سے پہلے میری روح کو قبض کرلے''

اس لحاظ سے گناہ چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو تباہی کا سبب ہے ، اگرچہبعض انسان اس کے ساتھ بہت سی عبادتیں بھی انجام دیتے ہیں جو اپنی عبادتوں کے ساتھ گناہ بھی انجام دیتے ہیں ، ان کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ جس کے پاس ایک سوراخ والا تھیلا ہے ،جتنابھی اس میں ایک طرف سے پیسے اور جواہرات ڈالتے ہیں دوسرے طرف سے گرجاتے ہیں ، یا اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ ایک انبار کو جمع کرنے کے بعد اس میں آگ لگادیتا ہے کیونکہ گناہوںکی مثال اس آگ کی مانند ہے جو ہمارے اعمال کے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

لہٰذا پہلے مرحلے پر ہمیں گناہوں کو پہچاننا چاہیئے اور پھر اس سے آلودہ ہونے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے اور اگر ہم کسی گناہ کے مرتکب ہوجائیں تو فوراً ہمیں توبہ کرنی چاہیئے اور خدا کی مدد اور اولیائے الٰہی کے توسل سے اس صدد میں رہیں کہ کبھی گناہ کے مرتکب نہ ہوں ۔

لائق اور شائستہ دوست کا انتخاب اور گناہ کو بڑا تصور کرنا:

پیغمبر اسلام صلی ﷲعلیہ و آولہ وسلم کی نظر میں انسان ، کمال اور عروج کی راہ میں قدم بڑھاتے وقت دوچیزوں کا سخت محتاج ہوتا ہے : ان میں سے ایک لائق دوست اور دوسری چیز گناہ کو بڑا جان کر اس سے اجتناب کرنا ۔ شاید ان دو چیزوں کا ایک ساتھ بیان کرنا ، اس معنی میں ہے کہ اچھے دوست کا انتخاب گناہ کو بڑا جاننے اور سر انجام گناہ سے اجتناب کرنے کا ایک مقدمہ ہے اور برے دوست کا انتخاب گناہوں سے بیشتر آلودہ ہونے کا ایک مقدمہ ہے ،کیونکہ اچھا دوست بہت سی نیکیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوسکتا ہے ،اور برا دوست بہت سی گمراہیوں اور برائیوں کا عامل ہوتا ہے ۔

اچھا دوست اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان کی آنکھوں کے سامنے گناہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ اگر وہ مرتکب گناہ ہوتو مسلسل خد اکی ذات کے سامنے شرمندہ ہوکر اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے اس کے برعکس برا دوست اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان کی نظر میں گناہ کو معمولی دکھلائے اور اسے چھوٹا شمار کرے تا کہ کسی بھی گنا ہ کے مقابلے میں شرمندگی کا احساس نہہو ۔

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دوست کے انتخاب کیلئے دو معیار بیان فرماتے ہیں :

١۔ صاحب تقویٰ ہونا ۔

٢۔ حلال و حرام الٰہی سے واقفیت ، دوسرے الفاظ میں دین کی شناخت ۔

بے تقوی دوست سے مصاحبت اور اس کے بے تقوائی کا مشاہدہ کرنا ، انسان کی نظر میں گناہ کو کم اہمیت بنا دیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ ابدی نقصان سے دوچار ہوتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید بعض جہنمیوں کی زبانی نقل کرتے ہوئے فرماتاہے :

( یَا وَیْلَتَی لَیْتَنِی لَمْ اَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیلاً ، لَقَدْ اَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَاء َنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْاِنْسَانِ خَذُولاً ) (فرقان ٢٨۔٢٩)

ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے ۔

جس طرح بے تقویٰ انسان لائق دوستی نہیں ہے ، جاہل اور نادان انسان سے بھی دوستی نہیں کرنی چاہیئے وہ اگر نیک کام بھی انجام دینا چاہے تو جہالت کے سبب خطا اور انحراف سے دوچار ہوتا ہے ، پس ، چونکہ آگاہی اور تقویٰ حق کی راہ میں رشد اور ارتقا کیلئے دو پرکے مانند ہیں ، اس لئے یہ دوست کے انتخاب کیلئے بھی دو قیمتی معیار شمار ہوتے ہیں اس لحاظ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کیلئے اپنی سفارش میں تقویٰ اور فقاہت کو دوست کے انتخاب کیلئے دو معیار قرار دیتے ہیں ، البتہ یہ دونوں خصوصیتیں انسان میں اکٹھا ہونی چاہیے ، کیونکہ اگر فرائض کی انجام دہی کیلئے تلاش کرنے والا انسان ،د ین شناس نہ ہو تو کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو لوگوں کے دھوکہ میں آسکتا ہے ۔

لاپروا علما اور نادان جاہلوں کا خطرہ :

ایک معروف روایت میں پیغمبر اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

''قَصَمَ ظَهْرِی رَجُلانِ: عَالِم مُتَهَتِّک وَ جَاهِل مُتَنَسِّک ''

دو گروہوں نے میری کمر توڑ دی ہے ، لا پروا عالم اور نادان و جاہل عابد نے(۲) ۔

امام خمینیفرماتے تھے نام نہاد مقدس افراد اپنے عبادی فرائض پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے اصلی فریضہ کہ علم حاصل کرنا اور صحیح معرفت حاصل کرنا ہے کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اسی طرح اپنے منحرف اصول اور جہالت کے راستہ پر گامزن ہیں، اسی پر تعصب کے ساتھ اصرار کرتے ہیں اسلام کیلئے اس گروہ کا نقصان فاسقوں سے زیادہ ہے اس گروہ کے افراد نہ خو دکہیں پہنچتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''مَنْ عَمِلَ عَلٰی غَیْرِ عِلْمٍ یُفْسِدُ اَکْثَرُ مِمَّا یُصْلِح ''(۳)

جو علم و معرفت کے بغیر عمل کرتا ہے وہ اصلاح انجام دینے کے بجائے تباہی مچاتا ہے ۔

اسی طرح لاپروا عالم جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا ہے لوگ اسکے دھوکہ میں آتے ہیں وہ علم کی وجہ سے اس کا احترام کرتے ہیں اور وہ اپنے بے تقوی ہونے کی وجہ سے اسلام پر ایسی کاری ضرب لگاتا ہے کہ جاہل ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہے، اس لحاظ سے جہاں بھی '' تقویٰ'' کی تعریف و ستائش کی گئی ہے اس سے وہ تقویٰ مراد ہے جو علم کے ساتھ ہو ، ورنہ اگر یہ دو ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں نہ صرف فائدہ مند نہیں ہوںگے بلکہ نقصان دہ بھی ہیں، اس کے مقابلے میں اگر کہیں فقاہت اور علم کی تعریف ہوئی ہے تو اس سے وہ فقاہت و علم مرادہے جو عمل کے ہمراہ ہو جو دین شناس علم رکھتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا، وہ راہزن کے مانند ہے۔

خداوند عالم حضرت داؤدعلیہ السلام سے خطاب فرماتا ہے :

'' لَا تجْعَلْ بَیْنِی وَ بَیْنَک عَالِماً مَفْتُوناً بالدُّنیَا فَیَصُدُّکَ عَنْ طَرِیقٍ مَحَبَّتِی ، فَاِنَّ اُولٰئِکَ قُطَّاعُ طَرِیقِ عِبَادِی الْمُرِیدینَ ، اِنَّ اَدْنیٰ ماَ انا صَانِع بِهِمْ اَنْ اَنْزَعَ حَلَاوَةَ مُنَاجَاتِی عَن قُلُوبِهِمْ '' (۴)

'' اے داؤد ، میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو واسطہ قرار نہ دینا جو دنیا پر فریفتہ ہوچکا ہووہ تجھے میری محبت کی راہ سے ہٹا دے گا بے شک ایسے لوگ خدا کی تلاش میں نکلنے والوں پر ڈاکا ڈالنے والے ہیں ایسے لوگوں کیلئے میری سب سے کم سزا یہ ہے کہ ان کے دل سے میں اپنے مناجات کی شیرینی چھین لیتا ہوں ''

بے عمل اور دنیا پرست عالم ایک ایسا چور ہے ، جو دن دہاڑے کاروان پر ڈاکا ڈالتا ہے وہ چونکہ علم رکھتا ہے اس لئے بہتر جانتا کہ لوگوں کو کیسے دھوکہ دے ایسا عالم، دین کے کام کا نہیں ہے لہذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ ان کے فریب میں نہ آئیں اس لئے تقوی اور فقاہت ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی صورت میں مؤثر ہیں اور اسی صورت میں سماج اور فرد کیلئے سعادت کا سبب بن سکتے ہیں، ان لوگوں کے ساتھ مصاحبت جائز ہے جنھوں نے تقویٰ ، عبادت ، بندگی اور اطاعت کے ذریعہ حکم خدا کو اپنے اندرمحکم کیا ہے اور دوسری طرف سے دین کی شناخت رکھتے ہیں اور معارف دینی کے ماہر ہیں اس قسم کے علما کے ساتھ مصاحبت سے انسان کی فضیلت اور عروج کو تقویت ملتی ہے ۔

اگرچہ اصطلاح میں '' فقیہ ' ان علما کو کہا جاتا ہے جو احکام شرعی کے استنباط کی صلاحیت اور فروع کو اصول کی جانب پلٹانے کی لیاقت رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید اور روایات کی اصطلاح میں '' فقیہ '' دین کی پہچان رکھنے والے کو کہتے ہیں خواہ وہ فرعی مسائل کی معرفت رکھتا ہو یا اعتقادی اور اخلاقی مسائل کی بلکہ اعتقاد ی اور اخلاقی مسائل کے عالم سے مصاحبت بہتر ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

'' اب جب کہ تم نے عزم سفر کیا ہے اور لائق دوست کو اپنے لئے انتخاب کیا ہے ، ہوشیار رہو کہ گناہ میں مبتلا نہ ہو ، اگر گناہ سے آلودہ ہوئے تو تمھارا یہ سفر بے نتیجہ ہوگا اور تمھاری جستجو اور عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا''

انسان بلا سبب گناہ کے پیچھے نہیں جاتا ہے اس میں شک نہیں ہے کہ گناہ میں ایک قسم کی لذت شیرینی اور کشش ہوتی ہے کہ انسان اس سے آلودہ ہوتا ہے اگر چہ یہ لذتیں اور کشش تصوراتی اور خیالی ہیں اور شیطانی وسوسے سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے لیکن بہر حال انسان گناہ میں ایک جاذبہ اور شیرینی دیکھتا ہے جس کے پیچھے وہ دوڑتا ہے ۔ اصلی بات یہ ہے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیئے تا کہ اسے یہ توفیق حاصل ہوجائے کہ گناہ سے اجتناب کرسکے اور اس کا مقابلہ کرسکے ۔

گناہ سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان گناہ کے خطرہ اور اس کے بڑے ہونے کا تصور کرے اس ناپائدار لذت کے نقصانات اور خطرات اور دنیوی و اخروی زندگی پرگناہ کے پڑنے والے مسلسل برے اثرات کو پہچانے ۔

مؤمن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہ کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتا ہے اور یہی نظریہ اس کیلئے گناہ سے بچنے کا سبب ہے مؤمن کیلئے گناہ اس پتھر کے مانند ہے جو اس کے سر پر گرنے والا ہوتا ہے اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اس کے انجام سے خوف زدہ ہوتا ہے ،اس کا نظریہ اس کی فکر پر اتنا اثر ڈالتا ہے کہ ہمیشہ اس کے ضمیر کو گنا ہ کے خلاف تحریک کرتا ہے اور جب بھی کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے فوراً معذرت چاہتے ہوئے توبہ کرتا ہے اسکی حالت بالکل اس انسان کے مانند ہوتی ہے جس کے سرپر ایک بڑا پتھر آویزاں ہو اور ہمیشہ اس کے گرنے سے خائف رہتا ہے یعنی اس انسان کی روح اس قدر پاک و پاکیزہ ہے کہ ہر گناہ کے بارے میں رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہمیشہ اپنے نفس کی ملامت کرتا رہتا ہے حتی اس پر سکون اورنیند حرام ہوجاتی ہے ۔

اس کے برعکس کافر اور وہ انسان جس نے اپنی فطرت کو معصیت کے زنگار سے آلودہ کیا ہو ، گناہ انجام دیتے ہوئے کسی قسم کی اظہار ناراضگی اور تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے اور اسکی نظر میں گناہ اس مکھی کے مانند ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ( کافر سے مراد صرف وہ شخص نہیں ہے جو خداو ومعاد کا منکر ہو بلکہ جو ضروریات دین میں سے کسی ایک کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے )

آیات و روایات کے علاوہ یہ موضوع ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ برے عمل کی تکرار اس کی قباحت کو زائل کرتی ہے اور نتیجہ کے طور پر ، عملی صورت میں یہ برا کام لذت بخش لگتا ہے اور انسان اس کو انجام دینے میں شرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے ،گناہ کی بھی یہی حالت ہے اگر گناہ مسلسل اور مکرر انجام پاتا رہا ، اس کی قباحت زائل ہوجاتی ہے اس کی قباحت زائل ہونے کے نتیجہ میں انسان اس کے مرتکب ہونے میں شرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے ۔

یہاں پر ایک معیار کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ اگر انسان یہ جاننا چاہے کہ وہ ایمان کی سرحد کے نزدیک ہے یا کفر کی سرحد کے نزدیک ہے تو اسے دیکھنا چاہیئے کہ گناہ کے مقابلے میں اس کا رد عمل کیسا ہے اگر وہ دیکھ لے کہ گناہ اس کیلئے اہم نہیں ہے اور اس کی طرف اعتنا نہیں کرتا ہے تو اسے جانناچاہیئے کہ کفر کی راہ پر گامزن ہے کیوںکہ گناہ سے پشیمانی، روح ایمان کی دلیل ہے اور اس سے بے اعتنائی روح کفر کی دلیل ہے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر غضب یا کوئی شہوت انسان پر غالب آئے اور وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے فوراً پشیمان ہوتا ہے اور اپنے کئے ہوئے پر خوف و وحشت کااحساس کرتا ہے اگر ہم میں ایسی حالت نہیں ہے تو ہمیں اپنے انجام سے ڈرنا چاہیئے کہ ہم خطرناک راستے پر گامزن ہیں ۔

گناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اسے سنگین

سمجھنا ، خدا کے لطف و عنایات کا نتیجہ ہے

''یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲتَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اِذَا اَرَادَ بِعَبْدٍ خَیْراً جَعَلَ الذُّنُوبَ بَیْنَ عَیْنَیهِ مُمثَّلَة وَ الْاِثْمَ عَلَیْهِ ثَقِیلاً ، وَ اِذاَ اَرَادَ بِعَبْدٍ شَرّاً اَنْسَاهُ ذُنوبَهُ''

اے ابوذر ! اگر خدائے تبارک و تعالی کسی بندے کی خیر چاہتا ہے تو اس کے اعمال کو اس کے سامنے مجسم کرتا ہے اور گناہ کو اس پر سنگین اور دشوار بنادیتا ہے اگر کسی بندہ کی بدی و بدبختی چاہتا ہے تو اس کے گناہوں کو اس کے ذہن سے فراموش کردیتا ہے ''

خداوند عالم اپنے تمام بندوں کے ساتھ مہربانی اور محبت کرتا ہے اگر کسی کی محبت نہ کرتا تو اسے خلق نہیں کرتا لیکن خدا وند اپنے اولیا کے بارے میں خصوصی محبت و مہربانی کرتا ہے اگر یہ لوگ غفلت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوجائیں ان کی تنبیہ اور بیداری کیلئے گناہ کو ان کی نظروں کے سامنے مجسم کرتا ہے کیونکہ آلودگی میں پھنسنے اور گناہوں میں غرق ہونے کا پہلا مرحلہ گنا ہ اور اس کے انجام کو فراموش کرنا ہے اس کے پیش نظر کہ خداوند عالم اپنے بعض بندوں کی نسبت عنایت کی نظر رکھتا ہے اس لئے انہیں اپنے حال پر نہیں چھوڑتا ہے اس کے برخلاف بعض افراد خدا کی اس عنایت سے بے بہرہ ہیں اور خدا نے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا ہے ہر ایک انسان اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا وہ خدا کے لطف و عنایت کا مستحق قرار پایا ہے کہ نہیں ، اگر اس نے اپنے پچھلے گناہوں کو فراموش نہیں کیا ہے اور گنا ہ اس کیلئے سنگین و سخت ہے تو اسیجاننا چاہیئے کہ و ہ خدائے تعالی کے لطف و عنایت کا مستحققرار پایا ہے لیکن اگر اپنے گناہوں کو فراموش کر دیا ہے اور انہیں ہلکا سمجھتا ہے تو جاننا چاہیئے کہ خدا کی مہربانی و عنایت اس کے ساتھ نہیں ہے ۔

واضح ہے کہ گناہوں کو یاد رکھنا اس وقت فائدہ مند ہے جب یہ گناہ کو جاری رکھنے میں رکاوٹ بنے ورنہ اگر کوئی اپنے گناہوںکا تصور کرتے ہوئے انہیں اپنے کندھوں پر سنگین بوجھ نہ سمجھے تو اسے گناہ کے مرتکب ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں :

''وَ اَنَا الَّذِی اَمْهَلْتَنِی فَمَا اَرْعَوَیْتُ و سترت عَلَیَّ فَمَا اَسْتَحْیَیْتُ وَ عَمِلْتُ بِالْمَعَاصِی فَتَعَدَّیْتُ و َ اَسْقَطتنِی مِنْ عَیْنِکَ فَمَا بٰالَیْتُ ....''

''میں وہ ہوں کہ جسے تو نے گناہ کو ترک کرنے اور توبہ کرنے کی مہلت د ی لیکن میں نے گناہ سے اجتناب نہیں کیا تو نے میرے گناہوں کی پردہ پوشی کی ، میں نے شرم و حیا نہ کرتے ہوئے پھر سے گناہ انجام دئے اور حدسے گزر گیا یہاں تک تو نے مجھے نظر انداز کیا ''

پس ، اگراللہ تعالیٰ کسی کی نیکی چاہتا ہے تو ہر وقت اس کے گناہوں کو اس کے سامنے مجسم کرتا ہے یہاں تک وہ اپنے گناہوں کو اپنے اوپر ایک سنگین بوجھ محسوس کرے، اس کے بر عکس اگر اللہ تعالی کسی پر عنایت نہیں کرتا ہے اور اس کی بدی کو جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑدیتا ہے اور اسکے بعد اس کیلئے گناہ ہلکے ہوجاتے ہیں اور وہ انہیں اہمیت نہیں دیتا ہے ۔

البتہ شروع میں اللہ تعالی کسی کو اپنی عنایت سے محروم نہیں کرتا ہے اور اس کی بدی نہیں چاہتا ہے لیکن جب انسان برے کام انجام دینے لگتا ہے اور ان پر اصرار کرتا ہے تو اس وقت خدا وند عالم اسے اس قسم کے انجام سے دوچار کرتا ہے

وہ انسان خدا کے نزدیک عزیز ہوتا ہے جو اس کی بندگی اور اس کے تقرب کوحاصل کرناچاہتا ہے اور خد اکے نزدیک وہ انسان پست و منفور ہے جو خداوند عالم سے دور ہوچکا ہے اور اسے فراموش کردیا ہے تو خداوند عالم بھی اسے اس کے حال پر چھوڑتا ہے :

( وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُواﷲ فَاَنْسٰهُم اَنْفُسَهُمْ ) (حشر ١٩)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا ، جنہوں نے خدا کو بھلادیا ہے تو خدا نے بھی خود ان کو بھی بھلادیا ''

گناہ کو حقیر سمجھنے کے بجائے اس کی عظمت کی طرف توجہ

کرنے کی ضرورت کہ جس کی نافرمانی کی جارہی ہے

'' یَا اَبَاذَر ! لَاتنْظُرُ اِلٰی صِغْرِ الْخَطِیْئَةِ وَ لٰکِنْ انْظُر اِلٰی مَنْ عَصَیْتَ''

اے ابوذر !گناہ کے چھوٹے ہونے پر نگاہ نہ کرو بلکہ نافرمانی کی جانے والے کی عظمت پر توجہ کرو۔

گناہوں کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے :

١۔ چھوٹے ا ور بڑے ہونے کے زاویہ سے گناہ کودیکھنا ۔

٢۔ فاعل اور گناہ کو انجام دینے والے کے رخ سے دیکھنا ۔

٣۔ نافرمانی ہونے والے کے لحاظ سے گناہ کی طرف نگاہ کرنا ۔

کتاب و سنت میں گناہوں کو دو حصوں ''کبیرہ و صغیرہ '' میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ الگ حکم اور عذاب مخصوص ہیں قرآن مجید فرماتا ہے ؛

جب بعض لوگوں کے ہاتھ میں ا ن کے اعمال نامے دیئے جائیں گے وہ کہیں گے :

( . یَا وَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَ لَا کَبِیرَةً اِلَّا اَحْصٰهَا ) (کہف ٤٩)

ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹابڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کیا ہے ۔

شاید ان دو قسموں میں بنیادی فرق یہ ہو کہ گناہان کبیرہ کے بارے میں عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے اور گناہان صغیرہ کے بارے میں عذاب کا وعدہ نہیں دیا گیا ہے اسی طرح چھوٹے گناہوں کے بارے میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے اس کے بر عکس بڑے گناہوں میں ایک خاص تعداد کے بارے میں ا یک مشخص حد بیان کی گئی ہے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص کسی ایسیگناہ کو انجام دے جو اس کی نظر میں گناہ صغیرہ اور قابل بخشش ہے لیکن اس امر سے وہ غفلت کرتا ہے کہگناہ صغیرہ کی تکرار اور اسے چھوٹا سمجھنا ہی بذات خود گناہ کبیرہ ہے اور اس کا پیہم اصرار انسا ن کو گناہ کرنے میں گستاخ بنادیتا ہے د وسرے یہ کہ : وہ بھول جاتا ہے کسی کے حق میں گستاخی کی ہے اور کسی کی نہی کی نافرمانی کی گئی ہے ۔

روایت کا یہ حصہ دوسرے مطلب کو مد نظر رکھتا ہے کہ صرف گناہ کے چھوٹے ہونے کو ملحوظ نہ رکھو بلکہ اس حقیقت کی طرف توجہ کرو کہ کسی کی بارگاہ میں اور کسی کی نافرمانی کے مرتکب ہور ہے ہو کبھی کوئی امر ، بذات خود چھوٹا ہو لیکن اس لحاظ سے بڑا ہے کہ ایک بڑی شخصیت سے مربوط ہے ۔

فرض کیجئے آپ امام معصوم کے حضور میں ہیں اور امام معصوم آپ کو ایک حکم دے اگر چہ وہ حکم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو مثلا ً حکم دے کہ آپ ان کے لئے پانی کا ایک گلاس لائیں لیکن آپ تصور کیجئے کہ یہ امر بہت چھوٹا ہے اور اس وجہ سے اس کی نافرمانی کریں ۔ کیا اس نافرمانی کو اچھا کہا جائے گا ؟ کیا یہ تصور عاقلانہ ہے ؟ کیا ادب کا تقاضا یہی ہے ؟ کیا اس امر کو چھوٹا سمجھنا صحیح ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے کیونکہ اس امر کے چھوٹے ہونے کے باوجود امر کرنے والا بہت بڑا ہے ،اور چھوٹا حکم ،حکم کرنے والے کے لحاظ سے بڑا ہوجاتا ہے، اب اسی حال کو اللہ تعالی کے بارے میں تصور کیجئے جبکہ خدا کی نافرمانی امام معصوم کی نافرمانی سے قابل موازنہ نہیں ہے لہذا نافرمانی کی قباحت کا امر و نہی کرنے والے کی عظمت سے موازنہ کرنا چاہیئے

گناہ کے بارے میں اس قسم کا تصور ، انسان کیلئے شیطان کی مخالفت کرنے میں قوی محرک بن سکتا ہے اور نفس امارہ کے ہر بہانہ کو سلب کرسکتا ہے ممکن ہے ایک وقت کسی سے اس کا ایک دوست درخواست کرے اور وہ اسے قبول نہ کرتے ہوئے کہے کہ تجھے میرے لئے حکم دینے کا حق نہیں ہے لیکن کبھی باپ ، ماں یا استاد انسان کوحکم دیتے ہیں ان کی مخالفت اور نافرمانی انتہائی بری بات ہے اسی طرح بعض اوقات کوئی حکم ایک مرجع تقلید کی طرف سے ، کبھی امام معصوم اور کبھی خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس صورت میں امر و نہی کرنے والے کا مقام جتنا بلند اور عظیم ہو اس کے فرمان کی نافرمانی بر تری اور اور اس کی سزا شدید تر ہوتی ہے ۔

جب شیطان وسوسہ ڈالتا ہے : نامحرم پر ایک نظر ڈالناکوئی خاص مسئلہ نہیں ہے ، حرام موسیقی پر ایک منٹ کیلئے کان لگانا کوئی چیز نہیں ہے ایسے موقع پر اس امر کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو ! یہاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوذر سے فرماتے ہیں : گناہ کے چھوٹے ہونے پر نگاہ نہ کرو، بلکہ یہ دیکھو کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو ۔

'' یَا اَبَاذَر ! اِنَّ نَفْسَ الْمُؤمِنُ اَشَّدُ ارْتِکَاضاً مِنَ الخطِیَٔةِ مِنَ الْعُصْفُورِ ،حِیْنَ یُقْذَفُ بِهِ فِی شَرَکِهِ''

اے ابوذر! ایک با ایمان انسان کی اپنے گناہ کے بارے میں بے چینی اور اضطراب اس چڑیا کی بے چینی اور خوف سے زیادہ ہے جو پھندے میں پھنس جاتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہاں پر گناہ کے بارے میں مومن کے رد عمل کے بارے میں ا یک اور واضح مثال بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک پرندے کو پھنسا نے کیلئے پھندے کو پھیلایا جائے اور یہ اڑنے والا پرندہ اس میں پھنس جائے تو یہ پرندہ شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انتہائی بیقراری اور اضطراب کی حالت میں اس پھندے سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کیلئے جستجو اور کوشش کرتا ہے اور کبھی اس کی یہی سخت جستجو اسکے موت کا سبب بنتی ہے اس کا یہ انجام اس کے پھندے میں پھنسنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی اورپریشانی کی وجہ سے ہوتا ہے گناہ کے مقابلے میں مومن کا رد عمل بھی ایساہی ہوتا ہے جب وہ احساس کرتا ہے کہ وہ شیطان کے جال میں پھنس گیا ہے تو اس کے تمام وجود پر بے چینی اور اضطراب کا عالم چھا جاتا ہے حتی اسکی یہ بے قراری اور بے چینی اس کے کھانے پینے اور نیند کو بھی حرام کردیتی ہے اور وہ شیطان کے اس پھندے سے آزاد ہونے کیلئے مسلسل جستجو و تلاش کرتا ہے ۔

ہم معصوم نہیں ہیں اور ہمیشہ سہو وخطا سے دوچار ہوسکتے ہیں یہ بھی توقع نہیں کہ ہم سے خطا سرزد نہ ہو ممکن ہے کبھی شیطان کے جال میں پھنس جائیں ( لیکن معصوم نہ ہونے کا معنی یہ نہیں ہے گناہ انجام دیا جانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے غیر معصوم انسان بھی گناہ نہ کرے اور ان کا معصوم سے یہی فرق ہے معصوم میں ایک ایسا ملکہ ہوتاہے جو اسے گناہ انجام دینے سے روکتا ہے عام انسان بھی عصمت کا ملکہ نہ رکھنے کے باوجود گناہ سے آلودہ نہیں ہوسکتا ( بہر صورت اگر ہم کسی گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں مسلسل فکر مندرہنا چاہیئے اور جستجو کرنی چاہئے کہ توبہ ، استغفار ، گریہ وزاری سے اس کے برے نتائج سے اپنے آپ کو نجات دلائیں )۔

____________________

١۔ مفاتیح الجنان ، طبع چہارم دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص ١١٠٦۔

۲۔بحار الانوار ،ج٢ص١١١،روایت ٢٥

۳۔بحار الانوار ،ج١ص٢٠٨

۴۔کافی ،ج١،ص٤٦


20

21

22