زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)9%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41925 / ڈاؤنلوڈ: 4611
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

انتیسواں درس:

انسان کی سب سے بڑی دولت بندگی و عبادت

* دنیا کا انسان کے لئے طفیلی ہونا

*انسانِ کامل کی شرافت و کرامت

* بہشت، مومنین اور محبان اہل بیت(ع) کی جگہ

*صاحبان بہشت:

الف: انبیاء اور پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقام

ب: صالحین کا مقام

ج: صدیقین کا مقام

* خد ا کے منتخب بندوں کے لئے عصمت کا ایک خاص درجہ

*ایمان میں صداقت کی اہمیت اور اس تک پہنچنے کا راستہ

انسان کی سب سے بڑی دولت بندگی و عبادت

''یا اباذر؛ ما من شاب یدع ﷲ الدنیا و لهوها و اهرم شبابه فی طاعة اﷲ الا اعطاه اﷲ اجر اثنین و سبعین صدیقا''

''اے ابوذر ؛ جو بھی جوان خدا ئے متعال کے لئے دنیا اور اس کے لہو و لعب کو چھوڑ کر اپنی جوانی کو خدا کی اطاعت میں بوڑھا کر لے ، اللہ تعالی بھی اسے بہتّر صدیقین کے اجر و ثواب عطا کرتا ہے''

دنیا کاانسان کے لئے طفیلی ہونا:

حدیث شریف کے اس حصہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، انسان کی کمال جوئی اور راہ تکامل اختیار کرنے والے کی عظمت، کی اہمیت بیان فرماتے ہیں۔کیونکہ بعض آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ کائنات اپنی پوری و سعتوں او ر عظمتوں کے ساتھ انسان کے کمال تک پہنچنے کیلئے خلق کی گئی ہے اور حقیقت میں اس دنیا کی تخلیق کا اصلی مقصد انسان ہے اور دوسرے تمام مخلوقات انسان کے طفیل میں خلق کی گئی ہیں ۔خدائے متعال فرماتاہے:

( هو الذی خلق السموات و الارض فی سته ایام و کان عرشه علی الماء لیبلوکم ایکم احسن عملا ) (ھود٧)

''اور و ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور اس کاتخت اقتدار پانی پر تھا تا کہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے''

آیۂ مبارکہ کا مضمون یہ ہے کہ خدا ئے متعال نے آسمانوں، زمینوں اور عالم طبیعت کو اس لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان کی خلقت کے اسباب فراہم ہو جائیں او رپھر انسان کو خلق کیا تا کہ اس کی آزمائش کرے۔آیۂ شریفہ کا مضمون حیرت انگیز ہے اور اس کا درک کرنا ہمارے طرز تفکر اور رفتار میں کافی اثر ڈالتا ہے یہ حقیقت ہے کہ خدائے متعال نے عالم وجود کو اس عظمت کے ساتھ اس لئے خلق کیا ہے کہ اس میں انسان کو پیداکرے تا کہ وہ اس کے امکانات سے استفادہ کرکے اپنے کمال تک پہنچے ، انسان کی قدر و منزلت او راس کی ذمہ داری کی گہرائی کی دلیل ہے۔

گزشتہ مطالب کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے وجودکی قدر و قیمت کو دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں در ک کرے اور جان لے کہ وہ کیڑے اور مینڈک جیسی مخلوقات کے مانند ایک سادہ مخلوق نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک عظیم اور قدرو منزلت والی مخلوق ہے کہ جس کی زندگی کی تسہیل کے لئے بہت سے سرمایہ کو وجود بخشا ،اور کائنات کو اسی آب وتاب کے ساتھ خلق کیا تا کہ ایک با شعور، با ارادہ او رصاحب اختیار مخلوق کی حیثیت سے اپنے وجودکی قدرو قیمت کو سمجھے لہٰذا پہلی فرصت میں ایک عاقل اور متفکر وجود ہونے کے ناطے ایک انسان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی اہمیت کو درک کرے، لیکن ان تمام اہمیتوںکے پیش نظر صرف اس نکتہ کا در ک کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم ھستی میں اپنی ذمہ داری اور وظیفہ کی عظمت کو بھی درک کرنا ضروری ہے اور جاننا چاہئے کہ وہ عبث ، بیہودہ، باطل اور بغیر مقصد خلق نہیں کیا گیا ہے۔

مخلوقات عالم میں انسان ایک ایسی خصوصیتوں کا حامل ہے کہ دوسری مخلوقات میں وہ خصوصیتنہیں پائی جاتی ہیں اور و ہ عقل کی نعمت سے آراستہ ہے۔ انسان کی دوسری تمام مخلوقات پر برتری او رفضیلت کے معنی یہ ہیں کہ عقل کے علاوہ دوسری خصوصیات و صفات میں بھی انسان دوسری مخلوقات پر برتری رکھتا ہے اور دیگر موجودات میں جو بھی کمال پایاجاتا ہے، وہ انسان میں بھی بدرجہ اعلی موجود ہے۔ یہ معنی انسان کا دیگر مخلوقات سے خوراک، لباس، رہائش اور ازدواج میں موازنہ کرنے سے بالکل واضح ہو جاتاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جو اپنے اجتماعی زندگی کے نظم و تدبیر میں تبدیلیوں اورموجودہ ترقی سے جس طرح استفادہ کرتا ہے، وہ کسی بھی دوسری مخلوق میں نظر نہیںآتا۔ اس کے علاوہ انسان اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے تمام مخلوقات کو بہ روئے کار لاتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں تمام حیوانات و نباتات و غیرہ ایسے نہیں ہیں، بلکہ ان کے بہت معمولی، بسیط اور مخصوص قسم کے اختیاراتہیں، وہ اپنے پیدائش سے آج تک اپنی حالت سے ایک قدم بھی آگے نہیںبڑھے ہیں اور ان میں کسی قسم کی قابل توجہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔جب کہ انسان نے اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے اور اس کی ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔

مختصر یہ کہ انسان تمام مخلوقا تِ عالم میں ان سے جس خصوصیت و برتری کا مالک ہے، وہ عقل کی خصوصیت ہے اس عمل کے ذریعہ اس نے دنیا کی تمام موجودات پر فوقیت حاصل کی ہے اسی کے ذریعہ وہ حق و باطل ، خیر و شر اور نفع و نقصان میں فرقپیدا کیا ہے۔

انسان کامل کی شرافت اور کرامت:

( ولقد کرّمنا بنی آدم و حملنا هم فی البرّ و البحر و رزقنا هم من الطّیبات و فضّلنا هم علی کثیر ممّن خلقنا تفضیلا ) (اسرائ٧٠)

''اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطاکی ہے انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔''

علامہ طباطبائی رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

''یہ آیت منّت رکھنے کے سیاق میں ہے، البتہ وہ منّت جو سرزنش کے ساتھ آمیختہ ہے۔ گویا خداوند متعال ، انسانوں سے اپنی فراوان نعمتوںاور فضل و کرم کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس نے انھیں ان نعمتوں کو حاصل کرنے اور رزق سے اپنی زندگی کوبخوبی گزارنے کے لئے ، بیابانوں اور دریاؤں میں سواریاں اور کشتیاں چلائیں، اس نکتہ کی طرف متنبہ کرتاہے کہ انسان نے اپنے پروردگار کو فراموش کر دیا ہے، اس سے منہ موڑلیا اور اس سے کو ئی چیز نہ مانگی اور دریا سے نجات پانے کے بعد پھر سے اپنی گزشتہ روش پرگامزن ہو، با وجودیکہ وہ ہمیشہ اس کی نعمتوں میں غرق تھا۔

خدائے متعال اس آیت میں اپنی کرامتوں اور فضل کا ایک خلاصہ بیان فرماتاہے، تا کہ انسان یہ سمجھ لے کہ اس کا پروردگار اسے کس قدرعنایت کرتاہے اور انتہا ئی افسوس ہے کہ انسان اس عنایت کا بھی دوسری نعمتوں کے مانند کفران کرتاہے ۔(۱)

اس لئے بجا ہے کہ انسان اپنے وجود کے گوہر او ر صدف کی قدر و منزلت کو جان لے اور اسے حقیر اور پست دنیا کے عوض فروخت نہ کرے۔

چشم دل باز کن تا کہ جان بینی

آنچہ نادیدنی است آن بینی

گربہ اقیلم عشق روی آری

ہمہ آفاق گلستان بینی

بر ہمہ اہل آن زمین بہ مراد

گردش دور آسمان بینی

آنچہ بینی دلت ہمان خواہد

وآنچہ خواہد دلت ہمان بینی(۲)

(د ل کی آنکھیں کھولو تاکہ روح''ہستی'' کو دیکھ لو ،جو دیکھنے کے قابل نہیں ہے اسے دیکھ لو گر ملک عشق کی طرف تو جہ کرو گے تو تمام آفاق کو گلستان پائو گے، تمام اہل زمین، گر دش افلاک کو اپنے مقصدکے مطابق خیال کریں گے جسے دیکھو گے تمھارا دل اسی کو چاہے گا اور تمھارے دل اور آرزو کے مطابق تمام چیزیں نظر آئیں گی)

انسان کو انسانی کما لا ت تک پہنچنے کے لئے بعض خاص شرائط اور سہو لتوں کی ضرورت ہو تی ہے اوریہ دنیا جو عالم طبیعت کے ای پر شکوہ نظام کا حصہ ہے اپنے تمام تر تبدیلیوں اور ترقیوں کے ساتھ انسان کے اختیار میں ہو نی چاہئے۔ ہم کسی حد تک جانتے ہیں کہ اگر عالم طبیعت میں وہ تحو لات اور متواتر نظم نہ ہو تا تو یا انسان کی اختیا ری زندگی متحقق نہ ہوتی یاناقص صورت میں متحقق ہو تی ۔

ہم اجمالی طور پر جانتے ہیں کہ کائنات کا ایک ہما ہنگ نظام ہے اوراس کے اجزا و عوامل ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ ان عوامل کا ایک نمو نہ مختلف سیاروں میں پایا جانے والا قوئہ جاذبہ ہے یہاں تک کہ اگر اس معین اور دقیق جاذ بہ میں کسی قسم کاخلل ایجاد ہو جائے اور ایک سیارہ اپنے مدار سے ہٹ جائے تو تمام سیاروں کا نظام در ہم بر ہم ہو جائے گااور ایک خلاف تو قع المیہ پیش آئے گا۔

جیسا کہ اشارہ ہوا، عالم اس عظمت کے ساتھ انسان کی خلقت اوراس کے کمال تک پہنچنے کا ایک مقدمہ ہے۔ اور جن کمالات تک انسان پہنچنا چاہتا ہے،اور یہ بات شائستہ ہے ایک عالم اتنی وسعت و عظمت کے ساتھ اس کی حیثیت انسان کے لئے طفیلی۔ اگر چہ تمام انسانوں میں سے بہت کم ہی لو گ ایسے ہوتے ہیں جو ان کما لات کی انتہا تک پہنچتے ہیں اور بقیہ افراد تو ان کے و جود کے سایہ میں کسی حد تک بہرہ مند ہوتے ہیں اور ان کے وجود کا دارو مدار ان نیک اور منتخب شخصیات کے و جو کے تابع ہے ۔ مثال کے طور پر پچاس کلو میٹر وسیع و عریض علاقہ پر پوری گہرئی سے چند دانے ہیر ے حاصل کر نے کے لئے و سیع پیمانے پر کھدائی کی جائے تویہاں پر اصلی مقصد ہیروں کے چند دانے حاصل کرنا ہے، اگر چہ اس کھدائی کے دوران پتھرکے کو ئلہ کا بھی استخر اج ہو تا ہے لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو تی ہے۔لہٰذا ہیر وں کی کھدائی کے لئے کہ جومعدن کے استخراج کا اصلی مقصدہے دوسرے موادبھی مو جود ہو تے ہیں کہ جن کو ددسرے در جے کی اہمیت حاصل ہے ان کے علاوہ کچھ بے فائدہ چیز یں بھی ملتی ہیں جنھیں ضایعات کے طور پر دور پھینکا جاتا ہے۔

اس دنیا کی خلقت کا مقصد کچھ انوار پاک ہیں کہ ان میں بر جستہ تر ین و مشخص ترین انوار مقدس چہار دہ معصو مین علیہم السلام ہیں، اور ان کے بعد تمام انبیاء اور وہ افراد ہیں جو اپنے کمال کے درجات کے مطا بق ان میں ملحق ہو تے ہیں ۔( تقریبا ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء اور اولیائے خدا ہیں۔ ان میں سے بعض انبیاء دوسرے انبیاء سے بر تر ہیںہم انکی تعداد سے بے خبر ہیں)

پس کمالات انسانی کا آخری درجہ اور مرتبہ پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و آلہ و سلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کی ذات میں منحصر ہے اور ان کمالات کے ادنی مراتب ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے۔ ان افراد کے علاوہ ، دوسرے لوگ جن کے دل ایمان کے نور سے خالی ہیں، انھیں ضائعات کے مانند قہرالہی کی آگ میں جلادیا جائے گا:

( ولقد ذرانا لجهنّم کثیرا من الجن و الانس لهم قلوب لا یفقهون بها و لهم اعین لا یبصرون بها و لهم آذان لا یسمعون بها ) ...) (اعرف/ ١٧٩)

''اور یقینا ہم نے انسان و جنا ت کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنّم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں...''

جہنم میں اس دنیا کے ضائعات ہیں اور خلقت عالم کا اصلی مقصد ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں کہ عالم اپنی پوری وسعت اور عظمت کے ساتھ فضیلت و کما ل کے لحاظ سے ان میں سے کسی کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے ؛ بلکہ ان کے ایک دن کی قیمت پورے اس کائنات کے برابر ہے۔ اس عالم کے اصلی وارث و ہ انسان ہیں حو سعادت پاکر خدا کا تقرّب حاصل کر چکے میں :

( ( انّ المتقین فی جناتٍ و نهرٍ فی مقعد صدقٍ عند ملیکٍ مقتدر )

(قمر٥٤و٥٥)

''بیشک صاحبان تقوی باغات او رنہروں کے در میان ہوں گے۔اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے''

بہشت مومنین اور محبان اہل بیت کی جگہ:

ہمارا اعتقاد ہے کہ با ایمان مرنے والے بہشت میں جائیں گے؟حتی اگر ان کا ایمان سب سے ادنی درجہ کا بھی ہو اور وہ ایمان مرتے وقت کفر میں تبدیل نہ ہو اہو۔ (وہ عالم برزخ کے بعد بہشت میں داخل ہوتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کمال ایمان ،اعتقاد اور محبت اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ حاصل ہو تا ہے چنانچہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

''...الا و من مات علی حبّ آل محمدٍ مات مومناً مستکمل الایمان، الا و من مات علی حبّ آل محمدٍ بشّره ملک الموت بالجنة... (۳)

''بیشک جو آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت میں مرجائے، وہ مؤمن اور ایمانِ کامل کے ساتھ مراہے۔بیشک جو آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت میں مرجائے، ملک الموت اسے بہشت کی بشارت دیتے ہیں۔''

اس لحاظ سے جو شیعہ محب اہل بیت علیہم السلام ہے اور خدا ئے متعال اور اولیائے خدا کے حکم کے مقابلہ بیں خاضع اور فرمانبردار ہے، اسے موت کی کوئی پروا نہیں ہے، کیونکہ موت مومن کے سامنے رضائے الہی تک پہنچنے کا ایک پل ہے۔

حضرت اما م حسین علیہ السلام نے عاشورا کے دن اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا:

''اے شریف زادو! صبر و تحمل سے کام لو کہ موت صرف ایک پل ہے حو تمہیں سختیوں اور مشکلات سے عبور کراکے وسیع باغوں اور ابدی نعمتوں میں پہنچاتی ہے اور حقیقت میں تم میں سے کون راضی نہیں ہے جو زندان سے محل کی طرف روانہ ہو جائے؟ ''(۴)

حضرت علی علیہ السلام متقین کے لقاء اللہ کے شوق کے بارے میں فرماتے ہیں:

''اگر ان کے لئے (متقین) موت معین او رمقدر نہ کی گئی ہوتی تو ثواب کے شوق اور عذاب کے ڈر سے ان کی جان ان کے بدن میں ایک لمحہ کے لئے بھی باقی نہ رہتی''

ان کی نظروں میں پروردگار عالم عظیم ہے اس لحاظ سے دوسرے ان کی نظروں میں چھوٹے ہیں ''(۵)

ایک شخص نے جناب ابوذر سے پوچھا: ہم کیوں موت سے بیزارہیں؟ جناب ابوذر نے جواب میں فرمایا:

''لانّکم عمّرتم الدنیاوخرّبتم الآخره فتکرهون ان تنتقلوا من عمران الی خراب ..''(۶)

''چونکہ تم لوگوں نے اپنی دنیا کو آباد کیا ہے اور اپنی آخرت کو ویران کیا ہے۔اس لئے آبادی سے ویرانی کی طرف منتقل ہونے کے لئے راضی نہیں ہو۔''

افراد اپنے ایمان و اعمال کے مرا تب کے مطابق بہشت سے بہرہ مند ہوتے ہیں: کچھ لوگ مرنے کے بعد برزخی بہشت میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد قیامت کے دن بہشت میں جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ گناہ گار تھے،مگر یہ کہ ان کے وجود میں ایمان کا ایک ضعیف روشن تھا، و ہ عذاب الہی میں گرفتار ہونے کے بعد اور ممکن ہے برسوںتک عذاب برداشت کریں اور گناہوںسے پاک ہونے کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے۔ان کی مثال اس سونے کی سی ہے جسے بھٹی میں ڈال دیاجاتاہے تا کہ آلود ہ اور غیر خالص مادہ اس سے دور ہو جائے اور خالص سونے میں تبدیل ہو جائے۔یقینا یہ لوگ بہشت کے مالک نہیں ہیں، بلکہ یہ ایسے مہمان ہیں جو بہشت کے اصلی مالکوں کی شفاعت اور خدائے متعال کے لطف و کرم سے بہشت میں پہنچے ہیں.

١۔ صاحبان بہشت:

بہشت کے اصلی مالکوں کا خدائے متعال نے یوں تعارف کرایا ہے :

( ومن یطع الله و الرّسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبيّین و الصّدیقین و الشّهداء و الصّالحین و حسن اولئک رفیقا ) (نسائ٦٩)

''اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گاوہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا، جن پر خدانے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔''

یہ آیۂ مبارکہ بہشت کے اصلی مالک کی حیثیت سے چار گروہ کا تعارف کراتی ہے اور دوسرے افرادان کی پیروی اور شفاعت سے بہشت میں داخل ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ لوگ میزبان اور صاحب خانہ ہیں اور دوسرے مہمان۔ صاحبانِ بہشت، یعنی انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین وہ لوگ ہیں جن پر خدائے متعال نے اپنی نعمتیں تمام کی ہیں اور ہمیں حکم دیاہے کہ ہم ہر روز نماز میں خداسے دعا کریں کہ ہمیں ان کی راہ کی طرف ہدایت فرمائے:

( اهدنا الصّراط المستقیم صراط الّذین انعمت علیهم ) )

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکور ہ آیۂ مبارکہ میں ،شہد اء سے مراد قیا مت کے دن بندوں کے اعمال پر گواہی دینے والے ہیں کہ ان کا مقام دیگر شہداء سے بلند ہے۔ چنانچہ علا مہ طبا طبا ئی ر حمة ا للہ علیہ فر ما تے ہیں:

'' شہاد ت کا مقصود( بعض آ یتوں میں ) لو گوں کے اعمال پر شہادت ہے اور اس سے مراد ان اعمال کے حقائق کو دیکھنا اور بر داشت کر ناہے جنھیں لو گ دنیا میں انجام دیتے ہیں ،خواہ وہ حقیقت سعادت ہو یاشقا وت ۔پس قیا مت کے دن شاہد اس چیزکی شہادت دیتا ہے جسے اس نے دیکھاہے جس دن خدا ئے متعال ہر چیز سے گواہی لیتا ہے، حتی بدن کے اعضا سے بھی شہا دت لیتا ہے، جس دن پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و آلہ و سلم فر ماتے ہیں :

(.( یا رب ان قو می اتّخذوا هذاالقرآن مهجو را ) (فرقا ن٣٠)

''پر ور دگارا:میری قوم نے قر آن مجیدکو چھوڑ دیا ہے''

و اضح رہے کہ اس قسم کا عظیم مرتبہ پو ری امت کی شان میں نہیں ہو سکتا ہے ،چوں کہ یہ ایک خاص فضیلت ہے جوخدا کے او لیائے طا ہرین کے لائق ہے کم ترین مقام جو یہ گواہ ( اعمال کے شاہد) ر کھتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ وہ خدا کی و لا یت کے تحت اور اس کی نعمت کے سایہ میں پلتے ہیں اور اصحاب صراط مستقیم ہیں۔(۷)

پس ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ خدا کے بر ترین بندے اور وہ جن کے حق میں خدا ئے متعال نے اپنی نعمتیں تمام کیں اور انھیں صاحبان بہشت قراردیا، انبیائ،صدیقین،شہداء اور صالحین ہیں ۔ دوسرے بندے ان چار گرو ہوں کی پیر وی اور و ابستگی کی وجہ سے بہشت میں داخل ہوں گے البتہ جو لوگ خدا کے نیک و صالح بندوںسے رابطہ کی وجہ سے سعاد ت و بہشت تک پہنچتے ہیں وہ مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیںاور سب ایک مرتبہ میں نہیں ہیں، یہاں تک کہ خود وہ چار گروہ مراتبکے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں اور بعض کو بعض دو سروں پرفوقیت و بر تر ی حاصل ہے۔

الف: انبیاء اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام:

فرمان الٰہی کے مطا بق انبیاء دوسرے لو گوںپر بر تری رکھتے ہیں۔

(( ان اللّٰه اصطفی آدم و نوحا و آل ابراهیم و آل عمران علی العالمین ) ( آل عمران٣٣)

'' اللہ نے آدم ، نو ح اور آل ابراھیم اور آل عمران کو دنیا کے لوگو ں پر بر تری بخشی ہے''

اس کے علاوہ بعض پیغمبر دوسرے پیغمبر وں پر بر تری رکھتے ہیں:

(( تلک الرسل فضّلنا بعضهم علی بعض ) (بقرہ٢٥٣)

'' ان رسولوں میں سے بعض کو ہم نے بعض پر بر تری دی ہے''

ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء میں سے صر ف٣١٣ افراد مقام رسالت کے حامل تھے۔ اور ان میں سب رسول صاحب شریعت نہیںتھے، بلکہ صرف پانچ رسول صاحب شریعت تھے کہ جن سے یہ افراد مراد ہیں : نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ ا لسلام ، موسی علیہ ا لسلام، عیسیٰ علیہ ا لسلام ، اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۔ یہ ا ولو ا لعزم انبیاء د یگر تمام ر سولوں سے بر تر ہیں اور ہما ر ے اعتقاد کے مطا بق حضرت خاتم الا نبیاء محمد مصطفی صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم ان سب سے افضل و بر تر ہیں چنانچہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر ما یا ہے :

''یا علی ان اللّٰه تبارک وتعالی فضّل ا نبیائه المر سلین علی ملائکته ا لمقربین و فضّلنی علی جمیع النبیین والمرسلین والفضل بعدی لک یا علی وللأئمة من بعدک وان الملائکة لخدّامنا وخدام محبینا ...''(۸)

'' اے علی !خدا ئے متعال نے اپنے پیغمبروں کو اپنے مقرب فر شتوں پر بر تری عنایت کی ہے اور مجھے تمام انبیاء اور پیغمبر وں پر فوقیت و بر تری دی ہے اور میرے بعد بر تری کے مستحق تم اور تمھارے بعدآنے والے ائمہ ہیں ، بیشک فر شتے ہما رے اور ہمار ے دوستو ں کے خدمت گزار ہیں ''

ثا بت ہوا کہ انسان کی خلقت کا اصلی مقصد خدا کے منتخب بندے ہیں اور چونکہ عام افراد انسانی کمالات میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، انبیاء و صالحین او ر خدا کے دوستوں میں بھی کمالات انسانی کے لحاظ سے فرق ہے اور ان کے مراتب اور درجات میں اختلاف ہمارے لئے قابل درک نہیں ہے او رصرف خدا ان سے آگاہ ہے۔

انبیائے الہی اور اولیائے خدا حتی ایک پلک جھپکانے کے برابر بھی شرک و گناہ میں آلودہ نہیں ہوئے ہیں، یہاں شرک بہ معنی حقیقی ہے یعنی غیر خدا کی طرف لو لگانا بت پرستوں کے شرک کی تو بات ہی نہیںہے،ان کا مقصود و مطلوب خدائے متعال ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصود و مطلوب نہیںہوتا۔اگر وہ کبھی غیر خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو فریضہ اور خدا کی اطاعت کے طور پر ہے کہ ان سے خدانے یہ چاہا ہے کہ اس کے دوسرے بندوں سے غافل نہ رہیں او ر اپنے اصلی مقصد تک پہنچنے کے لئے اپنے مادی وسائل سے فائدہ اٹھائیں ورنہ ان کا مقصد صرف خدا ہے اور بس.

ہم انبیائے کرام کے اعلیٰ مدارج اور بلند مراتب کے بارے میں صرف ایک ضعیف تصور رکھتے ہیں اور ان کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتے ، بلکہ اگر ہم ان کے مقام کی کیفیت کے بارے میں فکر کریں تو ہماری عقل حیران ہوجاتی ہے۔ ان کے مقام و منزلت کے بارے میں صرف وہ اور ان کاخدا واقف ہے اور دوسرے ان کے انسانی مرتبہ اور مقام و منزلت کی معرفت حاصل کرنے سے عاجز ہیں :

( فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرّه اعینٍ جزاء بماکانوا یعملون ) (سجدہ ١٧)

''پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لئے کیا کیاخنکی چشم کاسامان چھپا کر رکھاگیاہے جوان کے اعمال کی جزا ہے.''

ب۔صالحین کا مقام:

منجملہ انسانی عالی مراتب، جن کی طرف اشارہ ہوا، صالحین کامرتبہ ہے کہ ان کے بلندمرتبہ اور عظمت و منزلت کے بارے میں خدائے متعال حضرت موسی علیہ السلام کی زبانی فرماتاہے:

( رب هب لی حکما و الحقنی بالصالحین ) (شعرائ٨٣)

''خدایا !مجھے علم وحکمت عطا فرمااور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے۔''

ایک دوسری جگہ پر فرماتاہے:

( ووهبنا له اسحاق و یعقوب نافلة و کلّا جعلنا صالحین ) (انبیاء ٧٢)

''اور پھرابراہیم کو اسحاق اور ان کے بعد یعقوب عطاکئے اور سب کو صالح اور نیک کردارقرار دیا''.

ج۔ صدیقین کا مقام:

ایک او ربلند انسانی مرتبہ، صدیقین کا مرتبہ ہے کلمۂ ''صدیقین'' جیسے کہ خود کلمہ دلالت کرتاہے کہ ''صدق '' کا مبالغہ ہے، یعنی وہ جو بہت زیادہ سچے ہیں۔حقیقت میں صدق صرف زبانی نہیںہے: اس کے مصادیق میں سے ایک انسان کی گفتگو ہے جو وہ بولتا ہے، اس کا دوسرا مصداق عمل ہے، کہ اگر عمل بات اور دعوی کے مطابق ہے، تو صادق ہے۔ چونکہ انسان کا عمل اس کے اندرونی اعتقاد کی حکایت کرتاہے اور انسان اس حکایت میں اس وقت صادق ہے جب وہ مافی الضمیرکو مکمل طور پر حکایت کرے او راس میں سے کوئی چیز باقی نہ رکھے، ایسا عمل صحیح اور صادق ہے۔اس کے مقابلہ میں اگر ما فی الضمیرکی حکایت نہ کرے یا صحیح اور مکمل طور پر حکایت نہ کرے ، تو وہ عمل غیر صادق ہے۔

سچ بات بھی وہ بات ہے جو واقع اور خارج کے ساتھ مطابقت رکھے، چونکہ بات کرنا بھی ایک فعل ہے، قہری و فطری طور پر جو اپنے فعل میں صادق ہے وہ اس وقت تک بات نہیں کرے گاجب تک کہ اس کے سچ ہونے کے بارے میں علم نہ ہو جائے اور یہ بھی جانتا ہو کہ وہ بات کہنا مناسب اور بجا ہے اور اس کا کہنا حق ہے۔ اس بناپر ایسی بات خود اور بولنے کی صداقت کی حکایت بھی ہے اور کہنے والے کی صداقت کی حکایت بھی ۔

پس صدیق وہ ہے جو کبھی اور کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولتا ہے اور جس کام کے حق ہونے کے بارے میں نہیں جانتاہے اسے انجام نہیں دیتا ہے خواہ، وہ کام کتنا ہی اس کے نفسانی خواہشات کے مطابق کیوں نہ ہو، اسی طرح جس بات کے سچ ہونے کے بارے میں نہیں جانتا، اسے نہیں کہتا ہے اور جو کام عبودیت کے ساتھ سازگار نہیں ہے، اسے انجام نہیں دیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام اپنی توصیف میں فرماتے ہیں:

''...وانی لمن قوم لا تاخذهم فی اللّٰه لومة لائم،سیماهم سیما الصدیقین وکلامهم کلام الابرار'' (۹)

''میں ان لوگوں میں سے ہوں جو را ہ خدا میں سرزنش و ملامت کرنے والوںسے باز نہیں آتے ہیں ۔ان کی نشانیاں سچّوں کی نشانیاں ہیں اور ان کی باتیں سچے کر دار والوں کی باتیںہیں''

صدیقین کا مقام ایک ایسا مقام ہے کہ جب خداوند متعال اپنے بعض پیغمبروں کے مقام کی توصیف کرنا چاہتا ہے تو فرماتاہے:

( واذکر فی الکتاب ابراهیم انّه کان صدّیقا نبيّا ) (مریم ٤١)

''اور کتاب خدا میں ابراھیم کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے۔''

یا حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کے بارے میں فرماتا ہے:

( و امّه صدّیقه ) (مائدہ٧٥)

البتہ ہمیں کوئی طمع نہیں ہے کہ صدیقین یا صالحین کے جیسے مقام تک پہنچ جائیں، لیکن انسان کی کوشش کسی بھی حالت میں پست نہیں ہونی چاہئے۔اس اپنی استعداد وں اور توانائیوں کے مطابق کوشش کرنی چاہئے اور برتر مراتب تک پہنچنے کے لئے سعی کرے۔اسے ان مراحل تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے ، جن تک غیر معصوم انسان پہنچ سکتے ہیں ،علما ء کے درمیان ایسے بزرگ بھی گز رے ہیں جو انسانی مرا حل کے اعلی مقام تک پہنچے تھے ، ہم نے ان میں سے بعض کو دیکھا ہے اوران سے واقف ہیں اور کتنے ایسے بزر گوار ہیں جو تکامل کے اس مر حلے تک پہنچے ہیں جو خاصان خدا سے مخصوص ہے اور ہم ان کے بارے میں خبر نہیں رکھتے ہیں۔ یقینا ایسے بلند وبالا مقامات عالی ہمت اورپیہم کوششوں کے نتیجہ میں حاصل ہو تے ہیں جیسے شا عر کہتا ہیں:

ہمت بلنددارکہ مر دان روز گار

از ہمت بلند بہ جائی رسیدہ اند

( اپنی ہمت کو بلند کر وکہ مردان روز گار بلند ہمت سے ہی عالی مقامات تک پہنچے ہیں)

ایک دوسرا شاعر کہتا ہے:

ہمت اگر سلسلہ جنیان شود

مور تواند کہ سلیمان شود

اگر ہمت اور حوصلہ کو بہ روئے کار لایا جائے تو ایک چونٹی بھی سلیمان ہو سکتی ہے۔

خدا کے منتخب بندوںکے لئے عصمت کاایک خاص درجہ:

خدائے متعال نے انسان کی تکامل و ترقی اور بالیدگی کی راہ میں کو ئی رکا و ٹ قرار نہیں دی ہے۔ اگر انسان ہمت کرے تو وہ مقام صالحین جیسے بلند مقامات تک پہنچ سکتا ہے ، اگر چہ وہ معصوم نہیں ہو سکتا صدیقین اور صالحین کا مقام معصومین کے مقام سے پست تر ہے ۔ اس لحاظ سے ہر انسان ان مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔ہر انسان اپنی پوری عمر میں گناہ نہیں کر سکتا ہے اور حقیقت میں جو شخص چاہتا ہے کہ گناہ میں آلودہ نہ ہو اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول رکھے اور صرف خدا کی خو شنودی کیلئے اپنے آپ کووقف کر دے، تو وہ عمل میں معصوم ہے، اگر چہ معصوم کی اصطلاح اس پر صادق نہیں آ تی ہے۔اس مطلب کی وضاحت میں کہنا چاہئے:

لغت میں (( عصمت)) روکنے اور رکاوٹ بننے کے معنی میں ہے اور اصطلاح میں ایک نفسانی ملکہ کو کہتے ہیں جوانسان کو گناہ حتی خطا و اشتباہ سے محفوظ رکھے ۔اب کیا یہ ملکہ ما نع ہے اور اسی لئے اسے ملکہ''عصمت'' کہتے ہیں، یا یہ کہ خدا ئے متعال اس انسان کو گناہ، خطا و اشتباہ سے روکتا ہے جس میں یہ ملکہ پایا جاتا ہے فی ا لجملہ دونوں معنی صحیح ہیں ،خواہ ہم یہ کہیں کہ معصوم وہ ہے جو ایسا ملکہ رکھتا ہے اور وہ ملکہ اسے خطا اور گناہ سیمحفوظہے ، یا یہ کہیں کہ معصوم وہ شخص ہے کہ اللہ تعالی اسے گناہ اور اشتباہ سے روکتا ہے،توہم نے خطانہیں کی ہے کیونکہ خدائے متعال بھی اسی ملکہ کے ذریعہ اس کا تحفظ کرتا ہے۔پس معصوم وہ ہے جوخطا وگناہ سے پاک ہو یا صرف گناہ سے محفو ظ ہو۔

عصمت کی قسمیں :

١۔ گناہ سے عصمت: یعنی معصوم وہ ہے جو اختیار و قصدسے کسی گناہ کا مر تکب نہ ہو جائے۔

٢۔ خطا و اشتباہ سے عصمت: یعنی معصوم وہ ہے جو گناہ کو ترک کر نے کے علا وہ خطا و اشتباہ سے بھی پر ہیز کر ے ،عصمت کی پہلی قسم ، مقام عمل میں عصمت ہے،لیکن عصمت کی دوسری قسم، عمل اور غیر عمل دونوں کو شامل ہے، یعنی مقام ادراک اور تشخیص میں بھی معصوم ہے ، چو نکہ دو سری قسم کا معصوم وہ ہے کہ نہ صرف مقام عمل میں گناہ نہیں کر تا ہے، بلکہ تشخیص میں بھی خطا سے دو چار نہیں ہوتاہے۔ یعنی صحیح سمجھ بھی سکتے ہیں صحیح بیان بھی کر تے ہیں اور صحیح عمل بھی کر تے ہیں ۔

علا مہ طباطبائی ر حمة اللہ علیہ انبیاء اور ا ئمہ معصو مین کی عصمت کے بارے میں فر ما تے ہیں:

قر آن مجید صراحت کے ساتھ فر ما تا ہے کہ خدائے متعال نے انھیں اپنے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے لئے خالص قرار دیا ہے، جیسے کہ فرماتا ہے:

(( و من ء آبائهم و ذریا تهم و اخوانهم و اجتبیناهم و هدیناهم الی صراط مستقیم ) ( انعام٨٧)

''اور پھر ان کے باپ دادا، اولاد اور برادری میں سے اور خود ا نھیں بھی منتخب کیا ور سب کو سیدھے راستہ کی ہدا یت کر دی ''

خدا ئے متعال نے انھیں علم میں سے وہ مرحلہ عطا کیا ہے جو عصمت کا ملکہ ہے اور وہ انھیں گناہ کے ارتکاب اور جرائم سے روکتا ہے۔ اس ملکہ کے ہوتے ہوئے ان سے گناہ کا ( حتی گناہ صغیرہ) سر زد ہو نا محال ہوتا ہے ۔ اگر چہ عصمت،اورعد الت کے دونوں ملکہ گناہ کے مر تکب ہو نے سے مانع ہوتے ہیں ، لیکن ان میں یہ فر ق ہے کہ عصمت کے ملکہ ساتھ گناہ کا سر زد ہو ناممتنع ہو تاہے، لیکن عدالت کے ملکہ ساتھ گناہ کا سرزد ممتنع نہیں ہو تا ہے۔

مزید فرماتا ہے:

''عصمت''کا ملکہ سے سے نہ صرف یہ کہ اس کا اثر کو نہیں بدلتا ہے بلکہ اس کا اثر قطعی اور دائمی ہے ، اسی کے ساتھ طبیعت انسانی کو کہ وہی اپنے ارادی افعال میں مختار ہو ناہے تغیر دئیے بغیر اسے عصمت کے لئے مجبور ومضطرب نہیں کیا جاسکتا۔ اسے کیسے مجبور کر سکتاہے،جبکہ علم خود اختیارات کا مقدمہ ہے اور علم کا قوی ہونا ارادہ کے قوی ہونے کا سبب ہو تا ہے ، مثلا جو تندرستی کاطالب ہے، اگر یقین پیدا کر لے کہ فلاں چیز زہر قاتل فوری ہے، بلکہ یقین اسے مجبور کر دیتا ہے کہ اپنے کو ارادہ و اختیار کے ساتھ اس زہر یلے سیال مادہ کو پینے سے روک لے۔(۱۰)

مذ کورہ مطالب کے پیش نظر ، حتی بعض افراد جیسے حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ ا لسلام اور بہت سے امام زادے دوسری قسم کی عصمت جو بعض انبیاء ، ائمہ معصو مین اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے کے مالک نہیں ہیں، جبکہ وہ اپنی پوری زندگی میں مر تکب گناہ نہیں ہو ئے ہیں ۔ البتہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ ان بزر گوںکا مقام دوسرے لو گوں سے بدرجہ ہا بلند ہے اور وہ ایک قسم کے مقام عصمت کے مالک ہیں، البتہ جو عصمت بعض انبیاء اور ائمہ کے لئے مخصوص ہے ، اس کے یہ مالک نہیں ہیں۔

نتیجہ نکلا کہ انسان گناہ سے عملی عصمت کا مالک ہو سکتا ہے اور عملا گناہ نہ کر ے اور اگر بلند ہمت رکھتا ہے اور تز کیہ نفس اور نفسانی خواہشات کو کچل کر خدائے متعال سے اپنے رابطہ کو مستحکم کرلے تو وہ صدیقین کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔لہذا ہمیں معنوی کمالات تک پہنچنے کے لئے اپنے قدم آگے بڑھانا چاہئے اورخودکوصدیق یا صالح بننے کی تلقین کرنا چاہئے۔ بیشک اگر انسان کو شش کرے اور ضروری ظرفیت اور کما حقہ تمام شائستگی کو کسب کرے، تو خدائے متعال ایسے مقامات عطاکرنے میں بخل نہیں کرتاہے ۔ بنیادی طو ر پر خود خدائے متعال نے انسان کی ہمت افزائی کی ہے کہ وہ بلند مقام تک پہنچے اور اسلام نے مو من کو بلند ہمتی کی دعوت دی ہے اور خدائے متعال چاہتا ہے کہ مو من کے حوصلے بلند ہوں اور وہ تھوڑے پر مطمئن اور قانع نہ ہوجائے ، انبیاء کے مقام پر نظر رکھے اور کو شش کرے کہ ان کی پیروی۔

اگر ہم انبیاء کے درجہ اور مقام عصمت تک نہیں پہنچ سکتے ،لیکن صدیق اور صالح بن سکتے ہیں، کیونکہ انبیاء اور ائمہ معصو مین کی خصوصی عصمت کے لئے ان دونوں چیزوں کی شرط نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ''صدیق یعنی'' سچ بولنے اور راست گفتاری میں مبالغہ ہے، یعنی جو اپنی زندگی میں جھوٹ کو اپنے نزدیک آنے کی اجازت نہ دے،نہ اپنے گفتار میں ،نہ کردار میں اور نہ اپنی سوچ میں حتی غلط فکر اوربرا تصور بھی نہیں کرتا ہے ۔

ایمان میں صداقت کی اہمیت اوراس تک پہنچنے کا راستہ:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچائی وصداقت کی قدر و قیمت کے بارے میں فرماتے ہیں:

''ان ا لصدق یهدی الی البروالبر یهدی الی الجنة و ان الرجل لیصدق حتی یکتب عندالله صدیقا'' (۱۱)

'' صدق ،نیکی کے لئے راہنما ہے اور نیکی بہشت کے لئے، اور مرد سچ نہیں کہتاہے مگر یہ کہ خدا کے نزدیک صدیق کی حیثیت سے پہچا ناجائے''

شایدہم بولنے فکر کرنے اور رفتار وکردار میں صداقت پیدا کرنے کومشکل نہ سمجھیں او راپنی جگہ یہ تصور کریں کہ ایسا ممکن ہے کہ ہم جھوٹ نہ بولیں ، برُی فکر کو اپنے ذہن میں پلنے نہ دیں اورناشائستہ رفتار سے پر ہیز کر یں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے ۔ ہم سب دعوی کر تے ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمیشہ خدا کو حاضر وناظر جانتے ہیں ،لیکن کیا ہماری رفتار و گفتار ہمارے ایسے دعوی کی تائید کرتی ہیں؟

ہم بعض اوقات تنہائی میں ایسے کام انجام دیتے ہیںکہ ا گر ایک چھوٹا بچہ ہمارے پاس ہو تا تو ہم شرم کے مارے ڈوب مرتے اور وہ کام انجام نہ دیتے،اب ہم کیسے اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا حاضرو ناظر ہے جبکہ ہم برے کام انجام دیتے ہیں!حقیقت میں ہم خدائے متعال کو ایک بچے سے بھی کم تر جانتے ہیںاور اپنے اعتقاد میں صادق نہیںہیں بلکہ ہمارے اعتقاد میں جھوٹ اور کذب کا شائبہ پایا جاتا ہے ۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر انسان اپنی عمر کو خدا کی اطا عت میں صرف کرے ، تو خدا ئے متعال اس کی عمر کے ہر لمحہ کے مقا بلہ میں اسے ایسی جزا دیتا ہے کہ اس کی قیمت پوری دنیا اورجو کچھ اس میں موجود ہے ، کے برابر ہے ،لیکن کیا ہم اس اعتقاد اور باور میں صادق ہیں ؟کیا ہماری رفتار اس اعتقاد کی تصدیق کر تی ہے؟

اگر کسی کے پاس سو نے سے بھری ایک چھوٹی سی تھیلی ہو، کیا وہ اسے بیہودہ طور پر کنویں میں ڈ ال دے گا؟ کیا کو ئی عاقل انسان ایسا کر سکتا ہے ؟یا یہ کہ اگر سونے کا ایک سکہ بھی اس کے پاس ہوتو اسے ایک محفوظ جگہ پر چھپا ئے رکھتا ہے تاکہ گم نہ ہوجائے یا چو ری نہ ہوجائے؟پس انسان کبھی اپنے مادی سر مایہ اور دولت کو بیہودہ طور پر ضائع نہیںکرتا ہے ،کیو نکہ اس کام کو وہ معقول تصور نہیں کرتا ہے۔ اب ہم اگر یقین کر تے ہیں کہ ہماری عمر کا ہر لمحہ ہیرے سے گراں قیمت ہے کیا ہم حاضر ہیں اسے مفت میں کھو دیں ؟ کیا ہم اس فکر میں ہیں کہ گناہ نہ کریں ، کیا ہم اپنی عمر کو بیہو دگی اور لغو کے عالم میں ضائع نہیں کر تے؟

اگر ہم حقیقت میں اعتقاد رکھتے کہ ہماری عمر کے ہر لمحہ کے بدلے میں پو ری دنیا سے زیادہ جزا ملنے والا ہے ، تو ہم ہر گز اسے مفت میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، کیو نکہ ہم مال دنیاکو مفت میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ اگر ہم سو رو پیہ کھو دیں تو پریشانی کے عالم میں ہما رے ہوش اڑ جاتے ہیں حتی ہم نماز پڑھتے وقت بھی انھیں پانے کی فکر میں ہو تے ہیں

( عام طور پر بعض لوگ نماز میں اپنی گم شدہ چیز وں کے تصور میں کھوئے رہتے ہیں اور جو چیزبھول گئے ہیں نماز میں وہ انھیں یاد آتی ہے)

اگر انسان محنت اور کو شش کے نتیجہ میں کو ئی دولت کمائے ،تو وہ کبھی حاضر نہیں ہوتا ہے کہ اسے آسانی کے ساتھ کسی کو بخش دے اور وہ اس کی قدر کو جانتا ہے ،کیو نکہ اس نے اسے حاصل کر نے میں کافی محنت کی ہے ،لیکن یہ ممکن ہے کہ معمولی سے نقصان کا احساس کئے بغیر انسان اپنی عمر کے بہت سے گھنٹوںکو باطل راستہ پر صرف کرے ۔دوسرے الفاظ میں ممکن ہے انسان مال خرچ کر نے میں بخیل ہولیکن اپنی عمرکو صرف کر نے میں بخیل نہ ہو، با وجود یکہ مال کی قیمت کا عمر کی قیمت سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پس ہم آخرت اور اخروی ثواب کے بارے میں جو ہماری عمر کے ہر لمحہ کے لئے موجود ہے۔ اس دعوے اور ایمان میں صادق نہیں ہیں، ورنہ اگر ہم سچا ایمان رکھتے،تو اپنی عمر کو بیہودہ طور پر نہ گزار تے، اسے گناہ کی راہ میں صرف کر نے کی بات ہی نہیں۔ حقیقت میں ہماری زندگی ان جھو ٹے دعووںکے ساتھ آمیختہ ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہماری رفتار اور گفتار میں بھی جھوٹ سرایت کرجائے تو یہ ہمارے لئے بدتر مصیبت ہو گی۔

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

(( وما یؤمن اکثر هم با ﷲ الا و هم مشر کو ن ) (یوسف/١٠٦)

'' خدا پر ایمان کا ادعوی ٰکر نے والے اکثر مشرک ہیں ''

شائد خدائے متعال اس آیت کے ذریعہ ہمیں یہ نکتہ سمجھنا چاہتا ہے کہ بہت سے مومنوں کا ایمان شرک کے ساتھ آمیختہ ہے اور خالص نہیںہے ، اگر کسی کا صرف ایک معبود ہو تا اور وہ مشرک نہ ہوتا تو اس کے اندر لالچ ،مقام پرستی خلاصہ یہ کہ دنیا پرستی کے لئے کوئی جگہ نہ ہوتی ۔ ان رجحانات کا وجود اور باطل سے دل لگی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے کئی معبود ہیں نہ کہ ایک معبود:

( افر ٔ یت من اتخذالٰهه هواه واضلّه اللّٰه علی علم وختم علی سمعه وقلبه وجعل علی بصره غشاوة فمن یهدیه من بعدالله افلا تذکرون ) (جاثیہ٢٣)

کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے ایسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اوراس کی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کر تے ہو؟

جی ہاں، جن لو گوں میں نفسا نی خواہشا ت ہیں اور انہوں نے ان نفسانی خواہشات کو اپنا معبود قرار دیا ہے وہ مشرک ہیں ۔ حقیقت میں چو نکہ ان کا ایمان نفسانی خواہشات کے ساتھ آلودہ ہے اور خالص نہیں ہے، اس لئے وہ شرک میں آلودہ ہیں، البتہ شرک میں آلودہ ہوئے ایمان سب ایک حد میں نہیں ہو تے۔ بعض اوقات ٩٩فی صد ایمان٥فی صد شرک سے آلودہ ہوتاہے اور کبھی شرک یہا ں تک بڑھتا ہے کہ خدا پر ایمان ہی مکمل طور پر نا بود ہو جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم گناہ میں آلودہ ہیں۔لیکن کیا وہ شخص جس نے سالہا سال تک اپنی عمر کو گناہ اور بیہودگیوں میں صرف کیا ہے،فیصلہ کر سکتا ہے کہ گناہ سے پر ہیز کرے اور اپنے ایمان و اعتقاد میں صادق ہو جائے اور حقیقت میں وہ صدیق بن سکتا ہے یانہیں؟ یقینا یہ امر ممکن ہے، حتی ساٹھ سال عمر کے گزر نے کے بعد بھی انسان مصمم ارادہ کرسکتا ہے کہ صدیق بن جا ئے، اس شرط پر کہ اپنے گذشتہ کے بارے میں تو بہ کرے اورمصمم ارادہ کر ے کہ اپنی باقی عمرکو خدا کی اطاعت میں گزارے ،اور ایسی رفتار کرے جسے خدا پسند کرتا ہے۔ اس کا سونا ،بیداری، اٹھنا،بیٹھنا، معاشرت کرنا گھرمیں بر تائو اور لوگوں کے ساتھ بر تائو سب خدا کے لئے ہو ۔یہ امر ممکن ہے ،لیکن مختصر وقت میں حاصل نہیں ہو سکتا اور مختصر زمانے میں انسان صدیق نہیں بن سکتا ہے۔

''صدق''ایک ایسا ملکہ ہے جو انسان میں طولانی اور مسلسل سعی وکوشش کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے ۔ جو ساٹھ سال گناہ کر نے کے بعد صدیق بننے کا مصمم ارادہ کرے، اسے اس قدر کو شش کر نی چاہئے کہ ملکۂ '' صدق'' اس معنی میں اس میں پیدا ہو جائے،جسے ہم نے دقیق طور پر بیان کیا۔ اب ممکن ہے کوئی شخص دو سال تک مسلسل مشق اور ریاضت کے نتیجہ میں وہ ملکہ حاصل کرلے ،اس صورت جب وہ صدیق بن جاتا ہے، تو اس کا مرتبہ اس شخص کے مر تبہ سے دگنا ہے جس نے مقا م صدق تک پہنچنے کے لئے ایک سال کو شش کی ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی اس سے زیادہ ہو گا ۔ اسی طرح اگر اس مقام تک پہنچنے کے لئے مزید بر سوں تک کوشش کرے تو اس کا مر تبہ بلند تر ہو گا۔ کتنا بہتر ہو تا انسان بالغ ہونے کے و قت سے ہی خدا کا بند ہ ہو نے کے لئے مصمم ارادہ کرتا !حقیقی معنوں میں خدا کی راہ کے علاوہ کسی اور راہ پر قدم نہ رکھتا اور خدا کی فکر کے علاوہ کسی اور فکر کو اپنے دماغ میں جگہ نہ دیتا حتی گناہ کا خیال تک نہ کر تا۔

ہما رے لئے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ انسان ایک ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ حتی گناہ کا تصور بھی نہ کرے ، لیکن ہمارے علماء میں ایسے افراد گزرے ہیں جو اس مقام تک پہنچے تھے۔

نقل کیا گیا ہے کہ مرحوم سید ر ضی اور سید مر تضی رحمةاللہ علیہمانماز جماعت پڑھنا چاہتے تھے ۔ سید مر تضی جو بڑے بھائی تھے اشارتا ًسید رضی کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ اس کی عدالت میں کسی قم کا شبہ نہیں ہے اس لئے انھوں نے کہا: ہم میں سے جس نے آج تک گناہ نہیں کیا ہے وہ نما ز جما عت کی امامت کرے ۔ وہ اپنے بھا ئی کو سمجھانا چاہتے تھے کہ انھوںنے بالغ ہونے سے اس وقت تک کوئی گناہ نہیں کیا ہے! سید رضی نے جواب میں کہا: ہم میں سے اس کو نماز جما عت کی امامت کر نی چاہئے جس نے گنا ہ کا خیال بھی نہیں کیا ہو، یعنی میں نے گناہ کی فکر تک کو بھی ذہن میں جگہ نہیں دی ہے

ایک بزرگ شخص نقل کرتا تھا کہ تقریباً ساٹھ سال پہلے ، خاندان قا چار کا ایک شخص جو ایک زمانے میں عراق میں ایران کا قو نصلر (سفیر) تھا۔ جو بلند قامت تھا اور وقار کے ساتھ راہ چلتا تھا ۔

وہ چلتے وقت اس قدر وقار اور سر بلندی کے ساتھ قدم بڑھاتا تھا کہ بعض اسے متکبرسمجھتے تھے لیکن میں احساس کر تاتھا کہ اس کا ایک اور رازتھا وہ یہ کہ تواضع و انکساری میں اس متانت کا مظاہرہ کرتا تھا ۔ میں اسے نہیں جانتا تھا، یہاں تک اس نے مر تے وقت دو مرا جع کو اپنا وصی قرار دینا چاہا۔ اس نے سکرات الموت اور احتضار کی حالت میں ان دو مرا جع کے محضر میں کہا تھا:خداوندا! تو شاہد ہے کہ میں نے بالغ ہو نے کے دن سے آج تک جان بو جھ کر اور عمداً کوئی گناہ نہیں کیا ہے! جب کہ اس حال میں کہ سب اپنے گناہوں کا اعتراف کر تے ہیں،لیکن و ہ شخص دو مراجع کے محضر میں کہتا ہے کہ بالغ ہونے سے اس وقت تک میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے ۔ وہ بزرگ عالم کہتے تھے:میں نے جب وہ روداد سنیتومجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ میں اس راز اور حقیقت سے آگاہ ہوجائوںکہ تو میں نے اس کے دعوی کوسچا پایا۔ شاید وہ بزرگ عالم اس کے باطن کو دیکھ رہے تھے ،کیونکہ بعض اولیائے الٰہی افراد کے باطن کے بارے میں خبر رکھتے ہیں۔

ایسا شخص جو جوانی کی ابتدا سے گناہ کا مر تکب نہ ہواور صرف خدا پر نظر رکھتا ہو فرائض اور تکالیف الٰہی کو انجام دینے کی فکر میں ہو،یقینا وہ صدیقین کے مقام سے دور نہیں رہے گا۔

____________________

١۔المیزان د ار الکتب لاسلامیہ ، طبع سوم ج ١٣، ص ١٦٥

۲۔ہا تف اصفہانی کے اشعار

۳۔بحار الانوار ،ج ٢٣، ص ٢٣٣

۴۔ شیخ صدوق ، معانی الاخبار ، ص ٢٨٩

۵۔نہج البلاغہ (ترجمہ فیض الاسلام ) ،ج ١٨٤، ص ٦١٢

۶ ۔فیض کاشانی، محجہ البیضائ، ج ٨، ص ٢٥٨

۷۔ المیزان(دارالکتاب الاسلامیہ، طبع سوم)ج١،ص ٣٢٤۔٣٢٥

۸۔ بحار الانوار ، ج ١ ، ص ٣٤٥

۹۔ نہج البلاغہ '' ترجمہ شہیدی'' خطبہ ١٩٢ص٢٢٤

۱۰-المیزان(دارالکتب الاسلا میہ ،طبع سوم)ج١١،ص١٧٧۔١٨٩

۱۱۔ فیض کاشانی،المحجة ا لبیضاء ،ج٨،ص١٤

ستائیسواں درس:

خداوند متعال کے نزدیک مخلص بندے کی قدر و منزلت

* انسان کی بلندی و برتری کا معیار

* آزادی و اخلاص کا اثر

الف: عامل استقلال

ب: عامل اخلاص

خدا وند متعال کے نزدیک مخلص بندے کی قدر و منزلت

یا اباذر' ان ربک عزوجل یباهی الملائکة بثلاثة نفرٍ: رجل فی ارض قفرٍ فیوذن ثم یقیم ثم یصلی' فیقول ربک للملائکة؛ انظرو الی عبدی یصلی ولایراه احد غیری فینزل سبعون الف ملک یصلون وراء ه ویستغفرون له الی الغد من ذٰلک الیوم ورجل قام من اللیل فصلی وحده فسجد و نام وهو ساجد' فیقول تعالیٰ: انظروالی عبدی' روحه عندی وجسده ساجد؛ ورجل فی زحفٍ فر اصحابه وثبت هو ویقاتل حتی یقتل''

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحتوں کے اس حصہ کا مضمون یہ ہے کہ خدائے متعال اپنے بندوں میں سے تین گروہ کے بارے میں فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے۔ البتہ خدا وند متعال کے فخرو مباہات کا کیا معنی ہے اور وہ اپنے فرشتوں پر کیسے فخر کرتا ہے، یہ صحیح طور پر ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس روایت کے اس حصہ سے جو کچھ استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بندگان خدا کے تین گروہوں کا مقام فرشتوں سے برتر ہے اورخدائے متعال ان کے بلند مقامات اپنے فرشتوں کو دکھلاتا ہے۔

انسان کی بلندی اور برتری کا معیار:

اس میں کوئی شک نہیں ہے خدائے متعال نے اپنی مخلوقات میں ، انسان کو بعض امتیازات اور خصوصیات سے بہرہ مند فرمایا ہے کہ جوباقی تمام مخلوقات میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ مادی مخلوقات میں اسے عقل و فہم اور آگاہی عطا کی ہے، یہاں تک اسے کرامت بخشی اور خشکی اور دریائوں کو اس کے لئے مسخر کردیا:

( ولقد کرّمنابنی آدم وحملنا هم فی البر و البحرورزقنا هم من الطیبات وفضّلنا هم علی کثیرٍ ممن خلقنا تفضیلاً ) (اسرائ٧٠)

''اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریائوں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔''

اس کے علاوہ خدائے متعال نے انسان کو ایک صاحب اختیار اور انتخاب کرنے والی مخلوق پیدا کیا ہے، تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق سعادت یاشقاوت کے راستہ کا انتخاب کرے۔ اور اسے فطرت الہٰی عطا کی تاکہ اس کیذریعے سے تمام اقدار، خوبیوں اور الہٰی، فضائل کی طرف رجحان پیدا کرے اور اسے راہ سعادت بھی دکھایا۔ لیکن نہ تو وہ تکوینی کرامت انسان کے لئے فرشتوں پر برتری کا باعث ہے اور نہ ہی انتخاب اور اختیار کا عنصر، کیونکہ ممکن ہے انسان اختیار و انتخاب کے اسی گراں بہا عامل کے ذریعہ خوش بختی اور سعادت کی راہ کے بجائے بغاوت اور شقاوت کا راستہ اختیار کرے اور حق کی ڈگر سے منحرف ہوجائے اور گمراہی میں گر کر ذلیل ترین مخلوقات میں شمار ہوجائے:

( ان شرّالدّوابّ عند اللّٰه الذین کفروا فهم لا یؤمنون ) (انفال٥٥)

''زمین پر چلنے والوں میں بدترین افراد وہ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کرلیا اور اب وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔''

جو چیز انسان کے مقام کو فرشتوں کے مقام سے بڑھا کر برتری اور فضیلت کا سبب بنتی ہے وہ دستورات الہٰی پر عمل کرنا، انسان کے معنوی تکامل وترقی کے لئے کوشش اور مطلوبہ کمال تک پہنچنا ہے۔ یعنی انسان اپنی الہٰی فطرت کی بنیاد پر سعادت کے راستہ کا انتخاب کرے اپنی اور نفسانی خواہشات کو کچل دے اور اپنی مادی جبلتوں کی اصلاح کرے۔ جو انسان حیوانی اور مادی کشش کی توانائیاں رکھتا ہے، وہ انھیں کسی بھی وقت اس مادیات اور حیوانی لذتوں کی طرف کھنیچ سکتی ہے، جب وہ حیوانی توانائی پر کنڑول حاصل کرے اور حق وباطل سے رو برو ہوتے وقت حق کو انتخاب کرے اور فطرت کی بنیادوں پر عمل کرے، تو وہ مسجود ملائکہ بن جاتا ہے اور اس کا مقام ملائکہ کے مقام سے برتر ہوتاہے، اسی لئے حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

''یا اباذر' ان ربک عزوجل یباهی الملائکة بثلاثة نفرٍ: رجل فی ارض قفرٍ فیوذن ثم یقیم ثم یصلی' فیقول ربک للملائکة: انظرو الی عبدی یصلی ولایراه احد غیری فینزل سبعون الف ملک یصلون وراء ه ویستغفرون له الی الغد من ذٰلک الیوم''

''اے ابوذر! تیرا پرور دگار تین افراد کے بارے میں فرشتوں پر فخر کرتا ہے: پہلا شخص جس کے بارے میں خدا وند متعال فرشتوں پر افتحار کرتا ہے وہ ہے کہ جو کسی بیابان میں اذان واقامت کہے اور نماز قائم کرے۔ پرور دگار فرشتوں سے کہتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو جو اس حالت میں نماز پڑھ رہا ہے جبکہ کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا ہے، اس وقت ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور اس کی اقتدا کرتے ہیں اور دوسرے دن تک اس کے لئے استغفار کرتے ہیں''

دوسرا شخص جس کے لئے خدائے متعال فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے:

''ورجل قام من اللیل فصلّٰی وحده فسجد ونام وهوساجد فیقول تعالی: انظرو الی عبدی' روحه عندی وجسده ساجد''

''اور وہ شخص جو رات کو نیند سے بیدار ہوتا ہے اور تنہائی میں نماز پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اور سجدہ میں سوجاتا ہے، تو خدائے متعال فرماتا ہے: (اے فرشتو!) میرے بندے کو دیکھو اس کی روح میرے پاس ہے اور اس کا بدن سجدے میں ۔''

جو شخص نصف شب کو آرام دہ اور گرم بستر سے اٹھتا ہے، میٹھی نیند کو چھوڑ تا ہے اور اپنے پروردگار سے عبادات و مناجات میں مشغول ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے معبود کی مناجات میں اس قدر غرق ہوجاتا ہے کہ سجدہ سے سر نہیں اٹھاتا یہاں تک کہ اسے نیند آتی ہے، تو خدائے متعال اپنے فرشتوں سے کہتا ہے: دیکھ لو، میرا بندہ نصف شب کو آرام و آسائش کے بستر سے اٹھا ہے اور لوگوں کی نظروں سے دور میری مناجات اور عبادت میں مشغول ہے۔ وہ اپنی عبادت میں اس قدر طول دیتا ہے کہ تھک کر سجدہ میں سوجاتا ہے۔ اس کی روح میرے پاس ہے لیکن اس کا جسم سجدہ میں پڑا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے: اس کی روح میرے پاس ہے، کیونکہ نیند کی حالت میں انسان کی روح خدا کے پاس چلی جاتی ہے، اور یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ ہوا ہے:

( اللّٰه یتوفی الانفس حین موتها والتی لم تمت فی منامها فیمسک التی قضیٰ علیها الموت و یرسلٰ الاخری الی اجلٍ مسمی ) (زمر٤٢)

''اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتاہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسرے کی روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کر دیتا ہے۔''

قرآن مجید کی نظر میں حقیقی مومن وہ ہے جو اپنے پرور دگار کی بندگی اور عبادت کے لئے نصف شب کو بستر سے اٹھے اور نیند کو اپنے لئے حرام قرار دے:

( تتجافی جنوبهم عن المضاجع یدعون ربهم خوفاوطمعاً ) ...) (سجدہ ١٦)

''ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے پرور دگار کو خوف اور طمع کی بنیاد پر پکار تے رہتے ہیں۔''

جی ہاں، دوسروں کی نظروں سے دور نماز شب قائم کرنا اور طولانی سجدے انجام دینا اور خدا کے حضور میں تعظیم بجالا نا خدا کے لئے فخرو مباہات کا سبب بن جاتا ہے۔

تیسرا شخص کہ جس کے ذریعے خدائے متعال فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے:

''ورجل فی زحف فرّاصحابه وثبّت هو ویقاتل حتی یقتل''

''اور وہ شخص جو میدان جہاد میں ہو، اس کے دوستوں نے فرار کی ہو اور وہ ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کو جاری رکھے یہاں تک قتل ہو جائے۔''

خدائے متعال اس مجاہد سورما پر فخر و مباہات کرتا ہے، کہ حنگ میں شکست کھانے کے بعد دوسرے لوگ دشمنی کے مقابلہ میں تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ گئے ہوں اور وہ اکیلا ہی دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتا رہے اور زندگی کے آخری لمحہ تک لڑتار ہے، باوجود اس کے کہ دوسروں کی طرح بھاگ کر وہ بھی اپنی جان بجا سکتا تھا لیکن وہ خدا کی راہ میں شہید ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ جی ہاں، خدائے متعال اس شخص پر فخر کرتا ہے، جو یار و یاور کے بغیر دشمنوں کی ایک بڑی تعداد کے مقابلہ میں ڈٹ جاتا ہے، جبکہ ایسی حالت میں استقامت کرنا واجب نہیں ہے: صدر اسلام میں ابتدا میں ایک آدمی کا دس افراد کے مقابلے میں مقاوت کرنا واجب تھا اس کے بعد تخفیف دیدی گئی اور ایک آدمی کا دو افراد کے مقابلہ میں مقاومت کرنا واجب ہوا، لیکن اگر سب چلے گئے اور وہ تنہارہ گیا، تو اس کے لئے واجب نہیں ہے۔

بیشک، دشمن کے مقابلہ میں مقاومت کرنے کی توانائی رکھنے کی صورت میں جنگ سے فرار کرنا گناہ کبیرہ ہے اور قرآن مجید نے واضح طور پر جنگ سے فرار کرنے کو منع کیا ہے اور اس عمل کو خدا کے غضب کا سبب بیان کیا ہے اور جنگ سے بھاگنے والے کی جگہ جہنم بتائی ہے:

( یا ایها الذین آمنوا اذالقیتم الذین کفرو ازحفاً فلا تولوهم الأدبار ومن یولهم یومئذٍ دبره الا متحرفاً لقتالٍ اومتحیزاً الی فئةٍ فقد باء بغضبٍ من اللّٰه وماواه جهنم وبئس المصیر ) ۔) (انفال١٥و ١٦)

''اے ایمان والو! جب کفار سے میدان جنگ میں ملاقات کرو تو خبر دار انہیں پیٹھ نہ دکھانا۔ اور جو آج کے دن پیٹھ دکھائے گا وہ غضب الہٰی کا حق دار ہوگا اور اس کا ٹھکا نا جہنم ہوگا، جو بدترین انجام ہے علاوہ ان لوگوں کے جو جنگی حکمت عملی کی بنا پر پیچھے ہٹ جائیں یا کسی دوسرے گروہ کے پناہ لینے کے لئے اپنی جگہ چھوڑ دیں''

روایت کے اس حصہ سے بہت سے درس حاصل کئے جاسکتے ہیں: خدائے متعال کا اپنے بعض بندوں کے وجود کا ملائکہ پر فخر کرنا، اس معنی میں ہے کہ وہ ایسی اقدار کے مالک ہیں جن کی خدا کے پاس بہت اہمیت ہے، اگر دوسری خصوصیات ہوتیں جو انسان کے لئے بیشتر کمال کا سبب بنتیں اور خدا کے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل ہوتیں، تو خدائے متعال ان کا ذکر کرتا۔ جب خدائے متعال اپنے بعض بندوں کے بلند مقامات کو فرشتوں کے سامنے تعارف کرانا چاہتا ہے اور ان پر فخر کرتا ہے، تو حقیقت میں ان کے بہترین اقدار کو بیان کرتا ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ خدا کے بندوں کے وہ تین گروہ جو ایک بیایان میں لوگوں کی نظروں سے دور، آداب و مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھتا ہے اور جو نصف شب آرام و آسائش کے وقت بستر سے اٹھ کر خدا کی عبادت و مناجات میں مشغول ہوجاتا ہے اور وہ جو میدان کار زار میں دشمنوں کی بڑی تعداد کے سامنے اکیلا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے، یہاں تک جام شہادت نوش کرتا ہے کن خصوصیات کے حامل ہیں اور کن پہلوؤں میں مشترک ہیں کہ خدائے متعال انہیں اس حد تک مقام و منزلت بخشتا ہے؟

یقینا خدا کی راہ میں مال کے انفاق یا حسب ضرورت ایثار و قربانی یا عبادتیں اور دوسرے نیک اعمال، کہ جن کی شرع مقدس میں تاکیدکی گئی ہے، سب قابل قدر و اہمیت اور انسان کے کمال کے سبب ہیں، لیکن دیکھنا چاہئے وہ تین گروہ کن خصوصیتوں کے حامل ہیں اور ان میں کون سے مشترک عناصر پائے جاتے ہیں کہ اس حد تک ان کی تاکید کی گئی ہے؟

ان تین گروہوں میں خصوصیت اور مشترک عنصر تنہا ہوناہے پہلا شخص دوسروں کی نظروں سے دور تنہائی میں عبادت کرتا ہے اور دوسرا شخص نصف شب کو نیند سے اٹھ کر تنہائی میں مناجات کرتا ہے اور تیسرا شخص بھی دشمن کے سامنے تنہاڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ خدائے متعال اس شخص کے ثواب پرفخر و مباہات نہیں کرتا ہے جو محلہ کی مسجد میں یا جامع مسجد میں نماز پڑہتا ہے بلکہ اس پر فخر کرتا ہے جو بیابان میں تنہائی میں عبادت کرتا ہے یا اس کے سب دوست محاذ جنگ سے بھاگ گئے ہیں اور وہ تن تنہا دشمن سے مقابلہ کر رہا ہے۔ ممکن ہے کسی شخص نے دسیوں حملوں اورجنگی معرکوں میں حصہ لیا ہو اور بہت سی شجاعتوں کا مظاہرہ کیا ہومتعدد فتح و کامرانیاں بھی حاصل کر چکا ہو، لیکن اس کے باوجود تاکید اس شخص پر ہے جو محاذجنگ میں تنہا رہ گیا ہے پھر بھی اپنا فریضہ انجام دینے میں مشغول ہے۔

آزادی و اخلاص کا اثر:

الف: عامل استقلال

دو مہم عامل ،استقلا ل یعنی دوسروں کا اثر قبول نہ کرنا اور اخلاص، ان تین اشخاص کے انفرادی اقدام کی عظیم اہمیت کا سبب واقع ہوئے ہیں:

پہلے عامل کی وضاحت، یعنی استقلال کی و ضاحت میں یہ کہنا بہتر ہے کہ: اکثر لوگ دوسروں کے الہامات اور رفتار سے متأثر ہوتے ہیں انسان کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ ایک راہ پر جارہے ہیں اور ایک رفتار انجام دے رہے ہیں، وہ بھی اسی راہ پر چلناچاہتا ہے اور اس رفتار کی طرف میلان پیدا کرتا ہے۔ گویا دوسروں کا اقدام اور ان کی روش انسان کے لئے راستہ کے انتخاب کرنے اور اس پر چلنے کا ایک ایسا عامل ہے جو اس کی مدد کرتا ہے: جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ خیر و صلاح کی راہ پر گامزن ہیں، تو وہ بھی ان کی پیروی کرتا ہے۔ البتہ یہ انسان کے لئے ضعف و کمزوری کی علامت ہے اور خدائے متعال نے انسان میں یہ عنصر قرار دیا ہے تاکہ جو لوگ ضعیف ہیں، صالح افراد کی پیروی کر کے صحیح راستہ کا انتخاب کریں۔ اگر چہ ایسے افراد غلط اور برے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں اور ممکن ہے دوسروں سے وابستگی اس امر کا سبب بنے کہ انسان دوسروں کی پیروی میں باطل راستہ کو پسند کرے اور حالات اور شرائط کے بدلنے کے ساتھ وہ بھی تبدیل ہو جائے اور رسوائی سے بچنے کے لئے وہ بھی انھیں کے رنگ میں ڈھل جائے۔ خدائے متعال ایسے ضعیف انسانوں کے انجام کے بارے میں کہ جو سوچے سمجھے بغیر اہل باطل کی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اپنے اختیار کی لگام دوسروں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( واذاقیل لهم اتبعو اماانزل اللّٰه قالوا بل نتبع ما الفینا علیه آباء نا اولو کان آباوهم لا یعقلون شیئاً ولا یهتدون ) ۔'' (بقرہ ١٧٠)

''جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ ایساہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں''

البتہ احکام الہٰی اور شرعی فرائض کے بارے میں ، جو شخص آگاہی اور پہچان نہ رکھتا ہو، اس پر فرض ہے کہ عالم سے پوچھ لے، خواہ وہ حکم خدا کے بارے میں جاہل ہو یا حکم خدا کے موضوع کے بارے میں (یہ دین میں فقیہ اور مجتہد کی تقلید کرنے کے معنی میں ہے) البتہ یہ شخص جو تقلید کے ذریعہ احکام خدا سے آگاہ ہوتا ہے اس شخص کے برابر نہیں ہے جو محنت و مشقت کر کے احکام دین کو خود استنباط کرتا ہے، کیونکہ مجتہد اور عالم کی معرفت استقلالی ہے اور جاہل کی معرفت تقلیدی، اور یہ دونوں یکساں نہیں ہیں اور یقینا معرفت استقلالی برتر ہے۔

اسی طرح موضوعات کے بارے میں ، خاص کر اجتماعی مسائل کے بارے میں اکثر لوگ بہ حد کافی آگاہی نہیں رکھتے ہیںاور وہ مجبور ہیں کہ ایسے افراد کی پیروی کریں کہ جو ان موضوعات کے بارے میں علم و آگاہی رکھتا ہے ان کی یہ پیروی اگر راہ حق سے انحراف کا باعث نہیں ہے تو موجب سرزنش نہیں ہوگی ، لیکن ایسا شخص کہ جو عالم ہے اورجس کے ہاتھ میں چراح ہدایت ہے کہ جس سے وہ دوسروں کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے، بلند تر ین مقام و منزلت پر فائز ہے۔

شناخت استقلالی کے علاوہ اس سے اہم مرحلہ انسان کے لئے اس کے ارادہ اور عمل میں استقلال ہے: کبھی انسان اجتہاد یا تقلید کے ذریعہ موضوع کو پہچانتا ہے، لیکن عمل کے مقام پر اگر تنہا ہے تو معلوم نہیں ہے کہ جو کچھ جانتا ہو اس پر عمل کریگا۔ جی ہاں، اگر وہ ایک جماعت کے ساتھ ہے اور خاص کر اس جماعت کے افرادبہت زیادہ ہیں تو وہ اقدام کرتا ہے، لیکن تنہائی میں سستی کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہر ایک اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری مثالیں رکھتا ہے: مثال کے طور پر ایک مدرسہ میں جہاں طلاب کی ایک تعداد رہائش پذیر ہے، اگر شب جمعہ دعائے کمیل کی مجلس منعقد ہوجائے، جب انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ طلاب گر وہ گر وہ اس مجلس میں حاضر ہو رہے ہیں تو اس میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ اس جلسہ میں شرکت کرے۔ لیکن ایک چھٹی کی شب کو، جب سب طلاب مسافرت پر گئے ہوں، اس کے لئے مشکل ہے کہ تنہا دعائے کمیل پڑھے۔ اسی طرح دوسرے نیک کام انجام دینے میں ، جب انسان دیکھتا ہے کہ دوسرے اس کام کو انجام دے رہے ہیں، وہ بھی جوش میں اس کام کو کرتا ہے، لیکن جب تنہا ہوتا ہے تو بہانے تلاش کرتا ہے، اس کے اندر اتنی کشش نہیں ہے کہ اسے فیصلہ کرنے پر مجبور کرے۔ بالآخر جس طرح بھی ممکن ہو وہ اس کام سے پہلوتہی کرتا ہے۔ یا جب رات کو دیکھتا ہے کہ کمروں کے لیمپ روشن ہیں اور دوسرے لوگ رات گئے تک مطالعہ میں مشغول ہیں، اس میں بھی مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی رات گئے تک مطالعہ کرتا ہے۔ لیکن جب مدرسہ میں چھٹی ہوتی ہے اور مدرسہ میں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتا ہے، اس کے اندر پھر وہ کشش نہیں ہوتی ہے اور مطالعہ کی رغبت نہیں رکھتا ہے۔یہاں جو کچھ بیان ہوا وہ ہماری اجتماعی اور سیاسی رفتاروں کا ایک نمونہ تھا، اس سلسلہ میں مزید اور مثالیں بھی ممکن ہیں۔

اس سستی اور دوسروں سے وابستگی کی علت ارادہ اور ایمان کی کمزوری ہے۔ کیا جب دوسرے کسی کام کو انجام دیتے ہیں تو اس کام کی قدر و منزلت ہوتی ہے اور وہ انجام نہ دیں تو اس کی قدر و منزلت ختم ہوجاتی ہے؟ اگر دعائے کمیل کی فضیلت اور قدر و منزلت ہے تو ہمیں اسے تنہائی اور خلوت میں پڑہنے کے لئے بھی اہمیت دینی چاہئے، نہ یہ کہ جب اس کے لئے کوئی اجتماع منعقد ہو تو ہم بھی پڑھیں۔ یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہے کہ جب دوسروں کو دعائے کمیل پڑھتے دیکھتا ہے یا دیکھتا ہے کہ دوسرے لوگ گروہ درگروہ نماز جمعہ کی طرف جا رہے ہیں، اس میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے، یہ انسان کے لئے قابل فخر نہیں ہے۔ اس کا عمل اسی وقت فخر کا سبب ہے کہ جب تنہا ہو کوئی اس کے ساتھ نہ ہو اور وہ جس چیز کو تشخیص دے اس پر عمل کرے اور انتظار نہ کرے دوسرے افراد اس کا ساتھ دیں گے۔

جب میں جانتا ہوں کہ خدائے متعال مجھ سے کوئی کام لیناچاہتا ہے تو مجھے اس کام کو انجام دینا چاہئے اور مجھے اس سے سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی میرا ساتھ دیتا ہے یا نہیں، کیونکہ دوسروں کی عدم ہمراہی اور تنہاہو نے سے اس کام کی قدر و منزلت میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی ہے اس سے انسان کے اندر قوت ارادی پیدا ہوتی ہے اور اپنے قوی اور بلندی ایمان سے اپنے فرائض پر یقین پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے اس کام کو انجام دینے میں بلاواسطہ فیصلہ کرتا ہے، خواہ دوسرے اس کا ساتھ دیں یا نہ۔ یقینا فیصلہ کرنے میں استقلال کافی اہمیت رکھتا ہے، کہ انسان فیصلہ کرتے وقت اس کا انتظار نہ کرے کہ دوسرے لوگ کو نسا راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ بھی اسی راستہ پر چلے۔ وہ تو خود قوی ارادہ و ایمان کا مالک ہے، اگر کسی کام کو اپنا فرض سمجھ لیا اور دیکھتا کہ اس میں خدا کی مرضی ہے تو اس کام کو انجام دیتا ہے اور دوسروں کے انتظار میں نہیں رہتا ۔

جابربن یزید جعفی، ائمہ اطہار علیہم السلام کے ہم اسرار اصحاب میں سے تھے، انہوں نے امام جعفرمحمد باقر علیہ السلام سے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ بہت سی روایتیں جو امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر کو نقل فرمائی تھیں، اسرار تھیں اور جابر کو اجازت نہیں تھی کہ انہیں دوسروں کے پاس نقل کریں۔ چونکہ وہ ان خالص معارف الٰہی کے جام کو تشنگان معرفت تک نہیں پہنچاسکتے تھے، ا س کی وجہ سے وہ اپنے سینہ میں تنگی محسوس کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

''جو اسرار آپ نے مجھ سے بیان فرمائے ہیں اور حکم دیا ہے کہ کسی سے نہیں نقل نہ کروں، یہ میرے کندہوں پر ایک بار گراں ہے جس نے میرے سینہ میں اتنا دبائو پیدا کردیا ہے، کہ میں دیوانہ ہو رہا ہوں! امام علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر! اگر تمھاری یہ کیفیت ہورہی ہے توبیابان میں جا کر ایک گڑہا کھود کر اپنے سرکو اس گڑھے میں ڈال کر کہو: ''محمد بن علی علیہ السلام نے فلاں حدیث مجھے روایت کی ہے''(۱)

اس کے بعد جابر کنویں میں سرڈال کر امام محمد باقر علیہ السلام کی روایتیں بیان کرتے تھے تاکہ تھوڑا سا(دل) ہلکا ہوجائے۔ من جملہ روایتوں میں سے جنہیں جابر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کی ہے، یہ روایت ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

''...واعلم بانک لا تکون لناولیاً حتی لو اجتمع علیک اهل مصرک وقالوا: انک رجل سوء لم یحزنک ذٰلک ولوقالوا: انک رجل صالح لم یسرک ذٰلک وٰلکن اعرض نفسک علی کتاب اللّٰه فان کنت سالکاً سبیله' زاهداً فی تزهیده' راغباً فی ترغیبه خائفاً من تخویفه فاثبت وابشر فانه لا یضرک ماقیل فیک ...''(۲)

''جان لو ہمارے محب دوستدار نہیں بن سکتے ، مگر یہ کہ تمھارے شہر کے لوگ متفقہ طور پر تمھارے خلاف ہوجائیں اور کہیں : تم ایک بُرے انسان ہو، تو تم غمگین اور بے چین نہیں ہو نا اور اگر وہ سب کہیں ۔ تم ایک شائستہ انسان ہو، تو خوشحال نہ ہونا لیکن خود کوکتاب خدا کے حوالہ کردو ا گر دیکھو کہ تم اس کتاب کے راستہ پر چل رہے ہو جن مواقع پر یہ کتاب زہد کی دعوت دے، تو زہد کو اپنا شیوہ قرار دو اور جس چیز کی تاکید اور ترغیب دے، اس کی رغبت پیدا کرو اور جس چیز سے ڈراتی ہے، اس سے خوف کھائو، تم اپنی جگہ پر مستحکم اورخوش رہو پھر، لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس سے تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔''

امام محمد باقر علیہ السلام جابر کو اعتماد اور خدا پر توکل کی دعوت دیتے ہیں کہ اس قدر خدا پر اعتماد کرے کہ لوگوں کا مردہ باد! یا زندہ باد! کہنا تم پر کسی قسم کا اثر نہ کرے اور اپنی رفتار وگفتار کو قرآن مجید کے مطابق قرار دے۔ اب اگر اس نے دیکھا کہ اس کی رفتار حکم الہٰی کے مطابق ہے۔ تو چاہئے کہ وہ خوشحال ہو اور اس توفیق کے حاصل ہونے کے لئے خدا کا شکر بجالا ئے۔ اور اگر دیکھے کہ اس کی رفتار قرآن مجید کے مطابق نہیں ہے، تو بے چین ہواس بات پر کہ خدائے متعال اس سے راضی نہیں ہے۔ پس انسان کے خوش ہونے یا ناخوش ہونے کا معیار خدائے متعال اور قرآن مجید کے احکام ہونا چاہئے، نہ لوگوں کا راضی یا ناراض ہونا۔

اگر انسان فیصلہ کرتے وقت کافی علمی توانا ئی رکھتا ہے، تو اسے فریضہ کی تشخیص کے وقت مستقل ہونا چاہئے اور دوسروں کا تابع نہیں ہونا چاہئے۔ جو عقل خدانے اسے دی ہے اسی سے فکر کرے اور قرآن مجید اور روایات کے مطابق اپنے فریضہ کو تشخیص دے اور اس کی پروا نہ کرے کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس کے بعد ، جو اپنا فریضہ تشخیص دیا ہو اس پر عمل پیرارہے اور دوسروں کی ہمراہی اور مدد کے انتظار میں نہ ر ہے حتی اگر دشمن سے مقابلہ میں تنہا رہ جائے، اگرچہ ہمارے لئے اس صورت میں لڑنا واجب نہیں ہے، لیکن چونکہ اس نے دیکھا کہ دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کر نے میں خدائے متعال کی رضامندی ہے تو تن تنہامقابلہ و مبارزہ کو جاری رکھے، خواہ اسے شہید ہونا بھی پڑے۔ یقینا ایسی بہادری اور شجاعت کہ شخص تنہائی میں بھی اپنے مقصد اور راہ کی حفاظت میں آرام سے نہ بیٹھے اور مبارزہ کرتا رہے تو اس کا یہ عمل انتہائی گراں بہا اور خدا کے فخر و مباہات کا سبب ہوگا۔ اس مبارزہ کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''واللّٰه لو تظاهرت العرب علی قتالی لما ولیت عنها ولو امکنت الفرص من رقابها لسارعت الیها ...''(۳)

''خدا کی قسم اگر عرب میرے ساتھ لڑنے میں سب مل کر مقابلے میں آئیں تو بھی میں ان کی طرف پیٹھ نہیں پھیر وں گا اور فرصت ہاتھ آئے تو ان پر تابڑتوڑ حملہ کروں گا۔''

لہذا، پہلا عامل یہ ہے کہ خدا وند پسند فرماتا ہے کہ مومن تشخیص اور فریضہ کی پہچان میں نیز اپنی رفتار اور علم میں مستقل ہو اور دوسروں کا منتظر نہ رہے اور دوسروں کے جیسا نہ ہو ۔ البتہ جیسا کہ کہا گیا کہ اس سے یہ غلط مطلب نہ لیا جائے کہ انسان کو خود سر اور ضدی بن کر ہمیشہ دوسروں کے برخلاف عمل کرنا چاہئے، یعنی اگر اس نے دیکھا کہ دوسروں نے کوئی کام انجام دیا ہے تو اس کوقطعاً اس کے برعکس کام انجام دینا چاہئے یہ تو ایک ناپسند، ناشائستہ اور بہت احمقانہ صفت ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان فیصلہ کرتے وقت اور فریضہ کی تشخیص اور ان پر عمل کرنے میں آزاد ہونا چاہئے اور دوسروں کی تشویق، ہمراہی اور ہم فکری کا منتظر نہ رہے۔ پس، اگر اس نے اپنے فریضہ کو تشخیص دیا اور دیکھا کہ دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ ہیں تو بہت اچھا ہے۔

انسان کوایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کسی چیز کو فریضہ کے طور پر تشخیص دیدیا اور بعد میں سمجھ لے کہ اس نے غلطی کی تھی، پھر بھی اپنی بات پر ہٹ دھرمی کرے تو یہ اچھی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ناپسندیدہ خصلت ہے۔ انسان کو ہمیشہ اپنے اخلاق، رفتار اور تفکر میں نظر ثانی کرنی چاہئے اور اگر اسے معلوم ہوجائے کہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے، تو اسے کمال شجاعت سے اعتراف کرنا چاہئے اور ہٹ دھرمی نہ کرے اور اپنی بات پر ضد نہیں کرنی چاہئے۔مومن کی جب حق کی طرف ہدایت ہوتی ہے تو اسی کو انجام دیتا ہے۔

ب۔ اخلاص کا عامل:

دوسرا عامل جو خدا کے لئے ان تین گرو ہوں پر فخر و مباہات کرنے کا سبب بنا، اخلاص ہے۔ بیابان میں تنہائی کے عالم میں نماز پڑھنے والے کی نماز میں ریاکا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے تاکہ اس کے حالات کا مشاہدہ کرے اور پھر دوسروں کے لئے اسے نقل کرے۔ یقینا ایسے عمل کا اخلاص، اس عمل سے بیشتر ہے جو دوسروں کے سامنے انجام پاتا ہے۔

اگر انسان لوگوں کے سامنے پورے آداب کے ساتھ نماز پڑھے، تو بھی اس بات کا امکان ہے شیطان اسے وسوسہ میں مبتلا کردے، چونکہ شیطان مکار ہے انسان نے جس قدر بھی وارستہ اور تہذیب یافتہ ہو ہو ممکن ہے شیطان کے ہاتھوں شکست کھاجائے، جب وہ دوسروں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اس کے دل میں ریا پیدا ہوجاتی ہے، اسے یہ چیز پسند ہے کہ دوسرے اس کے عمل کو دیکھ لیں یا اس کی آواز سن لیں۔ لیکن جب ایک بیابان میں تنہا ہے اور اذان و اقامت کے ساتھ کر نماز پڑھتا ہے، ممکن نہیں ہے ریا کرے۔ یا جو نصف شب کو، دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے اور سجدہ میں اتنا طول دیتا ہے کہ اسے نیندآجاتی ہے، یہاں پر ریا کا تصور ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر کوئی نہیں ہے جو اس کی حالت کا مشاہدہ کرے۔

جو میدان کار زار میں میں اکیلا رہ گیا ہے اور تن تنہا جہاد کر رہا ہے، ممکن نہیں ہے ریا کرے، کیونکہ وہاں پر اس کے دوست واحباب نہیں ہیں جو یہ کہیں: کیا شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے! اور اس کی شہادت کے بعد اس کی بہادری کے بارے میں لوگوں کو بتائیں۔ دشمن تو اس کی فضیلتوں کو نقل نہیں کرے گا۔ لہذا ایسے افراد کے لئے ریاکاری اور خود نمائی کے قصد کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس بنا پر جو دوسری مشترک خصوصیت ان تین گرو ہوں میں پائی جاتی ہے اور خداکے لئے فخر و مباہات کا سبب ہے وہ انتہائی خلوص ہے جو ان میں پایا جاتا ہے اور انہیں ریا اور خود نمائی میں آلودہ ہونے سے پاک و صاف کرتا ہے۔

جیسا کہ مشاہدہ کیا گیا کہ ان تین گرو ہوں کے عمل کی ساخت اور شکل ممکن ہے دوسرے لوگوں کے عمل کے مانند ہی ہو، پس جوچیز ان کے اس عمل کو ممتاز بناتی ہے اور اسے ایسا گراں بہا گوہرمیں تبدیل کرتی ہے کہ خدائے متعال اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے وہ اخلاص ہے، جو اس عمل کو صرف خدا کے لئے انجام دینے کا سبب ہے، اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اور روایتوں میں آیا ہے کہ اخلاص عمل کی بلندی اور اس کے قبول ہونے کا سبب ہے:

(( انا انزلنا الیک الکتاب بالحق فاعبد اللّٰه مخلصاً له الدین الا للّٰه الدین الخالص ) ...) (زمر٢و٣)

''ہم نے آپ کی طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا، لہذا آپ مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں، آگاہ ہوجائو خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے''

ایک حدیث میں آیا ہے:

''من اخلص لنا اربعین صباحاً جرت ینابیع الحکمه من قلبه علی لسانه ''(۴)

''جو چالیس دن تک خدا کے لئے اخلاص سے کام لے، حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں ''

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیۂ مبارکہ :

( لیبلوکم ایکم احسن ) ) (ملک٢)

''تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔''

کے بارے میں فرمایا:

''...لیس یعنی اکثر عملاً ولٰکن اصوبکم عملاً وانما الاصابة خشیة اللّٰه والنیة الصادقة والحسنة ثم قال: الابقاء علی العمل حتی یخلص اشد من العمل' والعمل الخالص الذی لا ترید ان یحمدک علیه احد الا اللّٰه عزوجل والنیة افضل من العمل ...''(۵)

''خدا کا مقصود زیادہ عمل کرنا نہیں ہے بلکہ مقصود درست اور صحیح عمل کرنا ہے اور بیشک یہ وہی خدا کا خوف اور سچی اور نیک نیت ہے، اس کے بعد فرمایا: عمل کو خالص بنانے میں پائداری، خود عمل سے سخت تر ہے اور خالص عمل وہ ہے کہ تم اس عمل کے بارے میں خدا کے علاوہ کسی سے ستائش کے خواہاں نہ ہو اور نیت عمل سے بہتر ہے ''

لہذا جو کچھ بیان ہوا اس کے پیش نظر، ممکن ہے ہمارا کوئی ایسا عمل ہوجو بافضیلت اور اس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہو، جیسے باجماعت نماز پڑھنا، کہ روایتوں کے مطابق اس کے ثواب کو ملائکہ بھی گن نہیں سکتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں ہے اس قسم کی نماز کا خلوص اس نماز کے خلوص کے برابر ہو کہ جسے ایک بندہ تنہا بیابان میں انجام دیتا ہے۔

بہر صورت شیطان وسوسہ کرتا ہے اور انسان تنہا ہوتا ہے اس کے لئے مشکل ہے عبادت میں خلوص پیدا کرنا وہ بھی آداب کے ساتھ، کیونکہ اس کا اندرونی ارادہ اور شوق اتنا قوی نہیں ہے، لیکن اگر دوسرے اس کے ہمراہ ہوں خارجی مدد اس کے ہمراہ ہوتو، عبادت کو بہتر صورت میں انجام دیسکتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ،ج٢ص٦٩ حدیث٫٢٢

٢۔ بحار الانوار ،ج٧٨ص١٦٢ح١

۳۔ نہج البلاغہ ترجمہ فیض الاسلام مکتوب ٣٥ص٩٧١

۴۔ بحار الانوار ،ج٦٧ص٢٤٢

۵۔اصول کافی (باترجمہ)ج٣،ص ٢٦


9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21