زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 38880
ڈاؤنلوڈ: 3070


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38880 / ڈاؤنلوڈ: 3070
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

پینتیسواں درس:

تقوی ، زہد اور پرہیزگاری کی منزلت

*تقوی کا مفہوم اور خوف سے اس کارابطہ

*تقوی کی اہمیت اور اس کو حاصل کرنے کے راستے

*مراتب تقوی پر ایک نظر

*آثار تقوی پر ایک نظر

*متقین کے حساب و کتاب کی خصوصیت اور چند دوسری خصوصیات

*پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیان میں زہدو تقوی

تقوی، زہد اور پرہیزگاری کی منزلت

''یا اباذر؛کن بالتقوی اشد اهتماما منک بالعمل فانه لایقل عمل بالتقوی، وکیف یقل عمل یتقبل؟ یقول اللّٰه عزوجل:( انما یتقبل اللّٰه من المتقین ) (۱) یا اباذر؛ لایکون الرجل من المتقین حتی یحاسب نفسه اشد من محاسبة الشریک شریکه فیعلم من این مطعمه و من این مشربه و من این ملبسه؟ امن حل ذلک ام من حرام یا اباذر؛ من لم یبال من این اکتسب المال لم یبال اللّٰه عزوجل من این ادخله النار.

یا اباذر؛ من سره ان یکون اکرم الناس فلیتق اللّٰه عزوجل. یا اباذر؛ ان احبکم الی اللّٰه جل ثناؤه اکثرکم ذکرا له و اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم له و انجاکم من عذاب اللّٰه اشدکم له خوفا. یا اباذر؛ ان المتقین الذین یتقون من الشی الذی لایتقی منه خوفا من الدخول فی الشبهة.

یا اباذر؛ من اطاع اللّٰه عزوجل فقد ذکر اللّٰه و ان قلت صلاته و صیامه و تلاوته للقرآن. یا اباذر؛ اصل الدین الورع و راسه الطاعة. یا اباذر؛ کن ورعا تکن اعبد الناس و خیر دینکم الورع.

یا اباذر؛ فضل العلم خیر من فضل العباده و اعلم انکم لو صلّیتم حتی تکونوا کالحنایا و صمتم حتی تکونوا کا لأوتار ما ینفعکم الا بورع. یا اباذر؛ اهل الورع والزهد فی الدنیا هم اولیاء اللّٰه حقا))

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کے اس حصہ کا موضوع تقوی ہے۔ تقوی کے گوناگوں مواقع کے بارے میں اخلاق کی کتابوں میں فراواںبحثیں ہوئی ہیں۔اس سے پہلے بھی ہم نے اس موضوع پر بحث کی ہے۔اس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کے بعض بنیادی مطالب کو بیان کریں گے جن کو تقوی کے سلسلہ میں اس کے مقدمہ کے طور پر بیان کرنا مناسب ہے۔

تقوی کا مفہوم او رخوف سے اس کا رابطہ:

لفظ ''تقوی'' مادہ ''وقایہ'' سے اور فعل ''اتقی یتقی'' کا اسم مصدر ہے اور مصدر ''اتقائ'' کا معنی اپنے آپ کو یا کسی دورسرے کو کسی خطرہ سے روکنا ہے۔ ''اتقائ'' کی تین اسم مصدر ہیں ان میں سے دوقرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں، یعنی ''تقوی'' اور ''تقاة'' اور اس کا تیسرا اسم مصدر '' تقیہ '' ہے۔ اور یہ تینوں لغت میں ایک ہی معنی میں ہیں(نہج البلاغہ میں کبھی ''تقیہ'' تقوی کی جگہ استعمال ہواہے)

''اتقائ'' باب افتعال کا مصدر ہے اور مادہ ''وقایہ'' سے لیا گیا ہے اور چونکہ کہا گیا کہ ''تقوی'' اتقاء کا اسم مصدر ہے کہ جو اصل میں ''وقوی'' تھا اور اس کے بعد اس کا ''فاء الفعل'' ''تا '' میں تبدیل ہوا، جیسے ''تراث'' اصل میں ''وراث'' تھا۔

پس یہ ''تقوی '' ہوا، جو لغت میں اپنے آپ کو خطرہ سے روکنے کے معنی میں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ خطرہ کیا ہے۔ لیکن جب کلمہ''تقوی'' اخلاقی یا قرآنی مباحث میں استعمال ہوتاہے تو اس کا سے مراد وہ خطرہ ہے جس سے اپنے آپ کو روکنا چاہئے، یہاں پر ہر خطرہ نہیں ہے بلکہ وہ خطرہ ہے جو انسان کی سعادت و آخرت میں در پیش ہے۔ اگر چہ قرآن مجید میں ''اتقائ'' اپنے آپ کو اس خطرہ سے روکنے کے معنی میں استعمال ہواہے جسے دوسرے انسان کسی شخص کواس کی طرف متوجہ کرتے ہیں:

( ''لایتخذ المؤمنون الکافرین اولیاء من دون المومنین و من یفعل ذلک فلیس من اللّٰه فی شیٔ الا ان تتقوا منهم تقاة '' ) (آل عمران٢٨)

''خبر دار صاحبان ایمان، مومنین کوچھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمھیں کفار سے خوف ہوتو کوئی حرج بھی نہیں ہے...''

لیکن جب بات تقوائے الٰہی کی ہو یا آیات و روایات میں مطلق تقوی و متقین کے بارے میں بات ہوتی ہے تو اس سے مرادتقوائے الہی ہے ، او ر ایسے لوگوں سے گفتگو ہے جو دینی اور معنوی مسائل کے بارے میں خطرہ کا احساس کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے دین کے بارے میں موجود ہ خطرہ سے خائف ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ خود کو اس سے بچائیں ، پس ''اتقائ'' کی بنیاد خطرہ کے بارے میں احساس خوف ہے۔ احساس خطرہ و خوف کے بعد انسان ایسا کام کرتا ہے تا کہ اس خطرہ سے محفوظ رہے اور کم از کم اس خطرہ سے دور رہے۔ اس معنی و مفہوم کو پرہیزگاری کہتے ہیں (حقیقت میں پرہیزگاری تقوی الہی کی شرط ہے، کیونکہ گناہ او رخطرہ سے اپنے آپ کو بچانے کی شرط پرہیز اور اس خطرہ سے دوری اختیار کرنا ہے)

قرآن مجید میں بعض اوقات قیامت کا دن مطلق تقوی کے طور پر ذکر ہوا ہے کہ اس روز بُرے اعمال کے خطرات او رنتائج ظاہر ہوتے ہیں، چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے:

( واتقوا یوما لاتجزی نفس عن نفس شیئا ) (بقرہ١٢٣)

''اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کا عوض اور بدلہ نہیں قرار دیا جائے گا۔''

اور کبھی گناہوں کی وجہ سے انسان کو سزا دینے والا متعلق تقوی کے طور پر ذکر ہواہے، مثال کے طور پر''واتقوالله '' (۲) کا معنی خداسے پرہیز کرنااور اس سے دوری اختیار کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کامعنی یہ ہے کہ جو خطرہ عذاب الہی کی طرف سے تم پر متوجہ ہوتا ہے، اسی سے پرہیز کرو۔پس خدائے متعال سے خوف در اصل اس عذاب سے خوف ہے جس کا انسان کو اس کے برے اعمال کی وجہ سے سامنا کرناپڑتاہے۔

بہر حال تقوائے الٰہی کے معنی اس کے مبدأ کے پیش نظر خوف لیا گیا ہے او ر اس لحاظ سے خوفِ خدا بھی معنی کیا جاسکتا ہے۔ کبھی تقوی اس ملکہ کو بھی کہتے ہیں جو گناہ سے پرہیز او ردوری کی تکرار کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتاہے۔لہٰذا جوانسان ایک بار گناہ سے دوری اختیار کرتاہے اسے متقی نہیں کہتے ہیں، لیکن جب تر ک گناہ میں اس قدر ثابت قدم رہے کہ اس میں ترک گناہ کا ملکہ پیدا ہوجائے تو اسے متقی کہتے ہیں۔ لہٰذ ا نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی مبدا فعل کو تقوی کہتے ہیں کہ جو خوف خدا ہے اور کبھی ملکہ نفسانی کو کہتے ہیں جو گناہ سے پرہیز کی تکرار کی نتیجہ میں انسان میں پیدا ہوتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام تقوی کو ایک روحانی و معنوی حالت کے معنی میں ذکر فرماتے ہیں جوانسان کو گناہ و انحراف سے روکتی ہے۔ اگر یہ وہیملکہ نفسانی ہے ۔تو خوف خدا کو اس کا ایک اثر تصور کرنا چاہئے :

''عباد اللّٰه ان تقوی اللّٰه حمت اولیاء اللّٰه محارمه والزمت قلوبهم مخافته حتی أسهرت لیالیهم و اظمات هواجرهم..'' (۲)

''خدا کے بندو! تقوائے الہی خداکے دوستوں کو فعل حرام انجام دینے سے روکتا ہے اور (عذاب کے) خوف و ترس کو ان کے دل میں قرار دیتا ہے۔ راتوں کو (عبادت کے لئے) بیدار رکھتا ہے، او رشدت کی گرمی کے دنوں (روزہ رکھنے کے لئے) انھیں پیا سارکھتا ہے۔''

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:

''ذمّتی بما اقول رهینة و انابه زعیم، ان من صرحت له العبر عما بین یدیه من المثلات حجزته التقوی من تقحّم الشبهات '' (۳)

''اپنی ذمہ داری کو اپنی بات کی ضمانت قرار دیتا ہوں اور اس طرح اپنی بات کے صحیح ہونے کی ضمانت دیتا ہوں۔ اگر انسان کے لئے گزشتہ عبرتیں آئندہ کا آئینہ قرار پائیں تو تقوی ، مشکوک کاموں میں پھنسنے سے روکتا ہے۔''

جی ہاں ، تقوی ایک ایسے بندے کاسب سے بڑا ، سرمایہ ہے کہ اس کے خطرات سے پر خوف زدہ زندگی میں اور بلاؤں و گناہوں کے پر تلاطم سمندر کی خطرناک لہروں میں اس کی مدد کرتاہے تا کہ وہ سعادت کی راہ کوتلاش کرے او راسے طے کرے کہ یہ راستہ تقوای الٰہی کے بغیر طے نہیں کیا جاسکتا ہے:

نیست جز تقوی در این رہ توشہ ای

نان و حلوا را بنہ در گوشہ ای

(اس راستہ میں تقوی کے علاوہ کوئی اور زاد راہ نہیں ہے۔ تم روٹی اور حلوا کو ایک گوشہ میں رکھو)

تقوی کی اہمیت اور اس کو حاصل کرنے کے راستے:

تقوی کی اہمیت اور اس پر تاکید کی علت اس سے معلوم ہوتی ہے کہ بنیادی طور پر دین، پیغمبروں کا مبعوث ہونا اور آسمانی کتابوں کا نازل ہونا صرف اس لئے تھا کہ بشر اپنی سعادت کی راہ کو حاصل کر لے اور سنجیدگی کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہوجائے تا کہ خلقت کا اصلی مقصد و ہدف یعنی آخرت کی بے شمار اور لا متناہی رحمتوں سے سرفراز ہو جائے لہٰذا اس ہدف تک پہنچنے کے لئے جس قدر موثر اقدام کرے گا اتنی ہی اس کی زیادہ اہمیت ہوگی اور دوسرے الفاظ میں چونکہ نبوت او رالہی شریعتوں کی حقیقت بشر کو راہ راست کی ہدایت کرنا ہے، اس لئے آیات الہی اور جو کچھ اولیائے الہی کے ذریعہ لوگوں تک پہنچاہے، اس میں کوشش کی گئی ہے کہ لوگوں کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ ان احکام پر عمل کریں اور چونکہ انسان کے عمل کا سرچشمہ انسان کی نفسانی خواہش ہے، یعنی انسان کا اختیاری عمل اس کی خواہشات کاسرچشمہ ہے اور انسان کے ارادہ کی عمدہ بنیادیں خوف و امید میں پیوست ہوتی ہیں، پیغمبروں اوران کے جانشینوں نے اس راستہ سے استفادہ کیا ہے کہ ترس و امید کو انسان میں زندہ کریں اور انھیں ایک ایسی چیز کی طرف متوجہ کریں کہ جس میں انسان کی خلقت کا مقصد ہو۔

تقوی کے مفہوم اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہونے کے بعد، یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ تقوی کے پیدا ہونے کی راہیں کونسی ہیں؟ اور ہم ذیل میں خلاصہ کے طور پر تقوی کے پیدا ہونے کی تین راہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔ مستقبل پر نظر: اس کے پیش نظر کہ تقوی انسان کے مستقبل کازادراہ ہے، اس لئے دور اندیشی اور عقلی تقاضے کے مطابق آئندہ کے لئے کوشش کرنے میں ،حب ذات مشتعل اور بیدار ہوتی ہے اور انسان کو مجبور کرتی ہے کہ اپنے آئندہ کے لئے تلاش کرے اور جواس کے بے نہایت مستقبل کے لئے مفید ہو اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس لئے قرآن مجید فرماتاہے:

(( یا ایهاالذین آمنوا اتقوا اللّٰه و لتنظر نفس ما قدمت لغد ) ...) (حشر١٨)

''ایمان والو؛ اللہ سے ڈور اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجاہے۔''

٢۔ انسان کے اعمال و رفتار پر خدا کے علم و آگاہی کی توجہ : یہ راہ مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان ہوئی ہے:

(...( واتقوااللّٰه ان اللّٰه خبیر بما تعملون )

''اوراللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمھارے اعمال سے باخبر ہے''

یعنی خدائے متعال کی اس صفت کے پیش نظر کہ جو کچھ تم لوگ انجام دیتے وہ اس سے آگاہ ہے، تقوی کو اپنا لائحہ عمل بنا لو۔ یہ تربیت کی ایک اور روش ہے جسے خدائے متعال نے انسان کو مدد کرنے کے لئے انتخاب کیا ہے تا کہ وہ تقوی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ چونکہ انسان خاص نفسیاتی خصوصیات کا مالک ہے، من جملہ ان میں یہ ہے کہ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کے عمل پر اس کے علاوہ کوئی اور ناظر ہے اور جو کچھ وہ انجام دے رہاہے اسے وہ دیکھ ر ہا ہے اور اس کے برے بھلے سے آگاہ ہے، تو وہ ناشائستہ اعمال انجام دینے سے پرہیز کرتاہے ۔حقیقت میں خدائے متعال نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ کسی کے سامنے وہ، برا کام انجام دینے سے شرماتاہے۔ اس لئے اگر انسان اس موضوع پر غور وفکر کرے کہ وہ ہمیشہ خدا کے حضور میں ہے اور نہ صرف وہ اس کے ظاہری اعمال کا مشاہدہ کررہا ہے، بلکہ خدائے متعال اس تصور سے بھی واقف ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ، تو وہ حتی اپنے دل میں خطور کرنے والے آلودہ خیالات سے بھی شرماتاہے انسان کسی کے بارے میں جس قدر احترام و عظمت کا قائل ہو، اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کے سامنے زیادہ پاک و صاف یعنی اپنی شخصیت کو اچھا جلوہ دے انسان کے اعمال سے مربوط خدا کے آگاہ ہونے کے بارے میں قرآن مجید مزید فرماتا ہے:

( اولا یعلمون ان اللّٰه یعلم ما یسرون و ما یعلنون ) (بقرہ٧٧)

''کیا تمہیں نہیں معلوم کہ خدا سب کچھ جانتا ہے، جس کایہ اظہار کررہے ہیں اور جس کی یہ پردہ پوشی کررہے ہیں؟''

٣۔ یہ جان لینا کہ تقوی دنیا کے لئے بھی فائدہ مندہے:

(...( و من یتق اللّٰه یجعل له مخرجا و یرزقه من حیث لا یحتسب ) ...)(طلاق ٢۔٣)

''...اور جو بھی اللہ سے ڈرتاہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کرتاہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا وہ خیال بھی نہیں ہوتاہے ۔''

حضرت علی علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:

''واعلمواانه من یتق اللّٰه یجعل له مخرجامن الفتن ونورامن الظلم .''(۴)

''جان لو ، جو تقوی کو اپنی زندگی کا دستور العمل قرار دیتا ہے اور خدا سے ڈرتا ہے تو خدا تعالی اسے فتنوں اورتباہیوں سے بچانے اور تاریکیوں میں اسے روشنراستہ دکھاتا ہے۔''

پہلے مرحلہ میں کہا گیا: غور کرو کہ اپنے آنے والے کل کے لئے کیا اکٹھا کررہے ہو، اس راہ میں فرماتا ہے: تقوی کے ان فوائد کو دیکھو جوتمھاری اس دنیا کے لئے ہیں۔ تم لوگ خواہ نخواہ اپنی پوری زندگی میں فتنوں، مشکلات، شعبدہ بازیوں، تاریکیوں اور ابہامات سے دوچار ہوتے ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ خدائے متعال تمہیں اسی زندگی میں مدد کرے اور تمہیں ان مشکلا ت اور پریشانیوں سے نجات دلائے تو تقوی کو اپنا دستور بنا لو۔

با تقوی انسان جہاں پر اپنی فکر سے کسی راستہ کا انتخاب کرنا چاہتا ہے، خدا وندمتعال اس کے لئے ایک نور ظاہر کرتاہے تا کہ وہ راستہ کو صحیح دیکھ سکے۔ اس لحاظ سے ہم کبھی دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے لئے پریشان کن اور حیرت انگیز مسائل پیش آتے ہیں او ر ان مواقع پر قوی فکر اور غیر معمولی ہوش رکھنے والے انسا ن پریشانیوں اورمشکلات سے بچنے کا راستہ نہیں نکال پاتے، لیکن جو بہت زیادہ عقل و شعور نہیں رکھتے وہ بچاؤ کاراستہ نکال لیتے ہیں، یہ حقیقت میں خدا کی مدد ہے جو تقوی کے ذریعہ اپنے بعض بندوں کو خدائے متعال عنایت فرماتاہے۔

تقوی اختیار کرنے کی تشویق کی تمام راستہ کے ذکرنے کے بعد تقوی کے نتائج اور آثار کا ذکر

ضروریہے۔انسان اس وقت کسی کام کوانجام دینے یا کسی عزیز چیز کو ترک کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے، جب وہ جانتا ہے اس کا نتیجہ اچھا ہوگا۔ وہ اس وقت ایک مشکل کام کو انجام دینے کے لئے حاضر ہوتا ہے جب وہ مطمئن ہو کہ اس کانتیجہ اچھا ہے۔ لہٰذااگر ہم یہ چاہتے ہوں کہ دوسرے لوگ بھی بلندو بالا مقامات تک پہنچ جائیں اور اخروی ومعنوی نقصان پہنچانے والی چیزوں سے پرہیز کریں، تو ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ ان میں ذوق و شوق پیدا ہو انسان کو گناہ کی لذت سے چشم پوشی کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی محرک کا ہونا ضروری ہے، رات کے آرام کو چھوڑنے اور عبادت میں مشغول ہو جانے کے لئے محرک ہونا چاہئے۔ یا جہاں پر انسان کے فریضہ کا تقاضا ہو کہ لوگ مجاذ جنگ پر جائیں اوراپنی جان کو خطرہ میں ڈالیں اور اسی طرح دوسرے فرائض کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے، محرک کا ہونا ضروری ہے اور محرک پیدا کرنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان کو منافع اور اس کے آثار خیر کی طرف متوجہ کریں جو اس کے عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں، کیونکہ انسان کی فطرت ان آثار کی طالب ہوتی ہے۔

انسان، معرفت و ایما ن کے جس مرتبہ پر بھی فائز ہو، وہ خیر کا طالب ہوتا ہے اور اگرا س کا ایمان اور اس کی معرفت ضعیف ہے تو، کم از کم وہ دنیا کی خیر چاہتا ہے، تمام لوگ وسیع رزق کے طالب ہوتے ہیں، وہ بھی زیادہ محنت و کوشش کے بغیر ۔ اس لحاظ سے تقوی کے محرک کو پیدا کرنے کے لئے قرآن مجید اور اس حدیث میں ایک راستہ جو اختیار کیا گیا ہے وہ تقوی کے دنیوی منافع ہیں، کہ اگر کوئی شخص تقوی اختیار کرتا ہے توخدائے متعال اس کے سامنے سختیوں اور مشکلات سے نجات پانے کا راستہ قرار دیتا ہے ۔ بعض اوقات ممکن ہے انسان مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہو جائے اور نجات کی کوئی راہ نہ ہواور خود بھی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کوئی راستہ پیدا نہ کر سکے ، تو وہ اس حالت میں تلخیوں اور سختیوں کے با وجود زندگی کی مشکلات کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتاہے۔ خدائے متعال اسے وعدہ دیتا ہے کہ اگر تقوی رکھتے ہو تو مشکلات اور سختیوں کے دوران تیرے لئے نجات کا ایک راستہ فراہم ہوگا۔یہ ایک بڑاوعدہ ہے جو خدائے متعال انسان کو دیتا ہے اور اسے تشویق کرتاہے کہ ایک ایسے راستہ کا انتخاب کرے جس کا ثمرہ و نتیجہ مشکلات اور سختیوں سے نجات ہو۔

ایران کے مسلمانوں کے لئے جنگ کے دوران بعض اوقات انتہائی مشکل اور دشوارگزار مرحلے پیش آتے تھے اور کوئی ان پریشانیوں اور مشکلات سے رہائی اور نجات کا راستہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن چونکہ یہ انقلاب تقوی کی بنیاد پر معاشرے میں تقوائے الہی پھیلانے اور روح بندگی پیدا کرنے اور اللہ کی حاکمیت کو برقرار کرنے کے لئے انجام دیا گیا، اس لئے خدائے متعال مسلسل عنایتیں کار فرما رہیں او رہر موڑ پر نجات کی راہ خدا کی جانب سے الہام ہوتی رہی کہ جس کے نتیجہ میں لوگ مشکلات سے نجات پاتے تھے، اس کا نمونہ ٢٢ بہمن بمطابق (١٩٧٩ ع) کا دن ہے:

جب طاغوتی حکومت نے مارشل لا کا اعلان کیا اور لوگوں کو گھروں سے باہر نکلے کی سختی سے ممانعت کی تا کہ اپنی شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں، تو امام خمینی نے اپنی دور اندیشی اور الٰہی مدد سے تمام لوگوں کو سڑکوں پر آنے کا حکم دے دیا اور لوگ مارشل لا کی پروا کئے بغیر سڑکوں پر نکل آئے ، جس کے نتیجہ میں دشمن کی تمام سازشیں طشت از بام ہوگئیں اور انقلاب اسلامی کامیابی سے ہم کنار ہوگیا۔

اس طرح خدائے متعال اہل تقوی کوایسی راہ سے رزق پہنچاتاہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا، ہم سب اپنے لئے رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور اسے فراہم کرنے کے لئے مکلف ہیں۔ہرکوئی اپنی جگہ پر محاسبہ کرتاہے کہ کونسا کام انجام دے اور کونسا راستہ اختیار کرے تا کہ بیشتر نفع کمائے اور اس طرح بیشتر رزق حاصل کرے آخرکار عمومی محاسبات اور زندگی کی طبیعی راہوں سے وہ ایک راہ کا انتخاب کرتاہے: یا کھیتی باڑی، یا صنعتی کام یا تجارت۔ قرائن کی بنیاد پر اور اپنے محاسبات کے مطابق آمدنی کی مقدار اور نفع کا اندازہ لگاتاہے، لیکن خدائے متعال نے اہل تقوی کے لئے ضمانت دی ہے کہ ان کو حساب و کتاب کے بغیر رزق دے گا من جملہ جو خدا کی خوشنودی کے لئے فریضہ انجام دینے کی غرض سے علم حاصل کرتاہے۔ جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے۔ خدائے متعال اسے ایک ایسی جگہ سے کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کرتا ہے رزق پہنچاتاہے اس سلسلہ میں بہت سے نمونے موجود ہیں او رہم سب نے اپنی زندگی میں کم و بیش اس کا تجربہ کیا ہے لیکن اگر کسی نے دیکھا کہ جس طرح اسے رزق ملنا چاہئے تھا نہ ملا تو اسے دیکھنا چاہئے کہ خطا کہاں ہوئی ہے۔ اس لئے خدا کے وعدہ کے مطابق اہل تقوی کا رزق عمومی محاسبات اور متوقع راستوں سے خارج ہے۔

اگر خدائے متعال ہمیں تقوی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے، تو وہ اس لئے ہے کہ دنیا و آخرت میں اس کے اچھے نتیجہ اور بڑے مرتبہ کو حاصل کرسکیں۔ بہشت اور اخروی درجات نیز معنوی کمال حاصل کریںاور ہمارے دنیوی زندگی سلامتی سے گزرے ورنہ خدائے متعال ہمارے تقوی سے استفادہ نہیں کرتاہے:

( لن ینال اللّٰه لحومها ولادما ؤها و لکن یناله التقوی منکم ) ...)(حج٣٧)

''خدا تک ان جانوروں کا نہ گوشت جانے والا ہے اور نہ خون ، اس کی بارگاہ میں صرف تمھارا تقوی جاتاہے''

جوہمیں خدا سے ملاتاہے، وہ تقوی ہے، یہی تقوی کمال و بلندی کا سبب ہے، چونکہ خدائے متعال چاہتاہے کہ ہم کمال تک پہنچ جائیں، اس لئے تقوی کے کچھ دنیوی نتائج کو بیان کرکے ہمیں تشویق کرتاہے کہ ہم اس کو حاصل کرنے کی جستجو کریں تا کہ اس کے نتیجہ میں اخروی منافع بھی حاصل کرسکیں۔حقیقت میں اخروی منافعجیسا کہ ہم خیال کرتے ہیں اودھار نہیں ہیں اور ان کا محقق ہونا نزدیک اور یقینی ہے لیکن ہم درک نہیں کرتے۔

مراتب تقوی پر ایک نظر:

اس کے پیش نظر کہ تمام معنوی کمالات کے مراتب ہیں اور تقوی بھی چونکہ بلند ترین معنوی کمالات میں سے ہے، اس لئے اس کے بھی مراتب ہیں۔مناسب ہے یہاں پر اس کے مراتب کی طرف ایک اشارہ کریں: علمائے اخلاق نے تقوی کے لئے ایک زاویہ سے تین مراتب ذکر کئے ہیں:

١۔ صالح اور شائستہ اعمال انجام دے کر اور صحیح عقائد رکھتے ہوئے، نفس کو جہنم کے عذاب اور اس میں داخل ہونے سے بچاناکیونکہ تقوی کے معنی نفس کا تحفظ اور اپنے آپ کو خدا کی مخالفت سے روکنا ہے، بلکہ صرف گناہ سے پرہیز اور اس سے دوری اختیار کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ اس لحاظ سے تقوی عقائد سے بھی مربوط ہے اور غیر عقائد سے بھی ،عقائد میں تقوی ، یعنی انسان اپنے اعتقادی اصول کے بارے میں غور کرے اورکوشش کرے کہ ان سے منحرف نہ ہو جائے اور اپنے صحیح او رراسخ اعتقاد کے سلسلہ میں اپنی رفتار و گفتار حتی اپنی سوچ کو بھی جہت دے ۔ انسان حقیقی معنوں میں اپنے خدا اور اصلی معبود کا معتقد ہو جائے اور یقین پیداکرے کہ دوسرے تمام خیالی خدا اور معبود باطل ہیں۔ صحیح معنوںمیں معتقد ہوجائے کہ اس معبود کی تمام مخلوق حقیقت ہیںاور مخلوق کو اپنے معبود کا مطیع و فرمانبردار ہونا چاہئے، اس کے سامنے اپنی ذلت کی پیشانی زمین پر رکھے اور اس سے روگردانی نہ کرے۔

خدائے متعال کے بارے میں تقوی کے رعایت کے بعد، پیغمبروں اور ان کے جانشینوں کے تقوی کی بھی رعایت کرے۔ ان کے احکام کو دل و جان سے قبول کرے.

٢۔ تقوی کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ گناہ کو ترک کرنے کے علاوہ مشتبہ چیزوں اور مکروہات سے بھی پرہیز کرے۔

٣۔ تقوی کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاو جوارح کو محرمات ، مشتبہات اور مکروہات سے بچانے کے علاوہ اپنے دل کی بھی خدا کی مرضی کے مطابق حفاظت کرے اورگناہ ا ور بُرے کام کے تصور تک کو دل میں راستہ نہ دے اور کوشش کرے کہ صرف خدائے متعال اور اس کی مرضی کے بارے میں فکر کرے۔

فطری بات ہے کہ انسان جس قدر بھی عبادت کرے ، لیکن گناہ سے پرہیز نہ کرے تو وہ عبادت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے۔ پس ہمیں اپنی عبادتوں اور اعمال سے بہرہ مند ہونے کے لئے ، سب سے پہلے ان کے حدود کی اچھی طرح حفاظت کرنی چاہئے تا کہ خدا کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہم سے سرزد نہ ہو ۔روایت میں آیا ہے:

''من تورع عن محارم اللّٰه فهو من اورع الناس'' (۵)

''جو شخص محرمات سے پرہیز کرے وہ پرہیز گارترین انسان ہے۔''

آثار تقوی پر ایک نظر:

ایک او رمطلب، جس پر بحث کرنامناسب ہے، آثار تقوی کو بیان کرنا ہے، ہم یہاں پر ان کے بعض آثار کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔ حقائق کو درک کرنے میں تقوی کے اثرات:

( ''یا أیهاالذین آمنوا ان تتقوااللّٰه یجعل لکم فرقاناً'' ) (فرقان ٢٩)

''ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کرو گے تو وہ تمھیں حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کرے گا''

عقل کی قوت جو حقائق کو پہچاننے کا سبب ہوتی ہے، انسان کے لاابالی پن سے پرہیز اور رفتار کے حدود کی رعایت کرنے کی صورت میں ، زیادہ فعال ہوتی ہے، کیونکہ لاابالی اور بے راہ روی عقل کی صحیح فعالیت کے لئے مانع ہے۔ ماہرانہ صورت میں ، انسان کی لاابالی طبیعت اس کی حیوانی پہلوؤںسے مربوط ہے، خواہ خوراک میں ہویا جنسی مسائل میں اور خواہ اس کی قوت غضبیہ سے مربوط ہو۔ اب اگر انسان نے ان پہلوؤںمیں اپنے لئے کسی قیود کی رعایت نہ کی، اپنے حیوانی زاویہ کو تقویت بخشی، تو جس کا ہم و غم اس کی غذا ہو، وہ اس گوسفند کے مانند ہے کہ جس کا ہم و غم گھاس کھانا ہوتاہے۔ یقیناً ایسا انسان اپنے انسانی پہلوؤں کو تقویت نہیں بخش سکتا ہے، اور عقل ان انسانی توانائیوں میں سے ہے جو مذکورہ صورت میں یا ضعیف ہوتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جس کی توجہ جنسی شہوات کو تسکین دینا ہو تو اس کی فکر و سرگرمی شہوت کے محور کے گرد چکر لگاتی ہے اور اس کی مثال اس سور کی سی ہے جو صبح سے شام تک اپنی شہوت کے پیچھے رہتی ہے۔ایسا انسان ایسے ماحول کی تلاش میں رہتاہے کہ جو اس کے غریزہ کے ما تحت ہوں ایسی آواز یں سنتا ہے یا ایسی باتیں کہتا ہے جواس کی خواہش اور غریزہ کے تابع ہوتی ہیں، ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتاہے جوجنسی مسائل سے مربوط ہوتی ہیں۔یقینا ایسے انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ معارف الٰہی کے بارے میں فکر کرے گا اور، حقائق کو درک کرے گا اور حق و باطل کو تشخیص دے گا۔ اس قسم کا انسان درندوں کے مانند ہے، اپنی قوت غضبی کو تقویت بخشنے کی فکر میں ہوتاہے ہر وقت غلبہ پانے او ردوسروں پر مسلّط ہوجانے کی فکر میں رہتاہے۔ اس بناء پر ایسے انسان کی فکر کا محور جبلّت اور تسلّط جمانا ہوتا ہے۔

تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی حیوانی قوتوں پر کنٹرول کرے اور اس صورت میں عقل کی قوت ہمارے وجود پر حاکم ہوگی۔ اب اگر ''فرقان'' سے مرادعقل ہے۔ چونکہ عقل حق و باطل کے درمیان تمیز دیتی ہے۔ تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حیوانی قوتوں کو کنٹرول کرکے اور عقل کی حاکمیت سے تمام دیگر قوتوں کو تسخیر کرکے فرقان کی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔

فرقان کے بارے میں ایک اور تفسیر کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے ، کہ فرقان عقل سے بالاتر ایک نور ہے، کیونکہ عقل تمام انسانوں میں کم و زیاد موجود ہوتی ہے۔ پس خدا او رخوف الہی کو پہچاننے سے انسان اپنی زندگی میں کچھ حدود کی رعایت کرتاہے اور جو تقوی اس کے وجود میں پیدا ہوتاہے، اس سے یہ توانائی پیدا ہوتی ہے کہ خدائے متعال اسے فرقان کا نور عطاکرے کہ جو قوت عاقلہ کی تائید کرنے والی ہے۔

٢۔ بصیرت اور روشن فکری میں تقوی کا اثر: بہت سی آیات و روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تقوائے الٰہی کے قیمتی آثار میں سے بصیرت او رروشن فکری کو جلا دیناہے، چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے:

(...( و اتقوااللّٰه و یعلمکم اللّٰه ) ..) (بقرہ ٢٨٢)

''تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور خدا تمھیں تعلیم دے گا۔''

یہ آیہ مبارکہ اس نکتہ کی تاکید کرتی ہے کہ تقوی خدا کی طرف سے انسان کے لئے علم و آگاہی حاصل کرنے میں شائستہ اثر رکھتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روایت میں فرمایا ہے:

''من اخلص لله اربعین یوماًفجّر اللّٰه ینابیع الحکمة من قلبه علی لسانه'' (۶)

''جو شخص چالیس دنوں تک خود کو خدا کے لئے خالص قرار دے تو دل سے حکمت کے چشمے

اس کی زبان پر جاری ہوں گے۔''

حقیقت میں تقوی انسان کے دل میں معرفت حق پر لگے ہوئے زنگ کوصاف کرتا ہے اور انسان کے دل سے شیطان کے حجاب یعنی وسوسوں کو دور کرتا ہے، تب انسان حقائق کو صاف اور آشکار دیکھ سکتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لولا انّ الشیاطین یحومون حول قلوب بنی آدم لنظروا الی ملکوت السماوات '' (۷)

''اگر فرزندان آدم کے دلوں کے اطراف میں شیاطین نہ ہوتے، تو وہ آسمانوں کے ملکوت کا مشاہدہ کرتے!''

ہمارے دینی آثار میں اس قسم کے بیانات بہت زیادہ ہیں جواس امر کی حکایت کرتے ہیں کہ تقوی اور گناہ سے پا ک ہونا، روح کی بصیرت اور روشن بینی کی راہ میں مؤثر ہے اور بالواسطہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ تقوی کی باگ ڈور کوہاتھ سے چھوڑنا، روح کے تاریک ہونے، دل کے سیاہ ہونے اور نور بصیرت کے بجھنے کا سبب ہے۔

٣۔ تقوی کے آثار میں ، خدا کی محبت کو حاصل کرنا بھی شامل ہے:

( بلی من اوفی بعهده واتقی فان اللّٰه یحب المتقین ) )(آل عمران ٧٦)

''بیشک جو اپنے عہد کو پورا کرتا ہے اورتقوی اختیار کرتا ہے تو خدا متقین کو دوست رکھتا ہے۔''

واضح ہے کہ اگر خدائے متعال کسی سے محبت کرتاہے، تو کون سے ثمرات اورمنافع اسے حاصل ہوتے ہیں۔ جب انسان کسی سے محبت کرتاہے، تو متواتر اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور اس میں کوتاہی نہیں کرتاہے اور اس بات کی بھی سعی کرتا ہے تا کہ اس کے مطالبات کو پورا کرے اور جو کام بھی ممکن ہوتا ہے اس کے لئے انجام دیتاہے۔ اب خدائے متعال جو ہر چیز پر قادر ہے اور تمام کمالات کا خالق و مالک ہے اگر کسی شخص کو دوست رکھتا ہے تو معلوم ہے اس کے لئے کیا کرے گا۔ ممکن ہے ہم کسی سے محبت کرتے ہوںاور اس کے لئے کوئی کام انجام دینا چاہیں لیکن وسائل و امکانات کی عدم فراہمی کی وجہ سے شائستہ ظہور پر انجام دینے سے عاجر ہوں ۔ لیکن خدائے متعال ہر چیز پر قادر ہے اور تمام چیزیں اس کی

قدرت اور مشیت کے تحت ہیں اوروہ جو کام چاہئے اپنے دوست کے لئے انجام دے سکتا ہے۔

٤۔خوف و رنج کا دور ہونا۔

چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے:

(...( فمن اتقی و اصلح فلا خوف علیهم و لاهم یحزنون ) (اعراف ٣٥)

''جو بھی تقوی اختیار کرے گا اور اصلاح کرے گا اس کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ رنجیدہ ہوگا۔''

٥۔ غیبی امداد حاصل کرنا:

اور متقی کے لئے امداد غیبی کے بارے میں فرماتاہے:

( بلی ان تصبروا و تتقوا و یأتوکم من فورهم هذا یمددکم ربکم بخمسة ء الٰف من الملائکة مسومین ) (آل عمران ١٢٥)

''یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقوی اختیار کروگے او ردشمن فی الفور تم تک آجائے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوں گے''

ایک حدیث میں ہے:

''ان اللّٰه تبارک و تعالی ایّد المؤمن بروح منه یحضره فی کل وقت یحسن فیه و یتقی و یغیب عنه فی کل وقت یذنب فیه ویعتدی.. ''(۸)

بیشک خدائے متعال مومن کی اپنی روح کے ذریعہ تائید کرتاہے اور جس وقت بھی وہ احسان اور تقوی اختیار کرے گا تو وہ روح اس کی تائید کے لئے اس کے پاس حاضر ہوتی ہے، لیکن جس وقت وہ گناہ اور ظلم کرتا ہے ، وہ روح اس سے دور ہو جاتی ہے.

٦۔ عظمت اور قرب الہی کا حاصل ہونا:

انسان کا قرب الہی اور و کرامت سے سرفراز ہونے کے سلسلہ کرنے میں تقوی کا کیا نقش ہے اس بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:

( ان اکرمکم عنداللّٰه اتقیکم ) ) (حجرات/١٣)

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔''

٧۔مشکلات او رپریشانیوں سے رہائی۔

مشکلات او رپریشانیوں سے رہائی کے بار ے میں تقوی کے اثرات کے موضوع پر اس سے پہلے بحث ہوئی اور سورہ طلاق آیت نمبر ١٢ کی طرف اشارہ کیا گیا ۔یہاں پر ہم ایک دوسری آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو باتقوی معاشرے کے بارے میں ہے اور وہ سورہ اعراف کی آیت نمبر ٩٦ ہے،کہ جس میں فرماتاہے :

''و لوان اهل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیهم برکٰت من السماء و الارض ۔''

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اورآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے''

٨۔ اعمال کا قبول ہونا۔

انسان کے اعمال کے قبول ہونے میں تقوی کا اثر اوراس کے نقش کے بارے میں خدائے متعال فرماتاہے:

( انما یتقبل اللّٰه من المتقین ) (مائدہ /٢٧)

''خدائے متعال صرف صاحبان تقوی کے اعمال کو قبول کرتاہے۔''

خدائے متعال اس آیت میں ہمیں اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتاہے کہ اگر ہم چاہیں کہ ہمارے اعمال قبول ہوں تو ہمیں تقوی اختیار کرناچاہئے۔ البتہ اگر تکالیف اور واجبات ان کے ظاہر ی شرائط کے ساتھ انجام پائیں اور صحیح ہوں ،تو ہم سے تکلیف ساقط ہوجاتی ہے۔مثلا اگر ہم صبح کی نماز کو سستی اور کاہلی کی وجہ سے صبح ہونے سے پہلے عجلت کی حالت میں پڑھ لیں، تو یقینا ہم سے تکلیف ساقط ہوجاتی ہے لیکن قبول ہونے کے مرحلہ اس سے جدا ہے اور قبول ہونے کا مرحلہ اس سے برتر ہے اور اس کے خاص شرائط ہیں، من جملہ ان شرائط میں سے ایکعمل کا تقوی کے ساتھ ہوناہے۔ پس وہ اثر جس کا سبب انسان کا عمل خداکے پاس بلند مرتبہ پر قرار پاتا ہے، یعنی عمل کی قبولیت ، اس وقت انجام پاتی ہے جب عمل تقوی اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز کے ساتھ ہو۔

''یا اباذر؛ کن بالتقوی اشد اهتماما منک بالعمل فانه لایقل عمل بالتقوی، و کیف یقل عمل یتقبل؟ یقول اللّٰه عزوجل :( انما یتقبل اللّٰه من المتقین )

''اے ابوذر! عمل سے زیادہ تقوی کے لئے اہتمام کرنا. کیونکہ تقوی کے ساتھ عمل کم نہیں ہے، کس طرح وہ عمل کم تصورکیا جائے گا جو درگاہ الہی میں قبول ہوچکا ہو؟ خدائے متعال فرماتاہے: پروردگار صرف صاحبان تقوی کے عمل کو قبول کرتاہے۔''

لوگ ، خواہ دنیا سے مربوط ہوںیا آخرت سے ، عزم وارادہ کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیںاور ممکن ہے ان کے درمیان کافی فرق ہو،معاشی زندگی کے بارے میں بعض لوگوں کے عزم ارادے کمزورہیں اور صبح سے شام تک دال روٹی کی امید میں محنت کرتے ہیں، پسینے پسینے ہوتے ہیں اور اسی پرقناعت کرتے ہیں۔اس لئے نہیں کہ اس گروہ نے زہد کی راہ کو اپنا یا ہے بلکہ ان کے توقعات کم ہیں اور ان کا عزم و ارادہ کم ہے۔ بعض لوگوں کا عزم وارادہ اس سے زیادہ ہوتا ہے اور مختصر پر مطمئن نہیں ہوتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں، محدود اور کم چیزیں انھیں مطمئن نہیں کرتی ہیں۔لیکن بعض لوگوں کے عزم و ارادے اس گروہ سے بھی بالاتر ہیں اور وہ مادی و محسوس منافع اور خوراک و شکم کواہمیت نہیں دیتے ہیں۔ ان کے لئے اجتماعی حیثیت اور عزت و عظمت حاصل کرنا اہم ہوتا ہے۔اگر وہ کسی کام کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ اس لئے نہیں کہ اس کے ذریعہ ایک بڑی رقم انھیں ملنے والی ہو بلکہ وہ کام ان کی شان و حیثیت کے مطابق ہے اور ان کی عزت و شرافت کا باعث ہے اس لئے اسے انتخاب کرتے رہیں غیر شرافت مندانہ فعل چاہے جتنی دولت و نفع کا باعث ہو اسے ہاتھ نہیں لگاتے با عزت و عظمت نہ ہوتواس کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس گروہ کے عزم وارادے بلند ہیں، وہ عزت نفس کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے پاس عزت کی قدر و منزلت ہوتی ہے۔

اسی طرح آخرت کے سلسلہ میں بھی مومنوں کے عزم و ارادے میں فرق ہوتاہے: بعض لوگوں کے عزم و ارادے اسی حد تک ہوتے ہیں کہ کوئی ایساکام کریں تا کہ جہنم میں نہ جائیں اور اس کی آگ سے نجات پائیں اور وہ اسی پر قناعت کرتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ اس پر مطمئن نہیں ہوتے اور وہ بہشت کے بلند مراتب حاصل کرنے کی فکر میں بھی ہوتے ہیں ایک او رگروہ کے لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنے عزم و ارادے کو بلند تر کردیا ہے اور وہ جہنم و بہشت کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ خدا کے نزدیک عزیز ہوجائیں او راس کے قرب میں پہنچ جائیں۔ جی ہاں! جنہوں نے خدائے متعال کو پہچاناہے اور خدا کے نزدیک عزت کی بلند قدر و قیمت سے آگاہ ہیں، اگر بہشت کی نعمتیں بھی نہ ہوں، تو پھر بھی وہ خدا کے نزدیک پانے والی عظمت سے کافی خوش اور راضی ہو کر اس پرناز کرتے ہیں۔ان کے لئے اس میں اہمیت ہے کہ خدا ان کی عزت کرے اور انھیں عظمت بخشے اس لئے وہ بہشت کی نعمتوں کی طرف کوئی اعتنا نہیں کرتے ہیں۔ خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتاہے:

(...( ان اکرمکم عند اللّٰه اتقیکم ) ...) (حجرات/١٣)

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم و ہ ہے جو زیادہ پرہیز گارہے۔''

اللہ تعالی یہاںیہ نہیں فرماتاہے کہ جوزیادہ باتقوی ہے اسے میں بہشت او ربہشت کی نعمتیں عطا کروں گایا اسے جہنم کی آگ سے نجات دلاؤنگا، بلکہ فرماتاہے کہ وہ خدا کی کرامت حاصل کرتاہے اور خدا کے نزدیک محترم قرار پاتا، بہشت اور اس کے ہمیشہ باقی رہنے والے محل اور جاویدانی نعمتوں سے مستفید ہونے سے بالاتر ہے۔ اب جو شخص معرفت کے اس مقام تک پہنچا ہو تو مزید تقوی کے لئے اس کی کیسے تشویق کی جائے؟ کیا اسے یہ کہیں کہ: اپنے تقوی میں اضافہ کرو تا کہ تمھاری دنیا کی زندگی بہتر ہو؟ و ہ تو ان سب کو پس پشت ڈاکر عالی ترین مرحلہ پر فائز ہوچکا ہے. یا اس سے یہ کہیں: اپنے تقوی میں اضافہ کرو تا کہ بہشت کے محلوں اور حو رالعین سے بہرہ مند ہوجاؤ اور جہنم سے نجات پاؤ فطری بات ہے کہ ان میں سے کوئی چیز اسے بہکانہیں سکتی اور اس میں محرک پیدا نہیں کرسکتی ہے، کیونکہ اس نے ان چیزوں سے منہ موڑ لیاہے. وہ کمال اور بلندی کے ایک ایسے مرحلہ پر پہنچاہے اور اس کا عزم و ارادہ اس حد تک پہنچاہے کہ شوق لقاء اللہ اور محبت و عظمت الہی کے مقام کو حاصل کرنے کے علاوہ کسی اور چیزکی فکر نہیں کرتاہے۔ جو چیز ایسے افراد کے شوق میں اضافہ کرسکتی ہے وہ محبوب کا دیدار اور اس کی رضایت ہے۔

توجہ کرنی چاہئے کہ قرآن مجید نے تربیت کے لئے ایک ہی قسم کے شیوہ کا انتخاب نہیں کیا ہے، بلکہ ہر سطح کے افراد کے لئے خاص شیوہ کاانتخاب کیا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن مجید میں تربیت کے متعدد طریقے ہیں اور اس کے یہ طریقے صرف اولیائے الہی اور مقامات عالی تک پہنچنے والے افراد سے مخصوص نہیں ہیں، کیونکہ قرآن مجید تمام انسانوں کے کمال اور اصلاحکے لئے کتاب ہدایت اور دعوت عمل ہے۔ اس لئے حتی کم عزم اور کم حوصلہ رکھنے والوں کے لئے بھی ان کی جزا اور نعمتیں ذکر کی ہیں، جو تکامل وترقی کی راہ میں ہیں، تا کہ وہ بھی بہرہ مندی سے محروم نہ ہو رہیں۔ انھیں مادی نعمتوں ، بہشت اور جہنم سے نجات کا وعدہ دیاگیا ہے. لیکن کرامت الہی ، رضوان حق تک پہنچنے اور اس کے نزدیک محبوب ہونے کا وعدہ ان سے مخصوص ہے جو معرفت کے عالی درجات تک پہنچے ہیں۔

متقین کے حساب و کتاب کی خصوصیت او ران کی چند دوسری خصوصیات:

ایک اور موضوع جس پر بحث کرنامناسب ہے وہ'' متقین کے صفات'' ہیں۔ تقوی کی قدر و قیمت اور بلند مقام سے آگاہ ہونے کے بعد ہمیں متقین کی نشانیوں او رصفات کو جانناچاہئے تا کہ تقوی کو حاصل کرنے کے طریقہ سے آگاہ ہوجائیں۔ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یا اباذر؛ لایکون الرجل من المتقین حتی یحاسب نفسه اشد من محاسبة الشریک شریکه. فیعلم من این مطعمه و من این مشربه و من این ملبسه؟ امن حل ذلک ام من حرام''

''اے ابوذر! انسان تب تک پرہیز گاروں میں شمارنہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے شریک کا محاسبہ کرنے سے سخت تر خود کو محاسبہ کی منزل میں قرار نہ دے۔ تاکہ جان لے اس کی خوراک ، پینے کی چیزوں او رپہننے کا لباس کہاں سے آیا ہے، حلال سے ہے یا حرام سے ہے.''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حساب و کتاب کی خصوصیات کو متقین کی جملہ صفات میں شمار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: باتقوی وہ ہے جولاپروا ہ نہ ہو او راپنے آپ کو تحت محاسبہ قرار دے۔ اگر کسی خورا ک کو حاصلکیاہے تو دیکھ لے کہ اسے حلال راہ سے حاصل کیا ہے یاحرام راہ سے، اگر لباس فراہم ہوا ہے تو دیکھ لے کہ وہ اس کے پیسے کہاں سے لایا ہے۔ اسی طرح گھر کے بارے میں کہ اس کے پیسے کہاں سے فراہم ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس کی گھر بنانے کا محرک یہ ہے کہ خدا کی عبادت و بندگی بہتر طور پر انجام دے سکے، خاندان کے لئے بیشتر آرام و آسائش فراہم کرے اور بہتر عبادت کر سکے اور اپنے فرزندوں کی تربیت کر سکے یا اس کا گھر بنانے کا محرک دوسروں پر فخر و مباہات کرنااور دوسروں کو نیچا دکھاناہے۔

جب و ہ کسی راہ میں پیسے خرچ کرناچاہتاہے، دیکھناچاہئے خدا اس پر راضی ہے اور اس سے واجب تر کوئی کام تو نہیں ہے کہ جس کے لئے یہ پیسے خرچ کرناضروری ہوں؟ بہر صورت تمام جوانب کی پڑتال کرے اور ایسا نہ ہو کہ سر کو نیجے کرکے اور جس راہ سے بھی ممکن ہو پیسے جمع کرکے جس کام پر چاہے خرچ کرے۔ دیکھ لے کہ جو امکانات اسے حاصل ہوئے ہیں وہ حلال راہ سے حاصل ہوئے ہیں یا حرام سے۔ اگر حرام طریقے سے حاصل ہوئے ہیں تو اسے اس کیجگہ پر واپس پلٹا دے او رخود کو مصیبت میں نہ ڈالے.

بعض اوقات انسان اس قدر دنیا داری میں ملوثہوتا ہے اور اپنے آپ کو دنیوی امور میں گرفتار کرتاہے کہ اس سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اپنے آپ کو بڑے بڑے قرضوں اور لون کی قسطوں میں پھنساتاہے اور اپنی آبرو کو داؤ پر لگاتاہے، حتی کسی نہ کسی طرح دوسروں کو بھی اپنے مسائل میں گرفتار کرتا ہے اورا س طرحسے نجات کا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا، صرف اس فکر میں ہوتاہے کہ کچھ پیسے اس کے ہاتھ آئیں ،جس طریقہ سے بھی ہو، حلال یا حرام!( یعنی پیسہ ہو جیسا ہو)

اگر ہم تقوی کے بلند مرحلہ پرنہیں پہنچے ہیں ، کہ مشتبہ و مکروہ سے پرہیز کریں، توکم از کم حرام کے حدودکی رعایت کریں! ایسانہ ہو کہ جو مال ہمارے ہاتھ آیاہے وہ کسی اور کا حق ہے۔ ہر مومن کو اپنی زندگی میں بعض قوانین و حدود کی رعایت کرنی چاہئے اور اس سے آگے نہیں بڑھناچاہئے۔ ایک تاجرکو ایک طرح سیشرعی احکام کی رعایت کرنی چاہئے ملازم کو دوسرے انداز سے ان کی رعایت کرنی چاہئے اور اسے دیکھنا چاہئے کہ جو وہ تنخواہ لیتا ہے، کیا اس کے ساری وہ کام کرتاہے یا کم کام کرتاہے؟ کام کے وقت تفریح آرام، سیگریٹ پینے، اور دوسروں سے گفتگو کرنے میں وقت گزارتا ہے یا کام انجام دیتاہے؟ بعض مومن و اہل عبادت ، نافلہ پڑھتے ہیں، لیکن جب اپنے کام کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو تمام چیزوں کو پس پشت ڈال کر اپنے فریضہ کو بھول جاتے ہیں او رتصور کرتے ہیں کہ اس کرسی پر بیٹھ جانا ہی گویا انھوں نے اپنیفریضہ کو انجام دے دیا ہے۔

سرکاری ملازم یا کسی پرائیویٹ کمپنی کے ملازم کے لئے ڈیوٹی کا وقت اس کے مالک کا حق ہے اسے اس وقت میں کسی اپنے ذاتی امورمیں مشغول نہیں ہوناجاہئے، حتی اگر کبھی ذاتی کام کے لئے ٹیلیفون کرے اور وہ ٹیلیفون کام میں رکاوٹ بنے، تو وہ اس کے مقابل میں جواب دہ ہے ، ہم ان نکات کی طرف توجہ نہیں رکھتے ہیں۔ اسی طرح بیت المال سے استفادہ ،بیت المال کی ہی مصلحت کی راہ میں ہونا چاہئے، اس بناپر اگر ہم نے عہدو پیمانکیا ہے کہ ایک مشخص (معین) وقت میں ایک خاص کام انجام دیں، تو اس وقت کو کسی دوسرے کام میں صرف نہیں کرناچاہئے، حتی اگر ہم نے ایک خاص زمانہ میں ایک کام کو اجرت پر انجام دینے کے لئے عہدو پیمان کیا ہے، توہمیں اس وقت میں نماز پڑھنے کا حق نہیں ہے مگر یہ کہ پہلے سے ہی مالک سے شرط رکھی ہو۔

بیت المال کے بارے میں حرام و حلال او ر اس کے شرائط و حدود کی رعایت کرنا دشوار ہے۔ خوش بختی سے ایسے مسائل ہمارے لئے بہت کم پیش آتے ہیں، لیکن ہم دوسرے مسائل سے روبرو ہیں: جب ہم دین کی تبلیغ کے لئے جاتے ہیں ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ تبلیغ کی راہوں کو جانیں ، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ایسا کام انجام نہ دیں کہ جس سے دوسروں پر آنچ آئے اور دوسروں کی بے احترامی نہ کریں اور اپنے آپ کو نمایان کرنے کی فکر میں نہ ہوں۔ ممکن ہے تبلیغ کے لئے ایک ایسی جگہ پر جائیں جہاں پر ہم سے پہلے کوئی اور شخص تبلیغ کے لئے گیا ہولوگ اس سے مطمئن اور خوش ہوں اور ہمارے سامنے اس کی تعریفیں کریں کہ فلاں شخص اچھی مجلسیں پڑھتاتھا، اس کی تقریر اچھی تھی اور لوگ اس کا استقبال کرتے تھے۔ یہاں پر ممکن ہے ہم اس شخص کی تعریف تو کریں، لیکن اشارو ں میں حتی باتوں باتوں میں لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریںکہ اس شخص کا علم مجھ سے کم ہے تا کہ بعد والے برسوں میں پھر مجھے ہی دعوت کریں! مثلا ہم اس طرح کہتے ہیں چند سال پہلے وہ شخص میرا ہم درس تھا ایک مدت کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑدی یا دفتری کاموں میں مشغول ہوگیا اور پڑھائی کو جاری نہ رکھ سکا، یعنی ہم علم میں آگے بڑھے اور وہ پیچھے رہا!

دوسروں کی تردید اور تضعیف کرنے کے لئے اور دوسروں کی شخصیت کو پست دکھلانے کے لئے یا اپنے ذاتی منافع و مقاصد تک پہنچنے کے لئے ، شیطان مختلف طرح کے حیلوں او ربہانوں سے کام لیتا ہے کہ ان میں سے بعض خاص قسم کی ظرافت کے حامل ہوتے ہیں اور ہر ایک ان کی قباحت اور برائی کو نہیں جان سکتا ہے ممکن ہے ظاہر میں کافی پر رونق اور زیبا دکھائی دیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جناب ابوذر سے اپنی نصیحتوں کوجاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یا اباذر؛ من لم یبال من این اکتسب المال لم یبال اللّٰه عزوجل من این ادخله النار''

''اے ابوذر؛ جو بھی اس کا خیال نہیں رکھتا ہے کہ مال کہاں سے آتا ہے خدائے متعال بھی اس کی پروانہیں کرے گا کہ اسے کہاں سے جہنم میں ڈالے۔''

انسان کو مال حاصل کرنے میں دقت کرنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ پیسے کہاں سے حاصل کرتاہے۔ ایسانہ ہو کہ لوگوں کی ستائش ، تملق، ترویج او ران کے سامنے سر خم کرکے پیسے حاصل کئے ہوں اس کے لئے یہ مہم نہیں ہے کہ پیسے حلال راہ سے آئے ہیں یا حرام راستہ سے، اس کا کا م شرعی جواز رکھتاہے یا نہیں ، اگر ایسا کیا تو خدائے متعال کو اسے اپنے قہر کی آگ میں جلانے اور جہنم میں ڈالنے کا حق ہے.

''یا اباذر؛ من سرّه ان یکون اکرم الناس فلیتق اللّٰه عزوجل''

''اے ابوذر! جو بھی لوگوں میں اپنے آپ کو محترم ترین شخص کے طور پر دیکھنا چاہے اسے تقوائے الٰہی اختیار کرنا چاہئے.''

''یا اباذر! انّ احبکم الی اللّٰه جل ثناؤه اکثرکم ذکرا له و اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم له و انجاکم من عذاب اللّٰه اشدکم له خوفا''

''اے ابوذر؛ تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو بیشتر اس کی یاد میں ہو او رتم میں سے خدا کے نزدیک عزیز ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو اور خدا کے عذاب سے دورترین وہ شخص ہے جو اس سے زیادہ ڈرے''

(جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے اشارہ کیاہے کہ خوف خدا تقوی کے مقدمات میں سے ہے اور جب تک یہ خوف نہ ہو تقوی حاصل نہیں ہوتاہے)

''یا اباذر:ان المتقین الذین یتقون من الشی ء الذی لایتقی منه خوفا من الدخول فی الشبهة ''

''اے ابوذر ! پرہیز گار وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں سے بھی اجتناب کرتے ہیں جن سے پرہیز نہیں کیا جاتاہے، تا کہ شبہ سے دوچار نہ ہوں۔''

کہا گیا ہے کہ تقوی کے کچھ مراتب ہیں اور بعض لوگ صرف ان چیزوں سے دوری اختیار کرتے ہیں جو قطعا حرام ہیں اور بعض لوگ اس مرحلہ سے بالاتر قدم بڑھاکر حتی مشکوک چیزوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں او ربعض لوگ اس مقام پر پہنچے ہیں کہ جس چیز کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ مباح ہے اس سے بھی پرہیز کرتے ہیں تا کہ مشکوک چیز وں میں مبتلا نہ ہوں۔اس کے بعد پیغمبر اسلام تقوی کے عالی ترین مرحلہ اور خدا کی اطاعت کے بارے میں فرماتے ہیں:

''یا اباذر: من اطاع اللّٰه عزوجل فقد ذکر اللّٰه و ان قلت صلاته وصیامه و تلاوته للقرآن''

''اے ابوذر؛ جس نے خدائے متعال کی اطاعت کی اس نے اس کویادکیا ہے اگر چہ اس کے روزہ و نماز کم ہوں او رقرآن مجید کی تلاوت کم کی ہے ۔''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیان میں زہدو تقویٰ:

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زہد کے بارے میں فرماتے ہیں:

''یا اباذر؛ اصل الدین الورع و راسه الطاعة. یا اباذر؛کم ورعا تکن اعبد الناس و خیر دینکم الورع''

''اے ابوذر! دین کی جڑزہد اور گناہ و شبہات سے دوری اختیار کرناہے او راس کی اصل خدا کی اطاعت ہے۔ اے ابوذر! اپنے نفس کو گناہوں سے بچانا تا کہ تم لوگوں میں عابد ترین شخص بن جاؤ اور تمھارے دین کا بہترین حصہ پارسائی ہے۔''

بنیادی طور پر ورع نفس کو محرمات سے روکنے اور اس سے دوری اختیار کرنے کے معنی میں ہے، اس کے بعد یہ لفظ مطلق طور پر نفس کو روکنے کے معنی میں استعمال ہواہے اور اس کا مفہوم تقوی مفہوم سے کے بہت قریب ہے ۔ لیکن غالبا ورع کو پرہیزگاری کے ملکہ (جو ایک اندورنی حالت ہے) میں استعمال کرتے ہیں اور تقوی کا مقدمات عمل، خود اچھے عمل نیز داخلی ملکہ پر اطلاق ہوتاہے.

حضرت علی علیہ السلام انسان کو گناہ اورانحراف سے روکنے کے سلسلہ میں ورع کے نقش کے بارے میں فرماتے ہیں:

''لاشرف اعلی من الاسلام و لا عزّاعزّ من التقوی و لا معقل احسن من الورع''

''اسلام سے بالاتر کوئی عظمت و بزرگی نہیں ہے، پرہیز گاری سے بالاتر کوئی عزت و احترام نہیں ہے اور ورع و پارسائی (گناہ او رشبہات سے دروی) سے بڑھ کر کوئی مستحکم ترین پناہ گاہ نہیں ہے۔''(۹)

حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اتقوا اللّٰه و صونوا دینکم بالورع''

''الہی تقوی کو اپنا لائحہ عمل پیشہ قرار دو اور پارسائی سے اپنے دین کا تحفظ کرو''(۱۰)

سعادت او ربلند معنوی درجات تک پہنچنے اور ہلاکت کے بھنور میں گرکر غرق ہونے سے بچنے کے لئے سب سے بڑا ذریعہ پارسائی اور اپنے آپ کو حرام سے بچانا ہے۔ حقیقت میں ورع اور گناہوں سے اپنے کو محفوظرکھنا خدا کی بندگی اور اس کی عبادت کا سخت ترین مرحلہ ہے۔ اس لئے امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ان اشد العبادة الورع ''

''ورع مشکل ترین عبادت ہے۔'''(۱۱)

عبادت کی سلامتی میں ورع کے رول پیش نظر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''... لاخیر فی نسک لاورع فیه'' (۱۲)

''جو عبادت ورع کے ساتھ نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔''

عبادت کے ساتھ ورع کی ضرورت کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید فرماتے ہیں:

''یا اباذر! فضل العلم خیر من فضل العبادة و اعلم انکم لو صلیتم حتی تکونوا کالحنایا و صمتم حتی تکونوا کالاوتار ما ینفعکم الا بورع''

''اے ابوذر! علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور جان لو اگر اس قدر نماز پڑھوکہ کما ن کے مانند خم ہوجاؤ اور اس قدر روزہ رکھوکہ تیر کے مانند دبلے پتلے ہوجاؤ اگر ورع نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔''

مزید فرماتے ہیں:

''یا باذر؛ اهل الورع و الزهد فی الدنیا هم اولیا اللّٰه حقا''

''جو دنیا میں اہل ورع و زہد ہیں حقیقت میں وہ اولیائے الہی ہیں۔''

''زہد '' اور ''زھادہ'' لغت میں دنیا سے دلچسبی، میل و رغبت کے مقابلہ میں بی رغبتی کے معنی میں ہے۔ یعنی انسان دنیا سے رغبت او رشغف نہ رکھے اور صرف سادہ زندگی پر قناعت کرے.

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام میں مطلوب زہد، یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر صورت میں نبھانے کے لئے، سادگی او رتجمل گرائی سے پرہیز کو اپنا شیوہ قرار دے اور زرق وبرق والی ظاہری زندگی کی نسبت بے اعتنائی دکھائے۔ بدیہی ہے کہ رفتار کایہ طریقہ دنیا اور اس کے مظاہر کو ناپاک جاننے ، دنیا و آخرت میں موجود تضاد اور اجتماعی ذمہ داریوں سے فرار کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اسلام میں زہد ذمہ داریوں کو بہتر صورت میں انجام دینے اور و افراطی میلانات کو زندگی کی ظاہری کششوں سے بچانے کے لئے ہے زہد انسان کی زیادہ خواہی کی ذہنیت کو کنٹرول کرتاہے اور دنیا کی زندگی کی ظاہری حالت کے مقابلہ میں خود فروشی کو ختم کردیتا ہے۔ چنانچہ حافظ کہتے ہیں:

غلام ہمت آنم کہ زیر چرخ کبود

ز ہر چہ رنگ تعلق پذیرد آزاداست

میں اس شخص و ارادے کا کا غلام ہوں جو اس آسمان کے نیچے خدائے متعال کے علاوہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔

اس بنا پر اسلام میں زہد، مال و اقتدار سے منافات نہیں رکھتا ہے اور حقیقت میں زاہد وہ ہے جو زندگی کے مظاہر کو خدا اور حقسے زیادہ دوست نہیں رکھتا ہے اور الہی مقاصد کو دنیوی مقاصد پر قربان نہیں کر تا ہے او رآخرت کو بنیاد قرار دے کر دنیا کو فروع ، وسیلہ اور مقدمہ کے عنوان سے جانتا ہے۔

مذکورہ مطالب کے پیش نظر زہد کا رہبانیت (جو عیسائیوں او ربدھ مذہب کے پیرؤں میں رائج ہے)سے فرق واضح ہوجاتاہے،کیونکہ رہبانیت ترک دنیا، ذمہ داریوں اور اجتماع سے فرار کے معنی میں ہے اور اس قسم کی فکر اسلام کی روح سے موافقت نہیں رکھتی ، اسلام کی نظر میں زندگی کے تمام مظاہر جیسے مال ، فرزند اور ریاست و غیرہ سب ترقی و تکامل کے وسائل ہیں اورخدائے متعال کی تمام نعمتیں اور ان کا صحیح استعمال اور استفادہ میں تعادل کی رعایت ، اس کے علاوہ انسان کی دنیا کے آباد ہونے کا سبب ہیں، آخرت کو آباد کرنے کا بھی سبب ہے ۔ صحیح استفادہ اس معنی میں ہے کہ انسان دنیا اور اس کے مظاہر کو بنیاد اور اصل قرار دینے کا قائل نہ ہو اور انھیں کمال اور سعادت اخروی تک پہنچنے کے لئے خدا کی نعمتوں کا درجہ دے، چنانچہ فرمایا گیا ہے:

''الدنیا مزرعة الآخره ''(۱۳)

''دنیا آخرت کے کھیتی ہے۔''

اور خدائے متعال فرماتاہے:

( و ابتغ فیما اٰتٰک اللّٰه الدّار الآخرة و لا تنس نصیبک من الدّنیا. ) ..)

(قصص/٧٧)

''اور جو کچھ خدانے دیا ہے اس سے آخرت کے گھرکا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جاؤ...''

اسلام کی نظر میں ، جو کچھ دنیا میں موجود ہے وہ اچھا ہے، خدائے متعال نے کسی بری چیز کو خلق نہیں کیا ہے۔ اس لئے نہ دنیا اور اس کے مظاہر برے ہیں نہ ان سے دلچسپی اور وابستگی کہ جو طبیعی میلانات کے مطابق انسان کے اندر قرار دی گئی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

''الزهادة فی الدنیا لیست بتحریم الحلال و لا اضاعة المال و لکن الزهادة فی الدنیا ان لا تکون بما فی یدیک اوثق منک بما فی ید اللّٰه '' (۱۴)

''دنیا میں زہد اور دنیا کو اہمیت نہ دینا یہ نہیں ہے کہ حلال کو اپنے لئے حرام کروگے یا اپنے مال کو ضائع کروگے۔ زہد، یعنی جو کچھ تمھارے ہاتھ میں ہے اسے اس سے زیادہ اعتقاد نہ رکھنا جو خدا کے پاس ہے۔''

نیز حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ایّها الناس الزّهادة قصر الأمل و الشکر عند النعم و الورع عند المحارم...''

''اے لوگ! زھد ، اپنی آرزؤں کو کم کرنا، نعمتوں کی شکر گزاری اور حرام سے پرہیز ہے.''

مذکورہ بیانات کے علاوہ، قرآن مجید رہبانیت کی مذمت کرتاہے اور اسے ایک ایسی بدعت جانتا ہے ،جسے راہبوں نے دنیا و آخرت کے درمیان تضاد کی غلط فہمی کی بنیاد پر عیسائی مذہب میں رائج کیا ہے۔قرآن مجید یہ فرمانے کے بعد کہ: ''ہم نے عیسی کو بھیجا اور انھیں انجیل عطا کی اور ان کی پیروی کرنے والوں کے دل میں مہربانی اور رحم قرار دیا'' فرماتاہے:

(...و رهبانیة ابتدعوها ماکتبناهاعلیهم الا ابتغاء رضوان اللّٰه فمارعوها حق رعایتها )(حدید/٢٧)

''اور جس رہبانیت کو انھوں نے از خود ایجاد کیا تھا اور اس سے رضائے خدا کے طلبکار تھے ہم نے ان کے اوپر فرض نہیں کہا تھا اور انہوں نے خود بھی اس کی مکمل پاسداری نہیں کی۔''

ایک دن عثمان بن مظعونی کی بیوی شکوہ کرنے کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی : اے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عثمان بن مظعون دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو شب بیداری کرتا ہے (اپنی زندگی اور اہل و عیال کی فکر نہیں کرتاہے) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ مطلب سننے کے بعد عثمان کے پاس تشریف لے گئے اور دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں ہے ۔ جب عثمان نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو اس نے نماز ختم کی ۔پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے کہا:

''یا عثمان! لم یرسلنی الله بالرهبانیة ولکن بعثنی بالحنفیة السهلة السمحة أصوم و أصلی و ألمس اهلی ۔۔۔(۱۵) ''

'' اے عثمان ! خداوند متعال نے ہمیں تصوف کے دین پر اور ترک دنیا کے لئے مبعوث نہیں کیا ہے بلکہ ایک معتدل اور آسان دین پر مبعوث کیا ہے ۔ میں روزہ رکھتا ہوں ، نماز بھی پڑھتا ہوں اور اپنی بیوی سے مباشرت بھی کرتا ہوں۔''

شہید مدرس قشمہ ای کے بارے میں نقل کیا گیاہے کہ : ایک دن قمشہ کاایک معروف زمیندار مدرس کے پاس آیا اور زمین کا ایک حصہ انھیں دینا چاہا۔ مدرس ، باوجود اس کے کہ انتہائی فقر و تنگدسی سے دوچار تھے، زمیندار سے کہا: کیا تمہارے خاندان میں کوئی فقیر و محتاج نہیں ہے؟اس شخص نے کہا: کیوں نہیں، ہیںلیکن میں زمین کے اس ٹکڑے کوآپ کو بخشناچاہتا ہوں ۔ مدرس نے فرمایا: بہتر ہے اس زمین کو اپنے کسی فقیر رشتہ دار کو بخش دو۔

اسی طرح نقل کیا گیا ہے: آیت اللہ مدرس، موسم گرما و سرمامیں ٹاٹ کا بُنا ہواایک ہی قسم کا لباس پہنتے تھے اور فرماتے تھے: ہاتھ، پاؤں اور باقی بدن کی کھال چہرے کی کھال سے نازک تر نہیں ہے۔ بدن کی جس طرح عادت بنائوگے،بدن عادی ہوتا ہے! وہ اونی موزہ ، شلوار اور اونی کرتا، قبائے سرج اور عبائے نائینی نہیں پہنتے تھے اور فرماتے تھے: ان چیزوں کے لئے پیسا ہونا چاہئے اور پیسے غلامی لاتے ہیں اور مدرس غلام نہیں ہونا چاہتا ہے(شہادت کے وقت ان کی پوری ثروت چوبیس ٢٤ تومان تھے)

آیت اللہ شہید مدرس اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے فرمایا: کہ دن رات میں صرف ایک وقت کے کھانے پر قناعت کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے لباس کو صاف ستھرا رکھو تا کہ نئے کپڑے سلوانے کی فکر میں نہ رہو ، وہ ہمارے اجداد کو نمونہ عمل قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے: حلم و بردباری کو اپنے جد بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھو، شہادت و قناعت کو اپنے جد پاک علی علیہ السلام سے اور ظلم و ستم کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کو اپنے جد سیدالشہداء سلام اللہ علیہ سے سیکھ لینا۔ ؟(۱۶)

____________________

١۔بقرہ ١٩٤

٢۔ نہج البلاغہ (فیض الاسلام) خطبہ ١١٣، ص ٣٥٣

٣۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٦، ص ٦٦

۴۔نہج البلاغہ (فیض الاسلام ) خطبہ ١٨٢، ص ٦٠٢

۵۔ بحار الانوار، ج ٧٧، ص ٦٤

۶۔ بحار الانوار ، ج ٧٠، ص ٢٤

۷۔ بحار الانوار ، ج ٥٩، ص ١٦٣

۸۔ وسائل الشیعہ ،ج١١ص٢٣٥

۹۔ نہج البلاغہ ( فیض الاسلام) حکمت ٣٦٣، ص١٢٦

۱۰۔ بحار الانوار ، ج ٧٠، ص ٢٩٧

۱۱۔ بحار الانوار ، ج ٧٠، ص ٢٩٧

۱۲۔ بحار الانوار، ج ٧٠، ص ٣٠٧

۱۳۔ بحار الانوار، ج ٧٣، ص ١٤٨

۱۴۔ نہج الفصاحة ،ص ٣٥٨حدیث ١٧١٢

۱۵۔بحار الانوار ، ج٢٢، ص٢٦٤

۱۶۔ حسینی سید نعمت اللہ، مردان علم در میدان عمل،ص١٢٧۔١٢٩