زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 38885
ڈاؤنلوڈ: 3070


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38885 / ڈاؤنلوڈ: 3070
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

اکیسواں درس

تفکر کی اہمیت اور غفلت سے بچنے کے عوامل کے تحفظ کی ضرورت

*پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تین نصیحتیں:

الف: تشییع جنازہ کے وقت آہستہ گفتگو کرنا

ب:جنگ کے دوران آہستہ گفتگو کرنا

ج:قرآن مجید کی قرائت کے دوران آہستہ گفتگو کرنا

* بیدار کرنے والے عوامل سے بے توجہی کا انجام

*کاہلی اور بیہودہ ہنسنے کی مذمت

*عبادت میں تفکر کا اثر

تفکر کی اہمیت اور غفلت سے بچنےکے عوامل کے تحفظ کی ضرورت

''یَا َبَاذَرٍّ! ِخْفِضْ صَوْتَکَ عِنْدَ الْجَنَائِزِ وَ عِنْدَ الْقِتَالِ وَ عِنْدَ الْقُرآنِ

''یٰا َبَاذَرٍّ!اِذَا تَبِعْتَ جَنَازَةً فَلْیَکُنْ عَقْلُکَ فِیْهَا مَشْغُولاً بِالتَّفَکُّرِ وَالْخُشُوعِ وَ اعْلَمْ اِنَّکَ لاَ حِق بِهِ

یَا اَبَاذَرٍّ! اِعْلَمْ اَنَّ کُلَّ شَیئٍ اِذَافَسَدَ فَالْمِلْحُ دَوَاؤُه وَِذَافَسَدَ الْمِلْحُ فَلَیسَ لَهُ دَوَائ وَاعْلَمْ اَنَّ فِیکُمْ خُلْقَینِ الضِّحْکُ مِنْ غَیرِ عَجَبٍ وَالْکَسَلَ مِنْ غَیْرِ سَهْوٍ یَا َبَاذَرٍّ! رَکْعَتٰانِ مُقْتَصِدَتَانِ فِی تَفَکَُّرٍ خَیْرمِنْ قِیَامِ لَیْلَةٍ وَالْقَلْبُ سٰاهٍ''

اس سے پہلے انسان میں خوف وخشیت پیدا ہو نے کے اسباب و عوامل پر بحث ہوئی۔ کہا گیا کہ من جملہ عوامل کہ جو انسان میں خوف خدا پیدا کرتے ہیں ، قیامت کے دن جہنم کے عذاب کے بزرگ ہونے اور بہشت کی نعمتوں کی اہمیت و وسعت پر توجہ کرنا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیانات کے اس حصہ کا گزشتہ مطالب سے اس لحاظ سے ربط ہے کہ قلبی اور اندرونی حالات، جیسے، خوف، خشیت، شوق، امید، محبت و انس یہ سب چیزیں صرف اس صورت میں پیدا ہوسکتی ہیں کہ جب انسان توجہ دے اور اس کا دل بیدارا ور آگاہ ہو، لیکن اگر انسان غافل ہے اور اس کی توجہ ضعیف ہے اس صورت میں یہ حالات یا بالکل اس کے اندر پیدا نہیں ہوںگے یا ضعیف اور کم رنگ صورت میں رو نما ہوں گے۔

جب انسان غفلت یا سنگدلی اور بے رحمی میں مبتلا ہوتا ہے اور خودبہ خود ان رذائل اخلاقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کی اس پست حالت سے باہر آنے کے لئے، کچھ عوامل و اسباب مد نظر رکھے گئے ہیں،ان عوامل و اسباب میں سے کچھ انسان کے اندر سے جاری ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ خارجی ہیں، کبھی خارج میں کوئی حادثہ پیش آتا ہے، کوئی بات سننے میں آتی ہے یا ایسے شرائط پیدا ہوجاتے ہیں جو انسان کے لئے متنبہ اور بیدار ہو کر غفلت سے نجات پانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ البتہ یہ تاثیر توفیقات الہٰی کے زمرہ میں ہے اور ان فرصتوں کی قدردانی کی جانی چاہیے اور انسان کو شکر گزار بننا چاہیے۔ تاکہ خدا کی مہر بانیوں اور توفیقات میں اضافہ ہوجائے، اگر ان فرصتوں سے استفادہ نہیں کیا گیااور قدر دانی نہیں کی گئی تو انسان کی غفلت اور بے رحمی میں اضافہ ہوئے گا، اس سلسلہ میں پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یَاا َبَاذَرٍّ: ِخْفِضْ صَوْتَکَ عِنْدَ الْجَنَائِزِ وَ عِنْدَ الْقِتَالِ وَ عِنْدَ الْقُرآنِ ۔

''اے ابوذر! جنازوں کے پاس، دین کے دشمنوں سے جنگ کے دوران اور تلاوت قرآن مجید کے وقت آہستہ گفتگو کرو؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کے اس حصہ میں اخلاق، تربیت اور حفاظت سے مربوط تین نصیحتیں فرماتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین نصیحتیں:

الف۔ تشییع جنازہ کے وقت آہستہ گفتگو کرنا:

بہت مناسب ہے انسان آہستہ بات کرے اور بلند گفتگو نہ کرے یہ ایک شائستہ ادب ہے جس کے بارے میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی ہے:

( وَاغْضُضْ مِنْ صَوتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوتُ الْحَمِیرِ ) (لقمان١٩)

آہستہ گفتگو کرو اوراپنی آواز دھیمی رکھنو کہ سب سے بدتر آواز گدہے کی ہوتی ہے۔

اگر چہ عادی مواقع پر آہستہ بات کرنا مطلوب ہے، لیکن بعض مواقع پر متعارف اور معمول کی حد سے بھی بہت آہستہ بات کرنی چاہیے یا خاموشی اختیار کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر جب انسان کو اپنی فکر اور توجہ کو کسی امر کے لئے متمرکز کرناہے تو وہ دوسرے امور کو چھوڑ کر اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے، اور یہ فطری بات ہے کہ من جملہ مواقع میں سے کہ جہاں پر انسان کو فکر و اندیشہ میں غرق ہو کر عبرت حاصل کرنی چاہیے وہ تشییع جنازہ میں شرکت کا وقت ہے، یہاں پر انسان کو توجہ رکھنی چاہیے کہ کبھی یہ موت اسکے پیچھے بھی آنے والی ہے۔

اس بناپر دنیوی امور کے بارے میں بات کرنے سے وہ پرہیز کرتا ہے اور اس کی توجہ اس انسان کی تقدیر پر متمر کز ہوتی ہے جس کا جنازہ لوگوں کے کا ندھوں پر ہوتا ہے تاکہ عبرت حاصل کرے، افسوس کہ ہم اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کرتے ، حتی تشییع جنازہ کے دوران بھی آداب کی رعایت نہیں کرتے ہیں اور عبرت حاصل کرنے کی فکر میں نہیں ہوتے ہیں، یہ اس صورت میں ہے جب کہ تاکید کی گئی ہے کہ تشییع جنازہ کے وقت خاموشی، آرام، وقار اور اطمینان سے راستہ چلو اور تمہاری توجہ صرف جنازہ کی طرف مبذول ہو، لہٰذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

( یٰا َبَاذَرٍّ:اِذَا تَبِعْتَ جَنَازَةً فَلْیَکُنْ عَقْلُکَ فِیْهَا مَشْغُولاً بِالتَّفَکُّرِ وَالْخُشُوعِ وَ اعْلَمْ اِنَّکَ لاَ حِق بِهِ )

اے ابوذر! جنازہ کے پیچھے چلتے وقت اپنی عقل کو تفکر اور خشوع میں مشغول رکھواور یہ جان لو! کہ تم بھی اس سے ملحق ہونے والے ہو۔

من جملہ امور جو انسان کو غفلت سے باہر لاسکتے ہیں، ایک ایسے مومن کے جنازہ کا مشاہدہ کرنا ہے کہ جس نے ایک عمر تلاش اور دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند اور کامیاب ہو کر وفات پائی ہے اور اس کے جنازہ کو قبرستان کی طرف لے جارہے ہیں،یقینا انسان کو اس غمناک منظر کا مشاہدہ غفلت سے نکالتا ہے، کیونکہ دنیا اور اس کی ( دل فریب) رعنائیوں کی طرف متوجہ ہونا اور اس میں گرفتار ہوجانا غفلت کا سبب بنتے ہیں اور جو چیز انسان کو آخرت کی طرف متوجہ کرے، وہی غفلت سے بیداری اور اس سے دوری کا سبب بنتی ہے،اس لحاظ سے بیداری اور غفلت سے دور ہونے کا بہترین وسیلہ یہ ہے کہ انسان آنکھیں کھول کر دیکھے کہ ایک شخص نے ایک عرصہ تک سعی و کوشش کے بعد اپنی زندگی کو مکمل کیا ہے اور اب وہ عالم آخرت کی طرف کوچ کر رہا ہے۔ گرچہ انسان جانتا ہے کہ موت قطعی ہے اور سب مرر ہے ہیں، لیکن دنیا سے رخصت ہونے والے کا مشاہدہ کرنا، اسے جاننے سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔

ایک مومن کے تشییع جنازہ میں شرکت کی فرصت کو اپنے نفس کی اصلاح، نفسانی خواہشات سے اجتناب اور اصلاح کے لئے غنیمت جاننا چاہیے اور فکر وہواس کو ادھر اُدھر، پر اکندہ ہونے سے دوری اختیار کرنی چاہیے اور صرف اپنی عافیت کے بارے میں فکر کرنی چاہیے ،سوچنا چاہئے کہ یہ وہ راہ ہے جسے دیر یاجلد ہمیں بھی طے کرنا ہے، پس کیا یہ دنیا کی چند روزہ زندگی یہ اہمیت رکھتی ہے کہ ہم بے پرو ا ہو کر اس کے لئے تلاش کریں؟ ہمیں چاہئے کہ ہم اس بارے میں غور و فکر کریں کہ، کیا ہم نے آخرت کی زندگی کے بارے میں صحیح کوشش کی ہے یا نہیں؟

موت کے بارے میں تفکر کرنا جیسا کہ روایتوں میں اس کی تاکید کی گئی ہے با اثر ترین عوامل میں سے ہے، جو شیطان سے دوری اور صحیح راستہ پر گامزن ہونے کا سبب بن سکتا ہے، انسان کو فکر کرنی چاہیے کہ شاید ایک گھنٹہ بعد زندہ نہیں رہے گا کیونکہ کوئی شخص مطمئن نہیں ہے وہ کب تک زندہ ہے، لہٰذا لمبی آرزئوں کے مقابل جو غفلت اور قساوت کا سبب بنتی ہیں، موت کی طرف توجہ کرنا انسان کے لئے غفلت سے دوری اور بیداری کا سبب بنتا ہے، اور ممکن ہے یہ تفکر واندیشہ اور یہ شیوئہ عمل انسان اور اس کی تقدیر کو بدل کے رکھدے۔

یہ فطری بات ہے، جب انسان اپنے انجام کے بارے میں غور کرے گا اور اپنے آپ کو خدائے متعال کی عظمت کے سامنے مغلوب پائیگاتواس کے دل میں ناکامی، ذلت اور خشوع کی حالت پیدا ہوگی اور اس کے آثار ظاہر میں بھی نمایاں ہوں گے چنانچہ جب مومن نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اپنے مقابل میں خدا کی عظمت کو پاتا ہے، تو اس میں خضوع و خشوع پیدا ہوتا ہے، البتہ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی تاکید کی گئی ہے اور مومن کی واضح ترین خصوصیت کے طور پر ذکر ہوئی ہے، جو اس کے لئے کامیابی کا سبب بنتی ہے:

( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ هُمْ فِی صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) (مومنون١۔٢)

''یقینا صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں گڑ گڑانے والے ہیں''

(اس کے مقابل جو خدا کی عظمت کو نہیں دیکھتے اور نماز کے مفہوم پر غور و فکر نہیں کرتے ہیں، ان میں خضوع و خشوع پیدا نہیں ہوتا ہے)

چنانچہ ہم نے کہا کی خشوع دل میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے آثار انسان کے اعضاوجوارح سے آنکھوں میں ظاہر ہوتے ہیں، لیکن کبھی خشوع کے بارے میں بعض اعضائے بدن سے بھی نسبت دی جاتی ہے، چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے:

( وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلاَ تَسْمَعُ اِلَّاهَمْساً ) (طہ ١٠٨) ''(قیامت کے دن) ساری آواز یں رحمن کے سامنے خاشع ہوں گی اور تم سنسناہٹ کے علاوہ کچھ نہیں سن سکو گے۔''

ایک دوسری جگہ فرماتا ہے:

( خَاشِعَةً َبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّة وَ قَدْ کَانُوا یُدْ عَونَ اِلیَ السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ) (قلم ٤٣)

''ان کی نگاہیں شرم سے جھکی (خاشع) ہوں گی، ذلت ان پر چھائی ہوگی اور انھیں اس سے پہلے بھی سجدوں کی دعوت دی گئی تھی جب وہ بالکل صحیح و سالم تھے۔''

جو کچھ بیان ہوا اس کی بنا پر، تشییع جنازہ میں شرکت اور اس شخص کے انجام پر توجہ کرنا جو اس دنیا سے رخصت ہوا ہے اور قیامت کے منظر پر توجہ کرنا اور اس کے حالات اپنی آگاہی کے مطابق ذہن میں تصور کرنا، خضوع، خشوع اور غفلت سے دوری کا سبب ہے، لیکن اگر انسان اس وقت بھی اسی طرح بے فکر رہے جیسے کہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے اور صرف دنیا کی فکر اور باتوں میں مشغول ہو، تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

جب کوئی شخص اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو بعض لوگ اس کی موت سے استفادہ کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں، اگر وہ پر و فیسر تھا، تو اس فکر میں ہیں کہ اس کی جگہ پر گامزن ہو جائیں، اگر رئیس تھا توخوشحال ہیں کہ اس کا عہدہ انھیں ملے گا، اگر کوئی ڈاکٹر مرگیا ہے تو دوسرے اس فکر میں ہیں کہ اس کی حیثیت و موقعیت کو حاصل کریں، افسوس اور شرم کی بات ہے! جو حادثہ انسان کے لئے قیامت اور اس کی زندگی کے انجام پر توجہ کرنے کا سبب ہونا چاہیے تھا، برعکس اسے دنیا میں غرق کرڈالتا ہے۔ جہاں پر انسان کو عبرت حاصل کر کے بیداری کے عامل کو اپنے اندارفراہم کرکے زندگی گزارنا چاہیے تاکہ فرضیات اور اوہام سے دوری اختیار کرے ،اس کے برعکس بعض لوگ غفلت اور بے رحمی سے دوچار ہونے کی وجہ سے بیشتر اوہام اور مفروضات میں پھنس جاتے ہیںنیز انھیں جھینجھوڑنے اور بیدار کرنے والے مناظر نہ صرف انہیں بیدار نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی بے رحمی اور سنگدلی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کو گوش گزار فرماتے ہیں کہ منجملہ مواقع جو انسان کے لئے خوف، خشیت، خضوع و خشوع پیدا کر سکیں، تشییع جنازہ میں شرکت کرنا ہے، اس شرط پر کہ باتوجہ ہو، اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھے اور شورشرابہ سے پرہیز کرے، صرف اپنی طرف توجہ کرے اور آہستہ آہستہ بات کرے تاکہ فکر واندیشہ کو جاری رکھ سکے، کیونکہ بلند آواز میں بولنا حتی بات کرنا، انسان کے دل کو مشغول کر دیتا ہے اور اسے حضور قلب کی طرف توجہ کرنے سے روکتا ہے۔

ایک دن تہران میں ایک شخص نے علامہ طباطبائی سے پوچھا، میں کیا کروں تاکہ نماز میں مجھے حضور قلب پیدا ہو؟ علامہ نے جواب میں فرمایا: باتیں کم کرو، شاید ہم اس پر تعجب کریں کہ باتیں کرنے سے نماز میں حضور قلبکا پیدا نہ ہونا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے،(اتفاقاً وہ شخص باتونی تھا) یقینا بولنے اور باتیں کرنے سے انسان کی فکری، روحی اور نفسیاتی طاقت صرف ہوتی ہے، بالخصوص اگر بولنا رسمی ہو یعنی موعظہ، تقریر و تدریس ہو، جب بعض لوگ انسان کی تقریر سنتے ہیں تو وہ احتیاط کرتے ہیںکہ کوئی غلط بات نہ کہیں، اس لحاظ سے ان کی پوری توجہ اس کی تقریر کی طرف متمرکز ہوتی ہے اور یہ چیز اسے اپنے بارے میں فکر کرنے سے روکتی ہے، اس لئے باتیں کم کرنا اورآہستہ آواز میں بولنا انسان کو اپنی طرف زیادہ توجہ کرنے کا سبب بنتا ہے، اور وہ فکر پر اکندگی سے دوری اختیار کرتا ہے۔

تشییع جنازہ میں شرکت کرتے وقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے:

''کَانَ النَّبِیُ اِذَاتَبِعَ جَنَازَةً غَلَبَتْهُ کَآبَةً وَاَکْثَرَ حَدِیثَ النَّفْسِ وَاَقَّلَ الْکَلاَمَ'' (۱)

''تشییع جنازہ کے دوران پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرانتہائی غم واندوہ کا عالم طاری ہوتاتھا ،آپ بیشتر غور و فکر میں ہوتے تھے اور باتیں کم کرتے تھے۔''

ب) جنگ کے دوران آہستہ گفتگو کرنا:

حملہ اور جنگ کے دوران سپاہیوں کی حالت اور عسکری اسرار کے پنہان ہونے کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ کے دوران آہستہ بات کرنے کی تاکید فرماتے ہیں، جنگ میں ایسے شرائط پیش آتے ہیں،بالخصوص جنگی حکمت عملی اور جنگی علاقوں سے معلومات حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کے وقت، جن کے پیش نظر ضروری ہو جاتا ہے کہ جنگی اسرار کی حفاظت اور دشمن کی نظر سے اپنے سپاہیوں کی پوزیشن چھپائے رکھنے پردقت کی جائے، ممکن ہے کبھی بلند آواز میں گفتگو کرنا اور نامناسب حرکات اس امر کا سبب بن جائے کہ دشمن جنگی حکمت عملی اور حملے کے منصوبہ سے آگاہ ہوجائے جن کے نتیجہ میں مجاہدین کی جان بھی خطرے میں پڑے اورحملے کا منصوبہ اور پلان بھی ناکام ہوجائے۔

ہمارے مجاہدین نے اس حقیقت کو آٹھ سالہ جنگ کے دوران اچھی طرح تجربہ کیا ہے: یعنی بعض اوقات پوزیشن ایسی خطرناک، نازک اور حساس ہوتی تھی کہ ان کی ایک رفتاربھی فیصلہ کن ہوتی تھی، انہیں ایسی راہ پرچلنا پڑتا تھا کہ پائوںکے کھسکنے کی آواز بھی بلند نہیں ہونی چاہیے تھی، حقیقت میں جنگی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا نے میں دشمن کے غافلگیرہونے کے اصول سے استفادہ کرتے تھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس نصیحت میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جنگ اور عملیات کی اہمیت و حساسیت کے تقاضا کے مطابق فوج کو عسکری اہداف کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقت کو بروئے کارلانا چاہیے،اس نقطہ نظر کے مطابق خاموشی، آرام اور حواس کومتمر کزکرنے سے اپنی اندرونی اور پوشیدہ طاقت کو ہماہنگ کر کے پوری قوت و طاقت اور انتہائی صلاحیت کے ساتھ دشمن سے نبرد آزما ہو اور ایسی چیزوں سے قطعا پرہیز کریں جو ان کی فکر اور طاقت کو جنگ و حملہ سے منصرف کرنے کا سبب ہو،اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت علی علیہ السلام جنگ جمل میں اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے عسکری نصیحت کے طور پر فرماتے ہیں:

''تزول الجبال ولا تزل عضَّ علی ناجذک أَعراﷲ جمجحتک تِدْ فی الارض قدمک اِرْمِ ببصرک اقصی القوم وغُضَّ بصرک وَاعلم ان النصر من عند اﷲ سبحانه ''(۲)

پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے لیکن تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا،اپنیجبڑون کو مضبوطی سے دبائے رکھنا، اپنے سر کو خدا کی راہ میں عاریہ دے دینا، اپنے پیروں کومیخ کے مانند زمین میں نصب کردینا، اپنی نظر کو دشمن کے آخری نقطہ پر متمرکزر کھنا اور دوسری جانب چشم پوشی کرنا، جان لو کہ خدا کی طرف سے کامیابی اور فتح تمھارے نصیب ہوگی۔

ج) قرآن مجید کی قرائت کے وقت آہستہ آہستہ بات کرنا:

اگر انسان کوکبھی قرائت قرآن مجید کی محفل میں شرکت کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے خواہ اس کامقصداور محرک قرآن سے استفادہ کرنا ہویا کسی اور محرک کی وجہ سے مثلاً مجلس ترحیم پسماندگان کو تعزیت و تسلیت کہنے کیلئے قرائت قرآن مجید کی محفل میں شرکت کی ہے تو اسے اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر آیات میں تدبر اور ان کے مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حتی اگر قرآن مجید کی ملکوتی آواز ریڈیو سے نشرہورہی ہے تب بھی خاموشی اور آرام سے تدبر اور اندیشہ میں غرق ہوجائے، تاکہ اس ابدی معجزہ کے مفاہیم کو اپنی روح کی تعمیر اور اسے اخلاقی رذائل سے پاک کرنے اور قابل قدر عادات، جیسے خضوع و خشوع کو ایجاد کرنے میں استفادہ کرے، چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے:

( اﷲُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَاباً مُتَشَابِهاً مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَونَ رِبَّهُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُهُمْ وُقُلَوبُهُمْ اِلَی ذِکْرِ اﷲِ... ) (زمر٢٣)

''اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں۔''

قرآن مجید کی اس نہایت عمدہ تاثیر کے باوجود اگر انسان قرآن مجید کی قرائت کے دوران آیات کے مفاہیم کی طرف توجہ نہ کرے اور اس کے لئے قرآن مجید کی آواز دوسری آوازوں سے کوئی فرق نہ رکھتی ہو، تو وہ غفلت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کی بے رحمی میں اضافہ ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی اہمیت، اس کے احترام کے تحفظ اور قدر و منزلت کے پیش نظر خدائے متعال فرماتا ہے:

( وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُراٰنُ فَاسْتَمِعُوالَهُ وََنْصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ) (اعراف٢٠٤)

''اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے۔''

فطری بات ہے کہ جب خدائے متعال نے قرآن مجید کو انسان کی ہدایت اوراندرونی تبدیلینیز خدا کی طرف توجہ کیلئے وسیلہ قرار دیا ہے، اب اگر وہ قرآن مجید کی آواز کی طرف متوجہ نہ ہو اور اس ملکوتی آواز اور دوسری آوازوں کے درمیان کوئی فرق نہ قرار دے اور خدا کے موعظوں اور نصیحتوں کی طرف توجہ نہ دے تو اس نے برا کام انجام دیا ہے اور کفرانِ نعمت کا مرتکب ہو ا ہے کہ اس نے ایک قیمتی فرصت کو گنوا دیا ہے،بلکہ اس کی بے رحمی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور ہدایت کے لئے محدود چانس اور نسبی آماد گی کو بھی کھو دیا ہے۔

قرآن مجید سے بہرہ مند ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تلاوت کے دوران ہم اپنے ہوش و حواس پر کنٹرول کر کے ایسے کان لگا کر سنیں کہ گویا قرآن مجید کی ملکوتی آواز کو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی سن رہے ہیں، اس صورت میں قرآن مجید ہم میں اثر کرے گا اور تب اس سے بہترین صورت میں ہم استفادہ کرسکتے ہیں۔

قرآن مجید کی مجلسوں، جیسے مجلس ترحیم اور فاتحہ خوانی کی مجلسوں میں قرآن مجید کی تلاوت کا سننا ایک سنّت حسنہ ہے اور اس کی فراوان تاکید کی گئی ہے، افسوس کہ ہم اس نیک سنّت کی رعایت نہیں کرتے، مجلس ترحیم اور فاتحہ خوانی کی مجلسوں میں آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول رہتے ہیں، حتی بلند آواز میں باتیں کرتے ہیں، یقینا جس کی توجہ اور فکر باتیں کرنے اور دوسروں کی باتیں سننے میں مشغول ہو، قرآن مجید کی طرف توجہ کرنے سے محروم رہتا ہے، اس لحاظ سے اہل سنت ہم سے آگے ہیں، وہ قرآن مجید کی تلاوت کے لئے خصوصی جلسات منعقد کرتے ہیں اور قرآن مجید کی صوت وقرائت پر شایان شان توجہ دیتے ہیں لیکن دوسری طرف بعض لوگوں کی ان مجلسوں میں شرکت، قرآن مجید کے قاریوں کی ہنرنمائی کا مشاہدہ کرنے اور ان کی تشویق کے لئے ہوتی ہے کہ بیچ بیچ میں ''اللہ اللہ'' کہہ کر ان کی ہمت افزائی اورترغیب و تشویق کرتے ہیں۔

درحقیقت ان کی (اہل سنت) توجہ لفظ اور قرآن مجید کی ظاہری صورت کی طرف زیادہ ہوتی ہے اور قرآن مجید کے مفہوم اور نہایت عمدہ اثرات سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہم قرآن کی تلاوت سننے کے لئے کم جلسات منعقد کرتے ہیں، قرآن مجید کے ہمارے عمومی جلسات وہی مجالس ترحیم ہیں کہ جو ُمردوں کے لئے منعقد کرتے ہیں۔ ان مجالس میں قاری قرآن پڑھتا ہے، لیکن دوسرے لوگ اپنے کام میں مشغول ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مشغول رہتے ہیں! کبھی لائوڈ سپیکرکی آواز کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ ہر سننے والے کے لئے اذیت کا سبب بن جائے ، اس لحاظ سے قرآن مجید کی آواز سننے کا شوق ہی نہیں رکھتے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ تمام جوانب کی رعایت کی جانی چاہئے اور لائوڈ سپیکر کی آواز ایک ایسی حد میں تنظیم ہونی چاہئے کہ مجلس میں حاضر لوگ مستفید ہو سکیں، مجلس کے اندر اور مجلس سے باہر والے لوگوں کے لئے اذیت و آزار کا سبب نہ ہو۔

قابل توجہ امر ہے کہ یہ طرح کے مرسوم طریقے نادر ست اور ناکافی ہیں:ایک وہ روش جس کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے جلسہ منعقد کرنے کی طرف کم توجہ دیتے ہیں، صحیح نہیں ہے اور اہل سنت کی روش بھی کہ صرف قرآن مجید کی تلاوت اور صوت و لحن کے جلسہ و پروگرام منعقد کرتے ہیں اوراس کے مفاہیم و معنی سے سروکار نہیں رکھتے ہیںیہ بھی ناکافی ہے۔ حقیقت میں چاہئے تھا قرآن مجید کے عموی جلسات و سیع پیمانے پر منعقد ہوں اور ان جلسوں میں صوت، لحن اور قرائت قرآن کے علاوہ اس کے معنی و مفاہیم بھی بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں میں قرآن مجید سے عبرت حاصل کرنے کی رسم پیدا ہو۔ قرآن مجید کی آیات کی انہماک کے ساتھ حزن آمیز لحن میں تلاوت کی جائے تاکہ سننے والوں کے کے دلوں میں خضوع و خشوع پیدا ہو اور ان کے لئے متنبہ اور بیدار ہونے اور ہوش میں آنے کا وسیلہ و ذریعہ قرار پائے یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف خود قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے:

( واذاسمعوا ماانزل الی الرسول تریٰ اعینهم تفیض من الدمع )

(مائدہ٨٣)

''اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بیساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں''

بیدار کرنے والے عوامل سے بے توجہی کا انجام:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَرٍّ: اِعْلَمْ اِنَّ کُلَّ شَیئٍ اِذَافَسَدَ فَالْمِلْحُ دَوَاؤُه وَاِذَافَسَدَ الْمِلْحُ فَلَیسَ لَهُ دَوَائ''

''اے ابوذر! جان لو ہر چیز کو سڑ نے سے بچانے کے لئے نمک دوا ہے، لیکن اگر نمک سڑجائے تو اس کے لئے کوئی چیز دوا نہیں ہے۔''

شاید اس جملہ کا ربط گزشتہ مطالب سے اس لحاظ سے ہے کہ ہماری ساری مشکلات، غفلت، دنیا پرستی اور مادیات کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ہیں، اور یہی چیزیں ہمارے دل کو فاسد کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اب ان بیماریوں کوا ورمشکلات کے علاج و معالجہ کے لئے بعض اسباب و عوامل موجود ہیں جو انسان کی بیداری اور اس کے انجام پر متوجہ ہونے کا سبب ہیں۔ ان عوامل میں سے ایک تشییع جنازہ میں شرکت اور موت پر توجہ کرنا ہے۔ جب انسان فکر کرتا ہے کہ سفر آخرت پر نکلے ہوئے ایک شخص کے جنازہ کو اپنے ہاتھوں پر لے جارہا ہوتاہے، تو وہ اپنی موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوتے ہوئے دیکھتا ہے اور فکر واندیشہ میں غرق ہوجاتا ہے۔ یہ اندرونی تبدیلی اس کے لئے شرم و پشیمانی کا موجب بن کر اس میں خدا کے مقابل خضوع و خشوع کی حالت پیدا کرنے کا بھی سبب بنتی ہے۔ پھر وہ اس وقت اپنے انجام کے بارے میں خوف محسوس کرتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام دوسروں کی موت سے عبرت حاصل کرنے کے بارے میں اباصالح نامی اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں:

''اذاانت حملت جنازة فکن کانک انت المحمول وکانک سألت ربک الرجوع الی الدنیا ففعل' فانظرما ذاتستانف ثم قال:عجب لقوم حبس اولهم عن آخرهم' ثم نودی فیهم الرحیل وهم یلعبون'' (۳)

جب کسی کے جنازہ کو اپنے کندھوں پر لے جا رہے ہو، تو تصور کرو کہ تمھیں لے جایا جارہا ہے اور تم اپنے پرور دگار سے درخواست کر رہے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیجدے، لہٰذا اگر اس نے مہلت دے دی ہے تو غور کرو کہ اب اپنی زندگی کو دوبارہ کیسے شروع کرو گے۔ اس کے بعد فرمایا: تعجب

ہے ان لوگوں کے بارے میں جن کی پہلی نسلیں بعدوالی نسلوں کو دیکھنے سے محروم ہیں (موت ان کے درمیان جدائی ڈالتی ہے) اور ان کے درمیان راحت اور موت کے لئے آہ و وفریاد بلند ہوتی رہتی ہے ، لیکن وہ بدستور جیسے کھیلنے میں سرگرم ہیں۔

مذکورہ مطالب کے پیش نظر، جو عامل نمک کے مانند انسان کے دل کو فاسد ہونے سے بچاسکتا ہے اور معنوی بیماریوں کی دوا ہے، اگر خود فاسد ہوجائے تو کونسی چیز اس کے فاسد ہونے کا علاج کر سکتی ہے؟!

تشییع جنازہ میں شرکت کرنا جو انسان کے لئے غور و فکر کا ذریعہ نیز موت کو یاد کرنے کا سبب ہے نیز اس چیز کا باعث ہے انسان دنیا اور اپنے آئندہ کے بارے میں غور کرے یاجنازہ کے ساتھ چلتے وقت نہ صرف یہ کہ عبرت حاصل نہ کرے بلکہ انتہائی بے شرمی سے دوسروں کی غیبت کرنے لگے تو وہ خود فاسد شدہ نمک کے مانند فاسد ہوتا ہے اور اس کے بعد انسان قساوت و شقاوت قلب میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کے اندر تبدیلی پیدا کرنے والے عوامل غیر موثر ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں کوئی دوا اس کی اندرونی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرائت قرآن مجید انسان کی معنوی بیماریوں کے لئے شفا بخش ہے چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے:

( یَأَ اَیُّهَا النَّاسُ قَدْجَائَ تْکُمْ مَوعِظَة مِنْ رَبِّکُمْ وَ شِفَائ لِمَافِی الصُّدُورِ وَهُدیً وَرَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِینِ ) (یونس٥٧)

''اے لوگو! تمہارے پاس پرور دگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت (قرآن) آچکا ہے''

اب جو قرآن مجید شفابخش ہے اور اس کے مفاہیم کی طرف توجہ کرنا، گراں بہاحقائق کو انسان کے اختیار میں دیتا ہے، اگر وہ خود دنیا اور کسب شہرت کے لئے وسیلہ قرار پائے تو نہ صرف اس کی قرائت شفا بخش نہیں ہے بلکہ بذات خود وہ بھی ہماری نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ کرتا ہے اور دنیا کی طرف بیشتر توجہ کرنے اور خدا اور حقیقت قرآن سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔

کاہلی اور بیہودہ ہنسنے کی مذمت:

بیہودہ ہنسنے اور کاہلی کی مذمت کے سلسلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''اعلم ان فیکم خُلقَین الضحک من غیر عجب والکسل من غیر سهو''

''جان لو !تم میں دوناپسند صفتیں ہیں: ان میں سے ایک قابل تعجب ہنسی (بلا وجہ ہنسنا) اور دوسرے عمداً تساہلی جو سہواً و نسیاناًنہ ہو۔''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنین کوگوشگزار کر رہے ہیں کہ ان میں دو ناپسند صفتیں موجود ہیں کہ جو بیشتر غفلت اور خوف و خشیت کے کم رنگ اور ضعیف ہونے کا سبب ہے۔ مومنوں کو ان دونا پسند صفتوں کا علاج کرنا چاہئے۔ ان دو صفتوں میں سے ایک بے جاہنسنا ہے۔ بسا اوقات انسان تعجب خیز اور خندہ دار مطالب سے دو چار ہوتا ہے، اس صورت میں طبعی طور پراسے ہنسی آجاتی ہے۔ اگر چہ خداکو یاد رکھنے والے افراد خندہ آور مناظر کو دیکھ کر ہونٹوں پر صرف تبسم ظاہر کرتے ہیں اور قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے۔ بعض بزرگوں کے سامنے جب کوئی خندہ آور داستان( لطیفہ ) نقل کی جاتی تھی یا کسی تعجب آور روداد سے رو برو ہوتے تھے وہ تبسم کرتے تھے، لیکن ان کی توجہ کہیں اور ہوتی تھی اور روئداد کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کرتے تھے لہٰذا اس روداد کاخاص اثران پر ظاہر نہیں ہوتا تھا۔

امام جعفر صادق علیہ اسلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں:

''ان من الجهل الضحک من غیر عجب قال وکان یقول لاتبدین عن واضحة وقدعملت الاعمال الفاضحة ولا یا من البیات من عمل السیات'' (۴)

''بلا وجہ ہنسنا نادانی ہے، نیز حضرت نے اضافہ فرمایا: ایسے نہ ہنسا کرو کہ تمھارے دانت دکھائی دینے لگیں ( خدا نخواستہ) رسوا کن کر دار کے مرتکب ہوجائو۔ اور جو برے کام انجام دیتے ہیں وہ رات کی بلائوں سے آسودہ نہیں ہیں''

اس حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام واضح طور پر فرماتے ہیں: ایسا شخص اپنے بُرے اعمال کے نتیجہ میں ، تاریک مستقبل اور خطرناک انجام کا منتظر ہے ہر لمحہ ممکن ہے اس پر کوئی بلا نازل ہوجائے، اس کا قہقہہ اور مستی میں ہنسنا بے جا ہے، ایسا ہنسنا کسی ایسے شخص کے لئے بجا ہے جو اپنے آئندہ سے مطمئن ہو اور پنے انجام سے پریشان و فکر مند نہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء اور اولیائے الہیٰ بھی ایسی حالت اور ایسا اطمینان نہیں رکھتے تھے وہ صرف خدا کے فضل پر توکل رکھتے تھے۔

دل پر زیادہ ہنسنے کے اثرات کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''کثرة الضحک تُمیت القلب وقال کثرة الضحک تُمیت الدین کما یمیث الماء الملح'' (۵)

''زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتاہے، مزید فرمایا: زیادہ ہنسنا دین کو گھلا دیتا ہے چنانچہ پانی نمک کو گھلا دیتا ہے''

اس بنا پر بے جا ہنسنے سے کہ جس کے لئے کوئی عقلی دلیل نہ ہو پرہیز کرنا چاہئے۔ انسان کو اپنا منہ، زبان آنکھ ، کان کنڑول میں رکھنا چاہئے۔ اگر انسان ہنسنا چاہتا ہے ، اسے دیکھناچاہئے کہ ہنسنے کے لئے کوئی دلیل بھی موجود ہے یا نہیں، کیا کوئی ایسی بات جو ہنسے کی موجب ہے پیش آئی ہے، یا یہ کہ ہر بہانہ سے ہنستا ہے۔

قابل ذکر بات ہے کہ خوش روئی، ہمیشہ ہونٹوں پر تبسّم کا ہونا ہے ایک مطلوب اورقابل قدر خصوصیت ہے۔ اجتماعی آداب میں سے یہ ہے کہ مومنین کواجتما عات میں اور ایک دوسرے سے ملتے وقت تبسم ہونا چاہئے۔ اگر چہ ان کے دلغم و اندوہ اور خوف و خشیت سے بھرے ہوں۔ تاکہ دوسروں سے ملتے وقت وہ ان کی رنجش اور ناراضگی کا سبب نہ بنیں چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے:

''المؤمن بُشرهُ فی وجهه وحزنه فی قلبه '' (۶)

''مؤمن کا چہرہ بشاش ہوتا ہے اور وہ غم کو دل میں پنہاں رکھتا ہے''

یہ پرکشش تبسّم اور مسکراہٹ اس قہقہہ اورٹھٹھے لگانے کے علاوہ ہے جو مومن کی شان کے مناسب نہیں ہے بامقصد مومن قیامت کا معتقد اور خدا شناس ہوتا ہے، وہ اعمال و حرکات سے بے خبر نہیں رہتا ہے اور نفسانی خواشہات کے مطابق حرکت نہیں کرتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی امت کی جو دوسری ناپسند خصوصیت کے بارے میں ذکر فرماتے ہیں، وہ کاہلی اور سستی ہے۔ کبھی انسان غفلت اور فراموشی کی وجہ سے کسی فریضہ کو انجام نہیں دیتا ہے، مثال کے طور پر کسی عبادت کو انجام دینا بھول جاتا ہے، اس صورت میں وہ گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔ لیکن بعض اوقات توجہ دینے کے لحاظ سے فریضہ کے بارے میں سستی سے کام لیتا ہے، یہ خصوصیت ایک مومن کے لئے شائستہ نہیں ہے۔ مومن سے یہ توقع نہیں ہے کہ توجہ کے لحاظ سے فرائض کے بارے میں کوتا ہی کرے۔ نماز کے وقت اور اذان کی آواز سننے سے کو تاہی کرے اور نماز جماعت میں شرکت نہ کرے، یہ بے توحہی مومن کے لئے مناسب نہیں ہے۔اس میں فرق نہیں ہے اس کی یہ سستی اور کاہلی واجب فرائض کے بارے میں ہو یا امر مستحب کے بارے میں ۔ علمائے یزد میں سے ایک شخص بنام مرحوم الحاج شیخ غلام رضایزدی ایک بڑے سنجیدہ شخص تھے۔ ایک دن میں ان کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا، جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ امام جماعت کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور نافلہ نہیں پرھ رہے ہیں، ناراض ہوکر فرمایا: ''شیطان پرلعنت ہو، ڈرتے ہو کہ تمہیں بہشت میں لے جائیں گے! اٹھو اور نماز نافلہ پڑھو ۔ جب انسان واجب نماز سے پہلے مسجد میں موجود ہو تو بہت مناسب ہے کہ نافلہ نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس اہم امر کے بارے میں بے توجہی کرے۔ یہ مطلب تمام امور کے بارے میں بھی صادق آتا ہے۔ کبھی بیماری یا دوسری کسی مشکل کی وجہ سے انسان مطالعہ نہیں کرسکتا ہے، لیکن کبھی کاہلی سستی اور آرام طلبی کی وجہ سے مطالعہ اور تحقیق سے ہاتھ کھینچتا ہے۔ بنیادی طور پر کاہلی اور آرام طلبی ایک بڑی آفت ہے جو انسان کی بالید گی اور ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے، ہمیں اسے اپنے سے جدا کرنا چاہئے۔

عبادت میں تفکر کا اثر:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یا اباذر: رکعتان مقتصد تان فی تفکرخیرمن قیام لیلة والقلب ساهٍ''

''اے ابوذر! دور کعت نماز معمولی اگر تفکر کے ساتھ پڑھی جائے تو وہ غفلت کے عالم میں ایک رات عبادت میں بسرکر نے سے بہتر ہے۔''

تفکر اور غور وخوض کی ا ہمیت کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں کہ دور کعت نماز جو معمولی صورت میں پڑھی جائے۔ نہ یہ کہ طولانی ہو۔ لیکن تفکر کے ساتھ ہو، انسان کے کمال کے لئے اس کا ثواب اور تاثیر اس سے زیادہ ہے کہ انسان پوری رات صبح تک حضور قلب کے بغیر عبادت میں گزارے۔ البتہ اگر انسان بڑی تیزی اور عجلت مین نماز پڑھے، تو بیشک اپنے فریضہ کو درک نہیں کر سکتا ہے اور بہتر صورت میں نماز کو ادا نہیں کرسکتا ہے۔ چنانچہ روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ، تیزی کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز اگر تأمل کے ساتھ نہ ہو اور انسان کو اس میں تفکر و توجہ کا امکان نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسی کو ّا اپنی چونچ کو زمین پر مارتا ہے۔ یعنی یہ نماز تعمیری نہیں ہے، چونکہ توجہ کے بغیر انجام پاتی ہے اور اس قدر تیزی سے پڑھی جاتی ہے کہ انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ حضور الٰہی کو درک کرے اور نماز کے معنی ومفاہیم کے بارے میں فکر کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ دو رکعت نماز لیکن توجہ کے ساتھ بغیر توجہپے در پے انجام دینے والی تکراری اور طولانی نماز سے بہتر ہے۔

چنانچہ مکر رکہا گیا کہ، انسان کا سفر ایک علمی اور شعوری سفر ہے۔ انسان کی ترقی اور کمال اس کے و ادراک میں اضافہ کی وجہ سے ہے دوسرے الفاظ میں انسان علم و شعور کے پائوں سے قرب الہٰی کی راہ میں قدم رکھتا ہے۔ اس کے خدا کے نزدیک ہونے کا معنی اس کا نقل مکان کرنا نہیں ہے کہ اس کا جسم ایک جگہ سے دوسری جگہ میں منتقل ہوجائے، بلکہ اس کا خدا کے نزدیک ہونا اس کے شعور و توجہ میں اضافہ ہونا اور صفات الہٰی کی عظمت کے بارے میں اس کے ادراک کی بالیدگی ہے، کہ جس قدر اس کا ادراک و شعور زیادہ ہوگا اسی قدروہ خدا سے نزدیک و قریب ہوگا۔ یہ سفر ایک علمی سفر ہے جو زیادہ سے زیادہ معرفت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور اس کا ابتدائی مرحلہ اپنے بارے میں معرفت جس کے نتیجہ میں خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مقابل میں جس قدر انسان کی معرفت کم ہوگی اور غفلت میں گرفتار ہوگا اسی اعتبار سے وہ تکامل وترقی اور بالید گی سے محروم ر ہے گا۔

نماز ایک تکاملی وارتقائی وسیلہ ہے اور یہ اس لئے ہے انسان خدا سے زیادہ قریب کا احساس کرے اور درک کرے کہ خدا کے نزدیک ہو رہا ہے۔ لیکن اگر یہ نماز توجہ اور مقام الہٰی کے درک کے ساتھ نہ ہو، تو نماز گزار کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ورزش میں مشغول ہوتا ہے کیونکہ وہ نماز کے مفاہیم و معنی سے بہرہ مند نہیں ہو رہا ہے۔ البتہ بغیر توجہ نماز کی یہ قسم، سونے سے بہتر ہے، کہ انسان رات کو صبح تک سوتا رہے اورنماز سے محروم رہے، یا خدا نخواستہ رات بھر گناہ اور معصیت میں مشغول رہے۔ یہی کہ انسان نماز کے لئے رات کو بیدار ہے۔ بذات خود ایک شائستہ کام ہے، لیکن نماز میں توجہ اور حضور قلب ہونا چاہئے، اس صورت میں اس کی سرعت بڑھ جاتی ہے اور جلدی ہی مقصد تک پہنچتا ہے اور اسی کو قربِ الہٰی کہتے ہیں

____________________

١۔بحارالانوار(طبع بیروت )ج٧٨،ص٢٦٤

۲۔ نہج البلاغہ '' ترجمہ فیض الاسلام'' کلام ١١ص٦٢

۳۔ اصول کافی ج٣ص٢٥٨

۴و ۵۔ اصول کافی ،ج٤ص٤٨٦( کتاب العشرہ)

۶۔ بحار الانوار ج٦٧ص٣٠٥