زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 38868
ڈاؤنلوڈ: 3067


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38868 / ڈاؤنلوڈ: 3067
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

بائیسواں درس:

حق و باطل کی وسعت

* حق و باطل اور اس سے استفادہ کے مواقع

* حق و باطل کی ظاہری شکل و صورت

* انسان مختار،صاحب انتخاب اور امتحان الٰہی

* انسان اور حق و باطل کی طرف دو اندرونی کشش

* حتی اور دنیوی لذتوں کی طرف عمومی تمایل

حق و باطل کی وسعت

''یا اباذر: الحق ثقیل مر والباطل خفیف حلو ورب شهوة ساعه تورث حزناً طویلا ''

''اے ابوذ ! حق سنگین و تلخ ہے اور باطل سہل اور شیرین۔بسا اوقات ایک گھنٹہ کی ہوس رانی طولانی حزن و غم کا سبب ہوتی ہے۔''

حق و باطل اور اس سے استفادہ کے مواقع:

عموم مفاہیم میں سے ایک جو اسلامی لغت میں مذکور ہے اور اس کو بہت سے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ''حق و باطل'' کا مفہوم ہے۔ قرآن مجید میں ''حق و باطل'' کا مفہوم بعض جگہوں پر معبودوں کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ اس صورت میں کہ خدائے متعال کو معبود حقکہا جاتا ہے اور تمام دوسرے کو معبود باطل:

( ذٰلک بأَن اللّٰه هو الحق وان ما یدعون من دونه هو الباطل... ) (حج٦٢)

''یہ اس لئے ہے کہ خدا ہی یقیناً حق ہے اور اس کے علاوہ جس کو بھی یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں...''

بعض اوقات حق و باطل عقائد' افکار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی کردار و رفتار کے لئے بھی آیا ہے۔ من جملہ مطالب' جن کے بارے میں قرآن مجید ہمیں تعلیم دیتا ہے' یہ ہے کہ یہ کائنات حق و باطل سے آمیختہ ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا حق و باطل کے دو عناصر سے مرکب ہے۔ ''اللہ'' حق کی بنیاد ہے اور باطل ایک امر طفیلی ہے جو حق کے سایہ میں اور اس کی آڑ میں ظہور کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق حق و باطل کی یہ آمیختگی پائدار نہیں ہے' ایک دن آئے گا جب حق باطل سے مکمل طور پر جدا ہو جائے گا اورپائیدار رہے گا اور باطل نابود ہوجائے گا:

(بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغه فاذاهوزاهق ) (انبیائ١٨)

''بلکہ ہم تو حق کو باطل پر تسلط اور غلبہ دے دیں گے تاکہ وہ باطل کو نیست و نابود کر دے اور باطل تو مٹنے والا ہی ہے ''

ایک دوسری جگہ پر خدائے متعال باطل کو پانی کے او پر جھاگ سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتا ہے۔

( انزل من السماء مائً فسالت اودیة بقدرها فاحتمل السیل زبداً رابیاً ومما یوقدون علیه فی النار ابتغاء حلیة اومتاع زبد مثله کذٰلک یضرب اللّٰه الحق والباطل فاما الزبد فیذهب جفائً واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض کذٰلک یضرب اللّٰه الامثال ) (رعد١٧)

''اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف سیلاب آگیا اور اس بہتے ہوئے پانی پر چھاگ پیدا ہو گیا اور اس دھات سے بھی جھاگ پیدا ہو گیا جسے (سونے و چاندی کے ) زیورات یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لئے آگ پر پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہباطل کی مثال پانی کے اوپر اس چھاگ کی سی ہے جو خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اورحق جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اس طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔''

باطل کی جھاگ سے تشبیہ میں ایک ظریف نکتہ ہے جو جھاگ کی حقیقت کے پیش نظر واضح ہوتا ہے۔ جھاگ در حقیقت ایک حباب ہے جو پانی کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ جب انسان صابن کے جھاگ سے بھرے ایک طشت پر نظر ڈالتا ہے۔ تو اسے تیرتے ہوئے حباب نظر آتے ہیں جو اوپر نیچے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی پہلی بار اس طشت پر نظر ڈالے تو وہی جھاگ اس کی توجہ کواپنی طرف متوجہ کرے گا اور اس جھاگ کے نیچے موجود پانی جو اس جھاگ کی پیدائش کا سرچشمہ ہے۔ سے غافل رہتا ہے۔ خیال کرتا ہے کہ حقیقت یہی حباب ہیں جو ظاہر ہوگئے ہیں اور اوپر نیچے ہو رہے ہیں اور ان میں گونا گوں رنگ پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ حباب نے اپنی حقیقت کو اسی پانی سے حاصل کیا ہے اور اس کا وجود پانی کے سایہ میں ہی ہے۔

دنیا' حق و باطل کامرکب ہے' لیکن باطل حق کے طفیل میں موجود ہے، ممکن ہے باطل حق سے زیادہ نمایاں ہواور اس سے زیادہ چمک دمک رکھتا ہو' لیکن قانون خلقت میں حق پانی کے مانند ہے اور باطل کی حیثیت اس کے جھاگ کی سی ہے جو پائدار نہیں ہے ' وہ نابود ہوجائے گا اور باقی رہنے والا حق ہے جو لوگوں کے لئے سودبخش ہے۔

باطل' جھاگ کی طرح چند لمحوں کے لئے ظہورظاہر ہوتا ہے اور اس کے بعد حقیقت اور حق نمایاں ہوجاتا ہے۔ البتہ ان لمحات کو جب ہم اپنے معیاروں سے موازنہ کرتے ہیں' تو فکر کرتے ہیں کہ یہ لمحہ ایک سکنڈ یا ایک منٹ کا ہوگا' لیکن جو ازل و ابد پر نظر رکھتا ہے' سو سال اور ہزار سال بھی اس کے لئے ایک لمحہ سے زیادہ نہیں ہے' اس کے معیار اورہمارے معیار میں فرق ہے۔ جس پیمانے سے ہم زمان اور اشیا کی بقاو ثبات کے بارے میں پیمائش کرتے ہیں اس کا حق کے پیمانہ سے فرق ہے۔ جو شخص حق بین نگاہ رکھتا ہے اس کے لئے زمانوں کا طول خواہ لمحوں میں یا گھنٹوں میں یا برسوں میں یا صدیوں میں ہو' کوئی اعتبار نہیں رکھتا، جو ہم دیکھتے ہیں' وہ اس سے بالاتر ایسے افق کو دیکھتا ہے جو بہت بلند اور پائدار تر ہے اور جس معیار و پیمانے سے حساب کرتا ہے' اس کی نظر میں باطل کوئی چیز نہیں ہے اور اس میں پائداری نہیں ہے۔

حق و باطل کا ظاہری شکل و صورت:

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کا مفہوم یہ ہے کہ حق سنگین اور تلخ ہے اور باطل سہل اور شیرین ہے۔ اس جملہ کی وضاحت میں کہنا چاہئے: جو مومن سعادت اخروی کی فکر میں ہے' اسے اپنے ایمان کے اقتضا کے مطابق اپنے روحی اور معنوی تکامل وترقی کی فکر میں ہونا چاہئے اور اسے چاہئے کہ راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دے تاکہ مقصد تک پہنچ سکے۔ فطری بات ہے کہ جو مومن اس راہ میں ابتدائی مرحلہ پر ہو' وہ توقع رکھتا ہے اس کے لئے تمام چیزیں سہل' آسان' گوارا اور شیریں ہوں۔ اس نے مشکلات اور تلخیوں کو برداشت کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ نہیں کیا ہے' اس لحاظ سے ممکن ہے مشکلات کے ساتھ مقابلہ میں شکست کھا کر راہ حق سے منحرف ہو جائے یا اگر اس راہ پر حسب معمولی آگے بڑھ رہا ہے تو اس لحاظ سے فکر مند ہے کہ خیر و حق کی راہ میں کیوں یہ مشکلات اور دشواریاں پائی جاتی ہیں؟

انسان کے لئے ہمیشہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق کیوںتلخ اور سنگین ہے اور انسان حق کی راہ میں ناقابل برداشت مشکلات سے کیوں دوچار ہوتا ہے' لیکن باطل شیریں اور آسان ہے؟ انسان کو کیوں تلخیوں کو برداشت کرنا چاہئے اور خوشیوں اور خوشگوار لمحات کو نظر انداز کرے؟ شاید یہ سوال ذہن میں پیدا ہو جائے (نعوذ بااللہ) کیا خدا بخیل ہے کہ اجازت نہیں دیتا ہے تاکہ اس کے دوست دنیا کے خوشگوار لمحات اور خوشیوں سے استفادہ کریں اور ان کے لئے محنت اور دشوار کام فریضہ کے طور پر مقرر کئے جائیں؟ اس میں کونسی مشکل تھی کہ حق کو شیریں بنا دیتا تاکہ سب لوگ حق کے پیرو بن جاتے اور گمراہ نہ ہوتے؟

جب ہم ایک مومن کی زندگی کا ایک فاسق سے موازنہ کرتے ہیں' تو دیکھتے ہیں کہ ایک مومن کو زندگی میں فراوان مشکلات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ایک لقمہ حلال روٹی کمانے کے لئے اسے کتنی جانفشانی کرنی پڑتی ہے ۔ گھریلو زندگی میں ' بیوی' بچے اور ہمسایوں کے ساتھ فراوان مشکلات رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اس کا فاسق اور لاابالی ہمسایہ یا رشتہ دار ایک اچھی اور خوشحال زندگی بسر کر رہا ہے اور کسی قسم کی مشکلات سے دو چار نہیں ہوتا۔ اس موازنہ کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ' جو خدا مومن کو دوست رکھتا ہے،جیسا کہ بہت سی روایتوں میں مومن کے ایمان کی ستائش کی گئی ہے کس طرح اسے ان مشکلات اور سختیوں سے دوچار کرتا ہے؟ اپنے معاشی وسائل کے لئے کس قدر اسے محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب وہ شادی کرنا چاہتا ہے' کبھی اسے برسوں تک مناسب جوڑے کی تلاش میں پھرنا پڑتا ہے۔ جہاں بھی جاتا ہے لوگ بہانہ کر کے اسے بیوی نہیں دیتے، لیکن دوسرے لوگ آسانی کے ساتھ اپنی من پسند بیوی کو منتخب کرتے ہیں، یہی موازنہ مومن اور کافر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ جب ہم بوسنیہ ہرزگوینہ کے مسلمانوں کا ان کی ہمسائیگی میں موجود غیر مسلمان معاشرے سے موازنہ کرتے ہیں' تو اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ اس ملت بوسنی ہرزگوین نے کونسا جرم کیا ہے کہ انہیں یہ مشکلات ظلم و بربریت برداشت کرنی پڑتی ہیں؟ کیوں ان کی ہمسائیگی میں موجود کافر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اور اس مسلمان ملت کی جان' مال اور ناموس ہر لمحہ پائمال کی جائے اور ظالم و جابر قوم ان پر وحشیانہ طور پر حملے کریں؟ اگر خدائے متعال مومنوں کا حامی ہے' تو ان کی کیوں مدد نہیں کرتا ہے؟

یہ سوال مختلف صورتوں میں ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے اور ہر ایک کے پاس اس کی معرفت کے مطابق اس کا ایک جواب ہے۔ لیکن بہرحال ہم میں سے اکثر لوگوں کے لئے کچھ ابہامات پیدا ہوتے ہیں۔ شاید' جن لوگوں کا ایمان زیادہ ہے' یہ کہیں جو کچھ پیش آتا ہے مصلحت خداوندی کی بنا پر ہے۔

اس قسم کے سوالات اور من جملہ اس سوال کے جواب میں کہ کیوں حق تلخ ہے اور خدائے متعال نے اسے شیریں نہیں بنایا ہے تاکہ سب اس کو قبول کر کے گمراہ نہ ہوتے اور بد بختی سے دوچار نہ ہوتے؟ یہاں پر علمی مباحث بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان مفاہیم سے عملی نتائج حاصل کریں اور مطلب کو روشن اور واضح کریں چونکہ اگر انسان پر کوئی مطلب مکمل طور پر واضح نہ ہو تووہ اس کے دل پر مناسب اثر نہیں ڈالتا ہے اور یا شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور شبہات ایجاد کر کے اس کے لئے مناسب اثر پیدا ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے' مطلب واضح ہونے اور ابہامات دور ہونے کے بعد شبہات اور شیطانی وسوسوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔

انسان صاحب اختیار ،صاحب انتخاب اور امتحان الٰہی:

دنیا میں انسان کی زندگی اس اصول پر مبنی ہے کہ وہ صحیح راستہ کا خود انتخاب کرے اور اپنے اختیار سے کمال کے مراحل کو طے کرے، انسان کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اپنے تحرک اور سفر میں خود فیصلہ کرنے والا اور آزاد ہے۔ خدا نے ملائکہ جیسی مخلوقات پیدا کی ہے کہ صرف حق کی طرف متمائل ہیں اور اگرچہ ان کا کام اختیاری ہے لیکن ان کا تمایل صرف حق اور خدا کی بندگی پر متعین ہوا ہے اور باطل کی طرف تمایل نہیں رکھتے۔ ان کے لئے حق اور خدا کی عبادت شیریں اور لذت بخش ہے۔ پس خلقت کے نظام میں ان مخلوقات کے لحاظ سے جو صرف حق کی طرف تمایل رکھتے ہیں اور صرف خدا کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کسی قسم کی کمی اور نقص و عیب نہیں ہے۔ لہذا خدائے متعال نے یہ ارادہ کیا کہ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرے جس کا مقام فرشتوں سے بالاتر ہو' اس لئے انسان کو خلق کیا' جو باطل اور نفسانی خواہشات کی طرف تمایل رکھنے کے باوجود' اختیار کے ساتھ کمال کی راہ کو طے کرے۔ خدا کے لئے گناہ کی لذت سے منہ موڑلے تاکہ ابدی سعادت کو حاصل کرے۔اگر اس مخلوق نے نفسانی خواہشات پر قابو پا کر سعادت کی راہ طے کی' تو وہ یقیناً فرشتوں سے بلند تر ہوگا' کیونکہ وہ دو متضادمیلانات سے روبرو ہوکر اپنے انتخاب اور آزادی سے لذتوں کو چھوڑ کر خدا کی عبادت و بندگی کی معنوت کو حاصل کرتا ہے۔

نتیجہ یہ کہ انسان اس دنیا میں اپنے سامنے دو راستے رکھتا ہے: ایک حق کا راستہ اور دوسرا باطل کا راستہ ہے۔ البتہ توجہ رکھنی چاہئے کہ اگر انسان نے ان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کیا تو ضروری نہیں ہے وہ مجبوراً آخر تک اس راہ پر چلے۔ گزشتہ بیان کے پیش نظرکہ انسان ایک صاحب اختیار اور آزاد مخلوق ہے قبول کرنا چاہئے کہ چونکہ اصلی راستہ کے انتخاب میں یہ اختیار و انتخاب موجود ہے' اس پر جاری رہنے میں بھی یہ اختیار و انتخاب موجود ہے۔ اس لحاظ سے انسان ہمیشہ راستہ کا رخ بدلنے کی طاقت رکھتا ہے اور ہمیشہ حق و باطل کے دو راستوں کے بارے میں مختار و آزاد ہے۔ان دوراستوں میں سے ایک خدا کا راستہ ہے اور دوسر اشیطان کا راستہ ہے' ایک ترقی اور تکامل کا راستہ ہے اور دوسرا تنزل اور نابودی کا راستہ ہے۔

ایک اور نکتہ ' جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے' یہ ہے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور قدرتی بات ہے کہ امتحان اس وقت ہوتا ہے جب انسان تلخیوں اور مشکلات سے دوچار ہو تا ہے اور ان پر صبر و تحمل کر کے امتحان میں پاس ہوتا ہے۔ اگر پہلے نقطہ نظر کے مطابق انسان کے لئے ترقی اور تکامل شیرین ہوتا اور باطل تنزل تلخ' تو امتحان کا مفہوم ہی نہیں رہتا' چونکہ امتحان اس لئے ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو چھوڑکر خدا کے لئے کام کرے اور اس صورت میں اگر پہلے نقطہ نگاہ کے مطابق حق شیرین ہوتا تو انسان اپنی دلی چاہت کے مطابق تلخ باطل کو چھوڑ کر شیرین حق کے پیچھے دوڑتا نہ کہ خدا کے لئے' اس طرح اگر ہر باطل شیرین ہوتا تو حق کے لئے کوئی حلاوت اور خوشی باقی نہ رہتی' جو خدا کے لئے باطل سے منہ موڑتا اور حق کا راستہ انتخاب کرتا' تو وہ عام خوشیوں سے محروم ہو جاتا' پس ایسا نہیں ہے کہ راہ حق میں کسی قسم کی خوشی موجود نہ ہو۔

بہرصورت حق سنگین اور تلخ ہے اور جو آگاہی کے طور پر حق کا انتخاب کر تاہے فطری بات ہے کہ اس صورت میں وہ راہ حق کی تمام تلخیوں اور مشکلات کو دل و جان سے خریدتا ہے' البتہ تقدیر الہٰی تمام لوگوں کے لئے یکساں نہیں ہے، کیونکہ سبھی کی ظرفیت ایک جیسی نہیں ہوتی اور سب لوگ ہر قسم کی بلا و مصیبتوں کو برداشت کرنے کی ظرفیت نہیں رکھتے ہیں، اس لحاظ سے خدائے متعال نے ظرفیت کے مطابق ہر فرد کے لئے ایک خاص تقدیر عنایت کی ہے، بعض لوگوں کے لئے جوانی میں مشکلات اور دشواریاں مقدر کی ہے اور کچھ لوگوں کے لئے بڑھاپے میں کسی کو فقر میں مبتلا کرتا ہے اور کسی کو بیماری میں ۔ کسی کو اپنی بیوی کے ذریعہ مشکلات میں گرفتارہے اور دوسرے کو اپنے دوست کے ذریعہ۔ ایسا نہیں ہے کہ مومن اپنی زندگی میں کسی بھی دشواری او رمشکل سے روبرو نہ ہو' کیونکہ اس صورت میں کمال تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ چونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے' مومن کو سختیاں برداشت کر کے اپنے ایمان کو تقویت بخش کر احکام الہٰی کی پابندی اور تقدیرات الہٰی پر رضامندی ثابت کرنا ہے۔ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہے' لیکن چونکہ وہ مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس لئے اسے ان تمام سختیوں کو دل و جان سے خریدنا چاہئے۔ لیکن کا فراس قسم کا دعویٰ نہیں کرتا ہے بلکہ اس کی خدا اور حق سے دوستی نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے اس چار دن کی دنیا میں آرام سے رہے' اس کے بعد جو ہونا چاہئے ہو جائے۔ اگر وہ کوئی نیک کام بھی انجام دے' خدا اس کا اجرا سے اسی دنیا میں دیتا ہے:

( من کان یرید الحیوٰة الدنیا وزینتها نوف الیهم اعمالهم فیها وهم فیهالا یبخسون اوٰلئک الذین لیس لهم فی الآخرة الا النار وحبط ما صنعوا فیها و باطل ما کانوا یعملون ) (ہود١٥-١٦)

''جو شخص زندگانی دنیا کا طالب ہے اور اس کی زینت ہی چاہتا ہے ہم اس کے اعمال کا پورا پورا حساب یہیں کر دیتے ہیں اور کسی طرح کی کمی نہیں کرتے ہیں اور یہی وہ ہیں جن کے لئے آخرت میں جہنم کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ان کے سارے اعمال جو انھوں نے دنیا میں انجام دیئے ہیں باطل و بے اثر کر دیئے جائیںگے''

اس بنا پر حق کے طالبوں کو سختیاں اور دشواریاں برداشت کرنے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے اور جو کچھ پیش آئے اس پر راضی ہونا چاہئے' کیونکہ یہی راہ حق کے انتخاب کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی سختیاں برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے تو وہ راہ حق کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیا رکرلیتا ہے۔ ترقی' معنوی تکامل اوج اور بلندیاںمشکلات کے مقابل میں صبر کے علاوہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتے۔ حق کے تلخ اور باطل کے شیریں ہونے کا راز اس میں مضمر ہے کہ کمال کے طالب کو آزادانہ طور پر حق کا انتخاب کرنا چاہئے اور اس انتخاب کے لئے امتحان کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی کا امتحان نہیں لیا جاتا۔ یقیناً یہ امتحان انسان کے اعتقاد' ایمان اور حق کی طرف ان کے تمایل کی مقدار کا موازنہ کرنے کی لئے لیا جاتا ہے' اس کے علاوہ یہ امتحان اس لئے ہے کہ معلوم ہو جائے وہ کس حد تک خدا کی مرضی کو اپنی نفسانی خواہشات پر ترجیح دیتا ہے۔ لہذا فرائض سخت اور دشوار ہونا چاہئے تاکہ انسان تقویٰ کے ذریعہ خدا کی رضا اور مشکلات پرصبر و شکیبائی کی مشق سے تکامل و ترقی کی راہ کو طے کرے۔ اگر تمام فرائض راحت اور آسان ہوتے تو سب لوگ مسلمان ہوتے اور کسی کا امتیاز اور فرق معلوم نہ ہوتا۔ دشواریوں اور سختیوں سے مقابلہ کرنے اور درگزر کرنے اور خدا کی مرضی کو ترجیح دینے سے ایک انسان جناب سلمان کے مانند نمایاں اور صاحب امتیاز بن جاتا ہے اور انسانی کمال کی چوٹی تک پہنچنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کرتا ہے اور اس طرح کمال کے بالاترین مراحل تک پہنچتا ہے۔

یہاں پر مناسب ہے کہ ایک عظیم عارف و عالم مرحوم الہٰی قمشہ ای رضوان اللہ تعالی علیہ کی داستان کی طرف ایک اشارہ کیا جائے۔ جو ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ اس عظیم شخصیت اور مخلص انسان نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے اور اس کے عوض کوئی اجرت نہیں لی ہے۔جبکہ اگر وہ حق تالیف اخذ کرتے تو وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے آرام و آسائش کی زندگی فراہم کر سکتے تھے۔ وہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہونے کے باوجود کبھی رکشے پر سوار ہو کر یونیورسٹی جاتے تھے۔ وہ مشھد کے ایک سفر میں جب حرم مقدس حضرت امام رضا علیہ السلام میں داخل ہوئے' تو ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام سے رضایت طلب کریں۔ اسی وجہ سے انھوں نے امام سے مخاطب ہو کر کہا: ''آقا: آپ رضا ہیں' میں بھی آپ کے گھر میں آیا ہوں' خدا سے درخواست کیجئے۔ مجھے ''مقام رضا' عنایت فرمائے!'' جب حرم سے باہر آئے راستہ میں ایک گاڑی کے حادثہ میں زخمی ہوئے اور ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ لوگ جمع ہوئے اور ڈرائیور کو پکڑ لیا گیا۔ لیکن انھوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: اس کو نہ چھیڑنا' یہ میرے لئے امام رضا علیہ السلام کا تحفہ تھا' میں نے ان سے ''مقام رضا'' کی درخواست کی تھی وہ مجھے مل گیا۔ اگر یہ حادثہ پیش نہ آتا تو معلوم نہیں ہوتا میں ''مقام رضا'' تک پہنچایا نہیں' مجھے ثابت کرنا چاہئے جو کچھ خدانے چاہاہے میں اس پر راضی ہوں اور مجھے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے۔

انسان اور اس کی حق و باطل کی طرف دو اندرونی کشش:

انسان میں مختلف جہتوںسے دو طرح کی کشش موجود ہے' ایسا موقع فراہم ہونا چاہئے تاکہ مشخص ہو جائے کہ انسانی حق و باطل کے درمیان ان دو کششوں کے تضاد اور مقابلہ میں ان میں سے کس کی طرف زیادہ تمائل رکھتا ہے۔ کبھی وہ جس حق کے کام کو انجام دیتا ہے وہ اس کی مرضی اور خواہش سے متضاد اور مخالف نہیں ہے' اس صورت میں اس کا انجام مشکل نہیں ہے۔ مشکل وہاں ہے جب دو کششوں اور جاذبوں کے درمیان تعارض اور تضاد پیدا ہو جائے' شیطان ایک چیز کا حکم دے اور خدائے متعال اس کے خلاف' نفس ایک چیز کو چاہتا ہو اور خدا دوسری چیز کو ۔یہاں پر انسان امتحان و آزمائش سے روبرو ہوتا ہے اور کام کی قدر و منزلت مشخص ہوتی ہے۔ اس صورت میں جس قدر گناہ کا جاذبہ زیادہ ہوگا اور انسان نفسانی خواہشات سے مقابلہ کر کے اس کی مخالفت کرے' اس کا ثواب زیادہ ہے اور نفسانی خواہشات سے اس کی وہ مخالفت اس کے معنوی تکامل و ترقی میں نمایاں اثر رکھتی ہے۔

جو جوان جبلّی جذبات و تمایلات کے باوجود اس سے متناسب گناہ سے پرہیز کرتا ہے' اس کی قدر و منزلت اس بوڑھے سے زیادہ ہے جو اس گناہ کو ترک کرتا ہے۔ اس بوڑھے کے لئے اس گناہ کو ترک کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ وہ اس گناہ سے زیادہ تمایل نہیں رکھتا ہے۔ اس صورت میں اس جوان کا ثواب زیادہ ہے' اس کے مقابلہ میں اگر وہ بوڑھا اس گناہ کا مرتکب ہو جائے'' تو اس کا گناہ بہت زیادہ ہے' کیونکہ وہ کسی دباؤ میں نہیں تھا اور اس گناہ کے بارے میں زیادہ تمایل بھی نہیں رکھتا تھا(بہت برا ہے ایک بوڑھا مرتکب زنا ہو جائے) اگر خدانخواستہ' ایک جوان زنا جیسے کسی گناہ کے خطرہ میں پڑنے کے باوجود اپنی جبلّی خواہشات اور شہوت پر قابو پا سکے تو وہ عروج پر پہنچتا ہے اور اس گناہ سے پرہیز کرنا اس کے کمال کو اضافہ کرتا ہے۔ کیونکہ وہ فراوان اندرونی تلاش اور خدا سے شدید لگاؤ اور بلند ایمان کی بنا پر گناہ سے پرہیز کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پسفطری بات ہے کہ اس دنیا میں گناہ شیرین ہو اور حق تلخ' تاکہ انسان کا امتحان لیا جائے اور نتیجہ کے طور پر مشخص ہو جائے کہ کون خدائے متعال کو ترجیح دیتا ہے اور کون اپنی نفسانی خواہشات کا انتخاب کرتا ہے اور کون باطل کو پسند کرتا ہے۔

البتہ بدیہی طور پر انسان کی فضیلت اور بلندی اس میں ہے کہ اس کا تکامل وارتقا اختیاری ہو'وہ پورے اختیار و آزاری سے اپنے نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرے اور اپنے اختیار اور خدا کی محبت اور اس کی خوشنودی کے لئے نیک کام انجام دے اور گناہوں سے پرہیز کرے۔

کہا گیا ہے کہ حق تلخ ہے اور باطل شیرین' لیکن باطل کی شیرینی اور حق کی تلخی عام لوگوں کے لئے ہے' نہ سبھی کے لئے۔ عام لوگ اپنے فطری تقاضوں کے تحت اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور جو فرائض ان کے لئے محد ودیت ایجاد کریں' وہ ان کے لئے دشوارا ور سخت ہوتے ہیں۔ اس کے مقابل میں باطل' ان کے لئے سہل اور آسان ہے' کیونکہ اس کے انجام میں کسی قسم کی محدودیت اور دشواری نہیں دیکھتے۔ انسان کے لئے بہت آسان ہے' کہ بیہودہ و لغو بات کرے' لیکن اگر صحیح بات کرنا چاہے تو اسے اپنے ایک ایک کلمہ پر غور و فکر کرنا ہوگا' ایسا نہ ہو کہ بے جا بات منھ سے نکل جائے' اور ایسا نہ ہو کہ وہ بات چغلخوری' غیبت اور تہمت شمار ہو جائے اور ایسا نہ ہو کہ اس بات کے ذریعہ کسی کا مذاق اڑایا جائے کہ جس سے اس کو اذیت پہنچے وہ ہر پہلو سے فکر کرتا ہے کہ اس کی بات کے کیا آثار اور نتائج نکلیں گے، لیکن اگر بکواس کرنا چاہے تو اپنا منہ کھولتا ہے اورجو چاہتا ہے کہہ ڈالتا ہے۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ ''پل صراط'' بال سے زیادہ باریک اور شمشیر سے زیادہ تیز ہے' وہ اس لحاظ سے ہے کہ انسان جو قدم اٹھانا چاہے اور جس راہ پر بھی چلنا چاہے' اس کو ہوش و حواس میں رہنا چاہئے کہ یہ راستہ کہاں پر منتہی ہوتا ہے اور کونسے لوازمات کی ضرورت ہے' کیا خدائے متعال راضی ہے یا نہیں ' اسے ہمیشہ اپنے ہر کام اور ہر رفتار کے سلسلے میں اپنے محرک کی فکر میں رہنا چاہئے' اس بناء پر اسے اپنی زبان کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہئے کہ ہر بات کو نہ کہے اور اپنی آنکھوں کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر جگہ نگاہ نہ کرے۔ یقیناً تمام جوانب کی رعایت کرنا بہت مشکل ہے اور فرائض کی انجام دہی خون جگر پینے کے مترادف ہے۔ اس کے مقابل میں اگر انسان باطل اور اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق عمل کرنا چاہے' تو اس کے لئے بہت آسان ہے اور وہ زندگی میں خوشی اور حلاوت کا احساس کرتا ہے۔ البتہ حق کے طالب کے لئے ساری مشکلات دنیا میں ہیں اور بہشت میں اس کے لئے کسی قسم کا رنج والم نہیں ہے۔

( الذی احلنا دارالمقامة من فضله لا یمسنا فیها نصب ولا یمسنا فیها لغوب ) (فاطر٣٥)

''اس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایسی رہنے کی جگہ پروارد کیا ہے جہاں نہ کوئی تھکن ہمیں چھو سکتی ہے اور نہ کوئی تکلیف ہم تک پہنچ سکتی ہے۔''

بہشت میں نہ صرف دنیا میں موجود ہ سختیوں اور مشکلات کی جیسی سختیاں اور مشکلات نہیں ہیں بلکہ بہشتی بھوک کا بھی احساس نہیں کرتے' جبکہ غذا کھانے کیطرف تمایل رکھتے ہیں اور اس سے کھانے کی لذت اٹھاتے ہیں۔ انسان کی دنیوی فطری زندگی سے رنج و مشقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے' مومن و کافر دونوں سختی و مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں:

( لقدخلقنا الا نسان فی کبدٍ ) (بلد٤)

''ہم نے انسان کو مشقت میں رہنے والا بنایا ہے۔''

یہی دنیا کی زندگی کا فرومومن دونوںکے لئے ہے' اہل حق اور اہل باطل میں فرق ہے' اہل باطل نسبی آرام و آسائش کے مالک ہیں اور زندگی سے شیرینی کا احساس کرتے ہیں' لیکن اس کے مقابلہ میں اہل حق کے لئے زندگی تلخ ہے۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ اہل حق کے لئے پوری زندگی تلخ ہو بلکہ دنیا کی تلخی ان کے لئے نسبی ہے' اولیائے الہٰی کیلئے بھی خاص لذتیں ہیں۔ وہ بھی کھانے اور سونے کی لذت سے بہرہ مند ہیں' لیکن ان کی دنیوی سختیاں اور مشکلات اہل باطل کی مشکلات سے زیادہ ہیں۔

اس کے پیش نظر کہ انسان فطرت کی آغوش میں بالیدگی اور پرورش پاتا ہے' قدرتی طور پر پہلے فطری حلاوت اور خوشیاں محسوس کرتا ہے۔ دنیوی' مادی اور حسی لذتوں کو درک کرنے کے لئے اس کا ذائقہ آمادہ تر ہوتا ہے' معنوی ذائقہ پانے میں وقت لگ جاتا ہے۔ حق کے راستہ پر اختیاری سفر کرنے والے کارخیر کی عادت' زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنا اور مادی لذتوں سے چشم پوشی'آہستہ آہستہ اپنے ذائقہ سے حق کی حلاوت کامزہ چکھتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ہے:

( واستعینوا بالصبرو الصلوٰة و انها لکبیرة الا علی الخاشعین ) (بقرہ٤٥)

''صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو' نماز بہت مشکل کام ہے سواء ان لوگوں کے جو خشوع و خضوع والے ہیں۔''

خدائے متعال فرماتا ہے: نماز خاشعین کے علاوہ عام لوگوں کے لئے ایک سنگین بوجھ ہے۔ بعض لوگ صبح سویرے نیند سے اٹھ کر ورزش میں مشغول ہوتے ہیں اور سخت و سنگین کام انجام دیتے ہیں' لیکن اگر وہ دورکعت نماز پڑھنا چاہیں تو سنگینی کا احساس کرتے ہیں: نماز کے لئے نیند سے نہیں اٹھتے ہیں' لیکن ورزش کے لئے نیند سے اٹھتے ہیں' ممکن ہے ایک گھنٹہ تک ورزش کریں' دوڑیں اور کوہ نوردی کریں' چونکہ ان کا ذائقہ نماز کی لذت کو درک نہیں کرتااور ورزش کی لذت اور اس کے فائدہ کو محسوس کرتا ہے' چونکہ کہا گیا ہے کہ ورزش بدن کے لئے مفید اور نشاط بخش ہے' اس لئے لوگ اس سے لذت کا احساس کرتے ہیں۔ اس کے مقابل میں ان کا ایمان اتنا قوی نہیں ہے کہ خدا وند متعال کی فرمائش کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصوم پرایمان لا کر اعتماد کریں۔

اہل خشوع اور خدا کو پہچاننے اور اس پر ایمان لانے والوں کے لئے صرف نماز بار گراں نہیں، بلکہ آسان بھی ہے اور وہ اس سے لذت محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ وہ معنویبلوغ کو پہنچے ہوئے ہیں، اس لئے نماز میں خدا سے محبت کرتے ہیں اور نماز کی حلاوت کا اس قدر احساس کر تے ہیں کہ اس سے فارغ ہونا نہیں چاہتے ان کے لئے نماز اور خدا سے مناجات سے بالاترین کوئی لذت نہیں ہے۔ اس لحاظ سے بعض بزرگ فرماتے تھے: اگر دنیا کے بادشاہوں کو معلوم ہوتا کہ نماز میں کس قدر لذت ہے تو وہ اپنی سلطنت کو چھوڑ کر، نماز کے پیچھے پڑجاتے! انبیاء اولیائے الہٰی اور ان کے مکتب کے تربیت یا فتہ افراد کے لئے حق اس قدر شیرین اور دلچسپ ہے کہ اگر اس سے عدول کریں تو احساس کرتے ہیں کہ اپنے کسی عزیز ترین شخص کو کھو دیا ہے۔ انہوں نے راہ حق اور کارخیر انجام دینے کے بارے میں اتنا اُنس وابستگی پیدا کی ہے کہ اگر کسی نیک کام کو ترک کرتے ہیں تو احساس کرتے ہیں کہ کسی ایسی چیز کوگم کردیا ہے جس کی یاد کو اپنے دل سے نکالنا ان کے لئے ناممکن ہے۔ جو لوگ سحرخیزی کے عادی ہیں اگر وہ کسی رات کو مناجات کے لئے نہ اٹھ سکیں، تو وہ پریشان رہتے ہیں۔

حسی اور دنیوی لذتوں کی طرف عمومی تمایل:

چونکہ اکثر لوگ دنیوی اور حسی لذتوں کی طرف میلان رکھتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ انسان کیا کرے تاکہ تکامل و ترقی کی راہ پرگامزن ہو، اپنے اندر مادی رجحان اور حیوانی لذتوں کو پاکر ان سے چشم پوش کر کے حق کے راستہ کی طرف قدم بڑھائے؟ جواب میں کہنا چاہئے کہ لذت خواہی انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان کے انجام دیئے جانے والے کاموں میں محرک وہ لذت ہے جو اسے حاصل ہوتی ہے۔ ہم وہ کام انجام دیتے ہیں جسے ہم پسند کرتے ہیں اور جس کام کو پسند نہیں کرتے، اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ باطل اور گناہ میں بھی اپنے لئے ایک لذت پاتے ہیں، لیکن ان سے چشم پوشی اور اجتناب کا راستہ یہ ہے کہ گناہ کے نتائج، انجام اور گناہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کے بارے میں فکر کریں یا نیک کام کی لذتوں کے بارے میں فکر کریں۔ اگر چہ نیک کام اور حق کی سختیوں کو برداشت کرنا دشوار ہے، لیکن اگر ہم ان کی جزا خوش کرنے والے انجام کو مدِ نظر رکھیں تو ہمارے لئے وہ ساری مشکلات آسان ہوجائیں گی۔ حقیقت میں لوگ سخت اور دشوار دنیوی کام انجام دینے کے بارے میں یوں مواز نہ کرتے ہیں:

جو مزدور صبح سویرے ایک محرک کی بنا پر ایک سخت کام شروع کرتا ہے اور شام تک کام کرتا رہتا ہے اور پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے، وہ برداشت کی گئی تمام سختیوں سے لذت کا احساس کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے کام کے نتیجہ پر نظر رکھتا ہے۔ نانوائی جو کبھی ٥٠ درجہ گرمی میں روٹی پکاتا ہے، تمام مشکلات کو برداشت کرتا ہے، کیونکہ اجرت لیتا ہے اور اس سے اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ وہ جب اپنے کام کے نتیجہ پر غور و فکر کرتا ہے اور یہ کہ اس اجرت سے اپنی زندگی کے بعض مشکلات کو دور کرتا ہے، یہ امرباعث بنتا ہے کہ وہ زندگی سے لذت محسوس کرے، کام کی زحمت اور محنت اس کے لئے آسان ہوجاتی ہے۔ حقیقت میں ان مشکلات کو برداشت کرنا عقلمندی ہے اور سب لوگ ایسے ہی ہیں کہ جب سختیوں کو لذتوں سے موازنہ کرتے ہیں، تو ایسے کام کو انجام دیتے ہیں جس میں زیادہ لذت ہو۔ اگر وہ اپنے کام میں زیادہ اجرت اور نفع کمائیں تو بالآخر زیادہ لذت پاتے ہیں۔ حقیقت میں جو اجر و پاداش براہ راست اپنے کام سے حاصل کرتے ہیں، اس میں کوئی لذت نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ لذت پانے کے لئے ایک وسیلہ ہوتا ہے، انسان پیسے کے ذریعہ اپنی زندگی کے لئے گھر اور ضروری اشیاء تہیہ کرتا ہے اور ان سے لذت پاتا ہے۔ پس عقلمند انسان کام کی سختی کو برداشت کرتا ہے تاکہ سر انجام کام کی سختی سے بہتر لذت حاصل کرے۔

عاقل انسان نشہ آور چیزوں کے استعمال اور عارضی لذت سے پرہیز کرتا ہے، کیونکہ وہ ان کے نتائج کے بارے میں سوچتا ہے، وہ جانتا ہے کہ چند لمحوں کے لئے لذت پاتا ہے اور لاش کی طرح مردہ ہوکر گر جاتا ہے، اور عمر بھر کے لئے بدبخت ہوجاتا ہے۔ اگر ہم یقین کریں کہ گناہ جس قدر بھی شیریں اور لذت بخش ہو اس کا انجام کتنا بُرا ہے۔ اگر دنیا میں ہم اسکے برے انجام سے دو چار نہ بھی ہوں مگر آخرت کی مصیبت میں گرفتار ضرورہوں گے تو جس دلیل سے ہم نشہ آور چیزوں سے پرہیز کرتے ہیںاسی دلیل کی بنیادپر گناہ کی لذتوں کو بھی نظر انداز کریں تاکہ عذاب ابدی میں مبتلا نہ ہوں اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''ورب شهوة ساعة تورث حزناً طویلا''

چند لمحوں کی لذتیں جن کا انجام طولانی مشکلات اور مصائب،ہیں، ہمارے زمانے میں ان کے فراوان نمونے پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ زمانے میں صرف شراب تھی جو انسان کو چند لمحوں کے لئے مست و مدہوش کرتی تھی اور اس کے بعد اس کے برے اثرات رونما ہوتے تھے، لیکن آج نشہ آور چیزوں کے انواع و اقسام میں اضافہ ہواہے۔ بُرادوست انسان کو دھوکہ دیتا ہے اور ہیروئن جیسی نشہ آور چیز کی لذت بیان کر کے اسے استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پہلی بار انسان لذت کا احساس کرتا ہے، دوبارہ اسے استعمال کرتا ہے اور سر انجام اس کا عادی بن جاتا ہے اور عمر بھر کے لئے بد بخت ہوتا ہے۔ دوسرے گناہ بھی اس طرح کے ہیں۔ اگر ہم فکر کریں کہ جن گناہوں کے ہم مرتکب ہونا چاہتے ہیں ان کا کتنا برا انجام ہے، تو ہم ان سے پرہیز کریں گے۔ بہت سے گناہ ایسے ہیں جو آخرت کے علاوہ انسان کو اسی دنیا میں مشکلات سے دوچار کر کے رکھ دیتے ہیں۔ کبھی نامحرم پر ایک نظر ڈالنا انسان کو عمر بھرکے لئے بدبخت اور بیچارہ بنا دیتا ہے اور اس کے سبب سے ایک خاندان ویران ہوجاتا ہے، یہ اس گناہ کا دنیوی انجام ہے، اخروی گرفتار یاں اپنی جگہ پر ہیں:

( فاذاقهم اللّٰه الخزی فی الحیوٰة الدنیا ولعذاب الآخرة اکبرلو کانوا یعلمون ) (زمر٢٦)

''پھر خدا نے انہیں حیات دنیا میں ذلت کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب تو بہر حال بہت بڑا ہے اگر انہیں معلوم ہو سکے۔''

ایک دوسری جگہ پر خدائے متعال فرماتا ہے:

( لهم عذاب فی الحیٰوة الدنیا و لعذاب الآخرة اشق... ) (رعد٣٤)

''ان کے لئے زندگانی دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اور زیادہ سخت ہے''

پس، ہم گناہ کی لذت کو اس کے انجام سے موازنہ کر تے ہوئے یہ کوشش کریں کہ گناہ میں آلودہ نہ ہوں، خاص کر جب تک گناہ کا جاذبہ ہم میں اثر نہ کرے اور ہم گناہ کی سرحدتک نہ پہنچیں گناہ سے پرہیز کرنا آسان ہے، چونکہ گناہ کے جاذبہ نے ہم پر اثر کیا اور ہم گناہ کی سرحد تک پہنچ گئے، تو بہت مشکل ہے کہ ہم اس کو انجام دینے سے پرہیز کریں۔ ایک بزرگ شخص خدا ان پر رحمت نازل کرے کہتے تھے : اے جوانو! خدا سے دعا کرو کہ تمہاری شہوت کی دیگ ابلنے نہ پائے، کیونکہ اس صورت میں اسے خاموش کرنا مشکل ہے، جب تک انسان شہوت یا غضب کا اسیر نہیں ہے، آرام میں ہے اور فکر کر سکتا ہے اور فیصلہ کرکے محاسبہ کر سکتا ہے، اور اس کی شہوت مشتعل ہونے تک گناہ سے اجتناب کر سکتا ہے لیکن اگر پہلے سے فیصلہ نہ کرے اور فکر نہ کرے تو شہوت اور غضب کے مشتعل ہونے پر فکر کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے، کیونکہ شہوت کے مشتعل ہونے سے عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے۔

شیطان انسان کو منحرف کرنے کے لئے شہوت اور غضب کے علاوہ دوسری طاقتیں بھی رکھتا ہے کہ من جملہ ان کے اجتماعی عوامل ہیںسے ایک یہ کہ، سماج میں ہر شخص دوسروں کے جیسا ہونا چاہتا ہے۔ یہ ایک روحانی اور نفسیاتی عامل ہے کہ انسان کے بچپنے میں پیدا ہوتی ہے۔ البتہ اس عامل کے بھی دوسرے عوامل کی طرح مثبت و منفی آثار ہیں' درحقیقت خیر و شر کی سرحد کو پہچاننا چاہئے اور اس عامل سے صحیح حد تک استفادہ کرنا چاہئے تاکہ انسان اندھی تقلید نہ کرے۔

دوسروں کے ساتھ ہم رنگ ہونا' بہت سے مواقع پر انسان کی نجات کا سبب بنتا ہے' کتنے ہی زیادہ جوانوں نے اچھے دوستوں سے مصاحبت کی وجہ سے مسجد کی طرف رخ کیا ہے اور کتنے ہی جوان اس عامل کی وجہ سے محاذ جنگ کا رخ کر چکے ہیں۔وہ ابتداء میں محاذ جنگ پر جانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے' لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے دوست اور محلے کے نوجوان محاذ جنگ پر جا رہے ہیں' ان میں بھی محاذ جنگ میں جانے کی رغبت پیدا ہو گئی۔ یہ اس عامل کے اچھے اثرات ہیں، اس کے برعکس جس ماحول کو فساد نے آلودہ بنایا ہو' وہاں پر یہی عامل فساد کی طرف میلان میں اضافہ کا سبب بنتا ہے' خاص کر نوجوانوں میں کیونکہ نوجوان اپنے آس پاس کے ماحول سے فوراً متاثر ہوتے ہیں' اور ماحول پر حاوی فساد اور برائی کے مقابلہ میں کوئی خاص استقامت نہیں دکھا سکتے ہیں لیکن سن رسیدہ لوگوں میں دوسروں سے متاثر ہونے کا عامل ضعیف تر ہوتا ہے۔

معاشرے کی اکثریت یا برتر افراد یا ترقی یافتہ دنیا کی ملتوں کا نمونہ نوجوان ہیں۔ جب لوگوں کی اکثریت میں کسی قسم کا میلان موجود ہو' تو نمونوں کی تقلید کرنے والا انسان اپنے آپ سے کہتا ہے:عام لوگ عقل رکھتے ہیں' پاگل تو نہیں ہیں' ا سلئے ان کا کام صحیح ہے، اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض افراد اس عامل سے متاثر ہو کر فساد اور برائیوں میں پھنس جاتے ہیں' خصوصاً اگر معاشرے کی اکثریت فاسد ہو۔