زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 38890
ڈاؤنلوڈ: 3073


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38890 / ڈاؤنلوڈ: 3073
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

چھبیسواں درس:

مخلصانہ دعا اور شائستہ عمل کا نقش اوراثر

* دعا کے مفہوم کی طرف ایک اشارہ

* دعا اور درخواست میں انسانوں کے مراتب میں فرق

* بارگاہ الہٰی میں فقر و ناتوانی کے اظہار کی اہمیت

* شائستہ ا عمال کے ساتھ دعا کے ہمراہ ہونے کی ضرورت

* شائستہ و صالح انسان کے وجود کی برکتیں

مخلصانہ دعا اور شائستہ عمل کا نقش اوراثر

''یا اباذر: یکفی من الدعاء مع البرما یکفی الطعام من الملح یا اباذر؛ مثل الذی یدعو بغیر عملٍ کمثل الذی یرمی بغیر وترٍ یا اباذر؛ ان اللّٰه یصلح بصلاح العبد ولده وولد ولده ویحفظه فی دویرته والدور حوله مادام فیهم''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موعظہ کا یہ حصہ دعا اور خدائے متعال سے درخواست اور دعا کی عمل صالح کے ساتھ ضرورت اور صالح انسان کا گھر اور معاشرے میں قابل اہم نقش سے مربوط ہے۔ بیشک دعا اور خدائے متعال سے درخواست، بندگی و عبودیت کا ایک مظہر ہے اور اس سلسلہ میں بہت سی آیات و روایات وار دہوئی ہیں اور اس موضوع پر مفصل بحثیںبھی کی گئی ہیں۔

دعا کے مفہوم کی طرف ایک اشارہ

مرحوم راغب اصفہانی دعا کے بارے مین کہتے ہیں: ''دعا'' مانند ''ندائ'' ہے، اس فرق کے ساتھ کہ نداء میں کبھی ''یا''اس کے علاوہ (الفاظ )سے استفادہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی نام نہیں آتا ہے، لیکن لفظ ''دعا'' ایسی جگہ پر استعمال ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ نام آئے، مثال کے طورپر: اے فلاںالبتہ دعا و ندا کبھی کبھی ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہیں۔(۱)

علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:

خدائے متعال کی دعا کی دو قسمیں ہیں: تکوینی و تشریعی۔ تکوینی کسی چیز کے کی ایجاد کے معنی میں ہے کہ خدائے متعال نے اس کا ارادہ کیا ہے، گویااس چیز کو اپنے ارادہ کے مطابق بلاتا ہے۔ خدائے متعال فرماتا ہے:

( یوم یدعوکم فتستجیبون بحمده ) ...) (اسرائ٥٢)

''جس دن وہ تمہیں (آخرت کی ابدی زندگی کی طرف) بلائے گا اور تم سب (قبروں سے باہر آجائو گے) اور اس کی تعریف کرتے ہوئے لبیک کہو گے۔''

لیکن خدا کی تشریعی دعا اس معنی میں ہے کہ قرآن مجید کی آیات سے لوگوں کو دین قبول کرنے کے لئے مکلف قرار دیتا ہے۔ لیکن بندے کی پرور دگار سے دعا، اس معنی میں ہے کہ بندہ خدا کی بندگی اور خدا کے سامنے اپنیغلامی کا کے احساس دلا کر، خدا کی رحمت و عنایت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس لحاظ سے حقیقت میں عبادت وہی دعا ہے، جسے بندہ اپنی دعا سے (خدا وند متعال سے وابستگی اور ذلت کے احساس سے) غلامی کے مرحلہ میں رہ کر اپنے مولا سے ارتباط برقرار کرتا ہے، تاکہ خدائے متعال کو اس کی سرداری اور ربوبیت کا واسطہ دیکر اپنی طرف متوجہ کرے اور یہ وہی دعا ہے اور اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدائے متعال فرماتا ہے:

( وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سید خلون جهنم داخرین ) (غافر ٦٠)

''اور تمہارے پرور دگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔''

اس آیت میں خدائے متعال نے پہلے تعبیر ''دعا'' سے استفادہ کیا ہے اس کے بعد تعبیر ''عبادت'' سے۔(۲)

یہ غلط فہمی نہ ہو کہ درخواست کرنے والے کی دعا کے قبول ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی بھی وہ درخواست کرے اور جس وقت بھی وہ چاہے اس کی حاجت پوری ہوگی۔ دعا کے قبول ہونے کے بارے میں اس قسم کی تفسیر دینی بیانات سے سازگار نہیں ہے۔ ممکن ہے جس چیز کے متعلق دعا کرنے والا درخواست کررہا ہے وہ اس کی مصلحت میں نہ ہو اور درخواست کا قبول ہونا اس کے نقصان میں ہو، کیونکہ وہ اپنی مصلحت سے آگاہ نہیں ہے۔

حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''...ثم جعل فی یدیک مفاتیح خزائنه' بما اذن لک فیه من مسالته' فمتی شئت استفتحت بالدعاء ابواب نعمته واستمطرت شابیب رحمته فلا یقنطنک ابطاء اجابته فان العطیّة علی قدر النیّة وربما اخّرت عنک الاجابة لیکون ذٰلک اعظم لأجر السائل واجزل لعطاء الاٰمل وربما سالت الشئی فلاتوتاه واوتیت خیراً منه عاجلاً او آجلا' او صرف عنک لما هو خیر لک''

فلرب امر قد طلبته فیه هلاک دینک لو اوتیته فلتکن مسالتک فیما یبقی لک جماله وینفی عنک وباله فالمال لا یبقی لک ولا تبقی له ..''(۳)

تیرے دونوں ہاتھوں میں جس تجھے درخواست کی اجازت دی ہے، خزانوں کی کنجیاں رکھی ہیں۔ پس اگر دعا سے نعمتوں کے دروازوں کو کھولنا چاہوتو مسلسل رحمت کی بارش کے لئے دعا کرو۔ تیری درخواست کے قبول ہونے میں تاخیر تجھے نا اُمید نہ کرے، کیونکہ بخشش نیت اور مہم ارادہ کے مطابق ہوتی ہے (دعا کا قبول ہونا خلوص نیت اور پائداری پر منحصر ہے) ممکن ہے تیری درخواست کو قبول ہونے میں تاخیر ہوجائے تاکہ درخواست کرنے والے کی پاداش میں اضافہ ہو اور کامیابی کے لئے بخشش زیادتی ہو ۔ ممکن ہے کسی چیز کی درخواست کرو اور وہ شی تجھے عطانہ کی جائے اور آخرت یا دنیا میں اس سے بہترشی تجھے دی جائے یاتمھاری مصلحت میں یہی ہو کہ تمھاری درخواست قبول نہ ہو ممکن ہے کہ ایسی چیز کی درخواست کرو کہ اگر تجھے عطاکردی جائے تو تمھارادین خراب ہوجائے۔ پس تجھے ایسی چیز کی درخواست کرنی چاہئے جس کی نیکی تیرے لئے باقی رہے اور اس کی ناگوار تم سے دور ہوجائے۔ مال تمھارے لئے باقی نہیں رہے گا اور تم بھی اس کے لئے نہیں رہو گے''

دعا و درخواست میں انسانوں کے مراتب میں فرق:

اس بارے میں کہ دعا میں انسان کامحرک کیا ہے اور دعا کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے، مختصریہ کہ انسان اپنی حاجت کو صرف بار گاہ الہٰی میں پیش کرے اور اس سے حاجت روائی چاہیے۔ بندگی اور اس کے مقامات کے بارے میں لوگ مختلف ہیںان کی حاجتیں بھی مختلف ہیں، جو لوگ معرفت و ایمان کے ادنی درجہ اور خدا کی بندگی وعبودیت کے تکامل وترقی کے راستہ کی ابتدامیں قراردیتے ہیں، ان کی حاجتیں عام اور دنیوی ہوتی ہیں، مثال کے طور پر وسعت رزق، شائستہ فرزند، اچھی شریک حیات، اچھے گھر اور زندگی کے وسائل کو پورا کرنے کی درخواست و غیرہ۔

البتہ جو ایمان کے ادنی درجہ پر ہے اور معرفت الہٰی کے اعلی درجات پر فائز نہیں ہوا ہے،کہ خدا سے بالاتر حاجتوںکی درخواست کرے، بجا ہے کہ خدا سے ان ہی مادی حاجتوں کی درخواست کرے، حقیقت میں خدا سے اس کی درخواست اس بات کی علامت ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اپنی حاجتوں کو پوا کرنے کا قادر جانتا ہے، اس لحاظ سے وہ بندگان خدا کی طرف دست سوال دراز نہیں کرتا ہے، فطری بات ہے کہ اگر ان ہی مادی حاجتوں کو خدا سے چاہے، تو خدائے متعال اس کی حاجتوں کو پورا کرے گا، کیونکہ اس نے خود موسیٰ سے فرمایا:

''یا موسیٰ سلنی کل ماتحتاج الیه حتی علف شاتک وملح عجینک'' (۴)

''اے موسیٰ! اپنی تمام حاجتوں کو مجھ سے مانگو، یہاں تک بھیڑ کے چارہ اور خمیر کے نمک کو''

انسان کا کمال اس میں ہے کہ ہر قسم کی حاجت خواہ مادی ہویا معنوی پوری کرنے کے لئے خدائے متعال سے رجوع کرے اور اس کے علاوہ کسی سے رجوع نہ کرے اور غیر خدا کو بلا واسطہ مؤ ثر نہ جانے اگر غیر خدا سے رجوع کیا تو خدائے متعال اسے نا اُمید کرتا ہے:

''ان الله تبارک و تعالیٰ یقول: وعزتی وجلالی ومجدی وارتفاعی علی عرشی لأُ قطعن امل کل مومل غیری بالیاس ولأ کسونه ثوب المذلة عند الناس ولا نحّینه من قربی ولأُبعدنه من فضلی' ایومل غیری فی الشدائد والشدائد بیدی ویرجو غیری ویقرع بالفکر باب غیری؟ وبیدی مفاتیح الابواب وهی مغلقه وبابی مفتوح لمن دعانی... ''(۵)

خدائے متعال فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال، بزرگواری اور عرش پر عظمت کی قسم ہے جو کوئی میرے علاوہ کسی اور سے اُمید باندھے اس کی آرزوئوں کو نا اُمیدی میں تبدیل کر دو ںگا اور لوگوں کے پاس اسے ذلیل و خوار کر کے رکھدوں گا اور اسے اپنے تقریب سے دور رکھوں گا اور اپنے فضل و کرم سے محروم کردونگا۔ وہ مشکلات میں دوسروں سے اُمید رکھتا ہے جبکہ مشکلات (کاحل) میرے ہاتھوں میں ہے ۔ میرے علاوہ غیروں سے امید رکھتا ہے اور اپنی فکر میں میرے علاوہ کسی اور کے گھر کا دروازہ کھٹ کھٹاتا ہے، جبکہ تمام بند دروازوں کی کنجیاں میرے پاس ہیں اور میرے چاہنے والوں کے لئے میرا دروازہ کھلا ہے۔

افسوس کہ ہماری بہت سی دعائیں اور درخواستیں حقیقی نہیں ہیں، یعنی ہم خدا سے درخواست نہیں کرتے، چونکہ حقیقی مؤثر خدائے متعال ہے اور مناسب سے کہ انسان صرف اسی سے درخواست کرے، اگر چہ انسان حاجت کے وقت اسی کے پیچھے دوڑتا ہے جو اس کی حاجت کو پورا کرے اور اگر روپیہ و پیسہ چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ اسی کے سامنے پھیلاتا ہے کہ جو اس کی مدد کرے یا کسب معاش کے پیچھے جاتا ہے تاکہ پیسے کما سکے، لیکن مومن شروع میں اپنے دل کو خدا سے وابستہ کرتا ہے اور اس سے طلب کرتا ہے چوں کہ اس نے دنیوی اسباب کو حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے،لہٰذا ان کا سہارا چاہتا ہے، نہ اس لئے کہ وہ آزادو مستقل ہیں۔

بہر حال جس قدر انسان کا دل خدا کی طرف متوجہ ہوجائے اور بارگاہ رب العزت سے اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے درخواست کرے، انسان کے کمال اور ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور خدا کی طرف اس کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ خدا کی طرف توجہ کرنا کونسی گراںقدر کیمیاہے ، حتی کہ خدائے متعال سے مادی اور دنیوی حاجتوں کی درخواست بھی انسان کی روحانی تکامل و ترقی میں کس قدر مؤثر ہے: علامہ طبا طبائی اپنے استاد مرحوم آیت اللہ میرزا علی آقا قاضی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: بعض اوقات انسان خدا کی توجہ سے غافل ہوتا ہے اور خدائے متعال ایک مدت تک اپنے اس بندہ کو مشکلات اور سختیوں میں مبتلا کرتا ہے تاکہ ایک ''یا اللہ کہے، کیونکہ یہ ''یااللہ'' کہنا اور خدا کی طرف توجہ کرنا روح پر زیادہ اثر ڈالتا ہے اور اس کے دل کے نورانی ہونے کا سبب بنتا ہے۔

گزشتہ بیانات کے پیش نظر واضح ہوتا ہے کہ خدا کی طرف توجہ کس قدر روح کی ارتقاکے لئے مؤثر ہے حتی انسان عادی حالات میں جب ضرورت کازیادہ احساس نہ کرے خدا کی طرف متوجہ ہوجائے تو کس قدر اپنے کمال کی راہ میں آگے بڑھ سکتا ہے،البتہ وہ نہیں سمجھتا ہے اور صحیح طور پر سمجھنا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور اگر ہر چیز کے آثار مکمل طور پر آشکار ہو جائیں تو امتحان کما حقہ انجام نہیں پائے گا۔ بہت سی چیزیں مخفی اور پوشیدہ رہنی چاہئے تاکہ امتحان صحیح معنوں میں انجام پائے۔

اس لئے انسان کو ہر گز خدائے متعال کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور اسے ہر چیز، یہاں تک اپنی مادی حاجتوں کو بھی خدا سے مانگنا چاہئے۔ا سے توجہ کرنی چاہئے کہ اس کی دعا حتی مادی حاجتوں کے لئے اور خدا کی طرف توجہ خدا کی ربوبیت اور اس کی بندگی کااقرار ہے اور اسی قدر توجہ بھی، اپنی مادی حاجتوں کے لئے درخواست، اس کی روح کے کمال کے لئے مؤثر ہے، اگر اس کی معرفت نشوونما پا کر اس کا ایمان قوی ہوجائے اور مادی امور کے علاوہ معنوی امور کے لئے بھی دعا کرے تو کیا بات ہے! دعا کرے کہ خدا اسے عبادت کی توفیق عنایت کرے، علم حاصل کرنے، لوگوں کی خدمت کرنے اور گناہ سے پرہیز کرنے کی توفیق مرحمت کرے۔ اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کیلئے، دوستوں، ہمسایوں، ہم کلاسوں، مومنوں، ان کے لئے جن کا اس پر حق ہے من جملہ اپنے استادوں کے لئے دعا کرے۔

اس سے عالی ترین گروہ، وہ لوگ ہیں کہ جب دعایا درخواست کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی حمد و تسبیح الٰہی میں مشغولیت ان کے لئے دعا اور درخواست کرنے سے مانع ہوتی ہے جب وہ دعا کرنا چاہتے تو وہ خدا کے جلال و جمال کی صفات کی یاد میں پڑجاتے ہیں اور پروردگار کی مدح و ثنا کرنے لگتے ہیں جس قدر اس کی ستائش کرتے ہیں سیر نہیں ہوتے ہیں، اس لئے ان کے لئے کوئی فرصت باقی نہیں بچتی تاکہ اپنے لئے کسی چیز کا مطالبہ کریں۔ جس عاشق کی نظر اس کے معشوق کے جمال پر پڑتی ہے، وہ خود کو نہیں دیکھتا ہے تاکہ اپنے معشوق سے اپنے لئے کوئی چیز مانگے۔

حتیٰ جو لوگ معرفت کے اس مرحلہ پر پہنچے ہیں، وہ پھر بھی احساس کرتے ہیں کہ خدائے متعال چاہتا ہے کہ عبودیت و بندگی کے آثار ان کے تمام اعضاو جوارح اور اس کے وجود کے تمام زاویوںسے ظاہر ہوں، جس طرح عبودیت و بندگی کے آثار یہ ہیں کہ انسان اپنی پیشانی کومٹی پر رکھے، ذلت اور پستی کے عنوان سے بارگاہ الہٰی میں اپنے رخ کو خاک پر قرار دے، اس کی آنکھوں سے جمال الہٰی کے شوق کے آنسو یا عظمت الہٰی کے خوف کے آنسو جاری ہوجائیں اور دل کا نپ اٹھے، اس طرح تمام اعضا و جوارح کے علاوہ زبان پر ذلت کے آثار رونما ہونے چاہئے اور زبان پر جاری ہونے والے عبودیت و بندگی کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ اپنے مولا سے کسی چیز کی درخواست نہیں کرتا ہے۔

بارگاہ الہٰی میں فقر و ناتوانی کے اظہار کی اہمیت:

جب انسان کو معلوم ہوا کہ خدائے متعال ا سے چاہتا ہے کہ اپنے پورے وجود اور اپنی پوری ظاہری اور باطنی طاقت کے ساتھ بندگی کا اظہار کرے، تو اسے جاننا چاہئے کہ وہ زبان سے بھی عاجزی ، ذلت اور گدائی کا اظہار کرے اور یہ درخواست اور گدائی پرور دگارکی بارگاہ میں ذلت کی علامت ہے اور جنہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ گدائی کس عظمت و عزت کا سبب بنتی ہے۔ جو لوگ معرفت کے عالی مقامات تک پہنچے ہیں، وہ پھر بھی احساس کرتے ہیں کہ انہیں دعا کرنی چاہئے اور آثار بندگی کو زبان پر جاری کرنا چاہئے، یہ اظہار بندگی عبادت ہے اور موضوعیت رکھتا ہے۔

خدائے متعال انسان سے چاہتا ہے کہ اس کی بارگاہ میں فقر و محتاجی کا اظہار کرے اورفطری بات ہے کہ جب انسان کے تمام اعضاو جوارح خدا کی بندگی کی راہ میں شائستہ اعمال انجام دینے کے لئے ہماہنگ ہوں اور من جملہ آثار بندگی، اظہار عجز و ناداری اور خدا سے درخواست زبان پر جاری ہو، تو انسان مطلوب نتیجہ تک پہنچتا ہے، کیونکہ انسان کے تمام قویٰ ( طاقتیں) اور اعضاء و جوارح ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ جب وہ دعا کرتا ہے، گویا اپنے تام وجود سے بار گاہ رب العزت سے درخواست اور سوال کرتا ہے، توفطری طورپر خدائے تبارک و تعالیٰ کی وسیع رحمت اسے اپنے دامن میں لے لیگی۔

( واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوةَ الداع اذا دعان ) ...) (بقرہ ١٨٦)

''اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں،پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں، جب بھی وہ پکارتا ہے۔''

دعامیں انسان خدا سے کوئی چیز مانگتا ہے اور وہ بھی اسے عطا کرتا ہے۔ لیکن جس نے خدا ئے متعال کی مناجات اور اس کی محبت کا مزہ چکھا ہے، اس کے لئے سب سے بڑی لذت یہ ہے کہ جب وہ ''یا اللہ'' کہتا ہے تو اسے جواب میں ''لبیک'' کہا جائے۔ لیکن اگر کسی کا دل صرف خدا کی طرف متوجہ ہو اور دوسروں پر نظر نہ رکھتا ہو، تو درخواست کرتے وقت خدا وند متعال اسے عطا کرتا ہے۔ انسان کو ہر چیز خدائے متعال سے مانگنی چاہئے، اگر بھوکا ہے تو روٹی خدا سے مانگے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں فقر و محتاجی کا اظہار کرے اور حضرت موسیٰ کی طرح کہے:

(...( رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر ) ) (قصص٢٤)

''پرور دگارا! یقینا میں اس خیر کا محتاج ہوں جس کو تونے میری طرف بھیجاہے۔''

حضرت موسیٰ نے اس بات کو اپنی زبان پر اس وقت جاری کیا، جب مصر سے بھاگ کر مدین روانہ ہونے اس وقت آپ کے پاس نہ غذا تھی اور نہ سونے کے لئے گھر۔ راتوں کو بیابانوں میں بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر سوتے تھے اور بھوک کی شدّت کی وجہ سے بیابان کی گھاس کھاتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''...واللّٰه ماسأَله اِلاخبزاً یاکله لأَنّه کان یاکل بقلة الارض ولقد کانت خضرة البقل تری من شفیف صفاق بطنه لهزاله وتشذب لحمه ''(۶)

خدا کی قسم، موسیٰ نے خدائے متعال سے کھانے کے لئے روٹی کے علاوہ کچھ نہیں مانگا تھا کیونکہ وہ زمین کی گھاس کھاتے تھے اور بے حد نحیف ولاغراور بدن پرگوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک کھال کے نیچے سے گھاس کی سبزی دکھائی دیتی تھی۔

حضرت موسیٰ، مصر سے بھاگ کر مدین کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک دن مدین میں دیکھا کہ کچھ لوگ کنویں سے پانی کھینچنے میں مشغول ہیں، اور دولڑکیوں کو دیکھا کہ ایک گوشے میں بیٹھے انتظار کر رہی ہیں تاکہ مرد چلے جائیں تو وہ اپنی بھیڑ بکریوں کے لئے کنویں سے پانی کھینچ لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان دو لڑکیوں کے پاس گئے اور ان سے سوال کیا: کس لئے یہاں آئی ہیں ؟ جب حضرت موسیٰ ان کے مقصود سے آگاہ ہوئے، تو ہمدردی کی بنا پر کنویں سے پانی کھینچ کر ان کی بھیڑ بکریوں کو سیراب کیا۔ اس کے بعد یہ لڑکیاں اپنی بھیڑ بکریوں کے ہمراہ دور چلی گئیں اور زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے واپس آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میرے باپ نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ آپ ان کے پاس آجائیں تا کہ وہ آپ کو ہماری کمک کرنے کی اجرت دیں۔ جب موسیٰ ان لڑکیوں کے باپ، حضرت شعیب کے پاس گئے تو انھوں نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عقد میں قرار دیا اور اس کے بعد حضرت موسیٰ کی مادی زندگی، بیوی بچے اور آرام آسائشکا اہتمام ہو گیا۔

جی ہاں، اگر انسان دل کی گہرائی سے خدا سے کوئی چیز مانگے وہ اسے عنایت کرتا ہے۔ پھر ضروری نہیں ہے مفصل اور طولانی دعائیں پڑھے اور دعائوں پر زیادہ وقت صرف کرے، کافی ہے کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا سے درخواست کرے تاکہ اس کی درخواست قبول ہوجائے۔ لیکن جب انسان دعا پڑہتا ہے، حتی لمبی چوڑی اور مفصل دعائیں، لیکن غیر خدا سے بھی دلی توجہ رکھتا ہے، تو وہ دعا اثر نہیں رکھتی۔ اگر انسان روحی آماد گی کے علاوہ شائستہ اعمال بھی انجام دے تو اس کی دعا جلدی اثر کرتی ہے۔

شائستہ اعمال کے ساتھ دعا کی ضرورت:

شاید ناشائستہ اعمال انجام دینے والوں کی دعا قبول نہ ہونے اور ان کے خدا سے درخواست کرنے میں کامیاب نہ ہونے کی علت یہ ہو کہ وہ خدا کی طرف مکمل توجہ نہیں رکھتے ہیں۔ کیونکہ ناپسند اعمال غیر خدا سے دلبستگی حتی کسی ایسی چیز سے دلبستگی کا سبب بن جاتے ہیں کہ جو خدا کی ناراضگی کا باعث ہیں۔ اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ انسان خدا کی بارگاہ میں حاضری دے؟ وہ لوگ خدائے متعال کی طرف خالصةً اور مکمل توجہ کرتے ہیں، جن کے اعمال صالح وشائستہ اور آلود گی سے پاک ہوں۔ اسی لئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

''یااباذر؛ یکفی من الدعاء مع البر ما یکفی الطعام من الملح''

''اے ابوذر! شائستہ اور نیک اعمال کے ساتھ دعا کرنا ایسے کافی ہے جیسے غذا کے لئے نمک کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔''

جس طرح غذا کے لئے ایک خاص مقدار میں نمک ضروری اور کافی ہوتا ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے، اسی طرح جو پسندیدہ اعمال بجالاتا ہے، جس مقدار میں غذا کے لئے نمک کاہونا ضروری ہے، اسی مقدارمیں اس کے لئے دعا کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت میں انسان کی زندگی کے لئے دعا نمک کے مانند سعادت ہے،پس ضروری نہیں ہے کہ انسان مسلسل دعا و درخواست کرتا رہے اور خدا سے درخواست و دعا کرنے کے فوراً بعد خدائے متعال اس کی درخواست کا جواب بھی دے، لیکن جن کے اعمال شائستہ نہیں ہیں اور دوسروں کی خدمت نہیں کرتے ہیں وہ اگر فراوان دعا بھی کریں تو معلوم نہیں ان کے لئے فائدہ مند ہویا نہ۔ اس مطلب کی بیشتر و ضاحت کے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

''یا اباذر: مثل الذی یدعو بغیر عملٍ کمثل الذی یرمی بغیر وترٍ ''

''اے ابوذر! جو شخص عمل ِشائستہ کے بغیر دعا کرتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی جیسی ہے جو کمان کے بغیر تیرچلاتا ہے''

جو دعا کرتا ہے، لیکن اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام نہیں دیتا وہ دعا کی اہمیت سے توواقف ہے اور دعا میں سچابھی ہے نیز در حقیقت خدائے متعال سے درخواست بھی کرتا ہے ہاں جو چیز اس میں ہے وہ یہ ہے کہ تمام امور میں اپنے فریضہ پر عمل نہیں کرتا ہے اور اس کی رفتار میں بندگی کے آثار نہیں پائے جاتے، کان، آنکھ وغیرہ کے بارے میں کوتا ہی برتتا ہے اور حقیقت میں وہ نفس کی بندگی کرتا ہے۔ ایسے شخص کوبھی خدا سے نا اُمید نہیں ہونا چاہئے، خدائے متعال اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ جو اس کے درپر آئے اور وہ ، اسے نکال باہر کرے اور کوئی جواب نہ دے۔ لیکن ایسے شخص کی حالت اس انسان سے بہت ہی متفاوت ہے کہ جس کی تمام سرگرمیوں اور رفتاروں میں خدا کی بندگی کے آثار و جلوے نمایاں ہوں اور وہ تمام وجود کے ساتھ اپنے معبود کی بندگی کے راستہ پر گامزن ہو اور انجام فرائض اور خلق و خالق کی خدمت میں ایک لمحہ کے لئے بھی غفلت نہ کرتا ہو۔ ان دوشخصوں کی درخواست اور دعا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چاہتا ہو کہ ایک تیر کو نشانہ پر چلائے مگر وہ تیر کوہاتھ سے پھینکتاہے، تو اس کی مسافت بہت کم ہوتی ہے اور تیر کماحقہ نشانہ پر نہیں لگتا ہے، لیکن اگر اسی تیر کو چلۂ کمان میں رکھ کر چلایا جائے تو اس کیمسافت کئی گنا زیادہ ہو گی اور تیر نشانہ پر بھی لگے گا۔ شائستہ عمل کے بغیر دعا کرنے والے کی مثال اس شخص کی جیسی ہے کہ کمان کے بغیر تیر چلاتاہے، یقینا اس کے تیر کیمسافت اور دوری بہت کم ہوگی۔

مذکورہ گفتگو کے پیش نظر انسان کی زندگی میں دعا کا نقش اور اثر واضح اور روشن ہو گیاکہ دعا اس نمک کے مانند ہے جسے غذا میں ڈالا جاتا ہے، انسان کی زندگی سرا سر خدا کی بندگی اور عبادت ہونی چاہئے۔ خواہ انفرادی حیثیت میں یا خاندانی روابط کے بارے میں ، ہمسایوں کے بارے میں یاسماج اور خدا کے بندوں کے بارے میں ، انسان کے رفتار و اعمال سے بندگی کے اثرات ظاہر ہونا چاہئے، ضمناً دعا بھی کرے۔ کیونکہ یہی دعا خدا کی بندگی کا اثر ہے جو زبان سے ظاہر ہوتا ہے (اور یقینا وہ درخواست اوردعا اور توجہ صمیم قلب سے ہونی چاہیے۔)

دوسرا نکتہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان سے واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان نیک اور شائستہ اعمال سے اپنے مقاصد تک بہت جلد پہنچتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی مثال اس شخص کے مانند ہوتی ہے جو کمان سے تیر چلاتاہے اور اس کا تیر فوری طور پر نشانہ پر لگ جاتا ہے۔ وہ اس شخص کے مانندہے جس کی غذا آمادہ ہے اور اس میں صرف تھوڑ اسا نمک ملانا باقی ہے تاکہ کھانے کے لئے تیار ہوجائے۔ پس نیک اور شائستہ اعمال انسان کو اپنی خواہشات تک پہنچاتے ہیں۔

البتہ افراد کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں وہ لوگ جو خدا کی بندگی کے اعلی ترین درجہ تک جاپہنچے ہیں، ان کی خواہشات بہت بلند ہیں، ان کی خواہشات جیسے: قرب الہٰی، لوگوں سے بے نیازی اور دنیا و آخرت کی سعادت کو حاصل کرنا نیز خدا کی عنایت کردہ نعمتوں کا ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنا ہے۔ وہ معتقد ہیں کہ صرف خدائے متعال ان کی خواہشات کو پورا کرتا ہے نہ کہ کوئی اور۔ لیکن جو لوگ بندگی اور خدا کی معرفت کے ادنی درجہ پر فائز ہیں، وہ اپنے شکم، گھر اور لباس کی فکر میں ہیں اور ان کی خواہشات بھی انہیں چیزوں سے مربوط ہوتی ہیں، البتہ خدائے متعال ان کی حاجتوں کو بھی پورا کرتا ہے۔

حقیقت میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان انسان کے اپنے نفس کی اصلاح کرنے اور فرائض انجام دینے کے لئے ایک تشویق ہے تاکہ وہ جلدی اپنے مقاصد تک پہنچ جائے اور خدائے متعال اس کی دعا کو قبول کرے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی دعا اپنے بارے میں ہویا دوسروں کے بارے میں ، اس کی خواہشات دنیوی ہوں یا معنوی و اخروی،پس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسروں کو نیک اعمال انجام دینے کی تشویق فرماتے ہیں، اگر چہ نیک اعمال کے حقیقی آثار اور شائستہ پاداش اور حقیقی اعمالِ خیر آخرت میں ظاہر ہوں گے اور یہ دنیا صرف کام کرنے کی جگہ ہے اور اعمال کی پاداش آخرت میں انسان کو ملے گی۔

''ان الیوم عمل ولا حساب وغداً حساب ولاعمل...'' (۷)

''بیشک آج کام کا دن ہے اور حساب کا دن نہیں ہے اور کل حساب کا دن ہے اور کسی کو کام کرنے کی مہلت نہیں ہوگی''

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:

''الدنیا مزرعة الآخرة '' (۸)

''دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔''

یہاں پر بیج بویا جاتا ہے اور آخرت میں فصل کاٹی جاتی ہے، لیکن خدائے متعال اپنی بے انتہا مہربانیوں کی بنا پر کبھی بعض اعمال کے آثار اور ان کے نمونے اسی دنیا میں نیک افراد کو عنایت فرماتا ہے تاکہ عمل خیر کی انجام دہی میں رغبت پیدا ہو اور انجام وظیفہ کے بلند عہدہ پر فائز ہوں۔ اگر چہ کمال کے عالی مقامات پر فائز ہوئے افراد اس طرح کی توفیق کے محتاج ہی نہیں ہوتے چاہے جس قدر بھی وہ ان آثار کو دیکھیں ان کے یقین میں اضافہ نہیں ہوتا ہے:

''لوکشف الغطاء لم ازاددت یقینا ...''(۹)

''اگر پردے ہٹادیئے جائیں تب بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔''

جن کے سامنے سے تمام پردے نہیں ہٹائے گئے ہیں، وہ ہمت افزائی کے مستحق ہیں تاکہ وہ خدا کی بندگی اور تکامل وترقی کی راہ میں آگے بڑھیں۔ ان تشویقوں میں سے ایک یہ ہے کہ خدائے متعال اسی دنیا میں خیر و برکت کے آثار ان پرنازل فرماتا ہے اور ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے:

( ولو ان اهل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیهم برکاتٍ من السمآء والارض ) (اعراف٩٦)

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔''

شائستہ اورصالح انسان کے وجود کی برکتیں:

مذکورہ بیانات سے بالاتر، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد وا لے جملہ میں نیک اور شائستہ اعمال کے لئے کچھ ایسے آثار بیان فرماتے ہیں جو ناقابل تصور ہیں اور انسان توقع نہیں رکھتا کہ اس کے نیک اعمال ایسے شائستہ آثار رکھتے ہوںگے۔

''یا اباذر؛ ان اللّٰه یصلح بصلاح العبد ولده وولد ولده ویحفظه فی دویرته والدور حوله مادام فیهم''

''اے ابوذر! خدائے متعال شخص کے صالح ہونے پر اس کے فر زندوں اور فر زندوں کے فرزندوں کی اصلاح فرماتا ہے اور اسے اپنے گھر میں نیز اور اس کے ہمسایہ کے گھروں میں ان کے زندہ رہنے تک ان کی حفاظت کرتا ہے''

جو لوگ خدا کی بندگی کے مالک ہیں،خدائے متعال انہیں اس دنیا میں خطرات سے بچاتا ہے اور ان کے وجود کی برکت سے ان کی اولاد کو پشت درپشت تحفظ بخشتا ہے، حتیٰ اہل محلہ اور اس شہر کے باشندوں کی بلائوں سے حفاظت کرتا ہے جس میں صالح و شائستہ انسان زندگی گزارتے ہیں۔ اسی طرح ایسے افراد کے وجود کی شعائیں اور معنوی برکتیں گرد و نواح کے لوگوں کو بھی شامل ہوتی ہیں۔ مومنوں کی وجودی شعاعیں یکساں نہیں ہوتیں، بعض صرف اپنے اہل وعیال سے رابطہ رکھتے ہیں، کچھ اپنے ہمسایوں اور اہل محلہ سے بھی رابطہ رکھتے ہیں اور کچھ اس سے بڑھ کر ایک شہر حتی ملک کے لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ ایران کے تمام لوگوں، بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ اس سے بڑھ کر تمام مستضعفان عالم سے رابطہ رکھتے تھے۔ ان کی وجودی شعاعیں ایک شہر اور ایک ملک سے بڑھ کرتمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ خدائے متعال نے اس شائستہ و برگزیدہ انسان کی برکت سے لاکھوں انسانوں کو اپنی عنایتوں سے نوازا۔

یقینا خدا وند متعال نہ صرف صالح وشائستہ انسان کی حفاظت کرتا ہے، اسے برکتیں عطا کرتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور بلائوں کو اس سے دور کرتا ہے بلکہ اس کے وجود کی خیر و برکت دوسروں، اس کی اولاد، محلہ والوں حتی ملک بھر کے لوگوں تک پہنچتی ہے اور اس کے قابل قدر وجود کی برکت سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ شائستہ اور صالح بندہ کا یہ قابل قدر نقش اور اثر، انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ خدا کی راہ میں قدم اٹھانے اور اس کے فرمان کی اطاعت میں نہ جانے کونسا گراں بہا کیمیا ہے کہ اس کے آثار انسان کے وجود کے حدودسے بڑھ کر دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ کیا مناسب نہیں ہے کہ انسان ان کاموں کو انجام دینے کے بجائے کہ امید وار ہو کہ نتیجہ خیز ہوگا، لیکن معلوم نہیں کہ خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہوگا یا نہیں ،ان ساری دنیوی زحمتوں کی اٹھانے کے بجائے اس امید میں کہ ان کا کوئی ثمرہ ہوگا، اپنی عمر کے لمحوں کو فرائض کے انجام دینے اور حکم خدا کو بجالانے میں صرف کرے تاکہ اس کی دنیوی خواہشات بھی پوری ہوجائیں اور اخروی خواہشات بھی، خدا کی برکتیں خود اس کو بھی ملیں اور اس کے اہل و عیال، آئندہ نسل حتی ہمسایوں، شہر اور ملک کے لوگوں تک پہنچیں، اس سے بڑھ کر کونسا فائدہ مند اور مفید کام ہوسکتا ہے؟ کیا تجارت اور کسب معاش کرنے والے اپنے مطلوبہ تمام دنیوی نتائج کو اخذ کرتے ہیں؟ کبھی ان کا فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان۔ ہاں ، اگر وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں تو ان کو کیا ملتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس دنیا میں خوشی کے کچھ دن گزارتے ہیں۔

چنانچہ کہا گیا، کہ کبھی ایک صالح وشائستہ بندے کی دعا ایک شہر کے لوگوں کو بلائوں سے بچاتی ہے اور لوگوں کے لئے برکتیں نازل ہونے کا سبب بنتی ہے۔ یقینا، اولیائے الہٰی اور شائستہ انسانوں کے وجود کی وجہ سے ہم سے بہت ساری بلائیں دور ہوتی ہیں اور ان کی دعائوں کی بدولت بے شمار تو فیقات ہمیں نصیب ہوتی ہے، ممکن ہے ہم انہیں نہ پہچانتے ہوں۔ ممکن ہے ہمارے آباء و اجداد نے نیک کام انجام دیئے ہوں جن کی وجہ سے خدا نے اس وقت ہمیں توفیقات عنایت کی ہے۔ ممکن ہے ہمارے اساتذہ اور بزرگوں نے ہمارے حق میں دعائیں کی ہوں یا ہمسائے اور مومنین نصف شب ہمارے لئے دعا کرتے ہوں اور انہی دعائوں کے اثرسے خدائے متعال نے اپنی تو فیقات سے ہمیں نوازا ہو، اور ہم سے بلائیں دور کی ہوں۔ ہمیں کیا پتہ ہے کہ یہ برکتیں اور نعمتیں کہاں سے آئی ہیں اور کس کے ذریعہ یہ بلائیں ہم سے دور ہوئی ہیں؟ اور ہم کیا جانتے ہیں کہ ایک بندہ صالح کی نصف شب کو خدا سے اس کے حق میں کی جانے والی دعا کی کیا برکتیں ہوں گی؟ لیکن خدائے متعال نے قرآن مجید میں فرمایا ہے اور روایتوں میں بھی آیا ہے کہ خدا ئے متعال شائستہ انسانوں کی برکتوں سے دوسروں کو نعمتیں عطا کرتا ہے، اور لوگوں سے بعض بلائوں کو دور کرتا ہے:

اس سلسلہ میں قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥١ کو شاہد کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے:

(...ولولا دفع اللّٰه الناس بعضهم ببعضٍ لفسدت الارض ولٰکن اللّٰه ذوفضلٍ علی العالمین )

''اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض کے ذریعہ سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔''

یونس بن ظبیان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے حسب ذیل ہے:

''ان اللّٰه یدفع بمن یصلّٰی من شیعتنا عمن لا یصلّٰی من شیعتنا ولو اجمعوا علی ترک الصلاة لهلکوا ، و ان اللّٰه یدفع بمن یصوم منهم عمن لا یصوم من شیعتناولو اجمعوا علی ترک الصیام لهلکوا وان اللّٰه یدفع بمن یزکی من شیعتنا عمن لایز کی منهم ولواجتمعوا علی ترک الزکاة لهلکوا وان اللّٰه لیدفع بمن یحج من شیعتنا عمن لایحج منهم ولوا جتمعوا علی ترک الحج لهلکوا' هو قول اللّٰه تعالیٰ: '' ( ولولا دفع اللّٰه الناس... ) ''فو اللّٰه ما انزلت الافیکم ولا عنی بها غیرکم'' (۱۰)

''خدائے متعال نماز پڑھنے والے ہمارے شیعوں کے طفیل سے نماز نہ پڑہنے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے اور اگر سب نماز نہ پڑہیں تو ہلاک ہوجائیں گے۔ خدائے متعال ہمارے روزہ رکھنے والے شیعوں کے وجود کی برکت سے روزہ نہ رکھنے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے اور اگر سب روزہ کو ترک کردیں تو ہلاک ہو جائیں گے۔ خدا ئے متعال ہمارے زکوٰة دینے والے شیعوں کے طفیل سے زکوٰة نہ دینے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے، اور اگر اجتماعی طور پر سب زکوٰة دینا ترک کردیں تو ہلاک ہوجائیں گے۔ خدائے متعال حج کو بجا لانے والے ہمارے شیعوں کے طفیل سے حج بجانہ لانے والوں سے بلا دور کرتا ہے اور اگر سب حج کو بجالا ناترک کردیں تو ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ

(مطلب) خدا کا فرمان ہے: ''اگر خدائے متعال بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے وسیلہ سے نہ روکتا '' خدا کی قسم یہ آیت نازل نہیں ہوئی مگر آپ کے حق میں اور اس سے آپ (شیعوں) کے علاوہ کسی کا قصد نہیں ہوا۔ ہے۔''

صالح انسانوں کا معاشرے میں نقش، ان کی وجہ سے لوگوں کو نصیب ہونے والی برکتوں اور ان کی وجہ سے خدائے متعال کا لوگوں کی بلائوں کو دور کرنے کے پیش نظر توجہ کرنی چاہئے کہ انسانوں اور انبیاء میں برترین، یعنی خاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کہ صاحب علم اولین و آخرین ہیں اور تمام عالی انسانی صفات و بلند معنوی کمالات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود میں اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے وجود میں جمع ہیں اور ہر قسم کی خطا اور گناہ سے معصوم ہیں، وہ تمام برکات الہٰی کے سرچشمہ ہیں اور کائنات ان کے وجود کے طفیل سے ہے، چنانچہ ذات مقدس الہٰی نے فرمایا ہے:

''...وعزتی وجلالی لولاک لما خلقت الافلاک'' (۱۱)

مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ہے کہ اگر تم نہ ہوتے تو افلاک کو پیدا نہیں کرتا پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ ائمہ اطہار علیہم السلام کا وجود مقدس سبب بنا ہے کہ پرور دگار عالم نے کائنات کو باقی رکھا ہے اور اپنی مخلوقات پر مسلسل برکتیں اور نعمتیں نازل کی ہیں حجت خدا کے وجود مقدس کی برکت سے بہت سی بلائیں دور ہوتی ہیں، کیونکہ اگر دنیا حجت خدا سے ایک لمحہ کے لئے محروم ہوتی، تونا بود ہوجاتی، چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''نحن ائمة المسلمین وحجج اللّٰه علی العالمین...ولولا مافی الارض منالساخت بأهلها' ثم قال علیه السلام: ولم تخل الارض منذخلق اللّٰه آدم من حجة للّٰه فیها ظاهرٍ مشهودٍ اوغائبٍ مستورٍ ولا تخلوٰ الی ان تقوم الساعة من حجة للّٰه فیها ولولا ذٰلک لم یعبداللّٰه قال سلیمان فقلت للصادق علیه السلام فکیف ینتفع الناس بالحجة الغائب المستور؟ قال علیه السلام' کما ینتفعون بالشمس اذا سترها السحاب'' (۱۱)

''ہم مسلمانوں کے پیشو اور عالمین پر خدا کی حجت ہیں اور اگر زمین ہم سے خالی ہو

جائے تو وہ باشندوں کو نگل لے گی۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: جب سے پرور دگار عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے، زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے اور وہ حجت خدایا ظاہربظاہر شناختہ شچہ ہے یا غائب اوردوسروں کے لئے ناشناس، اور قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی اور اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا کی عبادت نہیں کی جاسکتی (یعنی کوئی باقی نہ رہتا جو خدا کی عبادت کرتا)سلیمان راوی نے سوال کیا: لوگ کیسے غائب حجت خدا سے استفادہ کر سکتے ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح ابر کے پیچھے پوشیدہ سورج سے استفادہ کرتے ہیں''

____________________

١۔ راغب اصفہانی ،مفردات ،مادہ '' عود''

۲۔ المیزان :ج١٠، ص ٣٦

۳۔ نہج البلاغہ (ترجمہ فیض الاسلام)نامہ٣١، ص ٩٢٥و٩٢٤

۴۔ بحار الانوار ،ج٩٣ص٣٠٣

۵۔ اصول کافی(باترجمہ)ج٣،ص١٠٧

۶۔ نہج البلاغہ '' ترجمہ فیض اسلام'' خطبہ ١٥٩ص٥٠٧

۷۔ نہج البلاغہ (ترجمہ شہیدی) خطبہ ٤٢، ص ٤٠

۸۔بحار الانوارج ٧٠، ص ٢٢٥

۹۔ بحار الانوارج ٤٠، ص ١٥٣

۱۰۔ تفسیر عیاشی ،ج١ص١٣٥

۱۱۔ بحار الانوار ،ج٢٣ص٥