زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 38876
ڈاؤنلوڈ: 3068


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38876 / ڈاؤنلوڈ: 3068
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

ستائیسواں درس:

خداوند متعال کے نزدیک مخلص بندے کی قدر و منزلت

* انسان کی بلندی و برتری کا معیار

* آزادی و اخلاص کا اثر

الف: عامل استقلال

ب: عامل اخلاص

خدا وند متعال کے نزدیک مخلص بندے کی قدر و منزلت

یا اباذر' ان ربک عزوجل یباهی الملائکة بثلاثة نفرٍ: رجل فی ارض قفرٍ فیوذن ثم یقیم ثم یصلی' فیقول ربک للملائکة؛ انظرو الی عبدی یصلی ولایراه احد غیری فینزل سبعون الف ملک یصلون وراء ه ویستغفرون له الی الغد من ذٰلک الیوم ورجل قام من اللیل فصلی وحده فسجد و نام وهو ساجد' فیقول تعالیٰ: انظروالی عبدی' روحه عندی وجسده ساجد؛ ورجل فی زحفٍ فر اصحابه وثبت هو ویقاتل حتی یقتل''

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحتوں کے اس حصہ کا مضمون یہ ہے کہ خدائے متعال اپنے بندوں میں سے تین گروہ کے بارے میں فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے۔ البتہ خدا وند متعال کے فخرو مباہات کا کیا معنی ہے اور وہ اپنے فرشتوں پر کیسے فخر کرتا ہے، یہ صحیح طور پر ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس روایت کے اس حصہ سے جو کچھ استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بندگان خدا کے تین گروہوں کا مقام فرشتوں سے برتر ہے اورخدائے متعال ان کے بلند مقامات اپنے فرشتوں کو دکھلاتا ہے۔

انسان کی بلندی اور برتری کا معیار:

اس میں کوئی شک نہیں ہے خدائے متعال نے اپنی مخلوقات میں ، انسان کو بعض امتیازات اور خصوصیات سے بہرہ مند فرمایا ہے کہ جوباقی تمام مخلوقات میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ مادی مخلوقات میں اسے عقل و فہم اور آگاہی عطا کی ہے، یہاں تک اسے کرامت بخشی اور خشکی اور دریائوں کو اس کے لئے مسخر کردیا:

( ولقد کرّمنابنی آدم وحملنا هم فی البر و البحرورزقنا هم من الطیبات وفضّلنا هم علی کثیرٍ ممن خلقنا تفضیلاً ) (اسرائ٧٠)

''اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریائوں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔''

اس کے علاوہ خدائے متعال نے انسان کو ایک صاحب اختیار اور انتخاب کرنے والی مخلوق پیدا کیا ہے، تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق سعادت یاشقاوت کے راستہ کا انتخاب کرے۔ اور اسے فطرت الہٰی عطا کی تاکہ اس کیذریعے سے تمام اقدار، خوبیوں اور الہٰی، فضائل کی طرف رجحان پیدا کرے اور اسے راہ سعادت بھی دکھایا۔ لیکن نہ تو وہ تکوینی کرامت انسان کے لئے فرشتوں پر برتری کا باعث ہے اور نہ ہی انتخاب اور اختیار کا عنصر، کیونکہ ممکن ہے انسان اختیار و انتخاب کے اسی گراں بہا عامل کے ذریعہ خوش بختی اور سعادت کی راہ کے بجائے بغاوت اور شقاوت کا راستہ اختیار کرے اور حق کی ڈگر سے منحرف ہوجائے اور گمراہی میں گر کر ذلیل ترین مخلوقات میں شمار ہوجائے:

( ان شرّالدّوابّ عند اللّٰه الذین کفروا فهم لا یؤمنون ) (انفال٥٥)

''زمین پر چلنے والوں میں بدترین افراد وہ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کرلیا اور اب وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔''

جو چیز انسان کے مقام کو فرشتوں کے مقام سے بڑھا کر برتری اور فضیلت کا سبب بنتی ہے وہ دستورات الہٰی پر عمل کرنا، انسان کے معنوی تکامل وترقی کے لئے کوشش اور مطلوبہ کمال تک پہنچنا ہے۔ یعنی انسان اپنی الہٰی فطرت کی بنیاد پر سعادت کے راستہ کا انتخاب کرے اپنی اور نفسانی خواہشات کو کچل دے اور اپنی مادی جبلتوں کی اصلاح کرے۔ جو انسان حیوانی اور مادی کشش کی توانائیاں رکھتا ہے، وہ انھیں کسی بھی وقت اس مادیات اور حیوانی لذتوں کی طرف کھنیچ سکتی ہے، جب وہ حیوانی توانائی پر کنڑول حاصل کرے اور حق وباطل سے رو برو ہوتے وقت حق کو انتخاب کرے اور فطرت کی بنیادوں پر عمل کرے، تو وہ مسجود ملائکہ بن جاتا ہے اور اس کا مقام ملائکہ کے مقام سے برتر ہوتاہے، اسی لئے حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

''یا اباذر' ان ربک عزوجل یباهی الملائکة بثلاثة نفرٍ: رجل فی ارض قفرٍ فیوذن ثم یقیم ثم یصلی' فیقول ربک للملائکة: انظرو الی عبدی یصلی ولایراه احد غیری فینزل سبعون الف ملک یصلون وراء ه ویستغفرون له الی الغد من ذٰلک الیوم''

''اے ابوذر! تیرا پرور دگار تین افراد کے بارے میں فرشتوں پر فخر کرتا ہے: پہلا شخص جس کے بارے میں خدا وند متعال فرشتوں پر افتحار کرتا ہے وہ ہے کہ جو کسی بیابان میں اذان واقامت کہے اور نماز قائم کرے۔ پرور دگار فرشتوں سے کہتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو جو اس حالت میں نماز پڑھ رہا ہے جبکہ کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا ہے، اس وقت ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور اس کی اقتدا کرتے ہیں اور دوسرے دن تک اس کے لئے استغفار کرتے ہیں''

دوسرا شخص جس کے لئے خدائے متعال فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے:

''ورجل قام من اللیل فصلّٰی وحده فسجد ونام وهوساجد فیقول تعالی: انظرو الی عبدی' روحه عندی وجسده ساجد''

''اور وہ شخص جو رات کو نیند سے بیدار ہوتا ہے اور تنہائی میں نماز پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اور سجدہ میں سوجاتا ہے، تو خدائے متعال فرماتا ہے: (اے فرشتو!) میرے بندے کو دیکھو اس کی روح میرے پاس ہے اور اس کا بدن سجدے میں ۔''

جو شخص نصف شب کو آرام دہ اور گرم بستر سے اٹھتا ہے، میٹھی نیند کو چھوڑ تا ہے اور اپنے پروردگار سے عبادات و مناجات میں مشغول ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے معبود کی مناجات میں اس قدر غرق ہوجاتا ہے کہ سجدہ سے سر نہیں اٹھاتا یہاں تک کہ اسے نیند آتی ہے، تو خدائے متعال اپنے فرشتوں سے کہتا ہے: دیکھ لو، میرا بندہ نصف شب کو آرام و آسائش کے بستر سے اٹھا ہے اور لوگوں کی نظروں سے دور میری مناجات اور عبادت میں مشغول ہے۔ وہ اپنی عبادت میں اس قدر طول دیتا ہے کہ تھک کر سجدہ میں سوجاتا ہے۔ اس کی روح میرے پاس ہے لیکن اس کا جسم سجدہ میں پڑا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے: اس کی روح میرے پاس ہے، کیونکہ نیند کی حالت میں انسان کی روح خدا کے پاس چلی جاتی ہے، اور یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ ہوا ہے:

( اللّٰه یتوفی الانفس حین موتها والتی لم تمت فی منامها فیمسک التی قضیٰ علیها الموت و یرسلٰ الاخری الی اجلٍ مسمی ) (زمر٤٢)

''اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتاہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسرے کی روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کر دیتا ہے۔''

قرآن مجید کی نظر میں حقیقی مومن وہ ہے جو اپنے پرور دگار کی بندگی اور عبادت کے لئے نصف شب کو بستر سے اٹھے اور نیند کو اپنے لئے حرام قرار دے:

( تتجافی جنوبهم عن المضاجع یدعون ربهم خوفاوطمعاً ) ...) (سجدہ ١٦)

''ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے پرور دگار کو خوف اور طمع کی بنیاد پر پکار تے رہتے ہیں۔''

جی ہاں، دوسروں کی نظروں سے دور نماز شب قائم کرنا اور طولانی سجدے انجام دینا اور خدا کے حضور میں تعظیم بجالا نا خدا کے لئے فخرو مباہات کا سبب بن جاتا ہے۔

تیسرا شخص کہ جس کے ذریعے خدائے متعال فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے:

''ورجل فی زحف فرّاصحابه وثبّت هو ویقاتل حتی یقتل''

''اور وہ شخص جو میدان جہاد میں ہو، اس کے دوستوں نے فرار کی ہو اور وہ ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کو جاری رکھے یہاں تک قتل ہو جائے۔''

خدائے متعال اس مجاہد سورما پر فخر و مباہات کرتا ہے، کہ حنگ میں شکست کھانے کے بعد دوسرے لوگ دشمنی کے مقابلہ میں تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ گئے ہوں اور وہ اکیلا ہی دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتا رہے اور زندگی کے آخری لمحہ تک لڑتار ہے، باوجود اس کے کہ دوسروں کی طرح بھاگ کر وہ بھی اپنی جان بجا سکتا تھا لیکن وہ خدا کی راہ میں شہید ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ جی ہاں، خدائے متعال اس شخص پر فخر کرتا ہے، جو یار و یاور کے بغیر دشمنوں کی ایک بڑی تعداد کے مقابلہ میں ڈٹ جاتا ہے، جبکہ ایسی حالت میں استقامت کرنا واجب نہیں ہے: صدر اسلام میں ابتدا میں ایک آدمی کا دس افراد کے مقابلے میں مقاوت کرنا واجب تھا اس کے بعد تخفیف دیدی گئی اور ایک آدمی کا دو افراد کے مقابلہ میں مقاومت کرنا واجب ہوا، لیکن اگر سب چلے گئے اور وہ تنہارہ گیا، تو اس کے لئے واجب نہیں ہے۔

بیشک، دشمن کے مقابلہ میں مقاومت کرنے کی توانائی رکھنے کی صورت میں جنگ سے فرار کرنا گناہ کبیرہ ہے اور قرآن مجید نے واضح طور پر جنگ سے فرار کرنے کو منع کیا ہے اور اس عمل کو خدا کے غضب کا سبب بیان کیا ہے اور جنگ سے بھاگنے والے کی جگہ جہنم بتائی ہے:

( یا ایها الذین آمنوا اذالقیتم الذین کفرو ازحفاً فلا تولوهم الأدبار ومن یولهم یومئذٍ دبره الا متحرفاً لقتالٍ اومتحیزاً الی فئةٍ فقد باء بغضبٍ من اللّٰه وماواه جهنم وبئس المصیر ) ۔) (انفال١٥و ١٦)

''اے ایمان والو! جب کفار سے میدان جنگ میں ملاقات کرو تو خبر دار انہیں پیٹھ نہ دکھانا۔ اور جو آج کے دن پیٹھ دکھائے گا وہ غضب الہٰی کا حق دار ہوگا اور اس کا ٹھکا نا جہنم ہوگا، جو بدترین انجام ہے علاوہ ان لوگوں کے جو جنگی حکمت عملی کی بنا پر پیچھے ہٹ جائیں یا کسی دوسرے گروہ کے پناہ لینے کے لئے اپنی جگہ چھوڑ دیں''

روایت کے اس حصہ سے بہت سے درس حاصل کئے جاسکتے ہیں: خدائے متعال کا اپنے بعض بندوں کے وجود کا ملائکہ پر فخر کرنا، اس معنی میں ہے کہ وہ ایسی اقدار کے مالک ہیں جن کی خدا کے پاس بہت اہمیت ہے، اگر دوسری خصوصیات ہوتیں جو انسان کے لئے بیشتر کمال کا سبب بنتیں اور خدا کے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل ہوتیں، تو خدائے متعال ان کا ذکر کرتا۔ جب خدائے متعال اپنے بعض بندوں کے بلند مقامات کو فرشتوں کے سامنے تعارف کرانا چاہتا ہے اور ان پر فخر کرتا ہے، تو حقیقت میں ان کے بہترین اقدار کو بیان کرتا ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ خدا کے بندوں کے وہ تین گروہ جو ایک بیایان میں لوگوں کی نظروں سے دور، آداب و مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھتا ہے اور جو نصف شب آرام و آسائش کے وقت بستر سے اٹھ کر خدا کی عبادت و مناجات میں مشغول ہوجاتا ہے اور وہ جو میدان کار زار میں دشمنوں کی بڑی تعداد کے سامنے اکیلا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے، یہاں تک جام شہادت نوش کرتا ہے کن خصوصیات کے حامل ہیں اور کن پہلوؤں میں مشترک ہیں کہ خدائے متعال انہیں اس حد تک مقام و منزلت بخشتا ہے؟

یقینا خدا کی راہ میں مال کے انفاق یا حسب ضرورت ایثار و قربانی یا عبادتیں اور دوسرے نیک اعمال، کہ جن کی شرع مقدس میں تاکیدکی گئی ہے، سب قابل قدر و اہمیت اور انسان کے کمال کے سبب ہیں، لیکن دیکھنا چاہئے وہ تین گروہ کن خصوصیتوں کے حامل ہیں اور ان میں کون سے مشترک عناصر پائے جاتے ہیں کہ اس حد تک ان کی تاکید کی گئی ہے؟

ان تین گروہوں میں خصوصیت اور مشترک عنصر تنہا ہوناہے پہلا شخص دوسروں کی نظروں سے دور تنہائی میں عبادت کرتا ہے اور دوسرا شخص نصف شب کو نیند سے اٹھ کر تنہائی میں مناجات کرتا ہے اور تیسرا شخص بھی دشمن کے سامنے تنہاڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ خدائے متعال اس شخص کے ثواب پرفخر و مباہات نہیں کرتا ہے جو محلہ کی مسجد میں یا جامع مسجد میں نماز پڑہتا ہے بلکہ اس پر فخر کرتا ہے جو بیابان میں تنہائی میں عبادت کرتا ہے یا اس کے سب دوست محاذ جنگ سے بھاگ گئے ہیں اور وہ تن تنہا دشمن سے مقابلہ کر رہا ہے۔ ممکن ہے کسی شخص نے دسیوں حملوں اورجنگی معرکوں میں حصہ لیا ہو اور بہت سی شجاعتوں کا مظاہرہ کیا ہومتعدد فتح و کامرانیاں بھی حاصل کر چکا ہو، لیکن اس کے باوجود تاکید اس شخص پر ہے جو محاذجنگ میں تنہا رہ گیا ہے پھر بھی اپنا فریضہ انجام دینے میں مشغول ہے۔

آزادی و اخلاص کا اثر:

الف: عامل استقلال

دو مہم عامل ،استقلا ل یعنی دوسروں کا اثر قبول نہ کرنا اور اخلاص، ان تین اشخاص کے انفرادی اقدام کی عظیم اہمیت کا سبب واقع ہوئے ہیں:

پہلے عامل کی وضاحت، یعنی استقلال کی و ضاحت میں یہ کہنا بہتر ہے کہ: اکثر لوگ دوسروں کے الہامات اور رفتار سے متأثر ہوتے ہیں انسان کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ ایک راہ پر جارہے ہیں اور ایک رفتار انجام دے رہے ہیں، وہ بھی اسی راہ پر چلناچاہتا ہے اور اس رفتار کی طرف میلان پیدا کرتا ہے۔ گویا دوسروں کا اقدام اور ان کی روش انسان کے لئے راستہ کے انتخاب کرنے اور اس پر چلنے کا ایک ایسا عامل ہے جو اس کی مدد کرتا ہے: جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ خیر و صلاح کی راہ پر گامزن ہیں، تو وہ بھی ان کی پیروی کرتا ہے۔ البتہ یہ انسان کے لئے ضعف و کمزوری کی علامت ہے اور خدائے متعال نے انسان میں یہ عنصر قرار دیا ہے تاکہ جو لوگ ضعیف ہیں، صالح افراد کی پیروی کر کے صحیح راستہ کا انتخاب کریں۔ اگر چہ ایسے افراد غلط اور برے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں اور ممکن ہے دوسروں سے وابستگی اس امر کا سبب بنے کہ انسان دوسروں کی پیروی میں باطل راستہ کو پسند کرے اور حالات اور شرائط کے بدلنے کے ساتھ وہ بھی تبدیل ہو جائے اور رسوائی سے بچنے کے لئے وہ بھی انھیں کے رنگ میں ڈھل جائے۔ خدائے متعال ایسے ضعیف انسانوں کے انجام کے بارے میں کہ جو سوچے سمجھے بغیر اہل باطل کی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اپنے اختیار کی لگام دوسروں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( واذاقیل لهم اتبعو اماانزل اللّٰه قالوا بل نتبع ما الفینا علیه آباء نا اولو کان آباوهم لا یعقلون شیئاً ولا یهتدون ) ۔'' (بقرہ ١٧٠)

''جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ ایساہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں''

البتہ احکام الہٰی اور شرعی فرائض کے بارے میں ، جو شخص آگاہی اور پہچان نہ رکھتا ہو، اس پر فرض ہے کہ عالم سے پوچھ لے، خواہ وہ حکم خدا کے بارے میں جاہل ہو یا حکم خدا کے موضوع کے بارے میں (یہ دین میں فقیہ اور مجتہد کی تقلید کرنے کے معنی میں ہے) البتہ یہ شخص جو تقلید کے ذریعہ احکام خدا سے آگاہ ہوتا ہے اس شخص کے برابر نہیں ہے جو محنت و مشقت کر کے احکام دین کو خود استنباط کرتا ہے، کیونکہ مجتہد اور عالم کی معرفت استقلالی ہے اور جاہل کی معرفت تقلیدی، اور یہ دونوں یکساں نہیں ہیں اور یقینا معرفت استقلالی برتر ہے۔

اسی طرح موضوعات کے بارے میں ، خاص کر اجتماعی مسائل کے بارے میں اکثر لوگ بہ حد کافی آگاہی نہیں رکھتے ہیںاور وہ مجبور ہیں کہ ایسے افراد کی پیروی کریں کہ جو ان موضوعات کے بارے میں علم و آگاہی رکھتا ہے ان کی یہ پیروی اگر راہ حق سے انحراف کا باعث نہیں ہے تو موجب سرزنش نہیں ہوگی ، لیکن ایسا شخص کہ جو عالم ہے اورجس کے ہاتھ میں چراح ہدایت ہے کہ جس سے وہ دوسروں کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے، بلند تر ین مقام و منزلت پر فائز ہے۔

شناخت استقلالی کے علاوہ اس سے اہم مرحلہ انسان کے لئے اس کے ارادہ اور عمل میں استقلال ہے: کبھی انسان اجتہاد یا تقلید کے ذریعہ موضوع کو پہچانتا ہے، لیکن عمل کے مقام پر اگر تنہا ہے تو معلوم نہیں ہے کہ جو کچھ جانتا ہو اس پر عمل کریگا۔ جی ہاں، اگر وہ ایک جماعت کے ساتھ ہے اور خاص کر اس جماعت کے افرادبہت زیادہ ہیں تو وہ اقدام کرتا ہے، لیکن تنہائی میں سستی کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہر ایک اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری مثالیں رکھتا ہے: مثال کے طور پر ایک مدرسہ میں جہاں طلاب کی ایک تعداد رہائش پذیر ہے، اگر شب جمعہ دعائے کمیل کی مجلس منعقد ہوجائے، جب انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ طلاب گر وہ گر وہ اس مجلس میں حاضر ہو رہے ہیں تو اس میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ اس جلسہ میں شرکت کرے۔ لیکن ایک چھٹی کی شب کو، جب سب طلاب مسافرت پر گئے ہوں، اس کے لئے مشکل ہے کہ تنہا دعائے کمیل پڑھے۔ اسی طرح دوسرے نیک کام انجام دینے میں ، جب انسان دیکھتا ہے کہ دوسرے اس کام کو انجام دے رہے ہیں، وہ بھی جوش میں اس کام کو کرتا ہے، لیکن جب تنہا ہوتا ہے تو بہانے تلاش کرتا ہے، اس کے اندر اتنی کشش نہیں ہے کہ اسے فیصلہ کرنے پر مجبور کرے۔ بالآخر جس طرح بھی ممکن ہو وہ اس کام سے پہلوتہی کرتا ہے۔ یا جب رات کو دیکھتا ہے کہ کمروں کے لیمپ روشن ہیں اور دوسرے لوگ رات گئے تک مطالعہ میں مشغول ہیں، اس میں بھی مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی رات گئے تک مطالعہ کرتا ہے۔ لیکن جب مدرسہ میں چھٹی ہوتی ہے اور مدرسہ میں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتا ہے، اس کے اندر پھر وہ کشش نہیں ہوتی ہے اور مطالعہ کی رغبت نہیں رکھتا ہے۔یہاں جو کچھ بیان ہوا وہ ہماری اجتماعی اور سیاسی رفتاروں کا ایک نمونہ تھا، اس سلسلہ میں مزید اور مثالیں بھی ممکن ہیں۔

اس سستی اور دوسروں سے وابستگی کی علت ارادہ اور ایمان کی کمزوری ہے۔ کیا جب دوسرے کسی کام کو انجام دیتے ہیں تو اس کام کی قدر و منزلت ہوتی ہے اور وہ انجام نہ دیں تو اس کی قدر و منزلت ختم ہوجاتی ہے؟ اگر دعائے کمیل کی فضیلت اور قدر و منزلت ہے تو ہمیں اسے تنہائی اور خلوت میں پڑہنے کے لئے بھی اہمیت دینی چاہئے، نہ یہ کہ جب اس کے لئے کوئی اجتماع منعقد ہو تو ہم بھی پڑھیں۔ یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہے کہ جب دوسروں کو دعائے کمیل پڑھتے دیکھتا ہے یا دیکھتا ہے کہ دوسرے لوگ گروہ درگروہ نماز جمعہ کی طرف جا رہے ہیں، اس میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے، یہ انسان کے لئے قابل فخر نہیں ہے۔ اس کا عمل اسی وقت فخر کا سبب ہے کہ جب تنہا ہو کوئی اس کے ساتھ نہ ہو اور وہ جس چیز کو تشخیص دے اس پر عمل کرے اور انتظار نہ کرے دوسرے افراد اس کا ساتھ دیں گے۔

جب میں جانتا ہوں کہ خدائے متعال مجھ سے کوئی کام لیناچاہتا ہے تو مجھے اس کام کو انجام دینا چاہئے اور مجھے اس سے سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی میرا ساتھ دیتا ہے یا نہیں، کیونکہ دوسروں کی عدم ہمراہی اور تنہاہو نے سے اس کام کی قدر و منزلت میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی ہے اس سے انسان کے اندر قوت ارادی پیدا ہوتی ہے اور اپنے قوی اور بلندی ایمان سے اپنے فرائض پر یقین پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے اس کام کو انجام دینے میں بلاواسطہ فیصلہ کرتا ہے، خواہ دوسرے اس کا ساتھ دیں یا نہ۔ یقینا فیصلہ کرنے میں استقلال کافی اہمیت رکھتا ہے، کہ انسان فیصلہ کرتے وقت اس کا انتظار نہ کرے کہ دوسرے لوگ کو نسا راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ بھی اسی راستہ پر چلے۔ وہ تو خود قوی ارادہ و ایمان کا مالک ہے، اگر کسی کام کو اپنا فرض سمجھ لیا اور دیکھتا کہ اس میں خدا کی مرضی ہے تو اس کام کو انجام دیتا ہے اور دوسروں کے انتظار میں نہیں رہتا ۔

جابربن یزید جعفی، ائمہ اطہار علیہم السلام کے ہم اسرار اصحاب میں سے تھے، انہوں نے امام جعفرمحمد باقر علیہ السلام سے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ بہت سی روایتیں جو امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر کو نقل فرمائی تھیں، اسرار تھیں اور جابر کو اجازت نہیں تھی کہ انہیں دوسروں کے پاس نقل کریں۔ چونکہ وہ ان خالص معارف الٰہی کے جام کو تشنگان معرفت تک نہیں پہنچاسکتے تھے، ا س کی وجہ سے وہ اپنے سینہ میں تنگی محسوس کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

''جو اسرار آپ نے مجھ سے بیان فرمائے ہیں اور حکم دیا ہے کہ کسی سے نہیں نقل نہ کروں، یہ میرے کندہوں پر ایک بار گراں ہے جس نے میرے سینہ میں اتنا دبائو پیدا کردیا ہے، کہ میں دیوانہ ہو رہا ہوں! امام علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر! اگر تمھاری یہ کیفیت ہورہی ہے توبیابان میں جا کر ایک گڑہا کھود کر اپنے سرکو اس گڑھے میں ڈال کر کہو: ''محمد بن علی علیہ السلام نے فلاں حدیث مجھے روایت کی ہے''(۱)

اس کے بعد جابر کنویں میں سرڈال کر امام محمد باقر علیہ السلام کی روایتیں بیان کرتے تھے تاکہ تھوڑا سا(دل) ہلکا ہوجائے۔ من جملہ روایتوں میں سے جنہیں جابر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کی ہے، یہ روایت ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

''...واعلم بانک لا تکون لناولیاً حتی لو اجتمع علیک اهل مصرک وقالوا: انک رجل سوء لم یحزنک ذٰلک ولوقالوا: انک رجل صالح لم یسرک ذٰلک وٰلکن اعرض نفسک علی کتاب اللّٰه فان کنت سالکاً سبیله' زاهداً فی تزهیده' راغباً فی ترغیبه خائفاً من تخویفه فاثبت وابشر فانه لا یضرک ماقیل فیک ...''(۲)

''جان لو ہمارے محب دوستدار نہیں بن سکتے ، مگر یہ کہ تمھارے شہر کے لوگ متفقہ طور پر تمھارے خلاف ہوجائیں اور کہیں : تم ایک بُرے انسان ہو، تو تم غمگین اور بے چین نہیں ہو نا اور اگر وہ سب کہیں ۔ تم ایک شائستہ انسان ہو، تو خوشحال نہ ہونا لیکن خود کوکتاب خدا کے حوالہ کردو ا گر دیکھو کہ تم اس کتاب کے راستہ پر چل رہے ہو جن مواقع پر یہ کتاب زہد کی دعوت دے، تو زہد کو اپنا شیوہ قرار دو اور جس چیز کی تاکید اور ترغیب دے، اس کی رغبت پیدا کرو اور جس چیز سے ڈراتی ہے، اس سے خوف کھائو، تم اپنی جگہ پر مستحکم اورخوش رہو پھر، لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس سے تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔''

امام محمد باقر علیہ السلام جابر کو اعتماد اور خدا پر توکل کی دعوت دیتے ہیں کہ اس قدر خدا پر اعتماد کرے کہ لوگوں کا مردہ باد! یا زندہ باد! کہنا تم پر کسی قسم کا اثر نہ کرے اور اپنی رفتار وگفتار کو قرآن مجید کے مطابق قرار دے۔ اب اگر اس نے دیکھا کہ اس کی رفتار حکم الہٰی کے مطابق ہے۔ تو چاہئے کہ وہ خوشحال ہو اور اس توفیق کے حاصل ہونے کے لئے خدا کا شکر بجالا ئے۔ اور اگر دیکھے کہ اس کی رفتار قرآن مجید کے مطابق نہیں ہے، تو بے چین ہواس بات پر کہ خدائے متعال اس سے راضی نہیں ہے۔ پس انسان کے خوش ہونے یا ناخوش ہونے کا معیار خدائے متعال اور قرآن مجید کے احکام ہونا چاہئے، نہ لوگوں کا راضی یا ناراض ہونا۔

اگر انسان فیصلہ کرتے وقت کافی علمی توانا ئی رکھتا ہے، تو اسے فریضہ کی تشخیص کے وقت مستقل ہونا چاہئے اور دوسروں کا تابع نہیں ہونا چاہئے۔ جو عقل خدانے اسے دی ہے اسی سے فکر کرے اور قرآن مجید اور روایات کے مطابق اپنے فریضہ کو تشخیص دے اور اس کی پروا نہ کرے کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس کے بعد ، جو اپنا فریضہ تشخیص دیا ہو اس پر عمل پیرارہے اور دوسروں کی ہمراہی اور مدد کے انتظار میں نہ ر ہے حتی اگر دشمن سے مقابلہ میں تنہا رہ جائے، اگرچہ ہمارے لئے اس صورت میں لڑنا واجب نہیں ہے، لیکن چونکہ اس نے دیکھا کہ دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کر نے میں خدائے متعال کی رضامندی ہے تو تن تنہامقابلہ و مبارزہ کو جاری رکھے، خواہ اسے شہید ہونا بھی پڑے۔ یقینا ایسی بہادری اور شجاعت کہ شخص تنہائی میں بھی اپنے مقصد اور راہ کی حفاظت میں آرام سے نہ بیٹھے اور مبارزہ کرتا رہے تو اس کا یہ عمل انتہائی گراں بہا اور خدا کے فخر و مباہات کا سبب ہوگا۔ اس مبارزہ کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''واللّٰه لو تظاهرت العرب علی قتالی لما ولیت عنها ولو امکنت الفرص من رقابها لسارعت الیها ...''(۳)

''خدا کی قسم اگر عرب میرے ساتھ لڑنے میں سب مل کر مقابلے میں آئیں تو بھی میں ان کی طرف پیٹھ نہیں پھیر وں گا اور فرصت ہاتھ آئے تو ان پر تابڑتوڑ حملہ کروں گا۔''

لہذا، پہلا عامل یہ ہے کہ خدا وند پسند فرماتا ہے کہ مومن تشخیص اور فریضہ کی پہچان میں نیز اپنی رفتار اور علم میں مستقل ہو اور دوسروں کا منتظر نہ رہے اور دوسروں کے جیسا نہ ہو ۔ البتہ جیسا کہ کہا گیا کہ اس سے یہ غلط مطلب نہ لیا جائے کہ انسان کو خود سر اور ضدی بن کر ہمیشہ دوسروں کے برخلاف عمل کرنا چاہئے، یعنی اگر اس نے دیکھا کہ دوسروں نے کوئی کام انجام دیا ہے تو اس کوقطعاً اس کے برعکس کام انجام دینا چاہئے یہ تو ایک ناپسند، ناشائستہ اور بہت احمقانہ صفت ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان فیصلہ کرتے وقت اور فریضہ کی تشخیص اور ان پر عمل کرنے میں آزاد ہونا چاہئے اور دوسروں کی تشویق، ہمراہی اور ہم فکری کا منتظر نہ رہے۔ پس، اگر اس نے اپنے فریضہ کو تشخیص دیا اور دیکھا کہ دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ ہیں تو بہت اچھا ہے۔

انسان کوایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کسی چیز کو فریضہ کے طور پر تشخیص دیدیا اور بعد میں سمجھ لے کہ اس نے غلطی کی تھی، پھر بھی اپنی بات پر ہٹ دھرمی کرے تو یہ اچھی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ناپسندیدہ خصلت ہے۔ انسان کو ہمیشہ اپنے اخلاق، رفتار اور تفکر میں نظر ثانی کرنی چاہئے اور اگر اسے معلوم ہوجائے کہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے، تو اسے کمال شجاعت سے اعتراف کرنا چاہئے اور ہٹ دھرمی نہ کرے اور اپنی بات پر ضد نہیں کرنی چاہئے۔مومن کی جب حق کی طرف ہدایت ہوتی ہے تو اسی کو انجام دیتا ہے۔

ب۔ اخلاص کا عامل:

دوسرا عامل جو خدا کے لئے ان تین گرو ہوں پر فخر و مباہات کرنے کا سبب بنا، اخلاص ہے۔ بیابان میں تنہائی کے عالم میں نماز پڑھنے والے کی نماز میں ریاکا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے تاکہ اس کے حالات کا مشاہدہ کرے اور پھر دوسروں کے لئے اسے نقل کرے۔ یقینا ایسے عمل کا اخلاص، اس عمل سے بیشتر ہے جو دوسروں کے سامنے انجام پاتا ہے۔

اگر انسان لوگوں کے سامنے پورے آداب کے ساتھ نماز پڑھے، تو بھی اس بات کا امکان ہے شیطان اسے وسوسہ میں مبتلا کردے، چونکہ شیطان مکار ہے انسان نے جس قدر بھی وارستہ اور تہذیب یافتہ ہو ہو ممکن ہے شیطان کے ہاتھوں شکست کھاجائے، جب وہ دوسروں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اس کے دل میں ریا پیدا ہوجاتی ہے، اسے یہ چیز پسند ہے کہ دوسرے اس کے عمل کو دیکھ لیں یا اس کی آواز سن لیں۔ لیکن جب ایک بیابان میں تنہا ہے اور اذان و اقامت کے ساتھ کر نماز پڑھتا ہے، ممکن نہیں ہے ریا کرے۔ یا جو نصف شب کو، دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے اور سجدہ میں اتنا طول دیتا ہے کہ اسے نیندآجاتی ہے، یہاں پر ریا کا تصور ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر کوئی نہیں ہے جو اس کی حالت کا مشاہدہ کرے۔

جو میدان کار زار میں میں اکیلا رہ گیا ہے اور تن تنہا جہاد کر رہا ہے، ممکن نہیں ہے ریا کرے، کیونکہ وہاں پر اس کے دوست واحباب نہیں ہیں جو یہ کہیں: کیا شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے! اور اس کی شہادت کے بعد اس کی بہادری کے بارے میں لوگوں کو بتائیں۔ دشمن تو اس کی فضیلتوں کو نقل نہیں کرے گا۔ لہذا ایسے افراد کے لئے ریاکاری اور خود نمائی کے قصد کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس بنا پر جو دوسری مشترک خصوصیت ان تین گرو ہوں میں پائی جاتی ہے اور خداکے لئے فخر و مباہات کا سبب ہے وہ انتہائی خلوص ہے جو ان میں پایا جاتا ہے اور انہیں ریا اور خود نمائی میں آلودہ ہونے سے پاک و صاف کرتا ہے۔

جیسا کہ مشاہدہ کیا گیا کہ ان تین گرو ہوں کے عمل کی ساخت اور شکل ممکن ہے دوسرے لوگوں کے عمل کے مانند ہی ہو، پس جوچیز ان کے اس عمل کو ممتاز بناتی ہے اور اسے ایسا گراں بہا گوہرمیں تبدیل کرتی ہے کہ خدائے متعال اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے وہ اخلاص ہے، جو اس عمل کو صرف خدا کے لئے انجام دینے کا سبب ہے، اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اور روایتوں میں آیا ہے کہ اخلاص عمل کی بلندی اور اس کے قبول ہونے کا سبب ہے:

(( انا انزلنا الیک الکتاب بالحق فاعبد اللّٰه مخلصاً له الدین الا للّٰه الدین الخالص ) ...) (زمر٢و٣)

''ہم نے آپ کی طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا، لہذا آپ مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں، آگاہ ہوجائو خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے''

ایک حدیث میں آیا ہے:

''من اخلص لنا اربعین صباحاً جرت ینابیع الحکمه من قلبه علی لسانه ''(۴)

''جو چالیس دن تک خدا کے لئے اخلاص سے کام لے، حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں ''

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیۂ مبارکہ :

( لیبلوکم ایکم احسن ) ) (ملک٢)

''تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔''

کے بارے میں فرمایا:

''...لیس یعنی اکثر عملاً ولٰکن اصوبکم عملاً وانما الاصابة خشیة اللّٰه والنیة الصادقة والحسنة ثم قال: الابقاء علی العمل حتی یخلص اشد من العمل' والعمل الخالص الذی لا ترید ان یحمدک علیه احد الا اللّٰه عزوجل والنیة افضل من العمل ...''(۵)

''خدا کا مقصود زیادہ عمل کرنا نہیں ہے بلکہ مقصود درست اور صحیح عمل کرنا ہے اور بیشک یہ وہی خدا کا خوف اور سچی اور نیک نیت ہے، اس کے بعد فرمایا: عمل کو خالص بنانے میں پائداری، خود عمل سے سخت تر ہے اور خالص عمل وہ ہے کہ تم اس عمل کے بارے میں خدا کے علاوہ کسی سے ستائش کے خواہاں نہ ہو اور نیت عمل سے بہتر ہے ''

لہذا جو کچھ بیان ہوا اس کے پیش نظر، ممکن ہے ہمارا کوئی ایسا عمل ہوجو بافضیلت اور اس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہو، جیسے باجماعت نماز پڑھنا، کہ روایتوں کے مطابق اس کے ثواب کو ملائکہ بھی گن نہیں سکتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں ہے اس قسم کی نماز کا خلوص اس نماز کے خلوص کے برابر ہو کہ جسے ایک بندہ تنہا بیابان میں انجام دیتا ہے۔

بہر صورت شیطان وسوسہ کرتا ہے اور انسان تنہا ہوتا ہے اس کے لئے مشکل ہے عبادت میں خلوص پیدا کرنا وہ بھی آداب کے ساتھ، کیونکہ اس کا اندرونی ارادہ اور شوق اتنا قوی نہیں ہے، لیکن اگر دوسرے اس کے ہمراہ ہوں خارجی مدد اس کے ہمراہ ہوتو، عبادت کو بہتر صورت میں انجام دیسکتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ،ج٢ص٦٩ حدیث٫٢٢

٢۔ بحار الانوار ،ج٧٨ص١٦٢ح١

۳۔ نہج البلاغہ ترجمہ فیض الاسلام مکتوب ٣٥ص٩٧١

۴۔ بحار الانوار ،ج٦٧ص٢٤٢

۵۔اصول کافی (باترجمہ)ج٣،ص ٢٦