گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)28%

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 138

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 138 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 88371 / ڈاؤنلوڈ: 4371
سائز سائز سائز
گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

مشخصات کتاب

نام کتاب: گل نرگس مہدئ صاحب زمان

مولف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بہشتی

تدوین و تنظیم: سید سجاد اطہر موسوی

طباعت: اول

ناشر: موسسہ قائم آل محمد ؑ

۳

مقدمہ:

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں(۱)

خداوند عالم کی بارگاہ اقدس میں نہایت عجزو انکساری کے ساتھ عرض گزار ہیں کہ اس عطا کردہ توفیقات سے بقیة اللّھی اور خیر خدائی حضرت امام زمانہ ؑکی صادقانہ خدمت کا یہ قدم ِخیر آنحضرت کے محضر مبارک میں خیر من الف خیر قرار دے اور اپنے اس منصور کی نصرت میں ناصر و مددگار رہے۔ اپنی مزجاة بضاعت اور ناچیز توان و طاقت کے مطابق ہمارا یہ اقدام اس نظریہ کے تحت ہے کہ اس طرح سے اپنے زمانے کے امام ؑکی مؤدت کا کچھ حق ادا ہو جائے ،اگر چہ جس قدر بھی اس سلسلے میں ہم سعی و کوشش کریں ،پھر بھی نہایة اس نتیجہ پر پہنچیں گے (حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا)بہر حال سعی مقدور کے مطابق بقول شاعر:

____________________

(۱)علامہ محمد اقبال

۴

آب دریا را اگر نتو ان کشید

ہم بقدر تشنگی با ید چشید

اور جہاں تک قبولیت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ دروازۀ کرم پر معیار قبولیت کمیت نہیں بلکہ نیت اور کیفیت ہواکرتی ہے لهٰذا اگر جوہر اخلاص عطا ہو جائے تو عمل کی قلت قبولیت سے محرومیت کا باعث نہیں ہو سکتی اور ان کی جود و سخا اور بخشش انسان کے لئے حوصلہ افزاہوتی ہے.

(باکریمان کارہا د شوار نیست)

اس خدمت کے پیش نظر یہ حدیث قابل ذکر ہے کہ معصوم علیہم السلام فرماتے ہیں :۔

(من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية )(۱)

''یعنی جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے'' ۔

____________________

(۱) بحار ج ٢٣ ، صص٢٦-٩٥

۵

لهٰذا اہل علم حضرات پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ:

اولاً :وہ خود اس عظیم معرفت کے حصول کے لئے جدو جہد و توان بذل کریں

ثانیاً: اس نور معرفت کو پھیلا کر انسانیت کی خدمت کریں ، در حقیقت یہ معرفت ایسا انمول خزانہ ہے جو توحید و وحدانیت کی صحیح معرفت کی اساس ہے۔

(اَلّلهُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکْ فاِ نّکَ اِن لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ رَسُوْلَکْ؛ الّلهُمَّ عَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ فَاِ نَّکَ اِن لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکْ؛ الّلهُمَّ عَرِّْفِنی حُجَّتَکْ فَاِنَّکَ اِن لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکْ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِی )(۱)

____________________

(۱) بحار الانوار؛ج، ٥٣، ص ١٨٧

۶

امام عصر ؑپر عقیدہ رکھنا صرف شیعوں تک محدود نہیں بلکہ اہل تسنّن کی اکثریت بھی اسی عقیدے کے قائل ہیں اس کی واضح دلیل بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو حضرت امام عصر ؑکے بارے میں اہل سنت علماء اور دانشوروں نے لکھی ہیں ، لهٰذا ہم آج کے سیاسی نظریات سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت امام زمان ؑکی شخصیت جو کہ شیعہ و اہل سنت کے درمیان ایک مشترک عقیدہ ہے اس کو مزید تقویت دیں ، یہ کتابچہ بھی، عدل کل، مصلح جہاں حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں مخصوص منابع اہل تشیّع اور منابع اہل تسنّن پرمبتنی ہے، کیونکہ آج اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام اور امام زمان ؑکی شخصیت کو اپنے باطل اہداف کا نشانہ بنایا رکھاہے اور نظریہ امام زمان ؑکو خراب کرنے کے لئے بے بنیاد پروپیگنڈوں کی بوچھاڑ کر رکھی ہے، عقیدہ مہدویت سے خائف ہو کر مسلمانوں اور مومنین کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے باطل طاقتوں کے درہم و دینار اور ڈالر حرکت میں آئے ہوئے ہیں ، اس حوالے سے ھالی ؤوڈ کی وہ فلیمیں جو امام زمان ؑکے خلاف بنائی گئی ہیں اس سازش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آج امریکہ اور اسرائیل خط مقدم پر اس نظریہ کے خلاف تیزی کے ساتھ مخفیانہ اور اعلانا کام کررہے ہیں ایسی صورت میں ہر سچے مسلمان اور مؤمن کا فریضہ ہے کہ اپنی توان کے مطابق اس عقیدہ اور نظریہ کی حفاظت اور دفاع کے لئے کام کرے اسی ضرورت کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کتابچہ کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے تاکہ ہماری نئی نسلیں دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں اور امام زمانہ کی معرفت حاصل کریں ۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

(لطف عالی متعالی)

محمد حسین بہشتیؔ

مشہد مقدّس ایران

۷

امام مہدی ؑکا مختصر تعارف

نام: محمد

لقب: مہدی (عج)

کنیت: ابالقاسم

والد ماجد: امام حسن العسکری علیہ السلام

والدہ گرامی: نرجس خاتون

جائے ولادت: سامراء

سال ولادت: ۲۵۵ ہجری

مدّت عمر: خدا ہی بہتر جانتا ہے

ولادت کیسے ہوئی؟

شیعوں کے بارھویں امام ؑنے مشہور ترین قول کے مطابق شب جمعہ نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری ق کو شہر سامرہ میں آنکھیں کھولیں ۔(۱)

شیخ مفید علیہ الرحمہ کا قول:۔ آپ کے پدر گرامی حضرت امام حسن عسکری ؑکے ہاں آپ کے علاوہ نہ ظاہراً اور نہ ہی باطناً کوئی فرزند تھا۔ آپ کی حفاظت بھی خفیہ طور پر کرتے رہے(۲) ۔

____________________

(۱) کافی؛ ج ١ ، ص ۵۱۴

(۲)المفید؛ ص ۳۴۶

۸

اس نیمہ شعبان ۱۴۳۲ ہجری كو حضرت امام زمانہ ؑکی غیبت کے ۱۱۷۷ سال مکمل ہو رہے ہیں ۔ جب تک خدا چاہے یہ تسلسل جاری و ساری رہے گا۔

آپ ؑ کی والدہ گرامی کا اسم مبارک نرجس خاتون ہے البتہ سوسن ،صیقل، ملیکا بھی کہا جاتا ہے(۱) آپ ''یوشع '' کی بیٹی تھیں ، دادھیال کے اعتبار سے قیصر روم کی پوتی تھیں اور نانیہال کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ مسیح کے جانشین جناب شمعون کی نواسی ہوتی تھیں حضرت نرجس خاتون معجز انہ طریقہ سے حضرت امام حسن عسکری ؑکے تحت عقد آگئی(۲)

____________________

(۱) الصدوق؛ ص ۴۳۲

(۲) کمال الدین و تمام النعمۃ؛ ج ۲ , ص ۴۲۳، ۴۱۷

۹

اہل بیت علیم السلام کے دشمن بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمران حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام سے بہت ڈرتے تھے کیونکہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی طرف سے اس طرح کی روایت نقل ہوئی تھی کہ خاندان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام میں سے ایک شخص بنام مہدی ؑظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور ظلم و ستم کا قلع قمع کریں گے۔ لهٰذا یہ ظالم لوگ اس انتظار میں تھے کہ یہ جب دنیا پر آئے تو اسے فوراً قتل کر ڈالیں ۔

حضرت امام محمد تقی ؑکے بعد آہستہ آہستہ ظلم و ستم میں اضافہ ہوتا گیا اور خاندان عصمت و طہارت پر دنیا تنگ ہوتی گئی یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری ؑکے زمانے میں یہ ظلم وبر بریت اپنے عروج کو پہنچ چکاتھا۔ امام حسن عسکری ؑکی پوری زندگی ،شہر سامراء میں فو جی چھاؤنی میں حکومت کے زیرنظررہے۔حضرت امام حسن عسکری ؑکے گھر میں معمولی رفت وآمد، حکومت سے مخفی نہ تھی؛ ایسی صورت حال میں آخرین حجت خدا حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کیسے آشکار طریقے سے دنیا میں آتے؛ لهٰذا جب آپؑ کی ولادت نزدیک ہوئی تو حضرت نرجس خاتون میں حاملگی کے کوئی آثار موجود نہ تھے۔ حضرت امام حسن عسکری ؑنے فرمایا:۔ خدا کی قسم !میرے فرزند کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت سے نجات نہیں پاسکیں گے جب تک وہ میرے فرزند کی امامت پر ثابت قدم نہ رہیں اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرتے نہ رہیں ۔(۱)

____________________

(۱) الصدوق؛ ج ۲،ص ۴۴۴- ۴۳۴

۱۰

دعائے تعجیل ظہور امام مہدی ؑکے فوائد

حضرت امام زمان ؑنے فرمایا:۔ میرے ظہور کی تعجیل کے لئے کثرت سے دعا کیا کریں کیونکہ اسی میں تمہارے لئے فرج(آسانی) ہے۔

۱. نعمتوں میں اضافہ ہوگا۔

۲. یہ اظہا،ر محبت قلبی کی علامت ہے۔

۳. ائمہ طاہرین علیہم السلام کے فرامین کو زندہ کرنا ہے۔

۴. شیطان کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

۵. خداوند عالم کے دین کو زندہ رکھتا ہے۔

۶. حضرت کی دعا شامل حال ہونے کا موجب ہے۔

۷. اجر رسالت کو ادا کرنا ہے۔

۸. خداوند عالم کی اطاعت کرنا ہے۔

۹. دعا قبول ہونے کی علامت ہے۔

۱۰. بلائیں دور ہو جائیں گی۔

۱۱. رزق میں وسعت کا باعث ہے۔

۱۲. گناہوں کے پاک ہونے کا سبب ہے۔

۱۳. پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوستوں میں شامل ہو جائیں گے۔

۱۴. امام ؑکا ظہور پر نور جلد ہو جائے گا۔

۱۵. دین خدا کی مدد و نصرت کرنے والوں میں سے ہونگے۔

۱۶. اہل بہشت میں سے ہونگے۔

۱۷. دعا اولو الامر کی اطاعت ہے۔

۱۱

۱۸. قیامت کے دن حساب و کتاب میں آسانی ہو گی۔

۱۹. دعا بہترین عبادت ہے۔

۲۰. شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔

۲۱. پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی۔

۲۲. برائی اچھائی میں بدل جائے گی۔

۲۳. اہل زمین کے عذاب میں کمی واقع ہو گی۔

۲۴. خداوند کریم کی رحمت شامل حال ہو گی۔

۲۵. قیامت کے دن امام زمانہ ؑکی شفاعت نصیب ہو گی۔

۲۶. قیامت کے دن تشنگی دور ہو جائے گی۔

۲۷. فرشتے اس کے حق میں دعا کریں گے۔

۲۸. دعا عالم برزخ میں اس کی مونس ہو جائے گی۔

۲۹. پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں جنگ و جہاد میں شہید ہونے والوں کا درجہ حاصل ہو گا۔

۳۰. حضرت امام زمانہ ؑکے پرچم تلے شہید ہونے کا ثواب نصیب ہو گا۔

۳۱. حضرت ولی اللہ اعظم امام زمان ؑپر احسان کرنے کا ثواب نصیب ہو گا۔

۳۲. قیامت کے روز عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

۳۳. حضرت فاطمةالزہرا سلام اللہ علیہا کی شفاعت نصیب ہو گی۔

۳۴. آخرالزمان کے فتنہ و فساد سے محفوظ رہیں گے۔

۳۵. حج کا ثواب ملے گا۔

۳۶. عمرہ کا ثوب ملے گا ۔(۱)

____________________

(۱) مکیال المکارم ؛ج ١ ، کمال الدین ؛ ج ٢، ص ۳۸۴

۱۲

وظائف منتظران

اس کتاب میں منتظران امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے کچھ وظائف تحریر کئے گئے ہیں ۔

١۔ حضرت ولی اللہ اعظم امام زمان ؑکی معرفت

٢۔ امام زمان ؑکے اسمائے گرامی کا عزت و احترام کرنا۔

٣۔ حضرت امام زمان ؑکے ساتھ خاص محبت۔

٤۔ لوگوں کے درمیان حضرت امام زمان ؑکا اسم مبارک عزت و تعظیم سے لینا۔

٥۔ آپؑ کے ظہور پر نور کا انتظار کرنا۔

٦۔ حضرت ؑ کے دیدار کا مشتاق رہنا۔

٧۔ لوگوں کے درمیان حضرت ؑ کا زیادہ تذکرہ کرنا۔

٨۔ آپ ؑ کی جدائی میں غمگین و اندھناک رہنا۔

٩۔ مجالس و محافل میں شرکت اور حضرت کا ذکر خیر کرنا۔

١٠۔ حضرت امام زمان ؑسے منسوب مجالس و محافل منعقد کرنا۔

١١۔ مولا کی شان میں شعر و شاعر ی اور مدح خوانی کے جلسات منعقد کرنا۔

١٢۔ اٹھنے بیٹھنے وقت حضرت ؑ کا اسم گرامی لیتے رہنا۔

١٣۔ حضرت ؑ کے فراق میں گریہ وزاری کرنا۔

١٤۔ خداوند عالم سے حضرت ؑ کی معرفت حاصل ہونے کی دعا کرنا۔

١٥۔ دعا میں مداومت اور مقاومت کرنا۔

١٦۔ امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی یاری و نصرت میں مسلسل کو شش و سعی کو جاری رکھنا۔

١٧۔ امام ؑ کے ظہور ہونے پر آپ (علیہ السلام) کی مکمل مدد و حمایت کی نیت رکھنا۔

١٨۔ امام زمان ؑکی خوشنودی کے لئے اچھی جگہوں پر مال و دولت خرچ کرنا۔

۱۳

١٩۔ شیعوں سے ارتباط و رابطہ میں رہنااور ضرورت پڑھنے پر ان کی مدد کرنا۔

٢٠۔ شیعوں کو خوش رکھنا۔

٢١۔ حضرت ولی اللہ اعظم امام زمان ؑکی خیر خواہی کے لئے کام کرنا۔

٢٢۔ جہاں کہیں بھی ہو حضرت ؑ کی زیارت اور آپؑ کو سلام کرتے رہنا۔

٢٣ زیارت امام زمان ؑکے قصد سے مؤمنین وصالحین کی زیارت کرنا۔

٢٤۔ آنحضرت پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنا۔

٢٥۔ آنحضرت کی طرف لوگوں کو دعوت اور رہنمائی کرنا۔

٢٦۔ آنحضرت کے لئے ہمیشہ خضوع و خشوع میں رہنا۔

٢٧۔ نماز پڑھنا اور اس کا ثواب امام زمان ؑکی خدمت میں ہدیہ کرنا۔

٢٨۔ امام زمان ؑکی خوشنودی اور رضایت حاصل کرنا۔

٢٩۔ امام زمان ؑکی خوشنودی کے لئے زیارت امام حسین ؑپڑھتے رہنا۔

۱۴

معصومین کے اسماء او ر القاب تشریفاتی اورتعارفی نہیں ہیں:

امام زمان علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب مہدی ہے ، اگرچہ آپ کے بہت سارے القاب ہیں جیساکہ محدچ نوری نے نجم الثاقب میں نقل کیا ہے ۔

امام عصرؑ کے ایک سو بیاسی ( ۱۲۸) اسم اور لقب ہیں ۔ ویسے تو کسی معصوم علیہم السلام کے القاب تعارفی نہیں ہیں جسطرح ہم لوگ ایک دوسرے کو دیتے ہیں بلکہ ان ذوات مقدسہ کے ہر لقب ان کے خاص صفت پر دلالت کرتے ہیں جو ان کے وجود مبارک میں پائے جاتے ہیں ۔

مثال کے طور پر حضرت کبریٰ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں کہتے ہیں :

آپ ؑ کے کئی القاب اور اسم مبارکہ کے ہیں ۔ فاطمہ ، زھرا، زکیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان اسماء مبارک کے معنیٰ رکھتے ہیں اس میں سے ہر اسم ایک حقیقت جو حجرت کے وجود مقدس میں نور افشانی کرتی ہے۔

ہمارے آپس میں جو اسم گزاری کرتے ہیں وہ تشریفاتی اور تعارفی ہیں ۔ مثلا ہم کہتے ہیں حجۃ الاسلام ،آیۃ اللہ، شریعت مدار ، نائب امام وغیرہ یہ القاب ہم بہ عنوان عزت و احترام کے طور پر دیئے جاتے ہیں ۔ لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور اسمای گرامی ایک حقیقت اور باسم بہ مسمیٰ ہیں ۔

۱۵

لقب اور کنیت میں فرق:

جی ہاں ! اسم ، لقب اور کنیت میں فرق کرتے ہیں

کنیت:

کنیت وہ ہے جو کلمہ اب ( بمعنی باپ) یا ام(بمعنی ماں) یا ابن (بمعنی بیٹا) ہیں مثلا ابوالحسن ، ابن الرضا، ام سلمہ وغیرہ یہ کنیت ہیں ۔

لقب :

وہ لفظ ہے جو کسی اچھی یا بُری صفت پر دلالت کرتا ہے ۔ مثلا فلان صاحب محمود ہے یعنی پسندیدہ شخص ۔

مثلا حضرت امیر المومنین کا اسم گرامی علی ہے آپ کا کنیت ابوالحسن، آپ کا القاب ، امیر المؤ منین ۔

اسم مبارک امام زمان علیہ السلام وہی اسم مبارک حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کنیت گرامی بھی ابوالقاسم مثل پیغمبر اکرمؐ کے ہمنام ہیں ۔ امام زمان علیہ السلام کے بہت سے القاب ہیں ، آپ کا مشہور ترین لقب مہدی ہے البتہ ہمارے سارے ائمہ طاہرین علیہم السلام مہدی ہیں ۔

اشهد انکم الائمة الراشدون المهدیون المعصومون یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ سب کے سب مہدی ہیں ۔

امام عصر علیہ السلام کے لقب مہدی کیوں ہیں؟

امام زمان علیہ السلام کے خاس لقب مہدی کیوں رکھا گیا :

کہا گیا ہے کہ آپ کی ہدایت کرنے کا انداز ایک خاص راہ وروش کے مطابق ہوگا ۔ یعنی آپ جب لوگوں کو دعوت حق دیں گے اس وقت کسی قسم کی رکاوٹ اور مزاحمت نہیں ہوگا ۔ لوگوں کو اسلام ناب محمدی کے صاف وشفاف دعوت دیں گے اور لوگ بغیر کسی لیت ولعل کے قبول کریں گے ۔ اور جسطرح سے چاہیں گے دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ظاہر اور اشکار کریں گے ۔ قوانین اسلام پر مکمل عمل درآمد ہوگا ، یہ سب کچھ صرف آقا امام زمان علیہ السلام کی توسط سے ہی ہوگا ۔

۱۶

باقی ائمہ علیہم السلام اپنے اپنے زمانے میں ھادی اور مہدی ضرور تھے مگر حقیقت اسلام کو لوگوں کے درمیان آشکار اور ظاہر نہیں کرسکا ۔اور قوانین اسلام کو اجراء کے مرحلے تک نہیں پہنچایا جاسکے ، کیونکہ وقت کے غاصب اور ظاہم حکمرانوں نے اس چیز کی اجازت نہیں دی کہ اسلام کے صحیح پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکے ۔الا لعنة الله علی القوم الظالمین ۔

لیکن جب امام زمان علیہ السلام ظہورفرمائیں گے تو اس وقت شریعت اسلامی ، قرآن پاک اور اسلامی اصولوں پر مکمل عمل در آمد ہوگا ، اس زمانے میں کوئی طاغوت اور ظالم حکمران نہیں ہونگے کیونکہ سبھی جھوٹے ، ظالم اور طاغوتی طاقتوں کو اللہ کی مدد سے نیست ونابود فرمائیں گے ۔ اور اسلامی قوانین کو من وعن اجراء فرمائیں گے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:اذا قام القائم دعا الناس الی الاسلام جدیدا وهو اهم الی امر قد دثر وضل عنه الجمهور ۔ یعنی جب ہمارے قائم قیام فرمائیں گے تو لوگوں کو ایک جدید اور تازہ اسلام کی دعوت کریں گے اور اس صاف وشفاف اسلام کی ھدایت کریں گے جبکہ گذشتہ لوگوں کی اسلام اس قدر منحرف اور پرانے ہوچکے ہونگے کہ لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوچکے ہونگے ۔

ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے ظہور انور سے پہلے احکام اسلامی اس قدر مہجور اور متروک ہوئے ہونگے جسطرح آئینہ پر گرد وغبار چھا چکے ہے اور آئینہ سے جلا وصفا نکل چکے ہے، اور آدمی کو اپنا چہرہ صحیح طور پر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔

اسی وجہ سے لوگوں کی نظر میں امام زمان علیہ السلام کے دعوت شدہ اسلام کو جدید پائیں گے جس اسلام کی امام دعوت دیں گے اس کی بہ نسبت اپنے اسلام میں بہت فرق محسوس کریں گے اور مختلف پائیں گے ۔

امام صادق علیہ السلام مذید فرماتے ہین:وانما سمی القائم مهدیا لانه یهدی الی امر مضلول عنه (۱)

____________________

(۱) سفینۃ البحار ج۲ ص۷۰۱

۱۷

حضرت قائم کو اس لئے مہدی نام رکھا گیا ہے جو چیز گم ہوچکا ہو اور لوگ اس چیز سے بے خبر ہوں ۔ حضرت امام زمان لوگوں کے درمیان گم ہونے والے اسلام کو دوبارہ ظاہر اور آشکار فرمائیں گے (گم ہونے سے یہاں مراد یہ ہے کہ لوگوں کی غلط رسم ورواج اور اسلامی تعلیمات کو اس قدر تحریف کر چکے ہونگے گویا کہ آصل اسلام گم ہوچکے ہیں) آقا امام زمان علیہ السلام پورے دنیا پر اصل اسلام کو ظاہر اور آشکار فرمائیں گے لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے آشنا اور آگاہ فرمائیں گے ۔

نہج البلاغۃ میں بھی مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :

یعطف الهوی علی الهدی اذا عطفُوا الهدی علی الهوی ویعطف الرأی علی القرآن اذا عطفوا القرآن علی الرأی (۱)

یعنی وہ اس وقت قیام فرمائیں گے جب ھدایت کو خواہشات نفسانی سے پلٹا دیں گے لیکن لوگوں نے ہدایت کو اپنی خواہشات نفسانی میں تبدیل کیا ہوگا ۔

وہ قرآن پاک کو ہر قسم کی رائے سے پاک وصاف کریں گے لیکن لوگو قرآن پاک کو اپنے رائے میں ( اپنی مرضی کے مطابق) بدل چکا ہوگا ۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ۱۳۸

۱۸

لوگ امام مہدی علیہ السلام کے مقابل ہوگا یا ساتھ ہونگے؟

اس وقت ہمیں انتہائی بیدار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکیہ ہم وہی لوگ ہیں جو خدا پرستی کے بجائے ہوا پرستی کو اختیار کیا ہوا ہے اپنی زندگی کو قرآن کے مطابق چلنے کے بجائے اپنے آراء اور افکار کے مطابق ڈالے ہوئے ہیں یہی سبب ہے اسلام فرسودہ اور کہنہ ہوچکا ہے ، ظاہری اسلام کے ساتھ بھی ہمارے حکام اور حکمران مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ اور عوام اور عوامی لیڈر صرف نعرہ بازوں میں وقت ضائع کررہے ہیں آج الحمد للہ سے سارے دنیا کے مسلمان جانتے ہیں کہ ان کے ملک کے حکمران ننگ دین اور تنگ ملت ہیں لیکن یہ بیچارے عوام کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کسی ملک کے عوام اپنے ظالم اور نمدار حکمرانوں کے خلاف جمہوری طریقے سے آواز بلند کرنا چاہئے بھی تو ان کی آواز کو ٹینگ اور توپ کے ذریعہ دبانا چاہتے ہیں مسلمانوں کے ۷۳ فرقوں میں سے ہر ایک اپنے ہاں قرآن اور اسلام کی خاص تعبیر وتصریح کرتے ہیں اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس حدیث شریف میں کتنی وزن اور حقانیت پوشیدہ ہے اور یہ بھی یاد رکھنی چاہئے فی الحال تو صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں اسلام ہی تنہا نجات دھندہ بشریت ہے اور احکام اسلامی پر عمل اور اس کو اجراء کرنے والے ہم ہی ہیں لیکن ہم لوگ ھوی وھوس پر غالب کریں اور اپنی آراء وافکار کو قرآن پر مقدم کریں پہلے مرحلے میں تو یقینا تنہا ہم ہی ہونگے جو امام زمان علیہ السلام ہمارے خلاف قیام فرمائیں گے اور قرآن اور اسلام کو ہمارے غلط آراء اور افکار سے پاک وصاف اور ہم سے نجات دلائیں گے ۔

جو اس راہ میں مخالفت اور مزاحمت کریں تو ان کے جڑ سے اسلام کو آذاد اور اس گروہ کے قلع قمع کریں گے اور یہ بات بھی حدیث شریف میں آیا ہے کہ سب سے پہلا گروہ جو حضرت کو قتل کرنے کے بارے میں فتوی دیں گے وہ امت اسلامی کے مفتی اور فقہاء ہونگے !

۱۹

بقیۃ اللہ خیر لکم سے مراد کون ہے؟

یہ جملہ سورہ ہود کی آیہ شریفہ کی ضمن میں ہے اور حضرت شعیب سے متعلق ہیں آپ نے اپنی قوم سے فرمایا۔

لاتنقصوا المکیال والمیزان ، ہوشیار رہئے ! اپنے ترازو اور پیمانہ میں کم نہ تولئے ۔

آلودگیوں کی وجہ سے دعا کا مستجاب نہ ہونا :

معاملات میں توجہ کرنی چاہئے یہ ایک ایسا مطلب ہے جس کی طرف قرآن مجید نے بہت تاکید کی ہے ۔ حقیقتا یہ ایک ایسی بات اور توجہ طلب چیز ہے ہماری بہت بڑی مشکلات ہماری کاروباری زندگی کی آلودگیوں کی وجہ سے ہیں ۔

یہی سبب ہے کہ ہماری کاروباری زندگی کے آلودگیوں کی وجہ سے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی اور وعظ ونصیحت اثر نہیں کرتی ہے ۔ یعنی ہمارے دل سیاہ ہوچکے ہیں اس اثر کی وجہ سے ہماری دعائیں رک جاتی ہیں اور مشکلات اور گرفتاریوں میں دگنی اضافہ ہوجاتی ہے ۔

اور معاشی طور پر تنگ دستی کا شکار ہوجاتی ہے لہٰذا قرآن مجید میں خداوند منان فرماتا ہے ،لا تنقصوا المکیال والمیزان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوشیار رہنا چاہئے ۔ اپنے معاملات میں گڑھ بڑھ نہیں کرنا چاہئے کمی وبیشی نہیں کرنی چاہئے ۔ ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہئے ۔

انی اراکم بخیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اسطرح دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم لوگ خدا کی وعظ ونصیحت کو قبول کریں تو تمہاری زندگی سراسر خیرو برکت سے پر ہوجائیں گے اور اگر نہ کریں !

( وانی اخاف علیکم عذاب یوم محیط ) (۱) مجھے ڈر اس بات پر ہے کہ خدا کی عذاب میں تم لوگ گرفتار ہوجائیں گے ، دنیا ، عالم برزخ اور محشر کے دن عذاب خدا میں مبتلا ہوجائیں گے ۔

____________________

(۱) سورہ ھود آیہ ۸۴

۲۰

( ولا تبخسوالناس اشیائهم ) ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے قیمتی اشیاء میں کم نہ کیجئے ۔

اپنے بازار کی رونق کے لئے دوسروں کے بازار کو خراب نہ کریں ۔

بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مؤمنین ، جو کچھ اللہ کی طرف سے بچا ہے تمہارے لئے خیر وبرکت ہے ۔

خداوند عالم کی اطاعت وفرمان برداری میں حرام چیزوں کو چھوڑ دے اس ضمن میں جو کچھ باقی رہ جائے لیکن اسی حلال چیز میں اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو ۔ خدا کی مرضی اور دستخط کی وجہ سے بہت زیادہ حرام مال سے بہتر ہے اسی میں خداوند عزوجل خیروبرکت عنایت کرے ۔ اگرچہ اس قلیل سی مال سے آپ کے پاس بلڈنگ ، محل ، بڑے قیمتی گاڑی وغیرہ نہیں ہونگے، مگر یہ کہ آپ کی خیر دنیا اور آخرت اسی میں مضمر ہیں وہ ہیں بقیۃ اللہ ۔

یعنی وہی مختصر سود جو خدا کی مرضی اور حلال طریقے سے ہاتھ میں آجاتے ہیں یہاں پر بقیۃ اللہ کی مصداق وہی حلال سود ہے ۔

مگر اس آیت کی تاویل میں آیا ہے بقیۃ اللہ سے مراد وجود اقدس حضرت امام زمان علیہ السلام ہیں ، چونکہ خدا کی طرف سے انبیاء اور ائمہ طاہرین کے بعد باقی رہنے والا تنہا آپ کی ذات مبارک ہیں ۔

وہ تمہارے لئے خیر ہیں اس شرط پر اگر تم اپنے زندگیوں میں حلال اور حرام خدا میں رعایت کریں اور خدا کی مرضی کے مطابق زندگی چلائیں ۔

۲۱

اس وقت ہم خوشی منائیں ، جشن منائیں ، چراغان کریں ، نعرہ لگائیں بہت اچھی بات ہیں اس وقت خدا ہمیں اپنے خیر وبرکت سے مالا مال کریں گے ۔ یہ کہ ہم سب اظہار محبت کرتے ہیں لیکن یہ تمام جلسے جلوس ہمارے عیاں ، چراغان وغیرہ طبق تقوی الٰہی کے مطابق ہونی چاہئے اسی لئے خداوند قدوس فرماتا ہے ۔

( ومن یعظم شعائر الله فانها من تقویٰ القلوب ) (۱) یہاں پر شعائر اللہ سے مراد ، مسجد ، امام بارگاہ ، خیابان ، گلی کوچہ کو چراغان کرنا وغیرہ مقدمہ ہے اصل میں دل کو روشن کرنا چاہئے ۔ قلوب کو عشق ومحبت امام زمان سے منور کرنا چاہئے۔

مسجد ، امام بارگاہ، خیابان ، گلی کوچہ ، شہر اور محلہ وغیرہ روشن کریں خدا نخواستہ ، دل روشن نہ ہو، قلوب عشق ومحبت اور معرفت بقیۃ اللہ سے تاریک ہو تو پھر فیصلہ آپ پر؟؟ البتہ مسجد، امام بارگاہ، سڑکیں، گلی کوچےوغیرہ کے ساتھ ساتھ آپ کے قلوب بھی عشق ومحبت، ایمان ویقین کے نور سے روشن ہوجائیں یہ بہت ہی اچھی بات ہوگی ۔

____________________

(۱) سورہ حج ۲۲

۲۲

دنیا کی آخرین حکومت:

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:اول ماینطق به القائم حین فرج ۔ ۔ ۔ ۔ جب امام زمان علیہ السلام ظہور فرمائیں گے ۔ تو سب سے پہلا کلمہ یہ ہوگا ۔انا بقی الله وحجته وخلیفته علیکم :

میں بقیۃ اللہ ہوں ، میں اللہ کی طرف سے تمہارا خلیفہ ہوں ۔ لہٰذا اس وقت کوئی بھی حضرت کو سلام عرض کریں تو ان جملوں کے ساتھ السلام علیک یا بقیۃ اللہ فی ارضہ ، آپ پر سلام ہو اے خدا کی باقی ماندہ حجت خدا جو روئے زمین پر ہیں ۔

آپ فرماتے ہیں۔ان دولتنا آخر الدّول ۔ یعنی ہماری دولت آخرین دولت ہیں ۔(۱)

ہماری دولت آخرین دولت ہیں ، ہماری حکومت آخرین حکومت ہیں ۔

____________________

(۱) منتخب الاثر ص۳۰۸

۲۳

حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ۔مایکون هذا الامر حتی لا یبقیٰ صنف من الناس الا وقد ولوا علی الناس ۔

حضرت امام زمان کی حکومت اس وقت تک منشاء شہود پر واقع نہیں ہونگے جب تک دنیا کی ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والا حکومت تک نہیں پہنچ گے اور حکومت تک پہنچے کے بعد دیکھیں گے وہ دنیا میں اصلاح نہیں کرسکا ہے۔حتی لایقول قائل انا لو ولّینا لعدلنا ثم یقوم القائم بالحق والعدل ۔ (غیبت نعمانی)

جب ہم حکومت ہاتھ میں لیں گے اور دنیا کی اصلاح کریں گے تو اس وقت کوئی مائی کا لال یہ نہ کہیں اگر یہ حکومت ہماری ہاتھ میں آجاتے تو ہم بھی اس طرح اصلاح کرتے ۔

ہم مہلت دیں گے تاکہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ حکومت تشکیل دیں اس وقت ہم دیکھتے ہیں جو ہم نے اصلاح کی ہے وہ کسی کو توفیق نہیں ہونگے ۔انّ دولتنا آخر الدول ولم یبق اهل بیت لهم دولة الا ملکوا قبلنا لئلا یقولوا اذا رأوا سیرتنا اذا ملکنا سیرنا بمثل سیرة هؤلائ قول الله تعالیٰ ( والعاقبة للمتقین ) ۔ (منتخب الاثر ص ۳۰۸)

۲۴

امام مہدی ؑ کےکنیت اور القاب:

حضرت امام زمانہ ؑکا نام اور کنیت وہی نام اورکنیت ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ اآلہ وسلم کا ہے۔ خداوند عالم جب تک آپؑ کے ظہور پر نور سے روئے زمین کو زینت نہ بخشے اس وقت تک کسی کو اجازت حاصل نہیں ہے کہ آپؑ کو آپ کے اصل نام اور کنیت سے پکارے، اسی وجہ سے بعض فقہاء آپؑ کے اصل نام اور کنیت سے پکارنے کی حرمت کے قائل ہیں(۱) ۔ اور بعض فقہاء اس امر کو مکروہ قرار دیتے ہیں البتہ اکثر فقہاء آپؑ کے اصل نام سے کسی کو پکارنے کی حرمت کو عصر غیبت صغریٰ میں منحصرکرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپؑ کو اس زمانے میں خطرات لاحق تھے اسی لئے حرمت کا حکم بھی اسی دور میں منحصر ہے(۲) ۔

____________________

(۱) ا لطبرسی؛ ص ۴۱۸, ۴۱۷ (۲) سیرہ معصومین؛ ج ۶ ،ص ۱۶۳، ۱۶۱

۲۵

ان روایات کی دلالت کی بناء پر شیعہ آنحضرت ؑ کو درج ذیل القاب سے پکارتے ہیں ۔

بقیة الله ، امام غائب ، غائب ، خلیفة الله ، مهدی ، صاحب الامر ، خلف الصالح ، فرح المؤمنین ، مهدی موعود ، صاحب الزمان ، حافظ دین ، فرح اعظم ، قائم موعود ، حجة الله ، صاحب العصر ، کلمة الحق ، منتقم ، ولی الله ، خاتم الاوصیاء ، میزان حق ، امام المنتظر ، هادی ، المنصور ، احمد ،

موعود:

چونکہ آپؑ کے اور آپؑ کے ظہور کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ خداوند رب العزت ،تمام پیغمبران برحق ، اولیاء برحق اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وعدہ دیا ہے کہ وہ آئیں گے اور پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اسی وجہ سے آپؑ کا نام '' موعود '' رکھا ہے۔

قائم:

کیونکہ آپؑ دین حق کو پھیلائیں گے اور قیام عدل کے لئے قیام فرمائیں گے اسی لئے آپ ؑ کا نام ''قائم'' رکھا ہے۔

منتقم:

چونکہ آپؑ انبیاء کرام اور اولیاء کرام علیہم السلام اور خدا پرستوں کا انتقام جابر اور ظالموں سے ضرور لیں گے۔

جن لوگوں نے بشریت اور آدمیت کو قتل کیا اور حق و حقیقیت کے پرستاروں کا پاک خون بہایااور جو خدا کی راہ میں شہید ہوئے ان کا انتقام لیں گے اسی لئے آپ ؑ کو ''منتقم'' کہا جاتا ہے۔

منتظر:

چونکہ مسلمان آپ ؑ کے انتظار میں ہیں بلکہ پوری بشریت ایک ایسے منجی کے انتظار میں ہے جو ان کو ظلم و بربریت سے نجات دے۔ اسی لئے آپ ؑ کو '' منتظر '' کہتے ہیں ۔

۲۶

امام غائب:

آپؑ عام طور پر لوگوں کی نظروں سے پنہاں ہیں اسی لئے آپؑ کو '' امام غائب '' کہتے ہیں ۔

صاحب الامر:

چونکہ آپؑ خدا کے صاحب امر ہیں اسی لئے آپؑ کو '' صاحب الامر '' کہتے ہیں ۔

صفات و خصوصیات:

مرحوم شیخ عباس قمی رحمة اللہ علیہ کتاب '' منتہی الآمال'' میں آپؑ کے جمال کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں :۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے '' آپؑ لوگوں میں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت و سیرت ، خلق و خُلق اور کردار و گفتار میں شبیہ ترین شخصیت ہیں آنحضرت کی تمام صفات و خصوصیات امام زمان علیہ السلا م میں جمع ہیں ۔

مہدی ؑفرزند فاطمہ سلام اللہ علیہا ہيں

حضرت مہدی ؑکے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ آپؑ حضرت فاطمہ صدیقۀ کبریٰ سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں اور حضرت ابا عبد اللہ الحسین ؑکی نسل سے ہیں آپؑ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے تسلسل کا نام ہیں ، آپؑ کی سیرت طیبہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت طیبہ سے مربوط ہے، آپؑ کا مقصد اور ہدف حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا مقصد اور ہدف ہے، آپؑ کا راستہ فاطمہ ؑ کا راستہ ہے۔

حضرت زہرا ؑ نام امام زمان ؑسے بہت خوش ہوتی ہیں اور آپؑ کی یاد سے اپنے دل کو تسلی دیتی ہیں اور امام زمان ؑجیسی ہستی کے وجود مبارک پر فخر کرتی ہیں اور امام زمان ؑاپنی اس عظیم ماں پر رشک کرتے ہیں ۔

۲۷

امام زمان ؑکا فر زندزہرا علیہا السلام سے ہونا یہ ان امور میں سے ایک ہے جن پر شیعہ و سنی اتفاق رکھتے ہیں ۔اس ضمن میں بہت سی روایات موجود ہیں نمونے کے طور پر ایک حدیث کو نقل کیا جاتا ہے۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آخری دنوں میں بستر بیماری پر تھے تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنے با با کی حالت پر رو رہی تھیں ، آہستہ آہستہ آپؑ کی آواز بلند ہوئی، پیغمبر اسلام ؐ نے اپنے سر مبارک کو اٹھایا اور رونے کی وجہ پوچھی: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیا: آپؐ کے بعد اسلام کی بربادی اور عترت وآل کی مظلومیت سے ڈرتی ہو ں ۔یہاں پر پیغمبر اسلام ؐ نے اپنی بیٹی کو تسلی و تشفی دی اور صبر و حوصلے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : اس امت کے مہدی ؑ ظہور کریں گے اور گمراہی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، آپؑ کو بشارت ہو کہ وہ آپؑ کی نسل سے ہو نگے.

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت امام زمان ؑکے لئے ایک بہترین نمونہ ہيں ۔ انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اسلام نے جو آفاقی پروگرام دیا ہے آپ کا وجود مقدس اس میں سے ایک نمونہ ، آئیڈیل اور رہنما ہے، بہترین نمونہ کی شناخت اور رہنما کی معرفت انسان کے معنوی درجات کی بلندی کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے، خدا وند عالم پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابراہیم خلیل ؑاور ان کے واقعی پیرو کاروں کو بہترین نمونہ قرار دیتا ہے ایک حدیث میں حضرت امام زمان ؑنے اپنے جدہ ماجدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو اپنے لئے بہترین نمونہ بیان فرمایا ہے:

(فی ابنة رسول الله لی اسوة حسنه )

الف: روایات میں حضرت صدیقۀ کبریٰ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو سارے جہاں کے لئے سرور و سالار قرار دیا گیا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بیٹی فاطمہ ؑ تمام جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں (من الاولین و الآخرین ).

۲۸

حضرت امام رضا ؑنے اپنے بیٹے امام مہدی ؑکو سارے عالم کے لئے بہترین خلق قرار دیا ہے

ب: حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا طاہرہ ہیں اور حضرت امام زمان ؑطاہر ہیں طاہرہ اور طاہر وہ لقب ہیں جو حضرت نبی اکرم ؐنے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اپنے بیٹے امام زمان ؑکو دئے ہیں حضرت پیغمبر گرامی اسلامؐ نے فرمایا : کیا تو نہیں جانتا ہے کہ میری بیٹی پاک و پاکیزہ ہيں ؟ اور فرمایا خدا وند عالم نے امام حسن العسکری ؑکے صلب میں ایک مبارک اور پاک و پاکیزہ ہستی کو قرار دیا ہے ۔

ج: دونوں کا وجود مبارک عظیم ہے''حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب میں سے ایک مبارکہ ہے اور امام زمان ؑکے القاب میں سے ایک لقب مبارک ہے دونوں کا وجود باعث خیر و برکت ہے۔ اور اسی طرح بہت سے دیگر القاب میں بھی مشترک ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں : حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ذکیہ ہیں اور امام زمان ؑذکی ہیں ، آپ(س) مطہرہ ہیں اور امام زمان (ع) طاہر ہیں ،آپ(س) تقیہ ہیں اور وہ تقی ہیں ، آپ(س) نقیہ ہیں وہ نقی، آپ (س) محدثہ ہیں اور وہ محدث، آپ(س) منصورہ ہیں اور وہ منصور، آپ(س) صدیقہ ہیں اوروہ صادق المقال، آپ(س) صابرہ ہیں اور وہ صابر۔آپ(س) معصومہ ہیں اوروہ معصوم، آپ(س) مظلومہ ہیں اور وہ مظلوم ،آپ(س) شفیعۀ محشر ہیں اور وہ شافع محشر،دونوں غوث اور فریاد رس ہیں ، دونوں بدعت گزاروں اور گمراہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کرنے والے ہیں ، دونوں مسلمین اور مؤمنین کے لئے مہرباں ، غمخواراور ہمدرد ہیں ، دونوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہایت عزیز اور پیارے ہیں

۲۹

جی ہاں :بیان ہوا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مظلومہ ہیں اور امام مہدی ؑمظلوم، جیساکہ زیارت حضرت فاطمہ زہرا (س) میں ہم پڑھتے ہیں :

(السلام عليک ايّتهاالمظلومة )

حضرت امیر المؤمنین ؑحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت کے بارے میں فرماتے ہیں :

(ان فاطمة بنت رسول الله لم تزل مظلومة من حقها ممنوعة )

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی مسلسل ظلم و ستم سہتی رہیں اور اپنے حق سے محروم رہیں ۔

حضرت امام علی ؑامام زمان ؑکی مظلومیت اور غربت کے بارے میں فرماتے ہیں :

( صاحب ہذا الامر الشريف الطريد الفريد الوحيد)

اس امر کے صاحب ،نکالے ہوئے ، دور رکھے ہوئے ا اور یک و تنہا ہیں ۔

آیئے ! ہم مل کر ان حضرات کی معرفت حاصل کریں اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتے ہوئے امام زمان ؑکی غیبت کے دور میں ان دونوں مظلوموں کی مظلومیت کو کم کرنے میں معاون و مددگار بننے کی بھر پور کوشش کریں ۔

دلی شکستہ تر از من در آن زمانہ نہ بود

در این زمان دل فرزند من شکستہ تر است(۱)

____________________

(۱) کتاب سحاب رحمت / بیان شہادت حضرت علی اصغر ؑ

۳۰

حضرت امام مہدی (عج) قرآن میں :

١۔(وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُها عِبَادِی الصَّالِحُونَ) (۱)

ترجمہ: ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

نیک کردار بندوں کی وراثت اور سلطنت کا ذکر زبور میں بھی ہے اور اس سے پہلے توریت وغیرہ میں تھا جس سے صاحبان کردار کی تسکین قلب کا سامان مہیا کیا گیا ہے کہ ان کی ریاضتیں دار دنیا میں بھی برباد ہونے والی نہیں ہیں اور بالآخر دنیا کا آخری قبضہ انہیں کے ہاتھوں میں ہو گا، جس کے ذریعے وہ نظام الٰہی کورائج کریں گے اور ملک خدا میں قانون ِخدا کا نفاذ ہو گا اور اس طرح ان کی دیرینہ حسرت پوری ہوگی اور انہیں ان کی محنتوں کا ثمر حاصل ہو گا۔ اس کے بغیر غرض تخلیق مکمل نہیں ہو سکتی اور کائنات ناتمام کی ناتمام ہی رہ جائے گی۔ دنیا اہل شروفساد کے لئے نہیں بنائی گئی ،اس کی تخلیق قانون الٰہی کے نفاذ کے لئے ہوئی ہے۔ اس اقتدار و سلطنت میں تردد و تأمل اور تشکیک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اگر اہل باطل اور بے ایمان و بدکردار افراد اپنی عیاریوں سے دنیا کے حاکم ہو سکتے ہیں اور نظام عالم کو چلاسکتے ہیں تو پروردگار عالم کے نیک و پاک بندے کیوں اس زمین کے وارث نہیں ہو سکتے اور وہ نظام دنیا کو کیوں نہیں چلا سکتے؟ اہل باطل کو ہمیشہ یہی خوش فہمی رہی ہے کہ دنیا میں ہمارے علاوہ کوئی حکومت کرنے کے قابل نہیں ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب دھیرے دھیرے یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ باطل کا یہ خیال ایک جنون و وہم کے علاوہ کچھ نہیں ، اور نظام عالم کا چلانا صرف اہل حق و حقیقت ہی کا کام ہے اہل باطل نظم دنیا کو درہم برہم تو کر سکتے ہیں لیکن نظام دنیا کو کامیابی کے ساتھ چلا نہیں سکتے ۔

حضرت امام محمد باقر ؑفرماتے ہیں :۔

خدا کے نیک بندے ہی اس روئے زمین کے وارث ہونگے اور وہ اصحاب امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں(۲) ۔

____________________

(۱) سورہ انبیاء۱۰۵

۳۱

٢۔(وَنُرِیدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهمْ أَئِمَّة وَنَجْعَلَهمْ الْوَارِثِینَ) (۳)

(وَنُمَکِّنَ لَهمْ فِی الْأَرْضِ وَنُرِی فِرْعَوْنَ وَهامَانَ وَجُنُودَهمَا مِنْهمْ مَا کَانُوا یَحْذَرُونَ) (۴)

ترجمہ: اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین پر کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا امام بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں ۔

اور انہیں کو روئے زمین کا اقتدار دیں اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکر کو انہیں کمزوروں کے ہاتھوں سے وہ منظر دکھلائیں جس سے یہ ڈر رہے ہیں ۔

٣۔(وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهوقًا) (۵)

ترجمہ: اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا بتحقیق باطل بہر حال فنا ہونے والا ہی تھا۔

یہ وعدہ ئالٰہی ہے جس کا وقتی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ۔ وقتی طور پر باطل اپنی جولانیوں کا مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن دائمی اقتدار اور اختیار صرف حق کے لئے ہے ۔صاحبان ایمان کو اس وعدہ الٰہی کی بناء پرمطمئن ہو جانا چاۀے اور سمجھ لینا چاۀے کہ انجام کار انہیں کے ہاتھوں میں ہے۔

____________________

(۲) تفسیر مجمع البیان؛ج ٧، ص ۶۶

(۳) سورہ قصص؛۵،۶

(۴) سورہ قصص؛۵،۶

(۵) سورہ اسراء؛۸۱

۳۲

حضرت امام مھدی (عج) حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑکی نگاہ میں :

حضرت ولی اللہ اعظم امام زمان ؑجب ظہور فرمائیں گے اس وقت حضرت عیسیٰ ؑآسمان سے زمین پر اتر آئیں گے اور امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجھہ الشریف کے پیچھے نماز پڑھیں گے ان کی ولادت لوگوں سے پنہاں ہوگی اور خود بھی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوں گے وہ میرے بھائی حسین ؑکے نویں فرزند ہیں ، وہ بہترین خاتون کے فرزند ہیں اور آپؑ کی عمر بہت طولانی ہوگی۔ خداوند عالم ان کو (زمین)سے چالیس سالہ انسان کی طرح ظاہر فرمائیں گے تاکہ سب مخلوق خدا جان لے کہ خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) کمال الدین؛ ج ١ ، ص ۴۱۶

۳۳

حضرت امام مھدی (عج) حضرت امام سجاد ؑکی نظر میں :

بے شک غیبت کے زمانہ میں لوگ آپؑ کی امامت پر ایمان رکھتے ہونگے اور آپؑ کا انتظار کر رہے ہونگے۔یہ لوگ دوسرے زمان کے لوگوں سے افضل ہونگے، چونکہ خداوند عالم نے ان کو عقل و فہم و درک عنایت کیا ہے۔ غیبت ان لوگوں کے لئے مثل ظہور ہے۔ خداوند کریم نے ان لوگوں کی فضیلت و عظمت کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلی وسلم کے زمانے کے ان صحابیوں کے برابر قرار دیا ہے جنہوں نے خدا کی راہ میں تلوار لے کر جہاد کیا، یہی لوگ واقعی اخلاص رکھنے والے اور لوگوں کو سراً و علاناً دین مقدس اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور یہی لوگ حقیقت میں ہمارے شیعہ ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) منتخب الاثر؛ ص ۲۴۴

۳۴

حضرت امام مہدی(عج) امام محمد باقر ؑکی نظر میں

محمد بن مسلم جو حضرت امام صادق اور امام باقر علیہم السلام کے شاگردوں میں سے تھے ) کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر ؑسے پوچھاتو آپ نے فرمایا:۔امام مہدی ؑ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ و روش اپنائیں گے تاکہ اسلام کو حاکم بنائیں ۔میں نے عرض کیا ! روش پیغمبر (ص) کیا ہے ؟امامؑ نے فرمایا: جو نظام اور دستورات زمانہ جاہلیت میں تھے آنحضرت نے ان سب کو باطل کیا اور عدالت کو لوگوں کے درمیان قائم کیا۔

امام زمان ؑ(قائم) بھی اسی طریقہ کار کو اپنائیں گے، جب آپؑ ظہور فرمائیں گے تو جو کچھ ظہور سے پہلے لوگوں کے درمیان رائج ہوگا ان سب کو پاؤں تلے روند ڈالیں گے اور جو اسلام کے واقعی اصول اور دستور ہیں ان کو قائم کریں گے ۔(۱)

____________________

(۱) تہذیب؛ ج ۶، ص ۱۵۴

۳۵

حضرت امام مہدی(عج) امام موسیٰ کاظم ؑکی نظر میں :

خداوند عالم ہمارے خاندان کے بارھویں شخصیت کے ذریعے ہر مشکل اور دشوار ی کو آسان بنائیں گے اور اس کے مبارک ہاتھوں سے ہر قسم کے جابروں اور طاقت ور ظالموں کو نابود کرے گا اور ہر شیطان سر کس کو تباہ و برباد کرے گا ۔(۱)

____________________

(۱) کمال الدین؛ ج ۲، ص ۳۶۹

۳۶

حضرت امام مہدی(عج)امام رضا ؑکی نظرمیں :

دعبل خزاعی کہتے ہیں : میں اپنا قصیدہ بارگاہ امام رضا ؑمیں پڑھ رہا تھا، جب اس شعر پر پہنچا '' ایک امام آلِ محمد ؐ میں قیام کریں گے وہ اللہ کے اسم اعظم کی تائید و برکت اور غیبی مدد سے قیام فرمائیں گے اور حق کو باطل سے جدا کریں گے اور خوردونوش اور کینہ پروری کرنے والوں کو اپنے اصل انجام تک پہنچائیں گے (اس وقت) حضرت امام رضا ؑبہت روئے اور اس وقت فرمایا:

اے دعبل! روح قدس نے تمہاری زبان میں بولا ہے کیا تم جانتے ہو یہ امام کون ہيں ؟

میں نے عرض کیا :نہیں آقا میں نہیں جانتا ہوں ! لیکن میں نے سنا ہے کہ آپؑ کے خاندان سے ایک امام قیام فرمائیں گے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔

امام رضا ؑنے فرمایا:میرے بعدامام میرے بیٹے محمد جواد ؑہوں گے، ان کے بعد محمد ؑکے بیٹے علی ؑامام ہوں گے اور ان کے بعد علی ھادی ؑ کے فرزند حسن ؑامام ہوں گے ، ان کے بعد امام حسن العسکری ؑکے فرزند ارجمند حجت وقائم امام ہوں گے ۔ لوگ ان کی راہ میں تک رہے ہونگے۔ان کے ظہور کے بعدسب کے سب اس کے مطیع اور فرمانبردار ہو جائیں گے، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ اس سے پہلے ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔(۱)

____________________

(۱) کمال الدین؛ ج ۲ ، ص ۴۷۲

۳۷

حضرت امام مہدی (عج) امام حسن عسکری ؑکی نظر میں :

میں اس پروردگار عالم کا شکر گزار ہوں جس نے میرے مرنے سے پہلے مجھے میرا جانشین دکھایا۔ اوروہ جانشین انسانوں میں سے شکل وشمائل اور اخلاقی کمالات کے اعتبار سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ ترین شخص ہے۔

خدا وند ان کو دوران غیبت بلاؤں سے محفوظ فرمائے گا،اس کے بعد ان کو ظاہر و آشکار فرمائے گا اور وہ زمین کو عدل وداد سے بھر دے گا جسطرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔(۱)

____________________

(۱) کمالادین؛ ج ۲ ،ص ۴۰۹

۳۸

حضرت امام مہدی(عج) شیعوں کی نظر میں

ہمارے عقیدے کا بنیادی ڈھانچہ یہ ہے کہ ہمارے امام ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں سے ہيں ۔ اسی وجہ سے ہمارے مذہب کا نام شیعہ رکھا گیا ہے، ہمارے عقیدہ کے مطابق سب سے پہلے امام معصوم حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ؑاور آخری امام معصوم حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فر جہ الشریف صاحب الامر وصاحب العصر والزمان ہیں جو کہ ۲۵۵ھجری قمری کو سامرا میں دنیا پر تشریف لائے اور ان کی عمر طولانی ہے اور لوگوں کی نظروں سے پنہاں ہیں تاکہ اس دن پوری دنیا میں اسلام کے آئین اور دستور کو تمام ادیان پر غالب فرمائیں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں ۔ پس یہ عقیدہ رکھنا کہ امام زمان ؑمھدی موعود، بارھویں امام، زندہ اور غائب ہیں ہمارے مذہب کے ارکان میں سے ہے، اس بناء پر حضرت امام مھدی ؑروئے زمین پر حجت خدا ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں سے خاتم الاوصیاء اور امام ہیں ۔ آپؑ اسلام کے علمدار، قرآن و وحی کے محافظ اور روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا نور حساب ہو تے ہيں اسلام کی تمام قدرو قیمت آپؑ کے وجود میں جلوہ نما ہے۔ آپؑ خلق و خُلق اور کردار وگفتارمیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہیں ۔ آپؑ کی غیبت میں زندگی کے اعلیٰ مقاصد پوشیدہ ہیں ۔خداوند رب العزت نے جو وعدہ مؤمنین سے کیا ہے اسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند گرامی حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف عملی جامہ پہنائیں گے غمزدہ افرادکو خوش حال کریں گے۔

۳۹

حضرت امام مہدی(عج) اہل سنّت کی نظر میں

بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ امام زمان ؑپر عقیدہ رکھنا صرف شیعوں سے تعلق رکھتاہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، بلکہ اس موردمیں اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حضرت امام زمان ؑپر عقیدہ رکھتے ہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت اور خوشخبری جو آپ ؐ نے امام زمان ؑکے بارے میں دی ہے کہ آپؑ کی حکومت عالمی سطح پر ہو گی اس بات پر سب شیعہ و سنی اتفاق نظر رکھتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء کہتے ہیں آپؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں اورآپؑ جلد دنیا میں تشریف لائیں گے اور جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشخبری دی ہے اسے عملی جامہ پہنائیں گے۔ اس بات کی دلیل ان کی کتابوں میں موجود احادیث ہیں جو امام زمان ؑکے بارے میں نقل ہوئی ہيں ۔

اہل سنت کے راوی اہل تشیع کے راویوں سے کم نہیں ہيں ان میں صحابہ سے لے کر تبع تابعین تک راوی ملتے ہیں ۔ امام زمان ؑکے بارے میں ہم تک جو قدیم ترین کتابیں پہنچی ہیں ان میں فضل بن شاذان نیشاپوری کی کتاب '' قائم '' ہے۔

اہل سنت کے ہاں قدیم ترین کتاب جو امام زمان ؑکے بارے میں لکھی گئی ہے وہ کتاب '' فتن ملاصم '' مرحوم حافظ نعیم بن عماد مروزی کی ہے۔ مرور زمان کے ساتھ ساتھ امام مھدی ؑپر عقیدہ رکھنا ایک مسلم اسلامی عقیدہ ثابت ہو چکا ہے۔ علماء اہل سنت کے ساتھ عوام بھی اس عقیدہ پر پختہ ایمان رکھتی ہے ۔ اگر کوئی اس نظریہ کا مخالف نظر آئے تو ہم دلیل اور نمونے کے طور پر چند بزرگ علماء کا ذکر کریں گے تا کہ ثابت ہو جائے کہ اہل سنت کا امام مہدی ؑپر عقیدہ روایت کے اعتبار سے ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138