سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت0%

سرچشمۂ معرفت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 112

سرچشمۂ معرفت

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بہشتی
زمرہ جات:

صفحے: 112
مشاہدے: 42616
ڈاؤنلوڈ: 2003

تبصرے:

سرچشمۂ معرفت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 112 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42616 / ڈاؤنلوڈ: 2003
سائز سائز سائز
سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت

مؤلف:
اردو

۳۔لفظ شیعہ

علم ابجد کے مطابق فرقہ کے معنی میں آیا ہے وہ روایت کہ جس کو شیعہ سنی دونوں نے ذکر کیا ہے اس روایت میں جو نکتہ مضمر ہے وہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میرے بعد ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ ناجی ہے چونکہ تہتر (۷۳) فرقوں میں سے صرف ایک ہی فرقہ حقیقت دین پر گامزن ہوگا باقی بہتر فرقے من مانی کو دین سمجھیں گے جس کی وجہ سے ہلاک ہونگے۔وَ النَّاجِیْ مِنْهَا فِرْقَه وَّاحِدَة (۱)

____________________

۱:بحار الانوار ج۲۸، المناقبص ۳۳۱

۲۱

لفظ شیعہ قرآن مجید میں:

۴۔ شیعہ یعنی تابع قرآن شدن

بندہ مولای انس و جان شدن

قرآن مجید میں شیعہ و مشتقات شیعہ گیارہ مقام پر ذکر ہوئے ہیں:

لفظ ------------ تعداد ----------- سورہ --------- آیت

شیعة ---------- ۱ ------------ مریم ----------- ۶۹

شیعتہ ---------- ۳ ---------- قصص صافات ---------- صافات ۵۳

شیع --------- ۱ ----------- حجر ----------- ۱۰

شیعاً --------- ۴ ------------- انعام قصص روم۔ -------- ۔قصص ۴ روم ۳۲

اشیاعکم ------ ۱ ------------ قمر -------------

باشیاعھم ---------- ۱ ----------- سبا

۲۲

۳۔ شیعہ اصطلاحاً:

شیعہ یعنی دست بیعت با علی

بعد از او با ےازدہ نور جلی

بعض الفاظ ِعرب وضع کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اور عرف میں دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتے ہیں جیسے لفظ صلاة کو واضع نے دعا کے معنی کے لیے وضع کیا لیکن بعد میں خاص افعال صلاة کہلائے اسی طرح لغت میںکسی لفظ کے معنی کچھ اور ہیں جبکہ عرف میں کسی دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتا ہے۔ لفظ شیعہ کا بھی یہی حال ہے۔ لغت میں شیعہ کسی خاص شخص کی پیروی واطاعت کرنے والے گروہ کو کہتے ہیں لیکن اصطلاح میںحضرت علی ابن ابی طالب اورگیارہ اماموں کی پیروی و اطاعت کرنے والوں کو شیعہ کہتے ہیں۔

اگر اصطلاحات شیعہ پر غور و فکر سے کام لیا جائے توچند اختلافات نظر آئیںگے۔ جس کا اختصار کے ساتھ بیان کردینا مناسب ہے۔

الف۔ شہید ثانی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: شیعہ وہ ہے کہ جو حضرت علی کا مطیع و فرمانبردار ہو اور حضرت علی کو دیگر تمام اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فوقیت دیتا ہو ۔ چاہے باقی گیارہ اماموں کی امامت کا قائل نہ بھی ہو۔

شہید ثانی کی اس تعریف کے مطابق لفظ شیعہ امامیہ، اسماعلیہ، زیدیہ، جارودیہ، واقفیہ، ذوادویہ اور فطحیہ وغیرہ پربھی برابر سے منطبق آئے گا۔چونکہ یہ تمام فرقے حضرت علی کی امامت کے قائل ہیں اور حضرت علی کو اصحاب پر مقدم جانتے ہیں اور باقی ائمہ علیہم السلام کی امامت کے قائل نہیں ہیں.

ب: شہرستانی ملل و نحل میں کہتے ہیں کہ: اصطلاح میں شیعہ ان لوگوں کو کہاجاتا ہے کہ جو حضرت علی کی امامت کے قائل ہوں اور خلافت علی پر نص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معتقد ہوں اگرچہ نص جلی ہو یا خفی اور امامت کو علی و اولاد علی یعنی بارہ اماموں میں منحصر جانتے ہوں جن میں اول حضرت علی اور آخر امام زمانہ عجل اللہ تعالے فرجہ الشریف ہیں۔

۲۳

ج: ابن حزم کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اس بات کا قائل ہے کہ حضرت علی بعدِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام امت مسلمہ سے افضل واعظم ہونے کے باعث امامت و خلافت کے مستحق ہیںاور علی اورگیارہ امام آیت( يٰا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوا اللّٰهَ الخ ) (۱) کے تحت اولی الامر ہیں جو شخص بارہ اماموں کی امامت و ولایت کاقائل ہے بس وہی شخص شیعہ ہے اگرچہ نظر یاتی حوالے سے اختلاف بھی رکھتا ہو۔

لغوی اصطلاحات و تعریفات پر غور و فکر کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابن حزم اور شہرستانی کی تعریفیں دیگر تمام تعریفوں سے بہتر اور اچھی ہیں۔چونکہ ان دو نوںحضرات نے حضرت علی اور دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کے افضل الناس ہونے کا ذکر کیا ہے اور یہ بات شیعہ عقائد میں بنیا د و اساس کی حیثیت رکھتی ہے لہذا فرقہ زیدیہ کو شیعیت کا جزء قرار دینا بعیداز نظر ہے چونکہ فرقہ زیدیہ علوی نظریہ کا قائل ہے اسی لیے یہ فرقہ نص کے اعتبار سے عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ان کاحال یہ ہے کہ علوی کی حمایت میں عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ کرتلوار سے بات کرتے ہیں۔یہ حمایت کے معاملہ میں تلوار کا سہارا لیتے ہیں اور عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔جوبھی نسل علوی سے ہو پس اس کو امام مانتے ہیں لہذا اس فرقہ کو شیعہ نام دینا یا جزء شیعہ قرار دیناایک فاحش غلطی ہے۔ حقیقی شیعہ اور واقعی شیعہ کا ذکر بعد میں کریں گے کہ شیعہ کی کتنی اقسام ہیں اور ان کے در میان کیا کیا اختلافات ہیں۔

____________________

۱: نساء /۵۹

۲۴

شیعہ تاریخ کے اوراق میں:

انسان اس دنیا میں جسم وروح ،ظاہر و باطن اور ملک و ملکوت سے مرکب ہے۔ ظاہراً انسان کی زندگی کاآغاز پیدائش کے دن سے ہوجاتا ہے اور مرنے کے دن ختم ہوجاتی ہے۔

لیکن یہ انسان کی حقیقت نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا آغاز نہ دنیا کی پیدائش ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے چونکہ دنیا کی حیات و زندگی کی حیثیت تو ایک مسافر کی سی ہے کہ جو اس دنیا کے مسافر خانہ میں مہمان ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے انسان کا وجود تھا اور اس دنیا کی حیات کے بعد بھی انسان کا وجود باقی رہے گا لیکن انسان کوکامیابی اور ناکامی اسی حیات دنیوی سے ہی حاصل کرناہے اور انسان کا وجود معنوی عالم ذر سے ہے جس کا وہاں وعدہ لیا گیا ہے۔

( اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی ) (۱)

شیخ الرئیس ابو علی سینا قصیدہ ہائےة میں کہتے ہیں:

(هَبَطْتُ اِلَيْکَ مِنَ الْمَحَلِّ الْاَرْفَعِ وَرُقَائُ ذَاتِ تُعَزِّزْ وَتَمْنَعْ )(۲)

مرغ باغ ملکوتم نہ یم از عالم خاک

چند روزی قفسی ساختہ اند از بدنم (مولانا )

روح جب جسم انسان سے خارج ہو کرآزاد ہوجاتی ہے تو بدن انسان کو خاک میں دفن کردیا جاتا ہے جسم انسان خاک میں مل جاتا ہے لیکن روح با قی رہتی ہے موت تو روح کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہیں گویا جسم انسان و حیاتِ جسم انسان ختم ہوجاتی ہے لیکن روح انسان کو زندگی اور بقاء حاصل ہے۔

____________________

۱:سورہ مبارکہ الاعراف ۱۷۲ ۲: شرح نہج البلاغہ ج۷ ص ۳۹۹

۲۵

حجاب چہرہ جان می شود غبار تنم

خوشا دمیکہ از این چہرہ پردہ برفکنم

چنین قفس نہ سراے چو من خوش الحانی است

روم بہ گلشن جنت کہ مرغ آن چمنم

لیکن یہ انسان کی ناسمجھی ہے کہ انسان اس دنیا میں حیات مادی کوہی اپنی اصل حیات سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ انسان کی حقیقت تو اس سے بالاتر ایک اورشے ہے۔ ایک عالَم کو حیات دنیا کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور ایک عالَم میںموت کے بعد جانا ہے اگر حضرت انسان اپنی زندگی میںسیر تکوینی کو جذب کر لیتا ہے تو انسان اپنے اندر خدا کی بہت سی آیات و نشانیاں پاتا ہے اس موقع پر انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم نے بنی نوع انسان کی پیدائش پر مبارکبادی کیوں دی تھی!

( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْن ) (۱)

مولائے موحّدین امیر المومنین فرماتے ہیں:۔

اے لوگو! تم یہ نہ سمجھناکہ تم ایک چھوٹاسا جسم مادی رکھتے ہیں بلکہ تم اپنے اندر ایک بہت بڑا جہان رکھتے ہیں اور عجائب خداوند عالم اور اسرار خداوند ی کے معدن و خزانہ ہیں او رتمہارے اندر عالم کے عجیب و غریب اسرار پوشیدہ ہیں۔

دَوَائُکَ فِيْکَ وَ مَا تَشْعُرُ

وَدَائُکَ مِنْکَ وَلَا تَنْظُرُ

أَ تَزْعَمُ اَنَّکَ جِرْم صَغِيْر

وَفِيْکَ انْطَوٰی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ

وَ اَنْتَ الْکِتَابُ الْمُبِيْنُ الَّذِی

بِاَسْطَارِه يَظْهَرُ الْمُضْمَرُ(۲)

____________________

۱:سورہ مومنون، ۱۴

۲: ہزار ویک داستان ص ۵۵۱

۲۶

اس تما م گفتگو پر غور و فکر کریں تو اس نتیجہ تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ تاریخ شیعہ کا تعلق فقط دنیا سے ہی نہیں ہے (جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی تشریف آوری پروجود میں آیا ہے) حالانکہ تاریخ شیعہ کا وجود اس عالم دنیا سے پہلے بھی تھا جس کو ہم تاریخ نوری شیعہ یا شیعہ کی نورانی تاریخ سے تعبیر کرتے ہیں. اگرچہ شیعہ اسی دنیا کے شیعہ کو کہا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے جس کی وضاحت اجمالی طور پر ہدیہ قارئیں کرتے ہیں پس تاریخ شیعہ کودو حصوں میں بیان کیا جا سکتا ہے.

۱۔ تاریخ نوری شیعہ

۲۔ تاریخ ظاہری شیعہ

تاریخ نوری وظاہری شیعہ

۱۔ تاریخ نوری شیعہ کا آغاز اس وقت ہے کہ جب خالق تھا لیکن مخلوق نہ تھی۔ شیعوں، پیشواؤںاور اماموں سے اس کائنات کی تخلیق کا آغاز ہوا جس کے ثبوت میں چند احادیث نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں:۔

۱۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اَوَّلُ مٰا خَلَقَ اللّٰهُ نُوْرِی (۱) کُنْتُ نَبِیاً وَّ آدَمُ بَيْنَ الْمٰائِ وَ الطِّيْنِ (۲)

سب سے پہلی مخلوق جو وجود میں آئی وہ میرا نور ہے جبکہ ابھی آدم کی تخلیق بھی نہ ہوئی تھی میںمقام نبوت پر فائز تھا۔

۲۔رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب نے فرمایا ہے :(کُنْتُ وَلِیاًوَّ آدَمُ بَيْنَ الْمٰائِ وَ الطِّيْنِ (۳) کہ میں اس وقت مومنین کا امیر و امام تھا کہ جب آدم ابوالبشر آب و گل کے درمیان تھے.

____________________

۱:بحار الانوار جلد، ۱، ص ۹۶، ینابیع المودة ، جلد ۱، ص ۴۵

۲:بحار الانوار جلد، ۱، ص ۹۶، ینابیع المودة ، جلد ۱، ص ۴۵ ۳:جامع الاسر ا ر ۴۶۰

۲۷

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: (اگر لوگ یہ جان لیتے کہ علی کب سے امیر المؤمنین ہیں تو فضائل علی کا انکار نہ کرتے اس لیے کہ علی اس وقت امیر المؤمنین تھے کہ جب آدم کی خلقت بھی نہیں ہوئی تھی۔

۳۔ عالم اہلسنت سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم ابوالبشر کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے خداوند عالم نے میرے اور علی کے نور کو خلق کیا اور ہم خداوند متعال کے ذکر میں مشغول تھے اس سلسلہ کے اوربھی بہت سی احادیث ہیں لیکن ہم انہیں پر اکتفا کرتے ہوئے انہیں احادیث پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔

اول:

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نوراور علی کا نور ایک ہے تو یہ نورعظمت الہی سے خلق ہوا۔ (( اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَ الْاَرْضِ ) (۱) ۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کا نور میں متحد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقام نبوت میں اول ہیں اور علی مقام امامت میں اول ہیں اور یہ دونوں فضائل اور کمالات سے پر ہیں امیر المؤمنین نفس رسول اور عین رسول ہیں جیساکہ قرآن مجید میں خدا وند عالم سورہ آل عمران میں ارشادفرمارہا ہے :

( ''فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَ نِسَائَکُمْ وَ اَنْفُسِنَا وَ اَنْفُسَکُمْ'' ) (۲)

جب رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نصارائے نجران سے مباہلہ کے لیے چلے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ علی نفس رسول ہیں.

____________________

۱:سورہ نور، ۳۱

۲:سورہ مبارکہ آل عمران، ۶۱

۲۸

اس آیت کی تفسیر میں شیعہ سنی دونوں فرقوں نے متفق علیہ لکھا ہے کہ نفس سے مراد ذات علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے۔

روایت میں ہے کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی گئی کہ آپ اپنے ممتاز اصحاب اور شاگردوں کا تعارف کرائیں تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چند اصحاب و شاگردوں کا نام لیا لیکن علی کا نام نہیں لیا۔ تو راوی نے سوال کیا کہ آپ نے علی کا نام نہیں لیا؟ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تو نے اصحاب و شاگردوں کے بارے میں سوال کیا تو میں نے جواب دے دیافرما یا: علی میری جان ہے علی میرا نفس ہے علی میری آنکھ ہے، عرب کے مشہورشاعر مرحوم اذری اس مقام پر کہتے ہیں :

(هُمَا ظُهْر الشَّخْصَيْنِ وَ النورُ وَاحِد

بِنَصِّ حَدِيْثِ النَّفْسِ وَ النُّورِ فَاعْلَمَنَّ)

شیخ عطار نیشاپوری کہتے ہیں

تو نور احمد و حیدر یکی دان

کہ تا گردد بہ تو اسرار آسان

حکیم سنائی کہتے ہیں۔

ہر دو ز یک صدف بودند

ہر دو پیرایہ شرف بودند.

دوم:

سب سے پہلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور خلق ہوا اور باقی تمام موجودات عالم کی خلقت اسی نورکی برکت سے ہوئی ۔ لہذا شیخ سلیمان قندوزی حنفی کہتے ہیں کہ: سب سے پہلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور مقدس پیدا ہوا اس نور نے تمام عالم ملکوتی اور جبروت پر احاطہ کر لیا۔ اس لیے افضل الانبیاء ختمی المرتبت کامل ترین فرد اور دین محمد دین اسلام ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔

علامہ دیار بکری علماء اہلسنت میں سے ایک جید عالم ہیں کہتے ہیں: کوئی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا صاحب کمال پیدا نہیں ہوا ہے اورہر نبی نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ملکوتی نور سے کسب فیض کیا ہے۔

۲۹

سویم:

خاتم الانبیأ و خاتم الاوصیاء علی ابن ابی طالب ایک ہی نور میں متحد ہیں تو جس طرح سب سے پہلے نور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلق ہوا اسی طرح سب سے پہلے علی کا بھی نور خلق ہوا۔ رب العزت نے سب سے پہلے نورمحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و نور علی کو خلق کیا ہے او ر انہیں کے نور کے طفیل میں تمام کائنات کی خلقت ہوئی ہے لہذا تمام ہستی نے اسی نور کی برکت سے خلقت پائی ہے۔

(لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ وَ لَوْلَا عَلِیّ لَمَا خَلَقْتُکَ وَ لَوْلَا فَاطِمَةُ لَمَا خَلَقْتُکُمَا )(۱)

آدم سے عیسیٰ تک تمام کے تمام انبیاء انھیںہستیوں کے نمک خوار ہیں۔ رزق مادی ہو یا معنوی انہیں کی برکت سے ملتا ہے۔

چہارم:

تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام خداوند کریم کے مقرب بندے ہیں انہیں قرب الہی کا کمال حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی مرتضی علیہ الصلوة والسلام کے برکت سے ملا ہے علامہ قندوزی اور

____________________

۱:فاطمة بھجة قلب نبی، علامہ مرندی، ملتقی البحرین ص ۱۴

۳۰

علامہ بکری اہل سنت کے دو بزرگ علماء ہیں ان کے مطابق تمام انبیاو اور اوصیاء کو کمالات رسول گرامی خدا اور علی مرتضی کی وجہ سے حاصل ہو گئے ہیں۔ پس ثابت ہوا نور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نور علی دونوں ایک ہیں اورتمام انبیاء و اوصیاء و اولیاء مکتب علی بن ابی طالب کے شاگرد اور مطیع و فرمانبردار ہیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : شب معراج خداوند عالم کے پیغمبر وں نے مجھ سے سوال کیا۔ آپ نے کونسا عمل انجام دیا جس کی وجہ سے آپ کو معراج کے شرف سے مشرف کیا گیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا نے روئے زمین پر افضل الناس اور سید المرسلین قرار دیا؟تو رسول گرامی اسلام نے انبیاء ما سلف کے سوالوں کے جواب میں فرمایا:کہ میں نے خداوند رب العزت اور آپ سبھی انبیاء کرام اور ولایت علی ابن ابی طالب کو اپنے لئے سرلوحہ عقیدہ اور راہ عمل قرار دیا۔

مرحوم شیخ کاظم ازری نے اس روایت کو اس طرح سے تحریر کیا ہے۔

وَ اَسْأَلُ الاَنْبِيَائَ تُنْبِئُکَ عَنْهُ

اَنَّه سِرُّهَا الَّذِی نَبَّاَهٰا

وَ هُوَ عَلَامَةُ الْمَلَائِک فَاسْأَلْ

رُوحَ جَبْرَئِيْلَ عَنْهُ کَيْفَ هَدَاهٰا(۱)

فواد کرمانی کہتے ہیں۔

زنسیم فیض کریم تو

دم عیسی آمدہ جانفزا

بہ کف کلیم زقدرتت

دگر آن عصا شدہ اژدھا

بتو یونس آمدہ ملتجی

کہ خلاص گشتہ ز ابتلا

زتوجہ تو خلیل را شدہ نار برد مبردا

____________________

۱: دیوان ص ۶۱

۳۱

میرزا محمد قمی نے کتنا خوبصورت شعر کہا ہے۔

سرخوش از ساغر سرشار ولایت چو شدیم

پیر ما ختم رسل ساقی ما مولا بود.

شجر طور ولایت علی عمرانی

کہ تجلی رخش راہبر موسی بود

مژدہ مقدم جانپرور او داد مسیح

دم قدسیش از آنروے روان بخشا بود

نہ ہمین یار نبی بد کہ بھر دور معین

انبیاء را ہمہ از آدم تا عیسی بود

نوح را ہمت او داد نجات از طوفان

ورنہ تا روز جزا رہسپر دریا بود

پنجم:

تمام انبیاء اور اولیا ء الٰہی حضرت آدم ابو البشرسے لیکر قیامت تک جو بھی زیور وجود سے مزین ہوگا وہ نور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کی برکت سے خلق ہوگا اور جس کو جس قسم کے بھی کمالات حاصل ہونگے وہ محبت و ولایت اہلبیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وجہ سے حاصل ہونگے لہذا پیغمبر اسلام اور علی ابن ابی طالب دونوں شیعہ ہیں چنانچہ آیہ شریفہ( اِنَّ مِنْ شِيْعَتِه لَاِبْرَاهِيْم ) (۱) کے ضمن میں حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا :ای مِنْ شِيْعَتِه لَاِبْرَاهِيْم (۲) یعنی حضرت ابراہیم خلیل اللہ جو اولوالعزم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے حضرت علی کے شیعہ و پیرو کار تھے۔ یہ حضرت ابراہیم کے لیے

____________________

۱: صافات ، ۸۳ ۲: تاویل آیات طاہرہ ص۴۸۵، البرھان ج۴، بحار ج ۳۶ حدیث ۱۳۱

۳۲

سب سے بلند مرتبہ اور افتخار و امتیاز ہے کہ ابراہیم علی کے شیعہ ہیں اس بات کے ثبوت وتصدیق میں عجیب و غریب واقعات نقل ہو ئے ہیں یہاں پر زیادہ تفصیل کی گنجایش نہیں ہے

حضرت امام صادق نے فرمایا کہ: حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو حضرت علی کی عظمت و بلند مرتبہ کا علم ہوا اور شیعیان حیدر کرار کی فضیلت اور علامت معلوم ہوئی تو ابراہیم نے بارگاہ خداوندی میں ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کی کہ خداوندا! مجھے بھی شیعیان حیدر کرار علی ابن ابی طالب میں سے قراردے خدا نے ابراہیم کی یہ دعا قبول کی جس کا قرآن مجید میں بھی خداوند عزوجل نے اعلان کیا ہے( اِنَّ مِنْ شِيْعَتِه لَاِبْرَاهِيْم )

ہست ابراہیم در وحی مبین

شیعہ مولا امیر المومنین

ششم:

تمام انبیاء اور اولیاء الٰہی کے ساتھ ساتھ تمام عام انسان بھی عالم ذر میں خداوند متعال کی وحدانیت پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و رسالت اور علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت و مودت کو قبول کرکے علی کے شیعہ ہو گئے تھے۔

روز نخست این گل مرا کہ سر شتند

نام نکوی تو بر دلم بنوشتند

اس لیے امام صادق نے فرما یا ہے کہ: قیامت کے دن جو نجات پائیں گے وہ ہمارے شیعہ ہیں جنھیں پیغمبر اسلام اور ہم ائمہ اطہار کی وجہ سے نجات دی جائے گی اور تما م افراد اہل عذاب اور اہل ہلاکت ہونگے کہ قیامت کے دن صرف پیغمبر اسلام، ہم آئمہ طاہرین اورہمارے شیعہ ہی نجات پائیں گے۔

۳۳

حدیث کے معنی یہ ہیں کہ تمام انبیاء اور اولیاء موحدین حضرت آدم سے لیکر حضرت عیسی تک حضرت ختمی المرتبت اور اہل بیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیعہ ہیں لہذا نجات کا استحقاق رکھتے ہیں۔

اس مختصر سی کتاب میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی بندہ ناچیز میں اتنی جرأت ہے کہ اس علم و عرفان کے سمندر میں غوطہ زن ہو سکوں۔

اس وقت اتنے ہی بیان پر اکتفا کرتا ہوں پھر کسی موقع پر فرصت کے میسر ہونے پر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کی تائید و نصرت سے اس گلستان روح افزا میں سیر کریں گے اور بوستان گل آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نکہت و خوشبو سے اپنے دل و دماغ و عقیدہ کو معطر کریں گے فی الحال اپنے قارئیں کرام سے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ طالب رخصت ہوں۔

شیعہ یک موسی است در دریاے نیل

شیعہ یک کعبہ است پیش قوم فیل

شیعہ در درےای آتش چو خلےل

بے نےازی می کند از جبرئیل

شیعہ ہر جا پاگذارد با علی است

اول و آخر کلامش یا علی است

۳۴

ائمہ اطہار معدن علم الہی

ہم زیارت جامعہ میں یہ جملہ پڑھتے ہیں:اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يٰاخُزّانَ الْعِلْمِ (۱) ہمارا سلام ہو آپ پر اے معدن علم الہی۔

خزان العلم کیا چیز ہے؟

ہمارے ائمہ کا ایک عظیم پہلو یہ ہے کہ وہ علم الہی کے خزینہ دار ہیں۔ یہ جملہ ہم مختلف زیارتوں میں بھی پڑھتے ہیں اور یہ جملہ معصومین علیہم السلام کے فرامین میں بھی ملتا ہے کہ خزّان علم وہ حضرات ہیں ۔خزان بر وزن رمّان خازن کی جمع ہے یعنی خزینہ دار اور علم کے عام معنی کبھی آگاہی ہے لیکن یہ چیز ضرور جاننا چاہیے کہ یہ علم کے خزانہ دار ہیں وہ کونسا علم ہے؟

مناسب سمجھتا ہوں کہ اس علم کی تفسیر اور تشریح کرنے سے پہلے چند روایات جو خود معصومین علیہم السلام کی طرف سے وارد ہوئی ہیں ذکر کروں:

۱۔ حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ (نَحْنُ خُزّانُ عِلْمِ اللّٰهِ وَ نَحْنُ تَرَاجِمَةُ وَحْیِ اللّٰهِ )۔ہم خزانہ دار علم الٰہی ہیں ۔ہم ترجمان وحی خدا ہیں۔(۲)

۲۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں(نَحْنُ شَجَرَةُ الْعِلْمِ وَ نَحْنُ اَهْلُ بَيْتِ نَبِیّ اللّٰهِ وَ فی دَارِنٰا مَهْبِطُ جَبْرَئِيْلٍ وَ نَحْنُ خُزّانُ عِلْمِ الْعَامِّ وَ عَنْ مَعَادِنِ وَحْیِ اللّٰهِ... ''(۳)

ہم علم کے درخت ہیں۔ ہم اھل بیت نبوت ہیں ۔ہمارا گھر ہی جبرئیل امین کی رفت و آمد کی جگہ تھی ۔ہم

____________________

۱: زیارت جامعہ کبیرہ مفاتیح الجنان ص ۶۹۹ ۲:منہاج البلاغہ خطبہ ۲۳۹ ۳: امالی شیخ صدوق ص ۲۵۲

۳۵

خداوند عالم کے علم کے خزانہ دار ہیں۔ ہم معدن وحی الٰہی ہیں۔ جو بھی ہماری اطاعت کرے گاوہ نجات پائے گا اورجو بھی ہمارے حکم کی مخالفت کرے گا نابود ہوجائیگا، ہم ہی سنت خداوندی ہے۔

۳۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:لوگ ہماری فضیلت کاکیوں انکار کرتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہی نبوت کے درخت ہیں۔ ہمار ے گھر رحمت کے گھر ہیں ، علم کے خزانے اور ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ ہیں۔

یہ چند روایات ہزاروں روایات میں سے چند نمونے ہیں جو اہل بیت رسالت کی طرف سے ہم تک پہنچے ہیں لہذا ان روایتوں میں علم کسی قید اور شرط کے بغیر ذکر ہوا ہے لہٰذا اس جملہ کی مناسب انداز میں تشریح اور تفسیر کی جائے۔

علم خداوندی:

لاریب خداوند عالم پوری کائنات کا عالم الغیب و الشہادت ہے ظاہر اور باطن سب کا جاننے والا ہے خداوند عالم کا علم، علم حضوری ہے ۔ پورے عالم کا علم خدا کے سامنے ہے بنی نوع انسان کا علم تو محدود ہے لیکن پروردگار عالم کا علم پورے جہان ہستی پر سایہ فگن ہے۔

۳۶

علم غیب کی اقسام:

حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے :خداوند عالم کا علم دو قسم کا ہے (اِنَّ لِلّٰهِ تَعٰالٰی عِلْماً خَاصّاً وَ عِلْماً عَامّاً ) خداوند عالم کا علم دو قسم پر مشتمل ہے :

۱۔علم مخصوص ۲۔علم عام

(فَاَمَّا الْعِلْمُ الْخَاصُّ فَالْعِلْمُ الَّذی لَمْ يَطَّلِعْ عَلَيْهِ مَلَائِکَةُ الْمُقَرِّبِيْنَ وَ اَنْبِيَائُ الْمُرْسَلِيْنَ

علم خاص و ہ علم ہے جو صرف پروردگار عالم تک محدود ہے یہ علم فقط ذات رب العزت سے تعلق رکھتا ہے لیکن علم عام وہ علم ہے جس سے ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین آگاہی رکھتے ہیں اور یہی وہ علم ہے جو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہم تک پہنچا ہے۔

وہ روایات جو علم غیب فقط پروردگار عالم سے تعلق رکھنے پر دلالت کرتی ہیں وہ علم خاص کے بارے ہیں نہ کہ علم عام کی بابت ۔یہاں پر بعض متکلمین اور دانشمندوں نے اشتباہ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے در میان علم غیب سے متعلق شبھہ پیدا ہوا اور کہا کہ غیب کا علم فقط ذات پروردگار کو ہے۔

۳۷

انشاء اللہ یہاں پر دونوں علوم کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث کا ذکرکریں گے.

۱۔( وَ عِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا هُوَ ) (۱)

۲۔( قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ) )(۲)

۳۔( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فی السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰه ) (۳)

۴۔( فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ ) (۴)

ترجمہ: ۱۔اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

۲۔کہہ دیجئے !کہ علم تو بس خدا کے پاس ہے۔

۳۔کہہ دیجئے !کہ تما م غیب کا علم پروردگار کو ہے۔

۴۔تو آپ کہہ دیجئے! کہ تمام غیب کا علم پروردگار کو ہے ۔

دوسری آیات بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔

یہی وہ آیات ہیں جو علم حضوری اور علم خاص کے بارے میںہیں جن میں علم غیب کوخداوند کریم میں حصر کیاگیا ہے مالک حقیقی وہی ہے وہ جسے چاہے دے اورجسے چاہے نہ دے

____________________

۱:انعام، ۵۹

۲:احقاف، ۲۳

۳:نمل ، ۶۵

۴:یونس، ۲۰

۳۸

( ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤتِيْهِ مَنْ يَّشَآئُ وَ اللّٰهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيْم ) (۱) ۔اس علم کے زمام دار خداوند قدوس ہے اس کی ملکیت اورسلطنت سے باہر نہیں جا سکتا مگر یہ کہ وہ جس کے اوپر ظاہر کرنا چاہے مثل (کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیاً)کے ظاہر فرما دیتا ہے۔

دوسرا قسم: علم عام وہ علم ہے جو خداوند عالم اپنے برگزیدہ اور مصطفی بندوں کو عنایت کرتا ہے۔

(( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلٰی غَيْبِه اَحَداً اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَسُوْل ) (۲)

خداوند عالم علم غیب سے آگاہ ہے اور کسی بندے کو نہیں بتا تا مگر یہ کہ اپنے مرتضے اور مصطفے بندوں کو عنایت فرماتا ہے۔ اور دوسری آیت میں بھی ذکر ہے۔( وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَيْبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبی مِنْ رُّسُلِه مَنْ يَّشَاء ) )(۳)

اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ،ہاں اپنے نمائندوں میں سے بعض لوگوں کو اس کام کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔

پروردگاراپنے مخصوص بندوں کو غیب کے حالات سے باخبر کرتا رہتا ہے لیکن انھیں یہ ہدایت رہتی ہے کہ اس علم کو صرف مخصوص مواقع پرہی استعمال کرناہے اور باقی سارے کام ظاہری قوانین کے مطابق انجام دیناہے۔

بنیادی طور پر ہمارے آئمہ معصومین علیہم السلام خداوند رب العزت کی اجازت سے غیب پر علم رکھتے ہیں اور یہ ہمارے دین کے بنیادی عقائد میں سے ہے اس حوالے سے یہاں پر نمونے کے طور پر چند مثالیں عرض کردینا ضروری ہے:

۱۔حضرت نوح علیہ السلام کی پیشن گوئی جو اپنی قوم کے بارے میں اظہار فرمایا کہ: یہ قوم دوبارہ

____________________

۱:سورہ جمعہ آیت ۴ ۲:سورہ جن، آیت ۲۶ ۳:سورہ آل عمران آیت ۱۷۹

۳۹

ہدایت یافتہ نہیں ہوگی اگر باقی زندگی رہی بھی تو یہ لوگ کفر او ر الحاد میں زندگی بسر کریں گے.

سورہ نوح آیت نمبر ۲۷ اور ۲۸،سورہ انعام آیت نمبر ۸۵،سورہ یوسف آیت نمبر ۴ اور ۶

سور ہ یوسف آیت نمبر ۴۱ اور ۳۶،سورہ ہود آیت نمبر ۶۵،سورہ نمل آیت نمبر ۱۶، ۱۸، ۱۹

حضرت ابراہیم کی زمین اور آسمان کے متعلق آگاہی

حضرت یعقوب کا یوسف کے بارے میں آگاہی رکھنا

حضرت یوسف کا آئندہ زندان میں جانے کے حوالے سے خبردار کرنا

حضرت صالح کی پیشن گوئی کہ ناقہ صالح کے مارنے کے بعد تین دین سے زیادہ زندہ نہ رہنا،

حضرت سلیمان کا حیوانات سے گفتگو کرنا بھی علم غیب میں شامل ہے

حضرت عیسی کی معلومات جو لوگ گھروں میں کھانے یا ذخیرہ و غیرہ کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آئندہ کے بارے میں علم غیب سے آگاہی اور پیشن گوئی کرنا جن میں سے چند ایک درجہ ذیل ہیں:۔

۱۔انسان طاقت نہیں رکھتا کہ اس قرآن کا مثل لیکر آئے۔

۲۔رومیوں کا ایران پر غلبہ اور تسلط حاصل کرنا۔

۳۔خداوند عالم اپنے پیغمبرکو ہر قسم کے شر سے محفو ظ رکھے گا۔

۴۔منافقین کی حرکات اور سکنات کے بارے میں خبر دینا۔

۵۔قرآن مجید کبھی بھی محرّف نہیں ہوگا۔

۶۔اسلام پورے عالم پر حکومت کرے گا۔

یہ وہ نمونے اور مثالیں ہیں جنہیں قرآن مجید نے بیان کیا ہے اور یہ علم غیب کے بارے میں ہیں۔

البتہ غیب کے بارے میں خبر دینے کا ذکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے بہت زیادہ کتابوں میں درج ہے مثلا اس حوالے سے تین جلد کتابیں بعنوان الاحادیث الغیبہ لکھی گئی ہیں۔

۴۰