سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت0%

سرچشمۂ معرفت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 112

سرچشمۂ معرفت

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بہشتی
زمرہ جات:

صفحے: 112
مشاہدے: 41879
ڈاؤنلوڈ: 1940

تبصرے:

سرچشمۂ معرفت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 112 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41879 / ڈاؤنلوڈ: 1940
سائز سائز سائز
سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت

مؤلف:
اردو

والے، گویا انبیاء کی ایک صف ہے اور اسی صف کے آخر میں حضرت محمد ختمی المرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اس معنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو شرافت و عظمت و ہدایت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ تنہا صرف اس معنی کو پہنچاتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوگا ۔

دوسری طرف سے خاتم فتحہ تاء کے ساتھ دوسرے معنی میں آیا ہے یعنی موضوع رسالت اور نبوت کو ایک خط سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ خط کے آخر میں مہر اور لکھنے والے کادستخط ہوتا ہے اور یہ مہر اور دستخط، شخص کو معین کرتاہے کہ لکھنے والا کون ہے اور یہ خط تمام ہونے کی علامت بھی ہے یعنی لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا تھا لکھ چکاہے، باقی اس کے بعد کچھ لکھنا نہیں چاہتا ہے، پس پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر خاتم الانبیاء ہیں تو ان کا دین بھی کامل و اکمل ہونا چاہئے لیکن اکمال دین کس چیز میں ہے؟ با الفاظ دیگر دین کا کامل ہونا، کیونکہ یہ دین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ کامل ہوا ہے۔ پس دین کے کامل ہونے کے حوالے سے ضروری ہے اس کے بنیادی اصولوں پر بحث و تحقیق ہونی چاہئے ۔پس دین کے تین بنیادی محور ہوتے ہیں۔

۱)خداوند عالم کی طرف سے وحی نازل ہونا اور اس دین کے قانون اور دستور العمل کا بیان ہونا۔

۲)اس دین کے قانون کی تفسیر وتبین ہونا اور اس کی حفاظت کا انتظام ہونا۔

(۳) اس دین کے قانون کو معاشرہ میں نافذ کرنا اور اجرا کرنا۔

پہلے مرحلے میں دین مبین اسلام مکمل طور پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میںانجام پذیر ہوا اور اس کے قانون پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ۲۳ سالہ زندگی میں اجرأ کے دور سے گزارا، اور اسلامی معاشر ہ میں نافذ ہوا ۔ خداوند عالم نے اپنے پیارے نبی سے فرمایا:( وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی ) (۱) کہ وحی کے بغیر لوگو ںکو کچھ بھی نہیں بتاتا، لہذا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس پر عمل کیا اور آپ نے وحی کے بغیر کوئی بات نہیں کی۔

____________________

۱:سورہ نجم آیہ ۳

۶۱

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وحی کولوگوں تک پہنچایا (ہمارے رسول وحی اورعلم الغیب کے حوالے سے کام نہیں لیتے ہیں) لہذا وہ چیز جو قیامت تک ضروری اور لازم تھی، وحی کی صورت میں بیان اور نازل ہوئی ہے ہم نے اس میں کوئی چیز باقی نہیں رکھی ہے۔

( وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا يٰابِسٍ اِلَّا فی کِتَابٍ مُّبِيْنٍ ) (۱) لیکن وہ دین جو خدا کی طرف سے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ نازل ہوا ہے اس کی ہر زمانہ میں تفسیر و تبیین اور اس کے اجراء و نفاذ اور حفاظت کی ضرورت ہے تا کہ دشمنوں اور منافقوں کے شر سے محفوظ رہے۔ لہذا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حافظ دین ہیں اگر دین کی حفاظت نہ ہو تو دین محفوظ نہیں رہے گا۔ اور دین خدا کو دشمنان اسلام اپنی خواہشات کے مطابق بیان اور استعمال کریں گے اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ اور مٹا دیں گے جوحشر دین موسٰی اور دین مسیح کا ہوا وہی حشر اسلام کا ہوگا۔اس صورت میں دین دین کامل نہیں رہے گا۔

ہر قانون کی اہمیت اس کے اجراء اور نفاذ میں مضمر ہے۔ اگر کسی قانون اور دستور پر عمل نہ ہوا تو اس کی کوئی قدر وقیمت اور اہمیت نہیں رہتی۔ وحی الٰہی جو قانون کی شکل میں نازل ہوئی ہے اس کی اہمیت اس وقت واضح ہوگی جب وہ اجراء اور نفاذ کے مرحلے سے گزرے ۔

قرآن مجید وہ دستور العمل ہے جو انسانی فطرت سے ہم آھنگ ہے اور یہ دستور العمل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے تاکہ اس کا اجراء اور نفاذ ہوجائے لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۲۳ سالہ مدت میں اس کو اجراء اور نفاذ کرکے دکھایا پس پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دین کے مجری اور لوگوں کے ولی ہیں ۔ان تمام مطالب میں غوروفکر کرنے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ دین کا کمال ان تینوں محور پر عمل اور اس کی تکمیل پر منحصر ہے اور ان میں سے کسی ایک

____________________

۱: سورہ انعام آیة ۵۹

۶۲

کی کمی وزیادتی دین کے ناقص ہونے کی علامت سمجھی جائے گی زمان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں خود ذات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عہدہ کو بڑے اچھے طریقے سے انجام دیا اور دین کی ذمہ داری خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل طور پر تمام معنیٰ میں دین کو پہنچایا اوراجراء اور نفاذ کے مرحلے سے گزارا نیز دین کی حفاظت کا مکمل انتظام بھی کیا ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقام تزولی قرآن ، مقام تفسیر وتبیین اور اجراء ونفاذ کے حوالے سے محافظ دین ہیں۔لیکن یہ دین کیا صرف حیات پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی تک محدود ہے یا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدبھی جاری وساری رہناہے؟ اگر دین کا کامل وکمال صرف زمان پیغمبر ہی تک محدود ہے تو پھر اسلام کا یہ دعویٰ کہ وہ عالمگیر مذھب اور دین ہے اسکے کیا معنی ٰہیں ؟ خود قرآن کہتا ہے کہ لِیُظْہِرَہ عِلٰی الدِّیْنِ کُلِّہ ، پس جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا ثابت ہے تو پھر دین اسلام کا بھی عالمی دین ہونا صحیح ہے اس صورت میں دین اور آئین اسلام مذکورہ تینوں محور زمان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے لیکر روز قیامت تک دونوں محور یعنی تفسیر وتبیین قرآن اور اس کی حفاظت ایک طرف قانون اسلام وشریعت کا اجراء تودوسری طرف اگرا ن میں سے کسی ایک میں بھی کوئی خلل ونقص پیدا ہوجائے تو دین کے مکمل ہونے پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اس صورت میں دین کامل نہیں رہے گا اسی لئے قرآن مجید میں مسئلہ امامت وولایت کو پیش کیا ہے۔

( اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً ) (۱)

پس مسئلہ جانشینی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مکمل سلسلہ کا نام ہے نہ کہ کوئی شخصی مسئلہ بناء بر این مسئلہ یہ نہیں

____________________

(۱) مائدہ ۳

۶۳

ہے کہ فقط ذات امیر المؤمنین مطرح ہو اوران کا تعارف ہوجائے ۔ اگر ایسا ہو تو پھر وہی اشکال اور اعتراض وارد ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وارد کرتا ہے۔ لہٰذا مسئلہ غدیرخم ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جو آدم سے ہوتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر امیرا لمؤمنین علی علیہ السلام سے لیکر امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے لہٰذا جھگڑا امام پر نہیں بلکہ امامت پر ہے جس کے ذریعے دین کامل ہوتاہے۔ اگر دین اسلام ابدی دین ہے تو یہ ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جس میںنبوت کے ساتھ ساتھ امامت بھی شامل ہے جو دین کے مکمل ہونے کی ضمانت ہے ۔

شیعوں کے اہم اعتقادات میں سے ایک ذات مبارک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں جو کائنات کے افضل واکرم انسان ہیں۔ جن میں سے ایک کو خداوند عالم نے مصطفی اور دوسرے کو مرتضیٰ بنایا ہے۔

یہ دونوں ہستیاں مرور زمان کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں اور حملوں کا نشانہ بنتے رہے۔ ان دشمنان خداودین کی پوری کوشش یہ رہی کہ اسلام کے مقدس نظام کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خدشہ دار کریں اور اس طرح دین کے جڑوں کو نابود کردیں۔

ان باطل طاقتوں کے دسیسہ کاریوں اور حملوں سے دین کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک ایسا سسٹم اور نظام خداوند عالم نے بنایا ہے جسے امامت وولایت کہاجاتا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دن رسالت کا اعلان کیا اسی دن امامت وولایت کا اعلان بھی کردیاتھا۔

۶۴

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تئیس (۲۳)سالہ دور رسالت میں ہر حساس موقع پر امامت کا تعارف کرایا۔ ان میں سے ایک دعوت ذوالعشیرة ہے جسمیں اعلان رسالت کے ساتھ ساتھ اعلان وصایت وامامت بھی فرمایا: اِنَّ ھٰذٰا اَخِیْ وَوَصِیّی وَخَلِیْفَتی یہ اعلان حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ دین کی حاکمیت اور حکومت کے لئے ولایت وامامت ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہیں جو تمام زمانوں سے مربوط ہیں۔

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم: یَوْمُ غَدِیْر خُمْ اَفْضَلُ اَعْیٰادِ اُمَّتی ..........، غدیر کا دن میری امت کے لئے ایک عظیم عید ہے(۱) ۔ اسی دن خداوند عالم نے مجھے حکم دیا کہ بھائی علی کو امت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے منصوب کریں تاکہ میرے بعد ہدایت کاتسلسل علی کے ذریعہ جاری وساری رہے یہ وہ دن ہے جسمیں خداوند رب ّ العزّت نے دین کو کامل کیا اور نعمت کو میری امت پر تما م کردیا اور دین اسلام کوا ن کے لئے بہترین دین قرار دے دیا۔

اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً

ترجمہ:آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ قراردیاہے۔(۲)

مسلمانوں کے درمیان ایک حساس ترین اور اہم ترین مسئلہ اتحاد اسلامی کا مسئلہ ہے ۔ دوسری طرف پوری تاریخ اسلام مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں بٹنے اور مختلف نظریات کے حامل ہونے کی اصل یہی مسئلہ امامت وخلافت رہی ہے یہی مسئلہ ہے جس کے لئے ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں اور لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا ۔ بقول محمد بن عبدالکریم شہرستانی جو علم الکلام اور

____________________

۱۔ الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۸۳

۲۔سورہ مائدہ آیة ۳

۶۵

تاریخ اسلام کے بڑے ماہر ہیں '' مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ مسئلہ امامت ہے''۔

امامت وخلافت کے معنیٰ یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں دین ودنیا کے امور کو امت اسلامی کے درمیان بیان کریں اور نافذ کریں یہ وہ تعریف ہے جو تمام فرق اسلامی کے نزدیک قابل قبول ہے لیکن بعض فِرَق اسلامی کے نزدیک امامت وخلافت سے مراد یہ ہے کہ: اسلامی حکومت کونافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ظاہری عدالت کی بھی رعایت کریں اور امت کو خارجی اور داخلی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھیں ، جبکہ واقع ایسا نہیں ہے بلکہ امامت وخلافت ایک ایسا رکن اصلی ہے جس پر باقی تمام فروعات مبتنی ہیں۔ اسلام میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنا مقام حاصل ہے اتنا ہی امام وخلیفہ کو بھی حاصل ہے۔جسکا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔یعنی دینی امور کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر واحکام کو بھی پہنچاننانیز انسانیت اور امت محمدی کی ہدایت معنوی کو ادامہ دینا۔ پس جو طریقہ کار پیغمبر کا ہوتاہے وہی امامت کا بھی ہے۔ لہٰذا جو عصمت وطہارت اور افضلیت واعلمیت کاتصور پیغمبر کے لئے ہے وہی امامت کے لئے بھی ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صرف حکومت وسیاست تک امامت کو محدود کیا جائے پس یہ نظریہ باطل اور ہیچ ہے۔

۶۶

امام کی معرفت کا طریقۂ کار:

فرق اسلامی کے ہاں امامت وخلافت کی اہمیت اور ضرورت کے حوالہ سے مختلف عقلی ونقلی دلائل بیان کئے گئے ہیں اس حوالہ سے مختلف نظریات ثبت وضبط ہوئے ہیں۔ امام کے وجود اور خلیفہ رسول ہونے کی جوشرائط ، صفات ، خصوصیات اور کیفیات بیان ہوئی ہیں ان سب کو یہاں تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ ہم ایک مسلمان ہونے کے اعتبار سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہونے کے ناطے خود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے خلافت وامامت کے حوالہ سے کیا پیغام دیا ہے؟

ہم اسے یہاںچند نظریات کی صورت میں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ انشاء اللہ جس سے صاحبان عقل وفہم کے ہاں اسکی حقیقت وواقعیت واضح ہوجائیں گے۔

پہلا احتمال:

ایک احتمال یہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امامت وخلافت کے بارے میں نہ کچھ فرمایا اور نہ ہی کسی قسم کا اظہار کیا ہے بلکہ اس حوالہ سے کسی قسم کی راہ وروش اور اثر نہیں چھوڑا ہے۔اس معاملہ کو مکمل طور پر تقدیر کے سپرد کردیا ہے ۔

یہ احتمال اور نظریہ کئی جہات سے باطل ہے ۔ کیونکہ یہ عقل ودرایت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل ساز گار نہیں اور نہ ہی آپ کے لطف وکرم سے میل کھاتا ہے۔آپ اپنی امت کو اپنے بعد کسی سرپرست اور ولی کے بغیر چھوڑجائیں اور ان کو تقدیر وسرنوشت کے حوالہ کردیں درحالیکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حقیقت سے مکمل آگاہ تھے۔ کہ دوستوں کے درمیان بہت سارے منافقین موجود ہیں جو اسلام کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔ یہ لوگ آپ کی رحلت کے انتظار میں تھے تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کو ختم کرکے یا اسلام کے اندر تحریفات پیدا کرکے اسے کمزور بناکر اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ بازیاب کرسکیں۔

دوسری طرف اسلام کے خارجی دشمن اس تاک میں تھے کہ مہلت ملنے پر اسلام پر حملہ آور ہوکر اسے نابود کیا جائے۔ آپ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ کوئی بھی قوم ومعاشرہ رہبر ورہنما کے بغیر اپنے اجتماعی زندگی کو جاری و ساری نہیں رکھ سکتے ۔

۶۷

یہ وہ قطعی شواہد ہیں جن کا انکار کرنا ناممکن امر ہے۔ اس حوالہ سے آپ جانشینی کے مسئلہ کوبے حد اہمیت دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ خلفاء کے دور میں بھی شدت کے ساتھ اس مسئلہ کی طرف ان کی توجہ مبذول رہی۔ یہاں تک کہ عبداللہ بن عمرو حضرت عائشہ اور حضرت عمر نے یہ تاکید کی کہ وہ امت کو بغیر چرواہے کے نہ چھوڑے جائیں(۱) ۔ مسئلہ جانشینی کس قدر اہمیت کی حامل ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتاہے کہ معاویہ بن ابی سفیان اپنے بعد یزید پلید کو جانشین بنا کر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ امت محمدی بغیر چرواہے کے چھوڑ جاؤں(۲) ۔

کیا اس مسئلہ کو جاننے کے لئے یہی کافی نہیں ہے ؟ کہ خلفاء اور ان کے احباب اس مسئلہ پر بہت نگران اور پریشان تھے۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقل کل ہوتے ہوئے امت کو بغیر جانشین کے چھوڑ جائیں؟!!حاشا وکلّا یہ ہر گز ممکن نہیں ۔

ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند روز کے لئے مدینہ سے باہر جاتے تو اپنا جانشین اور نمائندہ بناکر جاتے ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا سے مکمل چلے جائیں اور جانشین تعین کئے بغیر امت کو ایسے ہی چھوڑ جائیں۔!!

دوسرا احتمال:

دوسرا احتمال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلافت وامامت کو مورثی جانتے تھے اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان اس کو ارث کے طور پر لے جاتے!

یہ نظریہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ مقام ومنصب اتنی عظمت کے حامل ہیں کہ اگر ورثاء اس قابل نہ ہوں یا وہ اس مقام ومنصب کی صلاحیت ولیاقت نہ رکھتے ہوں تو قرآن مجید بھی اس نظریہ کو مردود شمار کرتا ہے ۔ جیساکہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوند عالم سے التماس کی اور

____________________

(!) طبقات ابن سعد ج۱، الامامة والسیاسة ج۱ ص ۱۵۱

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۲۲

۶۸

تقاضا کیا کہ میرے بیٹے بھی اس امامت کے منصب تک پہنچ جائیں! تو خداوند عالم نے فرمایا ''یہ عہدہ ظالمین اور ستمکاروں تک نہیں پہنچ سکتا۔

پھربھی اگربالفرض مورثی ہوتا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اور بھی افراد موجود تھے جن کے مقابلے میں خلفاء کی نوبت پھر بھی بعد میں آتی۔

تیسرا احتمال:

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوچ یہ تھی کہ خلافت و امامت کو شوریٰ حل وعقد کے سپرد کیا جائے۔ شوریٰ حل وعقد سے مراد یہ ہیں کہ امت کے چند چیدہ چیدہ اور منتخب افراد۔

یہ نظریہ بھی باطل ہے کیونکہ اس حوالہ سے شیعہ یا سنی میں سے کسی ایک طریق سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی فرمان یہاں تک کہ کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکرو عمرکو اپنی عمر کے آخری حصے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کاش! خلافت کے بارے میں پیغمبر سے پوچھ لیا ہوتا!

اس سلسلہ میں کئی عجیب وغریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں جن کو یہاں ذکر کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا صاحبان عقل کے لئے اتنا ہی اشارہ کافی ہے۔

۶۹

چوتھا احتمال:

آخری نظریہ یہ ہے کہ خلیفہ وامام کو خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معین اور منتخب فرمایا ہے اور اس سلسلہ میں نص صریح اور عقلی دلائل موجود ہیں ۔ اس نظریہ کو ''نص'' ونصب، ووصیت ، کہا جاتا ہے۔

یہ وہ نظریہ ہے جس کے شیعہ قائل ہیں اور اس نظریہ کی تاکید کے لئے بہت سی عقلی ونقلی دلیلیں موجود ہیں۔

اس واقعہ کی حقیقت کے بارے میں بہت سے تاریخی اسناد موجود ہیں ۔ مسلمانوں کے عظیم اور مایہ ناز فلسفی وسائنسدان ابوعلی سینا اس بارے میں کہتے ہیں کہ: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر واجب ہے کہ وہ اپنے بعد کے خلیفہ اور جانشین کو خود معین کریں اور ملت پر واجب ہے کہ اس کے حکم پر عمل کریں ورنہ امت کے درمیان تفرقہ واختلاف وجود میں آئیں گے۔

۷۰

خواجہ نصیر الدین طوسی:

خواجہ نصیر الدین طوسی نے ضرورت اور وجوب امام کے بارے میں بیان کرنے کے بعد شرائط امام مثلاً عصمت وافضلیت امام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :وَالْعِصْمَةُ تَقْتَضی النَّصّ وَسِیْرَتُه ۔

علامہ حلی فرماتے ہیں:

امام میں شرط عصمت تقاضا کرتی ہے کہ خلافت وامامت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہو۔ کیونکہ عصمت ایک ایسا امر باطنی ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہی ذات پروردگار حق وحقیقت ہے جوا پنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی لوگوں کو امام کے بارے میں آگاہ فرماتے ہیں اسی طرح سیرت عملی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ آسان سے آسان تر احکام مثلاً صحت وصفائی ، کھانے پینے کے طریقے، سونے جاگنے کے طریقے اور قضائے حاجت وغیرہ کے بارے میں لوگوں کو بیان فرماتے رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے ایک اہم ترین رکن اور مسلمانوں کی آئندہ کی زندگی کے بارے میں یعنی اپنے جانشین کے بارے غفلت برتیں اور اس اہم مسئلہ سے چشم پوشی کرئے؟!!

پس ناگزیر ہے کہ اس بات کو قبول کرلیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وظیفہ شرعیہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی سیرت طیبہ کے ذریعے اپنے جانشین وخلیفہ کو خود معین فرماگئے ہیں۔

۷۱

روایات میں بھی امام کی شناخت اور معرفت کی ضرورت پر کافی زور دیا ہے جیساکہ شیعہ وسنی دونوں طریقوں سے درج ذیل احادیث نقل ہوئی ہیں جو امام وخلیفہ کی معرفت کو ہرزمانے کی نسبت واجب قرار دیتی ہیں چنانچہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

مَنْ مٰاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمٰانِه مٰاتَ مَیْتَةَ الْجٰاهِلِیَّةِ

جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔

ہم یہاں ایک نظر دین مبین اسلام پر کرتے ہیں ۔ اسلام کا سیاسی و اجتماعی نظام اگر اس کے فردی و عبادی نظام سے زیادہ نہیں ہے تو کمتر بھی نہیں ہیں ۔

ہم اگر تھوڑی سی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کریں کہ اسلام کے احکام اور شریعت الٰہی کو ایک ایسے محافظ کی ضرورت ہے جو اسے تحریف ہونے سے بچائیں تو دوسری طرف ایک مفسر اور مبین کی بھی ضرورت ہے جوآنے والی نسلوں کے لئے اس کی حقیقت کو واضح اور روشن کرسکے ۔ جیسا کہ خود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بھی قانون اسلام کو بیان کرنے کے لئے ایک مفسر اور قانون دان کی ضرورت تھی اور وہ خود ذات گرامی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ۔ اسی طرح ہر زمانے میں ان قوانین اسلام کو بیان کرنے والا قانون دان اور مفسّر ومبیّن ہونا چاہئے جو معصوم عن الخطاء ہو۔نیز فردی و اجتماعی اختلافات کو دور کرنے کے لئے ایک مرکز ومحور کی ضرورت ہے اس طرح اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے اپنی سیاسی واجتماعی مشکلات کو دور کرنے کیلئے ایک مشکل کشا کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں جس کے لئے ایک عظیم رہبر و رہنما کی ضرورت ہے جو عالم ہو ، عادل ہو، حق پرست ہو، حق گوہواور دلسوز و مہربان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے طمع ولالچ سے مبرا ہو اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرنے والا نہ ہو۔ ایسے ہی رہبر ورہنما کشتی کو کنارے تک پہنچا سکتے ہیں۔اورامت کو نجات دلاسکتے ہیں ۔

۷۲

لہٰذا ہر عاقل و مدیر ومدبّر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد جانشین کا تعین حتماً کرکے گئے ہیں ۔ چنانچہ گذشتہ انبیاء کی راہ وروش بھی یہی رہی ہے۔

ابھی تک جتنے فوائد بیان کئے گئے وہ ظاہری تھے لیکن اس کے باطنی ومعنوی فوائد کا اندازہ صاحبان بصیرت ہی کرسکتے ہیں۔

امام پیغمبر کی طرح حجّت خدا ہوتے ہیں اور حجت خدا ہی زمین وآسمان کے امن وسلامتی کا ضامن ہوتے ہیں ۔ انہیں کے توسط سے ہی ہم تک رزق وروزی پہنچ جاتے ہیں ۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ جسے ہم جانتے نہیں۔ انہیں حجت خدا کے ذریعہ انسان کامل ہوسکتے ہیں ، عروج حاصل کرسکتے ہیں ، یہی راز خلقت بشریت ہے ، یہی مقصد خلقت انسان ہے اور یہی اشرف مخلوقات کاضامن ہے ۔

آج کے دور میں بعض چھوٹے بڑے پیرومرشد کے ذریعہ ، بعض چھوٹے موٹے عارف وحکیم کے ذریعہ اور بعض فقط خدائی نعرے لگا کر گمراہ اور ضلالت کے گہرے سمندر میں غرق ہورہے ہیں اس لئے انسان کو چاہئے کہ حجت خدا ، حقیقی جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام کی معرفت اور شناخت حاصل کریں۔

نص ونصب:

لغت میں نص سے مراد واضح اور روشن ہونا ہے۔ نص ونصب علم کلام اور علم اصول کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ: ہر سخن صریح وروشن جو کسی اور معنیٰ میں قابل تاویل وتعبیر نہ ہو۔ نصب بھی کسی چیز کو اٹھا نا اور کسی جگہ کی علامت گزاری کرنا ہے بہ الفاظ دیگر نص سے مراد کھلے الفاظ میں کسی کا تعارف کرانا ہے اور نصب سے مراد کسی کا عملی وفعلی اور پریکٹیکل طریقے سے تعارف کراناہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر شیعہ وسنی مصادر میں جتنی بھی کتابیں ہیں ان تمام کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے جانشین معین کرکے جانے پر نصوص پائے جاتے ہیں ۔ ہم یہاں چند نصوص کا ذکر کرتے ہیں:

۷۳

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دن دعوت اسلام کو واضح وآشکار فرمایا تو آپ نے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو گھر پر دعوت دی ۔ اسلام کے آئین کو ان کے سامنے بیان فرمایا ۔ وہیں پر حضرت علی علیہ السلام کی وفاداری اور ایثار کو دیکھتے ہوئے سب کے سامنے اعلان کیا کہ میرے بھائی علی آج کے بعد میرا وصی اور جانشین ہیں۔

اسی طرح جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخری حج کے لئے تشریف لے گئے تو حج سے واپسی پر غدیر خم کے میدان میں حضرت علی کی خلافت وامامت کا اعلان فرمایا۔ اس سے بھی آگے بڑھکر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی عمر کے آخرین لمحات گزاررہے تھے توشدت علالت ، کمزوری، اور تب میں مبتلا ہونے کے باوجود علی کی خلافت وامامت کے بارے میںتاکید فرمائی۔ آپ نے قلم دوات منگوایا تاکہ تحریری صورت میں باقی رہ سکیں ۔ مگر ایک گروہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے ضبط تحریر میں نہ لاسکے ۔

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد ہر مہم موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت وامامت کا ذکر فرمایا۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے وہ نصوص جو حضرت علی علیہ السلام کی خلیفہ بلافصل ہونے اور آپ کے اولاد معصومین علیہم السلام کے بارے میں وارد ہوئے ہیں ان میں سے چند نصوص کا یہاں ذکر کرتے ہیں۔

۷۴

حدیث عصمت وطہارت ، حدیث اخوت وبرادری، حدیث محبت ، حدیث منزلت، حدیث ثقلین ، حدیث مع الحق، حدیث سفینہ ، حدیث امان ، آخر میں حدیث ولایت (حدیث غدیر)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے جتنے فضائل بیان کئے ہیںان احادیث کی تعداد بے شمار ہے۔ ابن شہر آشوب مازندرانی اپنی کتاب'' مناقب ''لکھ رہے تھے تواسوقت ان کے سامنے فضائل حضرت علی کے بارے میں ایک ہزار کتابیں موجود تھیں ۔ ان میں نہ صرف شیعوں کی کتابیں ہیں بلکہ اہل سنت کی بھی کتابیں ہیں۔ ہم یہاں پر نمونے کے طور پر چند مہم ، موثق اور ثقہ احادیث کا ذکر کریں گے جو حضرت علی کی عظمت اور ان کی امامت وخلافت بلافصل پر بیّن دلیل ہیں۔

۱۔ حدیث منزلت :

اِرْجِعْ یٰا اَخی بِاَنَّ الْمَدِیْنَةَ لاٰتَصْلَحُ اِلَّا بی وَبِکَ فَاَنْتَ خَلِیْفَتیْ فی اَهْلِ بَیْتی وَدَار هِجْرَتی وَقَوْمی اَمٰا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هٰارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّه لَا نَبِیَّ بَعْدی (۱) ۔

یٰا عَلی اِنَّمٰا اَنْتَ مِنّی بِمَنْزِلَةِ هٰارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ اِلَّا اَنَّه لَانَبِیَّ بَعْدی (۲)

یعنی اے علی تیری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسیٰ سے ہے(کہ جانشین وبرادر موسیٰ تھے) البتہ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

____________________

(۱) اعلام الوریٰ ص۱۲۳ ، ارشاد شیخ مفید ص ۷۹،۸۱

(۲) امالی شیخ صدوق ص ۱۰۴، ۱۰۵

۷۵

۲۔ حدیث ثقلین:

اِنِّیْ تٰارِک فیِْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللّٰهِ وَعِتْرَتی اَهْلُ بَیْتی اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدی اَبَداً وَاَنَّهُمٰا لَنْ یَّفْتَرِقٰا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض بتَعْلَمُوْا مِنْهُمْ وَلَا تَعْلَمُوْهُمْ فَاِنَّهُمْ اَعْلَمُ مِنْکُمْ (۱) ۔

میں تمہارے درمیان دوگرانبہاچیزیںچھوڑے جارہاہوں اگران سے متمسک اورمرتبط رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوجاؤگے ، ایک اللہ کی کتاب (قرآن مجید) دوسری میری عترت و اہلبیت ۔

۳۔ حدیث مع الحق:

عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ فَمَنْ تَبِعَه فَهُوَ عَلٰی الْحَقِّ وَمَنْ تَرَکَه تَرَکَ الْحَقِّ عَهْدًا مَعْهُوْرًا (۲)

حدیث دوم :

عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ وَلَنْ یَّفْتَرِقٰا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ یَوْمَ الْقِیَامَة (۳)

یعنی علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی الگ نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ روز قیامت میرے پاس پہنچ جائیں ۔

۴: حدیث عصمت وطہارت:

اَللّٰهُمَّ هٰؤُلاٰئِ اَهْلُ بَیْتی وَخَاصَّتی فَاذْهَبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرَهُمْ تَطْهِیْراً (۴)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حضرت امام حسین علیہم السلام کو چادر میں جمع کیا اور فرمایا: خداوندا! یہی میرے اہل بیت ہیں پس ان سے ہر قسم کی پلیدی اور رجس کو دور فرما اور ان کو پاک وطاہر بنادے۔

____________________

(۱) احقاق الحق ج ۹ ص ۳۴۲

(۲) مجمع الزوائد ج۹ص۱۳۴،صواعق محرقہ ص ۱۲۲

(۳) تاریخ بغداد ج۱۲ ص ۳۲۱، غایة المرام ص ۵۳۹

(۴) سبیل الھدی والرشاد ص ۱۲

۷۶

۵: حدیث سفینہ:

مَثَلُ اَهْلِ بَیْتی کَمَثَلِ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ مَنْ رَکِبَهٰا نَجٰی وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهٰا غَرِقَ وَهَوٰی (۱)

٭اَلَا اِنَّ مَثَلُهُمْ فِیْکُمْ کَمَثَلِ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ مَنْ رَکِبَهٰا نَجیٰ وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهٰا غَرِقَ وَمِثْلُ بٰابِ حِطَّةٍ فی بَنی اِسْرَائِیْل

٭فَمَنْ رَکِبَ هٰذِه السَّفینَةِ نَجیٰ وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهٰا فَغَرِقَ (۲)

میرے خاندان کی داستان ، داستان کشتی نوح علیہ السلام کی طرح ہے جو بھی سوار ہوگا نجات ملے گی اور جو سوار ہونے سے کترئے گا ڈوب جائے گا اور غرق ہوجائے گا۔

۶: حدیث ولایت:

اِنَّ هٰذا اَخی وَوَصِیّی وَخَلِیْفَتی فِیْکُمْ فَاسْمَعُوْ لَه وَاَطِیْعُوْا (۳)

٭مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاهُ فَعَلِیّ مَوْلاٰهُ اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ (۴)

اے علی میرے بعد آپ تمام مؤمنوں کا ولی اور سرپرست ہیں جس کا میں مولا ہوں اسکے آپ بھی مولا ہیں

۷: حدیث امان:

اَلنُّجُوْمُ اَمَان لِاَهْلِ الْاَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَاَهْلُ بَیْتی اَمَان لِاُمَّتی مِنَ الْاِخْتِلَافِ فَاِذَا خَالَفَتْهٰا قَبِیْلَة مِّنَ الْعَرَبِ ، اِخْتَلَفُوْا ....(۵)

میرا خاندان زمین والوں کا مامن ہے جیسا کہ ستارے اہل آسمان کا ماّمن ہیں۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ج۱ ص ۲۱۱

(۲) بحار الانوار ج ۱۵

(۳) تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۲،۶۳

(۴) امالی شیخ صدوق ج ۱ ص ۲۶۰

(۵) صواعق محرقہ ص۹۱ ، مسند احمد ج ۵ ص ۹۳ ، ینابیع المودة ص ۲۹۸

۷۷

اس طرح کی بہت ساری احادیث بطور نص موجود ہیں جو حضرت علی کی فضائل بیان ہیں۔

مذید معلومات Information کے لئے درج ذیل کتابیں موجود ہیں مراجعہ فرمائیں

المراجعات علامہ سید شریف الدین حق الیقینعلامہ مجلسی

الغدیر علامہ امینی معالم المدرستینعلامہ عسکری تلخیص الشافی سید مرتضیٰ

الامامة من الضلال والاختلافآیة ..صافی گلپائیگانی

داستان غدیر:

غدیر کے حوالہ سے بھی حضرت علی علیہ السلام کی ولایت وخلافت کے بارے میں نص صریح وبیانات لفظی موجود ہیں جب ایک لاکھ سے زائد حاجیوں نے علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں بیعت کی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام عید غدیر کے حوالہ سے فرماتے ہیں : عید غدیر ، عید قربان اور عید فطر سے زیادہ محترم اور اہمیت کی حامل ہے جس دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو رہبری اور رہنمائی کے لئے منصوب فرمایا۔

حضرت علی علیہ السلام کوامامت کے لئے منصوب کرنا اورلوگوں کا ان کے دست مبارک پر بیعت کرناایک ایسی روشن دلیل ہے جس کی وجہ سے حدیث غدیر اور داستان غدیر وواقعہ ٔ غدیر کے حوالہ سے تاویل وتوجیہہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انجام دیا ۔ یہی وجہ ہے آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی یہ واقعہ آسمان حق وحقیقت پر سایہ فگن ہے جس کے نور سے ہزاروں تشنہ گان ہدایت صراط مستقیم پر گامزن ہورہے ہیں۔ اگر منحرفین ومعاندین معنی ٰ ولایت کو سرپرستی اور زمامداری کے بجائے معنای دوستی مراد لیں تو پھر بھی خطبۂ غدیر اور حجت الوداع میں لفظ ولایت سے پہلے اور لفظ ولایت کے بعد کے جملوں پر توجہ دیتے تو خطبہ کے قرائن حالیہ و مقالیہ ، سیاق وسباق اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قولی اور عملی کرداراور پھر لوگوں کی بیعت کو دیکھا جائے تو مسئلہ واضح اور روشن ہوجائے ۔ اس سلسلے میں مخالفین کو مخالفت کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے ۔ ابن عباس کے مطابق علی کی ولایت وامامت مسلمانوں کی گردن پہ ہمیشہ واجب ہے۔

۷۸

معنای بیعت:

ابھی معنیٰ بیعت اور اجتماعی کردار پر بحث کی ضرورت ہے ۔

عربوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جب کوئی خرید وفروخت ہوتی یا معاملہ کیا جاتا تو صیغہ معاملہ پڑھا کرتے تھے اور بعد میں ایک دوسرے کو ہاتھ ملا تے تھے اور یہی تکمیل معاملہ کی علامت سمجھی جاتی تھی اور بعد میں یہ معنیٰ عام ہوا کہ جب بھی طرفین میں قرار دار ہوتی ہاتھ ملاتے تھے تاکہ معلوم ہوجائے ۔ لہٰذا جو بھی عہدوپیمان طرفین میں ہوجاتا تھا بیعت کے لئے ہاتھ ملاتے تھے اسی وسیلہ سے ہرا یک بیعت کرنے والا خود کو دوسرے کے مقابل میں ذمہ دار اور مسئول سمجھتا تھا اس حوالہ سے قرار داد یا عہد وپیمان کو توڑنے کا حق نہیں رکھتے تھے اگر کسی دلیل کے بغیر بیعت کو توڑ دیں تو اس کو ایک قسم کی سنگین خیانت تصور کرتے تھے ۔یہ بیعت کبھی کسی اعلیٰ اہداف کے لئے مثلاً اطاعت وپیروی، حمایت، نصرت وغیرہ کے لئے بھی انجام دیتے تھے۔

۱۔ سب سے پہلے بیعت عقبہ میں:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مسلمانوں کے بارہ افراد مدینہ سے حج کی غرض سے مکہ آئے ۔ عقبہ منیٰ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کیا کہ ہم کبھی شرک ، چوری، زنا، اور اپنے اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔

۲۔ دوسری بیعت عقبہ میں:

دوسرے سال حج کے موسم کے موقع پر مدینہ کے مسلمانوں نے جن کی تعداد ۷۳ افراد پر مشتمل تھی پہلے قرارداد اور عہد وپیمان کی طرح اپنے خاندان کی حمایت کے ساتھ اور مددکرنے کے حوالہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کیا۔

۷۹

۳۔ بیعت رضوان بیعت شجرة:

ہجرت کے چھٹے سال پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ عمرہ کے لئے تشریف لے گئے اور حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا راستہ روک دیا اور مکہ جانے سے روک دیا۔ اسی مقام پر مسلمانوں نے ایک دفعہ پھر عہد وپیمان یعنی بیعت کی ۔ یعنی آخری دم تک کفار مکہ کے خلاف صلح پر منتج ہوگیا اور اس صلح کا نام تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے ۔

عام طورپر تاریخ اسلام میں حق وباطل کی بیعت آنکھوں سے گزرتی ہے وہ بیعت جو معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید لعین کے لئے لوگوں سے لی۔ وہ بیعت باطل وناحق تھی۔ اور جس کی کوئی قدروقیمت نہیں کیونکہ اسلام کے اندر کچھ شرائط ہیں بیعت کیلئے جسمیں سے ایک اہم شرط طرفین کی رضا مندی ہے باطل اور طاغوت سے کبھی بیعت نہیں ہوسکتی یاکسی کو ڈرادھمکاکے بیعت نہیں لی جاسکتی ۔

بیعت کی اہمیعت:

بیعت وہ عہد وپیمان ہے ، جو بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے کے درمیان انجام پاتا ہے جس پر عمل کرنا اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں۔ اسلام میں جتنی عہدو پیمان پر وفاکی تاکید کی گئی ہے کسی اور چیز کے بارے میں اتنی تاکید نہیں کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔

سورۂ اسراء میں خداوند رب العزت ارشاد فرمارہا ہے : واوفوا بالعقود ان العھد کان مسئولاً ، اور اپنے عہد وپیمان کی وفاکرو بتحقیق عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

حضرت علی کی ولایت کا انکار کرنے والے اس دن کیا کریں گے جب کانوں سے اعلان غدیر کے سننے، آنکھوں سے دست پیغمبر پر علی کے بلندہوتے ہوئے دیکھنے اور زبان سے مولائیت کے اقرار کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

۸۰