سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت0%

سرچشمۂ معرفت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 112

سرچشمۂ معرفت

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بہشتی
زمرہ جات:

صفحے: 112
مشاہدے: 41953
ڈاؤنلوڈ: 1940

تبصرے:

سرچشمۂ معرفت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 112 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41953 / ڈاؤنلوڈ: 1940
سائز سائز سائز
سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت

مؤلف:
اردو

قرآن مجید میں نیک کام کرنے والوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا:

( والموفون بعهدهم اذاعاهدوا ) ، اور جوبھی عہد کریں اسے پورا کریں،()

عہدو پیمان شکن کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

( الذین ینقضون عهد الله من بعد میثاقه ) ، جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑدیتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین چیز باعث ہلاکت بنتی ہیں۔

۱۔ بیعت توڑنے والا

۲۔ سنت کو چھوڑنے والا ۳۔ جماعت سے جداہونے والا۔

حضرت امام ہشتم علی بن موسیٰ الرضا علیہماالسلام فرماتے ہیں۔

بیعت توڑنے والے کی عاقبت بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ مولا مذید فرماتے ہیں : جوبھی اپنے امام سے بیعت توڑدے قیامت کے دن دست بریدہ بارگاہ خداوندی میں محشور ہوگا۔

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لادین لمن لاعهد له ()

جو عہد وپیمان کا پاسدار نہ ہو اس کا کوئی دین نہیں ہوتا۔ جس قوم وملت کی نظر میں عہدو پیمان کا احترام ہوتا ہے اسکی فردی واجتماعی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جوبھی ملت وقوم اس سرمایہ عظیم کو اپنے ہاتھ سے جانے دیتی ہے وہ بڑا نقصان اٹھاتی ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے اسلام کی عظیم اور زرین اصول اس بات کی سختی سے تاکید کرتی ہیں جو عہد وپیمان دشمن سے باندھا جائے اس پر مکمل عمل کیا جائے ۔ یہاں تک خود دشمن اگر خیانت کرے عہد وپیمان کو توڑدے تو اس صورت میں وفادار رہنا ضروری نہیں ہے۔

حضرت امیرا لمؤمنین علی علیہ السلام اپنے عہد نامہ میں مالک اشتر کو لکھتے ہیں اگر تم نے اپنے دشمن کے ساتھ کوئی عہد وپیمان باندھا جائے یاامان دیا جائے تو اپنے عہد وپیمان کی نسبت وفادار رہیں اور اپنے امان کو محترم جان لیں ۔ کیونکہ خداوند متعال کے واجبات میں سے کوئی حکم مانن عہد وپیمان محترم شمار نہیں کیا گیا ہے اگرچہ لوگوں کے درمیان اختلاف ور عقیدہ ونظریات کی کشمکش کیوں نہ موجود ہو۔()

۸۱

غدیر میں بیعت:

غدیر کے دن حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کو بہ عنوان ''امیرالمؤمنین'' سلام کریں اور علی کے ہاتھوں بیعت کریں ۔ یہ بات کتب فریقین میں آئی ہے۔

از جملہ طبری نے کتاب الولایہ میں زیدبن ارقم سے نقل کی ہے کہ : حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ غدیر کے اختتام پر فرمایا:

اے لوگو! کہیں ہم نے دلو جان سے آپ سے عہد کیا ہے اور زبان سے آپ سے پیمان باندھ لیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے آپ سے بیعت کرلی ہے اور اس خبر کو ہم اپنے فرزندوں اور خاندانون تک پہنچائیں گے اور اس میں کوئی ردوبدل نہیں کریں گے ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات کے گواہ رہئے خداوند عالم اس بات کے شاہد کے لئے کافی ہے جو کچھ میں نے کہا ہے اس کہو، اور علی کو امیرالمؤمنین کے لقب سے سلام کرے اور کہے خدا کا شکر ہے جس نے امر میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ گویا خداہی سننے والا اور دلوں کے خیانت سے آگاہ ہے جو بھی عہد کو توڑدے اپنی زبان سے توڑدی ہے جو بھی خداکے عہد وپیمان پر وفادار رہے اس کے لئے خداوند کریم کے ہاں اجر عظیم ہے ۔

زید بن ارقم کہتا ہے اس موقع پر تمام لوگوں نے اپنی اپنی حمایت اور بیعت کا اعلان کیا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں بیعت کرنے والوں میں ابوبکر، عمر ، عثمان ، طلحہ وزبیر تھے۔ باقی انصار ومہاجرین اور باقی لوگوں نے بھی بیعت کی۔

النشر والطی نامی کتاب میں آیا ہے ! لوگ بلند آواز میں کہنے لگے جی ہاں ! جی ہاں! ہم نے سن لیا اور دل وجان سے قبول کیا ۔ اس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کرنے لگے۔

۸۲

اولو الا مر کون ؟

مقام عظمٰی ولا یت کی شناخت کا حصول اورکسب معرفت امام زمانہ علیہ السلام واجب ترین ارکان اسلامی میں سے ایک ہے بغیر معرفت امام زمانہ علیہ السلام انسان کمال مطلوب تک نہیں پہنچ سکتا ،کیونکہ امام زمانہ علیہ السلام ایمان کے ابواب میں سے ایک باب ہے ۔امانت دار خداوند متعال، چراغ ہدایت ، معدن علم و حکمت اور باب رحمت ، مایہ برکت زمین و آسمان ہیں۔ امام سے منہ پھیر نا دین سے خارج ہونااور امام کی اطاعت و پیروی کرنا حقیقت تک پہنچنے کی علامت ہے۔امام سے چشم پوشی اور دور ی با عث ہلاکت اور نا بودی ہیں ۔

ہمارے مکتب و مذہب میں امام کی معرفت اس قدر حساس اور مہم ہے کہ رسالت اورنبوت بغیر ولایت علی علیہ السلام کے اعلان کے نا مکمل رہ جاتی ہیں اور یہ عقیدہ او ر نظریہ حقیقت میں قرآن ہی کا نظریہ ہے اور لوگوں کے صحیح مسلمان اور مؤمن بننے کے لئے ضروری ہے کہ ولایت اور امامت حضرت علی علیہ السلام کو قبول کریں اور اس کی اطاعت و فرمان بر داری عین واجبات میں سے ہیں۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا ۔( یَا اَیُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ ) (۱) آیہ شریفہ واضح طور پر اس بات کااعلان کرتی ہے کہ بغیر ولایت و امامت علی علیہ السلام کے رسالت خطرہ میں ہے یا یوں کہئے روح کے بغیر جسم کی مانند ہے ۔

حدیث رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہےمَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِه مَاتَ مَیْتَةَ الْجَاهِلِیَّةِ (۱) جو بھی بغیر معرفت امام زمانہ علیہ السلام مرجائے گو یا اس نے جا ہلیت کی موت مرا ہے ۔

____________________

۱: مائدہ ۶۲ ۲:بحار الانوار ج ۳۲ ص ۳۲۱ وسائل الشیعہ ج ۱۶ ص ۲۴۶

۸۳

وہ معروف اور مشہور ترین دعا جوغیبت امام زمانہ علیہ السلام میں پڑ ھتے رہنا چا ہیے وہ یہ ہے: اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنی نَفْسَکَ اس دعا کے حوالے سے ہم یہ جانتے ہیں کہ: یہ دعا اس بات کی حقیقت کی عکاس ہے کہ ا گر انسان اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانے یا معرفت حاصل نہ کرے تو وہ گمراہ ہے اگر چہ وہ تو حید شناس اور نبوت شناس ہی کیوں نہ ہو چونکہ وہ حجت شناس نہیں ہے اسی لیے وہ گمراہ ہے ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنی۔ وہ دین جس میں توحید نبوت اور معاد بھی ہو لیکن اس میں حجت اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہو وہ دین دین نہیں ہے ۔

لہذا دین در حقیقت ضرورت انسان ہے اور انسان اپنی ضرورت کو صحیح طور پر پورا کرے آدھ دین لیں اور آدھ نہ لیں ایسا نہیں ہو سکتے پھر ہر زمانے میں ایک اما م کا ہو نا ضروری ہے جو انسانوں کی ضرورت دین کو پورا کر سکے ۔

لہذا ہم ان نورانی کلمات کے ساتھ کچھ عرا ئض آپ کی خدمت میں پیش کر نیکی سعادت حاصل کرتے ہیں۔اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ يٰا اَهْلَ بَيْتٍ النُّبُوَّةِ اَهْلَ الذِّکْرِ وَاُولی الْاَمْرِ وَبَقِیَّة اللّٰهِ

ہمارے ہزار وں دور دو سلام ہوں ان مقدس ہستیوں پر جو اہل ذکر اور اولو الامر اور بقیة اللہ ہیں ۔

بقیةاللہ سے مراد کون ہے ؟ بقیةاللہ یعنی خداوند کریم کے باقی ماندہ حجت اور جو اللہ کی طرف سے لو گوں کی ہدایت کے لیے معین ہوا ہے اور خدانداور مخلوق خدا کے درمیان رابطہ اور واسطہ کا کام کرتا ہے یہ عظیم ہستیاں جو یکی بعد دیگر ی آتی رہیں اللہ کے احکام بندوں کو بتاتے رہے یہاں تک کہ جناب سرکار ختم مرتبت کے تشریف لانے کے بعد آپ کے بر حق جا نشین علی ابن ابی طالب علیہ السلام و باقی آئمہ معصومین علیہم السلام انہی احکامات خداوندی کو بندوں تک پہنچاتے رہے نیزخدا اور بندوں کے درمیان دین مبین اسلام کو بیان کر تے رہے ۔

۸۴

وحی تشریعی اور وحی تبیینی !

البتہ وہ ارتباط اور تسلسل جسے وحی تشریعی کہتے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت تک ہے آپ کی رحلت عظمی پر یہ وحی تشریعی اختتام کو پہنچی ۔البتہ یہ ارتباط وحی تبیینی کی شکل میں با قی رہے اور اس عظیم ذمہ داری اور رسالت کو آئمہ ہدی ٰ طاہرین و معصومین انجام دیتے رہے اور شریعت محمدیہ کو ان معصوم آئمہ نے تبین یعنی بیان کرتے رہے۔ جس طرح انبیا ے کرام علیہم السلام وحی تشریعی کو عالم غیب سے وصول کرتے آئیں اسی طرح آئمہ معصومین وحی تبینی کو عالم غیب سے وصول کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں قسم کی وحی کے لیے عصمت کا ہونا شرط ہے تا کہ کسی قسم کے سہو و نسیاں اور غلطی و غیرہ سے مبرا اور محفوظ رہ سکیں یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سچے جانشین اس عظیم ذمہ دار ی کو انجام دیتے رہے ۔ حضرت خاتم الاوصیا حضرت امام زمان بقیةاللہ فی الارضین آج اس عظیم ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں اور آپ خدا کے فضل و کرم سے زندہ وسلامت بندوں کے کاموں کو خدا کی طرف سے انجام دے رہے ہیں اور خدا اور بندوں کے درمیان رابطہ کا کام کر رہے ہیں۔ ویسے تو ہر معصوم اپنے زمانے کی حجت خدا اور بقیة اللہ ہیں لیکن اس وقت امام زمان علیہ السلام حجت خدا اور بقیة اللہ اعظم ہیں۔ کلمہ بقیہ اللہ قرآن مجید میں حضرت شعیب علیہ السلام کے قصہ میں آیا ہے کہ اس وقت کے لوگ با غی طاغی اور نافرمان اور گنہگار تھے۔ خاص طور پر کم فروشی میں مشہور تھے اسی حوالے سے حضرت شعیب نے ان کو ڈرایا اور فر ما یا :( وَ یٰا قَوْمُ اَوْفُوْ الْمِکْیٰالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوْا النَّاسَ أَشْیَائَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرلَّکُمْ اِنْ کَنْتُمْ مُؤْمِنِیْن ) (۱) آیہ شریفہ میں بقیت اللہ سے مراد وہی مال حلال ہے جو کسب حلال کے ذریعہ اس کے لئے با قی رہ جاتا ہے ۔

بقیة اللہ کے سب سے بڑے مصداق اور اصل مراد آئمہ معصومین علیہم السلام خصوصا امام زمان

____________________

۱: سورہ ہود آیة ۸۵، ۸۶

۸۵

علیہ السلام ہیں ،روایت میں آیا ہےَاوَّلُ مٰا یَنْطِقُ بِه الْقَائِمُ حِیْنَ ا لْفَرَجِ بَقِیَّةُ اللّٰهِ خَیْرلَّکُمْ ۔

سب سے پہلے جو کلمہ ظہور پر نور کے موقع ادا فرما یئں گے یہی آیت ہے بعد میں آپ فرمائیں گے۔اَنا بَقِیَّةُ اللّٰهِ وَ حُجَّتُه وَ خَلِیْفَتُه عَلَیْکُمْ (۱)

میں ہی بقیة اللہ ، حجت اللہ اور خلیفة اللہ ہوں۔ دوسرے مؤمنین بھی آپ کو سلام اس طرح کرینگے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یٰا بَقِیَّةُ اللّٰہِ فی اَرْضِہ ، اہل ذکر ہو نا اہلبیت کی خصوصیات میں سے ایک ہے ۔

اہل یعنی جو بھی اُس سے مربوط اور کنٹیکٹ ہو یا جو بھی اس سے وابستہ اور سر وکار میں ہو تو اس وقت کہتے ہے کہ میں اس سے فلان چیز سے متعلق سرو کار ررکھتا ہوں یامیںفلان وجہ سے وابستہ ہوں آئمہ طاہرین علیہم السلام اہل ذکر اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وابستہ اور آپ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔

ذکر قرآن مجید میں چند معنوں میں استعمال ہوا ہے: ۔

سب سے پہلے خود قرآن ذکر کے معنی میں آیا ہے ۔

( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه لَحٰافِظُوْنَ ) (۲) ہم نے خود اس ذکر( قرآن) کو نا زل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے پس قرآن ذکر ہے یعنی یاد آور ی کرانے والا ۔ اور غافلوں کو ہوش اور تو جہ میں لانے والا (یعنی جن کے دل مردہ ہو چکے ہیں ان کوزندہ کرنا) خاندا ن بھی اہل قرآن اور اہل ذکر اور کتاب مکنون ہیں( اِنَّه لَقُرْآن کَرِیْم فِی کِتَابٍ مَّکْنُوْن لَا یَمَسُّه الَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ) (۳)

تنہا پاک لوگ ہی قرآن کو چھونے کا حق رکھتے ہیں۔ جو پاک نہ ہو وہ ہر گز قرآن سے مس نہیں ہوسکتا ۔پس حقیقت میں وہ مطہر کون ہے؟( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِوَیُطَهِّرَّکُمْ تَطْهِیْراً ) (۴) وہی لوگ اہلبیت نبوت ہیں۔ جو خدا کی چا ہت اور ارادہ کے مطا بق طہارت مطلقہ سے بر خوردار ہیں اسی لیے ہم کہتے ہیں( فَا سْئَلُوا اَهلَ الذِّکرِْ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْن ) (۵) اہل ذکر اور

____________________

۱ : تفسیر نورالثقلین ج۲ ص۳۹۲ ۲:حجر آیة ۹ ۳: واقعہ آیة ۷۷،۷۹ ۴:نحل آیة ۴۳

۸۶

قرآن سے وابستہ افراد کی طرف بڑ ھو اور جو کچھ نہیں جانتے انہیں سے پوچھو۔ بیگانوں اور غیر وں کے پیچھے مت دوڑو جن کو کچھ بھی نہیں آتااَللّٰهُمَّ الْعَنْ اَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ ۔خداوند ا !ان لوگوں کے اوپر لعن کر جنہوں نے قرآن اور اہلبیت کے اوپر سب سے پہلے ظلم روا رکھا اور اسلام اور مسلمین کو مصائب وآلام سے دوچار کیا اور اسلام کی جمعیت کو پرا کندہ کیا۔ آج جب ہم مکہ ّ جا تے ہیں تو اتنے بڑے لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کررشک آتا ہے جوظاہرا ً وہا ں جمع ہیں مگر باطن میں یہ سب ٹکروں میں بٹے ہوئے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اہل ذکر اور اہل قرآن اور اہل بیت کے پیچھے جا نے کے بجا ئے بیگانوں کے پیچھے ہولئے اور غیروں کے پاس جا نے کی وجہ سے آج مسلمان تہتر ۷۳فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ورنہ اہل بیت کے دامن سے وابستہ ہو تے تو اتنے فر قے نہ بنتے اور مسلمان تر قی اور بلندیوں تک پہنچ جاتے ۔چونکہ وہ تنہا اہل ذکر ہیں اور اہلبیت ہی حا فظ قرآن و شریعت ہیں (اَہْلُ الْبَیْتِ اَدْرٰی مٰا فی الْبَیْتِ)صاحب خانہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ گھر میں ہو تا ہے ۔اگر کوئی چو ر کسی گھر میں داخل ہو جائے تووہ کیا جانے گھر میں کیا ہے کیانہیں ؟قرآن تو انہی کے گھر میں نازل ہو ا ہے۔ قرآن کے صحیح مخاطب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ قرآن کی بلندی اور عظمت اور اس کے معنی و مفاہیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انکے اہلبیت ہی جانتے ہیں دوسرے لوگوں کو چاہئے جو کچھ پوچھنا ہے ان حضرات مقدس سے پو چھیں چو نکہ قرآن کے اصل وارث اور معلم قرآن یہی ہستیاں ہیںاور حقیقت قرآن سے یہی حضرات آگاہ ہیں ۔

ذکر کے دوسرے معنی ذات اقدس رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔

قران مجید میں ذکر کے دوسرے معنی خود ذات گرامی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں چنانچہ ہم پڑ ھتے ہیں

( فَا تَّقُوا اللّٰهَ یٰااُولی الاَلْبَابِ الذین آمنوا قد انزل الله الیکم ذکرا رسولا یتلوا علیکم آیات الله مبینات ) (۱) اس آیہ مبارکہ میں بعض تفاسیرکے مطابق رسولاً عطف بیان ہے

____________________

۱: طلاق آیة ۹، ۱۰

۸۷

خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذکر ہیں۔ جب رسول ذکر ہوا تو رسول کے خاندان اور اہلبیت بھی ذکر میں شامل ہو گئے بنا بر این کلمہ ذکر قرآن مجید میں قرآن کے لیے بھی آیا ہے اور رسول کے لیے بھی آیا ہے۔

اولوالامر کا مقام قرآن کی نگاہ میں:

اولوالامر صاحبان حکم ،صاحبان فرمان، ہم یہاں چند آیتوں کو نقل کریں گے تا کہ اولو الامر کے معنیٰ اورمفہوم و اضح ہو سکیں ۔

ایک آیت میں اسطرح آیا ہے کہہ دیجئے !حقیقت میں ہر حکم اورفرمان صرف خدا کے لیے ہے پوری کائنات میں حکم بس خدا کا ہے لیکن یہ امر اور حکم خدا کیا چیز ہے ؟( اِنَّمَا اَمْرُه اِذَا اَرَادَ شَیْئًااَنْ یَّقُوْلَ لَه کُنْ فَیَکُوْن ) (۱) خدا کا حکم یہ ہے جو کام انجام دینا چاہے تو وہ کہتا ہے ہو جا تو ہو جا تا ہے کائنات کی تمام مو جود ات اس کے کنٹرول میں ہیں ۔

آسمان اور زمین اس کے حکم کے مطابق قا ئم ہیں( الشَمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرَاتٍ بِّاَمْرِه ) (۲) سورج چاند ستارے خدا کے حکم سے مسخر ہوئے ہیں ۔اس وقت فر ماتا ہے ۔( وَ جَعَلْنَا هُمْ اَئِمَّةًیَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ) (۳) ان رہنما ؤں کو جن کو ہم نے امام قرار دیا ہے ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں .و ہی حکم جو ان اَلْاَمْرُ کُلُّہ لِلّٰہِ بیشک تمام اختیار ات اور امر خدا سے متعلق ہے کہ( اِذَا اَرَدْنَاهُ اَنْ نَقُولَلَه کُنْ فَیَکُوْن ) (۴) جی ہاں! ہم نے ان حکموں کو ان اماموں کے ہاتھوں میں دیا ہے کہ یَہْدُوْنَ بِأَمْرِنَا لہذا یہ آئمہ اولو الامر ہیں پس جو اولو الامر ہو گا ان کی اطاعت واجب ہے جسطرح خدا اور رسول کی اطاعت واجب ہے اس طرح ان اماموں کی اطاعت او رفر مان برداری واجب ہے ۔( یٰا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آٰمَنُوْااَطِیْعُوْاللّٰه واَطِیْعُوا الْرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ) (۵) اے صاحبان ایمان اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور اولو الامر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں ۔

____________________

۱: یٰسن آیة ۸۲

۲: اعراف آیة ۵۴

۳: انبیاء آیة ۷۳

۴: نحل آیة ۴۰

۵: نساء آیة ۵۹

۸۸

علماء کرام نے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے امام ہو نے کے لیے عصمت کو شرط قرار دیا ہے یہاں اولو الامر کی اطاعت کو مطلقا واجب قرار دیا گیا ہے اور یہی وجوب اطاعت مطلق اس بات کاگواہ ہے کہ امام کیلئے عصمت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اگر جائز الخطا ہونگے تو ایک قسم کا تنا قض لازم آئے گا۔ کیونکہ گنہگار کی اطاعت کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے ۔لہذا جسطرح خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پاک ہیں۔ اسی طرح اولو الامر اور امام بھی پاک ہیں اور یہ امام اور اولو الامر من جانب اللہ ہیں نہ کہ لو گوں کے انتخاب سے ۔

دنیا کی محبت ایک بڑ ی بیمار ی ہے جو انسان کے لیے ہلاکت اور نابودی کا باعث بنتی ہے!

ہجرت کے دسویں سال :

وہ حج جسے متعدد نام سے جاناجاتاہے حجة الوداع ،حجة الاسلام ، حجة البلاغ ،حجة الکمال ، حجة التمام۔ غدیر خم میں جو مقام جحفہ سے پہلے جہاں سے مختلف ملکوں کے لوگ جدا ہو جاتے ہیں عراق ، مدینہ ، مصر، و غیرہ یہ جگہ تاریخ بشریت میں ایک عجیب جگہ ہے جس کو ہم انسانیت کی سعادت اور سر بلند ی کا نام دے سکتے ہیں جس میں قیام قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت کی ضمانت اور گارنٹی موجود ہے اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کو ضلالت اور گمراہی سے نجات کا سیسٹم موجود ہے۔ روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور ہے۔ اس حوالے سے حادثہ غدیر خم تا ریخ انسانیت کا ایک قصہ نہیں جس کا زمانہ گذر گیاہو اور نہ ہی یہ حادثہ اور واقعہ صرف ایک شخصی مسئلہ ہے جس میں پیغمر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو

۸۹

اپنا جانشین اور وصی بنایا ہو ! جیسے شیعوں کا کہنا ہے۔ اسطرح اسلامی معاشرے کے معروف و مشہور ترین شخص حضرت علی علیہ السلام (جسیے اہل سنت کا کہنا ہے ) انٹرو ڈیوس (تعارف )کر وایا ہو جسکا فائدہ اور استعمال کا وقت اور تاریخ گذر چکا ہو۔ نہیں! بلکہ غدیر خم کا معاملہ پوری تا ریخ بشریت سے مربوط ہے اور ان اما موں کی امامت پوری تا ریخ بشریت کے لیے بیان ہوئی ہے یہ وہ حقیقت ہے جس کا آغاز ولایت اور امامت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب سے ہوا ہے اور اس ولایت اور امامت کاتسلسل حضرت امام مہدی آخرزمان علیہ السلام تک جا پہنچا ہے اور یہ بات ولایت اور امامت کے مخالفین نے اچھی طرح سے سمجھ لی ہے اس لیے آغاز ہی سے ان لو گوں نے اس چیز کو دبا نے اور محدود کرنے کی کو شش کی جس میں یہ لوگ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے کہ کسی نہ کسی طریقے سے واقعۂ غدیر کی تاویل ہو۔ البتہ اگر وہ ولایت اور امامت حقہ حضرت علی علیہ السلام تک محدود اور منحصر ہوتی تو ممکن تھا ان مخالفین کے لیے قبول کرنے میں کو ئی اعتراض اور پریشانی نہ ہو لیکن مسئلہ اور پریشانی کی اصل وجہ ولایت اور امامت کا تسلسل اور تداوم تھا جس میں ان کے لیے سخت پریشانی اور اضطراب مو جود تھا جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے( اَلْیَوْم یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ) یہ لوگ جو آج ولایت اور امامت علی علیہ السلام کے بعد مایوس ہو گئے ہیں۔ در واقع وہ تمام دشمنان اسلام جو حالات سے مجبور ہو کر اسلام لائے تھے اور کسی مصلحت کے تحت مسلمانوں کی صف میں کھڑے ہوئے تھے اورکسی مناسب مو قع کے انتظار میں تھے کہ اسلام پر کاری ضرب لگائیں اس کے لیے مناسب موقع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تھی۔ اس حوالے سے دشمنان اسلام اور منافقین نے ملکر کئی دفعہ دہشت گر دی کے ذریعے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ان کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ یہ بات پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی صحیح طرح سے جانتے تھے۔ اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا: امامت کا تسلسل جاری ہے ۔ثُمَّ مِنْ بَعْدِی عَلِی وَلِیُّکُمْ وَاِماَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰهِ رَبِّکُمْ ثُمَّ الْاِمَامَةُ فی ذُرِّیَّتِه مِنْ اَوْلاَدِه اِلٰی یَوْمٍ تُلْقُوْنَ اللّٰهُ عَزَّ اسْمُه وَرَسُوْلَه ۔(۱) ۔

خداوندعالم کے فرمان کے مطابق میرے بعد علی تمہارے ولی اور امام ہیں اس کے بعد امامت کا سلسلہ میری نسل اور علی کے فرزندوں سے شروع ہو کر قیامت میں خدا اور رسول سے ملاقات

____________________

۱:بحار الانوارجلد۳۷ ص ۲۰۷۔۲۰۸

۹۰

ہونے تک جاری رہے گا۔ اس وقت جو آپکے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ قرآن مجید کی آیات ہیں جن سے غدیر خم میں خطبہ غدیر کے حوالے سے امامت حضرت علی اور دوسرے آئمہ کے با رے میں استدلال کیا گیا ہے۔ انشا ء اللہ ثمرہ واضح ہو جائے گا:۔

(۱) وہ نکتہ جو حدیث غدیر اور واقعہ غدیر کے بارے میں ہے۔

ہم خطبہ اور حدیث غدیر اور قبل اور بعد واقعۂ غدیر کے بارے میں ایک نگاہ ڈالیں گے جس سے با ت واضح اور روشن ہو جائے گی کہ امامت حضرت علی اور اس کے تسلسل کے بارے میں کیا بات تھی ۔

(۲) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ۹۰ ہزار سے ایک سو بیس ۱۲۰ ہزارافرد تک کو مقام جحفہ میں سخت ترین گرمی کی حالت میں روکنا اہمیت کا حامل ہے ۔

اپنے خطبہ کو ان الفاظ کے ساتھ آغاز کرتے ہیںکہ: میں عنقریب اس دنیا سے رحلت کرنے والا ہوں اورجلدی خداوند کریم کی آواز کو لبیک کہنے والا ہوں یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ آپ اپنے بعد کے جانشین کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں ۔

(۳) رسول گرامی اسلام نے لوگوںسے اس بات کی گواہی طلب کی کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے اعتقادات، احکامات اور اعمال تھے تم لوگوں تک پہنچائے یا نہیں ؟ تو لوگو ں نے اعتراف کیا ۔بعد میں خدا کو گواہ اور شاہد بنایا اس بات کا جو ان لوگوں نے اقرار کیا تھا ۔

(۴) حدیث ثقلین کودوبارہ لوگوں کی یاد آوری و یاد دہانی کے لئے دہرایا: اگر تم لوگ گمراہ ہو نا نہیں چاہتے تو قرآن اور اہلبیت سے جدا نہ ہو جائیں یہ ایک مقدمہ ہے جوکہ بعد کے لیے ہے۔

۹۱

(۵) اس کے بعدحضرت علی کے ہا تھوں کو اوپر اٹھایااورلوگوں سے اقرار لیا کہ خدا اور رسول ان کے اوپر ولایت رکھتے ہیں اس کے بعد فرمایا :مَنْ کُنْتُ مَوْلَا هُ فَهٰذَا عَلِیّ مَوْلَاهُ ۔

جس کا میں مو لا ہوں اس کا علی مو لا ہے ۔ یعنی جو ولایت پیغمبر اکرم کے لیے ثابت ہے وہی علی کے لیے بھی ثا بت ہے ۔

(۶) جملۂمن کنت مولاه کو احمد بن حنبل کے قول کے مطابق چا ر بار تکرار فرمایا تا کہ لوگ فراموش نہ کریں ۔

(۷) اُن لوگوں کے حق میں نفرین کی جنہوں نے ولایت علی کو قبول نہ کیا ۔

(۸) قرآن کی مختلف آیات کو خصوصاً آیہ تبلیغ، آیہ اکمال و غیرہ کو استدلال اور گواہ کے طور پر پیش کیا جن کے بارے میں بعد میں بحث کریں گے ۔

(۹) لوگوں کو ولایت علی پر مبارک باد دینا اور وہاں موجود تمام مر د وزن سے بیعت لینا حضرت علی کی امامت اور اس کے تسلسل اور تداوم کے بارے میں گواہی دیتا ہے۔ حضرت علی کی امامت اور اس کے تسلسل اور تداوم کے بارے میں توجہ کے ساتھ یہ بات عرض کر تا چلوں کہ خطبہ غدیر اور واقعہ غدیر کے بعد اور اس سے قبل نازل ہونے والی آیات کواستدلا ل کے طور پر ذکر اور مورد بحث قرار دیں گے۔

(۱۰)آیہ تبلیغ یا اعلان امامت :حمد اورثنا ی پر ور دگار کے بعد فرما یا :( فَاَوْحٰی اِلی …یٰا اَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغ ) داوند کریم نے جوکچھ آپ کے اوپر نازل کیا ہے لوگوں تک پہنچا دیجئے اگرایسا نہ کیا تو آپ نے کار رسالت ہی انجام نہ دیا ۔ خداوندآپ کو لوگوںکے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اسی دوران آپ نے بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا :جبرئیل ابھی تین مرتبہ نازل ہواکہ خداوند عالم کا حکم ہے اس بڑ ے مجمع میں اعلان کروں :اِنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طَالِبٍ اَخی وَ وَ صِیّ وَخَلِیْفَتی وَ الْاِمَامُ بَعْدی حقیقت میں یہ علی ابن ابی طالب میرے بھا ئی ،میرے وصی اور میرے جانشین ہیں۔

۹۲

سب سے پہلا مسلمان

مسلم اول شہ مر دان علی

عشق را سرمایہ ایمان علی

سب سے بڑاا متیاز اوراہم ترین بات جس کے متعلق خود حضرت ا میر ا لمومنین علی علیہ السلام بار بار ذکر فرماتے ہیں مؤمن اول اور پہلا مسلمان ہونا ہے چنانچہ ستر قسم کے فضا ئل جو تنہا اور صرف اور صرف علی سے تعلق رکھتے ہیں کے ضمن میں فرما تے ہیں:اِنِّی اَوَّلُ النَّاسِ اِیْمَانًا وَّ اِسْلَامًا (۱)

ادھر رسول اکرم صل اللہ تعا لٰی علیہ و آلہ وسلم ایک دن مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں صحابہ کرام کی موجودگی میں علی سے فرماتے ہیں: یا علی کل آپ بقیع کے پہاڑ پر جا کر جب سورج طلو ع کرے تو سورج سے بات کر نا! دوسرے دن صبح کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر مہا جر اورانصار کی ایک جماعت بھی ہمراہ تھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام بقیع کے پہاڑ پر تشریف لے گئے جب سورج نے طلوع کیا تو آپ نے سلام کیاالسلام علیک یا خلق الله الجدید جب آپ نے سلام کیا تو آسمان اور زمین کے در میان ایک آواز گونج اٹھی۔ اس آواز میں حضرت امیر المومینن علیہ السلام کے سلام کا جواب مو جود تھا و علیک السلام یا اول و یا آخر و یا ظاہر یا با طن یا من ھو بکل شئی علیم ،حدیث کے مطابق یہاں اول سے مراد سب سے پہلے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والا اور تصدیق کرنے والا ہے اسی طرح دوسری صفات کی بھی تا ویل موجود ہے(۲)

ایک مقام پر آپ فرما تے ہیںمَا شَکَکْتُ فی الْحَقِّ مَذَارِیته (۳) .جب سے میرے اوپر حق ظاہر و آشکار ہواہے کبھی بھی حق کے بارے میں شک اور گمان کو راستہ نہیں دیاہے۔

____________________

۱:خاطرات امیر مؤمنان ص ۲۶۳

۲:کتاب الفضائل صفحہ ۴۷۵

۳: شرح نہج البلاغہ خطبہ ۲

۹۳

اسی خصوصی امتیاز پرآپ نے اپنے مخالفین اور دشمنوں پر حجتّ قائم کی ہے چنانچہ ایک مقام پرآپ فرما تے ہیں :جو لوگ منافق ہوتے ہیں جو لوگ دوغلی پالیسی رکھتے ہیںاور جو ظاہر میں کچھ با طن میں کچھ، سامنے کچھ اور غائب میں کچھ اور ہوتے ہیں ظا ہراً حضرت کے لشکر میں ہو تے تھے لیکن حقیقت میں یہ لوگ مو لا علی کے دشمن ہوتے تھے ان کی مذمت سخت لہجے میں فرماتے ہیں :وَلَقَدْ بَلَغَنی اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلِیّ یَکْذِبُ قَاتَلَکُمُ اللّٰهُ فَعَلٰی مَنْ اَکْذِبُ ؟أَعلٰی اللّٰه ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ آٰمَنَ لَه، اَمْ عَلٰی رَسُوْلِه ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه ''مجھے رپورٹ دی گئی کہ کہتے ہیں علی جھوٹ بولتے ہیں خدا تم لوگوں کو ھلاک کرے۔ کس کے بارے میں میں نے جھوٹ بولاہے؟ کیا خدا کے بارے میں جھوٹ بولاہے؟ خدا کی قسم میں تو وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان اور اسلام لانے والا ہوںاور سب سے پہلے پیغمبر اکر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں :اَتَرَانی اُکَذِّبُ عَلٰی رَسُوْلِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰهِ؟وَاللّٰهِ لَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَقَه فَلاَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ کَذِبَ عَلَیْهِ ؟

''کیا یہ سمجھانے کی کو شش کر رہے ہو کہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ کی نسبت دے رہا ہوں؟ خدا کی قسم میںاس کی رسالت کی تصدیق کر نے والاہوں اس بنا پر میں ان لوگو ںمیں سے نہیں ہونگا جنہوں نے ان کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے۔ اسی لیے حضرت افتخار اور امتیاز کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ،میں کبھی بھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی صورت میں بھی گمراہی کی طرف جاؤں گا ان کی فضیلت میں سے ایک امتیاز اور افتخار کی بات یہ ہے کہ آپ بچپن سے ہی مؤمن تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی فضیلت، آپ کی خصوصیت اور آپ کی شان اور عظمت مسلمانوں میں منفر دہے جیسا کہ آپ خود فر ماتے ہیں''اِنِّیْ لَمْ اُشْرِکْ بِااللّٰهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ وَلَمْ اَعْبُدْ اللّٰاتَ وَالْعُزّٰی (۱) ''میں نے کبھی بھی

____________________

۱: منہاج البراعة خطبہ ۱۸۸

۹۴

حتی کہ چشم زدن میں خداوند عزوجل کا شریک قرار نہیں دیا اور کبھی بھی لات و منات و عزا اور زمانہ جاہلیت کے بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔

اس بات کی طرف غور کریں کہ اصحاب اور انصارپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وہ صفات اور وہ شوق اقتدار نہیں پائے جاتے تھے جو ان کے اسلام لانے سے قبل اورحالت کفر میں پائے جاتے تھے ۔ لہذا آپ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں ان منافقوں کو جواب دیا ہے جب سوال کر نے والے نے یہ سوال کیا کہ آپ کب مسلمان ہوئے ہیں ؟ تو جواب دیاعلی کب کافرتھا کہ مسلمان ہوجائے !!؟

اس نے حقیقت میں فطرت اسلام پر ہی پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا ہے

ہاں! یہ فقط علی ہی تھے جو کبھی بھی کسی بت کے سا منے سجدہ ریز نہ ہوئے۔ آپ دنیا میں آتے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر تر بیت رہے اسی لیے علی علیہ السلام کے مربّی اور استاد خود ذات مقدس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔

لہذا جیسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ویسے علی اور خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا انا و علی من نور واحد ''میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہیں تو علی امامت اور وصا یت کے عہدہ پر فائز ہیں۔ خداوند عالم نے مسلمانوں کو عقل دی ہے کہ وہ منا فقوں کے پروپیگنڈہ میں آکر کہیں رسول اور امام کی تو ہین نہ کریں و رنہ خسارتِ دنیاوآخرت کے دھبّے ان کے پیشا نی پرلگ جا ئیں گے ۔

خود امیرالمؤمینن علی علیہ السلام نے معاویہ اور ان کے مزدو روں کے حوالے سے جب آپ کے اوپر سبّ کر نے کے غمناک و اقعہ کی پیشن گوئی کی تھی اسی ضمن میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا تھا: معاویہ ابن ابی سفیان لوگوں سے کہے گا ''کہ علی کو برابھلا کہیں اور علی سے بیزاری کا اظہار کریں'' اوریہ بات بھی حضرت علی علیہ السلام نے فرما یا تھا:'' کہ مجھ سے بیزاری کا اظہار کر نے کا کیا معنی جبکہ میں فطرت اسلام پر اور سب سے پہلا مسلمان ہوں!! اسلام میں ہجرت اورایمان کے حوالے سے کسی نے مجھ پر سبقت نہیںلی ہے''۔

۹۵

ایک مقام پرآپ فر ما تے ہیں: خداوند ا! میں اس امت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جس نے تیری عبادت کی ہو۔

جو کچھ اس مختصر سی تحریر میں نقل کیا ہے وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلام ہی سے نقل کیا ہے اور آخرمیں بھی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دو روایتوں پر اختتام کر تا ہوں۔ اس روایت کو اہلسنّت کے مشہور مفسر زمخشر ی نے اپنی تفسیر میں ایک روایت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ والسلام سے نقل کی ہے آپ نے فر ما یا :امتوں کے در میان فقط تین اشخاص ہوا کر تے تھے جو سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے میں سا بق ہوئے ہیں اور کبھی یہاں تک کہ چشم زدن میں بھی خدا کا شریک نہیں قرار دیا اور ان تین اشخاص کے نام یہ ہیں :۔

۱۔علی ابن ابی طالب

۲۔صاحب یس

۳۔مؤمن آل فرعون

اسی مطلب کواہل سنت کے دوسرے دانشور اور مفسر علامہ سیوطی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کے حوالے سے اس حدیث کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے البتہ اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے دونوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اسی حدیث کو شیعہ منابع سے بھی نقل کیا گیاہے ۔

۹۶

دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کے صحابی بنام عاصم بن ظریف نقل کر تے ہیں:۔ میں اور مسلمانوں میں سے چند افراد حج کو انجام دینے کے بعد واپسی پر ربزہ کے مقام پر رک گئے اور جناب ابوذر غفاری سے ملاقات کی اور ان سے مفصل گفتگو کی جب ہم خدا حا فظی کررہے تھے تودرمیان میں مسلمانو ں کے درمیان اختلافات کے بارے میں بات ہوئی اس وقت فتنہ و فسادنے چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا تھا اور حق و باطل خلط ملط ہو چکا تھا۔ اس پر آشوپ دور کے با رے میں میں نے جناب ابوذرسے پو چھاکہ ایسی حا لت میں کیا کیا جا ئے تا کہ ایمان ہاتھ سے جانے نہ پا ئے؟ جناب ابوذر نے فرما یا: ۔ان حالات سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے وہ کتاب خدا اور عترت یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مضبوطی کے ساتھ متمسک رہیں۔ خدا کی قسم میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کوپکڑ کر فرما یا یہی علی ہیںجس نے سب سے پہلے میرے اوپر ایمان لائے اور میری نبوت کی تصدیق کی۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شخص یہی ہوگا جو مجھ سے ملحق ہونگے اور مجھ سے مصا فحہ کریںگے۔ وہ مؤمنین کے رہبر اور مددگار ہوںگے جب کہ مال و دولت ظالموں کے مدد گار ہونگے۔ وہ صدیق اکبر یعنی سب سے پہلے تصدیق کر نے والے ہیں اور فاروق اعظم یعنی حق کو باطل سے جدا کرنے والے ہیں۔

۹۷

کلام اقبال

مسلم اول شہہ مردان علی

عشق را سرمایۂ ایمان علی

از ولای دودمانش زندہ ام

درجہان مثل گہر تابندہ ام

مرسل حق کرد نامش بوتراب

حق یداللہ خواند درام الکتاب

ہرکہ دانای رموز زندگیست

سر اسمای علی داند کہ چیست

ذات او دروازۂ شہر علوم

زیر فرمانش حجاز وچین وروم

۹۸

علی ای ھمایٔ رحمت

بارگاہ علوی میں نذرانۂ شہریار

ایران اور اس کا شعروادب عشق علی اور مدح وثنائے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے دنیا کی معاصر تاریخ وثقافت میں امتیازی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔

ایران کا نام جب بھی کوئی سنتا ہے یا کلمۂ ایران پر اسکی نظر پڑتی ہے تو لامحالہ طور پر ایران کی تاریخ اور اس کا کلچر وثقافت انسانی ذہن میں مجسم ہوجاتی ہے۔ جہاں پر انسانی ذہن کی توجہ ایران کی ہسٹری پر مبذول ہوئی ہے مثلاً انسانی ذہن قیصر وکسریٰ کی شان دل میں بٹھا لیتاہے ۔ اسلامی لشکر نے اسی ایران کو فتح کیا بعد میں اسلام کا جھنڈا ایران میں لہرایا ۔ جہاں پر پہلے ایرانیوں کے اعتقاد زردشتی تھے وہیں پر شمع رسالت کے پروانے حضرت سلمان فارسی کی تبلیغات رنگ لائیں اور الحمدللہ یہ ملک تشیع کی پہچان بن گیا اور لوگ آج بھی اپنی مذہبی، اسلامی اور ثقافتی رسومات کے پابند ہیں۔ جہاں ایران میں دوسرے کاموں کی طرف خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے وہاں پر ادبیات اور شعر وشاعری بھی خاص مقبول رہی ہے اور ادبیات فارسی میں یگانہ روزگار افراد نے اس مملکت میں آنکھ کھولی اور ادبیات کو عروج تک لے گئے۔ کیونکہ فارسی زبان ایک وسیع وعریض زبان ہے ویسے تو تمام شعراء کرام کو زبان سے گلہ رہاہے کیونکہ شعراء کی اڑان الفاظ میں مقید نہیں ہوسکی اور شعراء کو اپنے معنیٰ ومفاہیم کے لئے اکثر اوقات الفاظ میسّر نہیں آتے اس لئے وہ دوسری زبانوں کا سہارا لیتے ہیں انہی شعراء میں سے ایک شاعر اہلبیت جوکہ مودّت و محبت اہل بیت سے مالامال تھے انہوں نے مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان اقدس میں چند اشعار کہے جو پورے ایران تو کیا عالم اسلام میں ادباء ان اشعار کو سرلوحہ زندگی قرار دیتے ہیں اور انہی اشعار کی بدولت اس عظیم شاعر کو ادبیات کی معراج نصیب ہوئی اور ان کے یہ اشعار پورے ایران اسلامی میں ہر عالم ، ذاکر اور خطیب کی زبان پر ہیں۔

۹۹

اس شاعر بزرگوار کا اصل نام سید محمد حسین لیکن شعراء اور ادب کی دنیا میں استاد شہریار کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ان کا ایک پورا دیوان ہے اس دیوان میں وہ اشعار جوکہ مدح علی علیہ السلام میں لکھے گئے تھے۔ ان میں سے ایک غزل یہاں ذکر کرتے ہیں۔ واقعاً ان اشعار میں ولایت کی شیرین رس گھول رہی ہے اور جزابیت بہت زیادہ ہے ۔

''علی ای ھمایٔ رحمت توچہ آیتی خدارا''

انہی اشعار کے متعلق دلچسپ واقعہ مشہور ہے ۔ وہ کچھ اسطرح سے ہے کہ ایک دن لمبے قد والا ایک شخص حضرت آیت اللہ مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور بعد از سلام و دعا حضرت آیة اللہ مرعشی اپنے مطالعے میں مشغول ہوجاتے ہیں چند لمحات گزرجانے کے بعد اس شخص کی جانب نگاہ کرتے ہیں چند سکینڈ اسکی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور تعجّب خیز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد حضرت آیة اللہ مرعشی اپنے مقام سے اٹھتے ہیں اور بھر پور تبسّم کے ساتھ کھڑے ہوکر مہمان عزیز کو گلے لگاتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں اور فرماتے ہیں: پیارے شہریار ! خوش آمدیدخوش آمدید! تہہ دل سے میرا خلوص قبول ہو اور مبارک ہو ۔ آقا شہریار حیرت اور تعجب کی کیفیت میں دست بوسی کاارادہ کرتے ہیں لیکن آیة اللہ اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ لیتے ہیں اور بعد میں مہمان کو زبردستی اپنے گلے لگالیتے ہیں اور مہمان کی پیشانی کا بوسہ لینے شروع کردیتے ہیں پھر اپنی دائیں طرف بٹھا تے ہیں خود حضرت آیة اللہ مؤدبانہ دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے ہیں نو وارد مہمان حضرت آیة اللہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ حضرت عالی کی طرف سے پیغام ملتے ہی پہلی فرصت میں تبریز سے قم کی طرف روانہ ہوا ہوں ۔ لیکن راستے میں جو سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عالی مجھے کیسے جانتے ہیں؟ہم دونوں نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہے اور ہمارے باہمی تعلقات بھی نہیں ہیں۔

۱۰۰